27. حوالہ کا بیان
باب: کسی بھی نیک مرد کو مزدوری پر لگانا۔
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے ابوبردہ یزید بن عبداللہ نے کہا کہ میرے دادا، ابوبردہ عامر نے مجھے خبر دی اور انہیں ان کے باپ ابوموسیٰ اشعری (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، امانت دار خزانچی جو اس کو حکم دیا جائے، اس کے مطابق دل کی فراخی کے ساتھ (صدقہ ادا کر دے) وہ بھی ایک صدقہ کرنے والوں ہی میں سے ہے۔
باب: کسی بھی نیک مرد کو مزدوری پر لگانا۔
ہم سے مسدد نے بیان کیا کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے قرۃ بن خالد نے کہا کہ مجھ سے حمید بن ہلال نے بیان کیا، ان سے ابوبردہ نے بیان کیا اور ان سے ابوموسیٰ اشعری (رض) نے کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آیا۔ میرے ساتھ (میرے قبیلہ) اشعر کے دو مرد اور بھی تھے۔ میں نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ یہ دونوں صاحبان حاکم بننے کے طلب گار ہیں۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص حاکم بننے کا خود خواہشمند ہو، اسے ہم ہرگز حاکم نہیں بنائیں گے۔ (یہاں راوی کو شک ہے کہ) نبی کریم ﷺ نے لفظ لن یا لفظ لا استعمال فرمایا۔
باب: چند قیراط کی مزدوری پر بکریاں چرانا۔
ہم سے احمد بن محمد مکی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عمرو بن یحییٰ نے بیان کیا، ان سے ان کے دادا سعید بن عمرو نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسا نبی نہیں بھیجا جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں۔ اس پر آپ ﷺ کے صحابہ رضوان اللہ علیہم نے پوچھا کیا آپ نے بھی بکریاں چرائی ہیں ؟ فرمایا کہ ہاں ! کبھی میں بھی مکہ والوں کی بکریاں چند قیراط کی تنخواہ پر چرایا کرتا تھا۔
باب: جب کوئی مسلمان مزدور نہ ملے تو ضرورت کے وقت مشرکوں سے مزدوری کرانے کا بیان۔
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو ہشام بن عروہ نے خبر دی، انہیں معمر نے، انہیں زہری نے، انہیں عروہ بن زبیر نے اور انہیں عائشہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ اور ابوبکر (رض) نے (ہجرت کرتے وقت) بنو دیل کے ایک مرد کو نوکر رکھا جو بنو عبد بن عدی کے خاندان سے تھا۔ اور اسے بطور ماہر راہبر مزدوری پر رکھا تھا (حدیث کے لفظ) خريت کے معنی راہبری میں ماہر کے ہیں۔ اس نے اپنا ہاتھ پانی وغیرہ میں ڈبو کر عاص بن وائل کے خاندان سے عہد کیا تھا اور وہ کفار قریش ہی کے دین پر تھا۔ لیکن نبی کریم ﷺ اور ابوبکر (رض) کو اس پر بھروسہ تھا۔ اسی لیے اپنی سواریاں انہوں نے اسے دے دیں اور غار ثور پر تین رات کے بعد اس سے ملنے کی تاکید کی تھی۔ وہ شخص تین راتوں کے گزرتے ہی صبح کو دونوں حضرات کی سواریاں لے کر وہاں حاضر ہوگیا۔ اس کے بعد یہ حضرات وہاں سے عامر بن فہیرہ اور اس دیلی راہبر کو ساتھ لے کر چلے۔ یہ شخص ساحل کے کنارے سے آپ کو لے کر چلا تھا۔
باب: کوئی شخص کسی مزدور کو اس شرط پر رکھے کہ کام تین دن یا ایک مہینہ یا ایک سال کے بعد کرنا ہو گا تو جائز ہے اور جب وہ مقررہ وقت آ جائے تو دونوں اپنی شرط پر قائم رہیں گے۔
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عقیل نے کہ ابن شہاب نے بیان کیا کہ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی اور ان سے نبی کریم ﷺ کی بیوی عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر (رض) نے بنو دیل کے ایک ماہر راہبر سے مزدوری طے کرلی تھی۔ وہ شخص کفار قریش کے دین پر تھا۔ ان دونوں حضرات نے اپنی دونوں اونٹنیاں اس کے حوالے کردی تھیں اور کہہ دیا تھا کہ تین راتوں کے بعد صبح سویرے ہی سواروں کے ساتھ غار ثور پر آجائے۔
باب: جہاد میں کسی کو مزدور کر کے لے جانا۔
ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسماعیل بن علیہ نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں ابن جریج نے خبر دی، کہا کہ مجھے عطا بن ابی رباح نے خبر دی، انہیں صفوان بن یعلیٰ نے، ان کو یعلیٰ بن امیہ (رض) نے، انہوں نے کہا کہ میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ جیش عسرۃ (غزوۃ تبوک) میں گیا تھا یہ میرے نزدیک میرا سب سے زیادہ قابل اعتماد نیک عمل تھا۔ میرے ساتھ ایک مزدور بھی تھا وہ ایک شخص سے جھگڑا اور ان میں سے ایک نے دوسرے مقابل والے کی انگلی چبا ڈالی۔ دوسرے نے جو اپنا ہاتھ زور سے کھینچا تو اس کے آگے کے دانت بھی ساتھ ہی کھینچے چلے آئے اور گرگئے۔ اس پر وہ شخص اپنا مقدمہ لے کر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر پہنچا۔ نبی کریم ﷺ نے اس کے دانت (ٹوٹنے کا) کوئی قصاص نہیں دلوایا۔ بلکہ فرمایا کہ کیا وہ انگلی تمہارے منہ میں چبانے کے لیے چھوڑ دیتا۔ راوی نے کہا کہ میں خیال کرتا ہوں کہ آپ ﷺ نے یوں بھی فرمایا۔ جس طرح اونٹ چبا لیا کرتا ہے۔ ابن جریج نے کہا اور مجھ سے عبداللہ بن ابی ملیکہ نے بیان کیا اور ان سے ان کے دادا نے بالکل اسی طرح کا واقعہ بیان کیا کہ ایک شخص نے ایک دوسرے شخص کا ہاتھ کاٹ کھایا۔ (دوسرے نے اپنا ہاتھ کھینچا تو) اس کاٹنے والے کا دانت ٹوٹ گیا اور ابوبکر (رض) نے اس کا کوئی قصاص نہیں دلوایا۔
باب: جہاد میں کسی کو مزدور کر کے لے جانا۔
باب : ایک شخص کو ایک میعاد کے لیے نوکر رکھ لینا اور کام بیان نہ کرنا سورة قصص میں اللہ تعالیٰ نے (شعیب (علیہ السلام) کا قول یوں) بیان فرمایا ہے کہ إني أريد أن أنكحك إحدى ابنتى هاتين میں چاہتا ہوں کہ اپنی ان دو لڑکیوں میں سے کسی کا تم سے نکاح کر دوں آخر آیت على ما نقول وكيل تک۔ عربوں کے ہاں يأجر فلانا بول کر مراد ہوتا ہے، یعنی فلاں کو وہ مزدوری دیتا ہے۔ اسی لفظ سے مشتق تعزیت کے موقعہ پر یہ لفظ کہتے أجرک الله. (اللہ تجھ کو اس کا اجر عطا کرے) ۔
باب: اگر کوئی شخص کسی کو اس کام پر مقرر کرے کہ وہ گرتی ہوئی دیوار کو درست کر دے تو جائز ہے۔
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو ہشام بن یوسف نے خبر دی، کہا کہ مجھے یعلیٰ بن مسلم اور عمرو بن دینار نے سعید سے خبر دی۔ یہ دونوں حضرات (سعید بن جبیر سے اپنی روایتوں میں) ایک دوسرے سے کچھ زیادہ روایت کرتے ہیں۔ ابن جریج نے کہا میں نے یہ حدیث اوروں سے بھی سنی ہے۔ وہ بھی سعید بن جبیر سے نقل کرتے تھے کہ مجھ سے ابن عباس (رض) نے کہا، اور ان سے ابی بن کعب (رض) نے کہا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ پھر وہ دونوں (موسیٰ اور خضر علیہما السلام) چلے۔ تو انہیں ایک گاؤں میں ایک دیوار ملی جو گرنے ہی والی تھی۔ سعید نے کہا خضر (علیہ السلام) نے اپنے ہاتھ سے اس طرح اشارہ کیا اور ہاتھ اٹھایا، وہ دیوار سیدھی ہوگئی۔ یعلیٰ نے کہا میرا خیال ہے کہ سعید نے کہا، خضر (علیہ السلام) نے دیوار کو اپنے ہاتھ سے چھوا، اور وہ سیدھی ہوگئی، تب موسیٰ (علیہ السلام) بولے کہ اگر آپ چاہتے تو اس کام کی مزدوری لے سکتے تھے۔ سعید نے کہا کہ (موسیٰ (علیہ السلام) کی مراد یہ تھی کہ) کوئی ایسی چیز مزدوری میں (آپ کو لینی چاہیے تھی) جسے ہم کھا سکتے (کیونکہ بستی والوں نے ان کو کھانا نہیں کھلایا تھا) ۔
باب: آدھے دن کے لیے مزدور لگانا (جائز ہے)۔
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، ان سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے، ان سے نافع نے، ان سے ابن عمر (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، تمہاری اور یہود و نصاریٰ کی مثال ایسی ہے کہ کسی شخص نے کئی مزدور کام پر لگائے اور کہا کہ میرا کام ایک قیراط پر صبح سے دوپہر تک کون کرے گا ؟ اس پر یہودیوں نے (صبح سے دوپہر تک) اس کا کام کیا۔ پھر اس نے کہا کہ آدھے دن سے عصر تک ایک قیراط پر میرا کام کون کرے گا ؟ چناچہ یہ کام پھر نصاریٰ نے کیا، پھر اس شخص نے کہا کہ عصر کے وقت سے سورج ڈوبنے تک میرا کام دو قیراط پر کون کرے گا ؟ اور تم (امت محمدیہ) ہی وہ لوگ ہو (جن کو یہ درجہ حاصل ہوا) اس پر یہود و نصاریٰ نے برا مانا، وہ کہنے لگے کہ کام تو ہم زیادہ کریں اور مزدوری ہمیں کم ملے، پھر اس شخص نے کہا کہ اچھا یہ بتاؤ کیا تمہارا حق تمہیں پورا نہیں ملا ؟ سب نے کہا کہ ہمیں تو ہمارا پورا حق مل گیا۔ اس شخص نے کہا کہ پھر یہ میرا فضل ہے میں جسے چاہوں زیادہ دوں۔
