20. حج کا بیان

【1】

باب: حج کی فرضیت اور اس کی فضیلت کا بیان۔

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے خبر دی انہیں ابن شہاب نے، انہیں سلیمان بن یسار نے، اور ان سے عبداللہ بن عباس (رض) نے بیان کیا کہ فضل بن عباس (حجۃ الوداع میں) رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سواری کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے کہ قبیلہ خثعم کی ایک خوبصورت عورت آئی۔ فضل اس کو دیکھنے لگے وہ بھی انہیں دیکھ رہی تھی۔ لیکن رسول اللہ ﷺ فضل (رض) کا چہرہ بار بار دوسری طرف موڑ دینا چاہتے تھے۔ اس عورت نے کہا یا رسول اللہ ! اللہ کا فریضہ حج میرے والد کے لیے ادا کرنا ضروری ہوگیا ہے۔ لیکن وہ بہت بوڑھے ہیں اونٹنی پر بیٹھ نہیں سکتے۔ کیا میں ان کی طرف سے حج (بدل) کرسکتی ہوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں۔ یہ حجتہ الوداع کا واقعہ تھا۔

【2】

باب: اللہ پاک کا سورۃ الحج میں یہ ارشاد کہ لوگ پیدل چل کر تیرے پاس آئیں اور دبلے اونٹوں پر دور دراز راستوں سے اس لیے کہ دین اور دنیا کے فائدے حاصل کریں۔

ہم سے احمد بن عیسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں عبداللہ بن وہب نے خبر دی، انہیں یونس نے، انہیں بن شہاب نے کہ سالم بن عبداللہ بن عمر (رض) نے انہیں خبر دی، ان سے عبداللہ بن عمر نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ذی الحلیفہ میں دیکھا کہ اپنی سواری پر چڑھ رہے ہیں۔ پھر جب وہ سیدھی کھڑی ہوئی تو آپ ﷺ نے لبیک کہا۔

【3】

باب: اللہ پاک کا سورۃ الحج میں یہ ارشاد کہ لوگ پیدل چل کر تیرے پاس آئیں اور دبلے اونٹوں پر دور دراز راستوں سے اس لیے کہ دین اور دنیا کے فائدے حاصل کریں۔

ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں ولید بن مسلم نے خبر دی، کہا کہ ہم سے امام اوزاعی نے بیان کیا، انہوں نے عطاء بن ابی رباح سے سنا، وہ جابر بن عبداللہ انصاری (رض) سے بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے ذوالحلیفہ سے احرام باندھا جب سواری آپ ﷺ کو لے کر سیدھی کھڑی ہوگئی۔ ابراہیم بن موسیٰ کی یہ حدیث ابن عباس اور انس رضی اللہ عنہم سے بھی مروی ہے۔

【4】

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ ان کے بھائی عبدالرحمٰن کو بھیجا اور انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا کو تنعیم سے عمرہ کرایا اور پالان کی پچھلی لکڑی پر ان کو بٹھا لیا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حج کے لیے پالانیں باندھو کیونکہ یہ بھی ایک جہاد ہے۔

【5】

باب: پالان پر سوار ہو کر حج کرنا۔

محمد بن ابی بکر نے بیان کیا کہ ہم سے زید بن زریع نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عزرہ بن ثابت نے بیان کیا، ان سے ثمامہ بن عبداللہ بن انس نے بیان کیا کہ انس (رض) ایک پالان پر حج کے لیے تشریف لے گئے اور آپ بخیل نہیں تھے۔ آپ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ بھی پالان پر حج کے لیے تشریف لے گئے تھے، اسی پر آپ کا اسباب بھی لدا ہوا تھا۔

【6】

باب: پالان پر سوار ہو کر حج کرنا۔

ہم سے عمرو بن علی فلاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ایمن بن نابل نے بیان کیا۔ کہا کہ ہم سے قاسم بن محمد نے بیان کیا اور ان سے عائشہ (رض) نے کہ انھوں نے کہا یا رسول اللہ ! آپ لوگوں نے تو عمرہ کرلیا لیکن میں نہ کرسکی۔ اس لیے نبی کریم ﷺ نے فرمایا عبدالرحمٰن اپنی بہن کو لے جا اور انہیں تنعیم سے عمرہ کرا لا۔ چناچہ انہوں نے عائشہ (رض) کو اپنے اونٹ کے پیچھے بٹھا لیا اور عائشہ (رض) نے عمرہ ادا کیا۔

【7】

باب: حج مبرور کی فضیلت کا بیان۔

ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے زہری نے بیان کیا، ان سے سعید بن مسیب نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ سے کسی نے پوچھا کہ کون سا کام بہتر ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا۔ پوچھا گیا کہ پھر اس کے بعد ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنا۔ پھر پوچھا گیا کہ پھر اس کے بعد ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ حج مبرور۔

【8】

باب: حج مبرور کی فضیلت کا بیان۔

ہم سے عبدالرحمٰن بن مبارک نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے خالد بن عبداللہ طحان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں حبیب بن ابی عمرہ نے خبر دی، انہیں عائشہ بنت طلحہ نے اور انہیں ام المؤمنین عائشہ صدیقہ (رض) نے کہا کہ انہوں نے پوچھا یا رسول اللہ ! ہم دیکھتے ہیں کہ جہاد سب نیک کاموں سے بڑھ کر ہے۔ پھر ہم بھی کیوں نہ جہاد کریں ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ سب سے افضل جہاد حج ہے جو مبرور ہو۔

【9】

باب: حج مبرور کی فضیلت کا بیان۔

ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سیارابوالحکم نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابو حزم سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے ابوہریرہ (رض) سے سنا اور انہوں نے نبی کریم ﷺ سے سنا کہ آپ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے اللہ کے لیے اس شان کے ساتھ حج کیا کہ نہ کوئی فحش بات ہوئی اور نہ کوئی گناہ تو وہ اس دن کی طرح واپس ہوگا جیسے اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔

【10】

باب: حج اور عمرہ کی میقاتوں کا بیان۔

ہم سے مالک بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے زہیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے زید بن جبیر نے بیان کیا کہ وہ عبداللہ بن عمر (رض) کی قیام گاہ پر حاضر ہوئے۔ وہاں قنات کے ساتھ شامیانہ لگا ہوا تھا (زید بن جبیر نے کہا کہ) میں نے پوچھا کہ کس جگہ سے عمرہ کا احرام باندھنا چاہیے۔ عبداللہ (رض) نے جواب دیا کہ رسول اللہ ﷺ نے نجد والوں کے لیے قرن، مدینہ والوں کے لیے ذوالحلیفہ اور شام والوں کے لیے حجفہ مقرر کیا ہے۔

【11】

باب: فرمان باری تعالیٰ کہ توشہ ساتھ میں لے لو اور سب سے بہتر توشہ تقویٰ ہے۔

ہم سے یحییٰ بن بشر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شبابہ بن سوار نے بیان کیا، ان سے ورقاء بن عمرو نے، ان سے عمرو بن دینار نے، ان سے عکرمہ نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عباس (رض) نے بیان کیا کہ یمن کے لوگ راستہ کا خرچ ساتھ لائے بغیر حج کے لیے آجاتے تھے۔ کہتے تو یہ تھے کہ ہم توکل کرتے ہیں لیکن جب مکہ آتے تو لوگوں سے مانگنے لگتے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور توشہ لے لیا کرو کہ سب سے بہتر توشہ تو تقویٰ ہی ہے۔ اس کو ابن عیینہ نے عمرو سے بواسطہ عکرمہ مرسلاً نقل کیا ہے۔

【12】

باب: مکہ والے حج اور عمرے کا احرام کہاں سے باندھیں۔

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے وہیب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبداللہ بن طاؤس نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے مدینہ والوں کے احرام کے لیے ذوالحلیفہ، شام والوں کے لیے حجفہ، نجد والوں کے قرن منزل، یمن والوں کے یلملم متعین کیا۔ یہاں سے ان مقامات والے بھی احرام باندھیں اور ان کے علاوہ وہ لوگ بھی جو ان راستوں سے آئیں اور حج یا عمرہ کا ارادہ رکھتے ہوں۔ لیکن جن کا قیام میقات اور مکہ کے درمیان ہے تو وہ احرام اسی جگہ سے باندھیں جہاں سے انہیں سفر شروع کرنا ہے۔ یہاں تک کہ مکہ کے لوگ مکہ ہی سے احرام باندھیں۔

【13】

باب: مدینہ والوں کا میقات اور انہیں ذوالحلیفہ سے پہلے احرام نہ باندھنا چاہئے۔

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے خبر دی، انہیں نافع نے اور انہیں عبداللہ بن عمر (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مدینہ کے لوگ ذوالحلیفہ سے احرام باندھیں، شام کے لوگ حجفہ سے اور نجد کے لوگ قرن المنازل سے۔ عبداللہ نے کہا کہ مجھے معلوم ہوا ہے۔ کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اور یمن کے لوگ یلملم سے احرام باندھیں۔

【14】

باب: شام کے لوگوں کے احرام باندھنے کی جگہ کہاں ہے؟

ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے بیان کیا، ان سے طاؤس نے بیان کیا، اور ان سے عبداللہ بن عباس (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ والوں کے لیے ذوالحلیفہ کو میقات مقرر کیا، شام والوں کے لیے حجفہ، نجد والوں کے لیے قرن المنازل اور یمن والوں کے لیے یلملم۔ یہ میقات ان ملک والوں کے ہیں اور ان لوگوں کے لیے بھی جو ان ملکوں سے گزر کر حرم میں داخل ہوں اور حج یا عمرہ کا ارادہ رکھتے ہوں۔ لیکن جو لوگ میقات کے اندر رہتے ہوں۔ یہاں تک کہ مکہ کے لوگ احرام مکہ ہی سے باندھیں۔

【15】

باب: نجد والوں کے لیے احرام باندھنے کی جگہ کون سی ہے؟

ہم سے علی بن مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم نے زہری سے یہ حدیث یاد رکھی، ان سے سالم نے کہا اور ان سے ان کے والد نے بیان کیا تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے میقات متعین کردیئے تھے۔ (دوسری سند) اور امام بخاری (رح) نے کہا کہ مجھ سے احمد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، کہا کہ مجھے یونس نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں سالم بن عبداللہ نے اور ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ مدینہ والوں کے لیے احرام باندھنے کی جگہ ذوالحلیفہ اور شام والوں کے لیے مہیعہ یعنی حجفہ اور نجد والوں کے لیے قرن المنازل۔ عبداللہ بن عمر (رض) نے کہا کہ لوگ کہتے تھے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یمن والے احرام یلملم سے باندھیں لیکن میں نے اسے آپ ﷺ سے نہیں سنا۔

【16】

میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ مدینہ والوں کے لیے احرام باندھنے کی جگہ ذوالحلیفہ اور شام والوں کے لیے مہیعہ یعنی حجفہ اور نجد والوں کے لیے قرن المنازل۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ لوگ کہتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یمن والے احرام یلملم سے باندھیں لیکن میں نے اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنا۔

【17】

باب: جو لوگ میقات کے ادھر رہتے ہوں ان کے احرام باندھنے کی جگہ۔

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عمرو بن دینار نے، ان سے طاؤس نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے مدینہ والوں کے لیے ذوالحلیفہ میقات ٹھہرایا اور شام والوں کے لیے حجفہ، یمن والوں کے لیے یلملم اور نجد والوں کے لیے قرن المنازل۔ یہ ان ملکوں کے لوگوں کے لیے ہیں اور دوسرے ان تمام لوگوں کے لیے بھی جو ان ملکوں سے گزریں۔ اور حج اور عمرہ کا ارادہ رکھتے ہوں۔ لیکن جو لوگ میقات کے اندر رہتے ہوں۔ تو وہ اپنے شہروں سے احرام باندھیں، تاآنکہ مکہ کے لوگ مکہ ہی سے احرام باندھیں۔

【18】

باب: یمن والوں کے احرام باندھنے کی جگہ کون سی ہے؟

ہم سے معلی بن اسد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن طاؤس نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے مدینہ والوں کے لیے ذوالحلیفہ کو میقات مقرر کیا، شام والوں کے لیے حجفہ، نجد والوں کے لیے قرن المنازل اور یمن والوں کے لیے یلملم۔ یہ ان ملکوں کے باشندوں کے میقات ہیں اور تمام ان دوسرے مسلمانوں کے بھی جو ان ملکوں سے گزر کر آئیں اور حج اور عمرہ کا ارادہ رکھتے ہوں۔ لیکن جو لوگ میقات کے اندر رہتے ہیں تو (وہ احرام وہیں سے باندھیں) جہاں سے سفر شروع کریں تاآنکہ مکہ کے لوگ احرام مکہ ہی سے باندھیں۔

【19】

باب: عراق والوں کے احرام باندھنے کی جگہ ذات عرق ہے۔

ہم سے علی بن مسلم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبداللہ بن نمیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبیداللہ عمری نے نافع سے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے کہ جب یہ دو شہر (بصرہ اور کوفہ) فتح ہوئے تو لوگ عمر (رض) کے پاس آئے اور کہا کہ یا امیرالمؤمنین رسول اللہ ﷺ نے نجد کے لوگوں کے لیے احرام باندھنے کی جگہ قرن المنازل قرار دی ہے اور ہمارا راستہ ادھر سے نہیں ہے، اگر ہم قرن کی طرف جائیں تو ہمارے لیے بڑی دشواری ہوگی۔ اس پر عمر (رض) نے فرمایا کہ پھر تم لوگ اپنے راستے میں اس کے برابر کوئی جگہ تجویز کرلو۔ چناچہ ان کے لیے ذات عرق کی تعیین کردی۔

【20】

ذوالحلیفہ میں نماز پڑھنے کا بیان۔

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے خبر دی، انہیں نافع نے، انہیں عبداللہ بن عمر (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے مقام ذوالحلیفہ کے پتھریلے میدان میں اپنی سواری روکی اور پھر وہیں آپ ﷺ نے نماز پڑھی۔ عبداللہ بن عمر (رض) بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔

【21】

باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا شجرہ پر سے گزر کر جانا۔

ہم سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے انس بن عیاض نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ عمری نے بیان کیا، ان سے نافع نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ شجرہ کے راستے سے گزرتے ہوئے معرس کے راستے سے مدینہ آتے۔ نبی کریم ﷺ جب مکہ جاتے تو شجرہ کی مسجد میں نماز پڑھتے لیکن واپسی میں ذوالحلیفہ کے نشیب میں نماز پڑھتے۔ آپ ﷺ رات وہیں گزارتے تاآنکہ صبح ہوجاتی۔

【22】

باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد کہ وادی عقیق مبارک وادی ہے۔

ہم سے ابوبکر عبداللہ حمیدی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ولید اور بشر بن بکر تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے امام اوزاعی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے بیان کیا، انہوں نے عبداللہ بن عباس (رض) سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ میں نے عمر (رض) سے سنا، ان کا بیان تھا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے وادی عقیق میں سنا۔ آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ رات میرے پاس میرے رب کا ایک فرشتہ آیا اور کہا کہ اس مبارک وادی میں نماز پڑھ اور اعلان کر کہ عمرہ حج میں شریک ہوگیا۔

【23】

باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد کہ وادی عقیق مبارک وادی ہے۔

ہم سے محمد بن ابی بکر مقدمی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے فضیل بن سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سالم بن عبداللہ بن عمر نے بیان کیا اور ان سے ان کے والد نے نبی کریم ﷺ کے حوالہ سے کہ معرس کے قریب ذوالحلیفہ کی بطن وادی (وادی عقیق) میں آپ ﷺ کو خواب دکھایا گیا۔ (جس میں) آپ ﷺ سے کہا گیا تھا کہ آپ اس وقت بطحاء مبارکہ میں ہیں۔ موسیٰ بن عقبہ نے کہا کہ سالم نے ہم کو بھی وہاں ٹھہرایا وہ اس مقام کو ڈھونڈ رہے تھے جہاں عبداللہ اونٹ بٹھایا کرتے تھے یعنی جہاں نبی کریم ﷺ رات کو اترا کرتے تھے۔ وہ مقام اس مسجد کے نیچے کی طرف میں ہے جو نالے کے نشیب میں ہے۔ اترنے والوں اور راستے کے بیچوں بیچ (وادی عقیق مدینہ سے چار میل بقیع کی جانب ہے) ۔

【24】

کبھی آپ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حال میں دکھایئے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہو رہی ہو۔ انہوں نے بیان کیا کہ ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جعرانہ میں اپنے اصحاب کی ایک جماعت کے ساتھ ٹھہرے ہوئے تھے کہ ایک شخص نے آ کر پوچھا یا رسول اللہ! اس شخص کے متعلق آپ کا کیا حکم ہے جس نے عمرہ کا احرام اس طرح باندھا کہ اس کے کپڑے خوشبو میں بسے ہوئے ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس پر تھوڑی دیر کے لیے چپ ہو گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوئی تو عمر رضی اللہ عنہ نے یعلیٰ رضی اللہ عنہ کو اشارہ کیا۔ یعلیٰ آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک کپڑا تھا جس کے اندر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف رکھتے تھے۔ انہوں نے کپڑے کے اندر اپنا سر کیا تو کیا دیکھتے ہیں کہ روئے مبارک سرخ ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خراٹے لے رہے ہیں۔ پھر یہ حالت ختم ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ شخص کہاں ہے جس نے عمرہ کے متعلق پوچھا تھا۔ شخص مذکور حاضر کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو خوشبو لگا رکھی ہے اسے تین مرتبہ دھو لے اور اپنا جبہ اتار دے۔ عمرہ میں بھی اسی طرح کر جس طرح حج میں کرتے ہو۔ میں نے عطاء سے پوچھا کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تین مرتبہ دھونے کے حکم سے پوری طرح صفائی مراد تھی؟ تو انہوں نے کہا کہ ہاں۔

【25】

باب: احرام باندھنے کے وقت خوشبو لگانا اور احرام کے ارادہ کے وقت کیا پہننا چاہئے اور کنگھا کرے اور تیل لگائے۔

ہم سے محمد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوعاصم، ضحاک بن مخلد نبیل نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں ابن جریج نے خبر دی کہا کہ مجھے عطاء بن ابی رباح نے خبر دی، انہیں صفوان بن یعلیٰ نے، کہا کہ ان کے باپ یعلیٰ بن امیہ نے عمر (رض) سے کہا کہ کبھی آپ مجھے نبی کریم ﷺ کو اس حال میں دکھایئے جب آپ ﷺ پر وحی نازل ہو رہی ہو۔ انہوں نے بیان کیا کہ ایک بار رسول اللہ ﷺ جعرانہ میں اپنے اصحاب کی ایک جماعت کے ساتھ ٹھہرے ہوئے تھے کہ ایک شخص نے آ کر پوچھا یا رسول اللہ ! اس شخص کے متعلق آپ کا کیا حکم ہے جس نے عمرہ کا احرام اس طرح باندھا کہ اس کے کپڑے خوشبو میں بسے ہوئے ہوں۔ نبی کریم ﷺ اس پر تھوڑی دیر کے لیے چپ ہوگئے۔ پھر آپ ﷺ پر وحی نازل ہوئی تو عمر (رض) نے یعلیٰ (رض) کو اشارہ کیا۔ یعلیٰ آئے تو رسول اللہ ﷺ پر ایک کپڑا تھا جس کے اندر آپ ﷺ تشریف رکھتے تھے۔ انہوں نے کپڑے کے اندر اپنا سر کیا تو کیا دیکھتے ہیں کہ روئے مبارک سرخ ہے اور آپ ﷺ خراٹے لے رہے ہیں۔ پھر یہ حالت ختم ہوئی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ شخص کہاں ہے جس نے عمرہ کے متعلق پوچھا تھا۔ شخص مذکور حاضر کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو خوشبو لگا رکھی ہے اسے تین مرتبہ دھو لے اور اپنا جبہ اتار دے۔ عمرہ میں بھی اسی طرح کر جس طرح حج میں کرتے ہو۔ میں نے عطاء سے پوچھا کہ کیا نبی کریم ﷺ کے تین مرتبہ دھونے کے حکم سے پوری طرح صفائی مراد تھی ؟ تو انہوں نے کہا کہ ہاں۔

【26】

باب: احرام باندھنے کے وقت خوشبو لگانا اور احرام کے ارادہ کے وقت کیا پہننا چاہئے اور کنگھا کرے اور تیل لگائے۔

ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے سعید بن جبیر نے بیان کیا کہ ابن عمر (رض) سادہ تیل استعمال کرتے تھے (احرام کے باوجود) میں نے اس کا ذکر ابراہیم نخعی سے کیا تو انہوں نے فرمایا کہ تم ابن عمر (رض) کی بات نقل کرتے ہو۔ مجھ سے تو اسود نے بیان کیا، اور ان سے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ محرم ہیں اور گویا میں آپ ﷺ کی مانگ میں خوشبو کی چمک دیکھ رہی ہوں۔

【27】

باب: احرام باندھنے کے وقت خوشبو لگانا اور احرام کے ارادہ کے وقت کیا پہننا چاہئے اور کنگھا کرے اور تیل لگائے۔

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں امام مالک نے خبر دی، انہیں عبدالرحمٰن بن قاسم نے، انہیں ان کے والد نے اور ان سے نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ عائشہ (رض) نے فرمایا کہ جب رسول اللہ ﷺ احرام باندھتے تو میں آپ ﷺ کے احرام کے لیے اور اسی طرح بیت اللہ کے طواف زیارت سے پہلے حلال ہونے کے لیے، خوشبو لگایا کرتی تھیں۔

【28】

باب: بالوں کو جما کر باندھنا۔

ہم سے اصبغ بن فرج نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں عبداللہ بن وہب نے خبر دی، انہیں یونس نے، انہیں ابن شہاب نے، انہیں سالم نے اور ان سے ان کے والد نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے تلبید کی حالت میں لبیک کہتے سنا۔

【29】

باب: ذوالحلیفہ کی مسجد کے پاس احرام باندھنا۔

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، انہوں کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے سالم بن عبداللہ سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے ابن عمر (رض) سے سنا (دوسری سند) امام بخاری (رح) نے کہا اور ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے، ان سے موسیٰ بن عقبہ نے، ان سے سالم بن عبداللہ نے، انہوں نے اپنے باپ سے سنا، کہ وہ کہہ رہے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے مسجد ذوالحلیفہ کے قریب ہی پہنچ کر احرام باندھا تھا۔

【30】

باب: محرم کو کون سے کپڑے پہننا درست نہیں۔

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے خبر دی، انہیں نافع نے اور انہیں عبداللہ بن عمر (رض) نے کہ ایک شخص نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ! محرم کو کس طرح کا کپڑا پہننا چاہیے ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا نہ کرتہ پہنے، نہ عمامہ باندھے، نہ پاجامہ پہنے، نہ باران کوٹ، نہ موزے۔ لیکن اگر اس کے پاس جوتی نہ ہو تو وہ موزے اس وقت پہن سکتا ہے جب ٹخنوں کے نیچے سے ان کو کاٹ لیا ہو۔ (اور احرام میں) کوئی ایسا کپڑا نہ پہنو جس میں زعفران یا ورس لگا ہوا ہو۔ ابوعبداللہ امام بخاری (رح) نے کہا کہ محرم اپنا سر دھو سکتا ہے لیکن کنگھا نہ کرے۔ بدن بھی نہ کھجلانا چاہیے او جوں سر اور بدن سے نکال کر زمین پر ڈالی جاسکتی ہے۔

【31】

باب: حج کے لیے سوار ہونا یا سواری پر کسی کے پیچھے بیٹھنا درست ہے۔

ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، ان سے وہب بن جریر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے میرے والد جریر بن حازم نے بیان کیا۔ ان سے یونس بن زید نے، ان سے زہری نے، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ نے اور ان سے زہری نے، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے کہ عرفات سے مزدلفہ تک اسامہ بن زید (رض) رسول اللہ ﷺ کی سواری پر پیچھے بیٹھے ہوئے تھے۔ پھر مزدلفہ سے منیٰ تک فضل بن عباس (رض) پیچھے بیٹھ گئے تھے، دونوں حضرات نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ جمرہ عقبہ کی رمی تک برابر تلبیہ کہتے رہے۔

【32】

عرفات سے مزدلفہ تک اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری پر پیچھے بیٹھے ہوئے تھے۔ پھر مزدلفہ سے منیٰ تک فضل بن عباس رضی اللہ عنہما پیچھے بیٹھ گئے تھے، دونوں حضرات نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمرہ عقبہ کی رمی تک برابر تلبیہ کہتے رہے۔

【33】

باب: محرم چادریں، تہبند اور کون کون سے کپڑے پہنے۔

ہم سے محمد بن ابی بکر مقدمی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے فضیل بن سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھے کریب نے خبر دی اور ان سے عبداللہ بن عباس (رض) نے بیان کیا کہ حجتہ الوداع میں ظہر اور عصر کے درمیان ہفتہ کے دن نبی کریم ﷺ کنگھا کرنے اور تیل لگانے اور ازار اور رداء پہننے کے بعد اپنے صحابہ کے ساتھ مدینہ سے نکلے۔ آپ ﷺ نے اس وقت زعفران میں رنگے ہوئے ایسے کپڑے کے سوا جس کا رنگ بدن پر لگتا ہو کسی قسم کی چادر یا تہبند پہننے سے منع نہیں کیا۔ دن میں آپ ﷺ ذوالحلیفہ پہنچ گئے (اور رات وہیں گزاری) پھر آپ ﷺ سوار ہوئے اور بیداء سے آپ ﷺ نے اور آپ ﷺ کے ساتھیوں نے لبیک کہا اور احرام باندھا اور اپنے اونٹوں کو ہار پہنایا۔ ذی قعدہ کے مہینے میں اب پانچ دن رہ گئے تھے پھر جب آپ ﷺ مکہ پہنچے تو ذی الحجہ کے چار دن گزر چکے تھے۔ آپ ﷺ نے بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا اور مروہ کی سعی کی، آپ ﷺ ابھی حلال نہیں ہوئے کیونکہ قربانی کے جانور آپ ﷺ کے ساتھ تھے اور آپ ﷺ نے ان کی گردن میں ہار ڈال دیا تھا۔ آپ ﷺ حجون پہاڑ کے نزدیک مکہ کے بالائی حصہ میں اترے۔ حج کا احرام اب بھی باقی تھا۔ بیت اللہ کے طواف کے بعد پھر آپ ﷺ وہاں اس وقت تک تشریف نہیں لے گئے جب تک میدان عرفات سے واپس نہ ہو لیے۔ آپ ﷺ نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا تھا کہ وہ بیت اللہ کا طواف کریں اور صفا ومروہ کے درمیان سعی کریں، پھر اپنے سروں کے بال ترشوا کر حلال ہوجائیں۔ یہ فرمان ان لوگوں کے لیے تھا جن کے ساتھ قربانی کے جانور نہیں تھے۔ اگر کسی کے ساتھ اس کی بیوی تھی تو وہ اس سے ہمبستر ہوسکتا تھا۔ اسی طرح خوشبودار اور (سلے ہوئے) کپڑے کا استعمال بھی اس کے لیے جائز تھا۔

【34】

باب: (مدینہ سے چل کر) ذوالحلیفہ میں صبح تک ٹھہرنا۔

ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ہشام بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے ابن جریج نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھ سے محمد بن المنکدر نے بیان کیا اور ان سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے مدینہ میں چار رکعتیں پڑھیں لیکن ذوالحلیفہ میں دو رکعت ادا فرمائیں پھر آپ ﷺ نے رات وہیں گزاری۔ صبح کے وقت جب آپ ﷺ اپنی سواری پر سوار ہوئے تو آپ ﷺ نے لبیک پکاری۔

【35】

باب: (مدینہ سے چل کر) ذوالحلیفہ میں صبح تک ٹھہرنا۔

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالوہاب نے بیان کیا، کہ ہم سے ایوب سختیانی نے بیان کیا، ان سے ابوقلابہ نے اور ان سے انس بن مالک نے کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ میں ظہر چار رکعت پڑھی لیکن ذوالحلیفہ میں عصر دو رکعت۔ انہوں نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ رات صبح تک آپ ﷺ نے ذوالحلیفہ میں ہی گزار دی۔

【36】

باب: لبیک بلند آواز سے کہنا۔

ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ابوایوب نے، ان سے ابوقلابہ نے اور ان سے انس بن مالک نے کہ نبی کریم ﷺ نے نماز ظہر مدینہ منورہ میں چار رکعت پڑھی۔ لیکن نماز عصر ذوالحلیفہ میں دو رکعت پڑھی۔ میں نے خود سنا کہ لوگ بلند آواز سے حج اور عمرہ دونوں کے لیے لبیک کہہ رہے تھے۔

