36. غلام آزاد کرنے کا بیان
باب: غلام آزاد کرنے کا ثواب۔
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عاصم بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے واقد بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے علی بن حسین کے ساتھی سعید بن مرجانہ نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جس شخص نے بھی کسی مسلمان (غلام) کو آزاد کیا تو اللہ تعالیٰ اس غلام کے جسم کے ہر عضو کی آزادی کے بدلے اس شخص کے جسم کے بھی ایک ایک عضو کو دوزخ سے آزاد کرے گا۔ سعید بن مرجانہ نے بیان کیا کہ پھر میں علی بن حسین (زین العابدین (رح)) کے یہاں گیا (اور ان سے حدیث بیان کی) وہ اپنے ایک غلام کی طرف متوجہ ہوئے۔ جس کی عبداللہ بن جعفر دس ہزار درہم یا ایک ہزار دینار قیمت دے رہے تھے اور آپ نے اسے آزاد کردیا۔
باب: کیسا غلام آزاد کرنا افضل ہے؟
ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے، ان سے ابومرواح نے اور ان سے ابوذر غفاری (رض) نے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ کون سا عمل افضل ہے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ پر ایمان لانا اور اس کی راہ میں جہاد کرنا۔ میں نے پوچھا اور کس طرح کا غلام آزاد کرنا افضل ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا، جو سب سے زیادہ قیمتی ہو اور مالک کی نظر میں جو بہت زیادہ پسندیدہ ہو۔ میں نے عرض کیا کہ اگر مجھ سے یہ نہ ہوسکا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا، کہ پھر کسی مسلمان کاریگر کی مدد کر یا کسی بےہنر کی۔ انہوں نے کہا کہ اگر میں یہ بھی نہ کرسکا ؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر لوگوں کو اپنے شر سے محفوظ کر دے کہ یہ بھی ایک صدقہ ہے جسے تم خود اپنے اوپر کرو گے۔
باب: سورج گرہن اور دوسری نشانیوں کے وقت غلام آزاد کرنا مستحب ہے۔
ہم سے موسیٰ بن مسعود نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے زائدۃ بن قدامہ نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے فاطمہ بن منذر نے اور ان سے اسماء بنت ابی بکر (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے سورج گرہن کے وقت غلام آزاد کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ موسیٰ کے ساتھ اس حدیث کو علی بن مدینی نے بھی عبدالعزیز دراوردی سے روایت کیا ہے۔ انہوں نے ہشام سے۔
باب: سورج گرہن اور دوسری نشانیوں کے وقت غلام آزاد کرنا مستحب ہے۔
ہم سے محمد بن ابی بکر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عثام نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ہشام نے بیان کیا، ان سے فاطمہ بنت منذر نے بیان کیا اور ان سے اسماء بنت ابی بکر (رض) نے بیان کیا کہ ہمیں سورج گرہن کے وقت غلام آزاد کرنے کا حکم دیا جاتا تھا۔
باب: اگر مشترک غلام یا لونڈی کو آزاد کر دیا جائے۔
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے، ان سے سالم نے اور ان سے ان کے والد نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا دو ساجھیوں کے درمیان ساجھے کے غلام کو اگر کسی ایک ساجھی نے آزاد کیا، تو اگر آزاد کرنے والا مالدار ہے تو باقی حصوں کی قیمت کا اندازہ کیا جائے گا۔ پھر (اسی کی طرف سے) پورے غلام کو آزاد کردیا جائے گا۔
باب: اگر مشترک غلام یا لونڈی کو آزاد کر دیا جائے۔
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں نافع نے اور انہیں عبداللہ بن عمر (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے کسی مشترک غلام میں اپنے حصے کو آزاد کردیا اور اس کے پاس اتنا مال ہے کہ غلام کی پوری قیمت ادا ہو سکے تو اس کی قیمت انصاف کے ساتھ لگائی جائے گی اور باقی ساجھیوں کو ان کے حصے کی قیمت (اسی کے مال سے) دے کر غلام کو اسی کی طرف سے آزاد کردیا جائے گا۔ ورنہ غلام کا جو حصہ آزاد ہوچکا وہ ہوچکا۔ باقی حصوں کی آزادی کے لیے غلام کو خود کوشش کر کے قیمت ادا کرنی ہوگی۔
