11. جمعہ کا بیان

【1】

باب: جمعہ کی نماز فرض ہے۔

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں شعیب نے خبر دی، کہا کہ ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے ربیعہ بن حارث کے غلام عبدالرحمٰن بن ہرمز اعرج نے بیان کیا کہ انہوں نے ابوہریرہ (رض) سے سنا اور آپ (رض) نے نبی کریم ﷺ سے سنا، آپ نے فرمایا کہ ہم دنیا میں تمام امتوں کے بعد ہونے کے باوجود قیامت میں سب سے آگے رہیں گے فرق صرف یہ ہے کہ کتاب انہیں ہم سے پہلے دی گئی تھی۔ یہی (جمعہ) ان کا بھی دن تھا جو تم پر فرض ہوا ہے۔ لیکن ان کا اس کے بارے میں اختلاف ہوا اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ دن بتادیا اس لیے لوگ اس میں ہمارے تابع ہوں گے۔ یہود دوسرے دن ہوں گے اور نصاریٰ تیسرے دن۔

【2】

باب: جمعہ کے دن نہانے کی فضیلت اور اس بارے میں بچوں اور عورتوں پر جمعہ کی نماز کے لیے آنا فرض ہے یا نہیں؟

ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے نافع سے خبر دی اور ان کو عبداللہ بن عمر (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے جب کوئی شخص جمعہ کی نماز کے لیے آنا چا ہے تو اسے غسل کرلینا چاہیے۔

【3】

باب: جمعہ کے دن نہانے کی فضیلت اور اس بارے میں بچوں اور عورتوں پر جمعہ کی نماز کے لیے آنا فرض ہے یا نہیں؟

ہم سے عبداللہ بن محمد بن اسماء نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے جویریہ بن اسماء نے امام مالک سے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے سالم بن عبداللہ بن عمر (رض) نے ان سے ابن عمر (رض) نے کہ عمر بن خطاب (رض) جمعہ کے دن کھڑے خطبہ دے رہے تھے کہ اتنے میں نبی کریم ﷺ کے اگلے صحابہ مہاجرین میں سے ایک بزرگ تشریف لائے (یعنی عثمان (رض) عنہ) عمر (رض) نے ان سے کہا بھلا یہ کون سا وقت ہے انہوں نے فرمایا کہ میں مشغول ہوگیا تھا اور گھر واپس آتے ہی اذان سنی، اس لیے میں وضو سے زیادہ اور کچھ (غسل) نہ کرسکا۔ عمر (رض) نے فرمایا کہ وضو بھی اچھا ہے۔ حالانکہ آپ کو معلوم ہے کہ نبی کریم ﷺ غسل کے لیے فرماتے تھے۔

【4】

باب: جمعہ کے دن نہانے کی فضیلت اور اس بارے میں بچوں اور عورتوں پر جمعہ کی نماز کے لیے آنا فرض ہے یا نہیں؟

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا کہ ہمیں مالک نے صفوان بن سلیم کے واسطہ سے خبر دی، انہیں عطاء بن یسار نے، انہیں ابو سعید خدری (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جمعہ کے دن ہر بالغ کے لیے غسل ضروری ہے۔

【5】

باب: جمعہ کے دن نماز کے لیے خوشبو لگانا۔

ہم سے علی بن مدینی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں حرمی بن عمارہ نے خبر دی انہوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ بن حجاج نے ابوبکر بن منکدر سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے عمرو بن سلیم انصاری نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں گواہ ہوں کہ ابو سعید خدری (رض) نے فرمایا تھا کہ میں گواہ ہوں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جمعہ کے دن ہر جوان پر غسل، مسواک اور خوشبو لگانا اگر میسر ہو، ضروری ہے۔ عمرو بن سلیم نے کہا کہ غسل کے متعلق تو میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ واجب ہے لیکن مسواک اور خوشبو کا علم اللہ تعالیٰ کو زیادہ ہے کہ وہ بھی واجب ہیں یا نہیں۔ لیکن حدیث میں اسی طرح ہے۔ ابوعبداللہ (امام بخاری (رح)) نے فرمایا کہ ابوبکر بن منکدر محمد بن منکدر کے بھائی تھے اور ان کا نام معلوم نہیں (ابوبکر ان کی کنیت تھی) بکیر بن اشج۔ سعید بن ابی ہلال اور بہت سے لوگ ان سے روایت کرتے ہیں۔ اور محمد بن منکدر ان کے بھائی کی کنیت ابوبکر اور ابوعبداللہ بھی تھی۔

【6】

باب: جمعہ کی نماز کو جانے کی فضیلت۔

ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں امام مالک نے ابوبکر بن عبدالرحمٰن کے غلام سمی سے خبر دی، جنہیں ابوصالح سمان نے، انہیں ابوہریرہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص جمعہ کے دن غسل جنابت کر کے نماز پڑھنے جائے تو گویا اس نے ایک اونٹ کی قربانی دی (اگر اول وقت مسجد میں پہنچا) اور اگر بعد میں گیا تو گویا ایک گائے کی قربانی دی اور جو تیسرے نمبر پر گیا تو گویا اس نے ایک سینگ والے مینڈھے کی قربانی دی۔ اور جو کوئی چوتھے نمبر پر گیا تو اس نے گویا ایک مرغی کی قربانی دی اور جو کوئی پانچویں نمبر پر گیا اس نے گویا انڈا اللہ کی راہ میں دیا۔ لیکن جب امام خطبہ کے لیے باہر آجاتا ہے تو فرشتے خطبہ سننے میں مشغول ہوجاتے ہیں۔

【7】

ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شیبان بن عبدالرحمٰن نے یحییٰ بن ابی کثیر سے بیان کیا، ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ عمر بن خطاب (رض) جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے کہ ایک بزرگ (عثمان رضی اللہ عنہ) داخل ہوئے۔ عمر بن خطاب (رض) نے فرمایا کہ آپ لوگ نماز کے لیے آنے میں کیوں دیر کرتے ہیں۔ (اول وقت کیوں نہیں آتے) آنے والے بزرگ نے فرمایا کہ دیر صرف اتنی ہوئی کہ اذان سنتے ہی میں نے وضو کیا (اور پھر حاضر ہوا) آپ نے فرمایا کہ کیا آپ لوگوں نے نبی کریم ﷺ سے یہ حدیث نہیں سنی ہے کہ جب کوئی جمعہ کے لیے جائے تو غسل کرلینا چاہیے۔

【8】

باب: جمعہ کی نماز کے لیے بالوں میں تیل کا استعمال۔

ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابن ابی ذئب نے سعید مقبری سے بیان کیا، کہا کہ مجھے میرے باپ ابوسعید مقبری نے عبداللہ بن ودیعہ سے خبر دی، ان سے سلمان فارسی (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص جمعہ کے دن غسل کرے اور خوب اچھی طرح سے پاکی حاصل کرے اور تیل استعمال کرے یا گھر میں جو خوشبو میسر ہو استعمال کرے پھر نماز جمعہ کے لیے نکلے اور مسجد میں پہنچ کر دو آدمیوں کے درمیان نہ گھسے، پھر جتنی ہو سکے نفل نماز پڑھے اور جب امام خطبہ شروع کرے تو خاموش سنتا رہے تو اس کے اس جمعہ سے لے کر دوسرے جمعہ تک سارے گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔

