39. گواہیوں کا بیان
باب: اگر ایک شخص دوسرے کے نیک عادات و عمدہ خصائل بیان کرنے کے لیے اگر صرف یہ کہے کہ ہم تو اس کے متعلق اچھا ہی جانتے ہیں یا یہ کہے کہ میں اس کے متعلق صرف اچھی بات جانتا ہوں۔
ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن عمر نمیری نے بیان کیا، کہا ہم سے ثوبان نے بیان کیا اور لیث بن سعد نے بیان کیا کہ مجھ سے یونس نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، انہیں عروہ، ابن مسیب، علقمہ بن وقاص اور عبیداللہ نے عائشہ (رض) کی حدیث کے متعلق خبر دی اور ان کی باہم ایک کی بات دوسرے کی بات کی تصدیق کرتی ہے کہ جب ان پر تہمت لگانے والوں نے تہمت لگائی تو رسول اللہ ﷺ نے علی اور اسامہ (رض) کو اپنی بیوی (عائشہ رضی اللہ عنہا) کو اپنے سے جدا کرنے کے متعلق مشورہ کرنے کے لیے بلایا، کیونکہ آپ ﷺ پر اب تک ( اس سلسلے میں) وحی نہیں آئی تھی۔ اسامہ (رض) نے تو یہ کہا کہ آپ کی زوجہ مطہرہ (عائشہ رضی اللہ عنہا) میں ہم سوائے خیر کے اور کچھ نہیں جانتے۔ اور بریرہ (رض) (ان کی خادمہ) نے کہا کہ میں کوئی ایسی چیز نہیں جانتی جس سے ان پر عیب لگایا جاسکے۔ اتنی بات ضرور ہے کہ وہ نوعمر لڑکی ہیں کہ آٹا گوندھتی اور پھر جا کے سو رہتی ہے اور بکری آ کر اسے کھا لیتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے (تہمت کے جھوٹ ثابت ہونے کے بعد) فرمایا کہ ایسے شخص کی طرف سے کون عذر خواہی کرے گا جو میری بیوی کے بارے میں بھی مجھے اذیت پہنچاتا ہے۔ قسم اللہ کی ! میں نے اپنے گھر میں خیر کے سوا اور کچھ نہیں دیکھا اور لوگ ایسے شخص کا نام لیتے ہیں جس کے متعلق بھی مجھے خیر کے سوا اور کچھ معلوم نہیں۔
باب: جو اپنے تئیں چھپا کر گواہ بنا ہو اس کی گواہی درست ہے۔
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی زہری سے کہ سالم نے بیان کیا، انہوں نے عبداللہ بن عمر (رض) سے سنا، آپ کہتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ ابی بن کعب انصاری (رض) کو ساتھ لے کر کھجور کے اس باغ کی طرف تشریف لے گئے جس میں ابن صیاد تھا۔ جب رسول اللہ ﷺ باغ میں داخل ہوئے تو آپ ﷺ درختوں کی آڑ میں چھپ کر چلنے لگے۔ آپ ﷺ چاہتے تھے کہ ابن صیاد آپ کو دیکھنے نہ پائے اور اس سے پہلے آپ اس کی باتیں سن سکیں۔ ابن صیاد ایک روئیں دار چادر میں زمین پر لیٹا ہوا تھا اور کچھ گنگنا رہا تھا۔ ابن صیاد کی ماں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھ لیا کہ آپ ﷺ درخت کی آڑ لیے چلے آ رہے ہیں تو وہ کہنے لگی اے صاف ! یہ محمد ( ﷺ ) آ رہے ہیں۔ ابن صیاد ہوشیار ہوگیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر اسے اپنے حال پر رہنے دیتی تو بات ظاہر ہوجاتی۔
باب: جو اپنے تئیں چھپا کر گواہ بنا ہو اس کی گواہی درست ہے۔
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا زہری سے اور ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ (رض) نے کہ رفاعہ قرظی (رض) کی بیوی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ میں رفاعہ کی نکاح میں تھی۔ پھر مجھے انہوں نے طلاق دے دی اور قطعی طلاق دے دی۔ پھر میں نے عبدالرحمٰن بن زبیر (رض) سے شادی کرلی۔ لیکن ان کے پاس تو (شرمگاہ) اس کپڑے کی گانٹھ کی طرح ہے۔ آپ ﷺ نے دریافت کیا کیا تو رفاعہ کے پاس دوبارہ جانا چاہتی ہے لیکن تو اس وقت تک ان سے اب شادی نہیں کرسکتی جب تک تو عبدالرحمٰن بن زبیر کا مزا نہ چکھ لے اور وہ تمہارا مزا نہ چکھ لیں۔ اس وقت ابوبکر (رض) خدمت نبوی میں موجود تھے اور خالد بن سعید بن عاص (رض) دروازے پر اپنے لیے (اندر آنے کی) اجازت کا انتظار کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا، ابوبکر ! کیا اس عورت کو نہیں دیکھتے نبی کریم ﷺ کے سامنے کس طرح کی باتیں زور زور سے کہہ رہی ہے۔
باب: جب ایک یا کئی گواہ کسی معاملے کے اثبات میں گواہی دیں اور دوسرے لوگ یہ کہہ دیں کہ ہمیں اس سلسلے میں کچھ معلوم نہیں تو فیصلہ اسی کے قول کے مطابق ہو گا جس نے اثبات میں گواہی دی ہے۔
ہم سے حبان نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو عبداللہ نے خبر دی، کہا ہم کو عمر بن سعید بن ابی حسین نے خبر دی، کہا کہ مجھے عبداللہ بن ابی ملیکہ نے خبر دی اور انہیں عقبہ بن حارث (رض) نے کہ انہوں نے ابواہاب بن عزیز کی لڑکی سے شادی کی تھی۔ ایک خاتون آئیں اور کہنے لگیں کہ عقبہ کو بھی میں نے دودھ پلایا ہے اور اسے بھی جس سے اس نے شادی کی ہے۔ عقبہ (رض) نے کہا کہ مجھے تو معلوم نہیں کہ آپ نے مجھے دودھ پلایا ہے اور آپ نے مجھے پہلے اس سلسلے میں کچھ بتایا بھی نہیں تھا۔ پھر انہوں نے آل ابواہاب کے یہاں آدمی بھیجا کہ ان سے اس کے متعلق پوچھے۔ انہوں نے بھی یہی جواب دیا کہ ہمیں معلوم نہیں کہ انہوں نے دودھ پلایا ہے۔ عقبہ (رض) اب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں مدینہ حاضر ہوئے اور آپ ﷺ سے مسئلہ پوچھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا، اب کیا ہوسکتا ہے جب کہ کہا جا چکا۔ چناچہ آپ ﷺ نے دونوں میں جدائی کرا دی اور اس کا نکاح دوسرے شخص سے کرا دیا۔
باب: گواہ عادل معتبر ہونے ضروری ہیں۔
ہم سے حکم بن نافع نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی زہری سے، کہا کہ مجھ سے حمید بن عبدالرحمٰن بن عوف نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن عتبہ نے اور انہوں نے عمر بن خطاب (رض) سے سنا۔ آپ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں لوگوں کا وحی کے ذریعہ مواخذہ ہوجاتا تھا۔ لیکن اب وحی کا سلسلہ ختم ہوگیا اور ہم صرف انہیں امور میں مواخذہ کریں گے جو تمہارے عمل سے ہمارے سامنے ظاہر ہوں گے۔ اس لیے جو کوئی ظاہر میں ہمارے سامنے خیر کرے گا، ہم اسے امن دیں گے اور اپنے قریب رکھیں گے۔ اس کے باطن سے ہمیں کوئی سروکار نہ ہوگا۔ اس کا حساب تو اللہ تعالیٰ کرے گا اور جو کوئی ہمارے سامنے ظاہر میں برائی کرے گا تو ہم بھی اسے امن نہیں دیں گے اور نہ ہم اس کی تصدیق کریں گے خواہ وہ یہی کہتا رہے کہ اس کا باطن اچھا ہے۔
باب: کسی گواہ کو عادل ثابت کرنے کے لیے کتنے آدمیوں کی گواہی ضروری ہے؟
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ثابت سے اور ان سے انس (رض) نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو لوگوں نے اس میت کی تعریف کی، آپ ﷺ نے فرمایا واجب ہوگئی پھر دوسرا جنازہ گزرا تو لوگوں نے اس کی برائی کی، یا اس کے سوا اور الفاظ (اسی مفہوم کو ادا کرنے کے لیے) کہے (راوی کو شبہ ہے) آپ ﷺ نے اس پر بھی فرمایا واجب ہوگئی عرض کیا گیا۔ یا رسول اللہ ! آپ نے اس جنازہ کے متعلق بھی فرمایا کہ واجب ہوگئی اور پہلے جنازہ پر بھی یہی فرمایا۔ آپ ﷺ نے فرمایا ایمان والی قوم کی گواہی (بارگاہ الٰہی میں مقبول ہے) یہ لوگ زمین پر اللہ کے گواہ ہیں۔
باب: کسی گواہ کو عادل ثابت کرنے کے لیے کتنے آدمیوں کی گواہی ضروری ہے؟