دو آدمیوں کے درمیان کسی مشترک غلام یا چند شریکوں کے درمیان مشترک لونڈی کو کوئی شخص آزاد کر دے۔
ہم سے مسدد نے بیان کیا، ان سے بشر نے بیان کیا اور ان سے عبیداللہ نے اختصار کے ساتھ۔
باب: اگر مشترک غلام یا لونڈی کو آزاد کر دیا جائے۔
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جس نے کسی (ساجھے) غلام کا اپنا حصہ آزاد کردیا۔ یا (آپ ﷺ نے) یہ الفاظ فرمائے شرکا له في عبد (شک راوی حدیث ایوب سختیانی کو ہوا) اور اس کے پاس اتنا مال بھی تھا جس سے پورے غلام کی مناسب قیمت ادا کی جاسکتی تھی تو وہ غلام پوری طرح آزاد سمجھا جائے گا۔ (باقی حصوں کی قیمت اس کو دینی ہوگی) نافع نے بیان کیا ورنہ اس کا جو حصہ آزاد ہوگیا بس وہ آزاد ہوگیا۔ ایوب نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں یہ (آخری ٹکڑا) خود نافع نے اپنی طرف سے کہا تھا یا یہ بھی حدیث میں شامل ہے۔
None
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما غلام یا باندی کے بارے میں یہ فتویٰ دیا کرتے تھے کہ اگر وہ کئی ساجھیوں کے درمیان مشترک ہو اور ایک شریک اپنا حصہ آزاد کر دے تو ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے تھے کہ اس شخص پر پورے غلام کے آزاد کرانے کی ذمہ داری ہو گی لیکن یہ اس صورت میں جب شخص مذکور کے پاس اتنا مال ہو جس سے پورے غلام کی قیمت ادا کی جا سکے۔ غلام کی مناسب قیمت لگا کر دوسرے ساجھیوں کو ان کے حصوں کے مطابق ادائیگی کر دی جائے گی اور غلام کو آزاد کر دیا جائے گا۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما یہ فتویٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے تھے اور لیث بن ابی ذئب، ابن اسحاق، جویریہ، یحییٰ بن سعید اور اسماعیل بن امیہ بھی نافع سے اس حدیث کو روایت کرتے ہیں، وہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مختصر طور پر۔
باب: اگر کسی شخص نے ساجھے کے غلام میں اپنا حصہ آزاد کر دیا اور وہ نادار ہے تو دوسرے ساجھے والوں کے لیے اس سے محنت مزدوری کرائی جائے گی جیسے مکاتب سے کراتے ہیں، اس پر سختی نہیں کی جائے گی۔
ہم سے احمد بن ابی رجاء نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ بن آدم نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن حازم نے بیان کیا، کہا میں نے قتادہ سے سنا، کہا کہ مجھ سے نضر بن انس بن مالک نے بیان کیا، ان سے بشیر بن نہیک نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جس نے کسی غلام کا ایک حصہ آزاد کیا۔ ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، ان سے سعید بن ابی عروبہ نے، ان سے قتادہ نے ان سے نضر بن انس نے، ان سے بشیر بن نہیک نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جس نے کسی ساجھے کے غلام کا اپنا حصہ آزاد کیا تو اس کی پوری آزادی اسی کے ذمہ ہے۔ بشرطیکہ اس کے پاس مال ہو۔ ورنہ غلام کی قیمت لگائی جائے گی اور (اس سے اپنے بقیہ حصوں کی قیمت ادا کرنے کی) کوشش کے لیے کہا جائے گا۔ لیکن اس پر کوئی سختی نہ کی جائے گی۔ سعید کے ساتھ اس حدیث کو حجاج بن حجاج، ابان اور موسیٰ بن خلف نے بھی قتادہ سے روایت کیا۔ شعبہ نے اسے مختصر کردیا ہے۔
باب: اگر بھول چوک کر کسی کی زبان سے عتاق (آزادی) یا طلاق یا اور کوئی ایسی ہی چیز نکل جائے۔
ہم سے حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، کہا ہم سے مسعر نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے، ان سے زرارہ بن اوفی نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے میری امت کے دلوں میں پیدا ہونے والے وسوسوں کو معاف کردیا ہے جب تک وہ انہیں عمل یا زبان پر نہ لائیں۔
باب: اگر بھول چوک کر کسی کی زبان سے عتاق (آزادی) یا طلاق یا اور کوئی ایسی ہی چیز نکل جائے۔
