37. مکاتب کرنے کا بیان

【1】

باب: مکاتب اور اس کی قسطوں کا بیان، ہر سال میں ایک قسط کی ادائیگی لازم ہو گی۔

باب : جس نے اپنے لونڈی غلام کو زنا کی جھوٹی تہمت لگائی اس کا گناہ باب : مکاتب اور اس کی قسطوں کا بیان ، ہر سال میں ایک قسط کی ادائیگی لازم ہوگی اور (سورۃ النور میں) اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ والذين يبتغون الکتاب مما ملکت أيمانکم فکاتبوهم إن علمتم فيهم خيرا وآتوهم من مال الله الذي آتاکم‏ تمہارے لونڈی غلاموں میں سے جو بھی مکاتبت کا معاملہ کرنا چاہیں۔ ان سے مکاتب کرلو، اگر ان کے اندر تم کوئی خیر پاؤ۔ (کہ وہ وعدہ پورا کرسکیں گے) اور انہیں اللہ کے اس مال میں سے مدد بھی دو جو اس نے تمہیں عطا کیا ہے۔ روح بن عبادہ نے ابن جریح (رح) سے بیان کیا کہ میں نے عطاء بن ابی رباح (رح) سے پوچھا کیا اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ میرے غلام کے پاس مال ہے اور وہ مکاتب بننا چاہتا ہے تو کیا مجھ پر واجب ہوجائے گا کہ میں اس سے مکاتبت کرلوں ؟ انہوں نے کہا کہ میرا خیال تو یہی ہی کہ (ایسی حالت میں کتابت کا معاملہ) واجب ہوجائے گا۔ عمرو بن دینار نے بیان کیا کہ میں نے عطاء سے پوچھا، کیا آپ اس سلسلے میں کسی سے روایت بھی بیان کرتے ہیں ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ نہیں۔ (پھر انہیں یاد آیا) اور مجھے انہوں نے خبر دی کہ موسیٰ بن انس نے انہیں خبر دی کہ سیرین (ابن سیرین (رح) کے والد) نے انس (رض) سے مکاتب ہونے کی درخواست کی۔ (یہ انس (رض) کے غلام تھے) جو مالدار بھی تھے۔ لیکن انس (رض) نے انکار کیا، اس پر سیرین، عمر (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ عمر (رض) نے (انس (رض) سے) فرمایا کہ کتابت کا معاملہ کرلے۔ انہوں نے پھر بھی انکار کیا تو عمر (رض) نے انہیں درے سے مارا، اور یہ آیت پڑھی فکاتبوهم إن علمتم فيهم خيرا‏ غلاموں میں اگر خیر دیکھو تو ان سے مکاتبت کرلو ۔ چناچہ انس (رض) نے کتابت کا معاملہ کرلیا۔ لیث نے کہا کہ مجھ سے یونس نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ نے کہ عائشہ (رض) نے کہا کہ بریرہ (رض) ان کے پاس آئیں اپنے مکاتبت کے معاملہ میں ان کی مدد حاصل کرنے کے لیے۔ بریرہ (رض) کو پانچ اوقیہ چاندی پانچ سال کے اندر پانچ قسطوں میں ادا کرنی تھی۔ عائشہ (رض) نے کہا، انہیں خود بریرہ (رض) کے آزاد کرانے میں دلچسپی ہوگئی تھی، (عائشہ (رض) نے فرمایا) کہ یہ بتاؤ اگر میں انہیں ایک ہی مرتبہ (چاندی کے یہ پانچ اوقیہ) ادا کر دوں تو کیا تمہارے مالک تمہیں میرے ہاتھ بیچ دیں گے ؟ پھر میں تمہیں آزاد کر دوں گی اور تمہاری ولاء میرے ساتھ قائم ہوجائے گی۔ بریرہ (رض) اپنے مالکوں کے ہاں گئیں اور ان کے آگے یہ صورت رکھی۔ انہوں نے کہا کہ ہم یہ صورت اس وقت منظور کرسکتے ہیں کہ رشتہ ولاء ہمارے ساتھ رہے۔ عائشہ (رض) نے کہا کہ پھر میرے پاس نبی کریم ﷺ تشریف لائے تو میں نے آپ ﷺ سے اس کا ذکر کیا آپ ﷺ نے فرمایا کہ تو خرید کر بریرہ (رض) کو آزاد کر دے، ولاء تو اس کی ہوتی ہے جو آزاد کرے۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو خطاب فرمایا کہ کچھ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے جو (معاملات میں) ایسی شرطیں لگاتے ہیں جن کی کوئی جڑ (دلیل) بنیاد کتاب اللہ میں نہیں ہے۔ پس جو شخص کوئی ایسی شرط لگائے جس کی کوئی اصل (دلیل، بنیاد) کتاب اللہ میں نہ ہو تو وہ شرط غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ کی شرط ہی زیادہ حق اور زیادہ مضبوط ہے۔

