17. نماز قصر کا بیان
باب: نماز میں قصر کرنے کا بیان اور اقامت کی حالت میں کتنی مدت تک قصر کر سکتا ہے۔
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوعوانہ وضاح یشکری نے بیان کیا، ان سے عاصم احول اور حصین سلمی نے، ان سے عکرمہ نے، اور ان سے ابن عباس (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ (مکہ میں فتح مکہ کے موقع پر) انیس دن ٹھہرے اور برابر قصر کرتے رہے۔ اس لیے انیس دن کے سفر میں ہم بھی قصر کرتے رہتے ہیں اور اس سے اگر زیادہ ہوجائے تو پوری نماز پڑھتے ہیں۔
باب: نماز میں قصر کرنے کا بیان اور اقامت کی حالت میں کتنی مدت تک قصر کر سکتا ہے۔
ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے یحییٰ بن ابی اسحاق نے بیان کیا انہوں نے انس (رض) کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ہم مکہ کے ارادہ سے مدینہ سے نکلے تو برابر نبی کریم ﷺ دو ، دو رکعت پڑھتے رہے۔ یہاں تک کہ ہم مدینہ واپس آئے۔ میں نے پوچھا کہ آپ ﷺ کا مکہ میں کچھ دن قیام بھی رہا تھا ؟ تو اس کا جواب انس (رض) نے یہ دیا کہ دس دن تک ہم وہاں ٹھہرے تھے۔
باب: منیٰ میں نماز قصر کرنے کا بیان۔
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ نے عبیداللہ عمری سے بیان کیا، کہا کہ مجھے نافع نے خبر دی اور انہیں عبداللہ بن مسعود (رض) نے، کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ ابوبکر اور عمر (رض) کے ساتھ منیٰ میں دو رکعت (یعنی چار رکعت والی نمازوں میں) قصر پڑھی۔ عثمان (رض) کے ساتھ بھی ان کے دور خلافت کے شروع میں دو ہی رکعت پڑھی تھیں۔ لیکن بعد میں آپ (رض) نے پوری پڑھی تھیں۔
باب: منیٰ میں نماز قصر کرنے کا بیان۔
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں ابواسحاق نے خبر دی، انہوں نے حارثہ سے سنا اور انہوں نے وہب (رض) سے کہ آپ نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ نے منیٰ میں امن کی حالت میں ہمیں دو رکعت نماز پڑھائی تھی۔
باب: منیٰ میں نماز قصر کرنے کا بیان۔
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابراہیم نخعی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے عبدالرحمٰن بن یزید سے سنا، وہ کہتے تھے کہ ہمیں عثمان بن عفان (رض) نے منیٰ میں چار رکعت نماز پڑھائی تھی لیکن جب اس کا ذکر عبداللہ بن مسعود (رض) سے کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ انا لله و انا اليه راجعون۔ پھر کہنے لگے میں نے تو نبی کریم ﷺ کے ساتھ منی ٰ میں دو رکعت نماز پڑھی ہے اور ابوبکر صدیق (رض) کے ساتھ بھی میں نے دو رکعت ہی پڑھی ہیں اور عمر بن خطاب (رض) کے ساتھ بھی دو رکعت ہی پڑھی تھی کاش میرے حصہ میں ان چار رکعتوں کے بجائے دو مقبول رکعتیں ہوتیں۔
باب: حج کے موقعہ پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنے دن قیام کیا تھا؟
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا کہا کہ ہم سے وہیب نے بیان کیا کہا کہ ہم سے ایوب نے بیان کیا ان سے ابوالعالیہ براء نے ان سے ابن عباس (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ صحابہ کو ساتھ لے کر تلبیہ کہتے ہوئے ذی الحجہ کی چوتھی تاریخ کو (مکہ میں) تشریف لائے پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ جن کے پاس ہدی نہیں ہے وہ بجائے حج کے عمرہ کی نیت کرلیں اور عمرہ سے فارغ ہو کر حلال ہوجائیں پھر حج کا احرام باندھیں۔ اس حدیث کی متابعت عطاء نے جابر سے کی ہے۔
باب: نماز کتنی مسافت میں قصر کرنی چاہیے۔
ہم سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا، انہوں نے ابواسامہ سے، میں نے پوچھا کہ کیا آپ سے عبیداللہ عمری نے نافع سے یہ حدیث بیان کی تھی کہ ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ کا یہ فرمان نقل کیا تھا کہ عورتیں تین دن کا سفر ذی رحم محرم کے بغیر نہ کریں (ابواسامہ نے کہا ہاں) ۔
باب: نماز کتنی مسافت میں قصر کرنی چاہیے۔
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے، عبیداللہ عمری سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں نافع نے خبر دی، انہیں ابن عمر (رض) نے نبی کریم ﷺ سے خبر دی کہ آپ ﷺ نے فرمایا عورت تین دن کا سفر اس وقت تک نہ کرے جب تک اس کے ساتھ کوئی محرم رشتہ دار نہ ہو۔ اس روایت کی متابعت احمد نے ابن مبارک سے کی ان سے عبیداللہ عمری نے ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر (رض) نے نبی کریم ﷺ کے حوالہ سے۔
باب: نماز کتنی مسافت میں قصر کرنی چاہیے۔
ہم سے آدم نے بیان کیا انہوں نے کہا کہ ہم سے ابن ابی ذئب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سعید مقبری نے اپنے باپ سے بیان کیا، ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ کسی خاتون کے لیے جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتی ہو، جائز نہیں کہ ایک دن رات کا سفر بغیر کسی ذی رحم محرم کے کرے۔ اس روایت کی متابعت یحییٰ بن ابی کثیر، سہیل اور مالک نے مقبری سے کی۔ وہ اس روایت کو ابوہریرہ (رض) سے بیان کرتے تھے۔
باب: جب آدمی سفر کی نیت سے اپنی بستی سے نکل جائے تو قصر کرے۔
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان نے، محمد بن منکدر اور ابراہیم بن میسرہ سے بیان کیا، ان سے انس بن مالک (رض) نے کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ مدینہ منورہ میں ظہر کی چار رکعت پڑھی اور ذوالحلیفہ میں عصر کی دو رکعت پڑھی۔
باب: جب آدمی سفر کی نیت سے اپنی بستی سے نکل جائے تو قصر کرے۔
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے زہری سے بیان کیا، ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ (رض) نے کہا کہ پہلے نماز دو رکعت فرض ہوئی تھی بعد میں سفر کی نماز تو اپنی اسی حالت پر رہ گئی البتہ حضر کی نماز پوری (چار رکعت) کردی گئی۔ زہری نے بیان کیا کہ میں نے عروہ سے پوچھا کہ پھر خود عائشہ (رض) نے کیوں نماز پوری پڑھی تھی انہوں نے اس کا جواب یہ دیا کہ عثمان (رض) نے اس کی جو تاویل کی تھی وہی انہوں نے بھی کی۔
باب: مغرب کی نماز سفر میں بھی تین ہی رکعت ہیں۔
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں شعیب نے خبر دی، زہری سے انہوں نے کہا کہ مجھے سالم نے عبداللہ بن عمر (رض) سے خبر دی آپ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا جب سفر میں چلنے کی جلدی ہوتی تو آپ ﷺ مغرب کی نماز دیر سے پڑھتے یہاں تک کہ مغرب اور عشاء ایک ساتھ ملا کر پڑھتے۔ سالم نے کہا کہ عبداللہ بن عمر (رض) کو بھی جب سفر میں جلدی ہوتی تو اس طرح کرتے۔ لیث بن سعد نے اس روایت میں اتنا زیادہ کیا کہ مجھ سے یونس نے ابن شہاب سے بیان کیا، کہ سالم نے بیان کیا کہ ابن عمر (رض) مزدلفہ میں مغرب اور عشاء ایک ساتھ جمع کر کے پڑھتے تھے۔ سالم نے کہا کہ ابن عمر (رض) نے مغرب کی نماز اس دن دیر میں پڑھی تھی جب انہیں ان کی بیوی صفیہ بنت ابی عبید کی سخت بیماری کی اطلاع ملی تھی (چلتے ہوئے) میں نے کہا کہ نماز ! (یعنی وقت ختم ہوا چاہتا ہے) لیکن آپ نے فرمایا کہ چلے چلو پھر دوبارہ میں نے کہا کہ نماز ! آپ نے پھر فرمایا کہ چلے چلو اس طرح جب ہم دو یا تین میل نکل گئے تو آپ اترے اور نماز پڑھی پھر فرمایا کہ میں نے خود دیکھا ہے کہ جب نبی کریم ﷺ سفر میں تیزی کے ساتھ چلنا چاہتے تو اسی طرح کرتے تھے عبداللہ بن عمر (رض) نے یہ بھی فرمایا کہ میں نے خود دیکھا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (منزل مقصود تک) جلدی پہنچنا چاہتے تو پہلے مغرب کی تکبیر کہلواتے اور آپ اس کی تین رکعت پڑھا کر سلام پھیرتے۔ پھر تھوڑی دیر ٹھہر کر عشاء پڑھاتے اور اس کی دو ہی رکعت پر سلام پھیرتے۔ عشاء کے فرض کے بعد آپ سنتیں وغیرہ نہیں پڑھتے تھے آدھی رات کے بعد کھڑے ہو کر نماز پڑھتے۔
باب: مغرب کی نماز سفر میں بھی تین ہی رکعت ہیں۔
لیث بن سعد نے اس روایت میں اتنا زیادہ کیا کہ مجھ سے یونس نے ابن شہاب سے بیان کیا، کہ سالم نے بیان کیا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما مزدلفہ میں مغرب اور عشاء ایک ساتھ جمع کر کے پڑھتے تھے۔ سالم نے کہا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے مغرب کی نماز اس دن دیر میں پڑھی تھی جب انہیں ان کی بیوی صفیہ بنت ابی عبید کی سخت بیماری کی اطلاع ملی تھی (چلتے ہوئے) میں نے کہا کہ نماز! (یعنی وقت ختم ہوا چاہتا ہے) لیکن آپ نے فرمایا کہ چلے چلو پھر دوبارہ میں نے کہا کہ نماز! آپ نے پھر فرمایا کہ چلے چلو اس طرح جب ہم دو یا تین میل نکل گئے تو آپ اترے اور نماز پڑھی پھر فرمایا کہ میں نے خود دیکھا ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں تیزی کے ساتھ چلنا چاہتے تو اسی طرح کرتے تھے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے یہ بھی فرمایا کہ میں نے خود دیکھا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (منزل مقصود تک) جلدی پہنچنا چاہتے تو پہلے مغرب کی تکبیر کہلواتے اور آپ اس کی تین رکعت پڑھا کر سلام پھیرتے۔ پھر تھوڑی دیر ٹھہر کر عشاء پڑھاتے اور اس کی دو ہی رکعت پر سلام پھیرتے۔ عشاء کے فرض کے بعد آپ سنتیں وغیرہ نہیں پڑھتے تھے آدھی رات کے بعد کھڑے ہو کر نماز پڑھتے۔
باب: نفل نماز سواری پر، اگرچہ سواری کا رخ کسی طرف ہو۔
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدالاعلیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے معمر نے زہری سے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن عامر نے اور ان سے ان کے باپ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ اونٹنی پر نماز پڑھتے رہتے خواہ اس کا منہ کسی طرف ہو۔
باب: نفل نماز سواری پر، اگرچہ سواری کا رخ کسی طرف ہو۔
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شیبان نے کہا، ان سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے محمد بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، کہ جابر بن عبداللہ (رض) نے انہیں خبر دی کہ نبی کریم ﷺ نفل نماز اپنی اونٹنی پر غیر قبلہ کی طرف منہ کر کے بھی پڑھتے تھے۔
باب: نفل نماز سواری پر، اگرچہ سواری کا رخ کسی طرف ہو۔
ہم سے ابوالاعلیٰ بن حماد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے وہیب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، ان سے نافع نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ابن عمر (رض) نفل نماز سواری پر پڑھتے تھے۔ اسی طرح وتر بھی۔ اور فرماتے کہ نبی کریم ﷺ بھی ایسا کرتے تھے۔
باب: سواری پر اشارے سے نماز پڑھنا۔
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدالعزیز بن مسلم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبداللہ بن دینار نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ عبداللہ بن عمر (رض) سفر میں اپنی اونٹنی پر نماز پڑھتے خواہ اس کا منہ کسی طرف ہوتا۔ آپ اشاروں سے نماز پڑھتے۔ آپ کا بیان تھا کہ نبی کریم ﷺ بھی اسی طرح کرتے تھے۔
باب: نمازی فرض نماز کے لیے سواری سے اتر جائے۔
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن عامر بن ربیعہ نے کہ عامر بن ربیعہ نے انہیں خبر دی انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اونٹنی پر نماز نفل پڑھتے دیکھا۔ آپ ﷺ سر کے اشاروں سے پڑھ رہے تھے اس کا خیال کئے بغیر کہ سواری کا منہ کدھر ہوتا ہے لیکن فرض نمازوں میں آپ ﷺ اس طرح نہیں کرتے تھے۔ اور لیث بن سعد نے بیان کیا کہ مجھ سے یونس نے بیان کیا، انہوں نے ابن شہاب کے واسطہ سے بیان کیا انہوں نے کہا کہ سالم نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عمر (رض) سفر میں رات کے وقت اپنے جانور پر نماز پڑھتے کچھ پرواہ نہ کرتے کہ اس کا منہ کس طرف ہے۔ ابن عمر (رض) نے کہا کہ نبی کریم ﷺ بھی اونٹنی پر نفل نماز پڑھا کرتے چاہے اس کا منہ کدھر ہی ہو اور وتر بھی سواری پر پڑھ لیتے تھے البتہ فرض اس پر نہیں پڑھتے تھے۔
باب: نمازی فرض نماز کے لیے سواری سے اتر جائے۔
اور لیث بن سعد نے بیان کیا کہ مجھ سے یونس نے بیان کیا، انہوں نے ابن شہاب کے واسطہ سے بیان کیا انہوں نے کہا کہ سالم نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سفر میں رات کے وقت اپنے جانور پر نماز پڑھتے کچھ پرواہ نہ کرتے کہ اس کا منہ کس طرف ہے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اونٹنی پر نفل نماز پڑھا کرتے چاہے اس کا منہ کدھر ہی ہو اور وتر بھی سواری پر پڑھ لیتے تھے البتہ فرض اس پر نہیں پڑھتے تھے۔
باب: نمازی فرض نماز کے لیے سواری سے اتر جائے۔
ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا کہا کہ ہم سے ہشام نے یحییٰ سے بیان کیا ان سے محمد بن عبدالرحمٰن بن ثوبان نے بیان کیا انہوں نے بیان کیا کہ مجھ سے جابر بن عبداللہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ اپنی اونٹنی پر مشرق کی طرف منہ کئے ہوئے نماز پڑھتے تھے اور جب فرض پڑھتے تو سواری سے اتر جاتے اور پھر قبلہ کی طرف رخ کر کے پڑھتے۔
باب: نفل نماز گدھے پر بیٹھے ہوئے ادا کرنا۔
ہم سے احمد بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حبان بن ہلال نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہمام بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے انس بن سیرین نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ انس (رض) شام سے جب (حجاج کی خلیفہ سے شکایت کر کے) واپس ہوئے تو ہم ان سے عین التمر میں ملے۔ میں نے دیکھا کہ آپ گدھے پر سوار ہو کر نماز پڑھ رہے تھے اور آپ کا منہ قبلہ سے بائیں طرف تھا۔ اس پر میں نے کہا کہ میں نے آپ کو قبلہ کے سوا دوسری طرف منہ کر کے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ اگر میں رسول اللہ ﷺ کو ایسا کرتے نہ دیکھتا تو میں بھی نہ کرتا۔ اس روایت کو ابراہیم ابن طہمان نے بھی حجاج سے، انہوں نے انس بن سیرین سے، انہوں نے انس بن مالک (رض) سے اور انہوں نے نبی کریم ﷺ سے بیان کیا ہے۔
باب: سفر میں جس نے فرض نماز سے پہلے اور پیچھے سنتوں کو نہیں پڑھا۔
ہم سے یحییٰ بن سلیمان کوفی نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عمر بن محمد بن یزید نے بیان کیا کہ حفص بن عاصم بن عمر نے ان سے بیان کیا کہ میں نے سفر میں سنتوں کے متعلق عبداللہ بن عمر (رض) سے پوچھا آپ نے فرمایا کہ میں نبی کریم ﷺ کی صحبت میں رہا ہوں۔ میں نے آپ کو سفر میں کبھی سنتیں پڑھتے نہیں دیکھا اور اللہ جل ذکرہ کا ارشاد ہے کہ تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔
باب: سفر میں جس نے فرض نماز سے پہلے اور پیچھے سنتوں کو نہیں پڑھا۔
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے عیسیٰ بن حفص بن عاصم نے، انہوں نے کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا، انہوں نے عبداللہ بن عمر (رض) کو یہ فرماتے سنا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی صحبت میں رہا ہوں، آپ ﷺ سفر میں دو رکعت (فرض) سے زیادہ نہیں پڑھا کرتے تھے۔ ابوبکر، عمر اور عثمان (رض) عنہم بھی ایسا ہی کرتے تھے۔
باب: فرض نمازوں کے بعد اور اول کی سنتوں کے علاوہ اور دوسرے نفل سفر میں پڑھنا۔
ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن مرہ نے، ان سے ابن ابی لیلیٰ نے، انہوں نے کہا کہ ہمیں کسی نے یہ خبر نہیں دی کہ رسول اللہ ﷺ کو انہوں نے چاشت کی نماز پڑھتے دیکھا ہاں ام ہانی (رض) کا بیان ہے کہ فتح مکہ کے دن نبی کریم ﷺ نے ان کے گھر غسل کیا تھا اور اس کے بعد آپ ﷺ نے آٹھ رکعتیں پڑھی تھیں، میں نے آپ ﷺ کو کبھی اتنی ہلکی پھلکی نماز پڑھتے نہیں دیکھا البتہ آپ ﷺ رکوع اور سجدہ پوری طرح کرتے تھے۔ اور لیث بن سعد (رح) نے کہا کہ مجھ سے یونس نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، انہوں نے کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن عامر بن ربیعہ نے بیان کیا کہ انہیں ان کے باپ نے خبر دی کہ انہوں نے خود دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ (رات میں) سفر میں نفل نمازیں سواری پر پڑھتے تھے، وہ جدھر آپ ﷺ کو لے جاتی ادھر ہی سہی۔