【37】

باب: تلبیہ کا بیان۔

ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے خبر دی، انہیں نافع نے اور انہیں عبداللہ بن عمر (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ کا تلبیہ یہ تھا لبيك اللهم لبيك،‏‏‏‏ لبيك لا شريك لک لبيك،‏‏‏‏ إن الحمد والنعمة لک والملک،‏‏‏‏ لا شريك لك‏ حاضر ہوں اے اللہ ! حاضر ہوں میں، تیرا کوئی شریک نہیں۔ حاضر ہوں، تمام حمد تیرے ہی لیے ہے اور تمام نعمتیں تیری ہی طرف سے ہیں، بادشاہت تیری ہی ہے تیرا کوئی شریک نہیں۔

【38】

باب: تلبیہ کا بیان۔

ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے اعمش سے بیان کیا، ان سے عمارہ نے ان سے ابوعطیہ نے اور ان سے عائشہ (رض) نے کہ میں جانتی ہوں کہ کس طرف نبی کریم ﷺ تلبیہ کہتے تھے۔ آپ ﷺ تلبیہ یوں کہتے تھے لبيك اللهم لبيك،‏‏‏‏ لبيك لا شريك لک لبيك،‏‏‏‏ إن الحمد والنعمة لك‏ (ترجمہ گزر چکا ہے) اس کی متابعت سفیان ثوری کی طرح ابومعاویہ نے اعمش سے بھی کی ہے۔ اور شعبہ نے کہا کہ مجھ کو سلیمان اعمش نے خبر دی کہ میں نے خیثمہ سے سنا اور انہوں نے ابوعطیہ سے، انہوں نے عائشہ (رض) سے سنا۔ پھر یہی حدیث بیان کی۔

【39】

باب: احرام باندھتے وقت جب جانور پر سوار ہونے لگے تو لبیک سے پہلے الحمداللہ، سبحان اللہ اللہ اکبر کہنا۔

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ایوب سختیانی نے بیان کیا ان سے ابوقلابہ نے اور ان سے انس نے کہ رسول اللہ ﷺ نے، مدینہ میں ہم بھی آپ ﷺ کے ساتھ تھے ظہر کی نماز چار رکعت پڑھی اور ذوالحلیفہ میں عصر کی نماز دو رکعت۔ آپ ﷺ رات کو وہیں رہے۔ صبح ہوئی تو مقام بیداء سے سواری پر بیٹھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی حمد، اس کی تسبیح اور تکبیر کہی۔ پھر حج اور عمرہ کے لیے ایک ساتھ احرام باندھا اور لوگوں نے بھی آپ ﷺ کے ساتھ دونوں کا ایک ساتھ احرام باندھا (یعنی قران کیا) جب ہم مکہ آئے تو آپ ﷺ کے حکم سے (جن لوگوں نے حج تمتع کا احرام باندھا تھا ان) سب نے احرام کھول دیا۔ پھر آٹھویں تاریخ میں سب نے حج کا احرام باندھا۔ انہوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے اپنے ہاتھ سے کھڑے ہو کر بہت سے اونٹ نحر کئے۔ نبی کریم ﷺ نے (عید الاضحی کے دن) مدینہ میں بھی دو چتکبرے سینگوں والے مینڈھے ذبح کئے تھے۔ ابوعبداللہ (امام بخاری (رح)) نے کہا کہ بعض لوگ اس حدیث کو یوں روایت کرتے ہیں ایوب سے، انہوں نے ایک شخص سے، انہوں نے انس سے۔

【40】

باب: جب سواری سیدھی لے کر کھڑی ہو اس وقت لبیک پکارنا۔

ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں ابن جریج نے خبر دی، کہا کہ مجھے صالح بن کیسان نے خبر دی، انہیں نافع نے اور ان سے ابن عمر (رض) نے کہ جب رسول اللہ ﷺ کو لے کر آپ ﷺ کی سواری پوری طرح کھڑی ہوگئی تھی تو آپ ﷺ نے اس وقت لبیک پکارا۔

【41】

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب ذوالحلیفہ میں صبح کی نماز پڑھ چکے تو اپنی اونٹنی پر پالان لگانے کا حکم فرمایا، سواری لائی گئی تو آپ اس پر سوار ہوئے اور جب وہ آپ کو لے کر کھڑی ہو گئی تو آپ کھڑے ہو کر قبلہ رو ہو گئے اور پھر لبیک کہنا شروع کیا تاآنکہ حرم میں داخل ہو گئے۔ وہاں پہنچ کر آپ نے لبیک کہنا بند کر دیا۔ پھر ذی طویٰ میں تشریف لا کر رات وہیں گزارتے صبح ہوتی تو نماز پڑھتے اور غسل کرتے ( پھر مکہ میں داخل ہوتے ) آپ یقین کے ساتھ یہ جانتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی طرح کیا تھا۔ عبدالوارث کی طرح اس حدیث کو اسماعیل نے بھی ایوب سے روایت کیا۔ اس میں غسل کا ذکر ہے۔

【42】

باب: قبلہ رخ ہو کر احرام باندھتے ہوئے لبیک پکارنا۔

ہم سے ابوالربیع سلیمان بن داود نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے فلیح بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے نافع نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عمر (رض) جب مکہ جانے کا ارادہ کرتے تھے پہلے خوشبو کے بغیر تیل استعمال کرتے۔ اس کے بعد مسجد ذوالحلیفہ میں تشریف لاتے یہاں صبح کی نماز پڑھتے، پھر سوار ہوتے، جب اونٹنی آپ کو لے کر پوری طرح کھڑی ہوجاتی تو احرام باندھتے۔ پھر فرماتے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس طرح کرتے دیکھا تھا۔

【43】

باب: نالے میں اترتے وقت لبیک کہے۔

ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابن عدی نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن عون نے ان سے مجاہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم عبداللہ بن عباس (رض) کی خدمت میں حاضر تھے۔ لوگوں نے دجال کا ذکر کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان کافر لکھا ہوا ہوگا۔ تو ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ میں نے تو یہ نہیں سنا۔ ہاں آپ ﷺ نے یہ فرمایا تھا کہ گویا میں موسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھ رہا ہوں کہ جب آپ نالے میں اترے تو لبیک کہہ رہے ہیں۔

【44】

باب: حیض والی اور نفاس والی عورتیں کس طرح احرام باندھیں۔

ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں امام مالک نے ابن شہاب سے خبر دی، انہیں عروہ بن زبیر نے، ان سے نبی کریم کی زوجہ مطہرہ عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ ہم حجتہ الوداع میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ روانہ ہوئے۔ پہلے ہم نے عمرہ کا احرام باندھا لیکن نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جس کے ساتھ قربانی ہو تو اسے عمرہ کے ساتھ حج کا بھی احرام باندھ لینا چاہیے۔ ایسا شخص درمیان میں حلال نہیں ہوسکتا بلکہ حج اور عمرہ دونوں سے ایک ساتھ حلال ہوگا۔ میں بھی مکہ آئی تھی اس وقت میں حائضہ ہوگئی، اس لیے نہ بیت اللہ کا طواف کرسکی اور نہ صفا اور مروہ کی سعی۔ میں نے اس کے متعلق نبی کریم ﷺ سے شکوہ کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اپنا سر کھول ڈال، کنگھا کر اور عمرہ چھوڑ کر حج کا احرام باندھ لے۔ چناچہ میں نے ایسا ہی کیا پھر جب ہم حج سے فارغ ہوگئے تو رسول اللہ ﷺ نے مجھے میرے بھائی عبدالرحمٰن بن ابی بکر کے ساتھ تنعیم بھیجا۔ میں نے وہاں سے عمرہ کا احرام باندھا (اور عمرہ ادا کیا) نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہ تمہارے اس عمرہ کے بدلے میں ہے۔ (جسے تم نے چھوڑ دیا تھا) عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ جن لوگوں نے (حجۃ الوداع میں) صرف عمرہ کا احرام باندھا تھا، وہ بیت اللہ کا طواف صفا اور مروہ کی سعی کر کے حلال ہوگئے۔ پھر منیٰ سے واپس ہونے پر دوسرا طواف (یعنی طواف الزیارۃ) کیا لیکن جن لوگوں نے حج اور عمرہ کا ایک ساتھ احرام باندھا تھا، انہوں نے صرف ایک ہی طواف کیا یعنی طواف الزیارۃ کیا۔

【45】

باب: جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے احرام میں یہ نیت کی جو نیت نبی کریم کی ہے۔

ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے، ان سے عطاء بن ابی رباح نے بیان کیا کہ کہ جابر (رض) نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ نے علی (رض) کو حکم دیا تھا کہ وہ اپنے احرام پر قائم رہیں۔ انہوں نے سراقہ کا قول بھی ذکر کیا تھا۔ اور محمد بن ابی بکر نے ابن جریج سے یوں روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا علی ! تم نے کس چیز کا احرام باندھا ہے ؟ انہوں نے عرض کی نبی کریم ﷺ نے جس کا احرام باندھا ہو (اسی کا میں نے بھی باندھا ہے) نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پھر قربانی کر اور اپنی اسی حالت پر احرام جاری رکھ۔

【46】

باب: جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے احرام میں یہ نیت کی جو نیت نبی کریم کی ہے۔

ہم سے حسن بن علی خلال ہذلی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدالصمد بن عبدالوارث نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سلیم بن حیان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے مروان اصفر سے سنا اور ان سے انس بن مالک نے بیان کیا تھا کہ علی (رض) یمن سے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے پوچھا کہ کس طرح کا احرام باندھا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ جس طرح کا نبی کریم ﷺ نے باندھا ہو۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر میرے ساتھ قربانی نہ ہوتی تو میں حلال ہوجاتا۔

【47】

باب: جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے احرام میں یہ نیت کی جو نیت نبی کریم کی ہے۔

ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے قیس بن مسلم نے، ان سے طارق بن شہاب نے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری نے کہ مجھے نبی کریم ﷺ نے میری قوم کے پاس یمن بھیجا تھا۔ جب (حجۃ الوداع کے موقع پر) میں آیا تو آپ ﷺ سے بطحاء میں ملاقات ہوئی۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ کس کا احرام باندھا ہے ؟ میں نے عرض کی کہ نبی کریم ﷺ نے جس کا باندھا ہو آپ ﷺ نے پوچھا کیا تمہارے ساتھ قربانی ہے ؟ میں نے عرض کی کہ نہیں، اس لیے آپ ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ میں بیت اللہ کا طواف، صفا اور مروہ کی سعی کروں چناچہ میں اپنی قوم کی ایک خاتون کے پاس آیا۔ انہوں نے میرے سر کا کنگھا کیا یا میرا سر دھویا۔ پھر عمر (رض) کا زمانہ آیا تو آپ نے فرمایا کہ اگر ہم اللہ کی کتاب پر عمل کریں تو وہ یہ حکم دیتی ہے کہ حج اور عمرہ پورا کرو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اور حج اور عمرہ پورا کرو اللہ کی رضا کے لیے۔ اور اگر ہم نبی کریم ﷺ کی سنت کو لیں تو نبی کریم ﷺ نے اس وقت تک احرام نہیں کھولا جب تک آپ ﷺ نے قربانی سے فراغت نہیں حاصل فرمائی۔

【48】

باب: اللہ پاک کا سورۃ البقرہ میں یہ فرمانا کہ حج کے مہینے مقرر ہیں جو کوئی ان میں حج کی ٹھان لے تو شہوت کی باتیں نہ کرے نہ گناہ اور جھگڑے کے قریب جائے کیونکہ حج میں خاص طور پر یہ گناہ اور جھگڑے بہت ہی برے ہیں۔

ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوبکر حنفی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے افلح بن حمید نے بیان کیا، کہا کہ میں نے قاسم بن محمد سے سنا، ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج کے مہینوں میں حج کی راتوں میں اور حج کے دنوں میں نکلے۔ پھر سرف میں جا کر اترے۔ آپ نے بیان کیا کہ پھر نبی کریم ﷺ نے صحابہ کو خطاب فرمایا جس کے ساتھ ہدی نہ ہو اور وہ چاہتا ہو کہ اپنے احرام کو صرف عمرہ کا بنا لے تو اسے ایسا کرلینا چاہیے لیکن جس کے ساتھ قربانی ہے وہ ایسا نہ کرے۔ عائشہ (رض) نے بیان فرمایا کہ نبی کریم ﷺ کے بعض اصحاب نے اس فرمان پر عمل کیا اور بعض نے نہیں کیا۔ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے بعض اصحاب جو استطاعت و حوصلہ والے تھے (کہ وہ احرام کے ممنوعات سے بچ سکتے تھے۔ ) ان کے ساتھ ہدی بھی تھی، اس لیے وہ تنہا عمرہ نہیں کرسکتے تھے (پس انہوں نے احرام نہیں کھولا) عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے تو میں رو رہی تھی۔ آپ ﷺ نے پوچھا کہ (اے بھولی بھالی عورت ! تو) رو کیوں رہی ہے ؟ میں نے عرض کی کہ میں نے آپ کے اپنے صحابہ سے ارشاد کو سن لیا، اب تو میں عمرہ نہ کرسکوں گی۔ آپ ﷺ نے پوچھا کیا بات ہے ؟ میں نے کہا میں نماز پڑھنے کے قابل نہ رہی (یعنی حائضہ ہوگئی) آپ ﷺ نے فرمایا کوئی حرج نہیں۔ آخر تم بھی تو آدم کی بیٹیوں کی طرح ایک عورت ہو اور اللہ نے تمہارے لیے بھی وہ مقدر کیا ہے جو تمام عورتوں کے لیے کیا ہے۔ اس لیے (عمرہ چھوڑ کر) حج کرتی رہ اللہ تعالیٰ تمہیں جلد ہی عمرہ کی توفیق دیدے گا۔ عائشہ (رض) نے یہ بیان کیا کہ ہم حج کے لیے نکلے۔ جب ہم (عرفات سے) منیٰ پہنچے تو میں پاک ہوگئی۔ پھر منٰی سے جب میں نکلی تو بیت اللہ کا طواف الزیارۃ کیا۔ آپ نے بیان کیا کہ آخر میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ جب واپس ہونے لگی تو آپ ﷺ وادی محصب میں آن کر اترے۔ ہم بھی آپ ﷺ کے ساتھ ٹھہرے۔ آپ ﷺ نے عبدالرحمٰن بن ابی بکر کو بلا کر کہا کہ اپنی بہن کو لے کر حرم سے باہر جا اور وہاں سے عمرہ کا احرام باندھ پھر عمرہ سے فارغ ہو کر تم لوگ یہیں واپس آجاؤ، میں تمہارا انتظار کرتا رہوں گا۔ عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ ہم (نبی کریم ﷺ کی ہدایت کے مطابق) چلے اور جب میں اور میرے بھائی طواف سے فارغ ہو لیے تو میں سحری کے وقت آپ ﷺ کی خدمت میں پہنچی۔ آپ ﷺ نے پوچھا کہ فارغ ہو لیں ؟ میں نے کہا ہاں۔ تب آپ ﷺ نے اپنے ساتھیوں سے سفر شروع کردینے کے لیے کہا۔ سفر شروع ہوگیا اور آپ ﷺ مدینہ منورہ واپس ہو رہے تھے۔ ابوعبداللہ (امام بخاری (رح)) نے کہا کہ جو لايضيرک ہے وہ ضار يضير ضيراا سے مشتق ہے ضار يضور ضورا بھی استعمال ہوتا ہے۔ اور جس روایت میں لايضرک ہے وہ ضر يضر ضرا‏ سے نکلا ہے۔

【49】

باب: حج میں تمتع، قران اور افراد کا بیان اور جس کے ساتھ ہدی نہ ہو، اسے حج فسخ کر کے عمرہ بنا دینے کی اجازت ہے۔

ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے ابراہیم نخعی نے، ان سے اسود نے اور ان سے عائشہ (رض) نے کہ ہم حج کے لیے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے۔ ہماری نیت حج کے سوا اور کچھ نہ تھی۔ جب ہم مکہ پہنچے تو (اور لوگوں نے) بیت اللہ کا طواف کیا۔ نبی کریم ﷺ کا حکم تھا کہ جو قربانی اپنے ساتھ نہ لایا ہو وہ حلال ہوجائے۔ چناچہ جن کے پاس ہدی نہ تھی وہ حلال ہوگئے۔ (افعال عمرہ کے بعد) نبی کریم ﷺ کی ازواج مطہرات ہدی نہیں لے گئی تھیں، اس لیے انہوں نے بھی احرام کھول ڈالے۔ عائشہ (رض) نے کہا کہ میں حائضہ ہوگئی تھیں اس لیے بیت اللہ کا طواف نہ کرسکی (یعنی عمرہ چھوٹ گیا اور حج کرتی چلی گئی) جب محصب کی رات آئی، میں نے کہا یا رسول اللہ ! اور لوگ تو حج اور عمرہ دونوں کر کے واپس ہو رہے ہیں لیکن میں صرف حج کرسکی ہوں۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب ہم مکہ آئے تھے تو تم طواف نہ کرسکی تھی ؟ میں نے کہا کہ نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اپنے بھائی کے ساتھ تنعیم تک چلی جا اور وہاں سے عمرہ کا احرام باندھ (پھر عمرہ ادا کر) ہم لوگ تمہارا فلاں جگہ انتظار کریں گے اور صفیہ (رض) نے کہا کہ معلوم ہوتا ہے میں بھی آپ (لوگوں) کو روکنے کا سبب بن جاؤں گی۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا عقرى حلقى کیا تو نے یوم نحر کا طواف نہیں کیا تھا ؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں میں تو طواف کرچکی ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا پھر کوئی حرج نہیں چل کوچ کر۔ عائشہ (رض) نے کہا کہ پھر میری ملاقات نبی کریم ﷺ سے ہوئی تو آپ ﷺ مکہ سے جاتے ہوئے اوپر کے حصہ پر چڑھ رہے تھے اور میں نشیب میں اتر رہی تھی یا یہ کہا کہ میں اوپر چڑھ رہی تھی اور نبی کریم ﷺ اس چڑھاؤ کے بعد اتر رہے تھے۔

【50】

باب: حج میں تمتع، قران اور افراد کا بیان اور جس کے ساتھ ہدی نہ ہو، اسے حج فسخ کر کے عمرہ بنا دینے کی اجازت ہے۔

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے خبر دی، انہیں ابوالاسود محمد بن عبدالرحمٰن بن نوفل نے، انہیں عروہ بن زبیر نے اور ان سے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ (رض) نے بیان کیا کہ ہم حجتہ الوداع کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ چلے۔ کچھ لوگوں نے عمرہ کا احرام باندھا تھا، کچھ نے حج اور عمرہ دونوں کا اور کچھ نے صرف حج کا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (پہلے) صرف حج کا احرام باندھا تھا، پھر آپ ﷺ نے عمرہ بھی شریک کرلیا، پھر جن لوگوں نے حج کا احرام باندھا تھا یا حج اور عمرہ دونوں کا، ان کا احرام دسویں تاریخ تک نہ کھل سکا۔

【51】

باب: حج میں تمتع، قران اور افراد کا بیان اور جس کے ساتھ ہدی نہ ہو، اسے حج فسخ کر کے عمرہ بنا دینے کی اجازت ہے۔

ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے حکم نے، ان سے علی بن حسین (زین العابدین) نے اور ان سے مروان بن حکم نے بیان کیا کہ عثمان اور علی (رض) کو میں نے دیکھا ہے۔ عثمان (رض) حج اور عمرہ کو ایک ساتھ ادا کرنے سے روکتے تھے لیکن علی (رض) نے اس کے باوجود دونوں کا ایک ساتھ احرام باندھا اور کہا لبيك بعمرة وحجة آپ نے فرمایا تھا کہ میں کسی ایک شخص کی بات پر رسول اللہ ﷺ کی حدیث کو نہیں چھوڑ سکتا۔

【52】

باب: حج میں تمتع، قران اور افراد کا بیان اور جس کے ساتھ ہدی نہ ہو، اسے حج فسخ کر کے عمرہ بنا دینے کی اجازت ہے۔

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبداللہ بن طاؤس نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ اور ان سے ابن عباس (رض) نے کہ عرب سمجھتے تھے کہ حج کے دنوں میں عمرہ کرنا روئے زمین پر سب سے بڑا گناہ ہے۔ یہ لوگ محرم کو صفر بنا لیتے اور کہتے کہ جب اونٹ کی پیٹھ سستا لے اور اس پر خوب بال اگ جائیں اور صفر کا مہینہ ختم ہوجائے (یعنی حج کے ایام گزر جائیں) تو عمرہ حلال ہوتا ہے۔ پھر جب نبی کریم ﷺ اپنے صحابہ کے ساتھ چوتھی کی صبح کو حج کا احرام باندھے ہوئے آئے تو آپ ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ اپنے حج کو عمرہ بنالیں، یہ حکم (عرب کے پرانے رواج کی بنا پر) عام صحابہ پر بڑا بھاری گزرا۔ انہوں نے پوچھا یا رسول اللہ ! عمرہ کر کے ہمارے لیے کیا چیز حلال ہوگئی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمام چیزیں حلال ہوجائیں گی۔

【53】

باب: حج میں تمتع، قران اور افراد کا بیان اور جس کے ساتھ ہدی نہ ہو، اسے حج فسخ کر کے عمرہ بنا دینے کی اجازت ہے۔

ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے محمد بن جعفر غندر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے قیس بن مسلم نے، ان سے طارق بن شہاب نے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری (رض) نے کہ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں (حجتہ الوداع کے موقع پر یمن سے) حاضر ہوا تو آپ ﷺ نے (مجھ کو عمرہ کے بعد) احرام کھول دینے کا حکم دیا۔

【54】

باب: حج میں تمتع، قران اور افراد کا بیان اور جس کے ساتھ ہدی نہ ہو، اسے حج فسخ کر کے عمرہ بنا دینے کی اجازت ہے۔

ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک (رح) نے بیان کیا (دوسری سند) اور امام بخاری (رح) نے کہا کہ ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں امام مالک (رح) نے خبر دی، انہیں نافع نے اور انہیں ابن عمر (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ حفصہ (رض) نے بیان کیا کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا یا رسول اللہ ! کیا بات ہے اور لوگ تو عمرہ کر کے حلال ہوگئے لیکن آپ حلال نہیں ہوئے ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں نے اپنے سر کی تلبید (بالوں کو جمانے کے لیے ایک لیس دار چیز کا استعمال کرنا) کی ہے اور اپنے ساتھ ہدی (قربانی کا جانور) لایا ہوں اس لیے میں قربانی کرنے سے پہلے احرام نہیں کھول سکتا۔

【55】

باب: حج میں تمتع، قران اور افراد کا بیان اور جس کے ساتھ ہدی نہ ہو، اسے حج فسخ کر کے عمرہ بنا دینے کی اجازت ہے۔

ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوجمرہ نصر بن عمران ضبعی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے حج اور عمرہ کا ایک ساتھ احرام باندھا تو کچھ لوگوں نے مجھے منع کیا۔ اس لیے میں نے ابن عباس (رض) سے اس کے متعلق دریافت کیا۔ آپ نے تمتع کرنے کے لیے کہا۔ پھر میں نے ایک شخص کو دیکھا کہ مجھ سے کہہ رہا ہے حج بھی مبرور ہوا اور عمرہ بھی قبول ہوا میں نے یہ خواب ابن عباس (رض) کو سنایا، تو آپ نے فرمایا کہ یہ نبی کریم ﷺ کی سنت ہے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ میرے یہاں قیام کر، میں اپنے پاس سے تمہارے لیے کچھ مقرر کر کے دیا کروں گا۔ شعبہ نے بیان کیا کہ میں نے (ابوجمرہ سے) پوچھا کہ ابن عباس (رض) نے یہ کیوں کیا تھا ؟ (یعنی مال کس بات پر دینے کے لیے کہا) انہوں نے بیان کیا کہ اسی خواب کی وجہ سے جو میں نے دیکھا تھا۔

【56】

باب: حج میں تمتع، قران اور افراد کا بیان اور جس کے ساتھ ہدی نہ ہو، اسے حج فسخ کر کے عمرہ بنا دینے کی اجازت ہے۔

ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، ان سے ابوشہاب نے کہا کہ میں تمتع کی نیت سے عمرہ کا احرام باندھ کے یوم ترویہ سے تین دن پہلے مکہ پہنچا۔ اس پر مکہ کے کچھ لوگوں نے کہا اب تمہارا حج مکی ہوگا۔ میں عطاء بن ابی رباح کی خدمت میں حاضر ہوا۔ یہی پوچھنے کے لیے۔ انہوں نے فرمایا کہ مجھ سے جابر بن عبداللہ (رض) نے بیان کیا کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ وہ حج کیا تھا جس میں آپ ﷺ اپنے ساتھ قربانی کے اونٹ لائے تھے (یعنی حجتہ الوداع) صحابہ نے صرف مفرد حج کا احرام باندھا تھا۔ لیکن نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا کہ (عمرہ کا احرام باندھ لو اور) بیت اللہ کے طواف اور صفا مروہ کی سعی کے بعد اپنے احرام کھول ڈالو اور بال ترشوا لو۔ یوم ترویہ تک برابر اسی طرح حلال رہو، پھر یوم ترویہ میں مکہ ہی سے حج کا احرام باندھو اور اس طرح اپنے حج مفرد کو جس کی تم نے پہلے نیت کی تھی، اب اسے تمتع بنا لو۔ صحابہ نے عرض کی کہ ہم اسے تمتع کیسے بنا سکتے ہیں ؟ ہم تو حج کا احرام باندھ چکے ہیں۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جس طرح میں کہہ رہا ہوں ویسے ہی کرو۔ اگر میرے ساتھ ہدی نہ ہوتی تو خود میں بھی اسی طرح کرتا جس طرح تم سے کہہ رہا ہوں۔ لیکن میں کیا کروں اب میرے لیے کوئی چیز اس وقت تک حلال نہیں ہوسکتی جب تک میرے قربانی کے جانوروں کی قربانی نہ ہوجائے۔ چناچہ صحابہ نے آپ کے حکم کی تعمیل کی۔ ابوعبداللہ (امام بخاری (رح)) نے کہا کہ ابوشہاب کی اس حدیث کے سوا اور کوئی مرفوع حدیث مروی نہیں ہے۔

【57】

باب: حج میں تمتع، قران اور افراد کا بیان اور جس کے ساتھ ہدی نہ ہو، اسے حج فسخ کر کے عمرہ بنا دینے کی اجازت ہے۔

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حجاج بن محمد اعور نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، ان سے عمرو بن مرہ نے، ان سے سعید بن مسیب نے کہ عثمان اور علی (رض) عسفان آئے تو ان میں باہم تمتع کے سلسلے میں اختلاف ہوا تو علی (رض) نے فرمایا کہ جس کو رسول اللہ ﷺ نے کیا ہے اس سے آپ کیوں روک رہے ہیں ؟ اس پر عثمان (رض) نے فرمایا کہ مجھے اپنے حال پر رہنے دو ۔ یہ دیکھ کر علی (رض) نے حج اور عمرہ دونوں کا احرام ایک ساتھ باندھا۔

【58】

باب: اگر کوئی لبیک میں حج کا نام لے۔

ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے، کہا کہ میں نے مجاہد سے سنا، انہوں نے کہا ہم سے جابر بن عبداللہ (رض) نے بیان کیا انہوں نے کہا کہ جب ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ آئے تو ہم نے حج کی لبیک پکاری۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا ہم نے اسے عمرہ بنا لیا۔

【59】

باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تمتع کا جاری ہونا۔

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہمام بن یحییٰ نے قتادہ سے بیان کیا کہا کہ مجھ سے مطرف نے عمران بن حصین سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ہم نے تمتع کیا تھا اور خود قرآن میں تمتع کا حکم نازل ہوا تھا۔ اب ایک شخص نے اپنی رائے سے جو چاہا کہہ دیا۔

【60】

باب: اللہ تعالیٰ کا سورۃ البقرہ میں یہ فرمانا ”تمتع یا قربانی کا حکم ان لوگوں کے لیے ہے جن کے گھر والے مسجد الحرام کے پاس نہ رہتے ہوں“۔

