4. وضو کا بیان

【1】

باب: اس بارے میں کہ نماز بغیر پاکی کے قبول ہی نہیں ہوتی۔

ہم سے اسحاق بن ابراہیم الحنظلی نے بیان کیا۔ انہیں عبدالرزاق نے خبر دی، انہیں معمر نے ہمام بن منبہ کے واسطے سے بتلایا کہ انہوں نے ابوہریرہ (رض) سے سنا، وہ کہہ رہے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص حدث کرے اس کی نماز قبول نہیں ہوتی جب تک کہ وہ (دوبارہ) وضو نہ کرلے۔ حضرموت کے ایک شخص نے پوچھا کہ حدث ہونا کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ (پاخانہ کے مقام سے نکلنے والی) آواز والی یا بےآواز والی ہوا۔

【2】

باب: وضو کی فضیلت کے بیان میں (اور ان لوگوں کی فضیلت میں) جو (قیامت کے دن) وضو کے نشانات سے سفید پیشانی اور سفید ہاتھ پاؤں والے ہوں گے۔

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، ان سے لیث نے خالد کے واسطے سے نقل کیا، وہ سعید بن ابی ہلال سے نقل کرتے ہیں، وہ نعیم المجمر سے، وہ کہتے ہیں کہ میں (ایک مرتبہ) ابوہریرہ (رض) کے ساتھ مسجد کی چھت پر چڑھا۔ تو آپ نے وضو کیا اور کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا تھا کہ آپ ﷺ فرما رہے تھے کہ میری امت کے لوگ وضو کے نشانات کی وجہ سے قیامت کے دن سفید پیشانی اور سفید ہاتھ پاؤں والوں کی شکل میں بلائے جائیں گے۔ تو تم میں سے جو کوئی اپنی چمک بڑھانا چاہتا ہے تو وہ بڑھا لے (یعنی وضو اچھی طرح کرے) ۔

【3】

باب: اس بارے میں کہ جب تک وضو ٹوٹنے کا پورا یقین نہ ہو محض شک کی وجہ سے نیا وضو نہ کرے۔

ہم سے علی نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، ان سے زہری نے سعید بن المسیب کے واسطے سے نقل کیا، وہ عبادہ بن تمیم سے روایت کرتے ہیں، وہ اپنے چچا (عبداللہ بن زید) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے شکایت کی کہ ایک شخص ہے جسے یہ خیال ہوتا ہے کہ نماز میں کوئی چیز (یعنی ہوا نکلتی) معلوم ہوئی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ (نماز سے) نہ پھرے یا نہ مڑے، جب تک آواز نہ سنے یا بو نہ پائے۔

【4】

باب: اس بارے میں کہ ہلکا وضو کرنا بھی درست اور جائز ہے۔

ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے سفیان نے عمرو کے واسطے سے نقل کیا، انہیں کریب نے ابن عباس (رض) سے خبر دی کہ نبی کریم ﷺ سوئے یہاں تک کہ آپ ﷺ خراٹے لینے لگے۔ پھر آپ ﷺ نے نماز پڑھی اور کبھی (راوی نے یوں) کہا کہ آپ ﷺ لیٹ گئے۔ پھر خراٹے لینے لگے۔ پھر آپ ﷺ کھڑے ہوئے اس کے بعد نماز پڑھی۔ پھر سفیان نے ہم سے دوسری مرتبہ یہی حدیث بیان کی عمرو سے، انہوں نے کریب سے، انہوں نے ابن عباس (رض) سے نقل کیا کہ وہ کہتے تھے کہ (ایک مرتبہ) میں نے اپنی خالہ (ام المؤمنین) میمونہ (رض) کے گھر رات گزاری، تو (میں نے دیکھا کہ) رسول اللہ ﷺ رات کو اٹھے۔ جب تھوڑی رات باقی رہ گئی۔ تو آپ ﷺ نے اٹھ کر ایک لٹکے ہوئے مشکیزے سے ہلکا سا وضو کیا۔ عمرو اس کا ہلکا پن اور معمولی ہونا بیان کرتے تھے اور آپ کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے، تو میں نے بھی اسی طرح وضو کیا۔ جس طرح آپ ﷺ نے کیا تھا۔ پھر آ کر آپ کے بائیں طرف کھڑا ہوگیا اور کبھی سفیان نے عن يساره کی بجائے عن شماله کا لفظ کہا (مطلب دونوں کا ایک ہی ہے) پھر آپ ﷺ نے مجھے پھیرلیا اور اپنی داہنی جانب کرلیا۔ پھر نماز پڑھی جس قدر اللہ کو منظور تھا۔ پھر آپ لیٹ گئے اور سو گئے۔ حتیٰ کہ خراٹوں کی آواز آنے لگی۔ پھر آپ کی خدمت میں مؤذن حاضر ہوا اور اس نے آپ کو نماز کی اطلاع دی۔ آپ ﷺ اس کے ساتھ نماز کے لیے تشریف لے گئے۔ پھر آپ نے نماز پڑھی اور وضو نہیں کیا۔ (سفیان کہتے ہیں کہ) ہم نے عمرو سے کہا، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی آنکھیں سوتی تھیں، دل نہیں سوتا تھا۔ عمرو نے کہا میں نے عبید بن عمیر سے سنا، وہ کہتے تھے کہ انبیاء (علیہم السلام) کے خواب بھی وحی ہوتے ہیں۔ پھر (قرآن کی یہ) آیت پڑھی۔ میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں۔

【5】

باب: وضو پورا کرنے کے بارے میں۔

ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، ان سے امام مالک (رح) نے موسیٰ بن عقبہ کے واسطے سے بیان کیا، انہوں نے کریب مولیٰ ابن عباس سے، انہوں نے اسامہ بن زید (رض) سے سنا، وہ کہتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ میدان عرفات سے واپس ہوئے۔ جب گھاٹی میں پہنچے تو آپ ﷺ اتر گئے۔ آپ ﷺ نے (پہلے) پیشاب کیا، پھر وضو کیا اور خوب اچھی طرح نہیں کیا۔ تب میں نے کہا، یا رسول اللہ ! نماز کا وقت (آ گیا) آپ ﷺ نے فرمایا : نماز، تمہارے آگے ہے (یعنی مزدلفہ چل کر پڑھیں گے) جب مزدلفہ میں پہنچے تو آپ نے خوب اچھی طرح وضو کیا، پھر جماعت کھڑی کی گئی، آپ ﷺ نے مغرب کی نماز پڑھی، پھر ہر شخص نے اپنے اونٹ کو اپنی جگہ بٹھلایا، پھر عشاء کی جماعت کھڑی کی گئی اور آپ ﷺ نے نماز پڑھی اور ان دونوں نمازوں کے درمیان کوئی نماز نہیں پڑھی۔

【6】

باب: دونوں ہاتھوں سے چہرے کا صرف ایک چلو (پانی) سے دھونا بھی جائز ہے۔

ہم سے محمد بن عبدالرحیم نے روایت کیا، انہوں نے کہا مجھ کو ابوسلمہ الخزاعی منصور بن سلمہ نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم کو ابن بلال یعنی سلیمان نے زید بن اسلم کے واسطے سے خبر دی، انہوں نے عطاء بن یسار سے سنا، انہوں نے عبداللہ بن عباس (رض) سے نقل کیا کہ (ایک مرتبہ) انہوں نے (یعنی ابن عباس (رض) نے) وضو کیا تو اپنا چہرہ دھویا (اس طرح کہ پہلے) پانی کے ایک چلو سے کلی کی اور ناک میں پانی دیا۔ پھر پانی کا ایک اور چلو لیا، پھر اس کو اس طرح کیا (یعنی) دوسرے ہاتھ کو ملایا۔ پھر اس سے اپنا چہرہ دھویا۔ پھر پانی کا دوسرا چلو لیا اور اس سے اپنا داہنا ہاتھ دھویا۔ پھر پانی کا ایک اور چلو لے کر اس سے اپنا بایاں ہاتھ دھویا۔ اس کے بعد اپنے سر کا مسح کیا۔ پھر پانی کا چلو لے کر داہنے پاؤں پر ڈالا اور اسے دھویا۔ پھر دوسرے چلو سے اپنا پاؤں دھویا۔ یعنی بایاں پاؤں اس کے بعد کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اسی طرح وضو کرتے ہوئے دیکھا ہے۔

【7】

باب: اس بارے میں کہ ہر حال میں بسم اللہ پڑھنا یہاں تک کہ جماع کے وقت بھی ضروری ہے۔

ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے منصور کے واسطے سے روایت کیا، انہوں نے سالم ابن ابی الجعد سے نقل کیا، وہ کریب سے، وہ ابن عباس (رض) سے روایت کرتے ہیں، وہ اس حدیث کو نبی کریم ﷺ تک پہنچاتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی اپنی بیوی سے جماع کرے تو کہے بسم الله اللهم جنبنا الشيطان وجنب الشيطان ما رزقتنا‏ اللہ کے نام کے ساتھ شروع کرتا ہوں۔ اے اللہ ! ہمیں شیطان سے بچا اور شیطان کو اس چیز سے دور رکھ جو تو (اس جماع کے نتیجے میں) ہمیں عطا فرمائے۔ یہ دعا پڑھنے کے بعد (جماع کرنے سے) میاں بیوی کو جو اولاد ملے گی اسے شیطان نقصان نہیں پہنچا سکتا۔

【8】

باب: بیت الخلاء جانے کے وقت کیا دعا پڑھنی چاہیے؟

ہم سے آدم نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے عبدالعزیز بن صہیب کے واسطے سے بیان کیا، انہوں نے انس (رض) سے سنا، وہ کہتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ جب (قضائے حاجت کے لیے) بیت الخلاء میں داخل ہوتے تو یہ (دعا) پڑھتے اللهم إني أعوذ بک من الخبث والخبائث اے اللہ ! میں ناپاک جنوں اور ناپاک جنیوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔

【9】

باب: بیت الخلاء کے قریب پانی رکھنا بہتر ہے۔

ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہاشم ابن القاسم نے، کہا کہ ان سے ورقاء بن یشکری نے عبیداللہ بن ابی یزید سے نقل کیا، وہ ابن عباس (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ بیت الخلاء میں تشریف لے گئے۔ میں نے (بیت الخلاء کے قریب) آپ ﷺ کے لیے وضو کا پانی رکھ دیا۔ (باہر نکل کر) آپ ﷺ نے پوچھا یہ کس نے رکھا ؟ جب آپ ﷺ کو بتلایا گیا تو آپ نے (میرے لیے دعا کی اور) فرمایا اللهم فقهه في الدين اے اللہ ! اس کو دین کی سمجھ عطا فرمائیو۔

【10】

باب: اس مسئلہ میں کہ پیشاب اور پاخانہ کے وقت قبلہ کی طرف منہ نہیں کرنا چاہیے، لیکن جب کسی عمارت یا دیوار وغیرہ کی آڑ ہو تو کچھ حرج نہیں۔

ہم سے آدم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابن ابی ذئب نے، کہا کہ ہم سے زہری نے عطاء بن یزید اللیثی کے واسطے سے نقل کیا، وہ ابوایوب انصاری (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی بیت الخلاء میں جائے تو قبلہ کی طرف منہ کرے نہ اس کی طرف پشت کرے (بلکہ) مشرق کی طرف منہ کرلو یا مغرب کی طرف۔

【11】

باب: اس بارے میں کہ کوئی شخص دو اینٹوں پر بیٹھ کر قضائے حاجت کرے (تو کیا حکم ہے؟)۔

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو امام مالک نے یحییٰ بن سعید سے خبر دی۔ وہ محمد بن یحییٰ بن حبان سے، وہ اپنے چچا واسع بن حبان سے روایت کرتے ہیں، وہ عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت کرتے ہیں۔ وہ فرماتے تھے کہ لوگ کہتے تھے کہ جب قضاء حاجت کے لیے بیٹھو تو نہ قبلہ کی طرف منہ کرو نہ بیت المقدس کی طرف (یہ سن کر) عبداللہ بن عمر (رض) نے فرمایا کہ ایک دن میں اپنے گھر کی چھت پر چڑھا تو میں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا کہ آپ بیت المقدس کی طرف منہ کر کے دو اینٹوں پر قضاء حاجت کے لیے بیٹھے ہیں۔ پھر عبداللہ بن عمر (رض) نے (واسع سے) کہا کہ شاید تم ان لوگوں میں سے ہو جو اپنے چوتڑوں کے بل نماز پڑھتے ہیں۔ تب میں نے کہا اللہ کی قسم ! میں نہیں جانتا (کہ آپ کا مطلب کیا ہے) امام مالک (رح) نے کہا کہ عبداللہ بن عمر (رض) نے اس سے وہ شخص مراد لیا جو نماز میں زمین سے اونچا نہ رہے، سجدہ میں زمین سے چمٹ جائے۔

