38. ہبہ کرنے کا بیان
ہبہ اور اس کی فضیلت اور اس پر رغبت دلانے کا بیان
ہم سے عاصم بن علی ابوالحسین نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن ابی ذئب نے بیان کیا، ان سے سعید مقبری نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اے مسلمان عورتو ! ہرگز کوئی پڑوسن اپنی دوسری پڑوسن کے لیے (معمولی ہدیہ کو بھی) حقیر نہ سمجھے، خواہ بکری کے کھر کا ہی کیوں نہ ہو۔
ہبہ اور اس کی فضیلت اور اس پر رغبت دلانے کا بیان
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن ابی حازم نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے یزید بن رومان سے، وہ عروہ سے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ آپ نے عروہ سے کہا، میرے بھانجے ! رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں (یہ حال تھا کہ) ہم ایک چاند دیکھتے، پھر دوسرا دیکھتے، پھر تیسرا دیکھتے، اسی طرح دو دو مہینے گزر جاتے اور رسول اللہ ﷺ کے گھروں میں (کھانا پکانے کے لیے) آگ نہ جلتی تھی۔ میں نے پوچھا۔ خالہ اماں ! پھر آپ لوگ زندہ کس طرح رہتی تھیں ؟ آپ نے فرمایا کہ صرف دو کالی چیزوں کھجور اور پانی پر۔ البتہ رسول اللہ ﷺ کے چند انصاری پڑوسی تھے۔ جن کے پاس دودھ دینے والی بکریاں تھیں اور وہ رسول اللہ ﷺ کے یہاں بھی ان کا دودھ تحفہ کے طور پر پہنچا جایا کرتے تھے۔ آپ ﷺ اسے ہمیں بھی پلا دیا کرتے تھے۔
باب: تھوڑی چیز ہبہ کرنا۔
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن ابی عدی نے بیان کیا شعبہ سے، وہ سلیمان سے، وہ ابوحازم سے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر مجھے بازو اور پائے (کے گوشت) پر بھی دعوت دی جائے تو میں قبول کرلوں گا اور مجھے بازو یا پائے (کے گوشت) کا تحفہ بھیجا جائے تو اسے بھی قبول کرلوں گا۔
باب: جو شخص اپنے دوستوں سے کوئی چیز بطور تحفہ مانگے۔
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان، کہا ہم سے ابوغسان محمد بن مطرف نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوحازم سلمہ بن دینار نے بیان کیا سہل بن سعد ساعدی (رض) سے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک مہاجرہ عورت کے پاس (اپنا آدمی) بھیجا۔ ان کا ایک غلام بڑھئی تھا۔ ان سے آپ ﷺ نے فرمایا کہ اپنے غلام سے ہمارے لیے لکڑیوں کا ایک منبر بنانے کے لیے کہیں۔ چناچہ انہوں نے اپنے غلام سے کہا۔ وہ غابہ سے جا کر جھاؤ کاٹ لایا اور اسی کا ایک منبر بنادیا۔ جب وہ منبر بنا چکے تو اس عورت نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں کہلا بھیجا کہ منبر بن کر تیار ہے۔ آپ ﷺ نے کہلوایا کہ اسے میرے پاس بھجوا دیں۔ جب لوگ اسے لائے تو آپ ﷺ نے خود اسے اٹھایا اور جہاں تم اب دیکھ رہے ہو۔ وہیں آپ ﷺ نے اسے رکھا۔
باب: جو شخص اپنے دوستوں سے کوئی چیز بطور تحفہ مانگے۔
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے محمد بن جعفر نے بیان کیا ابوحازم سے، وہ عبداللہ بن ابی قتادہ سلمی سے اور ان سے ان کے باپ نے بیان کیا کہ مکہ کے راستے میں ایک جگہ میں رسول اللہ ﷺ کے چند ساتھیوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ رسول اللہ ﷺ ہم سے آگے قیام فرما تھے۔ (حجۃ الوداع کے موقع پر) اور لوگ تو احرام باندھے ہوئے تھے لیکن میرا احرام نہیں تھا۔ میرے ساتھیوں نے ایک گورخر دیکھا۔ میں اس وقت اپنی جوتی گانٹھنے میں مشغول تھا۔ ان لوگوں نے مجھ کو کچھ خبر نہیں دی۔ لیکن ان کی خواہش یہی تھی کہ کسی طرح میں گورخر کو دیکھ لوں۔ چناچہ میں نے جو نظر اٹھائی تو گورخر دکھائی دیا۔ میں فوراً گھوڑے کے پاس گیا اور اس پر زین کس کر سوار ہوگیا، مگر اتفاق سے (جلدی میں) کوڑا اور نیزہ دونوں بھول گیا۔ اس لیے میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ وہ مجھے کوڑا اور نیزہ اٹھا دیں۔ انہوں نے کہا ہرگز نہیں قسم اللہ کی، ہم تمہارے (شکار میں) کسی قسم کی مدد نہیں کرسکتے۔ (کیونکہ ہم سب لوگ حالت احرام میں ہیں) مجھے اس پر غصہ آیا اور میں نے خود ہی اتر کر دونوں چیزیں لے لیں۔ پھر سوار ہو کر گورخر پر حملہ کیا اور اس کو شکار کر لایا۔ وہ مر بھی چکا تھا۔ اب لوگوں نے کہا کہ اسے کھانا چاہیے۔ لیکن پھر احرام کی حالت میں اسے کھانے (کے جواز) پر شبہ ہوا۔ (لیکن بعض لوگوں نے شبہ نہیں کیا اور گوشت کھایا) پھر ہم آگے بڑھے اور میں نے اس گورخر کا ایک بازو چھپا رکھا تھا۔ جب ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچے تو اس کے متعلق آپ سے سوال کیا، (آپ ﷺ نے محرم کے لیے شکار کے گوشت کھانے کا فتویٰ دیا) اور دریافت فرمایا کہ اس میں سے کچھ بچا ہوا گوشت تمہارے پاس موجود بھی ہے ؟ میں نے کہا کہ جی ہاں ! اور وہی بازو آپ ﷺ کی خدمت میں پیش کیا۔ آپ ﷺ نے اسے تناول فرمایا۔ یہاں تک کہ وہ ختم ہوگیا۔ آپ ﷺ بھی اس وقت احرام سے تھے (ابوحازم نے کہا کہ) مجھ سے یہی حدیث زید بن اسلم نے بیان کی، ان سے عطاء بن یسار نے اور ان سے ابوقتادہ (رض) نے۔
باب: پانی (یا دودھ) مانگنا۔
ہم سے خالد بن مخلد نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان بن بلال نے، کہا کہ مجھ سے ابوطوالہ نے جن کا نام عبداللہ بن عبدالرحمٰن تھا کہ میں نے انس (رض) سے سنا، وہ کہتے تھے کہ (ایک مرتبہ) رسول اللہ ﷺ ہمارے اسی گھر میں تشریف لائے اور پانی طلب فرمایا۔ ہمارے پاس ایک بکری تھی، اسے ہم نے دوہا۔ پھر میں نے اسی کنویں کا پانی ملا کر آپ ﷺ کی خدمت میں (لسی بنا کر) پیش کیا، ابوبکر (رض) آپ ﷺ کی بائیں طرف بیٹھے ہوئے تھے اور عمر (رض) سامنے تھے اور ایک دیہاتی آپ ﷺ کے دائیں طرف تھا۔ جب آپ ﷺ پی کر فارغ ہوئے تو (پیالے میں کچھ دودھ بچ گیا تھا اس لیے) عمر (رض) نے عرض کیا کہ یہ ابوبکر (رض) ہیں۔ لیکن آپ ﷺ نے اسے دیہاتی کو عطا فرمایا۔ (کیونکہ وہ دائیں طرف تھا) پھر آپ ﷺ نے فرمایا، دائیں طرف بیٹھنے والے، دائیں طرف بیٹھنے والے ہی حق رکھتے ہیں۔ پس خبردار دائیں طرف ہی سے شروع کیا کرو۔ انس (رض) نے کہا کہ یہی سنت ہے، یہی سنت ہے، تین مرتبہ (آپ نے اس بات کو دہرایا) ۔
باب: شکار کا تحفہ قبول کرنا۔
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ہشام بن زید بن انس بن مالک نے اور ان سے انس (رض) نے بیان کیا کہ مرالظہران نامی جگہ میں ہم نے ایک خرگوش کا پیچھا کیا۔ لوگ (اس کے پیچھے) دوڑے اور اسے تھکا دیا اور میں نے قریب پہنچ کر اسے پکڑ لیا۔ پھر ابوطلحہ (رض) کے ہاں لایا۔ انہوں نے اسے ذبح کیا اور اس کے پیچھے کا یا دونوں رانوں کا گوشت نبی کریم ﷺ کی خدمت میں بھیجا۔ ( شعبہ نے بعد میں یقین کے ساتھ) کہا کہ دونوں رانیں انہوں نے بھیجی تھیں، اس میں کوئی شک نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے قبول فرمایا تھا میں نے پوچھا اور اس میں سے آپ ﷺ نے کچھ تناول بھی فرمایا ؟ انہوں نے بیان کیا کہ ہاں ! کچھ تناول فرمایا تھا۔ اس کے بعد پھر انہوں نے کہا کہ آپ نے وہ ہدیہ قبول فرما لیا تھا۔
باب: ہدیہ کا قبول کرنا۔
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا ابن شہاب سے، وہ عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود سے، وہ عبداللہ بن عباس (رض) سے اور اور وہ صعب بن جثامہ (رض) سے کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں گورخر کا تحفہ پیش کیا تھا۔ آپ ﷺ اس وقت مقام ابواء یا مقام ودان میں تھے (راوی کو شبہ ہے) آپ ﷺ نے ان کا تحفہ واپس کردیا۔ پھر ان کے چہرے پر (رنج کے آثار) دیکھ کر فرمایا کہ میں نے یہ تحفہ صرف اس لیے واپس کیا ہے کہ ہم احرام باندھے ہوئے ہیں۔
