47. غزوات کا بیان
باب: غزوہ عشیرہ یا عسرہ کا بیان۔
مجھ سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے وہب نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، ان سے ابواسحاق نے کہ میں ایک وقت زید بن ارقم (رض) کے پہلو میں بیٹھا ہوا تھا۔ ان سے پوچھا گیا تھا کہ نبی کریم ﷺ نے کتنے غزوے کئے ؟ انہوں نے کہا انیس۔ میں نے پوچھا آپ نبی کریم ﷺ کے ساتھ کتنے غزوات میں شریک رہے ؟ تو انہوں نے کہا کہ سترہ میں۔ میں نے پوچھا آپ ﷺ کا سب سے پہلا غزوہ کون سا تھا ؟ کہا کہ عسیرہ یا عشیرہ۔ پھر میں نے اس کا ذکر قتادہ سے کیا تو انہوں نے کہا کہ (صحیح لفظ) عشیرہ ہے۔
باب: بدر کی لڑائی میں فلاں فلاں مارے جائیں گے، اس کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی کا بیان۔
مجھ سے احمد بن عثمان نے بیان کیا، ہم سے شریح بن مسلمہ نے بیان کیا، ہم سے ابراہیم بن یوسف نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے، ان سے ابواسحاق نے بیان کیا کہ مجھ سے عمرو بن میمون نے بیان کیا، انہوں نے عبداللہ بن مسعود (رض) سے سنا، وہ سعد بن معاذ (رض) سے بیان کرتے تھے، انہوں نے کہا کہ وہ امیہ بن خلف کے (جاہلیت کے زمانے سے) دوست تھے اور جب بھی امیہ مدینہ سے گزرتا تو ان کے یہاں قیام کرتا تھا۔ اسی طرح سعد (رض) جب مکہ سے گزرتے تو امیہ کے یہاں قیام کرتے۔ جب نبی کریم ﷺ مدینہ ہجرت کر کے تشریف لائے تو ایک مرتبہ سعد (رض) مکہ عمرہ کے ارادے سے گئے اور امیہ کے پاس قیام کیا۔ انہوں نے امیہ سے کہا کہ میرے لیے کوئی تنہائی کا وقت بتاؤ تاکہ میں بیت اللہ کا طواف کروں۔ چناچہ امیہ انہیں دوپہر کے وقت ساتھ لے کر نکلا۔ ان سے ابوجہل کی ملاقات ہوگئی۔ اس نے پوچھا، ابوصفوان ! یہ تمہارے ساتھ کون ہیں ؟ امیہ نے بتایا کہ یہ سعد بن معاذ (رض) ہیں۔ ابوجہل نے کہا، میں تمہیں مکہ میں امن کے ساتھ طواف کرتا ہوا نہ دیکھوں۔ تم نے بےدینوں کو پناہ دے رکھی ہے اور اس خیال میں ہو کہ تم لوگ ان کی مدد کرو گے۔ خدا کی قسم ! اگر اس وقت تم، ابوصفوان ! امیہ کے ساتھ نہ ہوتے تو اپنے گھر سلامتی سے نہیں جاسکتے تھے۔ اس پر سعد (رض) نے کہا، اس وقت ان کی آواز بلند ہوگئی تھی کہ اللہ کی قسم ! اگر آج تم نے مجھے طواف سے روکا تو میں بھی مدینہ کی طرف سے تمہارا راستہ بند کر دوں گا اور یہ تمہارے لیے بہت سی مشکلات کا باعث بن جائے گا۔ امیہ کہنے لگا، سعد ! ابوالحکم (ابوجہل) کے سامنے بلند آواز سے نہ بولو۔ یہ وادی کا سردار ہے۔ سعد (رض) نے کہا، امیہ ! اس طرح کی گفتگو نہ کرو۔ اللہ کی قسم ! میں رسول اللہ ﷺ سے سن چکا ہوں کہ تو ان کے ہاتھوں سے مارا جائے گا۔ امیہ نے پوچھا۔ کیا مکہ میں مجھے قتل کریں گے ؟ انہوں نے کہا کہ اس کا مجھے علم نہیں۔ امیہ یہ سن کر بہت گھبرا گیا اور جب اپنے گھر لوٹا تو (اپنی بیوی سے) کہا، ام صفوان ! دیکھا نہیں سعد میرے متعلق کیا کہہ رہے ہیں۔ اس نے پوچھا، کیا کہہ رہے ہیں ؟ امیہ نے کہا کہ وہ یہ بتا رہے تھے کہ محمد ( ﷺ ) نے انہیں خبر دی ہے کہ کسی نہ کسی دن وہ مجھے قتل کردیں گے۔ میں نے پوچھا کیا مکہ میں مجھے قتل کریں گے ؟ تو انہوں نے کہا کہ اس کی مجھے خبر نہیں۔ امیہ کہنے لگا : خدا کی قسم ! اب مکہ سے باہر میں کبھی نہیں جاؤں گا۔ پھر بدر کی لڑائی کے موقع پر جب ابوجہل نے قریش سے لڑائی کی تیاری کے لیے کہا اور کہا کہ اپنے قافلہ کی مدد کو چلو تو امیہ نے لڑائی میں شرکت پسند نہیں کی، لیکن ابوجہل اس کے پاس آیا اور کہنے لگا، اے صفوان ! تم وادی کے سردار ہو۔ جب لوگ دیکھیں گے کہ تم ہی لڑائی میں نہیں نکلتے ہو تو دوسرے لوگ بھی نہیں نکلیں گے۔ ابوجہل یوں ہی برابر اس کو سمجھاتا رہا۔ آخر مجبور ہو کر امیہ نے کہا جب نہیں مانتا تو خدا کی قسم (اس لڑائی کے لیے) میں ایسا تیز رفتار اونٹ خریدوں گا جس کا ثانی مکہ میں نہ ہو۔ پھر امیہ نے (اپنی بیوی سے) کہا، ام صفوان ! میرا سامان تیار کر دے۔ اس نے کہا، ابوصفوان ! اپنے یثربی بھائی کی بات بھول گئے ؟ امیہ بولا، میں بھولا نہیں ہوں۔ ان کے ساتھ صرف تھوڑی دور تک جاؤں گا۔ جب امیہ نکلا تو راستہ میں جس منزل پر بھی ٹھہرنا ہوتا، یہ اپنا اونٹ (اپنے پاس ہی) باندھے رکھتا۔ وہ برابر ایسا ہی احتیاط کرتا رہا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اسے قتل کرا دیا۔
باب: غزوہ بدر کا بیان۔
مجھ سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن کعب نے، ان سے عبداللہ بن کعب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے کعب بن مالک (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے جتنے غزوے کئے، میں غزوہ تبوک کے سوا سب میں حاضر رہا۔ البتہ غزوہ بدر میں شریک نہ ہوسکا تھا لیکن جو لوگ اس غزوے میں شریک نہ ہو سکے تھے، ان میں سے کسی پر اللہ نے عتاب نہیں کیا۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ قریش کے قافلے کو تلاش کرنے کے لیے نکلے تھے۔ (لڑنے کی نیت سے نہیں گئے تھے) مگر اللہ تعالیٰ نے ناگہانی مسلمانوں کو ان کے دشمنوں سے بھڑا دیا۔
باب: اللہ تعالیٰ کا فرمان اور اس وقت کو یاد کرو جب تم اپنے پروردگار سے فریاد کر رہے تھے، پھر اس نے تمہاری فریاد سن لی، اور فرمایا کہ تمہیں لگاتار ایک ہزار فرشتوں سے مدد دوں گا اور اللہ نے یہ بس اس لیے کیا کہ تمہیں بشارت ہو اور تاکہ تمہارے دلوں کو اس سے اطمینان حاصل ہو جائے، ورنہ فتح تو بس اللہ ہی کے پاس سے ہے، بیشک اللہ غالب حکمت والا ہے اور وہ وقت بھی یاد کرو جب اللہ نے اپنی طرف سے چین دینے کو تم پر نیند کو بھیج دیا تھا اور آسمان سے تمہارے لیے پانی اتار رہا تھا کہ اس کے ذریعے سے تمہیں پاک کر دے اور تم سے شیطانی وسوسہ کو دفع کر دے اور تاکہ تمہارے دلوں کو مضبوط کر دے اور اس کے باعث تمہارے قدم جما دے (اور اس وقت کو یاد کرو) جب تیرا پروردگار وحی کر رہا تھا فرشتوں کی طرف کہ میں تمہارے ساتھ ہوں، سو ایمان لانے والوں کو جمائے رکھو میں ابھی کافروں کے دلوں میں رعب ڈالے دیتا ہوں، سو تم کافروں کی گردنوں پر مارو اور ان کے جوڑوں پر ضرب لگاو۔ یہ اس لیے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی ہے اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتا ہے، سو اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے والا ہے۔
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، ہم سے اسرائیل بن یونس نے بیان کیا، ان سے مخارق بن عبداللہ بجلی نے، ان سے طارق بن شہاب نے، انہوں نے ابن مسعود (رض) سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے مقداد بن اسود (رض) سے ایک ایسی بات سنی کہ اگر وہ بات میری زبان سے ادا ہوجاتی تو میرے لیے کسی بھی چیز کے مقابلے میں زیادہ عزیز ہوتی۔ وہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ نبی کریم ﷺ اس وقت مشرکین پر بددعا کر رہے تھے۔ انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! ہم وہ نہیں کہیں گے جو موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم نے کہا تھا کہ جاؤ، تم اور تمہارا رب ان سے جنگ کرو، بلکہ ہم آپ کے دائیں بائیں، آگے اور پیچھے جمع ہو کر لڑیں گے۔ میں نے دیکھا کہ نبی کریم ﷺ کا چہرہ مبارک چمکنے لگا اور آپ ﷺ خوش ہوگئے۔
باب: اللہ تعالیٰ کا فرمان اور اس وقت کو یاد کرو جب تم اپنے پروردگار سے فریاد کر رہے تھے، پھر اس نے تمہاری فریاد سن لی، اور فرمایا کہ تمہیں لگاتار ایک ہزار فرشتوں سے مدد دوں گا اور اللہ نے یہ بس اس لیے کیا کہ تمہیں بشارت ہو اور تاکہ تمہارے دلوں کو اس سے اطمینان حاصل ہو جائے، ورنہ فتح تو بس اللہ ہی کے پاس سے ہے، بیشک اللہ غالب حکمت والا ہے اور وہ وقت بھی یاد کرو جب اللہ نے اپنی طرف سے چین دینے کو تم پر نیند کو بھیج دیا تھا اور آسمان سے تمہارے لیے پانی اتار رہا تھا کہ اس کے ذریعے سے تمہیں پاک کر دے اور تم سے شیطانی وسوسہ کو دفع کر دے اور تاکہ تمہارے دلوں کو مضبوط کر دے اور اس کے باعث تمہارے قدم جما دے (اور اس وقت کو یاد کرو) جب تیرا پروردگار وحی کر رہا تھا فرشتوں کی طرف کہ میں تمہارے ساتھ ہوں، سو ایمان لانے والوں کو جمائے رکھو میں ابھی کافروں کے دلوں میں رعب ڈالے دیتا ہوں، سو تم کافروں کی گردنوں پر مارو اور ان کے جوڑوں پر ضرب لگاو۔ یہ اس لیے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی ہے اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتا ہے، سو اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے والا ہے۔
مجھ سے عبداللہ بن حوشب نے بیان کیا، ہم سے عبدالوہاب نے بیان کیا، ان سے خالد نے، ان سے عکرمہ نے، ان سے ابن عباس (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے بدر کی لڑائی کے موقع پر فرمایا تھا کہ اے اللہ ! میں تیرے عہد اور وعدہ کا واسطہ دیتا ہوں، اگر تو چاہے (کہ یہ کافر غالب ہوں تو مسلمانوں کے ختم ہوجانے کے بعد) تیری عبادت نہ ہوگی۔ اس پر ابوبکر (رض) نے آپ ﷺ کا ہاتھ تھام لیا اور عرض کیا بس کیجئے، یا رسول اللہ ! اس کے بعد آپ ﷺ اپنے خیمے سے باہر تشریف لائے تو آپ ﷺ کی زبان پر یہ آیت تھی سيهزم الجمع ويولون الدبر جلد ہی کفار کی جماعت کو ہار ہوگی اور یہ پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلیں گے۔
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، ہم کو ہشام نے خبر دی، انہیں ابن جریج نے خبر دی، کہا کہ مجھے عبدالکریم نے خبر دی، انہوں نے عبداللہ بن حارث کے مولیٰ مقسم سے سنا، وہ ابن عباس (رض) سے بیان کرتے تھے، انہوں نے بیان کیا کہ (سورۃ نساء کی اس آیت سے) لا يستوي القاعدون من المؤمنين جہاد میں شرکت کرنے والے اور اس میں شریک نہ ہونے والے برابر نہیں ہوسکتے۔ وہ لوگ مراد ہیں جو بدر کی لڑائی میں شریک ہوئے اور جو اس میں شریک نہیں ہوئے۔
باب: جنگ بدر میں شریک ہونے والوں کا شمار۔
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق نے اور ان سے براء بن عازب (رض) نے بیان کیا کہ (بدر کی لڑائی کے موقع پر) مجھے اور ابن عمر (رض) کو نابالغ قرار دے دیا گیا تھا۔
باب: جنگ بدر میں شریک ہونے والوں کا شمار۔
( دوسری سند) امام بخاری (رح) فرماتے ہیں اور مجھ سے محمود بن غیلان نے بیان کیا کہا، ہم سے وہب بن جریر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، ان سے ابواسحاق نے اور ان سے براء (رض) نے بیان کیا کہ بدر کی لڑائی میں مجھے اور عبداللہ بن عمر (رض) کو نابالغ قرار دے دیا گیا تھا اور اس لڑائی میں مہاجرین کی تعداد ساٹھ سے کچھ زیادہ تھی اور انصار دو سو چالیس سے کچھ زیادہ تھے۔
باب: جنگ بدر میں شریک ہونے والوں کا شمار۔
ہم سے عمرو بن خالد نے بیان کیا کہا، ہم سے زہیر بن معاویہ نے بیان کیا کہا، ہم سے ابواسحاق نے بیان کیا، کہا کہ میں نے براء (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ محمد ﷺ کے صحابہ نے جو بدر میں شریک تھے مجھ سے بیان کیا کہ بدر کی لڑائی میں ان کی تعداد اتنی ہی تھی جتنی طالوت (علیہ السلام) کے ان اصحاب کی تھی جنہوں نے ان کے ساتھ نہر فلسطین کو پار کیا تھا۔ تقریباً تین سو دس۔ براء (رض) نے کہا نہیں، اللہ کی قسم ! طالوت کے ساتھ نہر فلسطین کو صرف وہی لوگ پار کرسکے تھے جو مومن تھے۔
باب: جنگ بدر میں شریک ہونے والوں کا شمار۔
ہم سے عبداللہ بن رجاء نے بیان کیا، ہم سے اسرائیل نے بیان کیا، ان سے اسحاق نے، انہوں نے براء (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ہم اصحاب محمد ﷺ آپس میں یہ گفتگو کرتے تھے کہ اصحاب بدر کی تعداد بھی اتنی ہی تھی جتنی اصحاب طالوت کی۔ جنہوں نے آپ کے ساتھ نہر فلسطین پار کی تھی اور ان کے ساتھ نہر کو پار کرنے والے صرف مومن ہی تھے یعنی تین سو دس سے کچھ زیادہ آدمی۔
باب: جنگ بدر میں شریک ہونے والوں کا شمار۔
مجھ سے عبداللہ بن ابی شیبہ نے بیان کیا، ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے سفیان ثوری نے، ان سے ابواسحاق نے اور ان سے براء (رض) نے (دوسری سند) اور ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، انہیں سفیان نے خبر دی، انہیں ابواسحاق نے اور ان سے براء بن عازب (رض) نے بیان کیا کہ ہم آپس میں یہ گفتگو کیا کرتے تھے کہ جنگ بدر میں اصحاب بدر کی تعداد بھی تین سو دس سے اوپر، کچھ اوپر تھی، جتنی ان اصحاب طالوت کی تعداد تھی جنہوں نے ان کے ساتھ نہر فلسطین پار کی تھی اور اسے پار کرنے والے صرف ایماندار ہی تھے۔
باب: کفار قریش، شیبہ، عتبہ، ولید اور ابوجہل بن ہشام کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بددعا کرنا اور ان کی ہلاکت کا بیان۔
ہم سے عمرو بن خالد حرانی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے زہیر بن معاویہ نے بیان کیا، ہم سے ابواسحاق سبیعی نے بیان کیا، ان سے عمرو بن میمون نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے کعبہ کی طرف منہ کر کے کفار قریش کے چند لوگوں شیبہ بن ربیعہ، عتبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ اور ابوجہل بن ہشام کے حق میں بددعا کی تھی۔ میں اس کے لیے اللہ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے (بدر کے میدان میں) ان کی لاشیں پڑی ہوئی پائیں۔ سورج نے ان کی لاشوں کو بدبودار کردیا تھا۔ اس دن بڑی گرمی تھی۔
باب: (بدر کے دن) ابوجہل کا قتل ہونا۔
ہم سے محمد بن عبداللہ بن نمیر نے بیان کیا، ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ہم سے اسماعیل بن ابی خالد نے بیان کیا، ہم کو قیس بن ابوحازم نے خبر دی اور انہیں عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہ بدر کی لڑائی میں وہ ابوجہل کے قریب سے گزرے ابھی اس میں تھوڑی سی جان باقی تھی اس نے ان سے کہا اس سے بڑا کوئی اور شخص ہے جس کو تم نے مارا ہے ؟
باب: (بدر کے دن) ابوجہل کا قتل ہونا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( اور دوسری سند ) امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا، مجھ سے عمرو بن خالد نے بیان کیا، ہم سے زہیر بن معاویہ نے بیان کیا، ان سے سلیمان تیمی نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”کوئی ہے جو معلوم کرے کہ ابوجہل کا کیا حشر ہوا؟“ ابن مسعود رضی اللہ عنہ حقیقت حال معلوم کرنے آئے تو دیکھا کے عفراء کے بیٹوں ( معاذ اور معوذ رضی اللہ عنہما ) نے اسے قتل کر دیا ہے اور اس کا جسم ٹھنڈا پڑا ہے۔ انہوں نے دریافت کیا، کیا تو ہی ابوجہل ہے؟ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس کی ڈاڑھی پکڑ لی۔ ابوجہل نے کہا، کیا اس سے بھی بڑا کوئی آدمی ہے جسے تم نے آج قتل کر ڈالا ہے؟ یا ( اس نے یہ کہا کہ کیا اس سے بھی بڑا ) کوئی آدمی ہے جسے اس کی قوم نے قتل کر ڈالا ہے؟ احمد بن یونس نے ( اپنی روایت میں ) «أنت» ابوجھل کے الفاظ بیان کئے ہیں۔ یعنی انہوں نے یہ پوچھا، کیا تو ہی ابوجہل ہے۔
باب: (بدر کے دن) ابوجہل کا قتل ہونا۔
مجھ سے ابن مثنیٰ نے بیان کیا، ہم کو معاذ بن معاذ نے خبر دی، کہا ہم سے سلیمان نے بیان کیا اور انہیں انس بن مالک (رض) نے خبر دی، اسی طرح آگے حدیث بیان کی۔
باب: (بدر کے دن) ابوجہل کا قتل ہونا۔
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے یوسف بن ماجشون سے یہ حدیث لکھی، انہوں نے صالح بن ابراہیم سے بیان کیا، انہوں نے اپنے والد سے انہوں نے صالح کے دادا (عبدالرحمٰن بن عوفص) سے، بدر کے بارے میں عفراء کے دونوں بیٹوں کی حدیث مراد لیتے تھے۔
باب: (بدر کے دن) ابوجہل کا قتل ہونا۔
مجھ سے محمد بن عبداللہ رقاشی نے بیان کیا، ہم سے معتمر نے بیان کیا، کہا کہ میں نے اپنے والد سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ہم سے ابومجلز نے، ان سے قیس بن عباد نے اور ان سے علی بن ابی طالب (رض) نے بیان کیا کہ قیامت کے دن میں سب سے پہلا شخص ہوں گا جو اللہ تعالیٰ کے دربار میں جھگڑا چکانے کے لیے دو زانو ہو کر بیٹھے گا۔ قیس بن عباد نے بیان کیا کہ انہیں حضرات (حمزہ، علی اور عبیدہ رضی اللہ عنہم) کے بارے میں سورة الحج کی یہ آیت نازل ہوئی تھی هذان خصمان اختصموا في ربهم یہ دو فریق ہیں جنہوں نے اللہ کے بارے میں لڑائی کی۔ بیان کیا کہ یہ وہی ہیں جو بدر کی لڑائی میں لڑنے نکلے تھے، مسلمانوں کی طرف سے حمزہ، علی اور عبیدہ یا ابوعبیدہ بن حارث رضوان اللہ علیہم (اور کافروں کی طرف سے) شیبہ بن ربیعہ، عتبہ بن ربیعہ اور ولید بن عتبہ تھے۔
باب: (بدر کے دن) ابوجہل کا قتل ہونا۔
ہم سے قبیصہ نے بیان کیا، کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے ابوہاشم نے، ان سے ابومجلز نے، ان سے قیس بن عباد نے اور ان سے ابوذر (رض) نے بیان کیا آیت کریمہ هذان خصمان اختصموا في ربهم یہ دو فریق ہیں جنہوں نے اللہ کے بارے میں مقابلہ کیا قریش کے چھ شخصوں کے بارے میں نازل ہوئی تھی (تین مسلمانوں کی طرف کے یعنی علی، حمزہ اور عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہم اور (تین کفار کی طرف کے یعنی) شیبہ بن ربیعہ، عتبہ بن ربیعہ اور ولید بن عتبہ۔
باب: (بدر کے دن) ابوجہل کا قتل ہونا۔
ہم سے اسحاق بن ابراہیم صواف نے بیان کیا، ہم سے یوسف بن یعقوب نے بیان کیا، ان کا بنی ضبیعہ کے یہاں آنا جانا تھا اور وہ بنی سدوس کے غلام تھے۔ کہا ہم سے سلیمان تیمی نے بیان کیا، ان سے ابومجلز نے اور ان سے قیس بن عباد نے بیان کیا کہ علی (رض) نے کہا یہ آیت هذان خصمان اختصموا في ربهم ہمارے ہی بارے میں نازل ہوئی تھی۔
باب: (بدر کے دن) ابوجہل کا قتل ہونا۔
ہم سے یحییٰ بن جعفر نے بیان کیا، ہم کو وکیع نے خبر دی، انہیں سفیان نے، انہیں ابوہاشم نے، انہیں ابومجلز نے، انہیں قیس بن عباد نے اور انہوں نے ابوذر (رض) سے سنا، وہ قسمیہ بیان کرتے تھے کہ یہ آیت ( هذان خصمان اختصموا في ربهم ) انہیں چھ آدمیوں کے بارے میں، بدر کی لڑائی کے موقع پر نازل ہوئی تھی۔ پہلی حدیث کی طرح راوی نے اسے بھی بیان کیا۔
باب: (بدر کے دن) ابوجہل کا قتل ہونا۔
ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، ہم سے ہشیم نے بیان کیا، ہم کو ابوہاشم نے خبر دی، انہیں ابومجلز نے، انہیں قیس نے، انہوں نے کہا کہ میں نے ابوذر (رض) سے سنا، وہ قسمیہ کہتے تھے کہ یہ آیت هذان خصمان اختصموا في ربهم ان کے بارے میں اتری جو بدر کی لڑائی میں مقابلے کے لیے نکلے تھے یعنی حمزہ، علی اور عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہم (مسلمانوں کی طرف سے) اور عتبہ، شیبہ، ربیعہ کے بیٹے اور ولید بن عتبہ (کافروں کی طرف سے) ۔
باب: (بدر کے دن) ابوجہل کا قتل ہونا۔
مجھ سے ابوعبداللہ احمد بن سعید نے بیان کیا، ہم سے اسحاق بن منصور سلولی نے بیان کیا، ہم سے ابراہیم بن یوسف نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ یوسف بن اسحاق نے اور ان سے ان کے دادا ابواسحاق سبیعی نے کہ ایک شخص نے براء (رض) سے پوچھا اور میں سن رہا تھا کہ کیا علی (رض) بدر کی جنگ میں شریک تھے ؟ انہوں نے کہا کہ ہاں انہوں نے تو مبارزت کی تھی اور غالب رہے تھے۔
باب: (بدر کے دن) ابوجہل کا قتل ہونا۔
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے یوسف بن ماجشون نے بیان کیا، ان سے صالح بن ابراہیم بن عبدالرحمٰن بن عوف نے، ان سے ان کے والد ابراہیم نے ان کے دادا عبدالرحمٰن بن عوف (رض) سے، انہوں نے بیان کیا کہ امیہ بن خلف سے (ہجرت کے بعد) میرا عہد نامہ ہوگیا تھا۔ پھر بدر کی لڑائی کے موقع پر انہوں نے اس کے اور اس کے بیٹے (علی) کے قتل کا ذکر کیا۔ بلال نے (جب اسے دیکھ لیا تو) کہا کہ اگر آج امیہ بچ نکلا تو میں آخرت میں عذاب سے بچ نہیں سکوں گا۔
باب: (بدر کے دن) ابوجہل کا قتل ہونا۔
ہم سے عبدان بن عثمان نے بیان کیا، کہا کہ مجھے میرے والد نے خبر دی، انہیں شعبہ نے، انہیں ابواسحٰق نے، انہیں اسود نے اور انہیں عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے (ایک مرتبہ مکہ میں) سورة النجم کی تلاوت کی اور سجدہ تلاوت کیا تو جتنے لوگ وہاں موجود تھے سب سجدہ میں گرگئے۔ سوائے ایک بوڑھے کے کہ اس نے ہتھیلی میں مٹی لے کر اپنی پیشانی پر اسے لگا لیا اور کہنے لگا کہ میرے لیے بس اتنا ہی کافی ہے۔ عبداللہ (رض) نے کہا کہ پھر میں نے اسے دیکھا کہ کفر کی حالت میں وہ قتل ہوا۔
باب: (بدر کے دن) ابوجہل کا قتل ہونا۔
مجھے ابراہیم بن موسیٰ نے خبر دی، کہا ہم سے ہشام بن یوسف نے بیان کیا، ان سے معمر نے، ان سے ہشام نے، ان سے عروہ نے بیان کیا کہ زبیر (رض) کے جسم پر تلوار کے تین (گہرے) زخموں کے نشانات تھے۔ ایک ان کے مونڈھے پر تھا (اور اتنا گہرا تھا) کہ میں بچپن میں اپنی انگلیاں ان میں داخل کردیا کرتا تھا۔ عروہ نے بیان کیا کہ ان میں سے دو زخم بدر کی لڑائی میں آئے تھے اور ایک جنگ یرموک میں۔ عروہ نے بیان کیا کہ جب عبداللہ بن زبیر (رض) کو (حجاج ظالم کے ہاتھوں سے) شہید کردیا گیا تو مجھ سے عبدالملک بن مروان نے کہا : اے عروہ ! کیا زبیر (رض) کی تلوار تم پہچانتے ہو ؟ میں نے کہا کہ ہاں، پہچانتا ہوں۔ اس نے پوچھا اس کی نشانی بتاؤ ؟ میں نے کہا کہ بدر کی لڑائی کے موقع پر اس کی دھار کا ایک حصہ ٹوٹ گیا تھا، جو ابھی تک اس میں باقی ہے۔ عبدالملک نے کہا کہ تم نے سچ کہا (پھر اس نے نابغہ شاعر کا یہ مصرع پڑھا) فوجوں کے ساتھ لڑتے لڑتے ان کی تلواروں کی دھاریں کی جگہ سے ٹوٹ گی ہیں پھر عبدالملک نے وہ تلوار عروہ کو واپس کردی ‘ ہشام نے بیان کیا کہ ہمارا اندازہ تھا کہ اس تلوار کی قیمت تین ہزار درہم تھی۔ وہ تلوار ہمارے ایک عزیز (عثمان بن عروہ) نے قیمت دے کرلے لی تھی میری بڑی آرزو تھی کہ کاش ! وہ تلوار میرے حصے میں آتی۔
باب: (بدر کے دن) ابوجہل کا قتل ہونا۔
ہم سے فروہ بن ابی المغراء نے بیان کیا ‘ ان سے علی بن مسہر نے ‘ ان سے ہشام بن عروہ نے ‘ ان سے ان کے والد عروہ نے بیان کیا کہ زبیر (رض) کی تلوار پر چاندی کا کام تھا۔ ہشام نے کہا کہ (میرے والد) عروہ کی تلوار پر چاندی کا کام تھا۔
باب: (بدر کے دن) ابوجہل کا قتل ہونا۔
ہم سے احمد بن محمد نے بیان کیا ‘ ہم سے عبداللہ بن مبارک نے بیان کیا ‘ انہیں ہشام بن عروہ نے خبر دی ‘ انہیں ان کے والد نے کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ نے زبیر (رض) سے یرموک کی جنگ میں کہا آپ حملہ کرتے تو ہم بھی آپ کے ساتھ حملہ کرتے انہوں نے کہا کہ اگر میں نے ان پر زور کا حملہ کردیا تو پھر تم لوگ پیچھے رہ جاؤ گے سب بولے کہ ہم ایسا نہیں کریں گے۔ چناچہ زبیر (رض) نے دشمن (رومی فوج) پر حملہ کیا اور ان کی صفوں کو چیرتے ہوئے آگے نکل گئے۔ اس وقت ان کے ساتھ کوئی ایک بھی (مسلمان) نہیں رہا پھر (مسلمان فوج کی طرف) آنے لگے تو رومیوں نے ان کے گھوڑے کی لگام پکڑ لی اور مونڈھے پر دو کاری زخم لگائے، جو زخم بدر کی لڑائی کے موقع پر ان کو لگا تھا وہ ان دونوں زخموں کے درمیان میں پڑگیا تھا۔ عروہ بن زبیر نے بیان کیا کہ جب میں چھوٹا تھا تو ان زخموں میں اپنی انگلیاں ڈال کر کھیلا کرتا تھا۔ عروہ نے بیان کیا کہ یرموک کی لڑائی کے موقع پر عبداللہ بن زبیر (رض) بھی ان کے ساتھ گئے تھے، اس وقت ان کی عمر کل دس سال کی تھی اس لیے ان کو ایک گھوڑے پر سوار کر کے ایک صاحب کی حفاظت میں دے دیا تھا۔
باب: (بدر کے دن) ابوجہل کا قتل ہونا۔
مجھ سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا انہوں نے روح بن عبادہ سے سنا، کہا ہم سے سعید بن ابی عروبہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے بیان کیا کہ انس بن مالک (رض) نے کہا، ہم سے ابوطلحہ (رض) نے بیان کیا کہ بدر کی لڑائی میں رسول اللہ ﷺ کے حکم سے قریش کے چوبیس مقتول سردار بدر کے ایک بہت ہی اندھیرے اور گندے کنویں میں پھینک دئیے گئے۔ عادت مبارکہ تھی کہ جب دشمن پر غالب ہوتے تو میدان جنگ میں تین دن تک قیام فرماتے جنگ بدر کے خاتمہ کے تیسرے دن آپ کے حکم سے آپ کی سوای پر کجاوہ باندھا گیا اور آپ روانہ ہوئے آپ کے اصحاب بھی آپ کے ساتھ تھے صحابہ نے کہا، غالباً آپ کسی ضرورت کے لیے تشریف لے جا رہے ہیں آخر آپ اس کنویں کے کنارے آ کر کھڑے ہوگئے اور کفار قریش کے مقتولین سرداروں کے نام ان کے باپ کے نام کے ساتھ لے کر آپ انہیں آواز دینے لگے کہ اے فلاں بن فلاں ! اے فلاں بن فلاں ! کیا آج تمہارے لیے یہ بات بہتر نہیں تھی کہ تم نے دنیا میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی ہوتی ؟ بیشک ہم سے ہمارے رب نے جو وعدہ کیا تھا وہ ہمیں پوری طرح حاصل ہوگیا تو کیا تمہارے رب کا تمہارے متعلق جو وعدہ (عذاب کا) تھا وہ بھی تمہیں پوری طرح مل گیا ؟ ابوطلحہ (رض) نے بیان کیا کہ اس پر عمر (رض) بول پڑے : یا رسول اللہ ! آپ ان لاشوں سے کیوں خطاب فرما رہے ہیں ؟ جن میں کوئی جان نہیں ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، جو کچھ میں کہہ رہا ہوں تم لوگ ان سے زیادہ اسے نہیں سن رہے ہو۔ قتادہ نے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں زندہ کردیا تھا (اس وقت) تاکہ نبی کریم ﷺ انہیں اپنی بات سنا دیں ان کی توبیخ ‘ ذلت ‘ نامرادی اور حسرت و ندامت کے لیے۔
باب: (بدر کے دن) ابوجہل کا قتل ہونا۔
ہم سے حمیدی نے بیان کیا ‘ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ‘ ان سے عمرو بن دینار نے بیان کیا ‘ ان سے عطاء نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے ‘ قرآن مجید کی آیت الذين بدلوا نعمة الله کفرا (سورۃ ابراہیم 28) کے بارے میں آپ نے فرمایا اللہ کی قسم ! یہ کفار قریش تھے۔ عمرو نے کہا کہ اس سے مراد قریش تھے اور رسول اللہ ﷺ اللہ کی نعمت تھے۔ کفار قریش نے اپنی قوم کو جنگ بدر کے دن دار البوار یعنی دوزخ میں جھونک دیا۔
باب: (بدر کے دن) ابوجہل کا قتل ہونا۔
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا ‘ ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا ‘ ان سے ہشام نے ‘ ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ عائشہ (رض) کے سامنے کسی نے اس کا ذکر کیا کہ ابن عمر (رض) نبی کریم ﷺ کے حوالہ سے بیان کرتے ہیں کہ میت کو قبر میں اس کے گھر والوں کے، اس پر رونے سے بھی عذاب ہوتا ہے۔ اس پر عائشہ (رض) نے کہا کہ آپ ﷺ نے تو یہ فرمایا تھا کہ عذاب میت پر اس کی بدعملیوں اور گناہوں کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اور اس کے گھر والے ہیں کہ اب بھی اس کی جدائی پر روتے رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے رسول اللہ ﷺ نے بدر کے اس کنویں پر کھڑے ہو کر جس میں مشرکین کی لاشیں ڈال دی گئیں تھیں ‘ ان کے بارے میں فرمایا تھا کہ جو کچھ میں کہہ رہا ہوں ‘ یہ اسے سن رہے ہیں۔ تو آپ کے فرمانے کا مقصد یہ تھا کہ اب انہیں معلوم ہوگیا ہوگا کہ ان سے میں جو کچھ کہہ رہا تھا وہ حق تھا۔ پھر انہوں نے اس آیت کی تلاوت کی إنک لا تسمع الموتى آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے۔ وما أنت بمسمع من في القبور اور جو لوگ قبروں میں دفن ہوچکے ہیں انہیں آپ اپنی بات نہیں سنا سکتے۔ عائشہ (رض) نے کہا کہ (آپ ان مردوں کو نہیں سنا سکتے) جو اپنا ٹھکانا اب جہنم میں بنا چکے ہیں۔
باب: (بدر کے دن) ابوجہل کا قتل ہونا۔
مجھ سے عثمان نے بیان کیا ‘ ہم سے عبدہ نے بیان کیا ‘ ان سے ہشام نے ‘ ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابن عمر (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے بدر کے کنویں پر کھڑے ہو کر فرمایا کیا جو کچھ تمہارے رب نے تمہارے لیے وعدہ کر رکھا تھا ‘ اسے تم نے سچا پا لیا ؟ پھر آپ ﷺ نے فرمایا جو کچھ میں کہہ رہا ہوں یہ اب بھی اسے سن رہے ہیں۔ اس حدیث کا ذکر جب عائشہ (رض) سے کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ آپ ﷺ نے یہ فرمایا تھا کہ انہوں نے اب جان لیا ہوگا کہ جو کچھ میں نے ان سے کہا تھا وہ حق تھا۔ اس کے بعد انہوں نے آیت إنک لا تسمع الوتى بیشک آپ ان مردوں کو نہیں سنا سکتے۔ پوری پڑھی۔
باب: بدر کی لڑائی میں حاضر ہونے والوں کی فضیلت کا بیان۔
مجھ سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا ‘ ہم سے معاویہ بن عمرو نے بیان کیا ‘ ہم سے ابواسحاق نے بیان کیا ‘ ان سے حمید نے بیان کیا کہ میں نے انس (رض) سے سنا ‘ انہوں نے بیان کیا کہ حارثہ بن سراقہ انصاری (رض) جو ابھی نوعمر لڑکے تھے ‘ بدر کے دن شہید ہوگئے تھے (پانی پینے کے لیے حوض پر آئے تھے کہ ایک تیر نے شہید کردیا) پھر ان کی والدہ (ربیع بنت النصر ‘ انس (رض) کی پھوپھی) رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! آپ کو معلوم ہے کہ مجھے حارثہ سے کتنا پیار تھا۔ اگر وہ اب جنت میں ہے تو میں اس پر صبر کروں گی اور اللہ تعالیٰ کی امید رکھوں گی اور اگر کہیں دوسری جگہ ہے تو آپ دیکھ رہے ہیں کہ میں کس حال میں ہوں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تم پر رحم کرے، کیا دیوانی ہو رہی ہو، کیا وہاں کوئی ایک جنت ہے ؟ بہت سی جنتیں ہیں اور تمہارا بیٹا جنت الفردوس میں ہے۔
باب: بدر کی لڑائی میں حاضر ہونے والوں کی فضیلت کا بیان۔
مجھ سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا ‘ ہم کو عبداللہ بن ادریس نے خبر دی ‘ کہا کہ میں نے حسین بن عبدالرحمٰن سے سنا ‘ انہوں نے سعد بن عبیدہ سے ‘ انہوں نے ابوعبدالرحمٰن سلمی سے کہ علی (رض) نے کہا مجھے ‘ ابومرثد (رض) اور زبیر (رض) کو رسول اللہ ﷺ نے ایک مہم پر بھیجا۔ ہم سب شہسوار تھے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تم لوگ سیدھے چلے جاؤ۔ جب روضہ خاخ پر پہنچو تو وہاں تمہیں مشرکین کی ایک عورت ملے گی ‘ وہ ایک خط لیے ہوئے ہے جسے حاطب بن ابی بلتعہ نے مشرکین کے نام بھیجا ہے۔ چناچہ نبی کریم ﷺ نے جس جگہ کا پتہ دیا تھا ہم نے وہیں اس عورت کو ایک اونٹ پر جاتے ہوئے پا لیا۔ ہم نے اس سے کہا کہ خط دے دو ۔ وہ کہنے لگی کہ میرے پاس تو کوئی خط نہیں ہے۔ ہم نے اس کے اونٹ کو بیٹھا کر اس کی تلاشی لی تو واقعی ہمیں بھی کوئی خط نہیں ملا۔ لیکن ہم نے کہا کہ نبی کریم ﷺ کی بات کبھی غلط نہیں ہوسکتی خط نکال ورنہ ہم تجھے ننگا کردیں گے۔ جب اس نے ہمارا یہ سخت رویہ دیکھا تو ازار باندھنے کی جگہ کی طرف اپنا ہاتھ لے گئی وہ ایک چادر میں لپٹی ہوئی تھی اور اس نے خط نکال کر ہم کو دے دیا ہم اسے لے کر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ عمر (رض) نے کہا کہ اس نے (یعنی حاطب بن ابی بلتعہ نے) اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں سے دغا کی ہے آپ مجھے اجازت دیں تاکہ میں اس کی گردن مار دوں لیکن آپ ﷺ نے ان سے دریافت فرمایا کہ تم نے یہ کام کیوں کیا ؟ حاطب (رض) بولے : اللہ کی قسم ! یہ وجہ ہرگز نہیں تھی کہ اللہ اور اس کے رسول پر میرا ایمان باقی نہیں رہا تھا میرا مقصد تو صرف اتنا تھا کہ قریش پر اس طرح میرا ایک احسان ہوجائے اور اس کی وجہ سے وہ (مکہ میں باقی رہ جانے والے) میرے اہل و عیال کی حفاظت کریں۔ آپ کے اصحاب میں جتنے بھی حضرات (مہاجرین) ہیں ان سب کا قبیلہ وہاں موجود ہے اور اللہ ان کے ذریعے ان کے اہل و مال کی حفاظت کرتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہوں نے سچی بات بتادی ہے اور تم لوگوں کو چاہیے کہ ان کے متعلق اچھی بات ہی کہو۔ عمر (رض) نے پھر عرض کیا کہ اس شخص نے اللہ، اس کے رسول اور مسلمانوں سے دغا کی ہے آپ مجھے اجازت دیجئیے کہ میں اس کی گردن مار دوں۔ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ کیا یہ بدر والوں میں سے نہیں ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اہل بدر کے حالات کو پہلے ہی سے جانتا تھا اور وہ خود فرما چکا ہے کہ تم جو چاہو کرو، تمہیں جنت ضرور ملے گی۔ (یا آپ ﷺ نے یہ فرمایا کہ) میں نے تمہاری مغفرت کردی ہے یہ سن کر عمر (رض) کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور عرض کیا، اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔
باب: بدر کی لڑائی میں حاضر ہونے والوں کی فضیلت کا بیان۔
مجھ سے عبداللہ بن محمد جعفی نے بیان کیا ‘ ہم سے ابواحمد زبیری نے بیان کیا ‘ ہم سے عبدالرحمٰن بن غسیل نے بیان کیا ‘ ان سے حمزہ بن ابی اسید اور زبیر بن منذر بن ابی اسید نے اور ان سے ابواسید (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے جنگ بدر کے موقع پر ہمیں ہدایت فرمائی تھی کہ جب کفار تمہارے قریب آجائیں تو ان پر تیر چلانا اور (جب تک وہ دور رہیں) اپنے تیروں کو بچائے رکھنا۔
باب: بدر کی لڑائی میں حاضر ہونے والوں کی فضیلت کا بیان۔
مجھ سے محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا ‘ ہم سے ابواحمد زبیری نے بیان کیا ‘ ہم سے عبدالرحمٰن بن غسیل نے ‘ ان سے حمزہ بن ابی اسید اور منذر بن ابی اسید نے اور ان سے ابواسید (رض) نے بیان کیا کہ جنگ بدر میں رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ہدایت کی تھی کہ جب کفار تمہارے قریب آجائیں یعنی حملہ و ہجوم کریں (اتنے کہ تمہارے نشانے کی زد میں آجائیں) تو پھر ان پر تیر برسانے شروع کرنا اور (جب تک وہ تم سے قریب نہ ہوں) اپنے تیر کو محفوظ رکھنا۔
باب: بدر کی لڑائی میں حاضر ہونے والوں کی فضیلت کا بیان۔
مجھ سے عمرو بن خالد نے بیان کیا ‘ ہم سے زہیر نے بیان کیا ‘ ہم سے ابواسحاق نے بیان کیا کہ میں نے براء بن عازب (رض) سے سنا ‘ وہ بیان کر رہے تھے کہ نبی کریم ﷺ نے احد کی لڑائی میں تیر اندازوں پر عبداللہ بن جبیر (رض) کو سردار مقرر کیا تھا اس لڑائی میں ہمارے ستر آدمی شہید ہوئے تھے۔ نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابیوں سے بدر کی لڑائی میں ایک سو چالیس مشرکین کو نقصان پہنچا تھا۔ ستر ان میں سے قتل کر دئیے گئے اور ستر قیدی بنا کر لائے گئے اس پر ابوسفیان نے کہا کہ آج کا دن بدر کے دن کا بدلہ ہے اور لڑائی کی مثال ڈول کی سی ہے۔
باب: بدر کی لڑائی میں حاضر ہونے والوں کی فضیلت کا بیان۔
مجھ سے محمد بن علاء نے بیان کیا ‘ ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا ‘ ان سے برید نے ‘ ان سے ان کے دادا نے ‘ اس سے ابوبردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری (رض) نے میں گمان کرتا ہوں کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ سے بیان کیا کہ آپ ﷺ نے فرمایا خیر و بھلائی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں احد کی لڑائی کے بعد عطا فرمائی اور خلوص عمل کا ثواب وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں بدر کی لڑائی کے بعد عطا فرمایا۔
باب: بدر کی لڑائی میں حاضر ہونے والوں کی فضیلت کا بیان۔
مجھ سے یعقوب نے بیان کیا، ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے، ان کے دادا سے کہ عبدالرحمٰن بن عوف (رض) نے کہا بدر کی لڑائی کے موقع پر میں صف میں کھڑا ہوا تھا۔ میں نے مڑ کے دیکھا تو میری داہنی اور بائیں طرف دو نوجوان کھڑے تھے۔ ابھی میں ان کے متعلق کوئی فیصلہ بھی نہ کر پایا تھا کہ ایک نے مجھ سے چپکے سے پوچھا تاکہ اس کا ساتھی سننے نہ پائے۔ چچا ! مجھے ابوجہل کو دکھا دو ۔ میں نے کہا بھتیجے ! تم اسے دیکھ کر کیا کرو گے ؟ اس نے کہا، میں نے اللہ تعالیٰ کے سامنے یہ عہد کیا ہے کہ اگر میں نے اسے دیکھ لیا تو یا اسے قتل کر کے رہوں گا یا پھر خود اپنی جان دے دوں گا۔ دوسرے نوجوان نے بھی اپنے ساتھی سے چھپاتے ہوئے مجھ سے یہی بات پوچھی۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ان دونوں نوجوانوں کے درمیان میں کھڑے ہو کر مجھے بہت خوشی ہوئی۔ میں نے اشارے سے انہیں ابوجہل دکھا دیا۔ جسے دیکھتے ہی وہ دونوں باز کی طرح اس پر جھپٹے اور فوراً ہی اسے مار گرایا۔ یہ دونوں عفراء کے بیٹے تھے۔
باب: بدر کی لڑائی میں حاضر ہونے والوں کی فضیلت کا بیان۔
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، ہم سے ابراہیم نے بیان کیا، انہیں ابن شہاب نے خبر دی، کہا کہ مجھے عمر بن اسید بن جاریہ ثقفی نے خبر دی جو بنی زہرہ کے حلیف تھے اور ابوہریرہ (رض) کے شاگردوں میں شامل تھے کہ ابوہریرہ (رض) نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے دس جاسوس بھیجے اور ان کا امیر عاصم بن ثابت انصاری (رض) کو بنایا جو عاصم بن عمر بن خطاب (رض) کے نانا ہوتے ہیں۔ جب یہ لوگ عسفان اور مکہ کے درمیان مقام ہدہ پر پہنچے تو بنی ہذیل کے ایک قبیلہ کو ان کے آنے کی اطلاع مل گئی۔ اس قبیلہ کا نام بنی لحیان تھا۔ اس کے سو تیرانداز ان صحابہ رضی اللہ عنہم کی تلاش میں نکلے اور ان کے نشان قدم کے اندازے پر چلنے لگے۔ آخر اس جگہ پہنچ گئے جہاں بیٹھ کر ان صحابہ رضی اللہ عنہم نے کھجور کھائی تھی۔ انہوں نے کہا کہ یہ یثرب (مدینہ) کی کھجور (کی گٹھلیاں) ہیں۔ اب پھر وہ ان کے نشان قدم کے اندازے پر چلنے لگے۔ جب عاصم بن ثابت (رض) اور ان کے ساتھیوں نے ان کے آنے کو معلوم کرلیا تو ایک (محفوظ) جگہ پناہ لی۔ قبیلہ والوں نے انہیں اپنے گھیرے میں لے لیا اور کہا کہ نیچے اتر آؤ اور ہماری پناہ خود قبول کرلو تو تم سے ہم وعدہ کرتے ہیں کہ تمہارے کسی آدمی کو بھی ہم قتل نہیں کریں گے۔ عاصم بن ثابت (رض) نے کہا۔ مسلمانو ! میں کسی کافر کی پناہ میں نہیں اتر سکتا۔ پھر انہوں نے دعا کی، اے اللہ ! ہمارے حالات کی خبر اپنے نبی کو کر دے آخر قبیلہ والوں نے مسلمانوں پر تیر اندازی کی اور عاصم (رض) کو شہید کردیا۔ بعد میں ان کے وعدہ پر تین صحابہ اتر آئے۔ یہ حضرات خبیب، زید بن دثنہ اور ایک تیسرے صحابی تھے۔ قبیلہ والوں نے جب ان تینوں صحابیوں پر قابو پا لیا تو ان کی کمان سے تانت نکال کر اسی سے انہیں باندھ دیا۔ تیسرے صحابی نے کہا، یہ تمہاری پہلی دغا بازی ہے میں تمہارے ساتھ کبھی نہیں جاسکتا۔ میرے لیے تو انہیں کی زندگی نمونہ ہے۔ آپ کا اشارہ ان صحابہ کی طرف تھا جو ابھی شہید کئے جا چکے تھے۔ کفار نے انہیں گھسیٹنا شروع کیا اور زبردستی کی لیکن وہ کسی طرح ان کے ساتھ جانے پر تیار نہ ہوئے۔ (تو انہوں نے ان کو بھی شہید کردیا) اور خبیب (رض) اور زید بن دثنہ (رض) کو ساتھ لے گئے اور (مکہ میں لے جا کر) انہیں بیچ دیا۔ یہ بدر کی لڑائی کے بعد کا واقعہ ہے۔ حارث بن عامر بن نوفل کے لڑکوں نے خبیب رضی اللہ کو خرید لیا۔ انہوں ہی نے بدر کی لڑائی میں حارث بن عامر کو قتل کیا تھا۔ کچھ دنوں تک تو وہ ان کے یہاں قید رہے آخر انہوں نے ان کے قتل کا ارادہ کیا۔ انہیں دنوں حارث کی کسی لڑکی سے انہوں نے زیر ناف بال صاف کرنے کے لیے استرہ مانگا۔ اس نے دے دیا۔ اس وقت اس کا ایک چھوٹا سا بچہ ان کے پاس (کھیلتا ہوا) اس عورت کی بیخبر ی میں چلا گیا۔ پھر جب وہ ان کی طرف آئی تو دیکھا کہ بچہ ان کی ران پر بیٹھا ہوا ہے۔ اور استرہ ان کے ہاتھ میں ہے انہوں نے بیان کیا کہ یہ دیکھتے ہی وہ اس درجہ گھبرا گئی کہ خبیب (رض) نے اس کی گھبراہٹ کو دیکھ لیا اور بولے، کیا تمہیں اس کا خوف ہے کہ میں اس بچے کو قتل کر دوں گا ؟ یقین رکھو کہ ایسا ہرگز نہیں کرسکتا۔ ان خاتون نے بیان کیا کہ اللہ کی قسم ! میں نے کبھی کوئی قیدی خبیب (رض) سے بہتر نہیں دیکھا۔ اللہ کی قسم ! میں نے ایک دن انگور کے ایک خوشہ سے انہیں انگور کھاتے دیکھا جو ان کے ہاتھ میں تھا حالانکہ وہ لوہے کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے اور مکہ میں اس وقت کوئی پھل بھی نہیں تھا۔ وہ بیان کرتی تھیں کہ وہ تو اللہ کی طرف سے بھیجی ہوئی روزی تھی جو اس نے خبیب (رض) کے لیے بھیجی تھی۔ پھر بنو حارثہ انہیں قتل کرنے کے لیے حرم سے باہر لے جانے لگے تو خبیب (رض) نے ان سے کہا کہ مجھے دو رکعت نماز پڑھنے کی اجازت دے دو ۔ انہوں نے اس کی اجازت دی تو انہوں نے دو رکعت نماز پڑھی اور فرمایا : اللہ کی قسم ! اگر تمہیں یہ خیال نہ ہونے لگتا کہ مجھے گھبراہٹ ہے (موت سے) تو اور زیادہ دیر تک پڑھتا۔ پھر انہوں نے دعا کی کہ اے اللہ ! ان میں سے ہر ایک کو الگ الگ ہلاک کر اور ایک کو بھی باقی نہ چھوڑ اور یہ اشعار پڑھے جب میں اسلام پر قتل کیا جا رہا ہوں تو مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ اللہ کی راہ میں مجھے کس پہلو پر پچھاڑا جائے گا اور یہ تو صرف اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے ہے۔ اگر وہ چاہے گا تو میرے جسم کے ایک ایک جوڑ پر ثواب عطا فرمائے گا۔ اس کے بعد ابوسروعہ عقبہ بن حارث ان کی طرف بڑھا اور اس نے انہیں شہید کردیا۔ خبیب (رض) نے اپنے عمل حسن سے ہر اس مسلمان کے لیے جسے قید کر کے قتل کیا جائے (قتل سے پہلے دو رکعت) نماز کی سنت قائم کی ہے۔ ادھر جس دن ان صحابہ رضی اللہ عنہم پر مصیبت آئی تھی آپ ﷺ نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو اسی دن اس کی خبر دے دی تھی۔ قریش کے کچھ لوگوں کو جب معلوم ہوا کہ عاصم بن ثابت (رض) شہید کر دئیے گئے ہیں تو ان کے پاس اپنے آدمی بھیجے تاکہ ان کے جسم کا کوئی ایسا حصہ لائیں جس سے انہیں پہچانا جاسکے۔ کیونکہ انہوں نے بھی (بدر میں) ان کے ایک سردار (عقبہ بن ابی معیط) کو قتل کیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی لاش پر بادل کی طرح بھڑوں کی ایک فوج بھیج دی اور انہوں نے آپ کی لاش کو کفار قریش کے ان آدمیوں سے بچا لیا اور وہ ان کے جسم کا کوئی حصہ بھی نہ کاٹ سکے اور کعب بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ میرے سامنے لوگوں نے مرارہ بن ربیع عمری (رض) اور ہلال بن امیہ واقفی (رض) کا ذکر کیا۔ (جو غزوہ تبوک میں نہیں جاسکے تھے) کہ وہ صالح صحابیوں میں سے ہیں اور بدر کی لڑائی میں شریک ہوئے تھے۔
باب: بدر کی لڑائی میں حاضر ہونے والوں کی فضیلت کا بیان۔
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے یحییٰ نے ان سے نافع نے کہ ابن عمر (رض) نے جمعہ کے دن ذکر کیا کہ سعید بن زید بن عمرو بن نفیل (رض) جو بدری صحابی تھے، بیمار ہیں۔ دن چڑھ چکا تھا، ابن عمر (رض) سوار ہو کر ان کے پاس تشریف لے گئے۔ اتنے میں جمعہ کا وقت قریب ہوگیا اور وہ جمعہ کی نماز (مجبوراً ) نہ پڑھ سکے۔
باب: بدر کی لڑائی میں حاضر ہونے والوں کی فضیلت کا بیان۔
اور لیث بن سعد نے بیان کیا کہ مجھ سے یونس نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے بیان کیا کہ ان کے والد نے عمر بن عبداللہ بن ارقم زہری کو لکھا کہ تم سبیعہ بنت حارث اسلمیہ (رض) کے پاس جاؤ اور ان سے ان کے واقعہ کے متعلق پوچھو کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ سے مسئلہ پوچھا تھا تو آپ نے ان کو کیا جواب دیا تھا ؟ چناچہ انہوں نے میرے والد کو اس کے جواب میں لکھا کہ سبیعہ بنت حارث (رض) نے انہیں خبر دی ہے کہ وہ سعد بن خولہ (رض) کے نکاح میں تھیں۔ ان کا تعلق بنی عامر بن لوئی سے تھا اور وہ بدر کی جنگ میں شرکت کرنے والوں میں سے تھے۔ پھر حجۃ الوداع کے موقع پر ان کی وفات ہوگئی تھی اور اس وقت وہ حمل سے تھیں۔ سعد بن خولہ (رض) کی وفات کے کچھ ہی دن بعد ان کے یہاں بچہ پیدا ہوا۔ نفاس کے دن جب وہ گزار چکیں تو نکاح کا پیغام بھیجنے والوں کے لیے انہوں نے اچھے کپڑے پہنے۔ اس وقت بنو عبدالدار کے ایک صحابی ابوالسنابل بن بعکک (رض) ان کے یہاں گئے اور ان سے کہا، میرا خیال ہے کہ تم نے نکاح کا پیغام بھیجنے والوں کے لیے یہ زینت کی ہے۔ کیا نکاح کرنے کا خیال ہے ؟ لیکن اللہ کی قسم ! جب تک (سعد (رض) کی وفات پر) چار مہینے اور دس دن نہ گزر جائیں تم نکاح کے قابل نہیں ہوسکتیں۔ سبیعہ (رض) نے بیان کیا کہ جب ابوالسنابل نے مجھ سے یہ بات کہی تو میں نے شام ہوتے ہی کپڑے پہنے اور نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اس کے بارے میں، میں نے آپ سے مسئلہ معلوم کیا۔ نبی کریم ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ میں بچہ پیدا ہونے کے بعد عدت سے نکل چکی ہوں اور اگر میں چاہوں تو نکاح کرسکتی ہوں۔ اس روایت کی متابعت اصبغ نے ابن وہب سے کی ہے، ان سے یونس نے بیان کیا اور لیث نے کہا کہ مجھ سے یونس نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، (انہوں نے بیان کیا کہ) ہم نے ان سے پوچھا تو انہوں نے بیان کیا کہ مجھے بنو عامر بن لوئی کے غلام محمد بن عبدالرحمٰن بن ثوبان نے خبر دی کہ محمد بن ایاس بن بکیر نے انہیں خبر دی اور ان کے والد ایاس بدر کی لڑائی میں شریک تھے۔
باب: جنگ بدر میں فرشتوں کا شریک ہونا۔
مجھ سے اسحاق بن ابرہیم نے بیان کیا، ہم کو جریر نے خبر دی، انہیں یحییٰ بن سعید انصاری نے، انہیں معاذ بن رفاعہ بن رافع زرقی نے اپنے والد (رفاعہ بن رافع) سے، جو بدر کی لڑائی میں شریک ہونے والوں میں سے تھے، انہوں نے بیان کیا کہ جبرائیل (علیہ السلام) نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آئے اور آپ سے انہوں نے پوچھا کہ بدر کی لڑائی میں شریک ہونے والوں کا آپ کے یہاں درجہ کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ مسلمانوں میں سب سے افضل یا آپ ﷺ نے اسی طرح کا کوئی کلمہ ارشاد فرمایا۔ جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا کہ جو فرشتے بدر کی لڑائی میں شریک ہوئے تھے ان کا بھی درجہ یہی ہے۔
باب: جنگ بدر میں فرشتوں کا شریک ہونا۔
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، ہم سے حماد نے بیان کیا، ان سے یحییٰ نے، ان سے معاذ بن رفاعہ بن رافع نے کہ رفاعہ (رض) بدر کی لڑائی میں شریک ہوئے تھے اور (ان کے والد) رافع (رض) بیعت عقبہ میں شریک ہوئے تھے تو آپ اپنے بیٹے (رفاعہ) سے کہا کرتے تھے کہ بیعت عقبہ کے برابر بدر کی شرکت سے مجھے زیادہ خوشی نہیں ہے۔ بیان کیا کہ جبرائیل (علیہ السلام) نے نبی کریم ﷺ سے اس بارے میں پوچھا تھا۔
باب: جنگ بدر میں فرشتوں کا شریک ہونا۔
ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، ہم کو یزید بن ہارون نے خبر دی، کہا ہم کو یحییٰ بن سعید انصاری نے خبر دی اور انہوں نے معاذ بن رفاعہ سے سنا کہ ایک فرشتے نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا اور یحییٰ بن سعید انصاری سے روایت ہے کہ یزید بن ہاد نے انہیں خبر دی کہ جس دن معاذ بن رفاعہ نے ان سے یہ حدیث بیان کی تھی تو وہ بھی ان کے ساتھ تھے۔ یزید نے بیان کیا کہ معاذ نے کہا تھا کہ پوچھنے والے جبرائیل (علیہ السلام) تھے۔
باب: جنگ بدر میں فرشتوں کا شریک ہونا۔
مجھ سے ابراہیم نے بیان کیا، ہم کو عبدالوہاب ثقفی نے خبر دی، کہا ہم سے خالد حذاء نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے بدر کی لڑائی میں فرمایا تھا کہ یہ ہیں جبرائیل (علیہ السلام) اپنے گھوڑے کا سر تھامے ہوئے اور ہتھیار لگائے ہوئے۔
یہ عنوان سے خالی ہے۔
مجھ سے خلیفہ نے بیان کیا، ہم سے عبداللہ انصاری نے بیان کیا، ان سے سعید نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ ابوزید (رض) وفات پا گئے اور انہوں نے کوئی اولاد نہیں چھوڑی، وہ بدر کی لڑائی میں شریک ہوئے تھے۔
یہ عنوان سے خالی ہے۔
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے یحییٰ بن سعید انصاری نے بیان کیا ان سے قاسم بن محمد نے، ان سے عبداللہ بن خباب (رض) نے کہ ابوسعید بن مالک خدری (رض) سفر سے واپس آئے تو ان کے گھر والے قربانی کا گوشت ان کے سامنے لائے، انہوں نے کہا کہ میں اسے اس وقت تک نہیں کھاؤں گا جب تک اس کا حکم نہ معلوم کرلوں۔ چناچہ وہ اپنی والدہ کی طرف سے اپنے ایک بھائی کے پاس معلوم کرنے گئے۔ وہ بدر کی لڑائی میں شریک ہونے والوں میں سے تھے یعنی قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ۔ انہوں نے بتایا کہ بعد میں وہ حکم منسوخ کردیا گیا تھا جس میں تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت کھانے کی ممانعت کی گئی تھی۔
یہ عنوان سے خالی ہے۔
مجھ سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے بیان کیا اور ان سے زبیر (رض) نے بیان کیا کہ بدر کی لڑائی میں میری مڈبھیڑ عبیدہ بن سعید بن عاص سے ہوگئی۔ اس کا سارا جسم لوہے میں غرق تھا اور صرف آنکھ دکھائی دے رہی تھی۔ اس کی کنیت ابوذات الکرش تھی۔ کہنے لگا کہ میں ابوذات الکرش ہوں۔ میں نے چھوٹے برچھے سے اس پر حملہ کیا اور اس کی آنکھ ہی کو نشانہ بنایا۔ چناچہ اس زخم سے وہ مرگیا۔ ہشام نے بیان کیا کہ مجھے خبر دی گئی ہے کہ زبیر (رض) نے کہا کہ پھر میں نے اپنا پاؤں اس کے اوپر رکھ کر پورا زور لگایا اور بڑی دشواری سے وہ برچھا اس کی آنکھ سے نکال سکا۔ اس کے دونوں کنارے مڑ گئے تھے۔ عروہ نے بیان کیا کہ پھر رسول اللہ ﷺ نے زبیر (رض) کا وہ برچھا طلب فرمایا تو انہوں نے وہ پیش کردیا۔ جب نبی کریم ﷺ کی وفات ہوگئی تو انہوں نے اسے واپس لے لیا۔ پھر ابوبکر (رض) نے طلب کیا تو انہوں نے انہیں بھی دے دیا۔ ابوبکر (رض) کی وفات کے بعد عمر (رض) نے طلب کیا۔ انہوں نے انہیں بھی دے دیا۔ عمر (رض) کی وفات کے بعد انہوں نے اسے لے لیا۔ پھر عثمان (رض) نے طلب کیا تو انہوں نے انہیں بھی دے دیا۔ عثمان (رض) کی شہادت کے بعد وہ علی (رض) کے پاس چلا گیا اور ان کے بعد ان کی اولاد کے پاس اور اس کے بعد عبداللہ بن زبیر (رض) نے اسے لے لیا اور ان کے پاس ہی رہا، یہاں تک کہ وہ شہید کردیئے گئے۔
