21. حج کا بیان
باب: آٹھویں ذی الحجہ کو نماز ظہر کہاں پڑھی جائے۔
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسحاق ازرق نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے عبدالعزیز بن رفیع کے واسطے سے بیان کیا، کہا کہ میں نے انس بن مالک (رض) سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ نے ظہر اور عصر کی نماز آٹھویں ذی الحجہ میں کہاں پڑھی تھی ؟ اگر آپ کو نبی کریم ﷺ سے یاد ہے تو مجھے بتائیے۔ انہوں نے جواب دیا کہ منیٰ میں۔ میں نے پوچھا کہ بارہویں تاریخ کو عصر کہاں پڑھی تھی ؟ فرمایا کہ محصب میں۔ پھر انہوں نے فرمایا کہ جس طرح تمہارے حکام کرتے ہیں اسی طرح تم بھی کرو۔
باب: عرفات میں دو نمازوں (ظہر اور عصر) کو ملا کر پڑھنا۔
باب : عرفات میں دو نمازوں ( ظہر اور عصر) کو ملا کر پڑھنا اور عبداللہ بن عمر (رض) کی اگر نماز امام کے ساتھ چھوٹ جاتی تو بھی جمع کرتے۔ لیث نے بیان کیا کہ مجھ سے عقیل نے ابن شہاب سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے سالم نے خبر دی کہ حجاج بن یوسف جس سال عبداللہ بن زبیر (رض) سے لڑنے کے لیے مکہ میں اترا تو اس موقع پر اس نے عبداللہ بن عمر (رض) سے پوچھا کہ عرفہ کے دن وقوف میں آپ کیا کرتے تھے ؟ اس پر سالم (رح) بولے کہ اگر تو سنت پر چلنا چاہتا ہے تو عرفہ کے دن نماز دوپہر ڈھلتے ہی پڑھ لینا۔ عبداللہ بن عمر (رض) نے فرمایا کہ سالم نے سچ کہا، صحابہ رضی اللہ عنہم نبی کریم ﷺ کی سنت کے مطابق ظہر اور عصر ایک ہی ساتھ پڑھتے تھے۔ میں نے سالم سے پوچھا کہ کیا رسول اللہ ﷺ نے بھی اسی طرح کیا تھا ؟ سالم نے فرمایا اور کس کی سنت پر اس مسئلہ میں چلتے ہو۔
باب: قربانی کے جانوروں میں سے کیا کھائیں اور کیا خیرات کریں۔
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعیدقطان نے، ان سے ابن جریج نے، ان سے عطاء نے، انہوں نے جابر بن عبداللہ (رض) سے سنا، انہوں نے فرمایا کہ ہم اپنی قربانی کا گوشت منیٰ کے بعد تین دن سے زیادہ نہیں کھاتے تھے، پھر نبی کریم ﷺ نے ہمیں اجازت دے دی اور فرمایا کہ کھاؤ بھی اور توشہ کے طور پر ساتھ بھی لے جاؤ، چناچہ ہم نے کھایا اور ساتھ بھی لائے۔ ابن جریج نے کہا کہ میں نے عطاء سے پوچھا کیا جابر (رض) نے یہ بھی کہا تھا کہ یہاں تک کہ ہم مدینہ پہنچ گئے، انہوں نے کہا نہیں ایسا نہیں فرمایا۔
باب: جب حاجی دونوں جمروں کی رمی کر چکے تو ہموار زمین پر قبلہ رخ کھڑا ہو جائے۔
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے طلحہ بن یحییٰ نے بیان کیا، ان سے یونس نے زہری سے بیان کیا، ان سے سالم نے کہ عبداللہ بن عمر (رض) پہلے جمرہ کی رمی سات کنکریوں کے ساتھ کرتے اور ہر کنکری پر الله اکبر کہتے تھے، پھر آگے بڑھتے اور ایک نرم ہموار زمین پر پہنچ کر قبلہ رخ کھڑے ہوجاتے اسی طرح دیر تک کھڑے دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے، پھر جمرہ وسطیٰ کی رمی کرتے، پھر بائیں طرف بڑھتے اور ایک ہموار زمین پر قبلہ رخ ہو کر کھڑے ہوجاتے، یہاں بھی دیر تک کھڑے کھڑے دونوں ہاتھ اٹھا کر دعائیں کرتے رہتے، اس کے بعد والے نشیب سے جمرہ عقبہ کی رمی کرتے اس کے بعد آپ کھڑے نہ ہوتے بلکہ واپس چلے آتے اور فرماتے کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو اسی طرح کرتے دیکھا تھا۔
باب: اس سے متعلق جس نے مکہ سے واپس ہوتے ہوئے ذی طویٰ میں قیام کیا۔
باب : اس سے متعلق جس نے مکہ سے واپس ہوتے ہوئے ذی طویٰ میں قیام کیا اور محمد بن عیسیٰ نے کہا کہ ہم سے حماد بن سلمہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ایوب نے بیان کیا، ان سے نافع نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عمر (رض) جب مدینہ سے مکہ آتے تو ذی طویٰ میں رات گزارتے اور جب صبح صادق ہوتی تو مکہ میں داخل ہوتے۔ اسی طرح مکہ سے واپسی میں بھی ذی طویٰ سے گزرتے اور وہیں رات گزارتے اور فرماتے کہ نبی کریم ﷺ بھی اسی طرح کرتے تھے۔