باب: ہدیہ کا قبول کرنا۔
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدہ بن سلیمان نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے کہ لوگ (رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں) تحائف بھیجنے کے لیے عائشہ (رض) کی باری کا انتظار کیا کرتے تھے۔ اپنے ہدایا سے، یا اس خاص دن کے انتظار سے (راوی کو شک ہے) لوگ رسول اللہ ﷺ کی خوشی حاصل کرنا چاہتے تھے۔
باب: ہدیہ کا قبول کرنا۔
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے جعفر بن ایاس نے بیان کیا، کہا کہ میں نے سعید بن جبیر سے سنا کہ ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ ان کی خالہ ام حفید (رض) نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں پنیر، گھی اور گوہ (ساہنہ) کے تحائف بھیجے۔ نبی کریم ﷺ نے پنیر اور گھی میں سے تو تناول فرمایا لیکن گوہ پسند نہ ہونے کی وجہ سے چھوڑ دی۔ ابن عباس (رض) نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کے (اسی) دستر خوان پر گوہ (ساہنہ) کو بھی کھایا گیا اور اگر وہ حرام ہوتی تو آپ ﷺ کے دستر خوان پر کیوں کھائی جاتی۔
باب: ہدیہ کا قبول کرنا۔
ہم سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے معن بن عیسیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابراہیم بن طہمان نے بیان کیا انہوں نے محمد بن زیاد سے اور وہ ابوہریرہ (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں جب کوئی کھانے کی چیز لائی جاتی تو آپ ﷺ دریافت فرماتے یہ تحفہ ہے یا صدقہ ؟ اگر کہا جاتا کہ صدقہ ہے تو آپ ﷺ اپنے اصحاب سے فرماتے کہ کھاؤ، آپ ﷺ خود نہ کھاتے اور اگر کہا جاتا کہ تحفہ ہے تو آپ ﷺ خود بھی ہاتھ بڑھاتے اور صحابہ کے ساتھ اسے کھاتے۔
باب: ہدیہ کا قبول کرنا۔
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک مرتبہ گوشت پیش کیا گیا اور یہ بتایا گیا کہ یہ بریرہ (رض) کو کسی نے بطور صدقہ کے دیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ان کے لیے یہ صدقہ ہے اور ہمارے لیے (جب ان کے یہاں سے پہنچا تو) ہدیہ ہے۔
باب: ہدیہ کا قبول کرنا۔
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا عبدالرحمٰن بن قاسم سے، شعبہ نے کہا کہ میں نے یہ حدیث عبدالرحمٰن سے سنی تھی اور انہوں نے قاسم سے روایت کی، انہوں نے عائشہ (رض) سے کہ انہوں نے بریرہ (رض) کو (آزاد کرنے کے لیے) خریدنا چاہا۔ لیکن ان کے مالکوں نے ولاء کی شرط اپنے لیے لگائی۔ جب اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا، تو انہیں خرید کر آزاد کر دے، ولاء تو اسی کے ساتھ قائم ہوتی ہے جو آزاد کرے۔ اور بریرہ (رض) کے یہاں (صدقہ کا) گوشت آیا تھا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا، اچھا یہ وہی ہے جو بریرہ کو صدقہ میں ملا ہے۔ یہ ان کے لیے تو صدقہ ہے لیکن ہمارے لیے (چونکہ ان کے گھر سے بطور ہدیہ ملا ہے) ہدیہ ہے اور (آزادی کے بعد بریرہ کو) اختیار دیا گیا تھا (کہ اگر چاہیں تو اپنے نکاح کو فسخ کرسکتی ہیں) عبدالرحمٰن نے پوچھا بریرہ (رض) کے خاوند (مغیث رضی اللہ عنہ) غلام تھے یا آزاد ؟ شعبہ نے بیان کیا کہ میں نے عبدالرحمٰن سے ان کے خاوند کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں وہ غلام تھے یا آزاد۔
باب: ہدیہ کا قبول کرنا۔
ہم سے ابوالحسن محمد بن مقاتل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو خالد بن عبداللہ نے خبر دی، انہیں خالد حذاء نے حفصہ بنت سیرین سے کہ ام عطیہ (رض) نے کہا کہ نبی کریم ﷺ عائشہ (رض) کے یہاں تشریف لے گئے اور دریافت فرمایا، کیا کوئی چیز (کھانے کی) تمہارے پاس ہے ؟ انہوں نے کہا کہ ام عطیہ (رض) کے یہاں جو آپ نے صدقہ کی بکری بھیجی تھی، اس کا گوشت انہوں نے بھیجا ہے۔ اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ اپنی جگہ پہنچ چکی۔
باب: اپنے کسی دوست کو خاص اس دن تحفہ بھیجنا جب وہ اپنی ایک خاص بیوی کے پاس ہو۔
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ہشام سے، ان سے ان کے والد نے، ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ لوگ تحائف بھیجنے کے لیے میری باری کا انتظار کیا کرتے تھے۔ اور ام سلمہ (رض) نے کہا میری سوکنیں (امہات المؤمنین رضوان اللہ علیہن) جمع تھیں اس وقت انہوں نے نبی کریم ﷺ سے (بطور شکایت لوگوں کی اس روش کا) ذکر کیا۔ تو آپ ﷺ نے انہیں کوئی جواب نہیں دیا۔
باب: اپنے کسی دوست کو خاص اس دن تحفہ بھیجنا جب وہ اپنی ایک خاص بیوی کے پاس ہو۔
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے بھائی عبدالحمید بن ابی اویس نے، ان سے سلیمان نے ہشام بن عروہ سے، ان سے ان کے باپ نے اور ان سے عائشہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ کی ازواج دو گروہ میں تھیں۔ ایک میں عائشہ، حفصہ، صفیہ اور سودہ رضوان اللہ علیہن اور دوسری میں ام سلمہ اور بقیہ تمام ازواج مطہرات رضوان اللہ علیہن تھیں۔ مسلمانوں کو رسول اللہ ﷺ کی عائشہ (رض) کے ساتھ محبت کا علم تھا اس لیے جب کسی کے پاس کوئی تحفہ ہوتا اور وہ اسے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا تو انتظار کرتا۔ جب رسول اللہ ﷺ کی عائشہ (رض) کے گھر کی باری ہوتی تو تحفہ دینے والے صاحب اپنا تحفہ آپ ﷺ کی خدمت میں بھیجتے۔ اس پر ام سلمہ (رض) کی جماعت کی ازواج مطہرات نے آپس میں مشورہ کیا اور ام سلمہ (رض) سے کہا کہ وہ رسول اللہ ﷺ سے بات کریں تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں سے فرما دیں کہ جسے آپ کے یہاں تحفہ بھیجنا ہو وہ جہاں بھی آپ ﷺ ہوں وہیں بھیجا کرے۔ چناچہ ان ازواج کے مشورہ کے مطابق انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے کہا لیکن آپ ﷺ نے انہیں کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر ان خواتین نے پوچھا تو انہوں نے بتادیا کہ مجھے آپ ﷺ نے کوئی جواب نہیں دیا۔ ازواج مطہرات نے کہا کہ پھر ایک مرتبہ کہو۔ انہوں نے بیان کیا پھر جب آپ کی باری آئی تو دوبارہ انہوں نے آپ ﷺ سے عرض کیا۔ اس مرتبہ بھی آپ ﷺ نے مجھے اس کا کوئی جواب ہی نہیں دیا۔ ازواج نے اس مرتبہ ان سے کہا کہ آپ ﷺ کو اس مسئلہ پر بلواؤ تو سہی۔ جب ان کی باری آئی تو انہوں نے پھر کہا۔ آپ ﷺ نے اس مرتبہ فرمایا۔ عائشہ کے بارے میں مجھے تکلیف نہ دو ۔ عائشہ کے سوا اپنی بیویوں میں سے کسی کے کپڑے میں بھی مجھ پر وحی نازل نہیں ہوتی ہے۔ عائشہ (رض) نے کہا کہ آپ ﷺ کے اس ارشاد پر انہوں نے عرض کیا، آپ کو ایذا پہنچانے کی وجہ سے میں اللہ کے حضور میں توبہ کرتی ہوں۔ پھر ان ازواج مطہرات نے رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی فاطمہ (رض) کو بلایا اور ان کے ذریعہ آپ ﷺ کی خدمت میں یہ کہلوایا کہ آپ کی ازواج ابوبکر (رض) کی بیٹی کے بارے میں اللہ کے لیے آپ سے انصاف چاہتی ہیں۔ چناچہ انہوں نے بھی آپ ﷺ سے بات چیت کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا، میری بیٹی ! کیا تم وہ پسند نہیں کرتی جو میں پسند کروں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ کیوں نہیں، اس کے بعد وہ واپس آگئیں اور ازواج کو اطلاع دی۔ انہوں نے ان سے پھر دوبارہ خدمت نبوی میں جانے کے لیے کہا۔ لیکن آپ نے دوبارہ جانے سے انکار کیا تو انہوں نے زینب بنت جحش (رض) کو بھیجا۔ وہ خدمت نبوی میں حاضر ہوئیں تو انہوں نے سخت گفتگو کی اور کہا کہ آپ کی ازواج ابوقحافہ کی بیٹی کے بارے میں آپ سے اللہ کے لیے انصاف مانگتی ہیں اور ان کی آواز اونچی ہوگئی۔ عائشہ (رض) وہیں بیٹھی ہوئی تھیں۔ انہوں نے (ان کے منہ پر) انہیں بھی برا بھلا کہا۔ رسول اللہ ﷺ عائشہ (رض) کی طرف دیکھنے لگے کہ وہ کچھ بولتی ہیں یا نہیں۔ راوی نے بیان کیا کہ عائشہ (رض) بھی بول پڑیں اور زینب (رض) کی باتوں کا جواب دینے لگیں اور آخر انہیں خاموش کردیا۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے عائشہ (رض) کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ یہ ابوبکر کی بیٹی ہے۔ امام بخاری (رح) نے کہا کہ آخر کلام فاطمہ (رض) کے واقعہ سے متعلق ہشام بن عروہ نے ایک اور شخص سے بیان کیا ہے۔ انہوں نے زہری سے روایت کی اور انہوں نے محمد بن عبدالرحمٰن سے اور ابومروان نے بیان کیا کہ ہشام سے اور انہوں نے عروہ سے کہ لوگ تحائف بھیجنے کے لیے عائشہ (رض) کی باری کا انتظار کیا کرتے تھے اور ہشام کی ایک روایت قریش کے ایک صاحب اور ایک دوسرے صاحب سے جو غلاموں میں سے تھے، بھی ہے۔ وہ زہری سے نقل کرتے ہیں اور وہ محمد بن عبدالرحمٰن بن حارث بن ہشام سے کہ عائشہ (رض) نے کہا جب فاطمہ (رض) نے (اندر آنے کی) اجازت چاہی تو میں اس وقت آپ ﷺ ہی کی خدمت میں موجود تھی۔
باب: جو تحفہ واپس نہ کیا جانا چاہئے۔
ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، ان سے عزرہ بن ثابت انصاری نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ثمامہ بن عبداللہ نے بیان کیا، عزرہ نے کہا کہ میں ثمامہ بن عبداللہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے مجھے خوشبو عنایت فرمائی اور بیان کیا کہ انس (رض) خوشبو کو واپس نہیں کرتے تھے۔ ثمامہ نے کہا کہ انس (رض) کا گمان تھا کہ نبی کریم ﷺ خوشبو کو واپس نہیں فرمایا کرتے تھے۔
باب: جن کے نزدیک غائب چیز کا ہبہ کرنا درست ہے۔
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، ان سے لیث نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عقیل نے بیان کیا ابن شہاب سے، ان سے عروہ نے ذکر کیا کہ مسور بن مخرمہ (رض) اور مروان بن حکم نے انہیں خبر دی کہ جب قبیلہ ہوازن کا وفد نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ ﷺ نے لوگوں کو خطاب فرمایا اور اللہ کی شان کے مطابق ثناء کے بعد آپ نے فرمایا : امابعد ! یہ تمہارے بھائی توبہ کر کے ہمارے پاس آئے ہیں اور میں یہی بہتر سمجھتا ہوں کہ ان کے قیدی انہیں واپس کر دئیے جائیں۔ اب جو شخص اپنی خوشی سے (قیدیوں کو) واپس کرنا چاہے وہ واپس کر دے اور جو یہ چاہے کہ انہیں ان کا حصہ ملے (تو وہ بھی واپس کر دے) اور ہمیں اللہ تعالیٰ (اس کے بعد) سب سے پہلی جو غنیمت دے گا، اس میں سے ہم اسے معاوضہ دے دیں گے۔ لوگوں نے کہا ہم اپنی خوشی سے (ان کے قیدی واپس کر کے) آپ کا ارشاد تسلیم کرتے ہیں۔
باب: ہبہ کا معاوضہ (بدلہ) ادا کرنا۔
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے عیسیٰ بن یونس نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ ہدیہ قبول فرما لیا کرتے۔ لیکن اس کا بدلہ بھی دے دیا کرتے تھے۔ اس حدیث کو وکیع اور محاضر نے بھی روایت کیا، مگر انہوں نے اس کو ہشام سے، انہوں نے اپنے باپ سے انہوں نے عائشہ (رض) سے کے الفاظ نہیں کہے۔
باب: باپ کا اپنے لڑکے کو کچھ ہبہ کرنا۔
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی ابن شہاب سے، وہ حمید بن عبدالرحمٰن اور محمد بن نعمان بن بشیر سے اور ان سے نعمان بن بشیر (رض) نے کہا ان کے والد انہیں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے اپنے اس بیٹے کو ایک غلام بطور ہبہ دیا ہے۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا، کیا ایسا ہی غلام اپنے دوسرے لڑکوں کو بھی دیا ہے ؟ انہوں نے کہا نہیں، تو آپ نے فرمایا کہ پھر (ان سے بھی) واپس لے لے۔
باب: ہبہ کے اوپر گواہ کرنا۔
ہم سے حامد بن عمر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا حصین سے، وہ عامر سے کہ میں نے نعمان بن بشیر (رض) سے سنا وہ منبر پر بیان کر رہے تھے کہ میرے باپ نے مجھے ایک عطیہ دیا، تو عمرہ بنت رواحہ (رض) (نعمان کی والدہ) نے کہا کہ جب تک آپ رسول اللہ ﷺ کو اس پر گواہ نہ بنائیں میں راضی نہیں ہوسکتی۔ چناچہ (حاضر خدمت ہو کر) انہوں نے عرض کیا کہ عمرہ بنت رواحہ سے اپنے بیٹے کو میں نے ایک عطیہ دیا تو انہوں نے کہا کہ پہلے میں آپ کو اس پر گواہ بنا لوں، آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ اسی جیسا عطیہ تم نے اپنی تمام اولاد کو دیا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں، اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کو قائم رکھو۔ چناچہ وہ واپس ہوئے اور ہدیہ واپس لے لیا۔
باب: خاوند کا اپنی بیوی کو اور بیوی کا اپنے خاوند کو کچھ ہبہ کر دینا۔
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو ہشام نے خبر دی، انہیں معمر نے، انہیں زہری نے، کہا کہ مجھے عبیداللہ بن عبداللہ نے خبر دی کہ عائشہ (رض) نے بیان کیا، جب رسول اللہ ﷺ کی بیماری بڑھی اور تکلیف شدید ہوگئی تو آپ ﷺ نے اپنی بیویوں سے میرے گھر میں ایام مرض گزارنے کی اجازت چاہی اور آپ ﷺ کو بیویوں نے اجازت دے دی تو آپ اس طرح تشریف لائے کہ دونوں قدم زمین پر رگڑ کھا رہے تھے۔ آپ اس وقت عباس (رض) اور ایک اور صاحب کے درمیان تھے۔ عبیداللہ نے بیان کیا کہ پھر میں نے عائشہ (رض) کی اس حدیث کا ذکر ابن عباس (رض) سے کیا۔ تو انہوں نے مجھ سے پوچھا، عائشہ (رض) نے جن کا نام نہیں لیا، جانتے ہو وہ کون تھے ؟ میں نے کہا کہ نہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ وہ علی بن ابی طالب (رض) تھے۔
باب: خاوند کا اپنی بیوی کو اور بیوی کا اپنے خاوند کو کچھ ہبہ کر دینا۔
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے وہیب نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن طاؤس نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اپنا ہبہ واپس لینے والا اس کتے کی طرح ہے جو قے کر کے پھر چاٹ جاتا ہے۔
باب: اگر عورت اپنے خاوند کے سوا اور کسی کو کچھ ہبہ کرے۔
ہم سے ابوعاصم ضحاک بن مخلد نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے، ان سے ابن ابی ملیکہ نے، ان سے عباد بن عبداللہ نے اور ان سے اسماء (رض) نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میرے پاس صرف وہی مال ہے جو (میرے شوہر) زبیر نے میرے پاس رکھا ہوا ہے تو کیا میں اس میں سے صدقہ کرسکتی ہوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا صدقہ کرو، جوڑ کے نہ رکھو، کہیں تم سے بھی۔ (اللہ کی طرف سے نہ) روک لیا جائے۔
باب: اگر عورت اپنے خاوند کے سوا اور کسی کو کچھ ہبہ کرے۔
ہم سے عبیداللہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن نمیر نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، ان سے فاطمہ بنت منذر نے اور ان سے اسماء بنت ابی بکر (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا خرچ کیا کر، گنا نہ کر، تاکہ تمہیں بھی گن کے نہ ملے اور جوڑ کے نہ رکھو، تاکہ تم سے بھی اللہ تعالیٰ (اپنی نعمتوں کو) نہ چھپالے۔
باب: اگر عورت اپنے خاوند کے سوا اور کسی کو کچھ ہبہ کرے۔
