40. صلح کا بیان

【1】

باب: لوگوں میں صلح کرانے کا ثواب۔

ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوغسان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوحازم سلمہ بن دینار نے بیان کیا، ان سے سہل بن سعد (رض) نے بیان کیا کہ (قباء کے) بنو عمرو بن عوف میں آپس میں کچھ تکرار ہوگئی تھی تو رسول اللہ ﷺ اپنے کئی اصحاب کو ساتھ لے کر ان کے یہاں ان میں صلح کرانے کے لیے گئے اور نماز کا وقت ہوگیا، لیکن آپ ﷺ تشریف نہ لاسکے۔ چناچہ بلال (رض) نے آگے بڑھ کر اذان دی، ابھی تک چونکہ آپ ﷺ تشریف نہیں لائے تھے اس لیے وہ (آپ ﷺ ہی کی ہدایت کے مطابق) ابوبکر (رض) کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ نبی کریم ﷺ وہیں رک گئے ہیں اور نماز کا وقت ہوگیا ہے، کیا آپ لوگوں کو نماز پڑھا دیں گے ؟ انہوں نے کہا کہ ہاں اگر تم چاہو۔ اس کے بعد بلال (رض) نے نماز کی تکبیر کہی اور ابوبکر (رض) آگے بڑھے (نماز کے درمیان) نبی کریم ﷺ صفوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے پہلی صف میں آپہنچے۔ لوگ باربار ہاتھ پر ہاتھ مارنے لگے۔ مگر ابوبکر (رض) نماز میں کسی دوسری طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے (مگر جب باربار ایسا ہوا تو) آپ متوجہ ہوئے اور معلوم کیا کہ رسول اللہ ﷺ آپ کے پیچھے ہیں۔ آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے انہیں حکم دیا کہ جس طرح وہ نماز پڑھا رہے ہیں، اسے جاری رکھیں۔ لیکن ابوبکر (رض) نے اپنا ہاتھ اٹھا کر اللہ کی حمد بیان کی اور الٹے پاؤں پیچھے آگئے اور صف میں مل گئے۔ پھر نبی کریم ﷺ آگے بڑھے اور نماز پڑھائی۔ نماز سے فارغ ہو کر آپ ﷺ لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور انہیں ہدایت کی کہ لوگو ! جب نماز میں کوئی بات پیش آتی ہے تو تم ہاتھ پر ہاتھ مارنے لگتے ہو۔ ہاتھ پر ہاتھ مارنا عورتوں کے لیے ہے (مردوں کو) جس کی نماز میں کوئی بات پیش آئے تو اسے سبحان اللہ کہنا چاہیے، کیونکہ یہ لفظ جو بھی سنے گا وہ متوجہ ہوجائے گا۔ اے ابوبکر ! جب میں نے اشارہ بھی کردیا تھا تو پھر آپ لوگوں کو نماز کیوں نہیں پڑھاتے رہے ؟ انہوں نے عرض کیا، ابوقحافہ کے بیٹے کے لیے یہ بات مناسب نہ تھی کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ہوتے ہوئے نماز پڑھائے۔

【2】

باب: لوگوں میں صلح کرانے کا ثواب۔

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے معتمر نے بیان کیا، کہا کہ میں نے اپنے باپ سے سنا اور ان سے انس (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ سے عرض کیا گیا، اگر آپ عبداللہ بن ابی (منافق) کے یہاں تشریف لے چلتے تو بہتر تھا۔ آپ ﷺ اس کے یہاں ایک گدھے پر سوار ہو کر تشریف لے گئے۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم پیدل آپ ﷺ کے ہمراہ تھے۔ جدھر سے آپ ﷺ گزر رہے تھے وہ شور زمین تھی۔ جب نبی کریم ﷺ اس کے یہاں پہنچے تو وہ کہنے لگا ذرا آپ دور ہی رہئیے آپ کے گدھے کی بو نے میرا دماغ پریشان کردیا ہے۔ اس پر ایک انصاری صحابی بولے کہ اللہ کی قسم ! رسول اللہ ﷺ کا گدھا تجھ سے زیادہ خوشبودار ہے۔ عبداللہ (منافق) کی طرف سے اس کی قوم کا ایک شخص اس صحابی کی اس بات پر غصہ ہوگیا اور دونوں نے ایک دوسرے کو برا بھلا کہا۔ پھر دونوں طرف سے دونوں کے حمایتی مشتعل ہوگئے اور ہاتھا پائی، چھڑی اور جوتے تک نوبت پہنچ گئی۔ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ یہ آیت اسی موقع پر نازل ہوئی تھی۔ وإن طائفتان من المؤمنين اقتتلوا فأصلحوا بينهما‏ اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کرا دو ۔

