34. گری پڑی چیز اٹھانے کا بیان
باب: اور جب لقطہٰ کا مالک اس کی صحیح نشانی بتا دے تو اسے اس کے حوالہ کر دے۔
ہم سے آدم نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا (دوسری سند) اور مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، ان سے غندر نے، ان سے شعبہ نے، ان سے سلمہ نے کہ میں نے سوید بن غفلہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے ابی بن کعب (رض) سے ملاقات کی تو انہوں نے کہا کہ میں نے سو دینار کی ایک تھیلی (کہیں راستے میں پڑی ہوئی) پائی۔ میں اسے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لایا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایک سال تک اس کا اعلان کرتا رہ۔ میں نے ایک سال تک اس کا اعلان کیا، لیکن مجھے کوئی ایسا شخص نہیں ملا جو اسے پہچان سکتا۔ اس لیے میں پھر آپ ﷺ کی خدمت میں آیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایک سال تک اس کا اعلان کرتا رہ۔ میں نے پھر (سال بھر) اعلان کیا۔ لیکن ان کا مالک مجھے نہیں ملا۔ تیسری مرتبہ حاضر ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس تھیلی کی بناوٹ، دینار کی تعداد اور تھیلی کے بندھن کو محفوظ رکھ۔ اگر اس کا مالک آجائے تو (علامت پوچھ کے) اسے واپس کردینا، ورنہ اپنے خرچ میں اسے استعمال کرلے چناچہ میں اسے اپنے اخراجات میں لایا۔ (شعبہ نے بیان کیا کہ) پھر میں نے سلمہ سے اس کے بعد مکہ میں ملاقات کی تو انہوں کہا کہ مجھے یاد نہیں رسول اللہ ﷺ نے (حدیث میں) تین سال تک (اعلان کرنے کے لیے فرمایا تھا) یا صرف ایک سال کے لیے۔
باب: بھولے بھٹکے اونٹ کا بیان۔
ہم سے عمرو بن عباس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالرحمٰن بن مہدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے، ان سے ربیعہ نے، ان سے منبعث کے غلام یزید نے، اور ان سے زید بن خالد جہنی (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ایک دیہاتی حاضر ہوا۔ اور راستے میں پڑی ہوئی کسی چیز کو اٹھانے کے بارے میں آپ ﷺ سے سوال کیا۔ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ ایک سال تک اس کا اعلان کرتا رہ۔ پھر اس کے برتن کی بناوٹ اور اس کے بندھن کو ذہن میں رکھ۔ اگر کوئی ایسا شخص آئے جو اس کی نشانیاں ٹھیک ٹھیک بتادے (تو اسے اس کا مال واپس کر دے) ورنہ اپنی ضروریات میں خرچ کر۔ صحابی نے پوچھا، یا رسول اللہ ! ایسی بکری کا کیا کیا جائے جس کے مالک کا پتہ نہ ہو ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ یا تو تمہاری ہوگی یا تمہارے بھائی (مالک) کو مل جائے گی یا پھر بھیڑئیے کا لقمہ بنے گی۔ صحابہ نے پھر پوچھا اور اس اونٹ کا کیا کیا جائے جو راستہ بھول گیا ہو ؟ اس پر رسول اللہ ﷺ کے چہرہ مبارک کا رنگ بدل گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا، تمہیں اس سے کیا مطلب ؟ اس کے ساتھ خود اس کے کھر ہیں۔ (جن سے وہ چلے گا) اس کا مشکیزہ ہے، پانی پر وہ خود پہنچ جائے گا۔ اور درخت کے پتے وہ خود کھالے گا۔
باب: گمشدہ بکری کے بارے میں بیان۔
باب : اگر کوئی سمندر میں لکڑی یا ڈنڈا یا اور کوئی ایسی ہی چیز پائے تو کیا حکم ہے ؟
باب: پکڑی ہوئی چیز کا مالک اگر ایک سال تک نہ ملے تو وہ پانے والے کی ہو جائے گی۔
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ربیعہ بن ابی عبدالرحمٰن نے، انہیں منبعث کے غلام یزید نے اور ان سے زید بن خالد (رض) نے کہ ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ ﷺ سے لقطہٰ کے بارے میں سوال کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس کے برتن کی بناوٹ اور اس کے بندھن کو ذہن میں یاد رکھ کر ایک سال تک اس کا اعلان کرتا رہ۔ اگر مالک مل جائے (تو اسے دیدے) ورنہ اپنی ضرورت میں خرچ کر۔ انہوں نے پوچھا اور اگر راستہ بھولی ہوئی بکری ملے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ تمہاری ہوگی یا تمہارے بھائی کی ہوگی۔ ورنہ پھر بھیڑیا اسے اٹھا لے جائے گا صحابی نے پوچھا اور اونٹ جو راستہ بھول جائے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا تمہیں اس سے کیا مطلب ؟ اس کے ساتھ خود اس کا مشکیزہ ہے، اس کے کھر ہیں، پانی پر وہ خود ہی پہنچ جائے گا اور خود ہی درخت کے پتے کھالے گا۔ اور اس طرح کسی نہ کسی دن اس کا مالک اسے خود پالے گا۔
None
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل کے ایک مرد کا ذکر کیا۔ پھر پوری حدیث بیان کی ( جو اس سے پہلے گزر چکی ہے ) کہ ( قرض دینے والا ) باہر یہ دیکھنے کے لیے نکلا کہ ممکن ہے کوئی جہاز اس کا روپیہ لے کر آیا ہو۔ ( دریا کے کنارے پر جب وہ پہنچا ) تو اسے ایک لکڑی ملی جسے اس نے اپنے گھر کے ایندھن کے لیے اٹھا لیا۔ لیکن جب اسے چیرا تو اس میں روپیہ اور خط پایا۔
باب: کوئی شخص راستے میں کھجور پائے؟
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے منصور بن معتمر نے، ان سے طلحہ نے اور ان سے انس (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کی راستے میں ایک کھجور پر نظر پڑی۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر اس کا ڈر نہ ہوتا کہ صدقہ کی ہے تو میں خود اسے کھا لیتا۔
باب: کوئی شخص راستے میں کھجور پائے؟
اور یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، کہا مجھ سے منصور نے بیان کیا، اور زائدہ بن قدامہ نے بھی منصور سے بیان کیا، اور ان سے طلحہ نے، کہا کہ ہم سے انس (رض) نے حدیث بیان کی (دوسری سند) اور ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، انہیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں معمر نے، انہیں ہمام بن منبہ نے اور انہیں ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا میں اپنے گھر جاتا ہوں، وہاں مجھے میرے بستر پر کھجور پڑی ہوئی ملتی ہے۔ میں اسے کھانے کے لیے اٹھا لیتا ہوں۔ لیکن پھر یہ ڈر ہوتا ہے کہ کہیں صدقہ کی کھجور نہ ہو۔ تو میں اسے پھینک دیتا ہوں۔
None
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مکہ کے درخت نہ کاٹے جائیں، وہاں کے شکار نہ چھیڑے جائیں، اور وہاں کے لقطہٰ کو صرف وہی اٹھائے جو اعلان کرے، اور اس کی گھاس نہ کاٹی جائے۔ عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! اذخر کی اجازت دے دیجئیے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اذخر کی اجازت دے دی۔
باب: اہل مکہ کے لقطہٰ کا کیا حکم ہے؟
ہم سے یحییٰ بن موسیٰ نے بیان کیا، ان سے ولید بن مسلم نے بیان کیا، ان سے امام اوزاعی نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ جب اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو مکہ فتح کرا دیا تو آپ ﷺ لوگوں کے سامنے کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا اللہ تعالیٰ نے ہاتھیوں کے لشکر کو مکہ سے روک دیا تھا، لیکن اپنے رسول اور مسلمانوں کو اسے فتح کرا دیا۔ دیکھو ! یہ مکہ مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال نہیں ہوا تھا (یعنی وہاں لڑنا) اور میرے لیے صرف دن کے تھوڑے سے حصے میں درست ہوا۔ اب میرے بعد کسی کے لیے درست نہیں ہوگا۔ پس اس کے شکار نہ چھیڑے جائیں اور نہ اس کے کانٹے کاٹے جائیں۔ یہاں کی گری ہوئی چیز صرف اسی کے لیے حلال ہوگی جو اس کا اعلان کرے۔ جس کا کوئی آدمی قتل کیا گیا ہو اسے دو باتوں کا اختیار ہے یا (قاتل سے) فدیہ (مال) لے لے، یا جان کے بدلے جان لے۔ عباس (رض) نے کہا : یا رسول اللہ ! اذخر کاٹنے کی اجازت ہو، کیونکہ ہم اسے اپنی قبروں اور گھروں میں استعمال کرتے ہیں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اچھا اذخر کاٹنے کی اجازت ہے۔ پھر ابوشاہ یمن کے ایک صحابی نے کھڑے ہو کر کہا، یا رسول اللہ ! میرے لیے یہ خطبہ لکھوا دیجئیے، چناچہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کو حکم فرمایا کہ ابوشاہ کے لیے یہ خطبہ لکھ دو ۔ میں نے امام اوزاعی سے پوچھا کہ اس سے کیا مراد ہے کہ میرے لیے اسے لکھوا دیجئیے تو انہوں نے کہا کہ وہی خطبہ مراد ہے جو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے (مکہ میں) سنا تھا۔
باب: کسی جانور کا دودھ اس کے مالک کی اجازت کے بغیر نہ دوہا جائے۔
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی نافع سے اور انہیں عبداللہ بن عمر (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، کوئی شخص کسی دوسرے کے دودھ کے جانور کو مالک کی اجازت کے بغیر نہ دوہے۔ کیا کوئی شخص یہ پسند کرے گا کہ ایک غیر شخص اس کے گودام میں پہنچ کر اس کا ذخیرہ کھولے اور وہاں سے اس کا غلہ چرا لائے، لوگوں کے مویشی کے تھن بھی ان کے لیے کھانا یعنی (دودھ کے) گودام ہیں۔ اس لیے انہیں بھی مالک کی اجازت کے بغیر نہ دوھا جائے۔
باب: پڑی ہوئی چیز کا مالک اگر ایک سال بعد آئے تو اسے اس کا مال واپس کر دے کیونکہ پانے والے کے پاس وہ امانت ہے۔
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا، ان سے ربیعہ بن عبدالرحمٰن نے، ان سے منبعث کے غلام یزید نے، اور ان سے زید بن خالد جہنی (رض) نے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے لقطہٰ کے بارے میں پوچھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایک سال تک اس کا اعلان کرتا رہ۔ پھر اس کے بندھن اور برتن کی بناوٹ کو ذہن میں یاد رکھ۔ اور اسے اپنی ضروریات میں خرچ کر۔ اس کا مالک اگر اس کے بعد آئے تو اسے واپس کر دے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا یا رسول اللہ ! راستہ بھولی ہوئی بکری کا کیا کیا جائے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اسے پکڑ لو، کیونکہ وہ یا تمہاری ہوگی یا تمہارے بھائی کی ہوگی یا پھر بھیڑیئے کی ہوگی۔ صحابہ نے پوچھا، یا رسول اللہ ! راستہ بھولے ہوئے اونٹ کا کیا کیا جائے ؟ آپ ﷺ اس پر غصہ ہوگئے اور چہرہ مبارک سرخ ہوگیا (یا راوی نے وجنتاه کے بجائے) احمر وجهه کہا۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا، تمہیں اس سے کیا مطلب ؟ اس کے ساتھ خود اس کے کھر اور اس کا مشکیزہ ہے۔ اسی طرح اسے اس کا اصل مالک مل جائے گا۔