باب: عصر کی نماز تک مزدور لگانا۔
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن عمر (رض) کے غلام عبداللہ بن دینار نے بیان کیا، اور ان سے عبداللہ بن عمر بن خطاب (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تمہاری اور یہود و نصاریٰ کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص نے چند مزدور کام پر لگائے اور کہا کہ ایک ایک قیراط پر آدھے دن تک میری مزدوری کون کرے گا ؟ پس یہود نے ایک قیراط پر یہ مزدوری کی۔ پھر نصاریٰ نے بھی ایک قیراط پر کام کیا۔ پھر تم لوگوں نے عصر سے مغرب تک دو دو قیراط پر کام کیا۔ اس پر یہود و نصاریٰ غصہ ہوگئے کہ ہم نے تو زیادہ کام کیا اور مزدوری ہم کو کم ملی۔ اس پر اس شخص نے کہا کہ کیا میں نے تمہارا حق ذرہ برابر بھی مارا ہے ؟ تو انہوں نے کہا کہ نہیں۔ پھر اس شخص نے کہا کہ یہ میرا فضل ہے جسے چاہوں زیادہ دیتا ہوں۔
باب: اس امر کا بیان کہ مزدور کی مزدوری مار لینے کا گناہ کتنا ہے۔
ہم سے یوسف بن محمد نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے یحییٰ بن سلیم نے بیان کیا، ان سے اسماعیل بن امیہ نے، ان سے سعید بن ابی سعید نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے بتلایا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ تین قسم کے لوگ ایسے ہیں کہ جن کا قیامت میں میں خود مدعی بنوں گا۔ ایک تو وہ شخص جس نے میرے نام پہ عہد کیا، اور پھر وعدہ خلافی کی۔ دوسرا وہ جس نے کسی آزاد آدمی کو بیچ کر اس کی قیمت کھائی اور تیسرا وہ شخص جس نے کسی کو مزدور کیا، پھر کام تو اس سے پورا لیا، لیکن اس کی مزدوری نہ دی۔
باب: عصر سے لے کر رات تک مزدوری کرانا۔
ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے یزید بن عبداللہ نے، ان سے ابوبردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مسلمانوں کی اور یہود و نصاریٰ کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص نے چند آدمیوں کو مزدور کیا کہ یہ سب اس کا ایک کام صبح سے رات تک مقررہ اجرت پر کریں۔ چناچہ کچھ لوگوں نے یہ کام دوپہر تک کیا۔ پھر کہنے لگے کہ ہمیں تمہاری اس مزدوری کی ضرورت نہیں ہے جو تم نے ہم سے طے کی ہے بلکہ جو کام ہم نے کردیا وہ بھی غلط رہا۔ اس پر اس شخص نے کہا کہ ایسا نہ کرو۔ اپنا کام پورا کرلو اور اپنی پوری مزدوری لے جاؤ، لیکن انہوں نے انکار کردیا اور کام چھوڑ کر چلے گئے۔ آخر اس نے دوسرے مزدور لگائے اور ان سے کہا کہ باقی دن پورا کرلو تو میں تمہیں وہی مزدوری دوں گا جو پہلے مزدوروں سے طے کی تھی۔ چناچہ انہوں نے کام شروع کیا، لیکن عصر کی نماز کا وقت آیا تو انہوں نے بھی یہی کیا کہ ہم نے جو تمہارا کام کردیا ہے وہ بالکل بیکار رہا۔ وہ مزدوری بھی تم اپنے ہی پاس رکھو جو تم نے ہم سے طے کی تھی۔ اس شخص نے ان کو سمجھایا کہ اپنا باقی کام پورا کرلو۔ دن بھی اب تھوڑا ہی باقی رہ گیا ہے، لیکن وہ نہ مانے، آخر اس شخص نے دوسرے مزدور لگائے کہ یہ دن کا جو حصہ باقی رہ گیا ہے اس میں یہ کام کردیں۔ چناچہ ان لوگوں نے سورج غروب ہونے تک دن کے بقیہ حصہ میں کام پورا کیا اور پہلے اور دوسرے مزدوروں کی مزدوری بھی سب ان ہی کو ملی۔ تو مسلمانوں کی اور اس نور کی جس کو انہوں نے قبول کیا، یہی مثال ہے۔
باب: اگر کسی نے کوئی مزدور کیا اور وہ مزدور اپنی اجرت لیے بغیر چلا گیا پھر (مزدور کی اس چھوڑی ہوئی رقم یا جنس سے) مزدوری لینے والے نے کوئی تجارتی کام کیا۔ اس طرح وہ اصل مال بڑھ گیا اور وہ شخص جس نے کسی دوسرے کے مال سے کوئی کام کیا اور اس میں نفع ہوا (ان سب کے بارے میں کیا حکم ہے)۔