【3】

باب: دو آدمیوں میں میل ملاپ کرانے کے لیے جھوٹ بولنا گناہ نہیں ہے۔

ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا صالح بن کیسان سے، ان سے ابن شہاب نے، انہیں حمید بن عبدالرحمٰن نے خبر دی کہ ان کی والدہ ام کلثوم بنت عقبہ نے انہیں خبر دی اور انہوں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے سنا تھا کہ جھوٹا وہ نہیں ہے جو لوگوں میں باہم صلح کرانے کی کوشش کرے اور اس کے لیے کسی اچھی بات کی چغلی کھائے یا اسی سلسلہ کی اور کوئی اچھی بات کہہ دے۔

【4】

باب: حاکم لوگوں سے کہے ہم کو لے چلو ہم صلح کرا دیں۔

ہم سے محمد بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی اور اسحاق بن محمد فروی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، ان سے ابوحازم نے بیان کیا اور ان سے سہل بن سعد (رض) نے بیان کیا کہ قباء کے لوگوں نے آپس میں جھگڑا کیا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ ایک نے دوسرے پر پتھر پھینکے، آپ ﷺ کو جب اس کی اطلاع دی گئی تو آپ ﷺ نے فرمایا چلو ہم ان میں صلح کرائیں گے۔

【5】

باب: اللہ کا یہ فرمان (سورۃ نساء میں) اگر میاں بیوی صلح کر لیں تو صلح ہی بہتر ہے۔

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا ہشام بن عروہ سے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے (اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تفسیر میں فرمایا) وإن امرأة خافت من بعلها نشوزا أو إعراضا‏ اگر کوئی عورت اپنے شوہر کی طرف سے بےتوجہی دیکھے۔ تو اس سے مراد ایسا شوہر ہے جو اپنی بیوی میں ایسی چیزیں پائے جو اسے پسند نہ ہوں، عمر کی زیادتی وغیرہ اور اس لیے اسے اپنے سے جدا کرنا چاہتا ہو اور عورت کہے کہ مجھے جدا نہ کرو (نفقہ وغیرہ) جس طرح تم چاہو دیتے رہنا، تو انہوں نے فرمایا کہ اگر دونوں اس پر راضی ہوجائیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔

【6】

باب: اگر ظلم کی بات پر صلح کریں تو وہ صلح لغو ہے۔

ہم سے آدم نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن ابی ذئب نے بیان کیا، کہا ہم سے زہری نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ نے اور ان سے ابوہریرہ اور زید بن خالد جہنی (رض) نے بیان کیا کہ ایک دیہاتی آیا اور عرض کیا، یا رسول اللہ ! ہمارے درمیان کتاب اللہ سے فیصلہ کر دیجئیے۔ دوسرے فریق نے بھی یہی کہا کہ اس نے سچ کہا ہے۔ آپ ہمارا فیصلہ کتاب اللہ کے مطابق کردیں۔ دیہاتی نے کہا کہ میرا لڑکا اس کے یہاں مزدور تھا۔ پھر اس نے اس کی بیوی سے زنا کیا۔ قوم نے کہا تمہارے لڑکے کو رجم کیا جائے گا، لیکن میں نے اپنے لڑکے کے اس جرم کے بدلے میں سو بکریاں اور ایک باندی دے دی، پھر میں نے علم والوں سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ اس کے سوا کوئی صورت نہیں کہ تمہارے لڑکے کو سو کوڑے لگائے جائیں اور ایک سال کے لیے ملک بدر کردیا جائے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا میں تمہارا فیصلہ کتاب اللہ ہی سے کروں گا۔ باندی اور بکریاں تو تمہیں واپس لوٹا دی جاتی ہیں، البتہ تمہارے لڑکے کو سو کوڑے لگائے جائیں گے اور ایک سال کے لیے ملک بدر کیا جائے گا اور انیس تم (یہ قبیلہ اسلم کے صحابی تھے) اس عورت کے گھر جاؤ اور اسے رجم کر دو (اگر وہ زنا کا اقرار کرلے) چناچہ انیس گئے، اور (چونکہ اس نے بھی زنا کا اقرار کرلیا تھا اس لیے) اسے رجم کردیا۔