کیا جائز ہے کہ لقطہ اٹھا لے اور اس کو ضائع ہونے کے لئے نہ چھوڑے تاکہ کوئی غیر مستحق آدمی اس کو نہ لے لے۔
ہم سے عبدان نے بیان کیا کہا کہ مجھے میرے باپ نے خبر دی شعبہ سے اور انہیں سلمہ نے یہی حدیث، شعبہ نے بیان کیا کہ پھر اس کے بعد مکہ میں سلمہ سے ملا، تو انہوں نے کہا کہ مجھے خیال نہیں (اس حدیث میں سوید نے) تین سال تک بتلانے کا ذکر کیا تھا یا ایک سال کا۔
باب: لقطہٰ کو بتلانا لیکن حاکم کے سپرد نہ کرنا۔
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا ربیعہ سے، ان سے منبعث کے غلام یزید نے، اور ان سے زید بن خالد (رض) نے کہا کہ ایک دیہاتی نے رسول اللہ ﷺ سے لقطہٰ کے متعلق پوچھا، تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایک سال تک اس کا اعلان کرتا رہ، اگر کوئی ایسا شخص آجائے جو اس کی بناوٹ اور بندھن کے بارے میں صحیح صحیح بتائے (تو اسے دیدے) ورنہ اپنی ضروریات میں اسے خرچ کر۔ انہوں نے جب ایسے اونٹ کے متعلق بھی پوچھا جو راستہ بھول گیا ہو۔ تو آپ ﷺ کے چہرہ مبارک کا رنگ بدل گیا اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہیں اس سے کیا مطلب ؟ اس کے ساتھ اس کا مشکیزہ اور اس کے کھر موجود ہیں۔ وہ خود پانی تک پہنچ سکتا ہے۔ اور درخت کے پتے کھا سکتا ہے اور اس طرح وہ اپنے مالک تک پہنچ سکتا ہے۔ انہوں نے راستہ بھولی ہوئی بکری کے متعلق بھی پوچھا، تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ یا وہ تمہاری ہوگی یا تمہارے بھائی (اصل مالک) کو مل جائے گی۔ ورنہ اسے بھیڑیا اٹھا لے جائے گا۔
ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو نضر نے خبر دی، کہا کہ ہم کو اسرائیل نے خبر دی ابواسحاق سے کہ مجھے براء بن عازب (رض) نے ابوبکر (رض) سے خبر دی (دوسری سند) ہم سے عبداللہ بن رجاء نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسرائیل نے بیان کیا ابواسحاق سے، اور انہوں نے ابوبکر (رض) سے کہ (ہجرت کر کے مدینہ جاتے وقت) میں نے تلاش کیا تو مجھے ایک چرواہا ملا جو اپنی بکریاں چرا رہا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ تم کس کے چرواہے ہو ؟ اس نے کہا کہ قریش کے ایک شخص کا۔ اس نے قریشی کا نام بھی بتایا، جسے میں جانتا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا کیا تمہارے ریوڑ کی بکریوں میں دودھ بھی ہے ؟ اس نے کہا کہ ہاں ! میں نے اس سے کہا کیا تم میرے لیے دودھ دوہ لو گے ؟ اس نے کہا، ہاں ضرور ! چناچہ میں نے اس سے دوہنے کے لیے کہا۔ وہ اپنے ریوڑ سے ایک بکری پکڑ لایا۔ پھر میں نے اس سے بکری کا تھن گرد و غبار سے صاف کرنے کے لیے کہا۔ پھر میں نے اس سے اپنا ہاتھ صاف کرنے کے لیے کہا۔ اس نے ویسا ہی کیا۔ ایک ہاتھ کو دوسرے پر مار کر صاف کرلیا۔ اور ایک پیالہ دودھ دوہا۔ رسول اللہ ﷺ کے لیے میں نے ایک برتن ساتھ لیا تھا۔ جس کے منہ پر کپڑا بندھا ہوا تھا۔ میں نے پانی دودھ پر بہایا۔ جس سے اس کا نچلا حصہ ٹھنڈا ہوگیا پھر دودھ لے کر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور عرض کیا کہ دودھ حاضر ہے۔ یا رسول اللہ ! پی لیجئے، آپ ﷺ نے اسے پیا، یہاں تک کہ میں خوش ہوگیا۔
باب
اور اللہ تعالیٰ نے سورة ابراہیم میں فرمایا اور ظالموں کے کاموں سے اللہ تعالیٰ کو غافل نہ سمجھنا۔ اور اللہ تعالیٰ تو انہیں صرف ایک ایسے دن کے لیے مہلت دے رہا ہے جس میں آنکھیں پتھرا جائیں گی۔ اور وہ سر اوپر کو اٹھائے بھاگے جا رہے ہوں گے۔ مقنع اور مقمح دونوں کے معنے ایک ہی ہیں۔ مجاہد نے فرمایا کہ مهطعين کے معنے برابر نظر ڈالنے والے ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ مهطعين کے معنی جلدی بھاگنے والا، ان کی نگاہ خود ان کی طرف نہ لوٹے گی۔ اور دلوں کے چھکے چھوٹ جائیں گے کہ عقل بالکل نہیں رہے گی اور اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ اے محمد ! لوگوں کو اس دن سے ڈراؤ جس دن ان پر عذاب آ اترے گا، جو لوگ ظلم کرچکے ہیں۔ وہ کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ! (عذاب کو) کچھ دنوں کے لیے ہم سے اور مؤخر کر دے، تو اب کی بار ہم تیرا حکم سن لیں گے اور تیرے انبیاء کی تابعداری کریں گے۔ جواب ملے گا کیا تم نے پہلے یہ قسم نہیں کھائی تھی کہ تم پر کبھی ذوال نہیں آئے گا ؟ اور تم ان قوموں کی بستیوں میں رہ چکے ہو جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا اور تم پر یہ بھی ظاہر ہوچکا تھا کہ ہم نے ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا۔ ہم نے تمہارے لیے مثالیں بھی بیان کردی ہیں۔ انہوں نے برے مکر اختیار کیے اور اللہ کے یہاں ان کے یہ بدترین مکر لکھ لیے گئے۔ اگرچہ ان کے مکر ایسے تھے کہ ان سے پہاڑ بھی ہل جاتے (مگر وہ سب بیکار ثابت ہوئے) پس اللہ کے متعلق ہرگز یہ خیال نہ کرنا کہ وہ اپنے انبیاء سے کئے ہوئے وعدوں کے خلاف کرے گا۔ بلاشبہ اللہ غالب اور بدلہ لینے والا ہے۔
باب: اللہ تعالیٰ کا سورۃ ہود میں یہ فرمانا کہ ”سن لو! ظالموں پر اللہ کی پھٹکار ہے“۔
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہمام نے بیان کیا، کہا کہ مجھے قتادہ نے خبر دی، ان سے صفوان بن محرزمازنی نے بیان کیا کہ میں عبداللہ بن عمر (رض) کے ہاتھ میں ہاتھ دیئے جا رہا تھا۔ کہ ایک شخص سامنے آیا اور پوچھا رسول اللہ ﷺ سے آپ نے (قیامت میں اللہ اور بندے کے درمیان ہونے والی) سرگوشی کے بارے میں کیا سنا ہے ؟ عبداللہ بن عمر (رض) نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا۔ آپ ﷺ فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ مومن کو اپنے نزدیک بلا لے گا اور اس پر اپنا پردہ ڈال دے گا اور اسے چھپالے گا۔ اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا کیا تجھ کو فلاں گناہ یاد ہے ؟ کیا فلاں گناہ تجھ کو یاد ہے ؟ وہ مومن کہے گا ہاں، اے میرے پروردگار۔ آخر جب وہ اپنے گناہوں کا اقرار کرلے گا اور اسے یقین آجائے گا کہ اب وہ ہلاک ہوا تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں نے دنیا میں تیرے گناہوں پر پردہ ڈالا۔ اور آج بھی میں تیری مغفرت کرتا ہوں، چناچہ اسے اس کی نیکیوں کی کتاب دے دی جائے گی، لیکن کافر اور منافق کے متعلق ان پر گواہ (ملائکہ، انبیاء، اور تمام جن و انس سب) کہیں گے کہ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار پر جھوٹ باندھا تھا۔ خبردار ہوجاؤ ! ظالموں پر اللہ کی پھٹکار ہوگی۔
باب: کوئی مسلمان کسی مسلمان پر ظلم نہ کرے اور نہ کسی ظالم کو اس پر ظلم کرنے دے۔
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، انہیں سالم نے خبر دی، اور انہیں عبداللہ بن عمر (رض) نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، پس اس پر ظلم نہ کرے اور نہ ظلم ہونے دے۔ جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرے، اللہ تعالیٰ اس کی ضرورت پوری کرے گا۔ جو شخص کسی مسلمان کی ایک مصیبت کو دور کرے، اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کی مصیبتوں میں سے ایک بڑی مصیبت کو دور فرمائے گا۔ اور جو شخص کسی مسلمان کے عیب کو چھپائے اللہ تعالیٰ قیامت میں اس کے عیب چھپائے گا۔
باب: ہر حال میں مسلمان بھائی کی مدد کرنا چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم۔
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ہشیم نے بیان کیا، انہیں عبیداللہ بن ابی بکر بن انس اور حمید طویل نے خبر دی، انہوں نے انس بن مالک (رض) سے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، اپنے بھائی کی مدد کرو وہ ظالم ہو یا مظلوم۔
باب: ہر حال میں مسلمان بھائی کی مدد کرنا چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم۔
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے معتمر نے بیان کیا، ان سے حمید نے اور ان سے انس (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ صحابہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ ! ہم مظلوم کی تو مدد کرسکتے ہیں۔ لیکن ظالم کی مدد کس طرح کریں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ظلم سے اس کا ہاتھ پکڑ لو (یہی اس کی مدد ہے) ۔
باب: مظلوم کی مدد کرنا واجب ہے۔
ہم سے سعید بن ربیع نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اشعث بن سلیم نے بیان کیا، کہ میں نے معاویہ بن سوید سے سنا، انہوں نے براء بن عازب (رض) سے سنا، آپ نے بیان کیا تھا کہ ہمیں نبی کریم ﷺ نے سات چیزوں کا حکم فرمایا تھا اور سات ہی چیزوں سے منع بھی فرمایا تھا (جن چیزوں کا حکم فرمایا تھا ان میں) انہوں نے مریض کی عیادت، جنازے کے پیچھے چلنے، چھینکنے والے کا جواب دینے، سلام کا جواب دینے، مظلوم کی مدد کرنے، دعوت کرنے والے (کی دعوت) قبول کرنے، اور قسم پوری کرنے کا ذکر کیا۔
باب