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے داؤد بن ابی فرات نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن بریدہ نے بیان کیا ابی الاسود سے کہ میں مدینہ آیا تو یہاں وبا پھیلی ہوئی تھی، لوگ بڑی تیزی سے مر رہے تھے۔ میں عمر (رض) کی خدمت میں تھا کہ ایک جنازہ گزرا۔ لوگوں نے اس میت کی تعریف کی تو عمر (رض) نے کہا کہ واجب ہوگئی۔ پھر دوسرا گزار لوگوں نے اس کی بھی تعریف کی عمر (رض) نے کہا واجب ہوگئی۔ پھر تیسرا گزرا تو لوگوں نے اس کی برائی کی، عمر (رض) نے اس کے لیے یہی کہا کہ واجب ہوگئی۔ میں نے پوچھا امیرالمؤمنین ! کیا واجب ہوگئی۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اسی طرح کہا ہے جس طرح نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ جس مسلمان کے لیے چار آدمی اچھائی کی گواہی دے دیں اسے اللہ تعالیٰ جنت میں داخل کرتا ہے۔ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا اور اگر تین دیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تین پر بھی۔ ہم نے پوچھا اور اگر دو آدمی گواہی دیں ؟ فرمایا دو پر بھی۔ پھر ہم نے ایک کے متعلق آپ ﷺ سے نہیں پوچھا۔
باب: نسب اور رضاعت میں جو مشہور ہو، اسی طرح پرانی موت پر گواہی کا بیان۔
ہم سے آدم نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم کو حکم نے خبر دی، انہیں عراک بن مالک نے، انہیں عروہ بن زبیر نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ (پردہ کا حکم نازل ہونے کے بعد) افلح (رض) نے مجھ سے (گھر میں آنے کی) اجازت چاہی تو میں نے ان کو اجازت نہیں دی۔ وہ بولے کہ آپ مجھ سے پردہ کرتی ہیں حالانکہ میں آپ کا (دودھ) کا چچا ہوں۔ میں نے کہا کہ یہ کیسے ؟ تو انہوں نے بتایا کہ میرے بھائی (وائل) کی عورت نے آپ کو میرے بھائی کا ہی دودھ پلایا تھا۔ عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ پھر میں نے اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ افلح نے سچ کہا ہے۔ انہیں (اندر آنے کی) اجازت دے دیا کرو (ان سے پردہ نہیں ہے) ۔
باب: نسب اور رضاعت میں جو مشہور ہو، اسی طرح پرانی موت پر گواہی کا بیان۔
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمام نے بیان کیا، کہا ہم سے قتادہ نے بیان کیا جابر بن زید سے اور ان سے عبداللہ بن عباس (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے حمزہ (رض) کی صاحبزادی کے متعلق فرمایا یہ میرے لیے حلال نہیں ہوسکتیں، جو رشتے نسب کی وجہ سے حرام ہوجاتے ہیں، وہی دودھ کی وجہ سے بھی حرام ہوجاتے ہیں۔ یہ تو میرے رضاعی بھائی کی لڑکی ہے۔
باب: نسب اور رضاعت میں جو مشہور ہو، اسی طرح پرانی موت پر گواہی کا بیان۔
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی عبداللہ بن ابی بکر سے، وہ عمرہ بنت عبدالرحمٰن سے اور انہیں نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ (رض) نے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ ان کے یہاں تشریف فرما تھے۔ عائشہ صدیقہ (رض) نے ایک صحابی کی آواز سنی جو (ام المؤمنین) حفصہ (رض) کے گھر میں آنے کی اجازت چاہتا تھا۔ عائشہ (رض) نے کہا کہ میں نے کہا، یا رسول اللہ ! میرا خیال ہے یہ حفصہ (رض) کے رضاعی چچا ہیں۔ انہوں نے عرض کیا، یا رسول اللہ ! یہ صحابی آپ کے گھر میں (جس میں حفصہ (رض) رہتی ہیں) آنے کی اجازت مانگ رہے ہیں۔ انہوں نے بیان کیا کہ آپ نے فرمایا، میرا خیال ہے یہ فلاں صاحب، حفصہ کے رضاعی چچا ہیں۔ پھر عائشہ (رض) نے بھی اپنے ایک رضاعی چچا کے متعلق پوچھا کہ اگر فلاں زندہ ہوتے تو کیا وہ بےحجاب میرے پاس آسکتے تھے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہاں ! دودھ سے بھی وہ تمام رشتے حرام ہوجاتے ہیں جو نسب کی وجہ سے حرام ہوتے ہیں۔
باب: نسب اور رضاعت میں جو مشہور ہو، اسی طرح پرانی موت پر گواہی کا بیان۔
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا ہم کو سفیان نے خبر دی، انہیں اشعث بن ابوشعثاء نے، انہیں ان کے والد نے، انہیں مسروق نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ (گھر میں) تشریف لائے تو میرے یہاں ایک صاحب (ان کے رضاعی بھائی) بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا، عائشہ ! یہ کون ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ یہ میرا رضاعی بھائی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا عائشہ ! ذرا دیکھ بھال کرلو، کون تمہارا رضاعی بھائی ہے۔ کیونکہ رضاعت وہی معتبر ہے جو کم سنی میں ہو۔ محمد بن کثیر کے ساتھ اس حدیث کو عبدالرحمٰن بن مہدی نے سفیان ثوری سے روایت کیا ہے۔
باب: زنا کی تہمت لگانے والے اور چور اور زانی کی گواہی کا بیان۔
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا مجھ سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا اور ان سے یونس نے اور لیث نے بیان کیا کہ مجھ سے یونس نے بیان کیا اور ان سے ابن شہاب نے، انہیں عروہ بن زبیر نے خبر دی کہ ایک عورت نے فتح مکہ پر چوری کرلی تھی۔ پھر اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر کیا گیا اور آپ ﷺ کے حکم کے مطابق اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ پھر انہوں نے اچھی طرح توبہ کرلی اور شادی کرلی۔ اس کے بعد وہ آتی تھیں تو میں ان کی ضرورت رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کردیا کرتی تھی۔
باب: زنا کی تہمت لگانے والے اور چور اور زانی کی گواہی کا بیان۔
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا عقیل سے، وہ ابن شہاب سے، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ نے اور ان سے زید بن خالد (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان لوگوں کے لیے جو شادی شدہ نہ ہوں اور زنا کریں۔ یہ حکم دیا تھا کہ انہیں سو کوڑے لگائے جائیں اور ایک سال کے لیے جلا وطن کردیا جائے۔
باب: اگر ظلم کی بات پر لوگ گواہ بننا چاہیں تو گواہ نہ بنے۔
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا ہم کو ابوحیان تیمی (یحییٰ بن سعید) نے، انہیں شعبی نے، اور ان سے نعمان بن بشیر (رض) نے بیان کیا کہ میری ماں نے میرے باپ سے مجھے ایک چیز ہبہ دینے کے لیے کہا (پہلے تو انہوں نے انکار کیا کیونکہ دوسری بیوی کے بھی اولاد تھی) پھر راضی ہوگئے اور مجھے وہ چیز ہبہ کردی۔ لیکن ماں نے کہا کہ جب تک آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس معاملہ میں گواہ نہ بنائیں میں اس پر راضی نہ ہوں گی۔ چناچہ والد میرا ہاتھ پکڑ کر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ میں ابھی نوعمر تھا۔ انہوں نے عرض کیا کہ اس لڑکے کی ماں عمرہ بنت رواحہ (رض) مجھ سے ایک چیز اسے ہبہ کرنے کے لیے کہہ رہی ہیں۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا اس کے علاوہ اور بھی تمہارے لڑکے ہیں ؟ انہوں نے کہا ہاں، ہیں۔ نعمان (رض) ! نے بیان کیا، میرا خیال ہے کہ آپ ﷺ نے اس پر فرمایا تو مجھ کو ظلم کی بات پر گواہ نہ بنا۔ اور ابوحریز نے شعبی سے یہ نقل کیا کہ آپ ﷺ نے فرمایا میں ظلم کی بات پر گواہ نہیں بنتا۔
باب: اگر ظلم کی بات پر لوگ گواہ بننا چاہیں تو گواہ نہ بنے۔
ہم سے آدم نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوحمزہ نے بیان کیا کہ میں نے زہدم بن مضرب (رض) سے سنا کہ میں نے عمران بن حصین (رض) سے سنا اور انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میں سب سے بہتر میرے زمانہ کے لوگ (صحابہ) ہیں۔ پھر وہ لوگ جو ان کے بعد آئیں گے (تابعین) پھر وہ لوگ جو اس کے بھی بعد آئیں گے۔ (تبع تابعین) عمران نے بیان کیا کہ میں نہیں جانتا آپ ﷺ نے دو زمانوں کا (اپنے بعد) ذکر فرمایا یا تین کا پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہارے بعد ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو چور ہوں گے، جن میں دیانت کا نام نہ ہوگا۔ ان سے گواہی دینے کے لیے نہیں کہا جائے گا۔ لیکن وہ گواہیاں دیتے پھریں گے۔ نذریں مانیں گے لیکن پوری نہیں کریں گے۔ مٹاپا ان میں عام ہوگا۔