اور ابو کامل فضیل بن حسین بصریٰ نے کہا کہ ہم سے ابومعشر یوسف بن یزید براء نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عثمان بن غیاث نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے، ان سے ابن عباس (رض) نے، ابن عباس (رض) سے حج میں تمتع کے متعلق پوچھا گیا۔ آپ نے فرمایا کہ حجۃ الوداع کے موقع پر مہاجرین انصار نبی کریم ﷺ کی ازواج اور ہم سب نے احرام باندھا تھا۔ جب ہم مکہ آئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اپنے احرام کو حج اور عمرہ دونوں کے لیے کرلو لیکن جو لوگ قربانی کا جانور اپنے ساتھ لائے ہیں۔ (وہ عمرہ کرنے کے بعد حلال نہیں ہوں گے) چناچہ ہم نے بیت اللہ کا طواف اور صفا ومروہ کی سعی کرلی تو اپنا احرام کھول ڈالا اور ہم اپنی بیویوں کے پاس گئے اور سلے ہوئے کپڑے پہنے۔ آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ جس کے ساتھ قربانی کا جانور ہے وہ اس وقت تک حلال نہیں ہوسکتا جب تک ہدی اپنی جگہ نہ پہنچ لے (یعنی قربانی نہ ہولے) ہمیں (جنہوں نے ہدی ساتھ نہیں لی تھی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھویں تاریخ کی شام کو حکم دیا کہ ہم حج کا احرام باندھ لیں۔ پھر جب ہم مناسک حج سے فارغ ہوگئے تو ہم نے آ کر بیت اللہ کا طواف اور صفا مروہ کی سعی کی، پھر ہمارا حج پورا ہوگیا اور اب قربانی ہم پر لازم ہوئی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے جسے قربانی کا جانور میسر ہو (تو وہ قربانی کرے) اور اگر کسی کو قربانی کی طاقت نہ ہو تو تین روزے حج میں اور سات دن گھر واپس ہونے پر رکھے (قربانی میں) بکری بھی کافی ہے۔ تو لوگوں نے حج اور عمرہ دونوں عبادتیں ایک ہی سال میں ایک ساتھ ادا کیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خود اپنی کتاب میں یہ حکم نازل کیا تھا اور رسول اللہ ﷺ نے اس پر خود عمل کر کے تمام لوگوں کے لیے جائز قرار دیا تھا۔ البتہ مکہ کے باشندوں کا اس سے استثناء ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے یہ حکم ان لوگوں کے لیے ہے جن کے گھر والے مسجد الحرام کے پاس رہنے والے نہ ہوں ۔ اور حج کے جن مہینوں کا قرآن میں ذکر ہے وہ شوال، ذیقعدہ اور ذی الحجہ ہیں۔ ان مہینوں میں جو کوئی بھی تمتع کرے وہ یا قربانی دے یا اگر مقدور نہ ہو تو روزے رکھے۔ اور رفث کا معنی جماع (یا فحش باتیں) اور فسوق گناہ اور جدال لوگوں سے جھگڑنا۔

【61】

باب: مکہ میں داخل ہوتے وقت غسل کرنا۔

ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، ان سے اسماعیل بن علیہ نے بیان کیا، انہیں ایوب سختیانی نے خبر دی، انہیں نافع نے، انہوں نے بیان کیا کہ جب عبداللہ بن عمر (رض) حرم کی سرحد کے قریب پہنچتے تو تلبیہ کہنا بند کردیتے۔ رات ذی طویٰ میں گزارتے، صبح کی نماز وہیں پڑھتے اور غسل کرتے (پھر مکہ میں داخل ہوتے) آپ بیان کرتے تھے کہ نبی کریم ﷺ بھی اسی طرح کیا کرتے تھے۔

【62】

باب: مکہ میں رات اور دن میں داخل ہونا۔

ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبیداللہ عمری نے بیان کیا، ان سے نافع نے ابن عمر (رض) سے بیان کیا، آپ (رض) نے فرمایا کہ کہ نبی کریم ﷺ نے ذی طویٰ میں رات گزاری۔ پھر جب صبح ہوئی تو آپ ﷺ مکہ میں داخل ہوئے۔ ابن عمر (رض) بھی اسی طرح کرتے تھے۔

【63】

باب: مکہ میں کدھر سے داخل ہو۔

ہم سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، ان سے معن بن عیسیٰ نے بیان کیا، ان سے امام مالک (رح) نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ مکہ میں بلند گھاٹی (یعنی جنت المعلیٰ ) کی طرف سے داخل ہوتے اور نکلتے ثنیہ سفلیٰ کی طرف سے یعنی نیچے کی گھاٹی (باب شبی کہ) کی طرف سے۔

【64】

باب: مکہ سے جاتے وقت کون سی راہ سے جائے۔

ہم سے مسدد بن مسرہد بصریٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ عمری نے، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ الثنية العليا یعنی مقام کداء کی طرف سے داخل ہوتے جو بطحاء میں ہے اور الثنية السفلى‏. کی طرف سے نکلتے تھے یعنی نیچے والی گھاٹی کی طرف سے۔ امام بخاری (رح) نے کہا مسدد اسم بامسمی تھے یعنی مسدد کے معنی عربی زبان میں مضبوط اور درست کے ہیں تو حدیث کی روایت میں مضبوط اور درست تھے اور میں نے یحییٰ بن معین سے سنا وہ کہتے ہیں میں نے یحییٰ قطان سے سنا، وہ کہتے تھے اگر میں مسدد کے گھر جا کر ان کو حدیث سنایا کرتا تو وہ اس کے لائق تھے اور میری کتابیں حدیث کی میرے پاس رہیں یا مسدد کے پاس مجھے کچھ پرواہ نہیں۔ گویا یحییٰ قطان نے مسدد کی بےحد تعریف کی۔

【65】

باب: مکہ سے جاتے وقت کون سی راہ سے جائے۔

ہم سے حمیدی اور محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے، ان سے عائشہ (رض) نے کہ جب رسول اللہ ﷺ مکہ میں تشریف لائے تو اوپر کی بلند جانب سے شہر کے اندر داخل ہوئے اور (مکہ سے) واپس جب گئے تو نیچے کی طرف سے نکل گئے۔

【66】

باب: مکہ سے جاتے وقت کون سی راہ سے جائے۔

ہم سے محمود بن غیلان مروزی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا۔ ان سے ان کے والد عروہ بن زبیر نے اور ان سے عائشہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ فتح مکہ کے موقع پر شہر میں کداء کی طرف سے داخل ہوئے اور کدیٰ کی طرف سے نکلے جو مکہ کے بلند جانب ہے۔

【67】

باب: مکہ سے جاتے وقت کون سی راہ سے جائے۔

ہم سے احمد بن عیسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبداللہ ابن وہب نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں عمرو بن حارث نے خبر دی اور انہیں ہشام بن عروہ نے، انہیں ان کے والد عروہ بن زبیر نے اور انہیں عائشہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ فتح مکہ موقع پر داخل ہوتے وقت مکہ کے بالائی علاقہ کداء سے داخل ہوئے۔ ہشام نے بیان کیا کہ عروہ اگرچہ کداء اور کدیٰ دونوں طرف سے داخل ہوتے تھے لیکن اکثر کدیٰ سے داخل ہوتے کیونکہ یہ راستہ ان کے گھر سے قریب تھا۔

【68】

باب: مکہ سے جاتے وقت کون سی راہ سے جائے۔

ہم سے عبداللہ بن عبدالوہاب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے حاتم بن اسماعیل نے ہشام سے بیان کیا، ان سے عروہ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ فتح مکہ کے موقع پر مکہ کے بالائی علاقہ کداء کی طرف سے داخل ہوئے تھے۔ لیکن عروہ اکثر کدیٰ کی طرف سے داخل ہوتے تھے کیونکہ یہ راستہ ان کے گھر سے قریب تھا۔

【69】

باب: مکہ سے جاتے وقت کون سی راہ سے جائے۔

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا کہا کہ ہم سے ہشام نے اپنے باپ سے بیان کیا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ فتح مکہ کے موقع پر کداء سے داخل ہوئے تھے۔ عروہ خود اگرچہ دونوں طرف سے (کداء اور کدیٰ ) داخل ہوتے لیکن اکثر آپ کدیٰ کی طرف سے داخل ہوتے تھے کیونکہ یہ راستہ ان کے گھر سے قریب تھا۔ ابوعبداللہ (امام بخاری (رح)) نے کہا کہ کداء اور کدیٰ دو مقامات کے نام ہیں۔

【70】

باب: فضائل مکہ اور کعبہ کی بناء کا بیان۔

ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوعاصم نبیل نے بیان کیا، کہا کہ مجھے ابن جریج نے خبر دی، کہا کہ مجھے عمرو بن دینار نے خبر دی، کہا کہ میں نے جابر بن عبداللہ (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ (زمانہ جاہلیت میں) جب کعبہ کی تعمیر ہوئی تو نبی کریم ﷺ اور عباس (رض) بھی پتھر اٹھا کر لا رہے تھے۔ عباس (رض) نے نبی کریم ﷺ سے کہا کہ اپنا تہبند اتار کر کاندھے پر ڈال لو (تاکہ پتھر اٹھانے میں تکلیف نہ ہو) نبی کریم ﷺ نے ایسا کیا تو ننگے ہوتے ہی بیہوش ہو کر آپ زمین پر گرپڑے اور آپ کی آنکھیں آسمان کی طرف لگ گئیں۔ آپ کہنے لگے مجھے میرا تہبند دے دو ۔ پھر آپ ﷺ نے اسے مضبوط باندھ لیا۔

【71】

باب: فضائل مکہ اور کعبہ کی بناء کا بیان۔

ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، ان سے امام مالک (رح) نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے سالم بن عبداللہ نے کہ عبداللہ بن محمد بن ابی بکر نے انہیں خبر دی، انہیں عبداللہ بن عمر (رض) نے خبر دی اور انہیں نبی کریم ﷺ کی پاک بیوی عائشہ صدیقہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا کہ تجھے معلوم ہے جب تیری قوم نے کعبہ کی تعمیر کی تو بنیاد ابراہیم کو چھوڑ دیا تھا۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! پھر آپ بنیاد ابراہیم پر اس کو کیوں نہیں بنا دیتے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر تمہاری قوم کا زمانہ کفر سے بالکل نزدیک نہ ہوتا تو میں بیشک ایسا کردیتا۔ عبداللہ بن عمر (رض) نے کہا کہ اگر عائشہ صدیقہ (رض) نے یہ بات رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے (اور یقیناً عائشہ (رض) سچی ہیں) تو میں سمجھتا ہوں یہی وجہ تھی جو نبی کریم ﷺ حطیم سے متصل جو دیواروں کے کونے ہیں ان کو نہیں چومتے تھے۔ کیونکہ خانہ کعبہ ابراہیمی بنیادوں پر پورا نہ ہوا تھا۔

【72】

باب: فضائل مکہ اور کعبہ کی بناء کا بیان۔

ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوالاحوص سلام بن سلیم جعفی نے بیان کیا، ان سے اشعت نے بیان کیا، ان سے اسود بن یزید نے اور ان سے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ (رض) نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ کیا حطیم بھی بیت اللہ میں داخل ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں، پھر میں نے پوچھا کہ پھر لوگوں نے اسے کعبے میں کیوں نہیں شامل کیا ؟ آپ ﷺ نے جواب دیا کہ تمہاری قوم کے پاس خرچ کی کمی پڑگئی تھی۔ پھر میں نے پوچھا کہ یہ دروازہ کیوں اونچا بنایا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ بھی تمہاری قوم ہی نے کیا تاکہ جسے چاہیں اندر آنے دیں اور جسے چاہیں روک دیں۔ اگر تمہاری قوم کی جاہلیت کا زمانہ تازہ تازہ نہ ہوتا اور مجھے اس کا خوف نہ ہوتا کہ ان کے دل بگڑ جائیں گے تو اس حطیم کو بھی میں کعبہ میں شامل کردیتا اور کعبہ کا دروازہ زمین کے برابر کردیتا۔

【73】

باب: فضائل مکہ اور کعبہ کی بناء کا بیان۔

ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے ہشام نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا، اگر تمہاری قوم کا زمانہ کفر سے ابھی تازہ نہ ہوتا تو میں خانہ کعبہ کو توڑ کر اسے ابراہیم (علیہ السلام) کی بنیاد پر بناتا کیونکہ قریش نے اس میں کمی کردی ہے۔ اس میں ایک دروازہ اور اس دروازے کے مقابل رکھتا۔ ابومعاویہ نے کہا ہم سے ہشام نے بیان کیا۔ حدیث میں خلف سے دروازہ مراد ہے۔

【74】

باب: فضائل مکہ اور کعبہ کی بناء کا بیان۔

ہم سے بیان بن عمرو نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے یزید بن ہارون نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے جریر بن حازم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے یزید بن رومان نے بیان کیا، ان سے عروہ نے اور ان سے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، عائشہ ! اگر تیری قوم کا زمانہ جاہلیت ابھی تازہ نہ ہوتا، تو میں بیت اللہ کو گرانے کا حکم دے دیتا تاکہ (نئی تعمیر میں) اس حصہ کو بھی داخل کر دوں جو اس سے باہر رہ گیا ہے اور اس کی کرسی زمین کے برابر کر دوں اور اس کے دو دروازے بنا دوں، ایک مشرق میں اور ایک مغرب میں۔ اس طرح ابراہیم (علیہ السلام) کی بنیاد پر اس کی تعمیر ہوجاتی۔ عبداللہ بن زبیر (رض) کا کعبہ کو گرانے سے یہی مقصد تھا۔ یزید نے بیان کیا کہ میں اس وقت موجود تھا جب عبداللہ بن زبیر (رض) نے اسے گرایا تھا اور اس کی نئی تعمیر کر کے حطیم کو اس کے اندر کردیا تھا۔ میں نے ابراہیم (علیہ السلام) کی تعمیر کے پائے بھی دیکھے جو اونٹ کی کوہان کی طرح تھے۔ جریر بن حازم نے کہا کہ میں نے ان سے پوچھا، ان کی جگہ کہاں ہے ؟ انہوں نے فرمایا کہ میں ابھی دکھاتا ہوں۔ چناچہ میں ان کے ساتھ حطیم میں گیا اور آپ نے ایک جگہ کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ یہ وہ جگہ ہے۔ جریر نے کہا کہ میں نے اندازہ لگایا کہ وہ جگہ حطیم میں سے چھ ہاتھ ہوگی یا ایسی ہی کچھ۔

【75】

باب: حرم کی زمین کی فضیلت۔

ہم سے علی بن عبداللہ بن جعفر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے جریر بن عبدالحمید نے منصور سے بیان کیا ان سے مجاہد نے، ان سے طاؤس نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ پر فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس شہر (مکہ) کو حرمت والا بنایا ہے (یعنی عزت دی ہے) پس اس کے (درختوں کے) کانٹے تک بھی نہیں کاٹے جاسکتے یہاں کے شکار بھی نہیں ہنکائے جاسکتے۔ اور ان کے علاوہ جو اعلان کر کے (مالک تک پہنچانے کا ارادہ رکھتے ہوں) کوئی شخص یہاں کی گری پڑی چیز بھی نہیں اٹھا سکتا ہے۔

【76】

باب: مکہ شریف کے گھر مکان میراث ہو سکتے ہیں ان کا بیچنا اور خریدنا جائز ہے۔

ہم سے اصبغ بن فرج نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے عبداللہ بن وہب نے خبر دی، انہیں یونس نے، انہیں ابن شہاب نے، انہیں علی بن حسین نے، انہیں عمرو بن عثمان نے اور انہیں اسامہ بن زید (رض) نے کہ انہوں نے پوچھا یا رسول اللہ ! آپ مکہ میں کیا اپنے گھر میں قیام فرمائیں گے۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ عقیل نے ہمارے لیے محلہ یا مکان چھوڑا ہی کب ہے۔ (سب بیچ کھوچ کر برابر کر دئیے) عقیل اور طالب، ابوطالب کے وارث ہوئے تھے۔ جعفر اور علی (رض) کو وراثت میں کچھ نہیں ملا تھا، کیونکہ یہ دونوں مسلمان ہوگئے تھے اور عقیل (رض) (ابتداء میں) اور طالب اسلام نہیں لائے تھے۔ اسی بنیاد پر عمر بن خطاب (رض) فرمایا کرتے تھے کہ مسلمان کافر کا وارث نہیں ہوتا۔ ابن شہاب نے کہا کہ لوگ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے دلیل لیتے ہیں کہ جو لوگ ایمان لائے، ہجرت کی اور اپنے مال اور جان کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور وہ لوگ جنہوں نے پناہ دی اور مدد کی، وہی ایک دوسرے کے وارث ہوں گے۔

【77】

باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں کہاں اترے تھے؟

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے کہا کہ مجھ سے ابوسلمہ نے بیان کیا، ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے جب (منیٰ سے لوٹتے ہوئے حجتہ الوداع کے موقع پر) مکہ آنے کا ارادہ کیا تو فرمایا کہ کل انشاء اللہ ہمارا قیام اسی خیف بنی کنانہ (یعنی محصب) میں ہوگا جہاں (قریش نے) کفر پر اڑے رہنے کی قسم کھائی تھی۔

【78】

باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں کہاں اترے تھے؟

باب : اللہ تعالیٰ نے سورة ابراہیم میں فرمایا اور جب ابراہیم نے کہا میرے رب ! اس شہر کو امن کا شہر بنا اور مجھے اور میری اولاد کو اس سے محفوظ رکھیو کہ ہم بتوں کی عبادت کریں۔ میرے رب ! ان بتوں نے بہتوں کو گمراہ کیا ہے اللہ تعالیٰ کے فرمان لعلهم‏ يشکرون تک۔

【79】

باب: اللہ تعالیٰ نے سورۃ المائدہ میں فرمایا اللہ نے کعبہ کو عزت والا گھر اور لوگوں کے قیام کی جگہ بنایا ہے اور اس طرح حرمت والے مہینہ کو بنایا۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان «وأن الله بكل شىء عليم‏» تک۔

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے زیاد بن سعد نے بیان کیا، ان سے زہری نے بیان کیا، ان سے سعید بن مسیب نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ کعبہ کو دو پتلی پنڈلیوں والا ایک حقیر حبشی تباہ کر دے گا۔

【80】

باب: اللہ تعالیٰ نے سورۃ المائدہ میں فرمایا اللہ نے کعبہ کو عزت والا گھر اور لوگوں کے قیام کی جگہ بنایا ہے اور اس طرح حرمت والے مہینہ کو بنایا۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان «وأن الله بكل شىء عليم‏» تک۔

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا (دوسری سند امام بخاری (رح) نے کہا) اور مجھ سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہمیں محمد بن ابی حفصہ نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں عروہ نے اور ان سے ام المؤمنین عائشہ (رض) نے بیان فرمایا کہ رمضان (کے روزے) فرض ہونے سے پہلے مسلمان عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے۔ عاشوراء ہی کے دن (جاہلیت میں) کعبہ پر غلاف چڑھایا جاتا تھا۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے رمضان فرض کردیا تو رسول اللہ ﷺ نے لوگوں سے فرمایا کہ اب جس کا جی چاہے عاشوراء کا روزہ رکھے اور جس کا جی چاہے چھوڑ دے۔

【81】

باب: اللہ تعالیٰ نے سورۃ المائدہ میں فرمایا اللہ نے کعبہ کو عزت والا گھر اور لوگوں کے قیام کی جگہ بنایا ہے اور اس طرح حرمت والے مہینہ کو بنایا۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان «وأن الله بكل شىء عليم‏» تک۔

ہم سے احمد بن حفص نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے میرے والد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابراہیم بن طہمان نے بیان کیا، ان سے حجاج بن حجاج اسلمی نے، ان سے قتادہ نے، ان سے عبداللہ بن ابی عتبہ نے اور ان سے ابو سعید خدری (رض) نے اور ان سے نبی کریم ﷺ نے فرمایا بیت اللہ کا حج اور عمرہ یاجوج اور ماجوج کے نکلنے کے بعد بھی ہوتا رہے گا۔ عبداللہ بن ابی عتبہ کے ساتھ اس حدیث کو ابان اور عمران نے قتادہ سے روایت کیا اور عبدالرحمٰن نے شعبہ کے واسطہ سے یوں بیان کیا کہ قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک بیت اللہ کا حج بند نہ ہوجائے۔ امام بخاری (رح) نے کہا کہ پہلی روایت زیادہ راویوں نے کی ہے اور قتادہ نے عبداللہ بن عتبہ سے سنا اور عبداللہ نے ابو سعید خدری (رض) سے سنا۔

【82】

باب: کعبہ پر غلاف چڑھانا۔

ہم سے عبداللہ بن عبدالوہاب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے خالد بن حارث نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے واصل احدب نے بیان کیا اور ان سے ابو وائل نے بیان کیا کہ میں شیبہ کی خدمت میں حاضر ہوا (دوسری سند) اور ہم سے قبیصہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان نے واصل سے بیان کیا اور ان سے ابو وائل نے بیان کیا کہ میں شیبہ کے ساتھ کعبہ میں کرسی پر بیٹھا ہوا تھا تو شیبہ نے فرمایا کہ اسی جگہ بیٹھ کر عمر (رض) نے (ایک مرتبہ) فرمایا کہ میرا ارادہ یہ ہوتا ہے کہ کعبہ کے اندر جتنا سونا چاندی ہے اسے نہ چھوڑوں (جسے زمانہ جاہلیت میں کفار نے جمع کیا تھا) بلکہ سب کو نکال کر (مسلمانوں میں) تقسیم کر دوں۔ میں نے عرض کی کہ آپ کے ساتھیوں (نبی کریم ﷺ اور ابوبکر رضی اللہ عنہ) نے تو ایسا نہیں کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ میں بھی انہیں کی پیروی کر رہا ہوں (اسی لیے میں اس کے ہاتھ نہیں لگاتا) ۔

【83】

باب: کعبہ کے گرانے کا بیان۔

ہم سے عمرو بن علی فلاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبیداللہ بن اخنس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابن ابی ملیکہ نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن عباس (رض) نے اور ان سے نبی کریم ﷺ نے فرمایا گویا میری نظروں کے سامنے وہ پتلی ٹانگوں والا سیاہ آدمی ہے جو خانہ کعبہ کے ایک ایک پتھر کو اکھاڑ پھینکے گا۔

【84】

باب: کعبہ کے گرانے کا بیان۔

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے یونس نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے سعید بن مسیب نے کہ ابوہریرہ (رض) نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کعبہ کو دو پتلی پنڈلیوں والا حبشی خراب کرے گا۔

【85】

باب: حجر اسود کا بیان۔

ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں سفیان ثوری نے خبر دی، انہیں اعمش نے، انہیں ابراہیم نے، انہیں عابس بن ربیعہ نے کہ عمر (رض) حجر اسود کے پاس آئے اور اسے بوسہ دیا اور فرمایا میں خوب جانتا ہوں کہ تو صرف ایک پتھر ہے، نہ کسی کو نقصان پہنچا سکتا ہے نہ نفع۔ اگر رسول اللہ ﷺ کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے میں نہ دیکھتا تو میں بھی کبھی تجھے بوسہ نہ دیتا۔

【86】

باب: کعبہ کا دروازہ اندر سے بند کر لینا اور اس کے ہر کونے میں نماز پڑھنا جدھر چاہے۔

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے سالم نے اور ان سے ان کے باپ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ اور اسامہ بن زید اور بلالو عثمان بن ابی طلحہ رضی اللہ عنہم چاروں خانہ کعبہ کے اندر گئے اور اندر سے دروازہ بند کرلیا۔ پھر جب دروازہ کھولا تو میں پہلا شخص تھا جو اندر گیا۔ میری ملاقات بلال (رض) سے ہوئی۔ میں نے پوچھا کہ کیا نبی کریم ﷺ نے (اندر) نماز پڑھی ہے ؟ انہوں نے بتلایا کہ ہاں ! دونوں یمنی ستونوں کے درمیان آپ ﷺ نے نماز پڑھی ہے۔

【87】

باب: کعبہ کے اندر نماز پڑھنا۔

ہم سے احمد بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہمیں موسیٰ بن عقبہ نے خبر دی، انہیں نافع نے کہ عبداللہ بن عمر (رض) جب کعبہ کے اندر داخل ہوتے تو سامنے کی طرف چلتے اور دروازہ پیٹھ کی طرف چھوڑ دیتے۔ آپ اسی طرح چلتے رہتے اور جب سامنے کی دیوار تقریباً تین ہاتھ رہ جاتی تو نماز پڑھتے تھے۔ اس طرح آپ اس جگہ نماز پڑھنے کا اہتمام کرتے تھے جس کے متعلق بلال (رض) سے معلوم ہوا تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے وہیں نماز پڑھی تھی۔ لیکن اس میں کوئی حرج نہیں کعبہ میں جس جگہ بھی کوئی چاہے نماز پڑھ لے۔

【88】

باب: جو کعبہ میں داخل نہ ہو۔

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے خالد بن عبداللہ نے بیان کیا، انہیں اسماعیل بن ابی خالد نے خبر دی، انہیں عبداللہ ابن ابی اوفی نے کہ رسول اللہ ﷺ نے عمرہ کیا تو آپ ﷺ نے کعبہ کا طواف کر کے مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعتیں پڑھیں۔ آپ ﷺ کے ساتھ کچھ لوگ تھے جو آپ ﷺ کے اور لوگوں کے درمیان آڑ بنے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک صاحب نے ابن ابی اوفی سے پوچھا کیا رسول اللہ ﷺ کعبہ کے اندر تشریف لے گئے تھے تو انہوں نے بتایا کہ نہیں۔

【89】

باب: جس نے کعبہ کے چاروں کونوں میں تکبیر کہی۔

ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ایوب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عکرمہ نے ابن عباس (رض) سے بیان کیا، آپ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ جب (فتح مکہ کے دن) تشریف لائے تو آپ ﷺ نے کعبہ کے اندر جانے سے اس لیے انکار فرمایا کہ اس میں بت رکھے ہوئے تھے۔ پھر آپ ﷺ نے حکم دیا اور وہ نکالے گئے، لوگوں نے ابراہیم اور اسماعیل (علیہما السلام) کے بت بھی نکالے۔ ان کے ہاتھوں میں فال نکالنے کے تیر دے رکھے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ ان مشرکوں کو غارت کرے، اللہ کی قسم انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ ان بزرگوں نے تیر سے فال کبھی نہیں نکالی۔ اس کے بعد آپ ﷺ کعبہ کے اندر تشریف لے گئے اور چاروں طرف تکبیر کہی۔ آپ ﷺ نے اندر نماز نہیں پڑھی۔

【90】

باب: رمل کی ابتداء کیسے ہوئی؟

ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ (عمرۃ القضاء 7 ھ میں) جب رسول اللہ ﷺ (مکہ) تشریف لائے تو مشرکوں نے کہا کہ محمد ( ﷺ ) آئے ہیں، ان کے ساتھ ایسے لوگ آئے ہیں جنہیں یثرب (مدینہ منورہ) کے بخار نے کمزور کردیا ہے۔ اس لیے رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ طواف کے پہلے تین چکروں میں رمل (تیز چلنا جس سے اظہار قوت ہو) کریں اور دونوں یمانی رکنوں کے درمیان حسب معمول چلیں اور آپ ﷺ نے یہ حکم نہیں دیا کہ سب پھیروں میں رمل کریں اس لیے کہ ان پر آسانی ہو۔

【91】

باب: جب کوئی مکہ میں آئے تو پہلے حجر اسود کو چومے طواف شروع کرتے وقت اور تین پھیروں میں رمل کرے۔

ہم سے اصبغ بن فرج نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عبداللہ بن وہب نے خبر دی، انہیں یونس نے، انہیں زہری نے، انہیں سالم نے اور ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا۔ جب آپ ﷺ مکہ تشریف لاتے تو پہلے طواف شروع کرتے وقت حجر اسود کو بوسہ دیتے اور سات چکروں میں سے پہلے تین چکروں میں رمل کرتے تھے۔

【92】

باب: حج اور عمرہ میں رمل کرنے کا بیان۔

ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سریج بن نعمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے فلیح نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے پہلے تین چکروں میں رمل کیا اور بقیہ چار چکروں میں حسب معمول چلے، حج اور عمرہ دونوں میں۔ سریج کے ساتھ اس حدیث کو لیث نے روایت کیا ہے۔ کہا کہ مجھ سے کثیر بن فرقد نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر (رض) نے نبی کریم ﷺ کے حوالہ سے۔

【93】

باب: حج اور عمرہ میں رمل کرنے کا بیان۔

ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں محمد بن جعفر نے خبر دی، کہا کہ مجھے زید بن اسلم نے خبر دی، انہیں ان کے والد نے کہ عمر بن خطاب (رض) نے حجر اسود کو خطاب کر کے فرمایا بخدا مجھے خوب معلوم ہے کہ تو صرف ایک پتھر ہے جو نہ کوئی نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان اور اگر میں نے رسول اللہ ﷺ کو تجھے بوسہ دیتے نہ دیکھا ہوتا تو میں کبھی بوسہ نہ دیتا۔ اس کے بعد آپ نے بوسہ دیا۔ پھر فرمایا اور اب ہمیں رمل کی بھی کیا ضرورت ہے۔ ہم نے اس کے ذریعہ مشرکوں کو اپنی قوت دکھائی تھی تو اللہ نے ان کو تباہ کردیا۔ پھر فرمایا جو عمل رسول اللہ ﷺ نے کیا ہے اسے اب چھوڑنا بھی ہم پسند نہیں کرتے۔