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے خبر دی، ان سے سالم بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا، آپ ﷺ نے فرمایا کہ پہلی امت کے تین آدمی کہیں سفر میں جا رہے تھے۔ رات ہونے پر رات گزارنے کے لیے انہوں نے ایک پہاڑ کے غار میں پناہ لی، اور اس میں اندر داخل ہوگئے۔ اتنے میں پہاڑ سے ایک چٹان لڑھ کی اور اس نے غار کا منہ بند کردیا۔ سب نے کہا کہ اب اس غار سے تمہیں کوئی چیز نکالنے والی نہیں، سوا اس کے کہ تم سب، اپنے سب سے زیادہ اچھے عمل کو یاد کر کے اللہ تعالیٰ سے دعا کرو۔ اس پر ان میں سے ایک شخص نے اپنی دعا شروع کی کہ اے اللہ ! میرے ماں باپ بہت بوڑھے تھے اور میں روزانہ ان سے پہلے گھر میں کسی کو بھی دودھ نہیں پلاتا تھا، نہ اپنے بال بچوں کو، اور نہ اپنے غلام وغیرہ کو۔ ایک دن مجھے ایک چیز کی تلاش میں رات ہوگئی اور جب میں گھر واپس ہوا تو وہ (میرے ماں باپ) سو چکے تھے۔ پھر میں نے ان کے لیے شام کا دودھ نکالا۔ جب ان کے پاس لایا تو وہ سوئے ہوئے تھے۔ مجھے یہ بات ہرگز اچھی معلوم نہیں ہوئی کہ ان سے پہلے اپنے بال بچوں یا اپنے کسی غلام کو دودھ پلاؤں، اس لیے میں ان کے سرہانے کھڑا رہا۔ دودھ کا پیالہ میرے ہاتھ میں تھا اور میں ان کے جاگنے کا انتظار کر رہا تھا۔ یہاں تک کہ صبح ہوگئی۔ اب میرے ماں باپ جاگے اور انہوں نے اپنا شام کا دودھ اس وقت پیا، اے اللہ ! اگر میں نے یہ کام محض تیری رضا حاصل کرنے کے لیے کیا تھا تو اس چٹان کی آفت کو ہم سے ہٹا دے۔ اس دعا کے نتیجہ میں وہ غار تھوڑا سا کھل گیا۔ مگر نکلنا اب بھی ممکن نہ تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ پھر دوسرے نے دعا کی، اے اللہ ! میرے چچا کی ایک لڑکی تھی۔ جو سب سے زیادہ مجھے محبوب تھی، میں نے اس کے ساتھ برا کام کرنا چاہا، لیکن اس نے نہ مانا۔ اسی زمانہ میں ایک سال قحط پڑا۔ تو وہ میرے پاس آئی میں نے اسے ایک سو بیس دینار اس شرط پر دیئے کہ وہ خلوت میں مجھے سے برا کام کرائے۔ چناچہ وہ راضی ہوگئی۔ اب میں اس پر قابو پا چکا تھا۔ لیکن اس نے کہا کہ تمہارے لیے میں جائز نہیں کرتی کہ اس مہر کو تم حق کے بغیر توڑو۔ یہ سن کر میں اپنے برے ارادے سے باز آگیا اور وہاں سے چلا آیا۔ حالانکہ وہ مجھے سب سے بڑھ کر محبوب تھی اور میں نے اپنا دیا ہوا سونا بھی واپس نہیں لیا۔ اے اللہ ! اگر یہ کام میں نے صرف تیری رضا کے لیے کیا تھا تو ہماری اس مصیبت کو دور کر دے۔ چناچہ چٹان ذرا سی اور کھس کی، لیکن اب بھی اس سے باہر نہیں نکلا جاسکتا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اور تیسرے شخص نے دعا کی۔ اے اللہ ! میں نے چند مزدور کئے تھے۔ پھر سب کو ان کی مزدوری پوری دے دی، مگر ایک مزدور ایسا نکلا کہ وہ اپنی مزدوری ہی چھوڑ گیا۔ میں نے اس کی مزدوری کو کاروبار میں لگا دیا اور بہت کچھ نفع حاصل ہوگیا پھر کچھ دنوں کے بعد وہی مزدور میرے پاس آیا اور کہنے لگا اللہ کے بندے ! مجھے میری مزدوری دیدے، میں نے کہا یہ جو کچھ تو دیکھ رہا ہے۔ اونٹ، گائے، بکری اور غلام یہ سب تمہاری مزدوری ہی ہے۔ وہ کہنے لگا اللہ کے بندے ! مجھ سے مذاق نہ کر۔ میں نے کہا میں مذاق نہیں کرتا، چناچہ اس شخص نے سب کچھ لیا اور اپنے ساتھ لے گیا۔ ایک چیز بھی اس میں سے باقی نہیں چھوڑی۔ تو اے اللہ ! اگر میں نے یہ سب کچھ تیری رضا مندی حاصل کرنے کے لیے کیا تھا تو تو ہماری اس مصیبت کو دور کر دے۔ چناچہ وہ چٹان ہٹ گئی اور وہ سب باہر نکل کر چلے گئے۔
باب: جس نے اپنی پیٹھ پر بوجھ اٹھانے کی مزدوری کی یعنی «حمالی» کی اور پھر اسے صدقہ کر دیا اور «حمال» کی اجرت کا بیان۔
ہم سے سعید بن یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے باپ (یحییٰ بن سعید قریش) نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، ان سے شفیق نے اور ان سے ابومسعود انصاری (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب ہمیں صدقہ کرنے کا حکم دیا، تو بعض لوگ بازاروں میں جا کر بوجھ اٹھاتے جن سے ایک مد مزدوری ملتی (وہ اس میں سے بھی صدقہ کرتے) آج ان میں سے کسی کے پاس لاکھ لاکھ (درہم یا دینار) موجود ہیں۔ شفیق نے کہا ہمارا خیال ہے کہ ابومسعود (رض) نے کسی سے اپنے ہی تئیں مراد لیا تھا۔
باب: دلالی کی اجرت لینا۔