【12】

باب: عورتوں کا قضائے حاجت کے لیے باہر نکلنے کا کیا حکم ہے؟

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے عقیل نے ابن شہاب کے واسطے سے نقل کیا، وہ عروہ بن زبیر سے، وہ عائشہ (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی بیویاں رات میں مناصع کی طرف قضاء حاجت کے لیے جاتیں اور مناصع ایک کھلا میدان ہے۔ تو عمر (رض) رسول اللہ ﷺ سے کہا کرتے تھے کہ اپنی بیویوں کو پردہ کرائیے۔ مگر رسول اللہ ﷺ نے اس پر عمل نہیں کیا۔ ایک روز رات کو عشاء کے وقت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا، رسول اللہ ﷺ کی اہلیہ جو دراز قد عورت تھیں، (باہر) گئیں۔ عمر (رض) نے انہیں آواز دی (اور کہا) ہم نے تمہیں پہچان لیا اور ان کی خواہش یہ تھی کہ پردہ (کا حکم) نازل ہوجائے۔ چناچہ (اس کے بعد) اللہ نے پردہ (کا حکم) نازل فرما دیا۔

【13】

باب: عورتوں کا قضائے حاجت کے لیے باہر نکلنے کا کیا حکم ہے؟

ہم سے زکریا نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابواسامہ نے ہشام بن عروہ کے واسطے سے بیان کیا، وہ اپنے باپ سے، وہ عائشہ (رض) سے، وہ رسول اللہ ﷺ سے نقل کرتی ہیں کہ آپ ﷺ نے (اپنی بیویوں سے) فرمایا کہ تمہیں قضاء حاجت کے لیے باہر نکلنے کی اجازت ہے۔ ہشام کہتے ہیں کہ حاجت سے مراد پاخانے کے لیے (باہر) جانا ہے۔

【14】

باب: گھروں میں قضائے حاجت کرنا ثابت ہے۔

ہم سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے انس بن عیاض نے عبیداللہ بن عمر کے واسطے سے بیان کیا، وہ محمد بن یحییٰ بن حبان سے نقل کرتے ہیں، وہ واسع بن حبان سے، وہ عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ (ایک دن میں اپنی بہن اور رسول اللہ ﷺ کی اہلیہ محترمہ) حفصہ (رض) کے مکان کی چھت پر اپنی کسی ضرورت سے چڑھا، تو مجھے رسول اللہ ﷺ قضاء حاجت کرتے وقت قبلہ کی طرف پشت اور شام کی طرف منہ کئے ہوئے نظر آئے۔

【15】

باب: گھروں میں قضائے حاجت کرنا ثابت ہے۔

ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے یزید بن ہارون نے بیان کیا، انہوں نے کہا، ہمیں یحییٰ نے محمد بن یحییٰ بن حبان سے خبر دی، انہیں ان کے چچا واسع بن حبان نے بتلایا، انہیں عبداللہ بن عمر (رض) نے خبر دی، وہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں اپنے گھر کی چھت پر چڑھا، تو مجھے رسول اللہ ﷺ دو اینٹوں پر (قضاء حاجت کے وقت) بیت المقدس کی طرف منہ کئے ہوئے نظر آئے۔

【16】

باب: پانی سے طہارت کرنا بہتر ہے۔

ہم سے ابوالولید ہشام بن عبدالملک نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے ابومعاذ سے جن کا نام عطاء بن ابی میمونہ تھا نقل کیا، انہوں نے انس بن مالک (رض) سے سنا، وہ کہتے تھے کہ جب رسول اللہ ﷺ رفع حاجت کے لیے نکلتے تو میں اور ایک لڑکا اپنے ساتھ پانی کا برتن لے آتے تھے۔ مطلب یہ ہے کہ اس پانی سے رسول اللہ ﷺ طہارت کیا کرتے تھے۔

【17】

باب: کسی شخص کے ہمراہ اس کی طہارت کے لیے پانی لے جانا جائز ہے۔

ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، وہ عطاء بن ابی میمونہ سے نقل کرتے ہیں، انہوں نے انس (رض) سے سنا، وہ کہتے ہیں کہ جب نبی کریم ﷺ قضاء حاجت کے لیے نکلتے، میں اور ایک لڑکا دونوں آپ ﷺ کے پیچھے جاتے تھے اور ہمارے ساتھ پانی کا ایک برتن ہوتا تھا۔

【18】

باب: استنجاء کے لیے پانی کے ساتھ نیزہ (بھی) لے جانا ثابت ہے۔

ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، ان سے محمد بن جعفر نے، ان سے شعبہ نے عطاء بن ابی میمونہ کے واسطے سے بیان کیا، انہوں نے انس بن مالک سے سنا، وہ کہتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ بیت الخلاء میں جاتے تو میں اور ایک لڑکا پانی کا برتن اور نیزہ لے کر چلتے تھے۔ پانی سے آپ طہارت کرتے تھے، (دوسری سند سے) نضر اور شاذان نے اس حدیث کی شعبہ سے متابعت کی ہے۔ عنزہ لاٹھی کو کہتے ہیں جس پر پھلکا لگا ہوا ہو۔

【19】

باب: داہنے ہاتھ سے طہارت کرنے کی ممانعت ہے۔

ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ہشام دستوائی نے یحییٰ بن ابی کثیر کے واسطے سے بیان کیا، وہ عبداللہ بن ابی قتادہ سے، وہ اپنے باپ ابوقتادہ (رض) سے روایت کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، جب تم میں سے کوئی پانی پئے تو برتن میں سانس نہ لے اور جب بیت الخلاء میں جائے تو اپنی شرمگاہ کو داہنے ہاتھ سے نہ چھوئے اور نہ داہنے ہاتھ سے استنجاء کرے۔

【20】

باب: اس بارے میں کہ پیشاب کے وقت اپنے عضو کو اپنے داہنے ہاتھ سے نہ پکڑے۔

ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے اوزاعی نے یحییٰ بن کثیر کے واسطے سے بیان کیا، وہ عبداللہ بن ابی قتادہ کے واسطے سے بیان کرتے ہیں، وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں، وہ نبی کریم ﷺ سے کہ آپ ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی پیشاب کرے تو اپنا عضو اپنے داہنے ہاتھ سے نہ پکڑے، نہ داہنے ہاتھ سے طہارت کرے، نہ (پانی پیتے وقت) برتن میں سانس لے۔

【21】

باب: پتھروں سے استنجاء کرنا ثابت ہے۔

ہم سے احمد بن محمد المکی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عمرو بن یحییٰ بن سعید بن عمرو المکی نے اپنے دادا کے واسطے سے بیان کیا۔ وہ ابوہریرہ (رض) سے نقل کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ (ایک مرتبہ) رفع حاجت کے لیے تشریف لے گئے۔ آپ ﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ آپ ﷺ (چلتے وقت) ادھر ادھر نہیں دیکھا کرتے تھے۔ تو میں بھی آپ ﷺ کے پیچھے پیچھے آپ ﷺ کے قریب پہنچ گیا۔ (مجھے دیکھ کر) آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے پتھر ڈھونڈ دو ، تاکہ میں ان سے پاکی حاصل کروں، یا اسی جیسا ( کوئی لفظ) فرمایا اور فرمایا کہ ہڈی اور گوبر نہ لانا۔ چناچہ میں اپنے دامن میں پتھر (بھر کر) آپ ﷺ کے پاس لے گیا اور آپ ﷺ کے پہلو میں رکھ دئیے اور آپ ﷺ کے پاس سے ہٹ گیا، جب آپ ﷺ (قضاء حاجت سے ) فارغ ہوئے تو آپ ﷺ نے پتھروں سے استنجاء کیا۔

【22】

باب: اس بارے میں کہ گوبر سے استنجاء نہ کرے۔

ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے زہیر نے ابواسحاق کے واسطے سے نقل کیا، ابواسحاق کہتے ہیں کہ اس حدیث کو ابوعبیدہ نے ذکر نہیں کیا۔ لیکن عبدالرحمٰن بن الاسود نے اپنے باپ سے ذکر کیا، انہوں نے عبداللہ بن مسعود (رض) سے سنا، وہ کہتے تھے کہ نبی کریم ﷺ رفع حاجت کے لیے گئے۔ تو آپ ﷺ نے مجھے فرمایا کہ میں تین پتھر تلاش کر کے آپ کے پاس لاؤں۔ لیکن مجھے دو پتھر ملے۔ تیسرا ڈھونڈا مگر مل نہ سکا۔ تو میں نے خشک گوبر اٹھا لیا۔ اس کو لے کر آپ ﷺ کے پاس آگیا۔ آپ ﷺ نے پتھر (تو) لے لیے (مگر) گوبر پھینک دیا اور فرمایا یہ خود ناپاک ہے۔ (اور یہ حدیث) ابراہم بن یوسف نے اپنے باپ سے بیان کی۔ انہوں نے ابواسحاق سے سنا، ان سے عبدالرحمٰن نے بیان کیا۔

【23】

باب: وضو میں ہر عضو کو ایک ایک دفعہ دھونا بھی ثابت ہے۔

ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، ان سے سفیان نے زید بن اسلم کے واسطے سے بیان کیا، وہ عطاء بن یسار سے، وہ ابن عباس (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے وضو میں ہر عضو کو ایک ایک مرتبہ دھویا۔

【24】

باب: اس بارے میں کہ وضو میں ہر عضو دو دو بار دھونا بھی ثابت ہے۔

ہم سے حسین بن عیسیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یونس بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے فلیح بن سلیمان نے عبداللہ بن ابی بکر بن محمد بن عمرو بن حزم کے واسطے سے بیان کیا، وہ عباد بن تمیم سے نقل کرتے ہیں، وہ عبداللہ بن زید (رض) کے واسطے سے بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے وضو میں اعضاء کو دو دو بار دھویا۔

【25】

باب: وضو میں ہر عضو کو تین تین بار دھونا (سنت ہے)۔

ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ الاویسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، وہ ابن شہاب سے نقل کرتے ہیں، انہیں عطاء بن یزید نے خبر دی، انہیں حمران عثمان کے مولیٰ نے خبر دی کہ انہوں نے عثمان بن عفان (رض) کو دیکھا، انہوں نے (حمران سے) پانی کا برتن مانگا۔ (اور لے کر پہلے) اپنی ہتھیلیوں پر تین مرتبہ پانی ڈالا پھر انہیں دھویا۔ اس کے بعد اپنا داہنا ہاتھ برتن میں ڈالا۔ اور (پانی لے کر) کلی کی اور ناک صاف کی، پھر تین بار اپنا چہرہ دھویا اور کہنیوں تک تین بار دونوں ہاتھ دھوئے پھر اپنے سر کا مسح کیا پھر (پانی لے کر) ٹخنوں تک تین مرتبہ اپنے دونوں پاؤں دھوئے۔ پھر کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو شخص میری طرح ایسا وضو کرے، پھر دو رکعت پڑھے، جس میں اپنے نفس سے کوئی بات نہ کرے۔ تو اس کے گذشتہ گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔ اور روایت کی عبدالعزیز نے ابراہیم سے، انہوں نے صالح بن کیسان سے، انہوں نے ابن شہاب سے، لیکن عروہ حمران سے روایت کرتے ہیں کہ جب عثمان (رض) نے وضو کیا تو فرمایا میں تم کو ایک حدیث سناتا ہوں، اگر قرآن پاک کی ایک آیت (نازل) نہ ہوتی تو میں یہ حدیث تم کو نہ سناتا۔ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ آپ ﷺ فرماتے تھے کہ جب بھی کوئی شخص اچھی طرح وضو کرتا ہے اور (خلوص کے ساتھ) نماز پڑھتا ہے تو اس کے ایک نماز سے دوسری نماز کے پڑھنے تک کے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔ عروہ کہتے ہیں وہ آیت یہ ہے إن الذين يکتمون ما أنزلنا من البينات‏ (جس کا ترجمہ یہ ہے کہ) جو لوگ اللہ کی اس نازل کی ہوئی ہدایت کو چھپاتے ہیں جو اس نے لوگوں کے لیے اپنی کتاب میں بیان کی ہے۔ ان پر اللہ کی لعنت ہے اور (دوسرے) لعنت کرنے والوں کی لعنت ہے۔

【26】

باب: وضو میں ہر عضو کو تین تین بار دھونا (سنت ہے)۔

اور روایت کی عبدالعزیز نے ابراہیم سے، انہوں نے صالح بن کیسان سے، انہوں نے ابن شہاب سے، لیکن عروہ حمران سے روایت کرتے ہیں کہ` جب عثمان رضی اللہ عنہ نے وضو کیا تو فرمایا میں تم کو ایک حدیث سناتا ہوں، اگر قرآن پاک کی ایک آیت (نازل) نہ ہوتی تو میں یہ حدیث تم کو نہ سناتا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ جب بھی کوئی شخص اچھی طرح وضو کرتا ہے اور (خلوص کے ساتھ) نماز پڑھتا ہے تو اس کے ایک نماز سے دوسری نماز کے پڑھنے تک کے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔ عروہ کہتے ہیں وہ آیت یہ ہے إن الذين يكتمون ما أنزلنا من البينات‏ (جس کا ترجمہ یہ ہے کہ) جو لوگ اللہ کی اس نازل کی ہوئی ہدایت کو چھپاتے ہیں جو اس نے لوگوں کے لیے اپنی کتاب میں بیان کی ہے۔ ان پر اللہ کی لعنت ہے اور (دوسرے) لعنت کرنے والوں کی لعنت ہے۔