【94】

باب: حج اور عمرہ میں رمل کرنے کا بیان۔

ہم سے مسدد نے بیان کیا، ان سے یحییٰ قطان نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ عمری نے، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر (رض) نے بیان کیا۔ جب سے میں نے رسول اللہ ﷺ کو ان دونوں رکن یمانی کو چومتے ہوئے دیکھا میں نے بھی اس کے چومنے کو خواہ سخت حالات ہوں یا نرم نہیں چھوڑا۔ میں نے نافع سے پوچھا کیا ابن عمر (رض) ان دونوں یمنی رکنوں کے درمیان معمول کے مطابق چلتے تھے ؟ تو انہوں نے بتایا کہ آپ معمول کے مطابق اس لیے چلتے تھے تاکہ حجر اسود کو چھونے میں آسانی رہے۔

【95】

باب: حجر اسود کو چھڑی سے چھونا اور چومنا۔

ہم سے احمد بن صالح اور یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، انہوں نے بیان کیا کہ ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں یونس نے ابن شہاب سے خبر دی، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے حجتہ الوداع کے موقع پر اپنی اونٹنی پر طواف کیا تھا اور آپ ﷺ حجر اسود کا استلام ایک چھڑی کے ذریعہ کر رہے تھے اور اس چھڑی کو چومتے تھے۔ اور یونس کے ساتھ اس حدیث کو دراوردی نے زہری کے بھتیجے سے روایت کیا اور انہوں نے اپنے چچا (زہری) سے۔

【96】

ابوالشعثاء نے کہا بیت اللہ کے کسی بھی حصہ سے بھلا کون پرہیز کر سکتا ہے۔ اور معاویہ رضی اللہ عنہ چاروں رکنوں کا استلام کرتے تھے، اس پر عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے ان سے کہا کہ ہم ان دو ارکان شامی اور عراقی کا استلام نہیں کرتے تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ بیت اللہ کا کوئی جزء ایسا نہیں جسے چھوڑ دیا جائے اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما بھی تمام ارکان کا استلام کرتے تھے۔

【97】

باب: اس شخص سے متعلق جس نے صرف دونوں ارکان یمانی کا استلام کیا۔

ہم سے ابوالولید طیالسی نے بیان کیا، ان سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے سالم بن عبداللہ نے، ان سے ان کے والد عبداللہ بن عمر (رض) نے کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو صرف دونوں یمانی ارکان کا استلام کرتے دیکھا۔

【98】

باب: حجر اسود کو بوسہ دینا۔

ہم سے احمد بن سنان نے بیان کیا، ان سے یزید بن ہارون نے بیان کیا، انہیں ورقاء نے خبر دی، انہیں زید بن اسلم نے خبر دی، ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ میں نے دیکھا کہ عمر بن خطاب (رض) نے حجر اسود کو بوسہ دیا اور پھر فرمایا کہ اگر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے نہ دیکھتا تو میں کبھی تجھے بوسہ نہ دیتا۔

【99】

باب: حجر اسود کو بوسہ دینا۔

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے زبیر بن عربی نے بیان کیا کہ ایک شخص نے ابن عمر (رض) سے حجر اسود کے بوسہ دینے کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتلایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس کو بوسہ دیتے دیکھا ہے۔ اس پر اس شخص نے کہا اگر ہجوم ہوجائے اور میں عاجز ہوجاؤں تو کیا کروں ؟ ابن عمر (رض) نے فرمایا کہ اس اگر وگر کو یمن میں جا کر رکھو میں نے تو رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ اس کو بوسہ دیتے تھے۔

【100】

باب: حجر اسود کے سامنے پہنچ کر اس کی طرف اشارہ کرنا (جب چومنا نہ ہو سکے)۔

ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالوہاب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے خالد حذاء نے عکرمہ سے بیان کیا، ان سے ابن عباس (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ ایک اونٹنی پر (سوار ہو کر کعبہ کا) طواف کر رہے تھے اور جب بھی آپ ﷺ حجر اسود کے سامنے پہنچتے تو کسی چیز سے اس کی طرف اشارہ کرتے تھے۔

【101】

باب: حجر اسود کے سامنے آ کر تکبیر کہنا۔

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے خالد بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے خالد حذاء نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا نبی کریم ﷺ نے بیت اللہ کا طواف ایک اونٹنی پر سوار رہ کر کیا۔ جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم حجر اسود کے سامنے پہنچتے تو کسی چیز سے اس کی طرف اشارہ کرتے اور تکبیر کہتے۔ خالد طحان کے ساتھ اس حدیث کو ابراہیم بن طہمان نے بھی خالد حذاء سے روایت کیا ہے۔

【102】

باب: جو شخص (حج یا عمرہ کی نیت سے) مکہ میں آئے تو اپنے گھر لوٹ جانے سے پہلے طواف کرے پھر دوگانہ طواف ادا کرے پھر صفا پہاڑ پر جائے۔

ہم سے اصبغ بن فرج نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا کہ مجھے عمرو بن حارث نے محمد بن عبدالرحمٰن ابوالاسود سے خبر دی، انہوں نے کہا کہ میں نے عروہ سے (حج کا مسئلہ) پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ عائشہ (رض) نے مجھے خبر دی تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب (مکہ) تشریف لائے تو سب سے پہلا کام آپ ﷺ نے یہ کیا کہ وضو کیا پھر طواف کیا اور طواف کرنے سے عمرہ نہیں ہوا۔ اس کے بعد ابوبکر اور عمر (رض) نے بھی اسی طرح حج کیا۔ پھر عروہ نے کہا کہ میں نے اپنے والد زبیر (رض) کے ساتھ حج کیا، انہوں نے بھی سب سے پہلے طواف کیا۔ مہاجرین اور انصار کو بھی میں نے اسی طرح کرتے دیکھا تھا۔ میری والدہ (اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا) نے بھی مجھے بتایا کہ انہوں نے اپنی بہن (عائشہ رضی اللہ عنہا) اور زبیر اور فلاں فلاں کے ساتھ عمرہ کا احرام باندھا تھا۔ جب ان لوگوں نے حجر اسود کو بوسہ دے لیا تو احرام کھول ڈالا تھا۔

【103】

میں نے عروہ سے ( حج کا مسئلہ ) پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے مجھے خبر دی تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب ( مکہ ) تشریف لائے تو سب سے پہلا کام آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کیا کہ وضو کیا پھر طواف کیا اور طواف کرنے سے عمرہ نہیں ہوا۔ اس کے بعد ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما نے بھی اسی طرح حج کیا۔ پھر عروہ نے کہا کہ میں نے اپنے والد زبیر رضی اللہ عنہ کے ساتھ حج کیا، انہوں نے بھی سب سے پہلے طواف کیا۔ مہاجرین اور انصار کو بھی میں نے اسی طرح کرتے دیکھا تھا۔ میری والدہ ( اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا ) نے بھی مجھے بتایا کہ انہوں نے اپنی بہن ( عائشہ رضی اللہ عنہا ) اور زبیر اور فلاں فلاں کے ساتھ عمرہ کا احرام باندھا تھا۔ جب ان لوگوں نے حجر اسود کو بوسہ دے لیا تو احرام کھول ڈالا تھا۔

【104】

باب: جو شخص (حج یا عمرہ کی نیت سے) مکہ میں آئے تو اپنے گھر لوٹ جانے سے پہلے طواف کرے پھر دوگانہ طواف ادا کرے پھر صفا پہاڑ پر جائے۔

ہم سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوضمرہ انس بن عیاض نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، انہوں نے نافع سے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے (مکہ) آنے کے بعد سب سے پہلے حج اور عمرہ کا طواف کیا تھا۔ اس کے تین چکروں میں آپ ﷺ نے سعی (رمل) کی اور باقی چار میں حسب معمول چلے۔ پھر طواف کی دو رکعت نماز پڑھی اور صفا مروہ کی سعی کی۔

【105】

باب: جو شخص (حج یا عمرہ کی نیت سے) مکہ میں آئے تو اپنے گھر لوٹ جانے سے پہلے طواف کرے پھر دوگانہ طواف ادا کرے پھر صفا پہاڑ پر جائے۔

ہم سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے انس بن عیاض نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ عمری نے، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ جب بیت اللہ کا پہلا طواف (یعنی طواف قدوم) کرتے تو اس کے تین چکروں میں آپ ﷺ دوڑ کر چلتے اور چار میں معمول کے موافق چلتے پھر جب صفا اور مروہ کی سعی کرتے تو بطن مسیل (وادی) میں دوڑ کر چلتے۔

【106】

باب: عورتیں بھی مردوں کے ساتھ طواف کریں۔

امام بخاری (رح) نے کہا کہ مجھ سے عمرو بن علی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے بیان کیا اور انہیں عطاء نے خبر دی کہ جب ابن ہشام (جب وہ ہشام بن عبدالملک کی طرف سے مکہ کا حاکم تھا) نے عورتوں کو مردوں کے ساتھ طواف کرنے سے منع کردیا تو اس سے انہوں نے کہا کہ تم کس دلیل پر عورتوں کو اس سے منع کر رہے ہو ؟ جب کہ رسول اللہ ﷺ کی پاک بیویوں نے مردوں کے ساتھ طواف کیا تھا۔ ابن جریج نے پوچھا یہ پردہ (کی آیت نازل ہونے) کے بعد کا واقعہ ہے یا اس سے پہلے کا ؟ انہوں نے کہا میری عمر کی قسم ! میں نے انہیں پردہ (کی آیت نازل ہونے) کے بعد دیکھا۔ اس پر ابن جریج نے پوچھا کہ پھر مرد عورت مل جل جاتے تھے۔ انہوں نے فرمایا کہ اختلاط نہیں ہوتا تھا، عائشہ (رض) مردوں سے الگ رہ کر ایک الگ کونے میں طواف کرتی تھیں، ان کے ساتھ مل کر نہیں کرتی تھیں۔ ایک عورت (وقرہ نامی) نے ان سے کہا ام المؤمنین ! چلئے (حجر اسود کو) بوسہ دیں۔ تو آپ نے انکار کردیا اور کہا تو جا چوم، میں نہیں چومتی اور ازواج مطہرات رات میں پردہ کر کے نکلتی تھیں کہ پہچانی نہ جاتیں اور مردوں کے ساتھ طواف کرتی تھیں۔ البتہ عورتیں جب کعبہ کے اندر جانا چاہتیں تو اندر جانے سے پہلے باہر کھڑی ہوجاتیں اور مرد باہر آجاتے (تو وہ اندر جاتیں) میں اور عبید بن عمیر عائشہ (رض) کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوئے جب آپ ثبیر (پہاڑ) پر ٹھہری ہوئی تھیں، (جو مزدلفہ میں ہے) ابن جریج نے کہا کہ میں نے عطاء سے پوچھا کہ اس وقت پردہ کس چیز سے تھا ؟ عطاء نے بتایا کہ ایک ترکی قبہ میں ٹھہری ہوئی تھیں۔ اس پر پردہ پڑا ہوا تھا۔ ہمارے اور ان کے درمیان اس کے سوا اور کوئی چیز حائل نہ تھی۔ اس وقت میں نے دیکھا کہ ان کے بدن پر ایک گلابی رنگ کا کرتہ تھا۔

【107】

باب: عورتیں بھی مردوں کے ساتھ طواف کریں۔

ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے امام مالک (رح) نے بیان کیا، ان سے محمد بن عبدالرحمٰن بن نوفل نے بیان کیا، ان سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا، ان سے زینب بنت ابی سلمہ نے، ان سے نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ ام سلمہ (رض) نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے اپنے بیمار ہونے کی شکایت کی (کہ میں پیدل طواف نہیں کرسکتی) تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ سواری پر چڑھ کر اور لوگوں سے علیحدہ رہ کر طواف کرلے۔ چناچہ میں نے عام لوگوں سے الگ رہ کر طواف کیا۔ اس وقت رسول اللہ ﷺ کعبہ کے پہلو میں نماز پڑھ رہے تھے اور آپ ﷺ والطور * وکتاب مسطور‏ قرآت کر رہے تھے۔

【108】

باب: طواف میں باتیں کرنا۔

ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہشام نے بیان کیا کہ ابن جریج نے انہیں خبر دی، کہا کہ مجھے سلیمان احول نے خبر دی، انہیں طاؤس نے خبر دی اور انہیں ابن عباس (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ کعبہ کا طواف کرتے ہوئے ایک ایسے شخص کے پاس سے گزرے جس نے اپنا ہاتھ ایک دوسرے شخص کے ہاتھ سے تسمہ یا رسی یا کسی اور چیز سے باندھ رکھا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے اپنے ہاتھ سے اسے کاٹ دیا اور پھر فرمایا کہ اگر ساتھ ہی چلنا ہے تو ہاتھ پکڑ کے چلو۔

【109】

باب: جب طواف میں کسی کو باندھا دیکھے یا کوئی اور مکروہ چیز تو اس کو کاٹ سکتا ہے۔

ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے بیان کیا، ان سے سلیمان احول نے، ان سے طاؤس نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے دیکھا کہ ایک شخص کعبہ کا طواف رسی یا کسی اور چیز کے ذریعہ کر رہا ہے تو آپ ﷺ نے اسے کاٹ دیا۔

【110】

باب: بیت اللہ کا طواف کوئی ننگا آدمی نہیں کر سکتا اور نہ کوئی مشرک حج کر سکتا ہے۔

باب : اگر طواف کرتے کرتے بیچ میں ٹھہر جائے اگر طواف کرتے کرتے بیچ میں ٹھہر جائے تو کیا حکم ہے ؟ ایک ایسے شخص کے بارے میں جو طواف کر رہا تھا کہ نماز کھڑی ہوگئی یا اسے اس کی جگہ سے ہٹا دیا گیا، عطاء یہ فرمایا کرتے تھے کہ جہاں سے اس نے طواف چھوڑا وہیں سے بناء کرے (یعنی دوبارہ وہیں سے شروع کر دے) ابن عمر اور عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہم سے بھی اس طرح منقول ہے۔

【111】

باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طواف کے ساتھ چکروں کے بعد دو رکعتیں پڑھنا۔

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم نے عبداللہ بن عمر (رض) سے پوچھا کہ کیا کوئی عمرہ میں صفا مروہ کی سعی سے پہلے اپنی بیوی سے ہمبستر ہوسکتا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور کعبہ کا طواف سات چکروں سے پورا کیا۔ پھر مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعت نماز پڑھی اور صفا مروہ کی سعی کی۔ پھر عبداللہ بن عمر (رض) نے فرمایا کہ تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ کے طریقے میں بہترین نمونہ ہے۔ عمرو نے کہا کہ پھر میں نے جابر بن عبداللہ (رض) سے اس کے متعلق معلوم کیا تو انہوں نے بتایا کہ صفا مروہ کی سعی سے پہلے اپنی بیوی کے قریب بھی نہ جائے۔

【112】

صفا مروہ کی سعی سے پہلے اپنی بیوی کے قریب بھی نہ جائے۔

【113】

باب: جو شخص پہلے طواف یعنی طواف قدوم کے بعد پھر کعبہ کے نزدیک نہ جائے اور عرفات میں حج کرنے کے لیے جائے۔

ہم سے محمد بن ابی بکر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے فضیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھے کریب نے عبداللہ بن عباس (رض) سے خبر دی، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ مکہ تشریف لائے اور سات (چکروں کے ساتھ) طواف کیا۔ پھر صفا مروہ کی سعی کی۔ اس سعی کے بعد آپ ﷺ کعبہ اس وقت تک نہیں گئے جب تک عرفات سے واپس نہ لوٹے۔

【114】

باب: اس شخص کے بارے میں جس نے طواف کی دو رکعتیں مسجد الحرام سے باہر پڑھیں۔

ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک (رح) نے خبر دی، انہیں محمد بن عبدالرحمٰن نے، انہیں عروہ نے، انہیں زینب نے اور انہیں ام المؤمنین ام سلمہ (رض) نے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے شکایت کی۔ (دوسری سند) امام بخاری (رح) نے کہا کہ مجھ سے محمد بن حرب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابومروان یحییٰ ابن ابی زکریا غسانی نے بیان کیا، ان سے ہشام نے، ان سے عروہ نے اور ان سے نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ ام سلمہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ جب مکہ میں تھے اور وہاں سے چلنے کا ارادہ ہوا تو ام سلمہ (رض) نے کعبہ کا طواف نہیں کیا اور وہ بھی روانگی کا ارادہ رکھتی تھیں آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ جب صبح کی نماز کھڑی ہو اور لوگ نماز پڑھنے میں مشغول ہوجائیں تو تم اپنی اونٹنی پر طواف کرلینا۔ چناچہ ام سلمہ (رض) نے ایسا ہی کیا اور انہوں نے باہر نکلنے تک طواف کی نماز نہیں پڑھی۔

【115】

باب: اس سے متعلق کہ جس نے طواف کی دو رکعتیں مقام ابراہیم کے پیچھے پڑھیں۔

ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا انہوں کہا کہ عم سے عمرو بن دینار نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے ابن عمر (رض) سے سنا، انہوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ (مکہ میں) تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خانہ کعبہ کا سات چکروں سے طواف کیا اور مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعت نماز پڑھی پھر صفا کی طرف (سعی کرنے) گئے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔

【116】

باب: صبح اور عصر کے بعد طواف کرنا۔

ہم سے حسن بن عمر بصریٰ (رح) نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، ان سے حبیب نے، ان سے عطاء نے، ان سے عروہ نے، ان سے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ (رض) نے کہ کچھ لوگوں نے صبح کی نماز کے بعد کعبہ کا طواف کیا۔ پھر ایک وعظ کرنے والے کے پاس بیٹھ گئے اور جب سورج نکلنے لگا تو وہ لوگ نماز (طواف کی دو رکعت) پڑھنے کے لیے کھڑے ہوگئے۔ اس پر عائشہ (رض) نے (ناگواری کے ساتھ) فرمایا جب سے تو یہ لوگ بیٹھے تھے اور جب وہ وقت آیا کہ جس میں نماز مکروہ ہے تو نماز کے لیے کھڑے ہوگئے۔

【117】

باب: صبح اور عصر کے بعد طواف کرنا۔

ہم سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوضمرہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، ان سے نافع نے کہ عبداللہ بن عمر (رض) نے فرمایا، میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا ہے۔ آپ ﷺ سورج طلوع ہوتے اور غروب ہوتے وقت نماز پڑھنے سے روکتے تھے۔

【118】

باب: صبح اور عصر کے بعد طواف کرنا۔

ہم سے حسن بن محمد زعفرانی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبیدہ بن حمیدنے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبدالعزیز بن رفیع نے بیان کیا، کہا کہ میں نے عبداللہ بن زبیر (رض) کو دیکھا کہ آپ فجر کی نماز کے بعد طواف کر رہے تھے اور پھر آپ نے دو رکعت (طواف کی) نماز پڑھی۔ عبدالعزیز نے بیان کیا کہ میں نے عبداللہ بن زبیر (رض) کو عصر کے بعد بھی دو رکعت نماز پڑھتے دیکھا تھا۔ وہ بتاتے تھے کہ عائشہ (رض) نے ان سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ جب بھی ان کے گھر آتے (عصر کے بعد) تو یہ دو رکعت ضرور پڑھتے تھے۔

【119】

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی ان کے گھر آتے ( عصر کے بعد ) تو یہ دو رکعت ضرور پڑھتے تھے۔

【120】

باب: مریض آدمی سوار ہو کر طواف کر سکتا ہے۔

ہم سے اسحاق واسطی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے خالد طحان نے خالد حذاء سے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے، ان سے عبداللہ بن عباس (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیت اللہ کا طواف اونٹ پر سوار ہو کر کیا۔ آپ ﷺ جب بھی (طواف کرتے ہوئے) حجر اسود کے نزدیک آتے تو اپنے ہاتھ کو ایک چیز (چھڑی) سے اشارہ کرتے اور تکبیر کہتے۔

【121】

باب: مریض آدمی سوار ہو کر طواف کر سکتا ہے۔

ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا انہوں نے کہا کہ ہم سے امام مالک (رح) نے بیان کیا، ان سے محمد بن عبدالرحمٰن بن نوفل نے، ان سے عروہ نے بیان کیا، ان سے زینب بنت ام سلمہ نے، ان سے ام سلمہ (رض) نے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے شکایت کی کہ میں بیمار ہوگئی ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا پھر لوگوں کے پیچھے سے سوار ہو کر طواف کرلے۔ چناچہ میں نے جب طواف کیا تو اس وقت رسول اللہ ﷺ بیت اللہ کے پہلو میں (نماز کے اندر) والطور وکتاب مسطور‏ کی قرآت کر رہے تھے۔

【122】

باب: حاجیوں کو پانی پلانا۔

ہم سے عبداللہ بن محمد بن ابی الاسود نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوضمرہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبیداللہ عمری نے بیان کیا، ان سے نافع نے، ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ عباس بن عبدالمطلب (رض) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے پانی (زمزم کا حاجیوں کو) پلانے کے لیے منیٰ کے دنوں میں مکہ ٹھہرنے کی اجازت چاہی تو آپ ﷺ نے ان کو اجازت دے دی۔

【123】

باب: حاجیوں کو پانی پلانا۔

ہم سے اسحاق بن شاہین نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے خالد طحان نے خالد حذاء سے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے، ان سے ابن عباس (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ پانی پلانے کی جگہ (زمزم کے پاس) تشریف لائے اور پانی مانگا (حج کے موقع پر) عباس (رض) نے کہا کہ فضل ! اپنی ماں کے یہاں جا اور ان کے یہاں سے کھجور کا شربت لا۔ لیکن رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے (یہی) پانی پلاؤ۔ عباس (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ہر شخص اپنا ہاتھ اس میں ڈال دیتا ہے۔ اس کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہی کہتے رہے کہ مجھے (یہی) پانی پلاؤ۔ چناچہ آپ ﷺ نے پانی پیا پھر زمزم کے قریب آئے۔ لوگ کنویں سے پانی کھینچ رہے تھے اور کام کر رہے تھے۔ آپ ﷺ نے (انہیں دیکھ کر) فرمایا کام کرتے جاؤ کہ ایک اچھے کام پر لگے ہوئے ہو۔ پھر فرمایا (اگر یہ خیال نہ ہوتا کہ آئندہ لوگ) تمہیں پریشان کردیں گے تو میں بھی اترتا اور رسی اپنے اس پر رکھ لیتا۔ مراد آپ ﷺ کی شانہ سے تھی۔ آپ ﷺ نے اس کی طرف اشارہ کر کے کہا تھا۔

【124】

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب میں مکہ میں تھا تو میری ( گھر کی ) چھت کھلی اور جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے۔ انہوں نے میرا سینہ چاک کیا اور اسے زمزم کے پانی سے دھویا۔ اس کے بعد ایک سونے کا طشت لائے جو حکمت اور ایمان سے بھرا ہوا تھا۔ اسے انہوں نے میرے سینے میں ڈال دیا اور پھر سینہ بند کر دیا۔ اب وہ مجھے ہاتھ سے پکڑ کر آسمان دنیا کی طرف لے چلے۔ آسمان دنیا کے داروغہ سے جبرائیل علیہ السلام نے کہا دروازہ کھولو۔ انہوں نے دریافت کیا کون صاحب ہیں؟ کہا جبرائیل!۔

【125】

باب: زمزم کا بیان۔

ہم سے محمد بن سلام بیکندی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں مروان بن معاویہ فزاری نے خبر دی، انہیں عاصم نے اور انہیں شعبی نے کہ عبداللہ بن عباس (رض) نے ان سے بیان کیا، کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو زمزم کا پانی پلایا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کھڑے ہو کر پیا تھا۔ عاصم نے بیان کیا کہ عکرمہ نے قسم کھا کر کہا کہ نبی کریم ﷺ اس دن اونٹ پر سوار تھے۔

【126】

باب: قران کرنے والا ایک طواف کرے یا دو؟

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں امام مالک (رح) نے ابن شہاب سے خبر دی، انہیں عروہ نے اور ان سے عائشہ (رض) نے کہا کہ حجتہ الوداع میں ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ (مدینہ سے) نکلے اور ہم نے عمرہ کا احرام باندھا۔ پھر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جس کے ساتھ قربانی کا جانور ہو وہ حج اور عمرہ دونوں کا ایک ساتھ احرام باندھے۔ ایسے لوگ دونوں کے احرام سے ایک ساتھ حلال ہوں گے۔ میں بھی مکہ آئی تھی لیکن مجھے حیض آگیا تھا۔ اس لیے جب ہم نے حج کے کام پورے کرلیے تو نبی کریم ﷺ نے مجھے عبدالرحمٰن کے ساتھ تنعیم کی طرف بھیجا۔ میں نے وہاں سے عمرہ کا احرام باندھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ تمہارے اس عمرہ کے بدلہ میں ہے (جسے تم نے حیض کی وجہ سے چھوڑ دیا تھا) جن لوگوں نے عمرہ کا احرام باندھا تھا انہوں نے سعی کے بعد احرام کھول دیا اور دوسرا طواف منٰی سے واپسی پر کیا لیکن جن لوگوں نے حج اور عمرہ کا احرام ایک ساتھ باندھا تھا انہوں نے صرف ایک طواف کیا۔

【127】

باب: قران کرنے والا ایک طواف کرے یا دو؟

ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسماعیل بن علیہ نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے، ان سے نافع نے کہ ابن عمر (رض) کے لڑکے عبداللہ بن عبداللہ ان کے یہاں گئے۔ حج کے لیے سواری گھر میں کھڑی ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ مجھے خطرہ ہے کہ اس سال مسلمانوں میں آپس میں لڑائی ہوجائے گی اور آپ کو وہ بیت اللہ سے روک دیں گے۔ اس لیے اگر آپ نہ جاتے تو بہتر ہوتا۔ ابن عمر (رض) نے جواب دیا کہ رسول اللہ ﷺ بھی تشریف لے گئے تھے (عمرہ کرنے صلح حدیبیہ کے موقع پر) اور کفار قریش نے آپ کو بیت اللہ تک پہنچنے سے روک دیا تھا۔ اس لیے اگر مجھے بھی روک دیا گیا تو میں بھی وہی کام کروں گا جو رسول اللہ ﷺ نے کیا تھا اور تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنے عمرہ کے ساتھ حج (اپنے اوپر) واجب کرلیا ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر آپ مکہ آئے اور دونوں عمرہ اور حج کے لیے ایک ہی طواف کیا۔

【128】

باب: قران کرنے والا ایک طواف کرے یا دو؟

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے نافع سے بیان کیا کہ جس سال حجاج عبداللہ بن زبیر (رض) کے مقابلے میں لڑنے آیا تھا۔ عبداللہ بن عمر (رض) نے جب اس سال حج کا ارادہ کیا تو آپ سے کہا گیا کہ مسلمانوں میں باہم جنگ ہونے والی ہے اور یہ بھی خطرہ ہے کہ آپ کو حج سے روک دیا جائے۔ آپ نے فرمایا تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔ ایسے وقت میں میں بھی وہی کام کروں گا جو رسول اللہ ﷺ نے کیا تھا۔ تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنے اوپر عمرہ واجب کرلیا ہے۔ پھر آپ چلے اور جب بیداء کے میدان میں پہنچے تو آپ نے فرمایا کہ حج اور عمرہ تو ایک ہی طرح کے ہیں۔ میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنے عمرہ کے ساتھ حج بھی واجب کرلیا ہے۔ آپ نے ایک قربانی بھی ساتھ لے لی جو مقام قدید سے خریدی تھی۔ اس کے سوا اور کچھ نہیں کیا۔ دسویں تاریخ سے پہلے نہ آپ نے قربانی کی نہ کسی ایسی چیز کو اپنے لیے جائز کیا جس سے (احرام کی وجہ سے) آپ رک گئے تھے۔ نہ سر منڈوایا نہ بال ترشوائے دسویں تاریخ میں آپ نے قربانی کی اور بال منڈوائے۔ آپ کا یہی خیال تھا کہ آپ نے ایک طواف سے حج اور عمرہ دونوں کا طواف ادا کرلیا ہے۔ عبداللہ بن عمر (رض) نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے بھی اسی طرح کیا تھا۔