باب: فرض نمازوں کے بعد اور اول کی سنتوں کے علاوہ اور دوسرے نفل سفر میں پڑھنا۔
اور لیث بن سعد رحمہ اللہ نے کہا کہ مجھ سے یونس نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، انہوں نے کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن عامر بن ربیعہ نے بیان کیا کہ انہیں ان کے باپ نے خبر دی کہ انہوں نے خود دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (رات میں) سفر میں نفل نمازیں سواری پر پڑھتے تھے، وہ جدھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے جاتی ادھر ہی سہی۔
باب: فرض نمازوں کے بعد اور اول کی سنتوں کے علاوہ اور دوسرے نفل سفر میں پڑھنا۔
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے اور انہیں سالم بن عبداللہ بن عمر نے اپنے باپ عبداللہ بن عمر (رض) سے کہ رسول اللہ ﷺ اپنی اونٹنی کی پیٹھ پر خواہ اس کا منہ کسی طرف ہوتا نفل نماز سر کے اشاروں سے پڑھتے تھے۔ عبداللہ بن عمر (رض) بھی اسی طرح کیا کرتے تھے۔
باب: سفر میں مغرب اور عشاء ایک ساتھ ملا کر پڑھنا۔
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے زہری سے سنا، انہوں نے سالم سے اور انہوں نے اپنے باپ عبداللہ بن عمر سے کہ نبی کریم ﷺ کو اگر سفر میں جلد چلنا منظور ہوتا تو مغرب اور عشاء ایک ساتھ ملا کر پڑھتے۔ اور ابراہیم بن طہمان نے کہا کہ ان سے حسین معلم نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عباس (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ سفر میں ظہر اور عصر کی نماز ایک ساتھ ملا کر پڑھتے، اسی طرح مغرب اور عشاء کی بھی ایک ساتھ ملا کر پڑھتے تھے۔ اور ابن طہمان ہی نے بیان کیا کہ ان سے حسین نے، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے، ان سے حفص بن عبیداللہ بن انس (رض) نے اور ان سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ سفر میں مغرب اور عشاء ایک ساتھ ملا کر پڑھتے تھے۔ اس روایت کی متابعت علی بن مبارک اور حرب نے یحییٰ سے کی ہے۔ یحییٰ ، حفص سے اور حفص انس (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے (مغرب اور عشاء) ایک ساتھ ملا کر پڑھی تھیں۔
باب: سفر میں مغرب اور عشاء ایک ساتھ ملا کر پڑھنا۔
اور ابراہیم بن طہمان نے کہا کہ ان سے حسین معلم نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں ظہر اور عصر کی نماز ایک ساتھ ملا کر پڑھتے، اسی طرح مغرب اور عشاء کی بھی ایک ساتھ ملا کر پڑھتے تھے۔
باب: سفر میں مغرب اور عشاء ایک ساتھ ملا کر پڑھنا۔
اور ابن طہمان ہی نے بیان کیا کہ ان سے حسین نے، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے، ان سے حفص بن عبیداللہ بن انس رضی اللہ عنہ نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں مغرب اور عشاء ایک ساتھ ملا کر پڑھتے تھے۔ اس روایت کی متابعت علی بن مبارک اور حرب نے یحییٰ سے کی ہے۔ یحییٰ، حفص سے اور حفص انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (مغرب اور عشاء) ایک ساتھ ملا کر پڑھی تھیں۔
باب: جب مغرب اور عشاء ملا کر پڑھے تو کیا ان کے لیے اذان و تکبیر کہی جائے گی؟
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھے سالم نے عبداللہ بن عمر (رض) سے خبر دی۔ آپ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کو جب جلدی سفر طے کرنا ہوتا تو مغرب کی نماز مؤخر کردیتے۔ پھر اسے عشاء کے ساتھ ملا کر پڑھتے تھے۔ سالم نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عمر (رض) بھی اگر سفر سرعت کے ساتھ طے کرنا چاہتے تو اسی طرح کرتے تھے۔ مغرب کی تکبیر پہلے کہی جاتی اور آپ تین رکعت مغرب کی نماز پڑھ کر سلام پھیر دیتے۔ پھر معمولی سے توقف کے بعد عشاء کی تکبیر کہی جاتی اور آپ اس کی دو رکعتیں پڑھ کر سلام پھیر دیتے۔ دونوں نمازوں کے درمیان ایک رکعت بھی سنت وغیرہ نہ پڑھتے اور اسی طرح عشاء کے بعد بھی نماز نہیں پڑھتے تھے۔ یہاں تک کہ درمیان شب میں آپ اٹھتے (اور تہجد ادا کرتے) ۔
باب: جب مغرب اور عشاء ملا کر پڑھے تو کیا ان کے لیے اذان و تکبیر کہی جائے گی؟
ہم سے اسحاق نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدالصمد بن عبدالوارث نے بیان کیا۔ انہوں نے کہا ہم سے حرب بن شداد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے حفص بن عبیداللہ بن انس نے بیان کیا کہ انس (رض) نے ان سے یہ بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ ان دو نمازوں یعنی مغرب اور عشاء کو سفر میں ایک ساتھ ملا کر پڑھا کرتے تھے۔
باب: مسافر جب سورج ڈھلنے سے پہلے کوچ کرے تو ظہر کی نماز میں عصر کا وقت آنے تک دیر کرے۔
ہم سے حسان واسطی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے مفضل بن فضالہ نے بیان کیا، ان سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ اگر سورج ڈھلنے سے پہلے سفر شروع کرتے تو ظہر کی نماز عصر تک نہ پڑھتے پھر ظہر اور عصر ایک ساتھ پڑھتے اور اگر سورج ڈھل چکا ہوتا تو پہلے ظہر پڑھ لیتے پھر سوار ہوتے۔
باب: سفر اگر سورج ڈھلنے کے بعد شروع ہو تو پہلے ظہر پڑھ لے پھر سوار ہو۔
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے مفضل بن فضالہ نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے اور ان سے انس بن مالک (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ جب سورج ڈھلنے سے پہلے سفر شروع کرتے تو ظہر عصر کا وقت آنے تک نہ پڑھتے۔ پھر کہیں (راستے میں) ٹھہرتے اور ظہر اور عصر ملا کر پڑھتے لیکن اگر سفر شروع کرنے سے پہلے سورج ڈھل چکا ہوتا تو پہلے ظہر پڑھتے پھر سوار ہوتے۔
باب: نماز بیٹھ کر پڑھنے کا بیان۔
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، ان سے امام مالک (رح) نے، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے باپ عروہ نے، ان سے عائشہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ بیمار تھے اس لیے آپ ﷺ نے اپنے گھر میں بیٹھ کر نماز پڑھائی، بعض لوگ آپ ﷺ کے پیچھے کھڑے ہو کر پڑھنے لگے۔ لیکن آپ ﷺ نے انہیں اشارہ کیا کہ بیٹھ جاؤ۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا کہ امام اس لیے ہے کہ اس کی پیروی کی جائے اس لیے جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو اور جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ۔
باب: نماز بیٹھ کر پڑھنے کا بیان۔
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے زہری سے بیان کیا اور ان سے انس (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ گھوڑے سے گرپڑے اور اس کی وجہ سے آپ ﷺ کے دائیں پہلو پر زخم آگئے۔ ہم مزاج پرسی کے لیے گئے تو نماز کا وقت آگیا۔ آپ ﷺ نے بیٹھ کر نماز پڑھائی۔ ہم نے بھی بیٹھ کر آپ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھی۔ آپ ﷺ نے اسی موقع پر فرمایا تھا کہ امام اس لیے ہے تاکہ اس کی پیروی کی جائے۔ اس لیے جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو، جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو، جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ اور جب وہ سمع الله لمن حمده کہے تو تم ربنا ولک الحمد کہو۔
باب: نماز بیٹھ کر پڑھنے کا بیان۔
ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہمیں روح بن عبادہ نے خبر دی، انہوں نے کہا ہمیں حسین نے خبر دی، انہیں عبداللہ بن بریدہ نے، انہیں عمران بن حصین (رض) نے کہ آپ نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا (دوسری سند) اور ہمیں اسحاق بن منصور نے خبر دی، کہا کہ ہمیں عبدالصمد نے خبر دی، کہا کہ میں نے اپنے باپ عبدالوارث سے سنا، کہا کہ ہم سے حسین نے بیان کیا اور ان سے ابن بریدہ نے کہا کہ مجھ سے عمران بن حصین (رض) نے بیان کیا، وہ بواسیر کے مریض تھے انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے کسی آدمی کے بیٹھ کر نماز پڑھنے کے بارے میں پوچھا کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ افضل یہی ہے کہ کھڑے ہو کر پڑھے کیونکہ بیٹھ کر پڑھنے والے کو کھڑے ہو کر پڑھنے والے سے آدھا ثواب ملتا ہے اور لیٹے لیٹے پڑھنے والے کو بیٹھ کر پڑھنے والے سے آدھا ثواب ملتا ہے۔
باب: بیٹھ کر اشاروں سے نماز پڑھنا۔
ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حسین معلم نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن بریدہ نے کہ عمران بن حصین نے جنہیں بواسیر کا مرض تھا۔ اور کبھی ابومعمر نے یوں کہا کہ عمران بن حصین (رض) سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے بیٹھ کر نماز پڑھنے کے بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ کھڑے ہو کر نماز پڑھنا افضل ہے لیکن اگر کوئی بیٹھ کر نماز پڑھے تو کھڑے ہو کر پڑھنے والے سے اسے آدھا ثواب ملے گا اور لیٹ کر پڑھنے والے کو بیٹھ کر پڑھنے والے سے آدھا ثواب ملے گا۔ ابوعبداللہ (امام بخاری (رح)) فرماتے ہیں کہ حدیث کے الفاظ میں نائم مضطجع کے معنی میں ہے یعنی لیٹ کر نماز پڑھنے والا۔
باب: جب بیٹھ کر بھی نماز پڑھنے کی طاقت نہ ہو تو کروٹ کے بل لیٹ کر پڑھے۔
ہم سے عبدان نے بیان کیا، ان سے امام عبداللہ بن مبارک نے، ان سے ابراہیم بن طہمان نے، انہوں نے کہا کہ مجھ سے حسین مکتب نے (جو بچوں کو لکھنا سکھاتا تھا) بیان کیا، ان سے ابن بریدہ نے اور ان سے عمران بن حصین (رض) نے کہا کہ مجھے بواسیر کا مرض تھا۔ اس لیے میں نے نبی کریم ﷺ سے نماز کے بارے میں دریافت کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ کھڑے ہو کر نماز پڑھا کرو اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو بیٹھ کر اور اگر اس کی بھی نہ ہو تو پہلو کے بل لیٹ کر پڑھ لو۔
باب: اگر کسی شخص نے نماز بیٹھ کر شروع کی لیکن دوران نماز میں وہ تندرست ہو گیا یا مرض میں کچھ کمی محسوس کی تو باقی نماز کھڑے ہو کر پوری کرے۔
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک (رح) نے خبر دی، انہیں ہشام بن عروہ نے، انہیں ان کے باپ عروہ بن زبیر نے اور انہیں ام المؤمنین عائشہ صدیقہ (رض) نے کہ آپ نے رسول اللہ ﷺ کو کبھی بیٹھ کر نماز پڑھتے نہیں دیکھا البتہ جب آپ ضعیف ہوگئے تو قرآت قرآن نماز میں بیٹھ کر کرتے تھے، پھر جب رکوع کا وقت آتا تو کھڑے ہوجاتے اور پھر تقریباً تیس یا چالیس آیتیں پڑھ کر رکوع کرتے۔
باب: اگر کسی شخص نے نماز بیٹھ کر شروع کی لیکن دوران نماز میں وہ تندرست ہو گیا یا مرض میں کچھ کمی محسوس کی تو باقی نماز کھڑے ہو کر پوری کرے۔
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک (رح) نے عبداللہ بن یزید اور عمر بن عبیداللہ کے غلام ابوالنضر سے خبر دی، انہیں ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف نے، انہیں ام المؤمنین عائشہ صدیقہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ تہجد کی نماز بیٹھ کر پڑھنا چاہتے تو قرآت بیٹھ کر کرتے۔ جب تقریباً تیس چالیس آیتیں پڑھنی باقی رہ جاتیں تو آپ ﷺ انہیں کھڑے ہو کر پڑھتے۔ پھر رکوع اور سجدہ کرتے پھر دوسری رکعت میں بھی اسی طرح کرتے۔ نماز سے فارغ ہونے پر دیکھتے کہ میں جاگ رہی ہوں تو مجھ سے باتیں کرتے لیکن اگر میں سوتی ہوتی تو آپ ﷺ بھی لیٹ جاتے۔
باب: رات میں تہجد پڑھنا۔
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سلیمان بن ابی مسلم نے بیان کیا، ان سے طاؤس نے اور انہوں نے ابن عباس (رض) سے سنا کہ رسول اللہ ﷺ جب رات میں تہجد کے لیے کھڑے ہوتے تو یہ دعا پڑھتے۔ اللهم لک الحمد أنت قيم السموات والأرض ومن فيهن ولک الحمد، لک ملک السموات والأرض ومن فيهن، ولک الحمد أنت نور السموات والأرض، ولک الحمد أنت الحق، ووعدک الحق، ولقاؤك حق، وقولک حق، والجنة حق، والنار حق، والنبيون حق، ومحمد صلى الله عليه وسلم حق، والساعة حق، اللهم لك أسلمت، وبک آمنت وعليك توکلت، وإليك أنبت، وبک خاصمت، وإليك حاکمت، فاغفر لي ما قدمت وما أخرت، وما أسررت وما أعلنت، أنت المقدم وأنت المؤخر، لا إله إلا أنت، لا إله غيرك (ترجمہ) اے میرے اللہ ! ہر طرح کی تعریف تیرے ہی لیے زیبا ہے، تو آسمان اور زمین اور ان میں رہنے والی تمام مخلوق کا سنبھالنے والا ہے اور حمد تمام کی تمام بس تیرے ہی لیے مناسب ہے آسمان اور زمین اور ان کی تمام مخلوقات پر حکومت صرف تیرے ہی لیے ہے اور تعریف تیرے ہی لیے ہے، تو آسمان اور زمین کا نور ہے اور تعریف تیرے ہی لیے زیبا ہے، تو سچا ہے، تیرا وعدہ سچا، تیری ملاقات سچی، تیرا فرمان سچا ہے، جنت سچ ہے، دوزخ سچ ہے، انبیاء سچے ہیں۔ محمد ﷺ سچے ہیں اور قیامت کا ہونا سچ ہے۔ اے میرے اللہ ! میں تیرا ہی فرماں بردار ہوں اور تجھی پر ایمان رکھتا ہوں، تجھی پر بھروسہ ہے، تیری ہی طرف رجوع کرتا ہوں، تیرے ہی عطا کئے ہوئے دلائل کے ذریعہ بحث کرتا ہوں اور تجھی کو حکم بناتا ہوں۔ پس جو خطائیں مجھ سے پہلے ہوئیں اور جو بعد میں ہوں گی ان سب کی مغفرت فرما، خواہ وہ ظاہر ہوئی ہوں یا پوشیدہ۔ آگے کرنے والا اور پیچھے رکھنے والا تو ہی ہے۔ معبود صرف تو ہی ہے۔ یا (یہ کہا کہ) تیرے سوا کوئی معبود نہیں ۔ ابوسفیان نے بیان کیا کہ عبدالکریم ابوامیہ نے اس دعا میں یہ زیادتی کی ہے ( لا حول ولا قوة إلا بالله ) سفیان نے بیان کیا کہ سلیمان بن مسلم نے طاؤس سے یہ حدیث سنی تھی، انہوں نے عبداللہ بن عباس (رض) سے اور انہوں نے نبی کریم ﷺ سے۔
باب: رات کی نماز کی فضیلت کا بیان۔
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ہشام بن یوسف صنعانی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے معمر نے حدیث بیان کی (دوسری سند) اور مجھ سے محمود بن غیلان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں سالم نے، انہیں ان کے باپ عبداللہ بن عمر (رض) نے بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں جب کوئی خواب دیکھتا تو آپ ﷺ سے بیان کرتا (آپ ﷺ تعبیر دیتے) میرے بھی دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ میں بھی کوئی خواب دیکھتا اور آپ ﷺ سے بیان کرتا، میں ابھی نوجوان تھا اور آپ ﷺ کے زمانہ میں مسجد میں سوتا تھا۔ چناچہ میں نے خواب میں دیکھا کہ دو فرشتے مجھے پکڑ کر دوزخ کی طرف لے گئے۔ میں نے دیکھا کہ دوزخ پر کنویں کی طرح بندش ہے (یعنی اس پر کنویں کی سی منڈیر بنی ہوئی ہے) اس کے دو جانب تھے۔ دوزخ میں بہت سے ایسے لوگوں کو دیکھا جنہیں میں پہچانتا تھا۔ میں کہنے لگا دوزخ سے اللہ کی پناہ ! انہوں نے بیان کیا کہ پھر ہم کو ایک فرشتہ ملا اور اس نے مجھ سے کہا ڈرو نہیں۔ یہ خواب میں نے (اپنی بہن) حفصہ (رض) کو سنایا اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو۔ تعبیر میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ عبداللہ بہت خوب لڑکا ہے۔ کاش رات میں نماز پڑھا کرتا۔ (راوی نے کہا کہ آپ کے اس فرمان کے بعد) عبداللہ بن عمر (رض) رات میں بہت کم سوتے تھے (زیادہ عبادت ہی کرتے رہتے) ۔
باب: رات کی نماز کی فضیلت کا بیان۔
یہ خواب میں نے (اپنی بہن) حفصہ رضی اللہ عنہا کو سنایا اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو۔ تعبیر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عبداللہ بہت خوب لڑکا ہے۔ کاش رات میں نماز پڑھا کرتا۔ (راوی نے کہا کہ آپ کے اس فرمان کے بعد) عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما رات میں بہت کم سوتے تھے (زیادہ عبادت ہی کرتے رہتے)۔