یہ عنوان سے خالی ہے۔
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے کہا کہ مجھے ابوادریس عائذ اللہ بن عبداللہ نے خبر دی اور انہیں عبادہ بن صامت (رض) نے، وہ بدر کی لڑائی میں شریک ہوئے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ مجھ سے بیعت کرو۔
یہ عنوان سے خالی ہے۔
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، انہیں ابن شہاب زہری نے خبر دی، انہیں عروہ بن زبیر (رض) نے، انہیں نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ عائشہ (رض) نے کہ ابوحذیفہ (رض) جو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ بدر کی لڑائی میں شریک ہونے والوں میں تھے، نے سالم (رض) کو اپنا منہ بولا بیٹا بنایا تھا اور اپنی بھتیجی ہند بنت ولید بن عتبہ سے شادی کرا دی تھی۔ سالم (رض) ایک انصاری خاتون کے غلام تھے۔ جیسے نبی کریم ﷺ نے زید بن حارثہ (رض) کو اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا تھا۔ جاہلیت میں یہ دستور تھا کہ اگر کوئی شخص کسی کو اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیتا تو لوگ اسی کی طرف اسے منسوب کر کے پکارتے اور منہ بولا بیٹا اس کی میراث کا بھی وارث ہوتا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی ادعوهم لآبائهم انہیں ان کے باپوں کی طرف منسوب کر کے پکارو۔ تو سہلہ (رض) نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ پھر تفصیل سے راوی نے حدیث بیان کی۔
یہ عنوان سے خالی ہے۔
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے بشر بن مفضل نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد بن ذکوان نے، ان سے ربیع بنت معوذ (رض) نے بیان کیا کہ جس رات میری شادی ہوئی تھی نبی کریم ﷺ اس کی صبح کو میرے یہاں تشریف لائے اور میرے بستر پر بیٹھے، جیسے اب تم یہاں میرے پاس بیٹھے ہوئے ہو۔ چند بچیاں دف بجا رہی تھیں اور وہ اشعار پڑھ رہی تھیں جن میں ان کے ان خاندان والوں کا ذکر تھا جو بدر کی لڑائی میں شہید ہوگئے تھے۔ انہیں میں ایک لڑکی نے یہ مصرع بھی پڑھا کہ ہم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو کل ہونے والی بات کو جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ نہ پڑھو، بلکہ جو پہلے پڑھ رہی تھیں وہی پڑھو۔
یہ عنوان سے خالی ہے۔
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ رازی نے بیان کیا، کہا ہم کو ہشام بن یوسف نے خبر دی، انہیں معمر بن راشد نے، انہیں زہری نے۔ (دوسری سند) اور ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے بھائی عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے سلیمان بن بلال نے، ان سے محمد بن ابی عتیق نے، ان سے ابن شہاب (زہری) نے، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ مجھے رسول اللہ ﷺ کے صحابی ابوطلحہ (رض) نے خبر دی وہ نبی کریم ﷺ کے ساتھ بدر کی لڑائی میں شریک تھے کہ فرشتے اس گھر میں نہیں آتے جس میں تصویر یا کتا ہو۔ ان کی مراد جاندار کی تصویر سے تھی۔
یہ عنوان سے خالی ہے۔
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں یونس بن یزید نے خبر دی، (دوسری سند) امام بخاری (رح) نے کہا ہم کو احمد بن صالح نے خبر دی، ان سے عنبسہ بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے یونس نے بیان کیا، ان سے زہری نے، انہیں علی بن حسین (امام زین العابدین) نے خبر دی، انہیں حسین بن علی (رض) نے خبر دی اور ان سے علی (رض) نے بیان کیا کہ جنگ بدر کی غنیمت میں سے مجھے ایک اور اونٹنی ملی تھی اور اسی جنگ کی غنیمت میں سے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کا جو خمس کے طور پر حصہ مقرر کیا تھا اس میں سے بھی نبی کریم ﷺ نے مجھے ایک اونٹنی عنایت فرمائی تھی۔ پھر میرا ارادہ ہوا کہ نبی کریم ﷺ کی صاحبزادی فاطمہ (رض) کی رخصتی کرا لاؤں۔ اس لیے بنی قینقاع کے ایک سنار سے بات چیت کی کہ وہ میرے ساتھ چلے اور ہم اذخر گھاس لائیں۔ میرا ارادہ تھا کہ میں اس گھاس کو سناروں کے ہاتھ بیچ دوں گا اور اس کی قیمت ولیمہ کی دعوت میں لگاؤں گا۔ میں ابھی اپنی اونٹنی کے لیے پالان، ٹوکرے اور رسیاں جمع کر رہا تھا۔ اونٹنیاں ایک انصاری صحابی کے حجرہ کے قریب بیٹھی ہوئی تھیں۔ میں جن انتظامات میں تھا جب وہ پورے ہوگئے تو (اونٹنیوں کو لینے آیا) وہاں دیکھا کہ ان کے کوہان کسی نے کاٹ دیئے ہیں اور کوکھ چیر کر اندر سے کلیجی نکال لی ہے۔ یہ حالت دیکھ کر میں اپنے آنسوؤں کو نہ روک سکا۔ میں نے پوچھا، یہ کس نے کیا ہے ؟ لوگوں نے بتایا کہ حمزہ بن عبدالمطلب (رض) نے اور وہ ابھی اسی حجرہ میں انصار کے ساتھ شراب نوشی کی ایک مجلس میں موجود ہیں۔ ان کے پاس ایک گانے والی ہے اور ان کے دوست احباب ہیں۔ گانے والی نے گاتے ہوئے جب یہ مصرع پڑھا۔ ہاں، اے حمزہ ! یہ عمدہ اور فربہ اونٹنیاں ہیں، تو حمزہ (رض) نے کود کر اپنی تلوار تھامی اور ان دونوں اونٹنیوں کے کوہان کاٹ ڈالے اور ان کی کوکھ چیر کر اندر سے کلیجی نکال لی۔ علی (رض) نے بیان کیا کہ پھر میں وہاں سے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ زید بن حارثہ (رض) بھی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں موجود تھے۔ آپ ﷺ نے میرے غم کو پہلے ہی جان لیا اور فرمایا کہ کیا بات پیش آئی ؟ میں بولا : یا رسول اللہ ! آج جیسی تکلیف کی بات کبھی پیش نہیں آئی تھی۔ حمزہ (رض) نے میری دونوں اونٹنیوں کو پکڑ کے ان کے کوہان کاٹ ڈالے اور ان کی کوکھ چیر ڈالی ہے۔ وہ یہیں ایک گھر میں شراب کی مجلس جمائے بیٹھے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے اپنی چادر مبارک منگوائی اور اسے اوڑھ کر آپ تشریف لے چلے۔ میں اور زید بن حارثہ (رض) بھی ساتھ ساتھ ہولئے۔ جب اس گھر کے قریب آپ تشریف لے گئے اور حمزہ (رض) نے جو کچھ کیا تھا اس پر انہیں تنبیہ فرمائی۔ حمزہ (رض) شراب کے نشے میں مست تھے اور ان کی آنکھیں سرخ تھیں۔ انہوں نے آپ ﷺ کی طرف نظر اٹھائی، پھر ذرا اور اوپر اٹھائی اور آپ کے گھٹنوں پر دیکھنے لگے، پھر اور نظر اٹھائی اور آپ کے چہرہ پر دیکھنے لگے۔ پھر کہنے لگے، تم سب میرے باپ کے غلام ہو۔ آپ ﷺ سمجھ گئے کہ وہ اس وقت بیہوش ہیں۔ اس لیے آپ فوراً الٹے پاؤں اس گھر سے باہر نکل آئے، ہم بھی آپ کے ساتھ تھے۔
یہ عنوان سے خالی ہے۔
مجھ سے محمد بن عباد نے بیان کیا، کہا ہم کو سفیان بن عیینہ نے خبر دی، کہا کہ یہ روایت ہمیں عبدالرحمٰن بن عبداللہ اصبہانی نے لکھ کر بھیجی، انہوں نے عبداللہ بن معقل سے سنا کہ علی (رض) نے سہل بن حنیف (رض) کے جنازے پر تکبیریں کہیں اور کہا کہ وہ بدر کی لڑائی میں شریک تھے۔
یہ عنوان سے خالی ہے۔
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، انہیں سالم بن عبداللہ نے خبر دی، انہوں نے عبداللہ بن عمر (رض) سے سنا اور انہوں نے عمر بن خطاب (رض) سے بیان کیا کہ جب حفصہ بنت عمر (رض) کے شوہر خنیس بن حذافہ سہمی (رض) کی وفات ہوگئی، وہ رسول اللہ ﷺ کے اصحاب میں تھے اور بدر کی لڑائی میں انہوں نے شرکت کی تھی اور مدینہ میں ان کی وفات ہوگئی تھی۔ عمر (رض) نے بیان کیا کہ میری ملاقات عثمان بن عفان (رض) سے ہوئی تو میں نے ان سے حفصہ کا ذکر کیا اور کہا کہ اگر آپ چاہیں تو اس کا نکاح میں آپ سے کر دوں۔ انہوں نے کہا کہ میں سوچوں گا۔ اس لیے میں چند دنوں کے لیے ٹھہر گیا، پھر انہوں نے کہا کہ میری رائے یہ ہوئی ہے کہ ابھی میں نکاح نہ کروں۔ عمر (رض) نے کہا کہ پھر میری ملاقات ابوبکر (رض) سے ہوئی اور ان سے بھی میں نے یہی کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں آپ کا نکاح حفصہ بنت عمر سے کر دوں۔ ابوبکر (رض) خاموش ہوگئے اور کوئی جواب نہیں دیا۔ ان کا یہ طریقہ عمل عثمان (رض) سے بھی زیادہ میرے لیے باعث تکلیف ہوا۔ کچھ دنوں میں نے اور توقف کیا تو نبی کریم ﷺ نے خود حفصہ (رض) کا پیغام بھیجا اور میں نے ان کا نکاح آپ ﷺ سے کردیا۔ اس کے بعد ابوبکر (رض) کی ملاقات مجھ سے ہوئی تو انہوں نے کہا، شاید آپ کو میرے اس طرز عمل سے تکلیف ہوئی ہوگی کہ جب آپ کی مجھ سے ملاقات ہوئی اور آپ نے حفصہ (رض) کے متعلق مجھ سے بات کی تو میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ میں نے کہا کہ ہاں تکلیف ہوئی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ آپ کی بات کا میں نے صرف اس لیے کوئی جواب نہیں دیا تھا کہ نبی کریم ﷺ نے (مجھ سے) حفصہ (رض) کا ذکر کیا تھا (مجھ سے مشورہ لیا تھا کہ میں اس سے نکاح کرلوں) اور میں نبی کریم ﷺ کا راز فاش نہیں کرسکتا تھا۔ اگر آپ حفصہ (رض) سے نکاح کا ارادہ چھوڑ دیتے تو بیشک میں ان سے نکاح کرلیتا۔
یہ عنوان سے خالی ہے۔
ہم سے مسلم بن ابراہیم قصاب نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عدی بن ابان نے، ان سے عبداللہ بن یزید انصاری نے، انہوں نے ابومسعود بدری (رض) عقبہ بن عمرو انصاری سے سنا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا انسان کا اپنے بال بچوں پر خرچ کرنا بھی باعث ثواب ہے۔
یہ عنوان سے خالی ہے۔
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہوں نے عروہ بن زبیر سے سنا کہ امیرالمؤمنین عمر بن عبدالعزیز سے انہوں نے ان کے عہد خلافت میں یہ حدیث بیان کی کہ مغیرہ بن شعبہ (رض) جب کوفہ کے امیر تھے، تو انہوں نے ایک دن عصر کی نماز میں دیر کی۔ اس پر زید بن حسن کے نانا ابومسعود عقبہ بن عمرو انصاری (رض) ان کے یہاں گئے۔ وہ بدر کی لڑائی میں شریک ہونے والے صحابہ میں سے تھے اور کہا : آپ کو معلوم ہے کہ جبرائیل (علیہ السلام) (نماز کا طریقہ بتانے کے لیے) آئے اور آپ نے نماز پڑھی اور نبی کریم ﷺ نے ان کے پیچھے نماز پڑھی، پانچوں وقت کی نمازیں۔ پھر فرمایا کہ اسی طرح مجھے حکم ملا ہے۔ بشیر بن ابی مسعود بھی یہ حدیث اپنے والد سے بیان کرتے تھے۔
یہ عنوان سے خالی ہے۔
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابراہیم نخعی نے، ان سے عبدالرحمٰن بن یزید نخعی نے، ان سے علقمہ بن یسعی نے اور ان سے ابومسعود بدری (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ سورة البقرہ کی دو آیتیں ( امن الرسول سے آخر تک) ایسی ہیں کہ جو شخص رات میں انہیں پڑھ لے وہ اس کے لیے کافی ہوجاتی ہیں۔ عبدالرحمٰن نے بیان کیا کہ پھر میں نے خود ابومسعود (رض) سے ملاقات کی، وہ اس وقت بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ میں نے ان سے اس حدیث کے متعلق پوچھا تو انہوں نے یہ حدیث مجھ سے بیان کی۔
یہ عنوان سے خالی ہے۔
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، انہیں محمود بن ربیع نے خبر دی کہ عتبان بن مالک (رض) جو نبی کریم ﷺ کے صحابی تھے اور وہ بدر میں شریک ہوئے تھے اور انصار میں سے تھے، نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ہم سے احمد نے بیان کیا جو صالح کے بیٹے ہیں، کہا ہم سے عنبسہ ابن خالد نے بیان کیا، ان سے یونس بن یزید نے بیان کیا اور ان سے ابن شہاب نے بیان کیا کہ پھر میں نے حصین بن محمد انصاری سے جو بنی سالم کے شریف لوگوں میں سے تھے، محمود بن ربیع کی حدیث کے متعلق پوچھا جس کی روایت انہوں نے عتبان بن مالک (رض) سے کی تھی تو انہوں نے بھی اس کی تصدیق کی۔
یہ عنوان سے خالی ہے۔
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہمیں شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عبداللہ بن عامر بن ربیعہ (رض) نے خبر دی، وہ قبیلہ بنی عدی کے سب لوگوں میں بڑے تھے اور ان کے والد عامر بن ربیعہ بدر میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ شریک تھے۔ (انہوں نے بیان کیا کہ) عمر (رض) نے قدامہ بن مظعون (رض) کو بحرین کا عامل بنایا تھا، وہ قدامہ (رض) بھی بدر کے معرکے میں شریک تھے اور عبداللہ بن عمر اور حفصہ رضی اللہ عنہم کے ماموں تھے۔
یہ عنوان سے خالی ہے۔
ہم سے عبداللہ بن محمد بن اسماء نے بیان کیا، کہا ہم سے جویریہ بن اسماء نے بیان کیا، ان سے امام مالک (رح) نے، ان سے زہری نے، انہیں سالم بن عبداللہ نے خبر دی، بیان کیا کہ رافع بن خدیج (رض) نے عبداللہ بن عمر (رض) کو خبر دی کہ ان کے دو چچاؤں (ظہیر اور مظہر رافع بن عدی بن زید انصاری کے بیٹوں) جنہوں نے بدر کی لڑائی میں شرکت کی تھی، نے انہیں خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ نے زمین کو کرایہ پر دینے سے منع کیا تھا۔ میں نے سالم سے کہا لیکن آپ تو کرایہ پر دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہاں، رافع (رض) نے اپنے اوپر زیادتی کی تھی۔
یہ عنوان سے خالی ہے۔
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے حصین بن عبدالرحمٰن نے، انہوں نے عبداللہ بن شداد بن ہاد لیثی سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رفاعہ بن رافع انصاری (رض) کو دیکھا ہے۔ وہ بدر کی لڑائی میں شریک ہوئے تھے۔
یہ عنوان سے خالی ہے۔
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک مروزی نے خبر دی، کہا ہم کو معمر اور یونس دونوں نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں عروہ بن زبیر نے خبر دی، انہیں مسور بن مخرمہ (رض) نے خبر دی کہ عمرو بن عوف (رض) جو بنی عامر بن لوی کے حلیف تھے اور بدر کی لڑائی میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ شریک تھے۔ (نے بیان کیا کہ) نبی کریم ﷺ نے ابوعبیدہ بن جراح (رض) کو بحرین، وہاں کا جزیہ لانے کے لیے بھیجا۔ نبی کریم ﷺ نے بحرین والوں سے صلح کی تھی اور ان پر علاء بن حضرمی (رض) کو امیر بنایا تھا، پھر ابوعبیدہ (رض) بحرین سے مال ایک لاکھ درہم لے کر آئے۔ جب انصار کو ابوعبیدہ (رض) کے آنے کی خبر ہوئی تو انہوں نے فجر کی نماز نبی کریم ﷺ کے ساتھ پڑھی۔ آپ ﷺ جب نماز سے فارغ ہوئے تو تمام انصار آپ کے سامنے آئے۔ آپ ﷺ انہیں دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا : میرا خیال ہے کہ تمہیں یہ اطلاع مل گئی ہے کہ ابوعبیدہ مال لے کر آئے ہیں۔ انہوں نے عرض کیا : جی ہاں، یا رسول اللہ ! آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر تمہیں خوشخبری ہو اور جس سے تمہیں خوشی ہوگی اس کی امید رکھو۔ اللہ کی قسم ! مجھے تمہارے متعلق محتاجی سے ڈر نہیں لگتا، مجھے تو اس کا خوف ہے کہ دنیا تم پر بھی اسی طرح کشادہ کردی جائے گی جس طرح تم سے پہلوں پر کشادہ کی گئی تھی، پھر پہلوں کی طرح اس کے لیے تم آپس میں رشک کرو گے اور جس طرح وہ ہلاک ہوگئے تھے تمہیں بھی یہ چیز ہلاک کر کے رہے گی۔
یہ عنوان سے خالی ہے۔
ہم سے ابوالنعمان محمد بن فضل نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن حازم نے بیان کیا، ان سے نافع نے کہ عبداللہ بن عمر (رض) ہر طرح کے سانپ کو مار ڈالا کرتے تھے۔ لیکن جب ابولبابہ بشیر بن عبدالمنذر (رض) نے جو بدر کی لڑائی میں شریک تھے، ان سے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے گھر میں نکلنے والے سانپ کے مارنے سے منع فرمایا تھا تو انہوں نے بھی اسے مارنا چھوڑ دیا تھا۔
یہ عنوان سے خالی ہے۔
مجھ سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن فلیح نے بیان کیا، ان سے موسیٰ بن عقبہ نے کہ ہم سے ابن شہاب نے بیان کیا اور ان سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ انصار کے چند لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے اجازت چاہی اور عرض کیا کہ آپ ہمیں اجازت عطا فرمائیں تو ہم اپنے بھانجے عباس (رض) کا فدیہ معاف کردیں لیکن نبی کریم ﷺ نے فرمایا اللہ کی قسم ! ان کے فدیہ سے ایک درہم بھی نہ چھوڑنا۔
یہ عنوان سے خالی ہے۔
ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن جریج نے، ان سے زہری نے، ان سے عطاء بن یزید لیثی نے، ان سے عبیداللہ بن عدی نے اور ان سے مقداد بن اسود (رض) نے۔ (دوسری سند) امام بخاری نے کہا اور مجھ سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم سے یعقوب بن ابراہیم بن سعد نے، ان سے ابن شہاب کے بھتیجے (محمد بن عبداللہ) نے، اپنے چچا (محمد بن مسلم بن شہاب) سے بیان کیا، انہیں عطاء بن یزید لیثی ثم الجندعی نے خبر دی، انہیں عبیداللہ بن عدی بن خیار نے خبر دی اور انہیں مقداد بن عمرو کندی (رض) نے، وہ بنی زہرہ کے حلیف تھے اور بدر کی لڑائی میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے۔ انہوں نے خبر دی کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ اگر کسی موقع پر میری کسی کافر سے ٹکر ہوجائے اور ہم دونوں ایک دوسرے کو قتل کرنے کی کوشش میں لگ جائیں اور وہ میرے ایک ہاتھ پر تلوار مار کر اسے کاٹ ڈالے، پھر وہ مجھ سے بھاگ کر ایک درخت کی پناہ لے کر کہنے لگے میں اللہ پر ایمان لے آیا۔ تو کیا یا رسول اللہ ! اس کے اس اقرار کے بعد پھر بھی میں اسے قتل کر دوں ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پھر تم اسے قتل نہ کرنا۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! وہ پہلے میرا ایک ہاتھ بھی کاٹ چکا ہے ؟ اور یہ اقرار میرے ہاتھ کاٹنے کے بعد کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے پھر بھی یہی فرمایا کہ اسے قتل نہ کرنا، کیونکہ اگر تو نے اسے قتل کر ڈالا تو اسے قتل کرنے سے پہلے جو تمہارا مقام تھا اب اس کا وہ مقام ہوگا اور تمہارا مقام وہ ہوگا جو اس کا مقام اس وقت تھا جب اس نے اس کلمہ کا اقرار نہیں کیا تھا۔
یہ عنوان سے خالی ہے۔
مجھ سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن علیہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان تیمی نے بیان کیا، کہا ہم سے انس (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے بدر کی لڑائی کے دن فرمایا کون دیکھ کر آئے گا کہ ابوجہل کے ساتھ کیا ہوا ؟ عبداللہ بن مسعود (رض) اس کے لیے روانہ ہوئے اور دیکھا کہ عفراء کے دونوں بیٹوں نے اسے قتل کردیا ہے اور اس کی لاش ٹھنڈی ہونے والی ہے۔ انہوں نے پوچھا، ابوجہل تم ہی ہو ؟ ابن علیہ نے بیان کیا کہ ابن مسعود (رض) نے پوچھا تھا کہ تو ابوجہل ہے ؟ اس پر اس نے کہا، کیا اس سے بھی بڑا کوئی ہوگا جسے تم نے آج قتل کردیا ہے ؟ سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ یا اس نے یوں کہا، جسے اس کی قوم نے قتل کردیا ہے ؟ (کیا اس سے بھی بڑا کوئی ہوگا) کہا کہ ابومجلز نے بیان کیا کہ ابوجہل نے کہا، کاش ! ایک کسان کے سوا مجھے کسی اور نے مارا ہوتا۔
یہ عنوان سے خالی ہے۔
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا، کہا ہم سے معمر نے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے عمر (رض) سے کہ جب نبی کریم ﷺ کی وفات ہوگئی تو میں نے ابوبکر (رض) سے کہا آپ ہمیں ساتھ لے کر ہمارے انصاری بھائیوں کے یہاں چلیں۔ پھر ہماری ملاقات دو نیک ترین انصاری صحابیوں سے ہوئی جنہوں نے بدر کی لڑائی میں شرکت کی تھی۔ عبیداللہ نے کہا، پھر میں نے اس حدیث کا تذکرہ عروہ بن زبیر سے کیا تو انہوں نے بتایا کہ وہ دونوں صحابی عویم بن ساعدہ اور معن بن عدی (رض) تھے۔
یہ عنوان سے خالی ہے۔
ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے محمد بن فضیل سے سنا، انہوں نے اسماعیل ابن ابی خالد سے، انہوں نے قیس بن ابی حازم سے کہ بدری صحابہ کا (سالانہ) وظیفہ پانچ پانچ ہزار تھا۔ عمر (رض) نے فرمایا کہ میں انہیں (بدری صحابہ کو) ان صحابیوں پر فضیلت دوں گا جو ان کے بعد ایمان لائے۔
یہ عنوان سے خالی ہے۔
مجھ سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں محمد بن جبیر نے، ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ سے میں نے سنا، آپ مغرب کی نماز میں سورة والطور کی تلاوت کر رہے تھے، یہ پہلا موقع تھا جب میرے دل میں ایمان نے قرار پکڑا۔
یہ عنوان سے خالی ہے۔
اور اسی سند سے مروی ہے، ان سے محمد بن جبیر بن مطعم نے اور ان سے ان کے والد (جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ) نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے قیدیوں کے متعلق فرمایا تھا اگر مطعم بن عدی (رض) زندہ ہوتے اور ان پلید قیدیوں کے لیے سفارش کرتے تو میں انہیں ان کے کہنے سے چھوڑ دیتا۔ اور لیث نے یحییٰ بن سعید انصاری سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سعید بن مسیب نے بیان کیا کہ پہلا فساد جب برپا ہوا یعنی عثمان (رض) کی شہادت کا تو اس نے اصحاب بدر میں سے کسی کو باقی نہیں چھوڑا۔ پھر جب دوسرا فساد برپا ہوا یعنی حرہ کا، تو اس نے اصحاب حدیبیہ میں سے کسی کو باقی نہیں چھوڑا۔ پھر تیسرا فساد برپا ہوا تو وہ اس وقت تک نہیں گیا جب تک لوگوں میں کچھ بھی خوبی یا عقل باقی تھی۔
یہ عنوان سے خالی ہے۔
ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبداللہ بن عمر نمیری نے بیان کیا، کہا ہم سے یونس بن یزید نے بیان کیا، کہا کہ میں نے زہری سے سنا، کہا کہ میں نے عروہ بن زبیر، سعید بن مسیب، علقمہ بن وقاص اور عبیداللہ بن عبداللہ سے نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ عائشہ (رض) کی تہمت کے متعلق سنا۔ ان میں سے ہر ایک نے مجھ سے اس واقعہ کا کوئی حصہ بیان کیا۔ عائشہ (رض) نے بیان کیا تھا کہ میں اور ام مسطح باہر قضائے حاجت کو جا رہے تھے کہ ام مسطح (رض) اپنی چادر میں الجھ کر پھسل پڑیں۔ اس پر ان کی زبان سے نکلا، مسطح کا برا ہو۔ میں نے کہا، آپ نے اچھی بات نہیں کہی۔ ایک ایسے شخص کو آپ برا کہتی ہیں جو بدر میں شریک ہوچکا ہے۔ پھر انہوں نے تہمت کا واقعہ بیان کیا۔
یہ عنوان سے خالی ہے۔
ہم سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن فلیح بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے موسیٰ بن عقبہ نے اور ان سے ابن شہاب نے بیان کیا۔ یہ رسول اللہ ﷺ کے غزوات کا بیان تھا۔ پھر انہوں نے بیان کیا کہ جب (بدر کے) کفار مقتولین کنویں میں ڈالے جانے لگے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا تم نے اس چیز کو پا لیا جس کا تم سے تمہارے رب نے وعدہ کیا تھا ؟ موسیٰ نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے کہ اس پر نبی کریم ﷺ کے چند صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! آپ ایسے لوگوں کو آواز دے رہے ہیں جو مرچکے ہیں ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو کچھ میں نے ان سے کہا ہے اسے خود تم نے بھی ان سے زیادہ بہتر طریقہ پر نہیں سنا ہوگا۔ ابوعبداللہ (امام بخاری (رح)) نے کہا کہ قریش (صحابہ) کے جتنے لوگ بدر میں شریک ہوئے تھے اور جن کا حصہ بھی (اس غنیمت میں) لگا تھا، ان کی تعداد اکیاسی تھی۔ عروہ بن زبیر بیان کرتے تھے کہ زبیر (رض) نے کہا، میں نے (ان مہاجرین کے حصے) تقسیم کئے تھے اور ان کی تعداد سو تھی اور زیادہ بہتر علم اللہ کو ہے۔
شرکائے جنگ بدر بالترتیب حروف تہجی، مرتبہ امام بخاری رحمہ اللہ۔
ان اصحاب کرام کے نام جنہوں نے جنگ بدر میں شرکت کی تھی اور جنہیں ابوعبداللہ (امام بخاری (رح)) اپنی اس جامع کتاب میں ذکر کرتے ہیں جس کو انہوں نے مرتب کیا ہے (یعنی یہی صحیح بخاری) ۔ (1) النبی محمد بن عبداللہ الہاشمی ﷺ (2) ایاس بن بکیر (رض) (3) ابوبکر صدیق (رض) کے غلام بلال بن رباح (رض) (4) حمزہ بن عبدالمطلب الہاشمی (رض) (5) قریش کے حلیف حاطب بن ابی بلتعہ (رض) (6) ابوحذیفہ بن عتبی بن ربیعہ القرشی (رض) (7) حارثہ بن ربیع انصاری رضی اللہ عنہ، انہوں نے بدر کی جنگ میں شہادت پائی تھی۔ ان کو حارثہ بن سراقہ بھی کہتے ہیں۔ یہ جنگ بدر کے میدان میں صرف تماشائی کی حیثیت سے آئے تھے (کم عمری کی وجہ سے، لیکن بدر کے میدان میں ہی ان کو ایک تیر کفار کی طرف سے آ کر لگا اور اسی سے انہوں نے شہادت پائی) (8) خبیب بن عدی انصاری (رض) (9) خنیس بن حذافہ السہمی (رض) (10) رفاعہ بن رافع انصاری (رض) (11) رفاعہ بن عبدالمنذر ابولبابہ انصاری (رض) (12) زبیر بن العوام القرشی (رض) (13) زید بن سہل ابوطلحہ انصاری (رض) (14) ابوزید انصاری (رض) (15) سعد بن مالک زہری (رض) (16) سعد بن خولہ القرشی (رض) (17) سعید بن زید بن عمرو بن نفیل القرشی (رض) (18) سہل بن حنیف (رض) (19) ظہیر بن رافع انصاری (رض) (20) اور ان کے بھائی عبداللہ بن عثمان (رض) (21) ابوبکر صدیق القرشی (رض) (22) عبداللہ بن مسعود الہذلی (رض) (23) عتبہ بن مسعود الہذلی (رض) (24) عبدالرحمٰن بن عوف الزہری (رض) (25) عبیدہ بن حارث القرشی (رض) (26) عبادہ بن صامت انصاری (رض) (27) عمر بن خطاب العدوی (رض) (28) عثمان بن عفان القرشی (رض) ان کو رسول اللہ ﷺ نے اپنی صاحبزادی (جو ان کے گھر میں تھیں) کی تیمارداری کے لیے مدینہ منورہ ہی میں چھوڑا تھا لیکن بدر کی غنیمت میں آپ کا بھی حصہ لگایا تھا۔ (29) علی بن ابی طالب الہاشمی (رض) (30) بنی عامر بن لوئی کے حلیف عمرو بن عوف (رض) (31) عقبہ بن عمرو انصاری (رض) (32) عامر بن ربیعہ القرشی (رض) (33) عاصم بن ثابت انصاری (رض) (34) عویم بن ساعدہ انصاری (رض) (35) عتبان بن مالک انصاری (رض) (36) قدامہ بن مظعون (رض) (37) قتادہ بن نعمان انصاری (رض) (38) معاذ بن عمرو بن جموح (رض) (39) معوذ بن عفراء (رض) (40) اور ان کے بھائی معاذ (رض) (41) مالک بن ربیعہ ابواسید انصاری (رض) (42) مرارہ بن ربیع انصاری (رض) (43) معن بن عدی انصاری (رض) (44) مسطح بن اثاثہ بن عباد بن عبدالمطلب بن عبد مناف (رض) (45) مقداد بن عمرو الکندی رضی اللہ عنہ، بنی زہرہ کے حلیف (46) اور ہلال بن ابی امیہ انصاری رضی اللہ عنہ۔
باب: بنو نضیر کے یہودیوں کے واقعہ کا بیان۔
ہم سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا، کہ ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، کہا ہم کو ابن جریج نے خبر دی، انہیں موسیٰ بن عقبہ نے، انہیں نافع نے اور ان سے ابن عمر (رض) نے بیان کیا کہ بنو نضیر اور بنو قریظہ نے نبی کریم ﷺ سے (معاہدہ توڑ کر) لڑائی مول لی۔ اس لیے آپ نے قبیلہ بنو نضیر کو جلا وطن کردیا لیکن قبیلہ بنو قریظہ کو جلا وطن نہیں کیا اور اس طرح ان پر احسان فرمایا۔ پھر بنو قریظہ نے بھی جنگ مول لی۔ اس لیے آپ نے ان کے مردوں کو قتل کروایا اور ان کی عورتوں، بچوں اور مال کو مسلمانوں میں تقسیم کردیا۔ صرف بعض بنی قریظہ اس سے الگ قرار دیئے گئے تھے کیونکہ وہ آپ ﷺ کی پناہ میں آگئے تھے۔ اس لیے آپ نے انہیں پناہ دی اور انہوں نے اسلام قبول کرلیا تھا۔ آپ ﷺ نے مدینہ کے تمام یہودیوں کو جلا وطن کردیا تھا۔ بنو قینقاع کو بھی جو عبداللہ بن سلام (رض) کا قبیلہ تھا، یہود بنی حارثہ کو اور مدینہ کے تمام یہودیوں کو۔
باب: بنو نضیر کے یہودیوں کے واقعہ کا بیان۔
مجھ سے حسن بن مدرک نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن حماد نے بیان کیا، کہا ہم کو ابوعوانہ نے خبر دی، انہیں ابوبشر نے، ان سے سعید بن جبیر نے بیان کیا کہ میں نے ابن عباس (رض) کے سامنے کہا، سورة الحشر تو انہوں نے کہا کہ اسے سورة نضیر کہو (کیونکہ یہ سورت بنو نضیر ہی کے بارے میں نازل ہوئی ہے) اس روایت کی متابعت ہشیم سے ابوبشر نے کی ہے۔
باب: بنو نضیر کے یہودیوں کے واقعہ کا بیان۔
ہم سے عبداللہ بن ابی الاسود نے بیان کیا، ان سے معمر نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے، انہوں نے انس بن مالک (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ انصاری صحابہ نے نبی کریم ﷺ کے لیے کچھ کھجور کے درخت مخصوص رکھتے تھے (تاکہ اس کا پھل آپ کی خدمت میں بھیج دیا جائے) لیکن جب اللہ تعالیٰ نے بنو قریظہ اور بنو نضیر پر فتح عطا فرمائی تو آپ ﷺ ان کے پھل واپس فرما دیا کرتے تھے۔
باب: بنو نضیر کے یہودیوں کے واقعہ کا بیان۔
ہم سے آدم نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے بنی نضیر کے کھجوروں کے باغات جلوا دیئے تھے اور ان کے درختوں کو کٹوا دیا تھا۔ یہ باغات مقام بویرہ میں تھے اس پر یہ آیت نازل ہوئی ما قطعتم من لينة أو ترکتموها قائمة على أصولها فبإذن الله جو درخت تم نے کاٹ دیئے ہیں یا جنہیں تم نے چھوڑ دیا ہے کہ وہ اپنے جڑوں پر کھڑے رہیں تو یہ اللہ کے حکم سے ہوا ہے۔
باب: بنو نضیر کے یہودیوں کے واقعہ کا بیان۔
ہم سے اسحاق نے بیان کیا، کہا ہم کو حبان نے خبر دی، انہیں جویریہ بن اسماء نے، انہیں نافع نے، انہیں ابن عمر (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے بنو نضیر کے باغات جلوا دیئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ حسان بن ثابت (رض) نے اسی کے متعلق یہ شعر کہا تھا (ترجمہ) بنو لوی (قریش) کے سرداروں نے بڑی آسانی کے ساتھ برداشت کرلیا۔ مقام بویرہ میں اس آگ کو جو پھیل رہی تھی۔ بیان کیا کہ پھر اس کا جواب ابوسفیان بن حارث نے ان اشعار میں دیا۔ خدا کرے کہ مدینہ میں ہمیشہ یوں ہی آگ لگتی رہے اور اس کے اطراف میں یوں ہی شعلے اٹھتے رہیں۔ تمہیں جلد ہی معلوم ہوجائے گا کہ ہم میں سے کون اس مقام بویرہ سے دور ہے اور تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ کس کی زمین کو نقصان پہنچتا ہے۔
باب: بنو نضیر کے یہودیوں کے واقعہ کا بیان۔
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، انہیں مالک بن اوس بن حدثان نصری نے خبر دی کہ عمر بن خطاب (رض) نے انہیں بلایا تھا۔ (وہ بھی امیرالمؤمنین) کی خدمت میں موجود تھے کہ امیرالمؤمنین کے چوکیدار یرفاء آئے اور عرض کیا کہ عثمان بن عفان اور عبدالرحمٰن بن عوف، زبیر بن عوام اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم اندر آنا چاہتے ہیں۔ کیا آپ کی طرف سے انہیں اجازت ہے ؟ امیرالمؤمنین نے فرمایا کہ ہاں، انہیں اندر بلا لو۔ تھوڑی دیر بعد یرفاء پھر آئے اور عرض کیا عباس اور علی (رض) بھی اجازت چاہتے ہیں کیا انہیں اندر آنے کی اجازت ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں، جب یہ بھی دونوں بزرگ اندر تشریف لے آئے تو عباس (رض) نے کہا، امیرالمؤمنین ! میرا اور ان (علی رضی اللہ عنہ) کا فیصلہ کر دیجئیے۔ وہ دونوں اس جائیداد کے بارے میں جھگڑ رہے تھے جو اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو مال بنو نضیر سے فئے کے طور پر دی تھی۔ اس موقع پر علی اور عباس (رض) نے ایک دوسرے کو سخت سست کہا اور ایک دوسرے پر تنقید کی تو حاضرین بولے، امیرالمؤمنین ! آپ ان دونوں بزرگوں کا فیصلہ کردیں تاکہ دونوں میں کوئی جھگڑا نہ رہے۔ عمر (رض) نے کہا، جلدی نہ کیجئے۔ میں آپ لوگوں سے اس اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں، کیا آپ کو معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ ہم انبیاء کی وراثت تقسیم نہیں ہوتی جو کچھ ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہوتا ہے اور اس سے آپ ﷺ کی مراد خود اپنی ذات سے تھی ؟ حاضرین بولے کہ جی ہاں، آپ ﷺ نے یہ فرمایا تھا۔ پھر عمر (رض) عباس اور علی (رض) کی طرف متوجہ ہوئے اور ان سے کہا، میں آپ دونوں سے بھی اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں۔ کیا آپ کو بھی معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث ارشاد فرمائی تھی ؟ ان دونوں بزرگوں نے بھی جواب ہاں میں دیا۔ اس کے بعد عمر (رض) نے کہا، پھر میں آپ لوگوں سے اس معاملہ پر گفتگو کرتا ہوں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو اس مال فئے میں سے (جو بنو نضیر سے ملا تھا) آپ کو خاص طور پر عطا فرما دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق فرمایا ہے کہ بنو نضیر کے مالوں سے جو اللہ نے اپنے رسول کو دیا ہے تو تم نے اس کے لیے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے۔ (یعنی جنگ نہیں کی) اللہ تعالیٰ کا ارشاد قدیر تک۔ تو یہ مال خاص رسول اللہ ﷺ کے لیے تھا لیکن اللہ کی قسم کہ آپ ﷺ نے تمہیں نظر انداز کر کے اپنے لیے اسے مخصوص نہیں فرمایا تھا نہ تم پر اپنی ذات کو ترجیح دی تھی۔ پہلے اس مال میں سے تمہیں دیا اور تم میں اس کی تقسیم کی اور آخر اس فئے میں سے یہ جائیداد بچ گئی۔ پس آپ اپنی ازواج مطہرات کا سالانہ خرچ بھی اسی میں سے نکالتے تھے اور جو کچھ اس میں سے باقی بچتا اسے آپ اللہ تعالیٰ کے مصارف میں خرچ کرتے تھے۔ آپ ﷺ نے اپنی زندگی میں یہ جائیداد انہی مصارف میں خرچ کی۔ پھر جب آپ کی وفات ہوگئی تو ابوبکر (رض) نے کہا کہ مجھے نبی کریم ﷺ کا خلیفہ بنادیا گیا ہے۔ اس لیے انہوں نے اسے اپنے قبضہ میں لے لیا اور اسے انہی مصارف میں خرچ کرتے رہے جس میں نبی کریم ﷺ خرچ کیا کرتے تھے اور آپ لوگ یہیں موجود تھے۔ اس کے بعد عمر (رض) علی (رض) اور عباس (رض) کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا۔ آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ ابوبکر (رض) نے بھی وہی طریقہ اختیار کیا، جیسا کہ آپ لوگوں کو بھی اس کا اقرار ہے اور اللہ کی قسم کہ وہ اپنے اس طرز عمل میں سچے، مخلص، صحیح راستے پر اور حق کی پیروی کرنے والے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ابوبکر (رض) کو بھی اٹھا لیا، اس لیے میں نے کہا کہ مجھے رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر (رض) کا خلیفہ بنایا گیا ہے۔ چناچہ میں اس جائیداد پر اپنی خلافت کے دو سالوں سے قابض ہوں اور اسے انہیں مصارف میں صرف کرتا ہوں جس میں نبی کریم ﷺ اور ابوبکر (رض) نے کیا تھا اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ میں بھی اپنے طرز عمل میں سچا، مخلص، صحیح راستے پر اور حق کی پیروی کرنے والا ہوں۔ پھر آپ دونوں میرے پاس آئے ہیں۔ آپ دونوں ایک ہی ہیں اور آپ کا معاملہ بھی ایک ہے۔ پھر آپ میرے پاس آئے۔ آپ کی مراد عباس (رض) سے تھی۔ تو میں نے آپ دونوں کے سامنے یہ بات صاف کہہ دی تھی کہ رسول اللہ ﷺ فرما گئے تھے کہ ہمارا ترکہ تقسیم نہیں ہوتا۔ ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔ پھر جب میرے دل میں آیا کہ وہ جائیداد بطور انتظام میں آپ دونوں کو دے دوں تو میں نے آپ سے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں یہ جائیداد آپ کو دے سکتا ہوں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے کئے ہوئے عہد کی تمام ذمہ داریوں کو آپ پورا کریں۔ آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ نبی کریم ﷺ اور ابوبکر (رض) نے اور خود میں نے، جب سے میں خلیفہ بنا ہوں۔ اس جائیداد کے معاملہ میں کس طرز عمل کو اختیار کیا ہوا ہے۔ اگر یہ شرط آپ کو منظور نہ ہو تو پھر مجھ سے اس کے بارے میں آپ لوگ بات نہ کریں۔ آپ لوگوں نے اس پر کہا کہ ٹھیک ہے۔ آپ اسی شرط پر وہ جائیداد ہمارے حوالے کردیں۔ چناچہ میں نے اسے آپ لوگوں کے حوالے کردیا۔ کیا آپ حضرات اس کے سوا کوئی اور فیصلہ اس سلسلے میں مجھ سے کروانا چاہتے ہیں ؟ اس اللہ کی قسم ! جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں، قیامت تک میں اس کے سوا کوئی اور فیصلہ نہیں کرسکتا۔ اگر آپ لوگ (شرط کے مطابق اس کے انتظام سے) عاجز ہیں تو وہ جائیداد مجھے واپس کردیں میں خود اس کا انتظام کروں گا۔ زہری نے بیان کیا کہ پھر میں نے اس حدیث کا تذکرہ عروہ بن زبیر سے کیا تو انہوں نے کہا کہ مالک بن اوس نے یہ روایت تم سے صحیح بیان کی ہے۔ میں نے نبی کریم ﷺ کی پاک بیوی عائشہ (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کی ازواج نے عثمان (رض) کو ابوبکر (رض) کے پاس بھیجا اور ان سے درخواست کی کہ اللہ تعالیٰ نے جو فئے اپنے رسول ﷺ کو دی تھی اس میں سے ان کے حصے دیئے جائیں، لیکن میں نے انہیں روکا اور ان سے کہا تم اللہ سے نہیں ڈرتی کہ آپ ﷺ نے خود نہیں فرمایا تھا کہ ہمارا ترکہ تقسیم نہیں ہوتا ؟ ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔ آپ ﷺ کا اشارہ اس ارشاد میں خود اپنی ذات کی طرف تھا۔ البتہ آل محمد ( ﷺ ) کو اس جائیداد میں سے تا زندگی (ان کی ضروریات کے لیے) ملتا رہے گا۔ جب میں نے ازواج مطہرات کو یہ حدیث سنائی تو انہوں نے بھی اپنا خیال بدل دیا۔ عروہ نے کہا کہ یہی وہ صدقہ ہے جس کا انتظام پہلے علی (رض) کے ہاتھ میں تھا۔ علی (رض) نے عباس (رض) کو اس کے انتظام میں شریک نہیں کیا تھا بلکہ خود اس کا انتظام کرتے تھے (اور جس طرح نبی کریم ﷺ ابوبکر (رض) اور عمر (رض) نے اسے خرچ کیا تھا، اسی طرح انہیں مصارف میں وہ بھی خرچ کرتے تھے) اس کے بعد وہ صدقہ حسن بن علی (رض) کے انتظام میں آگیا تھا۔ پھر حسین بن علی (رض) کے انتظام میں رہا۔ پھر جناب علی بن حسین اور حسن بن حسن کے انتظام میں آگیا تھا اور یہ حق ہے کہ یہ رسول اللہ ﷺ کا صدقہ تھا۔
باب: بنو نضیر کے یہودیوں کے واقعہ کا بیان۔
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں عروہ نے اور انہیں عائشہ (رض) نے کہ فاطمہ (رض) اور عباس (رض) ابوبکر (رض) کے پاس آئے اور نبی کریم ﷺ کی زمین جو فدک میں تھی اور جو خیبر میں آپ کو حصہ ملا تھا، اس میں سے اپنی میراث کا مطالبہ کیا۔ اس پر ابوبکر (رض) نے کہا کہ میں نے خود نبی کریم ﷺ سے سنا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ ہمارا ترکہ تقسیم نہیں ہوتا۔ جو کچھ ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔ البتہ آل محمد ( ﷺ ) کو اس جائیداد میں سے خرچ ضرور ملتا رہے گا۔ اور اللہ کی قسم ! رسول اللہ ﷺ کے قرابت داروں کے ساتھ عمدہ معاملہ کرنا مجھے خود اپنے قرابت داروں کے ساتھ حسن معاملت سے زیادہ عزیز ہے۔
باب: کعب بن اشرف یہودی کے قتل کا قصہ۔
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے کہا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے بیان کیا کہ میں نے جابر بن عبداللہ انصاری (رض) سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کعب بن اشرف کا کام کون تمام کرے گا ؟ وہ اللہ اور اس کے رسول کو بہت ستا رہا ہے۔ اس پر محمد بن مسلمہ انصاری (رض) کھڑے ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! کیا آپ اجازت دیں گے کہ میں اسے قتل کر آؤں ؟ آپ نے فرمایا ہاں مجھ کو یہ پسند ہے۔ انہوں نے عرض کیا، پھر آپ مجھے اجازت عنایت فرمائیں کہ میں اس سے کچھ باتیں کہوں آپ نے انہیں اجازت دے دی۔ اب محمد بن مسلمہ (رض) کعب بن اشرف کے پاس آئے اور اس سے کہا، یہ شخص (اشارہ آپ ﷺ کی طرف تھا) ہم سے صدقہ مانگتا رہتا ہے اور اس نے ہمیں تھکا مارا ہے۔ اس لیے میں تم سے قرض لینے آیا ہوں۔ اس پر کعب نے کہا، ابھی آگے دیکھنا، خدا کی قسم ! بالکل اکتا جاؤ گے۔ محمد بن مسلمہ (رض) نے کہا، چونکہ ہم نے بھی اب ان کی اتباع کرلی ہے۔ اس لیے جب تک یہ نہ کھل جائے کہ ان کا انجام کیا ہوتا ہے، انہیں چھوڑنا بھی مناسب نہیں۔ تم سے ایک وسق یا (راوی نے بیان کیا کہ) دو وسق غلہ قرض لینے آیا ہوں۔ اور ہم سے عمرو بن دینار نے یہ حدیث کئی دفعہ بیان کی لیکن ایک وسق یا دو وسق غلے کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ میں نے ان سے کہا کہ حدیث میں ایک یا دو وسق کا ذکر ہے ؟ انہوں نے کہا کہ میرا بھی خیال ہے کہ حدیث میں ایک یا دو وسق کا ذکر آیا ہے۔ کعب بن اشرف نے کہا، ہاں، میرے پاس کچھ گروی رکھ دو ۔ انہوں نے پوچھا، گروی میں تم کیا چاہتے ہو ؟ اس نے کہا، اپنی عورتوں کو رکھ دو ۔ انہوں نے کہا کہ تم عرب کے بہت خوبصورت مرد ہو۔ ہم تمہارے پاس اپنی عورتیں کس طرح گروی رکھ سکتے ہیں۔ اس نے کہا، پھر اپنے بچوں کو گروی رکھ دو ۔ انہوں نے کہا، ہم بچوں کو کس طرح گروی رکھ سکتے ہیں۔ کل انہیں اسی پر گالیاں دی جائیں گی کہ ایک یا دو وسق غلے پر اسے رہن رکھ دیا گیا تھا، یہ تو بڑی بےغیرتی ہوگی۔ البتہ ہم تمہارے پاس اپنے اللأمة گروی رکھ سکتے ہیں۔ سفیان نے کہا کہ مراد اس سے ہتھیار تھے۔ محمد بن مسلمہ (رض) نے اس سے دوبارہ ملنے کا وعدہ کیا اور رات کے وقت اس کے یہاں آئے۔ ان کے ساتھ ابونائلہ بھی موجود تھے وہ کعب بن اشرف کے رضاعی بھائی تھے۔ پھر اس کے قلعہ کے پاس جا کر انہوں نے آواز دی۔ وہ باہر آنے لگا تو اس کی بیوی نے کہا کہ اس وقت (اتنی رات گئے) کہاں باہر جا رہے ہو ؟ اس نے کہا، وہ تو محمد بن مسلمہ اور میرا بھائی ابونائلہ ہے۔ عمرو کے سوا (دوسرے راوی) نے بیان کیا کہ اس کی بیوی نے اس سے کہا تھا کہ مجھے تو یہ آواز ایسی لگتی ہے جیسے اس سے خون ٹپک رہا ہو۔ کعب نے جواب دیا کہ میرے بھائی محمد بن مسلمہ اور میرے رضاعی بھائی ابونائلہ ہیں۔ شریف کو اگر رات میں بھی نیزہ بازی کے لیے بلایا جائے تو وہ نکل پڑتا ہے۔ راوی نے بیان کیا کہ جب محمد بن مسلمہ اندر گئے تو ان کے ساتھ دو آدمی اور تھے۔ سفیان سے پوچھا گیا کہ کیا عمرو بن دینار نے ان کے نام بھی لیے تھے ؟ انہوں نے بتایا کہ بعض کا نام لیا تھا۔ عمرو نے بیان کیا کہ وہ آئے تو ان کے ساتھ دو آدمی اور تھے اور عمرو بن دینار کے سوا (راوی نے) ابوعبس بن جبر، حارث بن اوس اور عباد بن بشر نام بتائے تھے۔ عمرو نے بیان کیا کہ وہ اپنے ساتھ دو آدمیوں کو لائے تھے اور انہیں یہ ہدایت کی تھی کہ جب کعب آئے تو میں اس کے (سر کے) بال ہاتھ میں لے لوں گا اور اسے سونگھنے لگوں گا۔ جب تمہیں اندازہ ہوجائے کہ میں نے اس کا سر پوری طرح اپنے قبضہ میں لے لیا ہے تو پھر تم تیار ہوجانا اور اسے قتل کر ڈالنا۔ عمرو نے ایک مرتبہ بیان کیا کہ پھر میں اس کا سر سونگھوں گا۔ آخر کعب چادر لپیٹے ہوئے باہر آیا۔ اس کے جسم سے خوشبو پھوٹی پڑتی تھی۔ محمد بن مسلمہ (رض) نے کہا، آج سے زیادہ عمدہ خوشبو میں نے کبھی نہیں سونگھی تھی۔ عمرو کے سوا (دوسرے راوی) نے بیان کیا کہ کعب اس پر بولا، میرے پاس عرب کی وہ عورت ہے جو ہر وقت عطر میں بسی رہتی ہے اور حسن و جمال میں بھی اس کی کوئی نظیر نہیں۔ عمرو نے بیان کیا کہ محمد بن مسلمہ (رض) نے اس سے کہا، کیا تمہارے سر کو سونگھنے کی مجھے اجازت ہے ؟ اس نے کہا، سونگھ سکتے ہو۔ راوی نے بیان کیا کہ محمد بن مسلمہ (رض) نے اس کا سر سونگھا اور ان کے بعد ان کے ساتھیوں نے بھی سونگھا۔ پھر انہوں نے کہا، کیا دوبارہ سونگھنے کی اجازت ہے ؟ اس نے اس مرتبہ بھی اجازت دے دی۔ پھر جب محمد بن مسلمہ (رض) نے اسے پوری طرح اپنے قابو میں کرلیا تو اپنے ساتھیوں کو اشارہ کیا کہ تیار ہوجاؤ۔ چناچہ انہوں نے اسے قتل کردیا اور نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اس کی اطلاع دی۔
باب: ابورافع یہودی عبداللہ بن ابی الحقیق کے قتل کا قصہ۔
مجھ سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ بن آدم نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی زائدہ نے، انہوں نے اپنے والد زکریا بن ابی زائدہ سے، ان سے ابواسحاق سبیعی نے بیان کیا، ان سے براء بن عازب (رض) نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے چند آدمیوں کو ابورافع کے پاس بھیجا (منجملہ ان کے) عبداللہ بن عتیک رات کو اس گھر میں گھسے، وہ سو رہا تھا۔ اسے قتل کیا۔
باب: ابورافع یہودی عبداللہ بن ابی الحقیق کے قتل کا قصہ۔
ہم سے یوسف بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، ان سے اسرائیل نے، ان سے ابواسحاق نے اور ان سے براء بن عازب (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ابورافع یہودی (کے قتل) کے لیے چند انصاری صحابہ کو بھیجا اور عبداللہ بن عتیک (رض) کو ان کا امیر بنایا۔ یہ ابورافع نبی کریم ﷺ کو ایذا دیا کرتا تھا اور آپ کے دشمنوں کی مدد کیا کرتا تھا۔ حجاز میں اس کا ایک قلعہ تھا اور وہیں وہ رہا کرتا تھا۔ جب اس کے قلعہ کے قریب یہ پہنچے تو سورج غروب ہوچکا تھا۔ اور لوگ اپنے مویشی لے کر (اپنے گھروں کو) واپس ہوچکے تھے۔ عبداللہ بن عتیک (رض) نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ تم لوگ یہیں ٹھہرے رہو میں (اس قلعہ پر) جا رہا ہوں اور دربان پر کوئی تدبیر کروں گا۔ تاکہ میں اندر جانے میں کامیاب ہوجاؤں۔ چناچہ وہ (قلعہ کے پاس) آئے اور دروازے کے قریب پہنچ کر انہوں نے خود کو اپنے کپڑوں میں اس طرح چھپالیا جیسے کوئی قضائے حاجت کر رہا ہو۔ قلعہ کے تمام آدمی اندر داخل ہوچکے تھے۔ دربان نے آواز دی، اے اللہ کے بندے ! اگر اندر آنا ہے تو جلد آ جا، میں اب دروازہ بند کر دوں گا۔ (عبداللہ بن عتیک (رض) نے کہا) چناچہ میں بھی اندر چلا گیا اور چھپ کر اس کی کارروائی دیکھنے لگا۔ جب سب لوگ اندر آگئے تو اس نے دروازہ بند کیا اور کنجیوں کا گچھا ایک کھونٹی پر لٹکا دیا۔ انہوں نے بیان کیا کہ اب میں ان کنجیوں کی طرف بڑھا اور میں نے انہیں لے لیا، پھر میں نے قلعہ کا دروازہ کھول لیا۔ ابورافع کے پاس رات کے وقت داستانیں بیان کی جا رہی تھیں اور وہ اپنے خاص بالاخانے میں تھا۔ جب داستان گو اس کے یہاں سے اٹھ کر چلے گئے تو میں اس کمرے کی طرف چڑھنے لگا۔ اس عرصہ میں، میں جتنے دروازے اس تک پہنچنے کے لیے کھولتا تھا انہیں اندر سے بند کرتا جاتا تھا۔ میرا مطلب یہ تھا کہ اگر قلعہ والوں کو میرے متعلق علم بھی ہوجائے تو اس وقت تک یہ لوگ میرے پاس نہ پہنچ سکیں جب تک میں اسے قتل نہ کرلوں۔ آخر میں اس کے قریب پہنچ گیا۔ اس وقت وہ ایک تاریک کمرے میں اپنے بال بچوں کے ساتھ (سو رہا) تھا مجھے کچھ اندازہ نہیں ہوسکا کہ وہ کہاں ہے۔ اس لیے میں نے آواز دی، یا ابا رافع ؟ وہ بولا کون ہے ؟ اب میں نے آواز کی طرف بڑھ کر تلوار کی ایک ضرب لگائی۔ اس وقت میرا دل دھک دھک کر رہا تھا۔ یہی وجہ ہوئی کہ میں اس کا کام تمام نہیں کرسکا۔ وہ چیخا تو میں کمرے سے باہر نکل آیا اور تھوڑی دیر تک باہر ہی ٹھہرا رہا۔ پھر دوبارہ اندر گیا اور میں نے آواز بدل کر پوچھا، ابورافع ! یہ آواز کیسی تھی ؟ وہ بولا تیری ماں غارت ہو۔ ابھی ابھی مجھ پر کسی نے تلوار سے حملہ کیا ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر (آواز کی طرف بڑھ کر) میں نے تلوار کی ایک ضرب اور لگائی۔ انہوں نے بیان کیا کہ اگرچہ میں اسے زخمی تو بہت کرچکا تھا لیکن وہ ابھی مرا نہیں تھا۔ اس لیے میں نے تلوار کی نوک اس کے پیٹ پر رکھ کر دبائی جو اس کی پیٹھ تک پہنچ گئی۔ مجھے اب یقین ہوگیا کہ میں اسے قتل کرچکا ہوں۔ چناچہ میں نے دروازے ایک ایک کر کے کھولنے شروع کئے۔ آخر میں ایک زینے پر پہنچا۔ میں یہ سمجھا کہ زمین تک میں پہنچ چکا ہوں (لیکن ابھی میں پہنچا نہ تھا) اس لیے میں نے اس پر پاؤں رکھ دیا اور نیچے گرپڑا۔ چاندنی رات تھی۔ اس طرح گر پڑنے سے میری پنڈلی ٹوٹ گئی۔ میں نے اسے اپنے عمامہ سے باندھ لیا اور آ کر دروازے پر بیٹھ گیا۔ میں نے یہ ارادہ کرلیا تھا کہ یہاں سے اس وقت تک نہیں جاؤں گا جب تک یہ نہ معلوم کرلوں کہ آیا میں اسے قتل کرچکا ہوں یا نہیں ؟ جب مرغ نے آواز دی تو اسی وقت قلعہ کی فصیل پر ایک پکارنے والے نے کھڑے ہو کر پکارا کہ میں اہل حجاز کے تاجر ابورافع کی موت کا اعلان کرتا ہوں۔ میں اپنے ساتھیوں کے پاس آیا اور ان سے کہا کہ چلنے کی جلدی کرو۔ اللہ تعالیٰ نے ابورافع کو قتل کرا دیا۔ چناچہ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کو اس کی اطلاع دی۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اپنا پاؤں پھیلاؤ میں نے پاؤں پھیلایا تو آپ نے اس پر اپنا دست مبارک پھیرا اور پاؤں اتنا اچھا ہوگیا جیسے کبھی اس میں مجھ کو کوئی تکلیف ہوئی ہی نہ تھی۔
باب: ابورافع یہودی عبداللہ بن ابی الحقیق کے قتل کا قصہ۔