باب: اگر ظلم کی بات پر لوگ گواہ بننا چاہیں تو گواہ نہ بنے۔
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا ہم کو سفیان نے خبر دی منصور سے، انہوں نے ابراہیم نخعی سے، انہیں عبیدہ نے اور ان سے عبداللہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا سب سے بہتر میرے زمانہ کے لوگ ہیں، پھر وہ لوگ جو اس کے بعد ہوں گے، پھر وہ لوگ جو اس کے بعد ہوں گے اور اس کے بعد ایسے لوگوں کا زمانہ آئے گا جو قسم سے پہلے گواہی دیں گے اور گواہی سے پہلے قسم کھائیں گے۔ ابراہیم نخعی (رح) نے بیان کیا کہ ہمارے بڑے بزرگ شہادت اور عہد کا لفظ زبان سے نکالنے پر ہمیں مارتے تھے۔
باب: جھوٹی گواہی کے متعلق کیا حکم ہے؟
ہم سے عبداللہ بن منیر نے بیان کیا، کہا ہم نے وہب بن جریر اور عبدالملک بن ابراہیم سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن ابی بکر بن انس نے اور ن سے انس (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ سے کبیرہ گناہوں کے متعلق پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، کسی کی جان لینا اور جھوٹی گواہی دینا۔ اس روایت کی متابعت غندر، ابوعامر، بہز اور عبدالصمد نے شعبہ سے کی ہے۔
باب: جھوٹی گواہی کے متعلق کیا حکم ہے؟
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے بشر بن مفضل نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا ان سے عبدالرحمٰن بن ابی بکرہ نے اور ان سے ان کے باپ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں تم لوگوں کو سب سے بڑے گناہ نہ بتاؤں ؟ تین بار آپ ﷺ نے اسی طرح فرمایا۔ صحابہ نے عرض کیا، ہاں یا رسول ! آپ ﷺ نے فرمایا، اللہ کا کسی کو شریک ٹھہرانا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، آپ ﷺ اس وقت تک ٹیک لگائے ہوئے تھے لیکن اب آپ ﷺ سیدھے بیٹھ گئے اور فرمایا، ہاں اور جھوٹی گواہی بھی۔ انہوں نے بیان کیا کہ آپ ﷺ نے اس جملے کو اتنی مرتبہ دہرایا کہ ہم کہنے لگے کاش ! آپ ﷺ خاموش ہوجاتے۔ اسماعیل بن ابراہیم نے بیان کیا، ان سے جریری نے بیان کیا، اور ان سے عبدالرحمٰن نے بیان کیا۔
باب: اندھے آدمی کی گواہی اور اس کے معاملہ کا بیان اور اس کا اپنا نکاح کرنا یا کسی اور کا نکاح کروانا یا اس کی خرید و فروخت۔
ہم سے محمد بن عبید بن میمون نے بیان کیا، کہا ہم کو عیسیٰ بن یونس نے خبر دی، انہیں ہشام نے، انہیں ان کے باپ نے، اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے ایک شخص کو مسجد میں قرآن پڑھتے سنا تو فرمایا کہ ان پر اللہ تعالیٰ رحم فرمائے مجھے انہوں نے اس وقت فلاں اور فلاں آیتیں یاد دلا دیں جنہیں میں فلاں فلاں سورتوں میں سے بھول گیا تھا۔ عباد بن عبداللہ (رض) نے اپنی روایت میں عائشہ (رض) سے یہ الفاظ زیادہ بیان کیے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے میرے گھر میں تہجد کی نماز پڑھی۔ اس وقت آپ ﷺ نے عباد (رض) کی آواز سنی کہ وہ مسجد میں نماز پڑھ رہے ہیں۔ آپ نے پوچھا عائشہ ! کیا یہ عباد کی آواز ہے ؟ میں نے کہا جی ہاں ! آپ نے فرمایا، اے اللہ ! عباد پر رحم فرما۔
باب: اندھے آدمی کی گواہی اور اس کے معاملہ کا بیان اور اس کا اپنا نکاح کرنا یا کسی اور کا نکاح کروانا یا اس کی خرید و فروخت۔
ہم سے مالک بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن ابی سلمہ نے بیان کیا، کہا ہم کو ابن شہاب نے خبر دی سالم بن عبداللہ سے اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بلال (رض) رات میں اذان دیتے ہیں۔ اس لیے تم لوگ سحری کھا پی سکتے ہو یہاں تک کہ (فجر کے لیے) دوسری اذان پکاری جائے۔ یا (یہ فرمایا) یہاں تک کہ عبداللہ ابن ام مکتوم (رض) کی اذان سن لو۔ عبداللہ ابن ام مکتوم (رض) نابینا تھے اور جب تک ان سے کہا نہ جاتا صبح ہوگئی ہے، وہ اذان نہیں دیتے تھے۔
باب: اندھے آدمی کی گواہی اور اس کے معاملہ کا بیان اور اس کا اپنا نکاح کرنا یا کسی اور کا نکاح کروانا یا اس کی خرید و فروخت۔
ہم سے زیاد بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے حاتم بن وردان نے بیان کیا، کہا ہم سے ایوب نے بیان کیا، عبداللہ بن ابی ملیکہ سے اور ان سے مسور بن مخرمہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کے ہاں چند ق بائیں آئیں تو مجھ سے میرے باپ مخرمہ (رض) نے کہا کہ میرے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں چلو۔ ممکن ہے آپ ﷺ ان میں سے کوئی مجھے بھی عنایت فرمائیں۔ میرے والد (نبی کریم ﷺ کے گھر پہنچ کر) دروازے پر کھڑے ہوگئے اور باتیں کرنے لگے۔ آپ ﷺ نے ان کی آواز پہچان لی اور باہر تشریف لائے، آپ ﷺ کے پاس ایک قباء بھی تھی، آپ ﷺ اس کی خوبیاں بیان کرنے لگے، اور فرمایا میں نے یہ تمہارے ہی لیے الگ کر رکھی تھی، میں نے یہ تمہارے ہی لیے الگ کر رکھی تھی۔
باب: عورتوں کی گواہی کا بیان۔
ہم سے ابن ابی مریم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو محمد بن جعفر نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھے زید نے خبر دی، انہیں عیاض بن عبداللہ نے اور انہیں ابو سعید خدری (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کیا عورت کی گواہی مرد کی گواہی کے آدھے کے برابر نہیں ہے ؟ ہم نے عرض کیا کیوں نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا یہی تو ان کی عقل کا نقصان ہے۔
باب: باندیوں اور غلاموں کی گواہی کا بیان۔
ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن جریج نے، وہ ابن بی ملیکہ سے، ان سے عقبہ بن حارث (رض) نے (دوسری سند) امام بخاری (رح) نے کہا اور ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے بیان کیا کہ میں نے ابن ابی ملیکہ سے سنا، کہا کہ مجھ سے عقبہ بن حارث (رض) نے بیان کیا، یا (یہ کہا کہ) میں نے یہ حدیث ان سے سنی کہ انہوں نے ام یحییٰ بنت ابی اہاب سے شادی کی تھی۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر ایک سیاہ رنگ والی باندی آئی اور کہنے لگی کہ میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے۔ میں نے اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا، تو آپ ﷺ نے میری طرف سے منہ پھیرلیا پس میں جدا ہوگیا۔ میں نے پھر آپ ﷺ کے سامنے جا کر اس کا ذکر کیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا، اب (نکاح) کیسے (باقی رہ سکتا ہے) جبکہ تمہیں اس عورت نے بتادیا ہے کہ اس نے تم دونوں کو دودھ پلایا تھا۔ چناچہ آپ ﷺ نے انہیں ام یحییٰ کو اپنے ساتھ رکھنے سے منع فرما دیا۔
باب: دودھ کی ماں کی گواہی کا بیان۔
ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا عمر بن سعید سے، وہ ابن ابی ملیکہ سے، ان سے عقبہ بن حارث (رض) نے بیان کیا کہ میں نے ایک عورت سے شادی کی تھی۔ پھر ایک عورت آئی اور کہنے لگی کہ میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا تھا۔ اس لیے میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ ﷺ نے فرمایا جب تمہیں بتادیا گیا (کہ ایک ہی عورت تم دونوں کی دودھ کی ماں ہے) تو پھر اب اور کیا صورت ہوسکتی ہے اپنی بیوی کو اپنے سے جدا کر دے۔ یا اسی طرح کے الفاظ آپ ﷺ نے فرمائے۔
باب: عورتوں کا آپس میں ایک دوسرے کی اچھی عادتوں کے بارے میں گواہی دینا۔