【7】

باب: اگر ظلم کی بات پر صلح کریں تو وہ صلح لغو ہے۔

ہم سے یعقوب نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ نے بیان کیا، ان سے قاسم بن محمد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے ہمارے دین میں از خود کوئی ایسی چیز نکالی جو اس میں نہیں تھی تو وہ رد ہے۔ اس کی روایت عبداللہ بن جعفر مخرمی اور عبدالواحد بن ابی عون نے سعد بن ابراہیم سے کی ہے۔

【8】

باب: صلح نامہ میں لکھنا کافی ہے یہ وہ صلح نامہ ہے جس پر فلاں ولد فلاں اور فلاں ولد فلاں نے صلح کی اور خاندان اور نسب نامہ لکھنا ضروری نہیں ہے۔

ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق نے بیان کیا، انہوں نے براء بن عازب (رض) سے سنا، آپ نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ ﷺ نے حدیبیہ کی صلح (قریش سے) کی تو اس کی دستاویز علی (رض) نے لکھی تھی۔ انہوں نے اس میں لکھا محمد اللہ کے رسول ( ﷺ ) کی طرف سے۔ مشرکین نے اس پر اعتراض کیا کہ لفظ محمد کے ساتھ رسول اللہ نہ لکھو، اگر آپ رسول اللہ ہوتے تو ہم آپ سے لڑتے ہی کیوں ؟ آپ ﷺ نے علی (رض) سے فرمایا رسول اللہ کا لفظ مٹا دو ، علی (رض) نے کہا کہ میں نے کہا کہ میں تو اسے نہیں مٹا سکتا، تو آپ ﷺ نے خود اپنے ہاتھ سے وہ لفظ مٹا دیا اور مشرکین کے ساتھ اس شرط پر صلح کی کہ آپ اپنے اصحاب کے ساتھ (آئندہ سال) تین دن کے لیے مکہ آئیں اور ہتھیار میان میں رکھ کر داخل ہوں، شاگردوں نے پوچھا کہ جلبان السلاح (جس کا یہاں ذکر ہے) کیا چیز ہوتی ہے ؟ تو انہوں نے بتایا کہ میان اور جو چیز اس کے اندر ہوتی ہے (اس کا نام جلبان ہے) ۔

【9】

باب: صلح نامہ میں لکھنا کافی ہے یہ وہ صلح نامہ ہے جس پر فلاں ولد فلاں اور فلاں ولد فلاں نے صلح کی اور خاندان اور نسب نامہ لکھنا ضروری نہیں ہے۔

ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا اسرائیل سے، ان سے ابواسحاق نے اور ان سے براء بن عازب (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ذی قعدہ کے مہینے میں عمرہ کا احرام باندھا۔ لیکن مکہ والوں نے آپ ﷺ کو شہر میں داخل نہیں ہونے دیا۔ آخر صلح اس پر ہوئی کہ (آئندہ سال) آپ ﷺ مکہ میں تین روز قیام کریں گے۔ جب صلح نامہ لکھا جانے لگا تو اس میں لکھا گیا کہ یہ وہ صلح نامہ ہے جو محمد رسول اللہ ﷺ نے کیا ہے۔ لیکن مشرکین نے کہا کہ ہم تو اسے نہیں مانتے۔ اگر ہمیں علم ہوجائے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو ہم آپ کو نہ روکیں۔ بس آپ صرف محمد بن عبداللہ ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں رسول اللہ بھی ہوں اور محمد بن عبداللہ بھی ہوں۔ اس کے بعد آپ نے علی (رض) سے فرمایا کہ رسول اللہ کا لفظ مٹا دو ، انہوں نے عرض کیا نہیں اللہ کی قسم ! میں تو یہ لفظ کبھی نہ مٹاؤں گا۔ آخر آپ ﷺ نے خود دستاویز لی اور لکھا کہ یہ اس کی دستاویز ہے کہ محمد بن عبداللہ نے اس شرط پر صلح کی ہے کہ مکہ میں وہ ہتھیار میان میں رکھے بغیر داخل نہ ہوں گے۔ اگر مکہ کا کوئی شخص ان کے ساتھ جانا چاہے گا تو وہ اسے ساتھ نہ لے جائیں گے۔ لیکن اگر ان کے اصحاب میں سے کوئی شخص مکہ میں رہنا چاہے گا تو اسے وہ نہ روکیں گے۔ جب (آئندہ سال) آپ ﷺ مکہ تشریف لے گئے اور (مکہ میں قیام کی) مدت پوری ہوگئی تو قریش علی (رض) کے پاس آئے اور کہا کہ اپنے صاحب سے کہئے کہ مدت پوری ہوگئی ہے اور اب وہ ہمارے یہاں سے چلے جائیں۔ چناچہ نبی کریم ﷺ مکہ سے روانہ ہونے لگے۔ اس وقت حمزہ (رض) کی ایک بچی چچا چچا کرتی آئیں۔ علی (رض) نے انہیں اپنے ساتھ لے لیا، پھر فاطمہ (رض) کے پاس ہاتھ پکڑ کر لائے اور فرمایا، اپنی چچا زاد بہن کو بھی ساتھ لے لو، انہوں نے اس کو اپنے ساتھ سوار کرلیا، پھر علی، زید اور جعفر رضی اللہ عنہم کا جھگڑا ہوا۔ علی (رض) نے فرمایا کہ اس کا میں زیادہ مستحق ہوں، یہ میرے چچا کی بچی ہے۔ جعفر (رض) نے فرمایا کہ یہ میرے بھی چچا کی بچی ہے اور اس کی خالہ میرے نکاح میں بھی ہیں۔ زید (رض) نے فرمایا کہ میرے بھائی کی بچی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے بچی کی خالہ کے حق میں فیصلہ کیا اور فرمایا کہ خالہ ماں کی جگہ ہوتی ہے، پھر علی (رض) سے فرمایا کہ تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں۔ جعفر (رض) سے فرمایا کہ تم صورت اور عادات و اخلاق سب میں مجھ سے مشابہ ہو۔ زید (رض) سے فرمایا کہ تم ہمارے بھائی بھی ہو اور ہمارے مولا بھی۔

【10】

None

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح حدیبیہ مشرکین کے ساتھ تین شرائط پر کی تھی، ( 1 ) یہ کہ مشرکین میں سے اگر کوئی آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے واپس کر دیں گے۔ لیکن اگر مسلمانوں میں سے کوئی مشرکین کے یہاں پناہ لے گا تو یہ لوگ ایسے شخص کو واپس نہیں کریں گے۔ ( 2 ) یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آئندہ سال مکہ آ سکیں گے اور صرف تین دن ٹھہریں گے۔ ( 3 ) یہ کہ ہتھیار، تلوار، تیر وغیرہ نیام اور ترکش میں ڈال کر ہی مکہ میں داخل ہوں گے۔ چنانچہ ابوجندل رضی اللہ عنہ ( جو مسلمان ہو گئے تھے اور قریش نے ان کو قید کر رکھا تھا ) بیڑیوں کو گھسیٹتے ہوئے آئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ( شرائط معاہدہ کے مطابق ) مشرکوں کو واپس کر دیا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ مؤمل نے سفیان سے ابوجندل کا ذکر نہیں کیا ہے اور «إلا بجلبان السلاح» کے بجائے «إلا بجلب السلاح‏.» کے الفاظ نقل کیے ہیں۔