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، ان سے لیث نے، ان سے یزید بن ابی حبیب نے، ان سے بکیر نے، ان سے ابن عباس کے غلام کریب نے اور انہیں (ام المؤمنین) میمونہ بنت حارث (رض) نے خبر دی کہ انہوں نے ایک لونڈی نبی کریم ﷺ سے اجازت لیے بغیر آزاد کردی۔ پھر جس دن نبی کریم ﷺ کی باری آپ کے گھر آنے کی تھی، انہوں نے خدمت نبوی میں عرض کیا، یا رسول اللہ ﷺ ! آپ کو معلوم بھی ہوا، میں نے ایک لونڈی آزاد کردی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا، اچھا تم نے آزاد کردیا ؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہاں ! فرمایا کہ اگر اس کے بجائے تم نے اپنے ننھیال والوں کو دی ہوتی تو تمہیں اس سے بھی زیادہ ثواب ملتا۔ اس حدیث کو بکیر بن مضر نے عمرو بن حارث سے، انہوں نے بکیر سے، انہوں نے کریب سے روایت کیا کہ میمونہ (رض) نے اپنی لونڈی آزاد کردی۔ اخیر تک۔
باب: اگر عورت اپنے خاوند کے سوا اور کسی کو کچھ ہبہ کرے۔
ہم سے حبان بن موسیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں یونس نے خبر دی زہری سے، وہ عروہ سے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ جب سفر کا ارادہ کرتے تو اپنی ازواج کے لیے قرعہ اندازی کرتے اور جن کا قرعہ نکل آتا انہیں کو اپنے ساتھ لے جاتے۔ آپ ﷺ کا یہ بھی طریقہ تھا کہ اپنی تمام ازواج کے لیے ایک ایک دن اور رات کی باری مقرر کردی تھی، البتہ (آخر میں) سودہ بنت زمعہ (رض) نے اپنی باری عائشہ (رض) کو دے دی تھی، اس سے ان کا مقصد رسول اللہ ﷺ کی رضا حاصل کرنی تھی۔
None
( بیان کیا کہ ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ میمونہ رضی اللہ عنہا نے اپنی ایک لونڈی آزاد کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا ”اگر وہ تمہارے ننھیال والوں کو دی جاتی تو تمہیں زیادہ ثواب ملتا۔“
باب: ہدیہ کا اولین حقدار کون ہے؟
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ابوعمران جونی سے، ان سے بنو تیم بن مرہ کے ایک صاحب طلحہ بن عبداللہ نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ ! میری دو پڑوسی ہیں، تو مجھے کس کے گھر ہدیہ بھیجنا چاہیے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا جس کا دروازہ تم سے قریب ہو۔
باب: جس نے کسی عذر سے ہدیہ قبول نہیں کیا۔
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، کہا کہ مجھے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے خبر دی، انہیں عبداللہ بن عباس (رض) نے خبر دی کہ انہوں نے صعب بن جثامہ لیثی (رض) سے سنا، وہ اصحاب رسول اللہ ﷺ میں سے تھے۔ ان کا بیان تھا کہ انہوں نے آپ ﷺ کی خدمت میں ایک گورخر ہدیہ کیا تھا۔ آپ ﷺ اس وقت مقام ابواء یا مقام ودان میں تھے اور محرم تھے۔ آپ نے وہ گورخر واپس کردیا۔ صعب (رض) نے کہا کہ اس کے بعد جب آپ ﷺ نے میرے چہرے پر (ناراضی کا اثر) ہدیہ کی واپسی کی وجہ سے دیکھا، تو فرمایا ہدیہ واپس کرنا مناسب تو نہ تھا لیکن بات یہ ہے کہ ہم احرام باندھے ہوئے ہیں۔
باب: جس نے کسی عذر سے ہدیہ قبول نہیں کیا۔
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، زہری سے، وہ عروہ بن زبیر سے، وہ ابو حمید ساعدی (رض) سے کہ قبیلہ ازد کے ایک صحابی کو جنہیں ابن اتبیہ کہتے تھے، رسول اللہ ﷺ نے صدقہ وصول کرنے کے لیے عامل بنایا۔ پھر جب وہ واپس آئے تو کہا کہ یہ تم لوگوں کا ہے (یعنی بیت المال کا) اور یہ مجھے ہدیہ میں ملا ہے۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ وہ اپنے والد یا اپنی والدہ کے گھر میں کیوں نہ بیٹھا رہا۔ دیکھتا وہاں بھی انہیں ہدیہ ملتا ہے یا نہیں۔ اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ اس (مال زکوٰۃ) میں سے اگر کوئی شخص کچھ بھی (ناجائز) لے لے گا تو قیامت کے دن اسے وہ اپنی گردن پر اٹھائے ہوئے آئے گا۔ اگر اونٹ ہے تو وہ اپنی آواز نکالتا ہوا آئے گا، گائے ہے تو وہ اپنی اور اگر بکری ہے تو وہ اپنی آواز نکالتی ہوگی۔ پھر آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ اٹھائے یہاں تک کہ ہم نے آپ ﷺ کی بغل مبارک کی سفیدی بھی دیکھ لی (اور فرمایا) اے اللہ ! کیا میں نے تیرا حکم پہنچا دیا۔ اے اللہ ! کیا میں نے تیرا حکم پہنچا دیا۔ تین مرتبہ (آپ ﷺ نے یہی فرمایا) ۔
باب: اگر ہبہ یا ہبہ کا وعدہ کر کے کوئی مر جائے اور وہ چیز موہوب لہ (جس کو ہبہ کی گئی اس) کو نہ پہنچی ہو۔
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن المنکدر نے بیان کیا، انہوں نے جابر (رض) سے سنا۔ آپ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے مجھ سے وعدہ فرمایا، اگر بحرین کا مال (جزیہ کا) آیا تو میں تمہیں اتنا اتنا تین لپ مال دوں گا۔ لیکن بحرین سے مال آنے سے پہلے ہی آپ ﷺ وفات فرما گئے اور ابوبکر (رض) نے ایک منادی سے یہ اعلان کرنے کے لیے کہا کہ جس سے نبی کریم ﷺ کا کوئی وعدہ ہو یا آپ ﷺ پر اس کا کوئی قرض ہو تو وہ ہمارے پاس آئے۔ چناچہ میں آپ ﷺ کے یہاں گیا اور کہا کہ نبی کریم ﷺ نے مجھ سے وعدہ کیا تھا۔ تو انہوں نے تین لپ بھر کر مجھے دئیے۔
باب: غلام لونڈی اور سامان پر کیوں کر قبضہ ہوتا ہے۔
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا ابن ابی ملیکہ سے اور وہ مسور بن مخرمہ (رض) سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند ق بائیں تقسیم کیں اور مخرمہ (رض) کو اس میں سے ایک بھی نہیں دی۔ انہوں نے (مجھ سے) کہا، بیٹے چلو، رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں چلیں۔ میں ان کے ساتھ چلا۔ پھر انہوں نے کہا کہ اندر جاؤ اور نبی کریم ﷺ سے عرض کرو کہ میں آپ کا منتظر کھڑا ہوا ہوں، چناچہ میں اندر گیا اور نبی کریم ﷺ کو بلا لایا۔ آپ ﷺ اس وقت انہیں قباؤں میں سے ایک قباء پہنے ہوئے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے یہ تمہارے لیے چھپا رکھی تھی، لو اب یہ تمہاری ہے۔ مسور نے بیان کیا کہ (میرے والد) مخرمہ (رض) نے قباء کی طرف دیکھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا مخرمہ ! خوش ہو یا نہیں ؟
باب: اگر کوئی ہبہ کرے اور موہوب لہ اس پر قبضہ کر لے لیکن زبان سے قبول نہ کرے۔
ہم سے محمد بن محبوب نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالواحد بن زیادہ نے بیان کیا، کہا ہم سے معمر نے بیان کیا زہری سے، وہ حمید بن عبدالرحمٰن سے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ ایک دیہاتی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا کہ میں تو ہلاک ہوگیا۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کیا بات ہوئی ؟ عرض کیا کہ رمضان میں میں نے اپنی بیوی سے ہمبستری کرلی ہے۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا تمہارے پاس کوئی غلام ہے ؟ کہا کہ نہیں۔ پھر دریافت فرمایا کیا دو مہینے پے در پے روزے رکھ سکتے ہو ؟ کہا کہ نہیں۔ پھر دریافت فرمایا کیا ساٹھ مسکینوں کو کھانا دے سکتے ہو ؟ اس پر بھی جواب تھا کہ نہیں۔ بیان کیا کہ اتنے میں ایک انصاری عرق لائے۔ (عرق کھجور کے پتوں کا بنا ہوا ایک ٹوکرا ہوتا تھا جس میں کھجور رکھی جاتی تھی) آپ ﷺ نے اس سے فرمایا اسے لے جا اور صدقہ کر دے انہوں نے عرض کیا، یا رسول اللہ ! کیا اپنے سے زیادہ ضرورت مند پر صدقہ کر دوں ؟ اور اس ذات کی قسم ! جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے کہ سارے مدینے میں ہم سے زیادہ محتاج اور کوئی گھرانہ نہیں ہوگا۔ آپ ﷺ نے فرمایا پھر جا، اپنے ہی گھر والوں کو کھلا دے۔
باب: اگر کوئی اپنا قرض کسی کو ہبہ کر دے۔