【9】

باب: جمعہ کی نماز کے لیے بالوں میں تیل کا استعمال۔

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی کہ طاؤس بن کیسان نے بیان کیا کہ میں نے عبداللہ بن عباس (رض) سے پوچھا کہ لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جمعہ کے دن اگرچہ جنابت نہ ہو لیکن غسل کرو اور اپنے سر دھویا کرو اور خوشبو لگایا کرو۔ ابن عباس (رض) نے کہا کہ غسل کا حکم تو ٹھیک ہے لیکن خوشبو کے متعلق مجھے علم نہیں۔

【10】

باب: جمعہ کی نماز کے لیے بالوں میں تیل کا استعمال۔

ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں ہشام بن یوسف نے خبر دی، کہ انہیں ابن جریج نے خبر دی انہوں نے کہا کہ مجھے ابراہیم بن میسرہ نے طاؤس سے خبر دی اور انہیں عبداللہ بن عباس (رض) نے، آپ نے جمعہ کے دن غسل کے بارے میں نبی کریم ﷺ کی حدیث کا ذکر کیا تو میں نے کہا کہ کیا تیل اور خوشبو کا استعمال بھی ضروری ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ مجھے معلوم نہیں۔

【11】

باب: جمعہ کے دن عمدہ سے عمدہ کپڑے پہنے جو اس کو مل سکے۔

ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے نافع سے خبر دی، انہیں عبداللہ بن عمر (رض) نے کہ عمر بن خطاب (رض) نے (ریشم کا) دھاری دار جوڑا مسجد نبوی کے دروازے پر بکتا دیکھا تو کہنے لگے یا رسول اللہ ! بہتر ہو اگر آپ اسے خرید لیں اور جمعہ کے دن اور وفود جب آپ ﷺ کے پاس آئیں تو ان کی ملاقات کے لیے آپ اسے پہنا کریں۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اسے تو وہی پہن سکتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہ ہو۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ کے پاس اسی طرح کے کچھ جوڑے آئے تو اس میں سے ایک جوڑا آپ نے عمر بن خطاب (رض) کو عطا فرمایا۔ انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! آپ مجھے یہ جوڑا پہنا رہے ہیں حالانکہ اس سے پہلے عطارد کے جوڑے کے بارے میں آپ نے کچھ ایسا فرمایا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے اسے تمہیں خود پہننے کے لیے نہیں دیا ہے، چناچہ عمر (رض) نے اسے اپنے ایک مشرک بھائی کو پہنا دیا جو مکے میں رہتا تھا۔

【12】

باب: جمعہ کے دن مسواک کرنا۔

ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں امام مالک (رح) نے ابوالزناد سے خبر دی، ان سے اعرج نے، ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اگر مجھے اپنی امت یا لوگوں کی تکلیف کا خیال نہ ہوتا تو میں ہر نماز کے لیے ان کو مسواک کا حکم دے دیتا۔

【13】

باب: جمعہ کے دن مسواک کرنا۔

ہم سے ابومعمر عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعیب بن حبحاب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے انس (رض) نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں تم سے مسواک کے بارے میں بہت کچھ کہہ چکا ہوں۔

【14】

باب: جمعہ کے دن مسواک کرنا۔

ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہ ہمیں سفیان ثوری نے منصور بن معمر اور حصین بن عبدالرحمٰن سے خبر دی، انہیں ابو وائل نے، انہیں حذیفہ بن یمان (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ جب رات کو اٹھتے تو منہ کو مسواک سے خوب صاف کرتے۔

【15】

باب: جو شخص دوسرے کی مسواک استعمال کرے۔

ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سلیمان بن ہلال نے بیان کیا کہ ہشام بن عروہ نے کہا کہ مجھے میرے باپ عروہ بن زبیر نے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ (رض) سے خبر دی، انہوں نے کہا کہ عبدالرحمٰن بن ابی بکر (ایک مرتبہ) آئے۔ ان کے ہاتھ میں مسواک تھی جسے وہ استعمال کیا کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے بیماری کی حالت میں ان سے کہا عبدالرحمٰن یہ مسواک مجھے دیدے۔ انہوں نے دے دی۔ میں نے اس کے سرے کو پہلے توڑا یعنی اتنی لکڑی نکال دی جو عبدالرحمٰن اپنے منہ سے لگایا کرتے تھے، پھر اسے چبا کر رسول اللہ ﷺ کو دے دیا۔ نبی کریم ﷺ نے اس سے دانت صاف کئے اور آپ ﷺ اس وقت میرے سینے پر ٹیک لگائے ہوئے تھے۔

【16】

باب: جمعہ کے دن نماز فجر میں کون سی سورۃ پڑھی جائے۔

ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے سعد بن ابراہیم کے واسطے سے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن ہرمز نے، ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ جمعہ کے دن فجر کی نماز میں الم تنزيل‏ اور هل أتى على الإنسان‏ پڑھا کرتے تھے۔

【17】

باب: گاؤں اور شہر دونوں جگہ جمعہ درست ہے۔

ہم سے محمد بن مثنی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوعامر عقدی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابراہیم بن طہمان نے بیان کیا، ان سے ابوجمرہ نضر بن عبدالرحمٰن ضبعی نے، ان سے عبداللہ بن عباس (رض) نے، آپ نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ کی مسجد کے بعد سب سے پہلا جمعہ بنو عبدالقیس کی مسجد میں ہوا جو بحرین کے ملک جواثی میں تھی۔

【18】

باب: گاؤں اور شہر دونوں جگہ جمعہ درست ہے۔

ہم سے بشر بن محمد مروزی نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا کہ ہمیں یونس بن یزید نے زہری سے خبر دی، انہیں سالم بن عبداللہ نے ابن عمر سے خبر دی، انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ تم میں سے ہر شخص نگہبان ہے اور لیث نے اس میں یہ زیادتی کی کہ یونس نے بیان کیا کہ رزیق بن حکیم نے ابن شہاب کو لکھا، ان دنوں میں بھی وادی القریٰ میں ابن شہاب کے پاس ہی تھا کہ کیا میں جمعہ پڑھا سکتا ہوں۔ رزیق (ایلہ کے اطراف میں) ایک زمین کاشت کروا رہے تھے۔ وہاں حبشہ وغیرہ کے کچھ لوگ موجود تھے۔ اس زمانہ میں رزیق ایلہ میں (عمر بن عبدالعزیز کی طرف سے) حاکم تھے۔ ابن شہاب (رح) نے انہیں لکھوایا، میں وہیں سن رہا تھا کہ رزیق جمعہ پڑھائیں۔ ابن شہاب رزیق کو یہ خبر دے رہے تھے کہ سالم نے ان سے حدیث بیان کی کہ عبداللہ بن عمر (رض) نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا۔ آپ نے فرمایا کہ تم میں سے ہر ایک نگراں ہے اور اس کے ماتحتوں کے متعلق اس سے سوال ہوگا۔ امام نگراں ہے اور اس سے سوال اس کی رعایا کے بارے میں ہوگا۔ انسان اپنے گھر کا نگراں ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگراں ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ خادم اپنے آقا کے مال کا نگراں ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ ابن عمر (رض) نے فرمایا کہ میرا خیال ہے کہ آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ انسان اپنے باپ کے مال کا نگراں ہے اور اس کی رعیت کے بارے میں اس سے سوال ہوگا اور تم میں سے ہر شخص نگراں ہے اور سب سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔

【19】

باب: جو لوگ جمعہ کی نماز کے لیے نہ آئیں جیسے عورتیں بچے، مسافر اور معذور وغیرہ ان پر غسل واجب نہیں ہے۔

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھ سے سالم بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے (اپنے والد) عبداللہ بن عمر (رض) سے سنا وہ فرماتے تھے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا کہ تم میں سے جو شخص جمعہ پڑھنے آئے تو غسل کرے۔

【20】

باب: جو لوگ جمعہ کی نماز کے لیے نہ آئیں جیسے عورتیں بچے، مسافر اور معذور وغیرہ ان پر غسل واجب نہیں ہے۔

ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے صفوان بن سلیم نے، ان سے عطاء بن یسار نے، ان سے ابو سعید خدری (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ہر بالغ کے اوپر جمعہ کے دن غسل واجب ہے۔

【21】

باب: جو لوگ جمعہ کی نماز کے لیے نہ آئیں جیسے عورتیں بچے، مسافر اور معذور وغیرہ ان پر غسل واجب نہیں ہے۔

ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبداللہ بن طاؤس نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ طاؤس نے، ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہم (دنیا میں) تو بعد میں آئے لیکن قیامت کے دن سب سے آگے ہوں گے، فرق صرف یہ ہے کہ یہود و نصاریٰ کو کتاب ہم سے پہلے دی گئی اور ہمیں بعد میں۔ تو یہ دن (جمعہ) وہ ہے جس کے بارے میں اہل کتاب نے اختلاف کیا، اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ دن بتلا دیا (اس کے بعد) دوسرا دن (ہفتہ) یہود کا دن ہے اور تیسرا دن (اتوار) نصاریٰ کا۔ آپ پھر خاموش ہوگئے۔ اس کے بعد فرمایا کہ ہر مسلمان پر حق ہے (اللہ تعالیٰ کا) ہر سات دن میں ایک دن جمعہ میں غسل کرے جس میں اپنے سر اور بدن کو دھوئے۔ اس حدیث کی روایت ابان بن صالح نے مجاہد سے کی ہے، ان سے طاؤس نے، ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ہر مسلمان پر حق ہے کہ ہر سات دن میں ایک دن (جمعہ) غسل کرے۔

【22】

باب: جو لوگ جمعہ کی نماز کے لیے نہ آئیں جیسے عورتیں بچے، مسافر اور معذور وغیرہ ان پر غسل واجب نہیں ہے۔

اس کے بعد فرمایا کہ ہر مسلمان پر حق ہے (اللہ تعالیٰ کا) ہر سات دن میں ایک دن جمعہ میں غسل کرے جس میں اپنے سر اور بدن کو دھوئے۔

【23】

باب: جو لوگ جمعہ کی نماز کے لیے نہ آئیں جیسے عورتیں بچے، مسافر اور معذور وغیرہ ان پر غسل واجب نہیں ہے۔

اس حدیث کی روایت ابان بن صالح نے مجاہد سے کی ہے، ان سے طاؤس نے، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ہر مسلمان پر حق ہے کہ ہر سات دن میں ایک دن (جمعہ) غسل کرے۔

【24】

جو جمعہ میں شریک نہ ہوں، یعنی بچے اور عورتیں وغیرہ، تو کیا ان لوگوں پر بھی غسل واجب ہے؟ ابن عمر رض اللہ عنہ نے کہا کہ غسل انہیں پر واجب ہے جن پر جمعہ واجب ہے

ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شبابہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ورقاء بن عمرو نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے، ان سے مجاہد نے، ان سے ابن عمر (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا عورتوں کو رات کے وقت مسجدوں میں آنے کی اجازت دے دیا کرو۔

【25】

جو جمعہ میں شریک نہ ہوں، یعنی بچے اور عورتیں وغیرہ، تو کیا ان لوگوں پر بھی غسل واجب ہے؟ ابن عمر رض اللہ عنہ نے کہا کہ غسل انہیں پر واجب ہے جن پر جمعہ واجب ہے

ہم سے یوسف بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا کہا کہ ہم سے عبیداللہ ابن عمر نے بیان کیا، ان سے نافع نے، ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے، انہوں نے کہا کہ عمر (رض) کی ایک بیوی تھیں جو صبح اور عشاء کی نماز جماعت سے پڑھنے کے لیے مسجد میں آیا کرتی تھیں۔ ان سے کہا گیا کہ باوجود اس علم کے کہ عمر (رض) اس بات کو مکروہ جانتے ہیں اور وہ غیرت محسوس کرتے ہیں پھر آپ مسجد میں کیوں جاتی ہیں۔ اس پر انہوں نے جواب دیا کہ پھر وہ مجھے منع کیوں نہیں کردیتے۔ لوگوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کی اس حدیث کی وجہ سے کہ اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں میں آنے سے مت روکو۔

【26】

باب: اگر بارش ہو رہی ہو تو جمعہ میں حاضر ہونا واجب نہیں۔

ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم سے اسماعیل بن علیہ بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں صاحب الزیادی عبدالحمید نے خبر دی، کہا کہ ہم سے محمد بن سیرین کے چچازاد بھائی عبداللہ بن حارث نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عباس (رض) نے اپنے مؤذن سے ایک دفعہ بارش کے دن کہا کہ أشهد أن محمدا رسول الله‏ کے بعد حى على الصلاة‏ (نماز کی طرف آؤ) نہ کہنا بلکہ یہ کہنا کہ صلوا في بيوتكم‏ (اپنے گھروں میں نماز پڑھ لو) لوگوں نے اس بات پر تعجب کیا تو آپ نے فرمایا کہ اسی طرح مجھ سے بہتر انسان (رسول اللہ ﷺ ) نے کیا تھا۔ بیشک جمعہ فرض ہے اور میں مکروہ جانتا ہوں کہ تمہیں گھروں سے باہر نکال کر مٹی اور کیچڑ پھسلوان میں چلاؤں۔

【27】

باب: جمعہ کے لیے کتنی دور والوں کو آنا چاہیے اور کن لوگوں پر جمعہ واجب ہے؟

ہم سے احمد بن صالح نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے عمرو بن حارث نے خبر دی، ان سے عبیداللہ بن ابی جعفر نے کہ محمد بن جعفر بن زبیر نے ان سے بیان کیا، ان سے عروہ بن زبیر نے اور ان سے عائشہ (رض) نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ نے، آپ نے کہا کہ لوگ جمعہ کی نماز پڑھنے اپنے گھروں سے اور اطراف مدینہ گاؤں سے (مسجد نبوی میں) باری باری آیا کرتے تھے۔ لوگ گردوغبار میں چلے آتے، گرد میں اٹے ہوئے اور پسینہ میں شرابور۔ اس قدر پسینہ ہوتا کہ تھمتا (رکتا) نہیں تھا۔ اسی حالت میں ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم لوگ اس دن (جمعہ میں) غسل کرلیا کرتے تو بہتر ہوتا۔