ہم سے احمد بن عثمان بن حکیم نے بیان کیا، ہم سے شریح ابن مسلمہ نے بیان کیا، ان سے ابراہیم بن یوسف نے بیان کیا، ان سے ان کے والد یوسف بن اسحاق نے، ان سے ابواسحاق نے کہ میں نے براء بن عازب (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن عتیک اور عبداللہ بن عتبہ (رض) کو چند صحابہ کے ساتھ ابورافع (کے قتل) کے لیے بھیجا۔ یہ لوگ روانہ ہوئے جب اس کے قلعہ کے نزدیک پہنچے تو عبداللہ بن عتیک (رض) نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ تم لوگ یہیں ٹھہر جاؤ پہلے میں جاتا ہوں، دیکھوں صورت حال کیا ہے۔ عبداللہ بن عتیک (رض) نے بیان کیا کہ (قلعہ کے قریب پہنچ کر) میں اندر جانے کے لیے تدابیر کرنے لگا۔ اتفاق سے قلعہ کا ایک گدھا گم تھا۔ انہوں نے بیان کیا کہ اس گدھے کو تلاش کرنے کے لیے قلعہ والے روشنی لے کر باہر نکلے۔ بیان کیا کہ میں ڈرا کہ کہیں مجھے کوئی پہچان نہ لے۔ اس لیے میں نے اپنا سر ڈھک لیا جیسے کوئی قضائے حاجت کر رہا ہے۔ اس کے بعد دربان نے آواز دی کہ اس سے پہلے کہ میں دروازہ بند کرلوں جسے قلعہ کے اندر داخل ہونا ہے وہ جلدی آجائے۔ میں (نے موقع غنیمت سمجھا اور) اندر داخل ہوگیا اور قلعہ کے دروازے کے پاس ہی جہاں گدھے باندھے جاتے تھے وہیں چھپ گیا۔ قلعہ والوں نے ابورافع کے ساتھ کھانا کھایا اور پھر اسے قصے سناتے رہے۔ آخر کچھ رات گئے وہ سب قلعہ کے اندر ہی اپنے اپنے گھروں میں واپس آگئے۔ اب سناٹا چھا چکا تھا اور کہیں کوئی حرکت نہیں ہوتی تھی۔ اس لیے میں اس طویلہ سے باہر نکلا۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے پہلے ہی دیکھ لیا تھا کہ دربان نے کنجی ایک طاق میں رکھی ہے۔ میں نے پہلے کنجی اپنے قبضہ میں لے لی اور پھر سب سے پہلے قلعہ کا دروازہ کھولا۔ بیان کیا کہ میں نے یہ سوچا تھا کہ اگر قلعہ والوں کو میرا علم ہوگیا تو میں بڑی آسانی کے ساتھ بھاگ سکوں گا۔ اس کے بعد میں نے ان کے کمروں کے دروازے کھولنے شروع کئے اور انہیں اندر سے بند کرتا جاتا تھا۔ اب میں زینوں سے ابورافع کے بالاخانوں تک پہنچ چکا تھا۔ اس کے کمرہ میں اندھیرا تھا۔ اس کا چراغ گل کردیا گیا تھا۔ میں یہ نہیں اندازہ کر پایا تھا کہ ابورافع کہاں ہے۔ اس لیے میں نے آواز دی۔ اے ابورافع ! اس پر وہ بولا کہ کون ہے ؟ انہوں نے بیان کیا کہ پھر آواز کی طرف میں بڑھا اور میں نے تلوار سے اس پر حملہ کیا۔ وہ چلانے لگا لیکن یہ وار اوچھا پڑا تھا۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر دوبارہ میں اس کے قریب پہنچا، گویا میں اس کی مدد کو آیا ہوں۔ میں نے آواز بدل کر پوچھا۔ ابورافع کیا بات پیش آئی ہے ؟ اس نے کہا تیری ماں غارت ہو، ابھی کوئی شخص میرے کمرے میں آگیا اور اس نے تلوار سے مجھ پر حملہ کیا ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ اس مرتبہ پھر میں نے اس کی آواز کی طرف بڑھ کر دوبارہ حملہ کیا۔ اس حملہ میں بھی وہ قتل، نہ ہوسکا۔ پھر وہ چلانے لگا اور اس کی بیوی بھی اٹھ گئی (اور چلانے لگی) ۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر میں بظاہر مددگار بن کر پہنچا اور میں نے اپنی آواز بدل لی۔ اس وقت وہ چت لیٹا ہوا تھا۔ میں نے اپنی تلوار اس کے پیٹ پر رکھ کر زور سے اسے دبایا۔ آخر جب میں نے ہڈی ٹوٹنے کی آواز سن لی تو میں وہاں سے نکلا، بہت گھبرایا ہوا۔ اب زینہ پر آچکا تھا۔ میں اترنا چاہتا تھا کہ نیچے گرپڑا۔ جس سے میرا پاؤں ٹوٹ گیا۔ میں نے اس پر پٹی باندھی اور لنگڑاتے ہوئے اپنے ساتھیوں کے پاس پہنچا۔ میں نے ان سے کہا کہ تم لوگ جاؤ اور رسول اللہ ﷺ کو خوشخبری سناؤ۔ میں تو یہاں سے اس وقت تک نہیں ہٹوں گا جب تک کہ اس کی موت کا اعلان نہ سن لوں۔ چناچہ صبح کے وقت موت کا اعلان کرنے والا (قلعہ کی فصیل پر) چڑھا اور اس نے اعلان کیا کہ ابورافع کی موت واقع ہوگئی ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر میں چلنے کے لیے اٹھا، مجھے (کامیابی کی خوشخبری میں) کوئی تکلیف معلوم نہیں ہوتی تھی۔ اس سے پہلے کہ میرے ساتھی آپ ﷺ کی خدمت میں پہنچیں، میں نے اپنے ساتھیوں کو پا لیا تو میں نے نبی کریم ﷺ کو خوشخبری سنائی۔
باب: غزوہ احد کا بیان۔
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، ہم کو عبدالوہاب نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم سے خالد نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عباس (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے غزوہ احد کے موقع پر فرمایا یہ جبرائیل (علیہ السلام) ہیں، ہتھیار بند، اپنے گھوڑے کی لگام تھامے ہوئے۔
باب: غزوہ احد کا بیان۔
ہم سے محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا، کہا ہم کو زکریا بن عدی نے خبر دی، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں حیوہ نے، انہیں یزید بن ابی حبیب نے، انہیں ابوالخیر نے اور ان سے عقبہ بن عامر (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے آٹھ سال بعد یعنی آٹھویں برس میں غزوہ احد کے شہداء پر نماز جنازہ ادا کی۔ جیسے آپ زندوں اور مردوں سب سے رخصت ہو رہے ہوں۔ اس کے بعد آپ ﷺ منبر پر تشریف لائے اور فرمایا میں تم سے آگے آگے ہوں، میں تم پر گواہ رہوں گا اور مجھ سے (قیامت کے دن) تمہاری ملاقات حوض (کوثر) پر ہوگی۔ اس وقت بھی میں اپنی اس جگہ سے حوض (کوثر) کو دیکھ رہا ہوں۔ تمہارے بارے میں مجھے اس کا کوئی خطرہ نہیں ہے کہ تم شرک کرو گے، ہاں میں تمہارے بارے میں دنیا سے ڈرتا ہوں کہ تم کہیں دنیا کے لیے آپس میں مقابلہ نہ کرنے لگو۔ عقبہ بن عامر (رض) نے بیان کیا کہ میرے لیے رسول اللہ ﷺ کا یہ آخری دیدار تھا جو مجھ کو نصیب ہوا۔
باب: غزوہ احد کا بیان۔
ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، ان سے اسرائیل نے بیان کیا، ان سے ابن اسحاق (عمرو بن عبیداللہ سبیعی) نے اور ان سے براء بن عازب (رض) نے بیان کیا کہ جنگ احد کے موقع پر جب مشرکین سے مقابلہ کے لیے ہم پہنچے تو نبی کریم ﷺ نے تیر اندازوں کا ایک دستہ عبداللہ بن جبیر (رض) کی ماتحتی میں (پہاڑی پر) مقرر فرمایا تھا اور انہیں یہ حکم دیا تھا کہ تم اپنی جگہ سے نہ ہٹنا، اس وقت بھی جب تم لوگ دیکھ لو کہ ہم ان پر غالب آگئے ہیں پھر بھی یہاں سے نہ ہٹنا اور اس وقت بھی جب دیکھ لو کہ وہ ہم پر غالب آگئے، تم لوگ ہماری مدد کے لیے نہ آنا۔ پھر جب ہماری مڈبھیڑ کفار سے ہوئی تو ان میں بھگدڑ مچ گئی۔ میں نے دیکھا کہ ان کی عورتیں پہاڑیوں پر بڑی تیزی کے ساتھ بھاگی جا رہی تھیں، پنڈلیوں سے اوپر کپڑے اٹھائے ہوئے، جس سے ان کے پازیب دکھائی دے رہے تھے۔ عبداللہ بن جبیر (رض) کے (تیرانداز) ساتھی کہنے لگے کہ غنیمت غنیمت۔ اس پر عبداللہ (رض) نے ان سے کہا کہ مجھے نبی کریم ﷺ نے تاکید کی تھی کہ اپنی جگہ سے نہ ہٹنا (اس لیے تم لوگ مال غنیمت لوٹنے نہ جاؤ) لیکن ان کے ساتھیوں نے ان کا حکم ماننے سے انکار کردیا۔ ان کی اس حکم عدولی کے نتیجے میں مسلمانوں کو ہار ہوئی اور ستر مسلمان شہید ہوگئے۔ اس کے بعد ابوسفیان نے پہاڑی پر سے آواز دی، کیا تمہارے ساتھ محمد ( ﷺ ) موجود ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ کوئی جواب نہ دے، پھر انہوں نے پوچھا، کیا تمہارے ساتھ ابن ابی قحافہ موجود ہیں ؟ آپ ﷺ نے اس کے جواب کی بھی ممانعت فرما دی۔ انہوں نے پوچھا، کیا تمہارے ساتھ ابن خطاب موجود ہیں ؟ اس کے بعد وہ کہنے لگے کہ یہ سب قتل کردیئے گئے۔ اگر زندہ ہوتے تو جواب دیتے۔ اس پر عمر (رض) بےقابو ہوگئے اور فرمایا : اللہ کے دشمن تو جھوٹا ہے۔ اللہ نے ابھی انہیں تمہیں ذلیل کرنے لیے باقی رکھا ہے۔ ابوسفیان نے کہا، ہبل (ایک بت) بلند رہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اس کا جواب دو ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ ہم کیا جواب دیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ کہو، اللہ سب سے بلند اور بزرگ و برتر ہے۔ ابوسفیان نے کہا، ہمارے پاس عزیٰ (بت) ہے اور تمہارے پاس کوئی عزیٰ نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس کا جواب دو ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا، کیا جواب دیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ کہو، اللہ ہمارا حامی اور مددگار ہے اور تمہارا کوئی حامی نہیں۔ ابوسفیان نے کہا، آج کا دن بدر کے دن کا بدلہ ہے اور لڑائی کی مثال ڈول کی ہوتی ہے۔ (کبھی ہمارے ہاتھ میں اور کبھی تمہارے ہاتھ میں) تم اپنے مقتولین میں کچھ لاشوں کا مثلہ کیا ہوا پاؤ گے، میں نے اس کا حکم نہیں دیا تھا لیکن مجھے برا نہیں معلوم ہوا۔
باب: غزوہ احد کا بیان۔
مجھے عبداللہ بن محمد نے خبر دی، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے عمرو نے اور ان سے جابر (رض) نے بیان کیا کہ بعض صحابہ نے غزوہ احد کی صبح کو شراب پی (جو ابھی حرام نہیں ہوئی تھی) اور پھر شہادت کی موت نصیب ہوئی۔
باب: غزوہ احد کا بیان۔
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم کو شعبہ نے خبر دی، انہیں سعد بن ابراہیم نے، ان سے ان کے والد ابراہیم نے کہ (ان کے والد) عبدالرحمٰن بن عوف (رض) کے پاس کھانا لایا گیا۔ اور وہ روزے سے تھے تو انہوں نے کہا، مصعب بن عمیر (رض) (احد کی جنگ میں) شہید کردیئے گئے، وہ مجھ سے افضل اور بہتر تھے لیکن انہیں جس چادر کا کفن دیا گیا (وہ اتنی چھوٹی تھی کہ) اگر اس سے ان کا سر چھپایا جاتا تو پاؤں کھل جاتے اور پاؤں چھپائے جاتے تو سر کھل جاتا تھا۔ میرا خیال ہے کہ انہوں نے کہا اور حمزہ (رض) بھی (اسی جنگ میں) شہید کئے گئے، وہ مجھ سے بہتر اور افضل تھے۔ پھر جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو، ہمارے لیے دنیا میں کشادگی دی گئی یا انہوں نے یہ کہا کہ پھر جیسا کہ تم دیکھتے ہو، ہمیں دنیا دی گئی، ہمیں تو اس کا ڈر ہے کہ کہیں یہی ہماری نیکیوں کا بدلہ نہ ہو جو اسی دنیا میں ہمیں دیا جا رہا ہے۔ اس کے بعد آپ روے کہ کھانا نہ کھا سکے۔
باب: غزوہ احد کا بیان۔
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے، انہوں نے جابر بن عبداللہ انصاری (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ایک صحابی نے نبی کریم ﷺ سے غزوہ احد کے موقع پر پوچھا : یا رسول اللہ ! اگر میں قتل کردیا گیا تو میں کہاں جاؤں گا ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جنت میں۔ انہوں نے کھجور پھینک دی جو ان کے ہاتھ میں تھی اور لڑنے لگے یہاں تک کہ شہید ہوگئے۔
باب: غزوہ احد کا بیان۔
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا ہم سے زہیر بن معاویہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، ان سے شقیق بن سلمہ نے اور ان سے خباب بن الارت (رض) نے بیان کیا کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہجرت کی تھی۔ ہمارا مقصد صرف اللہ کی رضا تھی۔ اس کا ثواب اللہ کے ذمے تھا۔ پھر ہم میں سے بعض لوگ تو وہ تھے جو گزر گئے اور کوئی اجر انہوں نے اس دنیا میں نہیں دیکھا، انہیں میں سے مصعب بن عمیر (رض) بھی تھے۔ احد کی لڑائی میں انہوں نے شہادت پائی تھی۔ ایک دھاری دار چادر کے سوا اور کوئی چیز ان کے پاس نہیں تھی (اور وہی ان کا کفن بنی) جب ہم اس سے ان کا سر چھپاتے تو پاؤں کھل جاتے اور پاؤں چھپاتے تو سر کھل جاتا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ سر چادر سے چھپا دو اور پاؤں پر اذخر گھاس ڈال دو ۔ یا نبی کریم ﷺ نے یہ الفاظ فرمائے تھے کہ ألقوا على رجله من الإذخر بجائے اجعلوا على رجله الإذخر کے اور ہم بعض وہ تھے جنہیں ان کے اس عمل کا بدلہ (اسی دنیا میں) مل رہا ہے اور وہ اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
باب: غزوہ احد کا بیان۔
ہم سے حسان بن حسان نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن طلحہ نے بیان کیا، کہا ہم سے حمید طویل نے بیان کیا اور ان سے انس (رض) نے کہ ان کے چچا (انس بن نضر) بدر کی لڑائی میں شریک نہ ہو سکے تھے، پھر انہوں نے کہا کہ میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ پہلی ہی لڑائی میں غیر حاضر رہا۔ اگر نبی کریم ﷺ کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے مجھے کسی اور لڑائی میں شرکت کا موقع دیا تو اللہ دیکھے گا کہ میں کتنی بےجگری سے لڑتا ہوں۔ پھر غزوہ احد کے موقع پر جب مسلمانوں کی جماعت میں افراتفری پیدا ہوگئی تو انہوں نے کہا : اے اللہ ! مسلمانوں نے آج جو کچھ کیا میں تیرے حضور میں اس کے لیے معذرت خواہ ہوں اور مشرکین نے جو کچھ کیا میں تیرے حضور میں اس سے اپنی بیزاری ظاہر کرتا ہوں۔ پھر وہ اپنی تلوار لے کر آگے بڑھے۔ راستے میں سعد بن معاذ (رض) سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے ان سے کہا، سعد ! کہاں جا رہے ہو ؟ میں تو احد پہاڑی کے دامن میں جنت کی خوشبو سونگھ رہا ہوں۔ اس کے بعد وہ آگے بڑھے اور شہید کردیئے گئے۔ ان کی لاش پہچانی نہیں جا رہی تھی۔ آخر ان کی بہن نے ایک تل یا ان کی انگلیوں کے پور سے ان کی لاش کو پہچانا۔ انکو اسّی (80) سے زیادہ زخم بھالے اور تلوار اور تیروں کے لگے تھے۔
باب: غزوہ احد کا بیان۔
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، انہیں خارجہ بن زید بن ثابت نے خبر دی انہوں نے زید بن ثابت (رض) سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ جب ہم قرآن مجید کو لکھنے لگے تو مجھے سورة الاحزاب کی ایک آیت (لکھی ہوئی) نہیں ملی۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس کی تلاوت کرتے بارہا سنا تھا۔ پھر جب ہم نے اس کی تلاش کی تو وہ آیت خزیمہ بن ثابت انصاری (رض) کے پاس ہمیں ملی (آیت یہ تھی) من المؤمنين رجال صدقوا ما عاهدوا الله عليه فمنهم من قضى نحبه ومنهم من ينتظر پھر ہم نے اس آیت کو اس کی سورت میں قرآن مجید میں ملا دیا۔
باب: غزوہ احد کا بیان۔
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عدی بن ثابت نے، میں نے عبداللہ بن یزید سے سنا، وہ زید بن ثابت (رض) سے بیان کرتے تھے کہ انہوں نے بیان کیا، جب نبی کریم ﷺ غزوہ احد کے لیے نکلے تو کچھ لوگ جو آپ کے ساتھ تھے (منافقین، بہانہ بنا کر) واپس لوٹ گئے۔ پھر صحابہ کی ان واپس ہونے والے منافقین کے بارے میں دو رائیں ہوگئیں تھیں۔ ایک جماعت تو کہتی تھی ہمیں پہلے ان سے جنگ کرنی چاہیے اور دوسری جماعت کہتی تھی کہ ان سے ہمیں جنگ نہ کرنی چاہیے۔ اس پر آیت نازل ہوئی فما لکم في المنافقين فئتين والله أركسهم بما کسبوا پس تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ منافقین کے بارے میں تمہاری دو جماعتیں ہوگئیں ہیں، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان کی بداعمالی کی وجہ سے انہیں کفر کی طرف لوٹا دیا ہے۔ اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ مدینہ طیبہ ہے، سرکشوں کو یہ اس طرح اپنے سے دور کردیتا ہے جیسے آگ کی بھٹی چاندی کے میل کچیل کو دور کردیتی ہے۔
باب: جب تم میں سے دو جماعتیں ایسا ارادہ کر بیٹھتی تھیں کہ ہمت ہار دیں حالانکہ اللہ دونوں کا مددگار تھا اور ایمانداروں کو تو اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو نے، ان سے جابر بن عبداللہ (رض) نے بیان کیا کہ یہ آیت ہمارے بارے میں نازل ہوئی تھی إذ همت طائفتان منکم أن تفشلا (آل عمران : 122) یعنی بنی حارثہ اور بنی سلمہ کے بارے میں۔ میری خواہش نہیں ہے کہ یہ آیت نازل نہ ہوتی، جب کہ اللہ آگے فرما رہا ہے والله وليهما اور اللہ ان دونوں جماعتوں کا مددگار تھا۔
باب: جب تم میں سے دو جماعتیں ایسا ارادہ کر بیٹھتی تھیں کہ ہمت ہار دیں حالانکہ اللہ دونوں کا مددگار تھا اور ایمانداروں کو تو اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا ہم کو عمرو بن دینار نے خبر دی اور ان سے جابر بن عبداللہ انصاری (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے دریافت فرمایا جابر ! کیا نکاح کرلیا ؟ میں نے عرض کیا، جی ہاں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کنواری سے یا بیوہ سے ؟ میں نے عرض کیا کہ بیوہ سے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کسی کنواری لڑکی سے کیوں نہ کیا ؟ جو تمہارے ساتھ کھیلا کرتی۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! میرے والد احد کی لڑائی میں شہید ہوگئے۔ نو لڑکیاں چھوڑیں۔ پس میری نو بہنیں موجود ہیں۔ اسی لیے میں نے مناسب نہیں خیال کیا کہ انہیں جیسی نا تجربہ کار لڑکی ان کے پاس لا کر بٹھا دوں، بلکہ ایک ایسی عورت لاؤں جو ان کی دیکھ بھال کرسکے اور ان کی صفائی و ستھرائی کا خیال رکھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم نے اچھا کیا۔
باب: جب تم میں سے دو جماعتیں ایسا ارادہ کر بیٹھتی تھیں کہ ہمت ہار دیں حالانکہ اللہ دونوں کا مددگار تھا اور ایمانداروں کو تو اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔
ہم سے احمد بن ابی شریح نے بیان کیا، کہا ہم کو عبیداللہ بن موسیٰ نے خبر دی، ان سے شیبان نے بیان کیا، ان سے فراس نے، ان سے شعبی نے بیان کیا کہ میں نے جابر بن عبداللہ (رض) سے سنا کہ ان کے والد (عبداللہ رضی اللہ عنہ) احد کی لڑائی میں شہید ہوگئے تھے اور قرض چھوڑ گئے تھے اور چھ لڑکیاں بھی۔ جب درختوں سے کھجور اتارے جانے کا وقت قریب آیا تو انہوں نے بیان کیا کہ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ جیسا کہ آپ کے علم میں ہے، میرے والد صاحب احد کی لڑائی میں شہید ہوگئے اور قرض چھوڑ گئے ہیں، میں چاہتا تھا کہ قرض خواہ آپ کو دیکھ لیں (اور کچھ نرمی برتیں) آپ ﷺ نے فرمایا کہ جاؤ اور ہر قسم کی کھجور کا الگ الگ ڈھیر لگا لو۔ میں نے حکم کے مطابق عمل کیا اور پھر آپ کو بلانے گیا۔ جب قرض خواہوں نے آپ کو دیکھا تو جیسے اس وقت مجھ پر اور زیادہ بھڑک اٹھے۔ (کیونکہ وہ یہودی تھے) آپ ﷺ نے جب ان کا یہ طرز عمل دیکھا تو آپ پہلے سب سے بڑے ڈھیر کے چاروں طرف تین مرتبہ گھومے۔ اس کے بعد اس پر بیٹھ گئے اور فرمایا اپنے قرض خواہوں کو بلا لاؤ۔ آپ ﷺ برابر انہیں ناپ کے دیتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے میرے والد کی طرف سے ان کی ساری امانت ادا کردی۔ میں اس پر خوش تھا کہ اللہ تعالیٰ میرے والد کی امانت ادا کرا دے اور میں اپنی بہنوں کے لیے ایک کھجور بھی نہ لے جاؤں لیکن اللہ تعالیٰ نے تمام دوسرے ڈھیر بچا دیئے بلکہ اس ڈھیر کو بھی جب دیکھا جس پر آپ ﷺ بیٹھے ہوئے تھے کہ جیسے اس میں سے ایک کھجور کا دانہ بھی کم نہیں ہوا۔
باب: جب تم میں سے دو جماعتیں ایسا ارادہ کر بیٹھتی تھیں کہ ہمت ہار دیں حالانکہ اللہ دونوں کا مددگار تھا اور ایمانداروں کو تو اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ نے، ان کے دادا سے کہ سعد بن ابی وقاص (رض) نے بیان کیا، غزوہ احد کے موقع پر میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا اور آپ کے ساتھ دو اور اصحاب (یعنی جبرائیل (علیہ السلام) اور میکائیل (علیہ السلام) انسانی صورت میں) آئے ہوئے تھے۔ وہ آپ کو اپنی حفاظت میں لے کر کفار سے بڑی سختی سے لڑ رہے تھے۔ ان کے جسم پر سفید کپڑے تھے۔ میں نے انہیں نہ اس سے پہلے کبھی دیکھا تھا اور نہ اس کے بعد کبھی دیکھا۔
باب: جب تم میں سے دو جماعتیں ایسا ارادہ کر بیٹھتی تھیں کہ ہمت ہار دیں حالانکہ اللہ دونوں کا مددگار تھا اور ایمانداروں کو تو اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے مروان بن معاویہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہاشم بن ہاشم سعدی نے بیان کیا، کہا میں نے سعید بن مسیب سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے سعد بن ابی وقاص (رض) سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ غزوہ احد کے موقع پر رسول اللہ ﷺ نے اپنے ترکش کے تیر مجھے نکال کردیئے اور فرمایا کہ خوب تیر برسائے جا۔ میرے ماں باپ تم پر فدا ہوں۔
باب: جب تم میں سے دو جماعتیں ایسا ارادہ کر بیٹھتی تھیں کہ ہمت ہار دیں حالانکہ اللہ دونوں کا مددگار تھا اور ایمانداروں کو تو اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے سعید بن مسیب سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے سعد بن ابی وقاص (رض) سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ غزوہ احد کے موقع پر رسول اللہ ﷺ نے (میری ہمت افزائی کے لیے) اپنے والد اور والدہ دونوں کو جمع فرمایا کہ میرے ماں باپ تم پر فدا ہوں۔
باب: جب تم میں سے دو جماعتیں ایسا ارادہ کر بیٹھتی تھیں کہ ہمت ہار دیں حالانکہ اللہ دونوں کا مددگار تھا اور ایمانداروں کو تو اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن کثیر نے بیان کیا، ان سے ابن المسیب نے، انہوں نے بیان کیا کہ سعد بن ابی وقاص (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے غزوہ احد کے موقع پر (میری ہمت بڑھانے کے لیے) اپنے والد اور والدہ دونوں کو جمع فرمایا۔ ان کی مراد آپ کے اس ارشاد سے تھی جو آپ ﷺ نے اس وقت فرمایا تھا جب وہ جنگ کر رہے تھے کہ میرے ماں باپ تم پر فدا ہوں۔
باب: جب تم میں سے دو جماعتیں ایسا ارادہ کر بیٹھتی تھیں کہ ہمت ہار دیں حالانکہ اللہ دونوں کا مددگار تھا اور ایمانداروں کو تو اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے مسعر نے بیان کیا، ان سے سعد نے، ان سے ابن شداد نے بیان کیا، انہوں نے علی (رض) سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ سعد (رض) کے سوا میں نے نبی کریم ﷺ سے نہیں سنا کہ آپ اس کے لیے دعا میں ماں باپ دونوں کو بایں طور جمع کر رہے ہوں۔
باب: جب تم میں سے دو جماعتیں ایسا ارادہ کر بیٹھتی تھیں کہ ہمت ہار دیں حالانکہ اللہ دونوں کا مددگار تھا اور ایمانداروں کو تو اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔
ہم سے بسرہ بن صفوان نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے، ان سے عبداللہ بن شداد نے اور ان سے علی (رض) نے بیان کیا کہ سعد بن مالک کے سوا میں نے اور کسی کے لیے نبی کریم ﷺ کو اپنے والدین کا ایک ساتھ ذکر کرتے نہیں سنا، میں نے خود سنا کہ احد کے دن آپ ﷺ فرما رہے تھے کہ سعد ! خوب تیر برساؤ۔ میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں۔
باب: جب تم میں سے دو جماعتیں ایسا ارادہ کر بیٹھتی تھیں کہ ہمت ہار دیں حالانکہ اللہ دونوں کا مددگار تھا اور ایمانداروں کو تو اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، ان سے معتمر نے، ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ ابوعثمان بیان کرتے تھے کہ ان غزوات میں سے جن میں نبی کریم ﷺ نے کفار سے قتال کیا۔ بعض غزوہ (احد) میں ایک موقع پر آپ ﷺ کے ساتھ طلحہ اور سعد کے سوا اور کوئی باقی نہیں رہ گیا تھا۔ ابوعثمان نے یہ بات طلحہ اور سعد (رض) سے روایت کی تھی۔
باب: جب تم میں سے دو جماعتیں ایسا ارادہ کر بیٹھتی تھیں کہ ہمت ہار دیں حالانکہ اللہ دونوں کا مددگار تھا اور ایمانداروں کو تو اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔
ہم سے عبداللہ بن ابی الاسود نے بیان کیا، کہا ہم سے حاتم بن اسماعیل نے بیان کیا، ان سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، ان سے سائب بن یزید نے کہ میں، عبدالرحمٰن بن عوف، طلحہ بن عبیداللہ، مقداد بن اسود اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم کی صحبت میں رہا ہوں لیکن میں نے ان حضرات میں سے کسی کو نبی کریم ﷺ سے کوئی حدیث بیان کرتے نہیں سنا۔ صرف طلحہ (رض) سے غزوہ احد کے متعلق حدیث سنی تھی۔
باب: جب تم میں سے دو جماعتیں ایسا ارادہ کر بیٹھتی تھیں کہ ہمت ہار دیں حالانکہ اللہ دونوں کا مددگار تھا اور ایمانداروں کو تو اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔
ہم سے عبداللہ بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے وکیع نے بیان کیا، ان سے اسماعیل نے، ان سے قیس نے بیان کیا کہ میں نے طلحہ (رض) کا وہ ہاتھ دیکھا جو شل ہوچکا تھا۔ اس ہاتھ سے انہوں نے غزوہ احد کے دن نبی کریم ﷺ کی حفاظت کی تھی۔
باب: جب تم میں سے دو جماعتیں ایسا ارادہ کر بیٹھتی تھیں کہ ہمت ہار دیں حالانکہ اللہ دونوں کا مددگار تھا اور ایمانداروں کو تو اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔
ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، ان سے عبدالعزیز نے بیان کیا اور ان سے انس (رض) نے بیان کیا کہ غزوہ احد میں جب مسلمان نبی کریم ﷺ کے پاس سے منتشر ہو کر پسپا ہوگئے تو طلحہ (رض) نبی کریم ﷺ کی اپنے چمڑے کی ڈھال سے حفاظت کر رہے تھے۔ ابوطلحہ (رض) بڑے تیرانداز تھے اور کمان خوب کھینچ کر تیر چلایا کرتے تھے۔ اس دن انہوں نے دو یا تین کمانیں توڑ دی تھیں۔ مسلمانوں میں سے کوئی اگر تیر کا ترکش لیے گزرتا تو نبی کریم ﷺ ان سے فرماتے یہ تیر ابوطلحہ کے لیے یہیں رکھتے جاؤ۔ انس (رض) نے بیان کیا کہ آپ ﷺ مشرکین کو دیکھنے کے لیے سر اٹھا کر جھانکتے تو ابوطلحہ (رض) عرض کرتے : میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، سر مبارک اوپر نہ اٹھایئے کہیں ایسا نہ ہو کہ ادھر سے کوئی تیر آپ کو لگ جائے۔ میری گردن آپ سے پہلے ہے اور میں نے دیکھا کہ جنگ میں عائشہ بنت ابی بکر (رض) اور (انس (رض) کی والدہ) ام سلیم (رض) اپنے کپڑے اٹھائے ہوئے ہیں کہ ان کی پنڈلیاں نظر آرہی تھیں اور مشکیزے اپنی پیٹھوں پر لیے دوڑ رہی ہیں اور اس کا پانی زخمی مسلمانوں کو پلا رہی ہیں پھر (جب اس کا پانی ختم ہوجاتا ہے) تو واپس آتی ہیں اور مشک بھر کر پھر لے جاتی ہیں اور مسلمانوں کو پلاتی ہیں۔ اس دن ابوطلحہ (رض) کے ہاتھ سے دو یا تین مرتبہ تلوار گرگئی تھی۔
باب: جب تم میں سے دو جماعتیں ایسا ارادہ کر بیٹھتی تھیں کہ ہمت ہار دیں حالانکہ اللہ دونوں کا مددگار تھا اور ایمانداروں کو تو اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔
مجھ سے عبداللہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد عروہ نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ شروع جنگ احد میں پہلے مشرکین شکست کھا گئے تھے لیکن ابلیس، اللہ کی اس پر لعنت ہو، دھوکا دینے کے لیے پکارنے لگا۔ اے عباد اللہ ! (مسلمانو ! ) اپنے پیچھے والوں سے خبردار ہوجاؤ۔ اس پر آگے جو مسلمان تھے وہ لوٹ پڑے اور اپنے پیچھے والوں سے بھڑ گئے۔ حذیفہ بن یمان (رض) نے جو دیکھا تو ان کے والد یمان (رض) انہیں میں ہیں (جنہیں مسلمان اپنا دشمن مشرک سمجھ کر مار رہے تھے) ۔ وہ کہنے لگے مسلمانو ! یہ تو میرے والد ہیں، میرے والد۔ عروہ نے کہا، عائشہ (رض) نے کہا، پس اللہ کی قسم انہوں نے ان کو اس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک قتل نہ کرلیا۔ حذیفہ (رض) نے صرف اتنا کہا کہ اللہ مسلمانوں کی غلطی معاف کرے۔ عروہ نے بیان کیا کہ اس کے بعد حذیفہ (رض) برابر مغفرت کی دعا کرتے رہے یہاں تک کہ وہ اللہ سے جا ملے۔ بصرت یعنی میں دل کی آنکھوں سے کام کو سمجھتا ہوں اور أبصرت آنکھوں سے دیکھنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ بصرت اور أبصرت کے ایک ہی معنی ہیں۔ بصرت دل کی آنکھوں سے دیکھنا اور أبصرت ظاہر کی آنکھوں سے دیکھنا مراد ہے۔
باب: اللہ تعالیٰ کا فرمان ”بیشک تم میں سے جو لوگ اس دن واپس لوٹ گئے جس دن کہ دونوں جماعتیں آپس میں مقابل ہوئی تھیں تو یہ تو بس اس سبب سے ہوا کہ شیطان نے انہیں ان کے بعض کاموں کی وجہ سے بہکا دیا تھا اور بیشک اللہ انہیں معاف کر چکا ہے، یقیناً اللہ بڑا مغفرت والا، بڑا حلم والا ہے“۔
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہم کو ابوحمزہ نے خبر دی، ان سے عثمان بن موہب نے بیان کیا کہ ایک صاحب بیت اللہ کے حج کے لیے آئے تھے۔ دیکھا کہ کچھ لوگ بیٹھے ہوئے ہیں۔ پوچھا کہ یہ بیٹھے ہوئے کون لوگ ہیں ؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ قریش ہیں۔ پوچھا کہ ان میں شیخ کون ہیں ؟ بتایا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما۔ وہ صاحب ابن عمر (رض) کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ میں آپ سے ایک بات پوچھتا ہوں۔ آپ مجھ سے واقعات (صحیح) بیان کر دیجئیے۔ اس گھر کی حرمت کی قسم دے کر میں آپ سے پوچھتا ہوں۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ عثمان (رض) نے غزوہ احد کے موقع پر راہ فرار اختیار کی تھی ؟ انہوں نے کہا کہ ہاں صحیح ہے۔ انہوں نے پوچھا آپ کو یہ بھی معلوم ہے عثمان (رض) بدر کی لڑائی میں شریک نہیں تھے ؟ کہا کہ ہاں یہ بھی ہوا تھا۔ انہوں نے پوچھا اور آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ وہ بیعت رضوان (صلح حدیبیہ) میں بھی پیچھے رہ گئے تھے اور حاضر نہ ہو سکے تھے ؟ انہوں نے کہا کہ ہاں یہ بھی صحیح ہے۔ اس پر ان صاحب نے (مارے خوشی کے) اللہ اکبر کہا لیکن ابن عمر (رض) نے کہا۔ یہاں آؤ میں تمہیں بتاؤں گا اور جو سوالات تم نے کئے ہیں ان کی میں تمہارے سامنے تفصیل بیان کر دوں گا۔ احد کی لڑائی میں فرار سے متعلق جو تم نے کہا تو میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی غلطی معاف کردی ہے۔ بدر کی لڑائی میں ان کے نہ ہونے کے متعلق جو تم نے کہا تو اس کی وجہ یہ تھی۔ کہ ان کے نکاح میں رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی (رقیہ رضی اللہ عنہا) تھیں اور وہ بیمار تھیں۔ آپ نے فرمایا تھا کہ تمہیں اس شخص کے برابر ثواب ملے گا جو بدر کی لڑائی میں شریک ہوگا اور اسی کے برابر مال غنیمت سے حصہ بھی ملے گا۔ بیعت رضوان میں ان کی عدم شرکت کا جہاں تک سوال ہے تو وادی مکہ میں عثمان بن عفان (رض) سے زیادہ کوئی شخص ہر دل عزیز ہوتا تو نبی کریم ﷺ ان کے بجائے اسی کو بھیجتے۔ اس لیے عثمان (رض) کو وہاں بھیجنا پڑا اور بیعت رضوان اس وقت ہوئی جب وہ مکہ میں تھے۔ (بیعت لیتے ہوئے) نبی کریم ﷺ نے اپنے دائیں ہاتھ کو اٹھا کر فرمایا کہ یہ عثمان کا ہاتھ ہے اور اسے اپنے (بائیں) ہاتھ پر مار کر فرمایا کہ یہ بیعت عثمان کی طرف سے ہے۔ اب جاسکتے ہو۔ البتہ میری باتوں کو یاد رکھنا۔
باب: (اللہ تعالیٰ کا فرمان) ”وہ وقت یاد کرو جب تم چڑھے جا رہے تھے اور پیچھے مڑ کر بھی کسی کو نہ دیکھتے تھے اور رسول تم کو پکار رہے تھے، تمہارے پیچھے سے، سو اللہ نے تمہیں غم دیا، غم کی پاداش میں، تاکہ تم رنجیدہ نہ ہو اس چیز پر جو تمہارے ہاتھ سے نکل گئی اور نہ اس مصیبت سے جو تم پر آ پڑی اور اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں سے خبردار ہے“۔
مجھ سے عمرو بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے زہیر نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسحاق نے بیان کیا، کہا کہ میں نے براء بن عازب (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ غزوہ احد کے موقع پر رسول اللہ ﷺ نے (تیر اندازوں کے) پیدل دستہ کا امیر عبداللہ بن جبیر (رض) کو بنایا تھا لیکن وہ لوگ شکست خوردہ ہو کر آئے۔ (آیت يدعوهم الرسول في أخراهم. ان ہی کے بارے میں نازل ہوئی تھی) اور یہ ہزیمت اس وقت پیش آئی جبکہ رسول اللہ ﷺ ان کو پیچھے سے پکار رہے تھے۔
باب: (اللہ تعالیٰ کا فرمان) ”پھر اس نے اس غم کے بعد تمہارے اوپر راحت یعنی غنودگی نازل کی کہ اس کا تم میں سے ایک جماعت پر غلبہ ہو رہا تھا اور ایک جماعت وہ تھی کہ اسے اپنی جانوں کی پڑی ہوئی تھی، یہ اللہ کے بارے میں خلاف حق اور جاہلیت کے خیالات قائم کر رہے تھے اور یہ کہہ رہے تھے کہ کیا ہم کو بھی کچھ اختیار ہے؟ آپ کہہ دیجئیے کہ اختیار تو سب اللہ کا ہے، یہ لوگ دلوں میں ایسی بات چھپائے ہوئے ہیں جو آپ پر ظاہر نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ کچھ بھی ہمارا اختیار چلتا تو ہم یہاں نہ مارے جاتے، آپ کہہ دیجئیے کہ اگر تم گھروں میں ہوتے تب بھی وہ لوگ جن کے لیے قتل مقدر ہو چکا تھا، اپنی قتل گاہوں کی طرف نکل ہی پڑتے اور یہ سب اس لیے ہوا کہ اللہ تمہارے دلوں کی آزمائش کرے اور تاکہ جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اسے صاف کرے اور اللہ تعالیٰ دل کی باتوں کو خوب جانتا ہے“۔
اور مجھ سے خلیفہ نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، ان سے سعید نے بیان کیا، انہوں نے قتادہ سے سنا اور ان سے انس (رض) نے اور ان سے ابوطلحہ (رض) نے بیان کیا کہ میں ان لوگوں میں تھا جنہیں غزوہ احد کے موقع پر اونگھ نے آگھیرا تھا اور اسی حالت میں میری تلوار کئی مرتبہ (ہاتھ سے چھوٹ کر بےاختیار) گر پڑی تھی۔ میں اسے اٹھا لیتا، پھر گرجاتی اور میں اسے پھر اٹھا لیتا۔
باب: (اللہ تعالیٰ کا فرمان) ”آپ کو اس امر میں کوئی اختیار نہیں، اللہ خواہ ان کی توبہ قبول کرے یا انہیں عذاب کرے پس بیشک وہ ظالم ہیں“۔
حمید اور ثابت بنانی نے انس (رض) سے بیان کیا کہ غزوہ احد کے موقع پر نبی کریم ﷺ کے سر مبارک میں زخم آگئے تھے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ قوم کیسے فلاح پائے گی جس نے اپنے نبی کو زخمی کردیا۔ اس پر (آیت) ليس لک من الأمر شىء نازل ہوئی۔
None
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صفوان بن امیہ، سہیل بن عمرو اور حارث بن ہشام کے لیے بددعا کرتے تھے اس پر یہ آیت «ليس لك من الأمر شىء» سے «فإنهم ظالمون» تک نازل ہوئی۔
باب: ام سلیط رضی اللہ عنہا کا تذکرہ۔
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے یونس نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا کہ ثعلبہ بن ابی مالک نے بیان کیا کہ عمر بن خطاب (رض) نے مدینہ کی خواتین میں چادریں تقسیم کروائیں۔ ایک عمدہ قسم کی چادر باقی بچ گئی تو ایک صاحب نے جو وہیں موجود تھے، عرض کیا : یا امیرالمؤمنین ! یہ چادر رسول اللہ ﷺ کی نواسی کو دے دیجئیے جو آپ کے نکاح میں ہیں۔ ان کا اشارہ ام کلثوم بنت علی (رض) کی طرف تھا۔ لیکن عمر (رض) بولے کہ ام سلیط (رض) ان سے زیادہ مستحق ہیں۔ ام سلیط (رض) کا تعلق قبیلہ انصار سے تھا اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے بیعت کی تھی۔ عمر (رض) نے کہا کہ غزوہ احد میں وہ ہمارے لیے پانی کی مشک بھربھر کر لاتی تھیں۔
باب: حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کی شہادت کا بیان۔
مجھ سے ابو جعفر محمد بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے حجین بن مثنی نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ بن ابی سلمہ نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن فضل نے، ان سے سلیمان بن یسار نے، ان سے جعفر بن عمرو بن امیہ ضمری (رض) نے بیان کیا کہ میں عبیداللہ بن عدی بن خیار (رض) کے ساتھ روانہ ہوا۔ جب حمص پہنچے تو مجھ سے عبیداللہ (رض) نے کہا، آپ کو وحشی (ابن حرب حبشی جس نے غزوہ احد میں حمزہ (رض) کو قتل کیا اور ہندہ زوجہ ابوسفیان نے ان کی لاش کا مثلہ کیا تھا) سے تعارف ہے۔ ہم چل کے ان سے حمزہ (رض) کی شہادت کے بارے میں معلوم کرتے ہیں۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے ضرور چلو۔ وحشی حمص میں موجود تھے۔ چناچہ ہم نے لوگوں سے ان کے بارے میں معلوم کیا تو ہمیں بتایا گیا کہ وہ اپنے مکان کے سائے میں بیٹھے ہوئے ہیں، جیسے کوئی بڑا سا کپا ہو۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر ہم ان کے پاس آئے اور تھوڑی دیر ان کے پاس کھڑے رہے۔ پھر سلام کیا تو انہوں نے سلام کا جواب دیا۔ بیان کیا کہ عبیداللہ نے اپنے عمامہ کو جسم پر اس طرح لپیٹ رکھا تھا کہ وحشی صرف ان کی آنکھیں اور پاؤں دیکھ سکتے تھے۔ عبیداللہ نے پوچھا : اے وحشی ! کیا تم نے مجھے پہچانا ؟ راوی نے بیان کیا کہ پھر اس نے عبیداللہ کو دیکھا اور کہا کہ نہیں، اللہ کی قسم ! البتہ میں اتنا جانتا ہوں کہ عدی بن خیار نے ایک عورت سے نکاح کیا تھا۔ اسے ام قتال بنت ابی العیص کہا جاتا تھا پھر مکہ میں اس کے یہاں ایک بچہ پیدا ہوا اور میں اس کے لیے کسی دایا کی تلاش کے لیے گیا تھا۔ پھر میں اس بچے کو اس کی (رضاعی) ماں کے پاس لے گیا اور اس کی والدہ بھی ساتھ تھی۔ غالباً میں نے تمہارے پاؤں دیکھے تھے۔ بیان کیا کہ اس پر عبیداللہ بن عدی (رض) نے اپنے چہرے سے کپڑا ہٹا لیا اور کہا، ہمیں تم حمزہ (رض) کی شہادت کے واقعات بتاسکتے ہو ؟ انہوں نے کہا کہ ہاں، بات یہ ہوئی کہ بدر کی لڑائی میں حمزہ (رض) نے طعیمہ بن عدی بن خیار کو قتل کیا تھا۔ میرے آقا جبیر بن مطعم نے مجھ سے کہا کہ اگر تم نے حمزہ (رض) کو میرے چچا (طعیمہ) کے بدلے میں قتل کردیا تو تم آزاد ہوجاؤ گے۔ انہوں نے بتایا کہ پھر جب قریش عینین کی جنگ کے لیے نکلے۔ عینین احد کی ایک پہاڑی ہے اور اس کے اور احد کے درمیان ایک وادی حائل ہے۔ تو میں بھی ان کے ساتھ جنگ کے ارادہ سے ہو لیا۔ جب (دونوں فوجیں آمنے سامنے) لڑنے کے لیے صف آراء ہوگئیں تو (قریش کی صف میں سے) سباع بن عبدالعزیٰ نکلا اور اس نے آواز دی، ہے کوئی لڑنے والا ؟ بیان کیا کہ (اس کی اس دعوت مبازرت پر) امیر حمزہ بن عبدالمطلب (رض) نکل کر آئے اور فرمایا، اے سباع ! اے ام انمار کے بیٹے ! جو عورتوں کے ختنے کیا کرتی تھی، تو اللہ اور اس کے رسول سے لڑنے آیا ہے ؟ بیان کیا کہ پھر حمزہ (رض) نے اس پر حملہ کیا (اور اسے قتل کردیا) اب وہ واقعہ گزرے ہوئے دن کی طرح ہوچکا تھا۔ وحشی نے بیان کیا کہ ادھر میں ایک چٹان کے نیچے حمزہ (رض) کی تاک میں تھا اور جوں ہی وہ مجھ سے قریب ہوئے، میں نے ان پر اپنا چھوٹا نیزہ پھینک کر مارا، نیزہ ان کی ناف کے نیچے جا کر لگا اور ان کی سرین کے پار ہوگیا۔ بیان کیا کہ یہی ان کی شہادت کا سبب بنا، پھر جب قریش واپس ہوئے تو میں بھی ان کے ساتھ واپس آگیا اور مکہ میں مقیم رہا۔ لیکن جب مکہ بھی اسلامی سلطنت کے تحت آگیا تو میں طائف چلا گیا۔ طائف والوں نے بھی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک قاصد بھیجا تو مجھ سے وہاں کے لوگوں نے کہا کہ انبیاء کسی پر زیادتی نہیں کرتے (اس لیے تم مسلمان ہوجاؤ۔ اسلام قبول کرنے کے بعد تمہاری پچھلی تمام غلطیاں معاف ہوجائیں گی) چناچہ میں بھی ان کے ساتھ روانہ ہوا۔ جب نبی کریم ﷺ کی خدمت میں پہنچا اور آپ نے مجھے دیکھا تو دریافت فرمایا، کیا تمہارا ہی نام وحشی ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ جی ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تم ہی نے حمزہ کو قتل کیا تھا ؟ میں نے عرض کیا، جو نبی کریم ﷺ کو اس معاملے میں معلوم ہے وہی صحیح ہے۔ آپ ﷺ نے اس پر فرمایا : کیا تم ایسا کرسکتے ہو کہ اپنی صورت مجھے کبھی نہ دکھاؤ ؟ انہوں نے بیان کیا کہ پھر میں وہاں سے نکل گیا۔ پھر آپ ﷺ کی جب وفات ہوئی تو مسیلمہ کذاب نے خروج کیا۔ اب میں نے سوچا کہ مجھے مسیلمہ کذاب کے خلاف جنگ میں ضرور شرکت کرنی چاہیے۔ ممکن ہے میں اسے قتل کر دوں اور اس طرح حمزہ (رض) کے قتل کا بدل ہو سکے۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر میں بھی اس کے خلاف جنگ کے لیے مسلمانوں کے ساتھ نکلا۔ اس سے جنگ کے واقعات سب کو معلوم ہیں۔ بیان کیا کہ (میدان جنگ میں ) میں نے دیکھا کہ ایک شخص (مسیلمہ) ایک دیوار کی دراز سے لگا کھڑا ہے۔ جیسے گندمی رنگ کا کوئی اونٹ ہو۔ سر کے بال منتشر تھے۔ بیان کیا کہ میں نے اس پر بھی اپنا چھوٹا نیزہ پھینک کر مارا۔ نیزہ اس کے سینے پر لگا اور شانوں کو پار کر گیا۔ بیان کیا کہ اتنے میں ایک صحابی انصاری جھپٹے اور تلوار سے اس کی کھوپڑی پر مارا۔ انہوں (عبدالعزیز بن عبداللہ) نے کہا، ان سے عبداللہ بن فضل نے بیان کیا کہ پھر مجھے سلیمان بن یسار نے خبر دی اور انہوں نے عبداللہ بن عمر (رض) سے سنا، وہ بیان کر رہے تھے کہ (مسیلمہ کے قتل کے بعد) ایک لڑکی نے چھت پر کھڑی ہو کر اعلان کیا کہ امیرالمؤمنین کو ایک کالے غلام (یعنی وحشی) نے قتل کردیا۔
باب: غزوہ احد کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو زخم پہنچے تھے ان کا بیان۔
ہم سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، ان سے معمر نے، ان سے ہمام نے اور انہوں نے ابوہریرہ (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کا غضب اس قوم پر انتہائی سخت ہوا جس نے اس کے نبی کے ساتھ یہ کیا۔ آپ ﷺ کا اشارہ آگے کے دندان مبارک (کے ٹوٹ جانے) کی طرف تھا۔ اللہ تعالیٰ کا غضب اس شخص (ابی بن خلف) پر انتہائی سخت ہوا۔ جسے اس کے نبی نے اللہ کے راستے میں قتل کیا۔
باب: غزوہ احد کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو زخم پہنچے تھے ان کا بیان۔
مجھ سے مخلد بن مالک نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید اموی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن جریج نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے عبداللہ بن عباس (رض) نے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ کا اس شخص پر انتہائی غضب نازل ہوا جسے اللہ کے نبی نے قتل کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کا انتہائی غضب اس قوم پر نازل ہوا جنہوں نے اللہ کے نبی کے چہرہ مبارک کو (غزوہ احد کے موقع پر) خون آلود کردیا تھا۔
یوم احد میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسم کے زخمی ہونے کا بیان
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے یعقوب نے بیان کیا، ان سے ابوحازم نے اور انہوں نے سہل بن سعد (رض) سے سنا، ان سے نبی کریم ﷺ کے (غزوہ احد کے موقع پر ہونے والے) زخموں کے متعلق پوچھا گیا، تو انہوں نے بیان کیا کہ اللہ کی قسم ! مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زخموں کو کس نے دھویا تھا اور کون ان پر پانی ڈال رہا تھا اور جس دوا سے آپ کا علاج کیا گیا۔ انہوں نے بیان کیا کہ فاطمہ (رض) رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی خون کو دھو رہی تھیں۔ علی (رض) ڈھال سے پانی ڈال رہے تھے۔ جب فاطمہ (رض) نے دیکھا کہ پانی ڈالنے سے خون اور زیادہ نکلا آ رہا ہے تو انہوں نے چٹائی کا ایک ٹکڑا لے کر جلایا اور پھر اسے زخم پر چپکا دیا جس سے خون کا آنا بند ہوگیا۔ اسی دن نبی کریم ﷺ کے آگے کے دندان مبارک شہید ہوئے تھے۔ آپ ﷺ کا چہرہ مبارک بھی زخمی ہوگیا تھا اور خود سر مبارک پر ٹوٹ گئی تھی۔
یوم احد میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسم کے زخمی ہونے کا بیان
مجھ سے عمرو بن علی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن جریج نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے، ان سے عکرمہ نے اور ان سے عبداللہ بن عباس (رض) نے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ کا انتہائی غضب اس شخص پر نازل ہوا جسے اللہ کے نبی نے قتل کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کا انتہائی غضب اس شخص پر نازل ہوا جس نے (یعنی عبداللہ بن قمیہ نے لعنتہ اللہ علیہ) رسول اللہ ﷺ کے چہرہ مبارک کو خون آلود کیا تھا۔
باب: (اللہ تعالیٰ کا فرمان) ”وہ لوگ جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی آواز کو عملاً قبول کیا“ (یعنی ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعمیل کے لیے فوراً تیار ہو گئے)۔
ہم سے محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابومعاویہ نے بیان کیا، ان سے ہشام نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے کہ (آیت) الذين استجابوا لله والرسول من بعد ما أصابهم القرح للذين أحسنوا منهم واتقوا أجر عظيم وہ لوگ جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی آواز پر لبیک کہا۔ انہوں نے عروہ سے اس آیت کے متعلق کہا، میرے بھانجے ! تمہارے والد زبیر (رض) اور (نانا) ابوبکر (رض) بھی انہیں میں سے تھے۔ احد کی لڑائی میں رسول اللہ ﷺ کو جو کچھ تکلیف پہنچنی تھی جب وہ پہنچی اور مشرکین واپس جانے لگے تو نبی کریم ﷺ کو اس کا خطرہ ہوا کہ کہیں وہ پھر لوٹ کر حملہ نہ کریں۔ اس لیے آپ ﷺ نے فرمایا کہ ان کا پیچھا کرنے کون کون جائیں گے۔ اسی وقت ستر صحابہ رضی اللہ عنہم تیار ہوگئے۔ راوی نے بیان کیا کہ ابوبکر (رض) اور زبیر (رض) بھی انہیں میں سے تھے۔
باب: جن مسلمانوں نے غزوہ احد میں شہادت پائی ان کا بیان۔
ہم سے عمرو بن علی نے بیان کیا، کہا ہم سے معاذ بن ہشام نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے بیان کیا کہ عرب کے تمام قبائل میں کوئی قبیلہ انصار کے مقابلے میں اس عزت کو حاصل نہیں کرسکا کہ اس کے سب سے زیادہ آدمی شہید ہوئے اور وہ قبیلہ قیامت کے دن سب سے زیادہ عزت کے ساتھ اٹھے گا۔ انس بن مالک (رض) نے ہم سے بیان کیا کہ غزوہ احد میں قبیلہ انصار کے ستر آدمی شہید ہوئے اور بئرمعونہ کے حادثہ میں اس کے ستر آدمی شہید ہوئے اور یمامہ کی لڑائی میں اس کے ستر آدمی شہید ہوئے۔ راوی نے بیان کیا کہ بئرمعونہ کا واقعہ رسول اللہ ﷺ کے وقت میں پیش آیا تھا اور یمامہ کی جنگ ابوبکر (رض) کے عہد خلافت میں ہوئی تھی جو مسیلمہ کذاب سے ہوئی تھی۔
باب: جن مسلمانوں نے غزوہ احد میں شہادت پائی ان کا بیان۔
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عبدالرحمٰن بن کعب بن مالک نے اور انہیں جابر بن عبداللہ (رض) نے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ نے احد کے شہداء کو ایک ہی کپڑے میں دو دو کو کفن دیا اور آپ ﷺ دریافت فرماتے کہ ان میں قرآن کا عالم سب سے زیادہ کون ہے ؟ جب کسی ایک کی طرف اشارہ کر کے آپ کو بتایا جاتا تو لحد میں آپ ﷺ انہی کو آگے فرماتے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن میں ان سب پر گواہ رہوں گا۔ پھر آپ نے تمام شہداء کو خون سمیت دفن کرنے کا حکم فرما دیا اور ان کی نماز جنازہ نہیں پڑھی اور نہ انہیں غسل دیا گیا۔ اور ابوالولید نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، ان سے ابن المنکدر نے، انہوں نے جابر (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میرے والد عبداللہ (رض) شہید کردیئے گئے تو میں رونے لگا اور باربار ان کے چہرے سے کپڑا ہٹاتا۔ صحابہ مجھے روکتے تھے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں روکا۔ (فاطمہ بنت عمر (رض) عبداللہ کی بہن بھی رونے لگیں) آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ روؤ مت۔ (آپ ﷺ نے لا تبكيه فرمایا، یا ما تبكيه۔ راوی کو شک ہوگیا) فرشتے برابر ان کی لاش پر اپنے پروں کا سایہ کئے ہوئے تھے۔ یہاں تک کہ ان کو اٹھا لیا گیا۔
باب: جن مسلمانوں نے غزوہ احد میں شہادت پائی ان کا بیان۔
ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے یزید بن عبداللہ بن ابی بردہ نے، ان سے ان کے دادا ابوبردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا میں نے خواب میں دیکھا کہ میں نے تلوار کو ہلایا اور اس سے اس کی دھار ٹوٹ گئی۔ اس کی تعبیر مسلمانوں کے اس نقصان کی شکل میں ظاہر ہوئی جو غزوہ احد میں انہیں اٹھانا پڑا تھا۔ پھر میں نے دوبارہ اس تلوار کو ہلایا، تو پھر وہ اس سے بھی زیادہ عمدہ ہوگئی جیسی پہلے تھی۔ اس کی تعبیر اللہ تعالیٰ نے فتح اور مسلمانوں کے پھر از سر نو اجتماع کی صورت میں ظاہر کی۔ میں نے اسی خواب میں ایک گائے دیکھی تھی (جو ذبح ہو رہی تھی) اور اللہ تعالیٰ کے تمام کام خیر و برکت لیے ہوتے ہیں۔ اس کی تعبیر وہ مسلمان تھے (جو) احد کی لڑائی میں (شہید ہوئے) ۔
باب: جن مسلمانوں نے غزوہ احد میں شہادت پائی ان کا بیان۔
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا ہم سے زہیر نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے شقیق نے اور ان سے خباب (رض) نے بیان کیا کہ ہم نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ ہجرت کی اور ہمارا مقصد اس سے صرف اللہ تعالیٰ کی رضا مندی حاصل کرنا تھا۔ ضروری تھا کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر ثواب دیتا۔ ہم میں سے بعض لوگ تو وہ تھے جو اللہ سے جا ملے اور (دنیا میں) انہوں نے اپنا کوئی ثواب نہیں دیکھا۔ مصعب بن عمیر (رض) بھی انہیں میں سے تھے۔ غزوہ احد میں انہوں نے شہادت پائی اور ایک چادر کے سوا اور کوئی چیز انہوں نے نہیں چھوڑی۔ اس چادر سے (کفن دیتے وقت) جب ہم ان کا سر چھپاتے تو پاؤں کھل جاتے اور پاؤں چھپاتے تو سر کھل جاتا تھا۔ آپ ﷺ نے ہم سے فرمایا غطوا بها رأسه، واجعلوا على رجليه الإذخر چادر سے سر چھپا دو اور پاؤں پر اذخر گھاس رکھ دو ۔ یا آپ ﷺ نے یوں فرمایا ألقوا على رجليه من الإذخر یعنی ان کے پیروں پر اذخر گھاس ڈال دو ۔ (دونوں جملوں کا مطلب ایک ہی ہے) اور ہم میں بعض وہ ہیں جنہیں ان کے اس عمل کا پھل (اسی دنیا میں) دے دیا گیا اور وہ اس سے خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
باب: ارشاد نبوی کہ احد پہاڑ ہم سے محبت رکھتا ہے۔
ہم سے نصر بن علی نے بیان کیا، کہا کہ مجھے میرے والد نے خبر دی، انہیں قرہ بن خالد نے، انہیں قتادہ نے اور انہوں نے انس (رض) سے سنا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا احد پہاڑ ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہم اس سے محبت رکھتے ہیں۔
باب: ارشاد نبوی کہ احد پہاڑ ہم سے محبت رکھتا ہے۔
