26. شفعہ کا بیان
باب: شفعہ کا حق اس جائیداد میں ہوتا ہے جو تقسیم نہ ہوئی ہو جب حد بندی ہو جائے تو شفعہ کا حق باقی نہیں رہتا۔
ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدالواحد نے بیان کیا، ان سے معمر نے بیان کیا، ان سے زہری نے بیان کیا، ان سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا اور ان سے جابر بن عبداللہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہر اس چیز میں شفعہ کا حق دیا تھا جو ابھی تقسیم نہ ہوئی ہو۔ لیکن جب حدود مقرر ہوگئیں اور راستے بدل دیئے گئے تو پھر حق شفعہ باقی نہیں رہتا۔
باب: شفعہ کا حق رکھنے والے کے سامنے بیچنے سے پہلے شفعہ پیش کرنا۔
ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو ابن جریج نے خبر دی، انہوں نے کہا مجھ کو ابراہیم بن میسرہ نے خبر دی، انہیں عمرو بن شرید نے، کہا کہ میں سعد بن ابی وقاص (رض) کے پاس کھڑا تھا کہ مسور بن مخرمہ (رض) تشریف لائے اور اپنا ہاتھ میرے شانے پر رکھا۔ اتنے میں نبی کریم ﷺ کے غلام ابورافع (رض) بھی آگئے اور فرمایا کہ اے سعد ! تمہارے قبیلہ میں جو میرے دو گھر ہیں، انہیں تم خرید لو۔ سعد (رض) بولے کہ بخدا میں تو انہیں نہیں خریدوں گا۔ اس پر مسور (رض) نے فرمایا کہ نہیں جی تمہیں خریدنا ہوگا۔ سعد (رض) نے فرمایا کہ پھر میں چار ہزار سے زیادہ نہیں دے سکتا۔ اور وہ بھی قسط وار۔ ابورافع (رض) نے فرمایا کہ مجھے پانچ سو دینار ان کے مل رہے ہیں۔ اگر میں نے رسول اللہ ﷺ کی زبان سے یہ نہ سنا ہوتا کہ پڑوسی اپنے پڑوس کا زیادہ حقدار ہے۔ تو میں ان گھروں کو چار ہزار پر تمہیں ہرگز نہ دیتا۔ جب کہ مجھے پانچ سو دینار ان کے مل رہے ہیں۔ چناچہ وہ دونوں گھر ابورافع (رض) نے سعد (رض) کو دے دئیے۔
باب: کون پڑوسی زیادہ حقدار ہے۔
ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا (دوسری سند) اور مجھ سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے شبابہ نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابوعمران نے بیان کیا، کہا کہ میں نے طلحہ بن عبداللہ سے سنا، اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ میں نے پوچھا یا رسول اللہ ! میرے دو پڑوسی ہیں، میں ان دونوں میں سے کس کے پاس ہدیہ بھیجوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کا دروازہ تجھ سے زیادہ قریب ہو۔