【27】

باب: وضو میں ناک صاف کرنا ضروری ہے۔

ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا انہیں یونس نے زہری کے واسطے سے خبر دی، کہا انہیں ابوادریس نے بتایا، انہوں نے ابوہریرہ (رض) سے سنا، وہ نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا جو شخص وضو کرے اسے چاہیے کہ ناک صاف کرے اور جو پتھر سے استنجاء کرے اسے چاہیے کہ طاق عدد (یعنی ایک یا تین یا پانچ ہی) سے کرے۔

【28】

باب: طاق عدد (ڈھیلوں) سے استنجاء کرنا چاہیے۔

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو مالک نے ابوالزناد کے واسطے سے خبر دی، وہ اعرج سے، وہ ابوہریرہ (رض) سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی وضو کرے تو اسے چاہیے کہ اپنی ناک میں پانی دے پھر (اسے) صاف کرے اور جو شخص پتھروں سے استنجاء کرے اسے چاہیے کہ بےجوڑ عدد (یعنی ایک یا تین) سے استنجاء کرے اور جب تم میں سے کوئی سو کر اٹھے، تو وضو کے پانی میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے اسے دھو لے۔ کیونکہ تم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ رات کو اس کا ہاتھ کہاں رہا ہے۔

【29】

باب: دونوں پاؤں دھونا چاہیے اور قدموں پر مسح نہ کرنا چاہیے۔

ہم سے موسیٰ نے بیان کیا، ان سے ابوعوانہ نے، وہ ابوبشر سے، وہ یوسف بن ماہک سے، وہ عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) رسول اللہ ﷺ ایک سفر میں ہم سے پیچھے رہ گئے۔ پھر (تھوڑی دیر بعد) آپ ﷺ نے ہم کو پا لیا اور عصر کا وقت آپہنچا تھا۔ ہم وضو کرنے لگے اور (اچھی طرح پاؤں دھونے کی بجائے جلدی میں) ہم پاؤں پر مسح کرنے لگے۔ آپ ﷺ نے فرمایا ويل للأعقاب من النار ایڑیوں کے لیے آگ کا عذاب ہے دو مرتبہ یا تین مرتبہ فرمایا۔

【30】

باب: وضو میں کلی کرنا۔

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے زہری کے واسطے سے خبر دی، کہا ہم کو عطاء بن یزید نے حمران مولیٰ عثمان بن عفان (رض) کے واسطے سے خبر دی، انہوں نے عثمان (رض) کو دیکھا کہ انہوں نے وضو کا پانی منگوایا اور اپنے دونوں ہاتھوں پر برتن سے پانی (لے کر) ڈالا۔ پھر دونوں ہاتھوں کو تین دفعہ دھویا۔ پھر اپنا داہنا ہاتھ وضو کر کے پانی میں ڈالا۔ پھر کلی کی، پھر ناک میں پانی دیا، پھر ناک صاف کی۔ پھر تین دفعہ اپنا منہ دھویا اور کہنیوں تک تین دفعہ ہاتھ دھوئے، پھر اپنے سر کا مسح کیا۔ پھر ہر ایک پاؤں تین دفعہ دھویا۔ پھر فرمایا میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ میرے اس وضو جیسا وضو فرمایا کرتے تھے اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص میرے اس وضو جیسا وضو کرے اور (حضور قلب سے) دو رکعت پڑھے جس میں اپنے دل سے باتیں نہ کرے۔ تو اللہ تعالیٰ اس کے پچھلے گناہ معاف کردیتا ہے۔

【31】

باب: ایڑیوں کے دھونے کے بیان میں۔

ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے محمد بن زیاد نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوہریرہ (رض) سے سنا وہ ہمارے پاس سے گزرے اور لوگ لوٹے سے وضو کر رہے تھے۔ آپ نے کہا اچھی طرح وضو کرو کیونکہ ابوالقاسم ﷺ نے فرمایا (خشک) ایڑیوں کے لیے آگ کا عذاب ہے۔

【32】

باب: جوتوں کے اندر پاؤں دھونا چاہیے اور جوتوں پر مسح نہ کرنا چاہیے۔

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو مالک نے سعید المقبری کے واسطے سے خبر دی، وہ عبیداللہ بن جریج سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے عبداللہ بن عمر سے کہا اے ابوعبدالرحمٰن ! میں نے تمہیں چار ایسے کام کرتے ہوئے دیکھا ہے جنھیں تمہارے ساتھیوں کو کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ وہ کہنے لگے، اے ابن جریج ! وہ کیا ہیں ؟ ابن جریج نے کہا کہ میں نے طواف کے وقت آپ کو دیکھا کہ دو یمانی رکنوں کے سوا کسی اور رکن کو آپ نہیں چھوتے ہو۔ (دوسرے) میں نے آپ کو بستی جوتے پہنے ہوئے دیکھا اور (تیسرے) میں نے دیکھا کہ آپ زرد رنگ استعمال کرتے ہو اور (چوتھی بات) میں نے یہ دیکھی کہ جب آپ مکہ میں تھے، لوگ (ذی الحجہ کا) چاند دیکھ کر لبیک پکارنے لگتے ہیں۔ (اور) حج کا احرام باندھ لیتے ہیں اور آپ آٹھویں تاریخ تک احرام نہیں باندھتے۔ عبداللہ بن عمر (رض) نے جواب دیا کہ (دوسرے) ارکان کو تو میں یوں نہیں چھوتا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یمانی رکنوں کے علاوہ کسی اور رکن کو چھوتے ہوئے نہیں دیکھا اور رہے جوتے، تو میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایسے جوتے پہنے ہوئے دیکھا کہ جن کے چمڑے پر بال نہیں تھے اور آپ انہیں کو پہنے پہنے وضو فرمایا کرتے تھے، تو میں بھی انہی کو پہننا پسند کرتا ہوں اور زرد رنگ کی بات یہ ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو زرد رنگ رنگتے ہوئے دیکھا ہے۔ تو میں بھی اسی رنگ سے رنگنا پسند کرتا ہوں اور احرام باندھنے کا معاملہ یہ ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس وقت تک احرام باندھتے ہوئے نہیں دیکھا جب تک آپ کی اونٹنی آپ کو لے کر نہ چل پڑتی۔

【33】

باب: وضو اور غسل میں داہنی جانب سے ابتداء کرنا ضروری ہے۔

ہم سے مسدد نے بیان کیا، ان سے اسماعیل نے، ان سے خالد نے حفصہ بنت سیرین کے واسطے سے نقل کیا، وہ ام عطیہ سے روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی (مرحومہ) صاحبزادی (زینب رضی اللہ عنہا) کو غسل دینے کے وقت فرمایا تھا کہ غسل داہنی طرف سے دو ، اور اعضاء وضو سے غسل کی ابتداء کرو۔

【34】

باب: وضو اور غسل میں داہنی جانب سے ابتداء کرنا ضروری ہے۔

ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، انہیں اشعث بن سلیم نے خبر دی، ان کے باپ نے مسروق سے سنا، وہ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ وہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جوتا پہننے، کنگھی کرنے، وضو کرنے اور اپنے ہر کام میں داہنی طرف سے کام کی ابتداء کرنے کو پسند فرمایا کرتے تھے۔

【35】

باب: نماز کا وقت ہو جانے پر پانی کی تلاش ضروری ہے۔

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو مالک نے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ سے خبر دی، وہ انس بن مالک (رض) سے نقل کرتے ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ نماز عصر کا وقت آگیا، لوگوں نے پانی تلاش کیا، جب انہیں پانی نہ ملا، تو رسول اللہ ﷺ کے پاس (ایک برتن میں) وضو کے لیے پانی لایا گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس میں اپنا ہاتھ ڈال دیا اور لوگوں کو حکم دیا کہ اسی (برتن) سے وضو کریں۔ انس (رض) کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا آپ کی انگلیوں کے نیچے سے پانی (چشمے کی طرح) ابل رہا تھا۔ یہاں تک کہ (قافلے کے) آخری آدمی نے بھی وضو کرلیا۔

【36】

باب: جس پانی سے آدمی کے بال دھوئے جائیں اس پانی کا استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں؟

ہم سے مالک بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے اسرائیل نے عاصم کے واسطے سے بیان کیا، وہ ابن سیرین سے نقل کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ میں نے عبیدہ (رض) سے کہا کہ ہمارے پاس رسول اللہ ﷺ کے کچھ بال (مبارک) ہیں، جو ہمیں انس (رض) سے یا انس (رض) کے گھر والوں کی طرف سے ملے ہیں۔ (یہ سن کر) عبیدہ نے کہا کہ اگر میرے پاس ان بالوں میں سے ایک بال بھی ہو تو وہ میرے لیے ساری دنیا اور اس کی ہر چیز سے زیادہ عزیز ہے۔

【37】

باب: جس پانی سے آدمی کے بال دھوئے جائیں اس پانی کا استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں؟

ہم سے محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو سعید بن سلیمان نے خبر دی انہوں نے، کہا ہم سے عباد نے ابن عون کے واسطے سے بیان کیا۔ وہ ابن سیرین سے، وہ انس بن مالک (رض) سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے (حجۃ الوداع میں) جب سر کے بال منڈوائے تو سب سے پہلے ابوطلحہ (رض) نے آپ ﷺ کے بال لیے تھے۔

【38】

باب: جب کتا برتن میں پی لے (تو کیا کرنا چاہیے)۔

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہیں امام مالک نے ابوالزناد سے خبر دی، وہ اعرج سے، وہ ابوہریرہ (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب کتا تم میں سے کسی کے برتن میں سے (کچھ) پی لے تو اس کو سات مرتبہ دھو لو (تو پاک ہوجائے گا) ۔

【39】

باب: جب کتا برتن میں پی لے (تو کیا کرنا چاہیے)۔

ہم سے اسحاق نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدالصمد نے خبر دی، کہا ہم کو عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن دینار نے بیان کیا، انہوں نے اپنے باپ سے سنا، وہ ابوصالح سے، وہ ابوہریرہ (رض) سے، وہ رسول اللہ ﷺ سے نقل کرتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایک شخص نے ایک کتے کو دیکھا، جو پیاس کی وجہ سے گیلی مٹی کھا رہا تھا۔ تو اس شخص نے اپنا موزہ لیا اور اس سے پانی بھر کر پلانے لگا، حتیٰ کہ اس کو خوب سیراب کردیا۔ اللہ نے اس شخص کے اس کام کی قدر کی اور اسے جنت میں داخل کردیا۔ احمد بن شبیب نے کہا کہ ہم سے میرے والد نے یونس کے واسطے سے بیان کیا، وہ ابن شہاب سے نقل کرتے ہیں، انہوں نے کہا مجھ سے حمزہ بن عبداللہ نے اپنے باپ (یعنی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما) کے واسطے سے بیان کیا۔ وہ کہتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں کتے مسجد میں آتے جاتے تھے لیکن لوگ ان جگہوں پر پانی نہیں چھڑکتے تھے۔

【40】

باب: جب کتا برتن میں پی لے (تو کیا کرنا چاہیے)۔

احمد بن شبیب نے کہا کہ ہم سے میرے والد نے یونس کے واسطے سے بیان کیا، وہ ابن شہاب سے نقل کرتے ہیں، انہوں نے کہا مجھ سے حمزہ بن عبداللہ نے اپنے باپ (یعنی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما) کے واسطے سے بیان کیا۔ وہ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کتے مسجد میں آتے جاتے تھے لیکن لوگ ان جگہوں پر پانی نہیں چھڑکتے تھے۔

【41】

باب: جب کتا برتن میں پی لے (تو کیا کرنا چاہیے)۔

ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے ابن ابی السفر کے واسطے سے بیان کیا، وہ شعبی سے نقل فرماتے ہیں، وہ عدی بن حاتم سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے (کتے کے شکار کے متعلق) دریافت کیا۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب تو اپنے سدھائے ہوئے کتے کو چھوڑے اور وہ شکار کرلے تو، تو اس (شکار) کو کھا اور اگر وہ کتا اس شکار میں سے خود (کچھ) کھالے تو، تو (اس کو) نہ کھائیو۔ کیونکہ اب اس نے شکار اپنے لیے پکڑا ہے۔ میں نے کہا کہ بعض دفعہ میں (شکار کے لیے) اپنے کتے چھوڑتا ہوں، پھر اس کے ساتھ دوسرے کتے کو بھی پاتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا۔ پھر مت کھا۔ کیونکہ تم نے بسم الله اپنے کتے پر پڑھی تھی۔ دوسرے کتے پر نہیں پڑھی۔

【42】

باب: اس بارے میں کہ بعض لوگوں کے نزدیک صرف پیشاب اور پاخانے کی راہ سے کچھ نکلنے سے وضو ٹوٹتا ہے۔

ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابن ابی ذئب نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سعید المقبری نے بیان کیا، وہ ابوہریرہ سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بندہ اس وقت تک نماز ہی میں رہتا ہے جب تک وہ مسجد میں نماز کا انتظار کرتا ہے۔ تاوقیت کہ وہ حدث نہ کرے۔ ایک عجمی آدمی نے پوچھا کہ اے ابوہریرہ ! حدث کیا چیز ہے ؟ انہوں نے فرمایا کہ ہوا جو پیچھے سے خارج ہو۔ (جسے عرف عام میں گوز مارنا کہتے ہیں) ۔