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، ان سے محمد بن ابراہیم تیمی نے، ان سے علقمہ بن وقاص لیثی نے، کہا کہ میں نے عمر بن خطاب (رض) سے سنا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اعمال کا مدار نیت پر ہے اور ہر شخص کو اس کی نیت کے مطابق پھل ملتا ہے۔ پس جس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہو، وہ اللہ اور اس کے رسول کے لیے سمجھی جائے گی اور جس کی ہجرت دنیا کے لیے ہوگی یا کسی عورت سے شادی کرنے کے لیے تو یہ ہجرت محض اسی کے لیے ہوگی جس کی نیت سے اس نے ہجرت کی ہے۔
باب: ایک شخص نے آزاد کرنے کی نیت سے اپنے غلام سے کہہ دیا کہ وہ اللہ کے لیے ہے (تو وہ آزاد ہو گیا) اور آزادی کے ثبوت کے لیے گواہ (ضروری ہیں)۔
ہم سے محمد بن عبداللہ بن نمیر نے بیان کیا، ان سے محمد بن بشر نے، ان سے اسماعیل نے، ان سے قیس نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ جب وہ اسلام قبول کرنے کے ارادے سے (مدینہ کے لیے) نکلے تو ان کے ساتھ ان کا غلام بھی تھا۔ (راستے میں) وہ دونوں ایک دوسرے سے بچھڑ گئے۔ پھر جب ابوہریرہ (رض) (مدینہ پہنچنے کے بعد) نبی کریم ﷺ کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے تو ان کا غلام بھی اچانک آگیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا، ابوہریرہ ! یہ لو تمہارا غلام بھی آگیا۔ ابوہریرہ (رض) نے کہا، یا رسول اللہ ! میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ یہ غلام اب آزاد ہے۔ راوی نے کہا کہ ابوہریرہ (رض) نے مدینہ پہنچ کر یہ شعر کہے تھے۔ ہے پیاری گو کٹھن ہے اور لمبی میری رات، پر دلائی اس نے دالکفر سے مجھ کو نجات۔
باب: ایک شخص نے آزاد کرنے کی نیت سے اپنے غلام سے کہہ دیا کہ وہ اللہ کے لیے ہے (تو وہ آزاد ہو گیا) اور آزادی کے ثبوت کے لیے گواہ (ضروری ہیں)۔
ہم سے عبیداللہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، ان سے قیس نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ جب میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا تو آتے ہوئے راستے میں یہ شعر کہا تھا : ہے پیاری گو کٹھن ہے اور لمبی میری رات، پر دلائی اس نے دارالکفر سے مجھ کو نجات۔ انہوں نے بیان کیا کہ راستے میں میرا غلام مجھ سے بچھڑ گیا تھا۔ پھر جب میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اسلام پر قائم رہنے کے لیے میں نے آپ ﷺ سے بیعت کرلی۔ میں ابھی آپ ﷺ کے پاس بیٹھا ہی ہوا تھا کہ وہ غلام دکھائی دیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، ابوہریرہ ! یہ دیکھ تیرا غلام بھی آگیا۔ میں نے کہا، یا رسول اللہ ! وہ اللہ کے لیے آزاد ہے۔ پھر میں نے اسے آزاد کردیا۔ امام بخاری (رح) فرماتے ہیں کہ ابوکریب نے (اپنی روایت میں) ابواسامہ سے یہ لفظ نہیں روایت کیا کہ وہ آزاد ہے۔
باب: ایک شخص نے آزاد کرنے کی نیت سے اپنے غلام سے کہہ دیا کہ وہ اللہ کے لیے ہے (تو وہ آزاد ہو گیا) اور آزادی کے ثبوت کے لیے گواہ (ضروری ہیں)۔
ہم سے شہاب بن عباد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن حمید نے بیان کیا، ان سے اسماعیل نے، ان سے قیس نے کہ جب ابوہریرہ (رض) آ رہے تھے تو ان کے ساتھ ان کا غلام بھی تھا، آپ اسلام کے ارادے سے آ رہے تھے۔ اچانک راستے میں وہ غلام بھول کر الگ ہوگیا (پھر یہی حدیث بیان کی) اس میں یوں ہے اور ابوہریرہ (رض) نے کہا تھا، میں آپ ﷺ کو گواہ بناتا ہوں کہ وہ اللہ کے لیے ہے۔
باب: ام ولد کا بیان۔
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، ان سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا کہ عائشہ (رض) نے فرمایا عتبہ بن ابی وقاص نے اپنے بھائی سعد بن ابی وقاص (رض) کو وصیت کی تھی کہ زمعہ کی باندی کے بچے کو اپنے قبضے میں لے لیں۔ اس نے کہا تھا کہ وہ لڑکا میرا ہے۔ پھر جب فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ ﷺ (مکہ) تشریف لائے، تو سعد (رض) نے زمعہ کی باندی کے لڑکے کو لے لیا اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، عبد بن زمعہ بھی ساتھ تھے۔ سعد (رض) نے عرض کیا، یا رسول اللہ ! یہ میرے بھائی کا لڑکا ہے، انہوں نے مجھے وصیت کی تھی کہ یہ انہیں کا لڑکا ہے۔ لیکن عبد بن زمعہ نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ ! یہ میرا بھائی ہے۔ جو زمعہ (میرے والد) کی باندی کا لڑکا ہے۔ انہیں کے فراش پر پیدا ہوا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے زمعہ کی باندی کے لڑکے کو دیکھا تو واقعی وہ عتبہ کی صورت پر تھا۔ لیکن آپ ﷺ نے فرمایا، اے عبد بن زمعہ ! یہ تمہاری پرورش میں رہے گا۔ کیونکہ بچہ تمہارے والد ہی کے فرش پر پیدا ہوا ہے۔ آپ ﷺ نے ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا کہ اے سودہ بن زمعہ ! اس سے پردہ کیا کر یہ ہدایت آپ ﷺ نے اس لیے کی تھی کہ بچے میں عتبہ کی شباہت دیکھ لی تھی۔ سودہ (رض) آپ ﷺ کی بیوی تھیں۔
باب: مدبر کی بیع کا بیان۔
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے بیان کیا، انہوں نے جابر بن عبداللہ (رض) سے سنا، انہوں نے کہا کہ ہم میں سے ایک شخص نے اپنی موت کے بعد اپنے غلام کی آزادی کے لیے کہا تھا۔ پھر نبی کریم ﷺ نے اس غلام کو بلایا اور اسے بیچ دیا۔ جابر (رض) نے بیان کیا کہ پھر وہ غلام اپنی آزادی کے پہلے ہی سال مرگیا تھا۔
باب: ولاء (غلام یا لونڈی کا ترکہ) بیچنا یا ہبہ کرنا۔
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھے عبداللہ بن دینار نے خبر دی، انہوں نے عبداللہ بن عمر (رض) سے سنا، آپ بیان کیا کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے ولاء کے بیچنے اور اس کے ہبہ کرنے سے منع فرمایا تھا۔
باب: ولاء (غلام یا لونڈی کا ترکہ) بیچنا یا ہبہ کرنا۔
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے ابراہیم نے، ان سے اسود نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ بریرہ (رض) کو میں نے خریدا تو ان کے مالکوں نے ولاء کی شرط لگائی (کہ آزادی کے بعد وہ انہیں کے حق میں قائم رہے گی) میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا تم انہیں آزاد کر دو ، ولاء تو اسی کی ہوتی ہے جو قیمت دے کر کسی غلام کو آزاد کر دے۔ پھر میں نے انہیں آزاد کردیا۔ پھر نبی کریم ﷺ نے بریرہ (رض) کو بلایا اور ان کے شوہر کے سلسلے میں انہیں اختیار دیا۔ بریرہ نے کہا کہ اگر وہ مجھے فلاں فلاں چیز بھی دیں تب بھی میں اس کے پاس نہ رہوں گی۔ چناچہ وہ اپنے شوہر سے جدا ہوگئیں۔
باب: اگر کسی مسلمان کا مشرک بھائی یا چچا قید ہو کر آئے تو کیا (ان کو چھڑانے کے لیے) اس کی طرف سے فدیہ دیا جا سکتا ہے؟
ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن ابراہیم بن عقبہ نے بیان کیا، ان سے موسیٰ نے، ان سے ابن شہاب نے اور ان سے انس (رض) نے بیان کیا کہ انصار کے بعض لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے ملاقات کی اور اجازت چاہی اور آ کر عرض کیا کہ آپ ہمیں اس کی اجازت دے دیجئیے کہ ہم اپنے بھانجے عباس کا فدیہ معاف کردیں آپ ﷺ نے فرمایا کہ نہیں ایک درہم بھی نہ چھوڑو۔
باب: مشرک غلام کو آزاد کرنے کا ثواب ملے گا یا نہیں؟
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے ہشام نے، انہیں ان کے والد نے خبر دی کہ حکیم بن حزام (رض) نے اپنے کفر کے زمانے میں سو غلام آزاد کیے تھے اور سو اونٹ لوگوں کی سواری کے لیے دیے تھے۔ پھر جب اسلام لائے تو سو اونٹ لوگوں کی سواری کے لیے دیے اور سو غلام آزاد کیے۔ پھر انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا۔ یا رسول اللہ ! بعض ان نیک اعمال کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے جنہیں میں بہ نیت ثواب کفر کے زمانہ میں کیا کرتا تھا (ہشام بن عروہ نے کہا کہ) أتحنث بها کے معنی أتبرر بها کے ہیں) انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس پر فرمایا جو نیکیاں تم پہلے کرچکے ہو وہ سب قائم رہیں گی۔
باب: اگر عربوں پر جہاد ہو اور کوئی ان کو غلام بنائے پھر ہبہ کرے یا عربی لونڈی سے جماع کرے یا فدیہ لے یہ سب باتیں درست ہیں یا بچوں کو قید کرے۔