【11】

باب: مشرکین کے ساتھ صلح کرنے کا بیان۔

ہم سے محمد بن رافع نے بیان کیا، کہا ہم سے شریح بن نعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے فلیح نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ عمرہ کا احرام باندھ کر نکلے، تو کفار قریش نے آپ ﷺ کو بیت اللہ جانے سے روک دیا۔ اس لیے آپ ﷺ نے قربانی کا جانور حدیبیہ میں ذبح کردیا اور سر بھی وہیں منڈوا لیا اور کفار مکہ سے آپ ﷺ نے اس شرط پر صلح کی تھی کہ آپ ﷺ آئندہ سال عمرہ کرسکیں گے۔ تلواروں کے سوا اور کوئی ہتھیار ساتھ نہ لائیں گے۔ (اور وہ بھی نیام میں ہوں گی) اور قریش جتنے دن چاہیں گے اس سے زیادہ مکہ میں نہ ٹھہر سکیں گے۔ (یعنی تین دن) چناچہ آپ ﷺ نے آئندہ سال عمرہ کیا اور شرائط کے مطابق آپ ﷺ مکہ میں داخل ہوئے، پھر جب تین دن گزر چکے تو قریش نے مکے سے چلے جانے کے لیے کہا اور آپ ﷺ وہاں سے واپس چلے آئے۔

【12】

باب: مشرکین کے ساتھ صلح کرنے کا بیان۔

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے بشر نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے بشیر بن یسار نے اور ان سے سہل بن ابی حثمہ (رض) نے بیان کیا کہ عبداللہ بن سہل اور محیصہ بن مسعود بن زید (رض) خیبر گئے۔ خیبر کے یہودیوں سے مسلمانوں کی ان دنوں صلح تھی۔

【13】

باب: دیت پر صلح کرنا (یعنی قصاص معاف کر کے دیت پر راضی ہو جانا)۔

ہم سے محمد بن عبداللہ انصاری نے بیان کیا، کہا مجھ سے حمید نے بیان کیا اور ان سے انس (رض) نے بیان کیا کہ نضر کی بیٹی ربیع (رض) نے ایک لڑکی کے دانت توڑ دئیے۔ اس پر لڑکی والوں نے تاوان مانگا اور ان لوگوں نے معافی چاہی، لیکن معاف کرنے سے انہوں نے انکار کیا۔ چناچہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے بدلہ لینے کا حکم دیا۔ (یعنی ان کا بھی دانت توڑ دیا جائے) انس بن نضر (رض) نے عرض کیا، یا رسول اللہ ! ربیع کا دانت کس طرح توڑا جاسکے گا۔ نہیں اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے، اس کا دانت نہیں توڑا جائے گا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا انس ! کتاب اللہ کا فیصلہ تو بدلہ لینے (قصاص) ہی کا ہے۔ چناچہ یہ لوگ راضی ہوگئے اور معاف کردیا۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کے کچھ بندے ایسے بھی ہیں کہ اگر وہ اللہ کی قسم کھا لیں تو اللہ تعالیٰ خود ان کی قسم پوری کرتا ہے۔ فزاری نے (اپنی روایت میں) حمید سے، اور انہوں نے انس (رض) سے یہ زیادتی نقل کی ہے کہ وہ لوگ راضی ہوگئے اور تاوان لے لیا۔

【14】

باب: حسن بن علی رضی اللہ عنہما کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ میرا یہ بیٹا ہے مسلمانوں کا سردار ہے اور شاید اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں میں صلح کرا دے۔

ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے ابوموسیٰ نے بیان کیا کہ میں نے امام حسن بصری سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ قسم اللہ کی جب حسن بن علی (رض) (معاویہ (رض) کے مقابلے میں) پہاڑوں میں لشکر لے کر پہنچے، تو عمرو بن العاص (رض) نے کہا (جو امیر معاویہ (رض) کے مشیر خاص تھے) کہ میں ایسا لشکر دیکھ رہا ہوں جو اپنے مقابل کو نیست و نابود کیے بغیر واپس نہ جائے گا۔ معاویہ (رض) نے اس پر کہا اور قسم اللہ کی، وہ ان دونوں اصحاب میں زیادہ اچھے تھے، کہ اے عمرو ! اگر اس لشکر نے اس لشکر کو قتل کردیا، یا اس نے اس کو قتل کردیا، تو (اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں) لوگوں کے امور (کی جواب دہی کے لیے) میرے ساتھ کون ذمہ داری لے گا، لوگوں کی بیوہ عورتوں کی خبرگیری کے سلسلے میں میرے ساتھ کون ذمہ دار ہوگا۔ لوگوں کی آل اولاد کے سلسلے میں میرے ساتھ کون ذمہ دار ہوگا۔ آخر معاویہ (رض) نے حسن (رض) کے یہاں قریش کی شاخ بنو عبد شمس کے دو آدمی بھیجے۔ عبدالرحمٰن بن سمرہ اور عبداللہ بن عامر بن کریز، آپ نے ان دونوں سے فرمایا کہ حسن بن علی (رض) کے یہاں جاؤ اور ان کے سامنے صلح پیش کرو، ان سے اس پر گفتگو کرو اور فیصلہ انہیں کی مرضی پر چھوڑ دو ۔ چناچہ یہ لوگ آئے اور آپ سے گفتگو کی اور فیصلہ آپ ہی کی مرضی پر چھوڑ دیا۔ حسن بن علی (رض) نے فرمایا، ہم بنو عبدالمطلب کی اولاد ہیں اور ہم کو خلافت کی وجہ سے روپیہ پیسہ خرچ کرنے کی عادت ہوگئی ہے اور ہمارے ساتھ یہ لوگ ہیں، یہ خون خرابہ کرنے میں طاق ہیں، بغیر روپیہ دئیے ماننے والے نہیں۔ وہ کہنے لگے امیر معاویہ (رض) آپ کو اتنا اتنا روپیہ دینے پر راضی ہیں اور آپ سے صلح چاہتے ہیں۔ فیصلہ آپ کی مرضی پر چھوڑا ہے اور آپ سے پوچھا ہے۔ حسن (رض) نے فرمایا کہ اس کی ذمہ داری کون لے گا ؟ ان دونوں قاصدوں نے کہا کہ ہم اس کے ذمہ دار ہیں۔ حسن نے جس چیز کے متعلق بھی پوچھا، تو انہوں نے یہی کہا کہ ہم اس کے ذمہ دار ہیں۔ آخر آپ نے صلح کرلی، پھر فرمایا کہ میں نے ابوبکرہ (رض) سے سنا تھا، وہ بیان کرتے تھے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو منبر پر یہ فرماتے سنا ہے اور حسن بن علی (رض) آپ ﷺ کے پہلو میں تھے، آپ ﷺ کبھی لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے اور کبھی حسن (رض) کی طرف اور فرماتے کہ میرا یہ بیٹا سردار ہے اور شاید اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے دو عظیم گروہوں میں صلح کرائے گا۔ امام بخاری (رح) نے کہا مجھ سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا کہ ہمارے نزدیک اس حدیث سے حسن بصری کا ابوبکرہ (رض) سے سننا ثابت ہوا ہے۔

【15】

باب: کیا امام صلح کے لیے فریقین کو اشارہ کر سکتا ہے؟

ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے بھائی عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے سلیمان بن ہلال نے، ان سے یحییٰ بن سعید نے، ان سے ابوالرجال، محمد بن عبدالرحمٰن نے، ان سے ان کی والدہ عمرہ بنت عبدالرحمٰن نے بیان کیا کہ میں نے عائشہ (رض) سے سنا، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے دروازے پر دو جھگڑا کرنے والوں کی آواز سنی جو بلند ہوگئی تھی۔ واقعہ یہ تھا کہ ایک آدمی دوسرے سے قرض میں کچھ کمی کرنے اور تقاضے میں کچھ نرمی برتنے کے لیے کہہ رہا تھا اور دوسرا کہتا تھا کہ اللہ کی قسم ! میں یہ نہیں کروں گا۔ آخر رسول اللہ ﷺ ان کے پاس گئے اور فرمایا کہ اس بات پر اللہ کی قسم کھانے والے صاحب کہاں ہیں ؟ کہ وہ ایک اچھا کام نہیں کریں گے۔ ان صحابی نے عرض کیا، میں ہی ہوں یا رسول اللہ ! اب میرا بھائی جو چاہتا ہے وہی مجھ کو بھی پسند ہے۔