【43】

باب: اس بارے میں کہ بعض لوگوں کے نزدیک صرف پیشاب اور پاخانے کی راہ سے کچھ نکلنے سے وضو ٹوٹتا ہے۔

ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن عیینہ نے، وہ زہری سے، وہ عباد بن تمیم سے، وہ اپنے چچا سے، وہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ (نمازی نماز سے) اس وقت تک نہ پھرے جب تک (ریح کی) آواز نہ سن لے یا اس کی بو نہ پالے۔

【44】

باب: اس بارے میں کہ بعض لوگوں کے نزدیک صرف پیشاب اور پاخانے کی راہ سے کچھ نکلنے سے وضو ٹوٹتا ہے۔

ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے اعمش کے واسطے سے بیان کیا، وہ منذر سے، وہ ابویعلیٰ ثوری سے، وہ محمد ابن الحنفیہ سے نقل کرتے ہیں کہ علی (رض) نے فرمایا کہ میں ایسا آدمی تھا جس کو سیلان مذی کی شکایت تھی، مگر رسول اللہ ﷺ سے دریافت کرتے ہوئے مجھے شرم آئی۔ تو میں نے ابن الاسود کو حکم دیا، انہوں نے آپ ﷺ سے پوچھا، آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس میں وضو کرنا فرض ہے۔ اس روایت کو شعبہ نے بھی اعمش سے روایت کیا۔

【45】

باب: اس بارے میں کہ بعض لوگوں کے نزدیک صرف پیشاب اور پاخانے کی راہ سے کچھ نکلنے سے وضو ٹوٹتا ہے۔

ہم سے سعد بن حفص نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شیبان نے یحییٰ کے واسطے سے نقل کیا، وہ عطاء بن یسار سے نقل کرتے ہیں، انہیں زید بن خالد نے خبر دی کہ انہوں نے عثمان بن عفان (رض) سے پوچھا کہ اگر کوئی شخص صحبت کرے اور منی نہ نکلے۔ فرمایا کہ وضو کرے جس طرح نماز کے لیے وضو کرتا ہے اور اپنے عضو کو دھولے۔ عثمان (رض) کہتے ہیں کہ (یہ) میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے۔ (زید بن خالد کہتے ہیں کہ) پھر میں نے اس کے بارے میں علی، زبیر، طلحہ اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہم سے دریافت کیا۔ سب نے اس شخص کے بارے میں یہی حکم دیا۔

【46】

باب: اس بارے میں کہ بعض لوگوں کے نزدیک صرف پیشاب اور پاخانے کی راہ سے کچھ نکلنے سے وضو ٹوٹتا ہے۔

ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہمیں نضر نے خبر دی، کہا ہم کو شعبہ نے حکم کے واسطے سے بتلایا، وہ ذکوان سے، وہ ابوصالح سے، وہ ابو سعید خدری سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک انصاری کو بلایا۔ وہ آئے تو ان کے سر سے پانی ٹپک رہا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، شاید ہم نے تمہیں جلدی میں ڈال دیا۔ انہوں نے کہا، جی ہاں۔ تب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب کوئی جلدی (کا کام) آپڑے یا تمہیں انزال نہ ہو تو تم پر وضو ہے (غسل ضروری نہیں) ۔

【47】

باب: اس شخص کے بارے میں جو اپنے ساتھی کو وضو کرائے۔

ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم کو یزید بن ہارون نے یحییٰ سے خبر دی، وہ موسیٰ بن عقبہ سے، وہ کریب ابن عباس کے آزاد کردہ غلام سے، وہ اسامہ بن زید سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب عرفہ سے لوٹے، تو (پہاڑ کی) گھاٹی کی جانب مڑ گئے، اور رفع حاجت کی۔ اسامہ کہتے ہیں کہ پھر (آپ ﷺ نے وضو کیا اور) میں آپ ﷺ کے (اعضاء) پر پانی ڈالنے لگا اور آپ ﷺ وضو فرماتے رہے۔ میں نے کہا یا رسول اللہ ! آپ (اب) نماز پڑھیں گے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا نماز کا مقام تمہارے سامنے (یعنی مزدلفہ میں) ہے۔ وہاں نماز پڑھی جائے گی۔

【48】

باب: اس شخص کے بارے میں جو اپنے ساتھی کو وضو کرائے۔

ہم سے عمرو بن علی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالوہاب نے بیان کیا، انہوں نے کہا میں نے یحییٰ بن سعید سے سنا، انہوں نے کہا مجھے سعد بن ابراہیم نے نافع بن جبیر بن مطعم سے بتلایا۔ انہوں نے عروہ بن مغیرہ بن شعبہ سے سنا، وہ مغیرہ بن شعبہ (رض) سے نقل کرتے ہیں کہ وہ ایک سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے۔ (وہاں) آپ رفع حاجت کے لیے تشریف لے گئے (جب آپ واپس آئے، آپ ﷺ نے وضو شروع کیا) تو مغیرہ بن شعبہ آپ کے (اعضاء وضو) پر پانی ڈالنے لگے۔ آپ ﷺ وضو کر رہے تھے آپ نے اپنے منہ اور ہاتھوں کو دھویا، سر کا مسح کیا اور موزوں پر مسح کیا۔

【49】

باب: بےوضو ہونے کی حالت میں تلاوت قرآن کرنا وغیرہ اور جو جائز ہیں ان کا بیان۔

ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا مجھ سے امام مالک نے مخرمہ بن سلیمان کے واسطے سے نقل کیا، وہ کریب ابن عباس (رض) کے آزاد کردہ غلام سے نقل کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عباس (رض) نے انہیں خبر دی کہ انہوں نے ایک رات رسول اللہ ﷺ کی زوجہ مطہرہ اور اپنی خالہ میمونہ (رض) کے گھر میں گزاری۔ (وہ فرماتے ہیں کہ) میں تکیہ کے عرض (یعنی گوشہ) کی طرف لیٹ گیا اور رسول اللہ ﷺ اور آپ کی اہلیہ نے (معمول کے مطابق) تکیہ کی لمبائی پر (سر رکھ کر) آرام فرمایا۔ رسول اللہ ﷺ سوتے رہے اور جب آدھی رات ہوگئی یا اس سے کچھ پہلے یا اس کے کچھ بعد آپ بیدار ہوئے اور اپنے ہاتھوں سے اپنی نیند کو دور کرنے کے لیے آنکھیں ملنے لگے۔ پھر آپ نے سورة آل عمران کی آخری دس آیتیں پڑھیں، پھر ایک مشکیزہ کے پاس جو (چھت میں) لٹکا ہوا تھا آپ کھڑے ہوگئے اور اس سے وضو کیا، خوب اچھی طرح، پھر کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے۔ ابن عباس (رض) کہتے ہیں میں نے بھی کھڑے ہو کر اسی طرح کیا، جس طرح آپ ﷺ نے وضو کیا تھا۔ پھر جا کر میں بھی آپ کے پہلوئے مبارک میں کھڑا ہوگیا۔ آپ نے اپنا داہنا ہاتھ میرے سر پر رکھا اور میرا دایاں کان پکڑ کر اسے مروڑنے لگے۔ پھر آپ نے دو رکعتیں پڑھیں۔ اس کے بعد پھر دو رکعتیں پڑھیں۔ پھر دو رکعتیں پڑھیں۔ پھر دو رکعتیں، پھر دو رکعتیں، پھر دو رکعتیں پڑھ کر اس کے بعد آپ نے وتر پڑھا اور لیٹ گئے، پھر جب مؤذن آپ ﷺ کے پاس آیا، تو آپ نے اٹھ کر دو رکعت معمولی (طور پر) پڑھیں۔ پھر باہر تشریف لا کر صبح کی نماز پڑھی۔

【50】

باب: اس بارے میں کہ بعض علماء کے نزدیک صرف بیہوشی کے شدید دورہ ہی سے وضو ٹوٹتا ہے۔

ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا مجھ سے مالک نے ہشام بن عروہ کے واسطے سے نقل کیا، وہ اپنی بیوی فاطمہ سے، وہ اپنی دادی اسماء بنت ابی بکر سے روایت کرتی ہیں، وہ کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کی زوجہ محترمہ عائشہ (رض) کے پاس ایسے وقت آئی جب کہ سورج کو گہن لگ رہا تھا اور لوگ کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے تھے، کیا دیکھتی ہوں وہ بھی کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہی ہیں۔ میں نے کہا کہ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے ؟ تو انہوں نے اپنے ہاتھ سے آسمان کی طرف اشارہ کر کے کہا، سبحان اللہ ! میں نے کہا (کیا یہ) کوئی (خاص) نشانی ہے ؟ تو انہوں نے اشارے سے کہا کہ ہاں۔ تو میں بھی آپ کے ساتھ نماز کے لیے کھڑی ہوگئی۔ (آپ نے اتنا فرمایا کہ) مجھ پر غشی طاری ہونے لگی اور میں اپنے سر پر پانی ڈالنے لگی۔ جب رسول اللہ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو آپ نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا، آج کوئی چیز ایسی نہیں رہی جس کو میں نے اپنی اسی جگہ نہ دیکھ لیا ہو حتیٰ کہ جنت اور دوزخ کو بھی دیکھ لیا۔ اور مجھ پر یہ وحی کی گئی ہے کہ تم لوگوں کو قبروں میں آزمایا جائے گا۔ دجال جیسی آزمائش یا اس کے قریب قریب۔ (راوی کا بیان ہے کہ) میں نہیں جانتی کہ اسماء نے کون سا لفظ کہا۔ تم میں سے ہر ایک کے پاس (اللہ کے فرشتے) بھیجے جائیں گے اور اس سے کہا جائے گا کہ تمہارا اس شخص (یعنی محمد ﷺ ) کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ پھر اسماء نے لفظ ایماندار کہا یا یقین رکھنے والا کہا۔ مجھے یاد نہیں۔ (بہرحال وہ شخص) کہے گا کہ محمد ﷺ اللہ کے سچے رسول ہیں۔ وہ ہمارے پاس نشانیاں اور ہدایت کی روشنی لے کر آئے۔ ہم نے (اسے) قبول کیا، ایمان لائے، اور (آپ کا) اتباع کیا۔ پھر (اس سے) کہہ دیا جائے گا تو سو جا درحالی کہ تو مرد صالح ہے اور ہم جانتے تھے کہ تو مومن ہے۔ اور بہرحال منافق یا شکی آدمی، اسماء نے کون سا لفظ کہا مجھے یاد نہیں۔ (جب اس سے پوچھا جائے گا) کہے گا کہ میں (کچھ) نہیں جانتا، میں نے لوگوں کو جو کہتے سنا، وہی میں نے بھی کہہ دیا۔

【51】

باب: اس بارے میں کہ پورے سر کا مسح کرنا ضروری ہے۔

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو امام مالک نے عمرو بن یحییٰ المازنی سے خبر دی، وہ اپنے باپ سے نقل کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے عبداللہ بن زید (رض) جو عمرو بن یحییٰ کے دادا ہیں، سے پوچھا کہ کیا آپ مجھے دکھا سکتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح وضو کیا ہے ؟ عبداللہ بن زید (رض) نے کہا کہ ہاں ! پھر انہوں نے پانی کا برتن منگوایا پہلے پانی اپنے ہاتھوں پر ڈالا اور دو مرتبہ ہاتھ دھوئے۔ پھر تین مرتبہ کلی کی، تین بار ناک صاف کی، پھر تین دفعہ اپنا چہرہ دھویا۔ پھر کہنیوں تک اپنے دونوں ہاتھ دو دو مرتبہ دھوئے۔ پھر اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے سر کا مسح کیا۔ اس طور پر اپنے ہاتھ (پہلے) آگے لائے پھر پیچھے لے گئے۔ (مسح) سر کے ابتدائی حصے سے شروع کیا۔ پھر دونوں ہاتھ گدی تک لے جا کر وہیں واپس لائے جہاں سے (مسح) شروع کیا تھا، پھر اپنے پیر دھوئے۔

【52】

باب: اس بارے میں کہ ٹخنوں تک پاؤں دھونا ضروری ہے۔

ہم سے موسیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے وہیب نے بیان کیا، انہوں نے عمرو سے، انہوں نے اپنے باپ (یحییٰ ) سے خبر دی، انہوں نے کہا کہ میری موجودگی میں عمرو بن حسن نے عبداللہ بن زید (رض) سے رسول اللہ ﷺ کے وضو کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے پانی کا طشت منگوایا اور ان (پوچھنے والوں) کے لیے رسول اللہ ﷺ کا سا وضو کیا۔ (پہلے طشت سے) اپنے ہاتھوں پر پانی گرایا۔ پھر تین بار ہاتھ دھوئے، پھر اپنا ہاتھ طشت میں ڈالا (اور پانی لیا) پھر کلی کی، ناک میں پانی ڈالا، ناک صاف کی، تین چلوؤں سے، پھر اپنا ہاتھ طشت میں ڈالا اور تین مرتبہ منہ دھویا۔ پھر اپنے دونوں ہاتھ کہنیوں تک دو بار دھوئے۔ پھر اپنا ہاتھ طشت میں ڈالا اور سر کا مسح کیا۔ (پہلے) آگے لائے پھر پیچھے لے گئے، ایک بار۔ پھر ٹخنوں تک اپنے دونوں پاؤں دھوئے۔