【28】

باب: جمعہ کا وقت سورج ڈھلنے سے شروع ہوتا ہے۔

ہم سے عبدان عبداللہ بن عثمان نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا کہ ہمیں یحیٰی بن سعید نے خبر دی کہ انہوں نے عمرہ بنت عبدالرحمٰن سے جمعہ کے دن غسل کے بارے میں پوچھا۔ انہوں نے بیان کیا کہ عائشہ (رض) فرماتی تھیں کہ لوگ اپنے کاموں میں مشغول رہتے اور جمعہ کے لیے اسی حالت (میل کچیل) میں چلے آتے، اس لیے ان سے کہا گیا کہ کاش تم لوگ (کبھی) غسل کرلیا کرتے۔

【29】

باب: جمعہ کا وقت سورج ڈھلنے سے شروع ہوتا ہے۔

ہم سے سریج بن نعمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے فلیح بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے عثمان بن عبدالرحمٰن بن عثمان تیمی نے بیان کیا، ان سے انس بن مالک (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ جمعہ کی نماز اس وقت پڑھتے جب سورج ڈھل جاتا۔

【30】

باب: جمعہ کا وقت سورج ڈھلنے سے شروع ہوتا ہے۔

ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا کہ ہمیں حمید طویل نے انس بن مالک (رض) سے خبر دی۔ آپ نے فرمایا کہ ہم جمعہ سویرے پڑھ لیا کرتے اور جمعہ کے بعد آرام کرتے تھے۔

【31】

باب: جمعہ جب سخت گرمی میں آن پڑے۔

ہم سے محمد بن ابی بکر مقدمی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے حرمی بن عمارہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوخلدہ جن کا نام خالد بن دینار ہے، نے بیان کیا کہ میں نے انس بن مالک (رض) سے سنا، آپ نے فرمایا کہ اگر سردی زیادہ پڑتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز سویرے پڑھ لیتے۔ لیکن جب گرمی زیادہ ہوتی تو ٹھنڈے وقت نماز پڑھتے۔ آپ کی مراد جمعہ کی نماز سے تھی۔ یونس بن بکیر نے کہا کہ ہمیں ابوخلدہ نے خبر دی۔ انہوں نے صرف نماز کہا۔ جمعہ کا ذکر نہیں کیا اور بشر بن ثابت نے کہا کہ ہم سے ابوخلدہ نے بیان کیا کہ امیر نے ہمیں جمعہ کی نماز پڑھائی۔ پھر انس (رض) سے پوچھا کہ نبی کریم ﷺ ظہر کی نماز کس وقت پڑھتے تھے ؟

【32】

باب: جمعہ کی نماز کے لیے چلنے کا بیان۔

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ولید بن مسلم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یزید بن ابی مریم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبایہ بن رفاعہ بن رافع بن خدیج نے بیان کیا، انہوں نے بیان کیا کہ میں جمعہ کے لیے جا رہا تھا۔ راستے میں ابوعبس (رض) سے میری ملاقات ہوئی، انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ جس کے قدم اللہ کی راہ میں غبار آلود ہوگئے اللہ تعالیٰ اسے دوزخ پر حرام کر دے گا۔

【33】

باب: جمعہ کی نماز کے لیے چلنے کا بیان۔

ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابن ابی ذئب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زہری نے سعید اور ابوسلمہ سے بیان کیا، ان سے ابوہریرہ (رض) نے اور ان سے نبی کریم ﷺ نے (دوسری سند سے بیان کیا) امام بخاری (رح) نے کہا اور ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے اور انہیں ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے خبر دی، وہ ابوہریرہ (رض) سے روایت کرتے تھے کہ آپ نے رسول اللہ ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ جب نماز کے لیے تکبیر کہی جائے تو دوڑتے ہوئے مت آؤ بلکہ (اپنی معمولی رفتار سے) آؤ پورے اطمینان کے ساتھ پھر نماز کا جو حصہ (امام کے ساتھ) پالو اسے پڑھ لو اور جو رہ جائے تو اسے بعد میں پورا کرو۔

【34】

باب: جمعہ کی نماز کے لیے چلنے کا بیان۔

ہم سے عمرو بن علی فلاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابو قتیبہ بن قتیبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے علی بن مبارک نے یحییٰ بن ابی کثیر سے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن ابی قتادہ نے (امام بخاری (رح) کہتے ہیں کہ مجھے یقین ہے کہ) عبداللہ نے اپنے باپ ابوقتادہ سے روایت کی ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے راوی ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا جب تک مجھے دیکھ نہ لو صف بندی کے لیے کھڑے نہ ہوا کرو اور آہستگی سے چلنا لازم کرلو۔

【35】

باب: جمعہ کے دن جہاں دو آدمی بیٹھے ہوئے ہوں ان کے بیچ میں نہ داخل ہو۔

ہم سے عبدان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی انہوں نے کہا کہ ہمیں ابن ابی ذئب نے خبر دی، انہیں سعید مقبری نے، انہیں ان کے باپ ابوسعید نے، انہیں عبداللہ بن ودیعہ نے، انہیں سلمان فارسی (رض) نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے جمعہ کے دن غسل کیا اور خوب پاکی حاصل کی اور تیل یا خوشبو استعمال کی، پھر جمعہ کے لیے چلا اور دو آدمیوں کے بیچ میں نہ گھسا اور جتنی اس کی قسمت میں تھی، نماز پڑھی، پھر جب امام باہر آیا اور خطبہ شروع کیا تو خاموش ہوگیا، اس کے اس جمعہ سے دوسرے جمعہ تک کے تمام گناہ بخش دیئے جائیں گے۔

【36】

باب: جمعہ کے دن کسی مسلمان بھائی کو اس کی جگہ سے اٹھا کر خود وہاں نہ بیٹھے۔

ہم سے محمد بن سلام بیکندی (رح) نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں مخلد بن یزید نے خبر دی، کہا کہ ہمیں ابن جریج نے خبر دی، کہا کہ میں نے نافع سے سنا، انہوں نے کہا میں نے عبداللہ بن عمر سے سنا، انہوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے کہ کوئی شخص اپنے مسلمان بھائی کو اٹھا کر اس کی جگہ خود بیٹھ جائے۔ میں نے نافع سے پوچھا کہ کیا یہ جمعہ کے لیے ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ جمعہ اور غیر جمعہ سب کے لیے یہی حکم ہے۔