【16】

باب: کیا امام صلح کے لیے فریقین کو اشارہ کر سکتا ہے؟

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے جعفر بن ربیعہ نے، ان سے اعرج نے بیان کیا کہ مجھ سے عبداللہ بن کعب بن مالک نے بیان کیا اور ان سے کعب بن مالک (رض) نے کہ عبداللہ بن حدرد اسلمی (رض) پر ان کا قرض تھا، ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے ان کا پیچھا کیا، (آخر تکرار میں) دونوں کی آواز بلند ہوگئی۔ نبی کریم ﷺ ادھر سے گزرے تو آپ ﷺ نے فرمایا، اے کعب ! اور اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا، جیسے آپ کہہ رہے ہوں کہ آدھا (قرض کم کر دے) چناچہ انہوں نے آدھا قرض چھوڑ دیا اور آدھا لیا۔

【17】

باب: لوگوں میں آپس میں ملاپ کرانے اور انصاف کرنے کی فضیلت کا بیان۔

ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدالرزاق نے خبر دی، کہا ہم کو معمر نے خبر دی ہمام سے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا انسان کے بدن کے (تین سو ساٹھ جوڑوں میں سے) ہر جوڑ پر ہر اس دن کا صدقہ واجب ہے جس میں سورج طلوع ہوتا ہے اور لوگوں کے درمیان انصاف کرنا بھی ایک صدقہ ہے۔

【18】

باب: اگر حاکم صلح کرنے کے لیے اشارہ کرے اور کوئی فریق نہ مانے تو قاعدے کا حکم دے دے۔

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، انہیں عروہ بن زبیر نے خبر دی کہ زبیر (رض) بیان کرتے تھے کہ ان میں اور ایک انصاری صحابی میں جو بدر کی لڑائی میں بھی شریک تھے، مدینہ کی پتھریلی زمین کی نالی کے بارے میں جھگڑا ہوا۔ وہ اپنا مقدمہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لے گئے۔ دونوں حضرات اس نالے سے (اپنے باغ) سیراب کیا کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، زبیر ! تم پہلے سیراب کرلو، پھر اپنے پڑوسی کو بھی سیراب کرنے دو ، اس پر انصاری کو غصہ آگیا اور کہا، یا رسول اللہ ! اس وجہ سے کہ یہ آپ کی پھوپھی کے لڑکے ہیں۔۔ اس پر رسول اللہ ﷺ کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور آپ ﷺ نے فرمایا، اے زبیر ! تم سیراب کرو اور پانی کو (اپنے باغ میں) اتنی دیر تک آنے دو کہ دیوار تک چڑھ جائے۔ اس مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے زبیر (رض) کو ان کا پورا حق عطا فرمایا، اس سے پہلے آپ ﷺ نے ایسا فیصلہ کیا تھا، جس میں زبیر (رض) اور انصاری صحابی دونوں کی رعایت تھی۔ لیکن جب انصاری نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ دلایا تو آپ ﷺ نے زبیر (رض) کو قانون کے مطابق پورا حق عطا فرمایا۔ عروہ نے بیان کیا کہ زبیر (رض) نے بیان کیا، قسم اللہ کی ! میرا خیال ہے کہ یہ آیت فلا وربک لا يؤمنون حتى يحكموک فيما شجر بينهم‏ اسی واقعہ پر نازل ہوئی تھی پس ہرگز نہیں ! تیرے رب کی قسم، یہ لوگ اس وقت تک مومن نہ ہوں گے جب تک اپنے اختلافات میں آپ ﷺ کے فیصلے کو دل و جان سے تسلیم نہ کرلیں ۔