باب : ظالم کو معاف کردینا اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ إن تبدوا خيرا أو تخفوه أو تعفوا عن سوء فإن الله کان عفوا قديرا اگر تم کھلم کھلا طور پر کوئی نیکی کرو یا پوشیدہ طور پر یا کسی کے برے معاملہ پر معافی سے کام لو، تو اللہ تعالیٰ بہت زیادہ معاف کرنے والا اور بہت بڑی قدرت والا ہے۔ (سورۃ شوریٰ میں فرمایا) وجزاء سيئة سيئة مثلها فمن عفا وأصلح فأجره على الله إنه لا يحب الظالمين * ولمن انتصر بعد ظلمه فأولئك ما عليهم من سبيل * إنما السبيل على الذين يظلمون الناس ويبغون في الأرض بغير الحق أولئك لهم عذاب أليم * ولمن صبر وغفر إن ذلک لمن عزم الأمور، وترى الظالمين لما رأوا العذاب يقولون هل إلى مرد من سبيل اور برائی کا بدلہ اسی جیسی برائی سے بھی ہوسکتا ہے، لیکن جو معاف کر دے اور درستگی معاملہ کو باقی رکھے تو اس کا اجر اللہ تعالیٰ ہی پر ہے۔ بیشک اللہ تعالیٰ ظلم کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اور جس نے اپنے پر ظلم کئے جانے کے بعد اس کا (جائز) بدلہ لیا تو ان پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ گناہ تو ان پر ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین پر ناحق فساد کرتے ہیں، یہی ہیں وہ لوگ جن کو درد ناک عذاب ہوگا۔ لیکن جس شخص نے (ظلم پر) صبر کیا اور (ظالم کو) معاف کیا تو یہ نہایت ہی بہادری کا کام ہے۔ اور اے پیغمبر ! تو ظالموں کو دیکھے گا جب وہ عذاب دیکھ لیں گے تو کہیں گے اب کوئی دنیا میں لوٹ جانے کی بھی صورت ہے ؟
باب: ظلم، قیامت کے دن اندھیرے ہوں گے۔
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالعزیز ماجشون نے بیان کیا، انہیں عبداللہ بن دینار نے خبر دی، اور انہیں عبداللہ بن عمر (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، ظلم قیامت کے دن اندھیرے ہوں گے۔
باب: مظلوم کی بددعا سے بچنا اور ڈرتے رہنا۔
ہم سے یحییٰ بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے وکیع نے بیان کیا، کہا ہم سے زکریا بن اسحاق مکی نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن عبداللہ صیفی نے، ان سے ابن عباس (رض) کے غلام ابومعبد نے، اور ان سے ابن عباس (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے معاذ (رض) کو جب (عامل بنا کر) یمن بھیجا، تو آپ ﷺ نے انہیں ہدایت فرمائی کہ مظلوم کی بددعا سے ڈرتے رہنا کہ اس (دعا) کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا۔
باب: اگر کسی شخص نے دوسرے پر کوئی ظلم کیا ہو اور اس سے معاف کرائے تو کیا اس ظلم کو بیان کرنا ضروری ہے۔
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابن ابی ذئب نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سعید مقبری نے بیان کیا، اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، اگر کسی شخص کا ظلم کسی دوسرے کی عزت پر ہو یا کسی طریقہ (سے ظلم کیا ہو) تو آج ہی، اس دن کے آنے سے پہلے معاف کرا لے جس دن نہ دینار ہوں گے، نہ درہم، بلکہ اگر اس کا کوئی نیک عمل ہوگا تو اس کے ظلم کے بدلے میں وہی لے لیا جائے گا اور اگر کوئی نیک عمل اس کے پاس نہیں ہوگا تو اس کے (مظلوم) ساتھی کی برائیاں اس پر ڈال دی جائیں گی۔ ابوعبدللہ (امام بخاری (رح)) نے کہا کہ اسماعیل بن ابی اویس نے کہا سعید مقبری کا نام مقبری اس لیے ہوا کہ قبرستان کے قریب انہوں نے قیام کیا تھا۔ ابوعبداللہ (امام بخاری (رح)) نے کہا کہ سعید مقبری ہی بنی لیث کے غلام ہیں۔ پورا نام سعید بن ابی سعید ہے اور (ان کے والد) ابوسعید کا نام کیسان ہے۔
باب: جب کسی ظلم کو معاف کر دیا تو پھر واپسی کا مطالبہ باقی نہیں رہتا۔
ہم سے محمد نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی، کہا ہم کو ہشام بن عروہ نے خبر دی، انہیں ان کے باپ نے، اور ان سے عائشہ (رض) نے (قرآن مجید کی آیت) وإن امرأة خافت من بعلها نشوزا أو إعراضا اگر کوئی عورت اپنے شوہر کی طرف سے نفرت یا اس کے منہ پھیرنے کا خوف رکھتی ہو کے بارے میں فرمایا کہ کسی شخص کی بیوی ہے لیکن شوہر اس کے پاس زیادہ آتا جاتا نہیں بلکہ اسے جدا کرنا چاہتا ہے اس پر اس کی بیوی کہتی ہے کہ میں اپنا حق تمہیں معاف کرتی ہوں۔ اسی بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔
باب: اگر کوئی شخص دوسرے کو اجازت دے یا اس کو معاف کر دے مگر یہ بیان نہ کرے کہ کتنے کی اجازت اور معافی دی ہے۔
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ابوحازم بن دینار نے اور انہیں سہل بن سعد ساعدی (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں دودھ یا پانی پینے کو پیش کیا گیا۔ آپ ﷺ نے اسے پیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں طرف ایک لڑکا تھا اور بائیں طرف بڑی عمر والے تھے۔ لڑکے سے آپ ﷺ نے فرمایا کیا تم مجھے اس کی اجازت دو گے کہ ان لوگوں کو یہ (پیالہ) دے دوں ؟ لڑکے نے کہا، نہیں اللہ کی قسم ! یا رسول اللہ ! آپ کی طرف سے ملنے والے حصے کا ایثار میں کسی پر نہیں کرسکتا۔ راوی نے بیان کیا کہ آخر رسول اللہ ﷺ نے وہ پیالہ اسی لڑکے کو دے دیا۔
باب: اس شخص کا گناہ جس نے کسی کی زمین ظلم سے چھین لی۔
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہم سے زہری نے بیان کیا، ان سے طلحہ بن عبداللہ نے بیان کیا، انہیں عبدالرحمٰن بن عمرو بن سہل نے خبر دی اور ان سے سعید بن زید (رض) نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ ﷺ نے فرمایا جس نے کسی کی زمین ظلم سے لے لی، اسے قیامت کے دن سات زمینوں کا طوق پہنایا جائے گا۔
باب: اس شخص کا گناہ جس نے کسی کی زمین ظلم سے چھین لی۔
ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، ان سے حسین نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے کہ مجھ سے محمد بن ابراہیم نے بیان کیا، ان سے ابوسلمہ نے بیان کیا کہ ان کے اور بعض دوسرے لوگوں کے درمیان (زمین کا) جھگڑا تھا۔ اس کا ذکر انہوں نے عائشہ (رض) سے کیا تو انہوں نے بتلایا، ابوسلمہ ! زمین سے پرہیز کر نبی کریم ﷺ نے فرمایا، اگر کسی شخص نے ایک بالشت بھر زمین بھی کسی دوسرے کی ظلم سے لے لی تو سات زمینوں کا طوق (قیامت کے دن) اس کے گردن میں ڈالا جائے گا۔
باب: اس شخص کا گناہ جس نے کسی کی زمین ظلم سے چھین لی۔
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن مبارک نے بیان کیا، کہا ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا سالم سے اور ان سے ان کے والد (عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، جس شخص نے ناحق کسی زمین کا تھوڑا سا حصہ بھی لے لیا، تو قیامت کے دن اسے سات زمینوں تک دھنسایا جائے گا۔ ابوعبداللہ (امام بخاری (رح)) نے کہا کہ یہ حدیث عبداللہ بن مبارک کی اس کتاب میں نہیں ہے جو خراسان میں تھی۔ بلکہ اس میں تھی جسے انہوں نے بصرہ میں اپنے شاگردوں کو املا کرایا تھا۔
باب: جب کوئی شخص کسی دوسرے کو کسی چیز کی اجازت دیدے تو وہ اسے استعمال کر سکتا ہے۔
ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے جبلہ نے بیان کیا کہ ہم بعض اہل عراق کے ساتھ مدینہ میں مقیم تھے۔ وہاں ہمیں قحط میں مبتلا ہونا پڑا۔ عبداللہ بن زبیر (رض) کھانے کے لیے ہمارے پاس کھجور بھجوایا کرتے تھے۔ اور عبداللہ بن عمر (رض) جب ہماری طرف سے گزرتے تو فرماتے کہ رسول اللہ ﷺ نے (دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر کھاتے وقت) دو کھجور کو ایک ساتھ ملا کر کھانے سے منع فرمایا ہے مگر یہ کہ تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی سے اجازت لے لے۔
باب: جب کوئی شخص کسی دوسرے کو کسی چیز کی اجازت دیدے تو وہ اسے استعمال کر سکتا ہے۔
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابو وائل نے اور ان سے ابومسعود (رض) نے کہ انصار میں ایک صحابی جنہیں ابوشعیب (رض) کہا جاتا تھا، کا ایک قصائی غلام تھا۔ ابوشعیب (رض) نے ان سے کہا کہ میرے لیے پانچ آدمیوں کا کھانا تیار کر دے، کیونکہ میں نبی کریم ﷺ کو چار دیگر اصحاب کے ساتھ دعوت دوں گا۔ انہوں نے آپ ﷺ کے چہرہ مبارک پر بھوک کے آثار دیکھے تھے۔ چناچہ آپ ﷺ کو انہوں نے بتلایا۔ ایک اور شخص آپ ﷺ کے ساتھ بن بلائے چلا گیا۔ نبی کریم ﷺ نے صاحب خانہ سے فرمایا یہ آدمی بھی ہمارے ساتھ آگیا ہے۔ کیا اس کے لیے تمہاری اجازت ہے ؟ انہوں نے کہا جی ہاں اجازت ہے۔
باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ البقرہ میں) یہ فرمانا ”اور وہ بڑا سخت جھگڑالو ہے“۔
ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے، ان سے ابن ابی ملیکہ نے اور ان سے عائشہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، اللہ تعالیٰ کے یہاں سب سے زیادہ ناپسند وہ آدمی ہے جو سخت جھگڑالو ہو۔
باب: اس شخص کا گناہ جو جان بوجھ کر جھوٹ کے لیے جھگڑا کرے۔
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے صالح بن کیسان نے اور ان سے ابن شہاب نے کہ مجھے عروہ بن زبیر (رض) نے خبر دی، انہیں زینب بنت ام سلمہ (رض) نے خبر دی اور انہیں نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ ام سلمہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے حجرے کے دروازے کے سامنے جھگڑے کی آواز سنی اور جھگڑا کرنے والوں کے پاس تشریف لائے۔ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ میں بھی ایک انسان ہوں۔ اس لیے جب میرے یہاں کوئی جھگڑا لے کر آتا ہے تو ہوسکتا ہے کہ (فریقین میں سے) ایک فریق کی بحث دوسرے فریق سے عمدہ ہو، میں سمجھتا ہوں کہ وہ سچا ہے۔ اور اس طرح میں اس کے حق میں فیصلہ کردیتا ہوں، لیکن اگر میں اس کو (اس کے ظاہری بیان پر بھروسہ کر کے) کسی مسلمان کا حق دلا دوں تو دوزخ کا ایک ٹکڑا اس کو دلا رہا ہوں، وہ لے لے یا چھوڑ دے۔