ہم سے عبداللہ بن یوسف تینسی نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں مطلب کے غلام عمرو بن ابی عمرو نے اور انہیں انس بن مالک (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ کو (خیبر سے واپس ہوتے ہوئے) احد پہاڑ دکھائی دیا تو آپ ﷺ نے فرمایا یہ پہاڑ ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہم اس سے محبت رکھتے ہیں۔ اے اللہ ! ابراہیم (علیہ السلام) نے مکہ کو حرمت والا شہر قرار دیا تھا اور میں ان دو پتھریلے میدانوں کے درمیان والے علاقے (مدینہ منورہ) کو حرمت والا شہر قرار دیتا ہوں۔
باب: ارشاد نبوی کہ احد پہاڑ ہم سے محبت رکھتا ہے۔
مجھ سے عمرو بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے یزید بن ابی حبیب نے، ان سے ابوالخیر نے اور ان سے عقبہ بن عامر (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ ایک دن باہر تشریف لائے اور شہداء احد پر نماز جنازہ ادا کی، جیسے مردوں پر ادا کی جاتی ہے۔ پھر آپ ﷺ منبر پر تشریف لائے اور فرمایا کہ میں تمہارے آگے جاؤں گا، میں تمہارے حق میں گواہ رہوں گا۔ میں اب بھی اپنے حوض (حوض کوثر) کو دیکھ رہا ہوں۔ مجھے دنیا کے خزانوں کی کنجی عطا فرمائی گئی ہے یا (آپ حوض کوثر نے یوں فرمایا) مفاتيح الأرض یعنی زمین کی کنجیاں دی گئی ہیں۔ (دونوں جملوں کا مطلب ایک ہی ہے) ۔ اللہ کی قسم ! میں تمہارے بارے میں اس سے نہیں ڈرتا کہ تم میرے بعد شرک کرنے لگو گے بلکہ مجھے اس کا ڈر ہے کہ تم دنیا کے لیے حرص کرنے لگو گے۔
باب: غزوہ رجیع کا بیان اور رعل و ذکوان اور بئرمعونہ کے غزوہ کا بیان۔
مجھ سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو ہشام بن یوسف نے خبر دی، انہیں معمر بن راشد نے، انہیں زہری نے، انہیں عمرو بن ابی سفیان ثقفی نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے جاسوسی کے لیے ایک جماعت (مکہ، قریش کی خبر لانے کے لیے) بھیجی اور اس کا امیر عاصم بن ثابت (رض) کو بنایا، جو عاصم بن عمر بن خطاب کے نانا ہیں۔ یہ جماعت روانہ ہوئی اور جب عسفان اور مکہ کے درمیان پہنچی تو قبیلہ ہذیل کے ایک قبیلے کو جسے بنو لحیان کہا جاتا تھا، ان کا علم ہوگیا اور قبیلہ کے تقریباً سو تیر اندازوں نے ان کا پیچھا کیا اور ان کے نشانات قدم کو تلاش کرتے ہوئے چلے۔ آخر ایک ایسی جگہ پہنچنے میں کامیاب ہوگئے جہاں صحابہ کی اس جماعت نے پڑاؤ کیا تھا۔ وہاں ان کھجوروں کی گٹھلیاں ملیں جو صحابہ مدینہ سے لائے تھے۔ قبیلہ والوں نے کہا کہ یہ تو یثرب کی کھجور (کی گھٹلی) ہے اب انہوں نے پھر تلاش شروع کی اور صحابہ کو پا لیا۔ عاصم (رض) اور ان کے ساتھیوں نے جب یہ صورت حال دیکھی تو صحابہ کی اس جماعت نے ایک ٹیلے پر چڑھ کر پناہ لی۔ قبیلہ والوں نے وہاں پہنچ کر ٹیلہ کو اپنے گھیرے میں لے لیا اور صحابہ سے کہا کہ ہم تمہیں یقین دلاتے ہیں اور عہد کرتے ہیں کہ اگر تم نے ہتھیار ڈال دیئے تو ہم تم میں سے کسی کو بھی قتل نہیں کریں گے۔ اس پر عاصم (رض) بولے کہ میں تو کسی کافر کی حفاظت و امن میں خود کو کسی صورت میں بھی نہیں دے سکتا۔ اے اللہ ! ہمارے ساتھ پیش آنے والے حالات کی خبر اپنے نبی کو پہنچا دے۔ چناچہ ان صحابہ نے ان سے قتال کیا اور عاصم اپنے سات ساتھیوں کے ساتھ ان کے تیروں سے شہید ہوگئے۔ خبیب، زید اور ایک اور صحابی ان کے حملوں سے ابھی محفوظ تھے۔ قبیلہ والوں نے پھر حفاظت و امان کا یقین دلایا۔ یہ حضرات ان کی یقین دہانی پر اتر آئے۔ پھر جب قبیلہ والوں نے انہیں پوری طرح اپنے قبضے میں لے لیا تو ان کی کمان کی تانت اتار کر ان صحابہ کو انہیں سے باندھ دیا۔ تیسرے صحابہ جو خبیب اور زید کے ساتھ تھے، انہوں نے کہا کہ یہ تمہاری پہلی غداری ہے۔ انہوں نے ان کے ساتھ جانے سے انکار کردیا۔ پہلے تو قبیلہ والوں نے انہیں گھسیٹا اور اپنے ساتھ لے جانے کے لیے زور لگاتے رہے لیکن جب وہ کسی طرح تیار نہ ہوئے تو انہیں وہیں قتل کردیا اور خبیب اور زید کو ساتھ لے کر روانہ ہوئے۔ پھر انہیں مکہ میں لا کر بیچ دیا۔ خبیب (رض) کو تو حارث بن عامر بن نوفل کے بیٹوں نے خرید لیا کیونکہ خبیب (رض) نے بدر کی جنگ میں حارث کو قتل کیا تھا۔ وہ ان کے یہاں کچھ دنوں تک قیدی کی حیثیت سے رہے۔ جس وقت ان سب کا خبیب (رض) کے قتل پر اتفاق ہوچکا تو اتفاق سے انہیں دنوں حارث کی ایک لڑکی (زینب) سے انہوں نے موئے زیر ناف صاف کرنے کے لیے استرہ مانگا اور انہوں نے ان کو استرہ بھی دے دیا تھا۔ ان کا بیان تھا کہ میرا لڑکا میری غفلت میں خبیب (رض) کے پاس چلا گیا۔ انہوں نے اسے اپنی ران پر بٹھا لیا۔ میں نے جو اسے اس حالت میں دیکھا تو بہت گھبرائی۔ انہوں نے میری گھبراہٹ کو جان لیا، استرہ ان کے ہاتھ میں تھا۔ انہوں نے مجھ سے کہا، کیا تمہیں اس کا خطرہ ہے کہ میں اس بچے کو قتل کر دوں گا ؟ انشاء اللہ میں ہرگز ایسا نہیں کرسکتا۔ ان کا بیان تھا کہ خبیب (رض) سے بہتر قیدی میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ میں نے انہیں انگور کا خوشہ کھاتے ہوئے دیکھا حالانکہ اس وقت مکہ میں کسی طرح کا پھل موجود نہیں تھا جبکہ وہ زنجیروں میں جکڑے ہوئے بھی تھے، تو وہ اللہ کی بھیجی ہوئی روزی تھی۔ پھر حارث کے بیٹے قتل کرنے کے لیے انہیں لے کر حرم کے حدود سے باہر گئے۔ خبیب (رض) نے ان سے فرمایا کہ مجھے دو رکعت نماز پڑھنے کی اجازت دو (انہوں نے اجازت دے دی اور) ۔ جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو ان سے فرمایا کہ اگر تم یہ خیال نہ کرنے لگتے کہ میں موت سے گھبرا گیا ہوں تو اور زیادہ نماز پڑھتا۔ خبیب (رض) ہی پہلے وہ شخص ہیں جن سے قتل سے پہلے دو رکعت نماز کا طریقہ چلا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے ان کے لیے بددعا کی، اے اللہ ! انہیں ایک ایک کر کے ہلاک کر دے اور یہ اشعار پڑھے جب کہ میں مسلمان ہونے کی حالت میں قتل کیا جا رہا ہوں تو مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ کس پہلو پر اللہ کی راہ میں مجھے قتل کیا جائے گا۔ یہ سب کچھ اللہ کی راہ میں ہے اور اگر وہ چاہے گا تو جسم کے ایک ایک کٹے ہوئے ٹکڑے میں برکت دے گا۔ پھر عقبہ بن حارث نے کھڑے ہو کر انہیں شہید کردیا اور قریش نے عاصم (رض) کی لاش کے لیے آدمی بھیجے تاکہ ان کے جسم کا کوئی بھی حصہ لائیں جس سے انہیں پہچانا جاسکے۔ عاصم (رض) نے قریش کے ایک بہت بڑے، سردار کو بدر کی لڑائی میں قتل کیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے بھڑوں کی ایک فوج کو بادل کی طرح ان کے اوپر بھیجا اور ان بھڑوں نے ان کی لاش کو قریش کے آدمیوں سے محفوظ رکھا اور قریش کے بھیجے ہوئے یہ لوگ (ان کے پاس نہ پھٹک سکے) کچھ نہ کرسکے۔
باب: غزوہ رجیع کا بیان اور رعل و ذکوان اور بئرمعونہ کے غزوہ کا بیان۔
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے، انہوں نے جابر سے سنا کہ خبیب (رض) کو ابوسروعہ (عقبہ بن عامر) نے قتل کیا تھا۔
باب: غزوہ رجیع کا بیان اور رعل و ذکوان اور بئرمعونہ کے غزوہ کا بیان۔
ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوارث بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن صہیب نے بیان کیا، ان سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے ستر صحابہ کی ایک جماعت تبلیغ اسلام کے لیے بھیجی تھی۔ انہیں قاری کہا جاتا تھا۔ راستے میں بنو سلیم کے دو قبیلے رعل اور ذکوان نے ایک کنویں کے قریب ان کے ساتھ مزاحمت کی۔ یہ کنواں بئرمعونہ کے نام سے مشہور تھا۔ صحابہ نے ان سے کہا کہ اللہ کی قسم ! ہم تمہارے خلاف، یہاں لڑنے نہیں آئے بلکہ ہمیں تو رسول اللہ ﷺ کی طرف سے ایک ضرورت پر مامور کیا گیا ہے۔ لیکن کفار کے ان قبیلوں نے تمام صحابہ کو شہید کردیا۔ اس واقعہ کے بعد نبی کریم ﷺ صبح کی نماز میں ان کے لیے ایک مہینہ تک بددعا کرتے رہے۔ اسی دن سے دعا قنوت کی ابتداء ہوئی، ورنہ اس سے پہلے ہم دعا قنوت نہیں پڑھا کرتے تھے اور عبدالعزیز بن صہیب نے بیان کیا کہ ایک صاحب (عاصم احول) نے انس (رض) سے دعا قنوت کے بارے میں پوچھا کہ یہ دعا رکوع کے بعد پڑھی جائے گی یا قرآت قرآن سے فارغ ہونے کے بعد ؟ (رکوع سے پہلے) انس (رض) نے فرمایا کہ نہیں بلکہ قرآت قرآن سے فارغ ہونے کے بعد (رکوع سے پہلے) ۔
باب: غزوہ رجیع کا بیان اور رعل و ذکوان اور بئرمعونہ کے غزوہ کا بیان۔
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام دستوائی نے بیان کیا، کہا ہم سے قتادہ نے بیان کیا اور ان سے انس (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے رکوع کے بعد ایک مہینہ تک قنوت پڑھی جس میں آپ ﷺ عرب کے چند قبائل (رعل و ذکوان وغیرہ) کے لیے بددعا کرتے تھے۔
باب: غزوہ رجیع کا بیان اور رعل و ذکوان اور بئرمعونہ کے غزوہ کا بیان۔
مجھ سے عبدالاعلیٰ بن حماد نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، کہا ہم سے سعید بن ابی عروبہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ رعل، ذکوان، عصیہ اور بنو لحیان نے رسول اللہ ﷺ سے اپنے دشمنوں کے مقابل مدد چاہی۔ نبی کریم ﷺ نے ستر انصاری صحابہ کو ان کی کمک کے لیے روانہ کیا۔ ہم ان حضرات کو قاری کہا کرتے تھے۔ اپنی زندگی میں معاش کے لیے دن میں لکڑیاں جمع کرتے تھے اور رات میں نماز پڑھا کرتے تھے۔ جب یہ حضرات بئرمعونہ پر پہنچے تو ان قبیلے والوں نے انہیں دھوکا دیا اور انہیں شہید کردیا۔ جب نبی کریم ﷺ کو اس کی خبر ہوئی تو آپ نے صبح کی نماز میں ایک مہینے تک بددعا کی۔ عرب کے انہیں چند قبائل رعل، ذکوان، عصیہ اور بنو لحیان کے لیے۔ انس (رض) نے بیان کیا کہ ان صحابہ کے بارے میں قرآن میں (آیت نازل ہوئی اور) ہم اس کی تلاوت کرتے تھے۔ پھر وہ آیت منسوخ ہوگئی (آیت کا ترجمہ) ہماری طرف سے ہماری قوم (مسلمانوں) کو خبر پہنچا دو کہ ہم اپنے رب کے پاس آگئے ہیں۔ ہمارا رب ہم سے راضی ہے اور ہمیں بھی (اپنی نعمتوں سے) اس نے خوش رکھا ہے۔ اور قتادہ سے روایت ہے ان سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے ایک مہینے تک صبح کی نماز میں، عرب کے چند قبائل یعنی رعل، ذکوان، عصیہ اور بنو لحیان کے لیے بددعا کی تھی۔ خلیفہ بن خیاط (امام بخاری (رح) کے شیخ) نے یہ اضافہ کیا کہ ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، کہا ہم سے سعید بن ابی عروبہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے کہ ہم سے انس (رض) نے بیان کیا کہ یہ ستر صحابہ قبیلہ انصار سے تھے اور انہیں بئرمعونہ کے پاس شہید کردیا گیا تھا۔
باب: غزوہ رجیع کا بیان اور رعل و ذکوان اور بئرمعونہ کے غزوہ کا بیان۔
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمام بن یحییٰ نے بیان کیا ٰ ، ان سے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے بیان کیا اور ان سے انس (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے ان کے ماموں، ام سلیم (انس کی والدہ) کے بھائی کو بھی ان ستر سواروں کے ساتھ بھیجا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہوئی تھی کہ مشرکوں کے سردار عامر بن طفیل نے نبی کریم ﷺ کے سامنے (شرارت اور تکبر سے) تین صورتیں رکھی تھیں۔ اس نے کہا کہ یا تو یہ کیجئے کہ دیہاتی آبادی پر آپ کی حکومت ہو اور شہری آبادی پر میری ہو یا پھر مجھے آپ کا جانشیں مقرر کیا جائے ورنہ پھر میں ہزاروں غطفانیوں کو لے کر آپ پر چڑھائی کر دوں گا۔ (اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے بددعا کی) اور ام فلاں کے گھر میں وہ مرض طاعون میں گرفتار ہوا۔ کہنے لگا کہ اس فلاں کی عورت کے گھر کے جوان اونٹ کی طرح مجھے بھی غدود نکل آیا ہے۔ میرا گھوڑا لاؤ۔ چناچہ وہ اپنے گھوڑے کی پشت پر ہی مرگیا۔ بہرحال ام سلیم کے بھائی حرام بن ملحان ایک اور صحابی جو لنگڑے تھے اور تیسرے صحابی جن کا تعلق بنی فلاں سے تھا، آگے بڑھے۔ حرام نے (اپنے دونوں ساتھیوں سے بنو عامر تک پہنچ کر پہلے ہی) کہہ دیا کہ تم دونوں میرے قریب ہی کہیں رہنا۔ میں ان کے پاس پہلے جاتا ہوں اگر انہوں نے مجھے امن دے دیا تو تم لوگ قریب ہی ہو اور اگر انہوں نے قتل کردیا تو آپ حضرات اپنے ساتھیوں کے پاس چلے جانا۔ چناچہ قبیلہ میں پہنچ کر انہوں نے ان سے کہا، کیا تم مجھے امان دیتے ہو کہ میں رسول اللہ ﷺ کا پیغام تمہیں پہنچا دوں ؟ پھر وہ آپ ﷺ کا پیغام انہیں پہنچانے لگے تو قبیلہ والوں نے ایک شخص کو اشارہ کیا اور اس نے پیچھے سے آ کر ان پر نیزہ سے وار کیا۔ ہمام نے بیان کیا، میرا خیال ہے کہ نیزہ آر پار ہوگیا تھا۔ حرام کی زبان سے اس وقت نکلا اللہ اکبر، کعبہ کے رب کی قسم ! میں نے تو اپنی مراد حاصل کرلی۔ اس کے بعد ان میں سے ایک صحابی کو بھی مشرکین نے پکڑ لیا (جو حرام (رض) کے ساتھ تھے اور انہیں بھی شہید کردیا) پھر اس مہم کے تمام صحابہ کو شہید کردیا۔ صرف لنگڑے صحابی بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے وہ پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گئے تھے۔ ان شہداء کی شان میں اللہ تعالیٰ نے آیت نازل فرمائی، بعد میں وہ آیت منسوخ ہوگئی (آیت یہ تھی) إنا قد لقينا ربنا فرضي عنا وأرضانا.۔ نبی کریم ﷺ نے ان قبائل رعل، ذکوان، بنو لحیان اور عصیہ کے لیے جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی تھی تیس دن تک صبح کی نماز میں بددعا کی۔
باب: غزوہ رجیع کا بیان اور رعل و ذکوان اور بئرمعونہ کے غزوہ کا بیان۔
مجھ سے حبان نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی، ان کو معمر نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ثمامہ بن عبداللہ بن انس نے بیان کیا اور انہوں نے انس بن مالک (رض) سے سنا وہ بیان کرتے تھے کہ جب حرام بن ملحان کو جو ان کے ماموں تھے بئرمعونہ کے موقع پر زخمی کیا گیا تو زخم پر سے خون کو ہاتھ میں لے کر انہوں نے اپنے چہرہ اور سر پر لگا لیا اور کہا کعبہ کے رب کی قسم ! میری مراد حاصل ہوگئی۔
باب: غزوہ رجیع کا بیان اور رعل و ذکوان اور بئرمعونہ کے غزوہ کا بیان۔
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ جب مکہ میں مشرک لوگ ابوبکر صدیق (رض) کو سخت تکلیف دینے لگے تو رسول اللہ ﷺ سے ابوبکر (رض) نے بھی اجازت چاہی۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ابھی یہیں ٹھہرے رہو۔ انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! کیا آپ بھی (اللہ تعالیٰ سے) اپنے لیے ہجرت کی اجازت کے امیدوار ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں مجھے اس کی امید ہے۔ عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ پھر ابوبکر (رض) انتظار کرنے لگے۔ آخر نبی کریم ﷺ ایک دن ظہر کے وقت (ہمارے گھر) تشریف لائے اور ابوبکر (رض) کو پکارا اور فرمایا کہ تخلیہ کرلو۔ ابوبکر (رض) نے کہا کہ صرف میری دونوں لڑکیاں یہاں موجود ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تم کو معلوم ہے مجھے بھی ہجرت کی اجازت دے دی گئی ہے۔ ابوبکر (رض) نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! کیا مجھے بھی ساتھ چلنے کی سعادت حاصل ہوگی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں تم بھی میرے ساتھ چلو گے۔ ابوبکر (رض) نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! میرے پاس دو اونٹنیاں ہیں اور میں نے انہیں ہجرت ہی کی نیت سے تیار کر رکھا ہے۔ چناچہ انہوں نے ایک اونٹنی جس کا نام الجدعا تھا آپ ﷺ کو دے دی۔ دونوں بزرگ سوار ہو کر روانہ ہوئے اور یہ غار ثور پہاڑی کا تھا اس میں جا کر دونوں پوشیدہ ہوگئے۔ عامر بن فہیرہ جو عبداللہ بن طفیل بن سنجرہ، عائشہ (رض) کے والدہ کی طرف سے بھائی تھے، ابوبکر (رض) کی ایک دودھ دینے والی اونٹنی تھی تو عامر بن فہیرہ صبح و شام (عام مویشیوں کے ساتھ) اسے چرانے لے جاتے اور رات کے آخری حصہ میں نبی کریم ﷺ اور ابوبکر (رض) کے پاس آتے تھے۔ (غار ثور میں ان حضرات کی خوراک اسی کا دودھ تھی) اور پھر اسے چرانے کے لیے لے کر روانہ ہوجاتے۔ اس طرح کوئی چرواہا اس پر آگاہ نہ ہوسکا۔ پھر جب آپ ﷺ اور ابوبکر (رض) غار سے نکل کر روانہ ہوئے تو پیچھے پیچھے عامر بن فہیرہ بھی پہنچے تھے۔ آخر دونوں حضرات مدینہ پہنچ گئے۔ بئرمعونہ کے حادثہ میں عامر بن فہیرہ (رض) بھی شہید ہوگئے تھے۔ ابواسامہ سے روایت ہے، ان سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، انہیں ان کے والد نے خبر دی، انہوں نے بیان کیا کہ جب بئرمعونہ کے حادثہ میں قاری صحابہ شہید کئے گئے اور عمرو بن امیہ ضمری (رض) قید کئے گئے تو عامر بن طفیل نے ان سے پوچھا کہ یہ کون ہے ؟ انہوں نے ایک لاش کی طرف اشارہ کیا۔ عمرو بن امیہ (رض) نے انہیں بتایا کہ یہ عامر بن فہیرہ (رض) ہیں۔ اس پر عامر بن طفیل (رض) نے کہا کہ میں نے دیکھا کہ شہید ہوجانے کے بعد ان کی لاش آسمان کی طرف اٹھائی گئی۔ میں نے اوپر نظر اٹھائی تو لاش آسمان و زمین کے درمیان لٹک رہی تھی۔ پھر وہ زمین پر رکھ دی گئی۔ ان شہداء کے متعلق نبی کریم ﷺ کو جبرائیل (علیہ السلام) نے باذن خدا بتادیا تھا۔ چناچہ نبی کریم ﷺ نے ان کی شہادت کی خبر صحابہ کو دی اور فرمایا کہ تمہارے ساتھی شہید کردیئے گئے ہیں اور شہادت کے بعد انہوں نے اپنے رب کے حضور میں عرض کیا کہ اے ہمارے رب ! ہمارے (مسلمان) بھائیوں کو اس کی اطلاع دیدے کہ ہم تیرے پاس پہنچ کر کس طرح خوش ہیں اور تو بھی ہم سے راضی ہے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے (قرآن مجید کے ذریعہ) مسلمانوں کو اس کی اطلاع دے دی۔ اسی حادثہ میں عروہ بن اسماء بن صلت (رض) بھی شہید ہوئے تھے (پھر زبیر (رض) کے بیٹے جب پیدا ہوئے) تو ان کا نام عروہ، انہیں عروہ ابن اسماء (رض) کے نام پر رکھا گیا۔ منذر بن عمرو (رض) اس حادثہ میں شہید ہوئے تھے۔ (اور زبیر (رض) کے دوسرے صاحب زادے کا نام) منذر انہیں کے نام پر رکھا گیا تھا۔
باب: غزوہ رجیع کا بیان اور رعل و ذکوان اور بئرمعونہ کے غزوہ کا بیان۔
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا ہم کو سلیمان تیمی نے خبر دی، انہیں ابومجلز (لاحق بن حمید) نے اور ان سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مہینے تک رکوع کے بعد دعائے قنوت پڑھی۔ اس دعائے قنوت میں آپ ﷺ نے رعل اور ذکوان نامی قبائل کے لیے بددعا کی۔ آپ ﷺ فرماتے تھے کہ قبیلہ عصیہ نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی۔
باب: غزوہ رجیع کا بیان اور رعل و ذکوان اور بئرمعونہ کے غزوہ کا بیان۔
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے اور ان سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے ان لوگوں کے لیے جنہوں نے آپ کے معزز اصحاب (قاریوں) کو بئرمعونہ میں شہید کردیا تھا۔ تیس دن تک صبح کی نماز میں بددعا کی تھی آپ ﷺ قبائل رعل، بنو لحیان اور عصیہ کے لیے ان نمازوں میں بددعا کرتے تھے، جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کی تھی۔ انس (رض) نے بیان کیا کہ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم ﷺ پر انہی اصحاب کے بارے میں جو بئرمعونہ میں شہید کردیئے گئے تھے، قرآن مجید کی آیت نازل کی۔ ہم اس آیت کی تلاوت کیا کرتے تھے لیکن بعد میں وہ آیت منسوخ ہوگئی (اس آیت کا ترجمہ یہ ہے) ہماری قوم کو خبر پہنچا دو کہ ہم اپنے رب سے آ ملے ہیں۔ ہمارا رب ہم سے راضی ہے اور ہم بھی اس سے راضی ہیں۔
باب: غزوہ رجیع کا بیان اور رعل و ذکوان اور بئرمعونہ کے غزوہ کا بیان۔
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا، کہا ہم سے عاصم بن احول بن سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ میں نے انس بن مالک (رض) سے نماز میں قنوت کے بارے میں پوچھا کہ قنوت رکوع سے پہلے ہے یا رکوع کے بعد ؟ انہوں نے کہا کہ رکوع سے پہلے۔ میں نے عرض کیا کہ فلاں صاحب نے آپ ہی کا نام لے کر مجھے بتایا کہ قنوت رکوع کے بعد۔ انس (رض) نے کہا کہ انہوں نے غلط کہا۔ رسول اللہ ﷺ نے رکوع کے بعد صرف ایک مہینے تک قنوت پڑھی۔ آپ نے صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت کو جو قاریوں کے نام سے مشہور تھی جو ستر کی تعداد میں تھے، مشرکین کے بعض قبائل کے یہاں بھیجا تھا۔ مشرکین کے ان قبائل نے نبی کریم ﷺ کو ان صحابہ کے بارے میں پہلے حفظ و امان کا یقین دلایا تھا لیکن بعد میں یہ لوگ صحابہ رضی اللہ عنہم کی اس جماعت پر غالب آگئے (اور غداری کی اور انہیں شہید کردیا) رسول اللہ ﷺ نے اسی موقع پر رکوع کے بعد ایک مہینے تک قنوت پڑھی تھی اور اس میں ان مشرکین کے لیے بددعا کی تھی۔
باب: غزوہ خندق کا بیان جس کا دوسرا نام غزوہ احزاب ہے۔
ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ عمری نے، کہا کہ مجھے نافع نے خبر دی اور انہیں ابن عمر (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ کے سامنے اپنے آپ کو انہوں نے غزوہ احد کے موقع پر پیش کیا (تاکہ لڑنے والوں میں انہیں بھی بھرتی کرلیا جائے) اس وقت وہ چودہ سال کے تھے تو نبی کریم ﷺ نے انہیں اجازت نہیں دی۔ لیکن غزوہ خندق کے موقع پر جب انہوں نے آپ ﷺ کے سامنے اپنے کو پیش کیا تو آپ ﷺ نے ان کو منظور فرما لیا۔ اس وقت وہ پندرہ سال کی عمر کے تھے۔
باب: غزوہ خندق کا بیان جس کا دوسرا نام غزوہ احزاب ہے۔
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن ابی حازم نے بیان کیا، ان سے ابوحازم نے اور ان سے سہل بن سعد (رض) نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ خندق میں تھے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم خندق کھود رہے تھے اور مٹی ہم اپنے کاندھوں پر اٹھا اٹھا کر نکال رہے تھے۔ اس وقت آپ ﷺ نے دعا کی اللهم لا عيش إلا عيش الآخره، فاغفر للمهاجرين والأنصار اے اللہ ! آخرت کی زندگی ہی بس آرام کی زندگی ہے۔ پس تو انصار اور مہاجرین کی مغفرت فرما۔
باب: غزوہ خندق کا بیان جس کا دوسرا نام غزوہ احزاب ہے۔
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم سے معاویہ بن عمرو نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق فزاری نے بیان کیا، ان سے حمید طویل نے، انہوں نے انس (رض) سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ خندق کی طرف تشریف لے گئے۔ آپ ﷺ نے ملاحظہ فرمایا کہ مہاجرین اور انصار سردی میں صبح سویرے ہی خندق کھود رہے ہیں۔ ان کے پاس غلام نہیں تھے کہ ان کے بجائے وہ اس کام کو انجام دیتے۔ جب آپ ﷺ نے ان کی اس مشقت اور بھوک کو دیکھا تو دعا کی اللهم إن العيش عيش الآخرة . فاغفر للأنصار والمهاجره اے اللہ ! زندگی تو بس آخرت ہی کی زندگی ہے۔ پس انصار اور مہاجرین کی مغفرت فرما۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس کے جواب میں کہا نحن الذين بايعوا محمدا *** على الجهاد ما بقينا أبدا ہم ہی ہیں جنہوں نے محمد ( ﷺ ) سے جہاد کرنے کے لیے بیعت کی ہے۔ جب تک ہماری جان میں جان ہے۔
باب: غزوہ خندق کا بیان جس کا دوسرا نام غزوہ احزاب ہے۔
ہم سے ابومعمر عبداللہ بن عمر عقدی نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوارث بن سعید نے بیان کیا، ان سے عبدالعزیز بن صہیب نے اور ان سے انس (رض) نے بیان کیا کہ مدینہ کے گرد مہاجرین و انصار خندق کھودنے میں مصروف ہوگئے اور مٹی اپنی پیٹھ پر اٹھانے لگے۔ اس وقت وہ یہ شعر پڑھ رہے تھے نحن الذين بايعوا محمدا *** على الأسلام ما بقينا أبدا ہم نے ہی محمد ( ﷺ ) سے اسلام پر بیعت کی ہے جب تک ہماری جان میں جان ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ اس پر نبی کریم ﷺ نے دعا کی اللهم إنه لا خير إلا خير الآخرة . فبارک في الأنصار والمهاجره اے اللہ ! خیر تو صرف آخرت ہی کی خیر ہے۔ پس انصار اور مہاجرین کو تو برکت عطا فرما۔ انس (رض) نے بیان کیا کہ ایک مٹھی جَو آتا اور ان صحابہ کے لیے ایسے روغن میں جس کا مزہ بھی بگڑ چکا ہوتا ملا کر پکا دیا جاتا۔ یہی کھانا ان صحابہ کے سامنے رکھ دیا جاتا۔ صحابہ بھوکے ہوتے۔ یہ ان کے حلق میں چپکتا اور اس میں بدبو ہوتی۔ گویا اس وقت ان کی خوراک کا بھی یہ حال تھا۔
باب: غزوہ خندق کا بیان جس کا دوسرا نام غزوہ احزاب ہے۔
ہم سے خلاد بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالواحد بن ایمن نے بیان کیا، ان سے ان کے والد ایمن حبشی نے بیان کیا کہ میں جابر (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے بیان کیا کہ ہم غزوہ خندق کے موقع پر خندق کھود رہے تھے کہ ایک بہت سخت قسم کی چٹان نکلی (جس پر کدال اور پھاوڑے کا کوئی اثر نہیں ہوتا تھا اس لیے خندق کی کھدائی میں رکاوٹ پیدا ہوگئی) صحابہ رضی اللہ عنہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے عرض کیا کہ خندق میں ایک چٹان ظاہر ہوگئی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں اندر اترتا ہوں۔ چناچہ آپ کھڑے ہوئے اور اس وقت (بھوک کی شدت کی وجہ سے) آپ کا پیٹ پتھر سے بندھا ہوا تھا۔ آپ ﷺ نے کدال اپنے ہاتھ میں لی اور چٹان پر اس سے مارا۔ چٹان (ایک ہی ضرب میں) بالو کے ڈھیر کی طرح بہہ گئی۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! مجھے گھر جانے کی اجازت دیجئیے۔ (گھر آ کر) میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ آج میں نے نبی کریم ﷺ کو (فاقوں کی وجہ سے) اس حالت میں دیکھا کہ صبر نہ ہوسکا۔ کیا تمہارے پاس (کھانے کی) کوئی چیز ہے ؟ انہوں نے بتایا کہ ہاں کچھ جَو ہیں اور ایک بکری کا بچہ۔ میں نے بکری کے بچہ کو ذبح کیا اور میری بیوی نے جَو پیسے۔ پھر گوشت کو ہم نے چولھے پر ہانڈی میں رکھا اور میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آٹا گوندھا جا چکا تھا اور گوشت چولھے پر پکنے کے قریب تھا۔ نبی کریم ﷺ سے میں نے عرض کیا گھر کھانے کے لیے مختصر کھانا تیار ہے۔ یا رسول اللہ ! آپ اپنے ساتھ ایک دو آدمیوں کو لے کر تشریف لے چلیں۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ کتنا ہے ؟ میں نے آپ کو سب کچھ بتادیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ تو بہت ہے اور نہایت عمدہ و طیب ہے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ اپنی بیوی سے کہہ دو کہ چولھے سے ہانڈی نہ اتاریں اور نہ تنور سے روٹی نکالیں میں ابھی آ رہا ہوں۔ پھر صحابہ سے فرمایا کہ سب لوگ چلیں۔ چناچہ تمام انصار و مہاجرین تیار ہوگئے۔ جب جابر (رض) گھر پہنچے تو اپنی بیوی سے انہوں نے کہا اب کیا ہوگا ؟ رسول اللہ ﷺ تو تمام مہاجرین و انصار کو ساتھ لے کر تشریف لا رہے ہیں۔ انہوں نے پوچھا، نبی کریم ﷺ نے آپ سے کچھ پوچھا بھی تھا ؟ جابر (رض) نے کہا کہ ہاں۔ آپ ﷺ نے صحابہ سے فرمایا کہ اندر داخل ہوجاؤ لیکن اژدہام نہ ہونے پائے۔ اس کے بعد آپ ﷺ روٹی کا چورا کرنے لگے اور گوشت اس پر ڈالنے لگے۔ ہانڈی اور تنور دونوں ڈھکے ہوئے تھے۔ آپ ﷺ نے اسے لیا اور صحابہ کے قریب کردیا۔ پھر آپ نے گوشت اور روٹی نکالی۔ اس طرح آپ ﷺ برابر روٹی چورا کرتے جاتے اور گوشت اس میں ڈالتے جاتے۔ یہاں تک کہ تمام صحابہ شکم سیر ہوگئے اور کھانا بچ بھی گیا۔ آخر میں آپ ﷺ نے (جابر (رض) کی بیوی سے) فرمایا کہ اب یہ کھانا تم خود کھاؤ اور لوگوں کے یہاں ہدیہ میں بھیجو کیونکہ لوگ آج کل فاقہ میں مبتلا ہیں۔
باب: غزوہ خندق کا بیان جس کا دوسرا نام غزوہ احزاب ہے۔
مجھ سے عمرو بن علی فلاس نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعاصم ضحاک بن مخلد نے بیان کیا، کہا ہم کو حنظلہ بن ابی سفیان نے خبر دی، کہا ہم کو سعید بن میناء نے خبر دی، کہا میں نے جابر بن عبداللہ (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ جب خندق کھودی جا رہی تھی تو میں نے معلوم کیا کہ نبی کریم ﷺ انتہائی بھوک میں مبتلا ہیں۔ میں فوراً اپنی بیوی کے پاس آیا اور کہا کیا تمہارے پاس کوئی کھانے کی چیز ہے ؟ میرا خیال ہے کہ نبی کریم ﷺ انتہائی بھوکے ہیں۔ میری بیوی ایک تھیلا نکال کر لائیں جس میں ایک صاع جَو تھے۔ گھر میں ہمارا ایک بکری کا بچہ بھی بندھا ہوا تھا۔ میں نے بکری کے بچے کو ذبح کیا اور میری بیوی نے جَو کو چکی میں پیسا۔ جب میں ذبح سے فارغ ہوا تو وہ بھی جَو پیس چکی تھیں۔ میں نے گوشت کی بوٹیاں کر کے ہانڈی میں رکھ دیا اور نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میری بیوی نے پہلے ہی تنبیہ کردی تھی کہ نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ کے سامنے مجھے شرمندہ نہ کرنا۔ چناچہ میں نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کے کان میں یہ عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ہم نے ایک چھوٹا سا بچہ ذبح کرلیا ہے اور ایک صاع جَو پیس لیے ہیں جو ہمارے پاس تھے۔ اس لیے آپ دو ایک صحابہ کو ساتھ لے کر تشریف لے چلیں۔ آپ ﷺ نے بہت بلند آواز سے فرمایا کہ اے اہل خندق ! جابر (رضی اللہ عنہ) نے تمہارے لیے کھانا تیار کروایا ہے۔ بس اب سارا کام چھوڑ دو اور جلدی چلے چلو۔ اس کے بعد نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب تک میں آ نہ جاؤں ہانڈی چولھے پر سے نہ اتارنا اور تب آٹے کی روٹی پکانی شروع کرنا۔ میں اپنے گھر آیا۔ ادھر آپ ﷺ بھی صحابہ کو ساتھ لے کر روانہ ہوئے۔ میں اپنی بیوی کے پاس آیا تو وہ مجھے برا بھلا کہنے لگیں۔ میں نے کہا کہ تم نے جو کچھ مجھ سے کہا تھا میں نے نبی کریم ﷺ کے سامنے عرض کردیا تھا۔ آخر میری بیوی نے گندھا ہوا آٹا نکالا اور آپ ﷺ نے اس میں اپنے لعاب دہن کی آمیزش کردی اور برکت کی دعا کی۔ ہانڈی میں بھی آپ نے لعاب کی آمیزش کی اور برکت کی دعا کی۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا کہ اب روٹی پکانے والی کو بلاؤ۔ وہ میرے سامنے روٹی پکائے اور گوشت ہانڈی سے نکالے لیکن چولھے سے ہانڈی نہ اتارنا۔ صحابہ کی تعداد ہزار کے قریب تھی۔ میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھاتا ہوں کہ اتنے ہی کھانے کو سب نے (شکم سیر ہو کر) کھایا اور کھانا بچ بھی گیا۔ جب تمام لوگ واپس ہوگئے تو ہماری ہانڈی اسی طرح ابل رہی تھی جس طرح شروع میں تھی اور آٹے کی روٹیاں برابر پکائی جا رہی تھیں۔
باب: غزوہ خندق کا بیان جس کا دوسرا نام غزوہ احزاب ہے۔
مجھ سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدہ بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے کہ (آیت) إذا جاؤوكم من فوقکم ومن أسفل منکم وإذ زاغت الأبصار وبلغت القلوب الحناجر جب مشرکین تمہارے بالائی علاقہ سے اور تمہارے نشیبی علاقہ سے تم پر چڑھ آئے تھے اور جب مارے ڈر کے آنکھیں چکا چوند ہوگئی تھیں اور دل حلق تک آگئے تھے۔ عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ یہ آیت غزوہ خندق کے متعلق نازل ہوئی تھی۔
باب: غزوہ خندق کا بیان جس کا دوسرا نام غزوہ احزاب ہے۔
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ بن حجاج نے ان سے ابواسحاق سبیعی نے اور ان سے براء بن عازب (رض) نے بیان کیا کہ غزوہ خندق میں (خندق کی کھدائی کے وقت) رسول اللہ ﷺ مٹی اٹھا اٹھا کر لا رہے تھے۔ یہاں تک کہ آپ ﷺ کا بطن مبارک غبار سے اٹ گیا تھا۔ نبی کریم ﷺ کی زبان پر یہ کلمات جاری تھے اللہ کی قسم ! اگر اللہ نہ ہوتا تو ہمیں سیدھا راستہ نہ ملتا۔ نہ ہم صدقہ کرتے نہ نماز پڑھتے پس تو ہمارے دلوں پر سکینت و طمانیت نازل فرما اور اگر ہماری کفار سے مڈبھیڑ ہوجائے تو ہمیں ثابت قدمی عنایت فرما۔ جو لوگ ہمارے خلاف چڑھ آئے ہیں جب یہ کوئی فتنہ چاہتے ہیں تو ہم ان کی نہیں مانتے۔ أبينا أبينا (ہم ان کی نہیں مانتے۔ ہم ان کی نہیں مانتے) پر آپ ﷺ کی آواز بلند ہوجاتی۔
باب: غزوہ خندق کا بیان جس کا دوسرا نام غزوہ احزاب ہے۔
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، کہا مجھ سے حکم بن عتیبہ نے بیان کیا، ان سے مجاہد نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا پروا ہوا کے ذریعے میری مدد کی گئی اور قوم عاد پچھوا ہوا سے ہلاک کردی گئی تھی۔
باب: غزوہ خندق کا بیان جس کا دوسرا نام غزوہ احزاب ہے۔
مجھ سے احمد بن عثمان نے بیان کیا کہا ہم سے شریح بن مسلمہ نے بیان کیا کہا کہ مجھ سے ابراہیم بن یوسف نے بیان کیا کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا ان سے ابواسحاق سبیعی نے کہ میں نے براء بن عازب (رض) سے سنا وہ بیان کرتے تھے کہ غزوہ احزاب کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کو میں نے دیکھا کہ خندق کھودتے ہوئے اس کے اندر سے آپ ﷺ مٹی اٹھا اٹھا کر لا رہے ہیں۔ آپ ﷺ کے بطن مبارک کی کھال مٹی سے اٹ گئی تھی۔ آپ کے (سینے سے پیٹ تک) گھنے بالوں (کی ایک لکیر) تھی۔ میں نے خود سنا کہ آپ ﷺ ابن رواحہ (رض) کے رجزیہ اشعار مٹی اٹھاتے ہوئے پڑھ رہے تھے۔ اے اللہ ! اگر تو نہ ہوتا تو ہمیں سیدھا راستہ نہ ملتا نہ ہم صدقہ کرتے نہ نماز پڑھتے پس ہم پر تو اپنی طرف سے سکینت نازل فرما اور اگر ہمارا آمنا سامنا ہوجائے تو ہمیں ثابت قدمی عطا فرما۔ یہ لوگ ہمارے اوپر ظلم سے چڑھ آئے ہیں۔ جب یہ ہم سے کوئی فتنہ چاہتے ہیں تو ہم ان کی نہیں سنتے۔ راوی نے بیان کیا کہ آپ ﷺ آخری کلمات کو کھینچ کر پڑھتے تھے۔
باب: غزوہ خندق کا بیان جس کا دوسرا نام غزوہ احزاب ہے۔
مجھ سے عبدہ بن عبداللہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عبدالصمد بن عبدالوارث نے بیان کیا ‘ ان سے عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن دینار نے ‘ ان سے ان کے والد نے اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ سب سے پہلا غزوہ جس میں میں نے شرکت کی وہ غزوہ خندق ہے۔
باب: غزوہ خندق کا بیان جس کا دوسرا نام غزوہ احزاب ہے۔
مجھ سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو ہشام نے خبر دی ‘ انہیں معمر بن راشد نے ‘ انہیں زہری نے ‘ انہیں سالم بن عبداللہ نے اور ان سے ابن عمر (رض) نے بیان کیا اور معمر بن راشد نے بیان کیا کہ مجھے عبداللہ بن طاؤس نے خبر دی ‘ ان سے عکرمہ بن خالد نے اور ان سے ابن عمر (رض) نے بیان کیا کہ میں حفصہ (رض) کے یہاں گیا تو ان کے سر کے بالوں سے پانی کے قطرات ٹپک رہے تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ تم دیکھتی ہو لوگوں نے کیا کیا اور مجھے تو کچھ بھی حکومت نہیں ملی۔ حفصہ (رض) نے کہا کہ مسلمانوں کے مجمع میں جاؤ ‘ لوگ تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارا موقع پر نہ پہنچنا مزید پھوٹ کا سبب بن جائے۔ آخر حفصہ (رض) کے اصرار پر عبداللہ (رض) گئے۔ پھر جب لوگ وہاں سے چلے گئے تو معاویہ (رض) نے خطبہ دیا اور کہا کہ خلافت کے مسئلہ پر جسے گفتگو کرنی ہو وہ ذرا اپنا سر تو اٹھائے۔ یقیناً ہم اس سے زیادہ خلافت کے حقدار ہیں اور اس کے باپ سے بھی زیادہ۔ حبیب بن مسلمہ (رض) نے ابن عمر (رض) سے اس پر کہا کہ آپ نے وہیں اس کا جواب کیوں نہیں دیا ؟ عبداللہ بن عمر (رض) نے کہا کہ میں نے اسی وقت اپنے لنگی کھولی (جواب دینے کو تیار ہوا) اور ارادہ کرچکا تھا کہ ان سے کہوں کہ تم سے زیادہ خلافت کا حقدار وہ ہے جس نے تم سے اور تمہارے باپ سے اسلام کے لیے جنگ کی تھی۔ لیکن پھر میں ڈرا کہ کہیں میری اس بات سے مسلمانوں میں اختلاف بڑھ نہ جائے اور خونریزی نہ ہوجائے اور میری بات کا مطلب میری منشا کے خلاف نہ لیا جانے لگے۔ اس کے بجائے مجھے جنت کی وہ نعمتیں یاد آگئیں جو اللہ تعالیٰ نے (صبر کرنے والوں کے لیے) جنت میں تیار کر رکھی ہیں۔ حبیب ابن ابی مسلم نے کہا کہ اچھا ہوا آپ محفوظ رہے اور بچا لیے گئے ‘ آفت میں نہیں پڑے۔ محمود نے عبدالرزاق سے (نسواتها. کے بجائے لفظ) ونوساتها. بیان کیا (جس کے معنی چوٹی کے ہیں جو عورتیں سر پر بال گوندھتے وقت نکالتی ہیں) ۔
باب: غزوہ خندق کا بیان جس کا دوسرا نام غزوہ احزاب ہے۔
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا ‘ ان سے ابواسحاق سبیعی نے ‘ ان سے سلیمان بن صرد (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے غزوہ احزاب کے موقع پر (جب کفار کا لشکر ناکام واپس ہوگیا) فرمایا کہ اب ہم ان سے لڑیں گے۔ آئندہ وہ ہم پر چڑھ کر کبھی نہ آسکیں گے۔
باب: غزوہ خندق کا بیان جس کا دوسرا نام غزوہ احزاب ہے۔
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے یحییٰ بن آدم نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے اسرائیل بن یونس نے بیان کیا ‘ انہوں نے ابواسحاق سے سنا ‘ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے سلیمان بن صرد (رض) سے سنا ‘ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ‘ جب عرب کے قبائل (جو غزوہ خندق کے موقع پر مدینہ چڑھ کر آئے تھے) ناکام واپس ہوگئے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اب ہم ان سے جنگ کریں گے ‘ وہ ہم پر چڑھ کر نہ آسکیں گے بلکہ ہم ہی ان پر فوج کشی کیا کریں گے۔
باب: غزوہ خندق کا بیان جس کا دوسرا نام غزوہ احزاب ہے۔
ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے روح بن عبادہ نے بیان کیا ‘ ان سے ہشام بن حسان نے بیان کیا ‘ ان سے محمد بن سیرین نے ‘ ان سے عبیدہ سلمانی نے اور ان سے علی (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے غزوہ خندق کے موقع پر فرمایا کہ جس طرح ان کفار نے ہمیں صلوٰۃ وسطیٰ (نماز عصر) نہیں پڑھنے دی اور سورج غروب ہوگیا ‘ اللہ تعالیٰ بھی ان کی قبروں اور گھروں کو آگ سے بھر دے۔
باب: غزوہ خندق کا بیان جس کا دوسرا نام غزوہ احزاب ہے۔
ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ہشام بن حسان نے بیان کیا ‘ ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے ‘ ان سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے اور ان سے جابر (رض) نے کہ عمر بن خطاب (رض) غزوہ خندق کے موقع پر سورج غروب ہونے کے بعد (لڑ کر) واپس ہوئے۔ وہ کفار قریش کو برا بھلا کہہ رہے تھے۔ انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! سورج غروب ہونے کو ہے اور میں عصر کی نماز اب تک نہیں پڑھ سکا۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کی قسم ! نماز تو میں بھی نہ پڑھ سکا۔ آخر ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ وادی بطحان میں اترے۔ آپ ﷺ نے نماز کے لیے وضو کیا۔ ہم نے بھی وضو کیا ‘ پھر عصر کی نماز سورج غروب ہونے کے بعد پڑھی اور اس کے بعد مغرب کی نماز پڑھی۔
باب: غزوہ خندق کا بیان جس کا دوسرا نام غزوہ احزاب ہے۔
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی ‘ ان سے محمد بن منکدر نے بیان کیا اور انہوں نے جابر (رض) سے سنا ‘ وہ بیان کرتے تھے کہ غزوہ احزاب کے موقع پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ کفار کے لشکر کی خبریں کون لائے گا ؟ زبیر (رض) نے عرض کیا کہ میں تیار ہوں۔ پھر آپ ﷺ نے پوچھا کہ کفار کے لشکر کی خبریں کون لائے گا ؟ اس مرتبہ بھی زبیر (رض) نے کہا کہ میں۔ پھر آپ ﷺ نے تیسری مرتبہ پوچھا کہ کفار کے لشکر کی خبریں کون لائے گا ؟ زبیر (رض) نے اس مرتبہ بھی اپنے آپ کو پیش کیا۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہر نبی کے حواری ہوتے ہیں اور میرے حواری زبیر ہیں۔
باب: غزوہ خندق کا بیان جس کا دوسرا نام غزوہ احزاب ہے۔
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے لیث نے بیان کیا ‘ ان سے سعید بن ابی سعید نے ‘ ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ فرمایا کرتے تھے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے جس نے اپنے لشکر کو فتح دی۔ اپنے بندے کی مدد کی (یعنی نبی کریم ﷺ کی) اور احزاب (یعنی افواج کفار) کو تنہا بھگا دیا پس اس کے بعد کوئی چیز اس کے مدمقابل نہیں ہوسکتی۔
باب: غزوہ خندق کا بیان جس کا دوسرا نام غزوہ احزاب ہے۔
ہم سے محمد نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو فزاری اور عبدہ نے خبر دی ‘ ان سے اسماعیل بن ابی خالد نے بیان کیا کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفی (رض) سے سنا ‘ انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے احزاب (افواج کفار) کے لیے (غزوہ خندق کے موقع پر) بددعا کی اے اللہ ! کتاب کے نازل کرنے والے ! جلدی حساب لینے والے ! کفار کے لشکر کو شکست دے۔ اے اللہ ! انہیں شکست دے۔ یا اللہ ! ان کی طاقت کو متزلزل کر دے۔
باب: غزوہ خندق کا بیان جس کا دوسرا نام غزوہ احزاب ہے۔
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں سالم بن عبداللہ بن عمر اور نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ جب غزوے، حج یا عمرے سے واپس آتے تو سب سے پہلے تین مرتبہ اللہ اکبر کہتے۔ پھر یوں فرماتے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، بادشاہت اسی کے لیے ہے، حمد اسی کے لیے ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (یا اللہ ! ) ہم واپس ہو رہے ہیں توبہ کرتے ہوئے، عبادت کرتے ہوئے اپنے رب کے حضور سجدہ کرتے ہوئے اور اپنے رب کی حمد کرتے ہوئے۔ اللہ نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا۔ اپنے بندے کی مدد کی اور کفار کی فوجوں کو اس نے اکیلے شکست دے دی۔
باب: غزوہ احزاب سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا واپس لوٹنا اور بنو قریظہ پر چڑھائی کرنا اور ان کا محاصرہ کرنا۔
مجھ سے عبداللہ بن ابی شیبہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عبداللہ بن نمیر نے بیان کیا ‘ ان سے ہشام بن عروہ نے ‘ ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ جوں ہی نبی کریم ﷺ جنگ خندق سے مدینہ واپس ہوئے اور ہتھیار اتار کر غسل کیا تو جبرائیل (علیہ السلام) آپ کے پاس آئے اور کہا : آپ نے ابھی ہتھیار اتار دیئے ؟ اللہ کی قسم ! ہم نے تو ابھی ہتھیار نہیں اتارے۔ چلئے ان پر حملہ کیجئے۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ کن پر ؟ جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا کہ ان پر اور انہوں نے (یہود کے قبیلہ) بنو قریظہ کی طرف اشارہ کیا۔ چناچہ نبی کریم ﷺ نے بنو قریظہ پر چڑھائی کی۔
باب: غزوہ احزاب سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا واپس لوٹنا اور بنو قریظہ پر چڑھائی کرنا اور ان کا محاصرہ کرنا۔
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے جریر بن حازم نے بیان کیا ‘ ان سے حمید بن ہلال نے اور ان سے انس (رض) نے بیان کیا کہ جیسے اب بھی وہ گردوغبار میں دیکھ رہا ہوں جو جبرائیل (علیہ السلام) کے ساتھ سوار فرشتوں کی وجہ سے قبیلہ بنو غنم کی گلی میں اٹھا تھا جب رسول اللہ ﷺ بنو قریظہ کے خلاف چڑھ کر گئے تھے۔
باب: غزوہ احزاب سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا واپس لوٹنا اور بنو قریظہ پر چڑھائی کرنا اور ان کا محاصرہ کرنا۔
ہم سے محمد بن عبداللہ بن محمد بن اسماء نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے جویریہ بن اسماء نے بیان کیا ‘ ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ غزوہ احزاب کے دن رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تمام مسلمان عصر کی نماز بنو قریظہ تک پہنچنے کے بعد ہی ادا کریں۔ بعض حضرات کی عصر کی نماز کا وقت راستے ہی میں ہوگیا۔ ان میں سے کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم نے تو کہا کہ ہم راستے میں نماز نہیں پڑھیں گے۔ (کیونکہ نبی کریم ﷺ نے بنو قریظہ میں نماز عصر پڑھنے کے لیے فرمایا ہے) اور بعض صحابہ نے کہا کہ نبی کریم ﷺ کے ارشاد کا منشا یہ نہیں تھا۔ (بلکہ جلدی جانا مقصد تھا) بعد میں آپ ﷺ کے سامنے اس کا تذکرہ ہوا تو آپ نے کسی پر خفگی نہیں فرمائی۔
باب: غزوہ احزاب سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا واپس لوٹنا اور بنو قریظہ پر چڑھائی کرنا اور ان کا محاصرہ کرنا۔
ہم سے عبداللہ ابی الاسود نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے معتمر بن سلیمان نے بیان کیا (دوسری سند امام بخاری (رح) فرماتے ہیں) اور مجھ سے خلیفہ بن خیاط نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے معتمر بن سلیمان نے بیان کیا ‘ کہ میں نے اپنے والد سے سنا اور ان سے انس (رض) نے بیان کیا کہ بطور ہدیہ صحابہ رضی اللہ عنہم اپنے باغ میں سے نبی کریم ﷺ کے لیے چند کھجور کے درخت مقرر کردیئے تھے یہاں تک کہ بنو قریظہ اور بنو نضیر کے قبائل فتح ہوگئے (تو نبی کریم ﷺ نے ان ہدایا کو واپس کردیا) میرے گھر والوں نے بھی مجھے اس کھجور کو، تمام کی تمام یا اس کا کچھ حصہ لینے کے لیے آپ ﷺ کی خدمت میں بھیجا۔ آپ ﷺ نے وہ کھجور ام ایمن (رض) کو دے دی تھی۔ اتنے میں وہ بھی آگئیں اور کپڑا میری گردن میں ڈال کر کہنے لگیں ‘ قطعاً نہیں۔ اس ذات کی قسم ! جس کے سوا کوئی معبود نہیں یہ پھل تمہیں نہیں ملیں گے۔ یہ نبی کریم ﷺ مجھے عنایت فرما چکے ہیں۔ یا اسی طرح کے الفاظ انہوں نے بیان کئے۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا کہ تم مجھ سے اس کے بدلے میں اتنے لے لو۔ (اور ان کا مال انہیں واپس کر دو ) لیکن وہ اب بھی یہی کہے جا رہی تھیں کہ قطعاً نہیں، خدا کی قسم ! یہاں تک کہ نبی کریم ﷺ نے انہیں، میرا خیال ہے کہ انس (رض) نے بیان کیا کہ اس کا دس گنا دینے کا وعدہ فرمایا (پھر انہوں نے مجھے چھوڑا) یا اسی طرح کے الفاظ انس (رض) نے بیان کئے۔
باب: غزوہ احزاب سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا واپس لوٹنا اور بنو قریظہ پر چڑھائی کرنا اور ان کا محاصرہ کرنا۔
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے غندر نے ‘ ان سے شعبہ نے ‘ ان سے سعد بن ابراہیم نے ‘ انہوں نے ابوامامہ سے سنا ‘ انہوں نے کہا کہ میں نے ابو سعید خدری (رض) سے سنا ‘ انہوں نے بیان کیا کہ بنو قریظہ نے سعد بن معاذ (رض) کو ثالث مان کر ہتھیار ڈال دیئے تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں بلانے کے لیے آدمی بھیجا۔ وہ گدھے پر سوار ہو کر آئے۔ جب اس جگہ کے قریب آئے جسے نبی کریم ﷺ نے نماز پڑھنے کے لیے منتخب کر رکھا تھا تو آپ ﷺ نے انصار سے فرمایا کہ اپنے سردار کے لینے کے لیے کھڑے ہوجاؤ۔ یا (آپ ﷺ نے یوں فرمایا) اپنے سے بہتر شخص کے لیے کھڑے ہوجاؤ۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ بنو قریظہ نے تم کو ثالث مان کر ہتھیار ڈال دیئے ہیں۔ چناچہ سعد (رض) نے یہ فیصلہ کیا کہ جتنے لوگ ان میں جنگ کے قابل ہیں انہیں قتل کردیا جائے اور ان کے بچوں اور عورتوں کو قیدی بنا لیا جائے۔ نبی کریم ﷺ نے اس پر فرمایا کہ تم نے اللہ کے فیصلہ کے مطابق فیصلہ کیا یا یہ فرمایا کہ جیسے بادشاہ (یعنی اللہ) کا حکم تھا۔
باب: غزوہ احزاب سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا واپس لوٹنا اور بنو قریظہ پر چڑھائی کرنا اور ان کا محاصرہ کرنا۔
ہم سے زکریا بن یحییٰ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عبداللہ بن نمیر نے بیان کیا ‘ ان سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا ‘ ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ غزوہ خندق کے موقع پر سعد (رض) زخمی ہوگئے تھے۔ قریش کے ایک کافر شخص ‘ حسان بن عرفہ نامی نے ان پر تیر چلایا تھا اور وہ ان کے بازو کی رگ میں آ کے لگا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے ان کے لیے مسجد میں ایک خیمہ لگا دیا تھا تاکہ قریب سے ان کی عیادت کرتے رہیں۔ پھر جب آپ غزوہ خندق سے واپس ہوئے اور ہتھیار رکھ کر غسل کیا تو جبرائیل (علیہ السلام) آپ کے پاس آئے۔ وہ اپنے سر سے غبار جھاڑ رہے تھے۔ انہوں نے نبی کریم ﷺ سے کہا آپ نے ہتھیار رکھ دیئے۔ اللہ کی قسم ! ابھی میں نے ہتھیار نہیں اتارے ہیں۔ آپ کو ان پر فوج کشی کرنی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا کہ کن پر ؟ تو انہوں نے بنو قریظہ کی طرف اشارہ کیا۔ آپ ﷺ بنو قریظہ تک پہنچے (اور انہوں نے اسلامی لشکر کے پندرہ دن کے سخت محاصرہ کے بعد) سعد بن معاذ (رض) کو ثالث مان کر ہتھیار ڈال دیئے۔ آپ ﷺ نے سعد (رض) کو فیصلہ کا اختیار دیا۔ سعد (رض) نے کہا کہ میں ان کے بارے میں فیصلہ کرتا ہوں کہ جتنے لوگ ان کے جنگ کرنے کے قابل ہیں وہ قتل کردیئے جائیں ‘ ان کی عورتیں اور بچے قید کرلیے جائیں اور ان کا مال تقسیم کرلیا جائے۔ ہشام نے بیان کیا کہ پھر مجھے میرے والد نے عائشہ (رض) سے خبر دی کہ سعد (رض) نے یہ دعا کی تھی اے اللہ ! تو خوب جانتا ہے کہ اس سے زیادہ مجھے کوئی چیز عزیز نہیں کہ میں تیرے راستے میں اس قوم سے جہاد کروں جس نے تیرے رسول کو جھٹلایا اور انہیں ان کے وطن سے نکالا لیکن اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تو نے ہماری اور ان کی لڑائی اب ختم کردی ہے۔ لیکن اگر قریش سے ہماری لڑائی کا کوئی بھی سلسلہ ابھی باقی ہو تو مجھے اس کے لیے زندہ رکھنا۔ یہاں تک کہ میں تیرے راستے میں ان سے جہاد کروں اور اگر لڑائی کے سلسلے کو تو نے ختم ہی کردیا ہے تو میرے زخموں کو پھر سے ہرا کر دے اور اسی میں میری موت واقع کر دے۔ اس دعا کے بعد سینے پر ان کا زخم پھر سے تازہ ہوگیا۔ مسجد میں قبیلہ بنو غفار کے کچھ صحابہ کا بھی ایک خیمہ تھا۔ خون ان کی طرف بہہ کر آیا تو وہ گھبرائے اور انہوں نے کہا : اے خیمہ والو ! تمہاری طرف سے یہ خون ہماری طرف بہہ کر آ رہا ہے ؟ دیکھا تو سعد (رض) کے زخم سے خون بہہ رہا تھا ‘ ان کی وفات اسی میں ہوئی۔