ہم سے ابن ابی مریم نے بیان کیا، کہا کہ مجھے لیث نے خبر دی، انہیں عقیل نے، انہیں ابن شہاب نے کہ عروہ نے ذکر کیا کہ مروان اور مسور بن مخرمہ نے انہیں خبر دی کہ جب قبیلہ ہوازن کی بھیجے ہوئے لوگ (مسلمان ہو کر) آپ ﷺ کے پاس آئے۔ آپ ﷺ نے کھڑے ہو کر ان سے ملاقات فرمائی، پھر ان لوگوں نے آپ ﷺ کے سامنے درخواست کی کہ ان کے اموال اور قیدی واپس کردیے جائیں۔ آپ ﷺ کھڑے ہوئے (خطبہ سنایا) آپ ﷺ نے فرمایا تم دیکھتے ہو میرے ساتھ جو لوگ ہیں (میں اکیلا ہوتا تو تم کو واپس کردیتا) اور بات وہی مجھے پسند ہے جو سچ ہو۔ اس لیے دو چیزوں میں سے ایک ہی تمہیں اختیار کرنی ہوگی، یا اپنا مال واپس لے لو، یا اپنے قیدیوں کو چھڑا لو، اسی لیے میں نے ان کی تقسیم میں بھی دیر کی تھی۔ نبی کریم ﷺ نے طائف سے لوٹتے ہوئے (جعرانہ میں) ہوازن والوں کا وہاں پر کئی راتوں تک انتظار کیا تھا۔ جب ان لوگوں پر یہ بات پوری طرح ظاہر ہوگئی کہ نبی کریم ﷺ دو چیزوں (مال اور قیدی) میں سے صرف ایک ہی کو واپس فرما سکتے ہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ ہمیں ہمارے آدمی ہی واپس کر دیجئیے جو آپ کی قید میں ہیں۔ اس کے بعد نبی کریم ﷺ نے لوگوں سے خطاب فرمایا، اللہ کی تعریف اس کی شان کے مطابق کرنے کے بعد فرمایا امابعد ! یہ تمہارے بھائی ہمارے پاس نادم ہو کر آئے ہیں اور میرا بھی خیال یہ ہے کہ ان کے آدمی جو ہماری قید میں ہیں، انہیں واپس کردیے جائیں۔ اب جو شخص اپنی خوشی سے ان کے آدمیوں کو واپس کرے وہ ایسا کرلے اور جو شخص اپنے حصے کو چھوڑنا نہ چاہے (اور اس شرط پر اپنے قیدیوں کو آزاد کرنے کے لیے تیار ہو کہ ان قیدیوں کے بدلے میں) ہم اسے اس کے بعد سب سے پہلی مال غنیمت میں سے جو اللہ تعالیٰ ہمیں دے گا اس کے (اس) حصے کا بدلہ اس کے حوالہ کردیں گے تو وہ ایسا کرلے۔ لوگ اس پر بول پڑے کہ ہم اپنی خوشی سے قیدی کو واپس کرنے کے لیے تیار ہیں۔ آپ ﷺ نے اس پر فرمایا لیکن ہم پر یہ ظاہر نہ ہوسکا کہ کس نے ہمیں اجازت دی ہے اور کس نے نہیں دی ہے۔ اس لیے سب لوگ (اپنے خیموں میں) واپس جائیں اور سب کے ذمہ دار آ کر ان کی رائے سے ہمیں آگاہ کریں۔ چناچہ سب لوگ چلے آئے اور ان کے سرداروں نے (ان سے گفتگو کی) پھر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ ﷺ کو خبر دی کہ سب نے اپنی خوشی سے اجازت دے دی ہے۔ یہی وہ خبر ہے جو ہمیں ہوازن کے قیدیوں کے سلسلے میں معلوم ہوئی ہے۔ (زہری نے کہا) اور انس (رض) نے بیان کیا کہ عباس (رض) نے نبی کریم ﷺ سے (جب بحرین سے مال آیا) کہا تھا کہ (بدر کے موقع پر) میں نے اپنا بھی فدیہ دیا تھا اور عقیل (رض) کا بھی۔
باب: اگر عربوں پر جہاد ہو اور کوئی ان کو غلام بنائے پھر ہبہ کرے یا عربی لونڈی سے جماع کرے یا فدیہ لے یہ سب باتیں درست ہیں یا بچوں کو قید کرے۔
ہم سے علی بن حسن نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی، کہا ہم کو ابن عون نے خبر دی، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے نافع (رح) کو لکھا تو انہوں نے مجھے جواب دیا کہ نبی کریم ﷺ نے بنو مصطلق پر جب حملہ کیا تو وہ بالکل غافل تھے اور ان کے مویشی پانی پی رہے تھے۔ ان کے لڑنے والوں کو قتل کیا گیا، عورتوں بچوں کو قید کرلیا گیا۔ انہیں قیدیوں میں جویریہ رضی اللہ عنہا (ام المؤمنین) بھی تھیں۔ (نافع (رح) نے لکھا تھا کہ) یہ حدیث مجھ سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کی تھی، وہ خود بھی اسلامی فوج کے ہمراہ تھے۔
باب: اگر عربوں پر جہاد ہو اور کوئی ان کو غلام بنائے پھر ہبہ کرے یا عربی لونڈی سے جماع کرے یا فدیہ لے یہ سب باتیں درست ہیں یا بچوں کو قید کرے۔
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ربیعہ بن ابی عبدالرحمٰن نے، انہیں محمد بن یحییٰ بن حبان نے، ان سے ابن محیریز نے کہ میں نے ابوسعید (رض) کو دیکھا تو ان سے ایک سوال کیا، آپ نے جواب میں کہا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوہ بنی مصطلق کے لیے نکلے۔ اس غزوے میں ہمیں (قبیلہ بنی مصطلق کے) عرب قیدی ہاتھ آئے (راستے ہی میں) ہمیں عورتوں کی خواہش ہوئی اور عورت سے الگ رہنا ہم کو مشکل ہوگیا۔ ہم نے چاہا کہ عزل کرلیں۔ جب رسول اللہ ﷺ سے اس بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا، تم عزل کرسکتے ہو، اس میں کوئی قباحت نہیں لیکن جن روحوں کی بھی قیامت تک کے لیے پیدائش مقدر ہوچکی ہے وہ تو ضرور پیدا ہو کر رہیں گی (لہٰذا تمہارا عزل کرنا بیکار ہے) ۔