【37】

باب: جمعہ کے دن اذان کا بیان۔

ہم سے آدم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابن ابی ذئب نے زہری کے واسطے سے بیان کیا، ان سے سائب بن یزید نے کہ نبی کریم ﷺ اور ابوبکر اور عمر (رض) کے زمانے میں جمعہ کی پہلی اذان اس وقت دی جاتی تھی جب امام منبر پر خطبہ کے لیے بیٹھتے لیکن عثمان (رض) کے زمانہ میں جب مسلمانوں کی کثرت ہوگئی تو وہ مقام زوراء سے ایک اور اذان دلوانے لگے۔ ابوعبداللہ (امام بخاری (رح)) فرماتے ہیں کہ زوراء مدینہ کے بازار میں ایک جگہ ہے۔

【38】

باب: جمعہ کے لیے ایک مؤذن مقرر کرنا۔

ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبد العزیز بن ابوسلمہ ماجشون نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے زہری نے بیان کیا، ان سے سائب بن یزید نے کہ جمعہ میں تیسری اذان عثمان بن عفان (رض) نے بڑھائی جبکہ مدینہ میں لوگ زیادہ ہوگئے تھے جب کہ نبی کریم ﷺ کے ایک ہی مؤذن تھے۔ (آپ ﷺ کے دور میں) جمعہ کی اذان اس وقت دی جاتی جب امام منبر پر بیٹھتا۔

【39】

باب: امام منبر پر بیٹھے بیٹھے اذان سن کر اس کا جواب دے۔

ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہمیں ابوبکر بن عثمان بن سہل بن حنیف نے خبر دی، انہیں ابوامامہ بن سہل بن حنیف نے، انہوں نے کہا میں نے معاویہ بن ابی سفیان (رض) کو دیکھا آپ منبر پر بیٹھے، مؤذن نے اذان دی الله أكبر الله أكبر‏ معاویہ (رض) نے جواب دیا الله أكبر الله أكبر‏ مؤذن نے کہا أشهد أن لا إله إلا الله‏ معاویہ نے جواب دیا وأنا‏ اور میں بھی توحید کی گواہی دیتا ہوں مؤذن نے کہا أشهد أن محمدا رسول الله‏ معاویہ نے جواب دیا وأنا‏ اور میں بھی محمد ﷺ کی رسالت کی گواہی دیتا ہوں جب مؤذن اذان کہہ چکا تو آپ نے کہا حاضرین ! میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا اسی جگہ یعنی منبر پر آپ بیٹھے تھے مؤذن نے اذان دی تو آپ یہی فرما رہے تھے جو تم نے مجھ کو کہتے سنا۔

【40】

باب: جمعہ کی اذان ختم ہونے تک امام منبر پر بیٹھا رہے۔

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے عقیل کے واسطے سے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے کہ سائب بن یزید نے انہیں خبر دی کہ جمعہ کی دوسری اذان کا حکم عثمان بن عفان (رض) نے اس وقت دیا جب نمازی بہت زیادہ ہوگئے تھے اور جمعہ کے دن اذان اس وقت ہوتی جب امام منبر پر بیٹھا کرتا تھا۔

【41】

باب: جمعہ کی اذان خطبہ کے وقت دینا۔

ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا انہوں نے کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہم کو یونس بن یزید نے زہری سے خبر دی، انہوں نے کہا کہ میں نے سائب بن یزید (رض) سے یہ سنا تھا کہ جمعہ کی پہلی اذان رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر اور عمر (رض) کے زمانے میں اس وقت دی جاتی تھی جب امام منبر پر بیٹھتا۔ جب عثمان بن عفان (رض) کا دور آیا اور نمازیوں کی تعداد بڑھ گئی تو آپ نے جمعہ کے دن ایک تیسری اذان کا حکم دیا، یہ اذان مقام زوراء پر دی گئی اور بعد میں یہی دستور قائم رہا۔

【42】

باب: خطبہ منبر پر پڑھنا۔

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے یعقوب بن عبدالرحمٰن بن محمد بن عبداللہ بن عبد القاری قرشی اسکندرانی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوحازم بن دینار نے بیان کیا کہ کچھ لوگ سہل بن سعد ساعدی (رض) کے پاس آئے۔ ان کا آپس میں اس پر اختلاف تھا کہ منبرنبوی علی صاحبہا الصلوۃ والسلام کی لکڑی کس درخت کی تھی۔ اس لیے سعد (رض) سے اس کے متعلق دریافت کیا گیا آپ نے فرمایا اللہ گواہ ہے میں جانتا ہوں کہ منبرنبوی کس لکڑی کا تھا۔ پہلے دن جب وہ رکھا گیا اور سب سے پہلے جب اس پر رسول اللہ ﷺ بیٹھے تو میں اس کو بھی جانتا ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے انصار کی فلاں عورت کے پاس جن کا سعد (رض) نے نام بھی بتایا تھا۔ آدمی بھیجا کہ وہ اپنے بڑھئی غلام سے میرے لیے لکڑی جوڑ دینے کے لیے کہیں۔ تاکہ جب مجھے لوگوں سے کچھ کہنا ہو تو اس پر بیٹھا کروں چناچہ انہوں نے اپنے غلام سے کہا اور وہ غابہ کے جھاؤ کی لکڑی سے اسے بنا کر لایا۔ انصاری خاتون نے اسے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھیج دیا۔ نبی کریم ﷺ نے اسے یہاں رکھوایا میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ نے اسی پر (کھڑے ہو کر) نماز پڑھائی۔ اسی پر کھڑے کھڑے تکبیر کہی۔ اسی پر رکوع کیا۔ پھر الٹے پاؤں لوٹے اور منبر کی جڑ میں سجدہ کیا اور پھر دوبارہ اسی طرح کیا جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کو خطاب فرمایا۔ لوگو ! میں نے یہ اس لیے کیا کہ تم میری پیروی کرو اور میری طرح نماز پڑھنی سیکھ لو۔

【43】

باب: خطبہ منبر پر پڑھنا۔

ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے محمد بن جعفر بن ابی کثیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھے یحییٰ بن سعید نے خبر دی، کہا کہ مجھے حفص بن عبداللہ بن انس نے خبر دی، انہوں نے جابر بن عبداللہ (رض) سے سنا کہ ایک کھجور کا تنا تھا جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ٹیک لگا کر کھڑے ہوا کرتے تھے۔ جب آپ ﷺ کے لیے منبر بن گیا (آپ ﷺ نے اس تنے پر ٹیک نہیں لگایا) تو ہم نے اس سے رونے کی آواز سنی جیسے دس مہینے کی گابھن اونٹنی آواز کرتی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے منبر سے اتر کر اپنا ہاتھ اس پر رکھا (تب وہ آواز موقوف ہوئی) اور سلیمان نے یحییٰ سے یوں حدیث بیان کی کہ مجھے حفص بن عبیداللہ بن انس نے خبر دی اور انہوں نے جابر سے سنا۔

【44】

باب: خطبہ منبر پر پڑھنا۔

ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابن ابی ذئب نے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے سالم نے، ان سے ان کے باپ (ابن عمر رضی اللہ عنہما) نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی الہ علیہ وسلم سے سنا۔ آپ ﷺ نے منبر پر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ جو جمعہ کے لیے آئے وہ پہلے غسل کرلیا کرے۔