باب: اس شخص کا بیان کہ جب اس نے جھگڑا کیا تو بد زبانی پر اتر آیا۔
ہم سے بشر بن خالد نے بیان کیا کہا ہم کو محمد نے خبر دی شعبہ سے، انہیں سلیمان نے، انہیں عبداللہ بن مرہ نے، انہیں مسروق نے اور انہیں عبداللہ بن عمر (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا چار خصلتیں ایسی ہیں کہ جس شخص میں بھی وہ ہوں گی، وہ منافق ہوگا۔ یا ان چار میں سے اگر ایک خصلت بھی اس میں ہے تو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے۔ یہاں تک کہ وہ اسے چھوڑ دے۔ جب بولے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو پورا نہ کرے، جب معاہدہ کرے تو بےوفائی کرے، اور جب جھگڑے تو بد زبانی پر اتر آئے۔
باب: مظلوم کو اگر ظالم کا مال مل جائے تو وہ اپنے مال کے موافق اس میں سے لے سکتا ہے۔
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، ان سے عروہ نے بیان کیا، اور ان سے عائشہ (رض) نے کہ عتبہ بن ربیعہ کی بیٹی ہند (رض) حاضر خدمت ہوئیں اور عرض کیا، یا رسول اللہ ! ابوسفیان (جو ان کے شوہر ہیں وہ) بخیل ہیں۔ تو کیا اس میں کوئی حرج ہے اگر میں ان کے مال میں سے لے کر اپنے بال بچوں کو کھلایا کروں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم دستور کے مطابق ان کے مال سے لے کر کھلاؤ تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
باب: مظلوم کو اگر ظالم کا مال مل جائے تو وہ اپنے مال کے موافق اس میں سے لے سکتا ہے۔
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے یزید نے بیان کیا، ان سے ابوالخیر نے اور ان سے عقبہ بن عامر (رض) نے کہ ہم نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا آپ ہمیں مختلف ملک والوں کے پاس بھیجتے ہیں اور (بعض دفعہ) ہمیں ایسے لوگوں کے پاس جانا پڑتا ہے کہ وہ ہماری ضیافت تک نہیں کرتے۔ آپ کی ایسے مواقع پر کیا ہدایت ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا، اگر تمہارا قیام کسی قبیلے میں ہو اور تم سے ایسا برتاؤ کیا جائے جو کسی مہمان کے لیے مناسب ہے تو تم اسے قبول کرلو، لیکن اگر وہ نہ کریں تو تم خود مہمانی کا حق ان سے وصول کرلو۔
باب: چوپالوں کے بارے میں۔
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابن وہب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا (دوسری سند) اور مجھ کو یونس نے خبر دی کہ ابن شہاب نے کہا، مجھ کو خبر دی عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے، انہیں عبداللہ بن عباس (رض) نے خبر دی کہ عمر (رض) نے کہا، جب اپنے نبی ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے وفات دے دی تو انصار بنو ساعدہ کے سقيفة چوپال میں جمع ہوئے۔ میں نے ابوبکر (رض) سے کہا کہ آپ ہمیں بھی وہیں لے چلئے۔ چناچہ ہم انصار کے یہاں سقیفہ بنو ساعدہ میں پہنچے۔
باب: کوئی شخص اپنے پڑوسی کو اپنی دیوار میں لکڑی گاڑنے سے نہ روکے۔
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک (رح) نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے اعرج نے، اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، کوئی شخص اپنے پڑوسی کو اپنی دیوار میں کھونٹی گاڑنے سے نہ روکے۔ پھر ابوہریرہ (رض) کہا کرتے تھے، یہ کیا بات ہے کہ میں تمہیں اس سے منہ پھیرنے والا پاتا ہوں۔ قسم اللہ ! اس کھونٹی کو تمہارے کندھوں کے درمیان گاڑ دوں گا۔
باب: راستے میں شراب کا بہا دینا درست ہے۔
ہم سے ابویحییٰ محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا، کہا ہم کو عفان بن مسلم نے خبر دی، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، کہا ہم سے ثابت نے بیان کیا، اور ان سے انس (رض) نے کہ میں ابوطلحہ (رض) کے مکان میں لوگوں کو شراب پلا رہا تھا۔ ان دنوں کھجور ہی کی شراب پیا کرتے تھے۔ (پھر جونہی شراب کی حرمت پر آیت قرآنی اتری) تو رسول اللہ ﷺ نے ایک منادی سے ندا کرائی کہ شراب حرام ہوگئی ہے۔ انہوں نے کہا (یہ سنتے ہی) ابوطلحہ (رض) نے کہا کہ باہر لے جا کر اس شراب کو بہا دے۔ چناچہ میں نے باہر نکل کر ساری شراب بہا دی۔ شراب مدینہ کی گلیوں میں بہنے لگی، تو بعض لوگوں نے کہا، یوں معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے لوگ اس حالت میں قتل کردیئے گئے ہیں کہ شراب ان کے پیٹ میں موجود تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ليس على الذين آمنوا وعملوا الصالحات جناح فيما طعموا وہ لوگ جو ایمان لائے اور عمل صالح کئے، ان پر ان چیزوں کا کوئی گناہ نہیں ہے۔ جو پہلے کھاچکے ہیں (آخر آیت تک) ۔
باب: گھروں کے صحن کا بیان اور ان میں بیٹھنا اور راستوں میں بیٹھنا۔
ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابوعمر حفص بن میسرہ نے بیان کیا، اور ان سے زید بن اسلم نے بیان کیا، ان سے عطاء بن یسار نے بیان کیا، اور ان سے ابو سعید خدری (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا راستوں میں بیٹھنے سے بچو۔ صحابہ نے عرض کیا کہ ہم تو وہاں بیٹھنے پر مجبور ہیں۔ وہی ہمارے بیٹھنے کی جگہ ہوتی ہے کہ جہاں ہم باتیں کرتے ہیں۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر وہاں بیٹھنے کی مجبوری ہی ہے تو راستے کا حق بھی ادا کرو۔ صحابہ نے پوچھا اور راستے کا حق کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا، نگاہ نیچی رکھنا، کسی کو ایذاء دینے سے بچنا، سلام کا جواب دینا، اچھی باتوں کے لیے لوگوں کو حکم کرنا اور بری باتوں سے روکنا۔
باب
باب : راستے میں سے تکلیف دینے والی چیز کو ہٹا دینا اور ہمام نے ابوہریرہ (رض) سے اور انہوں نے نبی کریم ﷺ کے حوالہ سے بیان کیا کہ راستے سے کسی تکلیف دہ چیز کو ہٹا دینا بھی صدقہ ہے۔
باب: اونچے اور پست بالاخانوں میں چھت وغیرہ پر رہنا جائز ہے نیز جھروکے اور روشندان بنانا۔
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابن عیینہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے زہری نے بیان کیا، ان سے عروہ نے بیان کیا، ان سے اسامہ بن زید (رض) نے بیان کیا، کہ نبی کریم ﷺ مدینہ کے ایک بلند مکان پر چڑھے۔ پھر فرمایا، کیا تم لوگ بھی دیکھ رہے ہو جو میں دیکھ رہا ہوں کہ (عنقریب) تمہارے گھروں میں فتنے اس طرح برس رہے ہوں گے جیسے بارش برستی ہے۔
باب: اونچے اور پست بالاخانوں میں چھت وغیرہ پر رہنا جائز ہے نیز جھروکے اور روشندان بنانا۔
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے عقیل نے اور ان سے ابن شہاب نے کہ مجھے عبیداللہ بن عبداللہ بن ابی ثور نے خبر دی اور ان سے عبداللہ بن عباس (رض) نے بیان کیا کہ میں ہمیشہ اس بات کا آروز مند رہتا تھا کہ عمر (رض) سے نبی کریم ﷺ کی ان دو بیویوں کے نام پوچھوں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے (سورۃ التحریم میں) فرمایا ہے إن تتوبا إلى الله فقد صغت قلوبکما اگر تم دونوں اللہ کے سامنے توبہ کرو (تو بہتر ہے) کہ تمہارے دل بگڑ گئے ہیں۔ پھر میں ان کے ساتھ حج کو گیا۔ عمر (رض) راستے سے قضائے حاجت کے لیے ہٹے تو میں بھی ان کے ساتھ (پانی کا ایک) چھاگل لے کر گیا۔ پھر وہ قضائے حاجت کے لیے چلے گئے۔ اور جب واپس آئے تو میں نے ان کے دونوں ہاتھوں پر چھاگل سے پانی ڈالا۔ اور انہوں نے وضو کیا، پھر میں نے پوچھا، یا امیرالمؤمنین ! نبی کریم ﷺ کی بیویوں میں وہ دو خواتین کون سی ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ إن تتوبا إلى الله تم دونوں اللہ کے سامنے توبہ کرو انہوں نے فرمایا، ابن عباس ! تم پر حیرت ہے۔ وہ تو عائشہ اور حفصہ (رضی اللہ عنہا) ہیں۔ پھر عمر (رض) میری طرف متوجہ ہو کر پورا واقعہ بیان کرنے لگے۔ آپ نے بتلایا کہ بنوامیہ بن زید کے قبیلے میں جو مدینہ سے ملا ہوا تھا۔ میں اپنے ایک انصاری پڑوسی کے ساتھ رہتا تھا۔ ہم دونوں نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضری کی باری مقرر کر رکھی تھی۔ ایک دن وہ حاضر ہوتے اور ایک دن میں۔ جب میں حاضری دیتا تو اس دن کی تمام خبریں وغیرہ لاتا۔ (اور ان کو سناتا) اور جب وہ حاضر ہوتے تو وہ بھی اسی طرح کرتے۔ ہم قریش کے لوگ (مکہ میں) اپنی عورتوں پر غالب رہا کرتے تھے۔ لیکن جب ہم (ہجرت کر کے) انصار کے یہاں آئے تو انہیں دیکھا کہ ان کی عورتیں خود ان پر غالب تھیں۔ ہماری عورتوں نے بھی ان کا طریقہ اختیار کرنا شروع کردیا۔ میں نے ایک دن اپنی بیوی کو ڈانٹا تو انہوں نے بھی اس کا جواب دیا۔ ان کا یہ جواب مجھے ناگوار معلوم ہوا۔ لیکن انہوں نے کہا کہ میں اگر جواب دیتی ہوں تو تمہیں ناگواری کیوں ہوتی ہے۔ قسم اللہ کی ! نبی کریم ﷺ کی ازواج تک آپ کو جواب دے دیتی ہیں اور بعض بیویاں تو آپ سے پورے دن اور پوری رات خفا رہتی ہیں۔ اس بات سے میں بہت گھبرایا اور میں نے کہا کہ ان میں سے جس نے بھی ایسا کیا ہوگا وہ بہت بڑے نقصان اور خسارے میں ہے۔ اس کے بعد میں نے کپڑے پہنے اور حفصہ (رض) (عمر (رض) کی صاحبزادی اور ام المؤمنین) کے پاس پہنچا اور کہا اے حفصہ ! کیا تم میں سے کوئی نبی کریم ﷺ سے پورے دن رات تک ناراض رہتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہاں ! میں بول اٹھا کہ پھر تو وہ تباہی اور نقصان میں رہیں۔ کیا تمہیں اس سے امن ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول ﷺ کی خفگی کی وجہ سے (تم پر) غصہ ہوجائے اور تم ہلاک ہوجاؤ۔ رسول اللہ ﷺ سے زیادہ چیزوں کا مطالبہ ہرگز نہ کیا کرو، نہ کسی معاملہ میں آپ ﷺ کی کسی بات کا جواب دو اور نہ آپ پر خفگی کا اظہار ہونے دو ، البتہ جس چیز کی تمہیں ضرورت ہو، وہ مجھ سے مانگ لیا کرو، کسی خود فریبی میں مبتلا نہ رہنا، تمہاری یہ پڑوسن تم سے زیادہ جمیل اور نظیف ہیں اور رسول اللہ ﷺ کو زیادہ پیاری بھی ہیں۔ آپ کی مراد عائشہ (رض) سے تھی۔ عمر (رض) نے کہا، ان دنوں یہ چرچا ہو رہا تھا کہ غسان کے فوجی ہم سے لڑنے کے لیے گھوڑوں کو سم لگا رہے ہیں۔ میرے پڑوسی ایک دن اپنی باری پر مدینہ گئے ہوئے تھے۔ پھر عشاء کے وقت واپس لوٹے۔ آ کر میرا دروازہ انہوں نے بڑی زور سے کھٹکھٹایا، اور کہا کیا آپ سو گئے ہیں ؟ میں بہت گھبرایا ہوا باہر آیا انہوں نے کہا کہ ایک بہت بڑا حادثہ پیش آگیا ہے۔ میں نے پوچھا کیا ہوا ؟ کیا غسان کا لشکر آگیا ؟ انہوں نے کہا بلکہ اس سے بھی بڑا اور سنگین حادثہ، وہ یہ کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی۔ یہ سن کر عمر (رض) نے فرمایا، حفصہ تو تباہ و برباد ہوگئی۔ مجھے تو پہلے ہی کھٹکا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہوجائے (عمر (رض) نے کہا) پھر میں نے کپڑے پہنے۔ صبح کی نماز رسول اللہ ﷺ کے ساتھ پڑھی (نماز پڑھتے ہی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بالا خانہ میں تشریف لے گئے اور وہیں تنہائی اختیار کرلی۔ میں حفصہ کے یہاں گیا، دیکھا تو وہ رو رہی تھیں، میں نے کہا، رو کیوں رہی ہو ؟ کیا پہلے ہی میں نے تمہیں نہیں کہہ دیا تھا ؟ کیا رسول اللہ ﷺ نے تم سب کو طلاق دے دی ہے ؟ انہوں نے کہا کہ مجھے کچھ معلوم نہیں۔ آپ ﷺ بالاخانہ میں تشریف رکھتے ہیں۔ پھر میں باہر نکلا اور منبر کے پاس آیا۔ وہاں کچھ لوگ موجود تھے اور بعض رو بھی رہے تھے۔ تھوڑی دیر تو میں ان کے ساتھ بیٹھا رہا۔ لیکن مجھ پر رنج کا غلبہ ہوا، اور میں بالاخانے کے پاس پہنچا، جس میں آپ ﷺ تشریف رکھتے تھے۔ میں نے آپ ﷺ کے ایک سیاہ غلام سے کہا، (کہ نبی کریم ﷺ سے کہو) کہ عمر اجازت چاہتا ہے۔ وہ غلام اندر گیا اور آپ ﷺ سے گفتگو کر کے واپس آیا اور کہا کہ میں نے آپ کی بات پہنچا دی تھی، لیکن آپ ﷺ خاموش ہوگئے، چناچہ میں واپس آ کر انہیں لوگوں کے ساتھ بیٹھ گیا جو منبر کے پاس موجود تھے۔ پھر مجھ پر رنج غالب آیا اور میں دوبارہ آیا۔ لیکن اس دفعہ بھی وہی ہوا۔ پھر آ کر انہیں لوگوں میں بیٹھ گیا جو منبر کے پاس تھے۔ لیکن اس مرتبہ پھر مجھ سے نہیں رہا گیا اور میں نے غلام سے آ کر کہا، کہ عمر کے لیے اجازت چاہو۔ لیکن بات جوں کی توں رہی۔ جب میں واپس ہو رہا تھا کہ غلام نے مجھ کو پکارا اور کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے آپ کو اجازت دے دی ہے۔ میں آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ ﷺ کھجور کی چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے۔ جس پر کوئی بستر بھی نہیں تھا۔ اس لیے چٹائی کے ابھرے ہوئے حصوں کا نشان آپ ﷺ کے پہلو میں پڑگیا تھا۔ آپ ﷺ اس وقت ایک ایسے تکیے پر ٹیک لگائے ہوئے تھے جس کے اندر کھجور کی چھال بھری گئی تھی۔ میں نے آپ ﷺ کو سلام کیا اور کھڑے ہی کھڑے عرض کی، کہ کیا آپ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے ؟ آپ ﷺ نے نگاہ میری طرف کر کے فرمایا کہ نہیں۔ میں نے آپ کے غم کو ہلکا کرنے کی کوشش کی اور کہنے لگا .... اب بھی میں کھڑا ہی تھا .... یا رسول اللہ ! آپ جانتے ہی ہیں کہ ہم قریش کے لوگ اپنی بیویوں پر غالب رہتے تھے، لیکن جب ہم ایک ایسی قوم میں آگئے جن کی عورتیں ان پر غالب تھیں، پھر عمر (رض) نے تفصیل ذکر کی۔ اس بات پر رسول اللہ ﷺ مسکرا دیئے۔ پھر میں نے کہا میں حفصہ کے یہاں بھی گیا تھا اور اس سے کہہ آیا تھا کہ کہیں کسی خود فریبی میں نہ مبتلا رہنا۔ یہ تمہاری پڑوسن تم سے زیادہ خوبصورت اور پاک ہیں اور رسول اللہ ﷺ کو زیادہ محبوب بھی ہیں۔ آپ عائشہ (رض) کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔ اس بات پر آپ ﷺ دوبارہ مسکرا دیئے۔ جب میں نے آپ ﷺ کو مسکراتے دیکھا، تو (آپ ﷺ کے پاس) بیٹھ گیا۔ اور آپ کے گھر میں چاروں طرف دیکھنے لگا۔ بخدا ! سوائے تین کھالوں کے اور کوئی چیز وہاں نظر نہ آئی۔ میں نے کہا۔ یا رسول اللہ ! آپ اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیے کہ وہ آپ کی امت کو کشادگی عطا فرما دے۔ فارس اور روم کے لوگ تو پوری فراخی کے ساتھ رہتے ہیں۔ دنیا انہیں خوب ملی ہوئی ہے۔ حالانکہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت بھی نہیں کرتے۔ آپ ﷺ ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا، اے خطاب کے بیٹے ! کیا تمہیں ابھی کچھ شبہ ہے ؟ (تو دنیا کی دولت کو اچھی سمجھتا ہے) یہ تو ایسے لوگ ہیں کہ ان کے اچھے اعمال (جو وہ معاملات کی حد تک کرتے ہیں ان کی جزا) اسی دنیا میں ان کو دے دی گئی ہے۔ (یہ سن کر) میں بول اٹھا۔ یا رسول اللہ ! میرے لیے اللہ سے مغفرت کی دعا کیجئے۔ تو نبی کریم ﷺ نے (اپنی ازواج سے) اس بات پر علیحدگی اختیار کرلی تھی کہ عائشہ (رض) سے حفصہ (رض) نے پوشیدہ بات کہہ دی تھی۔ نبی کریم ﷺ نے اس انتہائی خفگی کی وجہ سے جو آپ ﷺ کو ہوئی تھی، فرمایا تھا کہ میں اب ان کے پاس ایک مہینے تک نہیں جاؤں گا۔ اور یہی موقعہ ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو متنبہ کیا تھا۔ پھر جب انتیس دن گزر گئے تو آپ عائشہ (رض) کے گھر تشریف لے گئے اور انہیں کے یہاں سے آپ ﷺ نے ابتداء کی۔ عائشہ (رض) نے کہا کہ آپ نے تو عہد کیا تھا کہ ہمارے یہاں ایک مہینے تک نہیں تشریف لائیں گے۔ اور آج ابھی انتیسویں کی صبح ہے۔ میں تو دن گن رہی تھی۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، یہ مہینہ انتیس دن کا ہے اور وہ مہینہ انتیس ہی دن کا تھا۔ عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ پھر وہ آیت نازل ہوئی جس میں (ازواج النبی کو) اختیار دیا گیا تھا۔ اس کی بھی ابتداء آپ ﷺ نے مجھ ہی سے کی اور فرمایا کہ میں تم سے ایک بات کہتا ہوں، اور یہ ضروری نہیں کہ جواب فوراً دو ، بلکہ اپنے والدین سے بھی مشورہ کرلو۔ عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ آپ کو یہ معلوم تھا کہ میرے ماں باپ کبھی آپ سے جدائی کا مشورہ نہیں دے سکتے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اے نبی ! اپنی بیویوں سے کہہ دو اللہ تعالیٰ کے قول عظیما تک۔ میں نے عرض کیا کیا اب اس معاملے میں بھی میں اپنے والدین سے مشورہ کرنے جاؤں گی ! اس میں تو کسی شبہ کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ کہ میں اللہ اور اس کے رسول اور دار آخرت کو پسند کرتی ہوں۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے اپنی دوسری بیویوں کو بھی اختیار دیا اور انہوں نے بھی وہی جواب دیا جو عائشہ (رض) نے دیا تھا۔
باب: اونچے اور پست بالاخانوں میں چھت وغیرہ پر رہنا جائز ہے نیز جھروکے اور روشندان بنانا۔
ہم سے محمد بن سلام بیکندی نے بیان کیا، کہا ہم سے مروان بن معاویہ فزاری نے بیان کیا، ان سے حمید طویل نے اور ان سے انس (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی ازواج کے پاس ایک مہینہ تک نہ جانے کی قسم کھائی تھی، اور (ایلاء کے واقعہ سے پہلے 5 ھ میں) آپ ﷺ کے قدم مبارک میں موچ آگئی تھی۔ اور آپ ﷺ اپنے بالا خانہ میں قیام پذیر ہوئے تھے۔ (ایلاء کے موقع پر) عمر (رض) آئے اور عرض کیا، یا رسول اللہ ! کیا آپ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ نہیں۔ البتہ ایک مہینے کے لیے ان کے پاس نہ جانے کی قسم کھالی ہے۔ چناچہ آپ ﷺ انتیس دن تک بیویوں کے پاس نہیں گئے (اور انتیس تاریخ کو ہی چاند ہوگیا تھا) اس لیے آپ ﷺ بالاخانے سے اترے اور بیویوں کے پاس گئے۔
باب: مسجد کے دروازے پر جو پتھر بچھے ہوتے ہیں وہاں یا دروازے پر اونٹ باندھ دینا۔
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعقیل نے بیان کیا، ان سے ابوالمتوکل ناجی نے بیان کیا کہ میں جابر بن عبداللہ (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ مسجد میں تشریف رکھتے تھے۔ اس لیے میں بھی مسجد کے اندر چلا گیا۔ البتہ اونٹ بلاط کے ایک کنارے پر باندھ دیا۔ آپ ﷺ سے میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ کا اونٹ حاضر ہے۔ آپ ﷺ باہر تشریف لائے اور اونٹ کے چاروں طرف ٹہلنے لگے۔ پھر فرمایا کہ قیمت بھی لے اور اونٹ بھی لے جا۔
باب: کسی قوم کے کوڑے کے پاس ٹھہرنا اور وہاں پیشاب کرنا۔
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے، ان سے منصور نے، ان سے ابو وائل نے اور ان سے حذیفہ (رض) نے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا، یا یہ کہا کہ نبی کریم ﷺ ایک قوم کی کوڑی پر تشریف لائے، اور آپ ﷺ نے وہاں کھڑے ہو کر پیشاب کیا۔
باب: اس کا ثواب جس نے شاخ یا کوئی اور تکلیف دینے والی چیز راستے سے ہٹائی۔
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں سمی نے، انہیں ابوصالح نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، ایک شخص راستے پر چل رہا تھا کہ اس نے وہاں کانٹے دار ڈالی دیکھی۔ اس نے اسے اٹھا لیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کا یہ عمل قبول کیا اور اس کی مغفرت کردی۔
باب: اگر عام راستہ میں اختلاف ہو اور وہاں رہنے والے کچھ عمارت بنانا چاہیں تو سات ہاتھ زمین راستہ کے لیے چھوڑ دیں۔
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن حازم نے بیان کیا، ان سے زبیر بن خریت نے اور ان سے عکرمہ نے کہ میں نے ابوہریرہ (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ کیا تھا جب کہ راستے (کی زمین) کے بارے میں جھگڑا ہو تو سات ہاتھ راستہ چھوڑ دینا چاہیے۔