【19】

باب: میت کے قرض خواہوں اور وارثوں میں صلح کا بیان اور قرض کا اندازہ سے ادا کرنا۔

مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوہاب نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ نے بیان کیا، ان سے وہب بن کیسان نے اور ان سے جابر بن عبداللہ (رض) نے بیان کیا کہ میرے والد جب شہید ہوئے تو ان پر قرض تھا۔ میں نے ان کے قرض خواہوں کے سامنے یہ صورت رکھی کہ قرض کے بدلے میں وہ (اس سال کی کھجور کے) پھل لے لیں۔ انہوں نے اس سے انکار کیا، کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اس سے قرض پورا نہیں ہو سکے گا، میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ ﷺ سے اس کا ذکر کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب پھل توڑ کر مربد (وہ جگہ جہاں کھجور خشک کرتے تھے) میں جمع کر دو (تو مجھے خبر دو ) چناچہ میں نے آپ ﷺ کو خبر دی۔ آپ ﷺ تشریف لائے۔ ساتھ میں ابوبکر اور عمر (رض) بھی تھے۔ آپ ﷺ وہاں کھجور کے ڈھیر پر بیٹھے اور اس میں برکت کی دعا فرمائی، پھر فرمایا کہ اب اپنے قرض خواہوں کو بلا لا اور ان کا قرض ادا کر دے، چناچہ کوئی شخص ایسا باقی نہ رہا جس کا میرے باپ پر قرض رہا اور میں نے اسے ادا نہ کردیا ہو۔ پھر بھی تیرہ وسق کھجور باقی بچ گئی۔ سات وسق عجوہ میں سے اور چھ وسق لون میں سے، یا چھ وسق عجوہ میں سے اور سات وسق لون میں سے، بعد میں میں رسول اللہ ﷺ سے مغرب کے وقت جا کر ملا اور آپ ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ ﷺ ہنسے اور فرمایا، ابوبکر اور عمر کے یہاں جا کر انہیں بھی یہ واقعہ بتادو ۔ چناچہ میں نے انہیں بتلایا، تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو کرنا تھا آپ ﷺ نے وہ کیا۔ ہمیں جبھی معلوم ہوگیا تھا کہ ایسا ہی ہوگا۔ ہشام نے وہب سے اور انہوں نے جابر سے عصر کے وقت (جابر (رض) کی حاضری کا) ذکر کیا ہے اور انہوں نے نہ ابوبکر (رض) کا ذکر کیا اور نہ ہنسنے کا، یہ بھی بیان کیا کہ (جابر (رض) نے کہا) میرے والد اپنے اوپر تیس وسق قرض چھوڑ گئے تھے اور ابن اسحاق نے وہب سے اور انہوں نے جابر (رض) سے ظہر کی نماز کا ذکر کیا ہے۔

【20】

باب: کچھ نقد دے کر قرض کے بدلے صلح کرنا۔

ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم سے عثمان بن عمر نے بیان کیا، انہیں یونس نے خبر دی اور لیث نے بیان کیا کہ مجھ سے یونس نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، انہیں عبداللہ بن کعب نے خبر دی اور انہیں کعب بن مالک (رض) نے خبر دی کہ انہوں نے ابن ابی حدرد (رض) سے اپنا قرض طلب کیا، جو ان کے ذمہ تھا۔ یہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک کا واقعہ ہے۔ مسجد کے اندر ان دونوں کی آواز اتنی بلند ہوگئی کہ رسول اللہ ﷺ نے بھی سنی۔ آپ ﷺ اس وقت اپنے حجرے میں تشریف رکھتے تھے۔ چناچہ آپ ﷺ باہر آئے اور اپنے حجرہ کا پردہ اٹھا کر کعب بن مالک (رض) کو آواز دی۔ آپ ﷺ نے پکارا اے کعب ! انہوں نے کہا یا رسول اللہ، میں حاضر ہوں۔ پھر آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے فرمایا کہ آدھا معاف کر دے۔ کعب (رض) نے کہا کہ میں نے کردیا یا رسول اللہ ! آپ ﷺ نے (ابن ابی حدرد (رض) سے) فرمایا کہ اب اٹھو اور قرض ادا کر دو ۔