【45】

باب: خطبہ کھڑے ہو کر پڑھنا۔

ہم سے عبیداللہ بن عمر قواریری نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے خالد بن حارث نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبیداللہ بن عمر نے نافع سے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ کھڑے ہو کر خطبہ دیتے تھے۔ پھر بیٹھ جاتے اور پھر کھڑے ہوتے جیسے تم لوگ بھی آج کل کرتے ہو۔

【46】

باب: امام جب خطبہ دے تو لوگ امام کی طرف رخ کریں۔

ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہشام دستوائی نے یحییٰ بن ابی کثیر سے بیان کیا، ان سے ہلال بن ابی میمونہ نے، انہوں نے کہا ہم سے عطاء بن یسار نے بیان کیا، انہوں نے ابو سعید خدری (رض) سے سنا کہ نبی کریم ﷺ ایک دن منبر پر تشریف فرما ہوئے اور ہم سب آپ ﷺ کے ارد گرد بیٹھ گئے۔

【47】

باب: خطبہ میں اللہ کی حمد و ثنا کے بعد امابعد کہنا۔

اور محمود بن غیلان (امام بخاری (رح) کے استاذ) نے کہا کہ ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا کہ ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، کہ مجھے فاطمہ بنت منذر نے خبر دی، ان سے اسماء بنت ابی بکر (رض) نے، انہوں نے کہا کہ میں عائشہ (رض) کے پاس گئی۔ لوگ نماز پڑھ رہے تھے۔ میں نے (اس بےوقت نماز پر تعجب سے پوچھا کہ) یہ کیا ہے ؟ عائشہ (رض) نے سر سے آسمان کی طرف اشارہ کیا۔ میں نے پوچھا کیا کوئی نشانی ہے ؟ انہوں نے سر کے اشارہ سے ہاں کہا (کیونکہ سورج گہن ہوگیا تھا) اسماء (رض) نے کہا کہ نبی کریم ﷺ دیر تک نماز پڑھتے رہے۔ یہاں تک کہ مجھ کو غشی آنے لگی۔ قریب ہی ایک مشک میں پانی بھرا رکھا تھا۔ میں اسے کھول کر اپنے سر پر پانی ڈالنے لگی۔ پھر جب سورج صاف ہوگیا تو رسول اللہ ﷺ نے نماز ختم کردی۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے خطبہ دیا۔ پہلے اللہ تعالیٰ کی اس کی شان کے مناسب تعریف بیان کی۔ اس کے بعد فرمایا امابعد ! اتنا فرمانا تھا کہ کچھ انصاری عورتیں شور کرنے لگیں۔ اس لیے میں ان کی طرف بڑھی کہ انہیں چپ کراؤں (تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات اچھی طرح سن سکوں مگر میں آپ کا کلام نہ سن سکی) تو پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ نے کیا فرمایا ؟ انہوں نے بتایا کہ آپ نے فرمایا کہ بہت سی چیزیں جو میں نے اس سے پہلے نہیں دیکھی تھیں، آج اپنی اس جگہ سے میں نے انہیں دیکھ لیا۔ یہاں تک کہ جنت اور دوزخ تک میں نے آج دیکھی۔ مجھے وحی کے ذریعہ یہ بھی بتایا گیا کہ قبروں میں تمہاری ایسی آزمائش ہوگی جیسے کانے دجال کے سامنے یا اس کے قریب قریب۔ تم میں سے ہر ایک کے پاس فرشتہ آئے گا اور پوچھے گا کہ تو اس شخص کے بارے میں کیا اعتقاد رکھتا تھا ؟ مومن یا یہ کہا کہ یقین والا (ہشام کو شک تھا) کہے گا کہ وہ محمد رسول اللہ ﷺ ہیں، ہمارے پاس ہدایت اور واضح دلائل لے کر آئے، اس لیے ہم ان پر ایمان لائے، ان کی دعوت قبول کی، ان کی اتباع کی اور ان کی تصدیق کی۔ اب اس سے کہا جائے گا کہ تو تو صالح ہے، آرام سے سو جا۔ ہم پہلے ہی جانتے تھے کہ تیرا ان پر ایمان ہے۔ ہشام نے شک کے اظہار کے ساتھ کہا کہ رہا منافق یا شک کرنے والا تو جب اس سے پوچھا جائے گا کہ تو اس شخص کے بارے میں کیا کہتا ہے تو وہ جواب دے گا کہ مجھے نہیں معلوم میں نے لوگوں کو ایک بات کہتے سنا اسی کے مطابق میں نے بھی کہا۔ ہشام نے بیان کیا کہ فاطمہ بنت منذر نے جو کچھ کہا تھا۔ میں نے وہ سب یاد رکھا۔ لیکن انہوں نے قبر میں منافقوں پر سخت عذاب کے بارے میں جو کچھ کہا وہ مجھے یاد نہیں رہا۔

【48】

باب: خطبہ میں اللہ کی حمد و ثنا کے بعد امابعد کہنا۔

ہم سے محمد بن معمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوعاصم نے جریر بن حازم سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے امام حسن بصری سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ہم نے عمرو بن تغلب (رض) سے سنا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس کچھ مال آیا یا کوئی چیز آئی۔ آپ نے بعض صحابہ کو اس میں سے عطا کیا اور بعض کو کچھ نہیں دیا۔ پھر آپ کو معلوم ہوا کہ جن لوگوں کو آپ نے نہیں دیا تھا انہیں اس کا رنج ہوا، اس لیے آپ نے اللہ کی حمد و تعریف کی پھر فرمایا امابعد ! اللہ کی قسم ! میں بعض لوگوں کو دیتا ہوں اور بعض کو نہیں دیتا لیکن میں جس کو نہیں دیتا وہ میرے نزدیک ان سے زیادہ محبوب ہیں جن کو میں دیتا ہوں۔ میں تو ان لوگوں کو دیتا ہوں جن کے دلوں میں بےصبری اور لالچ پاتا ہوں لیکن جن کے دل اللہ تعالیٰ نے خیر اور بےنیاز بنائے ہیں، میں ان پر بھروسہ کرتا ہوں۔ عمرو بن تغلب بھی ان ہی لوگوں میں سے ہیں۔ اللہ کی قسم ! میرے لیے رسول اللہ ﷺ کا یہ ایک کلمہ سرخ اونٹوں سے زیادہ محبوب ہے۔

【49】

باب: خطبہ میں اللہ کی حمد و ثنا کے بعد امابعد کہنا۔

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث نے عقیل سے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، انہوں نے کہا کہ مجھے عروہ نے خبر دی کہ عائشہ (رض) نے انہیں خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ نے رات کے وقت اٹھ کر مسجد میں نماز پڑھی اور چند صحابہ بھی آپ ﷺ کی اقتداء میں نماز پڑھنے کھڑے ہوگئے۔ صبح کو ان صحابہ (رضوان اللہ علیہم اجمعین) نے دوسرے لوگوں سے اس کا ذکر کیا چناچہ (دوسرے دن) اس سے بھی زیادہ جمع ہوگئے اور آپ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھی۔ دوسری صبح کو اس کا چرچا اور زیادہ ہوا پھر کیا تھا تیسری رات بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوگئے اور جب رسول اللہ ﷺ اٹھے تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپ ﷺ کے پیچھے نماز شروع کردی۔ چوتھی رات جو آئی تو مسجد میں نمازیوں کی کثرت سے تل رکھنے کی بھی جگہ نہیں تھی۔ لیکن آج رات نبی کریم ﷺ نے یہ نماز نہ پڑھائی اور فجر کی نماز کے بعد لوگوں سے فرمایا، پہلے آپ نے کلمہ شہادت پڑھا پھر فرمایا۔ امابعد ! مجھے تمہاری اس حاضری سے کوئی ڈر نہیں لیکن میں اس بات سے ڈرا کہ کہیں یہ نماز تم پر فرض نہ کردی جائے، پھر تم سے یہ ادا نہ ہو سکے۔ اس روایت کی متابعت یونس نے کی ہے۔