باب: رات کی نمازوں میں لمبے سجدے کرنا۔
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھے عروہ نے خبر دی اور انہیں ام المؤمنین عائشہ صدیقہ (رض) نے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ (رات میں) گیارہ رکعتیں پڑھتے تھے۔ آپ ﷺ کی یہی نماز تھی۔ لیکن اس کے سجدے اتنے لمبے ہوا کرتے کہ تم میں سے کوئی نبی کریم ﷺ کے سر اٹھانے سے قبل پچاس آیتیں پڑھ سکتا تھا (اور طلوع فجر ہونے پر) فجر کی نماز سے پہلے آپ ﷺ دو رکعت سنت پڑھتے۔ اس کے بعد دائیں پہلو پر لیٹ جاتے۔ آخر مؤذن آپ ﷺ کو نماز کے لیے بلانے آتا۔
باب: مریض بیماری میں تہجد ترک سکتا ہے۔
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے اسود بن قیس سے بیان کیا، کہا کہ میں نے جندب (رض) سے سنا، آپ نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ بیمار ہوئے تو ایک یا دو رات تک (نماز کے لیے) نہ اٹھ سکے۔
باب: مریض بیماری میں تہجد ترک سکتا ہے۔
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں سفیان ثوری نے اسود بن قیس سے خبر دی، ان سے جندب بن عبداللہ (رض) نے فرمایا کہ جبرائیل (علیہ السلام) (ایک مرتبہ چند دنوں تک) نبی کریم ﷺ کے پاس (وحی لے کر) نہیں آئے تو قریش کی ایک عورت (ام جمیل ابولہب کی بیوی) نے کہا کہ اب اس کے شیطان نے اس کے پاس آنے سے دیر لگائی۔ اس پر یہ سورت اتری والضحى * والليل إذا سجى * ما ودعک ربک وما قلى۔
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رات کی نماز اور نوافل پڑھنے کے لیے ترغیب دلانا لیکن واجب نہ کرنا۔
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، انہیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں ہند بنت حارث نے اور انہیں ام سلمہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ ایک رات جاگے تو فرمایا سبحان اللہ ! آج رات کیا کیا بلائیں اتری ہیں اور ساتھ ہی (رحمت اور عنایت کے) کیسے خزانے نازل ہوئے ہیں۔ ان حجرے والیوں (ازواج مطہرات رضوان اللہ علیہن) کو کوئی جگانے والا ہے افسوس ! کہ دنیا میں بہت سی کپڑے پہننے والی عورتیں آخرت میں ننگی ہوں گی۔
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رات کی نماز اور نوافل پڑھنے کے لیے ترغیب دلانا لیکن واجب نہ کرنا۔
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی، کہا کہ مجھے زین العابدین علی بن حسین نے خبر دی، اور انہیں حسین بن علی (رض) نے خبر دی کہ علی بن ابی طالب (رض) نے انہیں خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ ایک رات ان کے اور فاطمہ (رض) کے پاس آئے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیا تم لوگ (تہجد کی) نماز نہیں پڑھو گے ؟ میں عرض کی کہ یا رسول اللہ ! ہماری روحیں اللہ کے قبضہ میں ہیں، جب وہ چاہے گا ہمیں اٹھا دے گا۔ ہماری اس عرض پر آپ ﷺ واپس تشریف لے گئے۔ آپ ﷺ نے کوئی جواب نہیں دیا لیکن واپس جاتے ہوئے میں نے سنا کہ آپ ﷺ ران پر ہاتھ مار کر (سورۃ الکہف کی یہ آیت پڑھ رہے تھے) آدمی سب سے زیادہ جھگڑالو ہے وكان الإنسان أكثر شىء جدلا۔
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رات کی نماز اور نوافل پڑھنے کے لیے ترغیب دلانا لیکن واجب نہ کرنا۔
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے امام مالک نے ابن شہاب زہری سے بیان کیا، ان سے عروہ نے، ان سے عائشہ (رض) نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ ایک کام کو چھوڑ دیتے اور آپ ﷺ کو اس کا کرنا پسند ہوتا۔ اس خیال سے ترک کردیتے کہ دوسرے صحابہ بھی اس پر (آپ کو دیکھ کر) عمل شروع کردیں اور اس طرح وہ کام ان پر فرض ہوجائے۔ چناچہ رسول اللہ ﷺ نے چاشت کی نماز کبھی نہیں پڑھی لیکن میں پڑھتی ہوں۔
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رات کی نماز اور نوافل پڑھنے کے لیے ترغیب دلانا لیکن واجب نہ کرنا۔
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک (رح) نے خبر دی، انہیں ابن شہاب زہری نے، انہیں عروہ بن زبیر نے، انہیں ام المؤمنین عائشہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک رات مسجد میں نماز پڑھی۔ صحابہ نے بھی آپ ﷺ کے ساتھ یہ نماز پڑھی۔ دوسری رات بھی آپ ﷺ نے یہ نماز پڑھی تو نمازیوں کی تعداد بہت بڑھ گئی تیسری یا چوتھی رات تو پورا اجتماع ہی ہوگیا تھا۔ لیکن نبی کریم ﷺ اس رات نماز پڑھانے تشریف نہیں لائے۔ صبح کے وقت آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم لوگ جتنی بڑی تعداد میں جمع ہوگئے تھے۔ میں نے اسے دیکھا لیکن مجھے باہر آنے سے یہ خیال مانع رہا کہ کہیں تم پر یہ نماز فرض نہ ہوجائے۔ یہ رمضان کا واقعہ تھا۔
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو نماز میں اتنی دیر تک کھڑے رہتے کہ پاؤں سوج جاتے۔
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے مسعر نے بیان کیا، ان سے زیاد بن علاقہ نے، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے مغیرہ بن شعبہ (رض) کو یہ کہتے سنا کہ نبی کریم ﷺ اتنی دیر تک کھڑے ہو کر نماز پڑھتے رہتے کہ آپ ﷺ کے قدم یا (یہ کہا کہ) پنڈلیوں پر ورم آجاتا، جب آپ ﷺ سے اس کے متعلق کچھ عرض کیا جاتا تو فرماتے کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں ۔
باب: جو شخص سحر کے وقت سو گیا۔
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عمرو بن دینار نے بیان کیا کہ عمرو بن اوس نے انہیں خبر دی اور انہیں عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) نے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ سب نمازوں میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ نماز داؤد (علیہ السلام) کی نماز ہے اور روزوں میں بھی داؤد (علیہ السلام) ہی کا روزہ۔ آپ آدھی رات تک سوتے، اس کے بعد تہائی رات نماز پڑھنے میں گزارتے۔ پھر رات کے چھٹے حصے میں بھی سو جاتے۔ اسی طرح آپ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن افطار کرتے تھے۔
باب: جو شخص سحر کے وقت سو گیا۔
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا کہ مجھے میرے باپ عثمان بن جبلہ نے شعبہ سے خبر دی، انہیں اشعث نے۔ اشعث نے کہا کہ میں نے اپنے باپ (سلیم بن اسود) سے سنا اور میرے باپ نے مسروق سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عائشہ (رض) سے پوچھا کہ نبی کریم ﷺ کو کون سا عمل زیادہ پسند تھا ؟ آپ نے جواب دیا کہ جس پر ہمیشگی کی جائے (خواہ وہ کوئی بھی نیک کام ہو) میں نے دریافت کیا کہ آپ (رات میں نماز کے لیے) کب کھڑے ہوتے تھے ؟ آپ نے فرمایا کہ جب مرغ کی آواز سنتے۔
رات کے آخری حصہ میں سوجانے کا بیان
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، کہا کہ میرے باپ سعد بن ابراہیم نے اپنے چچا ابوسلمہ سے بیان کیا کہ عائشہ صدیقہ (رض) نے بتلایا کہ انہوں نے اپنے یہاں سحر کے وقت رسول اللہ ﷺ کو ہمیشہ لیٹے ہوئے پایا۔
باب: اس بارے میں جو سحری کھانے کے بعد صبح کی نماز پڑھنے تک نہیں سویا۔
ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے روح بن عبادہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سعید بن ابی عروبہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے، ان سے انس بن مالک (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ اور زید بن ثابت (رض) دونوں نے مل کر سحری کھائی، سحری سے فارغ ہو کر آپ ﷺ نماز کے لیے کھڑے ہوگئے اور دونوں نے نماز پڑھی۔ ہم نے انس (رض) سے پوچھا کہ سحری سے فراغت اور نماز شروع کرنے کے درمیان کتنا فاصلہ رہا ہوگا ؟ آپ نے جواب دیا کہ اتنی دیر میں ایک آدمی پچاس آیتیں پڑھ سکتا ہے۔
باب: رات کے قیام میں نماز کو لمبا کرنا (یعنی قرآت بہت کرنا)۔
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے اعمش سے بیان کیا، ان سے ابو وائل نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک مرتبہ رات کو نماز پڑھی۔ آپ ﷺ نے اتنا لمبا قیام کیا کہ میرے دل میں ایک غلط خیال پیدا ہوگیا۔ ہم نے پوچھا کہ وہ غلط خیال کیا تھا تو آپ نے بتایا کہ میں نے سوچا کہ بیٹھ جاؤں اور نبی کریم ﷺ کا ساتھ چھوڑ دوں۔
باب: رات کے قیام میں نماز کو لمبا کرنا (یعنی قرآت بہت کرنا)۔
ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے خالد بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے حصین بن عبدالرحمٰن نے ان سے ابو وائل نے اور ان سے حذیفہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ جب رات کو تہجد کے لیے کھڑے ہوتے تو پہلے اپنا منہ مسواک سے خوب صاف کرتے۔
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز کی کیا کیفیت تھی؟ اور رات کی نماز کیوں کر پڑھنی چاہیے؟
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی، کہا کہ مجھے سالم بن عبداللہ نے خبر دی کہ عبداللہ بن عمر (رض) نے فرمایا ایک شخص نے دریافت کیا یا رسول اللہ ﷺ ! رات کی نماز کس طرح پڑھی جائے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا دو ، دو رکعت اور جب طلوع صبح ہونے کا اندیشہ ہو تو ایک رکعت وتر پڑھ کر اپنی ساری نماز کو طاق بنا لے۔
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز کی کیا کیفیت تھی؟ اور رات کی نماز کیوں کر پڑھنی چاہیے؟
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے کہا کہ مجھ سے ابوحمزہ نے بیان کیا اور ان سے ابن عباس (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ کی رات کی نماز تیرہ رکعت ہوتی تھی۔
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز کی کیا کیفیت تھی؟ اور رات کی نماز کیوں کر پڑھنی چاہیے؟
ہم سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں اسرائیل نے خبر دی، انہیں ابوحصین عثمان بن عاصم نے، انہیں یحییٰ بن وثاب نے، انہیں مسروق بن اجدع نے، آپ نے کہا کہ میں نے عائشہ صدیقہ (رض) سے نبی کریم ﷺ کی رات کی نماز کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ آپ ﷺ سات، نو اور گیارہ تک رکعتیں پڑھتے تھے۔ فجر کی سنت اس کے سوا ہوتی۔
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز کی کیا کیفیت تھی؟ اور رات کی نماز کیوں کر پڑھنی چاہیے؟
ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں حنظلہ بن ابی سفیان نے خبر دی، انہیں قاسم بن محمد نے اور انہیں عائشہ صدیقہ (رض) نے، آپ نے بتلایا کہ نبی کریم ﷺ رات کو تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے۔ وتر اور فجر کی دو سنت رکعتیں اسی میں ہوتیں۔
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رات کو قیام کرنے اور سونے کا بیان۔
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، ان سے حمید طویل نے، انہوں نے انس (رض) سے سنا، وہ کہتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ کسی مہینہ میں روزہ نہ رکھتے تو ایسا معلوم ہوتا کہ اب آپ ﷺ اس مہینہ میں روزہ ہی نہیں رکھیں گے اور اگر کسی مہینہ میں روزہ رکھنا شروع کرتے تو خیال ہوتا کہ اب آپ ﷺ کا اس مہینہ کا ایک دن بھی بغیر روزہ کے نہیں رہ جائے گا اور رات کو نماز تو ایسی پڑھتے تھے کہ تم جب چاہتے آپ کو نماز پڑھتے دیکھ لیتے اور جب چاہتے سوتا دیکھ لیتے۔ محمد بن جعفر کے ساتھ اس حدیث کو سلیمان اور ابوخالد نے بھی حمید سے روایت کیا ہے۔
باب: جب آدمی رات کو نماز نہ پڑھے تو شیطان کا گدی پر گرہ لگانا۔
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں امام مالک (رح) نے خبر دی، انہیں ابوالزناد نے، انہیں اعرج نے اور انہیں ابوہریرہ (رض) نے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ شیطان آدمی کے سر کے پیچھے رات میں سوتے وقت تین گرہیں لگا دیتا ہے اور ہر گرہ پر یہ افسوں پھونک دیتا ہے کہ سو جا ابھی رات بہت باقی ہے پھر اگر کوئی بیدار ہو کر اللہ کی یاد کرنے لگا تو ایک گرہ کھل جاتی ہے پھر جب وضو کرتا ہے تو دوسری گرہ کھل جاتی ہے۔ پھر اگر نماز (فرض یا نفل) پڑھے تو تیسری گرہ بھی کھل جاتی ہے۔ اس طرح صبح کے وقت آدمی چاق و چوبند خوش مزاج رہتا ہے۔ ورنہ سست اور بدباطن رہتا ہے۔
باب: جب آدمی رات کو نماز نہ پڑھے تو شیطان کا گدی پر گرہ لگانا۔
ہم سے مؤمل بن ہشام نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسماعیل بن علیہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عوف اعرابی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابورجاء نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سمرہ بن جندب (رض) نے بیان کیا ان سے نبی کریم ﷺ نے خواب بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ جس کا سر پتھر سے کچلا جا رہا تھا وہ قرآن کا حافظ تھا مگر وہ قرآن سے غافل ہوگیا اور فرض نماز پڑھے بغیر سو جایا کرتا تھا۔
باب: جو شخص سوتا رہے اور (صبح کی) نماز نہ پڑھے، معلوم ہوا کہ شیطان نے اس کے کانوں میں پیشاب کر دیا ہے۔
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوالاحوص سلام بن سلیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے منصور بن معتمر نے ابو وائل سے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ کے سامنے ایک شخص کا ذکر آیا کہ وہ صبح تک پڑا سوتا رہا اور فرض نماز کے لیے بھی نہیں اٹھا۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ شیطان نے اس کے کان میں پیشاب کردیا ہے۔
باب: آخر رات میں دعا اور نماز کا بیان۔
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، ان سے امام مالک (رح) نے، ان نے ابن شہاب نے، ان سے ابوسلمہ عبدالرحمٰن اور ابوعبداللہ اغر نے اور ان دونوں حضرات سے ابوہریرہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ہمارا پروردگار بلند برکت والا ہے ہر رات کو اس وقت آسمان دنیا پر آتا ہے جب رات کا آخری تہائی حصہ رہ جاتا ہے۔ وہ کہتا ہے کوئی مجھ سے دعا کرنے والا ہے کہ میں اس کی دعا قبول کروں، کوئی مجھ سے مانگنے والا ہے کہ میں اسے دوں کوئی مجھ سے بخشش طلب کرنے والا ہے کہ میں اس کو بخش دوں۔
باب: جو شخص رات کے شروع میں سو جائے اور اخیر میں جاگے۔
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، (دوسری سند) اور مجھ سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق عمرو بن عبداللہ نے، ان سے اسود بن یزید نے، انہوں نے بتلایا کہ میں نے عائشہ صدیقہ (رض) سے پوچھا کہ نبی کریم ﷺ رات میں نماز کیونکر پڑھتے تھے ؟ آپ نے بتلایا کہ شروع رات میں سو رہتے اور آخر رات میں بیدار ہو کر تہجد کی نماز پڑھتے۔ اس کے بعد بستر پر آجاتے اور جب مؤذن اذان دیتا تو جلدی سے اٹھ بیٹھتے۔ اگر غسل کی ضرورت ہوتی تو غسل کرتے ورنہ وضو کر کے باہر تشریف لے جاتے۔
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رمضان اور غیر رمضان میں رات کو نماز پڑھنا۔
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک (رح) نے خبر دی، انہیں سعید بن ابوسعید مقبری نے خبر دی، انہیں ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے خبر دی کہ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ (رض) سے انہوں نے پوچھا کہ نبی کریم ﷺ رمضان میں (رات کو) کتنی رکعتیں پڑھتے تھے۔ آپ نے جواب دیا کہ رسول اللہ ﷺ (رات میں) گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ خواہ رمضان کا مہینہ ہوتا یا کوئی اور۔ پہلے آپ ﷺ چار رکعت پڑھتے۔ ان کی خوبی اور لمبائی کا کیا پوچھنا۔ پھر آپ ﷺ چار رکعت اور پڑھتے ان کی خوبی اور لمبائی کا کیا پوچھنا۔ پھر تین رکعتیں پڑھتے۔ عائشہ (رض) نے فرمایا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ وتر پڑھنے سے پہلے ہی سو جاتے ہیں ؟ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ عائشہ ! میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن میرا دل نہیں سوتا۔