باب: مالک کی اجازت کے بغیر اس کا کوئی مال اٹھا لینا۔
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عدی بن ثابت نے بیان کیا، کہا کہ میں نے عبداللہ بن یزید انصاری (رض) سے سنا، جو عدی بن ثابت کے نانا تھے۔ کہ نبی کریم ﷺ نے لوٹ مار کرنے اور مثلہ کرنے سے منع فرمایا تھا۔
باب: مالک کی اجازت کے بغیر اس کا کوئی مال اٹھا لینا۔
ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے لیث نے بیان، ان سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے ابوبکر بن عبدالرحمٰن نے، ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، زانی مومن رہتے ہوئے زنا نہیں کرسکتا۔ شراب خوار مومن رہتے ہوئے شراب نہیں پی سکتا۔ چور مومن رہتے ہوئے چوری نہیں کرسکتا۔ اور کوئی شخص مومن رہتے ہوئے لوٹ اور غارت گری نہیں کرسکتا کہ لوگوں کی نظریں اس کی طرف اٹھی ہوئی ہوں اور وہ لوٹ رہا ہو، سعید اور ابوسلمہ کی بھی ابوہریرہ (رض) سے بحوالہ نبی کریم ﷺ اسی طرح روایت ہے۔ البتہ ان کی روایت میں لوٹ کا تذکرہ نہیں ہے۔
باب: صلیب کا توڑنا اور خنزیر کا مارنا۔
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا ہم سے زہری نے بیان کیا، کہا کہ مجھے سعید بن مسیب نے خبر دی، انہوں نے ابوہریرہ (رض) سے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک ابن مریم کا نزول ایک عادل حکمران کی حیثیت سے تم میں نہ ہوجائے۔ وہ صلیب کو توڑ دیں گے، سوروں کو قتل کردیں گے اور جزیہ قبول نہیں کریں گے۔ (اس دور میں) مال و دولت کی اتنی کثرت ہوجائے گی کہ کوئی قبول نہیں کرے گا۔
باب: کیا کوئی ایسا مٹکا توڑا جا سکتا ہے یا ایسی مشک پھاڑی جا سکتی ہے جس میں شراب موجود ہو؟
ہم سے ابوعاصم ضحاک بن مخلد نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن ابی عبید نے اور ان سے سلمہ بن اکوع (رض) نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خیبر کے موقع پر دیکھا کہ آگ جلائی جا رہی ہے، آپ ﷺ نے پوچھا یہ آگ کس لیے جلائی جا رہی ہے ؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ گدھے (کا گوشت پکانے) کے لیے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ وہ برتن (جس میں گدھے کا گوشت ہو) توڑ دو اور گوشت پھینک دو ۔ اس پر صحابہ بولے ایسا کیوں نہ کرلیں کہ گوشت تو پھینک دیں اور برتن دھو لیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ برتن دھو لو۔ ابوعبداللہ (امام بخاری (رح)) کہتے ہیں ابن ابی اویس الحمر الأنسية کو الف اور نون کو نصب کے ساتھ کہا کرتے تھے۔
باب: کیا کوئی ایسا مٹکا توڑا جا سکتا ہے یا ایسی مشک پھاڑی جا سکتی ہے جس میں شراب موجود ہو؟
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابن ابی نجیح نے بیان کیا، ان سے مجاہد نے بیان کیا، ان سے ابومعمر نے بیان کیا، اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ (فتح مکہ دن جب) مکہ میں داخل ہوئے تو خانہ کعبہ کے چاروں طرف تین سو ساٹھ بت تھے۔ آپ ﷺ کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی جس سے آپ ﷺ ان بتوں پر مارنے لگے اور فرمانے لگے کہ جاء الحق وزهق الباطل حق آگیا اور باطل مٹ گیا ۔
باب: کیا کوئی ایسا مٹکا توڑا جا سکتا ہے یا ایسی مشک پھاڑی جا سکتی ہے جس میں شراب موجود ہو؟
ہم سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، کہا ہم سے انس بن عیاض نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ عمری نے، ان سے عبدالرحمٰن بن قاسم نے، ان سے ان کے والد قاسم نے اور ان سے عائشہ (رض) نے کہ انہوں نے اپنے حجرے کے سائبان پر ایک پردہ لٹکا دیا جس میں تصویریں بنی ہوئی تھیں۔ نبی کریم ﷺ نے (جب دیکھا تو) اسے اتار کر پھاڑ ڈالا۔ (عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ) پھر میں نے اس پردے سے دو گدے بنا ڈالے۔ وہ دونوں گدے گھر میں رہتے تھے اور نبی کریم ﷺ ان پر بیٹھا کرتے تھے۔
باب: جو شخص اپنا مال بچانے کے لیے لڑے۔
ہم سے عبداللہ بن یزید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سعید بن ابی ایوب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابوالاسود نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے عبداللہ بن عمرو (رض) نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کردیا گیا وہ شہید ہے۔
باب: جس کسی شخص نے کسی دوسرے کا پیالہ یا کوئی اور چیز توڑ دی تو کیا حکم ہے؟
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے حمید نے اور ان سے انس (رض) نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ازواج مطہرات میں سے کسی ایک کے یہاں تشریف رکھتے تھے۔ امہات المؤمنین میں سے ایک نے وہیں آپ ﷺ کے لیے خادم کے ہاتھ ایک پیالے میں کچھ کھانے کی چیز بھجوائی۔ انہوں نے ایک ہاتھ اس پیالے پر مارا، اور پیالہ (گر کر) ٹوٹ گیا۔ آپ ﷺ نے پیالے کو جوڑا اور جو کھانے کی چیز تھی اس میں دوبارہ رکھ کر صحابہ سے فرمایا کہ کھاؤ۔ آپ ﷺ نے پیالہ لانے والے (خادم) کو روک لیا اور پیالہ بھی نہیں بھیجا۔ بلکہ جب (کھانے سے) سب فارغ ہوگئے تو دوسرا اچھا پیالہ بھجوا دیا اور جو ٹوٹ گیا تھا اسے نہیں بھجوایا۔ ابن ابی مریم نے بیان کیا کہ ہمیں یحییٰ بن ایوب نے خبر دی، ان سے حمید نے بیان کیا، ان سے انس (رض) نے بیان کیا اور ان سے نبی کریم ﷺ نے۔
باب: اگر کسی نے کسی کی دیوار گرا دی تو اسے ویسی ہی بنوانی ہو گی۔
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن حازم نے بیان کیا، ان سے محمد بن سیرین نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، بنی اسرائیل میں ایک صاحب تھے، جن کا نام جریج تھا۔ وہ نماز پڑھ رہے تھے کہ ان کی والدہ آئیں اور انہیں پکارا۔ انہوں نے جواب نہیں دیا۔ سوچتے رہے کہ جواب دوں یا نماز پڑھوں۔ پھر وہ دوبارہ آئیں اور (غصے میں) بددعا کر گئیں، اے اللہ ! اسے موت نہ آئے جب تک کسی بدکار عورت کا منہ نہ دیکھ لے۔ جریج اپنے عبادت خانے میں رہتے تھے۔ ایک عورت نے (جو جریج کے عبادت خانے کے پاس اپنی مویشی چرایا کرتی تھی اور فاحشہ تھی) کہا کہ جریج کو فتنہ میں ڈالے بغیر نہ رہوں گی۔ چناچہ وہ ان کے سامنے آئی اور گفتگو کرنی چاہی، لیکن انہوں نے منہ پھیرلیا۔ پھر وہ ایک چرواہے کے پاس گئی اور اپنے جسم کو اس کے قابو میں دے دیا۔ آخر لڑکا پیدا ہوا۔ اور اس عورت نے الزام لگایا کہ یہ جریج کا لڑکا ہے۔ قوم کے لوگ جریج کے یہاں آئے اور ان کا عبادت خانہ توڑ دیا۔ انہیں باہر نکالا اور گالیاں دیں۔ لیکن جریج نے وضو کیا اور نماز پڑھ کر اس لڑکے کے پاس آئے۔ انہوں نے اس سے پوچھا۔ بچے ! تمہار باپ کون ہے ؟ بچہ (اللہ کے حکم سے) بول پڑا کہ چرواہا ! (قوم خوش ہوگئی اور) کہا کہ ہم آپ کے لیے سونے کا عبادت خانہ بنوا دیں۔ جریج نے کہا کہ میرا گھر تو مٹی ہی سے بنے گا۔
باب: کھانے، سفر خرچ اور اسباب میں شرکت کا بیان۔
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں وہب بن کیسان نے اور انہیں جابر بن عبداللہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے (رجب 7 ھ میں) ساحل بحر کی طرف ایک لشکر بھیجا۔ اور اس کا امیر ابوعبیدہ بن جراح (رض) کو بنایا۔ فوجیوں کی تعداد تین سو تھی اور میں بھی ان میں شریک تھا۔ ہم نکلے اور ابھی راستے ہی میں تھے کہ توشہ ختم ہوگیا۔ ابوعبیدہ (رض) نے حکم دیا کہ تمام فوجی اپنے توشے (جو کچھ بھی باقی رہ گئے ہوں) ایک جگہ جمع کردیں۔ سب کچھ جمع کرنے کے بعد کھجوروں کے کل دو تھیلے ہو سکے اور روزانہ ہمیں اسی میں سے تھوڑی تھوڑی کھجور کھانے کے لیے ملنے لگی۔ جب اس کا بھی اکثر حصہ ختم ہوگیا تو ہمیں صرف ایک ایک کھجور ملتی رہی۔ میں (وہب بن کیسان) نے جابر (رض) سے کہا بھلا ایک کھجور سے کیا ہوتا ہوگا ؟ انہوں نے بتلایا کہ اس کی قدر ہمیں اس وقت معلوم ہوئی جب وہ بھی ختم ہوگئی تھی۔ انہوں نے بیان کیا کہ آخر ہم سمندر تک پہنچ گئے۔ اتفاق سے سمندر میں ہمیں ایک ایسی مچھلی مل گئی جو (اپنے جسم میں) پہاڑ کی طرح معلوم ہوتی تھی۔ سارا لشکر اس مچھلی کو اٹھارہ راتوں تک کھاتا رہا۔ پھر ابوعبیدہ (رض) نے اس کی دونوں پسلیوں کو کھڑا کرنے کا حکم دیا۔ اس کے بعد اونٹوں کو ان کے تلے سے چلنے کا حکم دیا۔ اور وہ ان پسلیوں کے نیچے سے ہو کر گزرے، لیکن اونٹ نے ان کو چھوا تک نہیں۔
باب: کھانے، سفر خرچ اور اسباب میں شرکت کا بیان۔
ہم سے بشر بن مرحوم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حاتم بن اسماعیل نے بیان کیا، ان سے یزید بن ابی عبیدہ نے اور ان سے سلمہ (رض) نے بیان کیا کہ (غزوہ ہوازن میں) لوگوں کے توشے ختم ہوگئے اور فقر و محتاجی آگئی، تو لوگ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اپنے اونٹوں کو ذبح کرنے کی اجازت لینے (تاکہ انہیں کے گوشت سے پیٹ بھر سکیں) آپ ﷺ نے انہیں اجازت دے دی۔ راستے میں عمر (رض) کی ملاقات ان سے ہوگئی تو انہیں بھی ان لوگوں نے اطلاع دی۔ عمر (رض) نے کہا اونٹوں کو کاٹ ڈالو گے تو پھر تم کیسے زندہ رہو گے۔ چناچہ آپ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا، یا رسول اللہ ! اگر انہوں نے اونٹ بھی ذبح کرلیے تو پھر یہ لوگ کیسے زندہ رہیں گے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اچھا، تمام لوگوں میں اعلان کر دو کہ ان کے پاس جو کچھ توشے بچ رہے ہیں وہ لے کر یہاں آجائیں۔ اس کے لیے ایک چمڑے کا دستر خوان بچھا دیا گیا۔ اور لوگوں نے توشے اسی دستر خوان پر لا کر رکھ دئیے۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ اٹھے اور اس میں برکت کی دعا فرمائی۔ اب آپ ﷺ نے پھر سب لوگوں کو اپنے اپنے برتنوں کے ساتھ بلایا اور سب نے دونوں ہاتھوں سے توشے اپنے برتنوں میں بھر لیے۔ جب سب لوگ بھر چکے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا سچا رسول ہوں۔
