41. شرطوں کا بیان
باب: اسلام میں داخل ہوتے وقت اور معاملات بیع وشراء میں کون سی شرطیں لگانا جائز ہے؟
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، انہیں عروہ بن زبیر نے خبر دی، انہوں نے خلیفہ مروان اور مسور بن مخرمہ (رض) سے سنا، یہ دونوں حضرات اصحاب رسول اللہ ﷺ سے خبر دیتے تھے کہ جب سہیل بن عمرو نے (حدیبیہ میں کفار قریش کی طرف سے معاہدہ صلح) لکھوایا تو جو شرائط نبی کریم ﷺ کے سامنے سہیل نے رکھی تھیں، ان میں یہ شرط بھی تھیں کہ ہم میں سے کوئی بھی شخص اگر آپ کے یہاں (فرار ہو کر) چلا جائے خواہ وہ آپ کے دین پر ہی کیوں نہ ہو تو آپ کو اسے ہمارے حوالہ کرنا ہوگا۔ مسلمان یہ شرط پسند نہیں کر رہے تھے اور اس پر انہیں دکھ ہوا تھا۔ لیکن سہیل نے اس شرط کے بغیر صلح قبول نہ کی۔ آخر آپ ﷺ نے اسی شرط پر صلح نامہ لکھوا لیا۔ اتفاق سے اسی دن ابوجندل (رض) کو جو مسلمان ہو کر آیا تھا (معاہدہ کے تحت بادل ناخواستہ) ان کے والد سہیل بن عمرو کے حوالے کردیا گیا۔ اسی طرح مدت صلح میں جو مرد بھی آپ ﷺ کی خدمت میں (مکہ سے بھاگ کر آیا) آپ ﷺ نے اسے ان کے حوالے کردیا۔ خواہ وہ مسلمان ہی کیوں نہ رہا ہو۔ لیکن چند ایمان والی عورتیں بھی ہجرت کر کے آگئی تھیں، ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط (رض) بھی ان میں شامل تھیں جو اسی دن (مکہ سے نکل کر) آپ ﷺ کی خدمت میں آئی تھیں، وہ جوان تھیں اور جب ان کے گھر والے آئے اور رسول اللہ ﷺ سے ان کی واپسی کا مطالبہ کیا، تو آپ ﷺ نے انہیں ان کے حوالے نہیں فرمایا، بلکہ عورتوں کے متعلق اللہ تعالیٰ (سورۃ الممتحنہ میں) ارشاد فرما چکا تھا { إذا جاء کم المؤمنات مهاجرات فامتحنوهن الله أعلم بإيمانهن } إلى قوله { ولا هم يحلون لهن }. جب مسلمان عورتیں تمہارے یہاں ہجرت کر کے پہنچیں تو پہلے تم ان کا امتحان لے لو، یوں تو ان کے ایمان کے متعلق جاننے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد تک کہ کفار و مشرکین ان کے لیے حلال نہیں ہیں الخ۔ عروہ نے کہا کہ مجھے عائشہ (رض) نے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ ہجرت کرنے والی عورتوں کا اس آیت کی وجہ سے امتحان لیا کرتے تھے { يا أيها الذين آمنوا إذا جاء کم المؤمنات مهاجرات فامتحنوهن } إلى { غفور رحيم }. اے مسلمانو ! جب تمہارے یہاں مسلمان عورتیں ہجرت کر کے آئیں تو تم ان کا امتحان لے لو غفور رحیم تک۔ عروہ نے کہا کہ عائشہ (رض) نے کہا کہ ان عورتوں میں سے جو اس شرط کا اقرار کرلیتیں تو رسول اللہ ﷺ فرماتے کہ میں نے تم سے بیعت کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف زبان سے بیعت کرتے تھے۔ قسم اللہ کی ! بیعت کرتے وقت آپ ﷺ کے ہاتھ نے کسی بھی عورت کے ہاتھ کو کبھی نہیں چھوا، بلکہ آپ ﷺ صرف زبان سے بیعت لیا کرتے تھے۔
None
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کرنے والی عورتوں کا اس آیت کی وجہ سے امتحان لیا کرتے تھے «{ يا أيها الذين آمنوا إذا جاءكم المؤمنات مهاجرات فامتحنوهن } إلى { غفور رحيم }.» ”اے مسلمانو! جب تمہارے یہاں مسلمان عورتیں ہجرت کر کے آئیں تو تم ان کا امتحان لے لو غفور رحیم تک۔“ عروہ نے کہا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ ان عورتوں میں سے جو اس شرط کا اقرار کر لیتیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ میں نے تم سے بیعت کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف زبان سے بیعت کرتے تھے۔ قسم اللہ کی! بیعت کرتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ نے کسی بھی عورت کے ہاتھ کو کبھی نہیں چھوا، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف زبان سے بیعت لیا کرتے تھے۔
باب: اسلام میں داخل ہوتے وقت اور معاملات بیع وشراء میں کون سی شرطیں لگانا جائز ہے؟
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے زیاد بن علاقہ نے بیان کیا کہ میں نے جریر (رض) سے سنا، آپ بیان کرتے تھے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے بیعت کی تو آپ ﷺ نے مجھ سے ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کرنے کی شرط پر بیعت کی تھی۔
باب: اسلام میں داخل ہوتے وقت اور معاملات بیع وشراء میں کون سی شرطیں لگانا جائز ہے؟
ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، ان سے قیس بن ابی حازم نے اور ان سے جریر بن عبداللہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ سے میں نے نماز قائم کرنے، زکوٰۃ ادا کرنے اور ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کرنے کی شرطوں کے ساتھ بیعت کی تھی۔
باب: پیوند لگانے کے بعد اگر کھجور کا درخت بیچے؟
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں نافع نے اور انہیں عبداللہ بن عمر (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے کوئی ایسا کھجور کا باغ بیچا جس کی پیوند کاری ہوچکی تھی تو اس کا پھل (اس سال کے) بیچنے والے ہی کا ہوگا۔ ہاں اگر خریدار شرط لگا دے (تو پھل سمیت بیع سمجھی جائے گی) ۔
باب: بیع میں شرطیں کرنے کا بیان۔
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ نے اور انہیں عائشہ (رض) نے خبر دی کہ بریرہ، عائشہ (رض) کے یہاں اپنی مکاتبت کے بارے میں ان سے مدد لینے کے لیے آئیں، انہوں نے ابھی تک اس معاملے میں (اپنے مالکوں کو) کچھ دیا نہیں تھا۔ عائشہ (رض) نے ان سے فرمایا کہ اپنے مالکوں کے یہاں جا کر (ان سے دریافت کرو) اگر وہ یہ صورت پسند کریں کہ تمہاری مکاتبت کی ساری رقم میں ادا کر دوں اور تمہاری ولاء میرے لیے ہوجائے تو میں ایسا کرسکتی ہوں۔ بریرہ نے اس کا تذکرہ جب اپنے مالکوں کے سامنے کیا تو انہوں نے انکار کیا اور کہا کہ وہ (عائشہ رضی اللہ عنہا) اگر چاہیں تو یہ کار ثواب تمہارے ساتھ کرسکتی ہیں لیکن ولاء تو ہمارے ہی رہے گی۔ عائشہ (رض) نے اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ تم انہیں خرید کر آزاد کر دو ، ولاء تو بہرحال اسی کی ہوتی ہے جو آزاد کر دے۔
باب: اگر بیچنے والے نے کسی خاص مقام تک سواری کی شرط لگائی تو یہ جائز ہے۔
ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، کہا ہم سے زکریا نے بیان کیا، کہا کہ میں نے عامر سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ مجھ سے جابر (رض) نے بیان کیا کہ وہ (ایک غزوہ کے موقع پر) اپنے اونٹ پر سوار آ رہے تھے، اونٹ تھک گیا تھا۔ نبی کریم ﷺ کا ادھر سے گزر ہوا تو آپ ﷺ نے اونٹ کو ایک ضرب لگائی اور اس کے حق میں دعا فرمائی، چناچہ اونٹ اتنی تیزی سے چلنے لگا کہ کبھی اس طرح نہیں چلا تھا۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ اسے ایک اوقیہ میں مجھے بیچ دو ۔ میں نے انکار کیا مگر آپ ﷺ کے اصرار پر پھر میں نے آپ ﷺ کے ہاتھ بیچ دیا، لیکن اپنے گھر تک اس پر سواری کو مستثنیٰ کرا لیا۔ پھر جب ہم (مدینہ) پہنچ گئے، تو میں نے اونٹ آپ ﷺ کو پیش کردیا اور آپ ﷺ نے اس کی قیمت بھی ادا کردی، لیکن جب میں واپس ہونے لگا تو میرے پیچھے ایک صاحب کو مجھے بلانے کے لیے بھیجا (میں حاضر ہوا تو) آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں تمہارا اونٹ کوئی لے تھوڑا ہی رہا تھا، اپنا اونٹ لے جاؤ، یہ تمہارا ہی مال ہے۔ (اور قیمت واپس نہیں لی) شعبہ نے مغیرہ کے واسطے سے بیان کیا، ان سے عامر نے اور ان سے جابر (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ تک اونٹ پر مجھے سوار ہونے کی اجازت دی تھی، اسحاق نے جریر سے بیان کیا اور ان سے مغیرہ نے کہ (جابر (رض) نے فرمایا تھا) پس میں نے اونٹ اس شرط پر بیچ دیا کہ مدینہ پہنچنے تک اس پر میں سوار رہوں گا۔ عطاء وغیرہ نے بیان کیا کہ (رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا) اس پر مدینہ تک کی سواری تمہاری ہے۔ محمد بن منکدر نے جابر (رض) سے بیان کیا کہ انہوں نے مدینہ تک سواری کی شرط لگائی تھی۔ زید بن اسلم نے جابر (رض) کے واسطہ سے بیان کیا کہ (رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا) مدینہ تک اس پر تم ہی رہو گے۔ ابوالزبیر نے جابر (رض) سے بیان کیا کہ مدینہ تک کی سواری کی آپ ﷺ نے مجھے اجازت دی تھی۔ اعمش نے سالم سے بیان کیا اور ان سے جابر (رض) نے کہ (رسول اللہ ﷺ نے فرمایا) اپنے گھر تک تم اسی پر سوار ہو کے جاؤ۔ عبیداللہ اور ابن اسحاق نے وہب سے بیان کیا اور ان سے جابر (رض) نے کہ اونٹ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اوقیہ میں خریدا تھا۔ اس روایت کی متابعت زید بن اسلم نے جابر (رض) سے کی ہے۔ ابن جریج نے عطاء وغیرہ سے بیان کیا اور ان سے جابر (رض) نے (کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا) میں تمہارا یہ اونٹ چار دینار میں لیتا ہوں، اس حساب سے کہ ایک دینار دس درہم کا ہوتا ہے، چار دینار کا ایک اوقیہ ہوگا۔ مغیرہ نے شعبی کے واسطہ سے اور انہوں نے جابر (رض) سے (ان کی روایت میں اور) اسی طرح ابن المنکدر اور ابوالزبیر نے جابر (رض) سے اپنی روایت میں قیمت کا ذکر نہیں کیا ہے۔ اعمش نے سالم سے اور انہوں نے جابر (رض) سے اپنی روایت میں ایک اوقیہ سونے کی وضاحت کی ہے۔ ابواسحاق نے سالم سے اور انہوں نے جابر (رض) سے اپنی روایت میں دو سو درہم بیان کیے ہیں اور داود بن قیس نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ بن مقسم نے اور ان سے جابر (رض) نے کہ آپ ﷺ نے اونٹ تبوک کے راستے میں (غزوہ سے واپس ہوتے ہوئے) خریدا تھا۔ میرا خیال ہے کہ انہوں نے کہا کہ چار اوقیہ میں (خریدا تھا) ابونضرہ نے جابر (رض) سے روایت میں بیان کیا کہ بیس دینار میں خریدا تھا۔ شعبی کے بیان کے مطابق ایک اوقیہ ہی زیادہ روایتوں میں ہے۔ اسی طرح شرط لگانا بھی زیادہ روایتوں سے ثابت ہے اور میرے نزدیک صحیح بھی یہی ہے، یہ ابوعبداللہ (امام بخاری (رح)) نے فرمایا۔
باب: معاملات میں شرطیں لگانے کا بیان۔
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی۔ ان سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ انصار رضوان اللہ علیہم نے نبی کریم ﷺ کے سامنے (مؤاخات کے بعد) یہ پیش کش کی کہ ہمارے کھجور کے باغات آپ ہم میں اور ہمارے بھائیوں (مہاجرین) میں تقسیم فرما دیں، لیکن آپ ﷺ نے فرمایا کہ نہیں۔ اس پر انصار نے مہاجرین سے کہا کہ آپ لوگ ہمارے باغوں کے کام کردیا کریں اور ہمارے ساتھ پھل میں شریک ہوجائیں، مہاجرین نے کہا کہ ہم نے سن لیا اور ہم ایسا ہی کریں گے۔
باب: معاملات میں شرطیں لگانے کا بیان۔
ہم سے موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے جویریہ بن اسماء نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ (رض) نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کی زمین یہودیوں کو اس شرط پر دی تھی کہ اس میں کام کریں اور اسے بوئیں تو آدھی پیداوار انہیں دی جایا کرے گی۔
باب: نکاح کے وقت مہر کی شرطیں۔
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے یزید بن ابی حبیب نے بیان کیا، ان سے ابوالخیر نے اور ان سے عقبہ بن عامر (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وہ شرطیں جن کے ذریعہ تم نے عورتوں کی شرمگاہوں کو حلال کیا ہے، پوری کی جانے کی سب سے زیادہ مستحق ہیں۔
باب: مزارعت کی شرطیں جو جائز ہیں۔
ہم سے مالک بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن عیینہ نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ میں نے حنظلہ زرقی سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے رافع بن خدیج (رض) سے سنا، آپ بیان کرتے تھے کہ ہم اکثر انصار کاشتکاری کیا کرتے تھے اور ہم زمین بٹائی پر دیتے تھے۔ اکثر ایسا ہوتا کہ کسی کھیت کے ایک ٹکڑے میں پیداوار ہوتی اور دوسرے میں نہ ہوتی، اس لیے ہمیں اس سے منع کردیا گیا۔ لیکن چاندی (روپے وغیرہ) کے لگان سے منع نہیں کیا گیا۔
باب: جو شرطیں نکاح میں جائز نہیں ان کا بیان۔
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، ان سے معمر نے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے سعید نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کوئی شہری کسی دیہاتی کا مال تجارت نہ بیچے۔ کوئی شخص نجش نہ کرے اور نہ اپنے بھائی کی لگائی ہوئی قیمت پر بھاؤ بڑھائے۔ نہ کوئی شخص اپنے کسی بھائی کے پیغام نکاح کی موجودگی میں اپنا پیغام بھیجے اور نہ کوئی عورت (کسی مرد سے) اپنی بہن کی طلاق کا مطالبہ کرے (جو اس مرد کے نکاح میں ہو) تاکہ اس طرح اس کا حصہ بھی خود لے لے۔