【129】

باب: (کعبہ کا) طواف وضو کر کے کرنا۔

ہم سے احمد بن عیسیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے عمرو بن حارث نے خبر دی، انہیں محمد بن عبدالرحمٰن بن نوفل قرشی نے، انہوں نے عروہ بن زبیر سے پوچھا تھا، عروہ نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے جیسا کہ معلوم ہے حج کیا تھا۔ مجھے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ (رض) نے اس کے متعلق خبر دی کہ جب آپ مکہ معظمہ آئے تو سب سے پہلا کام یہ کیا کہ آپ نے وضو کیا، پھر کعبہ کا طواف کیا۔ یہ آپ کا عمرہ نہیں تھا۔ اس کے بعد ابوبکر (رض) نے حج کیا اور آپ نے بھی سب سے پہلے کعبہ کا طواف کیا جب کہ یہ آپ کا بھی عمرہ نہیں تھا۔ عمر (رض) نے بھی اسی طرح کیا۔ پھر عثمان (رض) نے حج کیا میں نے دیکھا کہ سب سے پہلے آپ نے بھی کعبہ کا طواف کیا۔ آپ کا بھی یہ عمرہ نہیں تھا۔ پھر معاویہ اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کا زمانہ آیا۔ پھر میں نے اپنے والد زبیر بن عوام (رض) کے ساتھ بھی حج کیا۔ یہ (سارے اکابر) پہلے کعبہ ہی کے طواف سے شروع کرتے تھے جب کہ یہ عمرہ نہیں ہوتا تھا۔ اس کے بعد مہاجرین و انصار کو بھی میں نے دیکھا کہ وہ بھی اسی طرح کرتے رہے اور ان کا بھی یہ عمرہ نہیں ہوتا تھا۔ آخری ذات جسے میں نے اس طرح کرتے دیکھا، وہ عبداللہ بن عمر (رض) کی تھی۔ انہوں نے بھی عمرہ نہیں کیا تھا۔ ابن عمر (رض) ابھی موجود ہیں لیکن ان سے لوگ اس کے متعلق پوچھتے نہیں۔ اسی طرح جو حضرات گزر گئے، ان کا بھی مکہ میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلا قدم طواف کے لے اٹھتا تھا۔ پھر یہ بھی احرام نہیں کھولتے تھے۔ میں نے اپنی والدہ (اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما) اور خالہ (عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا) کو بھی دیکھا کہ جب وہ آتیں تو سب سے پہلے طواف کرتیں اور یہ اس کے بعد احرام نہیں کھولتی تھیں۔ اور مجھے میری والدہ نے خبر دی کہ انہوں نے اپنی بہن اور زبیر اور فلاں فلاں (رضی اللہ عنہم) کے ساتھ عمرہ کیا ہے یہ سب لوگ حجر اسود کا بوسہ لے لیتے تو عمرہ کا احرام کھول دیتے۔

【130】

انہوں نے اپنی بہن اور زبیر اور فلاں فلاں ( رضی اللہ عنہم ) کے ساتھ عمرہ کیا ہے یہ سب لوگ حجر اسود کا بوسہ لے لیتے تو عمرہ کا احرام کھول دیتے۔

【131】

باب: صفا اور مروہ کی سعی واجب ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں۔

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی کہ عروہ نے بیان کیا کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ (رض) سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے (جو سورة البقرہ میں ہے کہ) صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ اس لے جو بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے اس کے لیے ان کا طواف کرنے میں کوئی گناہ نہیں ۔ قسم اللہ کی پھر تو کوئی حرج نہ ہونا چاہیے اگر کوئی صفا اور مروہ کی سعی نہ کرنی چاہے۔ عائشہ (رض) نے فرمایا بھتیجے ! تم نے یہ بری بات کہی۔ اللہ کا مطلب یہ ہوتا تو قرآن میں یوں اترتا ان کے طواف نہ کرنے میں کوئی گناہ نہیں بات یہ ہے کہ یہ آیت تو انصار کے لیے اتری تھی جو اسلام سے پہلے منات بت کے نام پر جو مشلل میں رکھا ہوا تھا اور جس کی یہ پوجا کیا کرتے تھے۔ ، احرام باندھتے تھے۔ یہ لوگ جب (زمانہ جاہلیت میں) احرام باندھتے تو صفا مروہ کی سعی کو اچھا نہیں خیال کرتے تھے۔ اب جب اسلام لائے تو رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق پوچھا اور کہا کہ یا رسول اللہ ! ہم صفا اور مروہ کی سعی اچھی نہیں سمجھتے تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ صفا اور مروہ دونوں اللہ کی نشانیاں ہیں آخر آیت تک۔ عائشہ صدیقہ (رض) نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ان دو پہاڑوں کے درمیان سعی کی سنت جاری کی ہے۔ اس لیے کسی کے لیے مناسب نہیں ہے کہ اسے ترک کر دے۔ انہوں نے کہا کہ پھر میں نے اس کا ذکر ابوبکر بن عبدالرحمٰن سے کیا تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے تو یہ علمی بات اب تک نہیں سنی تھی، بلکہ میں نے بہت سے اصحاب علم سے تو یہ سنا ہے کہ وہ یوں کہتے تھے کہ عرب کے لوگ ان لوگوں کے سوا جن کا عائشہ صدیقہ (رض) نے ذکر کیا جو مناۃ کے لیے احرام باندھتے تھے سب صفا مروہ کا پھیرا کیا کرتے تھے۔ اور جب اللہ نے قرآن شریف میں بیت اللہ کے طواف کا ذکر فرمایا اور صفا مروہ کا ذکر نہیں کیا تو وہ لوگ کہنے لگے یا رسول اللہ ! ہم تو جاہلیت کے زمانہ میں صفا اور مروہ کا پھیرا کیا کرتے تھے اور اب اللہ نے بیت اللہ کے طواف کا ذکر تو فرمایا لیکن صفا مروہ کا ذکر نہیں کیا تو کیا صفا مروہ کی سعی کرنے میں ہم پر کچھ گناہ ہوگا ؟ تب اللہ نے یہ آیت اتاری۔ صفا مروہ اللہ کی نشانیاں ہیں آخر آیت تک۔ ابوبکر (رض) نے کہا میں سنتا ہوں کہ یہ آیت دونوں فرقوں کے باب میں اتری ہے یعنی اس فرقے کے باب میں جو جاہلیت کے زمانے میں صفا مروہ کا طواف برا جانتا تھا اور اس کے باب میں جو جاہلیت کے زمانے میں صفا مروہ کا طواف کیا کرتے تھے۔ پھر مسلمان ہونے کے بعد اس کا کرنا اس وجہ سے کہ اللہ نے بیت اللہ کے طواف کا ذکر کیا اور صفا ومروہ کا نہیں کیا، برا سمجھے۔ یہاں تک کہ اللہ نے بیت اللہ کے طواف کے بعد ان کے طواف کا بھی ذکر فرما دیا۔

【132】

باب: صفا اور مروہ کے درمیان کس طرح دوڑے۔

ہم نے محمد بن عبید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عیسیٰ بن یونس نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ بن عمر نے، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ ﷺ پہلا طواف کرتے تو اس کے تین چکروں میں رمل کرتے اور بقیہ چار میں معمول کے مطابق چلتے اور جب صفا اور مروہ کی سعی کرتے تو آپ نالے کے نشیب میں دوڑا کرتے تھے۔ عبیداللہ نے کہا میں نے نافع سے پوچھا، ابن عمر (رض) جب رکن یمانی کے پاس پہنچتے تو کیا حسب معمول چلنے لگتے تھے ؟ انہوں نے فرمایا کہ نہیں۔ البتہ اگر رکن یمانی پر ہجوم ہوتا تو حجر اسود کے پاس آ کر آپ آہستہ چلنے لگتے کیونکہ وہ بغیر چومے اس کو نہیں چھوڑتے تھے۔

【133】

باب: صفا اور مروہ کے درمیان کس طرح دوڑے۔

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے عمرو بن دینار سے بیان کہ ہم نے ابن عمر (رض) سے ایک ایسے شخص کے متعلق پوچھا جو عمرہ میں بیت اللہ کا طواف تو کرلے لیکن صفا اور مروہ کی سعی نہیں کرتا، کیا وہ اپنی بیوی سے صحبت کرسکتا ہے۔ انہوں نے جواب دیا نبی کریم ﷺ (مکہ) تشریف لائے تو آپ نے بیت اللہ کا سات چکروں کے ساتھ طواف کیا اور مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعت نماز پڑھی۔ پھر صفا اور مروہ کی سات مرتبہ سعی کی اور تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔ ہم نے اس کے متعلق جابر بن عبداللہ (رض) سے بھی پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ صفا اور مروہ کی سعی سے پہلے بیوی کے قریب بھی نہ جائے۔

【134】

صفا اور مروہ کی سعی سے پہلے بیوی کے قریب بھی نہ جائے۔

【135】

باب: صفا اور مروہ کے درمیان کس طرح دوڑے۔

ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے بیان کیا کہ مجھے عمرو بن دینار نے خبر دی، کہا کہ میں نے عبداللہ بن عمر (رض) سے سنا، آپ نے کہا کہ نبی کریم ﷺ جب مکہ تشریف لائے تو آپ نے بیت اللہ کا طواف کیا اور دو رکعت نماز پڑھی پھر صفا اور مروہ کی سعی کی۔ اس کے بعد عبداللہ (رض) نے یہ آیت تلاوت کی لقد کان لکم في رسول الله أسوة حسنة‏ تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔

【136】

باب: صفا اور مروہ کے درمیان کس طرح دوڑے۔

ہم سے احمد بن محمد مروزی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہمیں عاصم احول نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ میں نے انس بن مالک (رض) سے پوچھا کہ آپ لوگ صفا اور مروہ کی سعی کو برا سمجھتے تھے ؟ انہوں نے فرمایا، ہاں ! کیونکہ یہ عہد جاہلیت کا شعار تھا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما دی صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں۔ پس جو کوئی بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے اس پر ان کی سعی کرنے میں کوئی گناہ نہیں ہے۔

【137】

باب: صفا اور مروہ کے درمیان کس طرح دوڑے۔

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے، ان سے عطاء بن ابی رباح نے اور ان سے عبداللہ بن عباس (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیت اللہ کا طواف اور صفا مروہ کی سعی اس طرح کی کہ مشرکین کو آپ اپنی قوت دکھلا سکیں۔ حمیدی نے یہ اضافہ کیا ہے کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے بیان کیا، کہا کہ میں نے عطاء سے سنا اور انہوں نے ابن عباس (رض) سے یہی حدیث سنی۔

【138】

باب: حیض والی عورت بیت اللہ کے طواف کے سوا تمام ارکان بجا لائے۔

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک (رح) نے خبر دی، انہیں عبدالرحمٰن بن قاسم نے، انہیں ان کے باپ نے اور انہیں ام المؤمنین عائشہ صدیقہ (رض) نے انہوں نے فرمایا کہ میں مکہ آئی تو اس وقت میں حائضہ تھی۔ اس لیے بیت اللہ کا طواف نہ کرسکی اور نہ صفا مروہ کی سعی۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے اس کی شکایت رسول اللہ ﷺ سے کی تو آپ نے فرمایا کہ جس طرح دوسرے حاجی کرتے ہیں تم بھی اسی طرح (ارکان حج) ادا کرلو ہاں بیت اللہ کا طواف پاک ہونے سے پہلے نہ کرنا۔

【139】

باب: حیض والی عورت بیت اللہ کے طواف کے سوا تمام ارکان بجا لائے۔

ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالوہاب ثقفی نے بیان کیا۔ (دوسری سند) اور مجھ سے خلیفہ بن خیاط نے بیان کیا کہ ہم سے عبدالوہاب ثقفی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حبیب معلم نے بیان کیا، ان سے عطاء بن ابی رباح نے اور ان سے جابر بن عبداللہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ اور آپ کے اصحاب نے حج کا احرام باندھا۔ نبی کریم ﷺ اور طلحہ کے سوا اور کسی کے ساتھ قربانی نہیں تھی، علی (رض) یمن سے آئے تھے اور ان کے ساتھ بھی قربانی تھی۔ اس لیے نبی کریم ﷺ نے حکم دیا کہ (سب لوگ اپنے حج کے احرام کو) عمرہ کا کرلیں۔ پھر طواف اور سعی کے بعد بال ترشوا لیں اور احرام کھول ڈالیں لیکن وہ لوگ اس حکم سے مستثنیٰ ہیں جن کے ساتھ قربانی ہو۔ اس پر صحابہ نے کہا کہ ہم منیٰ میں اس طرح جائیں گے کہ ہمارے ذکر سے منی ٹپک رہی ہو۔ یہ بات جب رسول اللہ ﷺ کو معلوم ہوئی تو آپ نے فرمایا، اگر مجھے پہلے معلوم ہوتا تو میں قربانی کا جانور ساتھ نہ لاتا اور جب قربانی کا جانور ساتھ نہ ہوتا تو میں بھی (عمرہ اور حج کے درمیان) احرام کھول ڈالتا اور عائشہ (رض) (اس حج میں) حائضہ ہوگئی تھیں۔ اس لیے انہوں نے بیت اللہ کہ طواف کے سوا اور دوسرے ارکان حج ادا کئے۔ پھر پاک ہو لیں تو طواف بھی کیا۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے شکایت کی کہ آپ سب لوگ تو حج اور عمرہ دونوں کر کے جا رہے ہیں لیکن میں نے صرف حج ہی کیا ہے۔ چناچہ رسول اللہ ﷺ نے عبدالرحمٰن بن ابی بکر کو حکم دیا کہ انہیں تنعیم لیے جائیں (اور وہاں سے عمرہ کا احرام باندھیں) اس طرح عائشہ (رض) نے حج کے بعد عمرہ کیا۔

【140】

باب: حیض والی عورت بیت اللہ کے طواف کے سوا تمام ارکان بجا لائے۔

ہم سے مومل بن ہشام نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسماعیل بن علیہ نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے اور ان سے حفصہ بنت سیرین نے بیان کیا کہ ہم اپنی کنواری لڑکیوں کو باہر نکلنے سے روکتے تھے۔ پھر ایک خاتون آئیں اور بنی خلف کے محل میں (جو بصرے میں تھا) ٹھہریں۔ انہوں نے بیان کیا کہ ان کی بہن (ام عطیہ رضی اللہ عنہا) نبی کریم ﷺ کے ایک صحابی کے گھر میں تھیں۔ ان کے شوہر نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ بارہ جہاد کئے تھے اور میری بہن چھ جہادوں میں ان کے ساتھ رہی تھیں۔ وہ بیان کرتی تھیں کہ ہم (میدان جنگ میں) زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں اور مریضوں کی تیمارداری کرتی تھی۔ میری بہن نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ اگر ہمارے پاس چادر نہ ہو تو کیا کوئی حرج ہے اگر ہم عیدگاہ جانے کے لیے باہر نہ نکلیں ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، اس کی سہیلی کو اپنی چادر اسے اڑھا دینی چاہیے اور پھر مسلمانوں کی دعا اور نیک کاموں میں شرکت کرنا چاہیے۔ پھر جب امام عطیہ (رض) خود بصرہ آئیں تو میں نے ان سے بھی یہی پوچھا یا یہ کہا کہ ہم نے ان سے پوچھا انہوں نے بیان کیا ام عطیہ (رض) جب بھی رسول اللہ ﷺ کا ذکر کرتیں تو کہتیں میرے باپ آپ پر فدا ہوں۔ ہاں تو میں نے ان سے پوچھا، کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ سے اس طرح سنا ہے ؟ انہوں نے فرمایا کہ ہاں میرے باپ آپ پر فدا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کنواری لڑکیاں اور پردہ والیاں بھی باہر نکلیں یا یہ فرمایا کہ پردہ والی دوشیزائیں اور حائضہ عورتیں سب باہر نکلیں اور مسلمانوں کی دعا اور خیر کے کاموں میں شرکت کریں۔ لیکن حائضہ عورتیں نماز کی جگہ سے الگ رہیں۔ میں نے کہا اور حائضہ بھی نکلیں ؟ انہوں نے فرمایا کہ کیا حائضہ عورت عرفات اور فلاں فلاں جگہ نہیں جاتی ہیں ؟ (پھر عیدگاہ ہی جانے میں کیا حرج ہے) ۔

【141】

باب: آٹھویں ذی الحجہ کو نماز ظہر کہاں پڑھی جائے۔

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، انہوں نے ابوبکر بن عیاش سے سنا کہ ہم سے عبدالعزیز بن رفیع نے بیان کیا، کہا کہ میں انس (رض) سے ملا (دوسری سند) امام بخاری (رح) نے کہا اور مجھ سے اسماعیل بن ابان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوبکر بن عیاش نے بیان کیا، ان سے عبدالعزیز نے کہا کہ میں آٹھویں تاریخ کو منیٰ گیا تو وہاں انس (رض) سے ملا۔ وہ گدھی پر سوار ہو کر جا رہے تھے۔ میں نے پوچھا نبی کریم ﷺ نے اس دن ظہر کی نماز کہاں پڑھی تھی ؟ انہوں نے فرمایا دیکھو جہاں تمہارے حاکم لوگ نماز پڑھیں وہیں تم بھی پڑھو۔

【142】

باب: منی میں نماز پڑھنے کا بیان۔

ہم سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، کہا کہ مجھے یونس نے ابن شہاب سے خبر دی، کہا کہ مجھے عبیداللہ بن عبداللہ بن عمر (رض) نے اپنے باپ سے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ نے منیٰ میں دو رکعات پڑھیں اور ابوبکر اور عمر (رض) بھی ایسا کرتے رہے اور عثمان (رض) بھی خلافت کے شروع ایام میں (دو ) ہی رکعت پڑھتے تھے۔

【143】

باب: منی میں نماز پڑھنے کا بیان۔

ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے ابواسحاق ہمدانی سے بیان کیا اور ان سے حارثہ بن وہب خزاعی (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے منیٰ میں ہمیں دو رکعات پڑھائیں، ہمارا شمار اس وقت سب سے زیادہ تھا اور ہم اتنے بےڈر کسی وقت میں نہ تھے۔ (اس کے باوجود ہم کو نماز قصر پڑھائی) ۔

【144】

باب: منی میں نماز پڑھنے کا بیان۔

ہم سے قبیصہ بن عقبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے، ان سے اعمش نے، ان سے ابراہیم نخعی نے، ان سے عبدالرحمٰن بن یزید نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ منیٰ میں دو رکعت نماز پڑھی اور ابوبکر (رض) کے ساتھ بھی دو ہی رکعت پڑھی اور عمر (رض) کے ساتھ بھی دو ہی رکعت، لیکن پھر ان کے بعد تم میں اختلاف ہوگیا تو کاش ان چار رکعتوں کے بدلے مجھ کو دو رکعات ہی نصیب ہوتیں جو (اللہ کے ہاں) قبول ہوجائیں۔

【145】

باب: عرفہ کے دن روزہ رکھنے کا بیان۔

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے زہری سے بیان کیا اور ان سے سالم ابوالنصر نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ام فضل کے غلام عمیر سے سنا، انہوں نے ام فضل (رض) سے کہ عرفہ کے دن لوگوں کو رسول اللہ ﷺ کے روزے کے متعلق شک ہوا، اس لیے میں نے آپ کو پینے کے لیے کچھ بھیجا جسے آپ نے پی لیا۔

【146】

باب: صبح کے وقت منی سے عرفات جاتے ہوئے لبیک اور تکبیر کہنے کا بیان۔

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک نے محمد بن ابی بکر ثقفی سے خبر دی کہ انہوں نے انس بن مالک (رض) سے پوچھا۔ جب کہ وہ دونوں صبح کو منیٰ سے عرفات جا رہے تھے۔ کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ آپ لوگ آج کے دن کس طرح کرتے تھے ؟ انس (رض) نے بتلایا : کوئی ہم میں سے لبیک پکارتا ہوتا، اس پر کوئی اعتراض نہ کرتا اور کوئی تکبیر کہتا، اس پر کوئی انکار نہ کرتا (اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حاجی کو اختیار ہے لبیک پکارتا رہے یا تکبیر کہتا رہے) ۔

【147】

باب: عرفہ کے دن گرمی میں دوپہر کو روانہ ہونا۔

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے اور ان سے سالم نے بیان کیا کہ عبدالملک بن مروان نے حجاج بن یوسف کو لکھا کہ حج کے احکام میں عبداللہ بن عمر (رض) کے خلاف نہ کرے۔ سالم نے کہا کہ عبداللہ بن عمر (رض) عرفہ کے دن سورج ڈھلتے ہی تشریف لائے میں بھی ان کے ساتھ تھا۔ آپ نے حجاج کے خیمہ کے پاس بلند آواز سے پکارا۔ حجاج باہر نکلا اس کے بدن میں ایک کسم میں رنگی ہوئی چادر تھی۔ اس نے پوچھا ابوعبدالرحمٰن ! کیا بات ہے ؟ آپ نے فرمایا اگر سنت کے مطابق عمل چاہتے ہو تو جلدی اٹھ کر چل کھڑے ہوجاؤ۔ اس نے کہا کیا اسی وقت ؟ عبداللہ نے فرمایا کہ ہاں اسی وقت۔ حجاج نے کہا کہ پھر تھوڑی سی مہلت دیجئیے کہ میں اپنے سر پر پانی ڈال لوں یعنی غسل کرلوں پھر نکلتا ہوں۔ اس کے بعد عبداللہ بن عمر (رض) (سواری سے) اتر گئے اور جب حجاج باہر آیا تو میرے اور والد (ابن عمر) کے درمیان چلنے لگا تو میں نے کہا کہ اگر سنت پر عمل کا ارادہ ہے تو خطبہ میں اختصار اور وقوف (عرفات) میں جلدی کرنا۔ اس بات پر وہ عبداللہ بن عمر (رض) کی طرف دیکھنے لگا عبداللہ بن عمر (رض) نے کہا کہ یہ سچ کہتا ہے۔

【148】

باب: عرفات میں جانور پر سوار ہو کر وقوف کرنا۔

ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، ان سے امام مالک (رح) نے، ان سے ابوالنضر نے، ان سے عبداللہ بن عباس (رض) کے غلام عمیر نے، ان سے ام فضل بنت حارث (رض) نے کہا کہ ان کے یہاں لوگوں کا عرفات کے دن رسول اللہ ﷺ کے روزے سے متعلق کچھ اختلاف ہوگیا، بعض نے کہا کہ آپ ﷺ (عرفہ کے دن) روزے سے ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ نہیں، اس لیے انہوں نے آپ کے پاس دودھ کا ایک پیالہ بھیجا، نبی کریم ﷺ اس وقت اونٹ پر سوا ہو کر عرفات میں وقوف فرما رہے تھے، آپ نے وہ دودھ پی لیا۔

【149】

باب: میدان عرفات میں خطبہ مختصر دینا۔

باب : وقوف کے لیے جلدی کرنا

【150】

باب: میدان عرفات میں ٹھہرنے کا بیان۔

ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عمرو بن دینار نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن جبیر بن مطعم نے، ان سے ان کے باپ نے کہ میں اپنا ایک اونٹ تلاش کر رہا تھا (دوسری سند) اور ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمر بن دینار نے، انہوں نے محمد بن جبیر سے سنا کہ ان کے والد جبیر بن مطعم نے بیان کیا کہ میرا ایک اونٹ کھو گیا تھا تو میں عرفات میں اس کو تلاش کرنے گیا، یہ دن عرفات کا تھا، میں نے دیکھا کہ نبی کریم ﷺ عرفات کے میدان میں کھڑے ہیں۔ میری زبان سے نکلا قسم اللہ کی ! یہ تو قریش ہیں پھر یہ یہاں کیوں ہیں۔

【151】

باب: میدان عرفات میں ٹھہرنے کا بیان۔

ہم سے فروہ بن ابی المغراء نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے علی بن مسہر نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے عروہ بن زبیر (رض) نے کہا کہ حمس کے سوا بقیہ سب لوگ جاہلیت میں ننگے ہو کر طواف کرتے تھے، حمس قریش اور اس کی آل اولاد کو کہتے تھے، (اور بنی کنانہ وغیرہ، جیسے خزاعہ) لوگوں کو (اللہ کے واسطے) کپڑے دیا کرتے تھے۔ (قریش) کے مرد دوسرے مردوں کو تاکہ انہیں پہن کر طواف کرسکیں اور (قریش کی) عورتیں دوسری عورتوں کو تاکہ وہ انہیں پہن کر طواف کرسکیں، اور جن کو قریش کپڑا نہیں دیتے وہ بیت اللہ کا طواف ننگے ہو کر کرتے۔ دوسرے سب لوگ تو عرفات سے واپس ہوتے لیکن قریش مزدلفہ ہی سے (جو حرم میں تھا) واپس ہوجاتے۔ ہشام بن عروہ نے کہا کہ میرے باپ عروہ بن زبیر نے مجھے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے خبر دی کہ یہ آیت قریش کے بارے میں نازل ہوئی کہ پھر تم بھی (قریش) وہیں سے واپس آؤ جہاں سے اور لوگ واپس آتے ہیں (یعنی عرفات سے، سورة البقرہ) انہوں نے بیان کیا کہ قریش مزدلفہ ہی سے لوٹ آتے تھے اس لیے انہیں بھی عرفات سے لوٹنے کا حکم ہوا۔

【152】

باب: عرفات سے لوٹتے وقت کس چال سے چلے۔

ہم سے عبداللہ بن یوسف تینسی نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے ہشام بن عروہ سے خبر دی، ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ اسامہ بن زید (رض) سے کسی نے پوچھا (میں بھی وہیں موجود تھا) کہ حجۃ الوداع کے موقع پر عرفات سے رسول اللہ ﷺ کے واپس ہونے کی چال کیا تھی ؟ انہوں نے جواب دیا کہ آپ ﷺ پاؤں اٹھا کر چلتے تھے ذرا تیز، لیکن جب جگہ پاتے (ہجوم نہ ہوتا) تو تیز چلتے تھے، ہشام نے کہا کہ عنق‏ تیز چلنا اور نص عنق‏ سے زیادہ تیز چلنے کو کہتے ہیں۔ فجوة کے معنی کشادہ جگہ، اس کی جمع فجوات اور فجاء ہے جیسے زکوٰۃ مفرد زكاء‏ اس کی جمع اور سورة ص میں مناص کا جو لفظ آیا ہے اس کے معنی بھاگنا ہے۔

【153】

باب: عرفات اور مزدلفہ کے درمیان اترنا۔

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن سعید نے، ان سے موسیٰ بن عقبہ نے ان سے عبداللہ بن عباس (رض) کے غلام کریب نے اور ان سے اسامہ بن زید (رض) نے کہ جب رسول اللہ ﷺ عرفات سے واپس ہوئے تھے تو آپ ﷺ (راہ میں) ایک گھاٹی کی طرف مڑے اور وہاں قضائے حاجت کی پھر آپ ﷺ نے وضو کیا تو میں نے پوچھا یا رسول اللہ ! کیا (آپ ﷺ مغرب کی) نماز پڑھیں گے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا نماز آگے چل کر پڑھی جائے گی۔ (یعنی عرفات سے مزدلفہ آتے ہوئے قضائے حاجت وغیرہ کے لیے راستہ میں رکنے میں کوئی حرج نہیں ہے) ۔

【154】

باب: عرفات اور مزدلفہ کے درمیان اترنا۔

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے جویریہ نے نافع سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ عبداللہ بن عمر (رض) مزدلفہ میں آ کر نماز مغرب اور عشاء ملا کر ایک ساتھ پڑھتے، البتہ آپ اس گھاٹی میں بھی مڑتے جہاں رسول اللہ ﷺ مڑے تھے۔ وہاں آپ قضائے حاجت کرتے پھر وضو کرتے لیکن نماز نہ پڑھتے، نماز آپ مزدلفہ میں آ کر پڑھتے تھے۔

【155】

باب: عرفات اور مزدلفہ کے درمیان اترنا۔

ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا، ان سے محمد بن حرملہ نے، ان سے ابن عباس (رض) کے غلام کریب نے اور ان سے اسامہ بن زید (رض) نے کہ میں عرفات سے رسول اللہ ﷺ کی سواری پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا۔ مزدلفہ کے قریب بائیں طرف جو گھاٹی پڑتی ہے جب نبی کریم ﷺ وہاں پہنچے تو آپ ﷺ نے اونٹ کو بٹھایا پھر پیشاب کیا اور تشریف لائے تو میں نے آپ ﷺ پر وضو کا پانی ڈالا۔ آپ ﷺ نے ہلکا سا وضو کیا۔ میں نے کہا یا رسول اللہ ! اور نماز ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ نماز تمہارے آگے ہے۔ (یعنی مزدلفہ میں پڑھی جائے گی) پھر آپ ﷺ سوار ہوگئے جب مزدلفہ میں آئے تو (مغرب اور عشاء کی) نماز (ملا کر) پڑھی۔ پھر مزدلفہ کی صبح (یعنی دسویں تاریخ) کو رسول اللہ ﷺ کی سواری کے پیچھے فضل بن عباس (رض) سوار ہوئے۔ کریب نے کہا کہ مجھے عبداللہ بن عباس (رض) نے فضل (رض) کے ذریعہ سے خبر دی کہ نبی کریم ﷺ برابر لبیک کہتے رہے تاآنکہ جمرہ عقبہ پر پہنچ گئے (اور وہاں آپ ﷺ نے کنکریاں ماریں) ۔

【156】

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم برابر لبیک کہتے رہے تاآنکہ جمرہ عقبہ پر پہنچ گئے ( اور وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنکریاں ماریں ) ۔

【157】

باب: عرفات سے لوٹتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لوگوں کو سکون و اطمینان کی ہدایت کرنا اور کوڑے سے اشارہ کرنا۔

ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابراہیم بن سوید نے بیان کیا، کہا مجھ سے مطلب کے غلام عمرو بن ابی عمرو نے بیان کیا، انہیں والیہ کوفی کے غلام سعید بن جبیر نے خبر دی، ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنما نے بیان کیا کہ عرفہ کے دن (میدان عرفات سے) وہ نبی کریم ﷺ کے ساتھ آ رہے تھے نبی کریم ﷺ نے پیچھے سخت شور (اونٹ ہانکنے کا) اور اونٹوں کی مار دھاڑ کی آواز سنی تو آپ نے ان کی طرف اپنے کوڑے سے اشارہ کیا اور فرمایا کہ لوگو ! آہستگی و وقار اپنے اوپر لازم کرلو، (اونٹوں کو) تیز دوڑانا کوئی نیکی نہیں ہے۔ امام بخاری (رح) فرماتے ہیں کہ (سورۃ البقرہ میں) أوضعوا کے معنی ریشہ دوانیاں کریں، خلالکم کا معنی تمہارے بیچ میں، اسی سے (سورۃ الکہف) میں آیا ہے وفجرنا خلالهما‏ یعنی ان کے بیچ میں۔

【158】

باب: مزدلفہ میں دو نمازیں ایک ساتھ ملا کر پڑھنا۔

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے امام مالک نے کہا، انہیں موسیٰ بن عقبہ نے خبر دی، انہیں کریب نے، انہوں نے اسامہ بن زید (رض) کو یہ کہتے سنا کہ میدان عرفات سے رسول اللہ ﷺ روانہ ہو کر گھاٹی میں اترے (جو مزدلفہ کے قریب ہے) وہاں پیشاب کیا، پھر وضو کیا اور پورا وضو نہیں کیا (خوب پانی نہیں بہایا ہلکا وضو کیا) میں نے نماز کے متعلق عرض کی تو فرمایا کہ نماز آگے ہے۔ اب آپ ﷺ مزدلفہ تشریف لائے وہاں پھر وضو کیا اور پوری طرح کیا پھر نماز کی تکبیر کہی گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب کی نماز پڑھی پھر ہر شخص نے اپنے اونٹ ڈیروں پر بٹھا دیئے پھر دوبارہ نماز عشاء کے لیے تکبیر کہی گئی اور آپ ﷺ نے نماز پڑھی، آپ ﷺ نے ان دونوں نمازوں کے درمیان کوئی (سنت یا نفل) نماز نہیں پڑھی تھی۔

【159】

باب: مغرب اور عشاء مزدلفہ میں ملا کر پڑھنا اور سنت وغیرہ نہ پڑھنا۔

ہم سے آدم بن ابی العلاء نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن ابی ذئب نے بیان کیا، ان سے زہری نے ان سے سالم بن عبداللہ بن عمر (رض) نے اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ مزدلفہ میں نبی کریم ﷺ نے مغرب اور عشاء ایک ساتھ ملا کر پڑھیں تھیں ہر نماز الگ الگ تکبیر کے ساتھ نہ ان دونوں کے درمیان کوئی نفل و سنت پڑھی تھی اور نہ ان کے بعد۔

【160】

باب: مغرب اور عشاء مزدلفہ میں ملا کر پڑھنا اور سنت وغیرہ نہ پڑھنا۔

ہم سے خالد بن مخلد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے یحییٰ بن ابی سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے عدی بن ثابت نے خبر دی، کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن یزید خطمی نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوایوب انصاری (رض) نے کہا کہ حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ ﷺ نے مزدلفہ میں آ کر مغرب اور عشاء کو ایک ساتھ ملا کر پڑھا تھا۔

【161】

باب: جس نے کہا کہ ہر نماز کے لیے اذان اور تکبیر کہنی چاہئے اس کی دلیل۔

ہم سے عمرو بن خالد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زہیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابواسحٰق عمرو بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے عبدالرحمٰن بن یزید سے سنا کہ عبداللہ بن مسعود (رض) نے حج کیا، آپ کے ساتھ تقریباً عشاء کی اذان کے وقت ہم مزدلفہ میں بھی آئے، آپ نے ایک شخص کو حکم دیا اس نے اذان اور تکبیر کہی اور آپ نے مغرب کی نماز پڑھی، پھر دو رکعت (سنت) اور پڑھی اور شام کا کھانا منگوا کر کھایا۔ میرا خیال ہے (راوی حدیث زہیر کا) کہ پھر آپ نے حکم دیا اور اس شخص نے اذان دی اور تکبیر کہی عمرو (راوی حدیث) نے کہا میں یہی سمجھتا ہوں کہ شک زہیر (عمرو کے شیخ) کو تھا، اس کے بعد عشاء کی نماز دو رکعت پڑھی۔ جب صبح صادق ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ اس نماز (فجر) کو اس مقام اور اس دن کے سوا اور کبھی اس وقت (طلوع فجر ہوتے ہی) نہیں پڑھتے تھے، عبداللہ بن مسعود (رض) نے یہ بھی فرمایا کہ یہ صرف دو نمازیں (آج کے دن) اپنے معمولی وقت سے ہٹا دی جاتی ہیں۔ جب لوگ مزدلفہ آتے ہیں تو مغرب کی نماز (عشاء کے ساتھ ملا کر) پڑھی جاتی ہے اور فجر کی نماز طلوع فجر کے ساتھ ہی۔ انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اسی طرح کرتے دیکھا تھا۔

【162】

باب: عورتوں اور بچوں کو مزدلفہ کی رات میں آگے منی روانہ کر دینا، وہ مزدلفہ میں ٹھہریں اور دعا کریں اور چاند ڈوبتے ہی چل دیں۔

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث بن یونس نے بیان کیا، اور ان سے ابن شہاب نے بیان کیا کہ سالم نے کہا کہ عبداللہ بن عمر (رض) اپنے گھر کے کمزوروں کو پہلے ہی بھیج دیا کرتے تھے اور وہ رات ہی میں مزدلفہ میں مشعر حرام کے پاس آ کر ٹھہرتے اور اپنی طاقت کے مطابق اللہ کا ذکر کرتے تھے، پھر امام کے ٹھہرنے اور لوٹنے سے پہلے ہی (منیٰ ) آجاتے تھے، بعض تو منیٰ فجر کی نماز کے وقت پہنچتے اور بعض اس کے بعد، جب منیٰ پہنچتے تو کنکریاں مارتے اور عبداللہ بن عمر (رض) فرمایا کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سب لوگوں کے لیے یہ اجازت دی ہے۔

【163】

باب: عورتوں اور بچوں کو مزدلفہ کی رات میں آگے منی روانہ کر دینا، وہ مزدلفہ میں ٹھہریں اور دعا کریں اور چاند ڈوبتے ہی چل دیں۔

ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے، ان سے عکرمہ نے اور ان سے عبداللہ بن عباس (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے مجھے مزدلفہ سے رات ہی میں منیٰ روانہ کردیا تھا۔

【164】

باب: عورتوں اور بچوں کو مزدلفہ کی رات میں آگے منی روانہ کر دینا، وہ مزدلفہ میں ٹھہریں اور دعا کریں اور چاند ڈوبتے ہی چل دیں۔

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عبیداللہ بن ابی یزید نے خبر دی، انہوں نے ابن عباس (رض) کو یہ کہتے سنا کہ میں ان لوگوں میں تھا جنہیں نبی کریم ﷺ نے اپنے گھر کے کمزور لوگوں کے ساتھ مزدلفہ کی رات ہی میں منیٰ بھیج دیا تھا۔

【165】

باب: عورتوں اور بچوں کو مزدلفہ کی رات میں آگے منی روانہ کر دینا، وہ مزدلفہ میں ٹھہریں اور دعا کریں اور چاند ڈوبتے ہی چل دیں۔

ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن سعید بن قطان نے، ان سے ابن جریج نے بیان کیا کہ ان سے اسماء کے غلام عبداللہ نے بیان کیا کہ ان سے اسماء بنت ابوبکر (رض) نے کہ وہ رات ہی میں مزدلفہ پہنچ گئیں اور کھڑی ہو کر نماز پڑھنے لگیں، کچھ دیر تک نماز پڑھنے کے بعد پوچھا بیٹے ! کیا چاند ڈوب گیا ؟ میں نے کہا کہ نہیں، اس لیے وہ دوبارہ نماز پڑھنے لگیں کچھ دیر بعد پھر پوچھا کیا چاند ڈوب گیا ؟ میں نے کہا ہاں، انہوں نے کہا کہ اب آگے چلو (منی کو) چناچہ ہم ان کے ساتھ آگے چلے، وہ (منی میں) رمی جمرہ کرنے کے بعد پھر واپس آگئیں اور صبح کی نماز اپنے ڈیرے پر پڑھی میں نے کہا جناب ! یہ کیا بات ہوئی کہ ہم نے اندھیرے ہی میں نماز پڑھ لی۔ انہوں نے کہا بیٹے ! رسول اللہ ﷺ نے عورتوں کو اس کی اجازت دی ہے۔

【166】

باب: عورتوں اور بچوں کو مزدلفہ کی رات میں آگے منی روانہ کر دینا، وہ مزدلفہ میں ٹھہریں اور دعا کریں اور چاند ڈوبتے ہی چل دیں۔

ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی، کہا کہ ہم سے عبدالرحمٰن بن قاسم نے بیان کیا، ان سے قاسم نے اور ان سے عائشہ (رض) نے کہ ام المؤمنین سودہ (رض) نے نبی کریم ﷺ سے مزدلفہ کی رات عام لوگوں سے پہلے روانہ ہونے کی اجازت چاہی آپ (رض) بھاری بھر کم بدن کی عورت تھیں تو نبی کریم ﷺ نے انہیں اس کی اجازت دے دی۔

【167】

باب: عورتوں اور بچوں کو مزدلفہ کی رات میں آگے منی روانہ کر دینا، وہ مزدلفہ میں ٹھہریں اور دعا کریں اور چاند ڈوبتے ہی چل دیں۔

ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے افلح بن حمید نے، ان سے قاسم بن محمد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے کہ جب ہم نے مزدلفہ میں قیام کیا تو نبی کریم ﷺ نے سودہ (رض) کو لوگوں کے اژدہام سے پہلے روانہ ہونے کی اجازت دے دی تھیں، وہ بھاری بھر کم بدن کی خاتون تھیں، اس لیے آپ نے اجازت دے دی چناچہ وہ اژدہام سے پہلے روانہ ہوگئیں۔ لیکن ہم وہیں ٹھہرے رہے اور صبح کو آپ ﷺ کے ساتھ گئے اگر میں بھی سودہ (رض) کی طرح آپ ﷺ سے اجازت لیتی تو مجھ کو تمام خوشی کی چیزوں میں یہ بہت ہی پسند ہوتا۔

【168】

باب: فجر کی نماز مزدلفہ ہی میں پڑھنا۔

ہم سے عمرو بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عمارہ نے عبدالرحمٰن بن یزید سے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہ دو نمازوں کے سوا میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اور کوئی نماز بغیر وقت نہیں پڑھتے دیکھا، آپ ﷺ نے مغرب اور عشاء ایک ساتھ پڑھیں اور فجر کی نماز بھی اس دن (مزدلفہ میں) معمول کے وقت سے پہلے ادا کی۔

【169】

باب: فجر کی نماز مزدلفہ ہی میں پڑھنا۔

ہم سے عبداللہ بن رجاء نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسرائیل نے بیان کیا، ان سے ابواسحٰق نے، ان سے عبدالرحمٰن بن یزید نے کہ ہم عبداللہ بن مسعود (رض) کے ساتھ مکہ کی طرف نکلے (حج شروع کیا) پھر جب ہم مزدلفہ آئے تو آپ نے دو نمازیں (اس طرح ایک ساتھ) پڑھیں کہ ہر نماز ایک الگ اذان اور ایک الگ اقامت کے ساتھ تھی اور رات کا کھانا دونوں کے درمیان میں کھایا، پھر طلوع صبح کے ساتھ ہی آپ نے نماز فجر پڑھی، کوئی کہتا تھا کہ ابھی صبح صادق نہیں ہوئی اور کچھ لوگ کہہ رہے تھے کہ ہوگئی۔ اس کے بعد عبداللہ بن مسعود (رض) نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا یہ دونوں نمازیں اس مقام سے ہٹا دی گئیں ہیں، یعنی مغرب اور عشاء، مزدلفہ میں اس وقت داخل ہوں کہ اندھیرا ہوجائے اور فجر کی نماز اس وقت۔ پھر عبداللہ اجالے تک وہیں مزدلفہ میں ٹھہرے رہے اور کہا کہ اگر امیرالمؤمنین عثمان (رض) اس وقت چلیں تو یہ سنت کے مطابق ہوگا۔ (حدیث کے راوی عبدالرحمٰن بن یزید نے کہا) میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ الفاظ ان کی زبان سے پہلے نکلے یا عثمان (رض) کی روانگی پہلے شروع ہوئی، آپ دسویں تاریخ تک جمرہ عقبہ کی رمی تک برابر لبیک پکارتے رہے۔

【170】

باب: مزدلفہ سے کب چلا جائے؟

ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابواسحٰق نے، انہوں نے عمرو بن میمون کو یہ کہتے سنا کہ جب عمر بن خطاب (رض) نے مزدلفہ میں فجر کی نماز پڑھی تو میں بھی موجود تھا، نماز کے بعد آپ ٹھہرے اور فرمایا کہ مشرکین (جاہلیت میں یہاں سے) سورج نکلنے سے پہلے نہیں جاتے تھے کہتے تھے اے ثبیر ! تو چمک جا۔ نبی کریم ﷺ نے مشرکوں کی مخالفت کی اور سورج نکلنے سے پہلے وہاں سے روانہ ہوگئے۔

【171】

باب: دسویں تاریخ کو صبح تک تکبیر اور لبیک کہتے رہنا جمرہ عقبہ کی رمی تک اور چلتے ہوئے (سواری پر کسی کو) اپنے پیچھے بٹھا لینا۔

ہم سے ابوعاصم ضحاک بن مخلد نے بیان کیا، انہیں ابن جریج نے خبر دی، انہیں عطاء نے، انہیں ابن عباس (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے (مزدلفہ سے لوٹتے وقت) فضل (بن عباس رضی اللہ عنہما) کو اپنے پیچھے سوار کرایا تھا۔ فضل (رض) نے خبر دی کہ نبی کریم ﷺ رمی جمرہ تک برابر لبیک پکارتے رہے۔

【172】

باب: دسویں تاریخ کو صبح تک تکبیر اور لبیک کہتے رہنا جمرہ عقبہ کی رمی تک اور چلتے ہوئے (سواری پر کسی کو) اپنے پیچھے بٹھا لینا۔

ہم سے زہیر بن حرب نے بیان کیا، ان سے وہب بن جریر نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ نے بیان کیا، ان سے یونس ایلی نے، ان سے زہری نے، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ نے اور ان سے عبداللہ بن عباس (رض) نے کہ اسامہ بن زید (رض) عرفات سے مزدلفہ تک نبی کریم ﷺ کی سواری پر آپ کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے، پھر آپ ﷺ نے مزدلفہ سے منی جاتے وقت فضل بن عباس (رض) کو اپنے پیچھے بٹھا لیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ان دونوں حضرات نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ جمرہ عقبہ کی رمی تک مسلسل لبیک کہتے رہے۔

【173】

اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما عرفات سے مزدلفہ تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری پر آپ کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزدلفہ سے منی جاتے وقت فضل بن عباس رضی اللہ عنہما کو اپنے پیچھے بٹھا لیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ان دونوں حضرات نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمرہ عقبہ کی رمی تک مسلسل لبیک کہتے رہے۔

【174】

باب: (سورۃ البقرہ کی اس آیت کی تفسیر میں) پس جو شخص تمتع کرے حج کے ساتھ عمرہ کا یعنی حج تمتع کر کے فائدہ اٹھائے تو اس پر ہے جو کچھ میسر ہو قربانی سے اور اگر کسی کو قربانی میسر نہ ہو تو تین دن کے روزے ایام حج میں اور سات دن کے روزے گھر واپس ہونے پر رکھے، یہ پورے دس دن (کے روزے) ہوئے، یہ آسانی ان لوگوں کے لیے ہے جن کے گھر والے مسجد کے پاس نہ رہتے ہوں۔

ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، انہیں نضر بن شمیل نے خبر دی، انہیں شعبہ نے خبر دی، ان سے ابوجمرہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابن عباس (رض) سے تمتع کے بارے میں پوچھا تو آپ نے مجھے اس کے کرنے کا حکم دیا، پھر میں نے قربانی کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ تمتع میں ایک اونٹ، یا ایک گائے یا ایک بکری (کی قربانی واجب ہے) یا کسی قربانی (اونٹ، یا گائے بھینس کی) میں شریک ہوجائے، ابوجمرہ نے کہا کہ بعض لوگ تمتع کو ناپسندیدہ قرار دیتے تھے۔ پھر میں سویا تو میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص پکار رہا ہے یہ حج مبرور ہے اور یہ مقبول تمتع ہے۔ اب میں ابن عباس (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے خواب کا ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا : اللہ اکبر ! یہ تو ابوالقاسم ﷺ کی سنت ہے۔ کہا کہ وہب بن جریر اور غندر نے شعبہ کے حوالہ سے یوں نقل کیا ہے عمرة متقبلة،‏‏‏‏ وحج مبرور‏ (اس میں عمرہ کا ذکر پہلے ہے یعنی یہ عمرہ مقبول اور حج مبرور ہے) ۔

【175】

باب: قربانی کے جانور پر سوار ہونا (جائز ہے)۔

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے امام مالک نے خبر دی، انہیں ابوالزناد نے، انہیں اعرج اور انہیں ابوہریرہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو قربانی کا جانور لے جاتے دیکھا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس پر سوار ہوجا۔ اس شخص نے کہا کہ یہ تو قربانی کا جانور ہے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس پر سوار ہوجانا۔ اس نے کہا کہ یہ تو قربانی کا جانور ہے تو آپ ﷺ نے پھر فرمایا افسوس ! سوار بھی ہوجاؤ ( ويلك آپ ﷺ نے) دوسری یا تیسری مرتبہ فرمایا۔

【176】

باب: قربانی کے جانور پر سوار ہونا (جائز ہے)۔

ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہشام اور شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے قتادہ نے بیان کیا اور ان سے انس (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا کہ قربانی کا جانور لیے جا رہا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس پر سوار ہوجا اس نے کہا کہ یہ تو قربانی کا جانور ہے آپ ﷺ نے فرمایا کہ سوار ہوجا اس نے پھر عرض کیا کہ یہ تو قربانی کا جانور ہے، لیکن آپ ﷺ نے تیسری مرتبہ پھر فرمایا کہ سوار ہوجا۔

【177】

باب: اس شخص کے بارے میں جو اپنے ساتھ قربانی کا جانور لے جائے۔

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے سالم بن عبداللہ نے کہ عبداللہ بن عمر (رض) نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع میں تمتع کیا یعنی عمرہ کر کے پھر حج کیا اور آپ ﷺ ذی الحلیفہ سے اپنے ساتھ قربانی لے گئے۔ نبی کریم ﷺ نے پہلے عمرہ کے لیے احرام باندھا، پھر حج کے لیے لبیک پکارا۔ لوگوں نے بھی نبی کریم ﷺ کے ساتھ تمتع کیا یعنی عمرہ کر کے حج کیا، لیکن بہت سے لوگ اپنے ساتھ قربانی کا جانور لے گئے تھے اور بہت سے نہیں لے گئے تھے۔ جب نبی کریم ﷺ مکہ تشریف لائے تو لوگوں سے کہا کہ جو شخص قربانی ساتھ لایا ہو اس کے لیے حج پورا ہونے تک کوئی بھی ایسی چیز حلال نہیں ہوسکتی جسے اس نے اپنے اوپر (احرام کی وجہ سے) حرام کرلیا ہے لیکن جن کے ساتھ قربانی نہیں ہے تو وہ بیت اللہ کا طواف کرلیں اور صفا اور مروہ کی سعی کر کے بال ترشوا لیں اور حلال ہوجائیں، پھر حج کے لیے (از سر نو آٹھویں ذی الحجہ کو احرام باندھیں) ایسا شخص اگر قربانی نہ پائے تو تین دن کے روزے حج ہی کے دنوں میں اور سات دن کے روزے گھر واپس آ کر رکھے۔ جب نبی کریم ﷺ مکہ پہنچے تو سب سے پہلے آپ ﷺ نے طواف کیا پھر حجر اسود کو بوسہ دیا، تین چکروں میں آپ ﷺ نے رمل کیا اور باقی چار میں معمولی رفتار سے چلے، پھر بیت اللہ کا طواف پورا کر کے مقام ابراہیم کے پاس دو رکعت نماز پڑھی سلام پھیر کر آپ ﷺ صفا پہاڑی کی طرف آئے اور صفا اور مروہ کی سعی بھی سات چکروں میں پوری کی۔ جن چیزوں کو (احرام کی وجہ سے اپنے پر) حرام کرلیا تھا ان سے اس وقت تک آپ ﷺ حلال نہیں ہوئے جب تک حج بھی پورا نہ کرلیا اور یوم النحر (دسویں ذی الحجہ) میں قربانی کا جانور بھی ذبح نہ کرلیا۔ پھر آپ ﷺ (مکہ واپس) آئے اور بیت اللہ کا جب طواف افاضہ کرلیا تو ہر وہ چیز آپ کے لیے حلال ہوگئی جو احرام کی وجہ سے حرام تھی جو لوگ اپنے ساتھ ہدی لے کر گئے تھے انہوں نے بھی اسی طرح کیا جیسے رسول اللہ ﷺ نے کیا تھا۔ عروہ سے روایت ہے کہ عائشہ (رض) نے انہیں نبی کریم ﷺ کے حج اور عمرہ ایک ساتھ کرنے کی خبر دی کہ اور لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ حج اور عمرہ ایک ساتھ کیا تھا، بالکل اسی طرح جیسے مجھے سالم نے ابن عمر (رض) سے اور انہوں نے نبی کریم ﷺ سے خبر دی تھی۔

【178】

اور لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ حج اور عمرہ ایک ساتھ کیا تھا، بالکل اسی طرح جیسے مجھے سالم نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خبر دی تھی۔

【179】

باب: اس شخص کے بارے میں جس نے قربانی کا جانور راستے میں خریدا۔

ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد نے بیان کیا، ان سے ایوب نے، ان سے نافع نے بیان کیا کہ عبیداللہ بن عبداللہ بن عمر (رض) نے اپنے والد سے کہا (جب وہ حج کے لیے نکل رہے تھے) کہ آپ نہ جائیے کیوں کہ میرا خیال ہے کہ (بدامنی کی وجہ سے) آپ کو بیت اللہ تک پہنچنے سے روک دیا جائے گا۔ انہوں نے فرمایا کہ پھر میں بھی وہی کام کروں گا جو (ایسے موقعہ پر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ کی زندگی بہترین نمونہ ہے میں اب تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنے اوپر عمرہ واجب کرلیا ہے، چناچہ آپ نے عمرہ کا احرام باندھا، انہوں نے بیان کیا کہ پھر آپ نکلے اور جب بیداء پہنچے تو حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھ لیا اور فرمایا کہ حج اور عمرہ دونوں تو ایک ہی ہیں اس کے بعد قدید پہنچ کر ہدی خریدی پھر مکہ آ کر دونوں کے لیے طواف کیا اور درمیان میں نہیں بلکہ دونوں سے ایک ہی ساتھ حلال ہوئے۔

【180】

باب: جس نے ذو الحلیفہ میں اشعار کیا اور قلادہ پہنایا پھر احرام باندھا!۔

ہم سے احمد بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں عروہ بن زبیر نے، اور ان سے مسور بن مخرمہ (رض) اور مروان نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ مدینہ سے تقریباً اپنے ایک ہزار ساتھیوں کے ساتھ (حج کے لیے نکلے) جب ذی الحلیفہ پہنچے تو نبی کریم ﷺ نے ہدی کو ہار پہنایا اور اشعار کیا پھر عمرہ کا احرام باندھا۔

【181】

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے تقریباً اپنے ایک ہزار ساتھیوں کے ساتھ ( حج کے لیے نکلے ) جب ذی الحلیفہ پہنچے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدی کو ہار پہنایا اور اشعار کیا پھر عمرہ کا احرام باندھا۔

【182】

باب: جس نے ذو الحلیفہ میں اشعار کیا اور قلادہ پہنایا پھر احرام باندھا!۔

ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے افلح نے بیان کیا، ان سے قاسم نے اور ان سے عائشہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ کے قربانی کے جانوروں کے ہار میں نے اپنے ہاتھ سے خود بٹے تھے، پھر آپ ﷺ نے انہیں ہار پہنایا، اشعار کیا، ان کو مکہ کی طرف روانہ کیا پھر بھی آپ کے لیے جو چیزیں حلال تھیں وہ (احرام سے پہلے صرف ہدی سے) حرام نہیں ہوئیں۔

【183】

باب: گائے اونٹ وغیرہ قربانی کے جانوروں کے قلاوے بٹنے کا بیان۔

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ نے کہ مجھے نافع نے خبر دی انہیں ابن عمر (رض) نے کہ حفصہ (رض) نے بیان کیا، کہا میں نے کہا : یا رسول اللہ ! اور لوگ تو حلال ہوگئے لیکن آپ حلال نہیں ہوئے، اس کی کیا وجہ ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے اپنے سر کے بالوں کو جما لیا ہے اور اپنی ہدی کو قلادہ پہنا دیا ہے، اس لیے جب تک حج سے بھی حلال نہ ہوجاؤں میں (درمیان میں) حلال نہیں ہوسکتا، (گوند لگا کر سر کے بالوں کا جما لینا اس کو تلبید کہتے ہیں) ۔

【184】

باب: گائے اونٹ وغیرہ قربانی کے جانوروں کے قلاوے بٹنے کا بیان۔

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے عروہ اور عمرہ بنت عبدالرحمٰن نے کہ عائشہ (رض) نے بیان کیا : رسول اللہ ﷺ مدینہ سے ہدی ساتھ لے کر چلتے تھے اور میں ان کے قلادے بٹا کرتی تھی پھر بھی آپ (احرام باندھنے سے پہلے) ان چیزوں سے پرہیز نہیں کرتے تھے جن سے ایک محرم پرہیز کرتا ہے۔

【185】

باب: قربانی کے جانور کا اشعار کرنا۔

ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے افلح بن حمید نے بیان کیا، ان سے قاسم نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کی ہدی کے قلادے خود بٹے تھے، پھر آپ ﷺ نے انہیں اشعار کیا اور ہار پہنایا، یا میں نے ہار پہنایا، پھر آپ ﷺ نے بیت اللہ کے لیے انہیں بھیج دیا اور خود مدینہ میں ٹھہر گئے لیکن کوئی بھی ایسی چیز آپ ﷺ کے لیے حرام نہیں ہوئی جو آپ ﷺ کے لیے حلال تھی۔

【186】

باب: اس کے بارے میں جس نے اپنے ہاتھ سے (قربانی کے جانوروں کو) قلائد پہنائے۔

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں عبداللہ بن ابی بکر بن عمرو بن حزم نے خبر دی، انہیں عمرہ بنت عبدالرحمٰن نے خبر دی کہ زیاد بن ابی سفیان نے عائشہ (رض) کو لکھا کہ عبداللہ بن عباس (رض) نے فرمایا ہے کہ جس نے ہدی بھیج دی اس پر وہ تمام چیزیں حرام ہوجاتی ہیں جو ایک حاجی پر حرام ہوتی ہیں تاآنکہ اس کی ہدی کی قربانی کردی جائے، عمرہ نے کہا کہ اس پر عائشہ (رض) نے فرمایا عبداللہ بن عباس (رض) نے جو کچھ کہا مسئلہ اس طرح نہیں ہے، میں نے نبی کریم ﷺ کے قربانی کے جانوروں کے قلادے اپنے ہاتھوں سے خود بٹے ہیں، پھر نبی کریم ﷺ نے اپنے ہاتھوں سے ان جانوروں کو قلادہ پہنایا اور میرے والد محترم (ابوبکر رضی اللہ عنہ) کے ساتھ انہیں بھیج دیا لیکن اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بھی ایسی چیز کو اپنے اوپر حرام نہیں کیا جو اللہ نے آپ ﷺ کے لیے حلال کی تھی، اور ہدی کی قربانی بھی کردی گئی۔

【187】

باب: بکریوں کو ہار پہنانے کا بیان۔

ہم سے نعیم نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، ان سے ابراہیم نے، ان سے اسود نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے قربانی کے لیے (بیت اللہ) بکریاں بھیجی تھیں۔

【188】

باب: بکریوں کو ہار پہنانے کا بیان۔

ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، ان سے عبدالواحد نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، ان سے ابراہیم نے، ان سے اسود نے اور ان سے عائشہ (رض) نے کہ میں نبی کریم ﷺ کے قربانی کے جانوروں کے قلادہ خود بٹا کرتی تھی، نبی کریم ﷺ نے بکری کو بھی قلادہ پہنایا تھا اور آپ ﷺ خود اپنے گھر اس حال میں مقیم تھے کہ آپ ﷺ حلال تھے۔