ہم سے ابوربیع، سلیمان بن داؤد نے بیان کیا، امام بخاری (رح) نے کہا کہ اس حدیث کے بعض مطالب مجھ کو امام احمد بن یونس نے سمجھائے، کہا ہم سے فلیح بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب زہری نے بیان کیا، ان سے عروہ بن زبیر، سعید بن مسیب، علقمہ بن وقاص لیثی اور عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے اور ان سے نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ عائشہ (رض) نے وہ قصہ بیان کیا جب تہمت لگانے والوں نے ان پر پر تہمت لگائی لیکن اللہ تعالیٰ نے خود انہیں اس سے بری قرار دیا۔ زہری نے بیان کیا (کہ زہری سے بیان کرنے والے، جن کا سند میں زہری کے بعد ذکر ہے) تمام راویوں نے عائشہ (رض) کی اس حدیث کا ایک ایک حصہ بیان کیا تھا، بعض راویوں کو بعض دوسرے راویوں سے حدیث زیادہ یاد تھی اور وہ بیان بھی زیادہ بہتر طریقہ پر کرسکتے تھے۔ بہرحال ان سب راویوں سے میں نے یہ حدیث پوری طرح محفوظ کرلی تھی جسے وہ عائشہ (رض) سے بیان کرتے تھے۔ ان راویوں میں ہر ایک کی روایت سے دوسرے راوی کی تصدیق ہوتی تھی۔ ان کا بیان تھا کہ عائشہ (رض) نے کہا رسول اللہ ﷺ جب سفر میں جانے کا ارادہ کرتے تو اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ ڈالتے۔ جس کے نام کا قرعہ نکلتا، سفر میں وہی آپ ﷺ کے ساتھ جاتی۔ چناچہ ایک غزوہ کے موقع پر، جس میں آپ ﷺ بھی شرکت کر رہے تھے، آپ ﷺ نے قرعہ ڈلوایا اور میرا نام نکلا۔ اب میں آپ ﷺ کے ساتھ تھی۔ یہ واقعہ پردے کی آیت کے نازل ہونے کے بعد کا ہے۔ خیر میں ایک ہودج میں سوار رہتی تھی، اسی میں بیٹھے بیٹھے مجھ کو اتارا جاتا تھا۔ اس طرح ہم چلتے رہے۔ پھر جب رسول اللہ ﷺ جہاد سے فارغ ہو کر واپس ہوئے اور ہم مدینہ کے قریب پہنچ گئے تو ایک رات آپ نے کوچ کا حکم دیا۔ میں یہ حکم سنتے ہی اٹھی اور لشکر سے آگے بڑھ گئی۔ جب حاجت سے فارغ ہوئی تو کجاوے کے پاس آگئی۔ وہاں پہنچ کر جو میں نے اپنا سینہ ٹٹولا تو میرا ظفار کے کالے نگینوں کا ہار موجود نہیں تھا۔ اس لیے میں وہاں دوبارہ پہنچی (جہاں قضائے حاجت کے لیے گئی تھی) اور میں نے ہار کو تلاش کیا۔ اس تلاش میں دیر ہوگئی۔ اس عرصے میں وہ اصحاب جو مجھے سوار کراتے تھے، آئے اور میرا ہودج اٹھا کر میرے اونٹ پر رکھ دیا۔ وہ یہی سمجھے کہ میں اس میں بیٹھی ہوں۔ ان دنوں عورتیں ہلکی پھلکی ہوتی تھیں، بھاری بھر کم نہیں۔ گوشت ان میں زیادہ نہیں رہتا تھا کیونکہ بہت معمولی غذا کھاتی تھیں۔ اس لیے ان لوگوں نے جب ہودج کو اٹھایا تو انہیں اس کے بوجھ میں کوئی فرق معلوم نہیں ہوا۔ میں یوں بھی نوعمر لڑکی تھی۔ چناچہ اصحاب نے اونٹ کو ہانک دیا اور خود بھی اس کے ساتھ چلنے لگے۔ جب لشکر روانہ ہوچکا تو مجھے اپنا ہار ملا اور میں پڑاؤ کی جگہ آئی۔ لیکن وہاں کوئی آدمی موجود نہ تھا۔ اس لیے میں اس جگہ گئی جہاں پہلے میرا قیام تھا۔ میرا خیال تھا کہ جب وہ لوگ مجھے نہیں پائیں گے تو یہیں لوٹ کے آئیں گے۔ (اپنی جگہ پہنچ کر) میں یوں ہی بیٹھی ہوئی تھی کہ میری آنکھ لگ گئی اور میں سو گئی۔ صفوان بن معطل (رض) جو پہلے سلمی تھے پھر ذکوانی ہوگئے لشکر کے پیچھے تھے (جو لشکریوں کی گری پڑی چیزوں کو اٹھا کر انہیں اس کے مالک تک پہنچانے کی خدمت کے لیے مقرر تھے) وہ میری طرف سے گزرے تو ایک سوئے ہوئے انسان کا سایہ نظر پڑا اس لیے اور قریب پہنچے۔ پردہ کے حکم سے پہلے وہ مجھے دیکھ چکے تھے۔ ان کے إنا لله پڑھنے سے میں بیدار ہوگئی۔ آخر انہوں نے اپنا اونٹ بٹھایا اور اس کے اگلے پاؤں کو موڑ دیا (تاکہ بلا کسی مدد کے میں خود سوار ہو سکوں) چناچہ میں سوار ہوگئی، اب وہ اونٹ پر مجھے بٹھائے ہوئے خود اس کے آگے آگے چلنے لگے۔ اسی طرح ہم جب لشکر کے قریب پہنچے تو لوگ بھری دوپہر میں آرام کے لیے پڑاؤ ڈال چکے تھے۔ (اتنی ہی بات تھی جس کی بنیاد پر) جسے ہلاک ہونا تھا وہ ہلاک ہوا اور تہمت کے معاملے میں پیش پیش عبداللہ بن ابی ابن سلول (منافق) تھا۔ پھر ہم مدینہ میں آگئے اور میں ایک مہینے تک بیمار رہی۔ تہمت لگانے والوں کی باتوں کا خوب چرچا ہو رہا تھا۔ اپنی اس بیماری کے دوران مجھے اس سے بھی بڑا شبہ ہوتا تھا کہ ان دنوں رسول اللہ ﷺ کا وہ لطف و کرم بھی میں نہیں دیکھتی تھی جن کا مشاہدہ اپنی پچھلی بیماریوں میں کرچکی تھی۔ پس آپ ﷺ گھر میں جب آتے تو سلام کرتے اور صرف اتنا دریافت فرما لیتے، مزاج کیسا ہے ؟ جو باتیں تہمت لگانے والے پھیلا رہے تھے ان میں سے کوئی بات مجھے معلوم نہیں تھی۔ جب میری صحت کچھ ٹھیک ہوئی تو (ایک رات) میں ام مسطح کے ساتھ مناصع کی طرف گئی۔ یہ ہماری قضائے حاجت کی جگہ تھی، ہم یہاں صرف رات ہی میں آتے تھے۔ یہ اس زمانہ کی بات ہے جب ابھی ہمارے گھروں کے قریب بیت الخلاء نہیں بنے تھے۔ میدان میں جانے کے سلسلے میں (قضائے حاجت کے لیے) ہمارا طرز عمل قدیم عرب کی طرح تھا، میں اور ام مسطح بنت ابی رہم چل رہی تھی کہ وہ اپنی چادر میں الجھ کر گرپڑیں اور ان کی زبان سے نکل گیا، مسطح برباد ہو۔ میں نے کہا، بری بات آپ نے اپنی زبان سے نکالی، ایسے شخص کو برا کہہ رہی ہیں آپ، جو بدر کی لڑائی میں شریک تھا، وہ کہنے لگیں، اے بھولی بھالی ! جو کچھ ان سب نے کہا ہے وہ آپ نے نہیں سنا، پھر انہوں نے تہمت لگانے والوں کی ساری باتیں سنائیں اور ان باتوں کو سن کر میری بیماری اور بڑھ گئی۔ میں جب اپنے گھر واپس ہوئی تو رسول اللہ ﷺ اندر تشریف لائے اور دریافت فرمایا، مزاج کیسا ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ آپ مجھے والدین کے یہاں جانے کی اجازت دیجئیے۔ اس وقت میرا ارادہ یہ تھا کہ ان سے اس خبر کی تحقیق کروں گی۔ آپ ﷺ نے مجھے جانے کی اجازت دے دی اور میں جب گھر آئی تو میں نے اپنی والدہ (ام رومان) سے ان باتوں کے متعلق پوچھا، جو لوگوں میں پھیلی ہوئی تھیں۔ انہوں نے فرمایا، بیٹی ! اس طرح کی باتوں کی پرواہ نہ کر، اللہ کی قسم ! شاید ہی ایسا ہو کہ تجھ جیسی حسین و خوبصورت عورت کسی مرد کے گھر میں ہو اور اس کی سوکنیں بھی ہوں، پھر بھی اس طرح کی باتیں نہ پھیلائی جایا کریں۔ میں نے کہا سبحان اللہ ! (سوکنوں کا کیا ذکر) وہ تو دوسرے لوگ اس طرح کی باتیں کر رہے ہیں۔ انہوں نے بیان کیا کہ وہ رات میں نے وہیں گزاری، صبح تک میرے آنسو نہیں تھمتے تھے اور نہ نیند آئی۔ صبح ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیوی کو جدا کرنے کے سلسلے میں مشورہ کرنے کے لیے علی ابن ابی طالب اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہم کو بلوایا۔ کیونکہ وحی (اس سلسلے میں) اب تک نہیں آئی تھی۔ اسامہ (رض) کو آپ کی بیویوں سے آپ کی محبت کا علم تھا۔ اس لیے اسی کے مطابق مشورہ دیا اور کہا، آپ کی بیوی، یا رسول اللہ ! واللہ، ہم ان کے متعلق خیر کے سوا اور کچھ نہیں جانتے۔ علی (رض) نے کہا یا رسول اللہ ! اللہ تعالیٰ نے آپ پر کوئی تنگی نہیں کی ہے، عورتیں ان کے سوا بھی بہت ہیں، باندی سے بھی آپ دریافت فرما لیجئے، وہ سچی بات بیان کریں گی۔ چناچہ رسول اللہ ﷺ نے بریرہ (رض) کو بلایا (جو عائشہ (رض) کی خاص خادمہ تھی) اور دریافت فرمایا، بریرہ ! کیا تم نے عائشہ میں کوئی ایسی چیز دیکھی ہے جس سے تمہیں شبہ ہوا ہو۔ بریرہ (رض) نے عرض کیا، نہیں، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے۔ میں نے ان میں کوئی ایسی چیز نہیں دیکھی جس کا عیب میں ان پر لگا سکوں۔ اتنی بات ضرور ہے کہ وہ نوعمر لڑکی ہیں۔ آٹا گوندھ کر سو جاتی ہیں پھر بکری آتی ہے اور کھا لیتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اسی دن (منبر پر) کھڑے ہو کر عبداللہ بن ابی ابن سلول کے بارے میں مدد چاہی۔ آپ ﷺ نے فرمایا، ایک ایسے شخص کے بارے میں میری کون مدد کرے گا جس کی اذیت اور تکلیف دہی کا سلسلہ اب میری بیوی کے معاملے تک پہنچ چکا ہے۔ اللہ کی قسم، اپنی بیوی کے بارے میں خیر کے سوا اور کوئی چیز مجھے معلوم نہیں۔ پھر نام بھی اس معاملے میں انہوں نے ایک ایسے آدمی کا لیا ہے جس کے متعلق بھی میں خیر کے سوا اور کچھ نہیں جانتا۔ خود میرے گھر میں جب بھی وہ آئے ہیں تو میرے ساتھ ہی آئے۔ (یہ سن کر) سعد بن معاذ (رض) کھڑے ہوئے اور عرض کیا، یا رسول اللہ ! واللہ میں آپ کی مدد کروں گا۔ اگر وہ شخص (جس کے متعلق تہمت لگانے کا آپ نے ارشاد فرمایا ہے) اوس قبیلہ سے ہوگا تو ہم اس کی گردن مار دیں گے (کیونکہ سعد (رض) خود قبیلہ اوس کے سردار تھے) اور اگر وہ خزرج کا آدمی ہوا، تو آپ ہمیں حکم دیں، جو بھی آپ کا حکم ہوگا ہم تعمیل کریں گے۔ اس کے بعد سعد بن عبادہ (رض) کھڑے ہوئے جو قبیلہ خزرج کے سردار تھے۔ حالانکہ اس سے پہلے اب تک بہت صالح تھے۔ لیکن اس وقت (سعد بن معاذ (رض) کی بات پر) حمیت سے غصہ ہوگئے تھے اور (سعد بن معاذ (رض) سے) کہنے لگے رب کے دوام و بقا کی قسم ! تم جھوٹ بولتے ہو، نہ تم اسے قتل کرسکتے ہو اور نہ تمہارے اندر اس کی طاقت ہے۔ پھر اسید بن حضیر (رض) کھڑے ہوئے (سعد بن معاذ (رض) کے چچازاد بھائی) اور کہا، اللہ کی قسم ! ہم اسے قتل کردیں گے (اگر رسول اللہ ﷺ کا حکم ہوا) کوئی شبہ نہیں رہ جاتا کہ تم بھی منافق ہو۔ کیونکہ منافقوں کی طرفداری کر رہے ہو۔ اس پر اوس و خزرج دونوں قبیلوں کے لوگ اٹھ کھڑے ہوئے اور آگے بڑھنے ہی والے تھے کہ رسول اللہ ﷺ جو ابھی تک منبر پر تشریف رکھتے تھے۔ منبر سے اترے اور لوگوں کو نرم کیا۔ اب سب لوگ خاموش ہوگئے اور آپ بھی خاموش ہوگئے۔ میں اس دن بھی روتی رہی۔ نہ میرے آنسو تھمتے تھے اور نہ نیند آتی تھی پھر میرے پاس میرے ماں باپ آئے۔ میں ایک رات اور ایک دن سے برابر روتی رہی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ روتے روتے میرے دل کے ٹکڑے ہوجائیں گے۔ انہوں نے بیان کیا کہ ماں باپ میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک انصاری عورت نے اجازت چاہی اور میں نے انہیں اندر آنے کی اجازت دے دی اور وہ میرے ساتھ بیٹھ کر رونے لگیں۔ ہم سب اسی طرح تھے کہ رسول اللہ ﷺ اندر تشریف لائے اور بیٹھ گئے۔ جس دن سے میرے متعلق وہ باتیں کہی جا رہی تھیں جو کبھی نہیں کہی گئیں تھیں۔ اس دن سے میرے پاس آپ نہیں بیٹھے تھے۔ آپ ﷺ ایک مہینے تک انتظار کرتے رہے تھے۔ لیکن میرے معاملے میں کوئی وحی آپ ﷺ پر نازل نہیں ہوئی تھی۔ عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ پھر آپ ﷺ نے تشہد پڑھی اور فرمایا، عائشہ ! تمہارے متعلق مجھے یہ یہ باتیں معلوم ہوئیں۔ اگر تم اس معاملے میں بری ہو تو اللہ تعالیٰ بھی تمہاری برات ظاہر کر دے گا اور اگر تم نے گناہ کیا ہے تو اللہ تعالیٰ سے مغفرت چاہو اور اس کے حضور توبہ کرو کہ بندہ جب اپنے گناہ کا اقرار کر کے توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی توبہ قبول کرتا ہے۔ جونہی آپ ﷺ نے اپنی گفتگو ختم کی، میرے آنسو اس طرح خشک ہوگئے کہ اب ایک قطرہ بھی محسوس نہیں ہوتا تھا۔ میں نے اپنے باپ سے کہا کہ آپ رسول اللہ ﷺ سے میرے متعلق کہئے۔ لیکن انہوں نے کہا، قسم اللہ کی ! مجھے نہیں معلوم کہ آپ ﷺ سے مجھے کیا کہنا چاہیے۔ میں نے اپنی ماں سے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے جو کچھ فرمایا، اس کے متعلق آپ ﷺ سے آپ ہی کچھ کہئے، انہوں نے بھی یہی فرما دیا کہ قسم اللہ کی ! مجھے معلوم نہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ سے کیا کہنا چاہیے۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نوعمر لڑکی تھی۔ قرآن مجھے زیادہ یاد نہیں تھا۔ میں نے کہا اللہ گواہ ہے، مجھے معلوم ہوا کہ آپ لوگوں نے بھی لوگوں کی افواہ سنی ہیں اور آپ لوگوں کے دلوں میں وہ بات بیٹھ گئی ہے اور اس کی تصدیق بھی آپ لوگ کرچکے ہیں، اس لیے اب اگر میں کہوں کہ میں (اس بہتان سے) بری ہوں، اور اللہ خوب جانتا ہے کہ میں واقعی اس سے بری ہوں تو آپ لوگ میری اس معاملے میں تصدیق نہیں کریں گے۔ لیکن اگر میں (گناہ کو) اپنے ذمہ لے لوں، حالانکہ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ میں اس سے بری ہوں، تو آپ لوگ میری بات کی تصدیق کردیں گے۔ قسم اللہ کی ! میں اس وقت اپنی اور آپ لوگوں کی کوئی مثال یوسف (علیہ السلام) کے والد (یعقوب علیہ السلام) کے سوا نہیں پاتی کہ انہوں نے بھی فرمایا تھا فصبر جميل والله المستعان على ما تصفون صبر ہی بہتر ہے اور جو کچھ تم کہتے ہو اس معاملے میں میرا مددگار اللہ تعالیٰ ہے ۔ اس کے بعد بستر پر میں نے اپنا رخ دوسری طرف کرلیا اور مجھے امید تھی کہ خود اللہ تعالیٰ میری برات کرے گا۔ لیکن میرا یہ خیال کبھی نہ تھا کہ میرے متعلق وحی نازل ہوگی۔ میری اپنی نظر میں حیثیت اس سے بہت معمولی تھی کہ قرآن مجید میں میرے متعلق کوئی آیت نازل ہو۔ ہاں مجھے اتنی امید ضرور تھی کہ آپ ﷺ کوئی خواب دیکھیں گے جس میں اللہ تعالیٰ مجھے بری فرما دے گا۔ اللہ گواہ ہے کہ ابھی آپ ﷺ اپنی جگہ سے اٹھے بھی نہ تھے اور نہ اس وقت گھر میں موجود کوئی باہر نکلا تھا کہ آپ ﷺ پر وحی نازل ہونے لگی اور (شدت وحی سے) آپ ﷺ جس طرح پسینے پسینے ہوجایا کرتے تھے وہی کیفیت آپ ﷺ کی اب بھی تھی۔ پسینے کے قطرے موتیوں کی طرح آپ ﷺ کے جسم مبارک سے گرنے لگے۔ حالانکہ سردی کا موسم تھا۔ جب وحی کا سلسلہ ختم ہوا تو آپ ﷺ ہنس رہے تھے اور سب سے پہلا کلمہ جو آپ کی زبان مبارک سے نکلا، وہ یہ تھا اے عائشہ ! اللہ کی حمد بیان کر کہ اس نے تمہیں بری قرار دے دیا ہے۔ میری والدہ نے کہا بیٹی جا، رسول اللہ ﷺ کے سامنے جا کر کھڑی ہوجا۔ میں نے کہا، نہیں قسم اللہ کی میں آپ کے پاس جا کر کھڑی نہ ہوں گی اور میں تو صرف اللہ کی حمد و ثنا کروں گی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی تھی إن الذين جاء وا بالإفک عصبة منكم جن لوگوں نے تہمت تراشی کی ہے۔ وہ تم ہی میں سے کچھ لوگ ہیں ۔ جب اللہ تعالیٰ نے میری برات میں یہ آیت نازل فرمائی تو ابوبکر (رض) نے جو مسطح بن اثاثہ (رض) کے اخراجات قرابت کی وجہ سے خود ہی اٹھاتے تھے کہا کہ قسم اللہ کی اب میں مسطح پر کبھی کوئی چیز خرچ نہیں کروں گا کہ وہ بھی عائشہ پر تہمت لگانے میں شریک تھا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی ولا يأتل أولو الفضل منکم والسعة إلى قوله غفور رحيم تم میں سے صاحب فضل و صاحب مال لوگ قسم نہ کھائیں۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد غفور رحیم تک ۔ ابوبکر (رض) نے کہا اللہ کی قسم ! بس میری یہی خواہش ہے کہ اللہ تعالیٰ میری مغفرت کر دے۔ چناچہ مسطح (رض) کو جو آپ پہلے دیا کرتے تھے وہ پھر دینے لگے۔ رسول اللہ ﷺ نے زینب بنت جحش (رضی اللہ عنہا ام المؤمنین) سے بھی میرے متعلق پوچھا تھا۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ زینب ! تم (عائشہ (رض) کے متعلق) کیا جانتی ہو ؟ اور کیا دیکھا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا میں اپنے کان اور اپنی آنکھ کی حفاظت کرتی ہوں (کہ جو چیز میں نے دیکھی ہو یا نہ سنی ہو وہ آپ سے بیان کرنے لگوں) اللہ گواہ ہے کہ میں نے ان میں خیر کے سوا اور کچھ نہیں دیکھا۔ عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ یہی میری برابر کی تھیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں تقویٰ کی وجہ سے بچا لیا۔ ابوالربیع نے بیان کیا کہ ہم سے فلیح نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے عروہ نے، ان سے عائشہ اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم نے اسی حدیث کی طرح۔ ابوالربیع نے (دوسری سند میں) بیان کیا کہ ہم سے فلیح نے بیان کیا، ان سے ربیعہ بن ابی عبدالرحمٰن اور یحییٰ بن سعید نے اور ان سے قاسم بن محمد بن ابی بکر نے اسی حدیث کی طرح۔