باب: غزوہ احزاب سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا واپس لوٹنا اور بنو قریظہ پر چڑھائی کرنا اور ان کا محاصرہ کرنا۔
ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو شعبہ نے خبر دی ‘ کہا کہ مجھے عدی بن ثابت نے خبر دی ‘ انہوں نے براء بن عازب (رض) سے سنا ‘ انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے حسان بن ثابت (رض) سے فرمایا کہ مشرکین کی ہجو کر یا (آپ ﷺ نے اس کے بجائے) هاجهم فرمایا جبرائیل تمہارے ساتھ ہیں۔
None
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ بنو قریظہ کے موقع پر حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا کہ مشرکین کی ہجو کرو جبرائیل تمہاری مدد پر ہیں۔
باب: غزوہ ذات الرقاع کا بیان۔
اور عبداللہ بن رجاء نے کہا ‘ انہیں عمران قطان نے خبر دی ‘ انہیں یحییٰ بن کثیر نے ‘ انہیں ابوسلمہ نے اور انہیں جابر بن عبداللہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے اپنے اصحاب کے ساتھ نماز خوف ساتویں غزوہ میں پڑھی تھی۔ یعنی غزوہ ذات الرقاع میں۔ عبداللہ بن عباس (رض) نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے نماز خوف ذو قرد میں پڑھی تھی۔ اور بکر بن سوادہ نے بیان کیا ‘ ان سے زیاد بن نافع نے بیان کیا ‘ ان سے ابوموسیٰ نے اور ان سے جابر (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے غزوہ محارب اور بنی ثعلبہ میں اپنے ساتھیوں کو نماز خوف پڑھائی تھی۔ اور ابن اسحاق نے بیان کیا ‘ انہوں نے وہب بن کیسان سے سنا ‘ انہوں نے جابر (رض) سے سنا کہ نبی کریم ﷺ غزوہ ذات الرقاع کے لیے مقام نخل سے روانہ ہوئے تھے۔ وہاں آپ کا قبیلہ غطفان کی ایک جماعت سے سامنا ہوا لیکن کوئی جنگ نہیں ہوئی اور چونکہ مسلمانوں پر کفار کے (اچانک حملے کا) خطرہ تھا۔ اس لیے نبی کریم ﷺ نے دو رکعت نماز خوف پڑھائی۔ اور یزید نے سلمہ بن الاکوع (رض) کے واسطے سے بیان کیا کہ میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ غزوہ ذوالقرد میں شریک تھا۔
None
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ ذات الرقاع کے لیے مقام نخل سے روانہ ہوئے تھے۔ وہاں آپ کا قبیلہ غطفان کی ایک جماعت سے سامنا ہوا لیکن کوئی جنگ نہیں ہوئی اور چونکہ مسلمانوں پر کفار کے ( اچانک حملے کا ) خطرہ تھا۔ اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت نماز خوف پڑھائی۔ اور یزید نے سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کے واسطے سے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ ذوالقرد میں شریک تھا۔
باب: غزوہ ذات الرقاع کا بیان۔
ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابوامامہ نے بیان کیا ‘ ان سے برید بن عبداللہ بن ابی بردہ نے ‘ ان سے ابوبردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری (رض) نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ ایک غزوہ کے لیے نکلے۔ ہم چھ ساتھی تھے اور ہم سب کے لیے صرف ایک اونٹ تھا ‘ جس پر باری باری ہم سوار ہوتے تھے۔ (پیدل طویل اور پر مشقت سفر کی وجہ سے) ہمارے پاؤں پھٹ گئے اور میرے بھی پاؤں پھٹ گئے تھے۔ ناخن بھی جھڑ گئے تھے۔ چناچہ ہم قدموں پر کپڑے کی پٹی باندھ باندھ کر چل رہے تھے۔ اسی لیے اس کا نام غزوہ ذات الرقاع پڑا ‘ کیونکہ ہم نے قدموں کو پٹیوں سے باندھ رکھا تھا۔ ابوموسیٰ اشعری (رض) نے یہ حدیث تو بیان کردی ‘ لیکن پھر ان کو اس کا اظہار اچھا نہیں معلوم ہوا۔ فرمانے لگے کہ مجھے یہ حدیث بیان نہ کرنی چاہیے تھی۔ ان کو اپنا نیک عمل ظاہر کرنا برا معلوم ہوا۔
باب: غزوہ ذات الرقاع کا بیان۔
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے امام مالک نے ‘ ان سے یزید بن رومان نے ‘ ان سے صالح بن خوات نے ‘ ایک ایسے صحابی سے بیان کیا جو نبی کریم ﷺ کے ساتھ غزوہ ذات الرقاع میں شریک تھے کہ نبی کریم ﷺ نے نماز خوف پڑھی تھی۔ اس کی صورت یہ ہوئی تھی کہ پہلے ایک جماعت نے آپ کی اقتداء میں نماز پڑھی۔ اس وقت دوسری جماعت (مسلمانوں کی) دشمن کے مقابلے پر کھڑی تھی۔ نبی کریم ﷺ نے اس جماعت کو جو آپ کے پیچھے صف میں کھڑی تھی ‘ ایک رکعت نماز خوف پڑھائی اور اس کے بعد آپ کھڑے رہے۔ اس جماعت نے اس عرصہ میں اپنی نماز پوری کرلی اور واپس آ کر دشمن کے مقابلے میں کھڑی ہوگئی۔ اس کے بعد دوسری جماعت آئی تو آپ ﷺ نے انہیں نماز کی دوسری رکعت پڑھائی جو باقی رہ گئی تھی اور (رکوع و سجدہ کے بعد) آپ قعدہ میں بیٹھے رہے۔ پھر ان لوگوں نے جب اپنی نماز (جو باقی رہ گئی تھی) پوری کرلی تو آپ نے ان کے ساتھ سلام پھیرا۔ اور معاذ نے بیان کیا ‘ ان سے ہشام نے بیان کیا ‘ ان سے ابوزبیر نے اور ان سے جابر (رض) نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ مقام نخل میں تھے۔ پھر انہوں نے نماز خوف کا ذکر کیا۔ امام مالک نے بیان کیا کہ نماز خوف کے سلسلے میں جتنی روایات میں نے سنی ہیں یہ روایت ان سب میں زیادہ بہتر ہے۔ معاذ بن ہشام کے ساتھ اس حدیث کو لیث بن سعد نے بھی ہشام بن سعد مدنی سے ‘ انہوں نے زید بن اسلم سے روایت کیا اور ان سے قاسم بن محمد نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے غزوہ بنو انمار میں (نماز خوف) پڑھی تھی۔
باب: غزوہ ذات الرقاع کا بیان۔
مجھ سے محمد بن عبیداللہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے ابن حازم نے بیان کیا ‘ ان سے یحییٰ نے ‘ انہوں نے قاسم سے سنا ‘ انہیں صالح بن خوات نے خبر دی ‘ انہوں نے سہل بن ابی حثمہ (رض) سے ان کا قول بیان کیا۔
باب: غزوہ ذات الرقاع کا بیان۔
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو شعیب نے خبر دی ‘ ان سے زہری نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھے سالم نے خبر دی اور ان سے ابن عمر (رض) نے کہ میں نجد کی طرف نبی کریم ﷺ کے ساتھ غزوہ کے لیے گیا تھا۔ وہاں ہم دشمن کے آمنے سامنے ہوئے اور ان کے مقابلے میں صف بندی کی۔
باب: غزوہ ذات الرقاع کا بیان۔
ہم سے مسدد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے معمر نے بیان کیا ‘ ان سے زہری نے ‘ ان سے سالم بن عبداللہ بن عمر (رض) نے اور ان سے ان کے والد نے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک جماعت کے ساتھ نماز (نماز خوف) پڑھی اور دوسری جماعت اس عرصہ میں دشمن کے مقابلے پر کھڑی تھی۔ پھر یہ جماعت جب اپنے دوسرے ساتھیوں کی جگہ (نماز پڑھ کر) چلی گئی تو دوسری جماعت آئی اور نبی کریم ﷺ نے انہیں بھی ایک رکعت نماز پڑھائی۔ اس کے بعد آپ نے اس جماعت کے ساتھ سلام پھیرا۔ آخر اس جماعت نے کھڑے ہو کر اپنی ایک رکعت پوری کی اور پہلی جماعت نے بھی کھڑے ہو کر اپنی ایک رکعت پوری کی۔
باب: غزوہ ذات الرقاع کا بیان۔
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے شعیب نے بیان کیا ‘ ان سے زہری نے بیان کیا ‘ ان سے سنان اور ابوسلمہ نے بیان کیا اور انہیں جابر (رض) نے خبر دی کہ وہ نبی کریم ﷺ کے ساتھ اطراف نجد میں لڑائی کے لیے گئے تھے۔
باب: غزوہ ذات الرقاع کا بیان۔
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے میرے بھائی عبدالحمید نے بیان کیا ‘ ان سے سلیمان بن بلال نے ‘ ان سے محمد بن ابی عتیق نے ‘ ان سے ابن شہاب نے ‘ ان سے سنان بن ابی سنان دولی نے ‘ انہیں جابر (رض) نے خبر دی کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اطراف نجد میں غزوہ کے لیے گئے تھے۔ پھر جب نبی کریم ﷺ واپس ہوئے تو وہ بھی واپس ہوئے۔ قیلولہ کا وقت ایک وادی میں آیا ‘ جہاں ببول کے درخت بہت تھے۔ چناچہ نبی کریم ﷺ وہیں اتر گئے اور صحابہ رضی اللہ عنہم درختوں کے سائے کے لیے پوری وادی میں پھیل گئے۔ آپ ﷺ نے بھی ایک ببول کے درخت کے نیچے قیام فرمایا اور اپنی تلوار اس درخت پر لٹکا دی۔ جابر (رض) نے بیان کیا کہ ابھی تھوڑی دیر ہمیں سوئے ہوئے ہوئی تھی کہ نبی کریم ﷺ نے ہمیں پکارا۔ ہم جب خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ کے پاس ایک بدوی بیٹھا ہوا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس شخص نے میری تلوار (مجھ ہی پر) کھینچ لی تھی ‘ میں اس وقت سویا ہوا تھا ‘ میری آنکھ کھلی تو میری ننگی تلوار اس کے ہاتھ میں تھی۔ اس نے مجھ سے کہا ‘ تمہیں میرے ہاتھ سے آج کون بچائے گا ؟ میں نے کہا کہ اللہ ! اب دیکھو یہ بیٹھا ہوا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پھر کوئی سزا نہیں دی۔ اور ابان نے کہا کہ ہم سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا ‘ ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے جابر (رض) نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ ذات الرقاع میں تھے۔ کہ ہم ایک گھنے سایہ دار درخت کے پاس آئے۔ وہ درخت ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مخصوص کردیا کہ آپ وہاں آرام فرمائیں۔ بعد میں مشرکین میں سے ایک شخص آیا ‘ آپ ﷺ کی تلوار درخت سے لٹک رہی تھی۔ اس نے وہ تلوار آپ ﷺ پر کھینچ لی اور پوچھا ‘ تم مجھ سے ڈرتے ہو ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ نہیں۔ اس پر اس نے پوچھا آج میرے ہاتھ سے تمہیں کون بچائے گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ ! پھر صحابہ رضی اللہ عنہم نے اسے ڈانٹا دھمکایا اور نماز کی تکبیر کہی گئی۔ تو آپ ﷺ نے پہلے ایک جماعت کو دو رکعت نماز خوف پڑھائی جب وہ جماعت (آپ ﷺ کے پیچھے سے) ہٹ گئی تو آپ نے دوسری جماعت کو بھی دو رکعت نماز پڑھائی۔ اس طرح نبی کریم ﷺ کی چار رکعت نماز ہوئی۔ لیکن مقتدیوں کی صرف دو دو رکعت اور مسدد نے بیان کیا ‘ ان سے ابوعوانہ نے ‘ ان سے ابوبسر نے کہ اس شخص کا نام (جس نے آپ پر تلوار کھینچی تھی) غورث بن حارث تھا اور نبی کریم ﷺ نے اس غزوہ میں قبیلہ محارب خصفہ سے جنگ کی تھی۔ اور ابو الزبیر نے جابر (رض) سے بیان کیا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ مقام نخل میں تھے تو آپ ﷺ نے نماز خوف پڑھائی اور ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ نماز خوف غزوہ نجد میں پڑھی تھی۔ یہ یاد رہے کہ ابوہریرہ (رض) نبی کریم ﷺ کی خدمت میں (سب سے پہلے) غزوہ خیبر کے موقع پر حاضر ہوئے تھے۔
None
ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مقام نخل میں تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز خوف پڑھائی اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز خوف غزوہ نجد میں پڑھی تھی۔ یہ یاد رہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ( سب سے پہلے ) غزوہ خیبر کے موقع پر حاضر ہوئے تھے۔
باب: غزوہ بنو المصطلق کا بیان جو قبیلہ بنو خزاعہ سے ہوا تھا اور یہی غزوہ مریسیع (بھی کہلاتا) ہے۔
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو اسماعیل بن جعفر نے خبر دی ‘ انہیں ربیعہ بن ابی عبدالرحمٰن نے ‘ انہیں محمد بن یحییٰ بن حبان نے اور ان سے ابومحیریز نے بیان کیا کہ میں مسجد میں داخل ہوا تو ابو سعید خدری (رض) اندر موجود تھے۔ میں ان کے پاس بیٹھ گیا اور میں نے عزل کے متعلق ان سے سوال کیا۔ انہوں نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوہ بنی المصطلق کے لیے نکلے۔ اس غزوہ میں ہمیں کچھ عرب کے قیدی ملے (جن میں عورتیں بھی تھیں) پھر اس سفر میں ہمیں عورتوں کی خواہش ہوئی اور بےعورت رہنا ہم پر مشکل ہوگیا۔ دوسری طرف ہم عزل کرنا چاہتے تھے (اس خوف سے کہ بچہ نہ پیدا ہو) ہمارا ارادہ یہی تھا کہ عزل کرلیں لیکن پھر ہم نے سوچا کہ رسول اللہ ﷺ موجود ہیں۔ آپ سے پوچھے بغیر عزل کرنا مناسب نہ ہوگا۔ چناچہ ہم نے آپ سے اس کے متعلق پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر تم عزل نہ کرو پھر بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ قیامت تک جو جان پیدا ہونے والی ہے وہ ضرور پیدا ہو کر رہے گی۔
باب: غزوہ بنو المصطلق کا بیان جو قبیلہ بنو خزاعہ سے ہوا تھا اور یہی غزوہ مریسیع (بھی کہلاتا) ہے۔
ہم سے محمود بن غیلان نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو معمر نے خبر دی ‘ انہیں زہری نے ‘ انہیں ابوسلمہ نے اور ان سے جابر بن عبداللہ (رض) نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ نجد کی طرف غزوہ کے لیے گئے۔ دوپہر کا وقت ہوا تو آپ ایک جنگل میں پہنچے جہاں ببول کے درخت بہت تھے۔ آپ نے گھنے درخت کے نیچے سایہ کے لیے قیام کیا اور درخت سے اپنی تلوار ٹکا دی۔ صحابہ رضی اللہ عنہم بھی درختوں کے نیچے سایہ حاصل کرنے کے لیے پھیل گئے۔ ابھی ہم اسی کیفیت میں تھے کہ نبی کریم ﷺ نے ہمیں پکارا۔ ہم حاضر ہوئے تو ایک بدوی آپ کے سامنے بیٹھا ہوا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ شخص میرے پاس آیا تو میں سو رہا تھا۔ اتنے میں اس نے میری تلوار کھینچ لی اور میں بھی بیدار ہوگیا۔ یہ میری ننگی تلوار کھینچے ہوئے میرے سر پر کھڑا تھا۔ مجھ سے کہنے لگا آج مجھ سے تمہیں کون بچائے گا ؟ میں نے کہا کہ اللہ ! (وہ شخص صرف ایک لفظ سے اتنا مرعوب ہوا کہ) تلوار کو نیام میں رکھ کر بیٹھ گیا اور دیکھ لو۔ یہ بیٹھا ہوا ہے۔ آپ ﷺ نے اسے کوئی سزا نہیں دی۔
باب: غزوہ انمار کا بیان۔
ہم سے آدم ابن ایاس نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابن ابی ذئب نے بیان کیا ‘ ان سے عثمان بن عبداللہ بن سراقہ نے بیان کیا اور ان سے جابر بن عبداللہ انصاری (رض) نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو غزوہ انمار میں دیکھا کہ نفل نماز آپ اپنی سواری پر مشرق کی طرف منہ کئے ہوئے پڑھ رہے تھے۔
باب: واقعہ افک کا بیان۔
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا ‘ ان سے صالح بن کیسان نے ‘ ان سے ابن شہاب نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے عروہ بن زبیر ‘ سعید بن مسیب ‘ علقمہ بن وقاص اور عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے بیان کیا اور ان سے نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ عائشہ (رض) نے کہ جب اہل افک (یعنی تہمت لگانے والوں) نے ان کے متعلق وہ سب کچھ کہا جو انہیں کہنا تھا (ابن شہاب نے بیان کیا کہ) تمام حضرات نے (جن چار حضرات کے نام انہوں نے روایت کے سلسلے میں لیے ہیں) مجھ سے عائشہ (رض) کی حدیث کا ایک ایک ٹکڑا بیان کیا۔ یہ بھی تھا کہ ان میں سے بعض کو یہ قصہ زیادہ بہتر طریقہ پر یاد تھا اور عمدگی سے یہ قصہ بیان کرتا تھا اور میں نے ان میں سے ہر ایک کی روایت یاد رکھی جو اس نے عائشہ (رض) سے یاد رکھی تھی۔ اگرچہ بعض لوگوں کو دوسرے لوگوں کے مقابلے میں روایت زیادہ بہتر طریقہ پر یاد تھی۔ پھر بھی ان میں باہم ایک کی روایت دوسرے کی روایت کی تصدیق کرتی ہے۔ ان لوگوں نے بیان کیا کہ عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ جب سفر کا ارادہ کرتے تو ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے درمیان قرعہ ڈالا کرتے تھے اور جس کا نام آتا تو نبی کریم ﷺ انہیں اپنے ساتھ سفر میں لے جاتے۔ عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ ایک غزوہ کے موقع پر جب آپ نے قرعہ ڈالا تو میرا نام نکلا اور میں آپ ﷺ کے ساتھ سفر میں روانہ ہوئی۔ یہ واقعہ پردہ کے حکم کے نازل ہونے کے بعد کا ہے۔ چناچہ مجھے ہودج سمیت اٹھا کر سوار کردیا جاتا اور اسی کے ساتھ اتارا جاتا۔ اس طرح ہم روانہ ہوئے۔ پھر جب نبی کریم ﷺ اپنے اس غزوہ سے فارغ ہوگئے تو واپس ہوئے۔ واپسی میں اب ہم مدینہ کے قریب تھے (اور ایک مقام پر پڑاؤ تھا) جہاں سے آپ ﷺ نے کوچ کا رات کے وقت اعلان کیا۔ کوچ کا اعلان ہوچکا تھا تو میں کھڑی ہوئی اور تھوڑی دور چل کر لشکر کے حدود سے آگے نکل گئی۔ پھر قضائے حاجت سے فارغ ہو کر میں اپنی سواری کے پاس پہنچی۔ وہاں پہنچ کر جو میں نے اپنا سینہ ٹٹولا تو ظفار (یمن کا ایک شہر) کے مہرہ کا بنا ہوا میرا ہار غائب تھا۔ اب میں پھر واپس ہوئی اور اپنا ہار تلاش کرنے لگی۔ اس تلاش میں دیر ہوگئی۔ انہوں نے بیان کیا کہ جو لوگ مجھے سوار کیا کرتے تھے وہ آئے اور میرے ہودج کو اٹھا کر انہوں نے میرے اونٹ پر رکھ دیا۔ جس پر میں سوار ہوا کرتی تھی۔ انہوں نے سمجھا کہ میں ہودج کے اندر ہی موجود ہوں۔ ان دنوں عورتیں بہت ہلکی پھلکی ہوتی تھیں۔ ان کے جسم میں زیادہ گوشت نہیں ہوتا تھا کیونکہ بہت معمولی خوراک انہیں ملتی تھی۔ اس لیے اٹھانے والوں نے جب اٹھایا تو ہودج کے ہلکے پن میں انہیں کوئی فرق معلوم نہیں ہوا۔ یوں بھی اس وقت میں ایک کم عمر لڑکی تھی۔ غرض اونٹ کو اٹھا کر وہ بھی روانہ ہوگئے۔ جب لشکر گزر گیا تو مجھے بھی اپنا ہار مل گیا۔ میں ڈیرے پر آئی تو وہاں کوئی بھی نہ تھا۔ نہ پکارنے والا نہ جواب دینے والا۔ اس لیے میں وہاں آئی جہاں میرا اصل ڈیرہ تھا۔ مجھے یقین تھا کہ جلد ہی میرے نہ ہونے کا انہیں علم ہوجائے گا اور مجھے لینے کے لیے وہ واپس لوٹ آئیں گے۔ اپنی جگہ پر بیٹھے بیٹھے میری آنکھ لگ گئی اور میں سو گئی۔ صفوان بن معطل سلمی الذکوانی (رض) لشکر کے پیچھے پیچھے آ رہے تھے۔ (تاکہ لشکر کی کوئی چیز گم ہوگئی ہو تو وہ اٹھا لیں) انہوں نے ایک سوئے انسان کا سایہ دیکھا اور جب (قریب آ کر) مجھے دیکھا تو پہچان گئے پردہ سے پہلے وہ مجھے دیکھ چکے تھے۔ مجھے جب وہ پہچان گئے تو اناللہ پڑھنا شروع کیا اور ان کی آواز سے میں جاگ اٹھی اور فوراً اپنی چادر سے میں نے اپنا چہرہ چھپالیا۔ اللہ کی قسم ! میں نے ان سے ایک لفظ بھی نہیں کہا اور نہ سوا اناللہ کے میں نے ان کی زبان سے کوئی لفظ سنا۔ وہ سواری سے اتر گئے اور اسے انہوں نے بٹھا کر اس کی اگلی ٹانگ کو موڑ دیا (تاکہ بغیر کسی مدد کے ام المؤمنین اس پر سوار ہو سکیں) میں اٹھی اور اس پر سوار ہوگئی۔ اب وہ سواری کو آگے سے پکڑے ہوئے لے کر چلے۔ جب ہم لشکر کے قریب پہنچے تو ٹھیک دوپہر کا وقت تھا۔ لشکر پڑاؤ کئے ہوئے تھا۔ ام المؤمنین (رض) نے بیان کیا کہ پھر جسے ہلاک ہونا تھا وہ ہلاک ہوا۔ اصل میں تہمت کا بیڑا عبداللہ بن ابی ابن سلول (منافق) نے اٹھا رکھا تھا۔ عروہ نے بیان کیا کہ مجھے معلوم ہوا کہ وہ اس تہمت کا چرچا کرتا اور اس کی مجلسوں میں اس کا تذکرہ ہوا کرتا۔ وہ اس کی تصدیق کرتا ‘ خوب غور اور توجہ سے سنتا اور پھیلانے کے لیے خوب کھود کرید کرتا۔ عروہ نے پہلی سند کے حوالے سے یہ بھی کہا کہ حسان بن ثابت ‘ مسطح بن اثاثہ اور حمنہ بنت جحش کے سوا تہمت لگانے میں شریک کسی کا بھی نام نہیں لیا کہ مجھے ان کا علم ہوتا۔ اگرچہ اس میں شریک ہونے والے بہت سے تھے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا (کہ جن لوگوں نے تہمت لگائی ہے وہ بہت سے ہیں) لیکن اس معاملہ میں سب سے بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والا عبداللہ بن ابی ابن سلول تھا۔ عروہ نے بیان کیا کہ عائشہ اس پر بڑی خفگی کا اظہار کرتی تھیں۔ اگر ان کے سامنے حسان بن ثابت (رض) کو برا بھلا کہا جاتا ‘ آپ فرماتیں کہ یہ شعر حسان ہی نے کہا ہے کہ میرے والد اور میرے والد کے والد اور میری عزت ‘ محمد ﷺ کی عزت کی حفاظت کے لیے تمہارے سامنے ڈھال بنی رہیں گی۔ عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ پھر ہم مدینہ پہنچ گئے اور وہاں پہنچتے ہی میں بیمار ہوگئی تو ایک مہینے تک بیمار ہی رہی۔ اس عرصہ میں لوگوں میں تہمت لگانے والوں کی افواہوں کا بڑا چرچا رہا لیکن میں ایک بات بھی نہیں سمجھ رہی تھی البتہ اپنے مرض کے دوران ایک چیز سے مجھے بڑا شبہ ہوتا کہ رسول اللہ ﷺ کی وہ محبت و عنایت میں نہیں محسوس کرتی تھی جس کو پہلے جب بھی بیمار ہوتی میں دیکھ چکی تھی۔ آپ میرے پاس تشریف لاتے ‘ سلام کرتے اور دریافت فرماتے کیسی طبیعت ہے ؟ صرف اتنا پوچھ کر واپس تشریف لے جاتے۔ آپ ﷺ کے اس طرز عمل سے مجھے شبہ ہوتا تھا۔ لیکن شر (جو پھیل چکا تھا) اس کا مجھے کوئی احساس نہیں تھا۔ مرض سے جب افاقہ ہوا تو میں ام مسطح کے ساتھ مناصع کی طرف گئی۔ مناصع (مدینہ کی آبادی سے باہر) ہمارے رفع حاجت کی جگہ تھی۔ ہم یہاں صرف رات کے وقت جاتے تھے۔ یہ اس سے پہلے کی بات ہے۔ جب بیت الخلاء ہمارے گھروں کے قریب بن گئے تھے۔ ام المؤمنین نے بیان کیا کہ ابھی ہم عرب قدیم کے طریقے پر عمل کرتے اور میدان میں رفع حاجت کے لیے جایا کرتے تھے اور ہمیں اس سے تکلیف ہوتی تھی کہ بیت الخلاء ہمارے گھروں کے قریب بنائے جائیں۔ انہوں نے بیان کیا کہ الغرض میں اور ام مسطح (رفع حاجت کے لیے) گئے۔ ام مسطح ابی رہم بن عبدالمطلب بن عبد مناف کی بیٹی ہیں۔ ان کی والدہ صخر بن عامر کی بیٹی ہیں اور وہ ابوبکر (رض) کی خالہ تھیں۔ انہی کے بیٹے مسطح بن اثاثہ بن عباد بن مطلب (رض) ہیں۔ پھر میں اور ام مسطح حاجت سے فارغ ہو کر اپنے گھر کی طرف واپس آ رہے تھے کہ ام مسطح اپنی چادر میں الجھ گئیں اور ان کی زبان سے نکلا کہ مسطح ذلیل ہو۔ میں نے کہا ‘ آپ نے بری بات زبان سے نکالی ‘ ایک ایسے شخص کو آپ برا کہہ رہی ہیں جو بدر کی لڑائی میں شریک ہوچکا ہے۔ انہوں نے اس پر کہا کیوں مسطح کی باتیں تم نے نہیں سنیں ؟ ام المؤمنین نے بیان کیا کہ میں نے پوچھا کہ انہوں نے کیا کہا ہے ؟ بیان کیا ‘ پھر انہوں نے تہمت لگانے والوں کی باتیں سنائیں۔ بیان کیا کہ ان باتوں کو سن کر میرا مرض اور بڑھ گیا۔ جب میں اپنے گھر واپس آئی تو نبی کریم ﷺ میرے پاس تشریف لائے اور سلام کے بعد دریافت فرمایا کہ کیسی طبیعت ہے ؟ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ کیا آپ مجھے اپنے والدین کے گھر جانے کی اجازت مرحمت فرمائیں گے ؟ ام المؤمنین نے بیان کیا کہ میرا ارادہ یہ تھا کہ ان سے اس خبر کی تصدیق کروں گی۔ انہوں نے بیان کیا کہ آپ ﷺ نے مجھے اجازت دے دی۔ میں نے اپنی والدہ سے (گھر جا کر) پوچھا کہ آخر لوگوں میں کس طرح کی افواہیں ہیں ؟ انہوں نے فرمایا کہ بیٹی ! فکر نہ کر ‘ اللہ کی قسم ! ایسا شاید ہی کہیں ہوا ہو کہ ایک خوبصورت عورت کسی ایسے شوہر کے ساتھ ہو جو اس سے محبت بھی رکھتا ہو اور اس کی سوکنیں بھی ہوں اور پھر اس پر تہمتیں نہ لگائی گئی ہوں۔ اس کی عیب جوئی نہ کی گئی ہو۔ ام المؤمنین نے بیان کیا کہ میں نے اس پر کہا کہ سبحان اللہ (میری سوکنوں سے اس کا کیا تعلق) اس کا تو عام لوگوں میں چرچا ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ ادھر پھر جو میں نے رونا شروع کیا تو رات بھر روتی رہی اسی طرح صبح ہوگئی اور میرے آنسو کسی طرح نہ تھمتے تھے اور نہ نیند ہی آتی تھی۔ بیان کیا کہ ادھر رسول اللہ ﷺ نے علی بن ابی طالب (رض) اور اسامہ بن زید (رض) کو اپنی بیوی کو علیحدہ کرنے کے متعلق مشورہ کرنے کے لیے بلایا کیونکہ اس سلسلے میں اب تک آپ پر وحی نازل نہیں ہوئی تھی۔ بیان کیا کہ اسامہ (رض) نے تو نبی کریم ﷺ کو اسی کے مطابق مشورہ دیا جو وہ آپ ﷺ کی بیوی (مراد خود اپنی ذات سے ہے) کی پاکیزگی اور آپ ﷺ کی ان سے محبت کے متعلق جانتے تھے۔ چناچہ انہوں نے کہا کہ آپ کی بیوی میں مجھے خیر و بھلائی کے سوا اور کچھ معلوم نہیں ہے لیکن علی (رض) نے کہا : یا رسول اللہ ! اللہ تعالیٰ نے آپ پر کوئی تنگی نہیں رکھی ہے اور عورتیں بھی ان کے علاوہ بہت ہیں۔ آپ ان کی باندی (بریرہ رضی اللہ عنہا) سے بھی دریافت فرما لیں وہ حقیقت حال بیان کر دے گی۔ بیان کیا کہ پھر آپ ﷺ نے بریرہ (رض) کو بلایا اور ان سے دریافت فرمایا کہ کیا تم نے کوئی ایسی بات دیکھی ہے جس سے تمہیں (عائشہ پر) شبہ ہوا ہو۔ بریرہ (رض) نے کہا : اس ذات کی قسم ! جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا۔ میں نے ان کے اندر کوئی ایسی چیز نہیں دیکھی جو بری ہو۔ اتنی بات ضرور ہے کہ وہ ایک نوعمر لڑکی ہیں ‘ آٹا گوندھ کر سو جاتی ہیں اور بکری آ کر اسے کھا جاتی ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ اس دن رسول اللہ ﷺ نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو خطاب کیا اور منبر پر کھڑے ہو کر عبداللہ بن ابی (منافق) کا معاملہ رکھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا۔ اے گروہ مسلمین ! اس شخص کے بارے میں میری کون مدد کرے گا جس کی اذیتیں اب میری بیوی کے معاملے تک پہنچ گئی ہیں۔ اللہ کی قسم کہ میں نے اپنی بیوی میں خیر کے سوا اور کوئی چیز نہیں دیکھی اور نام بھی ان لوگوں نے ایک ایسے شخص (صفوان بن معطل (رض) جو ام المؤمنین کو اپنے اونٹ پر لائے تھے) کا لیا ہے جس کے بارے میں بھی میں خیر کے سوا اور کچھ نہیں جانتا۔ وہ جب بھی میرے گھر آئے تو میرے ساتھ ہی آئے۔ ام المؤمنین (رض) نے بیان کیا کہ اس پر سعد بن معاذ (رض) قبیلہ بنو اسہل کے ہم رشتہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا میں، یا رسول اللہ ! آپ کی مدد کروں گا۔ اگر وہ شخص قبیلہ اوس کا ہوا تو میں اس کی گردن مار دوں گا اور اگر وہ ہمارے قبیلہ کا ہوا آپ کا اس کے متعلق بھی جو حکم ہوگا ہم بجا لائیں گے۔ ام المؤمنین نے بیان کیا کہ اس پر قبیلہ خزرج کے ایک صحابی کھڑے ہوئے۔ حسان کی والدہ ان کی چچا زاد بہن تھیں یعنی سعد بن عبادہ (رض) وہ قبیلہ خزرج کے سردار تھے اور اس سے پہلے بڑے صالح اور مخلصین میں تھے لیکن آج قبیلہ کی حمیت ان پر غالب آگئی۔ انہوں نے سعد (رض) کو مخاطب کر کے کہا : اللہ کی قسم ! تم جھوٹے ہو ‘ تم اسے قتل نہیں کرسکتے، اور نہ تمہارے اندر اتنی طاقت ہے۔ اگر وہ تمہارے قبیلہ کا ہوتا تو تم اس کے قتل کا نام نہ لیتے۔ اس کے بعد اسید بن حضیر (رض) جو سعد بن عبادہ (رض) کے چچیرے بھائی تھے کھڑے ہوئے اور سعد بن عبادہ (رض) کو مخاطب کر کے کہا : اللہ کی قسم ! تم جھوٹے ہو ‘ ہم اسے ضرور قتل کریں گے۔ اب اس میں شبہ نہیں رہا کہ تم بھی منافق ہو ‘ تم منافقوں کی طرف سے مدافعت کرتے ہو۔ اتنے میں اوس و خزرج کے دونوں قبیلے بھڑک اٹھے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آپس ہی میں لڑ پڑیں گے۔ اس وقت تک رسول اللہ ﷺ منبر پر ہی تشریف فرما تھے۔ ام المؤمنین عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ پھر آپ ﷺ سب کو خاموش کرانے لگے۔ سب حضرات چپ ہوگئے اور آپ ﷺ بھی خاموش ہوگئے۔ ام المؤمنین عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ میں اس روز پورا دن روتی رہی۔ نہ میرا آنسو تھمتا تھا اور نہ آنکھ لگتی تھی۔ بیان کیا کہ صبح کے وقت میرے والدین میرے پاس آئے۔ دو راتیں اور ایک دن میرا روتے ہوئے گزر گیا تھا۔ اس پورے عرصہ میں نہ میرا آنسو رکا اور نہ نیند آئی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ روتے روتے میرا کلیجہ پھٹ جائے گا۔ ابھی میرے والدین میرے پاس ہی بیٹھے ہوئے تھے اور میں روئے جا رہی تھی کہ قبیلہ انصار کی ایک خاتون نے اندر آنے کی اجازت چاہی۔ میں نے انہیں اجازت دے دی اور وہ بھی میرے ساتھ بیٹھ کر رونے لگیں۔ بیان کیا کہ ہم ابھی اسی حالت میں تھے کہ رسول اللہ ﷺ تشریف لائے۔ آپ نے سلام کیا اور بیٹھ گئے۔ بیان کیا کہ جب سے مجھ پر تہمت لگائی گئی تھی ‘ آپ ﷺ میرے پاس نہیں بیٹھے تھے۔ ایک مہینہ گزر گیا تھا اور میرے بارے میں آپ کو وحی کے ذریعہ کوئی اطلاع نہیں دی گئی تھی۔ بیان کیا کہ بیٹھنے کے بعد آپ ﷺ نے کلمہ شہادت پڑھا پھر فرمایا امابعد اے عائشہ ! مجھے تمہارے بارے میں اس اس طرح کی خبریں ملی ہیں ‘ اگر تم واقعی اس معاملہ میں پاک و صاف ہو تو اللہ تمہاری پاکی خود بیان کر دے گا لیکن اگر تم نے کسی گناہ کا قصد کیا تھا تو اللہ کی مغفرت چاہو اور اس کے حضور میں توبہ کرو کیونکہ بندہ جب (اپنے گناہوں کا) اعتراف کرلیتا ہے اور پھر اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرلیتا ہے۔ ام المؤمنین عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ جب آپ ﷺ اپنا کلام پورا کرچکے تو میرے آنسو اس طرح خشک ہوگئے کہ ایک قطرہ بھی محسوس نہیں ہوتا تھا۔ میں نے پہلے اپنے والد سے کہا کہ میری طرف سے رسول اللہ ﷺ کو ان کے کلام کا جواب دیں۔ والد نے فرمایا : اللہ کی قسم ! میں کچھ نہیں جانتا کہ آپ ﷺ سے مجھے کیا کہنا چاہیے۔ پھر میں نے اپنی والدہ سے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے جو کچھ فرمایا ہے وہ اس کا جواب دیں۔ والدہ نے بھی یہی کہا۔ اللہ کی قسم ! مجھے کچھ نہیں معلوم کہ آپ ﷺ سے مجھے کیا کہنا چاہیے۔ اس لیے میں نے خود ہی عرض کیا۔ حالانکہ میں بہت کم عمر لڑکی تھی اور قرآن مجید بھی میں نے زیادہ نہیں پڑھا تھا کہ اللہ کی قسم ! مجھے بھی معلوم ہوا ہے کہ آپ لوگوں نے اس طرح کی افوہوں پر کان دھرا اور بات آپ لوگوں کے دلوں میں اتر گئی اور آپ لوگوں نے اس کی تصدیق کی۔ اب اگر میں یہ کہوں کہ میں اس تہمت سے بری ہوں تو آپ لوگ میری تصدیق نہیں کریں گے اگر اور اس گناہ کا اقرار کرلوں اور اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ میں اس سے بری ہوں تو آپ لوگ اس کی تصدیق کرنے لگ جائیں گے۔ پس اللہ کی قسم ! میری اور لوگوں کی مثال یوسف (علیہ السلام) کے والد جیسی ہے۔ جب انہوں نے کہا تھا فصبر جميل والله المستعان على ما تصفون (یوسف : 18) پس صبر جمیل بہتر ہے اور اللہ ہی کی مدد درکار ہے اس بارے میں جو کچھ تم کہہ رہے ہو پھر میں نے اپنا رخ دوسری طرف کرلیا اور اپنے بستر پر لیٹ گئی۔ اللہ خوب جانتا تھا کہ میں اس معاملہ میں قطعاً بری تھی اور وہ خود میری برات ظاہر کرے گا۔ کیونکہ میں واقعی بری تھی لیکن اللہ کی قسم ! مجھے اس کا کوئی وہم و گمان بھی نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعہ قرآن مجید میں میرے معاملے کی صفائی اتارے گا کیونکہ میں اپنے کو اس سے بہت کمتر سمجھتی تھی کہ اللہ تعالیٰ میرے معاملہ میں خود کوئی کلام فرمائے ‘ مجھے تو صرف اتنی امید تھی کہ آپ ﷺ کوئی خواب دیکھیں گے جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ میری برات کر دے گا لیکن اللہ کی قسم ! ابھی نبی کریم ﷺ مجلس سے اٹھے بھی نہیں تھے اور نہ اور کوئی گھر کا آدمی وہاں سے اٹھا تھا کہ آپ ﷺ پر وحی نازل ہونی شروع ہوئی اور آپ پر وہ کیفیت طاری ہوئی جو وحی کی شدت میں طاری ہوتی تھی۔ موتیوں کی طرح پسینے کے قطرے آپ کے چہرے سے گرنے لگے۔ حالانکہ سردی کا موسم تھا۔ یہ اس وحی کی وجہ سے تھا جو آپ پر نازل ہو رہی تھی۔ ام المؤمنین (رض) نے بیان کیا کہ پھر آپ کی وہ کیفیت ختم ہوئی تو آپ تبسم فرما رہے تھے۔ سب سے پہلا کلمہ جو آپ کی زبان مبارک سے نکلا وہ یہ تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اے عائشہ ! اللہ نے تمہاری برات نازل کردی ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ اس پر میری والدہ نے کہا کہ نبی کریم ﷺ کے سامنے کھڑی ہوجاؤ۔ میں نے کہا ‘ نہیں اللہ کی قسم ! میں آپ کے سامنے نہیں کھڑی ہوں گی۔ میں اللہ عزوجل کے سوا اور کسی کی حمد و ثنا نہیں کروں گی (کہ اسی نے میری برات نازل کی ہے) بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا إن الذين جاء وا بالإفك جو لوگ تہمت تراشی میں شریک ہوئے ہیں دس آیتیں اس سلسلہ میں نازل فرمائیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے (سورۃ النور میں) یہ آیتیں میری برات کے لیے نازل فرمائیں تو ابوبکر صدیق (رض) (جو مسطح بن اثاثہ کے اخراجات ‘ ان سے قرابت اور ان کی محتاجی کی وجہ سے خود اٹھاتے تھے) نے کہا : اللہ کی قسم ! مسطح نے جب عائشہ کے متعلق اس طرح کی تہمت تراشی میں حصہ لیا تو میں اس پر اب کبھی کچھ خرچ نہیں کروں گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی ولا يأتل أولو الفضل منکم یعنی اہل فضل اور اہل ہمت قسم نہ کھائیں سے غفور رحيم تک (کیونکہ مسطح (رض) یا دوسرے مومنین کی اس میں شرکت محض غلط فہمی کی بنا پر تھی) ۔ چناچہ ابوبکر صدیق (رض) نے کہا کہ اللہ کی قسم ! میری تمنا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس کہنے پر معاف کر دے اور مسطح کو جو کچھ دیا کرتے تھے ‘ اسے پھر دینے لگے اور کہا کہ اللہ کی قسم ! اب اس وظیفہ کو میں کبھی بند نہیں کروں گا۔ عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ میرے معاملے میں آپ ﷺ نے ام المؤمنین زینب بنت جحش (رض) سے بھی مشورہ کیا تھا۔ آپ نے ان سے پوچھا کہ عائشہ کے متعلق کیا معلومات ہیں تمہیں یا ان میں تم نے کیا چیز دیکھی ہے ؟ انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! میں اپنی آنکھوں اور کانوں کو محفوظ رکھتی ہوں (کہ ان کی طرف خلاف واقعہ نسبت کروں) اللہ کی قسم ! میں ان کے بارے میں خیر کے سوا اور کچھ نہیں جانتی۔ عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ زینب ہی تمام ازواج مطہرات میں میرے مقابل کی تھیں لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے تقویٰ اور پاکبازی کی وجہ سے انہیں محفوظ رکھا۔ بیان کیا کہ البتہ ان کی بہن حمنہ نے غلط راستہ اختیار کیا اور ہلاک ہونے والوں کے ساتھ وہ بھی ہلاک ہوئی تھیں۔ ابن شہاب نے بیان کیا کہ یہی تھی وہ تفصیل اس حدیث کی جو ان اکابر کی طرف سے مجھ تک پہنچی تھی۔ پھر عروہ نے بیان کیا کہ عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ اللہ کی قسم ! جن صحابی کے ساتھ یہ تہمت لگائی گئی تھی وہ (اپنے پر اس تہمت کو سن کر) کہتے ‘ سبحان اللہ ‘ اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ‘ میں نے آج تک کسی عورت کا پردہ نہیں کھولا۔ ام المؤمنین (رض) نے بیان کیا کہ پھر اس واقعہ کے بعد وہ اللہ کے راستے میں شہید ہوگئے تھے۔
باب: واقعہ افک کا بیان۔
مجھ سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہشام بن یوسف نے اپنی یاد سے مجھے حدیث لکھوائی۔ انہوں نے بیان کیا کہ ہمیں معمر نے خبر دی ‘ ان سے زہری نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے خلیفہ ولید بن عبدالملک نے پوچھا ‘ کیا تم کو معلوم ہے کہ علی (رض) بھی عائشہ (رض) پر تہمت لگانے والوں میں تھے ؟ میں نے کہا کہ نہیں ‘ البتہ تمہاری قوم (قریش) کے دو آدمیوں ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن اور ابوبکر بن عبدالرحمٰن بن حارث نے مجھے خبر دی کہ عائشہ (رض) نے ان سے کہا کہ علی (رض) ان کے معاملے میں خاموش تھے۔ پھر لوگوں نے ہشام بن یوسف (یا زہری) سے دوبارہ پوچھا۔ انہوں نے یہی کہا مسلما اس میں شک نہ کیا مسيئا کا لفظ نہیں کہا اور عليه کا لفظ زیاوہ کیا (یعنی زہری نے ولید کو اور کچھ جواب نہیں دیا اور پرانے نسخہ میں مسلما کا لفظ تھا) ۔
باب: واقعہ افک کا بیان۔
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا ‘ ان سے حصین بن عبدالرحمٰن نے ‘ ان سے ابو وائل شقیق بن سلمہ نے بیان کیا ‘ ان سے مسروق بن اجدع نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے ام رومان (رض) نے بیان کیا ‘ وہ عائشہ (رض) کی والدہ ہیں۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں اور عائشہ (رض) بیٹھی ہوئی تھیں کہ ایک انصاری خاتون آئیں اور کہنے لگیں کہ اللہ فلاں، فلاں کو تباہ کرے۔ ام رومان نے پوچھا کہ کیا بات ہے ؟ انہوں نے کہا کہ میرا لڑکا بھی ان لوگوں کے ساتھ شریک ہوگیا ہے۔ جنہوں نے اس طرح کی بات کی ہے۔ ام رومان (رض) نے پوچھا کہ آخر بات کیا ہے ؟ اس پر انہوں نے تہمت لگانے والوں کی باتیں نقل کردیں۔ عائشہ (رض) نے پوچھا : کیا رسول اللہ ﷺ نے بھی یہ باتیں سنیں ہیں ؟ انہوں نے بیان کیا کہ ہاں۔ انہوں نے پوچھا اور ابوبکر (رض) نے بھی ؟ انہوں نے کہا کہ ہاں ‘ انہوں نے بھی۔ یہ سنتے ہی وہ غش کھا کر گرپڑیں اور جب ہوش آیا تو جاڑے کے ساتھ بخار چڑھا ہوا تھا۔ میں نے ان پر ان کے کپڑے ڈال دیئے اور اچھی طرح ڈھک دیا۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور دریافت فرمایا کہ انہیں کیا ہوا ہے ؟ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! جاڑے کے ساتھ بخار چڑھ گیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ غالباً اس نے اس طوفان کی بات سن لی ہے۔ ام رومان (رض) نے کہا کہ جی ہاں۔ پھر عائشہ (رض) نے بیٹھ کر کہا کہ اللہ کی قسم ! اگر میں قسم کھاؤں کہ میں بےگناہ ہوں تو آپ لوگ میری تصدیق نہیں کریں گے اور اگر کچھ کہوں تب بھی میرا عذر نہیں سنیں گے۔ میری اور آپ لوگوں کی یعقوب (علیہ السلام) اور ان کے بیٹوں جیسی مثال ہے کہ انہوں نے کہا تھا والله المستعان على ما تصفون یعنی اللہ ان باتوں پر جو تم بناتے ہو مدد کرنے والا ہے۔ ام رومان (رض) نے کہا : نبی کریم ﷺ عائشہ (رض) کی یہ تقریر سن کر لوٹ گئے ‘ کچھ جواب نہیں دیا۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے خود ان کی تلافی نازل کی۔ وہ نبی کریم ﷺ سے کہنے لگیں بس میں اللہ ہی کا شکر ادا کرتی ہوں نہ آپ کا نہ کسی اور کا۔
باب: واقعہ افک کا بیان۔
مجھ سے یحییٰ بن جعفر نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے وکیع نے بیان کیا ‘ ان سے نافع بن عمر نے ‘ ان سے ابن ابی ملیکہ نے کہ عائشہ (رض) (سورۃ النور کی آیت میں) قرآت إذ تلقونه بألسنتکم کرتی تھیں اور (اس کی تفسیر میں) فرماتی تھیں کہ الولق جھوٹ کے معنی میں ہے۔ ابن ابی ملیکہ نے بیان کیا کہ عائشہ (رض) ان آیات کو دوسروں سے زیادہ جانتی تھیں کیونکہ وہ خاص ان ہی کے باب میں اتری تھیں۔
باب: واقعہ افک کا بیان۔
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عبدہ بن سلیمان نے بیان کیا ‘ ان سے ہشام نے، ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ میں عائشہ (رض) کے سامنے حسان بن ثابت (رض) کو برا کہنے لگا تو انہوں نے کہا کہ انہیں برا نہ کہو ‘ کیونکہ وہ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے کفار کو جواب دیتے تھے اور عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ سے مشرکین قریش کی ہجو کہنے کی اجازت چاہی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر میرے نسب کا کیا ہوگا ؟ حسان (رض) نے کہا کہ میں آپ کو ان سے اس طرح الگ کرلوں گا جیسے بال گندھے ہوئے آٹے سے کھینچ لیا جاتا ہے۔ اور محمد بن عقبہ (امام بخاری (رح) کے شیخ) نے بیان کیا ‘ ہم سے عثمان بن فرقد نے بیان کیا ‘ کہا میں نے ہشام سے سنا ‘ انہوں نے اپنے والد سے ‘ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے حسان بن ثابت (رض) کو برا بھلا کہا کیونکہ انہوں نے بھی عائشہ (رض) پر تہمت لگانے میں بہت حصہ لیا تھا۔
باب: واقعہ افک کا بیان۔
مجھ سے بشر بن خالد نے بیان کیا ‘ ہم کو محمد بن جعفر نے خبر دی ‘ انہیں شعبہ نے ‘ انہیں سلیمان نے ‘ انہیں ابوالضحیٰ نے اور ان سے مسروق نے بیان کیا کہ ہم عائشہ (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ان کے یہاں حسان بن ثابت (رض) موجود تھے اور ام المؤمنین (رض) کو اپنے اشعار سنا رہے تھے۔ ایک شعر تھا جس کا ترجمہ یہ ہے۔ وہ سنجیدہ اور پاک دامن ہیں جس پر کبھی تہمت نہیں لگائی گئی ‘ وہ ہر صبح بھوکی ہو کر نادان بہنوں کا گوشت نہیں کھاتی۔ اس پر عائشہ (رض) نے کہا لیکن تم تو ایسے نہیں ثابت ہوئے۔ مسروق نے بیان کیا کہ پھر میں نے عائشہ (رض) سے عرض کیا ‘ آپ انہیں اپنے یہاں آنے کی اجازت کیوں دیتی ہیں۔ جبکہ اللہ تعالیٰ ان کے متعلق فرما چکا ہے والذي تولى كبره منهم له عذاب عظيم اور ان میں وہ شخص جو تہمت لگانے میں سب سے زیادہ ذمہ دار ہے اس کے لیے بڑا عذاب ہوگا۔ اس پر ام المؤمنین نے فرمایا کہ نابینا ہوجانے سے سخت عذاب اور کیا ہوگا (حسان (رض) کی بصارت آخر عمر میں چلی گئی تھی) عائشہ (رض) نے ان سے کہا کہ حسان (رض) رسول اللہ ﷺ کی حمایت کیا کرتے تھے۔
باب: غزوہ حدیبیہ کا بیان۔
ہم سے خالد بن مخلد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے صالح بن کیسان نے بیان کیا ‘ ان سے عبیداللہ بن عبداللہ نے اور ان سے زید بن خالد (رض) نے بیان کیا کہ حدیبیہ کے سال ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے تو ایک دن، رات کو بارش ہوئی۔ نبی کریم ﷺ نے صبح کی نماز پڑھانے کے بعد ہم سے خطاب کیا اور دریافت فرمایا کہ معلوم ہے تمہارے رب نے کیا کہا ؟ ہم نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ صبح ہوئی تو میرے کچھ بندوں نے اس حالت میں صبح کی کہ ان کا ایمان مجھ پر تھا اور کچھ نے اس حالت میں صبح کی کہ وہ میرا انکار کئے ہوئے تھے۔ تو جس نے کہا کہ ہم پر یہ بارش اللہ کے رزق ‘ اللہ کی رحمت اور اللہ کے فضل سے ہوئی ہے تو وہ مجھ پر ایمان لانے والا ہے اور ستارے کا انکار کرنے والا ہے اور جو شخص یہ کہتا ہے کہ بارش فلاں ستارے کی تاثیر سے ہوئی ہے تو وہ ستاروں پر ایمان لانے والا اور میرے ساتھ کفر کرنے والا ہے۔
باب: غزوہ حدیبیہ کا بیان۔
ہم سے ہدبہ بن خالد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ہمام بن یحییٰ نے بیان کیا ‘ ان سے قتادہ نے بیان کیا ‘ انہیں انس بن مالک (رض) نے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ نے چار عمرے کئے اور سوا اس عمرے کے جو آپ ﷺ نے حج کے ساتھ کیا ‘ تمام عمرے ذیقعدہ (کے مہینے) میں کئے۔ حدیبیہ کا عمرہ بھی آپ ﷺ ذی قعدہ (کے مہینے) میں کرنے تشریف لے گئے پھر دوسرے سال (اس کی قضاء میں) آپ نے ذی قعدہ میں عمرہ کیا اور ایک عمرہ جعرانہ سے آپ نے کیا تھا ‘ جہاں غزوہ حنین کی غنیمت آپ نے تقسیم کی تھی۔ یہ بھی ذی قعدہ میں کیا تھا اور ایک عمرہ حج کے ساتھ کیا (جو ذی الحجہ میں کیا تھا) ۔
باب: غزوہ حدیبیہ کا بیان۔
ہم سے سعید بن ربیع نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے علی بن مبارک نے بیان کیا ‘ ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے ‘ ان سے عبداللہ بن ابی قتادہ نے اور ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ صلح حدیبیہ کے سال روانہ ہوئے ‘ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم نے احرام باندھ لیا تھا لیکن میں نے ابھی احرام نہیں باندھا تھا۔
باب: غزوہ حدیبیہ کا بیان۔
ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا ‘ ان سے اسرائیل نے ‘ ان سے ابواسحاق نے ان سے براء بن عازب (رض) نے کہا کہ ‘ تم لوگ (سورۃ انا فتحنا میں) فتح سے مراد مکہ کی فتح لیتے ہو۔ فتح مکہ تو بہرحال فتح ہی تھی لیکن ہم غزوہ حدیبیہ کی بیعت رضوان کو حقیقی فتح سمجھتے ہیں۔ اس دن ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ چودہ سو آدمی تھے۔ حدیبیہ نامی ایک کنواں وہاں پر تھا ‘ ہم نے اس میں سے اتنا پانی کھینچا کہ اس کے اندر ایک قطرہ بھی پانی باقی نہ رہا۔ نبی کریم ﷺ کو جب یہ خبر ہوئی (کہ پانی ختم ہوگیا ہے) تو آپ ﷺ کنویں پر تشریف لائے اور اس کے کنارے پر بیٹھ کر کسی ایک برتن میں پانی طلب فرمایا۔ اس سے آپ ﷺ نے وضو کیا اور کلی کی اور دعا فرمائی۔ پھر سارا پانی اس کنویں میں ڈال دیا۔ تھوڑی دیر کے لیے ہم نے کنویں کو یوں ہی رہنے دیا اور اس کے بعد جتنا ہم نے چاہا اس میں سے پانی پیا اور اپنی سواریوں کو پلایا۔
باب: غزوہ حدیبیہ کا بیان۔
مجھ سے فضل بن یعقوب نے بیان کیا ‘ ہم سے حسن بن محمد بن اعین ابوعلی حرانی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے زہیر بن معاویہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابواسحاق سبیعی نے بیان کیا کہ ہمیں براء بن عازب (رض) نے خبر دی کہ وہ لوگ غزوہ حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک ہزار چار سو کی تعداد میں تھے یا اس سے بھی زیادہ۔ ایک کنویں پر پڑاؤ ہوا لشکر نے اس کا (سارا) پانی کھینچ لیا اور نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ نبی کریم ﷺ کنویں کے پاس تشریف لائے اور اس کی منڈیر پر بیٹھ گئے۔ پھر فرمایا کہ ایک ڈول میں اسی کنویں کا پانی لاؤ۔ پانی لایا گیا تو آپ ﷺ نے اس میں کلی کی اور دعا فرمائی۔ پھر فرمایا کہ کنویں کو یوں ہی تھوڑی دیر کے لیے رہنے دو ۔ اس کے بعد سارا لشکر خود بھی سیراب ہوتا رہا اور اپنی سواریوں کو بھی خوب پلاتا رہا۔ یہاں تک کہ وہاں سے انہوں نے کوچ کیا۔
باب: غزوہ حدیبیہ کا بیان۔
ہم سے یوسف بن عیسیٰ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے محمد بن فضیل نے ‘ کہا ہم سے حصین بن عبدالرحمٰن نے ‘ ان سے سالم بن ابی الجعد نے اور ان سے جابر (رض) نے بیان کیا کہ غزوہ حدیبیہ کے موقع پر سارا ہی لشکر پیاسا ہوچکا تھا۔ رسول اللہ ﷺ کے سامنے ایک چھاگل تھا ‘ اس کے پانی سے آپ نے وضو کیا۔ پھر صحابہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ کیا بات ہے ؟ صحابہ بولے کہ یا رسول اللہ ! ہمارے پاس اب پانی نہیں رہا ‘ نہ وضو کرنے کے لیے اور نہ پینے کے لیے۔ سوا اس پانی کے جو آپ کے برتن میں موجود ہے۔ بیان کیا کہ پھر نبی کریم ﷺ نے اپنا ہاتھ اس برتن میں رکھا اور پانی آپ کی انگلیوں کے درمیان سے چشمے کی طرح پھوٹ پھوٹ کر ابلنے لگا۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر ہم نے پانی پیا بھی اور وضو بھی کیا۔ (سالم کہتے ہیں کہ) میں نے جابر (رض) سے پوچھا کہ آپ لوگ کتنی تعداد میں تھے ؟ انہوں نے بتلایا کہ اگر ہم ایک لاکھ بھی ہوتے تو بھی وہ پانی کافی ہوجاتا۔ ویسے اس وقت ہماری تعداد پندرہ سو تھی۔
باب: غزوہ حدیبیہ کا بیان۔
ہم سے صلت بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، ان سے سعید بن ابی عروبہ نے، ان سے قتادہ نے کہ میں نے سعید بن مسیب سے پوچھا ‘ مجھے معلوم ہوا ہے کہ جابر (رض) کہا کرتے تھے کہ (حدیبیہ کی صلح کے موقع پر) صحابہ کی تعداد چودہ سو تھی۔ اس پر سعید بن مسیب نے بیان کیا کہ مجھ سے جابر (رض) نے یہ کہا تھا اس موقع پر پندرہ سو صحابہ رضی اللہ عنہم موجود تھے۔ جنہوں نے نبی کریم ﷺ سے حدیبیہ میں بیعت کی تھی۔ ابوداؤد طیالسی نے بیان کیا، ہم سے قرۃ بن خالد نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور محمد بن بشار نے بھی ابوداؤد طیالسی کے ساتھ اس کو روایت کیا ہے۔
باب: غزوہ حدیبیہ کا بیان۔
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ‘ ان سے عمرو بن دینار نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ میں نے جابر بن عبداللہ (رض) سے سنا ‘ انہوں نے بیان کیا کہ ہم سے رسول اللہ ﷺ نے غزوہ حدیبیہ کے موقع پر فرمایا تھا کہ تم لوگ تمام زمین والوں میں سب سے بہتر ہو۔ ہماری تعداد اس موقع پر چودہ سو تھی۔ اگر آج میری آنکھوں میں بینائی ہوتی تو میں تمہیں اس درخت کا مقام دکھاتا۔ اس روایت کی متابعت اعمش نے کی، ان سے سالم نے سنا اور انہوں نے جابر (رض) سے سنا کہ چودہ سو صحابہ غزوہ حدیبیہ میں تھے۔ اور عبیداللہ بن معاذ نے بیان کیا ‘ ان سے ان کے والد نے بیان کیا ‘ ان سے شعبہ نے بیان کیا ‘ ان سے عمرو بن مرہ نے ‘ ان سے عبداللہ بن ابی اوفی (رض) نے بیان کیا کہ درخت والوں (بیعت رضوان کرنے والوں) کی تعداد تیرہ سو تھی۔ قبیلہ اسلم مہاجرین کا آٹھواں حصہ تھے۔ اس روایت کی متابعت محمد بن بشار نے کی ‘ ان سے ابوداؤد طیالسی نے بیان کیا اور ان سے شعبہ نے۔
باب: غزوہ حدیبیہ کا بیان۔
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو عیسیٰ بن یونس نے خبر دی ‘ انہیں اسماعیل بن ابی خالد نے ‘ انہیں قیس بن ابی حازم نے اور انہوں نے مرداس اسلمی (رض) سے سنا ‘ وہ اصحاب شجرہ (غزوہ حدیبیہ میں شریک ہونے والوں) میں سے تھے ‘ وہ بیان کرتے تھے کہ پہلے صالحین قبض کئے جائیں گے۔ جو زیادہ صالح ہوگا اس کی روح سب سے پہلے اور جو اس کے بعد کے درجے کا ہوگا اس کی اس کے بعد پھر ردی اور بےکار کھجور اور جَو کی طرح بےکار لوگ باقی رہ جائیں گے جن کی اللہ کے نزدیک کوئی قدر نہیں ہوگی۔
باب: غزوہ حدیبیہ کا بیان۔
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا ‘ ان سے زہری نے ‘ ان سے عروہ نے ‘ ان سے خلیفہ مروان اور مسور بن مخرمہ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ صلح حدیبیہ کے موقع پر تقریباً ایک ہزار صحابہ رضی اللہ عنہم کو ساتھ لے کر روانہ ہوئے۔ جب آپ ذوالحلیفہ پہنچے تو آپ نے قربانی کے جانور کو ہار پہنایا اور ان پر نشان لگایا اور عمرہ کا احرام باندھا۔ میں نہیں شمار کرسکتا کہ میں نے یہ حدیث سفیان بن یسار سے کتنی دفعہ سنی اور ایک مرتبہ یہ بھی سنا کہ وہ بیان کر رہے تھے کہ مجھے زہری سے نشان لگانے اور قلادہ پہنانے کے متعلق یاد نہیں رہا۔ اس لیے میں نہیں جانتا ‘ اس سے ان کی مراد صرف نشان لگانے اور قلادہ پہنانے سے تھی یا پوری حدیث سے تھی۔