باب: جو شرطیں حدود اللہ میں جائز نہیں ہیں ان کا بیان۔
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے اور ان سے ابوہریرہ اور زید بن خالد جہنی (رض) نے بیان کیا کہ ایک دیہاتی صحابی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ یا رسول اللہ ! میں آپ سے اللہ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ آپ میرا فیصلہ کتاب اللہ سے کردیں۔ دوسرے فریق نے جو اس سے زیادہ سمجھ دار تھا، کہا کہ جی ہاں ! کتاب اللہ سے ہی ہمارا فیصلہ فرمائیے، اور مجھے (اپنا مقدمہ پیش کرنے کی) اجازت دیجئیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ پیش کر۔ اس نے بیان کرنا شروع کیا کہ میرا بیٹا ان صاحب کے یہاں مزدور تھا۔ پھر اس نے ان کی بیوی سے زنا کرلیا، جب مجھے معلوم ہوا کہ (زنا کی سزا میں) میرا لڑکا رجم کردیا جائے گا تو میں نے اس کے بدلے میں سو بکریاں اور ایک باندی دی، پھر علم والوں سے اس کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ میرے لڑکے کو (زنا کی سزا میں کیونکہ وہ غیر شادی شدہ تھا) سو کوڑے لگائے جائیں گے اور ایک سال کے لیے شہر بدر کردیا جائے گا۔ البتہ اس کی بیوی رجم کردی جائے گی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں تمہارا فیصلہ کتاب اللہ ہی سے کروں گا۔ باندی اور بکریاں تمہیں واپس ملیں گی اور تمہارے بیٹے کو سو کوڑے لگائے جائیں گے اور ایک سال کے لیے جلا وطن کیا جائے گا۔ اچھا انیس ! تم اس عورت کے یہاں جاؤ، اگر وہ بھی (زنا کا) اقرار کرلے، تو اسے رجم کر دو (کیونکہ وہ شادی شدہ تھی) بیان کیا کہ انیس (رض) اس عورت کے یہاں گئے اور اس نے اقرار کرلیا، اس لیے رسول اللہ ﷺ کے حکم سے وہ رجم کی گئی۔
باب: اگر مکاتب اپنی بیع پر اس لیے راضی ہو جائے کہ اسے آزاد کر دیا جائے گا تو اس کے ساتھ جو شرائط جائز ہو سکتی ہیں ان کا بیان۔
ہم سے خلاد بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالواحد بن ایمن مکی نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ نے بیان کیا کہ میں عائشہ (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے بتلایا کہ بریرہ (رض) میرے یہاں آئیں، انہوں نے کتابت کا معاملہ کرلیا تھا۔ مجھ سے کہنے لگیں کہ اے ام المؤمنین ! مجھے آپ خرید لیں، کیونکہ میرے مالک مجھے بیچنے پر آمادہ ہیں، پھر آپ مجھے آزاد کردینا۔ عائشہ (رض) نے فرمایا کہ ہاں (میں ایسا کرلوں گی) لیکن بریرہ (رض) نے پھر کہا کہ میرے مالک مجھے اسی وقت بیچیں گے جب وہ ولاء کی شرط اپنے لیے لگا لیں۔ اس پر عائشہ (رض) نے فرمایا کہ پھر مجھے ضرورت نہیں ہے۔ جب نبی کریم ﷺ نے سنا، یا آپ ﷺ کو معلوم ہوا (راوی کو شبہ تھا) تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ بریرہ (رضی اللہ عنہا) کا کیا معاملہ ہے ؟ تم انہیں خرید کر آزاد کر دو ، وہ لوگ جو چاہیں شرط لگا لیں۔ عائشہ (رض) نے کہا کہ میں نے بریرہ کو خرید کر آزاد کردیا اور اس کے مالک نے ولاء کی شرط اپنے لیے محفوظ رکھی۔ آپ ﷺ نے یہی فرمایا کہ ولاء اسی کی ہوتی ہے جو آزاد کرے (دوسرے) جو چاہیں شرط لگاتے رہیں۔
باب: طلاق کی شرطیں (جو منع ہیں)۔
ہم سے محمد بن عرعرہ نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے، ان سے عدی بن ثابت نے، ان سے ابوحازم نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے (تجارتی قافلوں کی) پیشوائی سے منع فرمایا تھا اور اس سے بھی کہ کوئی شہری کسی دیہاتی کا سامان تجارت بیچے اور اس سے بھی کہ کوئی عورت اپنی (دینی یا نسبی) بہن کے طلاق کی شرط لگائے اور اس سے کہ کوئی اپنے کسی بھائی کے بھاؤ پر بھاؤ لگائے، اسی طرح آپ ﷺ نے نجش اور تصریہ سے بھی منع فرمایا۔ محمد بن عرعرہ کے ساتھ اس حدیث کو معاذ بن معاذ اور عبدالصمد بن عبدالوارث نے بھی شعبہ سے روایت کیا ہے اور غندر اور عبدالرحمٰن بن مہدی نے یوں کہا کہ ممانعت کی گئی تھی (مجہول کے صیغے کے ساتھ) آدم بن ابی ایاس نے یوں کہا کہ ہمیں منع کیا گیا تھا نضر اور حجاج بن منہال نے یوں کہا کہ منع کیا تھا (رسول اللہ ﷺ نے) ۔
باب: لوگوں سے زبانی شرطیں طے کرنے کا بیان۔
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو ہشام بن یوسف نے خبر دی، انہیں ابن جریج نے خبر دی، کہا کہ مجھے یعلیٰ بن مسلم اور عمرو بن دینار نے خبر دی سعید بن جبیر سے اور ان میں ایک دوسرے سے زیادہ بیان کرتا ہے، ابن جریج نے کہا مجھ سے یہ حدیث یعلیٰ اور عمرو کے سوا اوروں نے بھی بیان کی، وہ سعید بن جبیر سے روایت کرتے ہیں کہ ہم ابن عباس (رض) کی خدمت میں حاضر تھے۔ انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابی بن کعب (رض) نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا خضر سے جو جا کر ملے تھے وہ موسیٰ (علیہ السلام) تھے۔ پھر آخر تک حدیث بیان کی کہ خضر (علیہ السلام) نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کیا میں آپ کو پہلے ہی نہیں بتاچکا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کرسکتے (موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف سے) پہلا سوال تو بھول کر ہوا تھا، بیچ کا شرط کے طور پر اور تیسرا جان بوجھ کر ہوا تھا۔ آپ نے خضر سے کہا تھا کہ میں جس کو بھول گیا آپ اس میں مجھ سے مواخذہ نہ کیجئے اور نہ میرا کام مشکل بنائیے۔ دونوں کو ایک لڑکا ملا جسے خضر (علیہ السلام) نے قتل کردیا وہ وہ آگے بڑھے تو انہیں ایک دیوار ملی جو گرنے والی تھی لیکن خضر (علیہ السلام) نے اسے درست کردیا۔ ابن عباس (رض) نے وراء هم ملك وراء هم کے بجائے أمامهم ملك. پڑھا ہے۔
باب: ولاء میں شرط لگانا۔
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا، انہوں نے ہشام بن عروہ سے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ میرے پاس بریرہ (رض) آئیں اور کہنے لگیں کہ میں نے اپنے مالک سے نو اوقیہ چاندی پر مکاتبت کرلی ہے، ہر سال ایک اوقیہ دینا ہوگا۔ آپ بھی میری مدد کیجئے۔ عائشہ (رض) نے فرمایا کہ اگر تمہارے مالک چاہیں تو میں ایک دم انہیں اتنی قیمت ادا کرسکتی ہوں۔ لیکن تمہاری ولاء میری ہوگی۔ بریرہ (رض) اپنے مالکوں کے یہاں گئیں اور ان سے اس صورت کا ذکر کیا لیکن انہوں نے ولاء کے لیے انکار کیا۔ جب وہ ان کے یہاں سے واپس ہوئیں تو رسول اللہ ﷺ بھی تشریف فرما تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے مالکوں کے سامنے یہ صورت رکھی تھی، لیکن وہ کہتے تھے کہ ولاء انہیں کی ہوگی۔ نبی کریم ﷺ نے بھی یہ بات سنی اور عائشہ (رض) نے آپ ﷺ کو صورت حال سے آگاہ کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تو انہیں خرید لے اور انہیں ولاء کی شرط لگانے دے۔ ولاء تو اسی کے ساتھ قائم ہوسکتی ہے جو آزاد کرے۔ چناچہ عائشہ (رض) نے ایسا ہی کیا پھر رسول اللہ ﷺ صحابہ میں گئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء کے بعد فرمایا کہ کچھ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جن کا کوئی پتہ (سند، دلیل) کتاب اللہ میں نہیں ہے ایسی کوئی بھی شرط جس کا پتہ (سند، دلیل) کتاب اللہ میں نہ ہو باطل ہے خواہ سو شرطیں کیوں نہ لگالی جائیں۔ اللہ کا فیصلہ ہی حق ہے اور اللہ کی شرطیں ہی پائیدار ہیں اور ولاء تو اسی کو ملے گی جو آزاد کرے گا۔
باب: مزارعت میں مالک نے کاشتکار سے یہ شرط لگائی کہ جب میں چاہوں گا تجھے بے دخل کر سکوں گا۔
ہم سے ابواحمد مرار بن حمویہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے محمد بن یحییٰ ابوغسان کنانی نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی نافع سے اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے کہا کہ جب ان کے ہاتھ پاؤں خیبر والوں نے توڑ ڈالے تو عمر (رض) خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے ‘ آپ (رض) نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے جب خیبر کے یہودیوں سے ان کی جائیداد کا معاملہ کیا تھا تو آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ جب تک اللہ تعالیٰ تمہیں قائم رکھے ہم بھی قائم رکھیں گے اور عبداللہ بن عمر (رض) وہاں اپنے اموال کے سلسلے میں گئے تو رات میں ان کے ساتھ مار پیٹ کا معاملہ کیا گیا جس سے ان کے پاؤں ٹوٹ گئے۔ خیبر میں ان کے سوا اور کوئی ہمارا دشمن نہیں ‘ وہی ہمارے دشمن ہیں اور انہیں پر ہمیں شبہ ہے اس لیے میں انہیں جلا وطن کردینا ہی مناسب جانتا ہوں۔ جب عمر (رض) نے اس کا پختہ ارادہ کرلیا تو بنو ابی حقیق (ایک یہودی خاندان) کا ایک شخص تھا ’ آیا اور کہا یا امیرالمؤمنین کیا آپ ہمیں جلا وطن کردیں گے حالانکہ محمد ﷺ نے ہمیں یہاں باقی رکھا تھا اور ہم سے جائیداد کا ایک معاملہ بھی کیا تھا اور اس کی ہمیں خیبر میں رہنے دینے کی شرط بھی آپ نے لگائی تھی۔ عمر (رض) نے اس پر فرمایا کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ میں رسول اللہ ﷺ کا فرمان بھول گیا ہوں۔ جب رسول اللہ ﷺ نے کہا تھا کہ تمہارا کیا حال ہوگا جب تم خیبر سے نکالے جاؤ گے اور تمہارے اونٹ تمہیں راتوں رات لیے پھریں گے۔ اس نے کہا یہ ابوالقاسم (آپ ﷺ ) کا ایک مذاق تھا۔ عمر (رض) نے فرمایا : اللہ کے دشمن ! تم نے جھوٹی بات کہی۔ چناچہ عمر (رض) نے انہیں شہر بدر کردیا اور ان کے پھلوں کی کچھ نقد قیمت کچھ مال اور اونٹ اور دوسرے سامان یعنی کجاوے اور رسیوں کی صورت میں ادا کردی۔ اس کی روایت حماد بن سلمہ نے عبیداللہ سے نقل کی ہے جیسا کہ مجھے یقین ہے نافع سے اور انہوں نے ابن عمر (رض) سے اور انہوں نے عمر (رض) سے اور انہوں نے نبی کریم ﷺ سے مختصر طور پر۔
None
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلح حدیبیہ کے موقع پر ( مکہ ) جا رہے تھے ‘ ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم راستے ہی میں تھے ‘ فرمایا خالد بن ولید قریش کے ( دو سو ) سواروں کے ساتھ ہماری نقل و حرکت کا اندازہ لگانے کے لیے مقام غمیم میں مقیم ہے ( یہ قریش کا مقدمۃ الجیش ہے ) اس لیے تم لوگ داہنی طرف سے جاؤ ‘ پس اللہ کی قسم خالد کو ان کے متعلق کچھ بھی علم نہ ہو سکا اور جب انہوں نے اس لشکر کا غبار اٹھتا ہوا دیکھا تو قریش کو جلدی جلدی خبر دینے گئے۔ ادھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چلتے رہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس گھاٹی پر پہنچے جس سے مکہ میں اترتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری بیٹھ گئی۔ صحابہ اونٹنی کو اٹھانے کیلئے حل حل کہنے لگے لیکن وہ اپنی جگہ سے نہ اٹھی۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا کہ قصواء اڑ گئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قصواء اڑی نہیں اور نہ یہ اس کی عادت ہے ‘ اسے تو اس ذات نے روک لیا جس نے ہاتھیوں ( کے لشکر ) کو ( مکہ ) میں داخل ہونے سے روک لیا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے قریش جو بھی ایسا مطالبہ رکھیں گے جس میں اللہ کی محرمات کی بڑائی ہو تو میں اس کا مطالبہ منظور کر لوں گا۔ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹنی کو ڈانٹا تو وہ اٹھ گئی۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ سے آگے نکل گئے اور حدیبیہ کے آخری کنارے ثمد ( ایک چشمہ یا گڑھا ) پر جہاں پانی کم تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑاؤ کیا۔ لوگ تھوڑا تھوڑا پانی استعمال کرنے لگے، انہوں نے پانی کو ٹھہرنے ہی نہیں دیا، سب کھینچ ڈالا۔ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیاس کی شکایت کی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ترکش میں سے ایک تیر نکال کر دیا کہ اس گڑھے میں ڈال دیں بخدا تیر گاڑتے ہی پانی انہیں سیراب کرنے کے لیے ابلنے لگا اور وہ لوگ پوری طرح سیراب ہو گئے۔ لوگ اسی حال میں تھے کہ بدیل بن ورقاء خزاعی رضی اللہ عنہ اپنی قوم خزاعہ کے کئی آدمیوں کو لے کر حاضر ہوا۔ یہ لوگ تہامہ کے رہنے والے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محرم راز بڑے خیرخواہ تھے۔ انہوں نے خبر دی کہ میں کعب بن لوئی اور عامر بن لوئی کو پیچھے چھوڑ کر آ رہا ہوں۔ جنہوں نے حدیبیہ کے پانی کے ذخیروں پر اپنا پڑاؤ ڈال دیا ہے ‘ ان کے ساتھ بکثرت دودھ دینے والی اونٹنیاں اپنے نئے نئے بچوں کے ساتھ ہیں۔ وہ آپ سے لڑیں گے اور آپ کے بیت اللہ پہنچنے میں رکاوٹ بنیں گے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہم کسی سے لڑنے نہیں آئے ہیں صرف عمرہ کے ارادے سے آئے ہیں اور واقعہ تو یہ ہے ( مسلسل لڑائیوں ) نے قریش کو بھی کمزور کر دیا ہے اور انہیں بڑا نقصان اٹھانا پڑا ہے ‘ اب اگر وہ چاہیں تو میں ایک مدت ان سے صلح کا معاہدہ کر لوں گا ‘ اس عرصہ میں وہ میرے اور عوام ( کفار مشرکین عرب ) کے درمیان نہ پڑیں پھر اگر میں کامیاب ہو جاؤں اور ( اس کے بعد ) وہ چاہیں تو اس دین ( اسلام ) میں وہ بھی داخل ہو سکتے ہیں ( جس میں اور تمام لوگ داخل ہو چکے ہوں گے ) لیکن اگر مجھے کامیابی نہیں ہوئی تو انہیں بھی آرام مل جائے گا اور اگر انہیں میری پیش کش سے انکار ہے تو اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جب تک میرا سر تن سے جدا نہیں ہو جاتا، میں اس دین کے لیے برابر لڑتا رہوں گا یا پھر اللہ تعالیٰ اسے نافذ ہی فرما دے گا۔ بدیل رضی اللہ عنہ نے کہا کہ قریش تک آپ کی گفتگو میں پہچاؤں گا چنانچہ وہ واپس ہوئے اور قریش کے یہاں پہنچے اور کہا کہ ہم تمہارے پاس اس شخص ( نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) کے یہاں سے آ رہے ہیں اور ہم نے اسے ایک بات کہتے سنا ہے ‘ اگر تم چاہو تو تمہارے سامنے اسے بیان کر سکتے ہیں۔ قریش کے بے وقوفوں نے کہا کہ ہمیں اس کی ضرورت نہیں کہ تم اس شخص کی کوئی بات ہمیں سناؤ۔ جو لوگ صائب الرائے تھے ‘ انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے جو کچھ تم نے سنا ہے ہم سے بیان کر دو۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اسے ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم ) کو یہ کہتے سنا ہے اور پھر جو کچھ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا ‘ سب بیان کر دیا۔ اس پر عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ( جو اس وقت تک کفار کے ساتھ تھے ) کھڑے ہوئے اور کہا اے قوم کے لوگو! کیا تم مجھ پر باپ کی طرح شفقت نہیں رکھتے۔ سب نے کہا کیوں نہیں ‘ ضرور رکھتے ہیں۔ عروہ نے پھر کہا کیا میں بیٹے کی طرح تمہارا خیرخواہ نہیں ہوں ‘ انہوں نے کہا کیوں نہیں۔ عروہ نے پھر کہا تم لوگ مجھ پر کسی قسم کی تہمت لگا سکتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ انہوں نے پوچھا کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ میں نے عکاظ والوں کو تمہاری مدد کے لیے کہا تھا اور جب انہوں نے انکار کیا تو میں نے اپنے گھرانے ‘ اولاد اور ان تمام لوگوں کو تمہارے پاس لا کر کھڑا کر دیا تھا جنہوں نے میرا کہنا مانا تھا؟ قریش نے کہا کیوں نہیں ( آپ کی باتیں درست ہیں ) اس کے بعد انہوں نے کہا دیکھو اب اس شخص ( نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) نے تمہارے سامنے ایک اچھی تجویز رکھی ہے ‘ اسے تم قبول کر لو اور مجھے اس کے پاس ( گفتگو ) کے لیے جانے دو ‘ سب نے کہا آپ ضرور جایئے۔ چنانچہ عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو شروع کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے بھی وہی باتیں کہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بدیل سے کہہ چکے تھے ‘ عروہ رضی اللہ عنہ نے اس وقت کہا۔ اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! بتائیے اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوم کو تباہ کر دیا تو کیا اپنے سے پہلے کسی بھی عرب کے متعلق سنا ہے کہ اس نے اپنے خاندان کا نام و نشان مٹا دیا ہو لیکن اگر دوسری بات واقع ہوئی ( یعنی ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر غالب ہوئے ) تو میں اللہ کی قسم تمہارے ساتھیوں کا منہ دیکھتا ہوں یہ مختلف جنسوں لوگ یہی کریں گے۔ اس وقت یہ سب لوگ بھاگ جائیں گے اور آپ کو تنہا چھوڑ دیں گے۔ اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ بولے «امصص بظر اللات» ۔ کیا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے بھاگ جائیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تنہا چھوڑ دیں گے۔ عروہ نے پوچھا کون صاحب ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں۔ عروہ نے کہا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تمہارا مجھ پر ایک احسان نہ ہوتا جس کا اب تک میں بدلہ نہیں دے سکا ہوں تو تمہیں ضرور جواب دیتا۔ بیان کیا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پھر گفتگو کرنے لگے اور گفتگو کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی مبارک پکڑ لیا کرتے تھے۔ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے تھے ‘ تلوار لٹکائے ہوئے اور سر پر خود پہنے۔ عروہ جب بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی مبارک کی طرف اپنا ہاتھ لے جاتے تو مغیرہ رضی اللہ عنہ تلوار کی نیام کو اس کے ہاتھ پر مارتے اور ان سے کہتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی سے اپنا ہاتھ الگ رکھ۔ عروہ رضی اللہ عنہ نے اپنا سر اٹھایا اور پوچھا یہ کون صاحب ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ مغیرہ بن شعبہ۔ عروہ نے انہیں مخاطب کر کے کہا اے دغا باز! کیا میں نے تیری دغا بازی کی سزا سے تجھ کو نہیں بچایا؟ اصل میں مغیرہ رضی اللہ عنہ ( اسلام لانے سے پہلے ) جاہلیت میں ایک قوم کے ساتھ رہے تھے پھر ان سب کو قتل کر کے ان کا مال لے لیا تھا۔ اس کے بعد ( مدینہ ) آئے اور اسلام کے حلقہ بگوش ہو گئے ( تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ان کا مال بھی رکھ دیا کہ جو چاہیں اس کے متعلق حکم فرمائیں ) لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ تیرا اسلام تو میں قبول کرتا ہوں، رہا یہ مال تو میرا اس سے کوئی واسطہ نہیں۔ کیونکہ وہ دغا بازی سے ہاتھ آیا ہے جسے میں لے نہیں سکتا ‘ پھر عروہ رضی اللہ عنہ گھور گھور کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی نقل و حرکت دیکھتے رہے۔ پھر راوی نے بیان کیا کہ قسم اللہ کی اگر کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلغم بھی تھوکا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نے اپنے ہاتھوں پر اسے لے لیا اور اسے اپنے چہرہ اور بدن پر مل لیا۔ کسی کام کا اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو اس کی بجا آوری میں ایک دوسرے پر لوگ سبقت لے جانے کی کوشش کرتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضو کرنے لگے تو ایسا معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کے پانی پر لڑائی ہو جائے گی ( یعنی ہر شخص اس پانی کو لینے کی کوشش کرتا تھا ) جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم گفتگو کرنے لگے تو سب پر خاموشی چھا جاتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کا یہ حال تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی نظر بھر کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ بھی نہیں سکتے تھے۔ خیر عروہ جب اپنے ساتھیوں سے جا کر ملے تو ان سے کہا اے لوگو! قسم اللہ کی میں بادشاہوں کے دربار میں بھی وفد لے کر گیا ہوں ‘ قیصر و کسریٰ اور نجاشی سب کے دربار میں لیکن اللہ کی قسم میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ کسی بادشاہ کے ساتھی اس کی اس درجہ تعظیم کرتے ہوں جتنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کرتے ہیں۔ قسم اللہ کی اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بلغم بھی تھوک دیا تو ان کے اصحاب نے اسے اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور اسے اپنے چہرہ اور بدن پر مل لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اگر کوئی حکم دیا تو ہر شخص نے اسے بجا لانے میں ایک دوسرے پر سبقت کی کوشش کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر وضو کیا تو ایسا معلوم ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو پر لڑائی ہو جائے گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب گفتگو شروع کی تو ہر طرف خاموشی چھا گئی۔ ان کے دلوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کا یہ عالم تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نظر بھر کر بھی نہیں دیکھ سکتے۔ انہوں نے تمہارے سامنے ایک بھلی صورت رکھی ہے ‘ تمہیں چاہئے کہ اسے قبول کر لو۔ اس پر بنو کنانہ کا ایک شخص بولا کہ اچھا مجھے بھی ان کے یہاں جانے دو ‘ لوگوں نے کہا تم بھی جا سکتے ہو۔ جب یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین کے قریب پہنچے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ فلاں شخص ہے ‘ ایک ایسی قوم کا فرد جو بیت اللہ کی قربانی کے جانوروں کی تعظیم کرتے ہیں۔ اس لیے قربانی کے جانور اس کے سامنے کر دو۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے قربانی کے جانور اس کے سامنے کر دیئے اور لبیک کہتے ہوئے اس کا استقبال کیا جب اس نے یہ منظر دیکھا تو کہنے لگا کہ سبحان اللہ قطعاً مناسب نہیں ہے کہ ایسے لوگوں کو کعبہ سے روکا جائے۔ اس کے بعد قریش میں سے ایک دوسرا شخص مکرز بن حفص نامی کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ مجھے بھی ان کے یہاں جانے دو۔ سب نے کہا کہ تم بھی جا سکتے ہو جب وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے قریب ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ مکرز ہے ایک بدترین شخص ہے۔ پھر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کرنے لگا۔ ابھی وہ گفتگو کر ہی رہا تھا کہ سہیل بن عمرو آ گیا۔ معمر نے ( سابقہ سند کے ساتھ ) بیان کیا کہ مجھے ایوب نے خبر دی اور انہیں عکرمہ نے کہ جب سہیل بن عمرو آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( نیک فالی کے طور پر ) فرمایا تمہارا معاملہ آسان ( سہل ) ہو گیا۔ معمر نے بیان کیا کہ زہری نے اپنی حدیث میں اس طرح بیان کیا تھا کہ جب سہیل بن عمرو آیا تو کہنے لگا کہ ہمارے اور اپنے درمیان ( صلح ) کی ایک تحریر لکھ لو۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کاتب کو بلوایا اور فرمایا کہ لکھو «بسم الله الرحمن الرحيم» سہیل کہنے لگا رحمن کو اللہ کی قسم میں نہیں جانتا کہ وہ کیا چیز ہے۔ البتہ تم یوں لکھ سکتے ہو «باسمك اللهم.» جیسے پہلے لکھا کرتے تھے مسلمانوں نے کہا کہ قسم اللہ کی ہمیں «بسم الله الرحمن الرحيم» کے سوا اور کوئی دوسرا جملہ نہ لکھنا چاہئے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ «باسمك اللهم.» ہی لکھنے دو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھوایا یہ محمد رسول اللہ کی طرف سے صلح نامہ کی دستاویز ہے۔ سہیل نے کہا اگر ہمیں یہ معلوم ہوتا کہ آپ رسول اللہ ہیں تو نہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کعبہ سے روکتے اور نہ آپ سے جنگ کرتے۔ آپ تو صرف اتنا لکھئے کہ ”محمد بن عبداللہ“ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ گواہ ہے کہ میں اس کا سچا رسول ہوں خواہ تم میری تکذیب ہی کرتے رہو ‘ لکھو جی ”محمد بن عبداللہ“ زہری نے بیان کیا کہ یہ سب کچھ ( نرمی اور رعایت ) صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا نتیجہ تھا ( جو پہلے بدیل رضی اللہ عنہ سے کہہ چکے تھے ) کہ قریش مجھ سے جو بھی ایسا مطالبہ کریں گے جس سے اللہ تعالیٰ کی حرمتوں کی تعظیم مقصود ہو گی تو میں ان کے مطالبے کو ضرور مان لوں گا ‘ اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سہیل سے فرمایا لیکن صلح کے لیے پہلی شرط یہ ہو گی کہ تم لوگ ہمیں بیت اللہ کے طواف کرنے کے لیے جانے دو گے۔ سہیل نے کہا قسم اللہ کی ہم ( اس سال ) ایسا نہیں ہونے دیں گے ورنہ عرب کہیں گے ہم مغلوب ہو گئے تھے ( اس لیے ہم نے اجازت دے دی ) آئندہ سال کے لیے اجازت ہے۔ چنانچہ یہ بھی لکھ لیا۔ پھر سہیل نے لکھا کہ یہ شرط بھی ( لکھ لیجئے ) کہ ہماری طرف کا جو شخص بھی آپ کے یہاں جائے گا خواہ وہ آپ کے دین ہی پر کیوں نہ ہو آپ اسے ہمیں واپس کر دیں گے۔ مسلمانوں نے ( یہ شرط سن کر کہا ) سبحان اللہ! ( ایک شخص کو ) مشرکوں کے حوالے کس طرح کیا جا سکتا ہے جو مسلمان ہو کر آیا ہو۔ ابھی یہی باتیں ہو رہی تھیں کہ ابوجندل بن سہیل بن عمرو رضی اللہ عنہ اپنی بیڑیوں کو گھسیٹتے ہوئے آ پہنچے ‘ وہ مکہ کے نشیبی علاقے کی طرف سے بھاگے تھے اور اب خود کو مسلمانوں کے سامنے ڈال دیا تھا۔ سہیل نے کہا اے محمد! یہ پہلا شخص ہے جس کے لیے ( صلح نامہ کے مطابق ) میں مطالبہ کرتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اسے واپس کر دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابھی تو ہم نے ( صلح نامہ کی اس دفعہ کو ) صلح نامہ میں لکھا بھی نہیں ہے ( اس لیے جب صلح نامہ طے پا جائے گا اس کے بعد اس کا نفاذ ہونا چاہئے ) سہیل کہنے لگا کہ اللہ کی قسم پھر میں کسی بنیاد پر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صلح نہیں کروں گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا مجھ پر اس ایک کو دے کر احسان کر دو۔ اس نے کہا کہ میں اس سلسلے میں احسان بھی نہیں کر سکتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں ہمیں احسان کر دینا چاہئے لیکن اس نے یہی جواب دیا کہ میں ایسا کبھی نہیں کر سکتا۔ البتہ مکرز نے کہا کہ چلئے ہم اس کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر احسان کرتے ہیں مگر ( اس کی بات نہیں چلی ) ابوجندل رضی اللہ عنہ نے کہا مسلمانوں! میں مسلمان ہو کر آیا ہوں۔ کیا مجھے مشرکوں کے ہاتھ میں دے دیا جائے گا؟ کیا میرے ساتھ جو اذیتیں پہنچائی گئیں تھیں۔ راوی نے بیان کیا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا آخر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا، کیا یہ واقعہ اور حقیقت نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے نبی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیوں نہیں! میں نے عرض کیا، کیا ہم حق پر نہیں ہیں اور کیا ہمارے دشمن باطل پر نہیں ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیوں نہیں! میں نے کہا پھر اپنے دین کے معاملے میں کیوں دبیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں اللہ کا رسول ہوں ‘ اس کی حکم عدولی نہیں کر سکتا اور وہی میرا مددگار ہے۔ میں نے کہا کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے یہ نہیں فرماتے تھے کہ ہم بیت اللہ جائیں گے اور اس کا طواف کریں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ٹھیک ہے لیکن کیا میں نے تم سے یہ کہا تھا کہ اسی سال ہم بیت اللہ پہنچ جائیں گے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے کہا نہیں ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قید کے ساتھ نہیں فرمایا تھا ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تم بیت اللہ تک ضرور پہنچو گے اور ایک دن اس کا طواف کرو گے۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ کے یہاں گیا اور ان سے بھی یہی پوچھا کہ ابوبکر! کیا یہ حقیقت نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے نبی ہیں؟ انہوں نے بھی کہا کہ کیوں نہیں۔ میں نے پوچھا کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ اور کیا ہمارے دشمن باطل پر نہیں ہیں؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں! میں نے کہا کہ پھر اپنے دین کو کیوں ذلیل کریں۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا جناب! بلا شک و شبہ وہ اللہ کے رسول ہیں ‘ اور اپنے رب کی حکم عدولی نہیں کر سکتے اور رب ہی ان کا مددگار ہے پس ان کی رسی مضبوطی سے پکڑ لو ‘ اللہ گواہ ہے کہ وہ حق پر ہیں۔ میں نے کہا کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے یہ نہیں کہتے تھے کہ عنقریب ہم بیت اللہ پہونچیں گے اور اس کا طواف کریں گے انہوں نے فرمایا کہ یہ بھی صحیح ہے لیکن کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے یہ فرمایا تھا کہ اسی سال آپ بیت اللہ پہنچ جائیں گے۔ میں نے کہا کہ نہیں۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا پھر اس میں بھی کوئی شک و شبہ نہیں کہ آپ ایک نہ ایک دن بیت اللہ پہنچیں گے اور اس کا طواف کریں گے۔ زہری نے بیان کیا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا بعد میں میں نے اپنی عجلت پسندی کی مکافات کے لیے نیک اعمال کئے۔ پھر جب صلح نامہ سے آپ فارغ ہو چکے تو صحابہ رضوان اللہ علیہم سے فرمایا کہ اب اٹھو اور ( جن جانوروں کو ساتھ لائے ہو ان کی ) قربانی کر لو اور سر بھی منڈوا لو۔ انہوں نے بیان کیا کہ اللہ گواہ ہے صحابہ میں سے ایک شخص بھی نہ اٹھا اور تین مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جملہ فرمایا۔ جب کوئی نہ اٹھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ام سلمہ کے خیمہ میں گئے اور ان سے لوگوں کے طرز عمل کا ذکر کیا۔ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا اے اللہ کے نبی! کیا آپ یہ پسند کریں گے کہ باہر تشریف لے جائیں اور کسی سے کچھ نہ کہیں بلکہ اپنا قربانی کا جانور ذبح کر لیں اور اپنے حجام کو بلا لیں جو آپ کے بال مونڈ دے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے۔ کسی سے کچھ نہیں کہا اور سب کچھ کیا ‘ اپنے جانور کی قربانی کر لی اور اپنے حجام کو بلوایا جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مونڈے۔ جب صحابہ نے دیکھا تو وہ بھی ایک دوسرے کے بال مونڈنے لگے ‘ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ رنج و غم میں ایک دوسرے سے لڑ پڑیں گے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ( مکہ سے ) چند مومن عورتیں آئیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا «يا أيها الذين آمنوا إذا جاءكم المؤمنات مهاجرات فامتحنوهن» اے لوگو! جو ایمان لا چکے ہو جب تمہارے پاس مومن عورتیں ہجرت کر کے آئیں تو ان کا امتحان لے «بعصم الكوافر» تک۔ اس دن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی دو بیویوں کو طلاق دی جو اب تک مسلمان نہ ہوئی تھیں۔ ان میں سے ایک نے تو معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما سے نکاح کر لیا تھا اور دوسری سے صفوان بن امیہ نے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ واپس تشریف لائے تو قریش کے ایک فرد ابوبصیر رضی اللہ عنہ ( مکہ سے فرار ہو کر ) حاضر ہوئے۔ وہ مسلمان ہو چکے تھے۔ قریش نے انہیں واپس لینے کے لیے دو آدمیوں کو بھیجا اور انہوں نے آ کر کہا کہ ہمارے ساتھ آپ کا معاہدہ ہو چکا ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبصیر رضی اللہ عنہ کو واپس کر دیا۔ قریش کے دونوں افراد جب انہیں واپس لے کر لوٹے اور ذوالحلیفہ پہنچے تو کھجور کھانے کے لیے اترے جو ان کے ساتھ تھی۔ ابوبصیر رضی اللہ عنہ نے ان میں سے ایک سے فرمایا قسم اللہ کی تمہاری تلوار بہت اچھی معلوم ہوتی ہے۔ دوسرے ساتھی نے تلوار نیام سے نکال دی۔ اس شخص نے کہا ہاں اللہ کی قسم نہایت عمدہ تلوار ہے ‘ میں اس کا بارہا تجربہ کر چکا ہوں۔ ابوبصیر رضی اللہ عنہ اس پر بولے کہ ذرا مجھے بھی تو دکھاؤ اور اس طرح اپنے قبضہ میں کر لیا پھر اس شخص نے تلوار کے مالک کو ایسی ضرب لگائی کہ وہ وہیں ٹھنڈا ہو گیا۔ اس کا دوسرا ساتھی بھاگ کر مدینہ آیا اور مسجد میں دوڑتا ہوا۔ داخل ہوا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اسے دیکھا تو فرمایا یہ شخص کچھ خوف زدہ معلوم ہوتا ہے۔ جب وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچا تو کہنے لگا اللہ کی قسم میرا ساتھی تو مارا گیا اور میں بھی مارا جاؤں گا ( اگر آپ لوگوں نے ابوبصیر کو نہ روکا ) اتنے میں ابوبصیر بھی آ گئے اور عرض کیا اے اللہ کے نبی! اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ نے آپ کی ذمہ داری پوری کر دی ‘ آپ مجھے ان کے حوالے کر چکے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے ان سے نجات دلائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( تیری ماں کی خرابی ) اگر اس کا کوئی ایک بھی مددگار ہوتا تو پھر لڑائی کے شعلے بھڑک اٹھتے۔ جب انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ سنے تو سمجھ گئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر کفار کے حوالے کر دیں گے اس لیے وہاں سے نکل گئے اور سمندر کے کنارے پر آ گئے۔ راوی نے بیان کیا کہ اپنے گھر والوں ( مکہ سے ) چھوٹ کر ابوجندل بن سہیل رضی اللہ عنہ بھی ابوبصیر رضی اللہ عنہ سے جا ملے اور اب یہ حال تھا کہ قریش کا جو شخص بھی اسلام لاتا ( بجائے مدینہ آنے کے ) ابوبصیر رضی اللہ عنہ کے یہاں ( ساحل سمندر پر ) چلا جاتا۔ اس طرح سے ایک جماعت بن گئی اور اللہ گواہ ہے یہ لوگ قریش کے جس قافلے کے متعلق بھی سن لیتے کہ وہ شام جا رہا ہے تو اسے راستے ہی میں روک کر لوٹ لیتے اور قافلہ والوں کو قتل کر دیتے۔ اب قریش نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں اللہ اور رحم کا واسطہ دے کر درخواست بھیجی کہ آپ کسی کو بھیجیں ( ابوبصیر رضی اللہ عنہ اور ان کے دوسرے ساتھیوں کے یہاں کہ وہ قریش کی ایذا سے رک جائیں ) اور اس کے بعد جو شخص بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں جائے گا ( مکہ سے ) اسے امن ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے یہاں اپنا آدمی بھیجا اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی «وهو الذي كف أيديهم عنكم وأيديكم عنهم ببطن مكة من بعد أن أظفركم عليهم» ”اور وہ ذات پروردگار جس نے روک دیا تھا تمہارے ہاتھوں کو ان سے اور ان کے ہاتھوں کو تم سے ( یعنی جنگ نہیں ہو سکی تھی ) وادی مکہ میں ( حدیبیہ میں ) بعد میں اس کے کہ تم کو غالب کر دیا تھا ان پر یہاں تک کہ بات جاہلیت کے دور کی بے جا حمایت تک پہنچ گئی تھی ) ۔“ ان کی حمیت ( جاہلیت ) یہ تھی کہ انہوں نے ( معاہدے میں بھی ) آپ کے لیے اللہ کے نبی ہونے کا اقرار نہیں کیا اسی طرح انہوں نے «بسم الله الرحمن الرحيم» نہیں لکھنے دیا اور آپ بیت اللہ جانے سے مانع بنے۔
None
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلح حدیبیہ کے موقع پر ( مکہ ) جا رہے تھے ‘ ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم راستے ہی میں تھے ‘ فرمایا خالد بن ولید قریش کے ( دو سو ) سواروں کے ساتھ ہماری نقل و حرکت کا اندازہ لگانے کے لیے مقام غمیم میں مقیم ہے ( یہ قریش کا مقدمۃ الجیش ہے ) اس لیے تم لوگ داہنی طرف سے جاؤ ‘ پس اللہ کی قسم خالد کو ان کے متعلق کچھ بھی علم نہ ہو سکا اور جب انہوں نے اس لشکر کا غبار اٹھتا ہوا دیکھا تو قریش کو جلدی جلدی خبر دینے گئے۔ ادھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چلتے رہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس گھاٹی پر پہنچے جس سے مکہ میں اترتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری بیٹھ گئی۔ صحابہ اونٹنی کو اٹھانے کیلئے حل حل کہنے لگے لیکن وہ اپنی جگہ سے نہ اٹھی۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا کہ قصواء اڑ گئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قصواء اڑی نہیں اور نہ یہ اس کی عادت ہے ‘ اسے تو اس ذات نے روک لیا جس نے ہاتھیوں ( کے لشکر ) کو ( مکہ ) میں داخل ہونے سے روک لیا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے قریش جو بھی ایسا مطالبہ رکھیں گے جس میں اللہ کی محرمات کی بڑائی ہو تو میں اس کا مطالبہ منظور کر لوں گا۔ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹنی کو ڈانٹا تو وہ اٹھ گئی۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ سے آگے نکل گئے اور حدیبیہ کے آخری کنارے ثمد ( ایک چشمہ یا گڑھا ) پر جہاں پانی کم تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑاؤ کیا۔ لوگ تھوڑا تھوڑا پانی استعمال کرنے لگے، انہوں نے پانی کو ٹھہرنے ہی نہیں دیا، سب کھینچ ڈالا۔ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیاس کی شکایت کی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ترکش میں سے ایک تیر نکال کر دیا کہ اس گڑھے میں ڈال دیں بخدا تیر گاڑتے ہی پانی انہیں سیراب کرنے کے لیے ابلنے لگا اور وہ لوگ پوری طرح سیراب ہو گئے۔ لوگ اسی حال میں تھے کہ بدیل بن ورقاء خزاعی رضی اللہ عنہ اپنی قوم خزاعہ کے کئی آدمیوں کو لے کر حاضر ہوا۔ یہ لوگ تہامہ کے رہنے والے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محرم راز بڑے خیرخواہ تھے۔ انہوں نے خبر دی کہ میں کعب بن لوئی اور عامر بن لوئی کو پیچھے چھوڑ کر آ رہا ہوں۔ جنہوں نے حدیبیہ کے پانی کے ذخیروں پر اپنا پڑاؤ ڈال دیا ہے ‘ ان کے ساتھ بکثرت دودھ دینے والی اونٹنیاں اپنے نئے نئے بچوں کے ساتھ ہیں۔ وہ آپ سے لڑیں گے اور آپ کے بیت اللہ پہنچنے میں رکاوٹ بنیں گے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہم کسی سے لڑنے نہیں آئے ہیں صرف عمرہ کے ارادے سے آئے ہیں اور واقعہ تو یہ ہے ( مسلسل لڑائیوں ) نے قریش کو بھی کمزور کر دیا ہے اور انہیں بڑا نقصان اٹھانا پڑا ہے ‘ اب اگر وہ چاہیں تو میں ایک مدت ان سے صلح کا معاہدہ کر لوں گا ‘ اس عرصہ میں وہ میرے اور عوام ( کفار مشرکین عرب ) کے درمیان نہ پڑیں پھر اگر میں کامیاب ہو جاؤں اور ( اس کے بعد ) وہ چاہیں تو اس دین ( اسلام ) میں وہ بھی داخل ہو سکتے ہیں ( جس میں اور تمام لوگ داخل ہو چکے ہوں گے ) لیکن اگر مجھے کامیابی نہیں ہوئی تو انہیں بھی آرام مل جائے گا اور اگر انہیں میری پیش کش سے انکار ہے تو اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جب تک میرا سر تن سے جدا نہیں ہو جاتا، میں اس دین کے لیے برابر لڑتا رہوں گا یا پھر اللہ تعالیٰ اسے نافذ ہی فرما دے گا۔ بدیل رضی اللہ عنہ نے کہا کہ قریش تک آپ کی گفتگو میں پہچاؤں گا چنانچہ وہ واپس ہوئے اور قریش کے یہاں پہنچے اور کہا کہ ہم تمہارے پاس اس شخص ( نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) کے یہاں سے آ رہے ہیں اور ہم نے اسے ایک بات کہتے سنا ہے ‘ اگر تم چاہو تو تمہارے سامنے اسے بیان کر سکتے ہیں۔ قریش کے بے وقوفوں نے کہا کہ ہمیں اس کی ضرورت نہیں کہ تم اس شخص کی کوئی بات ہمیں سناؤ۔ جو لوگ صائب الرائے تھے ‘ انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے جو کچھ تم نے سنا ہے ہم سے بیان کر دو۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اسے ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم ) کو یہ کہتے سنا ہے اور پھر جو کچھ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا ‘ سب بیان کر دیا۔ اس پر عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ( جو اس وقت تک کفار کے ساتھ تھے ) کھڑے ہوئے اور کہا اے قوم کے لوگو! کیا تم مجھ پر باپ کی طرح شفقت نہیں رکھتے۔ سب نے کہا کیوں نہیں ‘ ضرور رکھتے ہیں۔ عروہ نے پھر کہا کیا میں بیٹے کی طرح تمہارا خیرخواہ نہیں ہوں ‘ انہوں نے کہا کیوں نہیں۔ عروہ نے پھر کہا تم لوگ مجھ پر کسی قسم کی تہمت لگا سکتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ انہوں نے پوچھا کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ میں نے عکاظ والوں کو تمہاری مدد کے لیے کہا تھا اور جب انہوں نے انکار کیا تو میں نے اپنے گھرانے ‘ اولاد اور ان تمام لوگوں کو تمہارے پاس لا کر کھڑا کر دیا تھا جنہوں نے میرا کہنا مانا تھا؟ قریش نے کہا کیوں نہیں ( آپ کی باتیں درست ہیں ) اس کے بعد انہوں نے کہا دیکھو اب اس شخص ( نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) نے تمہارے سامنے ایک اچھی تجویز رکھی ہے ‘ اسے تم قبول کر لو اور مجھے اس کے پاس ( گفتگو ) کے لیے جانے دو ‘ سب نے کہا آپ ضرور جایئے۔ چنانچہ عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو شروع کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے بھی وہی باتیں کہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بدیل سے کہہ چکے تھے ‘ عروہ رضی اللہ عنہ نے اس وقت کہا۔ اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! بتائیے اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوم کو تباہ کر دیا تو کیا اپنے سے پہلے کسی بھی عرب کے متعلق سنا ہے کہ اس نے اپنے خاندان کا نام و نشان مٹا دیا ہو لیکن اگر دوسری بات واقع ہوئی ( یعنی ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر غالب ہوئے ) تو میں اللہ کی قسم تمہارے ساتھیوں کا منہ دیکھتا ہوں یہ مختلف جنسوں لوگ یہی کریں گے۔ اس وقت یہ سب لوگ بھاگ جائیں گے اور آپ کو تنہا چھوڑ دیں گے۔ اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ بولے «امصص بظر اللات» ۔ کیا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے بھاگ جائیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تنہا چھوڑ دیں گے۔ عروہ نے پوچھا کون صاحب ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں۔ عروہ نے کہا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تمہارا مجھ پر ایک احسان نہ ہوتا جس کا اب تک میں بدلہ نہیں دے سکا ہوں تو تمہیں ضرور جواب دیتا۔ بیان کیا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پھر گفتگو کرنے لگے اور گفتگو کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی مبارک پکڑ لیا کرتے تھے۔ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے تھے ‘ تلوار لٹکائے ہوئے اور سر پر خود پہنے۔ عروہ جب بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی مبارک کی طرف اپنا ہاتھ لے جاتے تو مغیرہ رضی اللہ عنہ تلوار کی نیام کو اس کے ہاتھ پر مارتے اور ان سے کہتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی سے اپنا ہاتھ الگ رکھ۔ عروہ رضی اللہ عنہ نے اپنا سر اٹھایا اور پوچھا یہ کون صاحب ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ مغیرہ بن شعبہ۔ عروہ نے انہیں مخاطب کر کے کہا اے دغا باز! کیا میں نے تیری دغا بازی کی سزا سے تجھ کو نہیں بچایا؟ اصل میں مغیرہ رضی اللہ عنہ ( اسلام لانے سے پہلے ) جاہلیت میں ایک قوم کے ساتھ رہے تھے پھر ان سب کو قتل کر کے ان کا مال لے لیا تھا۔ اس کے بعد ( مدینہ ) آئے اور اسلام کے حلقہ بگوش ہو گئے ( تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ان کا مال بھی رکھ دیا کہ جو چاہیں اس کے متعلق حکم فرمائیں ) لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ تیرا اسلام تو میں قبول کرتا ہوں، رہا یہ مال تو میرا اس سے کوئی واسطہ نہیں۔ کیونکہ وہ دغا بازی سے ہاتھ آیا ہے جسے میں لے نہیں سکتا ‘ پھر عروہ رضی اللہ عنہ گھور گھور کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی نقل و حرکت دیکھتے رہے۔ پھر راوی نے بیان کیا کہ قسم اللہ کی اگر کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلغم بھی تھوکا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نے اپنے ہاتھوں پر اسے لے لیا اور اسے اپنے چہرہ اور بدن پر مل لیا۔ کسی کام کا اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو اس کی بجا آوری میں ایک دوسرے پر لوگ سبقت لے جانے کی کوشش کرتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضو کرنے لگے تو ایسا معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کے پانی پر لڑائی ہو جائے گی ( یعنی ہر شخص اس پانی کو لینے کی کوشش کرتا تھا ) جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم گفتگو کرنے لگے تو سب پر خاموشی چھا جاتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کا یہ حال تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی نظر بھر کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ بھی نہیں سکتے تھے۔ خیر عروہ جب اپنے ساتھیوں سے جا کر ملے تو ان سے کہا اے لوگو! قسم اللہ کی میں بادشاہوں کے دربار میں بھی وفد لے کر گیا ہوں ‘ قیصر و کسریٰ اور نجاشی سب کے دربار میں لیکن اللہ کی قسم میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ کسی بادشاہ کے ساتھی اس کی اس درجہ تعظیم کرتے ہوں جتنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کرتے ہیں۔ قسم اللہ کی اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بلغم بھی تھوک دیا تو ان کے اصحاب نے اسے اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور اسے اپنے چہرہ اور بدن پر مل لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اگر کوئی حکم دیا تو ہر شخص نے اسے بجا لانے میں ایک دوسرے پر سبقت کی کوشش کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر وضو کیا تو ایسا معلوم ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو پر لڑائی ہو جائے گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب گفتگو شروع کی تو ہر طرف خاموشی چھا گئی۔ ان کے دلوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کا یہ عالم تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نظر بھر کر بھی نہیں دیکھ سکتے۔ انہوں نے تمہارے سامنے ایک بھلی صورت رکھی ہے ‘ تمہیں چاہئے کہ اسے قبول کر لو۔ اس پر بنو کنانہ کا ایک شخص بولا کہ اچھا مجھے بھی ان کے یہاں جانے دو ‘ لوگوں نے کہا تم بھی جا سکتے ہو۔ جب یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین کے قریب پہنچے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ فلاں شخص ہے ‘ ایک ایسی قوم کا فرد جو بیت اللہ کی قربانی کے جانوروں کی تعظیم کرتے ہیں۔ اس لیے قربانی کے جانور اس کے سامنے کر دو۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے قربانی کے جانور اس کے سامنے کر دیئے اور لبیک کہتے ہوئے اس کا استقبال کیا جب اس نے یہ منظر دیکھا تو کہنے لگا کہ سبحان اللہ قطعاً مناسب نہیں ہے کہ ایسے لوگوں کو کعبہ سے روکا جائے۔ اس کے بعد قریش میں سے ایک دوسرا شخص مکرز بن حفص نامی کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ مجھے بھی ان کے یہاں جانے دو۔ سب نے کہا کہ تم بھی جا سکتے ہو جب وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے قریب ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ مکرز ہے ایک بدترین شخص ہے۔ پھر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کرنے لگا۔ ابھی وہ گفتگو کر ہی رہا تھا کہ سہیل بن عمرو آ گیا۔ معمر نے ( سابقہ سند کے ساتھ ) بیان کیا کہ مجھے ایوب نے خبر دی اور انہیں عکرمہ نے کہ جب سہیل بن عمرو آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( نیک فالی کے طور پر ) فرمایا تمہارا معاملہ آسان ( سہل ) ہو گیا۔ معمر نے بیان کیا کہ زہری نے اپنی حدیث میں اس طرح بیان کیا تھا کہ جب سہیل بن عمرو آیا تو کہنے لگا کہ ہمارے اور اپنے درمیان ( صلح ) کی ایک تحریر لکھ لو۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کاتب کو بلوایا اور فرمایا کہ لکھو «بسم الله الرحمن الرحيم» سہیل کہنے لگا رحمن کو اللہ کی قسم میں نہیں جانتا کہ وہ کیا چیز ہے۔ البتہ تم یوں لکھ سکتے ہو «باسمك اللهم.» جیسے پہلے لکھا کرتے تھے مسلمانوں نے کہا کہ قسم اللہ کی ہمیں «بسم الله الرحمن الرحيم» کے سوا اور کوئی دوسرا جملہ نہ لکھنا چاہئے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ «باسمك اللهم.» ہی لکھنے دو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھوایا یہ محمد رسول اللہ کی طرف سے صلح نامہ کی دستاویز ہے۔ سہیل نے کہا اگر ہمیں یہ معلوم ہوتا کہ آپ رسول اللہ ہیں تو نہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کعبہ سے روکتے اور نہ آپ سے جنگ کرتے۔ آپ تو صرف اتنا لکھئے کہ ”محمد بن عبداللہ“ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ گواہ ہے کہ میں اس کا سچا رسول ہوں خواہ تم میری تکذیب ہی کرتے رہو ‘ لکھو جی ”محمد بن عبداللہ“ زہری نے بیان کیا کہ یہ سب کچھ ( نرمی اور رعایت ) صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا نتیجہ تھا ( جو پہلے بدیل رضی اللہ عنہ سے کہہ چکے تھے ) کہ قریش مجھ سے جو بھی ایسا مطالبہ کریں گے جس سے اللہ تعالیٰ کی حرمتوں کی تعظیم مقصود ہو گی تو میں ان کے مطالبے کو ضرور مان لوں گا ‘ اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سہیل سے فرمایا لیکن صلح کے لیے پہلی شرط یہ ہو گی کہ تم لوگ ہمیں بیت اللہ کے طواف کرنے کے لیے جانے دو گے۔ سہیل نے کہا قسم اللہ کی ہم ( اس سال ) ایسا نہیں ہونے دیں گے ورنہ عرب کہیں گے ہم مغلوب ہو گئے تھے ( اس لیے ہم نے اجازت دے دی ) آئندہ سال کے لیے اجازت ہے۔ چنانچہ یہ بھی لکھ لیا۔ پھر سہیل نے لکھا کہ یہ شرط بھی ( لکھ لیجئے ) کہ ہماری طرف کا جو شخص بھی آپ کے یہاں جائے گا خواہ وہ آپ کے دین ہی پر کیوں نہ ہو آپ اسے ہمیں واپس کر دیں گے۔ مسلمانوں نے ( یہ شرط سن کر کہا ) سبحان اللہ! ( ایک شخص کو ) مشرکوں کے حوالے کس طرح کیا جا سکتا ہے جو مسلمان ہو کر آیا ہو۔ ابھی یہی باتیں ہو رہی تھیں کہ ابوجندل بن سہیل بن عمرو رضی اللہ عنہ اپنی بیڑیوں کو گھسیٹتے ہوئے آ پہنچے ‘ وہ مکہ کے نشیبی علاقے کی طرف سے بھاگے تھے اور اب خود کو مسلمانوں کے سامنے ڈال دیا تھا۔ سہیل نے کہا اے محمد! یہ پہلا شخص ہے جس کے لیے ( صلح نامہ کے مطابق ) میں مطالبہ کرتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اسے واپس کر دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابھی تو ہم نے ( صلح نامہ کی اس دفعہ کو ) صلح نامہ میں لکھا بھی نہیں ہے ( اس لیے جب صلح نامہ طے پا جائے گا اس کے بعد اس کا نفاذ ہونا چاہئے ) سہیل کہنے لگا کہ اللہ کی قسم پھر میں کسی بنیاد پر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صلح نہیں کروں گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا مجھ پر اس ایک کو دے کر احسان کر دو۔ اس نے کہا کہ میں اس سلسلے میں احسان بھی نہیں کر سکتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں ہمیں احسان کر دینا چاہئے لیکن اس نے یہی جواب دیا کہ میں ایسا کبھی نہیں کر سکتا۔ البتہ مکرز نے کہا کہ چلئے ہم اس کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر احسان کرتے ہیں مگر ( اس کی بات نہیں چلی ) ابوجندل رضی اللہ عنہ نے کہا مسلمانوں! میں مسلمان ہو کر آیا ہوں۔ کیا مجھے مشرکوں کے ہاتھ میں دے دیا جائے گا؟ کیا میرے ساتھ جو اذیتیں پہنچائی گئیں تھیں۔ راوی نے بیان کیا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا آخر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا، کیا یہ واقعہ اور حقیقت نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے نبی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیوں نہیں! میں نے عرض کیا، کیا ہم حق پر نہیں ہیں اور کیا ہمارے دشمن باطل پر نہیں ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیوں نہیں! میں نے کہا پھر اپنے دین کے معاملے میں کیوں دبیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں اللہ کا رسول ہوں ‘ اس کی حکم عدولی نہیں کر سکتا اور وہی میرا مددگار ہے۔ میں نے کہا کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے یہ نہیں فرماتے تھے کہ ہم بیت اللہ جائیں گے اور اس کا طواف کریں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ٹھیک ہے لیکن کیا میں نے تم سے یہ کہا تھا کہ اسی سال ہم بیت اللہ پہنچ جائیں گے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے کہا نہیں ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قید کے ساتھ نہیں فرمایا تھا ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تم بیت اللہ تک ضرور پہنچو گے اور ایک دن اس کا طواف کرو گے۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ کے یہاں گیا اور ان سے بھی یہی پوچھا کہ ابوبکر! کیا یہ حقیقت نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے نبی ہیں؟ انہوں نے بھی کہا کہ کیوں نہیں۔ میں نے پوچھا کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ اور کیا ہمارے دشمن باطل پر نہیں ہیں؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں! میں نے کہا کہ پھر اپنے دین کو کیوں ذلیل کریں۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا جناب! بلا شک و شبہ وہ اللہ کے رسول ہیں ‘ اور اپنے رب کی حکم عدولی نہیں کر سکتے اور رب ہی ان کا مددگار ہے پس ان کی رسی مضبوطی سے پکڑ لو ‘ اللہ گواہ ہے کہ وہ حق پر ہیں۔ میں نے کہا کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے یہ نہیں کہتے تھے کہ عنقریب ہم بیت اللہ پہونچیں گے اور اس کا طواف کریں گے انہوں نے فرمایا کہ یہ بھی صحیح ہے لیکن کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے یہ فرمایا تھا کہ اسی سال آپ بیت اللہ پہنچ جائیں گے۔ میں نے کہا کہ نہیں۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا پھر اس میں بھی کوئی شک و شبہ نہیں کہ آپ ایک نہ ایک دن بیت اللہ پہنچیں گے اور اس کا طواف کریں گے۔ زہری نے بیان کیا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا بعد میں میں نے اپنی عجلت پسندی کی مکافات کے لیے نیک اعمال کئے۔ پھر جب صلح نامہ سے آپ فارغ ہو چکے تو صحابہ رضوان اللہ علیہم سے فرمایا کہ اب اٹھو اور ( جن جانوروں کو ساتھ لائے ہو ان کی ) قربانی کر لو اور سر بھی منڈوا لو۔ انہوں نے بیان کیا کہ اللہ گواہ ہے صحابہ میں سے ایک شخص بھی نہ اٹھا اور تین مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جملہ فرمایا۔ جب کوئی نہ اٹھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ام سلمہ کے خیمہ میں گئے اور ان سے لوگوں کے طرز عمل کا ذکر کیا۔ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا اے اللہ کے نبی! کیا آپ یہ پسند کریں گے کہ باہر تشریف لے جائیں اور کسی سے کچھ نہ کہیں بلکہ اپنا قربانی کا جانور ذبح کر لیں اور اپنے حجام کو بلا لیں جو آپ کے بال مونڈ دے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے۔ کسی سے کچھ نہیں کہا اور سب کچھ کیا ‘ اپنے جانور کی قربانی کر لی اور اپنے حجام کو بلوایا جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مونڈے۔ جب صحابہ نے دیکھا تو وہ بھی ایک دوسرے کے بال مونڈنے لگے ‘ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ رنج و غم میں ایک دوسرے سے لڑ پڑیں گے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ( مکہ سے ) چند مومن عورتیں آئیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا «يا أيها الذين آمنوا إذا جاءكم المؤمنات مهاجرات فامتحنوهن» اے لوگو! جو ایمان لا چکے ہو جب تمہارے پاس مومن عورتیں ہجرت کر کے آئیں تو ان کا امتحان لے «بعصم الكوافر» تک۔ اس دن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی دو بیویوں کو طلاق دی جو اب تک مسلمان نہ ہوئی تھیں۔ ان میں سے ایک نے تو معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما سے نکاح کر لیا تھا اور دوسری سے صفوان بن امیہ نے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ واپس تشریف لائے تو قریش کے ایک فرد ابوبصیر رضی اللہ عنہ ( مکہ سے فرار ہو کر ) حاضر ہوئے۔ وہ مسلمان ہو چکے تھے۔ قریش نے انہیں واپس لینے کے لیے دو آدمیوں کو بھیجا اور انہوں نے آ کر کہا کہ ہمارے ساتھ آپ کا معاہدہ ہو چکا ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبصیر رضی اللہ عنہ کو واپس کر دیا۔ قریش کے دونوں افراد جب انہیں واپس لے کر لوٹے اور ذوالحلیفہ پہنچے تو کھجور کھانے کے لیے اترے جو ان کے ساتھ تھی۔ ابوبصیر رضی اللہ عنہ نے ان میں سے ایک سے فرمایا قسم اللہ کی تمہاری تلوار بہت اچھی معلوم ہوتی ہے۔ دوسرے ساتھی نے تلوار نیام سے نکال دی۔ اس شخص نے کہا ہاں اللہ کی قسم نہایت عمدہ تلوار ہے ‘ میں اس کا بارہا تجربہ کر چکا ہوں۔ ابوبصیر رضی اللہ عنہ اس پر بولے کہ ذرا مجھے بھی تو دکھاؤ اور اس طرح اپنے قبضہ میں کر لیا پھر اس شخص نے تلوار کے مالک کو ایسی ضرب لگائی کہ وہ وہیں ٹھنڈا ہو گیا۔ اس کا دوسرا ساتھی بھاگ کر مدینہ آیا اور مسجد میں دوڑتا ہوا۔ داخل ہوا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اسے دیکھا تو فرمایا یہ شخص کچھ خوف زدہ معلوم ہوتا ہے۔ جب وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچا تو کہنے لگا اللہ کی قسم میرا ساتھی تو مارا گیا اور میں بھی مارا جاؤں گا ( اگر آپ لوگوں نے ابوبصیر کو نہ روکا ) اتنے میں ابوبصیر بھی آ گئے اور عرض کیا اے اللہ کے نبی! اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ نے آپ کی ذمہ داری پوری کر دی ‘ آپ مجھے ان کے حوالے کر چکے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے ان سے نجات دلائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( تیری ماں کی خرابی ) اگر اس کا کوئی ایک بھی مددگار ہوتا تو پھر لڑائی کے شعلے بھڑک اٹھتے۔ جب انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ سنے تو سمجھ گئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر کفار کے حوالے کر دیں گے اس لیے وہاں سے نکل گئے اور سمندر کے کنارے پر آ گئے۔ راوی نے بیان کیا کہ اپنے گھر والوں ( مکہ سے ) چھوٹ کر ابوجندل بن سہیل رضی اللہ عنہ بھی ابوبصیر رضی اللہ عنہ سے جا ملے اور اب یہ حال تھا کہ قریش کا جو شخص بھی اسلام لاتا ( بجائے مدینہ آنے کے ) ابوبصیر رضی اللہ عنہ کے یہاں ( ساحل سمندر پر ) چلا جاتا۔ اس طرح سے ایک جماعت بن گئی اور اللہ گواہ ہے یہ لوگ قریش کے جس قافلے کے متعلق بھی سن لیتے کہ وہ شام جا رہا ہے تو اسے راستے ہی میں روک کر لوٹ لیتے اور قافلہ والوں کو قتل کر دیتے۔ اب قریش نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں اللہ اور رحم کا واسطہ دے کر درخواست بھیجی کہ آپ کسی کو بھیجیں ( ابوبصیر رضی اللہ عنہ اور ان کے دوسرے ساتھیوں کے یہاں کہ وہ قریش کی ایذا سے رک جائیں ) اور اس کے بعد جو شخص بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں جائے گا ( مکہ سے ) اسے امن ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے یہاں اپنا آدمی بھیجا اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی «وهو الذي كف أيديهم عنكم وأيديكم عنهم ببطن مكة من بعد أن أظفركم عليهم» ”اور وہ ذات پروردگار جس نے روک دیا تھا تمہارے ہاتھوں کو ان سے اور ان کے ہاتھوں کو تم سے ( یعنی جنگ نہیں ہو سکی تھی ) وادی مکہ میں ( حدیبیہ میں ) بعد میں اس کے کہ تم کو غالب کر دیا تھا ان پر یہاں تک کہ بات جاہلیت کے دور کی بے جا حمایت تک پہنچ گئی تھی ) ۔“ ان کی حمیت ( جاہلیت ) یہ تھی کہ انہوں نے ( معاہدے میں بھی ) آپ کے لیے اللہ کے نبی ہونے کا اقرار نہیں کیا اسی طرح انہوں نے «بسم الله الرحمن الرحيم» نہیں لکھنے دیا اور آپ بیت اللہ جانے سے مانع بنے۔
باب: جہاد میں شرطیں لگانا اور کافروں کے ساتھ صلح کرنے میں اور شرطوں کا لکھنا۔