【2】

باب: مکاتب سے کون سی شرطیں کرنا درست ہیں اور جس نے کوئی ایسی شرط لگائی جس کی اصل کتاب اللہ میں نہ ہو (وہ شرط باطل ہے)۔

ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا ابن شہاب سے، انہوں نے عروہ سے اور انہیں عائشہ (رض) نے خبر دی کہ بریرہ (رض) ان کے پاس اپنے معاملہ مکاتبت میں مدد لینے آئیں، ابھی انہوں نے کچھ بھی ادا نہیں کیا تھا۔ عائشہ (رض) نے ان سے کہا کہ تو اپنے مالکوں کے پاس جا، اگر وہ یہ پسند کریں کہ تیرے معاملہ مکاتبت کی پوری رقم میں ادا کر دوں اور تمہاری ولاء میرے ساتھ قائم ہو تو میں ایسا کرسکتی ہوں۔ بریرہ (رض) نے یہ صورت اپنے مالکوں کے سامنے رکھی لیکن انہوں نے انکار کیا اور کہا کہ اگر وہ (عائشہ رضی اللہ عنہا) تمہارے ساتھ ثواب کی نیت سے یہ کام کرنا چاہتی ہیں تو انہیں اختیار ہے، لیکن تمہاری ولاء تو ہمارے ہی ساتھ رہے گی۔ عائشہ (رض) نے اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تو خرید کر انہیں آزاد کر دے۔ ولاء تو اسی کے ساتھ ہوتی ہے جو آزاد کر دے۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر رسول اللہ ﷺ نے لوگوں سے خطاب کیا اور فرمایا کہ کچھ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جن کی کوئی اصل (دلیل، بنیاد) کتاب اللہ میں نہیں ہے۔ پس جو بھی کوئی ایسی شرط لگائے جس کی اصل (دلیل، بنیاد) کتاب اللہ میں نہیں ہے تو اس کو ایسی شرطیں لگانا لائق نہیں خواہ وہ ایسی سو شرطیں کیوں نہ لگالے۔ اللہ تعالیٰ کی شرط ہی سب سے زیادہ معقول اور مضبوط ہے۔

【3】

باب: مکاتب سے کون سی شرطیں کرنا درست ہیں اور جس نے کوئی ایسی شرط لگائی جس کی اصل کتاب اللہ میں نہ ہو (وہ شرط باطل ہے)۔

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی نافع سے اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ (رض) نے ایک باندی خرید کر اسے آزاد کرنا چاہا، اس باندی کے مالکوں نے کہا کہ اس شرط پر ہم معاملہ کرسکتے ہیں کہ ولاء ہمارے ساتھ قائم رہے۔ رسول اللہ ﷺ نے عائشہ (رض) سے فرمایا کہ ان کی اس شرط کی وجہ سے تم نہ رکو، ولاء تو اسی کی ہوتی ہے جو آزاد کرے۔

【4】

باب: اگر مکاتب دوسروں سے مدد چاہے اور لوگوں سے سوال کرے تو کیسا ہے؟

ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا ہشام بن عروہ سے، وہ اپنے والد سے، ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ بریرہ (رض) آئیں اور کہا کہ میں نے اپنے مالکوں سے نو اوقیہ چاندی پر مکاتبت کا معاملہ کیا ہے۔ ہر سال ایک اوقیہ مجھے ادا کرنا پڑے گا۔ آپ بھی میری مدد کریں۔ اس پر عائشہ (رض) نے کہا کہ اگر تمہارے مالک پسند کریں تو میں انہیں (یہ ساری رقم) ایک ہی مرتبہ دے دوں اور پھر تمہیں آزاد کر دوں، تو میں ایسا کرسکتی ہوں۔ لیکن تمہاری ولاء میرے ساتھ ہوجائے گی۔ بریرہ (رض) اپنے مالکوں کے پاس گئیں تو انہوں نے اس صورت سے انکار کیا (واپس آ کر) انہوں نے بتایا کہ میں نے آپ کی یہ صورت ان کے سامنے رکھی تھی لیکن وہ اسے صرف اس صورت میں قبول کرنے کو تیار ہیں کہ ولاء ان کے ساتھ قائم رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سنا تو آپ ﷺ نے مجھ سے دریافت فرمایا۔ میں نے آپ ﷺ کو مطلع کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تو انہیں لے کر آزاد کر دے اور انہیں ولاء کی شرط لگانے دے۔ ولاء تو بہرحال اسی کی ہوتی ہے جو آزاد کرے۔ عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ پھر رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو خطاب کیا۔ اللہ کی حمد وثناء کے بعد فرمایا، تم میں سے کچھ لوگوں کو یہ کیا ہوگیا ہے کہ (معاملات میں) ایسی شرطیں لگاتے ہیں جن کی کوئی اصل (دلیل، بنیاد) کتاب اللہ میں نہیں ہے۔ پس جو بھی شرط ایسی ہو جس کی اصل (دلیل، بنیاد) کتاب اللہ میں نہ ہو وہ باطل ہے۔ خواہ ایسی سو شرطیں کیوں نہ لگالی جائیں۔ اللہ کا فیصلہ ہی حق ہے اور اللہ کی شرط ہی مضبوط ہے کچھ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ کہتے ہیں، اے فلاں ! آزاد تم کرو اور ولاء میرے ساتھ قائم رہے گی۔ ولاء تو صرف اسی کے ساتھ قائم ہوگی جو آزاد کرے۔