باب: اگر عربوں پر جہاد ہو اور کوئی ان کو غلام بنائے پھر ہبہ کرے یا عربی لونڈی سے جماع کرے یا فدیہ لے یہ سب باتیں درست ہیں یا بچوں کو قید کرے۔
ہم سے زہیر بن حرب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے جریر بن عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے عمارہ بن قعقاع، ان سے ابوزرعہ نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہا کہ میں بنو تمیم سے ہمیشہ محبت کرتا رہا ہوں (دوسری سند امام بخاری (رح) نے کہا) مجھ سے ابن سلام نے بیان کیا، کہا ہم کو جریر بن عبدالحمید نے خبر دی، انہیں مغیرہ نے، انہیں حارث نے، انہیں ابوزرعہ نے اور انہیں ابوہریرہ (رض) نے، (تیسری سند) اور مغیرہ نے عمارہ سے روایت کی، انہوں نے ابوزرعہ سے کہ ابوہریرہ (رض) نے فرمایا، تین باتوں کی وجہ سے جنہیں میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے۔ میں بنو تمیم سے ہمیشہ محبت کرتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا کہ یہ لوگ دجال کے مقابلے میں میری امت میں سب سے زیادہ سخت مخالف ثابت ہوں گے۔ انہوں نے بیان کیا کہ (ایک مرتبہ) بنو تمیم کے یہاں سے زکوٰۃ (وصول ہو کر آئی) تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ ہماری قوم کی زکوٰۃ ہے۔ بنو تمیم کی ایک عورت قید ہو کر سیدہ عائشہ (رض) کے پاس تھی تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ اسے آزاد کر دے کہ یہ اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ہے۔
باب: جو شخص اپنی لونڈی کو ادب اور علم سکھائے، اس کی فضیلت کا بیان۔
ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے محمد بن فضیل سے سنا، انہوں نے مطرف سے، انہوں نے شعبی سے، انہوں نے ابوبردہ سے، انہوں نے ابوموسیٰ (رض) سے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص کے پاس کوئی لونڈی ہو اور وہ اس کی اچھی پرورش کرے اور اس کے ساتھ اچھا معاملہ کرے، پھر اسے آزاد کر کے اس سے نکاح کرلے تو اس کو دوہرا ثواب ملے گا۔
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ ”غلام تمہارے بھائی ہیں پس ان کو بھی تم اسی میں سے کھلاؤ جو تم خود کھاتے ہو“۔
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ہم سے واصل بن حیان نے جو کبڑے تھے، بیان کیا، کہا کہ میں نے معرور بن سوید سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے ابوذر غفاری (رض) کو دیکھا کہ ان کے بدن پر بھی ایک جوڑا تھا اور ان کے غلام کے بدن پر بھی اسی قسم کا ایک جوڑا تھا۔ ہم نے اس کا سبب پوچھا تو انہوں نے بتلایا کہ ایک دفعہ میری ایک صاحب (یعنی بلال (رض) سے) سے کچھ گالی گلوچ ہوگئی تھی۔ انہوں نے نبی کریم ﷺ سے میری شکایت کی، آپ ﷺ نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تم نے انہیں ان کی ماں کی طرف سے عار دلائی ہے ؟ پھر آپ ﷺ نے فرمایا، تمہارے غلام بھی تمہارے بھائی ہیں اگرچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں تمہاری ماتحتی میں دے رکھا ہے۔ اس لیے جس کا بھی کوئی بھائی اس کے قبضہ میں ہو اسے وہی کھلائے جو وہ خود کھاتا ہے اور وہی پہنائے جو وہ خود پہنتا ہے اور ان پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالے۔ لیکن اگر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالو تو پھر ان کی خود مدد بھی کردیا کرو۔
باب: جب غلام اپنے رب کی عبادت بھی اچھی طرح کرے اور اپنے آقا کی خیر خواہی بھی تو اس کے ثواب کا بیان۔