مجھ سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا ‘ کہا مجھ کو معمر نے خبر دی ‘ کہا کہ مجھے زہری نے خبر دی ‘ کہا مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی اور ان سے مسور بن مخرمہ (رض) اور مروان نے ‘ دونوں کے بیان سے ایک دوسرے کی حدیث کی تصدیق بھی ہوتی ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ صلح حدیبیہ کے موقع پر (مکہ) جا رہے تھے ‘ ابھی آپ ﷺ راستے ہی میں تھے ‘ فرمایا خالد بن ولید قریش کے (دو سو) سواروں کے ساتھ ہماری نقل و حرکت کا اندازہ لگانے کے لیے مقام غمیم میں مقیم ہے (یہ قریش کا مقدمۃ الجیش ہے) اس لیے تم لوگ داہنی طرف سے جاؤ ‘ پس اللہ کی قسم خالد کو ان کے متعلق کچھ بھی علم نہ ہوسکا اور جب انہوں نے اس لشکر کا غبار اٹھتا ہوا دیکھا تو قریش کو جلدی جلدی خبر دینے گئے۔ ادھر نبی کریم ﷺ چلتے رہے یہاں تک کہ آپ ﷺ اس گھاٹی پر پہنچے جس سے مکہ میں اترتے ہیں تو آپ ﷺ کی سواری بیٹھ گئی۔ صحابہ اونٹنی کو اٹھانے کیلئے حل حل کہنے لگے لیکن وہ اپنی جگہ سے نہ اٹھی۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا کہ قصواء اڑ گئی آپ ﷺ نے فرمایا قصواء اڑی نہیں اور نہ یہ اس کی عادت ہے ‘ اسے تو اس ذات نے روک لیا جس نے ہاتھیوں (کے لشکر) کو (مکہ) میں داخل ہونے سے روک لیا تھا۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے قریش جو بھی ایسا مطالبہ رکھیں گے جس میں اللہ کی محرمات کی بڑائی ہو تو میں اس کا مطالبہ منظور کرلوں گا۔ آخر آپ ﷺ نے اونٹنی کو ڈانٹا تو وہ اٹھ گئی۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر نبی کریم ﷺ صحابہ سے آگے نکل گئے اور حدیبیہ کے آخری کنارے ثمد (ایک چشمہ یا گڑھا) پر جہاں پانی کم تھا، آپ ﷺ نے پڑاؤ کیا۔ لوگ تھوڑا تھوڑا پانی استعمال کرنے لگے، انہوں نے پانی کو ٹھہرنے ہی نہیں دیا، سب کھینچ ڈالا۔ اب رسول اللہ ﷺ سے پیاس کی شکایت کی گئی تو آپ ﷺ نے اپنے ترکش میں سے ایک تیر نکال کردیا کہ اس گڑھے میں ڈال دیں بخدا تیر گاڑتے ہی پانی انہیں سیراب کرنے کے لیے ابلنے لگا اور وہ لوگ پوری طرح سیراب ہوگئے۔ لوگ اسی حال میں تھے کہ بدیل بن ورقاء خزاعی (رض) اپنی قوم خزاعہ کے کئی آدمیوں کو لے کر حاضر ہوا۔ یہ لوگ تہامہ کے رہنے والے تھے اور رسول اللہ ﷺ کے محرم راز بڑے خیرخواہ تھے۔ انہوں نے خبر دی کہ میں کعب بن لوئی اور عامر بن لوئی کو پیچھے چھوڑ کر آ رہا ہوں۔ جنہوں نے حدیبیہ کے پانی کے ذخیروں پر اپنا پڑاؤ ڈال دیا ہے ‘ ان کے ساتھ بکثرت دودھ دینے والی اونٹنیاں اپنے نئے نئے بچوں کے ساتھ ہیں۔ وہ آپ سے لڑیں گے اور آپ کے بیت اللہ پہنچنے میں رکاوٹ بنیں گے۔ لیکن آپ ﷺ نے فرمایا ہم کسی سے لڑنے نہیں آئے ہیں صرف عمرہ کے ارادے سے آئے ہیں اور واقعہ تو یہ ہے (مسلسل لڑائیوں) نے قریش کو بھی کمزور کردیا ہے اور انہیں بڑا نقصان اٹھانا پڑا ہے ‘ اب اگر وہ چاہیں تو میں ایک مدت ان سے صلح کا معاہدہ کرلوں گا ‘ اس عرصہ میں وہ میرے اور عوام (کفار مشرکین عرب) کے درمیان نہ پڑیں پھر اگر میں کامیاب ہوجاؤں اور (اس کے بعد) وہ چاہیں تو اس دین (اسلام) میں وہ بھی داخل ہوسکتے ہیں (جس میں اور تمام لوگ داخل ہوچکے ہوں گے) لیکن اگر مجھے کامیابی نہیں ہوئی تو انہیں بھی آرام مل جائے گا اور اگر انہیں میری پیش کش سے انکار ہے تو اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جب تک میرا سر تن سے جدا نہیں ہوجاتا، میں اس دین کے لیے برابر لڑتا رہوں گا یا پھر اللہ تعالیٰ اسے نافذ ہی فرما دے گا۔ بدیل (رض) نے کہا کہ قریش تک آپ کی گفتگو میں پہچاؤں گا چناچہ وہ واپس ہوئے اور قریش کے یہاں پہنچے اور کہا کہ ہم تمہارے پاس اس شخص (نبی کریم ﷺ ) کے یہاں سے آ رہے ہیں اور ہم نے اسے ایک بات کہتے سنا ہے ‘ اگر تم چاہو تو تمہارے سامنے اسے بیان کرسکتے ہیں۔ قریش کے بیوقوفوں نے کہا کہ ہمیں اس کی ضرورت نہیں کہ تم اس شخص کی کوئی بات ہمیں سناؤ۔ جو لوگ صائب الرائے تھے ‘ انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے جو کچھ تم نے سنا ہے ہم سے بیان کر دو ۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اسے (آپ ﷺ ) کو یہ کہتے سنا ہے اور پھر جو کچھ انہوں نے آپ ﷺ سے سنا تھا ‘ سب بیان کردیا۔ اس پر عروہ بن مسعود (رض) (جو اس وقت تک کفار کے ساتھ تھے) کھڑے ہوئے اور کہا اے قوم کے لوگو ! کیا تم مجھ پر باپ کی طرح شفقت نہیں رکھتے۔ سب نے کہا کیوں نہیں ‘ ضرور رکھتے ہیں۔ عروہ نے پھر کہا کیا میں بیٹے کی طرح تمہارا خیرخواہ نہیں ہوں ‘ انہوں نے کہا کیوں نہیں۔ عروہ نے پھر کہا تم لوگ مجھ پر کسی قسم کی تہمت لگا سکتے ہو ؟ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ انہوں نے پوچھا کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ میں نے عکاظ والوں کو تمہاری مدد کے لیے کہا تھا اور جب انہوں نے انکار کیا تو میں نے اپنے گھرانے ‘ اولاد اور ان تمام لوگوں کو تمہارے پاس لا کر کھڑا کردیا تھا جنہوں نے میرا کہنا مانا تھا ؟ قریش نے کہا کیوں نہیں (آپ کی باتیں درست ہیں) اس کے بعد انہوں نے کہا دیکھو اب اس شخص (نبی کریم ﷺ ) نے تمہارے سامنے ایک اچھی تجویز رکھی ہے ‘ اسے تم قبول کرلو اور مجھے اس کے پاس (گفتگو) کے لیے جانے دو ‘ سب نے کہا آپ ضرور جایئے۔ چناچہ عروہ بن مسعود (رض) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ ﷺ سے گفتگو شروع کی۔ آپ ﷺ نے ان سے بھی وہی باتیں کہیں جو آپ ﷺ بدیل سے کہہ چکے تھے ‘ عروہ (رض) نے اس وقت کہا۔ اے محمد ( ﷺ ) ! بتائیے اگر آپ ﷺ نے اپنی قوم کو تباہ کردیا تو کیا اپنے سے پہلے کسی بھی عرب کے متعلق سنا ہے کہ اس نے اپنے خاندان کا نام و نشان مٹا دیا ہو لیکن اگر دوسری بات واقع ہوئی (یعنی ہم آپ ﷺ پر غالب ہوئے) تو میں اللہ کی قسم تمہارے ساتھیوں کا منہ دیکھتا ہوں یہ مختلف جنسوں لوگ یہی کریں گے۔ اس وقت یہ سب لوگ بھاگ جائیں گے اور آپ کو تنہا چھوڑ دیں گے۔ اس پر ابوبکر (رض) بولے امصص بظر اللات۔ کیا ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس سے بھاگ جائیں گے اور آپ ﷺ کو تنہا چھوڑ دیں گے۔ عروہ نے پوچھا کون صاحب ہیں ؟ لوگوں نے بتایا کہ ابوبکر (رض) ہیں۔ عروہ نے کہا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تمہارا مجھ پر ایک احسان نہ ہوتا جس کا اب تک میں بدلہ نہیں دے سکا ہوں تو تمہیں ضرور جواب دیتا۔ بیان کیا کہ وہ نبی کریم ﷺ سے پھر گفتگو کرنے لگے اور گفتگو کرتے ہوئے آپ ﷺ کی داڑھی مبارک پکڑ لیا کرتے تھے۔ مغیرہ بن شعبہ (رض) نبی کریم ﷺ کے پاس کھڑے تھے ‘ تلوار لٹکائے ہوئے اور سر پر خود پہنے۔ عروہ جب بھی نبی کریم ﷺ کی داڑھی مبارک کی طرف اپنا ہاتھ لے جاتے تو مغیرہ (رض) تلوار کی نیام کو اس کے ہاتھ پر مارتے اور ان سے کہتے کہ رسول اللہ ﷺ کی داڑھی سے اپنا ہاتھ الگ رکھ۔ عروہ (رض) نے اپنا سر اٹھایا اور پوچھا یہ کون صاحب ہیں ؟ لوگوں نے بتایا کہ مغیرہ بن شعبہ۔ عروہ نے انہیں مخاطب کر کے کہا اے دغا باز ! کیا میں نے تیری دغا بازی کی سزا سے تجھ کو نہیں بچایا ؟ اصل میں مغیرہ (رض) (اسلام لانے سے پہلے) جاہلیت میں ایک قوم کے ساتھ رہے تھے پھر ان سب کو قتل کر کے ان کا مال لے لیا تھا۔ اس کے بعد (مدینہ) آئے اور اسلام کے حلقہ بگوش ہوگئے (تو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ان کا مال بھی رکھ دیا کہ جو چاہیں اس کے متعلق حکم فرمائیں) لیکن آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ تیرا اسلام تو میں قبول کرتا ہوں، رہا یہ مال تو میرا اس سے کوئی واسطہ نہیں۔ کیونکہ وہ دغا بازی سے ہاتھ آیا ہے جسے میں لے نہیں سکتا ‘ پھر عروہ (رض) گھور گھور کر رسول اللہ ﷺ کے اصحاب کی نقل و حرکت دیکھتے رہے۔ پھر راوی نے بیان کیا کہ قسم اللہ کی اگر کبھی رسول اللہ ﷺ نے بلغم بھی تھوکا تو آپ ﷺ کے اصحاب نے اپنے ہاتھوں پر اسے لے لیا اور اسے اپنے چہرہ اور بدن پر مل لیا۔ کسی کام کا اگر آپ ﷺ نے حکم دیا تو اس کی بجا آوری میں ایک دوسرے پر لوگ سبقت لے جانے کی کوشش کرتے۔ آپ ﷺ وضو کرنے لگے تو ایسا معلوم ہوا کہ آپ ﷺ کے وضو کے پانی پر لڑائی ہوجائے گی (یعنی ہر شخص اس پانی کو لینے کی کوشش کرتا تھا) جب آپ ﷺ گفتگو کرنے لگے تو سب پر خاموشی چھا جاتی۔ آپ ﷺ کی تعظیم کا یہ حال تھا کہ آپ ﷺ کے ساتھی نظر بھر کر آپ ﷺ کو دیکھ بھی نہیں سکتے تھے۔ خیر عروہ جب اپنے ساتھیوں سے جا کر ملے تو ان سے کہا اے لوگو ! قسم اللہ کی میں بادشاہوں کے دربار میں بھی وفد لے کر گیا ہوں ‘ قیصر و کسریٰ اور نجاشی سب کے دربار میں لیکن اللہ کی قسم میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ کسی بادشاہ کے ساتھی اس کی اس درجہ تعظیم کرتے ہوں جتنی محمد ﷺ کے اصحاب آپ ﷺ کی تعظیم کرتے ہیں۔ قسم اللہ کی اگر محمد ﷺ نے بلغم بھی تھوک دیا تو ان کے اصحاب نے اسے اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور اسے اپنے چہرہ اور بدن پر مل لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اگر کوئی حکم دیا تو ہر شخص نے اسے بجا لانے میں ایک دوسرے پر سبقت کی کوشش کی۔ آپ ﷺ نے اگر وضو کیا تو ایسا معلوم ہوتا کہ آپ ﷺ کے وضو پر لڑائی ہوجائے گی۔ آپ ﷺ نے جب گفتگو شروع کی تو ہر طرف خاموشی چھا گئی۔ ان کے دلوں میں آپ ﷺ کی تعظیم کا یہ عالم تھا کہ آپ ﷺ کو نظر بھر کر بھی نہیں دیکھ سکتے۔ انہوں نے تمہارے سامنے ایک بھلی صورت رکھی ہے ‘ تمہیں چاہیے کہ اسے قبول کرلو۔ اس پر بنو کنانہ کا ایک شخص بولا کہ اچھا مجھے بھی ان کے یہاں جانے دو ‘ لوگوں نے کہا تم بھی جاسکتے ہو۔ جب یہ رسول اللہ ﷺ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین کے قریب پہنچے تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہ فلاں شخص ہے ‘ ایک ایسی قوم کا فرد جو بیت اللہ کی قربانی کے جانوروں کی تعظیم کرتے ہیں۔ اس لیے قربانی کے جانور اس کے سامنے کر دو ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے قربانی کے جانور اس کے سامنے کردیئے اور لبیک کہتے ہوئے اس کا استقبال کیا جب اس نے یہ منظر دیکھا تو کہنے لگا کہ سبحان اللہ قطعاً مناسب نہیں ہے کہ ایسے لوگوں کو کعبہ سے روکا جائے۔ اس کے بعد قریش میں سے ایک دوسرا شخص مکرز بن حفص نامی کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ مجھے بھی ان کے یہاں جانے دو ۔ سب نے کہا کہ تم بھی جاسکتے ہو جب وہ آپ ﷺ اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے قریب ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ مکرز ہے ایک بدترین شخص ہے۔ پھر وہ نبی کریم ﷺ سے گفتگو کرنے لگا۔ ابھی وہ گفتگو کر ہی رہا تھا کہ سہیل بن عمرو آگیا۔ معمر نے (سابقہ سند کے ساتھ) بیان کیا کہ مجھے ایوب نے خبر دی اور انہیں عکرمہ نے کہ جب سہیل بن عمرو آیا تو نبی کریم ﷺ نے (نیک فالی کے طور پر) فرمایا تمہارا معاملہ آسان (سہل) ہوگیا۔ معمر نے بیان کیا کہ زہری نے اپنی حدیث میں اس طرح بیان کیا تھا کہ جب سہیل بن عمرو آیا تو کہنے لگا کہ ہمارے اور اپنے درمیان (صلح) کی ایک تحریر لکھ لو۔ چناچہ نبی کریم ﷺ نے کاتب کو بلوایا اور فرمایا کہ لکھو بسم الله الرحمن الرحيم سہیل کہنے لگا رحمن کو اللہ کی قسم میں نہیں جانتا کہ وہ کیا چیز ہے۔ البتہ تم یوں لکھ سکتے ہو باسمک اللهم. جیسے پہلے لکھا کرتے تھے مسلمانوں نے کہا کہ قسم اللہ کی ہمیں بسم الله الرحمن الرحيم کے سوا اور کوئی دوسرا جملہ نہ لکھنا چاہیے۔ لیکن آپ ﷺ نے فرمایا کہ باسمک اللهم. ہی لکھنے دو ۔ پھر آپ ﷺ نے لکھوایا یہ محمد رسول اللہ کی طرف سے صلح نامہ کی دستاویز ہے۔ سہیل نے کہا اگر ہمیں یہ معلوم ہوتا کہ آپ رسول اللہ ہیں تو نہ ہم آپ ﷺ کو کعبہ سے روکتے اور نہ آپ سے جنگ کرتے۔ آپ تو صرف اتنا لکھئے کہ محمد بن عبداللہ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ گواہ ہے کہ میں اس کا سچا رسول ہوں خواہ تم میری تکذیب ہی کرتے رہو ‘ لکھو جی محمد بن عبداللہ زہری نے بیان کیا کہ یہ سب کچھ (نرمی اور رعایت) صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا نتیجہ تھا (جو پہلے بدیل (رض) سے کہہ چکے تھے) کہ قریش مجھ سے جو بھی ایسا مطالبہ کریں گے جس سے اللہ تعالیٰ کی حرمتوں کی تعظیم مقصود ہوگی تو میں ان کے مطالبے کو ضرور مان لوں گا ‘ اس لیے نبی کریم ﷺ نے سہیل سے فرمایا لیکن صلح کے لیے پہلی شرط یہ ہوگی کہ تم لوگ ہمیں بیت اللہ کے طواف کرنے کے لیے جانے دو گے۔ سہیل نے کہا قسم اللہ کی ہم (اس سال) ایسا نہیں ہونے دیں گے ورنہ عرب کہیں گے ہم مغلوب ہوگئے تھے (اس لیے ہم نے اجازت دے دی) آئندہ سال کے لیے اجازت ہے۔ چناچہ یہ بھی لکھ لیا۔ پھر سہیل نے لکھا کہ یہ شرط بھی (لکھ لیجئے) کہ ہماری طرف کا جو شخص بھی آپ کے یہاں جائے گا خواہ وہ آپ کے دین ہی پر کیوں نہ ہو آپ اسے ہمیں واپس کردیں گے۔ مسلمانوں نے (یہ شرط سن کر کہا) سبحان اللہ ! (ایک شخص کو) مشرکوں کے حوالے کس طرح کیا جاسکتا ہے جو مسلمان ہو کر آیا ہو۔ ابھی یہی باتیں ہو رہی تھیں کہ ابوجندل بن سہیل بن عمرو (رض) اپنی بیڑیوں کو گھسیٹتے ہوئے آپہنچے ‘ وہ مکہ کے نشیبی علاقے کی طرف سے بھاگے تھے اور اب خود کو مسلمانوں کے سامنے ڈال دیا تھا۔ سہیل نے کہا اے محمد ! یہ پہلا شخص ہے جس کے لیے (صلح نامہ کے مطابق) میں مطالبہ کرتا ہوں کہ آپ ﷺ ہمیں اسے واپس کردیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ابھی تو ہم نے (صلح نامہ کی اس دفعہ کو) صلح نامہ میں لکھا بھی نہیں ہے (اس لیے جب صلح نامہ طے پا جائے گا اس کے بعد اس کا نفاذ ہونا چاہیے) سہیل کہنے لگا کہ اللہ کی قسم پھر میں کسی بنیاد پر بھی آپ ﷺ سے صلح نہیں کروں گا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اچھا مجھ پر اس ایک کو دے کر احسان کر دو ۔ اس نے کہا کہ میں اس سلسلے میں احسان بھی نہیں کرسکتا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ نہیں ہمیں احسان کردینا چاہیے لیکن اس نے یہی جواب دیا کہ میں ایسا کبھی نہیں کرسکتا۔ البتہ مکرز نے کہا کہ چلئے ہم اس کا آپ ﷺ پر احسان کرتے ہیں مگر (اس کی بات نہیں چلی) ابوجندل (رض) نے کہا مسلمانوں ! میں مسلمان ہو کر آیا ہوں۔ کیا مجھے مشرکوں کے ہاتھ میں دے دیا جائے گا ؟ کیا میرے ساتھ جو اذیتیں پہنچائی گئیں تھیں۔ راوی نے بیان کیا کہ عمر بن خطاب (رض) نے کہا آخر میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا، کیا یہ واقعہ اور حقیقت نہیں کہ آپ ﷺ اللہ کے نبی ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کیوں نہیں ! میں نے عرض کیا، کیا ہم حق پر نہیں ہیں اور کیا ہمارے دشمن باطل پر نہیں ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کیوں نہیں ! میں نے کہا پھر اپنے دین کے معاملے میں کیوں دبیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا میں اللہ کا رسول ہوں ‘ اس کی حکم عدولی نہیں کرسکتا اور وہی میرا مددگار ہے۔ میں نے کہا کیا آپ ﷺ ہم سے یہ نہیں فرماتے تھے کہ ہم بیت اللہ جائیں گے اور اس کا طواف کریں گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ٹھیک ہے لیکن کیا میں نے تم سے یہ کہا تھا کہ اسی سال ہم بیت اللہ پہنچ جائیں گے۔ عمر (رض) نے بیان کیا کہ میں نے کہا نہیں (آپ ﷺ نے اس قید کے ساتھ نہیں فرمایا تھا) آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تم بیت اللہ تک ضرور پہنچو گے اور ایک دن اس کا طواف کرو گے۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر ابوبکر (رض) کے یہاں گیا اور ان سے بھی یہی پوچھا کہ ابوبکر ! کیا یہ حقیقت نہیں کہ آپ ﷺ اللہ کے نبی ہیں ؟ انہوں نے بھی کہا کہ کیوں نہیں۔ میں نے پوچھا کیا ہم حق پر نہیں ہیں ؟ اور کیا ہمارے دشمن باطل پر نہیں ہیں ؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں ! میں نے کہا کہ پھر اپنے دین کو کیوں ذلیل کریں۔ ابوبکر (رض) نے کہا جناب ! بلا شک و شبہ وہ اللہ کے رسول ہیں ‘ اور اپنے رب کی حکم عدولی نہیں کرسکتے اور رب ہی ان کا مددگار ہے پس ان کی رسی مضبوطی سے پکڑ لو ‘ اللہ گواہ ہے کہ وہ حق پر ہیں۔ میں نے کہا کیا آپ ﷺ ہم سے یہ نہیں کہتے تھے کہ عنقریب ہم بیت اللہ پہونچیں گے اور اس کا طواف کریں گے انہوں نے فرمایا کہ یہ بھی صحیح ہے لیکن کیا آپ ﷺ نے آپ سے یہ فرمایا تھا کہ اسی سال آپ بیت اللہ پہنچ جائیں گے۔ میں نے کہا کہ نہیں۔ پھر ابوبکر (رض) نے کہا پھر اس میں بھی کوئی شک و شبہ نہیں کہ آپ ایک نہ ایک دن بیت اللہ پہنچیں گے اور اس کا طواف کریں گے۔ زہری نے بیان کیا کہ عمر (رض) نے فرمایا بعد میں میں نے اپنی عجلت پسندی کی مکافات کے لیے نیک اعمال کئے۔ پھر جب صلح نامہ سے آپ فارغ ہوچکے تو صحابہ رضوان اللہ علیہم سے فرمایا کہ اب اٹھو اور (جن جانوروں کو ساتھ لائے ہو ان کی) قربانی کرلو اور سر بھی منڈوا لو۔ انہوں نے بیان کیا کہ اللہ گواہ ہے صحابہ میں سے ایک شخص بھی نہ اٹھا اور تین مرتبہ آپ ﷺ نے یہ جملہ فرمایا۔ جب کوئی نہ اٹھا تو نبی کریم ﷺ ام سلمہ کے خیمہ میں گئے اور ان سے لوگوں کے طرز عمل کا ذکر کیا۔ ام سلمہ (رض) نے کہا اے اللہ کے نبی ! کیا آپ یہ پسند کریں گے کہ باہر تشریف لے جائیں اور کسی سے کچھ نہ کہیں بلکہ اپنا قربانی کا جانور ذبح کرلیں اور اپنے حجام کو بلا لیں جو آپ کے بال مونڈ دے۔ چناچہ آپ ﷺ باہر تشریف لائے۔ کسی سے کچھ نہیں کہا اور سب کچھ کیا ‘ اپنے جانور کی قربانی کرلی اور اپنے حجام کو بلوایا جس نے آپ ﷺ کے بال مونڈے۔ جب صحابہ نے دیکھا تو وہ بھی ایک دوسرے کے بال مونڈنے لگے ‘ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ رنج و غم میں ایک دوسرے سے لڑ پڑیں گے۔ پھر آپ ﷺ کے پاس (مکہ سے) چند مومن عورتیں آئیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا يا أيها الذين آمنوا إذا جاء کم المؤمنات مهاجرات فامتحنوهن اے لوگو ! جو ایمان لا چکے ہو جب تمہارے پاس مومن عورتیں ہجرت کر کے آئیں تو ان کا امتحان لے بعصم الکوافر تک۔ اس دن عمر (رض) نے اپنی دو بیویوں کو طلاق دی جو اب تک مسلمان نہ ہوئی تھیں۔ ان میں سے ایک نے تو معاویہ بن ابی سفیان (رض) سے نکاح کرلیا تھا اور دوسری سے صفوان بن امیہ نے۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ مدینہ واپس تشریف لائے تو قریش کے ایک فرد ابوبصیر (رض) (مکہ سے فرار ہو کر) حاضر ہوئے۔ وہ مسلمان ہوچکے تھے۔ قریش نے انہیں واپس لینے کے لیے دو آدمیوں کو بھیجا اور انہوں نے آ کر کہا کہ ہمارے ساتھ آپ کا معاہدہ ہوچکا ہے۔ چناچہ آپ ﷺ نے ابوبصیر (رض) کو واپس کردیا۔ قریش کے دونوں افراد جب انہیں واپس لے کر لوٹے اور ذوالحلیفہ پہنچے تو کھجور کھانے کے لیے اترے جو ان کے ساتھ تھی۔ ابوبصیر (رض) نے ان میں سے ایک سے فرمایا قسم اللہ کی تمہاری تلوار بہت اچھی معلوم ہوتی ہے۔ دوسرے ساتھی نے تلوار نیام سے نکال دی۔ اس شخص نے کہا ہاں اللہ کی قسم نہایت عمدہ تلوار ہے ‘ میں اس کا بارہا تجربہ کرچکا ہوں۔ ابوبصیر (رض) اس پر بولے کہ ذرا مجھے بھی تو دکھاؤ اور اس طرح اپنے قبضہ میں کرلیا پھر اس شخص نے تلوار کے مالک کو ایسی ضرب لگائی کہ وہ وہیں ٹھنڈا ہوگیا۔ اس کا دوسرا ساتھی بھاگ کر مدینہ آیا اور مسجد میں دوڑتا ہوا۔ داخل ہوا نبی کریم ﷺ نے جب اسے دیکھا تو فرمایا یہ شخص کچھ خوف زدہ معلوم ہوتا ہے۔ جب وہ آپ ﷺ کے قریب پہنچا تو کہنے لگا اللہ کی قسم میرا ساتھی تو مارا گیا اور میں بھی مارا جاؤں گا (اگر آپ لوگوں نے ابوبصیر کو نہ روکا) اتنے میں ابوبصیر بھی آگئے اور عرض کیا اے اللہ کے نبی ! اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ نے آپ کی ذمہ داری پوری کردی ‘ آپ مجھے ان کے حوالے کرچکے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے ان سے نجات دلائی۔ آپ ﷺ نے فرمایا (تیری ماں کی خرابی) اگر اس کا کوئی ایک بھی مددگار ہوتا تو پھر لڑائی کے شعلے بھڑک اٹھتے۔ جب انہوں نے آپ ﷺ کے یہ الفاظ سنے تو سمجھ گئے کہ آپ ﷺ پھر کفار کے حوالے کردیں گے اس لیے وہاں سے نکل گئے اور سمندر کے کنارے پر آگئے۔ راوی نے بیان کیا کہ اپنے گھر والوں (مکہ سے) چھوٹ کر ابوجندل بن سہیل (رض) بھی ابوبصیر (رض) سے جا ملے اور اب یہ حال تھا کہ قریش کا جو شخص بھی اسلام لاتا (بجائے مدینہ آنے کے) ابوبصیر (رض) کے یہاں (ساحل سمندر پر) چلا جاتا۔ اس طرح سے ایک جماعت بن گئی اور اللہ گواہ ہے یہ لوگ قریش کے جس قافلے کے متعلق بھی سن لیتے کہ وہ شام جا رہا ہے تو اسے راستے ہی میں روک کر لوٹ لیتے اور قافلہ والوں کو قتل کردیتے۔ اب قریش نے نبی کریم ﷺ کے یہاں اللہ اور رحم کا واسطہ دے کر درخواست بھیجی کہ آپ کسی کو بھیجیں (ابوبصیر (رض) اور ان کے دوسرے ساتھیوں کے یہاں کہ وہ قریش کی ایذا سے رک جائیں) اور اس کے بعد جو شخص بھی آپ ﷺ کے یہاں جائے گا (مکہ سے) اسے امن ہے۔ چناچہ آپ ﷺ نے ان کے یہاں اپنا آدمی بھیجا اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی وهو الذي كف أيديهم عنکم وأيديكم عنهم ببطن مكة من بعد أن أظفرکم عليهم اور وہ ذات پروردگار جس نے روک دیا تھا تمہارے ہاتھوں کو ان سے اور ان کے ہاتھوں کو تم سے (یعنی جنگ نہیں ہوسکی تھی) وادی مکہ میں (حدیبیہ میں) بعد میں اس کے کہ تم کو غالب کردیا تھا ان پر یہاں تک کہ بات جاہلیت کے دور کی بےجا حمایت تک پہنچ گئی تھی) ۔ ان کی حمیت (جاہلیت) یہ تھی کہ انہوں نے (معاہدے میں بھی) آپ کے لیے اللہ کے نبی ہونے کا اقرار نہیں کیا اسی طرح انہوں نے بسم الله الرحمن الرحيم نہیں لکھنے دیا اور آپ بیت اللہ جانے سے مانع بنے۔ عقیل نے زہری سے بیان کیا ‘ ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ عورتوں کا (جو مکہ سے مسلمان ہونے کی وجہ سے ہجرت کر کے مدینہ آتی تھیں) امتحان لیتے تھے (زہری نے) بیان کیا کہ ہم تک یہ روایت پہنچی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ مسلمان وہ سب کچھ ان مشرکوں کو واپس کردیں جو انہوں نے اپنی ان بیویوں پر خرچ کیا ہو جو (اب مسلمان ہو کر) ہجرت کر آئی ہیں اور مسلمانوں کو حکم دیا کہ کافر عورتوں کو اپنے نکاح میں نہ رکھیں تو عمر (رض) نے اپنی دو بیویوں قریبہ بنت ابی امیہ اور ایک جرول خزاعی کی لڑکی کو طلاق دے دی۔ بعد میں قریبہ سے معاویہ (رض) نے شادی کرلی تھی (کیونکہ اس وقت معاویہ (رض) مسلمان نہیں ہوئے تھے) اور دوسری بیوی سے ابوجہم نے شادی کرلی تھی لیکن جب کفار نے مسلمانوں کے ان اخراجات کو ادا کرنے سے انکار کیا جو انہوں نے اپنی (کافرہ) بیویوں پر کئے تھے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی وإن فاتکم شىء من أزواجکم إلى الکفار فعاقبتم اور تمہاری بیویوں میں سے کوئی کافروں کے ہاں چلی گئی تو وہ معاوضہ تم خود ہی لے لو۔ یہ وہ معاوضہ تھا جو مسلمان کفار میں سے اس شخص کو دیتے جس کی بیوی ہجرت کر کے (مسلمان ہونے کے بعد کسی مسلمان کے نکاح میں آگئی ہو) پس اللہ نے اب یہ حکم دیا کہ جس مسلمان کی بیوی مرتد ہو کر (کفار کے یہاں) چلی جائے اس کے (مہر و نفقہ کے) اخراجات ان کفار کی عورتوں کے مہر سے ادا کر دئیے جائیں جو ہجرت کر کے آگئی ہیں (اور کسی مسلمان نے ان سے نکاح کرلیا ہے) اگرچہ ہمارے پاس اس کا کوئی ثبوت نہیں کہ کوئی مہاجرہ بھی ایمان کے بعد مرتد ہوئی ہوں اور ہمیں یہ روایت بھی معلوم ہوئی کہ ابوبصیر بن اسید ثقفی (رض) جب نبی کریم ﷺ کی خدمت میں مومن و مہاجر کی حیثیت سے معاہدہ کی مدت کے اندر ہی حاضر ہوئے تو اخنس بن شریق نے نبی کریم ﷺ کو ایک تحریر لکھی جس میں اس نے (ابوبصیر (رض) کی واپسی کا) مطالبہ آپ ﷺ سے کیا تھا۔ پھر انہوں نے حدیث پوری بیان کی۔
باب: قرض میں شرط لگانا۔
اور لیث نے کہا کہ مجھ سے جعفر بن ربیعہ نے بیان کیا ‘ ان سے عبدالرحمٰن بن ہرمز نے بیان کیا ‘ ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کا ذکر کیا جنہوں نے بنی اسرائیل کے کسی دوسرے شخص سے ایک ہزار اشرفی قرض مانگا اور اس نے ایک مقررہ مدت تک کے لیے دے دیا۔
باب: اقرار میں شرط لگانا یا استثناء کرنا جائز ہے اور ان شرطوں کا بیان۔
اور ابن عون نے ابن سیرین سے نقل کیا کہ کسی نے اونٹ والے سے کہا تو اپنے اونٹ اندر لا کر باندھ دے اگر میں تمہارے ساتھ فلاں دن تک نہ جاسکا تو تم سو درہم مجھ سے وصول کرلینا۔ پھر وہ اس دن تک نہ جاسکا تو قاضی شریح (رح) نے کہا کہ جس نے اپنی خوشی سے اپنے اوپر کوئی شرط لگائی اور اس پر کوئی جبر بھی نہیں کیا گیا تھا تو وہ شرط اس کو پوری کرنی ہوگی۔ ایوب نے ابن سیرین (رح) سے نقل کیا کہ کسی شخص نے غلہ بیچا اور خریدار نے کہا کہ اگر تمہارے پاس بدھ کے دن تک نہ آسکا تو میرے اور تمہارے درمیان بیع باقی نہیں رہے گی۔ پھر وہ اس دن تک نہیں آیا تو شریح (رح) نے خریدار سے کہا کہ تو نے وعدہ خلافی کی ہے آپ نے فیصلہ اس کے خلاف کیا۔
باب: اقرار میں شرط لگانا یا استثناء کرنا جائز ہے اور ان شرطوں کا بیان۔
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم کو شعیب نے خبر دی ‘ ان سے ابوالزناد نے بیان کیا ‘ ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں یعنی ایک کم سو۔ جو شخص ان سب کو محفوظ رکھے گا وہ جنت میں داخل ہوگا۔
باب: وقف میں شرطیں لگانے کا بیان۔
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے محمد بن عبداللہ انصاری نے بیان کیا ‘ ان سے ابن عون نے ‘ کہا کہ مجھے نافع نے خبر دی ‘ انہیں ابن عمر (رض) نے کہ عمر بن خطاب (رض) کو خیبر میں ایک قطعہ زمین ملی تو آپ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں مشورہ کیلئے حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے خیبر میں ایک زمین کا ٹکڑا ملا ہے اس سے بہتر مال مجھے اب تک کبھی نہیں ملا تھا ‘ آپ اس کے متعلق کیا حکم فرماتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر جی چاہے تو اصل زمین اپنے ملکیت میں باقی رکھ اور پیداوار صدقہ کر دے۔ ابن عمر (رض) نے بیان کیا کہ پھر عمر (رض) نے اس کو اس شرط کے ساتھ صدقہ کردیا کہ نہ اسے بیچا جائے گا نہ اس کا ہبہ کیا جائے گا اور نہ اس میں وراثت چلے گی۔ اسے آپ نے محتاجوں کے لیے ‘ رشتہ داروں کے لیے اور غلام آزاد کرانے کے لیے ‘ اللہ کے دین کی تبلیغ اور اشاعت کے لیے اور مہمانوں کیلئے صدقہ (وقف) کردیا اور یہ کہ اس کا متولی اگر دستور کے مطابق اس میں سے اپنی ضرورت کے مطابق وصول کرلے یا کسی محتاج کو دے تو اس پر کوئی الزام نہیں۔ ابن عون نے بیان کیا کہ جب میں نے اس حدیث کا ذکر ابن سیرین سے کیا تو انہوں نے فرمایا کہ (متولی) اس میں سے مال جمع کرنے کا ارادہ نہ رکھتا ہو۔