باب: غزوہ حدیبیہ کا بیان۔
ہم سے حسن بن خلف نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے اسحاق بن یوسف نے بیان کیا ‘ ان سے ابوبشر ورقاء بن عمر نے ‘ ان سے ابن ابی نجیح نے ‘ ان سے مجاہد نے بیان کیا ‘ ان سے عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ نے بیان کیا اور ان سے کعب بن عجرہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں دیکھا کہ جوئیں ان کے چہرے پر گر رہی ہیں تو آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ کیا اس سے تمہیں تکلیف ہوتی ہے ؟ وہ بولے کہ جی ہاں ‘ اس پر آپ ﷺ نے انہیں سر منڈوانے کا حکم دیا۔ آپ اس وقت حدیبیہ میں تھے (عمرہ کے لیے احرام باندھے ہوئے) اور ان کو یہ معلوم نہیں ہوا تھا کہ وہ عمرہ سے روکے جائیں گے۔ حدیبیہ ہی میں ان کو احرام کھول دینا پڑے گا۔ بلکہ ان کی تو یہ آرزو تھی کہ مکہ میں کسی طرح داخل ہوا جائے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فدیہ کا حکم نازل فرمایا (یعنی احرام کی حالت میں) سر منڈوانے وغیرہ پر ‘ اس وقت آپ ﷺ نے کعب کو حکم دیا کہ ایک فرق اناج چھ مسکینوں کو کھلا دیں یا ایک بکری کی قربانی کریں یا تین دن روزے رکھیں۔
باب: غزوہ حدیبیہ کا بیان۔
ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے امام مالک (رح) نے بیان کیا ‘ ان سے زید بن اسلم نے ‘ ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ میں عمر بن خطاب (رض) کے ساتھ بازار گیا۔ عمر (رض) سے ایک نوجوان عورت نے ملاقات کی اور عرض کیا کہ امیرالمؤمنین ! میرے شوہر کی وفات ہوگئی ہے اور چند چھوٹی چھوٹی بچیاں چھوڑ گئے ہیں۔ اللہ کی قسم کہ اب نہ ان کے پاس بکری کے پائے ہیں کہ ان کو پکا لیں، نہ کھیتی ہے ‘ نہ دودھ کے جانور ہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ وہ فقر و فاقہ سے ہلاک نہ ہوجائیں۔ میں خفاف بن ایماء غفاری (رض) کی بیٹی ہوں۔ میرے والد نبی کریم ﷺ کے ساتھ غزوہ حدیبیہ میں شریک تھے۔ یہ سن کر عمر (رض) ان کے پاس تھوڑی دیر کے لیے کھڑے ہوگئے ‘ آگے نہیں بڑھے۔ پھر فرمایا ‘ مرحبا ‘ تمہارا خاندانی تعلق تو بہت قریبی ہے۔ پھر آپ ایک بہت قوی اونٹ کی طرف مڑے جو گھر میں بندھا ہوا تھا اور اس پر دو بورے غلے سے بھرے ہوئے رکھ دیئے۔ ان دونوں بوروں کے درمیان روپیہ اور دوسری ضرورت کی چیزیں اور کپڑے رکھ دیئے اور اس کی نکیل ان کے ہاتھ میں تھما کر فرمایا کہ اسے لے جا ‘ یہ ختم نہ ہوگا اس سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ تجھے اس سے بہتر دے گا۔ ایک صاحب نے اس پر کہا ‘ اے امیرالمؤمنین ! آپ نے اسے بہت دے دیا۔ عمر (رض) نے کہا ‘ تیری ماں تجھے روئے ‘ اللہ کی قسم ! اس عورت کے والد اور اس کے بھائی جیسے اب بھی میری نظروں کے سامنے ہیں کہ ایک مدت تک ایک قلعہ کے محاصرے میں وہ شریک رہے ‘ آخر اسے فتح کرلیا۔ پھر ہم صبح کو ان دونوں کا حصہ مال غنیمت سے وصول کر رہے تھے۔
باب: غزوہ حدیبیہ کا بیان۔
مجھ سے محمد بن رافع نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابوعمرو شبابہ بن سوار فزاری نے بیان کیا ‘ ان سے شعبہ نے بیان کیا ‘ ان سے قتادہ نے ‘ ان سے سعید بن مسیب نے اور ان سے ان کے والد (مسیب بن حزن رضی اللہ عنہ) نے بیان کیا کہ میں نے وہ درخت دیکھا تھا لیکن پھر بعد میں جب آیا تو میں اسے نہیں پہچان سکا۔ محمود نے بیان کیا کہ پھر بعد میں وہ درخت مجھے یاد نہیں رہا تھا۔
باب: غزوہ حدیبیہ کا بیان۔
ہم سے محمود بن غیلان نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عبیداللہ بن عبداللہ نے بیان کیا ‘ ان سے اسرائیل نے ‘ ان سے طارق بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا کہ حج کے ارادے سے جاتے ہوئے میں کچھ ایسے لوگوں کے پاس سے گزرا جو نماز پڑھ رہے تھے۔ میں نے پوچھا کہ یہ کون سی مسجد ہے ؟ انہوں نے بتایا کہ یہ وہی درخت ہے جہاں رسول اللہ ﷺ نے بیعت رضوان لی تھی۔ پھر میں سعید بن مسیب کے پاس آیا اور میں نے انہیں اس کی خبر دی ‘ انہوں نے کہا مجھ سے میرے والد مسیب بن حزن نے بیان کیا ‘ وہ ان لوگوں میں تھے جنہوں نے نبی کریم ﷺ سے اس درخت کے تلے بیعت کی تھی۔ کہتے تھے جب میں دوسرے سال وہاں گیا تو اس درخت کی جگہ کو بھول گیا۔ سعید نے کہا نبی کریم ﷺ کے اصحاب تو اس درخت کو پہچان نہ سکے۔ تم لوگوں نے کیسے پہچان لیا (اس کے تلے مسجد بنا لی) تم ان سے زیادہ علم والے ٹھہرے۔
باب: غزوہ حدیبیہ کا بیان۔
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابوعوانہ نے ‘ کہا ہم سے طارق بن عبدالرحمٰن نے ‘ ان سے سعید بن مسیب نے اور ان سے ان کے والد نے کہ انہوں نے بھی رسول اللہ ﷺ سے اس درخت کے تلے بیعت کی تھی۔ کہتے تھے کہ جب ہم دوسرے سال ادھر گئے تو ہمیں پتہ نہیں چلا کہ وہ کون سا درخت تھا۔
باب: غزوہ حدیبیہ کا بیان۔
ہم سے قبیصہ بن عقبہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا ‘ ان سے طارق بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا کہ سعید بن مسیب کی مجلس میں الشجرة کا ذکر ہوا تو وہ ہنسے اور کہا کہ میرے والد نے مجھے بتایا کہ وہ بھی اس درخت کے تلے بیعت میں شریک تھے۔
باب: غزوہ حدیبیہ کا بیان۔
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ‘ ان سے عمرو بن مرہ نے ‘ انہوں نے کہا کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفی (رض) سے سنا ‘ وہ بیعت رضوان میں شریک تھے۔ انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں جب کوئی صدقہ لے کر حاضر ہوتا تو آپ دعا کرتے کہ اے اللہ ! اس پر اپنی رحمت نازل فرما۔ چناچہ میرے والد بھی اپنا صدقہ لے کر حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے دعا کی کہ اے اللہ ! آل ابی اوفی (رض) پر اپنی رحمت نازل فرما۔
باب: غزوہ حدیبیہ کا بیان۔
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا ‘ ان سے ان کے بھائی عبدالحمید نے ‘ ان سے سلیمان بن بلال نے ‘ ان سے عمرو بن یحییٰ نے اور ان سے عباد بن تمیم نے بیان کیا کہ حرہ کی لڑائی میں لوگ عبداللہ بن حنظلہ (رض) کے ہاتھ پر بیعت کر رہے تھے۔ عبداللہ بن زید نے پوچھا کہ ابن حنظلہ سے کس بات پر بیعت کی جا رہی ہے ؟ تو لوگوں نے بتایا کہ موت پر۔ ابن زید نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد اب میں کسی سے بھی موت پر بیعت نہیں کروں گا۔ وہ آپ ﷺ کے ساتھ غزوہ حدیبیہ میں شریک تھے۔
باب: غزوہ حدیبیہ کا بیان۔
ہم سے یحییٰ بن یعلیٰ محاربی نے بیان کیا ‘ کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا ‘ ان سے ایاس بن سلمہ بن اکوع نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا ‘ وہ اصحاب شجرہ میں سے تھے ‘ انہوں نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جمعہ کی نماز پڑھ کر واپس ہوئے تو دیواروں کا سایہ ابھی اتنا نہیں ہوا تھا کہ ہم اس میں آرام کرسکیں۔
باب: غزوہ حدیبیہ کا بیان۔
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا کہ ہم سے حاتم بن اسماعیل نے بیان کیا ‘ ان سے یزید بن ابی عبید نے بیان کیا کہ میں نے سلمہ بن اکوع (رض) سے پوچھا کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر آپ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے کس چیز پر بیعت کی تھی ؟ انہوں نے بتلایا کہ موت پر۔
باب: غزوہ حدیبیہ کا بیان۔
مجھ سے احمد بن اشکاب نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے محمد بن فضیل نے بیان کیا ‘ ان سے علاء بن مسیب نے ‘ ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ میں براء بن عازب (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا ‘ مبارک ہو ! آپ کو نبی کریم ﷺ کی خدمت نصیب ہوئی اور نبی کریم ﷺ سے آپ نے شجر (درخت) کے نیچے بیعت کی۔ انہوں نے کہا بیٹے ! تمہیں معلوم نہیں کہ ہم نے نبی کریم ﷺ کے بعد کیا کیا کام کئے ہیں۔
باب: غزوہ حدیبیہ کا بیان۔
ہم سے اسحاق نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے یحییٰ بن صالح نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے معاویہ نے بیان کیا ‘ وہ سلام کے بیٹے ہیں ‘ ان سے یحییٰ نے ‘ ان سے ابوقلابہ نے اور انہیں ثابت بن ضحاک (رض) نے خبر دی کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ سے درخت کے نیچے بیعت کی تھی۔
باب: غزوہ حدیبیہ کا بیان۔
مجھ سے احمد بن اسحاق نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عثمان بن عمر نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو شعبہ نے خبر دی ‘ انہیں قتادہ نے اور انہیں انس بن مالک (رض) نے کہ (آیت) إنا فتحنا لک فتحا مبينا بیشک ہم نے تمہیں کھلی ہوئی فتح دی۔ یہ فتح صلح حدیبیہ تھی۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : نبی کریم ﷺ کے لیے تو مرحلہ آسان ہے (کہ آپ کی تمام اگلی اور پچھلی لغزشیں معاف ہوچکی ہیں) لیکن ہمارا کیا ہوگا ؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ليدخل المؤمنين والمؤمنات جنات اس لیے کہ مومن مرد اور مومن عورتیں جنت میں داخل کی جائیں گی جس کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔ شعبہ نے بیان کیا کہ پھر میں کوفہ آیا اور میں قتادہ سے پورا واقعہ بیان کیا ‘ پھر میں دوبارہ قتادہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان کے سامنے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ إنا فتحنا لك بیشک ہم نے تمہیں کھلی فتح دی ہے۔ کی تفسیر تو انس (رض) سے روایت ہے لیکن اس کے بعد هنيئا مريئا (یعنی آپ ﷺ کے لیے تو ہر مرحلہ آسان ہے) یہ تفسیر عکرمہ سے منقول ہے۔
باب: غزوہ حدیبیہ کا بیان۔
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابوعامر عقدی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے اسرائیل بن یونس نے بیان کیا ‘ ان سے مجزاۃ بن زاہر اسلمی نے اور ان سے ان کے والد زاہر بن اسود (رض) نے بیان کیا وہ بیعت رضوان میں شریک تھے۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں ہانڈی میں گدھے کا گوشت ابال رہا تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے ایک منادی نے رسول اللہ ﷺ کی طرف سے اعلان کیا کہ رسول اللہ ﷺ تمہیں گدھے کے گوشت کے کھانے سے منع فرماتے ہیں۔
باب: غزوہ حدیبیہ کا بیان۔
اور مجزاۃ نے اپنے ہی قبیلہ کے ایک صحابی کے متعلق جو بیعت رضوان میں شریک تھے اور جن کا نام اہبان بن اوس (رض) تھا ‘ نقل کیا کہ ان کے ایک گھٹنے میں تکلیف تھی ‘ اس لیے جب وہ سجدہ کرتے تو اس گھٹنے کے نیچے کوئی نرم تکیہ رکھ لیتے تھے۔
باب: غزوہ حدیبیہ کا بیان۔
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابن ابی عدی نے ‘ ان سے شعبہ نے ان سے یحییٰ بن سعید نے ‘ ان سے بشیر بن یسار نے اور ان سے سوید بن نعمان (رض) نے بیان کیا ‘ وہ بیعت رضوان میں شریک تھے کہ گویا اب بھی وہ منظر میری آنکھوں کے سامنے ہے جب رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کے سامنے ستو لایا گیا۔ جسے ان حضرات نے پیا۔ اس روایت کی متابعت معاذ نے شعبہ سے کی ہے۔
باب: غزوہ حدیبیہ کا بیان۔
ہم سے محمد بن حاتم بن زریع نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے شاذان (اسود بن عامر) نے ‘ ان سے شعبہ نے ‘ ان سے ابوحمزہ نے بیان کیا کہ انہوں نے عائذ بن عمرو (رض) سے پوچھا : وہ نبی کریم ﷺ کے صحابی تھے اور بیعت رضوان میں شریک تھے کہ کیا وتر کی نماز (ایک رکعت اور پڑھ کر) توڑی جاسکتی ہے ؟ انہوں نے کہا کہ اگر شروع رات میں تو نے وتر پڑھ لیا ہو تو آخر رات میں نہ پڑھو۔
باب: غزوہ حدیبیہ کا بیان۔
مجھ سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی ‘ انہیں زید بن اسلم نے اور انہیں ان کے والد اسلم نے کہ رسول اللہ ﷺ کسی سفر یعنی (سفر حدیبیہ) میں تھے، رات کا وقت تھا اور عمر بن خطاب (رض) آپ کے ساتھ ساتھ تھے۔ عمر (رض) نے آپ سے کچھ پوچھا لیکن (اس وقت آپ وحی میں مشغول تھے ‘ عمر (رض) کو خبر نہ تھی) آپ نے کوئی جواب نہیں دیا۔ انہوں نے پھر پوچھا ‘ آپ نے پھر کوئی جواب نہیں دیا۔ انہوں نے پھر پوچھا ‘ آپ نے اس مرتبہ بھی کوئی جواب نہیں دیا۔ اس پر عمر (رض) نے (اپنے دل میں) کہا : عمر ! تیری ماں تجھ پر روئے ‘ رسول اللہ ﷺ سے تم نے تین مرتبہ سوال کیا ‘ آپ ﷺ نے تمہیں ایک مرتبہ بھی جواب نہیں دیا۔ عمر (رض) نے بیان کیا کہ پھر میں نے اپنے اونٹ کو ایڑ لگائی اور مسلمانوں سے آگے نکل گیا۔ مجھے ڈر تھا کہ کہیں میرے بارے میں کوئی وحی نہ نازل ہوجائے۔ ابھی تھوڑی دیر ہوئی تھی کہ میں نے سنا ‘ ایک شخص مجھے آواز دے رہا تھا۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے سوچا کہ میں تو پہلے ہی ڈر رہا تھا کہ میرے بارے میں کہیں کوئی وحی نازل نہ ہوجائے۔ پھر میں آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کو سلام کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ رات مجھ پر ایک سورت نازل ہوئی ہے اور وہ مجھے اس تمام کائنات سے زیادہ عزیز ہے جس پر سورج طلوع ہوتا ہے۔ پھر آپ نے سورة إنا فتحنا لک فتحا مبينا بیشک ہم نے آپ کو کھلی ہوئی فتح دی ہے۔ کی تلاوت فرمائی۔
باب: غزوہ حدیبیہ کا بیان۔
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ جب زہری نے یہ حدیث بیان کی (جو آگے مذکور ہوئی ہے) تو اس میں سے کچھ میں نے یاد رکھی اور معمر نے اس کو اچھی طرح یاد دلایا۔ ان سے عروہ بن زبیر نے ‘ ان سے مسور بن مخرمہ (رض) اور مروان بن حکم نے بیان کیا ‘ ان میں سے ہر ایک دوسرے سے کچھ بڑھاتا ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ صلح حدیبیہ کے موقع پر تقریباً ایک ہزار صحابہ کو ساتھ لے کر روانہ ہوئے۔ پھر جب آپ ذو الحلیفہ پہنچے تو آپ نے قربانی کے جانور کو قلادہ پہنایا اور اس پر نشان لگایا اور وہیں سے عمرہ کا احرام باندھا۔ پھر آپ نے قبیلہ خزاعہ کے ایک صحابی کو جاسوسی کے لیے بھیجا اور خود بھی سفر جاری رکھا۔ جب آپ غدیر الاشطاط پر پہنچے تو آپ کے جاسوس بھی خبریں لے کر آگئے۔ جنہوں نے بتایا کہ قریش نے آپ کے مقابلے کے لیے بہت بڑا لشکر تیار کر رکھا ہے اور بہت سے قبائل کو بلایا ہے۔ وہ آپ سے جنگ کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور آپ کو بیت اللہ سے روکیں گے۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے صحابہ سے فرمایا کہ مجھے مشورہ دو کیا تمہارے خیال میں یہ مناسب ہوگا کہ میں ان کفار کی عورتوں اور بچوں پر حملہ کر دوں جو ہمارے بیت اللہ تک پہنچنے میں رکاوٹ بننا چاہتے ہیں ؟ اگر انہوں نے ہمارا مقابلہ کیا تو اللہ عزوجل نے مشرکین سے ہمارے جاسوس کو محفوظ رکھا ہے اور اگر وہ ہمارے مقابلے پر نہیں آتے تو ہم انہیں ایک ہاری ہوئی قوم جان کر چھوڑ دیں گے۔ ابوبکر (رض) نے کہا کہ یا رسول اللہ ! آپ تو صرف بیت اللہ کے عمرہ کے لیے نکلے ہیں نہ آپ کا ارادہ کسی کو قتل کرنے کا ہے اور نہ کسی سے لڑائی کا۔ اس لیے آپ بیت اللہ تشریف لے چلیں۔ اگر ہمیں پھر بھی کوئی بیت اللہ تک جانے سے روکے گا تو ہم اس سے جنگ کریں گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر اللہ کا نام لے کر سفر جاری رکھو۔
باب: غزوہ حدیبیہ کا بیان۔
مجھ سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو یعقوب بن ابراہیم نے خبر دی ‘ کہا کہ مجھ سے میرے بھتیجے ابن شہاب نے بیان کیا ‘ ان سے ان کے چچا محمد بن مسلم بن شہاب نے کہا کہ مجھ کو عروہ بن زبیر نے خبر دی اور انہوں نے مروان بن حکم اور مسور بن مخرمہ (رض) سے سنا ‘ دونوں راویوں نے رسول اللہ ﷺ سے عمرہ حدیبیہ کے بارے میں بیان کیا تو عروہ نے مجھے اس میں جو کچھ خبر دی تھی ‘ اس میں یہ بھی تھا کہ جب نبی کریم ﷺ اور (قریش کا نمائندہ) سہیل بن عمرو حدیبیہ میں ایک مقررہ مدت تک کے لیے صلح کی دستاویز لکھ رہے تھے اور اس میں سہیل نے یہ شرط بھی رکھی تھی کہ ہمارا اگر کوئی آدمی آپ کے یہاں پناہ لے خواہ وہ آپ کے دین پر ہی کیوں نہ ہوجائے تو آپ کو اسے ہمارے حوالے کرنا ہی ہوگا تاکہ ہم اس کے ساتھ جو چاہیں کریں۔ سہیل اس شرط پر اڑ گیا اور کہنے لگا کہ نبی کریم ﷺ اس شرط کو قبول کرلیں اور مسلمان اس شرط پر کسی طرح راضی نہ تھے۔ مجبوراً انہوں نے اس پر گفتگو کی (کہا یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ مسلمان کو کافر کے سپرد کردیں) سہیل نے کہا کہ یہ نہیں ہوسکتا تو صلح بھی نہیں ہوسکتی۔ نبی کریم ﷺ نے یہ شرط بھی تسلیم کرلی اور ابوجندل بن سہیل (رض) کو ان کے والد سہیل بن عمرو کے سپرد کردیا (جو اسی وقت مکہ سے فرار ہو کر بیڑی کو گھسیٹتے ہوئے مسلمانوں کے پاس پہنچے تھے) (شرط کے مطابق مدت صلح میں مکہ سے فرار ہو کر) جو بھی آتا نبی کریم ﷺ اسے واپس کردیتے ‘ خواہ وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہوتا۔ اس مدت میں بعض مومن عورتیں بھی ہجرت کر کے مکہ سے آئیں۔ ام کلثوم بنت عقبہ ابن ابی معیط بھی ان میں سے ہیں جو اس مدت میں نبی کریم ﷺ کے پاس آئی تھیں ‘ وہ اس وقت نوجوان تھیں ‘ ان کے گھر والے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے مطالبہ کیا کہ انہیں واپس کردیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے مومن عورتوں کے بارے میں وہ آیت نازل کی جو شرط کے مناسب تھی۔
باب: غزوہ حدیبیہ کا بیان۔
ابن شہاب نے بیان کیا کہ مجھے عروہ بن زبیر (رض) نے خبر دی اور ان سے نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ آیت يا أيها النبي إذا جاءک المؤمنات کے نازل ہونے کے بعد نبی کریم ﷺ ہجرت کر کے آنے والی عورتوں کو پہلے آزماتے تھے اور ان کے چچا سے روایت ہے کہ ہمیں وہ حدیث بھی معلوم ہے جب نبی کریم ﷺ نے حکم دیا تھا کہ جو مسلمان عورتیں ہجرت کر کے چلی آتی ہیں ان کے شوہروں کو وہ سب کچھ واپس کردیا جائے جو اپنی ان بیویوں کو وہ دے چکے ہیں اور ہمیں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ابوبصیر ‘ پھر انہوں نے تفصیل کے ساتھ حدیث بیان کی۔
باب: غزوہ حدیبیہ کا بیان۔
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے امام مالک (رح) نے بیان کیا ‘ ان سے نافع نے کہ عبداللہ بن عمر (رض) فتنہ کے زمانہ میں عمرہ کے ارادہ سے نکلے۔ پھر انہوں نے کہا کہ اگر بیت اللہ جانے سے مجھے روک دیا گیا تو میں وہی کام کروں گا جو رسول اللہ ﷺ نے کیا تھا۔ چناچہ آپ نے صرف عمرہ کا احرام باندھا کیونکہ نبی کریم ﷺ نے بھی صلح حدیبیہ کے موقع پر صرف عمرہ ہی کا احرام باندھا تھا۔
باب: غزوہ حدیبیہ کا بیان۔
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا ‘ ان سے عبیداللہ بن عبداللہ نے ‘ ان سے نافع نے کہ عبداللہ بن عمر (رض) نے احرام باندھا اور کہا کہ اگر مجھے بیت اللہ جانے سے روکا گیا تو میں بھی وہی کام کروں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا۔ جب آپ کو کفار قریش نے بیت اللہ جانے سے روکا تو اس آیت کی تلاوت کی کہ لقد کان لکم في رسول الله أسوة حسنة یقیناً تم لوگوں کے لیے رسول اللہ ﷺ کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔
باب: غزوہ حدیبیہ کا بیان۔
ہم سے عبداللہ بن محمد بن اسماء نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے جویریہ نے بیان کیا ‘ انہیں نافع نے ‘ ان کو عبیداللہ بن عبداللہ اور سالم بن عبداللہ نے خبر دی کہ ان دونوں نے عبداللہ بن عمر (رض) سے گفتگو کی (دوسری سند) امام بخاری (رح) نے کہا اور ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ‘ ان سے جویریہ نے بیان کیا اور ان سے نافع نے کہ عبداللہ بن عمر (رض) کے کسی لڑکے نے ان سے کہا ‘ اگر اس سال آپ (عمرہ کرنے) نہ جاتے تو بہتر تھا کیونکہ مجھے ڈر ہے کہ آپ بیت اللہ تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ اس پر انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے تھے تو کفار قریش نے بیت اللہ پہنچنے سے روک دیا تھا۔ چناچہ آپ ﷺ نے اپنی قربانی کے جانور وہیں (حدیبیہ میں) ذبح کردیئے اور سر کے بال منڈوا دیئے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھی بال چھوٹے کروا لیے۔ آپ ﷺ نے اس کے بعد فرمایا کہ میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنے اوپر ایک عمرہ واجب کرلیا ہے (اور اسی طرح تمام صحابہ رضی اللہ عنہم پر بھی وہ واجب ہوگیا) اگر آج مجھے بیت اللہ تک جانے دیا گیا تو میں طواف کرلوں گا اور اگر مجھے روک دیا گیا تو میں بھی وہی کروں گا جو نبی کریم ﷺ نے کیا تھا۔ پھر تھوڑی دور چلے اور کہا کہ میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنے اوپر عمرہ کے ساتھ حج کو بھی ضروری قرار دے لیا ہے اور کہا میری نظر میں تو حج اور عمرہ دونوں ایک ہی جیسے ہیں ‘ پھر انہوں نے ایک طواف کیا اور ایک سعی کی (جس دن مکہ پہنچے) اور دونوں ہی کو پورا کیا۔
باب: غزوہ حدیبیہ کا بیان۔
مجھ سے شجاع بن ولید نے بیان کیا ‘ انہوں نے نضر بن محمد سے سنا ‘ کہا ہم سے صخر بن جویریہ نے بیان کیا اور ان سے نافع نے بیان کیا کہ لوگ کہتے ہیں کہ عبداللہ، عمر (رض) سے پہلے اسلام میں داخل ہوئے تھے، حالانکہ یہ غلط ہے۔ البتہ عمر (رض) نے عبداللہ بن عمر (رض) کو اپنا ایک گھوڑا لانے کے لیے بھیجا تھا ‘ جو ایک انصاری صحابی کے پاس تھا تاکہ اسی پر سوار ہو کر جنگ میں شریک ہوں۔ اسی دوران رسول اللہ ﷺ درخت کے نیچے بیٹھ کر بیعت لے رہے تھے۔ عمر (رض) کو ابھی اس کی اطلاع نہیں ہوئی تھی۔ عبداللہ بن عمر (رض) نے پہلے بیعت کی پھر گھوڑا لینے گئے۔ جس وقت وہ اسے لے کر عمر (رض) کے پاس آئے تو وہ جنگ کے لیے اپنی زرہ پہن رہے تھے۔ انہوں نے اس وقت عمر (رض) کو بتایا کہ نبی کریم ﷺ درخت کے نیچے بیعت لے رہے ہیں۔ بیان کیا کہ پھر آپ اپنے لڑکے کو ساتھ لے گئے اور بیعت کی۔ اتنی سی بات تھی جس پر لوگ اب کہتے ہیں کہ عمر (رض) سے پہلے ابن عمر (رض) اسلام لائے تھے۔ اور ہشام بن عمار نے بیان کیا ‘ ان سے ولید بن مسلم نے بیان کیا ‘ ان سے عمر بن عمری نے بیان کیا ‘ انہیں نافع نے خبر دی اور انہیں عبداللہ بن عمر (رض) نے کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر صحابہ رضی اللہ عنہم جو نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھے ‘ مختلف درختوں کے سائے میں پھیل گئے تھے۔ پھر اچانک بہت سے صحابہ آپ ﷺ کے چاروں طرف جمع ہوگئے۔ عمر (رض) نے کہا : بیٹا عبداللہ ! دیکھو تو سہی لوگ نبی کریم ﷺ کے پاس جمع کیوں ہوگئے ہیں ؟ انہوں نے دیکھا تو صحابہ بیعت کر رہے تھے۔ چناچہ پہلے انہوں نے خود بیعت کرلی۔ پھر عمر (رض) کو آ کر خبر دی پھر وہ بھی گئے اور انہوں نے بھی بیعت کی۔
باب: غزوہ حدیبیہ کا بیان۔
ہم سے محمد بن عبداللہ بن نمیر نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے یعلیٰ بن عبید نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے اسماعیل بن ابی خالد نے بیان کیا ‘ کہا کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفی (رض) سے سنا ‘ آپ نے بیان کیا کہ جب نبی کریم ﷺ نے عمرہ (قضاء) کیا تو ہم بھی آپ کے ساتھ تھے۔ آپ ﷺ نے طواف کیا تو ہم نے بھی آپ کے ساتھ طواف کیا۔ آپ ﷺ نے نماز پڑھی تو ہم نے بھی آپ کے ساتھ نماز پڑھی اور آپ ﷺ نے صفا ومروہ کی سعی بھی کی۔ ہم آپ کی اہل مکہ سے حفاظت کرتے تھے تاکہ کوئی تکلیف کی بات آپ کو پیش نہ آجائے۔
باب: غزوہ حدیبیہ کا بیان۔
ہم سے حسن بن اسحاق نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے محمد بن سابق نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے مالک بن مغول نے بیان کیا ‘ کہا کہ میں نے ابوحصین سے سنا ‘ ان سے ابو وائل نے بیان کیا کہ سہل بن حنیف (رض) جب جنگ صفین (جو علی (رض) اور معاویہ (رض) میں ہوئی تھی) سے واپس آئے تو ہم ان کی خدمت میں حالات معلوم کرنے کے لیے حاضر ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ اس جنگ کے بارے میں تم لوگ اپنی رائے اور فکر پر نازاں مت ہو۔ میں یوم ابوجندل (صلح حدیبیہ) میں بھی موجود تھا۔ اگر میرے لیے رسول اللہ ﷺ کے حکم کو ماننے سے انکار ممکن ہوتا تو میں اس دن ضرور حکم عدولی کرتا۔ اللہ اور اس کا رسول خوب جانتے ہیں کہ جب ہم نے کسی مشکل کام کے لیے اپنی تلواروں کو اپنے کاندھوں پر رکھا تو صورت حال آسان ہوگئی اور ہم نے مشکل حل کرلی۔ لیکن اس جنگ کا کچھ عجیب حال ہے ‘ اس میں ہم (فتنے کے) ایک کونے کو بند کرتے ہیں تو دوسرا کونا کھل جاتا ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ ہم کو کیا تدبیر کرنی چاہیے۔
باب: غزوہ حدیبیہ کا بیان۔
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ‘ ان سے ایوب سختیانی نے ‘ ان سے مجاہد نے ‘ ان سے ابن ابی لیلیٰ نے ‘ ان سے کعب بن عجرہ (رض) نے بیان کیا کہ وہ عمرہ حدیبیہ کے موقع پر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو جوئیں ان کے چہرے پر گر رہی تھی۔ نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا کہ یہ جوئیں جو تمہارے سر سے گر رہی ہیں ‘ تکلیف دے رہی ہیں ؟ انہوں نے عرض کیا : جی ہاں ! نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پھر سر منڈوا لو اور تین دن روزہ رکھ لو یا چھ مسکینوں کا کھانا کھلا دو یا پھر کوئی قربانی کر ڈالو۔ (سر منڈوانے کا فدیہ ہوگا) ایوب سختیانی نے بیان کیا کہ مجھے معلوم نہیں کہ ان تینوں امور میں سے پہلے نبی کریم ﷺ نے کون سی بات ارشاد فرمائی تھی۔
باب: غزوہ حدیبیہ کا بیان۔
مجھ سے ابوعبداللہ محمد بن ہشام نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ہشیم نے بیان کیا ان سے ابوبشر نے ‘ ان سے مجاہد نے ‘ ان سے عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ نے اور ان سے کعب بن عجرہ (رض) نے بیان کیا کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے اور احرام باندھے ہوئے تھے۔ ادھر مشرکین ہمیں بیت اللہ تک جانے نہیں دینا چاہتے تھے۔ انہوں نے بیان کیا کہ میرے سر پر بال بڑے بڑے تھے جن سے جوئیں میرے چہرے پر گرنے لگیں۔ نبی کریم ﷺ نے مجھے دیکھ کر دریافت فرمایا کہ کیا یہ جوئیں تکلیف دے رہی ہیں ؟ میں نے کہا : جی ہاں۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر یہ آیت نازل ہوئی فمن کان منکم مريضا أو به أذى من رأسه ففدية من صيام أو صدقة أو نسك پس اگر تم میں کوئی مریض ہو یا اس کے سر میں کوئی تکلیف دینے والی چیز ہو تو اسے (بال منڈوا لینے چاہئیں اور) تین دن کے روزے یا صدقہ یا قربانی کا فدیہ دینا چاہیے۔
باب: قبائل عکل اور عرینہ کا قصہ۔
مجھ سے عبدالاعلی بن حماد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سعید نے بیان کیا ‘ ان سے قتادہ نے اور ان سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ قبائل عکل و عرینہ کے کچھ لوگ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں مدینہ آئے اور اسلام میں داخل ہوگئے۔ پھر انہوں نے کہا : اے اللہ کے نبی ! ہم لوگ مویشی رکھتے تھے ‘ کھیت وغیرہ ہمارے پاس نہیں تھے ‘ (اس لیے ہم صرف دودھ پر بسر اوقات کیا کرتے تھے) اور انہیں مدینہ کی آب و ہوا ناموافق آئی تو نبی کریم ﷺ نے کچھ اونٹ اور چرواہا ان کے ساتھ کردیا اور فرمایا کہ انہیں اونٹوں کا دودھ اور پیشاب پیو (تو تمہیں صحت حاصل ہوجائے گی) وہ لوگ (چراگاہ کی طرف) گئے۔ لیکن مقام حرہ کے کنارے پہنچتے ہی وہ اسلام سے پھرگئے اور نبی کریم ﷺ کے چرواہے کو قتل کردیا اور اونٹوں کو لے کر بھاگنے لگے۔ اس کی خبر جب آپ ﷺ کو ملی تو آپ نے چند صحابہ کو ان کے پیچھے دوڑایا۔ (وہ پکڑ کر مدینہ لائے گئے۔ ) تو آپ ﷺ کے حکم سے ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیر دی گئیں اور ان کے ہاتھ اور پیر کاٹ دیئے گئے (کیونکہ انہوں نے بھی ایسا ہی کیا تھا) اور انہیں حرہ کے کنارے چھوڑ دیا گیا۔ آخر وہ اسی حالت میں مرگئے۔ قتادہ نے بیان کیا کہ ہمیں یہ روایت پہنچی ہے کہ آپ ﷺ نے اس کے بعد صحابہ کو صدقہ کا حکم دیا اور مثلہ (مقتول کی لاش بگاڑنا یا ایذا دے کر اسے قتل کرنا) سے منع فرمایا اور شعبہ ‘ ابان اور حماد نے قتادہ سے بیان کیا کہ (یہ لوگ) عرینہ کے قبیلے کے تھے (عکل کا نام نہیں لیا) اور یحییٰ بن ابی کثیر اور ایوب نے بیان کیا ‘ ان سے ابوقلابہ نے اور ان سے انس (رض) نے کہ قبیلہ عکل کے کچھ لوگ آئے۔
باب: قبائل عکل اور عرینہ کا قصہ۔
مجھ سے محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابوعمر حفص بن عمر الحوضی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ایوب اور حجاج صواف نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابوقلابہ کے مولیٰ ابورجاء نے بیان کیا ‘ وہ ابوقلابہ کے ساتھ شام میں تھے کہ خلیفہ عمر بن عبدالعزیز نے ایک دن لوگوں سے مشورہ کیا کہ اس قسامہ کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ یہ حق ہے۔ اس کا فیصلہ رسول اللہ ﷺ اور پھر خلفاء راشدین آپ سے پہلے کرتے رہے ہیں۔ ابورجاء نے بیان کیا کہ اس وقت ابوقلابہ ‘ عمر بن عبدالعزیز (رح) کے تخت کے پیچھے تھے۔ اتنے میں عنبسہ بن سعید نے کہا کہ پھر قبیلہ عرینہ کے لوگوں کے بارے میں انس (رض) کی حدیث کہاں گئی ؟ اس پر ابوقلابہ نے کہا کہ انس (رض) نے خود مجھ سے یہ بیان کیا۔ عبدالعزیز بن صہیب نے (اپنی روایت میں) انس (رض) کے حوالہ سے صرف عرینہ کا نام لیا اور ابوقلابہ نے اپنی روایت میں انس (رض) کے حوالے سے صرف عکل کا نام لیا پھر یہی قصہ بیان کیا۔
باب: ذات قرد کی لڑائی کا بیان۔
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے حاتم بن اسماعیل نے بیان کیا ‘ ان سے یزید بن ابی عبید نے بیان کیا ‘ کہا میں نے سلمہ بن الاکوع (رض) سے سنا ‘ وہ بیان کرتے تھے کہ میں فجر کی اذان سے پہلے (مدینہ سے باہر غابہ کی طرف نکلا) رسول اللہ ﷺ کی دودھ دینے والی اونٹنیاں ذات القرد میں چرا کرتی تھیں۔ انہوں نے بیان کیا کہ راستے میں مجھے عبدالرحمٰن بن عوف (رض) کے غلام ملے اور کہا کہ رسول اللہ ﷺ کی اونٹنیاں پکڑ لی گئیں ہیں۔ میں پوچھا کہ کس نے پکڑا ہے ؟ انہوں نے بتایا کہ قبیلہ غطفان والوں نے۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر میں نے تین مرتبہ بڑی زور زور سے پکارا ‘ یا صباحاہ ! انہوں نے بیان کیا کہ اپنی آواز میں نے مدینہ کے دونوں کناروں تک پہنچا دی اور اس کے بعد میں سیدھا تیزی کے ساتھ دوڑتا ہوا آگے بڑھا اور آخر انہیں جا لیا۔ اس وقت وہ جانوروں کو پانی پلانے کے لیے اترے تھے۔ میں نے ان پر تیر برسانے شروع کردیئے۔ میں تیر اندازی میں ماہر تھا اور یہ شعر کہتا جاتا تھا میں ابن الاکوع ہوں ‘ آج ذلیلوں کی بربادی کا دن ہے میں یہی رجز پڑھتا رہا اور آخر اونٹنیاں ان سے چھڑا لیں بلکہ تیس چادریں ان کی میرے قبضے میں آگئیں۔ سلمہ نے بیان کیا کہ اس کے بعد نبی کریم ﷺ بھی صحابہ رضی اللہ عنہم کو ساتھ لے کر آگئے۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! میں نے تیر مار مار کر ان کو پانی نہیں دیا اور وہ ابھی پیاسے ہیں۔ آپ فوراً ان کے تعاقب کے لیے فوج بھیج دیجئیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اے ابن الاکوع ! جب تو کسی پر قابو پالے تو نرمی اختیار کر۔ سلمہ (رض) نے بیان کیا ‘ پھر ہم واپس آگئے اور آپ ﷺ مجھے اپنی اونٹنی پر پیچھے بٹھا کر لائے یہاں تک کہ ہم مدینہ واپس آگئے۔
باب: غزوہ خیبر کا بیان۔
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا ‘ ان سے امام مالک (رح) نے ‘ ان سے یحییٰ بن سعید نے ‘ ان سے بشیر بن یسار نے اور انہیں سوید بن نعمان (رض) نے خبر دی کہ غزوہ خیبر کے لیے وہ بھی رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے تھے۔ (بیان کیا) جب ہم مقام صہبا میں پہنچے جو خیبر کے نشیب میں واقع ہے تو نبی کریم ﷺ نے عصر کی نماز پڑھی پھر آپ نے توشہ سفر منگوایا۔ ستو کے سوا اور کوئی چیز آپ کی خدمت میں نہیں لائی گئی۔ وہ ستو آپ کے حکم سے بھگویا گیا اور وہی آپ نے بھی کھایا اور ہم نے بھی کھایا۔ اس کے بعد مغرب کی نماز کے لیے آپ کھڑے ہوئے (چونکہ وضو پہلے سے موجود تھا) اس لیے نبی کریم ﷺ نے بھی صرف کلی کی اور ہم نے بھی ‘ پھر نماز پڑھی اور اس نماز کے لیے نئے سرے سے وضو نہیں کیا۔
باب: غزوہ خیبر کا بیان۔
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے حاتم بن اسماعیل نے بیان کیا ‘ ان سے یزید بن ابی عبید نے اور ان سے سلمہ بن اکوع (رض) نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ خیبر کی طرف نکلے۔ رات کے وقت ہمارا سفر جاری تھا کہ ایک صاحب (اسید بن حضیر) نے عامر سے کہا : عامر ! اپنے کچھ شعر سناؤ ‘ عامر شاعر تھے۔ اس فرمائش پر وہ سواری سے اتر کر حدی خوانی کرنے لگے۔ کہا اے اللہ ! اگر تو نہ ہوتا تو ہمیں سیدھا راستہ نہ ملتا ‘ نہ ہم صدقہ کرسکتے اور نہ ہم نماز پڑھ سکتے۔ پس ہماری جلدی مغفرت کر، جب تک ہم زندہ ہیں ہماری جانیں تیرے راستے میں فدا ہیں اور اگر ہماری مڈبھیڑ ہوجائے تو ہمیں ثابت رکھ ہم پر سکینت نازل فرما، ہمیں جب (باطل کی طرف) بلایا جاتا ہے تو ہم انکار کردیتے ہیں، آج چلا چلا کر وہ ہمارے خلاف میدان میں آئے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ کون شعر کہہ رہا ہے ؟ لوگوں نے بتایا کہ عامر بن اکوع ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ اس پر اپنی رحمت نازل فرمائے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! آپ نے تو انہیں شہادت کا مستحق قرار دے دیا ‘ کاش ! ابھی اور ہمیں ان سے فائدہ اٹھانے دیتے۔ پھر ہم خیبر آئے اور قلعہ کا محاصرہ کیا ‘ اس دوران ہمیں سخت تکالیف اور فاقوں سے گزرنا پڑا۔ آخر اللہ تعالیٰ نے ہمیں فتح عطا فرمائی۔ جس دن قلعہ فتح ہونا تھا ‘ اس کی رات جب ہوئی تو لشکر میں جگہ جگہ آگ جل رہی تھی۔ نبی کریم ﷺ نے پوچھا یہ آگ کیسی ہے ‘ کس چیز کے لیے اسے جگہ جگہ جلا رکھا ہے ؟ صحابہ رضی اللہ عنہم بولے کہ گوشت پکانے کے لیے ‘ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ کس جانور کا گوشت ہے ؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے بتایا کہ پالتو گدھوں کا ‘ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمام گوشت پھینک دو اور ہانڈیوں کو توڑ دو ۔ ایک صحابی (رض) نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! ایسا نہ کرلیں کہ گوشت تو پھینک دیں اور ہانڈیوں کو دھو لیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یوں ہی کرلو پھر (دن میں جب صحابہ رضی اللہ عنہم نے جنگ کے لیے) صف بندی کی تو چونکہ عامر (رض) کی تلوار چھوٹی تھی ‘ اس لیے انہوں نے جب ایک یہودی کی پنڈلی پر (جھک کر) وار کرنا چاہا تو خود انہیں کی تلوار کی دھار سے ان کے گھٹنے کا اوپر کا حصہ زخمی ہوگیا اور ان کی شہادت اسی میں ہوگئی۔ بیان کیا کہ پھر جب لشکر واپس ہو رہا تھا تو سلمہ بن اکوع (رض) کا بیان ہے کہ مجھے آپ ﷺ نے دیکھا اور میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا ‘ کیا بات ہے ؟ میں نے عرض کیا ‘ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ‘ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ عامر (رض) کا سارا عمل اکارت ہوگیا (کیونکہ خود اپنی ہی تلوار سے ان کی وفات ہوئی) ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جھوٹا ہے وہ شخص جو اس طرح کی باتیں کرتا ہے ‘ انہیں تو دوہرا اجر ملے گا پھر آپ نے اپنی دونوں انگلیوں کو ایک ساتھ ملایا ‘ انہوں نے تکلیف اور مشقت بھی اٹھائی اور اللہ کے راستے میں جہاد بھی کیا ‘ شاید ہی کوئی عربی ہو ‘ جس نے ان جیسی مثال قائم کی ہو۔ ہم سے قتیبہ نے بیان کیا ‘ ان سے حاتم نے (بجائے مشى بها کے) نشأ بها نقل کیا یعنی کوئی عرب مدینہ میں عامر (رض) جیسا نہیں ہوا۔
باب: غزوہ خیبر کا بیان۔
ہم سے عبداللہ بن یوسف تینسی نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو امام مالک (رح) نے خبر دی ‘ انہیں حمید طویل نے اور انہیں انس (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ خیبر رات کے وقت پہنچے۔ آپ کا قاعدہ تھا کہ جب کسی قوم پر حملہ کرنے کے لیے رات کے وقت موقع پر پہنچتے تو فوراً ہی حملہ نہیں کرتے بلکہ صبح ہوجاتی جب کرتے۔ چناچہ صبح کے وقت یہودی اپنے کلہاڑے اور ٹوکرے لے کر باہر نکلے لیکن جب انہوں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا تو شور کرنے لگے کہ محمد ‘ اللہ کی قسم ! محمد لشکر لے کر آگئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خیبر برباد ہوا ‘ ہم جب کسی قوم کے میدان میں اتر جاتے ہیں تو ڈرائے ہوئے لوگوں کی صبح بری ہوجاتی ہے۔
باب: غزوہ خیبر کا بیان۔
ہمیں صدقہ بن فضل نے خبر دی ‘ کہا ہم کو ابن عیینہ نے خبر دی ‘ کہا ہم سے ایوب نے بیان کیا ‘ ان سے محمد بن سیرین نے اور ان سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ ہم خیبر صبح کے وقت پہنچے ‘ یہودی اپنے پھاؤڑے وغیرہ لے کر باہر آئے لیکن جب انہوں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا تو چلانے لگے محمد ! اللہ کی قسم محمد ( ﷺ ) لشکر لے کر آگئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کی ذات سب سے بلندو برتر ہے۔ یقیناً جب ہم کسی قوم کے میدان میں اتر جائیں تو پھر ڈرائے ہوئے لوگوں کی صبح بری ہوجاتی ہے۔ پھر ہمیں وہاں گدھے کا گوشت ملا لیکن آپ ﷺ کی طرف سے اعلان کرنے والے نے اعلان کیا کہ اللہ اور اس کے رسول تمہیں گدھے کا گوشت کھانے سے منع کرتے ہیں کہ یہ ناپاک ہے۔
باب: غزوہ خیبر کا بیان۔
ہم سے عبداللہ بن عبدالوہاب نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عبدالوہاب نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ایوب نے بیان کیا ‘ ان سے محمد نے اور ان سے انس بن مالک (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک آنے والے نے حاضر ہو کر عرض کیا کہ گدھے کا گوشت کھایا جا رہا ہے۔ اس پر آپ نے خاموشی اختیار کی پھر دوبارہ وہ حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ گدھے کا گوشت کھایا جا رہا ہے۔ نبی کریم ﷺ اس مرتبہ بھی خاموش رہے ‘ پھر وہ تیسری مرتبہ آئے اور عرض کیا کہ گدھے ختم ہوگئے۔ اس کے بعد نبی کریم ﷺ نے ایک منادی سے اعلان کرایا کہ اللہ اور اس کے رسول تمہیں پالتو گدھوں کے گوشت کے کھانے سے منع کرتے ہیں۔ چناچہ تمام ہانڈیاں الٹ دی گئیں حالانکہ وہ گوشت کے ساتھ جوش مار رہی تھیں۔
باب: غزوہ خیبر کا بیان۔
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ‘ ان سے ثابت نے اور ان سے انس بن مالک (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے صبح کی نماز خیبر کے قریب پہنچ کر ادا کی ‘ ابھی اندھیرا تھا پھر فرمایا ‘ اللہ کی ذات سب سے بلندو برتر ہے۔ خیبر برباد ہوا ‘ یقیناً جب ہم کسی قوم کے میدان میں اتر جاتے ہیں تو ڈرائے لوگوں کی صبح بری ہوجاتی ہے۔ پھر یہودی گلیوں میں ڈرتے ہوئے نکلے۔ آخر نبی کریم ﷺ نے ان کے جنگ کرنے والے لوگوں کو قتل کرا دیا اور عورتوں اور بچوں کو قید کرلیا۔ قیدیوں میں ام المؤمنین صفیہ (رض) بھی تھیں جو دحیہ کلبی (رض) کے حصہ میں آئی تھیں۔ پھر وہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آگئیں۔ چناچہ آپ نے ان سے نکاح کرلیا اور مہر میں انہیں آزاد کردیا۔ عبدالعزیز بن صہیب نے ثابت سے پوچھا : ابو محمد ! کیا تم نے یہ پوچھا تھا کہ نبی کریم ﷺ نے صفیہ (رض) کو مہر کیا دیا تھا ؟ ثابت (رض) نے اثبات میں سر ہلایا۔
باب: غزوہ خیبر کا بیان۔
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے شعبہ بن حجاج نے بیان کیا ‘ ان سے عبدالعزیز بن صہیب نے بیان کیا کہ میں نے انس بن مالک (رض) سے سنا ‘ انہوں نے بیان کیا کہ صفیہ (رض) رسول اللہ ﷺ کے قیدیوں میں تھیں لیکن آپ نے انہیں آزاد کر کے ان سے نکاح کرلیا تھا۔ ثابت (رض) نے انس (رض) سے پوچھا نبی کریم ﷺ نے انہیں مہر کیا دیا تھا ؟ انہوں نے کہا کہ خود انہیں کو ان کے مہر میں دیا تھا یعنی انہیں آزاد کردیا تھا۔
باب: غزوہ خیبر کا بیان۔
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے یعقوب بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا ‘ ان سے ابوحازم نے اور ان سے سہل بن سعد ساعدی (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے (اپنے لشکر کے ساتھ) مشرکین (یعنی) یہود خیبر کا مقابلہ کیا۔ دونوں طرف سے لوگوں نے جنگ کی ‘ پھر جب آپ اپنے خیمے کی طرف واپس ہوئے اور یہودی بھی اپنے خیموں میں واپس چلے گئے تو رسول اللہ ﷺ کے ایک صحابی کے متعلق کسی نے ذکر کیا کہ یہودیوں کا کوئی بھی آدمی اگر انہیں مل جائے تو وہ اس کا پیچھا کر کے اسے قتل کئے بغیر نہیں رہتے۔ کہا گیا کہ آج فلاں شخص ہماری طرف سے جتنی بہادری اور ہمت سے لڑا ہے شاید اتنی بہادری سے کوئی بھی نہیں لڑا ہوگا لیکن نبی کریم ﷺ نے ان کے متعلق فرمایا کہ وہ اہل دوزخ میں سے ہے۔ ایک صحابی (رض) نے اس پر کہا کہ پھر میں ان کے ساتھ ساتھ رہوں گا، بیان کیا کہ پھر وہ ان کے پیچھے ہو لیے جہاں وہ ٹھہرتے یہ بھی ٹھہر جاتے اور جہاں وہ دوڑ کر چلتے یہ بھی دوڑنے لگتے۔ بیان کیا کہ پھر وہ صاحب زخمی ہوگئے ‘ انتہائی شدید طور پر اور چاہا کہ جلدی موت آجائے۔ اس لیے انہوں نے اپنی تلوار زمین میں گاڑ دی اور اس کی نوک سینہ کے مقابل کر کے اس پر گرپڑے اور اس طرح خودکشی کرلی۔ اب دوسرے صحابی (جو ان کی جستجو میں لگے ہوئے تھے) نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ پوچھا کیا بات ہے ؟ ان صحابی نے عرض کیا کہ جن کے متعلق ابھی آپ نے فرمایا تھا کہ وہ اہل دوزخ میں سے ہیں تو لوگوں پر آپ کا یہ فرمانا بڑا شاق گزرا تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ میں تمہارے لیے ان کے پیچھے پیچھے جاتا ہوں۔ چناچہ میں ان کے ساتھ ساتھ رہا۔ ایک موقع پر جب وہ شدید زخمی ہوگئے تو اس خواہش میں کہ موت جلدی آجائے اپنی تلوار انہوں نے زمین میں گاڑ دی اور اس کی نوک کو اپنے سینہ کے سامنے کر کے اس پر گرپڑے اور اس طرح انہوں نے خود اپنی جان کو ہلاک کردیا۔ اسی موقع پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ انسان زندگی بھر جنت والوں کے عمل کرتا ہے حالانکہ وہ اہل دوزخ میں سے ہوتا ہے۔ اسی طرح دوسرا شخص زندگی بھر اہل دوزخ کے عمل کرتا ہے حالانکہ وہ جنتی ہوتا ہے۔
باب: غزوہ خیبر کا بیان۔
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو شعیب نے خبر دی ‘ ان سے زہری نے بیان کیا ‘ انہیں سعید بن مسیب نے خبر دی اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ ہم خیبر کی جنگ میں شریک تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک صاحب کے متعلق جو آپ کے ساتھ تھے اور خود کو مسلمان کہتے تھے فرمایا کہ یہ شخص اہل دوزخ میں سے ہے۔ پھر جب لڑائی شروع ہوئی تو وہ صاحب بڑی پامردی سے لڑے اور بہت زیادہ زخمی ہوگئے۔ ممکن تھا کہ کچھ لوگ شبہ میں پڑجاتے لیکن ان صاحب کے لیے زخموں کی تکلیف ناقابل برداشت تھی۔ چناچہ انہوں نے اپنے ترکش میں سے تیر نکالا اور اپنے سینہ میں چبھو دیا۔ یہ منظر دیکھ کر مسلمان دوڑتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! اللہ تعالیٰ نے آپ کا فرمان سچ کر دکھایا۔ اس شخص نے خود اپنے سینے میں تیر چبھو کر خودکشی کرلی ہے۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ اے فلاں ! جا اور اعلان کر دے کہ جنت میں صرف مومن ہی داخل ہوں گے۔ یوں اللہ تعالیٰ اپنے دین کی مدد فاجر شخص سے بھی لے لیتا ہے۔ اس روایت کی متابعت معمر نے زہری سے کی۔ اور شبیب نے یونس سے بیان کیا ‘ انہوں نے ابن شہاب زہری سے ‘ انہیں سعید بن مسیب اور عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن کعب نے خبر دی ‘ ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوہ خیبر میں موجود تھے اور ابن مبارک نے بیان کیا ‘ ان سے یونس نے ‘ ان سے زہری نے ‘ ان سے سعید بن مسیب (رض) نے اور ان سے نبی کریم ﷺ نے ۔ اس روایت کی متابعت صالح نے زہری سے کی اور زبیدی نے بیان کیا ‘ انہیں زہری نے خبر دی ‘ انہیں عبدالرحمٰن بن کعب نے خبر دی اور انہیں عبیداللہ بن کعب نے خبر دی کہ مجھے ان صحابی نے خبر دی جو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوہ خیبر میں موجود تھے۔ زہری نے بیان کیا اور مجھے عبیداللہ بن عبداللہ اور سعید بن مسیب (رض) نے خبر دی رسول اللہ ﷺ سے۔
باب: غزوہ خیبر کا بیان۔
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عبدالواحد نے بیان کیا ‘ ان سے عاصم نے ‘ ان سے ابوعثمان نے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری (رض) نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ ﷺ نے خیبر پر لشکر کشی کی یا یوں بیان کیا کہ جب رسول اللہ ﷺ (خیبر کی طرف) روانہ ہوئے تو (راستے میں) لوگ ایک وادی میں پہنچے اور بلند آواز کے ساتھ تکبیر کہنے لگے اللہ اکبر، اللہ اکبر، لا الہٰ الا اللہ اللہ سب سے بلندو برتر ہے ‘ اللہ سب سے بلندو برتر ہے ‘ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اپنی جانوں پر رحم کرو ‘ تم کسی بہرے کو یا ایسے شخص کو نہیں پکار رہے ہو ‘ جو تم سے دور ہو ‘ جسے تم پکار رہے ہو وہ سب سے زیادہ سننے والا اور تمہارے بہت نزدیک ہے بلکہ وہ تمہارے ساتھ ہے۔ میں آپ ﷺ کی سواری کے پیچھے تھا۔ میں نے جب لا حول ولا قوة إلا بالله کہا تو آپ ﷺ نے سن لیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا : عبداللہ بن قیس ! میں نے کہا لبیک یا رسول اللہ ! آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیا میں تمہیں ایک کلمہ نہ بتادوں جو جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے ؟ میں نے عرض کیا ضرور بتائیے، یا رسول اللہ ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ کلمہ یہی ہے لا حول ولا قوة إلا بالله یعنی گناہوں سے بچنا اور نیکی کرنا یہ اسی وقت ممکن ہے جب اللہ کی مدد شامل ہو۔
باب: غزوہ خیبر کا بیان۔
ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے یزید بن ابی عبید نے بیان کیا ‘ کہا کہ میں نے سلمہ بن اکوع (رض) کی پنڈلی میں ایک زخم کا نشان دیکھ کر ان سے پوچھا : اے ابومسلم ! یہ زخم کا نشان کیسا ہے ؟ انہوں نے بتایا کہ غزوہ خیبر میں مجھے یہ زخم لگا تھا ‘ لوگ کہنے لگے کہ سلمہ زخمی ہوگیا۔ چناچہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ ﷺ نے تین مرتبہ اس پر دم کیا ‘ اس کی برکت سے آج تک مجھے اس زخم سے کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔
باب: غزوہ خیبر کا بیان۔
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابن ابی حازم نے ‘ ان سے ان کے والد نے اور ان سے سہل بن سعد ساعدی (رض) نے بیان کیا کہ ایک غزوہ (خیبر) میں نبی کریم ﷺ اور مشرکین کا مقابلہ ہوا اور خوب جم کر جنگ ہوئی آخر دونوں لشکر اپنے اپنے خیموں کی طرف واپس ہوئے اور مسلمانوں میں ایک آدمی تھا جنہیں مشرکین کی طرف کا کوئی شخص کہیں مل جاتا تو اس کا پیچھا کر کے قتل کئے بغیر وہ نہ رہتے۔ کہا گیا کہ یا رسول اللہ ! جتنی بہادری سے آج فلاں شخص لڑا ہے ‘ اتنی بہادری سے تو کوئی نہ لڑا ہوگا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ وہ اہل دوزخ میں سے ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا ‘ اگر یہ بھی دوزخی ہے تو پھر ہم جیسے لوگ کس طرح جنت والے ہوسکتے ہیں ؟ اس پر ایک صحابی بولے کہ میں ان کے پیچھے پیچھے رہوں گا۔ چناچہ جب وہ دوڑتے یا آہستہ چلتے تو میں ان کے ساتھ ساتھ ہوتا۔ آخر وہ زخمی ہوئے اور چاہا کہ موت جلد آجائے۔ اس لیے وہ تلوار کا قبضہ زمین میں گاڑ کر اس کی نوک سینے کے مقابل کر کے اس پر گرپڑے۔ اس طرح سے اس نے خودکشی کرلی۔ اب وہ صحابی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ آپ ﷺ نے پوچھا کہ کیا بات ہے ؟ انہوں نے تفصیل بتائی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایک شخص بظاہر جنتیوں جیسے عمل کرتا رہتا ہے حالانکہ وہ اہل دوزخ میں سے ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک دوسرا شخص بظاہر دوزخیوں کے سے عمل کرتا رہتا ہے حالانکہ وہ جنتی ہوتا ہے۔
باب: غزوہ خیبر کا بیان۔