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا، ان سے معمر نے بیان کیا، ان سے ابن طاؤس نے، ان سے ان کے باپ نے، اور ان سے ابن عباس (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے (تجارتی) قافلوں سے (منڈی سے آگے جا کر) ملاقات کرنے سے منع فرمایا تھا۔ اور یہ کہ شہری دیہاتی کا مال نہ بیچیں، میں نے پوچھا، اے ابن عباس (رض) ! شہری دیہاتی کا مال نہ بیچیں کا کیا مطلب ہے ؟ انہوں نے فرمایا کہ مراد یہ ہے کہ ان کے دلال نہ بنیں۔
باب: کیا کوئی مسلمان دار الحرب میں کسی مشرک کی مزدوری کر سکتا ہے؟
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، ان سے مسلم بن صبیح نے، ان سے مسروق نے، ان سے خباب بن ارت (رض) نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں لوہار تھا، میں نے عاص بن وائل (مشرک) کا کام کیا۔ جب میری بہت سی مزدوری اس کے سر چڑھ گئی تو میں اس کے پاس تقاضا کرنے آیا، وہ کہنے لگا کہ اللہ کی قسم ! میں تمہاری مزدوری اس وقت تک نہیں دوں گا جب تک تم محمد ﷺ سے نہ پھر جاؤ۔ میں نے کہا، اللہ کی قسم ! یہ تو اس وقت بھی نہ ہوگا جب تو مر کے دوبارہ زندہ ہوگا۔ اس نے کہا، کیا میں مرنے کے بعد پھر دوبارہ زندہ کیا جاؤں گا ؟ میں نے کہا کہ ہاں ! اس پر وہ بولا پھر کیا ہے۔ وہیں میرے پاس مال اور اولاد ہوگی اور وہیں میں تمہارا قرض ادا کر دوں گا۔ اس پر قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی أفرأيت الذي کفر بآياتنا وقال لأوتين مالا وولدا اے پیغمبر ! کیا تو نے اس شخص کو دیکھا جس نے ہماری آیتوں کا انکار کیا، اور کہا کہ مجھے ضرور وہاں مال و اولاد دی جائے گی۔
باب: سورۃ فاتحہ پڑھ کر عربوں پر پھونکنا اور اس پر اجرت لے لینا۔
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے ابوبشر نے بیان کیا، ان سے ابوالمتوکل نے بیان کیا، اور ان سے ابو سعید خدری (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کے کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم سفر میں تھے۔ دوران سفر میں وہ عرب کے ایک قبیلہ پر اترے۔ صحابہ نے چاہا کہ قبیلہ والے انہیں اپنا مہمان بنالیں، لیکن انہوں نے مہمانی نہیں کی، بلکہ صاف انکار کردیا۔ اتفاق سے اسی قبیلہ کے سردار کو سانپ نے ڈس لیا، قبیلہ والوں نے ہر طرح کی کوشش کر ڈالی، لیکن ان کا سردار اچھا نہ ہوا۔ ان کے کسی آدمی نے کہا کہ چلو ان لوگوں سے بھی پوچھیں جو یہاں آ کر اترے ہیں۔ ممکن ہے کوئی دم جھاڑنے کی چیز ان کے پاس ہو۔ چناچہ قبیلہ والے ان کے پاس آئے اور کہا کہ بھائیو ! ہمارے سردار کو سانپ نے ڈس لیا ہے۔ اس کے لیے ہم نے ہر قسم کی کوشش کر ڈالی لیکن کچھ فائدہ نہ ہوا۔ کیا تمہارے پاس کوئی چیز دم کرنے کی ہے ؟ ایک صحابی نے کہا کہ قسم اللہ کی میں اسے جھاڑ دوں گا لیکن ہم نے تم سے میزبانی کے لیے کہا تھا اور تم نے اس سے انکار کردیا۔ اس لیے اب میں بھی اجرت کے بغیر نہیں جھاڑ سکتا، آخر بکریوں کے ایک گلے پر ان کا معاملہ طے ہوا۔ وہ صحابی وہاں گئے اور الحمد لله رب العالمين پڑھ پڑھ کر دم کیا۔ ایسا معلوم ہوا جیسے کسی کی رسی کھول دی گئی ہو۔ وہ سردار اٹھ کر چلنے لگا، تکلیف و درد کا نام و نشان بھی باقی نہیں تھا۔ بیان کیا کہ پھر انہوں نے طے شدہ اجرت صحابہ کو ادا کردی۔ کسی نے کہا کہ اسے تقسیم کرلو، لیکن جنہوں نے جھاڑا تھا، وہ بولے کہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر پہلے ہم آپ ﷺ سے اس کا ذکر کرلیں۔ اس کے بعد دیکھیں گے کہ آپ ﷺ کیا حکم دیتے ہیں۔ چناچہ سب حضرات رسول اللہ ﷺ خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ ﷺ سے اس کا ذکر کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا یہ تم کو کیسے معلوم ہوا کہ سورة فاتحہ بھی ایک رقیہ ہے ؟ اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم نے ٹھیک کیا۔ اسے تقسیم کرلو اور ایک میرا حصہ بھی لگاؤ۔ یہ فرما کر رسول اللہ ﷺ ہنس پڑے۔ شعبہ نے کہا کہ ابوالبشر نے ہم سے بیان کیا، انہوں نے ابوالمتوکل سے ایسا ہی سنا۔
باب: غلام لونڈی پر روزانہ ایک رقم مقرر کر دینا۔