باب: جب ایک مرد دوسرے مرد کو اچھا کہے تو یہ کافی ہے۔
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدالوہاب نے خبر دی، کہا کہ ہم سے خالد حذاء نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن ابی بکرہ نے اور ان سے ان کے باپ نے بیان کیا کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے دوسرے شخص کی تعریف کی، تو آپ ﷺ نے فرمایا افسوس ! تو نے اپنے ساتھی کی گردن کاٹ ڈالی۔ تو نے اپنے ساتھی کی گردن کاٹ ڈالی۔ کئی مرتبہ ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح فرمایا) پھر فرمایا کہ اگر کسی کے لیے اپنے کسی بھائی کی تعریف کرنی ضروری ہوجائے تو یوں کہے کہ میں فلاں شخص کو ایسا سمجھتا ہوں، آگے اللہ خوب جانتا ہے، میں اللہ کے سامنے کسی کو بےعیب نہیں کہہ سکتا۔ میں سمجھتا ہوں وہ ایسا ایسا ہے اگر اس کا حال جانتا ہو۔
باب: کسی کی تعریف میں مبالغہ کرنا مکروہ ہے جو جانتا ہو بس وہی کہے۔
ہم سے محمد بن صباح نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے اسماعیل بن زکریا نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے برید بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے ابوموسیٰ اشعری (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے سنا کہ ایک شخص دوسرے کی تعریف کر رہا تھا اور مبالغہ سے کام لے رہا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم لوگوں نے اس شخص کو ہلاک کردیا۔ اس کی پشت توڑ دی۔
باب: بچوں کا بالغ ہونا اور ان کی شہادت کا بیان۔
ہم سے عبداللہ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبیداللہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے نافع نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ احد کی لڑائی کے موقع پر وہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے (جنگ پر جانے کے لیے) پیش ہوئے تو انہیں اجازت نہیں ملی، اس وقت ان کی عمر چودہ سال تھی۔ پھر غزوہ خندق کے موقع پر پیش ہوئے تو اجازت مل گئی۔ اس وقت ان کی عمر پندرہ سال تھی۔ نافع نے بیان کیا کہ جب میں عمر بن عبدالعزیز کے یہاں ان کی خلافت کے زمانے میں گیا تو میں نے ان سے یہ حدیث بیان کی تو انہوں نے فرمایا کہ چھوٹے اور بڑے کے درمیان (پندرہ سال ہی کی) حد ہے۔ پھر انہوں نے اپنے حاکموں کو لکھا کہ جس بچے کی عمر پندرہ سال کی ہوجائے (اس کا فوجی وظیفہ) بیت المال سے مقرر کردیں۔
باب: بچوں کا بالغ ہونا اور ان کی شہادت کا بیان۔
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے صفوان بن سلیم نے بیان کیا، ان سے عطاء بن یسار نے اور ان سے ابو سعید خدری (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہر بالغ پر جمعہ کے دن غسل واجب ہے۔
باب: مدعیٰ علیہ کو قسم دلانے سے پہلے حاکم کا مدعی سے یہ پوچھنا کیا تیرے پاس گواہ ہیں؟
ہم سے محمد نے بیان کیا کہا ہم کو ابومعاویہ نے خبر دی اور انہیں اعمش نے انہیں شقیق نے اور ان سے عبداللہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے کوئی ایسی قسم کھائی جس میں وہ جھوٹا تھا، کسی مسلمان کا مال چھیننے کے لیے، تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس طرح ملے گا کہ اللہ تعالیٰ اس پر غضبناک ہوگا۔ انہوں نے بیان کیا کہ اس پر اشعث بن قیس (رض) نے کہا کہ اللہ گواہ ہے، یہ حدیث میرے ہی متعلق آپ ﷺ نے فرمائی تھی۔ میرا ایک یہودی سے ایک زمین کا جھگڑا تھا۔ یہودی میرے حق کا انکار کر رہا تھا۔ اس لیے میں اسے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں لایا۔ آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا (کیونکہ میں مدعی تھا) کہ گواہی پیش کرنا تمہارے ہی ذمہ ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا گواہ تو میرے پاس کوئی بھی نہیں۔ اس لیے آپ ﷺ نے یہودی سے فرمایا پھر تم قسم کھاؤ۔ اشعث (رض) نے بیان کیا کہ میں بول پڑا، یا رسول اللہ ! پھر تو یہ قسم کھالے گا اور میرا مال ہضم کر جائے گا۔ انہوں نے بیان کیا کہ اسی واقعہ پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی إن الذين يشترون بعهد الله وأيمانهم ثمنا قليلا جو لوگ اللہ کے عہد اور قسموں سے معمولی پونجی خریدتے ہیں آخر آیت تک۔
باب: دیوانی اور فوجداری دونوں مقدموں میں مدعیٰ علیہ سے قسم لینا۔
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے نافع بن عمر نے بیان کیا، ان سے ابن ابی ملیکہ نے بیان کیا کہ ابن عباس (رض) نے لکھا تھا نبی کریم ﷺ نے مدعیٰ علیہ کے لیے قسم کھانے کا فیصلہ کیا تھا۔
باب: دیوانی اور فوجداری دونوں مقدموں میں مدعیٰ علیہ سے قسم لینا۔
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا منصور سے، ان سے ابو وائل نے بیان کیا کہ عبداللہ (رض) نے کہا کہ جو شخص (جھوٹی) قسم کسی کا مال حاصل کرنے کے لیے کھائے گا تو اللہ تعالیٰ سے وہ اس حال میں ملے گا کہ اللہ پاک اس پر غضبناک ہوگا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے (اس حدیث کی) تصدیق کے لیے یہ آیت نازل فرمائی إن الذين يشترون بعهد الله وأيمانهم جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں سے تھوڑی پونجی خریدتے ہیں۔ عذاب أليم تک۔ پھر اشعث بن قیس (رض) ہماری طرف تشریف لائے اور پوچھنے لگے کہ ابوعبدالرحمٰن (عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ) تم سے کون سی حدیث بیان کر رہے تھے۔ ہم نے ان کی یہی حدیث بیان کی تو انہوں نے کہا کہ انہوں نے صحیح بیان کی، یہ آیت میرے ہی بارے میں نازل ہوئی تھی۔ میرا ایک شخص سے جھگڑا تھا۔ ہم اپنا مقدمہ رسول اللہ ﷺ کے پاس لے گئے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ یا تم دو گواہ لاؤ، ورنہ اس کی قسم پر فیصلہ ہوگا۔ میں نے کہا کہ (گواہ میرے پاس نہیں ہیں لیکن اگر فیصلہ اس کی قسم پر ہوا) پھر تو یہ ضرور ہی قسم کھالے گا اور کوئی پروانہ کرے گا۔ نبی کریم ﷺ نے یہ سن کر فرمایا جو شخص بھی کسی کا مال لینے کے لیے (جھوٹی) قسم کھائے تو اللہ تعالیٰ سے وہ اس حال میں ملے گا کہ وہ اس پر غضبناک ہوگا۔ اس کی تصدیق میں اللہ تعالیٰ نے مذکورہ بالا آیت نازل فرمائی تھی، پھر انہوں نے یہی آیت تلاوت کی۔
باب: اگر کسی نے کوئی دعویٰ کیا یا (اپنی عورت پر) زنا کا جرم لگایا اور گواہ لانے کے لیے مہلت چاہی تو مہلت دی جائے گی۔
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابن ابی عدی نے بیان کیا، ان سے ہشام نے، ان سے عکرمہ نے بیان کیا اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ ہلال بن امیہ (رض) نے نبی کریم ﷺ کے سامنے اپنی بیوی پر شریک بن سمحاء کے ساتھ تہمت لگائی تو آپ ﷺ نے فرمایا اس پر گواہ لا ورنہ تمہاری پیٹھ پر حد لگائی جائے گی۔ انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! کیا ہم میں سے کوئی شخص اگر اپنی عورت پر کسی دوسرے کو دیکھے گا تو گواہ ڈھونڈنے دوڑے گا ؟ آپ ﷺ برابر یہی فرماتے رہے گواہ لا ورنہ تمہاری پیٹھ پر حد لگائی جائے گی۔ پھر لعان کی حدیث کا ذکر کیا۔
باب: عصر کی نماز کے بعد (جھوٹی) قسم کھانا اور زیادہ گناہ ہے۔