ہم سے محمد بن سعید خزاعی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے زیاد بن ربیع نے بیان کیا ‘ ان سے ابوعمران نے بیان کیا کہ انس بن مالک (رض) نے (بصرہ کی مسجد میں) جمعہ کے دن لوگوں کو دیکھا کہ (ان کے سروں پر) چادریں ہیں جن پر پھول کڑھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ لوگ اس وقت خیبر کے یہودیوں کی طرح معلوم ہوتے ہیں۔
باب: غزوہ خیبر کا بیان۔
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے حاتم نے بیان کیا ‘ ان سے یزید بن ابی عبید نے اور ان سے سلمہ (رض) نے بیان کیا کہ علی (رض) غزوہ خیبر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نہ جاسکے تھے کیونکہ وہ آشوب چشم میں مبتلا تھے۔ (جب آپ ﷺ جا چکے) تو انہوں نے کہا میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ غزوہ سے پیچھے رہوں (ایسا نہیں ہوسکتا) ؟ چناچہ وہ بھی آگئے۔ جس دن خیبر فتح ہونا تھا ‘ جب اس کی رات آئی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ کل میں (اسلامی) عَلم اس شخص کو دوں گا یا فرمایا کہ علم وہ شخص لے گا جسے اللہ اور اس کا رسول عزیز رکھتے ہیں اور جس کے ہاتھ پر فتح حاصل ہوگی۔ ہم سب ہی اس سعادت کے امیدوار تھے لیکن کہا گیا کہ یہ ہیں علی (رض) اور آپ ﷺ نے انہیں کو جھنڈا دیا اور انہیں کے ہاتھ پر خیبر فتح ہوا۔
باب: غزوہ خیبر کا بیان۔
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے یعقوب بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا ‘ ان سے ابوحازم نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ مجھے سہل بن سعد (رض) نے خبر دی کہ غزوہ خیبر میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ کل میں جھنڈا ایک ایسے شخص کو دوں گا جس کے ہاتھوں پر اللہ تعالیٰ فتح عطا فرمائے گا اور جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہے اور اللہ اور اس کے رسول بھی اسے عزیز رکھتے ہیں۔ راوی نے بیان کیا کہ وہ رات سب کی اس فکر میں گزر گئی کہ دیکھیں ‘ نبی کریم ﷺ عَلم کسے عطا فرماتے ہیں۔ صبح ہوئی تو سب خدمت نبوی میں حاضر ہوئے اور اس امید کے ساتھ کہ علم انہیں کو ملے لیکن نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا کہ علی بن ابی طالب کہاں ہیں ؟ عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ ! وہ تو آنکھوں کی تکلیف میں مبتلا ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں بلا لاؤ۔ جب وہ لائے گئے تو آپ ﷺ نے اپنا تھوک ان کی آنکھوں میں لگایا اور ان کے لیے دعا کی۔ اس دعا کی برکت سے ان کی آنکھیں اتنی اچھی ہوگئیں جیسے پہلے کوئی بیماری ہی نہیں تھی۔ علی (رض) نے علم سنبھال کر عرض کیا : یا رسول اللہ ! میں ان سے اس وقت تک جنگ کروں گا جب تک وہ ہمارے ہی جیسے نہ ہوجائیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یوں ہی چلتے رہو ‘ ان کے میدان میں اتر کر پہلے انہیں اسلام کی دعوت دو اور بتاؤ کہ اللہ کا ان پر کیا حق ہے۔ اللہ کی قسم ! اگر تمہارے ذریعہ ایک شخص کو بھی ہدایت مل جائے تو یہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔
باب: غزوہ خیبر کا بیان۔
ہم سے عبدالغفار بن داؤد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے یعقوب بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا (دوسری سند) اور مجھ سے احمد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابن وہب نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھے یعقوب بن عبدالرحمٰن زہری نے خبر دی ‘ انہیں مطلب کے مولیٰ عمرو نے اور ان سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ ہم خیبر آئے پھر جب اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو خیبر کی فتح عنایت فرمائی تو آپ کے سامنے صفیہ بنت حیی بن اخطب (رض) کی خوبصورتی کا کسی نے ذکر کیا ‘ ان کے شوہر قتل ہوگئے تھے اور ان کی شادی ابھی نئی ہوئی تھی۔ اس لیے آپ ﷺ نے انہیں اپنے لیے لے لیا اور انہیں ساتھ لے کر آپ ﷺ روانہ ہوئے۔ آخر جب ہم مقام سد الصہباء میں پہنچے تو ام المؤمنین صفیہ (رض) حیض سے پاک ہوئیں اور نبی کریم ﷺ نے ان کے ساتھ خلوت فرمائی پھر آپ نے حیس بنایا۔ (جو کھجور کے ساتھ گھی اور پنیر وغیرہ ملا کر بنایا جاتا ہے) اور اسے چھوٹے سے ایک دستر خوان پر رکھ کر مجھ کو حکم فرمایا کہ جو لوگ تمہارے قریب ہیں انہیں بلا لو۔ ام المؤمنین صفیہ (رض) کا نبی کریم ﷺ کی طرف سے یہی ولیمہ تھا۔ پھر ہم مدینہ کے لیے روانہ ہوئے تو میں نے دیکھا کہ نبی کریم ﷺ نے صفیہ (رض) کے لیے عبا اونٹ کی کوہان میں باندھ دی تاکہ پیچھے سے وہ اسے پکڑے رہیں اور اپنے اونٹ کے پاس بیٹھ کر اپنا گھٹنا اس پر رکھا اور صفیہ (رض) اپنا پاؤں آپ ﷺ کے گھٹنے پر رکھ کر سوار ہوئیں۔
باب: غزوہ خیبر کا بیان۔
ہم سے اسماعیل بن ابواویس نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے میرے بھائی عبدالحمید نے بیان کیا ‘ ان سے سلیمان بن بلال نے ‘ ان سے یحییٰ بن سعید انصاری نے ‘ ان سے حمید طویل نے اور انہوں نے انس بن مالک (رض) سے سنا کہ نبی کریم ﷺ نے صفیہ بنت حیی (رض) کے لیے خیبر کے راستہ میں تین دن تک قیام فرمایا اور آخری دن ان سے خلوت فرمائی اور وہ بھی امہات المؤمنین میں شامل ہوگئیں۔
باب: غزوہ خیبر کا بیان۔
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو محمد بن جعفر بن ابی کثیر نے خبر دی ‘ کہا کہ مجھے حمید نے خبر دی اور انہوں نے انس بن مالک (رض) سے سنا ‘ وہ بیان کرتے تھے کہ نبی کریم ﷺ نے مدینہ اور خیبر کے درمیان (مقام سد الصہباء میں) تین دن تک قیام فرمایا اور وہیں صفیہ (رض) سے خلوت کی تھی پھر میں نے نبی کریم ﷺ کی طرف سے مسلمانوں کو ولیمہ کی دعوت دی۔ آپ کے ولیمہ میں نہ روٹی تھی ‘ نہ گوشت تھا صرف اتنا ہوا کہ آپ نے بلال (رض) کو دستر خوان بچھانے کا حکم دیا اور وہ بچھا دیا گیا۔ پھر اس پر کھجور ‘ پنیر اور گھی (کا ملیدہ) رکھ دیا۔ مسلمانوں نے کہا کہ صفیہ (رض) امہات المؤمنین میں سے ہیں یا باندی ہیں ؟ کچھ لوگوں نے کہا کہ اگر نبی کریم ﷺ نے انہیں پردے میں رکھا تو وہ امہات المؤمنین میں سے ہوں گی اور اگر آپ نے انہیں پردے میں نہیں رکھا تو پھر یہ اس کی علامت ہوگی کہ وہ باندی ہیں۔ آخر جب کوچ کا وقت ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے اپنی سواری پر پیچھے بیٹھنے کی جگہ بنائی اور ان کے لیے پردہ کیا۔
باب: غزوہ خیبر کا بیان۔
ہم سے ابوالولید ہشام بن عبدالملک نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے شعبہ بن حجاج نے بیان کیا ‘ (دوسری سند) اور مجھ سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے وہب بن جریر نے بیان کیا ‘ ان سے شعبہ نے بیان کیا ‘ ان سے حمید بن بلال نے اور ان سے عبداللہ بن مغفل (رض) نے بیان کیا کہ ہم خیبر کا محاصرہ کئے ہوئے تھے کہ کسی شخص نے چمڑے کی ایک کپی پھینکی جس میں چربی تھی ‘ میں اسے اٹھانے کے لیے دوڑا لیکن میں نے جو مڑ کر دیکھا تو نبی کریم ﷺ موجود تھے۔ میں شرم سے پانی پانی ہوگیا۔
باب: غزوہ خیبر کا بیان۔
مجھ سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے عبیداللہ نے ‘ ان سے نافع اور سالم نے اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ غزوہ خیبر کے موقع پر نبی کریم ﷺ نے لہسن اور پالتو گدھوں کے کھانے سے منع فرمایا تھا۔ لہسن کھانے کی ممانعت کا ذکر صرف نافع سے منقول ہے اور پالتو گدھوں کے کھانے کی ممانعت صرف سالم سے منقول ہے۔
باب: غزوہ خیبر کا بیان۔
مجھ سے یحییٰ بن قزعہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا ‘ ان سے ابن شہاب نے بیان کیا ‘ ان سے عبداللہ اور حسن نے جو دونوں محمد بن علی کے صاحبزادے ہیں ‘ ان سے ان کے والد نے اور ان سے علی بن ابی طالب (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے غزوہ خیبر کے موقع پر عورتوں سے متعہ کی ممانعت کی تھی اور پالتو گدھوں کے کھانے کی بھی۔
باب: غزوہ خیبر کا بیان۔
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی ‘ ان سے عبیداللہ بن عمر نے بیان کیا ‘ ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے غزوہ خیبر کے موقع پر پالتو گدھے کا گوشت کھانے کی ممانعت کی تھی۔
باب: غزوہ خیبر کا بیان۔
مجھ سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے محمد بن عبید نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے عبیداللہ نے بیان کیا ‘ ان سے نافع اور سالم نے اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے پالتو گدھوں کے گوشت کی ممانعت کی تھی۔
باب: غزوہ خیبر کا بیان۔
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے حماد بن زید نے ‘ ان سے عمرو نے ان سے محمد بن علی نے اور ان سے جابر بن عبداللہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے غزوہ خیبر کے موقع پر گدھے کے گوشت کھانے کی ممانعت کی تھی اور گھوڑوں کے گوشت کھانے کی اجازت دی تھی۔
باب: غزوہ خیبر کا بیان۔
ہم سے سعید بن سلیمان نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عباد نے بیان کیا ‘ ان سے شیبانی نے بیان کیا اور انہوں نے ابن ابی اوفی (رض) سے سنا کہ غزوہ خیبر میں ایک موقع پر ہم بہت بھوکے تھے ‘ ادھر ہانڈیوں میں ابال آ رہا تھا (گدھے کا گوشت پکایا جا رہا تھا) اور کچھ پک بھی گئیں تھیں کہ نبی کریم ﷺ کے منادی نے اعلان کیا کہ گدھے کے گوشت کا ایک ذرہ بھی نہ کھاؤ اور اسے پھینک دو ۔ ابن ابی اوفی (رض) نے بیان کیا کہ پھر بعض لوگوں نے کہا کہ آپ ﷺ نے اس کی ممانعت اس لیے کی ہے کہ ابھی اس میں سے خمس نہیں نکالا گیا تھا اور بعض لوگوں کا خیال تھا کہ آپ نے اس کی واقعی ممانعت (ہمیشہ کے لیے) کردی ہے ‘ کیونکہ یہ گندگی کھاتا ہے۔
باب: غزوہ خیبر کا بیان۔
ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ‘ کہا مجھ کو عدی بن ثابت نے خبر دی اور انہیں براء اور عبداللہ بن ابی اوفی (رض) نے کہ وہ لوگ نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھے ‘ پھر انہیں گدھے ملے تو انہوں نے ان کا گوشت پکایا لیکن نبی کریم ﷺ کے منادی نے اعلان کیا کہ ہانڈیاں انڈیل دو ۔
باب: غزوہ خیبر کا بیان۔
مجھ سے اسحاق نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عبدالصمد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ‘ ان سے عدی بن ثابت نے بیان کیا ‘ انہوں نے براء بن عازب اور عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہم سے سنا۔ یہ حضرات نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے تھے کہ آپ ﷺ نے غزوہ خیبر کے موقع پر فرمایا تھا کہ ہانڈیوں کا گوشت پھینک دو ‘ اس وقت ہانڈیاں چولہے پر رکھی جا چکی تھیں۔
باب: غزوہ خیبر کا بیان۔
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا ‘ ان سے شعبہ نے بیان کیا ‘ ان سے عدی بن ثابت نے اور ان سے براء بن عازب (رض) نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ غزوہ میں شریک تھے پھر پہلی حدیث کی طرح روایت نقل کی۔
باب: غزوہ خیبر کا بیان۔
مجھ سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو ابن ابی زائدہ نے خبر دی ‘ کہا ہم عاصم کونے خبر دی ‘ انہیں عامر نے اور ان سے براء بن عازب (رض) نے بیان کیا کہ غزوہ خیبر کے موقع پر نبی کریم ﷺ نے حکم دیا کہ پالتو گدھوں کا گوشت ہم پھینک دیں ‘ کچا بھی اور پکا ہوا بھی ‘ پھر ہمیں اس کے کھانے کا کبھی آپ ﷺ نے حکم نہیں دیا۔
باب: غزوہ خیبر کا بیان۔
مجھ سے محمد بن ابی الحسین نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عمر بن حفص نے بیان کیا ‘ کہا مجھ سے میرے والد نے ‘ ان سے ابوعاصم نے بیان کیا ‘ ان سے عامر نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ مجھے معلوم نہیں کہ آیا نبی کریم ﷺ نے گدھے کا گوشت کھانے سے اس لیے منع کیا تھا کہ اس سے بوجھ ڈھونے والے کا کام لیا جاتا ہے اور آپ نے پسند نہیں فرمایا کہ بوجھ ڈھونے والے جانور ختم ہوجائیں یا آپ نے صرف غزوہ خیبر کے موقع پر پالتو گدھوں کے گوشت کی ممانعت کی تھی۔
باب: غزوہ خیبر کا بیان۔
ہم سے حسن بن اسحاق نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے محمد بن سابق نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے زائدہ نے بیان کیا ‘ ان سے عبیداللہ بن عمر نے ‘ ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے غزوہ خیبر میں (مال غنیمت سے) سواروں کو دو حصے دیئے تھے اور پیدل فوجیوں کو ایک حصہ ‘ اس کی تفسیر نافع نے اس طرح کی ہے اگر کسی شخص کے ساتھ گھوڑا ہوتا تو اسے تین حصے ملتے تھے اور اگر گھوڑا نہ ہوتا تو صرف ایک حصہ ملتا تھا۔
باب: غزوہ خیبر کا بیان۔
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا ‘ ان سے یونس نے ‘ ان سے ابن شہاب نے ‘ ان سے سعید بن مسیب نے اور انہیں جبیر بن مطعم (رض) نے خبر دی کہ میں اور عثمان بن عفان (رض) نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ہم نے عرض کیا کہ آپ نے بنو مطلب کو تو خیبر کے خمس میں سے عنایت فرمایا ہے اور ہمیں نظر انداز کردیا ہے حالانکہ آپ سے قرابت میں ہم اور وہ برابر تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا یقیناً بنو ہاشم اور بنو مطلب ایک ہیں۔ جبیر بن مطعم رضی اللہ نے بیان کیا کہ آپ ﷺ نے بنو عبد شمس اور بنو نوفل کو (خمس میں سے) کچھ نہیں دیا تھا۔
باب: غزوہ خیبر کا بیان۔
مجھ سے محمد بن علاء نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے برید بن عبداللہ نے بیان کیا ‘ ان سے ابوبردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری (رض) نے بیان کیا کہ جب ہمیں نبی کریم ﷺ کی ہجرت کے متعلق خبر ملی تو ہم یمن میں تھے۔ اس لیے ہم بھی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ہجرت کی نیت سے نکل پڑے۔ میں اور میرے دو بھائی ‘ میں دونوں سے چھوٹا تھا۔ میرے ایک بھائی کا نام ابوبردہ (رض) تھا اور دوسرے کا ابو رہم۔ انہوں نے کہا کہ کچھ اوپر پچاس یا انہوں نے یوں بیان کیا کہ تریپن (53) یا باون (52) میری قوم کے لوگ ساتھ تھے۔ ہم کشتی پر سوار ہوئے لیکن ہماری کشتی نے ہمیں نجاشی کے ملک حبشہ میں لا ڈالا۔ وہاں ہماری ملاقات جعفر بن ابی طالب (رض) سے ہوگئی ‘ جو پہلے ہی مکہ سے ہجرت کر کے وہاں پہنچ چکے تھے۔ ہم نے وہاں انہیں کے ساتھ قیام کیا ‘ پھر ہم سب مدینہ ساتھ روانہ ہوئے۔ یہاں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں اس وقت پہنچے جب آپ خیبر فتح کرچکے تھے۔ کچھ لوگ ہم کشتی والوں سے کہنے لگے کہ ہم نے تم سے پہلے ہجرت کی ہے اور اسماء بنت عمیس (رض) جو ہمارے ساتھ مدینہ آئی تھیں ‘ ام المؤمنین حفصہ (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئیں ‘ ان سے ملاقات کے لیے وہ بھی نجاشی کے ملک میں ہجرت کرنے والوں کے ساتھ ہجرت کر کے چلی گئی تھیں۔ عمر (رض) بھی حفصہ (رض) کے گھر پہنچے۔ اس وقت اسماء بنت عمیس (رض) وہیں تھیں۔ جب عمر (رض) نے انہیں دیکھا تو دریافت فرمایا کہ یہ کون ہیں ؟ ام المؤمنین (رض) نے بتایا کہ اسماء بنت عمیس۔ عمر (رض) نے اس پر کہا اچھا وہی جو حبشہ سے بحری سفر کر کے آئی ہیں۔۔ اسماء (رض) نے کہا کہ جی ہاں۔ عمر (رض) نے ان سے کہا کہ ہم تم لوگوں سے ہجرت میں آگے ہیں اس لیے رسول اللہ ﷺ سے ہم تمہارے مقابلہ میں زیادہ قریب ہیں۔ اسماء (رض) اس پر بہت غصہ ہوگئیں اور کہا ہرگز نہیں : اللہ کی قسم ! تم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رہے ہو ‘ تم میں جو بھوکے ہوتے تھے اسے آپ ﷺ کھانا کھلاتے تھے اور جو ناواقف ہوتے اسے آپ ﷺ نصیحت و موعظت کیا کرتے تھے۔ لیکن ہم بہت دور حبشہ میں غیروں اور دشمنوں کے ملک میں رہتے تھے ‘ یہ سب کچھ ہم نے اللہ اور اس کے رسول کے راستے ہی میں تو کیا اور اللہ کی قسم ! میں اس وقت تک نہ کھانا کھاؤں گی نہ پانی پیوں گی جب تک تمہاری بات رسول اللہ ﷺ سے نہ کہہ لوں۔ ہمیں اذیت دی جاتی تھی ‘ دھمکایا ڈرایا جاتا تھا۔ میں نبی کریم ﷺ سے اس کا ذکر کروں گی اور آپ سے اس کے متعلق پوچھوں گی۔ اللہ کی قسم نہ میں جھوٹ بولوں گی ‘ نہ کج روی اختیار کروں گی اور نہ کسی (خلاف واقعہ بات کا) اضافہ کروں گی۔ چناچہ جب نبی کریم ﷺ تشریف لائے تو انہوں نے عرض کیا : یا نبی اللہ ! عمر (رض) اس طرح کی باتیں کرتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا کہ پھر تم نے انہیں کیا جواب دیا ؟ انہوں نے عرض کیا کہ میں نے انہیں یہ یہ جواب دیا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے اس پر فرمایا کہ وہ تم سے زیادہ مجھ سے قریب نہیں ہیں۔ انہیں اور ان کے ساتھیوں کو صرف ایک ہجرت حاصل ہوئی اور تم کشتی والوں نے دو ہجرتوں کا شرف حاصل کیا۔ انہوں نے بیان کیا کہ اس واقعہ کے بعد ابوموسیٰ (رض) اور تمام کشتی والے میرے پاس گروہ در گروہ آنے لگے اور مجھ سے اس حدیث کے متعلق پوچھنے لگے۔ ان کے لیے دنیا میں نبی کریم ﷺ کے ان کے متعلق اس ارشاد سے زیادہ خوش کن اور باعث فخر اور کوئی چیز نہیں تھی۔
باب: غزوہ خیبر کا بیان۔
ابوبردہ (رض) نے بیان کیا کہ اسماء (رض) نے بیان کیا کہ ابوموسیٰ (رض) مجھ سے اس حدیث کو باربار سنتے تھے۔ ابوبردہ (رض) نے بیان کیا اور ان سے ابوموسیٰ (رض) نے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب میرے اشعری احباب رات میں آتے ہیں تو میں ان کی قرآن کی تلاوت کی آواز پہچان جاتا ہوں۔ اگرچہ دن میں ‘ میں نے ان کی اقامت گاہوں کو نہ دیکھا ہو لیکن جب رات میں وہ قرآن پڑھتے ہیں تو ان کی آواز سے میں ان کی اقامت گاہوں کو پہچان لیتا ہوں۔ میرے انہی اشعری احباب میں ایک مرد دانا بھی ہے کہ جب کہیں اس کی سواروں سے مڈبھیڑ ہوجاتی ہے یا آپ نے فرمایا کہ دشمن سے ‘ تو ان سے کہتا ہے کہ میرے دوستوں نے کہا ہے کہ تم تھوڑی دیر کے لیے ان کا انتظار کرلو۔
باب: غزوہ خیبر کا بیان۔
مجھ سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا ‘ کہا ہم نے حفص بن غیاث سے سنا ‘ ان سے برید بن عبداللہ نے بیان کیا ‘ ان سے ابوبردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری (رض) نے بیان کیا کہ خیبر کی فتح کے بعد ہم نبی کریم ﷺ کی خدمت میں پہنچے لیکن نبی کریم ﷺ نے (مال غنیمت میں) ہمارا بھی حصہ لگایا۔ آپ نے ہمارے سوا کسی بھی ایسے شخص کا حصہ مال غنیمت میں نہیں لگایا جو فتح کے وقت (اسلامی لشکر کے ساتھ) موجود نہ رہا ہو۔
باب: غزوہ خیبر کا بیان۔
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے معاویہ بن عمرو نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے ابواسحاق نے بیان کیا ‘ ان سے امام مالک بن انس نے بیان کیا ‘ ان سے ثور نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابن مطیع کے مولیٰ سالم نے بیان کیا اور انہوں نے ابوہریرہ (رض) سے سنا ‘ انہوں نے بیان کیا کہ جب خیبر فتح ہوا تو مال غنیمت میں سونا اور چاندی نہیں ملا تھا بلکہ گائے ‘ اونٹ ‘ سامان اور باغات ملے تھے پھر ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ وادی القریٰ کی طرف لوٹے۔ نبی کریم ﷺ کے ساتھ ایک مدعم نامی غلام تھا جو بنی ضباب کے ایک صحابی نے آپ کو ہدیہ میں دیا تھا۔ وہ نبی کریم ﷺ کا کجاوہ اتار رہا تھا کہ کسی نامعلوم سمت سے ایک تیر آ کر ان کے لگا۔ لوگوں نے کہا مبارک ہو : شہادت ! لیکن آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہرگز نہیں ‘ اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جو چادر اس نے خیبر میں تقسیم سے پہلے مال غنیمت میں سے چرائی تھی وہ اس پر آگ کا شعلہ بن کر بھڑک رہی ہے۔ یہ سن کر ایک دوسرے صحابی ایک یا دو تسمے لے کر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یہ میں نے اٹھا لیے تھے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہ بھی جہنم کا تسمہ بنتا۔
باب: غزوہ خیبر کا بیان۔
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو محمد بن جعفر نے خبر دی ‘ کہا کہ مجھے زید نے خبر دی ‘ انہیں ان کے والد نے اور انہوں نے عمر بن خطاب (رض) سے سنا انہوں نے کہا ہاں اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر اس کا خطرہ نہ ہوتا کہ بعد کی نسلیں بےجائیداد رہ جائیں گی اور ان کے پاس کچھ نہ ہوگا تو جو بھی بستی میرے زمانہ خلافت میں فتح ہوتی ‘ میں اسے اسی طرح تقسیم کردیتا جس طرح نبی کریم ﷺ نے خیبر کی تقسیم کی تھی۔ میں ان مفتوحہ اراضی کو بعد میں آنے والے مسلمانوں کے لیے محفوظ چھوڑے جا رہا ہوں تاکہ وہ اسے تقسیم کرتے رہیں۔
باب: غزوہ خیبر کا بیان۔
مجھ سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابن مہدی نے بیان کیا ‘ ان سے امام مالک بن انس (رض) نے ‘ ان سے زید بن اسلم نے ‘ ان سے ان کے والد نے کہ عمر (رض) نے کہا اگر بعد میں آنے والے مسلمانوں کا خیال نہ ہوتا تو جو بستی بھی میرے دور میں فتح ہوتی ‘ میں اسے اسی طرح تقسیم کردیتا جس طرح نبی کریم ﷺ نے خیبر کی تقسیم کردی تھی۔
باب: غزوہ خیبر کا بیان۔
مجھ سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا ‘ کہا کہ میں نے زہری سے سنا اور ان سے اسماعیل بن امیہ نے سوال کیا تھا تو انہوں نے بیان کیا کہ مجھے عنبسہ بن سعید نے خبر دی کہ ابوہریرہ (رض) نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے (خیبر کی غنیمت میں سے) حصہ مانگا۔ سعید بن عاص کے ایک لڑکے (ابان بن سعید رضی اللہ عنہ) نے کہا : یا رسول اللہ ! انہیں نہ دیجئیے۔ اس پر ابوہریرہ (رض) نے کہا کہ یہ شخص تو ابن قوقل کا قاتل ہے۔ ابان (رض) اس پر بولے حیرت ہے اس وبر (بلی سے چھوٹا ایک جانور) پر جو قدوم الضان پہاڑی سے اتر آیا ہے۔ اور زبیدی سے روایت ہے کہ ان سے زہری نے بیان کیا ‘ انہیں عنبسہ بن سعید نے خبر دی ‘ انہوں نے ابوہریرہ (رض) سے سنا ‘ وہ سعید بن عاص (رض) کو خبر دے رہے تھے کہ ابان (رض) کو نبی کریم ﷺ نے کسی سریہ پر مدینہ سے نجد کی طرف بھیجا تھا۔ ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ پھر ابان (رض) اور ان کے ساتھی آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ‘ خیبر فتح ہوچکا تھا۔ ان لوگوں کے گھوڑے تنگ چھال ہی کے تھے ‘ (یعنی انہوں نے مہم میں کوئی کامیابی حاصل نہیں کی تھی) ۔ ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! غنیمت میں ان کا حصہ نہ لگایئے۔ اس پر ابان (رض) بولے اے وبر ! تیری حیثیت تو صرف یہ کہ قدوم الضان کی چوٹی سے اتر آیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ابان ! بیٹھ جا ! نبی کریم ﷺ نے ان لوگوں کا حصہ نہیں لگایا۔
باب: غزوہ خیبر کا بیان۔
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عمرو بن یحییٰ بن سعید نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھے میرے دادا نے خبر دی اور انہیں ابان بن سعید (رض) نے کہ وہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سلام کیا۔ ابوہریرہ (رض) بولے کہ یا رسول اللہ ! یہ تو ابن قوقل کا قاتل ہے اور ابان (رض) نے ابوہریرہ (رض) سے کہا حیرت ہے اس وبر پر جو قدوم الضان سے ابھی اترا ہے اور مجھ پر عیب لگاتا ہے ایک ایسے شخص پر کہ جس کے ہاتھ سے اللہ تعالیٰ نے انہیں (ابن قوقل (رض) کو) عزت دی اور ایسا نہ ہونے دیا کہ ان کے ہاتھ سے مجھے ذلیل کرتا۔
باب: غزوہ خیبر کا بیان۔
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا ‘ ان سے عقیل نے ‘ ان سے ابن شہاب نے ‘ ان سے عروہ نے ‘ ان سے عائشہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ کی صاحبزادی فاطمہ (رض) نے ابوبکر صدیق (رض) کے پاس کسی کو بھیجا اور ان سے اپنی میراث کا مطالبہ کیا نبی کریم ﷺ کے اس مال سے جو آپ کو اللہ تعالیٰ نے مدینہ اور فدک میں عنایت فرمایا تھا اور خیبر کا جو پانچواں حصہ رہ گیا تھا۔ ابوبکر (رض) نے یہ جواب دیا کہ نبی کریم ﷺ نے خود ہی ارشاد فرمایا تھا کہ ہم پیغمبروں کا کوئی وارث نہیں ہوتا ‘ ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ سب صدقہ ہوتا ہے ‘ البتہ آل محمد ﷺ اسی مال سے کھاتی رہے گی اور میں، اللہ کی قسم ! جو صدقہ نبی کریم ﷺ چھوڑ گئے ہیں اس میں کسی قسم کا تغیر نہیں کروں گا۔ جس حال میں وہ آپ ﷺ کے عہد میں تھا اب بھی اسی طرح رہے گا اور اس میں (اس کی تقسیم وغیرہ) میں میں بھی وہی طرز عمل اختیار کروں گا جو آپ ﷺ کا اپنی زندگی میں تھا۔ غرض ابوبکر (رض) نے فاطمہ (رض) کو کچھ بھی دینا منظور نہ کیا۔ اس پر فاطمہ (رض) ابوبکر (رض) کی طرف سے خفا ہوگئیں اور ان سے ترک ملاقات کرلیا اور اس کے بعد وفات تک ان سے کوئی گفتگو نہیں کی۔ فاطمہ (رض) آپ ﷺ کے بعد چھ مہینے تک زندہ رہیں۔ جب ان کی وفات ہوئی تو ان کے شوہر علی (رض) نے انہیں رات میں دفن کردیا اور ابوبکر (رض) کو اس کی خبر نہیں دی اور خود ان کی نماز جنازہ پڑھ لی۔ فاطمہ (رض) جب تک زندہ رہیں علی (رض) پر لوگ بہت توجہ رکھتے رہے لیکن ان کی وفات کے بعد انہوں نے دیکھا کہ اب لوگوں کے منہ ان کی طرف سے پھرے ہوئے ہیں۔ اس وقت انہوں نے ابوبکر (رض) سے صلح کرلینا اور ان سے بیعت کرلینا چاہا۔ اس سے پہلے چھ ماہ تک انہوں نے ابوبکر (رض) سے بیعت نہیں کی تھی پھر انہوں نے ابوبکر (رض) کو بلا بھیجا اور کہلا بھیجا کہ آپ صرف تنہا آئیں اور کسی کو اپنے ساتھ نہ لائیں ان کو یہ منظور نہ تھا کہ عمر (رض) ان کے ساتھ آئیں۔ عمر (رض) نے ابوبکر (رض) سے کہا کہ اللہ کی قسم ! آپ تنہا ان کے پاس نہ جائیں۔ ابوبکر (رض) نے کہا کیوں وہ میرے ساتھ کیا کریں گے میں تو اللہ کی قسم ! ضرور ان کی پاس جاؤں گا۔ آخر آپ علی (رض) کے یہاں گئے۔ علی (رض) نے اللہ کو گواہ کیا ‘ اس کے بعد فرمایا ہمیں آپ کے فضل و کمال اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بخشا ہے ‘ سب کا ہمیں اقرار ہے جو خیر و امتیاز آپ کو اللہ تعالیٰ نے دیا تھا ہم نے اس میں کوئی ریس بھی نہیں کی لیکن آپ نے ہمارے ساتھ زیادتی کی (کہ خلافت کے معاملہ میں ہم سے کوئی مشورہ نہیں لیا) ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اپنی قرابت کی وجہ سے اپنا حق سمجھتے تھے (کہ آپ ہم سے مشورہ کرتے) ابوبکر (رض) پر ان باتوں سے گریہ طاری ہوگئی اور جب بات کرنے کے قابل ہوئے تو فرمایا اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے رسول اللہ ﷺ کی قرابت کے ساتھ صلہ رحمی مجھے اپنی قرابت سے صلہ رحمی سے زیادہ عزیز ہے۔ لیکن میرے اور لوگوں کے درمیان ان اموال کے سلسلے میں جو اختلاف ہوا ہے تو میں اس میں حق اور خیر سے نہیں ہٹا ہوں اور اس سلسلہ میں جو راستہ میں نے نبی کریم ﷺ کا دیکھا خود میں نے بھی اسی کو اختیار کیا۔ علی (رض) نے اس کے بعد ابوبکر (رض) سے کہا کہ دوپہر کے بعد میں آپ سے بیعت کروں گا۔ چناچہ ظہر کی نماز سے فارغ ہو کر ابوبکر (رض) منبر پر آئے اور خطبہ کے بعد علی (رض) کے معاملے کا اور ان کے اب تک بیعت نہ کرنے کا ذکر کیا اور وہ عذر بھی بیان کیا جو علی (رض) نے پیش کیا تھا پھر علی (رض) نے استغفار اور شہادت کے بعد ابوبکر (رض) کا حق اور ان کی بزرگی بیان کی اور فرمایا کہ جو کچھ انہوں نے کیا ہے اس کا باعث ابوبکر (رض) سے حسد نہیں تھا اور نہ ان کے فضل و کمال کا انکار مقصود تھا جو اللہ تعالیٰ نے انہیں عنایت فرمایا یہ بات ضرور تھی کہ ہم اس معاملہ خلافت میں اپنا حق سمجھتے تھے (کہ ہم سے مشورہ لیا جاتا) ہمارے ساتھ یہی زیادتی ہوئی تھی جس سے ہمیں رنج پہنچا۔ مسلمان اس واقعہ پر بہت خوش ہوئے اور کہا کہ آپ نے درست فرمایا۔ جب علی (رض) نے اس معاملہ میں یہ مناسب راستہ اختیار کرلیا تو مسلمان ان سے خوش ہوگئے اور علی (رض) سے اور زیادہ محبت کرنے لگے جب دیکھا کہ انہوں نے اچھی بات اختیار کرلی ہے۔
باب: غزوہ خیبر کا بیان۔
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے حرمی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھے عمارہ نے خبر دی ‘ انہیں عکرمہ نے اور ان سے ام المؤمنین عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ جب خیبر فتح ہوا تو ہم نے کہا اب کھجوروں سے ہمارا جی بھر جائے گا۔
باب: غزوہ خیبر کا بیان۔
ہم سے حسن نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے قرہ بن حبیب نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن دینار نے بیان کیا ‘ ان سے ان کے والد نے اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ جب تک خیبر فتح نہیں ہوا تھا ہم تنگی میں تھے۔
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خیبر والوں پر تحصیل دار مقرر فرمانا۔
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا ‘ ان سے عبدالمجید بن سہیل نے ‘ ان سے سعید بن مسیب نے اور ان سے ابو سعید خدری (رض) اور ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک صحابی (سواد بن غزیہ رضی اللہ عنہ) کو خیبر کا عامل مقرر کیا۔ وہ وہاں سے عمدہ قسم کی کھجوریں لائے تو نبی کریم ﷺ نے ان سے دریافت فرمایا کہ کیا خیبر کی تمام کھجوریں ایسی ہی ہیں ؟ انہوں نے عرض کیا کہ نہیں، اللہ کی قسم یا رسول اللہ ! ہم اس طرح کی ایک صاع کھجور (اس سے خراب) دو یا تین صاع کھجور کے بدلے میں ان سے لے لیتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اس طرح نہ کیا کرو ‘ بلکہ (اگر اچھی کھجور لانی ہو تو) ردی کھجور پہلے درہم کے بدلے بیچ ڈالا کرو ‘ پھر ان دراہم سے اچھی کھجور خرید لیا کرو۔ اور عبدالعزیز بن محمد نے بیان کیا ‘ ان سے عبدالمجید نے بیان کیا ‘ ان سے سعید نے بیان کیا اور ان سے ابوسعید اور ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے انصار کے خاندان بنی عدی کے بھائی کو خیبر بھیجا اور انہیں وہاں کا عامل مقرر کیا اور عبدالمجید سے روایت ہے کہ ان سے ابوصالح سمان نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) اور ابوسعید (رض) نے اسی طرح نقل کیا ہے۔
None
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کے خاندان بنی عدی کے بھائی کو خیبر بھیجا اور انہیں وہاں کا عامل مقرر کیا اور عبدالمجید سے روایت ہے کہ ان سے ابوصالح سمان نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور ابوسعید رضی اللہ عنہ نے اسی طرح نقل کیا ہے۔
None
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کے خاندان بنی عدی کے بھائی کو خیبر بھیجا اور انہیں وہاں کا عامل مقرر کیا اور عبدالمجید سے روایت ہے کہ ان سے ابوصالح سمان نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور ابوسعید رضی اللہ عنہ نے اسی طرح نقل کیا ہے۔
باب: خیبر والوں کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ طے کرنا۔
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے جویریہ نے بیان کیا ‘ ان سے نافع نے ان سے عبداللہ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے خیبر (کی زمین و باغات وہاں کے) یہودیوں کے پاس ہی رہنے دیئے تھے کہ وہ ان میں کام کریں اور بوئیں جو تیں اور انہیں ان کی پیداوار کا آدھا حصہ ملے گا۔
باب: خیبر والوں کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ طے کرنا۔
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے لیث نے بیان کیا ‘ ان سے سعید نے بیان کیا ‘ ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ خیبر کی فتح کے بعد نبی کریم ﷺ کو (ایک یہودی عورت کی طرف سے) بکری کے گوشت کا ہدیہ پیش کیا گیا جس میں زہر ملا ہوا تھا۔
باب: غزوہ زید بن حارثہ کا بیان۔
ہم سے مسدد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا ‘ ان سے عبداللہ بن دینار نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ ایک جماعت کا امیر رسول اللہ ﷺ نے اسامہ بن زید (رض) کو بنایا۔ ان کی امارت پر بعض لوگوں کو اعتراض ہوا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ آج تم کو اس کی امارت پر اعتراض ہے تم ہی کچھ دن پہلے اس کے باپ کی امارت پر اعتراض کرچکے ہو۔ حالانکہ اللہ کی قسم وہ امارت کے مستحق و اہل تھے۔ اس کے علاوہ وہ مجھے سب سے زیادہ عزیز تھے جس طرح یہ اسامہ (رض) ان کے بعد مجھے سب سے زیادہ عزیز ہے۔
باب: عمرہ قضاء کا بیان۔
مجھ سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا ‘ ان سے اسرائیل نے بیان کیا ‘ ان سے ابواسحاق نے اور ان سے براء (رض) نے بیان کیا کہ انس (رض) نبی کریم ﷺ نے ذی قعدہ میں عمرہ کا احرام باندھا۔ مکہ والے آپ کے مکہ میں داخل ہونے سے مانع آئے۔ آخر معاہدہ اس پر ہوا کہ (آئندہ سال) مکہ میں تین دن آپ قیام کرسکتے ہیں۔ معاہدہ یوں لکھا جانے لگا یہ وہ معاہدہ ہے جو محمد رسول اللہ ﷺ نے کیا۔ کفار قریش کہنے لگے کہ ہم یہ تسلیم نہیں کرتے۔ اگر ہم آپ کو اللہ کا رسول مانتے تو روکتے ہی کیوں ‘ آپ تو بس محمد بن عبداللہ ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ میں اللہ کا رسول بھی ہوں اور محمد بن عبداللہ بھی ہوں۔ پھر علی (رض) سے فرمایا کہ (رسول اللہ کا لفظ مٹا دو ) انہوں نے کہا کہ ہرگز نہیں، اللہ کی قسم ! میں یہ لفظ کبھی نہیں مٹا سکتا۔ نبی کریم ﷺ نے وہ تحریر اپنے ہاتھ میں لے لی۔ آپ لکھنا نہیں جانتے تھے لیکن آپ نے اس کے الفاظ اس طرح کردیئے یہ معاہدہ ہے جو محمد بن عبداللہ نے کیا کہ وہ ہتھیار لے کر مکہ میں نہیں آئیں گے۔ البتہ ایسی تلوار جو نیام میں ہو ساتھ لاسکتے ہیں اور یہ اگر مکہ والوں میں سے کوئی ان کے ساتھ جانا چاہے گا تو اسے اپنے ساتھ نہیں لے جائیں گے۔ لیکن اگر ان کے ساتھیوں میں کوئی مکہ میں رہنا چاہے گا اسے نہ روکیں گے۔ پھر جب (آئندہ سال) آپ اس معاہدہ کے مطابق مکہ میں داخل ہوئے (اور تین دن کی) مدت پوری ہوگئی تو مکہ والے علی (رض) کے پاس آئے اور کہا کہ اپنے ساتھی سے کہو کہ اب یہاں سے چلے جائیں ‘ کیونکہ مدت پوری ہوگئی ہے۔ جب نبی کریم ﷺ مکہ سے نکلے تو آپ کے پیچھے حمزہ (رض) کی بیٹی چچا چچا کہتی ہوئی آئیں۔ علی (رض) نے انہیں لے لیا اور ہاتھ پکڑ کر فاطمہ (رض) کے پاس لائے اور کہا کہ اپنے چچا کی بیٹی کو لے لو میں اسے لیتا آیا ہوں۔ علی ‘ زید ‘ جعفر رضی اللہ عنہم کا اختلاف ہوا۔ علی (رض) نے کہا کہ یہ میرے چچا کی لڑکی ہے اور جعفر (رض) نے کہا کہ یہ میرے چچا کی لڑکی ہے اس کی خالہ میرے نکاح میں ہیں۔ زید (رض) نے کہا یہ میرے بھائی کی لڑکی ہے لیکن نبی کریم ﷺ نے ان کی خالہ کے حق میں فیصلہ فرمایا (جو جعفر (رض) کے نکاح میں تھیں) اور فرمایا خالہ ماں کے درجے میں ہوتی ہے اور علی (رض) سے فرمایا کہ تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں۔ جعفر (رض) سے فرمایا کہ تم صورت و شکل اور عادت و اخلاق دونوں میں مجھ سے مشابہ ہو اور زید (رض) سے فرمایا کہ تم ہمارے بھائی اور ہمارے مولا ہو۔ علی (رض) نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا کہ حمزہ (رض) کی صاحبزادی کو آپ اپنے نکاح میں لے لیں لیکن آپ نے فرمایا کہ وہ میرے رضاعی بھائی کی لڑکی ہے۔
باب: عمرہ قضاء کا بیان۔
مجھ سے محمد بن رافع نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سریج نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے فلیح نے بیان کیا۔ (دوسری سند اور مجھ سے محمد بن حسین بن ابراہیم نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا ‘ ان سے فلیح بن سلیمان نے بیان کیا ‘ ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ عمرہ کے ارادے سے نکلے ‘ لیکن کفار قریش نے بیت اللہ پہنچنے سے آپ کو روکا۔ چناچہ نبی کریم ﷺ نے اپنا قربانی کا جانور حدیبیہ میں ہی ذبح کردیا اور وہیں سر بھی منڈوایا اور ان سے معاہدہ کیا کہ آپ آئندہ سال عمرہ کرسکتے ہیں لیکن (نیام میں تلواروں کے سوا اور) کوئی ہتھیار ساتھ نہیں لاسکتے اور جتنے دنوں مکہ والے چاہیں گے ‘ اس سے زیادہ آپ وہاں ٹھہر نہیں سکیں گے۔ اس لیے نبی کریم ﷺ نے آئندہ سال عمرہ کیا اور معاہدہ کے مطابق مکہ میں داخل ہوئے۔ تین دن وہاں مقیم رہے۔ پھر قریش نے آپ سے جانے کے لیے کہا اور آپ مکہ سے چلے آئے۔
باب: عمرہ قضاء کا بیان۔
مجھ سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے جریر بن عبدالحمید نے بیان کیا ‘ کہا ان سے منصور بن معتمر نے ‘ ان سے مجاہد نے بیان کیا کہ میں اور عروہ بن زبیر دونوں مسجد نبوی میں داخل ہوئے تو ابن عمر (رض) عائشہ (رض) کے حجرے کے نزدیک بیٹھے ہوئے تھے۔ عروہ نے سوال کیا کہ نبی کریم ﷺ نے کل کتنے عمرے کئے تھے ؟ ابن عمر (رض) نے کہا کہ چار اور ایک ان میں سے رجب میں کیا تھا۔ پھر ہم نے ام المؤمنین عائشہ (رض) کے (اپنے گھر میں) مسواک کرنے کی آواز سنی تو عروہ نے ان سے پوچھا : اے ایمان والوں کی ماں ! آپ نے سنا ہے یا نہیں، ابوعبدالرحمٰن (عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے چار عمرے کئے تھے جس میں سے ایک رجب میں کیا تھا۔ ام المؤمنین (رض) نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے جب بھی عمرہ کیا تو عبداللہ بن عمر (رض) آپ کے ساتھ تھے لیکن آپ نے رجب میں کوئی عمرہ نہیں کیا۔
باب: عمرہ قضاء کا بیان۔
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ‘ ان سے اسماعیل بن ابی خالد نے ‘ انہوں نے عبداللہ بن ابی اوفی (رض) سے سنا ‘ وہ بیان کرتے تھے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے عمرہ کیا تو ہم آپ پر آڑ کئے ہوئے مشرکین کے لڑکوں اور مشرکین سے آپ کی حفاظت کرتے رہتے تھے تاکہ وہ آپ کو کوئی ایذا نہ دے سکیں۔
باب: عمرہ قضاء کا بیان۔
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ‘ ان سے ایوب سختیانی نے ‘ ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے عبداللہ بن عباس (رض) نے کہ جب نبی کریم ﷺ صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ (عمرہ کے لیے مکہ) تشریف لائے تو مشرکین نے کہا کہ تمہارے یہاں وہ لوگ آ رہے ہیں جنہیں یثرب (مدینہ) کے بخار نے کمزور کردیا ہے۔ اس لیے نبی کریم ﷺ نے حکم دیا کہ طواف کے پہلے تین چکروں میں اکڑ کر چلا جائے اور رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان حسب معمول چلیں۔ تمام چکروں میں اکڑ کر چلنے کا حکم آپ نے اس لیے نہیں دیا کہ کہیں یہ (امت پر) دشوار نہ ہوجائے۔ اور حماد بن سلمہ نے ایوب سے اس حدیث کو روایت کر کے یہ اضافہ کیا ہے۔ ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ جب نبی کریم ﷺ اس سال عمرہ کرنے آئے جس میں مشرکین نے آپ کو امن دیا تھا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اکڑ کر چلو تاکہ مشرکین تمہاری قوت کو دیکھیں۔ مشرکین جبل قعیقعان کی طرف کھڑے دیکھ رہے تھے۔
باب: عمرہ قضاء کا بیان۔
مجھ سے محمد بن سلام نے بیان کیا ‘ ان سے سفیان بن عیینہ نے ‘ ان سے عمرو بن دینار نے ‘ ان سے عطاء ابن ابی رباح نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے بیت اللہ کے طواف میں رمل اور صفا ومروہ کے درمیان دوڑ ‘ مشرکین کے سامنے اپنی طاقت دکھانے کے لیے کی تھی۔
باب: عمرہ قضاء کا بیان۔
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے وہیب نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ایوب نے بیان کیا ‘ ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ جب نبی کریم ﷺ نے ام المؤمنین میمونہ (رض) سے نکاح کیا تو آپ محرم تھے اور جب ان سے خلوت کی تو آپ احرام کھول چکے تھے۔ میمونہ (رض) کا انتقال بھی اسی مقام سرف میں ہوا۔ امام بخاری (رح) نے اور ابن اسحاق نے اپنی روایت میں یہ اضافہ کیا ہے کہ مجھ سے ابن ابی نجیح اور ابان بن صالح نے بیان کیا ‘ ان سے عطاء اور مجاہد نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے میمونہ (رض) سے عمرہ قضاء میں نکاح کیا تھا۔
باب: غزوہ موتہ کا بیان جو سر زمین شام میں سنہ ۸ ھ میں ہوا تھا۔
ہم سے احمد بن صالح نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا ‘ ان سے عمرو بن حارث انصاری نے ‘ ان سے سعید بن ابی ہلال نے بیان کیا اور کہا کہ مجھ کو نافع نے خبر دی اور انہیں ابن عمر (رض) نے خبر دی کہ اس غزوہ موتہ میں جعفر طیار (رض) کی لاش پر کھڑے ہو کر میں نے شمار کیا تو نیزوں اور تلواروں کے پچاس زخم ان کے جسم پر تھے لیکن پیچھے یعنی پیٹھ پر ایک زخم بھی نہیں تھا۔
باب: غزوہ موتہ کا بیان جو سر زمین شام میں سنہ ۸ ھ میں ہوا تھا۔
ہمیں احمد بن ابی بکر نے خبر دی ‘ انہوں نے کہا ہم سے مغیرہ بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا ‘ ان سے عبداللہ نے بیان کیا ‘ ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے غزوہ موتہ کے لشکر کا امیر زید بن حارثہ (رض) کو بنایا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے یہ بھی فرما دیا تھا کہ اگر زید شہید ہوجائیں تو جعفر امیر ہوں اور اگر جعفر بھی شہید ہوجائیں تو عبداللہ بن رواحہ امیر ہوں۔ عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ اس غزوہ میں ‘ میں بھی شریک تھا۔ بعد میں جب ہم نے جعفر (رض) کو تلاش کیا تو ان کی لاش ہمیں شہداء میں ملی اور ان کے جسم پر کچھ اوپر نوے زخم نیزوں اور تیروں کے تھے۔
باب: غزوہ موتہ کا بیان جو سر زمین شام میں سنہ ۸ ھ میں ہوا تھا۔
ہم سے احمد بن واقد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ‘ ان سے ایوب سختیانی نے ‘ ان سے حمید بن ہلال نے اور ان سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے زید ‘ جعفر اور عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہم کی شہادت کی خبر اس وقت صحابہ رضی اللہ عنہم کو دے دی تھی جب ابھی ان کے متعلق کوئی خبر نہیں آئی تھی۔ آپ ﷺ فرماتے جا رہے تھے کہ اب زید جھنڈا اٹھائے ہوئے ہیں ‘ اب وہ شہید کردیئے گئے ‘ اب جعفر نے جھنڈا اٹھا لیا ‘ وہ بھی شہید کردیئے گئے۔ اب ابن رواحہ نے جھنڈا اٹھا لیا ‘ وہ بھی شہید کردیئے گئے۔ نبی کریم ﷺ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ آخر اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار خالد بن ولید نے جھنڈا اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اللہ نے ان کے ہاتھ پر فتح عنایت فرمائی۔
باب: غزوہ موتہ کا بیان جو سر زمین شام میں سنہ ۸ ھ میں ہوا تھا۔
میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا ‘ انہوں نے بیان کیا زید بن حارثہ ‘ جعفر بن ابی طالب اور عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہم کی شہادت کی خبر آئی تھی ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے اور آپ کے چہرے سے غم ظاہر ہو رہا تھا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں دروازے کی دراڑ سے جھانک رہی تھی۔ اتنے میں ایک آدمی نے آ کر عرض کیا: یا رسول اللہ! جعفر رضی اللہ عنہ کے گھر کی عورتیں چلاّ کر رو رہی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ انہیں روک دو۔ بیان کیا کہ وہ صاحب گئے اور پھر واپس آ کر کہا کہ میں نے انہیں روکا اور یہ بھی کہہ دیا کہ انہوں نے اس کی بات نہیں مانی۔ پھر اس نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر منع کرنے کے لیے فرمایا۔ وہ صاحب پھر جا کر واپس آئے اور کہا: قسم اللہ کی! وہ تو ہم پر غالب آ گئی ہیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی تھیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ پھر ان کے منہ میں مٹی جھونک دو۔ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا نے بیان کیا ‘ میں نے کہا: اللہ تیری ناک غبار آلود کرے نہ تو تو عورتوں کو روک سکا نہ تو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دینا ہی چھوڑا۔
باب: غزوہ موتہ کا بیان جو سر زمین شام میں سنہ ۸ ھ میں ہوا تھا۔
مجھ سے محمد بن ابی بکر نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عمر بن علی نے بیان کیا ‘ ان سے اسماعیل بن ابی خالد نے بیان کیا ‘ ان سے عامر شعبی نے بیان کیا کہ ابن عمر (رض) جب جعفر بن ابی طالب (رض) کے بیٹے کے لیے سلام بھیجتے تو السلام علیک یا ابن ذی الجناحین کہتے۔
باب: غزوہ موتہ کا بیان جو سر زمین شام میں سنہ ۸ ھ میں ہوا تھا۔
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ‘ ان سے اسماعیل بن ابی خالد نے ‘ ان سے قیس بن ابی حازم نے بیان کیا کہ میں نے خالد بن ولید (رض) سے سنا ‘ انہوں نے بیان کیا کہ غزوہ موتہ میں میرے ہاتھ نو تلواریں ٹوٹی تھیں۔ صرف ایک یمن کا بنا ہوا چوڑے پھل کا تیغہ باقی رہ گیا تھا۔
باب: غزوہ موتہ کا بیان جو سر زمین شام میں سنہ ۸ ھ میں ہوا تھا۔
مجھ سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا ‘ ان سے اسماعیل بن ابی خالد نے بیان کیا ‘ ان سے قیس بن ابی حازم نے بیان کیا ‘ کہا کہ میں نے خالد بن ولید (رض) سے سنا ‘ وہ بیان کرتے تھے کہ غزوہ موتہ میں میرے ہاتھ سے نو تلواریں ٹوٹی تھیں ‘ صرف ایک یمنی تیغہ میرے ہاتھ میں باقی رہ گیا تھا۔
باب: غزوہ موتہ کا بیان جو سر زمین شام میں سنہ ۸ ھ میں ہوا تھا۔
مجھ سے عمران بن میسرہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے محمد بن فضیل نے بیان کیا ‘ ان سے حصین بن عبدالرحمٰن نے ‘ ان سے عامر شعبی نے اور ان سے نعمان بن بشیر نے کہ عبداللہ بن رواحہ (رض) پر (ایک مرتبہ کسی مرض میں) بےہوشی طاری ہوئی تو ان کی بہن عمرہ والدہ نعمان بن بشیر یہ سمجھ کر کہ کوئی حادثہ آگیا ‘ عبداللہ بن رواحہ (رض) کے لیے پکار کر رونے لگیں۔ ہائے میرے بھائی ہائے ‘ میرے ایسے اور ویسے۔ ان کے محاسن اس طرح ایک ایک کر کے گنانے لگیں لیکن جب عبداللہ (رض) کو ہوش آیا تو انہوں نے کہا کہ تم جب میری کسی خوبی کا بیان کرتی تھیں تو مجھ سے پوچھا جاتا تھا کہ کیا تم واقعی ایسے ہی تھے۔
باب: غزوہ موتہ کا بیان جو سر زمین شام میں سنہ ۸ ھ میں ہوا تھا۔
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عبثر بن قاسم نے بیان کیا ‘ ان سے حصین نے ‘ ان سے شعبی نے اور ان سے نعمان بن بشیر (رض) نے بیان کیا کہ عبداللہ بن رواحہ (رض) کو بےہوشی ہوگئی تھی ‘ پھر اوپر کی حدیث کی طرح بیان کیا۔ چناچہ جب (غزوہ موتہ) میں وہ شہید ہوئے تو ان کی بہن ان پر نہیں روئیں۔
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کو حرقات کے مقابلہ پر بھیجنا۔
مجھ سے عمرو بن محمد بغدادی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ہشیم نے بیان کیا ‘ انہیں حصین نے خبر دی ‘ انہیں ابوظبیان حصین بن جندب نے ‘ کہا کہ میں نے اسامہ بن زید (رض) سے سنا ‘ انہوں نے بیان کیا کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے قبیلہ حرقہ کی طرف بھیجا۔ ہم نے صبح کے وقت ان پر حملہ کیا اور انہیں شکست دے دی ‘ پھر میں اور ایک اور انصاری صحابی اس قبیلہ کے ایک شخص (مرداس بن عمر نامی) سے بھڑ گئے۔ جب ہم نے اس پر غلبہ پا لیا تو وہ لا الہٰ الا اللہ کہنے لگا۔ انصاری تو فوراً ہی رک گیا لیکن میں نے اسے اپنے برچھے سے قتل کردیا۔ جب ہم لوٹے تو نبی کریم ﷺ کو بھی اس کی خبر ہوئی۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ اسامہ کیا اس کے لا الہٰ الا اللہ کہنے کے باوجود تم نے اسے قتل کردیا ؟ میں نے عرض کیا کہ وہ قتل سے بچنا چاہتا تھا (اس نے یہ کلمہ دل سے نہیں پڑھا تھا) ۔ اس پر آپ ﷺ باربار یہی فرماتے رہے (کیا تم نے اس کے لا الہٰ الا اللہ کہنے پر بھی اسے قتل کردیا) کہ میرے دل میں یہ آرزو پیدا ہوئی کہ کاش میں آج سے پہلے اسلام نہ لاتا۔
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کو حرقات کے مقابلہ پر بھیجنا۔
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے حاتم بن اسماعیل نے بیان کیا ‘ ان سے یزید بن ابی عبید نے بیان کیا اور انہوں نے سلمہ بن اکوع (رض) سے سنا ‘ وہ بیان کرتے تھے کہ میں نبی کریم ﷺ کے ہمراہ سات غزووں میں شریک رہا ہوں اور نو ایسے لشکروں میں شریک ہوا ہوں جو آپ نے روانہ کئے تھے۔ (مگر آپ خود ان میں نہیں گئے) کبھی ہم پر ابوبکر (رض) امیر ہوئے اور کسی فوج کے امیر اسامہ (رض) ہوئے۔ حدیث نمبر : 4271 وَقَالَ عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ : حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ سَلَمَةَ ، يَقُولُ : غَزَوْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبْعَ غَزَوَاتٍ ، وَخَرَجْتُ فِيمَا يَبْعَثُ مِنَ الْبَعْثِ تِسْعَ غَزَوَاتٍ عَلَيْنَا، مَرَّةً أَبُو بَكْرٍ ، وَمَرَّةً أُسَامَةُ .