【53】

باب: لوگوں کے وضو کا بچا ہوا پانی استعمال کرنا۔

ہم سے آدم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حکم نے بیان کیا، انہوں نے ابوحجیفہ (رض) سے سنا، وہ کہتے تھے کہ (ایک دن) رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس دوپہر کے وقت تشریف لائے تو آپ ﷺ کے لیے وضو کا پانی حاضر کیا گیا جس سے آپ ﷺ نے وضو فرمایا۔ لوگ آپ ﷺ کے وضو کا بچا ہوا پانی لے کر اسے (اپنے بدن پر) پھیرنے لگے۔ آپ ﷺ نے ظہر کی دو رکعتیں ادا کیں اور عصر کی بھی دو رکعتیں اور آپ ﷺ کے سامنے (آڑ کے لیے) ایک نیزہ تھا۔ (اور ایک دوسری حدیث میں) ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک پیالہ منگوایا۔ جس میں پانی تھا۔ اس سے آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ دھوئے اور اسی پیالہ میں منہ دھویا اور اس میں کلی فرمائی، پھر فرمایا، تو تم لوگ اس کو پی لو اور اپنے چہروں اور سینوں پر ڈال لو۔

【54】

باب: لوگوں کے وضو کا بچا ہوا پانی استعمال کرنا۔

(اور ایک دوسری حدیث میں) ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پیالہ منگوایا۔ جس میں پانی تھا۔ اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ دھوئے اور اسی پیالہ میں منہ دھویا اور اس میں کلی فرمائی، پھر فرمایا، تو تم لوگ اس کو پی لو اور اپنے چہروں اور سینوں پر ڈال لو۔

【55】

باب: لوگوں کے وضو کا بچا ہوا پانی استعمال کرنا۔

ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے یعقوب بن ابراہیم بن سعد نے، کہا ہم سے میرے باپ نے، انہوں نے صالح سے سنا۔ انہوں نے ابن شہاب سے، کہا انہیں محمود بن الربیع نے خبر دی، ابن شہاب کہتے ہیں محمود وہی ہیں کہ جب وہ چھوٹے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ہی کے کنویں (کے پانی) سے ان کے منہ میں کلی ڈالی تھی اور عروہ نے اسی حدیث کو مسور وغیرہ سے بھی روایت کیا ہے اور ہر ایک (راوی) ان دونوں میں سے ایک دوسرے کی تصدیق کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ وضو فرماتے تو آپ ﷺ کے بچے ہوئے وضو کے پانی پر صحابہ رضی اللہ عنہم جھگڑنے کے قریب ہوجاتے تھے۔

【56】

ہم سے عبدالرحمٰن بن یونس نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حاتم بن اسماعیل نے جعد کے واسطے سے بیان کیا، کہا انہوں نے سائب بن یزید سے سنا، وہ کہتے تھے کہ میری خالہ مجھے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں لے گئیں اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میرا یہ بھانجا بیمار ہے، آپ ﷺ نے میرے سر پر اپنا ہاتھ پھیرا اور میرے لیے برکت کی دعا فرمائی، پھر آپ ﷺ نے وضو کیا اور میں نے آپ ﷺ کے وضو کا بچا ہوا پانی پیا۔ پھر میں آپ ﷺ کی کمر کے پیچھے کھڑا ہوگیا اور میں نے مہر نبوت دیکھی جو آپ ﷺ کے مونڈھوں کے درمیان ایسی تھی جیسے چھپر کھٹ کی گھنڈی۔ (یا کبوتر کا انڈا) ۔

【57】

باب: ایک ہی چلو سے کلی کرنے اور ناک میں پانی دینے کے بیان میں۔

ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے خالد بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن یحییٰ نے اپنے باپ (یحییٰ ) کے واسطے سے بیان کیا، وہ عبداللہ بن زید (رض) سے نقل کرتے ہیں کہ (وضو کرتے وقت) انہوں نے برتن سے (پہلے) اپنے دونوں ہاتھوں پر پانی ڈالا۔ پھر انہیں دھویا۔ پھر دھویا۔ (یا یوں کہا کہ) کلی کی اور ناک میں ایک چلو سے پانی ڈالا۔ اور تین مرتبہ اسی طرح کیا۔ پھر تین مرتبہ اپنا چہرہ دھویا پھر کہنیوں تک اپنے دونوں ہاتھ دو دو بار دھوئے۔ پھر سر کا مسح کیا۔ اگلی جانب اور پچھلی جانب کا اور ٹخنوں تک اپنے دونوں پاؤں دھوئے، پھر کہا کہ رسول اللہ ﷺ کا وضو اسی طرح ہوا کرتا تھا۔

【58】

باب: سر کا مسح ایک بار کرنے کے بیان میں۔

ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے وہیب نے بیان کیا، ان سے عمرو بن یحییٰ نے اپنے باپ (یحییٰ ) کے واسطے سے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ میری موجودگی میں عمرو بن حسن نے عبداللہ بن زید (رض) سے رسول اللہ ﷺ کے وضو کے بارے میں پوچھا۔ تو عبداللہ بن زید (رض) نے پانی کا ایک طشت منگوایا، پھر ان ( لوگوں) کے دکھانے کے لیے وضو (شروع) کیا۔ (پہلے) طشت سے اپنے ہاتھوں پر پانی گرایا۔ پھر انہیں تین بار دھویا۔ پھر اپنا ہاتھ برتن کے اندر ڈالا، پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈال کر ناک صاف کی، تین چلوؤں سے تین دفعہ۔ پھر اپنا ہاتھ برتن کے اندر ڈالا اور اپنے منہ کو تین بار دھویا۔ پھر اپنا ہاتھ برتن کے اندر ڈالا اور دونوں ہاتھ کہنیوں تک دو دو بار دھوئے (پھر) سر پر مسح کیا اس طرح کہ (پہلے) آگے کی طرف اپنا ہاتھ لائے پھر پیچھے کی طرف لے گئے۔ پھر برتن میں اپنا ہاتھ ڈالا اور اپنے دونوں پاؤں دھوئے (دوسری روایت میں) ہم سے موسیٰ نے، ان سے وہیب نے بیان کیا کہ آپ نے سر کا مسح ایک دفعہ کیا۔

【59】

باب: خاوند کا اپنی بیوی کے ساتھ وضو کرنا اور عورت کا بچا ہوا پانی استعمال کرنا جائز ہے۔

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو مالک نے نافع سے خبر دی، وہ عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں عورت اور مرد سب ایک ساتھ (ایک ہی برتن سے) وضو کیا کرتے تھے۔ (یعنی وہ مرد اور عورتیں جو ایک دوسرے کے محرم ہوتے) ۔

【60】

باب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بیہوش آدمی پر اپنے وضو کا پانی چھڑکنے کے بیان میں۔

ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے محمد بن المنکدر کے واسطے سے، انہوں نے جابر (رض) سے سنا، وہ کہتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ میری مزاج پرسی کے لیے تشریف لائے۔ میں بیمار تھا ایسا کہ مجھے ہوش تک نہیں تھا۔ آپ ﷺ نے وضو کیا اور اپنے وضو کا پانی مجھ پر چھڑکا، تو مجھے ہوش آگیا۔ میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ ! میرا وارث کون ہوگا ؟ میرا تو صرف ایک کلالہ وارث ہے۔ اس پر آیت میراث نازل ہوئی۔

【61】

باب: لگن، پیالے، لکڑی اور پتھر کے برتن سے غسل اور وضو کرنے کے بیان میں۔

ہم سے عبداللہ بن منیر نے بیان کیا، انہوں نے عبداللہ بن بکر سے سنا، کہا ہم کو حمید نے یہ حدیث بیان کی۔ انہوں نے انس سے نقل کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) نماز کا وقت آگیا، تو جس شخص کا مکان قریب ہی تھا وہ وضو کرنے اپنے گھر چلا گیا اور کچھ لوگ (جن کے مکان دور تھے) رہ گئے۔ تو رسول اللہ ﷺ کے پاس پتھر کا ایک لگن لایا گیا۔ جس میں کچھ پانی تھا اور وہ اتنا چھوٹا تھا کہ آپ اس میں اپنی ہتھیلی نہیں پھیلا سکتے تھے۔ (مگر) سب نے اس برتن کے پانی سے وضو کرلیا، ہم نے انس (رض) سے پوچھا کہ تم کتنے نفر تھے ؟ کہا اسی (80) سے کچھ زیادہ ہی تھے۔

【62】

باب: لگن، پیالے، لکڑی اور پتھر کے برتن سے غسل اور وضو کرنے کے بیان میں۔

ہم سے محمد بن العلاء نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابواسامہ نے برید کے واسطے سے بیان کیا، وہ ابوبردہ سے، وہ ابوموسیٰ (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک پیالہ منگایا جس میں پانی تھا۔ پھر اس میں آپ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھوں اور چہرے کو دھویا اور اسی میں کلی کی۔

【63】

باب: لگن، پیالے، لکڑی اور پتھر کے برتن سے غسل اور وضو کرنے کے بیان میں۔

ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالعزیز بن ابی سلمہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن یحییٰ نے اپنے باپ کے واسطے سے بیان کیا، وہ عبداللہ بن زید سے نقل کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ (ہمارے گھر) تشریف لائے، ہم نے آپ ﷺ کے لیے تانبے کے برتن میں پانی نکالا۔ (اس سے) آپ ﷺ نے وضو کیا۔ تین بار چہرہ دھویا، دو دو بار ہاتھ دھوئے اور سر کا مسح کیا۔ (اس طرح کہ) پہلے آگے کی طرف (ہاتھ) لائے۔ پھر پیچھے کی جانب لے گئے اور پیر دھوئے۔

【64】

باب: لگن، پیالے، لکڑی اور پتھر کے برتن سے غسل اور وضو کرنے کے بیان میں۔

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے زہری سے خبر دی، کہا مجھے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے خبر دی تحقیق عائشہ (رض) نے فرمایا کہ جب رسول اللہ ﷺ بیمار ہوئے اور آپ ﷺ کی بیماری زیادہ ہوگئی تو آپ ﷺ نے اپنی (دوسری) بیویوں سے اس بات کی اجازت لے لی کہ آپ کی تیمارداری میرے ہی گھر کی جائے۔ انہوں نے آپ کو اجازت دے دی، (ایک روز) رسول اللہ ﷺ دو آدمیوں کے درمیان (سہارا لے کر) گھر سے نکلے۔ آپ کے پاؤں (کمزوری کی وجہ سے) زمین پر گھسٹتے جاتے تھے، عباس (رض) اور ایک آدمی کے درمیان (آپ باہر) نکلے تھے۔ عبیداللہ (راوی حدیث) کہتے ہیں کہ میں نے یہ حدیث عبداللہ بن عباس (رض) کو سنائی، تو وہ بولے، تم جانتے ہو دوسرا آدمی کون تھا، میں نے عرض کیا کہ نہیں۔ کہنے لگے وہ علی (رض) تھے۔ پھر عائشہ (رض) بیان فرماتی تھیں کہ جب نبی کریم ﷺ اپنے گھر میں داخل ہوئے اور آپ ﷺ کا مرض بڑھ گیا۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا میرے اوپر ایسی سات مشکوں کا پانی ڈالو، جن کے سربند نہ کھولے گئے ہوں۔ تاکہ میں (سکون کے بعد) لوگوں کو کچھ وصیت کروں۔ (چنانچہ) آپ کو حفصہ رسول اللہ ﷺ کی (دوسری) بیوی کے لگن میں (جو تانبے کا تھا) بیٹھا دیا گیا اور ہم نے آپ پر ان مشکوں سے پانی بہانا شروع کیا۔ جب آپ ہم کو اشارہ فرمانے لگے کہ بس اب تم نے اپنا کام پورا کردیا تو اس کے بعد آپ لوگوں کے پاس باہر تشریف لے گئے۔

【65】

باب: طشت سے (پانی لے کر) وضو کرنے کے بیان میں۔

ہم سے خالد بن مخلد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سلیمان نے، کہا مجھ سے عمرو بن یحییٰ نے اپنے باپ (یحییٰ ) کے واسطے سے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ میرے چچا بہت زیادہ وضو کیا کرتے تھے (یا یہ کہ وضو میں بہت پانی بہاتے تھے) ایک دن انہوں نے عبداللہ بن زید (رض) سے کہا کہ مجھے بتلائیے رسول اللہ ﷺ کس طرح وضو کیا کرتے تھے۔ انہوں نے پانی کا ایک طشت منگوایا۔ اس کو (پہلے) اپنے ہاتھوں پر جھکایا۔ پھر دونوں ہاتھ تین بار دھوئے۔ پھر اپنا ہاتھ طشت میں ڈال کر (پانی لیا اور) ایک چلو سے کلی کی اور تین مرتبہ ناک صاف کی۔ پھر اپنے ہاتھوں سے ایک چلو (پانی) لیا اور تین بار اپنا چہرہ دھویا۔ پھر کہنیوں تک اپنے دونوں ہاتھ دو دو بار دھوئے۔ پھر ہاتھ میں پانی لے کر اپنے سر کا مسح کیا۔ تو (پہلے اپنے ہاتھ) پیچھے لے گئے، پھر آگے کی طرف لائے۔ پھر اپنے دونوں پاؤں دھوئے۔ اور فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اسی طرح وضو کرتے دیکھا ہے۔