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رمضان اور غیر رمضان میں رات کو نماز پڑھنا۔
ہم سے محمد بن مثنی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا اور انہوں نے کہا کہ ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا کہ مجھے میرے باپ عروہ نے خبر دی کہ عائشہ صدیقہ (رض) نے بتلایا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو رات کی کسی نماز میں بیٹھ کر قرآن پڑھتے نہیں دیکھا۔ یہاں تک کہ آپ ﷺ بوڑھے ہوگئے تو بیٹھ کر قرآن پڑھتے تھے لیکن جب تیس چالیس آیتیں رہ جاتیں تو کھڑے ہوجاتے پھر اس کو پڑھ کر رکوع کرتے تھے۔
باب: دن اور رات میں باوضو رہنے کی فضیلت اور وضو کے بعد رات اور دن میں نماز پڑھنے کی فضیلت کا بیان۔
ہم سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابواسامہ حماد بن اسابہ نے بیان کیا، ان سے ابوحیان یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، ان سے ابوزرعہ نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے بلال (رض) سے فجر کے وقت پوچھا کہ اے بلال ! مجھے اپنا سب سے زیادہ امید والا نیک کام بتاؤ جسے تم نے اسلام لانے کے بعد کیا ہے کیونکہ میں نے جنت میں اپنے آگے تمہارے جوتوں کی چاپ سنی ہے۔ بلال (رض) نے عرض کیا میں نے تو اپنے نزدیک اس سے زیادہ امید کا کوئی کام نہیں کیا کہ جب میں نے رات یا دن میں کسی وقت بھی وضو کیا تو میں اس وضو سے نفل نماز پڑھتا رہتا جتنی میری تقدیر لکھی گئی تھی۔
باب: عبادت میں بہت سختی اٹھانا مکروہ ہے۔
ہم سے ابو معمرعبداللہ بن عمرو نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالوارث بن سعد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالعزیز بن صہیب نے بیان کیا، ان سے انس بن مالک (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ مسجد میں تشریف لے گئے۔ آپ ﷺ کی نظر ایک رسی پر پڑی جو دو ستونوں کے درمیان تنی ہوئی تھی۔ دریافت فرمایا کہ یہ رسی کیسی ہے ؟ لوگوں نے عرض کی کہ یہ زینب (رض) نے باندھی ہے جب وہ (نماز میں کھڑی کھڑی) تھک جاتی ہیں تو اس سے لٹکی رہتی ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ نہیں یہ رسی نہیں ہونی چاہیے اسے کھول ڈالو، تم میں ہر شخص کو چاہیے جب تک دل لگے نماز پڑھے، تھک جائے تو بیٹھ جائے۔
باب: عبادت میں بہت سختی اٹھانا مکروہ ہے۔
اور امام بخاری (رح) نے فرمایا کہ ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، ان سے مالک (رح) نے، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے فرمایا کہ میرے پاس بنو اسد کی ایک عورت بیٹھی تھی، نبی کریم ﷺ تشریف لائے تو ان کے متعلق پوچھا کہ یہ کون ہیں ؟ میں نے کہا کہ یہ فلاں خاتون ہیں جو رات بھر نہیں سوتیں۔ ان کی نماز کا آپ ﷺ کے سامنے ذکر کیا گیا۔ لیکن آپ ﷺ نے فرمایا کہ بس تمہیں صرف اتنا ہی عمل کرنا چاہیے جتنے کی تم میں طاقت ہو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ تو (ثواب دینے سے) تھکتا ہی نہیں تم ہی عمل کرتے کرتے تھک جاؤ گے۔
باب: جو شخص رات کو عبادت کیا کرتا تھا وہ اگر اسے چھوڑ دے تو اس کی یہ عادت مکروہ ہے۔
ہم سے عباس بن حسین نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے مبشر بن اسماعیل حلبی نے، اوزاعی سے بیان کیا (دوسری سند) اور مجھ سے محمد بن مقاتل ابوالحسن نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں امام اوزاعی نے خبر دی کہا کہ مجھ سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) نے بیان کیا، کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے عبداللہ ! فلاں کی طرح نہ ہوجانا وہ رات میں عبادت کیا کرتا تھا پھر چھوڑ دی۔ اور ہشام بن عمار نے کہا کہ ہم سے عبدالحمید بن ابوالعشرین نے بیان کیا، ان سے امام اوزاعی نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن حکم بن ثوبان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے، اسی طرح پھر یہی حدیث بیان کی، ابن ابی العشرین کی طرح عمرو بن ابی سلمہ نے بھی اس کو امام اوزاعی سے روایت کیا۔
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے، ان سے ابو العباس سائب بن فروخ نے کہا میں نے عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) سے سنا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے نبی کریم ﷺ نے پوچھا کہ کیا یہ خبر صحیح ہے کہ تم رات بھر عبادت کرتے ہو اور پھر دن میں روزے رکھتے ہو ؟ میں نے کہا کہ جی ہاں، یا رسول اللہ ! میں ایسا ہی کرتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ لیکن اگر تم ایسا کرو گے تو تمہاری آنکھیں (بیداری کی وجہ سے) بیٹھ جائیں گی اور تیری جان ناتواں ہوجائے گی۔ یہ جان لو کہ تم پر تمہارے نفس کا بھی حق ہے اور بیوی بچوں کا بھی۔ اس لیے کبھی روزہ بھی رکھو اور کبھی بلا روزے کے بھی رہو، عبادت بھی کرو اور سوؤ بھی۔
باب: جس شخص کی رات کو آنکھ کھلے پھر وہ نماز پڑھے اس کی فضیلت۔
ہم سے صدقہ بن فضل نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو ولید بن مسلم نے امام اوزاعی سے خبر دی، کہا کہ مجھ کو عمیر بن ہانی نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے جنادہ بن ابی امیہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبادہ بن صامت نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص رات کو بیدار ہو کر یہ دعا پڑھے لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملک، وله الحمد، وهو على كل شىء قدير. الحمد لله، و سبحان الله، ولا إله إلا الله، والله أكبر، ولا حول ولا قوة إلا بالله (ترجمہ) اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ملک اسی کے لیے ہے اور تمام تعریفیں بھی اسی کے لیے ہیں، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں، اللہ کی ذات پاک ہے، اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ کی مدد کے بغیر نہ کسی کو گناہوں سے بچنے کی طاقت ہے نہ نیکی کرنے کی ہمت پھر یہ پڑھے اللهم اغفر لي (ترجمہ) اے اللہ ! میری مغفرت فرما ۔ یا (یہ کہا کہ) کوئی دعا کرے تو اس کی دعا قبول ہوتی ہے۔ پھر اگر اس نے وضو کیا (اور نماز پڑھی) تو نماز بھی مقبول ہوتی ہے۔
باب: جس شخص کی رات کو آنکھ کھلے پھر وہ نماز پڑھے اس کی فضیلت۔
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے یونس نے، ان سے ابن شہاب نے، انہوں نے کہا کہ مجھ کو ہیثم بن ابی سنان نے خبر دی کہ انہوں نے ابوہریرہ (رض) سے سنا، آپ اپنے وعظ میں رسول اللہ ﷺ کا ذکر کر رہے تھے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ تمہارے بھائی نے (اپنے نعتیہ اشعار میں) یہ کوئی غلط بات نہیں کہی۔ آپ کی مراد عبداللہ بن رواحہ (رض) اور ان کے اشعار سے تھی جن کا ترجمہ یہ ہے : ہم میں اللہ کے رسول موجود ہیں، جو اس کی کتاب اس وقت ہمیں سناتے ہیں جب فجر طلوع ہوتی ہے۔ ہم تو اندھے تھے آپ ﷺ نے ہمیں گمراہی سے نکال کر صحیح راستہ دکھایا۔ ان کی باتیں اسی قدر یقینی ہیں جو ہمارے دلوں کے اندر جا کر بیٹھ جاتی ہیں اور جو کچھ آپ نے فرمایا وہ ضرور واقع ہوگا۔ آپ ﷺ رات بستر سے اپنے کو الگ کر کے گزارتے ہیں جبکہ مشرکوں سے ان کے بستر بوجھل ہو رہے ہوتے ہیں ۔ یونس کی طرح اس حدیث کو عقیل نے بھی زہری سے روایت کیا اور زبیدی نے یوں کہا سعید بن مسیب اور اعرج سے، انہوں نے ابوہریرہ (رض) سے۔
باب: جس شخص کی رات کو آنکھ کھلے پھر وہ نماز پڑھے اس کی فضیلت۔
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے، ان سے نافع نے، ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے کہ میں نے نبی کریم ﷺ کے زمانے میں یہ خواب دیکھا کہ گویا ایک گاڑھے ریشمی کپڑے کا ایک ٹکڑا میرے ہاتھ ہے۔ جیسے میں جنت میں جس جگہ کا بھی ارادہ کرتا ہوں تو یہ ادھر اڑا کے مجھ کو لے جاتا ہے اور میں نے دیکھا کہ جیسے دو فرشتے میرے پاس آئے اور انہوں نے مجھے دوزخ کی طرف لے جانے کا ارادہ کیا ہی تھا کہ ایک فرشتہ ان سے آ کر ملا اور (مجھ سے) کہا کہ ڈرو نہیں (اور ان سے کہا کہ ) اسے چھوڑ دو ۔ میری بہن (ام المؤمنین) حفصہ (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے میرا ایک خواب بیان کیا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ عبداللہ بڑا ہی اچھا آدمی ہے کاش رات کو بھی نماز پڑھا کرتا۔ عبداللہ (رض) اس کے بعد ہمیشہ رات کو نماز پڑھا کرتے تھے۔ بہت سے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے نبی کریم ﷺ سے اپنے خواب بیان کئے کہ شب قدر (رمضان کی) ستائیسویں رات ہے۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ تم سب کے خواب رمضان کے آخری عشرے میں (شب قدر کے ہونے پر) متفق ہوگئے ہیں۔ اس لیے جسے شب قدر کی تلاش ہو وہ رمضان کے آخری عشرے میں ڈھونڈے۔
باب: جس شخص کی رات کو آنکھ کھلے پھر وہ نماز پڑھے اس کی فضیلت۔
میری بہن (ام المؤمنین) حفصہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میرا ایک خواب بیان کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عبداللہ بڑا ہی اچھا آدمی ہے کاش رات کو بھی نماز پڑھا کرتا۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ اس کے بعد ہمیشہ رات کو نماز پڑھا کرتے تھے۔
باب: جس شخص کی رات کو آنکھ کھلے پھر وہ نماز پڑھے اس کی فضیلت۔
بہت سے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے خواب بیان کئے کہ شب قدر (رمضان کی) ستائیسویں رات ہے۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ تم سب کے خواب رمضان کے آخری عشرے میں (شب قدر کے ہونے پر) متفق ہو گئے ہیں۔ اس لیے جسے شب قدر کی تلاش ہو وہ رمضان کے آخری عشرے میں ڈھونڈے۔
باب: فجر کی سنتوں کو ہمیشہ پڑھنا۔
ہم سے عبداللہ بن یزید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سعید بن ابی ایوب نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے جعفر بن ربیعہ نے بیان کیا، ان سے عراک بن مالک نے، ان سے ابوسلمہ نے، ان سے عائشہ صدیقہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے عشاء کی نماز پڑھی پھر رات کو اٹھ کر آپ ﷺ نے تہجد کی آٹھ رکعتیں پڑھیں اور دو رکعتیں صبح کی اذان و اقامت کے درمیان پڑھیں جن کو آپ ﷺ کبھی نہیں چھوڑتے تھے (فجر کی سنتوں پر مداومت ثابت ہوئی) ۔
باب: فجر کی سنتیں پڑھ کر داہنی کروٹ پر لیٹ جانا۔
ہم سے عبداللہ بن یزید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سعید بن ابی ایوب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابوالاسود محمد بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، ان سے عروہ بن زبیر (رض) نے اور ان سے عائشہ صدیقہ (رض) نے، انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ فجر کی دو سنت رکعتیں پڑھنے کے بعد دائیں کروٹ پر لیٹ جاتے۔
باب: فجر کی سنتیں پڑھ کر باتیں کرنا اور نہ لیٹنا۔
ہم سے بشر بن حکم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے سالم ابوالنضر نے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے بیان کیا اور ان سے عائشہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ جب فجر کی سنتیں پڑھ چکتے تو اگر میں جاگتی ہوتی تو آپ ﷺ مجھ سے باتیں کرتے ورنہ لیٹ جاتے جب تک نماز کی اذان ہوتی۔
باب: نفل نمازیں دو دو رکعتیں کر کے پڑھنا۔
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالرحمٰن بن ابی الموال نے بیان کیا، ان سے محمد بن منکدر نے اور ان سے جابر بن عبداللہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں اپنے تمام معاملات میں استخارہ کرنے کی اسی طرح تعلیم دیتے تھے جس طرح قرآن کی کوئی سورت سکھلاتے۔ آپ ﷺ فرماتے کہ جب کوئی اہم معاملہ تمہارے سامنے ہو تو فرض کے علاوہ دو رکعت نفل پڑھنے کے بعد یہ دعا پڑھے اللهم إني أستخيرک بعلمک وأستقدرک بقدرتک، وأسألک من فضلک العظيم، فإنک تقدر ولا أقدر و تعلم ولا أعلم وأنت علام الغيوب، اللهم إن كنت تعلم أن هذا الأمر خير لي في ديني ومعاشي وعاقبة أمري ( أو قال ) عاجل أمري وآجله فاقدره لي ويسره لي ثم بارک لي فيه، وإن كنت تعلم أن هذا الأمر شر لي في ديني ومعاشي وعاقبة أمري أو قال في عاجل أمري وآجله فاصرفه عني واصرفني عنه، واقدر لي الخير (ترجمہ) اے میرے اللہ ! میں تجھ سے تیرے علم کی بدولت خیر طلب کرتا ہوں اور تیری قدرت کی بدولت تجھ سے طاقت مانگتا ہوں اور تیرے فضل عظیم کا طلبگار ہوں کہ قدرت تو ہی رکھتا ہے اور مجھے کوئی قدرت نہیں۔ علم تجھ ہی کو ہے اور میں کچھ نہیں جانتا اور تو تمام پوشیدہ باتوں کو جاننے والا ہے۔ اے میرے اللہ ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام جس کے لیے استخارہ کیا جا رہا ہے میرے دین دنیا اور میرے کام کے انجام کے اعتبار سے میرے لیے بہتر ہے یا (آپ نے یہ فرمایا کہ) میرے لیے وقتی طور پر اور انجام کے اعتبار سے یہ (خیر ہے) تو اسے میرے لیے نصیب کر اور اس کا حصول میرے لیے آسان کر اور پھر اس میں مجھے برکت عطا کر اور اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے دین، دنیا اور میرے کام کے انجام کے اعتبار سے برا ہے۔ یا (آپ ﷺ نے یہ کہا کہ) میرے معاملہ میں وقتی طور پر اور انجام کے اعتبار سے (برا ہے) تو اسے مجھ سے ہٹا دے اور مجھے بھی اس سے ہٹا دے۔ پھر میرے لیے خیر مقدر فرما دے، جہاں بھی وہ ہو اور اس سے میرے دل کو مطمئن بھی کر دے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس کام کی جگہ اس کام کا نام لے۔
باب: نفل نمازیں دو دو رکعتیں کر کے پڑھنا۔
ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن سعید نے، ان سے عامر بن عبداللہ بن زبیر نے بیان کیا، انہوں نے عمرو بن سلیم زرقی سے، انہوں نے ابوقتادہ بن ربعی انصاری صحابی (رض) سے، انہوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جب کوئی تم میں سے مسجد میں آئے تو نہ بیٹھے جب تک دو رکعت (تحیۃ المسجد کی) نہ پڑھ لے۔
باب: نفل نمازیں دو دو رکعتیں کر کے پڑھنا۔
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں امام مالک نے خبر دی، انہیں اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے اور انہیں انس بن مالک (رض) نے کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے (ہمارے گھر میں جب دعوت میں آئے تھے) دو رکعت نماز پڑھائی اور پھر واپس تشریف لے گئے۔
باب: نفل نمازیں دو دو رکعتیں کر کے پڑھنا۔
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث نے عقیل سے بیان کیا، عقیل سے ابن شہاب نے، انہوں نے کہا کہ مجھے سالم نے خبر دی اور انہیں عبداللہ بن عمر (رض) نے، آپ نے بتلایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ظہر سے پہلے دو رکعت سنت پڑھی اور ظہر کے بعد دو رکعت اور جمعہ کے بعد دو رکعت اور مغرب کے بعد دو رکعت اور عشاء کے بعد بھی دو رکعت (نماز سنت) پڑھی ہے۔
باب: نفل نمازیں دو دو رکعتیں کر کے پڑھنا۔
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں شعبہ نے خبر دی، انہیں عمرو بن دینار نے خبر دی، کہا کہ میں نے جابر بن عبداللہ انصاری (رض) سے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے جمعہ کا خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ جو شخص بھی (مسجد میں) آئے اور امام خطبہ دے رہا ہو یا خطبہ کے لیے نکل چکا ہو تو وہ دو رکعت نماز (تحیۃ المسجد کی) پڑھ لے۔
باب: نفل نمازیں دو دو رکعتیں کر کے پڑھنا۔