【50】

باب: خطبہ میں اللہ کی حمد و ثنا کے بعد امابعد کہنا۔

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھے عروہ نے ابو حمید ساعدی (رض) سے خبر دی کہ نبی کریم ﷺ نماز عشاء کے بعد کھڑے ہوئے۔ پہلے آپ نے کلمہ شہادت پڑھا، پھر اللہ تعالیٰ کے لائق اس کی تعریف کی، پھر فرمایا امابعد ! زہری کے ساتھ اس روایت کی متابعت ابومعاویہ اور ابواسامہ نے ہشام سے کی، انہوں نے اپنے والد عروہ سے اس کی روایت کی، انہوں نے ابوحمید سے اور انہوں نے نبی کریم ﷺ سے کہ آپ ﷺ نے فرمایا امابعد ! اور ابوالیمان کے ساتھ اس حدیث کو محمد بن یحییٰ نے بھی سفیان سے روایت کیا۔ اس میں صرف امابعد ہے۔

【51】

باب: خطبہ میں اللہ کی حمد و ثنا کے بعد امابعد کہنا۔

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی، کہا کہ مجھ سے علی بن حسین نے مسور بن مخرمہ (رض) سے حدیث بیان کی کہ نبی کریم ﷺ کھڑے ہوئے۔ میں نے سنا کہ کلمہ شہادت کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا امابعد ! شعیب کے ساتھ اس روایت کی متابعت محمد بن ولید زبیدی نے زہری سے کی ہے۔

【52】

باب: خطبہ میں اللہ کی حمد و ثنا کے بعد امابعد کہنا۔

ہم سے اسماعیل بن ابان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابن غسیل عبدالرحمٰن بن سلیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عکرمہ نے ابن عباس (رض) کے واسطے سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ منبر پر تشریف لائے۔ منبر پر یہ آپ کی آخری بیٹھک تھی۔ آپ دونوں شانوں سے چادر لپیٹے ہوئے تھے اور سر مبارک پر ایک پٹی باندھ رکھی تھی۔ آپ نے حمد و ثنا کے بعد فرمایا لوگو ! میری بات سنو۔ چناچہ لوگ آپ کی طرف کلام مبارک سننے کے لیے متوجہ ہوگئے۔ پھر آپ نے فرمایا امابعد ! یہ قبیلہ انصار کے لوگ (آنے والے دور میں) تعداد میں بہت کم ہوجائیں گے پس محمد ﷺ کی امت کا جو شخص بھی حاکم ہو اور اسے نفع و نقصان پہنچانے کی طاقت ہو تو انصار کے نیک لوگوں کی نیکی قبول کرے اور ان کے برے کی برائی سے درگزر کرے۔

【53】

باب: جمعہ کے دن دونوں خطبوں کے بیچ میں بیٹھنا۔

ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے بشر بن مفضل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبیداللہ عمری نے نافع سے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ (جمعہ میں) دو خطبے دیتے اور دونوں کے بیچ میں بیٹھتے تھے۔ (خطبہ جمعہ کے بیچ میں یہ بیٹھنا بھی مسنون طریقہ ہے) ۔

【54】

باب: جمعہ کے روز خطبہ کان لگا کر سننا۔

ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے محمد بن عبدالرحمٰن بن ابی ذئب نے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے ابوعبداللہ سلیمان اغر نے، ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب جمعہ کا دن آتا ہے تو فرشتے جامع مسجد کے دروازے پر آنے والوں کے نام لکھتے ہیں، سب سے پہلے آنے والا اونٹ کی قربانی دینے والے کی طرح لکھا جاتا ہے۔ اس کے بعد آنے والا گائے کی قربانی دینے والے کی طرح پھر مینڈھے کی قربانی کا ثواب رہتا ہے۔ اس کے بعد مرغی کا، اس کے بعد انڈے کا۔ لیکن جب امام (خطبہ دینے کے لیے) باہر آجاتا ہے تو یہ فرشتے اپنے دفاتر بند کردیتے ہیں اور خطبہ سننے میں مشغول ہوجاتے ہیں۔

【55】

باب: امام خطبہ کی حالت میں کسی شخص کو جو آئے دو رکعت تحیۃ المسجد پڑھنے کا حکم دے سکتا ہے۔

ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے، ان سے جابر بن عبداللہ (رض) نے بیان کیا کہ ایک شخص آیا نبی کریم ﷺ جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے۔ آپ ﷺ نے پوچھا کہ اے فلاں ! کیا تم نے (تحیۃ المسجد کی) نماز پڑھ لی۔ اس نے کہا کہ نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا اچھا اٹھ اور دو رکعت نماز پڑھ لے۔

【56】

باب: جب امام خطبہ دے رہا ہو اور کوئی مسجد میں آئے تو ہلکی سی دو رکعت نماز پڑھ لے۔

ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے عمرو سے بیان کیا، انہوں نے جابر (رض) سے سنا کہ ایک شخص جمعہ کے دن مسجد میں آیا۔ نبی کریم ﷺ خطبہ پڑھ رہے تھے۔ آپ ﷺ نے اس سے پوچھا کہ کیا تم نے (تحیۃ المسجد کی ) نماز پڑھ لی ہے ؟ آنے والے نے جواب دیا کہ نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اٹھو اور دو رکعت نماز (تحیۃ المسجد) پڑھ لو۔

【57】

باب: خطبہ میں دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا۔

ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے عبد العزیز بن انس نے بیان کیا، ان سے انس بن مالک (رض) نے (دوسری سند) اور حماد بن یونس سے بھی روایت کی عبدالعزیز اور یونس دونوں نے ثابت سے، انہوں نے انس (رض) سے کہ نبی کریم ﷺ جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے کہ ایک شخص کھڑا ہوگیا اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ مویشی اور بکریاں ہلاک ہوگئیں (بارش نہ ہونے کی وجہ سے) آپ دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ بارش برسائے۔ چناچہ آپ ﷺ نے دونوں ہاتھ پھیلائے اور دعا کی۔