【5】

باب: جب مکاتب اپنے آپ کو بیچ ڈالنے پر راضی ہو۔

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو امام مالک (رح) نے خبر دی یحییٰ بن سعید سے، وہ عمرہ بنت عبدالرحمٰن سے کہ بریرہ (رض) عائشہ (رض) سے مدد لینے آئیں۔ عائشہ (رض) نے اس سے کہا کہ اگر تمہارے مالک یہ صورت پسند کریں کہ میں (مکاتبت کی ساری رقم) انہیں ایک ہی مرتبہ ادا کر دوں اور پھر تمہیں آزاد کر دوں تو میں ایسا کرسکتی ہوں۔ بریرہ (رض) نے اس کا ذکر اپنے مالک سے کیا تو انہوں نے کہا کہ (ہمیں اس صورت میں یہ منظور ہے کہ) تیری ولاء ہمارے ساتھ ہی قائم رہے۔ مالک نے بیان کیا، ان سے یحییٰ نے بیان کیا کہ عمرہ کو یقین تھا کہ عائشہ (رض) نے اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تو اسے خرید کر آزاد کر دے۔ ولاء تو اسی کی ہوتی ہے جو آزاد کرے۔

【6】

باب: اگر مکاتب کسی شخص سے کہے مجھ کو خرید کر آزاد کر دو اور وہ اسی غرض سے اسے خرید لے۔

ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالواحد بن ایمن نے بیان کیا کہ مجھ سے میرے باپ ایمن (رض) نے بیان کیا کہ میں عائشہ (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں پہلے عتبہ بن ابی لہب کا غلام تھا۔ ان کا جب انتقال ہوا تو ان کی اولاد میری وارث ہوئی۔ ان لوگوں نے مجھے عبداللہ ابن ابی عمرو کو بیچ دیا اور ابن ابی عمرو نے مجھے آزاد کردیا۔ لیکن (بیچتے وقت) عتبہ کے وارثوں نے ولاء کی شرط اپنے لیے لگالی تھی (تو کیا یہ شرط صحیح ہے ؟ ) اس پر عائشہ (رض) نے کہا کہ بریرہ (رض) میرے یہاں آئی تھیں اور انہوں نے کتابت کا معاملہ کرلیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے آپ خرید کر آزاد کردیں۔ عائشہ (رض) نے کہا کہ میں ایسا کر دوں گی (لیکن مالکوں سے بات چیت کے بعد) انہوں نے بتایا کہ وہ مجھے بیچنے پر صرف اس شرط کے ساتھ راضی ہیں کہ ولاء انہیں کے پاس رہے۔ عائشہ (رض) نے کہا کہ پھر مجھے اس کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے بھی اسے سنایا (عائشہ (رض) نے یہ کہا کہ) آپ کو اس کی اطلاع ملی۔ اس لیے آپ ﷺ نے عائشہ (رض) سے دریافت فرمایا، انہوں نے صورت حال کی آپ ﷺ کو خبر دی۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ بریرہ کو خرید کر آزاد کر دے اور مالکوں کو جو بھی شرط چاہیں لگانے دو ۔ چناچہ عائشہ (رض) نے انہیں خرید کر آزاد کردیا۔ مالکوں نے چونکہ ولاء کی شرط رکھی تھی اس لیے نبی کریم ﷺ نے (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ایک مجمع سے) خطاب فرمایا، ولاء تو اسی کے ساتھ ہوتی ہے جو آزاد کرے۔ (اور جو آزاد نہ کریں) اگرچہ وہ سو شرطیں بھی لگا لیں (ولاء پھر بھی ان کے ساتھ قائم نہیں ہوسکتی) ۔