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سیف بن سلیمان نے بیان کیا کہ میں نے مجاہد سے سنا، انہوں نے فرمایا کہ عبداللہ بن عمر (رض) (مکہ شریف میں) اپنے گھر آئے۔ کسی نے کہا بیٹھے کیا ہو نبی کریم ﷺ یہ آگئے بلکہ کعبہ کے اندر بھی تشریف لے جا چکے ہیں۔ عبداللہ نے کہا یہ سن کر میں آیا۔ دیکھا تو نبی کریم ﷺ کعبہ سے باہر نکل چکے ہیں اور بلال (رض) دروازے پر کھڑے ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ اے بلال ! رسول اللہ ﷺ نے کعبہ میں نماز پڑھی ؟ انہوں نے کہا کہ ہاں پڑھی تھی۔ میں نے پوچھا کہ کہاں پڑھی تھی ؟ انہوں نے بتایا کہ یہاں ان دو ستونوں کے درمیان۔ پھر آپ باہر تشریف لائے اور دو رکعتیں کعبہ کے دروازے کے سامنے پڑھیں اور ابوہریرہ (رض) نے کہا کہ مجھے نبی کریم ﷺ نے چاشت کی دو رکعتوں کی وصیت کی تھی اور عتبان نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر اور عمر (رض) صبح دن چڑھے میرے گھر تشریف لائے۔ ہم نے آپ ﷺ کے پیچھے صف بنا لی اور نبی کریم ﷺ نے دو رکعت نماز پڑھائی۔
باب: فجر کی سنتوں کے بعد باتیں کرنا۔
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، ان سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے ابوالنضر سالم نے بیان کیا کہ مجھ سے میرے باپ ابوامیہ نے بیان کیا، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے عائشہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ جب دو رکعت (فجر کی سنت) پڑھ چکتے تو اس وقت اگر میں جاگتی ہوتی تو آپ ﷺ مجھ سے باتیں کرتے ورنہ لیٹ جاتے۔ میں نے سفیان سے کہا کہ بعض راوی فجر کی دو رکعتیں اسے بتاتے ہیں تو انہوں نے فرمایا کہ ہاں یہ وہی ہیں۔
باب: فجر کی سنت کی دو رکعتیں ہمیشہ لازم کر لینا اور ان کے سنت ہونے کی دلیل۔
ہم سے بیان بن عمرو نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابن جریج نے بیان کیا، ان سے عطاء نے بیان کیا، ان سے عبید بن عمیر نے، ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کسی نفل نماز کی فجر کی دو رکعتوں سے زیادہ پابندی نہیں کرتے تھے۔
باب: فجر کی سنتوں میں قرآت کیسی کرے؟
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک (رح) نے خبر دی، انہیں ہشام بن عروہ نے، انہیں ان کے باپ (عروہ بن زبیر) نے اور انہیں عائشہ صدیقہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ رات میں تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے۔ پھر جب صبح کی اذان سنتے تو دو ہلکی رکعتیں (سنت فجر) پڑھ لیتے۔
باب: فجر کی سنتوں میں قرآت کیسی کرے؟
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے محمد بن عبدالرحمٰن نے، ان سے ان کی پھوپھی عمرہ بنت عبدالرحمٰن نے اور ان سے عائشہ صدیقہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ (دوسری سند) اور ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زہیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید انصاری نے بیان کیا، ان سے محمد بن عبدالرحمٰن نے، ان سے عمرہ بنت عبدالرحمٰن نے اور ان سے عائشہ صدیقہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ صبح کی (فرض) نماز سے پہلے کی دو (سنت) رکعتوں کو بہت مختصر رکھتے تھے۔ آپ نے ان میں سورة فاتحہ بھی پڑھی یا نہیں میں یہ بھی نہیں کہہ سکتی۔
باب: فرضوں کے بعد سنت کا بیان۔
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ عمری نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے نافع نے عبداللہ بن عمر (رض) سے خبر دی، انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ ظہر سے پہلے دو رکعت سنت، ظہر کے بعد دو رکعت سنت، مغرب کے بعد دو رکعت سنت، عشاء کے بعد دو رکعت سنت اور جمعہ کے بعد دو رکعت سنت پڑھی ہیں اور مغرب اور عشاء کی سنتیں آپ گھر میں پڑھتے تھے۔ ابوالزناد نے موسیٰ بن عقبہ کے واسطہ سے بیان کیا اور ان سے نافع نے کہ عشاء کے بعد اپنے گھر میں (سنت پڑھتے تھے) ان کی روایت کی متابعت کثیر بن فرقد اور ایوب نے نافع کے واسطہ سے کی ہے۔ ان سے (ابن عمر (رض) نے بیان کیا کہ) میری بہن حفصہ (رض) نے مجھ سے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ فجر ہونے کے بعد دو ہلکی رکعتیں (سنت فجر) پڑھتے اور یہ ایسا وقت ہوتا کہ میں نبی کریم ﷺ کے پاس نہیں جاتی تھی۔ عبیداللہ کے ساتھ اس حدیث کو کثیر بن فرقد اور ایوب نے بھی نافع سے روایت کیا اور ابن ابی الزناد نے اس حدیث کو موسیٰ بن عقبہ سے، انہوں نے نافع سے روایت کیا۔ اس میں في بيته کے بدل في أهله ہے۔
باب: فرضوں کے بعد سنت کا بیان۔
ان سے (ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ) میری بہن حفصہ رضی اللہ عنہا نے مجھ سے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فجر ہونے کے بعد دو ہلکی رکعتیں (سنت فجر) پڑھتے اور یہ ایسا وقت ہوتا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہیں جاتی تھی۔ عبیداللہ کے ساتھ اس حدیث کو کثیر بن فرقد اور ایوب نے بھی نافع سے روایت کیا اور ابن ابی الزناد نے اس حدیث کو موسیٰ بن عقبہ سے، انہوں نے نافع سے روایت کیا۔ اس میں في بيته کے بدل في أهله ہے۔
باب: اس کے بارے میں جس نے فرض کے بعد سنت نماز نہیں پڑھی۔
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے عمرو بن دینار سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے ابوالشعثاء جابر بن عبداللہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے ابن عباس (رض) سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آٹھ رکعت ایک ساتھ (ظہر اور عصر) اور سات رکعت ایک ساتھ (مغرب اور عشاء ملا کر) پڑھیں۔ (بیچ میں سنت وغیرہ کچھ نہیں) ابوالشعثاء سے میں نے کہا میرا خیال ہے کہ آپ ﷺ نے ظہر آخر وقت میں اور عصر اول وقت میں پڑھی ہوگی۔ اسی طرح مغرب آخر وقت میں پڑھی ہوگی اور عشاء اول وقت میں۔ ابوالشعثاء نے کہا کہ میرا بھی یہی خیال ہے۔
باب: سفر میں چاشت کی نماز پڑھنا۔
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے شعبہ بن حجاج نے، ان سے توبہ بن کیسان نے، ان سے مورق بن مشمرج نے، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عبداللہ بن عمر (رض) سے پوچھا کہ کیا آپ چاشت کی نماز پڑھتے ہیں ؟ انہوں نے فرمایا کہ نہیں۔ میں نے پوچھا اور عمر پڑھتے تھے ؟ آپ نے فرمایا کہ نہیں۔ میں نے پوچھا اور ابوبکر (رض) ؟ فرمایا نہیں۔ میں نے پوچھا اور نبی کریم ﷺ ؟ فرمایا نہیں۔ میرا خیال یہی ہے۔
باب: سفر میں چاشت کی نماز پڑھنا۔
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عمرو بن مرہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے عبدالرحمٰن بن ابی لیلی سے سنا، وہ کہتے تھے کہ مجھ سے ام ہانی (رض) کے سوا کسی (صحابی) نے یہ نہیں بیان کیا کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کو چاشت کی نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ صرف ام ہانی (رض) نے فرمایا کہ فتح مکہ کے دن آپ ﷺ ان کے گھر تشریف لائے، آپ ﷺ نے غسل کیا اور پھر آٹھ رکعت (چاشت کی) نماز پڑھی۔ تو میں نے ایسی ہلکی پھلکی نماز کبھی نہیں دیکھی۔ البتہ آپ ﷺ رکوع اور سجدہ پوری طرح ادا کرتے تھے۔
باب: چاشت کی نماز پڑھنا اور اس کو ضروری نہ جاننا۔
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابن ابی ذئب نے بیان کیا، ان سے زہری نے بیان کیا، ان سے عروہ بن زبیر نے، ان سے عائشہ صدیقہ (رض) نے کہ میں نے تو رسول اللہ ﷺ کو چاشت کی نماز پڑھتے نہیں دیکھا مگر میں خود پڑھتی ہوں۔
باب: چاشت کی نماز اپنے شہر میں پڑھے۔
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہمیں شعبہ نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم سے عباس جریری نے جو فروخ کے بیٹے تھے بیان کیا، ان سے ابوعثمان نہدی نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے فرمایا کہ مجھے میرے جانی دوست (نبی کریم ﷺ ) نے تین چیزوں کی وصیت کی ہے کہ موت سے پہلے ان کو نہ چھوڑوں۔ ہر مہینہ میں تین دن روزے۔ چاشت کی نماز اور وتر پڑھ کر سونا۔
باب: چاشت کی نماز اپنے شہر میں پڑھے۔
ہم سے علی بن جعد نے بیان کیا کہ ہم کو شعبہ نے خبر دی، ان سے انس بن سیرین نے بیان کیا کہ میں نے انس بن مالک انصاری (رض) سے سنا کہ انصار میں سے ایک شخص (عتبان بن مالک) نے جو بہت موٹے آدمی تھے، رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ میں آپ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھنے کی طاقت نہیں رکھتا (مجھ کو گھر پر نماز پڑھنے کی اجازت دیجئیے تو) انہوں نے اپنے گھر نبی کریم ﷺ کے لیے کھانا پکوایا اور آپ ﷺ کو اپنے گھر بلایا اور ایک چٹائی کے کنارے کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پانی سے صاف کیا، آپ ﷺ نے اس پر دو رکعت نماز پڑھی۔ اور فلاں بن فلاں بن جارود نے انس (رض) سے پوچھا کہ کیا نبی کریم ﷺ چاشت کی نماز پڑھا کرتے تھے ؟ تو آپ نے فرمایا کہ میں نے اس روز کے سوا آپ ﷺ کو کبھی یہ نماز پڑھتے نہیں دیکھا۔
باب: ظہر سے پہلے دو رکعت سنت پڑھنا۔
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے بیان کیا، ان سے نافع نے، ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے کہا کہ مجھے نبی کریم ﷺ سے دس رکعت سنتیں یاد ہیں۔ دو رکعت سنت ظہر سے پہلے، دو رکعت سنت ظہر کے بعد، دو رکعت سنت مغرب کے بعد اپنے گھر میں، دو رکعت سنت عشاء کے بعد اپنے گھر میں اور دو رکعت سنت صبح کی نماز سے پہلے اور یہ وہ وقت ہوتا تھا جب آپ ﷺ کے پاس کوئی نہیں جاتا تھا۔ مجھ کو ام المؤمنین حفصہ (رض) نے بتلایا کہ مؤذن جب اذان دیتا اور فجر ہوجاتی تو آپ ﷺ دو رکعتیں پڑھتے۔
باب: ظہر سے پہلے دو رکعت سنت پڑھنا۔
مجھ کو ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا نے بتلایا کہ مؤذن جب اذان دیتا اور فجر ہو جاتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعتیں پڑھتے۔
باب: ظہر سے پہلے دو رکعت سنت پڑھنا۔
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے، ان سے ابراہیم بن محمد بن منتشر نے، ان سے ان کے باپ محمد بن منتشر نے اور ان سے عائشہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ ظہر سے پہلے چار رکعت سنت اور صبح کی نماز سے پہلے دو رکعت سنت نماز پڑھنی نہیں چھوڑتے تھے۔ یحییٰ کے ساتھ اس حدیث کو ابن ابی عدی اور عمرو بن مرزوق نے بھی شعبہ سے روایت کیا۔
باب: مغرب سے پہلے سنت پڑھنا۔
ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، ان سے حسین معلم نے، ان سے عبداللہ بن بریدہ نے، انہوں نے کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن مغفل مزنی (رض) نے بیان کیا ان سے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مغرب کے فرض سے پہلے (سنت کی دو رکعتیں) پڑھا کرو۔ تیسری مرتبہ آپ ﷺ نے یوں فرمایا کہ جس کا جی چاہے کیونکہ آپ ﷺ کو یہ بات پسند نہ تھی کہ لوگ اسے لازمی سمجھ بیٹھیں۔
باب: مغرب سے پہلے سنت پڑھنا۔
ہم سے عبداللہ بن یزید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سعید بن ابی ایوب نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے یزید بن ابی حبیب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے مرثد بن عبداللہ یزنی سے سنا کہ میں عقبہ بن عامر جہنی صحابی (رض) کے پاس آیا اور عرض کیا آپ کو ابوتمیم عبداللہ بن مالک پر تعجب نہیں آیا کہ وہ مغرب کی نماز فرض سے پہلے دو رکعت نفل پڑھتے ہیں۔ اس پر عقبہ نے فرمایا کہ ہم بھی رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں اسے پڑھتے تھے۔ میں نے کہا پھر اب اس کے چھوڑنے کی کیا وجہ ہے ؟ انہوں نے فرمایا کہ دنیا کے کاروبار مانع ہیں۔
باب: نفل نمازیں جماعت سے پڑھنا۔
ہم سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہمارے باپ ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے کہا کہ مجھے محمود بن ربیع انصاری (رض) نے خبر دی کہ انہیں نبی کریم ﷺ یاد ہیں اور آپ ﷺ کی وہ کلی بھی یاد ہے جو آپ ﷺ نے ان کے گھر کے کنویں سے پانی لے کر ان کے منہ میں کی تھی۔ محمود نے کہا کہ میں نے عتبان بن مالک انصاری (رض) سے سنا جو بدر کی لڑائی میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شریک تھے، وہ کہتے تھے کہ میں اپنی قوم بنی سالم کو نماز پڑھایا کرتا تھا میرے (گھر) اور قوم کی مسجد کے بیچ میں ایک نالہ تھا، اور جب بارش ہوتی تو اسے پار کر کے مسجد تک پہنچنا میرے لیے مشکل ہوجاتا تھا۔ چناچہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ ﷺ سے میں نے کہا کہ میری آنکھیں خراب ہوگئی ہیں اور ایک نالہ ہے جو میرے اور میری قوم کے درمیان پڑتا ہے، وہ بارش کے دنوں میں بہنے لگ جاتا ہے اور میرے لیے اس کا پار کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ میری یہ خواہش ہے کہ آپ ﷺ تشریف لا کر میرے گھر کسی جگہ نماز پڑھ دیں تاکہ میں اسے اپنے لیے نماز پڑھنے کی جگہ مقرر کرلوں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں تمہاری یہ خواہش جلد ہی پوری کروں گا۔ پھر دوسرے ہی دن آپ ﷺ ابوبکر (رض) کو ساتھ لے کر صبح تشریف لے آئے اور آپ ﷺ نے اجازت چاہی اور میں نے اجازت دے دی۔ آپ ﷺ تشریف لا کر بیٹھے بھی نہیں بلکہ پوچھا کہ تم اپنے گھر میں کس جگہ میرے لیے نماز پڑھنا پسند کرو گے۔ میں جس جگہ کو نماز پڑھنے کے لیے پسند کرچکا تھا اس کی طرف میں نے اشارہ کردیا۔ رسول اللہ ﷺ نے وہاں کھڑے ہو کر تکبیر تحریمہ کہی اور ہم سب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صف باندھ لی۔ آپ ﷺ نے ہمیں دو رکعت نماز پڑھائی پھر سلام پھیرا۔ ہم نے بھی آپ کے ساتھ سلام پھیرا۔ میں نے حلیم کھانے کے لیے آپ ﷺ کو روک لیا جو تیار ہو رہا تھا۔ محلہ والوں نے جو سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر تشریف فرما ہیں تو لوگ جلدی جلدی جمع ہونے شروع ہوگئے اور گھر میں ایک خاصا مجمع ہوگیا۔ ان میں سے ایک شخص بولا۔ مالک کو کیا ہوگیا ہے ! یہاں دکھائی نہیں دیتا۔ اس پر دوسرا بولا وہ تو منافق ہے۔ اسے اللہ اور رسول سے محبت نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس پر فرمایا۔ ایسا مت کہو، دیکھتے نہیں کہ وہ لا إله إلا الله پڑھتا ہے اور اس سے اس کا مقصد اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ہے۔ تب وہ کہنے لگا کہ (اصل حال) تو اللہ اور رسول کو معلوم ہے۔ لیکن واللہ ! ہم تو ان کی بات چیت اور میل جول ظاہر میں منافقوں ہی سے دیکھتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا لیکن اللہ تعالیٰ نے ہر اس آدمی پر دوزخ حرام کردی ہے جس نے لا إله إلا الله اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لیے کہہ لیا۔ محمود بن ربیع نے بیان کیا کہ میں نے یہ حدیث ایک ایسی جگہ میں بیان کی جس میں نبی کریم ﷺ کے مشہور صحابی ابوایوب انصاری (رض) بھی موجود تھے۔ یہ روم کے اس جہاد کا ذکر ہے جس میں آپ کی موت واقع ہوئی تھی۔ فوج کے سردار یزید بن معاویہ تھے۔ ابوایوب (رض) نے اس حدیث سے انکار کیا اور فرمایا کہ اللہ کی قسم ! میں نہیں سمجھتا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایسی بات کبھی بھی کہی ہو۔ آپ کی یہ گفتگو مجھ کو بہت ناگوار گزری اور میں نے اللہ تعالیٰ کی منت مانی کہ اگر میں اس جہاد سے سلامتی کے ساتھ لوٹا تو واپسی پر اس حدیث کے بارے میں عتبان بن مالک (رض) سے ضرور پوچھوں گا۔ اگر میں نے انہیں ان کی قوم کی مسجد میں زندہ پایا۔ آخر میں جہاد سے واپس ہوا۔ پہلے تو میں نے حج اور عمرہ کا احرام باندھا پھر جب مدینہ واپسی ہوئی تو میں قبیلہ بنو سالم میں آیا۔ عتبان (رض) جو بوڑھے اور نابینا ہوگئے تھے، اپنی قوم کو نماز پڑھاتے ہوئے ملے۔ سلام پھیرنے کے بعد میں نے حاضر ہو کر آپ کو سلام کیا اور بتلایا کہ میں فلاں ہوں۔ پھر میں نے اس حدیث کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے مجھ سے اس مرتبہ بھی اس طرح یہ حدیث بیان کی جس طرح پہلے بیان کی تھی۔