【66】

باب: طشت سے (پانی لے کر) وضو کرنے کے بیان میں۔

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد نے، وہ ثابت سے، وہ انس (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے پانی کا ایک برتن طلب فرمایا۔ تو آپ ﷺ کے لیے ایک چوڑے منہ کا پیالہ لایا گیا جس میں کچھ تھوڑا پانی تھا، آپ ﷺ نے اپنی انگلیاں اس میں ڈال دیں۔ انس کہتے ہیں کہ میں پانی کی طرف دیکھنے لگا۔ پانی آپ ﷺ کی انگلیوں کے درمیان سے پھوٹ رہا تھا۔ انس (رض) کہتے ہیں کہ اس (ایک پیالہ) پانی سے جن لوگوں نے وضو کیا، وہ ستر (70) سے اسی (80) تک تھے۔

【67】

باب: مد سے وضو کرنے کے بیان میں۔

ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے مسعر نے، کہا مجھ سے ابن جبیر نے، انہوں نے انس (رض) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ﷺ جب دھوتے یا (یہ کہا کہ) جب نہاتے تو ایک صاع سے لے کر پانچ مد تک (پانی استعمال فرماتے تھے) اور جب وضو فرماتے تو ایک مد (پانی) سے۔

【68】

باب: موزوں پر مسح کرنے کے بیان میں۔

ہم سے اصبغ ابن الفرج نے بیان کیا، وہ ابن وہب سے کرتے ہیں، کہا مجھ سے عمرو نے بیان کیا، کہا مجھ سے ابوالنضر نے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن کے واسطے سے نقل کیا، وہ عبداللہ بن عمر سے، وہ سعد بن ابی وقاص سے، وہ رسول اللہ ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے موزوں پر مسح کیا۔ عبداللہ بن عمر (رض) نے اپنے والد ماجد عمر (رض) سے اس کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا (سچ ہے اور یاد رکھو) جب تم سے سعد رسول اللہ ﷺ کی کوئی حدیث بیان فرمائیں۔ تو اس کے متعلق ان کے سوا (کسی) دوسرے آدمی سے مت پوچھو اور موسیٰ بن عقبہ کہتے ہیں کہ مجھے ابوالنضر نے بتلایا، انہیں ابوسلمہ نے خبر دی کہ سعد بن ابی وقاص نے ان سے (رسول اللہ ﷺ کی یہ) حدیث بیان کی۔ پھر عمر (رض) نے (اپنے بیٹے) عبداللہ سے ایسا کہا۔

【69】

باب: موزوں پر مسح کرنے کے بیان میں۔

ہم سے عمرو بن خالد الحرانی نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے یحییٰ بن سعید کے واسطے سے نقل کیا، وہ سعد بن ابراہیم سے، وہ نافع بن جبیر سے وہ عروہ ابن المغیرہ سے وہ اپنے باپ مغیرہ بن شعبہ سے روایت کرتے ہیں وہ رسول اللہ ﷺ سے نقل کرتے ہیں۔ (ایک دفعہ) آپ ﷺ رفع حاجت کے لیے باہر گئے تو مغیرہ پانی کا ایک برتن لے کر آپ ﷺ کے پیچھے گئے، جب آپ ﷺ قضاء حاجت سے فارغ ہوگئے تو مغیرہ نے (آپ ﷺ کو وضو کراتے ہوئے) آپ ﷺ (کے اعضاء مبارکہ) پر پانی ڈالا۔ آپ ﷺ نے وضو کیا اور موزوں پر مسح فرمایا۔

【70】

باب: موزوں پر مسح کرنے کے بیان میں۔

ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے شیبان نے یحییٰ کے واسطے سے نقل کیا، وہ ابوسلمہ سے، انہوں نے جعفر بن عمرو بن امیہ الضمری سے نقل کیا، انہیں ان کے باپ نے خبر دی کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو موزوں پر مسح کرتے ہوئے دیکھا۔ اس حدیث کی متابعت میں حرب اور ابان نے یحییٰ سے حدیث نقل کی ہے۔

【71】

باب: موزوں پر مسح کرنے کے بیان میں۔

ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہمیں عبداللہ نے خبر دی، کہا ہم کو اوزاعی نے یحییٰ کے واسطے سے خبر دی، وہ ابوسلمہ سے، وہ جعفر بن عمرو سے، وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اپنے عمامے اور موزوں پر مسح کرتے دیکھا۔ اس کو روایت کیا معمر نے یحییٰ سے، وہ ابوسلمہ سے، انہوں نے عمرو سے متابعت کی اور کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا (آپ واقعی ایسا ہی کیا کرتے تھے) ۔

【72】

باب: وضو کر کے موزے پہننے کے بیان میں۔

ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے زکریا نے یحییٰ کے واسطے سے نقل کیا، وہ عامر سے وہ عروہ بن مغیرہ سے، وہ اپنے باپ (مغیرہ) سے روایت کرتے ہیں کہ میں ایک سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا، تو میں نے چاہا (کہ وضو کرتے وقت) آپ ﷺ کے موزے اتار ڈالوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ انہیں رہنے دو ۔ چونکہ جب میں نے انہیں پہنا تھا تو میرے پاؤں پاک تھے۔ (یعنی میں وضو سے تھا) پس آپ ﷺ نے ان پر مسح کیا۔

【73】

باب: بکری کا گوشت اور ستو کھا کر نیا وضو نہ کرنا ثابت ہے۔

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہمیں امام مالک نے زید بن اسلم سے خبر دی، وہ عطاء بن یسار سے، وہ عبداللہ بن عباس (رض) سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بکری کا شانہ کھایا۔ پھر نماز پڑھی اور وضو نہیں کیا۔

【74】

باب: بکری کا گوشت اور ستو کھا کر نیا وضو نہ کرنا ثابت ہے۔

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہمیں لیث نے عقیل سے خبر دی، وہ ابن شہاب سے روایت کرتے ہیں، انہیں جعفر بن عمرو بن امیہ نے اپنے باپ عمرو سے خبر دی کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ بکری کے شانہ سے کاٹ کاٹ کر کھا رہے تھے، پھر آپ ﷺ نماز کے لیے بلائے گئے تو آپ ﷺ نے چھری ڈال دی اور نماز پڑھی، نیا وضو نہیں کیا۔

【75】

باب: اس بارے میں کہ کوئی شخص ستو کھا کر صرف کلی کرے اور نیا وضو نہ کرے۔

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھے امام مالک نے یحییٰ بن سعید کے واسطے سے خبر دی، وہ بشیر بن یسار بنی حارثہ کے آزاد کردہ غلام سے روایت کرتے ہیں کہ سوید بن نعمان (رض) نے انہیں خبر دی کہ فتح خیبر والے سال وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ صہبا کی طرف، جو خیبر کے قریب ایک جگہ ہے پہنچے۔ آپ ﷺ نے عصر کی نماز پڑھی، پھر ناشتہ منگوایا گیا تو سوائے ستو کے اور کچھ نہیں لایا گیا۔ پھر آپ ﷺ نے حکم دیا تو وہ بھگو دیے گئے۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے کھایا اور ہم نے (بھی) کھایا۔ پھر مغرب (کی نماز) کے لیے کھڑے ہوگئے۔ آپ ﷺ نے کلی کی اور ہم نے (بھی) پھر آپ ﷺ نے نماز پڑھی اور نیا وضو نہیں کیا۔

【76】

باب: اس بارے میں کہ کوئی شخص ستو کھا کر صرف کلی کرے اور نیا وضو نہ کرے۔

ہم سے اصبغ نے بیان کیا، کہا مجھے ابن وہب نے خبر دی، کہا مجھے عمرو نے بکیر سے، انہوں نے کریب سے، ان کو میمونہ (رض) زوجہ رسول اللہ ﷺ نے بتلایا کہ آپ ﷺ نے ان کے یہاں (بکری کا) شانہ کھایا پھر نماز پڑھی اور نیا وضو نہیں فرمایا۔

【77】

باب: اس بارے میں کہ کیا دودھ پی کر کلی کرنی چاہیے؟

ہم سے یحییٰ بن بکیر اور قتیبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، وہ عقیل سے، وہ ابن شہاب سے، وہ عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے، وہ عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے دودھ پیا، پھر کلی کی اور فرمایا اس میں چکنائی ہوتی ہے۔ اس حدیث میں عقیل کی یونس اور صالح بن کیسان نے زہری سے متابعت کی ہے۔

【78】

باب: سونے کے بعد وضو کرنے کے بیان میں اور بعض علماء کے نزدیک ایک یا دو مرتبہ کی اونگھ سے یا (نیند کا) ایک جھونکا آ جانے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا مجھ کو مالک نے ہشام سے، انہوں نے اپنے باپ سے خبر دی، انہوں نے عائشہ (رض) سے نقل کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب نماز پڑھتے وقت تم میں سے کسی کو اونگھ آجائے، تو چاہیے کہ وہ سو رہے یہاں تک کہ نیند (کا اثر) اس سے ختم ہوجائے۔ اس لیے کہ جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھنے لگے اور وہ اونگھ رہا ہو تو وہ کچھ نہیں جانے گا کہ وہ (اللہ تعالیٰ سے) مغفرت طلب کر رہا ہے یا اپنے نفس کو بددعا دے رہا ہے۔

【79】

باب: سونے کے بعد وضو کرنے کے بیان میں اور بعض علماء کے نزدیک ایک یا دو مرتبہ کی اونگھ سے یا (نیند کا) ایک جھونکا آ جانے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔

ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوارث نے، کہا ہم سے ایوب نے ابوقلابہ کے واسطے سے نقل کیا، وہ انس (رض) سے روایت کرتے ہیں، وہ رسول اللہ ﷺ سے آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب تم نماز میں اونگھنے لگو تو سو جانا چاہیے۔ پھر اس وقت نماز پڑھے جب جان لے کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے۔

【80】

باب: بغیر حدث کے بھی نیا وضو کرنا جائز ہے۔

ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے عمرو بن عامر کے واسطے سے بیان کیا، کہا میں نے انس (رض) سے سنا۔ (دوسری سند سے) ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے، وہ سفیان سے روایت کرتے ہیں، ان سے عمرو بن عامر نے بیان کیا، وہ انس (رض) سے روایت کرتے ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ ہر نماز کے لیے نیا وضو فرمایا کرتے تھے۔ میں نے کہا تم لوگ کس طرح کرتے تھے، کہنے لگے ہم میں سے ہر ایک کو اس کا وضو اس وقت تک کافی ہوتا، جب تک کوئی وضو توڑنے والی چیز پیش نہ آجاتی۔ (یعنی پیشاب، پاخانہ، یا نیند وغیرہ) ۔

【81】

باب: بغیر حدث کے بھی نیا وضو کرنا جائز ہے۔

ہم سے خالد بن مخلد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سلیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھے یحییٰ بن سعید نے خبر دی، انہیں بشیر بن یسار نے خبر دی، انہوں نے کہا مجھے سوید بن نعمان (رض) نے بتلایا انہوں نے کہا کہ ہم خیبر والے سال رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ جب صہباء میں پہنچے تو رسول اللہ ﷺ نے ہمیں عصر کی نماز پڑھائی۔ جب نماز پڑھ چکے تو آپ ﷺ نے کھانے منگوائے۔ مگر (کھانے میں) صرف ستو ہی لایا گیا۔ سو ہم نے (اسی کو) کھایا اور پیا۔ پھر رسول اللہ ﷺ مغرب کی نماز کے لیے کھڑے ہوگئے۔ تو آپ ﷺ نے کلی کی، پھر ہمیں مغرب کی نماز پڑھائی اور (نیا) وضو نہیں کیا۔

【82】

باب: پیشاب کے چھینٹوں سے نہ بچنا کبیرہ گناہ ہے۔

ہم سے عثمان نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے منصور کے واسطے سے نقل کیا، وہ مجاہد سے وہ ابن عباس (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک دفعہ مدینہ یا مکے کے ایک باغ میں تشریف لے گئے۔ (وہاں) آپ ﷺ نے دو شخصوں کی آواز سنی جنھیں ان کی قبروں میں عذاب کیا جا رہا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ان پر عذاب ہو رہا ہے اور کسی بہت بڑے گناہ کی وجہ سے نہیں پھر آپ ﷺ نے فرمایا بات یہ ہے کہ ایک شخص ان میں سے پیشاب کے چھینٹوں سے بچنے کا اہتمام نہیں کرتا تھا اور دوسرا شخص چغل خوری کیا کرتا تھا۔ پھر آپ ﷺ نے (کھجور کی) ایک ڈالی منگوائی اور اس کو توڑ کر دو ٹکڑے کیا اور ان میں سے (ایک ایک ٹکڑا) ہر ایک کی قبر پر رکھ دیا۔ لوگوں نے آپ ﷺ سے پوچھا کہ یا رسول اللہ ! یہ آپ ﷺ نے کیوں کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا اس لیے کہ جب تک یہ ڈالیاں خشک ہوں شاید اس وقت تک ان پر عذاب کم ہوجائے۔