ہم سے محمد بن یوسف بیکندی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے حمید طویل نے اور ان سے انس بن مالک (رض) نے کہ ابوطیبہ حجام نے نبی کریم ﷺ کے پچھنا لگایا، تو آپ ﷺ نے انہیں اجرت میں ایک صاع یا دو صاع غلہ دینے کا حکم دیا اور ان کے مالکوں سے سفارش کی کہ جو محصول اس پر مقرر ہے اس میں کچھ کمی کردیں۔
باب: پچھنا لگانے والے کی اجرت کا بیان۔
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے وہیب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابن طاؤس نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے پچھنا لگوایا اور پچھنا لگانے والے کو اجرت بھی دی۔ اگر پچھنا لگوانا ناجائز ہوتا تو آپ ﷺ نہ پچھنا لگواتے نہ اجرت دیتے۔
باب: پچھنا لگانے والے کی اجرت کا بیان۔
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، ان سے خالد نے، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے پچھنا لگوایا اور پچھنا لگانے والے کو اجرت بھی دی، اگر اس میں کوئی کراہت ہوتی تو آپ ﷺ کا ہے کو دیتے۔
باب: پچھنا لگانے والے کی اجرت کا بیان۔
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے مسعر نے بیان کیا، ان سے عمرو بن عامر نے بیان کیا کہ میں نے انس (رض) سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ نبی کریم ﷺ نے پچھنا لگوایا، اور آپ ﷺ کسی کی مزدوری کے معاملے میں کسی پر ظلم نہیں کرتے تھے۔
باب: اس کے متعلق جس نے کسی غلام کے مالکوں سے غلام کے اوپر مقررہ ٹیکس میں کمی کے لیے سفارش کی۔
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے حمید طویل نے بیان کیا، اور ان سے انس بن مالک (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک پچھنا لگانے والے غلام (ابوطیبہ) کو بلایا، انہوں نے آپ ﷺ کے پچھنا لگایا۔ اور آپ ﷺ نے انہیں ایک یا دو صاع، یا ایک یا دو مد (راوی حدیث شعبہ کو شک تھا) اجرت دینے کے لیے حکم فرمایا۔ آپ ﷺ نے (ان کے مالکوں سے بھی) ان کے بارے میں سفارش فرمائی تو ان کا خراج کم کردیا گیا۔
باب: رنڈی اور فاحشہ لونڈی کی خرچی کا بیان۔
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے ابوبکر بن عبدالرحمٰن بن حارث بن ہشام نے بیان کیا، ان سے ابومسعود انصاری (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے کتے کی قیمت، زانیہ (کے زنا) کی خرچی اور کاہن کی مزدوری سے منع فرمایا۔
باب: رنڈی اور فاحشہ لونڈی کی خرچی کا بیان۔
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے محمد بن حجادہ نے بیان کیا، ان سے ابوحازم نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے باندیوں کی زنا کی کمائی سے منع فرمایا تھا۔
باب: نر کی جفتی (پر اجرت) لینا۔
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالوارث اور اسماعیل بن ابراہیم نے بیان کیا، ان سے علی بن حکم نے، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے نرکدانے کی اجرت لینے سے منع فرمایا۔
باب: اگر کوئی زمین کو ٹھیکہ پر لے پھر ٹھیکہ دینے والا یا لینے والا مر جائے۔
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے جویریہ بن اسماء نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے (یہودیوں کو) خیبر کی زمین دے دی تھی کہ اس میں محنت کے ساتھ کاشت کریں اور پیداوار کا آدھا حصہ خود لے لیا کریں۔ ابن عمر (رض) نے نافع سے یہ بیان کیا کہ زمین کچھ کرایہ پر دی جاتی تھی۔ نافع نے اس کرایہ کی تعیین بھی کردی تھی لیکن وہ مجھے یاد نہیں رہا۔ اور رافع بن خدیج (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے زمینوں کو کرایہ پر دینے سے منع فرمایا تھا اور عبیداللہ نے نافع سے بیان کیا، اور ان سے ابن عمر (رض) نے کہ (خیبر کے یہودیوں کے ساتھ وہاں کی زمین کا معاملہ برابر چلتا رہا) یہاں تک کہ عمر (رض) نے انہیں جلا وطن کردیا۔
باب: حوالہ یعنی قرض کو کسی دوسرے پر اتارنے کا بیان اور اس کا بیان کہ حوالہ میں رجوع کرنا درست ہے یا نہیں۔