【189】

باب: بکریوں کو ہار پہنانے کا بیان۔

ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، ان سے حماد نے بیان کیا، ان سے منصور بن معتمر نے (دوسری سند) اور ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، انہیں سفیان نے خبر دی، انہیں منصور نے، انہیں ابراہیم نے، انہیں اسود نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ میں نبی کریم ﷺ کی بکریوں کے قلادے خود بٹا کرتی تھی، نبی کریم ﷺ انہیں (بیت اللہ کے لیے) بھیج دیتے اور خود حلال ہی ہونے کی حالت میں اپنے گھر ٹھہر رہتے۔

【190】

باب: بکریوں کو ہار پہنانے کا بیان۔

ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زکریا نے بیان کیا، ان سے عامر نے، ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی قربانی کے لیے خود قلادے بٹے ہیں۔ ان کی مراد احرام سے پہلے کے قلادوں سے تھی۔

【191】

باب: اون کے ہار بٹنا۔

ہم سے عمرو بن علی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے معاذ بن معاذ نے بیان کیا، ان سے ابن عون نے بیان کیا، ان سے قاسم نے بیان کیا، ان سے ام المؤمنین عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ میرے پاس جو اون تھی ان کے ہار میں نے قربانی کے جانوروں کے لیے خود بٹے تھے۔

【192】

جوتوں کا ہار بنانے کا بیان۔

ہم سے عثمان بن عمر نے بیان کیا، ہم کو علی بن مبارک نے خبر دی، انہیں یحییٰ نے انہیں عکرمہ نے اور انہیں ابوہریرہ (رض) نے نبی کریم ﷺ سے (مثل سابق حدیث کے) ۔

【193】

باب: قربانی کے جانوروں کے لیے جھول کا ہونا۔

ہم سے قبیصہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے ابن ابی نجیح نے، ان سے مجاہد نے، ان سے عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ نے اور ان سے علی (رض) نے بیان کیا کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے ان قربانی کے جانوروں کے جھول اور ان کے چمڑے کو صدقہ کرنے کا حکم دیا تھا جن کی قربانی میں نے کردی تھی۔

【194】

باب: اس شخص کے بارے میں جس نے اپنی ہدی راستہ میں خریدی اور اسے ہار پہنایا۔

ہم سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوضمرہ نے بیان کیا، ان سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، ان سے نافع نے کہ ابن عمر (رض) نے ابن زبیر (رض) کے عہد خلافت میں حجۃ الحروریہ کے سال حج کا ارادہ کیا تو ان سے کہا گیا کہ لوگوں میں باہم قتل و خون ہونے والا ہے اور ہم کو خطرہ اس کا ہے کہ آپ کو (مفسد لوگ حج سے) روک دیں، آپ نے جواب میں یہ آیت سنائی کہ تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔ اس وقت میں بھی وہی کام کروں گا جو نبی کریم ﷺ نے کیا تھا۔ میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنے اوپر عمرہ واجب کرلیا ہے، پھر جب آپ بیداء کے بالائی حصہ تک پہنچے تو فرمایا کہ حج اور عمرہ تو ایک ہی ہے میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ عمرہ کے ساتھ میں نے حج کو بھی جمع کرلیا ہے، پھر آپ نے ایک ہدی بھی ساتھ لے لی جسے ہار پہنایا گیا تھا۔ آپ نے اسے خرید لیا یہاں تک کہ آپ مکہ آئے تو بیت اللہ کا طواف اور صفا ومروہ کی سعی کی، اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کیا جو چیزیں (احرام کی وجہ سے ان پر) حرام تھیں ان میں سے کسی سے قربانی کے دن تک وہ حلال نہیں ہوئے، پھر سر منڈوایا اور قربانی کی وجہ یہ سمجھتے تھے کہ اپنا پہلا طواف کر کے انہوں نے حج اور عمرہ دونوں کا طواف پورا کرلیا ہے پھر آپ نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے بھی اسی طرح کیا تھا۔

【195】

باب: کسی آدمی کا اپنی بیویوں کی طرف سے ان کی اجازت کے بغیر گائے کی قربانی کرنا۔

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک (رح) نے خبر دی، انہیں یحییٰ بن سعید نے، ان سے عمرہ بنت عبدالرحمٰن نے بیان کیا کہ میں نے عائشہ (رض) سے سنا، انہوں نے بتلایا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ (حج کے لیے) نکلے تو ذی قعدہ میں سے پانچ دن باقی رہے تھے ہم صرف حج کا ارادہ لے کر نکلے تھے، جب ہم مکہ کے قریب پہنچے تو رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ جن لوگوں کے ساتھ قربانی نہ ہو وہ جب طواف کرلیں اور صفا ومروہ کی سعی بھی کرلیں تو حلال ہوجائیں گے، عائشہ (رض) نے کہا کہ قربانی کے دن ہمارے گھر گائے کا گوشت لایا گیا تو میں نے کہا کہ یہ کیا ہے ؟ (لانے والے نے بتلایا) کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں کی طرف سے یہ قربانی کی ہے، یحییٰ نے کہا کہ میں نے عمرہ کی یہ حدیث قاسم سے بیان کی انہوں نے کہا عمرہ نے یہ حدیث ٹھیک ٹھیک بیان کیا ہے۔

【196】

باب: منیٰ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں نحر کیا وہاں نحر کرنا۔

ہم سے اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ نے بیان کیا، انہوں نے خالد بن حارث سے سنا، کہا ہم سے عبیداللہ بن عمر نے بیان کیا، ان سے نافع نے کہ عبداللہ (رض) نحر کرنے کی جگہ نحر کرتے تھے، عبیداللہ بن بتایا کہ مراد نبی کریم ﷺ کے نحر کرنے کی جگہ سے تھی۔

【197】

باب: منیٰ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں نحر کیا وہاں نحر کرنا۔

ہم سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، کہا ہم سے انس بن عیاض نے بیان کیا، کہا ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، ان سے نافع نے کہ ابن عمر (رض) اپنی قربانی کے جانوروں کو مزدلفہ سے آخر رات میں منیٰ بھجوا دیتے، یہ قربانیاں جن میں حاجی لوگ نیز غلام اور آزاد دونوں طرح کے لوگ ہوتے، اس مقام میں لے جاتے جہاں نبی کریم ﷺ نحر کیا کرتے تھے۔

【198】

باب: اپنے ہاتھ سے نحر کرنا۔

ہم سے سہل بن بکار نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے وہیب نے بیان کیا، ان سے ایوب نے، ان سے ابوقلابہ نے، ان سے انس بن مالک (رض) نے اور انہوں نے مختصر حدیث بیان کی اور یہ بھی بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے سات اونٹ کھڑے کر کے اپنے ہاتھ سے نحر کئے اور مدینہ میں دو چتکبرے سینگ دار مینڈھوں کی قربانی کی۔

【199】

باب: اونٹ کو باندھ کر نحر کرنا۔

ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، ان سے یونس نے، ان سے زیاد بن جبیر نے کہ میں نے دیکھا کہ عبداللہ بن عمر (رض) ایک شخص کے پاس آئے جو اپنا اونٹ بٹھا کر نحر کر رہا تھا، عبداللہ (رض) نے فرمایا کہ اسے کھڑا کر اور باندھ دے، پھر نحر کر کہ یہی رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے۔ شعبہ نے یونس سے بیان کیا کہ مجھے زیادہ نے خبر دی۔

【200】

باب: اونٹوں کو کھڑا کر کے نحر کرنا۔

ہم سے سہل بن بکار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے وہیب نے بیان کیا، ان سے ایوب نے، ان سے ابوقلابہ نے اور ان سے انس (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے ظہر کی نماز مدینہ میں چار رکعت پڑھی اور عصر کی ذو الحلیفہ میں دو رکعات۔ رات آپ ﷺ نے وہیں گزاری، پھر جب صبح ہوئی تو آپ ﷺ اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر تہلیل و تسبیح کرنے لگے۔ جب بیداء پہنچے تو آپ ﷺ نے دونوں (حج و عمرہ) کے لیے ایک ساتھ تلبیہ کہا، جب مکہ پہنچے (اور عمرہ ادا کرلیا) تو صحابہ رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ حلال ہوجائیں۔ نبی کریم ﷺ نے خود اپنے ہاتھ سے سات اونٹ کھڑے کر کے نحر کئے اور مدینہ میں دو چتکبرے سینگوں والے مینڈھے ذبح کئے۔

【201】

باب: اونٹوں کو کھڑا کر کے نحر کرنا۔

ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے اسماعیل بن علیہ نے بیان کیا، ان سے ایوب نے، ان سے ابوقلابہ نے اور ان سے انس بن مالک (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے ظہر کی نماز مدینہ میں چار رکعت اور عصر کی ذو الحلیفہ میں دو رکعات پڑھی تھیں۔ ایوب نے ایک شخص کے واسطہ سے بروایت انس (رض) کہا پھر آپ ﷺ نے وہیں رات گزاری۔ صبح ہوئی تو فجر کی نماز پڑھی اور اپنی اونٹنی پر سوار ہوگئے، پھر جب مقام بیداء پہنچے تو عمرہ اور حج دونوں کا نام لے کر لبیک پکارا۔

【202】

باب: قصاب کو بطور مزدوری اس قربانی کے جانوروں میں سے کچھ نہ دیا جائے۔

ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی، کہا مجھ کو ابن ابی نجیح نے خبر دی، انہیں مجاہد نے، انہیں عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ نے اور ان سے علی (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے مجھے (قربانی کے اونٹوں کی دیکھ بھال کے لیے) بھیجا۔ اس لیے میں نے ان کی دیکھ بھال کی، پھر آپ ﷺ نے مجھے حکم دیا تو میں نے ان کے گوشت تقسیم کئے، پھر آپ ﷺ نے مجھے حکم دیا تو میں نے ان کے جھول اور چمڑے بھی تقسیم کر دئیے۔ سفیان نے کہا کہ مجھ سے عبدالکریم نے بیان کیا، ان سے مجاہد نے، ان سے عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ نے اور ان سے علی (رض) نے بیان کیا کہ مجھے نبی کریم ﷺ نے حکم دیا تھا کہ میں قربانی کے اونٹوں کی دیکھ بھال کروں اور ان میں سے کوئی چیز قصائی کی مزدوری میں نہ دوں۔

【203】

باب: قربانی کی کھال خیرات کر دی جائے گی۔

ہم سے مسدد نے بیان کیا کہا کہ، ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے بیان کیا، کہا کہ مجھے حسن بن مسلم اور عبدالکریم جزری نے خبر دی کہ مجاہد نے ان دونوں کو خبر دی، انہیں عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ نے خبر دی، انہیں علی (رض) نے خبر دی کہ نبی کریم ﷺ نے انہیں حکم دیا تھا کہ آپ ﷺ کی قربانی کے اونٹوں کی نگرانی کریں اور یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قربانی کے جانوروں کی ہر چیز گوشت چمڑے اور جھول خیرات کردیں اور قصائی کی مزدوری اس میں سے نہ دیں۔

【204】

باب: قربانی کے جانوروں کے جھول بھی صدقہ کر دیے جائیں۔

ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، ان سے سیف بن ابی سلیمان نے بیان کیا، کہا میں نے مجاہد سے سنا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابن ابی لیلیٰ نے بیان کیا اور ان سے علی (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے (حجۃ الوداع کے موقع پر) سو اونٹ قربان کئے، میں نے آپ ﷺ کے حکم کے مطابق ان کے گوشت بانٹ دئیے، پھر آپ ﷺ نے ان کے جھول بھی تقسیم کرنے کا حکم دیا اور میں نے انہیں بھی تقسیم کیا، پھر چمڑے کے لیے حکم دیا اور میں نے انہیں بھی بانٹ دیا۔

【205】

باب: قربانی کے جانوروں میں سے کیا کھائیں اور کیا خیرات کریں۔

ہم سے خالد بن مخلد نے بیان کیا، ان سے سلیمان بن ہلال نے بیان کیا، کہا مجھ سے عمرہ نے بیان کیا، کہا میں نے عائشہ (رض) سے سنا، انہوں نے فرمایا کہ ہم مدینہ سے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے تو ذی قعدہ کے پانچ دن باقی رہ گئے تھے، ہمارا ارادہ صرف حج ہی کا تھا، پھر جب مکہ کے قریب پہنچے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جن کے ساتھ ہدی نہ ہو وہ بیت اللہ کا طواف کر کے حلال ہوجائیں۔ عائشہ (رض) نے فرمایا کہ پھر ہمارے پاس بقر عید کے دن گائے کا گوشت لایا گیا تو میں نے پوچھا کہ یہ کیا ہے ؟ اس وقت معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں کی طرف سے قربانی کی ہے۔ یحییٰ بن سعید نے کہا کہ میں نے اس حدیث کا قاسم بن محمد سے ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ عمرہ نے تم سے ٹھیک ٹھیک حدیث بیان کردی ہے۔ (ہر دو احادیث سے مقصد باب ظاہر ہے) کہ قربانی کا گوشت کھانے اور بطور توشہ رکھنے کی عام اجازت ہے، خود قرآن مجید میں فکلوا منها کا صیغہ موجود ہے کہ اسے غرباء مساکین کو بھی تقسیم کرو اور خود بھی کھاؤ۔

【206】

باب: سر منڈوانے سے پہلے ذبح کرنا۔

ہم سے محمد بن عبداللہ بن حوشب نے بیان کیا، ان سے ہشیم بن بشیر نے بیان کیا، انہیں منصور بن ذاذان نے خبر دی، انہیں عطا بن ابی رباح نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو قربانی کا جانور ذبح کرنے سے پہلے ہی سر منڈوا لے، تو آپ ﷺ نے فرمایا کوئی قباحت نہیں، کوئی قباحت نہیں۔ (ترجمہ اور باب میں موافقت ظاہر ہے) ۔

【207】

باب: سر منڈوانے سے پہلے ذبح کرنا۔

ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا ہم کو ابوبکر بن عیاش نے خبر دی، انہیں عبدالعزیز بن رفیع نے، انہیں عطا بن ابی رباح نے اور انہیں ابن عباس (رض) نے کہ ایک آدمی نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا کہ یا رسول اللہ ! رمی سے پہلے میں نے طواف زیارت کرلیا، نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ کوئی حرج نہیں، پھر اس نے کہا اور یا رسول اللہ ! قربانی کرنے سے پہلے میں نے سر منڈوا لیا، آپ ﷺ نے فرمایا کوئی حرج نہیں، پھر اس نے کہا اور قربانی کو رمی سے بھی پہلے کرلیا نبی کریم ﷺ نے پھر بھی یہی فرمایا کہ کوئی حرج نہیں۔ اور عبدالرحیم رازی نے ابن خشیم سے بیان کیا، کہا کہ عطاء نے خبر دی اور انہیں ابن عباس (رض) نے نبی کریم ﷺ سے اور قاسم بن یحییٰ نے کہا کہ مجھ سے ابن خشیم نے بیان کیا، ان سے عطاء نے، ان سے ابن عباس (رض) نے نبی کریم ﷺ سے۔ عفان بن مسلم صغار نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ وہیب بن خالد سے روایت ہے کہ ابن خثیم نے بیان کیا، ان سے سعید بن جبیر نے، ان سے ابن عباس (رض) نے نبی کریم ﷺ سے۔ اور حماد نے قیس بن سعد اور عباد بن منصور سے بیان کیا، ان سے عطاء نے اور ان سے جابر (رض) نے انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا۔

【208】

باب: سر منڈوانے سے پہلے ذبح کرنا۔

ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالاعلیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ سے ایک آدمی نے مسئلہ پوچھا کہ شام ہونے کے بعد میں نے رمی کی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ کوئی حرج نہیں۔ سائل نے کہا کہ قربانی کرنے سے پہلے میں نے سر منڈا لیا، نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ کوئی حرج نہیں۔

【209】

باب: سر منڈوانے سے پہلے ذبح کرنا۔

ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا کہ مجھے میرے باپ عثمان نے خبر دی، انہیں شعبہ نے، انہیں قیس بن مسلم نے، انہیں طارق بن شہاب نے اور ان سے ابوموسیٰ (رض) نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ بطحاء میں تھے۔ (جو مکہ کے قریب ایک جگہ ہے) آپ ﷺ نے پوچھا کیا تو نے حج کی نیت کی ہے ؟ میں نے کہا کہ ہاں، آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ تو نے احرام کس چیز کا باندھا ہے میں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ کے احرام کی طرح باندھا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ تو نے اچھا کیا اب جا۔ چناچہ (مکہ پہنچ کر) میں نے بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا ومروہ کی سعی کی، پھر میں بنو قیس کی ایک خاتون کے پاس آیا اور انہوں نے میرے سر کی جوئیں نکالی۔ اس کے بعد میں نے حج کی لبیک پکاری۔ اس کے بعد میں عمر (رض) کے عہد خلافت تک اسی کا فتویٰ دیتا رہا پھر جب میں نے عمر (رض) سے اس کا ذکر کیا تو آپ (رض) نے فرمایا کہ ہمیں کتاب اللہ پر بھی عمل کرنا چاہیے اور اس میں پورا کرنے کا حکم ہے، پھر رسول اللہ ﷺ کی سنت پر بھی عمل کرنا چاہیے اور نبی کریم ﷺ قربانی سے پہلے حلال نہیں ہوئے تھے۔

【210】

باب: اس کے متعلق جس نے احرام کے وقت سر کے بالوں کو جما لیا اور احرام کھولتے وقت سر منڈوا لیا۔

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں نافع نے، انہیں ابن عمر (رض) نے کہ حفصہ (رض) نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ کیا وجہ ہوئی کہ اور لوگ تو عمرہ کر کے حلال ہوگئے اور آپ ﷺ نے عمرہ کرلیا اور حلال نہ ہوئے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے اپنے سر کے بال جما لیے تھے اور قربانی کے گلے میں قلادہ پہنا کر میں (اپنے ساتھ) لایا ہوں، اس لیے جب تک میں نحر نہ کرلوں گا میں احرام نہیں کھولوں گا۔

【211】

باب: احرام کھولتے وقت بال منڈوانا یا ترشوانا۔

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب بن ابی حمزہ نے خبر دی، ان سے نافع نے بیان کیا کہ ابن عمر (رض) فرمایا کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر اپنا سر منڈایا تھا۔

【212】

باب: احرام کھولتے وقت بال منڈوانا یا ترشوانا۔

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں نافع نے، انہیں عبداللہ بن عمر (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے دعا کی اے اللہ ! سر منڈوانے والوں پر رحم فرما ! صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی اور کتروانے والوں پر ؟ نبی کریم ﷺ نے اب بھی دعا کی اے اللہ سر منڈوانے والوں پر رحم فرما ! صحابہ رضی اللہ عنہم نے پھر عرض کی اور کتروانے والوں پر ؟ اب آپ ﷺ نے فرمایا اور کتروانے والوں پر بھی، لیث نے کہا کہ مجھ سے نافع نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، اللہ نے سر منڈوانے والوں پر رحم کیا ایک یا دو مرتبہ، انہوں نے بیان کیا کہ عبیداللہ نے کہا کہ مجھ سے نافع نے بیان کیا کہ چوتھی مرتبہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ کتروانے والوں پر بھی۔

【213】

باب: احرام کھولتے وقت بال منڈوانا یا ترشوانا۔

ہم سے عیاش بن ولید نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن فضیل نے بیان کیا، ان سے عمارہ بن قعقاع نے بیان کیا، ان سے ابوزرعہ نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے دعا فرمائی اے اللہ ! سر منڈوانے والوں کی مغفرت فرما ! صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا اور کتروانے والوں کے لیے بھی (یہی دعا فرمائیے) لیکن نبی کریم ﷺ نے اس مرتبہ بھی یہی فرمایا اے اللہ ! سر منڈوانے والوں کی مغفرت کر۔ پھر صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا اور کتروانے والوں کی بھی ! تیسری مرتبہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اور کتروانے والوں کی بھی مغفرت فرما۔

【214】

باب: احرام کھولتے وقت بال منڈوانا یا ترشوانا۔

ہم سے عبداللہ بن محمد بن اسماء نے بیان کیا، کہا ہم سے جویریہ بن اسماء نے، ان سے نافع نے کہ عبداللہ بن عمر (رض) نے فرمایا نبی کریم ﷺ اور آپ ﷺ کے بہت سے اصحاب نے سر منڈوایا تھا لیکن بعض نے کتروایا بھی تھا۔

【215】

باب: احرام کھولتے وقت بال منڈوانا یا ترشوانا۔

ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے بیان کیا، ان سے حسن بن مسلم نے بیان کیا، ان سے طاؤس نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن عباس (رض) اور ان سے معاویہ (رض) نے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے بال قینچی سے کاٹے تھے۔

【216】

باب: تمتع کرنے والا عمرہ کے بعد بال ترشوائے۔

ہم سے محمد بن ابی بکر نے بیان کیا، ان سے فضیل بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے موسیٰ بن عقبہ نے، انہیں کریب نے خبر دی، ان سے ابن عباس (رض) نے کہا کہ جب نبی کریم ﷺ مکہ میں تشریف لائے تو آپ ﷺ نے اپنے اصحاب کو یہ حکم دیا کہ بیت اللہ کا طواف اور صفا ومروہ کی سعی کرنے کے بعد احرام کھول دیں پھر سر منڈوا لیں یا بال کتروا لیں۔

【217】

باب: دسویں تاریخ میں طواف الزیارۃ کرنا۔

اور ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، ان سے سفیان نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ نے، ان سے نافع نے کہ ابن عمر (رض) نے صرف ایک طواف الزیارۃ کیا پھر سویرے سے منیٰ کو آئے، ان کی مراد دسویں تاریخ سے تھی، عبدالرزاق نے اس حدیث کا رفع (رسول اللہ ﷺ تک) بھی کیا ہے۔ انہیں عبیداللہ نے خبر دی۔

【218】

باب: دسویں تاریخ میں طواف الزیارۃ کرنا۔

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، ان سے لیث نے بیان کیا، ان سے جعفر بن ربیعہ نے، ان سے اعرج نے انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا اور ان سے عائشہ (رض) نے کہ ہم نے جب رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج کیا تو دسویں تاریخ کو طواف الزیارۃ کیا لیکن صفیہ (رض) حائضہ ہوگئیں پھر نبی کریم ﷺ نے ان سے وہی چاہا جو شوہر اپنی بیوی سے چاہتا ہے، تو میں نے کہا یا رسول اللہ ! وہ حائضہ ہیں، آپ ﷺ نے اس پر فرمایا کہ اس نے تو ہمیں روک دیا پھر جب لوگوں نے کہا کہ یا رسول اللہ ! انہوں نے دسویں تاریخ کو طواف الزیارۃ کرلیا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا پھر چلے چلو۔ قاسم، عروہ اور اسود سے بواسطہ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ (رض) روایت ہے کہ ام المؤمنین صفیہ (رض) نے دسویں تاریخ کو طواف الزیارۃ کیا تھا۔

【219】

باب: کسی نے شام تک رمی نہ کی یا قربانی سے پہلے بھول کر یا مسئلہ نہ جان کر سر منڈوا لیا تو کیا حکم ہے؟

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، ان سے وہیب نے بیان کیا، ان سے ابن طاؤس نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ سے قربانی کرنے، سر منڈانے، رمی جمار کرنے اور ان سے آگے پیچھے کرنے کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ کوئی حرج نہیں۔

【220】

باب: کسی نے شام تک رمی نہ کی یا قربانی سے پہلے بھول کر یا مسئلہ نہ جان کر سر منڈوا لیا تو کیا حکم ہے؟

ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے یزید بن زریع نے بیان کیا، ان سے خالد نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے، ان سے ابن عباس (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ سے یوم نحر میں منیٰ میں مسائل پوچھے جاتے اور آپ ﷺ فرماتے جاتے کہ کوئی حرج نہیں، ایک شخص نے پوچھا تھا کہ میں نے قربانی کرنے سے پہلے سر منڈا لیا ہے تو آپ نے اس کے جواب میں بھی یہی فرمایا کہ جاؤ قربانی کرلو کوئی حرج نہیں اور اس نے یہ بھی پوچھا کہ میں نے کنکریاں شام ہونے کے بعد ہی مار لی ہیں، تو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی حرج نہیں۔

【221】

باب: جمرہ کے پاس سوار رہ کر لوگوں کو مسئلہ بتانا۔

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں عیسیٰ بن طلحہ نے، انہیں عبداللہ بن عمر (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ حجۃ الوداع کے موقع پر (اپنی سواری) پر بیٹھے ہوئے تھے اور لوگ آپ ﷺ سے مسائل معلوم کئے جا رہے تھے۔ ایک شخص نے کہا : یا رسول اللہ ! مجھ کو معلوم نہ تھا اور میں نے قربانی کرنے سے پہلے ہی سر منڈا لیا، آپ ﷺ نے فرمایا اب قربانی کرلو کوئی حرج نہیں، دوسرا شخص آیا اور بولا : یا رسول اللہ ! مجھے خیال نہ رہا اور رمی جمار سے پہلے ہی میں نے قربانی کردی، آپ ﷺ نے فرمایا اب رمی کرلو کوئی حرج نہیں، اس دن آپ ﷺ سے جس چیز کے آگے پیچھے کرنے کے متعلق سوال ہوا آپ ﷺ نے یہی فرمایا اب کرلو کوئی حرج نہیں۔

【222】

باب: جمرہ کے پاس سوار رہ کر لوگوں کو مسئلہ بتانا۔

ہم سے سعید بن یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے بیان کیا، ان سے زہری نے بیان کیا، ان سے عیسیٰ بن طلحہ نے اور ان سے عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) نے کہ جب رسول اللہ ﷺ دسویں تاریخ کو منیٰ میں خطبہ دے رہے تھے تو وہ وہاں موجود تھے۔ ایک شخص نے اس وقت کھڑے ہو کر پوچھا کہ میں اس خیال میں تھا کہ فلاں کام فلاں سے پہلے ہے پھر دوسرا کھڑا ہوا اور کہا کہ میرا خیال تھا کہ فلاں کام فلاں سے پہلے ہے، چناچہ میں نے قربانی سے پہلے سر منڈا لیا، رمی جمار سے پہلے قربانی کرلی، اور مجھے اس میں شک ہوا۔ تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا، اب کرلو۔ ان سب میں کوئی حرج نہیں۔ اسی طرح کے دوسرے سوالات بھی آپ ﷺ سے کئے گئے آپ ﷺ نے ان سب کے جواب میں یہی فرمایا کہ کوئی حرج نہیں اب کرلو۔

【223】

باب: جمرہ کے پاس سوار رہ کر لوگوں کو مسئلہ بتانا۔

ہم سے اسحاق نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں یعقوب بن ابراہیم نے خبر دی، ان سے میرے والد نے بیان کیا، ان سے صالح نے، ان سے ابن شہاب نے اور ان سے عیسیٰ بن طلحہ بن عبیداللہ نے بیان کیا، انہوں نے عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) سے سنا انہوں نے بتلایا کہ رسول اللہ ﷺ اپنے سواری پر سوا رہو کر ٹھہرے رہے پھر پوری حدیث بیان کی۔ اس کی متابعت معمر نے زہری سے روایت کر کے کی ہے۔

【224】

باب: منیٰ کے دنوں میں خطبہ سنانا۔

ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، ان سے فضل بن غزوان نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عباس (رض) نے کہ دسویں تاریخ کو رسول اللہ ﷺ نے منیٰ میں خطبہ دیا، خطبہ میں آپ ﷺ نے پوچھا لوگو ! آج کون سا دن ہے ؟ لوگ بولے یہ حرمت کا دن ہے، آپ ﷺ نے پھر پوچھا اور یہ شہر کون سا ہے ؟ لوگوں نے کہا یہ حرمت کا شہر ہے، آپ ﷺ نے پوچھا یہ مہینہ کون سا ہے ؟ لوگوں نے کہا یہ حرمت کا مہینہ ہے، پھر آپ ﷺ نے فرمایا بس تمہارا خون تمہارے مال اور تمہاری عزت ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہے جیسے اس دن کی حرمت، اس شہر اور اس مہینہ کی حرمت ہے، اس کلمہ کو آپ ﷺ نے کئی بار دہرایا اور پھر آسمان کی طرف سر اٹھا کر کہا اے اللہ ! کیا میں نے (تیرا پیغام) پہنچا دیا اے اللہ ! کیا میں نے پہنچا دیا۔ عبداللہ بن عباس (رض) نے بتلایا کہ اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے نبی کریم ﷺ کی یہ وصیت اپنی تمام امت کے لیے ہے، لہٰذا حاضر (اور جاننے والے) غائب (اور ناواقف لوگوں کو اللہ کا پیغام) پہنچا دیں۔ آپ ﷺ نے پھر فرمایا دیکھو میرے بعد ایک دوسرے کی گردن مار کر کافر نہ بن جانا۔