【83】

باب: پیشاب کو دھونے کے بیان میں۔

ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو اسماعیل بن ابراہیم نے خبر دی، کہا مجھے روح بن القاسم نے بتلایا، کہا مجھ سے عطاء بن ابی میمونہ نے بیان کیا، وہ انس بن مالک (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب رفع حاجت کے لیے باہر تشریف لے جاتے تو میں آپ ﷺ کے پاس پانی لاتا۔ آپ ﷺ اس سے استنجاء فرماتے۔

【84】

ہم سے محمد بن المثنی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے محمد بن حازم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے اعمش نے مجاہد کے واسطے سے روایت کیا، وہ طاؤس سے، وہ عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) رسول اللہ ﷺ دو قبروں پر گزرے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ان دونوں قبر والوں کو عذاب دیا جا رہا ہے اور کسی بڑے گناہ پر نہیں۔ ایک تو ان میں سے پیشاب سے احتیاط نہیں کرتا تھا اور دوسرا چغل خوری کیا کرتا تھا۔ پھر آپ ﷺ نے ایک ہری ٹہنی لے کر بیچ سے اس کے دو ٹکڑے کئے اور ہر ایک قبر پر ایک ٹکڑا گاڑ دیا۔ لوگوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ! آپ ﷺ نے (ایسا) کیوں کیا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا، شاید جب تک یہ ٹہنیاں خشک نہ ہوں ان پر عذاب میں کچھ تخفیف رہے۔ ابن المثنی نے کہا کہ اس حدیث کو ہم سے وکیع نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، انہوں نے مجاہد سے اسی طرح سنا۔

【85】

باب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم کا ایک دیہاتی کو چھوڑ دینا جب تک کہ وہ مسجد میں پیشاب سے فارغ نہ ہو گیا۔

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمام نے، کہا ہم سے اسحاق نے انس بن مالک کے واسطے سے نقل کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دیہاتی کو مسجد میں پیشاب کرتے ہوئے دیکھا تو لوگوں سے آپ ﷺ نے فرمایا اسے چھوڑ دو جب وہ فارغ ہوگیا تو پانی منگا کر آپ نے (اس جگہ) بہا دیا۔

【86】

باب: مسجد میں پیشاب پر پانی بہا دینے کے بیان میں۔

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہمیں شعیب نے زہری کے واسطے سے خبر دی، انہوں نے کہا مجھے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے خبر دی کہ ابوہریرہ (رض) نے فرمایا کہ ایک اعرابی کھڑا ہو کر مسجد میں پیشاب کرنے لگا۔ تو لوگ اس پر جھپٹنے لگے۔ (یہ دیکھ کر) رسول اللہ ﷺ نے لوگوں سے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو اور اس کے پیشاب پر پانی کا بھرا ہوا ڈول یا کچھ کم بھرا ہوا ڈول بہا دو ۔ کیونکہ تم نرمی کے لیے بھیجے گئے ہو، سختی کے لیے نہیں۔

【87】

باب: مسجد میں پیشاب پر پانی بہا دینے کے بیان میں۔

ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہمیں عبداللہ نے خبر دی، کہا ہمیں یحییٰ بن سعید نے خبر دی، کہا میں نے انس بن مالک (رض) سے سنا، وہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دیہاتی شخص آیا اور اس نے مسجد کے ایک کونے میں پیشاب کردیا۔ لوگوں نے اس کو منع کیا تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں روک دیا۔ جب وہ پیشاب کر کے فارغ ہوا تو آپ ﷺ نے اس (کے پیشاب) پر ایک ڈول پانی بہانے کا حکم دیا۔ چناچہ بہا دیا گیا۔ ہم سے خالد بن مخلد نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان نے یحییٰ بن سعید کے واسطے سے بیان کیا، کہا میں نے انس بن مالک (رض) سے سنا، وہ کہتے ہیں کہ ایک دیہاتی شخص آیا اور اس نے مسجد کے ایک کونے میں پیشاب کردیا۔ لوگوں نے اس کو منع کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں روک دیا۔ جب وہ پیشاب کر کے فارغ ہوا تو آپ ﷺ نے اس (کے پیشاب) پر ایک ڈول پانی بہانے کا حکم دیا۔ چناچہ بہا دیا گیا۔

【88】

باب: بچوں کے پیشاب کے بارے میں۔

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو مالک نے ہشام بن عروہ سے خبر دی، انہوں نے اپنے باپ (عروہ) سے، انہوں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک بچہ لایا گیا۔ اس نے آپ ﷺ کے کپڑے پر پیشاب کردیا تو آپ ﷺ نے پانی منگایا اور اس پر ڈال دیا۔

【89】

باب: بچوں کے پیشاب کے بارے میں۔

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہمیں مالک نے ابن شہاب سے خبر دی، وہ عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ (بن مسعود) سے یہ حدیث روایت کرتے ہیں، وہ ام قیس بنت محصن نامی ایک خاتون سے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں اپنا چھوٹا بچہ لے کر آئیں۔ جو کھانا نہیں کھاتا تھا۔ (یعنی شیرخوار تھا) رسول اللہ ﷺ نے اسے اپنی گود میں بٹھا لیا۔ اس بچے نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے پر پیشاب کردیا۔ آپ ﷺ نے پانی منگا کر کپڑے پر چھڑک دیا اور اسے نہیں دھویا۔

【90】

باب: کھڑے ہو کر اور بیٹھ کر پیشاب کرنا (حسب موقع ہر دو طرح سے جائز ہے)۔

ہم سے آدم نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے اعمش کے واسطے سے نقل کیا، وہ ابو وائل سے، وہ حذیفہ (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کسی قوم کی کوڑی پر تشریف لائے (پس) آپ ﷺ نے وہاں کھڑے ہو کر پیشاب کیا۔ پھر پانی منگایا۔ میں آپ ﷺ کے پاس پانی لے کر آیا تو آپ ﷺ نے وضو فرمایا۔

【91】

باب: اپنے (کسی) ساتھی کے قریب پیشاب کرنا اور دیوار کی آڑ لینا۔

ہم سے عثمان ابن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے منصور کے واسطے سے بیان کیا، وہ ابو وائل سے، وہ حذیفہ سے روایت کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) میں اور رسول اللہ ﷺ جا رہے تھے کہ ایک قوم کی کوڑی پر (جو) ایک دیوار کے پیچھے (تھی) پہنچے۔ تو آپ ﷺ اس طرح کھڑے ہوگئے جس طرح ہم تم میں سے کوئی (شخص) کھڑا ہوتا ہے۔ پھر آپ ﷺ نے پیشاب کیا اور میں ایک طرف ہٹ گیا۔ تب آپ ﷺ نے مجھے اشارہ کیا تو آپ ﷺ کے پاس (پردہ کی غرض سے) آپ ﷺ کی ایڑیوں کے قریب کھڑا ہوگیا۔ یہاں تک کہ آپ ﷺ پیشاب سے فارغ ہوگئے۔ (بوقت ضرورت ایسا بھی کیا جاسکتا ہے۔ )

【92】

باب: کسی قوم کی کوڑی پر پیشاب کرنا۔

ہم سے محمد بن عرعرہ نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے منصور کے واسطے سے بیان کیا، وہ ابو وائل سے نقل کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ابوموسیٰ اشعری پیشاب (کے بارہ) میں سختی سے کام لیتے تھے اور کہتے تھے کہ بنی اسرائیل میں جب کسی کے کپڑے کو پیشاب لگ جاتا۔ تو اسے کاٹ ڈالتے۔ ابوحذیفہ کہتے ہیں کہ کاش ! وہ اپنے اس تشدد سے رک جاتے (کیونکہ) رسول اللہ ﷺ کسی قوم کی کوڑی پر تشریف لائے اور آپ ﷺ نے وہاں کھڑے ہو کر پیشاب کیا۔

【93】

باب: حیض کا خون دھونا ضروری ہے۔

ہم سے محمد ابن المثنی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ نے ہشام کے واسطے سے بیان کیا، ان سے فاطمہ نے اسماء کے واسطے سے، وہ کہتی ہیں کہ ایک عورت نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی کہ یا رسول اللہ ! فرمائیے ہم میں سے کسی عورت کو کپڑے میں حیض آجائے (تو) وہ کیا کرے، آپ ﷺ نے فرمایا (کہ پہلے) اسے کھرچے، پھر پانی سے رگڑے اور پانی سے دھو ڈالے اور اسی کپڑے میں نماز پڑھ لے۔

【94】

باب: حیض کا خون دھونا ضروری ہے۔

ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا مجھ سے ابومعاویہ نے، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے اپنے باپ (عروہ) کے واسطے سے، وہ عائشہ (رض) سے نقل کرتے ہیں، وہ فرماتی ہیں کہ ابوحبیش کی بیٹی فاطمہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اس نے کہا کہ میں ایک ایسی عورت ہوں جسے استحاضہ کی بیماری ہے۔ اس لیے میں پاک نہیں رہتی تو کیا میں نماز چھوڑ دوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں، یہ ایک رگ (کا خون) ہے حیض نہیں ہے۔ تو جب تجھے حیض آئے تو نماز چھوڑ دے اور جب یہ دن گزر جائیں تو اپنے (بدن اور کپڑے) سے خون کو دھو ڈال پھر نماز پڑھ۔ ہشام کہتے ہیں کہ میرے باپ عروہ نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے یہ (بھی) فرمایا کہ پھر ہر نماز کے لیے وضو کر یہاں تک کہ وہی (حیض کا) وقت پھر آجائے۔

【95】

باب: منی کا دھونا اور اس کا کھرچنا ضروری ہے، نیز جو چیز عورت سے لگ جائے اس کا دھونا بھی ضروری ہے۔

ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا مجھے عبداللہ ابن مبارک نے خبر دی، کہا مجھے عمرو بن میمون الجزری نے بتلایا، وہ سلیمان بن یسار سے، وہ عائشہ (رض) سے۔ آپ فرماتی ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے کپڑے سے جنابت کو دھوتی تھی۔ پھر (اس کو پہن کر) آپ ﷺ نماز کے لیے تشریف لے جاتے اور پانی کے دھبے آپ ﷺ کے کپڑے میں ہوتے تھے۔

【96】

باب: منی کا دھونا اور اس کا کھرچنا ضروری ہے، نیز جو چیز عورت سے لگ جائے اس کا دھونا بھی ضروری ہے۔

ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید نے، کہا ہم سے عمرو نے سلیمان سے روایت کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے عائشہ (رض) سے سنا (دوسری سند یہ ہے) ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالواحد نے، کہا ہم سے عمرو بن میمون نے سلیمان بن یسار کے واسطے سے نقل کیا، وہ کہتے ہیں کہ میں نے عائشہ (رض) سے اس منی کے بارے میں پوچھا جو کپڑے کو لگ جائے۔ تو انہوں نے فرمایا کہ میں منی کو رسول اللہ ﷺ کے کپڑے سے دھو ڈالتی تھی پھر آپ نماز کے لیے باہر تشریف لے جاتے اور دھونے کا نشان (یعنی) پانی کے دھبے آپ ﷺ کے کپڑے میں باقی ہوتے۔

【97】

باب: اگر منی یا کوئی اور نجاست (مثلاً حیض کا خون) دھوئے اور (پھر) اس کا اثر نہ جائے (تو کیا حکم ہے؟)۔

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالواحد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عمرو بن میمون نے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے اس کپڑے کے متعلق جس میں جنابت (ناپاکی) کا اثر آگیا ہو، سلیمان بن یسار سے سنا وہ کہتے تھے کہ عائشہ (رض) نے فرمایا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے کپڑے سے منی کو دھو ڈالتی تھی پھر آپ ﷺ نماز کے لیے باہر نکلتے اور دھونے کا نشان یعنی پانی کے دھبے کپڑے میں ہوتے۔

【98】

باب: اگر منی یا کوئی اور نجاست (مثلاً حیض کا خون) دھوئے اور (پھر) اس کا اثر نہ جائے (تو کیا حکم ہے؟)۔

ہم سے عمرو بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے زہیر نے، کہا ہم سے عمرو بن میمون بن مہران نے، انہوں نے سلیمان بن یسار سے، وہ عائشہ (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے کپڑے سے منی کو دھو ڈالتی تھیں (وہ فرماتی ہیں کہ) پھر (کبھی) میں ایک دھبہ یا کئی دھبے دیکھتی تھی۔

【99】

باب: اونٹ، بکری اور چوپایوں کا پیشاب اور ان کے رہنے کی جگہ کے بارے میں۔

ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، انہوں نے حماد بن زید سے، وہ ایوب سے، وہ ابوقلابہ سے، وہ انس (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ کچھ لوگ عکل یا عرینہ (قبیلوں) کے مدینہ میں آئے اور بیمار ہوگئے۔ رسول اللہ ﷺ نے انہیں لقاح میں جانے کا حکم دیا اور فرمایا کہ وہاں اونٹوں کا دودھ اور پیشاب پئیں۔ چناچہ وہ لقاح چلے گئے اور جب اچھے ہوگئے تو رسول اللہ ﷺ کے چرواہے کو قتل کر کے وہ جانوروں کو ہانک کرلے گئے۔ علی الصبح رسول اللہ ﷺ کے پاس (اس واقعہ کی) خبر آئی۔ تو آپ نے ان کے پیچھے آدمی دوڑائے۔ دن چڑھے وہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں پکڑ کر لائے گئے۔ آپ کے حکم کے مطابق ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دئیے گئے اور آنکھوں میں گرم سلاخیں پھیر دی گئیں اور (مدینہ کی) پتھریلی زمین میں ڈال دئیے گئے۔ (پیاس کی شدت سے) وہ پانی مانگتے تھے مگر انہیں پانی نہیں دیا جاتا تھا۔ ابوقلابہ نے (ان کے جرم کی سنگینی ظاہر کرتے ہوئے) کہا کہ ان لوگوں نے چوری کی اور چرواہوں کو قتل کیا اور (آخر) ایمان سے پھرگئے اور اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کی۔