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، انہوں نے امام مالک سے، انہوں نے نافع سے، انہوں نے عبداللہ بن عمر (رض) سے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا غلام جو اپنے آقا کا خیرخواہ بھی ہو اور اپنے رب کی عبادت بھی اچھی طرح کرتا ہو تو اسے دوگنا ثواب ملتا ہے۔
باب: جب غلام اپنے رب کی عبادت بھی اچھی طرح کرے اور اپنے آقا کی خیر خواہی بھی تو اس کے ثواب کا بیان۔
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی صالح سے، انہوں نے شعبی سے، انہوں نے ابوبردہ سے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس کسی کے پاس بھی کوئی باندی ہو اور وہ اسے پورے حسن و خوبی کے ساتھ ادب سکھائے، پھر آزاد کر کے اس سے شادی کرلے تو اسے دوگنا ثواب ملتا ہے اور جو غلام اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی ادا کرے اور اپنے آقاؤں کے بھی تو اسے بھی دوگنا ثواب ملتا ہے۔
باب: جب غلام اپنے رب کی عبادت بھی اچھی طرح کرے اور اپنے آقا کی خیر خواہی بھی تو اس کے ثواب کا بیان۔
ہم سے بشر بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا ہم کو یونس نے خبر دی، انہوں نے زہری سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے سعید بن مسیب سے سنا، انہوں نے کہا کہ ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ ان سے نبی کریم ﷺ نے فرمایا غلام جو کسی کی ملکیت میں ہو اور نیکو کار ہو تو اسے دو ثواب ملتے ہیں۔ اور ابوہریرہ (رض) نے کہا، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد، حج اور والدہ کی خدمت (کی روک) نہ ہوتی تو میں پسند کرتا کہ غلام رہ کر مروں۔
باب: جب غلام اپنے رب کی عبادت بھی اچھی طرح کرے اور اپنے آقا کی خیر خواہی بھی تو اس کے ثواب کا بیان۔
ہم سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، انہوں نے اعمش سے، ان سے ابوصالح نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کتنا اچھا ہے کسی کا وہ غلام جو اپنے رب کی عبادت تمام حسن و خوبی کے ساتھ بجا لائے اور اپنے مالک کی خیر خواہی بھی کرتا رہے۔
باب: غلام پر دست درازی کرنا اور یوں کہنا کہ یہ میرا غلام ہے یا لونڈی مکروہ ہے۔
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ نے، ان سے نافع نے کہا اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب غلام اپنے آقا کی خیر خواہی کرے اور اپنے رب کی عبادت تمام حسن و خوبی کے ساتھ بجا لائے تو اسے دوگنا ثواب ملتا ہے۔
باب: غلام پر دست درازی کرنا اور یوں کہنا کہ یہ میرا غلام ہے یا لونڈی مکروہ ہے۔
ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، انہوں نے برید بن عبداللہ سے، وہ ابوبردہ سے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری (رض) نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا غلام جو اپنے رب کی عبادت احسن طریق کے ساتھ بجا لائے اور اپنے آقا کے جو اس پر خیر خواہی اور فرماں برداری (کے حقوق ہیں) انہیں بھی ادا کرتا رہے، تو اسے دوگنا ثواب ملتا ہے۔
باب: غلام پر دست درازی کرنا اور یوں کہنا کہ یہ میرا غلام ہے یا لونڈی مکروہ ہے۔
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں ہمام بن منبہ نے، انہوں نے ابوہریرہ (رض) سے سنا، وہ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا کوئی شخص (کسی غلام یا کسی بھی شخص سے) یہ نہ کہے۔ اپنے رب (مراد آقا) کو کھانا کھلا، اپنے رب کو وضو کرا، اپنے رب کو پانی پلا ۔ بلکہ صرف میرے سردار، میرے آقا کے الفاظ کہنا چاہیے۔ اسی طرح کوئی شخص یہ نہ کہے۔ میرا بندہ، میری بندی، بلکہ یوں کہنا چاہیے میرا چھوکرا، میری چھوکری، میرا غلام۔
باب: غلام پر دست درازی کرنا اور یوں کہنا کہ یہ میرا غلام ہے یا لونڈی مکروہ ہے۔
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے جریر بن حازم نے بیان کیا، انہوں نے نافع سے، وہ عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جس نے غلام کا اپنا حصہ آزاد کردیا، اور اس کے پاس اتنا مال بھی ہو جس سے غلام کی واجبی قیمت ادا کی جاسکے تو اسی کے مال سے پورا غلام آزاد کیا جائے گا ورنہ جتنا آزاد ہوگیا ہوگیا۔