【58】

باب: جمعہ کے خطبہ میں بارش کے لیے دعا کرنا۔

ہم سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ولید بن مسلم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے امام ابوعمرو اوزاعی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ (رض) نے بیان کیا، ان سے انس بن مالک (رض) نے کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ کے زمانے میں قحط پڑا، آپ ﷺ خطبہ دے رہے تھے کہ ایک دیہاتی نے کہا یا رسول اللہ ! جانور مرگئے اور اہل و عیال دانوں کو ترس گئے۔ آپ ہمارے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں۔ آپ ﷺ نے دونوں ہاتھ اٹھائے، اس وقت بادل کا ایک ٹکڑا بھی آسمان پر نظر نہیں آ رہا تھا۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میری جان ہے ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھوں کو نیچے بھی نہیں کیا تھا کہ پہاڑوں کی طرح گھٹا امڈ آئی اور آپ ﷺ ابھی منبر سے اترے بھی نہیں تھے کہ میں نے دیکھا کہ بارش کا پانی آپ ﷺ کے ریش مبارک سے ٹپک رہا تھا۔ اس دن اس کے بعد اور متواتر اگلے جمعہ تک بارش ہوتی رہی۔ (دوسرے جمعہ کو) یہی دیہاتی پھر کھڑا ہوا یا کہا کہ کوئی دوسرا شخص کھڑا ہوا اور عرض کی کہ یا رسول اللہ ! عمارتیں منہدم ہوگئیں اور جانور ڈوب گئے۔ آپ ہمارے لیے اللہ سے دعا کیجئے۔ آپ ﷺ نے دونوں ہاتھ اٹھائے اور دعا کی کہ اے اللہ ! اب دوسری طرف بارش برسا اور ہم سے روک دے۔ آپ ہاتھ سے بادل کے لیے جس طرف بھی اشارہ کرتے، ادھر مطلع صاف ہوجاتا۔ سارا مدینہ تالاب کی طرح بن گیا تھا اور قناۃ کا نالا مہینہ بھر بہتا رہا اور اردگرد سے آنے والے بھی اپنے یہاں بھرپور بارش کی خبر دیتے رہے۔

【59】

باب: جمعہ کے دن خطبہ کے وقت چپ رہنا۔

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے عقیل سے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، انہوں نے کہا کہ مجھے سعید بن مسیب نے خبر دی اور انہیں ابوہریرہ (رض) نے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب امام جمعہ کا خطبہ دے رہا ہو اور تو اپنے پاس بیٹھے ہوئے آدمی سے کہے کہ چپ رہ تو تو نے خود ایک لغو حرکت کی۔

【60】

باب: جمعہ کے دن وہ گھڑی جس میں دعا قبول ہوتی ہے۔

ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے امام مالک (رح) سے بیان کیا، ان سے ابوالزناد نے، ان سے عبدالرحمٰن اعرج نے، ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے جمعہ کے ذکر میں ایک دفعہ فرمایا کہ اس دن ایک ایسی گھڑی آتی ہے جس میں اگر کوئی مسلمان بندہ کھڑا نماز پڑھ رہا ہو اور کوئی چیز اللہ پاک سے مانگے تو اللہ پاک اسے وہ چیز ضرور دیتا ہے۔ ہاتھ کے اشارے سے آپ نے بتلایا کہ وہ ساعت بہت تھوڑی سی ہے۔

【61】

باب: اگر جمعہ کی نماز میں کچھ لوگ امام کو چھوڑ کر چلے جائیں تو امام اور باقی نمازیوں کی نماز صحیح ہو جائے گی۔

ہم سے معاویہ بن عمرو نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زائدہ نے حصین سے بیان کیا، ان سے سالم بن ابی جعد نے، انہوں نے کہا کہ ہم سے جابر بن عبداللہ (رض) نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے، اتنے میں غلہ لادے ہوئے ایک تجارتی قافلہ ادھر سے گزرا۔ لوگ خطبہ چھوڑ کر ادھر چل دیئے۔ نبی کریم ﷺ کے ساتھ کل بارہ آدمی رہ گئے۔ اس وقت سورة الجمعہ کی یہ آیت اتری وإذا رأوا تجارة أو لهوا انفضوا إليها وترکوک قائما‏ اور جب یہ لوگ تجارت اور کھیل دیکھتے ہیں تو اس کی طرف دوڑ پڑتے ہیں اور آپ کو کھڑا چھوڑ دیتے ہیں۔

【62】

باب: جمعہ کے بعد اور اس سے پہلے سنت پڑھنا۔

ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک (رح) نے نافع سے خبر دی، ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ ظہر سے پہلے دو رکعت، اس کے بعد دو رکعت اور مغرب کے بعد دو رکعت اپنے گھر میں پڑھتے اور عشاء کے بعد دو رکعتیں پڑھتے اور جمعہ کے بعد دو رکعتیں جب گھر واپس ہوتے تب پڑھا کرتے تھے۔

【63】

باب: اللہ عزوجل کا (سورۃ الجمعہ میں) یہ فرمانا کہ جب جمعہ کی نماز ختم ہو جائے تو اپنے کام کاج کے لیے زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کے فضل (روزی، رزق یا علم) کو ڈھونڈو۔

ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوغسان محمد بن مطر مدنی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابوحازم سلمہ بن دینار نے سہل بن سعد کے واسطے سے بیان کیا، انہوں نے بیان کیا کہ ہمارے یہاں ایک عورت تھی جو نالوں پر اپنے ایک کھیت میں چقندر بوتی۔ جمعہ کا دن آتا تو وہ چقندر اکھاڑ لاتیں اور اسے ایک ہانڈی میں پکاتیں پھر اوپر سے ایک مٹھی جو کا آٹا چھڑک دیتیں۔ اس طرح یہ چقندر گوشت کی طرح ہوجاتے۔ جمعہ سے واپسی میں ہم انہیں سلام کرنے کے لیے حاضر ہوتے تو یہی پکوان ہمارے آگے کر دیتیں اور ہم اسے چاٹ جاتے۔ ہم لوگ ہر جمعہ کو ان کے اس کھانے کے آرزومند رہا کرتے تھے۔

【64】

باب: اللہ عزوجل کا (سورۃ الجمعہ میں) یہ فرمانا کہ جب جمعہ کی نماز ختم ہو جائے تو اپنے کام کاج کے لیے زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کے فضل (روزی، رزق یا علم) کو ڈھونڈو۔

ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبد العزیز بن ابی حازم نے بیان کیا اپنے باپ سے اور ان سے سہل بن سعد نے یہی بیان کیا اور فرمایا کہ دوپہر کا سونا اور دوپہر کا کھانا جمعہ کی نماز کے بعد رکھتے تھے۔

【65】

باب: جمعہ کی نماز کے بعد سونا۔

ہم سے محمد بن عقبہ شیبانی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابواسحاق فزاری ابراہیم بن محمد نے بیان کیا، ان سے حمید طویل نے، انہوں نے انس (رض) سے سنا۔ آپ فرماتے تھے کہ ہم جمعہ سویرے پڑھتے، اس کے بعد دوپہر کی نیند لیتے تھے۔

【66】

باب: جمعہ کی نماز کے بعد سونا۔

ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوغسان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوحازم نے سہل بن سعد (رض) سے بیان کیا، انہوں نے بتلایا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ جمعہ پڑھتے، پھر دوپہر کی نیند لیا کرتے تھے۔