باب: کھانے، سفر خرچ اور اسباب میں شرکت کا بیان۔
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے اوزاعی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوالنجاشی نے بیان کیا کہا کہ میں نے رافع بن خدیج (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ عصر کی نماز پڑھ کر اونٹ ذبح کرتے تو انہیں دس حصوں میں تقسیم کرتے اور پھر سورج غروب ہونے سے پہلے ہی ہم اس کا پکا ہوا گوشت بھی کھالیتے۔
باب: کھانے، سفر خرچ اور اسباب میں شرکت کا بیان۔
ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن اسامہ نے بیان کیا، ان سے برید نے، ان سے ابوبردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، قبیلہ اشعر کے لوگوں کا جب جہاد کے موقع پر توشہ کم ہوجاتا یا مدینہ (کے قیام) میں ان کے بال بچوں کے لیے کھانے کی کمی ہوجاتی تو جو کچھ بھی ان کے پاس توشہ ہوتا تو وہ ایک کپڑے میں جمع کرلیتے ہیں۔ پھر آپس میں ایک برتن سے برابر تقسیم کرلیتے ہیں۔ پس وہ میرے ہیں اور میں ان کا ہوں۔
باب: جو مال دو ساجھیوں کے ساجھے کا ہو وہ زکوٰۃ میں ایک دوسرے سے برابر برابر لین دین کر لیں۔
ہم سے محمد بن عبداللہ بن مثنیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ثمامہ بن عبداللہ بن انس نے بیان کیا، ان سے انس (رض) نے بیان کیا کہ ابوبکر (رض) نے ان کے لیے فرض زکوٰۃ کا بیان تحریر کیا تھا جو رسول اللہ ﷺ نے مقرر کی تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب کسی مال میں دو آدمی ساجھی ہوں تو وہ زکوٰۃ میں ایک دوسرے سے برابر برابر مجرا کرلیں (یعنی زکوٰۃ کی رقم آپس میں برابر تقسیم کرلیں) ۔
باب: بکریوں کا بانٹنا۔
ہم سے علی بن حکم انصاری نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے سعید بن مسروق نے، ان سے عبایہ بن رفاعہ بن رافع بن خدیج (رض) نے اور ان سے ان کے دادا (رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ) نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مقام ذوالحلیفہ میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ لوگوں کو بھوک لگی۔ ادھر (غنیمت میں) اونٹ اور بکریاں ملی تھیں۔ انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ لشکر کے پیچھے کے لوگوں میں تھے۔ لوگوں نے جلدی کی اور (تقسیم سے پہلے ہی) ذبح کر کے ہانڈیاں چڑھا دیں۔ لیکن بعد میں نبی کریم ﷺ نے حکم دیا اور وہ ہانڈیاں اوندھا دی گئیں۔ پھر آپ ﷺ نے ان کو تقسیم کیا اور دس بکریوں کو ایک اونٹ کے برابر رکھا۔ ایک اونٹ اس میں سے بھاگ گیا تو لوگ اسے پکڑنے کی کوشش کرنے لگے۔ لیکن اس نے سب کو تھکا دیا۔ قوم کے پاس گھوڑے کم تھے۔ ایک صحابی تیر لے کر اونٹ کی طرف جھپٹے۔ اللہ نے اس کو ٹھہرا دیا۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ ان جانوروں میں بھی جنگلی جانوروں کی طرح سرکشی ہوتی ہے۔ اس لیے ان جانوروں میں سے بھی اگر کوئی تمہیں عاجز کر دے تو اس کے ساتھ تم ایسا ہی معاملہ کیا کرو۔ پھر میرے دادا نے عرض کیا کہ کل دشمن کے حملہ کا خوف ہے، ہمارے پاس چھریاں نہیں ہیں (تلواروں سے ذبح کریں تو ان کے خراب ہونے کا ڈر ہے جب کہ جنگ سامنے ہے) کیا ہم بانس کے کھپچی سے ذبح کرسکتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا، جو چیز بھی خون بہا دے اور ذبیحہ پر اللہ تعالیٰ کا نام لیا گیا ہو، تو اس کے کھانے میں کوئی حرج نہیں۔ سوائے دانت اور ناخن کے۔ اس کی وجہ میں تمہیں بتاتا ہوں۔ دانت تو ہڈی ہے اور ناخن حبشیوں کی چھری ہے۔
باب: دو دو کھجوریں ملا کر کھانا کسی شریک کو جائز نہیں جب تک دوسرے ساتھ والوں سے اجازت نہ لے۔
ہم سے خلاد بن یحییٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، کہا ہم سے جبلہ بن سحیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے عبداللہ بن عمر (رض) سے سنا۔ انہوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے اس سے منع فرمایا تھا کہ کوئی شخص اپنے ساتھیوں کی اجازت کے بغیر (دستر خوان پر) دو دو کھجور ایک ساتھ ملا کر کھائے۔
باب: دو دو کھجوریں ملا کر کھانا کسی شریک کو جائز نہیں جب تک دوسرے ساتھ والوں سے اجازت نہ لے۔
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے جبلہ نے بیان کیا کہ ہمارا قیام مدینہ میں تھا اور ہم پر قحط کا دور دورہ ہوا۔ عبداللہ بن زبیر (رض) ہمیں کھجور کھانے کے لیے دیتے تھے اور عبداللہ بن عمر (رض) گزرتے ہوئے یہ کہہ کر جایا کرتے تھے کہ دو دو کھجور ایک ساتھ ملا کر نہ کھانا کیونکہ نبی کریم ﷺ نے اپنے دوسرے ساتھی کی اجازت کے بغیر ایسا کرنے سے منع فرمایا ہے۔
باب: مشترک چیزوں کی انصاف کے ساتھ ٹھیک قیمت لگا کر اسی شریکوں میں بانٹنا۔
ہم سے عمران بن میسرہ ابوالحسن بصری نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالوارث بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے ایوب سختیانی نے، کہا ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص مشترک (ساجھے) کے غلام میں اپنا حصہ آزاد کر دے اور اس کے پاس سارے غلام کی قیمت کے موافق مال ہو تو وہ پورا آزاد ہوجائے گا۔ اگر اتنا مال نہ ہو تو بس جتنا حصہ اس کا تھا اتنا ہی آزاد ہوا۔ ایوب نے کہا کہ یہ مجھے معلوم نہیں کہ روایت کا یہ آخری حصہ غلام کا وہی حصہ آزاد ہوگا جو اس نے آزاد کیا ہے یہ نافع کا اپنا قول ہے یا نبی کریم ﷺ کی حدیث میں داخل ہے۔
باب: مشترک چیزوں کی انصاف کے ساتھ ٹھیک قیمت لگا کر اسی شریکوں میں بانٹنا۔
ہم سے بشیر بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا ہم کو سعید بن ابی عروبہ نے خبر دی، انہیں قتادہ نے، انہیں نضر بن انس نے، انہیں بشیر بن نہیک نے اور انہیں ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص مشترک غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کر دے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ اپنے مال سے غلام کو پوری آزادی دلا دے۔ لیکن اگر اس کے پاس اتنا مال نہیں ہے تو انصاف کے ساتھ غلام کی قیمت لگائی جائے۔ پھر غلام سے کہا جائے کہ (اپنی آزادی کی) کوشش میں وہ باقی حصہ کی قیمت خود کما کر ادا کرلے۔ لیکن غلام پر اس کے لیے کوئی دباو نہ ڈالا جائے۔
باب: کیا تقسیم میں قرعہ ڈالا جا سکتا ہے؟
ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زکریا نے، کہا میں نے عامر بن شعبہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے نعمان بن بشیر (رض) سے سنا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اللہ کی حدود پر قائم رہنے والے اور اس میں گھس جانے والے (یعنی خلاف کرنے والے) کی مثال ایسے لوگوں کی سی ہے جنہوں نے ایک کشتی کے سلسلے میں قرعہ ڈالا۔ جس کے نتیجہ میں بعض لوگوں کو کشتی کے اوپر کا حصہ اور بعض کو نیچے کا۔ پس جو لوگ نیچے والے تھے، انہیں (دریا سے) پانی لینے کے لیے اوپر والوں کے پاس سے گزرنا پڑتا۔ انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ ہم اپنے ہی حصہ میں ایک سوراخ کرلیں تاکہ اوپر والوں کو ہم کوئی تکلیف نہ دیں۔ اب اگر اوپر والے بھی نیچے والوں کو من مانی کرنے دیں گے تو کشتی والے تمام ہلاک ہوجائیں گے اور اگر اوپر والے نیچے والوں کا ہاتھ پکڑ لیں تو یہ خود بھی بچیں گے اور ساری کشتی بھی بچ جائے گی۔
باب: یتیم کا دوسرے وارثوں کے ساتھ شریک ہونا۔
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ عامری اویسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے صالح نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، کہ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی اور انہوں نے سیدہ عائشہ (رض) سے پوچھا تھا (دوسری سند) اور لیث نے بیان کیا کہ مجھ سے یونس نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، انہیں عروہ بن زبیر نے خبر دی کہ انہوں نے عائشہ (رض) سے (سورۃ نساء میں) اس آیت کے بارے میں پوچھا وإن خفتم سے ورباع اگر تم کو یتیموں میں انصاف نہ کرنے کا ڈر ہو تو جو عورتیں پسند آئیں دو دو تین تین چار چار نکاح میں لاؤ انہوں نے کہا میرے بھانجے یہ آیت اس یتیم لڑکی کے بارے میں ہے جو اپنے ولی (محافظ رشتہ دار جیسے چچیرا بھائی، پھوپھی زاد یا ماموں زاد بھائی) کی پرورش میں ہو اور ترکے کے مال میں اس کی ساجھی ہو اور وہ اس کی مالداری اور خوبصورتی پر فریفتہ ہو کر اس سے نکاح کرلینا چاہے لیکن پورا مہر انصاف سے جتنا اس کو اور جگہ ملتا وہ نہ دے، تو اسے اس سے منع کردیا گیا کہ ایسی یتیم لڑکیوں سے نکاح کرے۔ البتہ اگر ان کے ساتھ ان کے ولی انصاف کرسکیں اور ان کی حسب حیثیت بہتر سے بہتر طرز عمل مہر کے بارے میں اختیار کریں (تو اس صورت میں نکاح کرنے کی اجازت ہے) اور ان سے یہ بھی کہہ دیا گیا کہ ان کے سوا جو بھی عورت انہیں پسند ہو ان سے وہ نکاح کرسکتے ہیں۔ عروہ بن زبیر نے کہا کہ عائشہ (رض) نے بتلایا، پھر لوگوں نے اس آیت کے نازل ہونے کے بعد (ایسی لڑکیوں سے نکاح کی اجازت کے بارے میں) مسئلہ پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی ويستفتونک في النساء اور آپ سے عورتوں کے بارے میں یہ لوگ سوال کرتے ہیں ۔ آگے فرمایا اور تم ان سے نکاح کرنا چاہتے ہو۔ یہ جو اس آیت میں ہے اور جو قرآن میں تم پر پڑھا جاتا ہے اس سے مراد پہلی آیت ہے یعنی اگر تم کو یتیموں میں انصاف نہ ہوسکنے کا ڈر ہو تو دوسری عورتیں جو بھلی لگیں ان سے نکاح کرلو ۔ سیدہ عائشہ (رض) نے کہا یہ جو اللہ نے دوسری آیت میں فرمایا اور تم ان سے نکاح کرنا چاہتے ہو اس سے یہ غرض ہے کہ جو یتیم لڑکی تمہاری پرورش میں ہو اور مال اور جمال کم رکھتی ہو اس سے تو تم نفرت کرتے ہو، اس لیے جس یتیم لڑکی کے مال اور جمال میں تم کو رغبت ہو اس سے بھی نکاح نہ کرو مگر اس صورت میں جب انصاف کے ساتھ ان کا پورا مہر ادا کرو۔