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن عبدالحمید نے بیان کیا اعمش سے، ان سے ابوصالح نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تین طرح کے لوگ ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سے بات بھی نہ کرے گا نہ ان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا بلکہ انہیں سخت درد ناک عذاب ہوگا۔ ایک وہ شخص جو سفر میں ضرورت سے زیادہ پانی لے جا رہا ہے اور کسی مسافر کو (جسے پانی کی ضرورت ہو) نہ دے۔ دوسرا وہ شخص جو کسی (خلیفۃ المسلمین) سے بیعت کرے اور صرف دنیا کے لیے بیعت کرے کہ جس سے اس نے بیعت کی اگر وہ اس کا مقصد پورا کر دے تو یہ بھی وفاداری سے کام لے، ورنہ اس کے ساتھ بیعت و عہد کے خلاف کرے۔ تیسرا وہ شخص جو کسی سے عصر کے بعد کسی سامان کا بھاؤ کرے اور اللہ کی قسم کھالے کہ اسے اس کا اتنا اتنا روپیہ مل رہا تھا اور خریدار اس سامان کو (اس کی قسم کی وجہ سے) لے لے۔ حالانکہ وہ جھوٹا ہے۔
باب: مدعیٰ علیہ پر جہاں قسم کھانے کا حکم دیا جائے وہیں قسم کھا لے یہ ضروری نہیں کہ کسی دوسری جگہ پر جا کر قسم کھائے۔
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالاحد نے بیان کیا اعمش سے، ان سے ابو وائل نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص قسم اس لیے کھاتا ہے تاکہ اس کے ذریعہ کسی کا مال (ناجائز طور پر) ہضم کر جائے تو وہ اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ پاک اس پر سخت غضبناک ہوگا۔
باب: جب چند آدمی ہوں اور ہر ایک قسم کھانے میں جلدی کرے تو پہلے کس سے قسم لی جائے۔
ہم سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، انہیں معمر نے خبر دی، انہیں ہمام نے اور انہیں ابوہریرہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے چند آدمیوں سے قسم کھانے کے لیے کہا (ایک ایسے مقدمے میں جس کے یہ لوگ مدعیٰ علیہ تھے) قسم کے لیے سب ایک ساتھ آگے بڑھے۔ تو آپ ﷺ نے حکم دیا قسم کھانے کے لیے ان میں باہم قرعہ ڈالا جائے کہ پہلے کون قسم کھائے۔
باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ آل عمران میں) فرمان کہ ”جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کے ذریعہ تھوڑی قیمت حاصل کرتے ہیں“۔
مجھ سے اسحاق نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو یزید بن ہارون نے خبر دی، انہیں عوام نے خبر دی، کہا کہ مجھ سے ابراہیم ابواسماعیل سکسکی نے بیان کیا اور انہوں نے عبداللہ بن ابی اوفی (رض) کو یہ کہتے سنا کہ ایک شخص نے اپنا سامان دکھا کر اللہ کی قسم کھائی کہ اسے اس سامان کا اتنا روپیہ مل رہا تھا، حالانکہ اتنا نہیں مل رہا تھا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی إن الذين يشترون بعهد الله وأيمانهم ثمنا قليلا جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کے ذریعہ تھوڑی قیمت حاصل کرتے ہیں۔ ابن ابی اوفی (رض) نے کہا کہ گاہکوں کو پھانسنے کے لیے قیمت بڑھانے والا سود خور کی طرح خائن ہے۔
باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ آل عمران میں) فرمان کہ ”جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کے ذریعہ تھوڑی قیمت حاصل کرتے ہیں“۔
ہم سے بشر بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا شعبہ سے، ان سے سلیمان نے، ان سے ابو وائل نے اور ان سے عبداللہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص جھوٹی قسم اس لیے کھائے کہ اس کے ذریعہ کسی کا مال لے سکے، یا انہوں نے یوں بیان کیا کہ اپنے بھائی کا مال لے سکے تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ وہ اس پر غضب ناک ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے اسی کی تصدیق میں یہ آیت نازل فرمائی کہ إن الذين يشترون بعهد الله وأيمانهم ثمنا قليلا جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی (جھوٹی) قسموں کے ذریعہ معمولی پونجی حاصل کرتے ہیں۔ الخ پھر مجھ سے اشعث (رض) کی ملاقات ہوئی تو انہوں نے پوچھا کہ عبداللہ بن مسعود (رض) نے آج تم لوگوں سے کیا حدیث بیان کی تھی۔ میں نے ان سے بیان کردی تو آپ نے فرمایا کہ یہ آیت میرے ہی واقعے کے سلسلے میں نازل ہوئی تھی۔
باب: کیوں کر قسم لی جائے۔
ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ان کے چچا ابوسہیل نے، ان سے ان کے والد نے اور انہوں نے طلحہ بن عبیداللہ (رض) سے سنا، آپ نے بیان کیا کہ ایک صاحب (ضمام بن ثعلبہ) نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آئے اور اسلام کے متعلق پوچھنے لگے۔ آپ ﷺ نے فرمایا دن اور رات میں پانچ نمازیں ادا کرنا۔ اس نے پوچھا کیا اس کے علاوہ بھی مجھ پر کچھ نماز اور ضروری ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں یہ دوسری بات ہے کہ تم نفل پڑھو۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اور رمضان کے روزے ہیں۔ اس نے پوچھا کیا اس کے علاوہ بھی مجھ پر کچھ (روزے) واجب ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں سوا اس کے جو تم اپنے طور پر نفل رکھو۔ طلحہ (رض) نے بیان کیا کہ ان کے سامنے رسول اللہ ﷺ نے زکوٰۃ کا بھی ذکر کیا تو انہوں نے پوچھا، کیا (جو فرض زکوٰۃ آپ نے بتائی ہے) اس کے علاوہ بھی مجھ پر کوئی خیرات واجب ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں، سوا اس کے جو تم خود اپنی طرف سے نفل دو ۔ اس کے بعد وہ صاحب یہ کہتے ہوئے جانے لگے کہ اللہ گواہ ہے نہ میں ان میں کوئی زیادتی کروں گا اور نہ کوئی کمی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر اس نے سچ کہا ہے تو کامیاب ہوا۔
باب: کیوں کر قسم لی جائے۔
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے جویریہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ نافع نے عبداللہ بن عمر (رض) سے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اگر کسی کو قسم کھانی ہی ہے تو اللہ تعالیٰ ہی کی قسم کھائے، ورنہ خاموش رہے۔
باب: جس مدعی نے (مدعیٰ علیہ کی) قسم کھا لینے کے بعد گواہ پیش کیے۔
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا امام مالک سے، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے باپ نے، ان سے زینب نے اور ان سے ام سلمہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم لوگ میرے یہاں اپنے مقدمات لاتے ہو اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک تم میں دوسرے سے دلیل بیان کرنے میں بڑھ کر ہوتا ہے (قوت بیانیہ بڑھ کر رکھتا ہے) پھر میں اس کو اگر اس کے بھائی کا حق (غلطی سے) دلا دوں، تو وہ حلال (نہ سمجھے) اس کو نہ لے، میں اس کو دوزخ کا ایک ٹکڑا دلا رہا ہوں۔
باب: جس نے وعدہ پورا کرنے کا حکم دیا۔
ہم سے ابرہیم بن حمزہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے صالح بن کیسان نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ نے کہ عبداللہ بن عباس (رض) نے انہیں خبر دی، انہوں نے بیان کیا کہ انہیں ابوسفیان (رض) نے خبر دی کہ ہرقل نے ان سے کہا تھا کہ میں نے تم سے پوچھا تھا کہ وہ (محمد ﷺ ) تمہیں کس بات کا حکم دیتے ہیں تو تم نے بتایا کہ وہ تمہیں نماز، سچائی، عفت، عہد کے پورا کرنے اور امانت کے ادا کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ اور یہ نبی کی صفات ہیں۔
باب: جس نے وعدہ پورا کرنے کا حکم دیا۔
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا، ان سے ابوسہیل، نافع بن مالک بن ابی عامر نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا منافق کی تین نشانیاں ہیں۔ جب بات کہی تو جھوٹ کہی، امانت دی گئی تو اس نے اس میں خیانت کی اور وعدہ کیا تو اسے پورا نہیں کیا۔