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو عبداللہ نے خبر دی، انہیں یونس نے خبر دی اور لیث نے بیان کیا کہ مجھ سے یونس نے بیان کیا ابن شہاب سے، وہ ابن کعب بن مالک سے اور انہیں جابر بن عبداللہ (رض) نے خبر دی کہ احد کی لڑائی میں ان کے باپ شہید ہوگئے (اور قرض چھوڑ گئے) قرض خواہوں نے تقاضے میں بڑی شدت کی، تو میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ ﷺ سے اس سلسلے میں گفتگو کی، آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ وہ میرے باغ کی کھجور لے لیں (جو بھی ہوں) اور میرے والد کو (جو باقی رہ جائے وہ قرض) معاف کردیں۔ لیکن انہوں نے انکار کیا۔ پھر آپ ﷺ نے میرا باغ انہیں نہیں دیا اور نہ ان کے لیے پھل تڑوائے۔ بلکہ فرمایا کہ کل صبح میں تمہارے یہاں آؤں گا۔ صبح کے وقت آپ ﷺ تشریف لائے اور کھجور کے درختوں میں ٹہلتے رہے اور برکت کی دعا فرماتے رہے پھر میں نے پھل توڑ کر قرض خواہوں کے سارے قرض ادا کر دئیے اور میرے پاس کھجور بچ بھی گئی۔ اس کے بعد میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ ﷺ بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے آپ ﷺ کو واقعہ کی اطلاع دی۔ عمر (رض) بھی وہیں بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا، عمر ! سن رہے ہو ؟ عمر (رض) نے عرض کیا، ہمیں تو پہلے سے معلوم ہے کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں۔ قسم اللہ کی ! اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش ہی نہیں کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں۔
باب: ایک چیز کئی آدمیوں کو ہبہ کرے تو کیسا ہے؟
ہم سے یحییٰ بن قزعہ نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے، وہ ابوحازم سے، وہ سہل بن سعد (رض) سے کہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں پینے کو کچھ لایا، (دودھ یا پانی) آپ ﷺ نے اسے نوش فرمایا، آپ ﷺ کے دائیں طرف ایک بچہ بیٹھا تھا اور بڑے بوڑھے لوگ بائیں طرف بیٹھے ہوئے تھے، آپ ﷺ نے اس بچے سے فرمایا کہ اگر تو اجازت دے (تو بچا ہوا پانی) میں ان بڑے لوگوں کو دے دوں ؟ لیکن اس نے کہا۔ یا رسول اللہ ! آپ کے جو ٹھے میں سے ملنے والے کسی حصہ کا میں ایثار نہیں کرسکتا۔ آپ ﷺ نے پیالہ جھٹکے کے ساتھ اسی کی طرف بڑھا دیا۔
باب: جو چیز قبضہ میں ہو یا نہ ہو اور جو چیز بٹ گئی ہو اور جو نہ بٹی ہو، اس کا ہبہ کا بیان۔
اور ثابت بن محمد نے بیان کیا کہ ہم سے مسعر نے بیان کیا، ان سے محارب نے اور ان سے جابر (رض) نے کہ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں (سفر سے لوٹ کر) مسجد میں حاضر ہوا تو آپ ﷺ نے (میرے اونٹ کی قیمت) ادا کی اور کچھ زیادہ بھی دیا۔
باب: جو چیز قبضہ میں ہو یا نہ ہو اور جو چیز بٹ گئی ہو اور جو نہ بٹی ہو، اس کا ہبہ کا بیان۔
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا محارب بن دثار سے اور انہوں نے جابر بن عبداللہ (رض) سے سنا، آپ فرماتے تھے کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو سفر میں ایک اونٹ بیچا تھا۔ جب ہم مدینہ پہنچے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ مسجد میں جا کر دو رکعت نماز پڑھ، پھر آپ ﷺ نے وزن کیا۔ شعبہ نے بیان کیا، میرا خیال ہے کہ (جابر (رض) نے کہا) میرے لیے وزن کیا (آپ ﷺ کے حکم سے بلال (رض) نے) اور (اس پلڑے کو جس میں سکہ تھا) جھکا دیا۔ (تاکہ مجھے زیادہ ملے) اس میں سے کچھ تھوڑا سا میرے پاس جب سے محفوظ تھا۔ لیکن شام والے (اموی لشکر) یوم حرہ کے موقع پر مجھ سے چھین کرلے گئے۔
باب: جو چیز قبضہ میں ہو یا نہ ہو اور جو چیز بٹ گئی ہو اور جو نہ بٹی ہو، اس کا ہبہ کا بیان۔
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے ابوحازم سے، وہ سہل بن سعد (رض) سے کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں کچھ پینے کو لایا گیا۔ آپ ﷺ کی دائیں طرف ایک بچہ تھا اور قوم کے بڑے لوگ بائیں طرف تھے۔ آپ ﷺ نے بچے سے فرمایا کہ کیا تمہاری طرف سے اس کی اجازت ہے کہ میں بچا ہوا پانی ان بزرگوں کو دے دوں ؟ تو اس بچے نے کہا کہ نہیں قسم اللہ کی ! میں آپ سے ملنے والے اپنے حصہ کا ہرگز ایثار نہیں کرسکتا۔ پھر آپ ﷺ نے مشروب ان کی طرف جھٹکے کے ساتھ بڑھا دیا۔
باب: جو چیز قبضہ میں ہو یا نہ ہو اور جو چیز بٹ گئی ہو اور جو نہ بٹی ہو، اس کا ہبہ کا بیان۔
ہم سے عبداللہ بن عثمان بن جبلہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے میرے باپ نے خبر دی شعبہ سے، ان سے سلمہ نے بیان کیا کہ میں نے ابوسلمہ سے سنا اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہا کہ ایک شخص کا رسول اللہ ﷺ پر قرض تھا (اس نے سختی کے ساتھ تقاضا کیا) تو صحابہ اس کی طرف بڑھے۔ لیکن آپ ﷺ نے فرمایا اسے چھوڑ دو ، حق والے کو کچھ نہ کچھ کہنے کی گنجائش ہوتی ہی ہے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس کے لیے ایک اونٹ اسی کے اونٹ کی عمر کا خرید کر اسے دے دو ۔ صحابہ نے عرض کیا کہ اس سے اچھی عمر کا ہی اونٹ مل رہا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اسی کو خرید کر دے دو کہ تم میں سب سے اچھا آدمی وہ ہے جو قرض کے ادا کرنے میں سب سے اچھا ہو۔
باب: اگر کئی شخص کئی شخصوں کو ہبہ کریں۔
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، ان سے لیث نے، کہا ہم سے عقیل نے ابن شہاب سے، وہ عروہ سے کہ مروان بن حکم اور مسور بن مخرمہ (رض) نے انہیں خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں جب ہوازن کا وفد مسلمان ہو کر حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ ان کے اموال اور قیدی انہیں واپس کر دئیے جائیں تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا میرے ساتھ جتنی بڑی جماعت ہے اسے بھی تم دیکھ رہے ہو اور سب سے زیادہ سچی بات ہی مجھے سب سے زیادہ پسند ہے اس لیے تم لوگ ان دو چیزوں میں سے ایک ہی لے سکتے ہو، یا اپنے قیدی لے لو یا اپنا مال۔ میں نے تمہارا پہلے ہی انتظار کیا تھا۔ اور نبی کریم ﷺ طائف سے واپسی پر تقریباً دس دن تک (مقام جعرانہ میں) ان لوگوں کا انتظار فرماتے رہے۔ پھر جب ان لوگوں کے سامنے یہ بات پوری طرح واضح ہوگئی کہ آپ ﷺ ان کی صرف ایک ہی چیز واپس فرما سکتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ ہم اپنے قیدیوں ہی کو (واپس لینا) پسند کرتے ہیں۔ پھر آپ ﷺ نے کھڑے ہو کر مسلمانوں کو خطاب کیا، آپ ﷺ نے اللہ کی اس کی شان کے مطابق تعریف بیان کی اور فرمایا، امابعد ! یہ تمہارے بھائی ہمارے پاس اب توبہ کر کے آئے ہیں۔ میرا خیال یہ ہے کہ انہیں ان کے قیدی واپس کر دوں۔ اس لیے جو صاحب اپنی خوشی سے واپس کرنا چاہیں وہ ایسا کرلیں اور جو لوگ یہ چاہتے ہوں کہ اپنے حصے کو نہ چھوڑیں بلکہ ہم انہیں اس کے بدلے میں سب سے پہلی غنیمت کے مال میں سے معاوضہ دیں، تو وہ بھی (اپنے موجودہ قیدیوں کو) واپس کردیں۔ سب صحابہ نے اس پر کہا، یا رسول اللہ ! ہم اپنی خوشی سے انہیں واپس کرتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا لیکن واضح طور پر اس وقت یہ معلوم نہ ہوسکا کہ کون اپنی خوشی سے دینے کے لیے تیار ہے اور کون نہیں۔ اس لیے سب لوگ (اپنے خیموں میں) واپس جائیں اور تمہارے چودھری لوگ تمہارا معاملہ لا کر پیش کریں۔ چناچہ سب لوگ واپس ہوگئے اور نمائندوں نے ان سے گفتگو کی اور واپس ہو کر آپ ﷺ کو بتایا کہ تمام لوگوں نے خوشی سے اجازت دے دی ہے۔ قبیلہ ہوازن کے قیدیوں کے متعلق ہمیں یہی بات معلوم ہوئی ہے۔ ابوعبداللہ (امام بخاری (رح)) نے کہا یہ زہری (رح) کا آخری قول تھا۔ یعنی یہ کہ قبیلہ ہوازن کے قیدیوں کے متعلق ہمیں یہی بات معلوم ہوئی ہے۔