باب: نفل نمازیں جماعت سے پڑھنا۔
محمود نے کہا کہ میں نے عتبان بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ سے سنا جو بدر کی لڑائی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک تھے، وہ کہتے تھے کہ میں اپنی قوم بنی سالم کو نماز پڑھایا کرتا تھا میرے (گھر) اور قوم کی مسجد کے بیچ میں ایک نالہ تھا، اور جب بارش ہوتی تو اسے پار کر کے مسجد تک پہنچنا میرے لیے مشکل ہو جاتا تھا۔ چنانچہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے کہا کہ میری آنکھیں خراب ہو گئی ہیں اور ایک نالہ ہے جو میرے اور میری قوم کے درمیان پڑتا ہے، وہ بارش کے دنوں میں بہنے لگ جاتا ہے اور میرے لیے اس کا پار کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ میری یہ خواہش ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لا کر میرے گھر کسی جگہ نماز پڑھ دیں تاکہ میں اسے اپنے لیے نماز پڑھنے کی جگہ مقرر کر لوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہاری یہ خواہش جلد ہی پوری کروں گا۔ پھر دوسرے ہی دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے کر صبح تشریف لے آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت چاہی اور میں نے اجازت دے دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لا کر بیٹھے بھی نہیں بلکہ پوچھا کہ تم اپنے گھر میں کس جگہ میرے لیے نماز پڑھنا پسند کرو گے۔ میں جس جگہ کو نماز پڑھنے کے لیے پسند کر چکا تھا اس کی طرف میں نے اشارہ کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں کھڑے ہو کر تکبیر تحریمہ کہی اور ہم سب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صف باندھ لی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دو رکعت نماز پڑھائی پھر سلام پھیرا۔ ہم نے بھی آپ کے ساتھ سلام پھیرا۔ میں نے حلیم کھانے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو روک لیا جو تیار ہو رہا تھا۔ محلہ والوں نے جو سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر تشریف فرما ہیں تو لوگ جلدی جلدی جمع ہونے شروع ہو گئے اور گھر میں ایک خاصا مجمع ہو گیا۔ ان میں سے ایک شخص بولا۔ مالک کو کیا ہو گیا ہے! یہاں دکھائی نہیں دیتا۔ اس پر دوسرا بولا وہ تو منافق ہے۔ اسے اللہ اور رسول سے محبت نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا۔ ایسا مت کہو، دیکھتے نہیں کہ وہ لا إله إلا الله پڑھتا ہے اور اس سے اس کا مقصد اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ہے۔ تب وہ کہنے لگا کہ (اصل حال) تو اللہ اور رسول کو معلوم ہے۔ لیکن واللہ! ہم تو ان کی بات چیت اور میل جول ظاہر میں منافقوں ہی سے دیکھتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لیکن اللہ تعالیٰ نے ہر اس آدمی پر دوزخ حرام کر دی ہے جس نے لا إله إلا الله اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لیے کہہ لیا۔ محمود بن ربیع نے بیان کیا کہ میں نے یہ حدیث ایک ایسی جگہ میں بیان کی جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مشہور صحابی ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے۔ یہ روم کے اس جہاد کا ذکر ہے جس میں آپ کی موت واقع ہوئی تھی۔ فوج کے سردار یزید بن معاویہ تھے۔ ابوایوب رضی اللہ عنہ نے اس حدیث سے انکار کیا اور فرمایا کہ اللہ کی قسم! میں نہیں سمجھتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی بات کبھی بھی کہی ہو۔ آپ کی یہ گفتگو مجھ کو بہت ناگوار گزری اور میں نے اللہ تعالیٰ کی منت مانی کہ اگر میں اس جہاد سے سلامتی کے ساتھ لوٹا تو واپسی پر اس حدیث کے بارے میں عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ سے ضرور پوچھوں گا۔ اگر میں نے انہیں ان کی قوم کی مسجد میں زندہ پایا۔ آخر میں جہاد سے واپس ہوا۔ پہلے تو میں نے حج اور عمرہ کا احرام باندھا پھر جب مدینہ واپسی ہوئی تو میں قبیلہ بنو سالم میں آیا۔ عتبان رضی اللہ عنہ جو بوڑھے اور نابینا ہو گئے تھے، اپنی قوم کو نماز پڑھاتے ہوئے ملے۔ سلام پھیرنے کے بعد میں نے حاضر ہو کر آپ کو سلام کیا اور بتلایا کہ میں فلاں ہوں۔ پھر میں نے اس حدیث کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے مجھ سے اس مرتبہ بھی اس طرح یہ حدیث بیان کی جس طرح پہلے بیان کی تھی۔
باب: گھر میں نفل نماز پڑھنا۔
ہم سے عبدالاعلی بن حماد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی اور عبیداللہ بن عمر نے، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اپنے گھروں میں بھی کچھ نمازیں پڑھا کرو اور انہیں بالکل قبریں نہ بنا لو (کہ جہاں نماز ہی نہ پڑھی جاتی ہو) وہیب کے ساتھ اس حدیث کو عبدالوہاب ثقفی نے بھی ایوب سے روایت کیا ہے۔
باب: مکہ اور مدینہ کی مساجد میں نماز کی فضیلت کا بیان۔
ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے عبدالملک نے قزعہ سے خبر دی، انہوں نے کہا کہ میں نے ابوسعید (رض) سے چار باتیں سنیں اور انہوں نے بتلایا کہ میں نے انہیں نبی کریم ﷺ سے سنا تھا، آپ نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ بارہ جہاد کئے تھے۔ (دوسری سند) ہم سے علی بن مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے سعید بن مسیب نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تین مسجدوں کے سوا کسی کے لیے کجاوے نہ باندھے جائیں۔ (یعنی سفر نہ کیا جائے) ایک مسجد الحرام، دوسری رسول اللہ ﷺ کی مسجد (مسجد نبوی) اور تیسری مسجد الاقصیٰ یعنی بیت المقدس۔
باب: مکہ اور مدینہ کی مساجد میں نماز کی فضیلت کا بیان۔
(دوسری سند) ہم سے علی بن مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے سعید بن مسیب نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین مسجدوں کے سوا کسی کے لیے کجاوے نہ باندھے جائیں۔ (یعنی سفر نہ کیا جائے) ایک مسجد الحرام، دوسری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد (مسجد نبوی) اور تیسری مسجد الاقصیٰ یعنی بیت المقدس۔
باب: مکہ اور مدینہ کی مساجد میں نماز کی فضیلت کا بیان۔
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے زید بن رباح اور عبیداللہ بن ابی عبداللہ اغر سے خبر دی، انہیں ابوعبدللہ اغر نے اور انہیں ابوہریرہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میری اس مسجد میں نماز مسجد الحرام کے سوا تمام مسجدوں میں نماز سے ایک ہزار درجہ زیادہ افضل ہے۔
باب: مسجد قباء کی فضیلت۔
ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے اسماعیل بن علیہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہمیں ایوب سختیانی نے خبر دی اور انہیں نافع نے کہ عبداللہ بن عمر (رض) چاشت کی نماز صرف دو دن پڑھتے تھے۔ جب مکہ آتے کیونکہ آپ مکہ میں چاشت ہی کے وقت آتے تھے اس وقت پہلے آپ طواف کرتے اور پھر مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعت پڑھتے۔ دوسرے جس دن آپ مسجد قباء میں تشریف لاتے آپ کا یہاں ہر ہفتہ کو آنے کا معمول تھا۔ جب آپ مسجد کے اندر آتے تو نماز پڑھے بغیر باہر نکلنا برا جانتے۔ آپ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ یہاں سوار اور پیدل دونوں طرح آیا کرتے تھے۔ نافع نے بیان کیا کہ ابن عمر (رض) فرمایا کرتے تھے کہ میں اسی طرح کرتا ہوں جیسے میں نے اپنے ساتھیوں (صحابہ رضی اللہ عنہم) کو کرتے دیکھا ہے۔ لیکن تمہیں رات یا دن کے کسی حصے میں نماز پڑھنے سے نہیں روکتا۔ صرف اتنی بات ہے کہ قصد کر کے تم سورج نکلتے یا ڈوبتے وقت نہ پڑھو۔
باب: مسجد قباء کی فضیلت۔
نافع نے بیان کیا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے کہ میں اسی طرح کرتا ہوں جیسے میں نے اپنے ساتھیوں (صحابہ رضی اللہ عنہم) کو کرتے دیکھا ہے۔ لیکن تمہیں رات یا دن کے کسی حصے میں نماز پڑھنے سے نہیں روکتا۔ صرف اتنی بات ہے کہ قصد کر کے تم سورج نکلتے یا ڈوبتے وقت نہ پڑھو۔
باب: جو شخص مسجد قباء میں ہر ہفتہ حاضر ہوا۔
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدالعزیز بن مسلم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبداللہ بن دینار نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ ہر ہفتہ کو مسجد قباء آتے پیدل بھی (بعض دفعہ) اور سواری پر بھی اور عبداللہ بن عمر (رض) بھی ایسا ہی کرتے۔
باب: مسجد قباء آنا کبھی سواری پر اور کبھی پیدل۔
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، اور ان سے عبیداللہ عمری نے بیان کیا کہ مجھ سے نافع نے ابن عمر (رض) سے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ قباء آتے کبھی پیدل اور کبھی سواری پر۔ ابن نمیر نے اس میں یہ زیادتی کی ہے کہ ہم سے عبیداللہ بن عمیر نے بیان کیا اور ان سے نافع نے کہ پھر آپ ﷺ اس میں دو رکعت نماز پڑھتے تھے۔
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر شریف اور منبر مبارک کے درمیانی حصہ کی فضیلت کا بیان۔
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو امام مالک (رح) نے خبر دی، انہیں عبداللہ بن ابی بکر نے، انہیں عباد بن تمیم نے اور انہیں (ان کے چچا) عبداللہ بن زید مازنی (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میرے گھر اور میرے اس منبر کے درمیان کا حصہ جنت کی کیا ریوں میں سے ایک کیا ری ہے۔
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر شریف اور منبر مبارک کے درمیانی حصہ کی فضیلت کا بیان۔
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، ان سے یحییٰ نے، ان سے عبیداللہ عمری نے بیان کیا کہ مجھ سے خبیب بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، ان سے حفص بن عاصم نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان کی زمین جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اور میرا منبر قیامت کے دن میرے حوض پر ہوگا۔
باب: بیت المقدس کی مسجد کا بیان۔
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عبدالملک بن عمیر نے بیان کیا، انہوں نے زیاد کے غلام قزعہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے ابو سعید خدری (رض) کو رسول اللہ ﷺ کے حوالہ سے چار حدیثیں بیان کرتے ہوئے سنا جو مجھے بہت پسند آئیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ عورت اپنے شوہر یا کسی ذی رحم محرم کے بغیر دو دن کا بھی سفر نہ کرے اور دوسری یہ کہ عیدالفطر اور عید الاضحی دونوں دن روزے نہ رکھے جائیں۔ تیسری بات یہ کہ صبح کی نماز کے بعد سورج کے نکلنے تک اور عصر کے بعد سورج چھپنے تک کوئی نفل نماز نہ پڑھی جائے۔ چوتھی یہ کہ تین مسجدوں کے سوا کسی کے لیے کجاوے نہ باندھے جائیں۔ مسجد الحرام، مسجد الاقصیٰ اور میری مسجد (یعنی مسجد نبوی) ۔
باب: نماز میں ہاتھ سے نماز کا کوئی کام کرنا۔
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہیں امام مالک (رح) نے خبر دی، انہیں مخرمہ بن سلیمان نے خبر دی، انہیں ابن عباس کے غلام کریب نے عبداللہ بن عباس (رض) سے خبر دی کہ آپ ایک رات ام المؤمنین میمونہ (رض) کے یہاں سوئے۔ ام المؤمنین میمونہ (رض) آپ کی خالہ تھیں۔ آپ نے بیان کیا کہ میں بستر کے عرض میں لیٹ گیا اور رسول اللہ ﷺ اور آپ کی بیوی اس کے طول میں لیٹے۔ پھر رسول اللہ ﷺ سو گئے حتیٰ کہ آدھی رات ہوئی یا اس سے تھوڑی دیر پہلے یا بعد۔ تو آپ ﷺ بیدار ہو کر بیٹھ گئے اور چہرے سے نیند کے خمار کو اپنے دونوں ہاتھوں سے دور کرنے لگے۔ پھر سورة آل عمران کے آخر کی دس آیتیں پڑھیں اس کے بعد پانی کی ایک مشک کے پاس گئے جو لٹک رہی تھی، اس سے آپ ﷺ نے اچھی طرح وضو کیا، پھر کھڑے ہو کر نماز شروع کی۔ عبداللہ بن عباس (رض) نے کہا کہ میں بھی اٹھا اور جس طرح نبی کریم ﷺ نے کیا تھا میں نے بھی کیا اور پھر جا کر آپ ﷺ کے پہلو میں کھڑا ہوگیا تو نبی کریم ﷺ نے اپنا داہنا ہاتھ میرے سر پر رکھا اور میرے داہنے کان کو پکڑ کر اسے اپنے ہاتھ سے مروڑنے لگے۔ پھر آپ ﷺ نے دو رکعت نماز پڑھی، پھر دو رکعت پڑھی، پھر دو رکعت پڑھی، پھر دو رکعت پڑھی، پھر دو رکعت پڑھی، پھر دو رکعت پڑھی۔ اس کے بعد (ایک رکعت) وتر پڑھا اور لیٹ گئے۔ جب مؤذن آیا تو آپ ﷺ دوبارہ اٹھے اور دو ہلکی رکعتیں پڑھ کر باہر نماز (فجر) کے لیے تشریف لے گئے۔
باب: نماز میں بات کرنا منع ہے۔
ہم سے عبداللہ بن نمیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے محمد بن فضیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے ابراہیم نے، ان سے علقمہ نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ (پہلے) نبی کریم ﷺ نماز پڑھتے ہوتے اور ہم سلام کرتے تو آپ ﷺ اس کا جواب دیتے تھے۔ جب ہم نجاشی کے یہاں سے واپس ہوئے تو ہم نے (پہلے کی طرح نماز ہی میں) سلام کیا۔ لیکن اس وقت آپ ﷺ نے جواب نہیں دیا بلکہ نماز سے فارغ ہو کر فرمایا کہ نماز میں آدمی کو فرصت کہاں۔
نماز میں کلام کی ممانعت کا بیان۔
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عیسیٰ بن یونس نے خبر دی، انہیں اسماعیل بن ابی خالد نے، انہیں حارث بن شبیل نے، انہیں ابوعمرو بن سعد بن ابی ایاس شیبانی نے بتایا کہ مجھ سے زید بن ارقم (رض) نے بتلایا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے عہد میں نماز پڑھنے میں باتیں کرلیا کرتے تھے۔ کوئی بھی اپنے قریب کے نمازی سے اپنی ضرورت بیان کردیتا۔ پھر آیت حافظوا على الصلوات الخ اتری اور ہمیں (نماز میں) خاموش رہنے کا حکم ہوا۔
باب: نماز میں مردوں کا سبحان اللہ اور الحمدللہ کہنا۔
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالعزیز بن ابی حازم نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ ابوحازم سلمہ بن دینار نے اور ان سے سہل بن سعد (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ بنو عمرو بن عوف (قباء) کے لوگوں میں صلح کروانے تشریف لائے، اور جب نماز کا وقت ہوگیا تو بلال (رض) نے ابوبکر صدیق (رض) سے کہا کہ نبی کریم ﷺ تو اب تک نہیں تشریف لائے اس لیے اب آپ نماز پڑھائیے۔ انہوں نے فرمایا اچھا اگر تمہاری خواہش ہے تو میں پڑھا دیتا ہوں۔ خیر بلال (رض) نے تکبیر کہی۔ ابوبکر (رض) آگے بڑھے اور نماز شروع کی۔ اتنے میں نبی کریم ﷺ تشریف لے آئے اور آپ ﷺ صفوں سے گزرتے ہوئے پہلی صف تک پہنچ گئے۔ لوگوں نے ہاتھ پر ہاتھ مارنا شروع کیا۔ (سہل نے) کہا کہ جانتے ہو تصفيح کیا ہے یعنی تالیاں بجانا اور ابوبکر (رض) نماز میں کسی طرف بھی دھیان نہیں کیا کرتے تھے، لیکن جب لوگوں نے زیادہ تالیاں بجائیں تو آپ متوجہ ہوئے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ صف میں موجود ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے اشارہ سے انہیں اپنی جگہ رہنے کے لیے کہا۔ اس پر ابوبکر (رض) نے ہاتھ اٹھا کر اللہ کا شکر کیا اور الٹے پاؤں پیچھے آگئے اور نبی کریم ﷺ آگے بڑھ گئے۔
باب: نماز میں نام لے کر دعا یا بددعا کرنا یا کسی کو سلام کرنا بغیر اس کے مخاطب کئے اور نمازی کو معلوم نہ ہو کہ اس سے نماز میں خلل آتا ہے۔