【225】

باب: منیٰ کے دنوں میں خطبہ سنانا۔

ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عمرو نے خبر دی، کہا کہ میں نے جابر بن زید سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے ابن عباس (رض) سے سنا، آپ (رض) نے بتلایا کہ میدان عرفات میں رسول اللہ ﷺ کا خطبہ میں نے خود سنا تھا۔ اس کی متابعت ابن عیینہ نے عمرو سے کی ہے۔

【226】

باب: منیٰ کے دنوں میں خطبہ سنانا۔

ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعامر نے بیان کیا، ان سے قرہ نے بیان کیا، ان سے محمد بن سیرین نے کہا کہ مجھے عبدالرحمٰن بن ابی بکرہ نے اور ایک اور شخص نے جو میرے نزدیک عبدالرحمٰن سے بھی افضل ہے یعنی حمید بن عبدالرحمٰن نے خبر دی کہ ابوبکر (رض) نے بتلایا کہ نبی کریم ﷺ نے دسویں تاریخ کو منیٰ میں خطبہ سنایا، آپ ﷺ نے پوچھا لوگو ! معلوم ہے آج یہ کون سا دن ہے ؟ ہم نے عرض کی اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ ﷺ اس پر خاموش ہوگئے اور ہم نے سمجھا کہ آپ ﷺ اس دن کا کوئی اور نام رکھیں گے لیکن آپ ﷺ نے فرمایا : کیا یہ قربانی کا دن نہیں۔ ہم بولے ہاں ضرور ہے، پھر آپ ﷺ نے پوچھا یہ مہینہ کون سا ہے ؟ ہم نے کہا اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے لیے۔ آپ اس مرتبہ بھی خاموش ہوگئے اور ہمیں خیال ہوا کہ آپ ﷺ اس مہینہ کا نام کوئی اور نام رکھیں گے، لیکن آپ نے فرمایا کیا یہ ذی الحجہ کا مہینہ نہیں ہے ؟ ہم بولے کیوں نہیں، پھر آپ ﷺ نے پوچھا یہ شہر کون سا ہے ؟ ہم نے عرض کی اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں، اس مرتبہ بھی آپ ﷺ اس طرح خاموش ہوگئے کہ ہم نے سمجھا کہ آپ ﷺ اس کا کوئی اور نام رکھیں گے، لیکن آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ حرمت کا شہر نہیں ہے ؟ ہم نے عرض کی کیوں نہیں ضرور ہے، اس کے بعد آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا بس تمہارا خون اور تمہارے مال تم پر اسی طرح حرام ہیں جیسے اس دن کی حرمت اس مہینہ اور اس شہر میں ہے، تاآنکہ تم اپنے رب سے جا ملو۔ کہو کیا میں نے تم کو اللہ کا پیغام پہنچا دیا ؟ لوگوں نے کہا کہ ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا اے اللہ ! تو گواہ رہنا اور ہاں ! یہاں موجود غائب کو پہنچا دیں کیونکہ بہت سے لوگ جن تک یہ پیغام پہنچے گا سننے والوں سے زیادہ (پیغام کو) یاد رکھنے والے ثابت ہوں گے اور میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی (ناحق) گردنیں مارنے لگو۔

【227】

باب: منیٰ کے دنوں میں خطبہ سنانا۔

ہم سے محمد بن مثنی نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن ہارون نے بیان کیا، کہا ہم کو عاصم بن محمد بن زید نے خبر دی، انہیں ان کے باپ نے اور ان سے ابن عمر (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے منیٰ میں فرمایا کہ تم کو معلوم ہے ! آج کون سا دن ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہ حرمت کا دن ہے اور یہ بھی تم کو معلوم ہے کہ یہ کون سا شہر ہے ؟ لوگوں نے کہا اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ حرمت کا شہر ہے اور تم کو یہ بھی معلوم ہے کہ یہ کون سا مہینہ ہے، لوگوں نے کہا اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ حرمت کا مہینہ ہے پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارا خون ! تمہارا مال اور عزت ایک دوسرے پر (ناحق) اس طرح حرام کردی ہیں جیسے اس دن کی حرمت اس مہینہ اور اس شہر میں ہے۔ ہشام بن غاز نے کہا کہ مجھے نافع نے ابن عمر (رض) کے حوالے سے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ حجۃ الوداع میں دسویں تاریخ کو جمرات کے درمیان کھڑے ہوئے تھے اور فرمایا تھا کہ دیکھو ! یہ ( يوم النحر ) حج اکبر کا دن ہے، پھر نبی کریم ﷺ یہ فرمانے لگے کہ اے اللہ ! گواہ رہنا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر چونکہ لوگوں کو رخصت کیا تھا۔ (آپ سمجھ گئے کہ وفات کا زمانہ آن پہنچا) جب سے لوگ اس حج کو حجۃ الوداع کہنے لگے۔

【228】

باب: منی کی راتوں میں جو لوگ مکہ میں پانی پلاتے ہیں یا اور کچھ کام کرتے ہیں وہ مکہ میں رہ سکتے ہیں۔

ہم سے محمد بن عبید بن میمون نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عیسیٰ بن یونس نے، ان سے عبیداللہ نے، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے اجازت دی۔ (دوسری سند) اور ہم سے یحییٰ بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن بکر نے بیان کیا، کہا ہم کو ابن جریج نے خبر دی، انہیں عبیداللہ نے، انہیں نافع نے اور انہیں ابن عمر (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے اجازت دی۔ اور ہم سے محمد بن عبداللہ بن نمیر نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے نافع نے بیان کیا اور ان سے ابن عمر (رض) نے کہ عباس (رض) نے نبی کریم ﷺ سے منیٰ کی راتوں میں (حاجیوں) کو پانی پلانے کے لیے مکہ میں رہنے کی اجازت چاہی تو آپ ﷺ نے ان کو اجازت دے دی۔ اس روایت کی متابعت محمد بن عبداللہ کے ساتھ ابواسامہ عقبہ بن خالد اور ابوضمرہ نے کی ہے۔

【229】

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی۔

【230】

عباس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منیٰ کی راتوں میں ( حاجیوں ) کو پانی پلانے کے لیے مکہ میں رہنے کی اجازت چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اجازت دے دی۔ اس روایت کی متابعت محمد بن عبداللہ کے ساتھ ابواسامہ عقبہ بن خالد اور ابوضمرہ نے کی ہے۔

【231】

باب: کنکریاں مارنے کا بیان۔

ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے مسعر نے بیان کیا، ان سے وبرہ نے کہ میں نے عبداللہ بن عمر (رض) سے پوچھا کہ میں کنکریاں کس وقت ماروں ؟ تو آپ نے فرمایا کہ جب تمہارا امام مارے تو تم بھی مارو، لیکن دوبارہ میں نے ان سے یہی مسئلہ پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ ہم انتظار کرتے رہتے اور جب سورج ڈھل جاتا تو کنکریاں مارتے۔

【232】

باب: رمی جمار وادی کے نشیب سے کرنے کا بیان۔

حدیث نمبر : 1747 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الْأَعْمَشِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ :‏‏‏‏ رَمَى عَبْدُ اللَّهِ مِنْ بَطْنِ الْوَادِي، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ :‏‏‏‏ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّ نَاسًا يَرْمُونَهَا مِنْ فَوْقِهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ :‏‏‏‏ وَالَّذِي لَا إِلَهَ غَيْرُهُ ، ‏‏‏‏‏‏هَذَا مَقَامُ الَّذِي أُنْزِلَتْ عَلَيْهِ سُورَةُ الْبَقَرَةِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْوَلِيدِ :‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ بِهَذَا .

【233】

باب: رمی جمار سات کنکریوں سے کرنا۔

ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے حکم بن عتبہ نے، ان سے ابراہیم نحعی نے، ان سے عبدالرحمٰن بن یزید نے کہ عبداللہ بن مسعود (رض) جمرہ کبریٰ کے پاس پہنچے تو کعبہ کو اپنے بائیں طرف کیا اور منیٰ کو دائیں طرف، پھر سات کنکریوں سے رمی کی اور فرمایا کہ جن پر سورة البقرہ نازل ہوئی تھی ﷺ انہوں نے بھی اسی طرح رمی کی تھی۔ (یعنی رسول اللہ ﷺ ) ۔

【234】

باب: اس شخص کے متعلق جس نے جمرہ عقبہ کی رمی کی تو بیت اللہ کو اپنی بائیں طرف کیا۔

ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے حکم بن عتبہ نے بیان کیا، ان سے ابراہیم نخعی نے، ان سے عبدالرحمٰن بن یزید نے کہ انہوں نے عبداللہ بن مسعود (رض) کے ساتھ حج کیا انہوں نے دیکھا جمرہ عقبہ کی سات کنکریوں کے ساتھ رمی کے وقت آپ نے بیت اللہ کو تو اپنی بائیں طرف اور منی کو دائیں طرف کرلیا پھر فرمایا کہ یہی ان کا بھی مقام تھا جن پر سورة البقرہ نازل ہوئی تھی یعنی نبی کریم ﷺ ۔

【235】

باب: اس بیان میں کہ (حاجی کو) کنکری مارتے وقت اللہ اکبر کہنا چاہئے۔

باب : اس کے متعلق جس نے جمرہ عقبہ کی رمی کی اور وہاں ٹھہرا نہیں اس حدیث کو ابن عمر (رض) نے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا ہے۔ (یہ حدیث اگلے باب میں آرہی ہے) ۔

【236】

باب: پہلے اور دوسرے جمرہ کے پاس جا کر دعا کے لیے ہاتھ اٹھانا۔

ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے میرے بھائی (عبدالحمید) نے بیان کیا، ان سے سلیمان نے بیان کیا، ان سے یونس بن یزید نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے سالم بن عبداللہ نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عمر (رض) پہلے جمرہ کی رمی سات کنکریوں کے ساتھ کرتے اور ہر کنکری پر الله اکبر کہتے تھے، اس کے بعد آگے بڑھتے اور ایک نرم ہموار زمین پر قبلہ رخ کھڑے ہوجاتے، دعائیں کرتے رہتے اور دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے پھر جمرہ وسطی کی رمی میں بھی اسی طرح کرتے اور بائیں طرف آگے بڑھ کر ایک نرم زمین پر قبلہ رخ کھڑے ہوجاتے، بہت دیر تک اسی طرح کھڑے ہو کر دعائیں کرتے رہتے، پھر جمرہ عقبہ کی رمی بطن وادی سے کرتے لیکن وہاں ٹھہرتے نہیں تھے، آپ فرماتے تھے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی اسی طرح کرتے دیکھا ہے۔

【237】

باب: دونوں جمروں کے پاس دعا کرنے کے بیان میں۔

باب : دونوں جمروں کے پاس دعا کرنے کے بیان میں اور محمد بن بشار نے کہا کہ ہم سے عثمان بن عمر نے بیان کیا، انہیں یونس نے خبر دی اور انہیں زہری نے کہ رسول اللہ ﷺ جب اس جمرہ کی رمی کرتے جو منی کی مسجد کے نزدیک ہے تو سات کنکریوں سے رمی کرتے اور ہر کنکری کے ساتھ تکبیر الله اکبر کہتے، پھر آگے بڑھتے اور قبلہ رخ کھڑے ہو کر دونوں ہاتھ اٹھا کر دعائیں کرتے تھے، یہاں آپ ﷺ بہت دیر تک کھڑے رہتے تھے پھر جمرہ ثانیہ (وسطی) کے پاس آتے یہاں بھی سات کنکریوں سے رمی کرتے اور ہر کنکری کے ساتھ الله اکبر کہتے، پھر بائیں طرف نالے کے قریب اتر جاتے اور وہاں بھی قبلہ رخ کھڑے ہوتے اور ہاتھوں کو اٹھا کر دعا کرتے رہتے، پھر جمرہ عقبہ کے پاس آتے اور یہاں بھی سات کنکریوں سے رمی کرتے اور ہر کنکری کے ساتھ الله اکبر کہتے، اس کے بعد واپس ہوجاتے یہاں آپ دعا کے لیے ٹھہرتے نہیں تھے۔ زہری نے کہا کہ میں نے سالم سے سنا وہ بھی اسی طرح اپنے والد (ابن عمر رضی اللہ عنہما) سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرتے تھے اور یہ کہ عبداللہ بن عمر (رض) خود بھی اسی طرح کیا کرتے تھے۔

【238】

باب: رمی جمار کے بعد خوشبو لگانا اور طواف الزیارۃ سے پہلے سر منڈانا۔

ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن قاسم نے بیان کیا کہ میں نے عائشہ (رض) سے سنا، وہ فرماتی تھیں کہ میں نے خود اپنے ہاتھوں سے رسول اللہ ﷺ کے، جب آپ نے احرام باندھنا چاہا، خوشبو لگائی تھی اس طرح کھولتے وقت بھی جب آپ نے طواف الزیارۃ سے پہلے احرام کھولنا چاہا تھا (آپ نے ہاتھ پھیلا کر خوشبو لگانے کی کیفیت بتائی) ۔

【239】

باب: طواف وداع کا بیان۔

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے ابن طاؤس نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ لوگوں کو اس کا حکم تھا کہ ان کا آخری وقت بیت اللہ کے ساتھ ہو (یعنی طواف وداع کریں) البتہ حائضہ سے یہ معاف ہوگیا تھا۔

【240】

باب: طواف وداع کا بیان۔

ہم سے اصبغ بن فرج نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو ابن وہب نے خبر دی، انہیں عمرو بن حارث نے، انہیں قتادہ نے اور ان سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے ظہر، عصر، مغرب اور عشاء پڑھی، پھر تھوڑی دیر محصب میں سو رہے، اس کے بعد سوار ہو کر بیت اللہ تشریف لے گئے اور وہاں طواف زیارۃ عمرو بن حارث کے ساتھ کیا، اس روایت کی متابعت لیث نے کی ہے، ان سے خالد نے بیان کیا، ان سے سعید نے، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس (رض) نے نبی کریم ﷺ سے نقل کیا ہے۔

【241】

باب: اگر طواف افاضہ کے بعد عورت حائضہ ہو جائے؟

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہمیں امام مالک نے خبر دی، انہیں عبدالرحمٰن بن قاسم نے، انہیں ان کے والد نے اور انہیں عائشہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ صفیہ بنت حی (رض) (حجۃ الوداع کے موقع پر) حائضہ ہوگئیں تو میں نے اس کا ذکر نبی کریم ﷺ سے کیا، آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر تو یہ ہمیں روکیں گی، لوگوں نے کہا کہ انہوں نے طواف افاضہ کرلیا ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر کوئی فکر نہیں۔

【242】

باب: اگر طواف افاضہ کے بعد عورت حائضہ ہو جائے؟

ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، ان سے ایوب نے، ان سے عکرمہ نے کہ مدینہ کے لوگوں نے ابن عباس (رض) سے ایک عورت کے متعلق پوچھا کہ جو طواف کرنے کے بعد حائضہ ہوگئی تھیں، آپ نے انہیں بتایا کہ (انہیں ٹھہرنے کی ضرورت نہیں بلکہ) چلی جائیں۔ لیکن پوچھنے والوں نے کہا ہم ایسا نہیں کریں گے کہ آپ کی بات پر عمل تو کریں اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہم کی بات چھوڑ دیں، ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ جب تم مدینہ پہنچ جاؤ تو یہ مسئلہ وہاں (اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم سے) پوچھنا۔ چناچہ جب یہ لوگ مدینہ آئے تو پوچھا، جن اکابر سے پوچھا گیا تھا ان میں ام سلیم (رض) بھی تھیں اور انہوں نے (ان کے جواب میں وہی) صفیہ (رض) کی حدیث بیان کی۔ اس حدیث کو خالد اور قتادہ نے بھی عکرمہ سے روایت کیا ہے۔

【243】

None

مدینہ کے لوگوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک عورت کے متعلق پوچھا کہ جو طواف کرنے کے بعد حائضہ ہو گئی تھیں، آپ نے انہیں بتایا کہ ( انہیں ٹھہرنے کی ضرورت نہیں بلکہ ) چلی جائیں۔ لیکن پوچھنے والوں نے کہا ہم ایسا نہیں کریں گے کہ آپ کی بات پر عمل تو کریں اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہم کی بات چھوڑ دیں، ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ جب تم مدینہ پہنچ جاؤ تو یہ مسئلہ وہاں ( اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم سے ) پوچھنا۔ چنانچہ جب یہ لوگ مدینہ آئے تو پوچھا، جن اکابر سے پوچھا گیا تھا ان میں ام سلیم رضی اللہ عنہا بھی تھیں اور انہوں نے ( ان کے جواب میں وہی ) صفیہ رضی اللہ عنہا کی حدیث بیان کی۔ اس حدیث کو خالد اور قتادہ نے بھی عکرمہ سے روایت کیا ہے۔

【244】

باب: اگر طواف افاضہ کے بعد عورت حائضہ ہو جائے؟

ہم سے مسلم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے وہیب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابن طاؤس نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ عورت کو اس کی اجازت ہے کہ اگر وہ طواف افاضہ (طواف زیارت) کرچکی ہو اور پھر (طواف وداع سے پہلے) حیض آجائے تو (اپنے گھر) واپس چلی جائے۔ کہا میں نے ابن عمر کو کہتے سنا کہ اس عورت کے لیے واپسی نہیں۔ اس کے بعد میں نے ان سے سنا آپ فرماتے تھے کہ نبی کریم ﷺ نے عورتوں کو اس کی اجازت دی ہے۔

【245】

None

اس عورت کے لیے واپسی نہیں۔ اس کے بعد میں نے ان سے سنا آپ فرماتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو اس کی اجازت دی ہے۔

【246】

باب: اگر طواف افاضہ کے بعد عورت حائضہ ہو جائے؟

ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے ابراہیم نخعی نے، ان سے اسود نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ نکلے، ہماری نیت حج کے سوا اور کچھ نہ تھی۔ پھر جب نبی کریم ﷺ (مکہ) پہنچے تو آپ ﷺ نے بیت اللہ کا طواف اور صفا اور مروہ کی سعی کی، لیکن آپ ﷺ نے احرام نہیں کھولا کیونکہ آپ کے ساتھ قربانی تھی۔ آپ ﷺ کے ساتھ آپ ﷺ کی بیویوں نے اور دیگر اصحاب نے بھی طواف کیا اور جن کے ساتھ قربانی نہیں تھیں انہوں نے (اس طواف و سعی کے بعد) احرام کھول دیا لیکن عائشہ (رض) حائضہ ہوگئی تھیں، سب نے اپنے حج کے تمام مناسک ادا کرلیے تھے، پھر جب لیلۃ حصبہ یعنی روانگی کی رات آئی تو عائشہ (رض) نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ آپ ﷺ کے تمام ساتھی حج اور عمرہ دونوں کر کے جا رہے ہیں صرف میں عمرہ سے محروم ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا کے اچھا جب ہم آئے تھے تو تم (حیض کی وجہ سے) بیت اللہ کا طواف نہیں کرسکی تھیں ؟ میں نے کہا کہ نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر اپنے بھائی کے ساتھ تنعیم چلی جا اور وہاں سے عمرہ کا احرام باندھ (اور عمرہ کر) ہم تمہارا فلاں جگہ انتظار کریں گے، چناچہ میں اپنے بھائی (عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ) کے ساتھ تنعیم گئی اور وہاں سے احرام باندھا۔ اسی طرح صفیہ بنت حی (رض) بھی حائضہ ہوگئی تھیں نبی کریم ﷺ نے انہیں (ازراہ محبت) فرمایا عقرى حلقى ، تو، تو ہمیں روک لے گی، کیا تو نے قربانی کے دن طواف زیارت نہیں کیا تھا ؟ وہ بولیں کہ کیا تھا، اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر کوئی حرج نہیں، چلی چلو۔ میں جب آپ تک پہنچی تو آپ ﷺ مکہ کے بالائی علاقہ پر چڑھ رہے تھے اور میں اتر رہی تھی یا یہ کہا کہ میں چڑھ رہی تھی اور نبی کریم ﷺ اتر رہے تھے۔ مسدد کی روایت میں (رسول اللہ ﷺ کے کہنے پر) ہاں کے بجائے نہیں ہے، اس کی متابعت جریر نے منصور کے واسطہ سے نہیں کے ذکر میں کی ہے۔

【247】

باب: اس سے متعلق جس نے روانگی کے دن عصر کی نماز ابطح میں پڑھی۔

ہم سے محمد بن مثنی نے بیان کیا، کہا ہم سے اسحٰق بن یوسف نے بیان کیا، ان سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے عبدالعزیز بن رفیع نے بیان کیا کہ میں نے انس بن مالک (رض) سے پوچھا، مجھے وہ حدیث بتائے جو آپ کو رسول اللہ ﷺ سے یاد ہو کہ انہوں نے آٹھویں ذی الحجہ کے دن ظہر کی نماز کہاں پڑھی تھی، انہوں نے کہا منیٰ میں، میں نے پوچھا اور روانگی کے دن عصر کہاں پڑھی تھی انہوں نے فرمایا کہ ابطح میں اور تم اسی طرح کرو جس طرح تمہارے حاکم لوگ کرتے ہوں۔ (تاکہ فتنہ واقع نہ ہو) ۔

【248】

باب: اس سے متعلق جس نے روانگی کے دن عصر کی نماز ابطح میں پڑھی۔

ہم سے عبدالمتعال بن طالب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابن وہب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے عمرو بن حارث نے خبر دی، ان سے قتادہ نے بیان کیا اور ان سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ ظہر، عصر، مغرب، عشاء نبی کریم ﷺ نے پڑھی اور تھوڑی دیر کے لیے محصب میں سو رہے، پھر بیت اللہ کی طرف سوار ہو کر گئے اور طواف کیا۔ (یہاں طواف الزیارۃ مراد ہے) ۔

【249】

باب: وادی محصب کا بیان۔

ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ منیٰ سے کوچ کر کے یہاں محصب میں اس لیے اترے تھے تاکہ آسانی کے ساتھ مدینہ کو نکل سکیں۔ آپ ﷺ کی مراد ابطح میں اترنے سے تھی۔

【250】

باب: وادی محصب کا بیان۔

ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن عطاء بن ابی رباح نے بیان کیا اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ محصب میں اترنا حج کی کوئی عبادت نہیں ہے، یہ تو صرف رسول اللہ ﷺ کے قیام کی جگہ تھی۔

【251】

باب: مکہ میں داخل ہونے سے پہلے ذی طویٰ میں قیام کرنا اور مکہ سے واپسی میں ذی الحلیفہ کے کنکریلے میدان میں قیام کرنا۔

ہم سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوضمرہ انس بن عیاض نے بیان کیا، ان سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، ان سے نافع نے کہ عبداللہ بن عمر (رض) مکہ جاتے وقت ذی طویٰ کی دونوں پہاڑیوں کے درمیان رات گزارتے تھے اور پھر اس پہاڑی سے ہو کر گزرتے جو مکہ کے اوپر کی طرف ہے اور جب مکہ میں حج یا عمرہ کا احرام باندھنے آتے تو اپنی اونٹنی مسجد کے دروازہ پر لا کر بٹھاتے پھر حجر اسود کے پاس آتے اور یہیں سے طواف شروع کرتے، طواف سات چکروں میں ختم ہوتا جس کے شروع میں رمل کرتے اور چار میں معمول کے مطابق چلتے، طواف کے بعد دو رکعت نماز پڑھتے پھر ڈیرہ پر واپس ہونے سے پہلے صفا اور مروہ کی دوڑ کرتے۔ جب حج یا عمرہ کر کے مدینہ واپس ہوتے تو ذو الحلیفہ کے میدان میں سواری بٹھاتے، جہاں نبی کریم ﷺ بھی (مکہ سے مدینہ واپس ہوتے ہوئے ) اپنی سواری بٹھایا کرتے تھے۔

【252】

باب: مکہ میں داخل ہونے سے پہلے ذی طویٰ میں قیام کرنا اور مکہ سے واپسی میں ذی الحلیفہ کے کنکریلے میدان میں قیام کرنا۔

ہم سے عبداللہ بن عبدالوہاب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے خالد بن حارث نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ عبیداللہ سے محصب کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے نافع سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ اور عمر اور ابن عمر رضی اللہ عنہم نے محصب میں قیام فرمایا تھا۔ نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر (رض) محصب میں ظہر اور عصر پڑھتے تھے۔ میرا خیال ہے کہ انہوں نے مغرب (پڑھنے کا بھی) ذکر کیا، خالد نے بیان کیا کہ عشاء میں مجھے کوئی شک نہیں۔ اس کے پڑھنے کا ذکر ضرور کیا پھر تھوڑی دیر کے لیے وہاں سو رہتے نبی کریم ﷺ سے بھی ایسا ہی مذکور ہے۔

【253】

باب: زمانہ حج میں تجارت کرنا اور جاہلیت کے بازاروں میں خرید و فروخت کا بیان۔

ہم سے عثمان بن ہیثم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو ابن جریج نے خبر دی، ان سے عمرو بن دینار نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عباس (رض) نے بیان کیا کہ ذوالمجاز اور عکاظ عہد جاہلیت کے بازار تھے جب اسلام آیا تو گویا لوگوں نے (جاہلیت کے ان بازاروں میں) خریدو فروخت کو برا خیال کیا اس پر (سورۃ البقرہ کی) یہ آیت نازل ہوئی تمہارے لیے کوئی حرج نہیں اگر تم اپنے رب کے فضل کی تلاش کرو، یہ حج کے زمانہ کے لیے تھا۔

【254】

باب: (آرام کر لینے کے بعد) وادی محصب سے آخری رات میں چل دینا۔

ہم سے عمرو بن حفص نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، ان سے ابراہیم نخعی نے بیان کیا، ان سے اسود نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ مکہ سے روانگی کی رات صفیہ (رض) حائضہ تھیں، انہوں نے کہا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے میں ان لوگوں کے روکنے کا باعث بن جاؤں گی، پھر نبی کریم ﷺ نے فرمایا عقرى حلقى کیا تو نے قربانی کے دن طواف الزیارۃ کیا تھا ؟ اس نے کہا کہ جی ہاں کرلیا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر چلو۔ ابوعبداللہ (امام بخاری (رح)) نے کہا، محمد بن سلام نے (اپنی روایت میں) یہ زیادتی کی ہے کہ ہم سے محاضر نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، ان سے ابراہیم نخعی نے، ان سے اسود نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ (حجتہ الوداع) میں مدینہ سے نکلے تو ہماری زبانوں پر صرف حج کا ذکر تھا۔ جب ہم مکہ پہنچ گئے تو آپ ﷺ نے ہمیں احرام کھول دینے کا حکم دیا (افعال عمرہ کے بعد جن کے ساتھ قربانی نہیں تھی) روانگی کی رات صفیہ بنت حی (رض) حائضہ ہوگئیں، نبی کریم ﷺ نے اس پر فرمایا عقرى حلقى ایسا معلوم ہوتا کہ تم ہمیں روکنے کا باعث بنو گی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا قربانی کے دن تم نے طواف الزیارۃ کرلیا تھا ؟ انہوں نے کہا کہ ہاں، اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر چلی چلو ! (عائشہ (رض) نے اپنے متعلق کہا کہ) میں نے کہا کہ یا رسول اللہ ! میں نے احرام نہیں کھولا ہے آپ نے فرمایا کہ تم تنعیم سے عمرہ کا احرام باندھ لو (اور عمرہ کرلو) چناچہ عائشہ (رض) کے ساتھ ان کے بھائی گئے (عائشہ (رض) نے) فرمایا کہ ہم رات کے آخر میں واپس لوٹ رہے تھے کہ آپ ﷺ سے ملاقات ہوئی، آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ ہم تمہار انتظار فلاں جگہ کریں گے۔

【255】

None

ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ( حجتہ الوداع ) میں مدینہ سے نکلے تو ہماری زبانوں پر صرف حج کا ذکر تھا۔ جب ہم مکہ پہنچ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں احرام کھول دینے کا حکم دیا ( افعال عمرہ کے بعد جن کے ساتھ قربانی نہیں تھی ) روانگی کی رات صفیہ بنت حی رضی اللہ عنہا حائضہ ہو گئیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا «عقرى حلقى» ایسا معلوم ہوتا کہ تم ہمیں روکنے کا باعث بنو گی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا قربانی کے دن تم نے طواف الزیارۃ کر لیا تھا؟ انہوں نے کہا کہ ہاں، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر چلی چلو! ( عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے متعلق کہا کہ ) میں نے کہا کہ یا رسول اللہ! میں نے احرام نہیں کھولا ہے آپ نے فرمایا کہ تم تنعیم سے عمرہ کا احرام باندھ لو ( اور عمرہ کر لو ) چنانچہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ ان کے بھائی گئے ( عائشہ رضی اللہ عنہا نے ) فرمایا کہ ہم رات کے آخر میں واپس لوٹ رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ہم تمہار انتظار فلاں جگہ کریں گے۔