باب: زمین مکان وغیرہ میں شرکت کا بیان۔
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زبیری نے، انہیں ابوسلمہ نے اور ان سے جابر بن عبداللہ (رض) نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے شفعہ کا حق ایسے اموال (زمین جائیداد وغیرہ) میں دیا تھا جن کی تقسیم نہ ہوئی ہو۔ لیکن جب اس کی حد بندی ہوجائے اور راستے بھی بدل دیے جائیں تو پھر شفعہ کا کوئی حق باقی نہیں رہے گا۔
باب: جب شریک لوگ گھروں وغیرہ کو تقسیم کر لیں تو اب اس سے پھر نہیں سکتے اور نہ ان کو شفعہ کا حق رہے گا۔
ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالواحد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے معمر نے بیان کیا، ان سے زہری نے بیان کیا، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے جابر بن عبداللہ (رض) نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے ہر اس جائیداد میں شفعہ کا حق دیا تھا جس کی شرکاء میں ابھی تقسیم نہ ہوئی ہو۔ لیکن اگر حد بندی ہوجائے اور راستے الگ ہوجائیں تو پھر شفعہ کا حق باقی نہیں رہتا۔
باب: سونے، چاندی اور ان تمام چیزوں میں شرکت جن میں بیع صرف ہوتی ہے۔
ہم سے عمرو بن علی فلاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا، ان سے عثمان نے جو اسود کے بیٹے ہیں، کہا کہ مجھے سلیمان بن ابی مسلم نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ میں نے ابوالمنہال سے بیع صرف نقد کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میں نے اور میرے ایک شریک نے کوئی چیز (سونے اور چاندی کی) خریدی نقد پر بھی اور ادھار پر بھی۔ پھر ہمارے یہاں براء بن عازب (رض) آئے تو ہم نے ان سے اس کے بارے میں پوچھا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اور میرے شریک زید بن ارقم (رض) نے بھی یہ بیع کی تھی اور ہم نے اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے پوچھا تھا تو آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ جو نقد ہو وہ لے لو اور جو ادھار ہو اسے چھوڑ دو ۔
باب: مسلمان کا مشرکین اور ذمیوں کے ساتھ مل کر کھیتی باڑی کرنا۔
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے جویریہ بن اسماء نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر کی زمین یہودیوں کو اس شرط پردے دی تھی کہ وہ اس میں محنت کریں اور بوئیں جوتیں۔ پیداوار کا آدھا حصہ انہیں ملا کرے گا۔
باب: بکریوں کو انصاف کے ساتھ تقسیم کرنا۔
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے یزید بن ابی حبیب نے، ان سے ابوالخیر نے اور ان سے عقبہ بن عامر (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں بکریاں دی تھیں کہ قربانی کے لیے ان کو صحابہ میں تقسیم کردیں۔ پھر ایک سال کا بکری کا بچہ بچ گیا تو انہوں نے آپ ﷺ سے اس کا ذکر کیا۔ آپ ﷺ نے عقبہ سے فرمایا تو اس کی قربانی کرلے۔
باب: اناج وغیرہ میں شرکت کا بیان۔
ہم سے اصبغ بن فرج نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عبداللہ بن وہب نے خبر دی، کہا مجھے سعید بن ابی ایوب نے خبر دی، انہیں زہرہ بن معبد نے، انہیں ان کے دادا عبداللہ بن ہشام (رض) نے انہوں نے نبی کریم ﷺ کو پایا تھا۔ ان کی والدہ زینب بنت حمید (رض) رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آپ کو لے کر حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! اس سے بیعت لے لیجئے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ تو ابھی بچہ ہے۔ پھر آپ ﷺ نے ان کے سر پر ہاتھ پھیرا اور ان کے لیے دعا کی اور زہرہ بن معبد سے روایت ہے کہ ان کے داد عبداللہ بن ہشام (رض) انہیں اپنے ساتھ بازار لے جاتے۔ وہاں وہ غلہ خریدتے۔ پھر عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم ان سے ملتے تو وہ کہتے کہ ہمیں بھی اس اناج میں شریک کرلو۔ کیونکہ آپ کے لیے رسول اللہ ﷺ نے برکت کی دعا کی ہے۔ چناچہ عبداللہ بن ہشام انہیں بھی شریک کرلیتے اور کبھی پورا ایک اونٹ (مع غلہ) نفع میں پیدا کرلیتے اور اس کو گھر بھیج دیتے۔
باب: غلام لونڈی میں شرکت کا بیان۔
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے جویریہ بن اسماء نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جس نے کسی ساجھے کے غلام کا اپنا حصہ آزاد کردیا تو اس کے لیے ضروری ہے کہ اگر غلام کی انصاف کے موافق قیمت کے برابر اس کے پاس مال ہو تو وہ سارا غلام آزاد کرا دے۔ اس طرح دوسرے ساجھیوں کو ان کے حصے کی قیمت ادا کردی جائے اور اس آزاد کیے ہوئے غلام کا پیچھا چھوڑ دیا جائے۔
باب: غلام لونڈی میں شرکت کا بیان۔
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن حازم نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے، ان سے نضر بن انس نے، ان سے بشیر بن نہیک نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے کسی (ساجھے کے) غلام کا اپنا حصہ آزاد کردیا تو اگر اس کے پاس مال ہے تو پورا غلام آزاد ہوجائے گا۔ ورنہ باقی حصوں کو آزاد کرانے کے لیے اس سے محنت مزدوری کرائی جائے۔ لیکن اس سلسلے میں اس پر کوئی دباو نہ ڈالا جائے۔
باب: قربانی کے جانوروں اور اونٹوں میں شرکت اور اگر کوئی مکہ کو قربانی بھیج چکے پھر اس میں کسی کو شریک کر لے تو جائز ہے۔
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، انہیں عبدالملک بن جریج نے خبر دی، انہیں عطاء نے اور انہیں جابر (رض) نے اور (ابن جریج اسی حدیث کی دوسری روایت) طاؤس سے کرتے ہیں کہ ابن عباس (رض) نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چوتھی ذی الحجہ کی صبح کو حج کا تلبیہ کہتے ہوئے جس کے ساتھ کوئی اور چیز (عمرہ) نہ ملاتے ہوئے (مکہ میں) داخل ہوئے۔ جب ہم مکہ پہنچے تو آپ ﷺ کے حکم سے ہم نے اپنے حج کو عمرہ کر ڈالا۔ آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ (عمرہ کے افعال ادا کرنے کے بعد حج کے احرام تک) ہماری بیویاں ہمارے لیے حلال رہیں گی۔ اس پر لوگوں میں چرچا ہونے لگا۔ عطاء نے بیان کیا کہ جابر (رض) نے کہا کہ کچھ لوگ کہنے لگے کیا ہم میں سے کوئی منیٰ اس طرح جائے کہ منی اس کے ذکر سے ٹپک رہی ہو۔ جابر نے ہاتھ سے اشارہ بھی کیا۔ یہ بات نبی کریم ﷺ تک پہنچی تو آپ ﷺ خطبہ دینے کھڑے ہوئے اور فرمایا مجھے معلوم ہوا ہے کہ بعض لوگ اس طرح کی باتیں کر رہے ہیں۔ اللہ کی قسم میں ان لوگوں سے زیادہ نیک اور اللہ سے ڈرنے والا ہوں۔ اگر مجھے وہ بات پہلے ہی معلوم ہوتی جو اب معلوم ہوئی ہے تو میں قربانی کے جانور اپنے ساتھ نہ لاتا اور اگر میرے ساتھ قربانی کے جانور نہ ہوتے تو میں بھی احرام کھول دیتا۔ اس پر سراقہ بن مالک بن جعشم کھڑے ہوئے اور کہا یا رسول اللہ ! کیا یہ حکم (حج کے ایام میں عمرہ) خاص ہمارے ہی لیے ہے یا ہمیشہ کے لیے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ ہمیشہ کے لیے ہے۔ جابر (رض) نے کہا کہ علی بن ابی طالب (رض) (یمن سے) آئے۔ اب عطاء اور طاؤس میں سے ایک تو یوں کہتا ہے علی (رض) نے احرام کے وقت یوں کہا تھا۔ لبيك بما أهل به رسول الله صلى الله عليه وسلم. اور دوسرا یوں کہتا ہے کہ انہوں نے لبيك بحجة رسول الله صلى الله عليه وسلم کہا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ اپنے احرام پر قائم رہیں (جیسا بھی انہوں نے باندھا ہے) اور انہیں اپنی قربانی میں شریک کرلیا۔
باب: تقسیم میں ایک اونٹ کو دس بکریوں کے برابر سمجھنا۔
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو وکیع نے خبر دی، انہیں سفیان ثوری نے، انہیں ان کے والد سعید بن مسروق نے، انہیں عبایہ بن رفاعہ نے اور ان سے ان کے دادا رافع بن خدیج (رض) نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ تہامہ کے مقام ذوالحلیفہ میں تھے (غنیمت میں) ہمیں بکریاں اور اونٹ ملے تھے۔ بعض لوگوں نے جلدی کی اور (جانور ذبح کر کے) گوشت کو ہانڈیوں میں چڑھا دیا۔ پھر رسول اللہ ﷺ تشریف لائے۔ آپ ﷺ کے حکم سے گوشت کی ہانڈیوں کو الٹ دیا گیا۔ پھر (آپ ﷺ نے تقسیم میں) دس بکریوں کا ایک اونٹ کے برابر حصہ رکھا۔ ایک اونٹ بھاگ کھڑا ہوا۔ قوم کے پاس گھوڑوں کی کمی تھی۔ ایک شخص نے اونٹ کو تیر مار کر روک لیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ان جانوروں میں بھی جنگی جانوروں کی طرح وحشت ہوتی ہے۔ اس لیے جب تک ان کو نہ پکڑ سکو تو تم ان کے ساتھ ہی ایسا سلوک کیا کرو۔ عبایہ نے بیان کیا کہ میرے دادا نے عرض کیا، یا رسول اللہ ! ہمیں امید ہے یا خطرہ ہے کہ کہیں کل دشمن سے مڈبھیڑ نہ ہوجائے اور چھری ہمارے ساتھ نہیں ہے۔ کیا دھار دار لکڑی سے ہم ذبح کرسکتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا، لیکن ذبح کرنے میں جلدی کرو۔ جو چیز خون بہا دے (اسی سے کاٹ ڈالو) اگر اس پر اللہ کا نام لیا جائے تو اس کو کھاؤ اور ناخن اور دانت سے ذبح نہ کرو۔ اس کی وجہ میں بتلاتا ہوں دانت تو ہڈی ہے اور ناخن حبشیوں کی چھریاں ہیں۔