باب: اگر کسی کو کچھ ہدیہ دیا جائے اس کے پاس اور لوگ بھی بیٹھے ہوں تو اب اس کو دیا جائے جو زیادہ حقدار ہے۔
ہم سے ابن مقاتل نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی شعبہ سے، انہیں ابوسلمہ بن کہیل نے، انہیں ابوسلمہ نے اور انہیں ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک اونٹ بطور قرض لیا، قرض خواہ تقاضا کرنے آیا (اور نازیبا گفتگو کی) تو آپ ﷺ نے فرمایا حق والے کو کہنے کا حق ہوتا ہے۔ پھر آپ ﷺ نے اس سے اچھی عمر کا اونٹ اسے دلا دیا اور فرمایا تم میں افضل وہ ہے جو ادا کرنے میں سب سے بہتر ہو۔
باب: اگر کسی کو کچھ ہدیہ دیا جائے اس کے پاس اور لوگ بھی بیٹھے ہوں تو اب اس کو دیا جائے جو زیادہ حقدار ہے۔
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن عیینہ نے بیان کیا عمرو سے اور ان سے ابن عمر (رض) نے کہ وہ سفر میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھے اور عمر (رض) کے ایک سرکش اونٹ پر سوار تھے۔ وہ اونٹ آپ ﷺ سے بھی آگے بڑھ جایا کرتا تھا۔ اس لیے ان کے والد (عمر رضی اللہ عنہ) کو تنبیہ کرنی پڑتی تھی کہ اے عبداللہ ! نبی کریم ﷺ سے آگے کسی کو نہ ہونا چاہیے۔ پھر نبی کریم ﷺ نے فرمایا ! کہ عمر ! اسے مجھے بیچ دے۔ عمر (رض) نے عرض کیا یہ تو آپ ہی کا ہے۔ آپ ﷺ نے اسے خرید لیا۔ پھر فرمایا، عبداللہ یہ اب تیرا ہے۔ جس طرح تو چاہے استعمال کر۔
باب: اگر کوئی شخص اونٹ پر سوار ہو اور دوسرا شخص وہ اونٹ اس کو ہبہ کر دے تو درست ہے۔
باب : اگر کوئی شخص اونٹ پر سوار ہو اور دوسرا شخص وہ اونٹ اس کو ہبہ کر دے تو درست ہے اور حمیدی نے بیان کیا کہ ہم سے سفیان نے بیان کیا کہ ہم سے عمرو نے اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے اور میں ایک سرکش اونٹ پر سوار تھا۔ نبی کریم ﷺ نے عمر (رض) سے فرمایا کہ یہ اونٹ مجھے بیچ دے چناچہ آپ ﷺ نے اسے خرید لیا اور پھر فرمایا عبداللہ ! تو یہ اونٹ لے جا (میں نے یہ تجھ کو بخش دیا) ۔
باب: ایسے کپڑے کا تحفہ دینا جس کا پہننا مکروہ ہو۔
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے نافع سے اور ان سے ابن عمر (رض) نے بیان کیا کہ عمر (رض) نے دیکھا کہ مسجد کے دروازے پر ایک ریشمی حلہ (فروخت ہو رہا) ہے۔ آپ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا، کہ کیا اچھا ہوتا اگر آپ اسے خرید لیتے اور جمعہ کے دن اور وفود کی ملاقات کے موقع پر اسے زیب تن فرما لیا کرتے۔ آپ ﷺ نے اس کا جواب یہ دیا کہ اسے وہی لوگ پہنتے ہیں جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ کچھ دنوں بعد آپ ﷺ کے یہاں بہت سے (ریشمی) حلے آئے اور آپ ﷺ نے ایک حلہ ان میں سے عمر (رض) کو بھی عنایت فرمایا۔ عمر (رض) نے اس پر عرض کیا کہ آپ یہ مجھے پہننے کے لیے عنایت فرما رہے ہیں۔ حالانکہ آپ خود عطارد کے حلوں کے بارے میں جو کچھ فرمانا تھا فرما چکے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے اسے تمہیں پہننے کے لیے نہیں دیا ہے۔ چناچہ عمر (رض) نے اسے اپنے ایک مشرک بھائی کو دے دیا، جو مکے میں رہتا تھا۔
باب: ایسے کپڑے کا تحفہ دینا جس کا پہننا مکروہ ہو۔
ہم سے ابوجعفر محمد بن جعفر نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن فضیل نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے نافع سے اور ان سے ابن عمر (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ فاطمہ (رض) کے گھر تشریف لے گئے، لیکن اندر نہیں گئے۔ اس کے بعد علی (رض) گھر آئے تو فاطمہ (رض) نے ذکر کیا (کہ آپ ﷺ گھر میں تشریف نہیں لائے) علی (رض) نے اس کا ذکر جب آپ ﷺ سے کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے اس کے دروازے پر دھاری دار پردہ لٹکا دیکھا تھا (اس لیے واپس چلا آیا) آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے دنیا (کی آرائش و زیبائش) سے کیا سروکار۔ علی (رض) نے آ کر ان سے آپ ﷺ کی گفتگو کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ آپ مجھے جس طرح کا چاہیں اس سلسلے میں حکم فرمائیں۔ (آپ ﷺ کو جب یہ بات پہنچی تو) آپ ﷺ نے فرمایا کہ فلاں گھر میں اسے بھجوا دیں۔ انہیں اس کی ضرورت ہے۔
باب: ایسے کپڑے کا تحفہ دینا جس کا پہننا مکروہ ہو۔
ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا کہ مجھے عبدالمالک بن میسرہ نے خبر دی، کہا کہ میں نے زید بن وہب سے سنا کہ علی (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے مجھے ایک ریشمی حلہ ہدیہ میں دیا تو میں نے اسے پہن لیا۔ لیکن جب غصے کے آثار روئے مبارک پر دیکھے تو اسے اپنی عورتوں میں پھاڑ کر تقسیم کردیا۔
باب: مشرکین کا ہدیہ قبول کر لینا۔
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے یونس بن محمد نے بیان کیا، ان سے شیبان نے بیان کیا قتادہ سے اور ان سے انس (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں دبیز قسم کے ریشم کا ایک جبہ ہدیہ کے طور پر پیش کیا گیا۔ آپ ﷺ اس کے استعمال سے (مردوں کو) منع فرماتے تھے۔ صحابہ کو بڑی حیرت ہوئی (کہ کتنا عمدہ ریشم ہے) آپ ﷺ نے فرمایا (تمہیں اس پر حیرت ہے) اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے، جنت میں سعد بن معاذ (رض) کے رومال اس سے بھی زیادہ خوبصورت ہیں۔ اور سعید نے بیان کیا قتادہ سے اور ان سے انس (رض) نے کہ دومہ (تبوک کے قریب ایک مقام) کے اکیدر (نصرانی) نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ہدیہ بھیجا تھا۔
باب: مشرکین کا ہدیہ قبول کر لینا۔
ہم سے عبداللہ بن عبدالوہاب نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد بن حارث نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، ان سے ہشام بن زید نے اور ان سے انس بن مالک (رض) نے کہ ایک یہودی عورت نبی کریم ﷺ کی خدمت میں زہر ملا ہوا بکری کا گوشت لائی، آپ ﷺ نے اس میں سے کچھ کھایا (لیکن فوراً ہی فرمایا کہ اس میں زہر پڑا ہوا ہے) پھر جب اسے لایا گیا (اور اس نے زہر ڈالنے کا اقرار بھی کرلیا) تو کہا گیا کہ کیوں نہ اسے قتل کردیا جائے۔ لیکن آپ ﷺ نے فرمایا کہ نہیں۔ اس زہر کا اثر میں نے ہمیشہ نبی کریم ﷺ کے تالو میں محسوس کیا۔
باب: مشرکین کا ہدیہ قبول کر لینا۔
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے معتمر بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ نے بیان کیا، ان سے ابوعثمان نے بیان کیا اور ان سے عبدالرحمٰن بن ابی بکر (رض) نے بیان کیا کہ ہم ایک سو تیس آدمی رسول اللہ ﷺ کے ساتھ (ایک سفر میں) تھے۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کیا کسی کے ساتھ کھانے کی بھی کوئی چیز ہے ؟ ایک صحابی کے ساتھ تقریباً ایک صاع کھانا (آٹا) تھا۔ وہ آٹا گوندھا گیا۔ پھر ایک لمبا تڑنگا مشرک پریشان حال بکریاں ہانکتا ہوا آیا۔ تو نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا یہ بیچنے کے لیے ہیں۔ یا کسی کا عطیہ ہے یا آپ نے (عطیہ کی بجائے) ہبہ فرمایا۔ اس نے کہا کہ نہیں بیچنے کے لیے ہیں۔ آپ ﷺ نے اس سے ایک بکری خریدی پھر وہ ذبح کی گئی۔ پھر نبی کریم ﷺ نے اس کی کلیجی بھوننے کے لیے کہا۔ قسم اللہ کی ایک سو تیس اصحاب میں سے ہر ایک کو اس کلیجی میں سے کاٹ کے دیا۔ جو موجود تھے انہیں تو آپ ﷺ نے فوراً ہی دے دیا اور جو اس وقت موجود نہیں تھے ان کا حصہ محفوظ رکھ لیا۔ پھر بکری کے گوشت کو دو بڑی قابوں میں رکھا گیا اور سب نے خوب سیر ہو کر کھایا۔ جو کچھ قابوں میں بچ گیا تھا اسے اونٹ پر رکھ کر ہم واپس لائے۔ او کما قال۔