باب: جس نے وعدہ پورا کرنے کا حکم دیا۔
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہمیں ہشام نے خبر دی، ان سے ابن جریج نے بیان کیا، انہیں عمرو بن دینار نے خبر دی، انہیں محمد بن علی نے اور ان سے جابر بن عبداللہ (رض) نے بیان کیا، کہا نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد ابوبکر (رض) کے پاس (بحرین کے عامل) علاء بن حضرمی (رض) کی طرف سے مال آیا۔ ابوبکر (رض) نے اعلان کرا دیا کہ جس کسی کا بھی نبی کریم ﷺ پر کوئی قرض ہو، یا آپ ﷺ کا اس سے وعدہ ہو تو وہ ہمارے پاس آئے۔ جابر (رض) نے بیان کیا کہ اس پر میں نے ان سے کہا کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے وعدہ فرمایا تھا کہ آپ ﷺ اتنا مال مجھے عطا فرمائیں گے۔ چناچہ ابوبکر (رض) نے تین مرتبہ اپنے ہاتھ بڑھائے اور میرے ہاتھ پر پانچ سو، پھر پانچ سو اور پھر پانچ سو گن دئیے۔
باب: جس نے وعدہ پورا کرنے کا حکم دیا۔
ہم سے محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا، کہا ہم کو سعید بن سلیمان نے خبر دی، ان سے مروان بن شجاع نے بیان کیا، ان سے سالم افطس نے اور ان سے سعید بن جبیر نے بیان کیا کہ حیرہ کے یہودی نے مجھ سے پوچھا، موسیٰ (علیہ السلام) نے (اپنے مہر کے ادا کرنے میں) کون سی مدت پوری کی تھی ؟ (یعنی آٹھ سال کی یا دس سال کی، جن کا قرآن میں ذکر ہے) میں نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں، ہاں ! عرب کے بڑے عالم کی خدمت میں حاضر ہو کر پوچھ لوں (تو پھر تمہیں بتادوں گا) چناچہ میں نے ابن عباس (رض) سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ آپ نے بڑی مدت پوری کی (دس سال کی) جو دونوں مدتوں میں بہتر تھی۔ رسول اللہ ﷺ بھی جب کسی سے وعدہ کرتے تو پورا کرتے تھے۔
باب: مشرکوں کی گواہی قبول نہ ہو گی۔
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، یونس سے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے کہ ابن عباس (رض) نے کہا، اے مسلمانو ! اہل کتاب سے کیوں سوالات کرتے ہو۔ حالانکہ تمہاری کتاب جو تمہارے نبی ﷺ پر نازل ہوئی ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے سب سے بعد میں نازل ہوئی ہے۔ تم اسے پڑھتے ہو اور اس میں کسی قسم کی آمیزش بھی نہیں ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ تو تمہیں پہلے ہی بتاچکا ہے کہ اہل کتاب نے اس کتاب کو بدل دیا، جو اللہ تعالیٰ نے انہیں دی تھی اور خود ہی اس میں تغیر کردیا اور پھر کہنے لگے یہ کتاب اللہ کی طرف سے ہے۔ ان کا مقصد اس سے صرف یہ تھا کہ اس طرح تھوڑی پونجی (دنیا کی) حاصل کرسکیں پس کیا جو علم (قرآن) تمہارے پاس آیا ہے وہ تم کو ان (اہل کتاب سے پوچھنے کو نہیں روکتا۔ اللہ کی قسم ! ہم نے ان کے کسی آدمی کو کبھی نہیں دیکھا کہ وہ ان آیات کے متعلق تم سے پوچھتا ہو جو تم پر (تمہارے نبی کے ذریعہ) نازل کی گئی ہیں۔
باب: مشکلات کے وقت قرعہ اندازی کرنا۔
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے، کہا کہ ہم سے شعبی نے بیان کیا، انہوں نے نعمان بن بشیر (رض) سے سنا، وہ کہتے تھے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اللہ کی حدود میں سستی برتنے والے اور اس میں مبتلا ہوجانے والے کی مثال ایک ایسی قوم کی سی ہے جس نے ایک کشتی (پر سفر کرنے کے لیے جگہ کے بارے میں) قرعہ اندازی کی۔ پھر نتیجے میں کچھ لوگ نیچے سوار ہوئے اور کچھ اوپر۔ نیچے کے لوگ پانی لے کر اوپر کی منزل سے گزرتے تھے اور اس سے اوپر والوں کو تکلیف ہوتی تھی۔ اس خیال سے نیچے والا ایک آدمی کلہاڑی سے کشتی کا نیچے کا حصہ کاٹنے لگا (تاکہ نیچے ہی سمندر سے پانی لے لیا کرے) اب اوپر والے آئے اور کہنے لگے کہ یہ کیا کر رہے ہو ؟ اس نے کہا کہ تم لوگوں کو (میرے اوپر آنے جانے سے) تکلیف ہوتی تھی اور میرے لیے بھی پانی ضروری تھا۔ اب اگر انہوں نے نیچے والے کا ہاتھ پکڑ لیا تو انہیں بھی نجات دی اور خود بھی نجات پائی۔ لیکن اگر اسے یوں ہی چھوڑ دیا تو انہیں بھی ہلاک کیا اور خود بھی ہلاک ہوگئے۔
باب: مشکلات کے وقت قرعہ اندازی کرنا۔
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی زہری سے، ان سے خارجہ بن زید انصاری نے بیان کیا کہ ان کی رشتہ دار ایک عورت ام علاء نامی نے جنہوں نے رسول اللہ ﷺ سے بیعت بھی کی تھی، انہیں خبر دی کہ انصار نے مہاجرین کو اپنے یہاں ٹھہرانے کے لیے قرعے ڈالے تو عثمان بن مظعون (رض) کا قیام ہمارے حصے میں آیا۔ ام علاء (رض) نے کہا کہ پھر عثمان بن مظعون (رض) ہمارے گھر ٹھہرے اور کچھ مدت بعد وہ بیمار پڑگئے۔ ہم نے ان کی تیمارداری کی مگر کچھ دن بعد ان کی وفات ہوگئی۔ جب ہم انہیں کفن دے چکے تو رسول اللہ ﷺ تشریف لائے۔ میں نے کہا، ابوالسائب ! (عثمان (رض) کی کنیت) تم پر اللہ کی رحمتیں نازل ہوں، میری گواہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے یہاں تمہاری ضرور عزت اور بڑائی کی ہوگی۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا یہ بات تمہیں کیسے معلوم ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی عزت اور بڑائی کی ہوگی۔ میں نے عرض کیا، میرے ماں اور باپ آپ پر فدا ہوں، مجھے یہ بات کسی ذریعہ سے معلوم نہیں ہوئی ہے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا، عثمان کا جہاں تک معاملہ ہے، تو اللہ گواہ ہے کہ ان کی وفات ہوچکی اور میں ان کے بارے میں اللہ سے خیر ہی کی امید رکھتا ہوں، لیکن اللہ کی قسم ! اللہ کے رسول ہونے کے باوجود مجھے بھی یہ علم نہیں کہ ان کے ساتھ کیا معاملہ ہوگا۔ ام علاء (رض) کہنے لگیں، اللہ کی قسم ! اب اس کے بعد میں کسی شخص کی پاکی کبھی بیان نہیں کروں گی۔ اس سے مجھے رنج بھی ہوا (کہ آپ ﷺ کے سامنے میں نے ایک ایسی بات کہی جس کا مجھے حقیقی علم نہیں تھا) انہوں نے کہا (ایک دن) میں سو رہی تھی، میں نے خواب میں عثمان (رض) کے لیے ایک بہتا ہوا چشمہ دیکھا۔ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی آپ ﷺ سے خواب بیان کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ ان کا عمل (نیک) تھا۔
باب: مشکلات کے وقت قرعہ اندازی کرنا۔
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی، انہیں یونس نے خبر دی زہری سے، انہیں عروہ نے خبر دی اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ جب سفر کا ارادہ فرماتے تو اپنی بیویوں میں قرعہ اندازی فرماتے اور جس کا نام نکل آتا، انہیں اپنے ساتھ لے جاتے۔ آپ ﷺ کا یہ بھی معمول تھا کہ اپنی ہر بیوی کے لیے ایک دن اور ایک رات مقرر کردی تھی۔ البتہ سودہ بنت زمعہ (رض) نے (اپنی عمر کے آخری دور میں) اپنی باری آپ ﷺ کی زوجہ عائشہ (رض) کو دے دی تھی تاکہ رسول اللہ ﷺ کی ان کو رضا حاصل ہو (اس سے بھی قرعہ اندازی ثابت ہوئی) ۔
باب: مشکلات کے وقت قرعہ اندازی کرنا۔
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ابوبکر کے غلام سمی نے بیان کیا، ان سے ابوصالح نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر لوگوں کو معلوم ہوتا کہ اذان اور صف اول میں کتنا ثواب ہے اور پھر (انہیں اس کے حاصل کرنے کے لیے) قرعہ اندازی کرنی پڑتی، تو وہ قرعہ اندازی بھی کرتے اور اگر انہیں معلوم ہوجائے کہ نماز سویرے پڑھنے میں کتنا ثواب ہے تو لوگ ایک دوسرے سے سبقت کرنے لگیں اور اگر انہیں معلوم ہوجائے کہ عشاء اور صبح کی کتنی فضیلتیں ہیں تو اگر گھٹنوں کے بل آنا پڑتا تو پھر بھی آتے۔