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک (رح) نے خبر دی، انہیں ابوالزناد نے، انہیں اعرج نے اور انہیں ابوہریرہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (قرض ادا کرنے میں) مالدار کی طرف سے ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔ اور اگر تم میں سے کسی کا قرض کسی مالدار پر حوالہ دیا جائے تو اسے قبول کرے۔
باب: جب قرض کسی مالدار کے حوالہ کر دیا جائے تو اس کا رد کرنا جائز نہیں۔
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے ابن ذکوان نے، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مالدار کی طرف سے (قرض ادا کرنے میں) ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔ اور اگر کسی کا قرض کسی مالدار کے حوالہ کیا جائے تو وہ اسے قبول کرے۔
باب: اگر کسی میت کا قرض کسی (زندہ) شخص کے حوالہ کیا جائے تو جائز ہے۔
ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یزید بن ابی عبید نے بیان کیا، ان سے سلمہ بن اکوع (رض) نے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں موجود تھے کہ ایک جنازہ لایا گیا۔ لوگوں نے آپ ﷺ سے عرض کیا کہ اس کی نماز پڑھا دیجئیے۔ اس پر آپ ﷺ نے پوچھا کیا اس پر کوئی قرض ہے ؟ لوگوں نے بتایا کہ نہیں کوئی قرض نہیں ہے۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ میت نے کچھ مال بھی چھوڑا ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا کوئی مال بھی نہیں چھوڑا۔ آپ ﷺ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔ اس کے بعد ایک دوسرا جنازہ لایا گیا لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ ان کی بھی نماز جنازہ پڑھا دیجئیے۔ نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا، کسی کا قرض بھی میت پر ہے ؟ عرض کیا گیا کہ ہے۔ پھر آپ ﷺ نے دریافت فرمایا، کچھ مال بھی چھوڑا ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ تین دینار چھوڑے ہیں۔ آپ نے ان کی بھی نماز جنازہ پڑھائی۔ پھر تیسرا جنازہ لایا گیا۔ لوگوں نے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ اس کی نماز پڑھا دیجئیے۔ نبی کریم ﷺ نے ان کے متعلق بھی وہی دریافت فرمایا، کیا کوئی مال ترکہ چھوڑا ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ نہیں۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا، اور اس پر کسی کا قرض بھی ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ ہاں تین دینار ہیں۔ آپ ﷺ نے اس پر فرمایا کہ پھر اپنے ساتھی کی تم ہی لوگ نماز پڑھ لو۔ ابوقتادۃ (رض) بولے، یا رسول اللہ ! آپ ﷺ ان کی نماز پڑھا دیجئیے، ان کا قرض میں ادا کر دوں گا۔ تب آپ ﷺ نے اس پر نماز پڑھائی۔
باب: قرضوں وغیرہ کی حاضر ضمانت اور مالی ضمانت کے بیان میں۔
باب : قرضوں وغیرہ کی حاضر ضمانت اور مالی ضمانت کے بیان میں اور ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے محمد بن حمزہ بن عمرو الاسلمی نے اور ان سے ان کے والد (حمزہ) نے کہ عمر (رض) نے (اپنے عہد خلافت میں) انہیں زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا۔ (جہاں وہ زکوٰۃ وصول کر رہے تھے وہاں کے) ایک شخص نے اپنی بیوی کی باندی سے ہمبستری کرلی۔ حمزہ نے اس کی ایک شخص سے پہلے ضمانت لی، یہاں تک کہ وہ عمر (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ عمر (رض) نے اس شخص کو سو کوڑوں کی سزا دی تھی۔ اس آدمی نے جو جرم اس پر لگا تھا اس کو قبول کیا تھا لیکن جہالت کا عذر کیا تھا۔ عمر (رض) نے اس کو معذور رکھا تھا اور جریر اور اشعث نے عبداللہ بن مسعود سے مرتدوں کے بارے میں کہا کہ ان سے توبہ کرائیے اور ان کی ضمانت طلب کیجئے (کہ دوبارہ مرتد نہ ہوں گے) چناچہ انہوں نے توبہ کرلی اور ضمانت خود انہیں کے قبیلہ والوں نے دے دی۔ حماد نے کہا جس کا حاضر ضامن ہو اگر وہ مرجائے تو ضامن پر کچھ تاوان نہ ہوگا۔ لیکن حکم نے کہا کہ ذمہ کا مال دینا پڑے گا۔ ابوعبداللہ (امام بخاری (رح)) نے کہا کہ لیث نے بیان کیا، ان سے جعفر بن ربیعہ نے، ان سے عبدالرحمٰن بن ہرمز نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے بنی اسرائیل کے ایک شخص کا ذکر فرمایا کہ انہوں نے بنی اسرائیل کے ایک دوسرے آدمی سے ایک ہزار دینار قرض مانگے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے ایسے گواہ لا جن کی گواہی پر مجھے اعتبار ہو۔ قرض مانگنے والا بولا کہ گواہ تو بس اللہ ہی کافی ہے پھر انہوں نے کہا کہ اچھا کوئی ضامن لا۔ قرض مانگنے والا بولا کہ ضامن بھی اللہ ہی کافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تو نے سچی بات کہی۔ چناچہ اس نے ایک مقررہ مدت کے لیے اس کو قرض دے دیا۔ یہ صاحب قرض لے کر دریائی سفر پر روانہ ہوئے اور پھر اپنی ضرورت پوری کر کے کسی سواری (کشتی وغیرہ) کی تلاش کی تاکہ اس سے دریا پار کر کے اس مقررہ مدت تک قرض دینے والے کے پاس پہنچ سکے جو اس سے طے پائی تھی۔ (اور اس کا قرض ادا کر دے) لیکن کوئی سواری نہیں ملی۔ آخر ایک لکڑی لی اور اس میں سوراخ کیا۔ پھر ایک ہزار دینار اور ایک (اس مضمون کا) خط کہ اس کی طرف سے قرض دینے والے کی طرف (یہ دینار بھیجے جا رہے ہیں) اور اس کا منہ بند کردیا۔ اور اسے دریا پر لے آئے، پھر کہا، اے اللہ ! تو خوب جانتا ہے کہ میں نے فلاں شخص سے ایک ہزار دینار قرض لیے تھے۔ اس نے مجھ سے ضامن مانگا تو میں نے کہہ دیا تھا کہ میرا ضامن اللہ تعالیٰ کافی ہے اور وہ بھی تجھ پر راضی ہوا۔ اس نے مجھ سے گواہ مانگا تو اس کا بھی جواب میں نے یہی دیا کہ اللہ پاک گواہ کافی ہے تو وہ مجھ پر راضی ہوگیا اور (تو جانتا ہے کہ) میں نے بہت کوشش کی کہ کوئی سواری ملے جس کے ذریعہ میں اس کا قرض اس تک (مدت مقررہ میں) پہنچا سکوں۔ لیکن مجھے اس میں کامیابی نہیں ہوئی۔ اس لیے اب میں اس کو تیرے ہی حوالے کرتا ہوں (کہ تو اس تک پہنچا دے) چناچہ اس نے وہ لکڑی جس میں رقم تھی دریا میں بہا دی۔ اب وہ دریا میں تھی اور وہ صاحب (قرض دار) واپس ہوچکے تھے۔ اگرچہ فکر اب بھی یہی تھا کہ کس طرح کوئی جہاز ملے۔ جس کے ذریعہ وہ اپنے شہر میں جاسکیں۔ دوسری طرف وہ صاحب جنہوں نے قرض دیا تھا اسی تلاش میں (بندرگاہ) آئے کہ ممکن ہے کوئی جہاز ان کا مال لے کر آیا ہو۔ لیکن وہاں انہیں ایک لکڑی ملی۔ وہی جس میں مال تھا۔ انہوں نے لکڑی اپنے گھر میں ایندھن کے لیے لے لی۔ لیکن جب اسے چیرا تو اس میں سے دینار نکلے اور ایک خط بھی نکلا۔ (کچھ دنوں کے بعد جب وہ صاحب اپنے شہر آئے) تو قرض خواہ کے گھر آئے۔ اور (یہ خیال کر کے کہ شاید وہ لکڑی نہ مل سکی ہو دوبارہ) ایک ہزار دینا ان کی خدمت میں پیش کردیئے۔ اور کہا کہ قسم اللہ کی ! میں تو برابر اسی کوشش میں رہا کہ کوئی جہاز ملے تو تمہارے پاس تمہارا مال لے کر پہنچوں لیکن اس دن سے پہلے جب کہ میں یہاں پہنچنے کے لیے سوار ہوا۔ مجھے اپنی کوششوں میں کامیابی نہیں ہوئی۔ پھر انہوں نے پوچھا اچھا یہ تو بتاؤ کہ کوئی چیز کبھی تم نے میرے نام بھیجی تھی ؟ مقروض نے جواب دیا بتا تو رہا ہوں آپ کو کہ کوئی جہاز مجھے اس جہاز سے پہلے نہیں ملا جس سے میں آج پہنچا ہوں۔ اس پر قرض خواہ نے کہا کہ پھر اللہ نے بھی آپ کا وہ قرضا ادا کردیا۔ جسے آپ نے لکڑی میں بھیجا تھا۔ چناچہ وہ صاحب اپنا ہزار دینار لے کر خوش خوش واپس لوٹ گئے۔
باب: قرض کا بیان۔
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس جب کسی ایسی میت کو لایا جاتا جس پر کسی کا قرض ہوتا تو آپ ﷺ فرماتے کہ کیا اس نے اپنے قرض کے ادا کرنے کے لیے بھی کچھ چھوڑا ہے ؟ پھر اگر کوئی آپ کو بتادیتا کہ ہاں اتنا مال ہے جس سے قرض ادا ہوسکتا ہے۔ تو آپ ﷺ اس کی نماز پڑھاتے ورنہ آپ ﷺ مسلمانوں ہی سے فرما دیتے کہ اپنے ساتھی کی نماز پڑھ لو۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ پر فتح کے دروازے کھول دیئے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں مسلمانوں کا خود ان کی ذات سے بھی زیادہ مستحق ہوں۔ اس لیے اب جو بھی مسلمان وفات پا جائے اور وہ مقروض رہا ہو تو اس کا قرض ادا کرنا میرے ذمے ہے اور جو مسلمان مال چھوڑ جائے وہ اس کے وارثوں کا حق ہے۔