باب: مشرکوں کو ہدیہ دینا۔
ہم سے خالد بن مخلد نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن دینار نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عمر نے کہ عمر (رض) نے دیکھا کہ ایک شخص کے یہاں ایک ریشمی جوڑا فروخت ہو رہا ہے۔ تو آپ نے نبی کریم ﷺ سے کہا کہ آپ یہ جوڑا خرید لیجئیے تاکہ جمعہ کے دن اور جب کوئی وفد آئے تو آپ اسے پہنا کریں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اسے تو وہ لوگ پہنتے ہیں جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ پھر نبی کریم ﷺ کے پاس بہت سے ریشمی جوڑے آئے اور آپ ﷺ نے ان میں سے ایک جوڑا عمر (رض) کو بھیجا۔ عمر (رض) نے کہا کہ میں اسے کس طرح پہن سکتا ہوں جب کہ آپ خود ہی اس کے متعلق جو کچھ ارشاد فرمانا تھا، فرما چکے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے تمہیں پہننے کے لیے نہیں دیا بلکہ اس لیے دیا کہ تم اسے بیچ دو یا کسی (غیر مسلم) کو پہنا دو ۔ چناچہ عمر (رض) نے اسے مکے میں اپنے ایک بھائی کے گھر بھیج دیا جو ابھی اسلام نہیں لایا تھا۔
باب: مشرکوں کو ہدیہ دینا۔
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا ہشام سے، ان سے ان کے باپ نے اور ان سے اسماء بنت ابی بکر (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں میری والدہ (قتیلہ بنت عبدالعزیٰ ) جو مشرکہ تھیں، میرے یہاں آئیں۔ میں نے آپ ﷺ سے پوچھا، میں نے یہ بھی کہا کہ وہ (مجھ سے ملاقات کی) بہت خواہشمند ہیں، تو کیا میں اپنی والدہ کے ساتھ صلہ رحمی کرسکتی ہوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں اپنی والدہ کے ساتھ صلہ رحمی کر۔
باب: کسی کے لیے حلال نہیں کہ اپنا دیا ہوا ہدیہ یا صدقہ واپس لے لے۔
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام اور شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے قتادہ نے بیان کیا سعید بن مسیب سے اور ان سے عبداللہ بن عباس (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اپنا دیا ہوا ہدیہ واپس لینے والا ایسا ہے جیسے اپنی کی ہوئی قے کو چاٹنے والا۔
باب: کسی کے لیے حلال نہیں کہ اپنا دیا ہوا ہدیہ یا صدقہ واپس لے لے۔
ہم سے عبدالرحمٰن بن مبارک نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ایوب نے بیان کیا عکرمہ سے اور ان سے عبداللہ بن عباس (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہم مسلمانوں کو بری مثال نہ اختیار کرنی چاہیے۔ اس شخص کی سی جو اپنا دیا ہوا ہدیہ واپس لے لے، وہ اس کتے کی طرح ہے جو اپنی قے خود چاٹتا ہے۔
باب: کسی کے لیے حلال نہیں کہ اپنا دیا ہوا ہدیہ یا صدقہ واپس لے لے۔
ہم سے یحییٰ بن قزعہ نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا زید بن اسلم سے، ان سے ان کے باپ نے کہ انہوں نے عمر بن خطاب (رض) سے سنا۔ آپ نے فرمایا کہ میں نے ایک گھوڑا اللہ کے راستے میں جہاد کے لیے (ایک شخص کو) دیا) ۔ جسے میں نے وہ گھوڑا دیا تھا، اس نے اسے دبلا کردیا۔ اس لیے میرا ارادہ ہوا کہ اس سے اپنا وہ گھوڑا خرید لوں، میرا یہ بھی خیال تھا کہ وہ شخص وہ گھوڑا سستے داموں پر بیچ دے گا۔ لیکن جب میں نے اس کے بارے میں نبی کریم ﷺ سے پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ تم اسے نہ خریدو، خواہ تمہیں وہ ایک ہی درہم میں کیوں نہ دے۔ کیونکہ اپنے صدقہ کو واپس لینے والا شخص اس کتے کی طرح ہے جو اپنی ہی قے خود چاٹتا ہے۔
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو ہشام بن یوسف نے خبر دی، انہیں ابن جریج نے خبر دی، کہا کہ مجھے عبداللہ بن عبیداللہ بن ابی ملیکہ نے خبر دی کہ ابن جدعان کے غلام بنوصہیب نے دعویٰ کیا کہ دو مکان اور ایک حجرہ نبی کریم ﷺ نے صہیب (رض) کو عنایت فرمایا تھا (جو وراثت میں انہیں ملنا چاہیے) خلیفہ مروان بن حکم نے پوچھا کہ تمہارے حق میں اس دعویٰ پر گواہ کون ہے ؟ انہوں نے کہا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما۔ مروان نے آپ کو بلایا تو آپ نے گواہی دی کہ واقعی رسول اللہ ﷺ نے صہیب (رض) کو دو مکان اور ایک حجرہ دیا تھا۔ مروان نے آپ کی گواہی پر فیصلہ ان کے حق میں کردیا۔
باب: عمریٰ اور رقبیٰ کے بارے میں روایات۔
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، ان سے شیبان نے بیان کیا، ان سے یحییٰ نے، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے جابر (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے عمریٰ کے متعلق فیصلہ کیا تھا کہ وہ اس کا ہوجاتا ہے جسے ہبہ کیا گیا ہو۔
باب: عمریٰ اور رقبیٰ کے بارے میں روایات۔
ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمام نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے بیان کیا، ان سے نضر بن انس نے بیان کیا، ان سے بشیر بن نہیک نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا عمریٰ جائز ہے۔ اور عطاء نے کہا کہ مجھ سے جابر (رض) نے نبی کریم ﷺ سے اسی طرح بیان کیا۔
باب: جس نے کسی سے گھوڑا عاریتاً لیا۔
ہم سے آدم نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا قتادہ سے کہ میں نے انس (رض) سے سنا۔ آپ نے بیان کیا کہ مدینے پر (دشمن کے حملے کا) خوف تھا۔ اس لیے نبی کریم ﷺ نے ابوطلحہ (رض) سے ایک گھوڑا جس کا نام مندوب تھا مستعار لیا، پھر آپ ﷺ اس پر سوار ہوئے (صحابہ بھی ساتھ تھے) پھر جب واپس ہوئے تو فرمایا، ہمیں تو کوئی خطرہ کی چیز نظر نہ آئی، البتہ یہ گھوڑا سمندر کی طرح (تیز دوڑتا) پایا۔
باب: شب عروسی میں دلہن کے لیے کوئی چیز عاریتاً لینا۔
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالواحد بن ایمن نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں عائشہ (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ قطر (یمن کا ایک دبیز کھردرا کپڑا) کی قمیص قیمتی پانچ درہم کی پہنے ہوئے تھیں۔ آپ نے (مجھ سے) فرمایا۔ ذرا نظر اٹھا کر میری اس لونڈی کو تو دیکھ۔ اسے گھر میں بھی یہ کپڑے پہننے سے انکار ہے۔ حالانکہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں میرے پاس اسی کی ایک قمیص تھی۔ جب کوئی لڑکی دلہن بنائی جاتی تو میرے یہاں آدمی بھیج کر وہ قمیص عاریتاً منگا لیتی تھی۔
باب: تحفہ «منيحة» کی فضیلت کے بارے میں۔
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ابوالزناد نے، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، کیا ہی عمدہ ہے ہدیہ اس دودھ دینے والی اونٹنی کا جس نے ابھی حال ہی میں بچہ جنا ہو اور دودھ دینے والی بکری کا جو صبح و شام اپنے دودھ سے برتن بھر دیتی ہے۔
باب: تحفہ «منيحة» کی فضیلت کے بارے میں۔