【100】

باب: اونٹ، بکری اور چوپایوں کا پیشاب اور ان کے رہنے کی جگہ کے بارے میں۔

ہم سے آدم نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے، کہا مجھے ابوالتیاح یزید بن حمید نے انس (رض) سے خبر دی، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مسجد کی تعمیر سے پہلے نماز بکریوں کے باڑے میں پڑھ لیا کرتے تھے۔ (معلوم ہوا کہ بکریوں وغیرہ کے باڑے میں بوقت ضرورت نماز پڑھی جاسکتی ہے) ۔

【101】

باب: ان نجاستوں کے بارے میں جو گھی اور پانی میں گر جائیں۔

ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ کو مالک نے ابن شہاب کے واسطے سے روایت کی، وہ عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود سے، وہ عبداللہ بن عباس (رض) سے وہ ام المؤمنین میمونہ (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے چوہے کے بارے میں پوچھا گیا جو گھی میں گرگیا تھا۔ فرمایا اس کو نکال دو اور اس کے آس پاس (کے گھی) کو نکال پھینکو اور اپنا (باقی) گھی استعمال کرو۔

【102】

باب: ان نجاستوں کے بارے میں جو گھی اور پانی میں گر جائیں۔

ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے معن نے، کہا ہم سے مالک نے ابن شہاب کے واسطے سے بیان کیا، وہ عبیداللہ ابن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود سے، وہ ابن عباس (رض) سے وہ میمونہ (رض) سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے چوہے کے بارے میں دریافت کیا گیا جو گھی میں گرگیا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس چوہے کو اور اس کے آس پاس کے گھی کو نکال کر پھینک دو ۔ معن کہتے ہیں کہ مالک نے اتنی بار کہ میں گن نہیں سکتا (یہ حدیث) ابن عباس سے اور انہوں نے میمونہ (رض) سے روایت کی ہے۔

【103】

باب: ان نجاستوں کے بارے میں جو گھی اور پانی میں گر جائیں۔

ہم سے احمد بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہمیں عبداللہ نے خبر دی، انہوں نے کہا مجھے معمر نے ہمام بن منبہ سے خبر دی اور وہ ابوہریرہ (رض) سے روایت کرتے ہیں، وہ رسول اللہ ﷺ سے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ہر زخم جو اللہ کی راہ میں مسلمان کو لگے وہ قیامت کے دن اسی حالت میں ہوگا جس طرح وہ لگا تھا۔ اس میں سے خون بہتا ہوگا۔ جس کا رنگ (تو) خون کا سا ہوگا اور خوشبو مشک کی سی ہوگی۔

【104】

باب: اس بارے میں کہ ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب کرنا منع ہے۔

ہم سے ابوالیمان بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، کہا مجھے ابوالزناد نے خبر دی کہ ان سے عبدالرحمٰن بن ہرمزالاعرج نے بیان کیا، انہوں نے ابوہریرہ (رض) سے سنا، انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ ﷺ فرماتے تھے کہ ہم (لوگ) دنیا میں پچھلے زمانے میں آئے ہیں (مگر آخرت میں) سب سے آگے ہیں۔

【105】

باب: اس بارے میں کہ ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب کرنا منع ہے۔

اور اسی سند سے (یہ بھی) فرمایا کہ تم میں سے کوئی ٹھہرے ہوئے پانی میں جو جاری نہ ہو پیشاب نہ کرے۔ پھر اسی میں غسل کرنے لگے ؟

【106】

باب: جب نمازی کی پشت پر (اچانک) کوئی نجاست یا مردار ڈال دیا جائے تو اس کی نماز فاسد نہیں ہوتی۔

ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا مجھے میرے باپ (عثمان) نے شعبہ سے خبر دی، انہوں نے ابواسحاق سے، انہوں نے عمرو بن میمون سے، انہوں نے عبداللہ سے وہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ کعبہ شریف میں سجدہ میں تھے۔ (ایک دوسری سند سے) ہم سے احمد بن عثمان نے بیان کیا، کہا ہم سے شریح بن مسلمہ نے، کہا ہم سے ابراہیم بن یوسف نے اپنے باپ کے واسطے سے بیان کیا، وہ ابواسحاق سے روایت کرتے ہیں۔ ان سے عمرو بن میمون نے بیان کیا کہ عبداللہ بن مسعود (رض) نے ان سے حدیث بیان کی کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ کعبہ کے نزدیک نماز پڑھ رہے تھے اور ابوجہل اور اس کے ساتھی (بھی وہیں) بیٹھے ہوئے تھے تو ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ تم میں سے کوئی شخص ہے جو قبیلے کی (جو) اونٹنی ذبح ہوئی ہے (اس کی) اوجھڑی اٹھا لائے اور (لا کر) جب محمد ﷺ سجدہ میں جائیں تو ان کی پیٹھ پر رکھ دے۔ یہ سن کر ان میں سے ایک سب سے زیادہ بدبخت (آدمی) اٹھا اور وہ اوجھڑی لے کر آیا اور دیکھتا رہا جب آپ نے سجدہ کیا تو اس نے اس اوجھڑی کو آپ کے دونوں کندھوں کے درمیان رکھ دیا (عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں) میں یہ (سب کچھ) دیکھ رہا تھا مگر کچھ نہ کرسکتا تھا۔ کاش ! (اس وقت) مجھے روکنے کی طاقت ہوتی۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ وہ ہنسنے لگے اور (ہنسی کے مارے) لوٹ پوٹ ہونے لگے اور رسول اللہ ﷺ سجدہ میں تھے (بوجھ کی وجہ سے) اپنا سر نہیں اٹھا سکتے تھے۔ یہاں تک کہ فاطمہ (رض) آئیں اور وہ بوجھ آپ کی پیٹھ سے اتار کر پھینکا، تب آپ ﷺ نے سر اٹھایا پھر تین بار فرمایا۔ یا اللہ ! تو قریش کو پکڑ لے، یہ (بات) ان کافروں پر بہت بھاری ہوئی کہ آپ ﷺ نے انہیں بددعا دی۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ وہ سمجھتے تھے کہ اس شہر (مکہ) میں جو دعا کی جائے وہ ضرور قبول ہوتی ہے پھر آپ نے (ان میں سے) ہر ایک کا (جدا جدا) نام لیا کہ اے اللہ ! ان ظالموں کو ضرور ہلاک کر دے۔ ابوجہل، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، امیہ بن خلف اور عقبہ بن ابی معیط کو۔ ساتویں (آدمی) کا نام (بھی) لیا مگر مجھے یاد نہیں رہا۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ جن لوگوں کے (بددعا کرتے وقت) آپ ﷺ نے نام لیے تھے، میں نے ان کی (لاشوں) کو بدر کے کنویں میں پڑا ہوا دیکھا۔

【107】

باب: کپڑے میں تھوک اور رینٹ وغیرہ لگ جانے کے بارے میں۔

ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے حمید کے واسطے سے بیان کیا، وہ انس (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے (ایک مرتبہ) اپنے کپڑے میں تھوکا۔ ابوعبداللہ (امام بخاری (رح)) نے فرمایا کہ سعید بن ابی مریم نے اس حدیث کو طوالت کے ساتھ بیان کیا انہوں نے کہا ہم کو خبر دی یحییٰ بن ایوب نے، کہا مجھ سے حمید نے بیان کیا، کہا میں نے انس سے سنا، وہ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں۔

【108】

باب: نبیذ سے اور کسی نشہ والی چیز سے وضو جائز نہیں۔

ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے، ان سے زہری نے ابوسلمہ کے واسطے سے بیان کیا، وہ عائشہ (رض) سے وہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتی ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ پینے کی ہر وہ چیز جو نشہ لانے والی ہو حرام ہے۔

【109】

باب: عورت کا اپنے باپ کے چہرے سے خون دھونا جائز ہے۔

ہم سے محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے ابن ابی حازم کے واسطے سے نقل کیا، انہوں نے سہل بن سعد الساعدی سے سنا کہ لوگوں نے ان سے پوچھا، اور (میں اس وقت سہل کے اتنا قریب تھا کہ) میرے اور ان کے درمیان کوئی دوسرا حائل نہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے (احد کے) زخم کا علاج کس دوا سے کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس بات کا جاننے والا (اب) مجھ سے زیادہ کوئی نہیں رہا۔ علی (رض) اپنی ڈھال میں پانی لاتے اور فاطمہ (رض) آپ ﷺ کے منہ سے خون دھوتیں پھر ایک بوریا کا ٹکڑا جلایا گیا اور آپ ﷺ کے زخم میں بھر دیا گیا۔

【110】

باب: مسواک کرنے کا بیان۔

ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے غیلان بن جریر کے واسطے سے نقل کیا، وہ ابوبردہ سے وہ اپنے باپ سے نقل کرتے ہیں کہ میں (ایک مرتبہ) رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے آپ کو اپنے ہاتھ سے مسواک کرتے ہوئے پایا اور آپ ﷺ کے منہ سے اع اع کی آواز نکل رہی تھی اور مسواک آپ ﷺ کے منہ میں تھی جس طرح آپ ﷺ قے کر رہے ہوں۔

【111】

باب: مسواک کرنے کا بیان۔

عفان نے کہا کہ ہم سے صخر بن جویریہ نے نافع کے واسطے سے بیان کیا، وہ ابن عمر (رض) سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے دیکھا کہ (خواب میں) مسواک کر رہا ہوں تو میرے پاس دو آدمی آئے۔ ایک ان میں سے دوسرے سے بڑا تھا، تو میں نے چھوٹے کو مسواک دے دی پھر مجھ سے کہا گیا کہ بڑے کو دو ۔ تب میں نے ان میں سے بڑے کو دی۔ ابوعبداللہ (امام بخاری (رح)) کہتے ہیں کہ اس حدیث کو نعیم نے ابن المبارک سے، وہ اسامہ سے، وہ نافع سے، انہوں نے ابن عمر (رض) سے مختصر طور پر روایت کیا ہے۔

【112】

باب: بڑے آدمی کو مسواک دینا (ادب کا تقاضا ہے)۔

عفان نے کہا کہ ہم سے صخر بن جویریہ نے نافع کے واسطے سے بیان کیا، وہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے دیکھا کہ (خواب میں) مسواک کر رہا ہوں تو میرے پاس دو آدمی آئے۔ ایک ان میں سے دوسرے سے بڑا تھا، تو میں نے چھوٹے کو مسواک دے دی پھر مجھ سے کہا گیا کہ بڑے کو دو۔ تب میں نے ان میں سے بڑے کو دی۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) کہتے ہیں کہ اس حدیث کو نعیم نے ابن المبارک سے، وہ اسامہ سے، وہ نافع سے، انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مختصر طور پر روایت کیا ہے۔

【113】

باب: رات کو وضو کر کے سونے والے کی فضیلت کے بیان میں۔

ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی، انہوں نے کہا ہمیں سفیان نے منصور کے واسطے سے خبر دی، انہوں نے سعد بن عبیدہ سے، وہ براء بن عازب (رض) سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب تم اپنے بستر پر لیٹنے آؤ تو اس طرح وضو کرو جس طرح نماز کے لیے کرتے ہو۔ پھر داہنی کروٹ پر لیٹ کر یوں کہو اللهم أسلمت وجهي إليك،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وفوضت أمري إليك،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وألجأت ظهري إليك،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ رغبة ورهبة إليك،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ لا ملجأ ولا منجا منک إلا إليك،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ اللهم آمنت بکتابک الذي أنزلت،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وبنبيك الذي أرسلت‏ اے اللہ ! میں نے اپنا چہرہ تیری طرف جھکا دیا۔ اپنا معاملہ تیرے ہی سپرد کردیا۔ میں نے تیرے ثواب کی توقع اور تیرے عذاب کے ڈر سے تجھے ہی پشت پناہ بنا لیا۔ تیرے سوا کہیں پناہ اور نجات کی جگہ نہیں۔ اے اللہ ! جو کتاب تو نے نازل کی میں اس پر ایمان لایا۔ جو نبی تو نے بھیجا میں اس پر ایمان لایا۔ تو اگر اس حالت میں اسی رات مرگیا تو فطرت پر مرے گا اور اس دعا کو سب باتوں کے اخیر میں پڑھ۔ براء (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے اس دعا کو دوبارہ پڑھا۔ جب میں اللهم آمنت بکتابک الذي أنزلت پر پہنچا تو میں نے ورسولک‏ (کا لفظ) کہہ دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں (یوں کہو) ونبيك الذي أرسلت۔