باب: غلام پر دست درازی کرنا اور یوں کہنا کہ یہ میرا غلام ہے یا لونڈی مکروہ ہے۔
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ عمری نے بیان کیا کہ مجھ سے نافع نے بیان کیا، عبداللہ بن عمر (رض) سے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میں سے ہر شخص حاکم ہے اور اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا۔ پس لوگوں کا واقعی امیر ایک حاکم ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا۔ اور ہر آدمی اپنے گھر والوں پر حاکم ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا۔ اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں پر حاکم ہے اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا۔ اور غلام اپنے آقا (سید) کے مال کا حاکم ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ پس جان لو کہ تم میں سے ہر ایک حاکم ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں (قیامت کے دن) پوچھ ہوگی۔
باب: غلام پر دست درازی کرنا اور یوں کہنا کہ یہ میرا غلام ہے یا لونڈی مکروہ ہے۔
ہم سے مالک بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا زہری سے، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے بیان کیا، کہا میں نے ابوہریرہ اور زید بن خالد (رض) سے سنا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جب باندی زنا کرائے تو اسے (بطور حد شرعی) کوڑے لگاؤ پھر اگر کرئے تو اسے کوڑے لگاؤ تیسری یا چوتھی بار میں ( آپ ﷺ نے فرمایا کہ) پھر اسے بیچ دو ، خواہ قیمت میں ایک رسی ہی ملے۔
باب: جب کسی کا خادم کھانا لے کر آئے۔
ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا مجھے محمد بن زیاد نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ میں نے ابوہریرہ (رض) سے سنا اور انہوں نے نبی کریم ﷺ سے کہ جب کسی کا غلام کھانا لائے اور وہ اسے اپنے ساتھ (کھلانے کے لیے) نہ بٹھا سکے تو اسے ایک یا دو نوالے ضرور کھلا دے یا آپ ﷺ نے لقمة أو لقمتين کے بدل أكلة أو أكلتين فرمایا (یعنی ایک یا دو لقمے) کیونکہ اسی نے اس کو تیار کرنے کی تکلیف اٹھائی ہے۔
باب: غلام اپنے آقا کے مال کا نگہبان ہے۔
سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا کہ مجھے سالم بن عبداللہ بن عمر نے خبر دی اور انہیں عبداللہ بن عمر (رض) نے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ ﷺ نے فرمایا ہر آدمی حاکم ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا۔ امام حاکم ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ مرد اپنے گھر کے معاملات کا افسر ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا۔ عورت اپنے شوہر کے گھر کی افسر ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا۔ خادم اپنے آقا (سید) کے مال کا محافظ ہے اور اس سے اس کے بارے میں سوال ہوگا۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے یہ باتیں سنی ہیں اور مجھے خیال ہے کہ آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ مرد اپنے باپ کے مال کا محافظ ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ غرض تم میں سے ہر فرد حاکم ہے اور سب سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔
باب: اگر کوئی غلام یا لونڈی کو مارے تو چہرے پر نہ مارے۔
ہم سے محمد بن عبیداللہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک بن انس نے بیان کیا، کہا کہ مجھے ابن فلاں (ابن سمعان) نے خبر دی، انہیں سعید مقبری نے، انہیں ان کے باپ نے اور انہیں ابوہریرہ (رض) نے، نبی کریم ﷺ سے اور (دوسری سند اور امام بخاری (رح) نے کہا) اور ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، کہا ہم کو معمر نے خبر دی ہمام سے اور انہیں ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جب کوئی کسی سے جھگڑا کرے تو چہرے (پر مارنے) سے پرہیز کرے۔