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو ابن وہب نے خبر دی یونس سے، انہوں نے ابن شہاب سے، وہ انس بن مالک (رض) سے کہ جب مہاجرین مکہ سے مدینہ آئے تو ان کے ساتھ کوئی بھی سامان نہ تھا۔ انصار زمین اور جائیداد والے تھے۔ انصار نے مہاجرین سے یہ معاملہ کرلیا کہ وہ اپنے باغات میں سے انہیں ہر سال پھل دیا کریں گے اور اس کے بدلے مہاجرین ان کے باغات میں کام کیا کریں۔ انس (رض) کی والدہ ام سلیم جو عبداللہ بن ابی طلحہ (رض) کی بھی والدہ تھیں، انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو کھجور کا ایک باغ ہدیہ دے دیا تھا لیکن آپ ﷺ نے وہ باغ اپنی لونڈی ام ایمن (رض) جو اسامہ بن زید (رض) کی والدہ تھیں، عنایت فرما دیا۔ ابن شہاب نے بیان کیا کہ مجھے انس بن مالک (رض) نے خبر دی کہ نبی کریم ﷺ جب خیبر کے یہودیوں کی جنگ سے فارغ ہوئے اور مدینہ تشریف لائے تو مہاجرین نے انصار کو ان کے تحائف واپس کر دئیے جو انہوں نے پھلوں کی صورت میں دے رکھے تھے۔ آپ ﷺ نے انس (رض) کی والدہ کا باغ بھی واپس کردیا اور ام ایمن (رض) کو اس کے بجائے اپنے باغ میں سے (کچھ درخت) عنایت فرما دئیے۔ احمد بن شبیب نے بیان کیا، انہیں ان کے والد نے خبر دی اور انہیں یونس نے اسی طرح البتہ اپنی روایت میں بجائے مكانهن من حائطه. کے مكانهن من خالصه. مکانہن من خالصہ بیان کیا
باب: تحفہ «منيحة» کی فضیلت کے بارے میں۔
ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عیسیٰ بن یونس نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے اوزاعی نے بیان کیا حسان بن عطیہ سے، ان سے ابوکبشہ سلولی نے اور انہوں نے عبداللہ بن عمرو (رض) سے سنا، آپ بیان کرتے تھے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، چالیس خصلتیں جن میں سب سے اعلیٰ وارفع۔ دودھ دینے والی بکری کا ہدیہ کرنا ہے۔ ایسی ہیں کہ جو شخص ان میں سے ایک خصلت پر بھی عامل ہوگا ثواب کی نیت سے اور اللہ کے وعدے کو سچا سمجھتے ہوئے تو اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اسے جنت میں داخل کرے گا۔ حسان نے کہا کہ دودھ دینے والی بکری کے ہدیہ کو چھوڑ کر ہم نے سلام کا جواب دینا، چھینکنے والے کا جواب دینا اور تکلیف دینے والی چیز کو راستے سے ہٹا دینے وغیرہ کا شمار کیا، تو سب پندرہ خصلتیں بھی ہم شمار نہ کرسکے۔
باب: تحفہ «منيحة» کی فضیلت کے بارے میں۔
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے اوزاعی نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عطاء نے بیان کیا، ان سے جابر (رض) نے بیان کیا کہ ہم میں سے بہت سے اصحاب کے پاس فالتو زمین بھی تھی، انہوں نے کہا تھا کہ تہائی یا چوتھائی یا نصف کی بٹائی پر ہم کیوں نہ اسے دے دیا کریں۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا جس کے پاس زمین ہو تو اسے خود بونی چاہیے یا پھر کسی اپنے بھائی کو ہدیہ کر دینی چاہیے اور اگر ایسا نہیں کرتا تو پھر زمین اپنے پاس رکھے رہے۔ اور محمد بن یوسف نے بیان کیا، ان سے اوزاعی نے بیان کیا، ان سے زہری نے بیان کیا، ان سے عطاء بن یزید نے بیان کیا اور ان سے ابو سعید خدری (رض) نے بیان کیا کہ ایک دیہاتی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ ﷺ سے ہجرت کے لیے پوچھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا اللہ تم پر رحم کرے۔ ہجرت کا تو بڑا ہی دشوار معاملہ ہے۔ تمہارے پاس اونٹ بھی ہے ؟ انہوں نے کہا جی ہاں ! آپ ﷺ نے دریافت فرمایا اور اس کا صدقہ (زکوٰۃ) بھی ادا کرتے ہو ؟ انہوں نے کہا جی ہاں ! آپ ﷺ نے دریافت فرمایا اس میں سے کچھ ہدیہ بھی دیتے ہو ؟ انہوں نے کہا جی ہاں ! آپ ﷺ نے دریافت فرمایا تو تم اسے پانی پلانے کے لیے گھاٹ پر لے جانے والے دن دوہتے ہو گے ؟ انہوں نے کہا جی ہاں ! پھر آپ ﷺ نے فرمایا سمندروں کے پار بھی اگر تم عمل کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہارے عمل میں سے کوئی چیز کم نہیں کرے گا۔
باب: تحفہ «منيحة» کی فضیلت کے بارے میں۔
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوہاب نے بیان کیا، کہا ہم سے ایوب نے بیان کیا، ان سے عمرو نے، ان سے طاؤس نے بیان کیا کہ مجھ سے ان میں سب سے زیادہ اس (مخابرہ) کے جاننے والے نے بیان کیا، ان کی مراد ابن عباس (رض) سے تھی کہ نبی کریم ﷺ ایک مرتبہ ایسے کھیت کی طرف تشریف لے گئے جس کی کھیتی لہلہا رہی تھی، آپ ﷺ نے دریافت فرمایا یہ کس کا ہے ؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے بتلایا کہ فلاں نے اسے کرایہ پر لیا ہے۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا اگر وہ ہدیتاً دے دیتا تو اس سے بہتر تھا کہ اس پر ایک مقررہ اجرت وصول کرتا۔
باب: عام دستور کے مطابق کسی نے کسی شخص سے کہا کہ یہ لڑکی میں نے تمہاری خدمت کے لیے دے دی تو جائز ہے۔
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ابراہیم (علیہ السلام) نے سارہ (علیہا السلام) کے ساتھ ہجرت کی تو انہیں بادشاہ نے آجر کو (یعنی ہاجرہ (علیہا السلام) کو) عطیہ میں دے دیا۔ پھر وہ واپس ہوئیں اور ابراہیم (علیہ السلام) سے کہا، دیکھا آپ نے اللہ تعالیٰ نے کافر کو کس طرح ذلیل کیا اور ایک لڑکی خدمت کے لیے بھی دے دی۔ ابن سیرین نے کہا، ان سے ابوہریرہ (رض) نے اور ان سے نبی کریم ﷺ نے بیان کیا کہ بادشاہ نے ہاجرہ کو ان کی خدمت کے لیے دے دیا تھا۔
باب: اگر ایک شخص دوسرے کے نیک عادات و عمدہ خصائل بیان کرنے کے لیے اگر صرف یہ کہے کہ ہم تو اس کے متعلق اچھا ہی جانتے ہیں یا یہ کہے کہ میں اس کے متعلق صرف اچھی بات جانتا ہوں۔
باب : گواہیوں کا پیش کرنا مدعی کے ذمہ ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے ( سورة البقرہ میں) فرمایا ہے اے ایمان والو ! جب تم آپس میں ادھار کا معاملہ کسی مدت مقررہ تک کے لیے کرو تو اس کو لکھ لیا کرو اور لازم ہے کہ تمہارے درمیان لکھنے والا ٹھیک صحیح لکھے اور لکھنے سے انکار نہ کرے۔ جیسا کہ اللہ نے اس کو سکھایا ہے۔ پس چاہیے کہ وہ لکھ دے اور چاہیے کہ وہ شخص لکھوائے جس کے ذمے حق واجب ہے اور چاہیے کہ وہ اپنے پروردگار اللہ سے ڈرتا رہے اور اس میں سے کچھ بھی کم نہ کرے۔ پھر اگر وہ جس کے ذمے حق واجب ہے کم عقل ہو یا یہ کہ کمزور ہو اور اس قابل نہ ہو کہ وہ خود لکھوا سکے تو لازم ہے کہ اس کا کارکن ٹھیک ٹھیک لکھوا دے اور اپنے مردوں میں سے دو کو گواہ کرلیا کرو۔ پھر اگر دونوں مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوں، ان گواہوں میں سے جنہیں تم پسند کرتے ہو تاکہ ان دو عورتوں میں سے ایک دوسری کو یاد دلا دے اگر کوئی ایک ان دونوں میں سے بھول جائے اور گواہ جب بلائے جائیں تو انکار نہ کریں اور اس (معاملے) کو خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا، اس کی میعاد تک لکھنے سے اکتا نہ جاؤ، یہ کتابت اللہ کے نزدیک زیادہ سے زیادہ انصاف سے نزدیک ہے اور گواہی کو درست تر رکھنے والی ہے اور زیادہ لائق اس کے کہ تم شبہ میں نہ پڑو، بجز اس کے کہ کوئی سودا ہاتھوں ہاتھ ہو جسے تم باہم لیتے دیتے ہی رہتے ہو۔ سو تم پر اس میں کوئی الزام نہیں کہ تم اسے نہ لکھو اور جب خریدو فروخت کرتے ہو تب بھی گواہ کرلیا کرو اور کسی کاتب اور گواہ کو نقصان نہ دیا جائے اور اگر ایسا کرو گے تو یہ تمہارے حق میں ایک گناہ ہوگا اور اللہ سے ڈرتے رہو اور اللہ تمہیں سکھاتا ہے اور اللہ ہر چیز کا بہت جاننے والا ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اے ایمان والو ! انصاف پر خوب قائم رہنے والے اور اللہ کے لیے گواہی دینے والے بن کر رہو۔ چاہے تمہارے یا (تمہارے) والدین اور عزیزوں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ وہ امیر ہو یا مفلس، اللہ (بہرحال) دونوں سے زیادہ حقدار ہے۔ تو خواہش نفس کی پیروی نہ کرنا کہ (حق سے) ہٹ جاؤ اور اگر تم کجی کرو گے یا پہلو تہی کرو گے، تو جو کچھ تم کر رہے ہو، اللہ اس سے خوب خبردار ہے۔