ہم سے عمرو بن عیسیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوعبدالصمد العمی عبدالعزیز بن عبدالصمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حصین بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، ان سے ابو وائل نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ ہم پہلے نماز میں یوں کہا کرتے تھے فلاں پر سلام اور نام لیتے تھے۔ اور آپس میں ایک شخص دوسرے کو سلام کرلیتا۔ نبی کریم ﷺ نے سن کر فرمایا اس طرح کہا کرو۔ التحيات لله والصلوات والطيبات، السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبرکاته، السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين، أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا عبده ورسوله یعنی ساری تحیات، بندگیاں اور کوششیں اور اچھی باتیں خاص اللہ ہی کے لیے ہیں اور اے نبی ! آپ پر سلام ہو، اللہ کی رحمتیں اور اس کی برکتیں نازل ہوں۔ ہم پر سلام ہو اور اللہ کے سب نیک بندوں پر، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں۔ اگر تم نے یہ پڑھ لیا تو گویا اللہ کے ان تمام صالح بندوں پر سلام پہنچا دیا جو آسمان اور زمین میں ہیں۔
باب: تالی بجانا یعنی ہاتھ پر ہاتھ مارنا صرف عورتوں کے لیے ہے۔
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زہری نے بیان کیا، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، (نماز میں اگر کوئی بات پیش آجائے تو) مردوں کو سبحان اللہ کہنا اور عورتوں کو ہاتھ پر ہاتھ مارنا چاہیے۔ (یعنی تالی بجا کر امام کو اطلاع دینی چاہیے۔ (نوٹ : تالی سیدھے ہاتھوں سے نہیں بلکہ سیدھے ہاتھ کو الٹے ہاتھ پر مار کر) ۔
باب: تالی بجانا یعنی ہاتھ پر ہاتھ مارنا صرف عورتوں کے لیے ہے۔
ہم سے یحییٰ بلخی نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو وکیع نے خبر دی، انہیں سفیان ثوری نے، انہیں ابوحازم سلمہ بن دینار نے اور انہیں سہل بن سعد (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، سبحان اللہ کہنا مردوں کے لیے ہے اور عورتوں کے لیے تالی بجانا۔
باب: جو شخص نماز میں الٹے پاؤں پیچھے سرک جائے یا آگے بڑھ جائے کسی حادثہ کی وجہ سے تو نماز فاسد نہ ہو گی۔
ہم سے بشر بن محمد نے بیان کیا، انہیں امام عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا کہ ہم سے یونس نے بیان کیا، ان سے زہری نے بیان کیا کہ مجھے انس بن مالک (رض) نے خبر دی کہ پیر کے روز مسلمان ابوبکر (رض) کی اقتداء میں فجر کی نماز پڑھ رہے تھے کہ اچانک نبی کریم ﷺ عائشہ (رض) کے حجرے کا پردہ ہٹائے ہوئے دکھائی دیئے۔ آپ ﷺ نے دیکھا کہ صحابہ صف باندھے کھڑے ہوئے ہیں۔ یہ دیکھ کر آپ ﷺ کھل کر مسکرا دیئے۔ ابوبکر (رض) الٹے پاؤں پیچھے ہٹے۔ انہوں نے سمجھا کہ نبی کریم ﷺ نماز کے لیے تشریف لائیں گے اور مسلمان نبی کریم ﷺ دیکھ کر اس درجہ خوش ہوئے کہ نماز ہی توڑ ڈالنے کا ارادہ کرلیا۔ لیکن نبی کریم ﷺ نے ہاتھ کے اشارہ سے ہدایت کی کہ نماز پوری کرو۔ پھر آپ ﷺ نے پردہ ڈال دیا اور حجرے میں تشریف لے گئے۔ پھر اس دن آپ ﷺ نے انتقال فرمایا۔
باب: اگر کوئی نماز پڑھ رہا ہو اور اس کی ماں اس کو بلائے تو کیا کرے؟
اور لیث بن سعد نے کہا کہ مجھ سے جعفر بن ربیعہ نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن ہرمز اعرج نے کہ ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، (بنی اسرائیل کی) ایک عورت نے اپنے بیٹے کو پکارا، اس وقت وہ عبادت خانے میں تھا۔ ماں نے پکارا کہ اے جریج ! جریج (پس و پیش میں پڑگیا اور دل میں) کہنے لگا کہ اے اللہ ! میں اب ماں کو دیکھوں یا نماز کو۔ پھر ماں نے پکارا : اے جریج ! (وہ اب بھی اس پس و پیش میں تھا) کہ اے اللہ ! میری ماں اور میری نماز ! ماں نے پھر پکارا : اے جریج ! (وہ اب بھی یہی) سوچے جا رہا تھا۔ اے اللہ ! میری ماں اور میری نماز ! (آخر) ماں نے تنگ ہو کر بددعا کی اے اللہ ! جریج کو موت نہ آئے جب تک وہ فاحشہ عورت کا چہرہ نہ دیکھ لے۔ جریج کی عبادت گاہ کے قریب ایک چرانے والی آیا کرتی تھی جو بکریاں چراتی تھی۔ اتفاق سے اس کے بچہ پیدا ہوا۔ لوگوں نے پوچھا کہ یہ کس کا بچہ ہے ؟ اس نے کہا کہ جریج کا ہے۔ وہ ایک مرتبہ اپنی عبادت گاہ سے نکل کر میرے پاس رہا تھا۔ جریج نے پوچھا کہ وہ عورت کون ہے ؟ جس نے مجھ پر تہمت لگائی ہے کہ اس کا بچہ مجھ سے ہے۔ (عورت بچے کو لے کر آئی تو) انہوں نے بچے سے پوچھا کہ بچے ! تمہارا باپ کون ؟ بچہ بول پڑا کہ ایک بکری چرانے والا گڈریا میرا باپ ہے۔
باب: نماز میں کنکری اٹھانا کیسا ہے؟
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شیبان نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن کثیر نے، ان سے ابوسلمہ نے، انہوں نے کہا کہ مجھ سے معیقیب بن ابی طلحہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص سے جو ہر مرتبہ سجدہ کرتے ہوئے کنکریاں برابر کرتا تھا فرمایا اگر ایسا کرنا ہے تو صرف ایک ہی بار کر۔
باب: نماز میں سجدہ کے لیے کپڑا بچھانا کیسا ہے؟
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے بشر بن مفضل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے غالب بن قطان نے بیان کیا، ان سے بکر بن عبداللہ مزنی نے اور ان سے انس بن مالک (رض) نے کہ ہم سخت گرمیوں میں جب نبی کریم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھتے اور چہرے کو زمین پر پوری طرح رکھنا مشکل ہوجاتا تو اپنا کپڑا بچھا کر اس پر سجدہ کیا کرتے تھے۔
باب: نماز میں کون کون سے کام درست ہیں؟
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے امام مالک (رح) نے بیان کیا، ان سے ابوالنضر سالم بن ابی امیہ نے، ان سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے اور ان سے عائشہ (رض) نے فرمایا کہ میں اپنا پاؤں نبی کریم ﷺ کے سامنے پھیلا لیتی تھی اور آپ ﷺ نماز پڑھتے ہوتے جب آپ ﷺ سجدہ کرنے لگتے تو آپ ﷺ مجھے ہاتھ لگاتے، میں پاؤں سمیٹ لیتی، پھر جب آپ ﷺ کھڑے ہوجاتے تو میں پھیلا لیتی۔
باب: نماز میں کون کون سے کام درست ہیں؟
ہم سے محمود بن غیلان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شبابہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے محمد بن زیاد نے بیان کیا، ان سے ابوہریرہ (رض) نے نبی کریم ﷺ سے کہ آپ ﷺ نے ایک مرتبہ ایک نماز پڑھی پھر فرمایا کہ میرے سامنے ایک شیطان آگیا اور کوشش کرنے لگا کہ میری نماز توڑ دے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کو میرے قابو میں کردیا میں نے اس کا گلا گھونٹا یا اس کو دھکیل دیا۔ آخر میں میرا ارادہ ہوا کہ اسے مسجد کے ایک ستون سے باندھ دوں اور جب صبح ہو تو تم بھی دیکھو۔ لیکن مجھے سلیمان (علیہ السلام) کی دعا یاد آگئی اے اللہ ! مجھے ایسی سلطنت عطا کیجیو جو میرے بعد کسی اور کو نہ ملے (اس لیے میں نے اسے چھوڑ دیا) اور اللہ تعالیٰ نے اسے ذلت کے ساتھ بھگا دیا۔ اس کے بعد نضر بن شمیل نے کہا کہ ذعته ذال سے ہے۔ جس کے معنی ہیں کہ میں نے اس کا گلا گھونٹ دیا اور دعته اللہ تعالیٰ کے اس قول سے لیا گیا ہے۔ يوم يدعون جس کے معنی ہیں قیامت کے دن وہ دوزخ کی طرف دھکیلے جائیں گے۔ درست پہلا ہی لفظ ہے۔ البتہ شعبہ نے اسی طرح عین اور تاء کی تشدید کے ساتھ بیان کیا ہے۔
باب: اگر آدمی نماز میں ہو اور اس کا جانور بھاگ پڑے۔
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ارزق بن قیس نے بیان کیا، کہا کہ ہم اہواز میں (جو کئی بستیاں ہیں بصرہ اور ایران کے بیچ میں) خارجیوں سے جنگ کر رہے تھے۔ ایک بار میں نہر کے کنارے بیٹھا تھا۔ اتنے میں ایک شخص (ابوبرزہ صحابی رضی اللہ عنہ) آیا اور نماز پڑھنے لگا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ان کے گھوڑے کی لگام ان کے ہاتھ میں ہے۔ اچانک گھوڑا ان سے چھوٹ کر بھاگنے لگا۔ تو وہ بھی اس کا پیچھا کرنے لگے۔ شعبہ نے کہا یہ ابوبرزہ اسلمی (رض) تھے۔ یہ دیکھ کر خوارج میں سے ایک شخص کہنے لگا کہ اے اللہ ! اس شیخ کا ناس کر۔ جب وہ شیخ واپس لوٹے تو فرمایا کہ میں نے تمہاری باتیں سن لی ہیں۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چھ یا سات یا آٹھ جہادوں میں شرکت کی ہے اور میں نے آپ ﷺ کی آسانیوں کو دیکھا ہے۔ اس لیے مجھے یہ اچھا معلوم ہوا کہ اپنا گھوڑا ساتھ لے کر لوٹوں نہ کہ اس کو چھوڑ دوں وہ جہاں چاہے چل دے اور میں تکلیف اٹھاؤں۔
باب: اگر آدمی نماز میں ہو اور اس کا جانور بھاگ پڑے۔
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا کہ ہم کو یونس نے خبر دی، انہیں زہری نے، ان سے عروہ نے بیان کیا کہ عائشہ (رض) نے بتلایا کہ جب سورج گرہن لگا تو نبی کریم ﷺ (نماز کے لیے) کھڑے ہوئے اور ایک لمبی سورت پڑھی۔ پھر رکوع کیا اور بہت لمبا رکوع کیا۔ پھر سر اٹھایا اس کے بعد دوسری سورت شروع کردی، پھر رکوع کیا اور رکوع پورا کر کے اس رکعت کو ختم کیا اور سجدے میں گئے۔ پھر دوسری رکعت میں بھی آپ ﷺ نے اسی طرح کیا، نماز سے فارغ ہو کر آپ ﷺ نے فرمایا کہ سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ اس لیے جب تم ان میں گرہن دیکھو تو نماز شروع کر دو جب تک کہ یہ صاف ہوجائے اور دیکھو میں نے اپنی اسی جگہ سے ان تمام چیزوں کو دیکھ لیا ہے جن کا مجھ سے وعدہ ہے۔ یہاں تک کہ میں نے یہ بھی دیکھا کہ میں جنت کا ایک خوشہ لینا چاہتا ہوں۔ ابھی تم لوگوں نے دیکھا ہوگا کہ میں آگے بڑھنے لگا تھا اور میں نے دوزخ بھی دیکھی (اس حالت میں کہ) بعض آگ بعض آگ کو کھائے جا رہی تھی۔ تم لوگوں نے دیکھا ہوگا کہ جہنم کے اس ہولناک منظر کو دیکھ کر میں پیچھے ہٹ گیا تھا۔ میں نے جہنم کے اندر عمرو بن لحیی کو دیکھا۔ یہ وہ شخص ہے جس نے سانڈ کی رسم عرب میں جاری کی تھی۔ (نوٹ : سانڈ کی رسم سے مراد کہ اونٹنی کو غیر اللہ کے نام پر چھوڑ دینا حتیٰ کہ سواری اور دودھ بھی نہ دھونا۔ )
باب: اس بارے میں کہ نماز میں تھوکنا اور پھونک مارنا کہاں تک جائز ہے؟
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے، ان سے نافع نے، ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک دفعہ مسجد میں قبلہ کی طرف رینٹ دیکھی۔ آپ ﷺ مسجد میں موجود لوگوں پر بہت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے سامنے ہے اس لیے نماز میں تھوکا نہ کرو، یا یہ فرمایا کہ رینٹ نہ نکالا کرو۔ پھر آپ ﷺ اترے اور خود ہی اپنے ہاتھ سے اسے کھرچ ڈالا۔ ابن عمر (رض) نے کہا کہ جب کسی کو تھوکنا ضروری ہو تو اپنی بائیں طرف تھوک لے۔
باب
باب : اگر کوئی مرد مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے نماز میں دستک دے تو اس کی نماز فاسد نہ ہوگی اس باب میں سہل بن سعد (رض) کی ایک روایت نبی کریم ﷺ سے ہے۔
باب: اس بارے میں کہ اگر نمازی سے کوئی کہے کہ آگے بڑھ جا یا ٹھہر جا اور وہ آگے بڑھ جائے یا ٹھہر جائے تو کوئی قباحت نہیں ہے۔
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی، انہیں ابوحازم نے، ان کو سہل بن سعد (رض) نے بتلایا کہ لوگ نبی کریم ﷺ کے ساتھ نماز اس طرح پڑھتے کہ تہبند چھوٹے ہونے کی وجہ سے انہیں اپنی گردنوں سے باندھے رکھتے اور عورتوں کو (جو مردوں کے پیچھے جماعت میں شریک رہتی تھیں) کہہ دیا جاتا کہ جب تک مرد پوری طرح سمٹ کر نہ بیٹھ جائیں تم اپنے سر (سجدے سے) نہ اٹھانا۔
باب: نماز میں سلام کا جواب (زبان سے) نہ دے۔
ہم سے عبداللہ بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابن فضیل نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابراہیم نے، ان سے علقمہ نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہا کہ (ابتداء اسلام میں) نبی کریم ﷺ جب نماز میں ہوتے تو میں آپ ﷺ کو سلام کرتا تو آپ ﷺ جواب دیتے تھے۔ مگر جب ہم (حبشہ سے جہاں ہجرت کی تھی) واپس آئے تو میں نے (پہلے کی طرح نماز میں) سلام کیا۔ مگر آپ ﷺ نے کوئی جواب نہیں دیا (کیونکہ اب نماز میں بات چیت وغیرہ کی ممانعت نازل ہوگئی تھی) اور فرمایا کہ نماز میں اس سے مشغولیت ہوتی ہے۔
باب: نماز میں سلام کا جواب (زبان سے) نہ دے۔
ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے کثیر بن شنظیر نے بیان کیا، ان سے عطاء بن ابی رباح نے ان سے جابر بن عبداللہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے اپنی ایک ضرورت کے لیے (غزوہ بنی مصطلق میں) بھیجا۔ میں واپس آیا اور میں نے کام پورا کردیا تھا۔ پھر میں نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ ﷺ کو سلام کیا۔ لیکن آپ ﷺ نے کوئی جواب نہیں دیا۔ میرے دل میں اللہ جانے کیا بات آئی اور میں نے اپنے دل میں کہا کہ شاید رسول اللہ ﷺ مجھ پر اس لیے خفا ہیں کہ میں دیر سے آیا ہوں۔ میں نے پھر دوبارہ سلام کیا اور جب اس مرتبہ بھی آپ ﷺ نے کوئی جواب نہ دیا تو اب میرے دل میں پہلے سے بھی زیادہ خیال آیا۔ پھر میں نے (تیسری مرتبہ) سلام کیا، اور اب آپ ﷺ نے جواب دیا اور فرمایا کہ پہلے جو دو بار میں نے جواب نہ دیا تو اس وجہ سے تھا کہ میں نماز پڑھ رہا تھا، اور آپ ﷺ اس وقت اپنی اونٹنی پر تھے اور اس کا رخ قبلہ کی طرف نہ تھا بلکہ دوسری طرف تھا۔
باب: نماز میں کوئی حادثہ پیش آئے تو ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا۔
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدالعزیز بن ابی حازم نے بیان کیا، ان سے ابوحازم سلمہ بن دینار نے اور ان سے سہل بن سعد (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ کو یہ خبر پہنچی کہ قباء کے قبیلہ بنو عمرو بن عوف میں کوئی جھگڑا ہوگیا ہے۔ اس لیے آپ ﷺ کئی اصحاب کو ساتھ لے کر ان میں صلح کرانے کے لیے تشریف لے گئے۔ وہاں آپ ﷺ صلح صفائی کے لیے ٹھہر گئے۔ ادھر نماز کا وقت ہوگیا تو بلال (رض) نے ابوبکر (رض) سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں آئے اور نماز کا وقت ہوگیا، تو کیا آپ لوگوں کو نماز پڑھائیں گے ؟ آپ نے جواب دیا کہ ہاں اگر تم چاہتے ہو تو پڑھا دوں گا۔ چناچہ بلال (رض) نے تکبیر کہی اور ابوبکر (رض) نے آگے بڑھ کر نیت باندھ لی۔ اتنے میں رسول اللہ ﷺ بھی تشریف لے آئے اور صفوں سے گزرتے ہوئے آپ ﷺ پہلی صف میں آ کھڑے ہوئے، لوگوں نے ہاتھ پر ہاتھ مارنے شروع کردیئے۔ (سہل نے کہا کہ تصفيح کے معنی تصفيق کے ہیں) آپ نے بیان کیا کہ ابوبکر (رض) نماز میں کسی طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے۔ لیکن جب لوگوں نے بہت دستکیں دیں تو انہوں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ کھڑے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے اشارہ سے ابوبکر کو نماز پڑھانے کے لیے کہا۔ اس پر ابوبکر (رض) نے ہاتھ اٹھا کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور پھر الٹے پاؤں پیچھے کی طرف چلے آئے اور صف میں کھڑے ہوگئے اور رسول اللہ ﷺ نے آگے بڑھ کر نماز پڑھائی۔ نماز سے فارغ ہو کر آپ ﷺ لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ لوگو ! یہ کیا بات ہے کہ جب نماز میں کوئی بات پیش آتی ہے تو تم تالیاں بجانے لگتے ہو۔ یہ مسئلہ تو عورتوں کے لیے ہے۔ تمہیں اگر نماز میں کوئی حادثہ پیش آئے تو سبحان الله کہا کرو۔ اس کے بعد آپ ﷺ ابوبکر (رض) کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ ابوبکر ! میرے کہنے کے باوجود تم نے نماز کیوں نہیں پڑھائی ؟ ابوبکر (رض) نے عرض کیا کہ ابوقحافہ کے بیٹے کو زیب نہیں دیتا کہ رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں نماز پڑھائے۔
باب: نماز میں کمر پر ہاتھ رکھنا کیسا ہے؟
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے، ان سے محمد بن سیرین نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ نماز میں پہلو پر ہاتھ رکھنے سے منع کیا گیا تھا۔ ہشام اور ابوہلال محمد بن سلیم نے، ابن سیرین سے اس حدیث کو روایت کیا، وہ ابوہریرہ (رض) سے اور وہ نبی کریم ﷺ سے۔
باب: نماز میں کمر پر ہاتھ رکھنا کیسا ہے؟
ہم سے عمرو بن علی فلاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے ہشام بن حسان فردوسی نے بیان کیا، ان سے محمد بن سیرین نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے پہلو پر ہاتھ رکھ کر نماز پڑھنے سے منع فرمایا۔
باب: آدمی نماز میں کسی بات کی فکر کرے تو کیسا ہے؟
ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے روح بن عبادہ نے، کہا کہ ہم سے عمر نے جو سعید کے بیٹے ہیں، انہوں نے کہا کہ مجھے ابن ابی ملیکہ نے خبر دی عقبہ بن حارث (رض) سے، انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ عصر کی نماز پڑھی۔ آپ ﷺ سلام پھیرتے ہی بڑی تیزی سے اٹھے اور اپنی ایک بیوی کے حجرہ میں تشریف لے گئے، پھر باہر تشریف لائے۔ آپ ﷺ نے اپنی جلدی پر اس تعجب و حیرت کو محسوس کیا جو صحابہ کے چہروں سے ظاہر ہو رہا تھا، اس لیے آپ ﷺ نے فرمایا کہ نماز میں مجھے سونے کا ایک ڈلا یاد آگیا جو ہمارے پاس تقسیم سے باقی رہ گیا تھا۔ مجھے برا معلوم ہوا کہ ہمارے پاس وہ شام تک یا رات تک رہ جائے۔ اس لیے میں نے اسے تقسیم کرنے کا حکم دے دیا۔
باب: آدمی نماز میں کسی بات کی فکر کرے تو کیسا ہے؟
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث نے، ان سے جعفر بن ربیعہ نے اور ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب نماز کے لیے اذان دی جاتی ہے تو شیطان پیٹھ موڑ کر ریاح خارج کرتا ہوا بھاگتا ہے تاکہ اذان نہ سن سکے۔ جب مؤذن چپ ہوجاتا ہے تو مردود پھر آجاتا ہے اور جب جماعت کھڑی ہونے لگتی ہے (اور تکبیر کہی جاتی ہے) تو پھر بھاگ جاتا ہے۔ لیکن جب مؤذن چپ ہوجاتا ہے تو پھر آجاتا ہے۔ اور آدمی کے دل میں وسواس پیدا کرتا رہتا ہے۔ کہتا ہے کہ (فلاں فلاں بات) یاد کر۔ کم بخت وہ باتیں یاد دلاتا ہے جو اس نمازی کے ذہن میں بھی نہ تھیں۔ اس طرح نمازی کو یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ اس نے کتنی رکعتیں پڑھی ہیں۔ ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے کہا کہ جب کوئی یہ بھول جائے (کہ کتنی رکعتیں پڑھی ہیں) تو بیٹھے بیٹھے (سہو کے) دو سجدے کرلے۔ ابوسلمہ نے یہ ابوہریرہ (رض) سے سنا تھا۔
باب: آدمی نماز میں کسی بات کی فکر کرے تو کیسا ہے؟
ہم سے محمد بن مثنی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عثمان بن عمر نے کہا کہ مجھے ابن ابی ذئب نے خبر دی، انہیں سعید مقبری نے کہ ابوہریرہ (رض) نے کہا لوگ کہتے ہیں کہ ابوہریرہ بہت زیادہ حدیثیں بیان کرتا ہے (اور حال یہ ہے کہ) میں ایک شخص سے ایک مرتبہ ملا اور اس سے میں نے (بطور امتحان) دریافت کیا کہ گزشتہ رات نبی کریم ﷺ نے عشاء میں کون کون سی سورتیں پڑھی تھیں ؟ اس نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم۔ میں نے پوچھا کہ تم نماز میں شریک تھے ؟ کہا کہ ہاں شریک تھا۔ میں نے کہا لیکن مجھے تو یاد ہے کہ آپ ﷺ نے فلاں فلاں سورتیں پڑھی تھیں۔
باب: اگر چار رکعت نماز میں پہلا قعدہ نہ کرے اور بھولے سے اٹھ کھڑا ہو تو سجدہ سہو کرے۔
ہم سے عبداللہ یوسف تینسی نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک بن انس نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں عبدالرحمٰن اعرج نے اور ان سے عبداللہ بن بحینہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کسی (چار رکعت) نماز کی دو رکعت پڑھانے کے بعد (قعدہ تشہد کے بغیر) کھڑے ہوگئے، پہلا قعدہ نہیں کیا۔ اس لیے لوگ بھی آپ ﷺ کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔ جب آپ ﷺ نماز پوری کرچکے تو ہم سلام پھیرنے کا انتظار کرنے لگے۔ لیکن آپ ﷺ نے سلام سے پہلے بیٹھے بیٹھے الله اکبر کہا اور سلام ہی سے پہلے دو سجدے بیٹھے بیٹھے کیے پھر سلام پھیرا۔
باب: اگر چار رکعت نماز میں پہلا قعدہ نہ کرے اور بھولے سے اٹھ کھڑا ہو تو سجدہ سہو کرے۔
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو امام مالک (رح) نے خبر دی، انہیں یحییٰ بن سعید انصاری نے خبر دی، انہیں عبدالرحمٰن اعرج نے خبر دی اور ان سے عبداللہ بن بحینہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ ظہر کی دو رکعت پڑھنے کے بعد بیٹھے بغیر کھڑے ہوگئے اور قعدہ اولیٰ نہیں کیا، جب نماز پوری کرچکے تو دو سجدے کئے، پھر ان کے بعد سلام پھیرا۔
باب: اگر کسی نے پانچ رکعت نماز پڑھ لی تو کیا کرے؟
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے حکم نے، ان سے ابراہیم نخعی نے، ان سے علقمہ نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے ظہر میں پانچ رکعت پڑھ لیں۔ اس لیے آپ ﷺ سے پوچھا گیا کہ کیا نماز کی رکعتیں زیادہ ہوگئی ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیا بات ہے ؟ کہنے والے نے کہا کہ آپ ﷺ نے پانچ رکعتیں پڑھی ہیں۔ اس پر آپ ﷺ نے سلام کے بعد دو سجدے کئے۔
باب: دو رکعتیں یا تین رکعتیں پڑھ کر سلام پھیر دے تو نماز کے سجدوں کی طرح یا ان سے لمبے سہو کے دو سجدے کرے۔
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے سعد بن ابراہیم نے، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے ظہر یا عصر کی نماز پڑھائی جب آپ ﷺ نے سلام پھیرا تو ذوالیدین کہنے لگا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! کیا نماز کی رکعتیں کم ہوگئی ہیں ؟ (کیونکہ آپ ﷺ نے بھول کر صرف رکعتوں پر سلام پھیر دیا تھا) نبی کریم ﷺ نے اپنے اصحاب سے دریافت کیا کہ کیا یہ سچ کہتے ہیں ؟ صحابہ نے کہا جی ہاں، اس نے صحیح کہا ہے۔ تب نبی کریم ﷺ نے دو رکعت اور پڑھائیں پھر دو سجدے کئے۔ سعد نے بیان کیا کہ عروہ بن زبیر کو میں نے دیکھا کہ آپ نے مغرب کی دو رکعتیں پڑھ کر سلام پھیر دیا اور باتیں بھی کیں۔ پھر باقی ایک رکعت پڑھی اور دو سجدے کئے اور فرمایا کہ نبی کریم ﷺ نے اسی طرح کیا تھا۔
اس شخص کا بیان جس نے سجدہ سہو میں تشہد نہیں پڑھا اور سلام پھیر لیا، انس اور حسن نے سلام پھیر لیا اور تشہد نہیں پڑھا اور بیان کیا کہ قتادہ تشہد نہیں پڑھتے تھے۔
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے سلمہ بن علقمہ نے، انہوں کہا کہ میں نے محمد بن سیرین سے پوچھا کہ کیا سجدہ سہو میں تشہد ہے ؟ آپ نے جواب دیا کہ ابوہریرہ (رض) کی حدیث میں تو اس کا ذکر نہیں ہے۔
باب: سہو کے سجدوں میں تکبیر کہنا۔
ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یزید بن ابراہیم نے بیان کیا، ان سے محمد بن سیرین نے بیان کیا، ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا، کہ نبی کریم ﷺ نے تیسرے پہر کی دو نمازوں (ظہر یا عصر) میں سے کوئی نماز پڑھی۔ میرا غالب گمان یہ ہے کہ وہ عصر ہی کی نماز تھی۔ اس میں آپ ﷺ نے صرف دو ہی رکعت پر سلام پھیر دیا۔ پھر آپ ﷺ ایک درخت کے تنے سے جو مسجد کی اگلی صف میں تھا، ٹیک لگا کر کھڑے ہوگئے۔ آپ ﷺ اپنا ہاتھ اس پر رکھے ہوئے تھے۔ حاضرین میں ابوبکر اور عمر (رض) بھی تھے لیکن انہیں بھی کچھ کہنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ جو (جلد باز قسم کے) لوگ نماز پڑھتے ہی مسجد سے نکل جانے کے عادی تھے۔ وہ باہر جا چکے تھے۔ لوگوں نے کہا کیا نماز کی رکعتیں کم ہوگئیں۔ ایک شخص جنہیں نبی کریم ﷺ ذوالیدین کہتے تھے۔ وہ بولے یا رسول اللہ ! آپ بھول گئے یا نماز میں کمی ہوگئی ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا نہ میں بھولا ہوں اور نہ نماز کی رکعتیں کم ہوئیں۔ ذوالیدین بولے کہ نہیں آپ بھول گئے ہیں۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے دو رکعت اور پڑھی اور سلام پھیرا پھر تکبیر کہی اور معمول کے مطابق یا اس سے بھی طویل سجدہ کیا۔ جب سجدہ سے سر اٹھایا تو پھر تکبیر کہی اور پھر تکبیر کہہ کر سجدہ میں گئے۔ یہ سجدہ بھی معمول کی طرح یا اس سے طویل تھا۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے سر اٹھایا اور تکبیر کہی۔
باب: سہو کے سجدوں میں تکبیر کہنا۔
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے اعرج نے، ان سے عبداللہ بن بحینہ اسدی نے جو بنو عبدالمطلب کے حلیف تھے کہ رسول اللہ ﷺ ظہر کی نماز میں قعدہ اولیٰ کئے بغیر کھڑے ہوگئے۔ حالانکہ اس وقت آپ ﷺ کو بیٹھنا چاہیے تھا۔ جب آپ ﷺ نے نماز پوری کی تو آپ ﷺ نے بیٹھے بیٹھے ہی سلام سے پہلے دو سجدے سہو کے کئے اور ہر سجدے میں الله اکبر کہا۔ مقتدیوں نے بھی آپ ﷺ کے ساتھ یہ دو سجدے کئے۔ آپ ﷺ بیٹھنا بھول گئے تھے، اس لیے یہ سجدے اسی کے بدلہ میں کئے تھے۔ اس روایت کی مطابعت ابن جریج نے ابن شہاب سے تکبیر کے ذکر میں کی ہے۔
باب: اگر کسی نمازی کو یہ یاد نہ رہے کہ تین رکعتیں پڑھی ہیں یا چار تو وہ سلام سے پہلے بیٹھے بیٹھے ہی دو سجدے کر لے۔
ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ہشام بن ابی عبداللہ دستوائی نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب نماز کے لیے اذان ہوتی ہے تو شیطان ہوا خارج کرتا ہوا بھاگتا ہے تاکہ اذان نہ سنے، جب اذان پوری ہوجاتی ہے تو پھر آجاتا ہے۔ جب اقامت ہوتی ہے تو پھر بھاگ پڑتا ہے۔ لیکن اقامت ختم ہوتے ہی پھر آجاتا ہے اور نمازی کے دل میں طرح طرح کے وسوسے ڈالتا ہے اور کہتا ہے کہ فلاں فلاں بات یاد کرو، اس طرح اسے وہ باتیں یاد دلاتا ہے جو اس کے ذہن میں نہیں تھیں۔ لیکن دوسری طرف نمازی کو یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ کتنی رکعتیں اس نے پڑھی ہیں۔ اس لیے اگر کسی کو یہ یاد نہ رہے کہ تین رکعت پڑھیں یا چار تو بیٹھے ہی بیٹھے سہو کے دو سجدے کرلے۔
باب: سجدہ سہو فرض اور نفل دونوں نمازوں میں کرنا چاہیے۔
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو امام مالک (رح) نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے اور انہیں ابوہریرہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے جب کوئی نماز پڑھنے کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو شیطان آ کر اس کی نماز میں شبہ پیدا کردیتا ہے پھر اسے یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ کتنی رکعتیں پڑھیں۔ تم میں سے جب کسی کو ایسا اتفاق ہو تو بیٹھے بیٹھے دو سجدے کرلے۔
باب: اگر نمازی سے کوئی بات کرے اور وہ سن کر ہاتھ کے اشارے سے جواب دے تو نماز فاسد نہ ہو گی۔
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عمرو بن حارث نے خبر دی، انہیں بکیر نے، انہیں کریب نے کہ ابن عباس، مسور بن مخرمہ اور عبدالرحمٰن بن ازہر رضی اللہ عنہم نے انہیں عائشہ (رض) کی خدمت میں بھیجا اور کہا عائشہ (رض) سے ہم سب کا سلام کہنا اور اس کے بعد عصر کے بعد کی دو رکعتوں کے بارے میں دریافت کرنا۔ انہیں یہ بھی بتادینا کہ ہمیں خبر ہوئی ہے کہ آپ یہ دو رکعتیں پڑھتی ہیں۔ حالانکہ ہمیں نبی کریم ﷺ سے یہ حدیث پہنچی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ان دو رکعتوں سے منع کیا ہے اور ابن عباس (رض) نے کہا کہ میں نے عمر بن خطاب (رض) کے ساتھ ان رکعتوں کے پڑھنے پر لوگوں کو مارا بھی تھا۔ کریب نے بیان کیا کہ میں عائشہ (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا اور پیغام پہنچایا۔ اس کا جواب آپ نے یہ دیا کہ ام سلمہ (رض) سے اس کے متعلق دریافت کر۔ چناچہ میں ان حضرات کی خدمت میں واپس ہوا اور عائشہ (رض) کی گفتگو نقل کردی، انہوں نے مجھے ام سلمہ (رض) کی خدمت میں بھیجا انہیں پیغامات کے ساتھ جن کے ساتھ عائشہ (رض) کے یہاں بھیجا تھا۔ ام سلمہ (رض) نے یہ جواب دیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا ہے کہ آپ ﷺ عصر کے بعد نماز پڑھنے سے روکتے تھے لیکن ایک دن میں نے دیکھا کہ عصر کے بعد آپ ﷺ خود یہ دو رکعتیں پڑھ رہے ہیں۔ اس کے بعد آپ ﷺ میرے گھر تشریف لائے۔ میرے پاس انصار کے قبیلہ بنو حرام کی چند عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں۔ اس لیے میں نے ایک باندی کو آپ ﷺ کی خدمت میں بھیجا۔ میں نے اس سے کہہ دیا تھا کہ وہ آپ ﷺ کے بازو میں ہو کر یہ پوچھے کہ ام سلمہ کہتی ہیں کہ یا رسول اللہ ! آپ تو ان دو رکعتوں سے منع کیا کرتے تھے حالانکہ میں دیکھ رہی ہوں کہ آپ ﷺ خود انہیں پڑھتے ہیں۔ اگر نبی کریم ﷺ ہاتھ سے اشارہ کریں تو تم پیچھے ہٹ جانا۔ باندی نے پھر اسی طرح کیا اور آپ ﷺ نے ہاتھ سے اشارہ کیا تو پیچھے ہٹ گئی۔ پھر جب آپ ﷺ فارغ ہوئے تو (آپ نے ام سلمہ (رض) سے) فرمایا کہ اے ابوامیہ کی بیٹی ! تم نے عصر کے بعد کی دو رکعتوں کے متعلق پوچھا، بات یہ ہے کہ میرے پاس عبدالقیس کے کچھ لوگ آگئے تھے اور ان کے ساتھ بات کرنے میں میں ظہر کے بعد کی دو رکعتیں نہیں پڑھ سکا تھا سو یہ وہی دو رکعت ہیں۔
باب: نماز میں اشارہ کرنا۔
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے یعقوب بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، ان سے ابوحازم سلمہ بن دینار نے، ان سے سہل بن سعد ساعدی (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کو خبر پہنچی کہ بنی عمرو بن عوف کے لوگوں میں باہم کوئی جھگڑا پیدا ہوگیا ہے تو آپ ﷺ چند صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ ملاپ کرانے کے لیے وہاں تشریف لے گئے۔ رسول اللہ ﷺ ابھی مشغول ہی تھے کہ نماز کا وقت ہوگیا۔ اس لیے بلال (رض) نے ابوبکر (رض) سے کہا کہ رسول اللہ ﷺ ابھی تک تشریف نہیں لائے۔ ادھر نماز کا وقت ہوگیا ہے۔ کیا آپ لوگوں کی امامت کریں گے ؟ انہوں نے کہا کہ ہاں اگر تم چاہو۔ چناچہ بلال (رض) نے تکبیر کہی اور ابوبکر (رض) نے آگے بڑھ کر تکبیر (تحریمہ) کہی۔ اتنے میں رسول اللہ ﷺ بھی صفوں سے گزرتے ہوئے پہلی صف میں آ کر کھڑے ہوگئے۔ لوگوں نے (ابوبکر (رض) کو آگاہ کرنے کے لیے) ہاتھ پر ہاتھ بجانے شروع کردیئے لیکن ابوبکر (رض) نماز میں کسی طرف دھیان نہیں دیا کرتے تھے۔ جب لوگوں نے بہت تالیاں بجائیں تو آپ متوجہ ہوئے اور کیا دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کھڑے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے اشارہ سے انہیں نماز پڑھاتے رہنے کے لیے کہا، اس پر ابوبکر (رض) نے ہاتھ اٹھا کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور الٹے پاؤں پیچھے کی طرف آ کر صف میں کھڑے ہوگئے پھر رسول اللہ ﷺ نے آگے بڑھ کر نماز پڑھائی۔ نماز کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا۔ لوگو ! نماز میں ایک امر پیش آیا تو تم لوگ ہاتھ پر ہاتھ کیوں مارنے لگے تھے، یہ دستک دینا تو صرف عورتوں کے لیے ہے۔ جس کو نماز میں کوئی حادثہ پیش آئے تو سبحان الله کہے کیونکہ جب بھی کوئی سبحان الله سنے گا وہ ادھر خیال کرے گا اور اے ابوبکر ! میرے اشارے کے باوجود تم لوگوں کو نماز کیوں نہیں پڑھاتے رہے ؟ ابوبکر (رض) نے عرض کیا کہ بھلا ابوقحافہ کے بیٹے کی کیا مجال تھی کہ رسول اللہ ﷺ کے آگے نماز پڑھائے۔
باب: نماز میں اشارہ کرنا۔
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، ان سے سفیان ثوری نے، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے فاطمہ بنت منذر نے اور ان سے اسماء بنت ابی بکر (رض) نے بیان کیا کہ میں عائشہ (رض) کے پاس گئی۔ اس وقت وہ کھڑی نماز پڑھ رہی تھیں۔ لوگ بھی کھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔ میں نے پوچھا کہ کیا بات ہوئی ؟ تو انہوں نے سر سے آسمان کی طرف اشارہ کیا۔ میں نے پوچھا کہ کیا کوئی نشانی ہے ؟ تو انہوں نے اپنے سر کے اشارے سے کہا کہ ہاں۔
باب: نماز میں اشارہ کرنا۔
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ہشام نے، ان سے ان کے باپ عروہ بن زبیر نے اور ان سے نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ عائشہ صدیقہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ بیمار تھے۔ اس لیے آپ ﷺ نے گھر ہی میں بیٹھ کر نماز پڑھی لوگوں نے آپ ﷺ کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھی۔ لیکن آپ ﷺ نے انہیں بیٹھنے کا اشارہ کیا اور نماز کے بعد فرمایا کہ امام اس لیے ہے کہ اس کی پیروی کی جائے۔ اس لیے جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو اور جب سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ۔