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کو حرقات کے مقابلہ پر بھیجنا۔
ہم سے ابوعاصم الضحاک بن مخلد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے یزید بن ابی عبید نے بیان کیا ‘ ان سے سلمہ بن اکوع (رض) نے بیان کیا کہ میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ سات غزووں میں شریک رہا ہوں اور میں نے ابن حارثہ (یعنی اسامہ رضی اللہ عنہ) کے ساتھ بھی غزوہ کیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے انہیں ہم پر امیر بنایا تھا۔
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کو حرقات کے مقابلہ پر بھیجنا۔
ہم سے محمد بن عبداللہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے حماد بن مسعدہ نے بیان کیا ‘ ان سے یزید بن ابی عبید نے اور ان سے سلمہ بن اکوع (رض) نے کہ میں نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ سات غزوے کئے۔ اس سلسلہ میں انہوں نے غزوہ خیبر ‘ غزوہ حدیبیہ ‘ غزوہ حنین اور غزوہ ذات القرد کا ذکر کیا۔ یزید نے کہا کہ باقی غزووں کے نام میں بھول گیا۔
باب: غزوہ فتح مکہ کا بیان۔
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ‘ ان سے عمرو بن دینار نے بیان کیا ‘ انہیں حسن بن محمد بن علی نے خبر دی اور انہوں نے عبیداللہ بن رافع سے سنا ‘ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے علی (رض) سے سنا ‘ انہوں نے بیان کیا کہ مجھے، زبیر اور مقداد رضی اللہ عنہم کو رسول اللہ ﷺ نے روانہ کیا اور ہدایت کی کہ (مکہ کے راستے پر) چلے جانا جب تم مقام روضہ خاخ پر پہنچو تو وہاں تمہیں ہودج میں ایک عورت ملے گی۔ وہ ایک خط لیے ہوئے ہے ‘ تم اس سے وہ لے لینا۔ انہوں نے کہا کہ ہم روانہ ہوئے۔ ہمارے گھوڑے ہمیں تیزی کے ساتھ لیے جا رہے تھے۔ جب ہم روضہ خاخ پر پہنچے تو واقعی وہاں ہمیں ایک عورت ہودج میں سوار ملی (جس کا نام سارا یا کناد ہے) ہم نے اس سے کہا کہ خط نکال۔ وہ کہنے لگی کہ میرے پاس تو کوئی خط نہیں ہے لیکن جب ہم نے اس سے یہ کہا کہ اگر تو نے خود سے خط نکال کر ہمیں نہیں دیا تو ہم تیرا کپڑا اتار کر (تلاشی لیں گے) تب اس نے اپنی چوٹی میں سے وہ خط نکالا۔ ہم وہ خط لے کر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں واپس ہوئے۔ اس میں یہ لکھا تھا کہ حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے چند مشرکین مکہ کے نام (صفوان بن امیہ اور سہیل بن عمرو اور عکرمہ بن ابوجہل) پھر انہوں نے اس میں مشرکین کو نبی کریم ﷺ کے بعض بھیدوں کی خبر بھی دی تھی۔ (آپ فوج لے کر آنا چاہتے ہیں) نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا کہ اے حاطب ! تو نے یہ کیا کیا ؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میرے بارے میں فیصلہ کرنے میں آپ جلدی نہ فرمائیں ‘ میں اس کی وجہ عرض کرتا ہوں۔ بات یہ ہے کہ میں دوسرے مہاجرین کی طرح قریش کے خاندان سے نہیں ہوں ‘ صرف ان کا حلیف بن کر ان سے جڑ گیا ہوں اور دوسرے مہاجرین کے وہاں عزیز و اقرباء ہیں جو ان کے گھر بار مال و اسباب کی نگرانی کرتے ہیں۔ میں نے چاہا کہ خیر جب میں خاندان کی رو سے ان کا شریک نہیں ہوں تو کچھ احسان ہی ان پر ایسا کر دوں جس کے خیال سے وہ میرے کنبہ والوں کو نہ ستائیں۔ میں نے یہ کام اپنے دین سے پھر کر نہیں کیا اور نہ اسلام لانے کے بعد میرے دل میں کفر کی حمایت کا جذبہ ہے۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ واقعی انہوں نے تمہارے سامنے سچی بات کہہ دی ہے۔ عمر (رض) نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! اجازت ہو تو میں اس منافق کی گردن اڑا دوں لیکن نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہ غزوہ بدر میں شریک رہے ہیں اور تمہیں کیا معلوم اللہ تعالیٰ جو غزوہ بدر میں شریک ہونے والوں کے کام سے واقف ہے سورة الممتحنہ میں اس نے ان کے متعلق خود فرما دیا ہے کہ جو چاہو کرو میں نے تمہارے گناہ معاف کردیئے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی يا أيها الذين آمنوا لا تتخذوا عدوي وعدوکم أولياء تلقون إليهم بالمودة اے وہ لوگو جو ایمان لا چکے ہو ! میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ کہ ان سے تم اپنی محبت کا اظہار کرتے رہو۔ آیت فقد ضل سواء السبيل تک۔
باب: فتح مکہ کا بیان جو رمضان سنہ ۸ ھ میں ہوا تھا۔
ہم سے عبداللہ بن یوسف تینسی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے لیث بن مسعود نے ‘ کہا کہ مجھ سے عقیل بن خالد نے بیان کیا ‘ ان سے ابن شہاب نے ‘ کہا کہ مجھے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے خبر دی اور انہیں ابن عباس (رض) نے خبر دی کہ نبی کریم ﷺ نے غزوہ فتح مکہ رمضان میں کیا تھا۔ زہری نے ابن سعد سے بیان کیا کہ میں نے سعید بن مسیب سے سنا کہ وہ بھی اسی طرح بیان کرتے تھے۔ زہری نے عبیداللہ سے روایت کیا ‘ ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ (غزوہ فتح کے سفر میں جاتے ہوئے) رسول اللہ ﷺ روزے سے تھے لیکن جب آپ مقام کدید پہنچے ‘ جو قدید اور عسفان کے درمیان ایک چشمہ ہے تو آپ ﷺ نے روزہ توڑ دیا۔ اس کے بعد نبی کریم ﷺ نے روزہ نہیں رکھا یہاں تک کہ رمضان کا مہینہ ختم ہوگیا۔
باب: فتح مکہ کا بیان جو رمضان سنہ ۸ ھ میں ہوا تھا۔
مجھ سے محمود بن غیلان نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو عبدالرزاق نے خبر دی ‘ کہا ہم کو معمر نے خبر دی ‘ کہا مجھے زہری نے خبر دی ‘ انہیں عبیداللہ بن عبداللہ اور انہیں عبداللہ بن عباس (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ (فتح کے لیے) مدینہ سے روانہ ہوئے۔ آپ کے ساتھ (دس یا بارہ ہزار کا) لشکر تھا۔ اس وقت آپ کو مدینہ میں تشریف لائے ساڑھے آٹھ سال پورے ہونے والے تھے۔ چناچہ نبی کریم ﷺ اور آپ کے ساتھ جو مسلمان تھے مکہ کے لیے روانہ ہوئے۔ نبی کریم ﷺ بھی روزے سے تھے اور تمام مسلمان بھی ‘ لیکن جب آپ مقام کدید پر پہنچے جو قدید اور عسفان کے درمیان ایک چشمہ ہے تو آپ نے روزہ توڑ دیا اور آپ کے ساتھ مسلمانوں نے بھی روزہ توڑ دیا۔ زہری نے کہا کہ نبی کریم ﷺ کے سب سے آخری عمل پر ہی عمل کیا جائے گا۔
باب: فتح مکہ کا بیان جو رمضان سنہ ۸ ھ میں ہوا تھا۔
مجھ سے عیاش بن ولید نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عبدالاعلیٰ نے بیان کیا ‘ ان سے خالد نے بیان کیا ‘ ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ رمضان میں حنین کی طرف تشریف لے گئے۔ مسلمانوں میں بعض حضرات تو روزے سے تھے اور بعض نے روزہ نہیں رکھا تھا لیکن جب نبی کریم ﷺ اپنی سواری پر پوری طرح بیٹھ گئے تو آپ نے برتن میں دودھ یا پانی طلب فرمایا اور اسے اپنی اونٹنی پر یا اپنی ہتھیلی پر رکھا (اور پھر پی لیا) پھر آپ نے لوگوں کو دیکھا تو جن لوگوں نے پہلے سے روزہ نہیں رکھا تھا ‘ انہوں نے روزہ داروں سے کہا کہ اب روزہ توڑ لو۔ اور عبدالرزاق نے کہا ہم کو معمر نے خبر دی ‘ انہیں ایوب نے ‘ انہیں عکرمہ نے اور انہیں ابن عباس (رض) نے نبی کریم ﷺ سے نقل کیا۔ اور حماد نے ایوب سے روایت کیا ‘ انہوں نے عکرمہ سے ‘ انہوں نے عبداللہ بن عباس (رض) سے اور انہوں نے نبی کریم ﷺ سے نقل کیا۔
باب: فتح مکہ کا بیان جو رمضان سنہ ۸ ھ میں ہوا تھا۔
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے جریر نے بیان کیا ‘ ان سے منصور نے ‘ ان سے مجاہد نے ‘ ان سے طاؤس نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان میں (فتح مکہ کا) سفر شروع کیا۔ آپ ﷺ روزے سے تھے لیکن جب مقام عسفان پر پہنچے تو پانی طلب فرمایا۔ دن کا وقت تھا اور آپ نے وہ پانی پیا تاکہ لوگوں کو دکھلا سکیں پھر آپ ﷺ نے روزہ نہیں رکھا اور مکہ میں داخل ہوئے۔ بیان کیا کہ ابن عباس (رض) کہا کرتے تھے کہ نبی کریم ﷺ نے سفر میں (بعض اوقات) روزہ بھی رکھا تھا اور بعض اوقات روزہ نہیں بھی رکھا۔ اس لیے (سفر میں) جس کا جی چاہے روزہ رکھے اور جس کا جی چاہے نہ رکھے۔ مسافر کے لیے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے۔ (روایت میں فتح مکہ کے لیے سفر کرنے کا ذکر ہے۔ یہی باب سے مطابقت ہے) ۔
باب: فتح مکہ کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جھنڈا کہاں گاڑا تھا؟
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا ‘ ان سے ہشام بن عروہ نے ‘ ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ ﷺ فتح مکہ کے لیے روانہ ہوئے تو قریش کو اس کی خبر مل گئی تھی۔ ، چناچہ ابوسفیان بن حرب ‘ حکیم بن حزام اور بدیل بن ورقاء نبی کریم ﷺ کے بارے میں معلومات کے لیے مکہ سے نکلے۔ یہ لوگ چلتے چلتے مقام مر الظہران پر جب پہنچے تو انہیں جگہ جگہ آگ جلتی ہوئی دکھائی دی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ مقام عرفات کی آگ ہے۔ ابوسفیان نے کہا یہ آگ کیسی ہے ؟ یہ عرفات کی آگ کی طرح دکھائی دیتی ہے۔ اس پر بدیل بن ورقاء نے کہا کہ یہ بنی عمرو (یعنی قباء کے قبیلے) کی آگ ہے۔ ابوسفیان نے کہا کہ بنی عمرو کی تعداد اس سے بہت کم ہے۔ اتنے میں نبی کریم ﷺ کے محافظ دستے نے انہیں دیکھ لیا اور ان کو پکڑ کر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں لائے ‘ پھر ابوسفیان (رض) نے اسلام قبول کیا۔ اس کے بعد جب نبی کریم ﷺ آگے (مکہ کی طرف) بڑھے تو عباس (رض) سے فرمایا کہ ابوسفیان کو ایسی جگہ پر روکے رکھو جہاں گھوڑوں کا جاتے وقت ہجوم ہو تاکہ وہ مسلمانوں کی فوجی قوت کو دیکھ لیں۔ چناچہ عباس (رض) انہیں ایسے ہی مقام پر روک کر کھڑے ہوگئے اور نبی کریم ﷺ کے ساتھ قبائل کے دستے ایک ایک کر کے ابوسفیان کے سامنے سے گزرنے لگے۔ ایک دستہ گزرا تو انہوں نے پوچھا : عباس ! یہ کون ہیں ؟ انہوں نے بتایا کہ یہ قبیلہ غفار ہے۔ ابوسفیان نے کہا کہ مجھے غفار سے کیا سروکار ‘ پھر قبیلہ جہینہ گزرا تو ان کے متعلق بھی انہوں نے یہی کہا ‘ قبیلہ سلیم گزرا تو ان کے متعلق بھی یہی کہا۔ آخر ایک دستہ سامنے آیا۔ اس جیسا فوجی دستہ نہیں دیکھا گیا ہوگا۔ ابوسفیان (رض) نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں ؟ عباس (رض) نے کہا کہ یہ انصار کا دستہ ہے۔ سعد بن عبادہ (رض) اس کے امیر ہیں اور انہیں کے ہاتھ میں (انصار کا علم ہے) سعد بن عبادہ (رض) نے کہا : ابوسفیان ! آج کا دن قتل عام کا دن ہے۔ آج کعبہ میں بھی لڑنا درست کردیا گیا ہے۔ ابوسفیان (رض) اس پر بولے : اے عباس ! (قریش کی ہلاکت و بربادی کا دن اچھا آ لگا ہے۔ پھر ایک اور دستہ آیا یہ سب سے چھوٹا دستہ تھا۔ اس میں رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم تھے۔ نبی کریم ﷺ کا علم زبیر بن العوام (رض) اٹھائے ہوئے تھے۔ جب نبی کریم ﷺ ابوسفیان کے قریب سے گزرے تو انہوں نے کہا آپ کو معلوم نہیں ‘ سعد بن عبادہ (رض) کیا کہہ گئے ہیں۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ انہوں نے کیا کہا ہے ؟ تو ابوسفیان نے بتایا کہ یہ یہ کہہ گئے ہیں کہ آپ قریش کا کام تمام کردیں گے۔ (سب کو قتل کر ڈالیں گے) ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ سعد نے غلط کہا ہے بلکہ آج کا دن وہ ہے جس میں اللہ کعبہ کی عظمت اور زیادہ کر دے گا۔ آج کعبہ کو غلاف پہنایا جائے گا۔ عروہ نے بیان کیا پھر آپ ﷺ نے حکم دیا کہ آپ کا علم مقام جحون میں گاڑ دیا جائے۔ عروہ نے بیان کیا اور مجھے نافع بن جبیر بن مطعم نے خبر دی ‘ کہا کہ میں نے عباس (رض) سے سنا ‘ انہوں نے زبیر بن عوام (رض) سے کہا (فتح مکہ کے بعد) کہ نبی کریم ﷺ نے ان کو یہیں جھنڈا گاڑنے کے لیے حکم فرمایا تھا۔ راوی نے بیان کیا کہ اس دن نبی کریم ﷺ نے خالد بن ولید (رض) کو حکم دیا تھا کہ مکہ کے بالائی علاقہ کداء کی طرف سے داخل ہوں اور خود نبی کریم ﷺ کداء (نشیبی علاقہ) کی طرف سے داخل ہوئے۔ اس دن خالد (رض) کے دستہ کے دو صحابی ‘ حبیش بن اشعر اور کرز بن جابر فہری شہید ہوئے تھے۔
باب: فتح مکہ کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جھنڈا کہاں گاڑا تھا؟
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ‘ ان سے معاویہ بن قرہ نے بیان کیا ‘ انہوں نے عبداللہ بن مغفل (رض) سے سنا ‘ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ فتح مکہ کے موقع پر اپنے اونٹ پر سوار ہیں اور خوش الحانی کے ساتھ سورة الفتح کی تلاوت فرما رہے ہیں۔ معاویہ بن قرہ (رض) نے کہا کہ اگر اس کا خطرہ نہ ہوتا کہ لوگ مجھے گھیر لیں گے تو میں بھی اسی طرح تلاوت کر کے دکھاتا جیسے عبداللہ بن مغفل (رض) نے پڑھ کر سنایا تھا۔
باب: فتح مکہ کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جھنڈا کہاں گاڑا تھا؟
ہم سے سلیمان بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سعدان بن یحییٰ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے محمد بن ابی حفصہ نے بیان کیا ‘ کہا ان سے زہری نے ‘ ان سے زین العابدین علی بن حسین نے ‘ ان سے عمرو بن عثمان نے اور ان سے اسامہ بن زید (رض) نے بیان کیا کہ فتح مکہ کے سفر میں انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا : یا رسول اللہ ! کل (مکہ میں) آپ کہاں قیام فرمائیں گے ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہمارے لیے عقیل نے کوئی گھر ہی کہاں چھوڑا ہے۔ پھر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ مومن ‘ کافر کا وارث نہیں ہوسکتا اور نہ کافر مومن کا وارث ہوسکتا ہے۔ زہری سے پوچھا گیا کہ پھر ابوطالب کی وراثت کسے ملی تھی ؟ انہوں نے بتایا کہ ان کے وارث عقیل اور طالب ہوئے تھے۔ معمر نے زہری سے (اسامہ (رض) کا سوال یوں نقل کیا ہے کہ) آپ اپنے حج کے دوران کہاں قیام فرمائیں گے ؟ اور یونس نے (اپنی روایت میں) نہ حج کا ذکر کیا ہے اور نہ فتح مکہ کا۔
باب: فتح مکہ کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جھنڈا کہاں گاڑا تھا؟
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے شعیب نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا ‘ ان سے عبدالرحمٰن نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ان شاء اللہ ہماری قیام گاہ اگر اللہ تعالیٰ نے فتح عنایت فرمائی تو خیف بنی کنانہ میں ہوگی۔ جہاں قریش نے کفر کی حمایت کے لیے قسم کھائی تھی۔
باب: فتح مکہ کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جھنڈا کہاں گاڑا تھا؟
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم کو ابن شہاب نے خبر دی ‘ انہیں ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے جب حنین کا ارادہ کیا تو فرمایا ان شاء اللہ کل ہمارا قیام خیف بنی کنانہ میں ہوگا جہاں قریش نے کفر کے لیے قسم کھائی تھی۔
باب: فتح مکہ کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جھنڈا کہاں گاڑا تھا؟
ہم سے یحییٰ بن قزعہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے مالک نے بیان کیا ‘ ان سے ابن شہاب نے اور ان سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ فتح مکہ کے موقع پر جب نبی کریم ﷺ مکہ میں داخل ہوئے تو سر مبارک پر خود تھی۔ آپ ﷺ نے اسے اتارا ہی تھا کہ ایک صحابی نے آ کر عرض کیا کہ ابن خطل کعبہ کے پردہ سے چمٹا ہوا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اسے (وہیں) قتل کر دو ۔ امام مالک (رح) نے کہا جیسا کہ ہم سمجھتے ہیں آگے اللہ جانے ‘ نبی کریم ﷺ اس دن احرام باندھے ہوئے نہیں تھے۔
باب: فتح مکہ کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جھنڈا کہاں گاڑا تھا؟
ہم سے صدقہ بن فضل نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو سلیمان بن عیینہ نے خبر دی ‘ انہیں ابن ابی نجیح نے ‘ انہیں مجاہد نے ‘ انہیں ابومعمر نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ فتح مکہ کے دن جب نبی کریم ﷺ مکہ میں داخل ہوئے تو بیت اللہ کے چاروں طرف تین سو ساٹھ بت تھے۔ نبی کریم ﷺ ایک چھڑی سے جو دست مبارک میں تھی ‘ مارتے جاتے تھے اور اس آیت کی تلاوت کرتے جاتے جاء الحق وزهق الباطل، جاء الحق، وما يبدئ الباطل وما يعيد کہ حق قائم ہوگیا اور باطل مغلوب ہوگیا ‘ حق قائم ہوگیا اور باطل سے نہ شروع میں کچھ ہوسکا ہے نہ آئندہ کچھ ہوسکتا ہے۔
باب: فتح مکہ کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جھنڈا کہاں گاڑا تھا؟
مجھ سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عبدالصمد نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے میرے والد عبدالوارث نے بیان کیا ‘ ان سے ایوب سختیانی نے بیان کیا ‘ ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ جب مکہ آئے تو بیت اللہ میں اس وقت تک داخل نہیں ہوئے جب تک اس میں بت موجود رہے بلکہ آپ نے حکم دیا تو بتوں کو باہر نکال دیا گیا۔ انہیں میں ایک تصویر ابراہیم اور اسماعیل (علیہما السلام) کی بھی تھی اور ان کے ہاتھوں میں (پانسہ) کے تیر تھے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ ان مشرکین کا ناس کرے ‘ انہیں خوب معلوم تھا کہ ان بزرگوں نے کبھی پانسہ نہیں پھینکا۔ پھر آپ ﷺ بیت اللہ میں داخل ہوئے اور اندر چاروں طرف تکبیر کہی پھر باہر تشریف لائے۔ آپ ﷺ نے اندر نماز نہیں پڑھی تھی۔ عبدالصمد کے ساتھ اس حدیث کو معمر نے بھی ایوب سے روایت کیا اور وہیب بن خالد نے یوں کہا ‘ ہم سے ایوب نے بیان کیا ‘ انہوں نے عکرمہ سے ‘ انہوں نے نبی کریم ﷺ سے۔
None
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر فتح مکہ کے دن مکہ کے بالائی علاقہ کی طرف سے شہر میں داخل ہوئے۔ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما آپ کی سواری پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ کے ساتھ بلال رضی اللہ عنہ اور کعبہ کے حاجب عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ آخر اپنے اونٹ کو آپ نے مسجد ( کے قریب باہر ) بٹھایا اور بیت اللہ کی کنجی لانے کا حکم دیا پھر آپ بیت اللہ کے اندر تشریف لے گئے۔ آپ کے ساتھ اسامہ بن زید ‘ بلال اور عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہم بھی تھے۔ آپ اندر کافی دیر تک ٹھہرے ‘ جب باہر تشریف لائے تو لوگ جلدی سے آگے بڑھے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سب سے پہلے اندر جانے والوں میں تھے۔ انہوں نے بیت اللہ کے دروازے کے پیچھے بلال رضی اللہ عنہ کو کھڑے ہوئے دیکھا اور ان سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہاں نماز پڑھی تھی۔ انہوں نے وہ جگہ بتلائی جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی تھی۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں یہ پوچھنا بھول گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں کتنی رکعتیں پڑھی تھیں۔
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا شہر کے بالائی جانب سے مکہ میں داخل ہونا۔
ہم سے ہشیم بن خارجہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے حفص بن میسرہ نے بیان کیا ‘ ان سے ہشام بن عروہ نے ‘ ان سے ان کے والد نے اور انہیں عائشہ (رض) نے خبر دی کہ نبی کریم ﷺ فتح مکہ کے دن مکہ کے بالائی علاقہ کداء سے شہر میں داخل ہوئے تھے۔ اس روایت کی متابعت ابواسامہ اور وہیب نے کداء کے ذکر کے ساتھ کی ہے۔
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا شہر کے بالائی جانب سے مکہ میں داخل ہونا۔
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا ‘ ان سے ہشام نے اور ان سے ان کے والد نے کہ نبی کریم ﷺ فتح مکہ کے دن مکہ کے بالائی علاقہ کداء کی طرف سے داخل ہوئے تھے۔
فتح (مکہ) کے دن آنحضرت ﷺ کے اترنے کی جگہ کا بیان
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ‘ ان سے عمرو نے ‘ ان سے ابن ابی لیلیٰ نے کہ ام ہانی (رض) کے سوا ہمیں کسی نے یہ خبر نہیں دی کہ نبی کریم ﷺ نے چاشت کی نماز پڑھی ‘ انہی نے کہا کہ جب مکہ فتح ہوا تو نبی کریم ﷺ نے ان کے گھر غسل کیا اور آٹھ رکعت نماز پڑھی۔ انہوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ کو میں نے اتنی ہلکی نماز پڑھتے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ پھر بھی اس میں آپ ﷺ رکوع اور سجدہ پوری طرح کرتے تھے۔
باب: فتح مکہ کے دن قیام نبوی کا بیان۔
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے غندر نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ‘ ان سے منصور نے ‘ ان سے ابوالضحیٰ نے ‘ ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ اپنے رکوع اور سجدہ میں یہ پڑھتے تھے سبحانک اللهم، ربنا وبحمدک، اللهم اغفر لي۔
باب: فتح مکہ کے دن قیام نبوی کا بیان۔
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا ‘ ان سے ابوبشر نے ‘ ان سے سعید بن جبیر نے ‘ ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ عمر (رض) مجھے اپنی مجلس میں اس وقت بھی بلا لیتے جب وہاں بدر کی جنگ میں شریک ہونے والے بزرگ صحابہ رضی اللہ عنہم بیٹھے ہوتے۔ اس پر بعض لوگ کہنے لگے اس جوان کو آپ ہماری مجلس میں کیوں بلاتے ہیں ؟ اس کے جیسے تو ہمارے بچے بھی ہیں۔ اس پر عمر (رض) نے کہا وہ تو ان لوگوں میں سے ہے جن کا علم و فضل تم جانتے ہو۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر ان بزرگ صحابیوں کو ایک دن عمر (رض) نے بلایا اور مجھے بھی بلایا۔ بیان کیا کہ میں سمجھتا تھا کہ مجھے اس دن آپ نے اس لیے بلایا تھا تاکہ آپ میرا علم بتاسکیں۔ پھر آپ نے دریافت کیا إذا جاء نصر الله والفتح * ورأيت الناس يدخلون ‘ ختم سورت تک ‘ کے متعلق تم لوگوں کا کیا خیال ہے ؟ کسی نے کہا کہ ہمیں اس آیت میں حکم دیا گیا ہے کہ ہم اللہ کی حمد بیان کریں اور اس سے استغفار کریں کہ اس نے ہماری مدد کی اور ہمیں فتح عنایت فرمائی۔ بعض نے کہا کہ ہمیں اس کے متعلق کچھ معلوم نہیں ہے اور بعض نے کوئی جواب نہیں دیا پھر انہوں نے مجھ سے دریافت کیا : ابن عباس ! کیا تمہارا بھی یہی خیال ہے ؟ میں نے جواب دیا کہ نہیں ‘ پوچھا ‘ پھر تم کیا کہتے ہو ؟ میں نے کہا کہ اس میں رسول اللہ ﷺ کی وفات کی طرف اشارہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی مدد اور فتح حاصل ہوگئی۔ یعنی فتح مکہ تو یہ آپ ﷺ کی وفات کی نشانی ہے۔ اس لیے آپ اپنے رب کی حمد اور تسبیح اور اس کی مغفرت طلب کریں کہ وہ توبہ قبول کرنے والا ہے۔ عمر (رض) نے کہا کہ جو کچھ تم نے کہا وہی میں بھی سمجھتا ہوں۔
باب: فتح مکہ کے دن قیام نبوی کا بیان۔
ہم سے سعید بن شرحبیل نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا ‘ ان سے مقبری نے کہ ابوشریح عدوی (رض) نے (مدینہ کے امیر) عمرو بن سعید سے کہا جب کہ عمرو بن سعید (عبداللہ بن زبیر (رض) کے خلاف) مکہ کی طرف لشکر بھیج رہے تھے کہ اے امیر ! مجھے اجازت دیجئیے کہ میں آپ سے ایک حدیث بیان کروں جو رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے دوسرے دن ارشاد فرمائی تھی۔ اس حدیث کو نبی کریم ﷺ ارشاد فرما رہے تھے تو میں اپنی آنکھوں سے آپ کو دیکھ رہا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے پہلے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور پھر فرمایا ‘ بلاشبہ مکہ کو اللہ تعالیٰ نے حرمت والا شہر قرار دیا ہے کسی انسان نے اسے اپنے طرف سے حرمت والا قرار نہیں دیا۔ اس لیے کسی شخص کے لیے بھی جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو ‘ جائز نہیں کہ اس میں کسی کا خون بہائے اور کوئی اس سر زمین کا کوئی درخت کاٹے اور اگر کوئی شخص رسول اللہ ﷺ کے (فتح مکہ کے موقع پر) جنگ سے اپنے لیے بھی رخصت نکالے تو تم اس سے کہہ دینا کہ اللہ تعالیٰ نے صرف اپنے رسول کو (تھوڑی دیر کے لیے) اس کی اجازت دی تھی۔ ہمارے لیے بالکل اجازت نہیں ہے اور مجھے بھی اس کی اجازت دن کے تھوڑے سے حصے کے لیے ملی تھی اور آج پھر اس کی حرمت اسی طرح لوٹ آئی ہے جس طرح کل یہ شہر حرمت والا تھا۔ پس جو لوگ یہاں موجود ہیں وہ (ان کو میرا کلام) پہنچا دیں جو موجود نہیں۔ ابوشریح سے پوچھا گیا کہ عمرو بن سعید نے آپ کو پھر جواب کیا دیا تھا ؟ تو انہوں نے بتایا کہ اس نے کہا کہ میں یہ مسائل تم سے زیادہ جانتا ہوں ‘ حرم کسی گنہگار کو پناہ نہیں دیتا ‘ نہ کسی کا خون کر کے بھاگنے والے کو پناہ دیتا ہے ‘ مفسد کو بھی پناہ نہیں دیتا۔
باب: فتح مکہ کے دن قیام نبوی کا بیان۔
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے لیث نے بیان کیا ‘ ان سے یزید بن ابی حبیب نے ‘ ان سے عطاء بن ابی رباح نے اور ان سے جابر بن عبداللہ (رض) نے بیان کیا انہوں نے نبی کریم ﷺ سے سنا آپ نے فتح مکہ کے موقع پر مکہ مکرمہ میں فرمایا تھا کہ اللہ اور اس کے رسول نے شراب کی خریدو فروخت مطلق حرام قرار دے دی ہے۔
باب: فتح مکہ کے زمانہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مکہ میں قیام کرنا۔
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا (دوسری سند) اور ہم سے قبیصہ بن عقبہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا ‘ ان سے یحییٰ بن ابی اسحاق نے اور ان سے انس (رض) نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ (مکہ میں) دس دن ٹھہرے تھے اور اس مدت میں ہم نماز قصر کرتے تھے۔
باب: فتح مکہ کے زمانہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مکہ میں قیام کرنا۔
ہم سے عبدان نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی ‘ کہا ہم کو عاصم نے خبر دی ‘ انہیں عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے مکہ میں انیس دن قیام فرمایا تھا اور اس مدت میں نماز دو رکعتیں (قصر) پڑھتے تھے۔
باب: فتح مکہ کے زمانہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مکہ میں قیام کرنا۔
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابوشہاب نے بیان کیا ‘ ان سے عاصم نے ‘ ان سے عکرمہ نے اور ان سے عبداللہ بن عباس (رض) نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ سفر میں (فتح مکہ کے بعد) انیس دن تک تو نماز قصر پڑھتے تھے ‘ لیکن جب اس سے زیادہ مدت گزر جاتی تو پھر پوری نماز پڑھتے تھے۔
None
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے دن ان کے چہرے پر ( شفقت کی راہ سے ) ہاتھ پھیرا تھا۔
لیث، یونس، ابن شہاب، عبداللہ بن ثعلبہ بن صعیر سے روایت کرتے ہیں جن کی پیشانی پر آنحضرت ﷺ نے مکہ کے سال ہاتھ پھیرا تھا۔
مجھ سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو ہشام بن یوسف نے خبر دی ‘ انہیں معمر نے اور انہیں زہری نے ‘ انہیں سفیان نے ‘ انہیں ابوجمیلہ نے ‘ زہری نے بیان کیا کہ جب ہم سے ابوجمیلہ (رض) نے حدیث بیان کی تو ہم سعید بن مسیب کے ساتھ تھے بیان کیا کہ ابوجمیلہ (رض) نے کہا کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کی صحبت پائی اور وہ آپ کے ساتھ غزوہ فتح مکہ کے لیے نکلے تھے۔
لیث، یونس، ابن شہاب، عبداللہ بن ثعلبہ بن صعیر سے روایت کرتے ہیں جن کی پیشانی پر آنحضرت ﷺ نے مکہ کے سال ہاتھ پھیرا تھا۔
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ‘ ان سے ایوب سختیانی نے اور ان سے ابوقلابہ نے اور ان سے عمرو بن سلمہ (رض) نے ‘ ایوب نے کہا کہ مجھ سے ابوقلابہ نے کہا ‘ عمرو بن سلمہ (رض) کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ قصہ کیوں نہیں پوچھتے ؟ ابوقلابہ نے کہا کہ پھر میں ان کی خدمت میں گیا اور ان سے سوال کیا ‘ انہوں نے کہا کہ جاہلیت میں ہمارا قیام ایک چشمہ پر تھا جہاں عام راستہ تھا۔ سوار ہمارے قریب سے گزرتے تو ہم ان سے پوچھتے ‘ لوگوں کا کیا خیال ہے ‘ اس شخص کا کیا معاملہ ہے ؟ (یہ اشارہ نبی کریم ﷺ کی طرف ہوتا تھا) لوگ بتاتے کہ وہ کہتے ہیں کہ اللہ نے انہیں اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے اور اللہ ان پر وحی نازل کرتا ہے ‘ یا اللہ نے ان پر وحی نازل کی ہے (وہ قرآن کی کوئی آیت سناتے) میں وہ فوراً یاد کرلیتا ‘ ان کی باتیں میرے دل کو لگتی تھیں۔ ادھر سارے عرب والے فتح مکہ پر اپنے اسلام کو موقوف کئے ہوئے تھے۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ اس نبی کو اور اس کی قوم (قریش) کو نمٹنے دو ‘ اگر وہ ان پر غالب آگئے تو پھر واقعی وہ سچے نبی ہیں۔ چناچہ جب مکہ فتح ہوگیا تو ہر قوم نے اسلام لانے میں پہل کی اور میرے والد نے بھی میری قوم کے اسلام میں جلدی کی۔ پھر جب (مدینہ) سے واپس آئے تو کہا کہ میں اللہ کی قسم ایک سچے نبی کے پاس سے آ رہا ہوں۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ فلاں نماز اس طرح فلاں وقت پڑھا کرو اور جب نماز کا وقت ہوجائے تو تم میں سے کوئی ایک شخص اذان دے اور امامت وہ کرے جسے قرآن سب سے زیادہ یاد ہو۔ لوگوں نے اندازہ کیا کہ کسے قرآن سب سے زیادہ یاد ہے تو کوئی شخص ان کے قبیلے میں مجھ سے زیادہ قرآن یاد کرنے والا انہیں نہیں ملا۔ کیونکہ میں آنے جانے والے سواروں سے سن کر قرآن مجید یاد کرلیا کرتا تھا۔ اس لیے مجھے لوگوں نے امام بنایا۔ حالانکہ اس وقت میری عمر چھ یا سات سال کی تھی اور میرے پاس ایک ہی چادر تھی۔ جب میں (اسے لپیٹ کر) سجدہ کرتا تو اوپر ہوجاتی (اور پیچھے کی جگہ) کھل جاتی۔ اس قبیلہ کی ایک عورت نے کہا ‘ تم اپنے قاری کا چوتڑ تو پہلے چھپا دو ۔ آخر انہوں نے کپڑا خریدا اور میرے لیے ایک قمیص بنائی، میں جتنا خوش اس قمیص سے ہوا اتنا کسی اور چیز سے نہیں ہوا تھا۔
لیث، یونس، ابن شہاب، عبداللہ بن ثعلبہ بن صعیر سے روایت کرتے ہیں جن کی پیشانی پر آنحضرت ﷺ نے مکہ کے سال ہاتھ پھیرا تھا۔
مجھ سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ بن زبیر نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا، نبی کریم ﷺ سے (دوسری سند اور لیث بن سعد نے کہا مجھ سے یونس نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، انہیں عروہ بن زبیر نے خبر دی اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ عتبہ بن ابی وقاص نے (مرتے وقت زمانہ جاہلیت میں) اپنے بھائی (سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ) کو وصیت کی تھی کہ وہ زمعہ بن لیثی کی باندی سے پیدا ہونے والے بچے کو اپنے قبضے میں لے لیں۔ عتبہ نے کہا تھا کہ وہ میرا لڑکا ہوگا۔ چناچہ جب فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ ﷺ مکہ میں داخل ہوئے تو سعد بن ابی وقاص (رض) اس بچے کو لے کر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان کے ساتھ عبد بن زمعہ بھی آئے۔ سعد بن ابی وقاص (رض) نے تو یہ کہا کہ یہ میرے بھائی کا لڑکا ہے۔ لیکن عبد بن زمعہ نے کہا : یا رسول اللہ ! یہ میرا بھائی ہے (میرے والد) زمعہ کا بیٹا ہے کیونکہ انہیں کے بستر پر پیدا ہوا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے زمعہ کی باندی کے لڑکے کو دیکھا تو وہ واقعی (سعد کے بھائی) عتبہ بن ابی وقاص کی شکل پر تھا لیکن نبی کریم ﷺ نے (قانون شریعت کے مطابق) فیصلے میں یہ کہا کہ اے عبد بن زمعہ ! تمہیں اس بچے کو رکھو، یہ تمہارا بھائی ہے، کیونکہ یہ تمہارے والد کے فراش پر (اس کی باندی کے بطن سے پیدا ہوا ہے۔ لیکن دوسری طرف ام المؤمنین سودہ (رض) سے جو زمعہ کی بیٹی تھیں فرمایا سودہ ! اس لڑکے سے پر دا کیا کرنا کیونکہ آپ نے اس لڑکے میں عتبہ بن ابی وقاص (رض) کی شباہت پائی تھی۔ ابن شہاب نے کہا ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ لڑکا اس کا ہوتا ہے جس کی جورو یا لونڈی کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو اور زنا کرنے والے کے حصے میں سنگ ہی ہیں۔ ابن شہاب نے بیان کیا کہ ابوہریرہ (رض) اس حدیث کو پکار پکار کر بیان کیا کرتے تھے۔
لیث، یونس، ابن شہاب، عبداللہ بن ثعلبہ بن صعیر سے روایت کرتے ہیں جن کی پیشانی پر آنحضرت ﷺ نے مکہ کے سال ہاتھ پھیرا تھا۔
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں یونس نے خبر دی، انہیں زہری نے، کہا کہ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی کہ غزوہ فتح (مکہ) کے موقع پر ایک عورت نے نبی کریم ﷺ کے عہد میں چوری کرلی تھی۔ اس عورت کی قوم گھبرائی ہوئی اسامہ بن زید (رض) کے پاس آئی تاکہ وہ نبی کریم ﷺ سے اس کی سفارش کردیں (کہ اس کا ہاتھ چوری کے جرم میں نہ کاٹا جائے) ۔ عروہ نے بیان کیا کہ جب اسامہ (رض) نے اس کے بارے میں نبی کریم ﷺ سے گفتگو کی تو آپ ﷺ کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور آپ ﷺ نے فرمایا ! تم مجھ سے اللہ کی قائم کی ہوئی ایک حد کے بارے میں سفارش کرنے آئے ہو۔ اسامہ (رض) نے عرض کیا : میرے لیے دعا مغفرت کیجئے، یا رسول اللہ ! پھر دوپہر بعد نبی کریم ﷺ نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو خطاب کیا، اللہ تعالیٰ کی اس کے شان کے مطابق تعریف کرنے کے بعد فرمایا : امابعد ! تم میں سے پہلے لوگ اس لیے ہلاک ہوگئے کہ اگر ان میں سے کوئی معزز شخص چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے لیکن اگر کوئی کمزور چوری کرلیتا تو اس پر حد قائم کرتے اور اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرلے تو میں اس کا ہاتھ کاٹوں گا۔ اس کے بعد نبی کریم ﷺ نے اس عورت کے لیے حکم دیا اور ان کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ پھر اس عورت نے صدق دل سے توبہ کرلی اور شادی بھی کرلی۔ عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ بعد میں وہ میرے یہاں آتی تھیں۔ ان کو اور کوئی ضرورت ہوتی تو میں رسول اللہ ﷺ کے سامنے پیش کردیتی۔
لیث، یونس، ابن شہاب، عبداللہ بن ثعلبہ بن صعیر سے روایت کرتے ہیں جن کی پیشانی پر آنحضرت ﷺ نے مکہ کے سال ہاتھ پھیرا تھا۔
ہم سے عمرو بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے زہیر بن معاویہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عاصم بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے ابوعثمان نہدی نے بیان کیا اور ان سے مجاشع بن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ فتح مکہ کے بعد میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں اپنے بھائی (مجالد) کو لے کر حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میں اسے اس لیے لے کر حاضر ہوا ہوں تاکہ آپ ہجرت پر اس سے بیعت لے لیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہجرت کرنے والے اس کی فضیلت و ثواب کو حاصل کرچکے (یعنی اب ہجرت کرنے کا زمانہ تو گزر چکا) ۔ میں نے عرض کیا : پھر آپ اس سے کس چیز پر بیعت لیں گے ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ایمان، اسلام اور جہاد پر۔ ابی عثمان نہدی نے کہا کہ پھر میں (مجاشع کے بھائی) ابومعبد مجالد سے ملا وہ دونوں بھائیوں سے بڑے تھے، میں نے ان سے بھی اس حدیث کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ مجاشع نے حدیث ٹھیک طرح بیان کی ہے۔
لیث، یونس، ابن شہاب، عبداللہ بن ثعلبہ بن صعیر سے روایت کرتے ہیں جن کی پیشانی پر آنحضرت ﷺ نے مکہ کے سال ہاتھ پھیرا تھا۔
ہم سے محمد بن ابی بکر نے بیان کیا، کہا ہم سے فضیل بن سلیمان نے بیان کیا، کہا ہم سے عاصم بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے ابوعثمان نہدی نے اور ان سے مجاشع بن مسعود (رض) نے کہ میں اپنے بھائی (ابومعبد رضی اللہ عنہ) کو نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آپ سے ہجرت پر بیعت کرانے کے لیے لے گیا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہجرت کا ثواب تو ہجرت کرنے والوں کے ساتھ ختم ہوچکا۔ البتہ میں اس سے اسلام اور جہاد پر بیعت لیتا ہوں۔ ابوعثمان نے کہا کہ پھر میں نے ابومعبد (رض) سے مل کر ان سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ مجاشع (رض) نے ٹھیک بیان کیا اور خالد حذاء نے بھی ابوعثمان سے بیان کیا، ان سے مجاشع (رض) نے کہ وہ اپنے بھائی مجالد (رض) کو لے کر آئے تھے، (پھر حدیث کو آخر تک بیان کیا، اس کو اسماعیل نے وصل کیا ہے) ۔
لیث، یونس، ابن شہاب، عبداللہ بن ثعلبہ بن صعیر سے روایت کرتے ہیں جن کی پیشانی پر آنحضرت ﷺ نے مکہ کے سال ہاتھ پھیرا تھا۔
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابوبشر نے اور ان سے مجاہد نے کہ میں نے ابن عمر (رض) سے عرض کیا کہ میرا ارادہ ہے کہ میں ملک شام کو ہجرت کر جاؤں، فرمایا : اب ہجرت باقی نہیں رہی، جہاد ہی باقی رہ گیا ہے۔ اس لیے جاؤ اور خود کو پیش کرو۔ اگر تم نے کچھ پا لیا تو بہتر ورنہ واپس آجانا۔ حدیث نمبر : 4310 وَقَالَ النَّضْرُ : أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ ، أَخْبَرَنَا أَبُو بِشْرٍ ، سَمِعْتُ مُجَاهِدًا ، قُلْتُ لِابْنِ عُمَرَ : فَقَالَ : لَا هِجْرَةَ الْيَوْمَ أَوْ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَهُ .
لیث، یونس، ابن شہاب، عبداللہ بن ثعلبہ بن صعیر سے روایت کرتے ہیں جن کی پیشانی پر آنحضرت ﷺ نے مکہ کے سال ہاتھ پھیرا تھا۔
مجھ سے اسحاق بن یزید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ بن حمزہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابوعمرو اوزاعی نے بیان کیا، ان سے عبدہ بن ابی لبابہ نے، ان سے مجاہد بن جبر مکی نے کہ عبداللہ بن عمر (رض) کہا کرتے تھے کہ فتح مکہ کے بعد ہجرت باقی نہیں رہی۔
لیث، یونس، ابن شہاب، عبداللہ بن ثعلبہ بن صعیر سے روایت کرتے ہیں جن کی پیشانی پر آنحضرت ﷺ نے مکہ کے سال ہاتھ پھیرا تھا۔
ہم سے اسحاق بن یزید نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن حمزہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام اوزاعی نے بیان کیا، ان سے عطا بن ابی رباح نے بیان کیا کہ میں عبید بن عمیر کے ساتھ عائشہ (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا۔ عبید نے ان سے ہجرت کا مسئلہ پوچھا تو انہوں نے کہا کہ اب ہجرت باقی نہیں رہی۔ پہلے مسلمان اپنا دین بچانے کے لیے اللہ اور اس کے رسول کی طرف پناہ لینے کے لیے آتے تھے، اس خوف سے کہ کہیں دین کی وجہ سے فتنہ میں نہ پڑجائیں۔ اس لیے اب جب کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کو غالب کردیا تو مسلمان جہاں بھی چاہے اپنے رب کی عبادت کرسکتا ہے۔ اب تو صرف جہاد اور جہاد کی نیت کا ثواب باقی ہے۔
لیث، یونس، ابن شہاب، عبداللہ بن ثعلبہ بن صعیر سے روایت کرتے ہیں جن کی پیشانی پر آنحضرت ﷺ نے مکہ کے سال ہاتھ پھیرا تھا۔
ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعاصم نبیل نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے بیان کیا، کہا مجھ کو حسن بن مسلم نے خبر دی اور انہیں مجاہد نے کہ رسول اللہ ﷺ فتح مکہ کے دن خطبہ سنانے کھڑے ہوئے اور فرمایا جس دن اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا تھا، اسی دن اس نے مکہ کو حرمت والا شہر قرار دے دیا تھا۔ پس یہ شہر اللہ کے حکم کے مطابق قیامت تک کے لیے حرمت والا رہے گا۔ جو مجھ سے پہلے کبھی کسی کے لیے حلال نہیں ہوا اور نہ میرے بعد کسی کے لیے حلال ہوگا اور میرے لیے بھی صرف ایک گھڑی کے لیے حلال ہوا تھا۔ یہاں حدود حرم میں شکار کے قابل جانور نہ چھیڑے جائیں۔ یہاں کے کانٹے دار درخت نہ کاٹے جائیں نہ یہاں کی گھاس اکھاڑی جائے اور یہاں پر گری پڑی چیز اس شخص کے سوا جو اعلان کرنے کا ارادہ رکھتا ہو اور کسی کے لیے اٹھانی جائز نہیں۔ اس پر عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ نے کہا : یا رسول اللہ ! اذخر (گھاس) کی اجازت دے دیجئیے کیونکہ سناروں کے لیے اور مکانات (کی تعمیر وغیرہ) کے لیے یہ ضروری ہے۔ آپ ﷺ خاموش ہوگئے پھر فرمایا اذخر اس حکم سے الگ ہے اس کا (کاٹنا) حلال ہے۔ دوسری روایت ابن جریج سے (اسی سند سے) ایسی ہی ہے انہوں نے عبدالکریم بن مالک سے، انہوں نے ابن عباس سے اور ابوہریرہ (رض) نے بھی نبی کریم ﷺ سے ایسے ہی روایت کی ہے۔
باب: اللہ تعالیٰ کا فرمان اور اللہ تعالیٰ کا فرمان (سورۃ التوبہ میں) کہ ”یاد کرو تم کو اپنی کثرت تعداد پر گھمنڈ ہو گیا تھا پھر وہ کثرت تمہارے کچھ کام نہ آئی اور تم پر زمین باوجود اپنی فراخی کے تنگ ہونے لگی، پھر تم پیٹھ دے کر بھاگ کھڑے ہوئے، اس کے بعد اللہ نے تم پر اپنی طرف سے تسلی نازل کی“ «غفور رحيم» تک۔
ہم سے محمد بن عبداللہ بن نمیر نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن ہارون نے بیان کیا، کہا ہم کو اسماعیل بن ابی خالد نے خبر دی، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفی (رض) کے ہاتھ میں زخم کا نشان دیکھا پھر انہوں نے بتلایا کہ یہ زخم اس وقت آیا تھا جب میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوہ حنین میں شریک تھا۔ میں نے کہا، آپ حنین میں شریک تھے ؟ انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے بھی میں کئی غزوات میں شریک ہوچکا ہوں۔
باب: اللہ تعالیٰ کا فرمان اور اللہ تعالیٰ کا فرمان (سورۃ التوبہ میں) کہ ”یاد کرو تم کو اپنی کثرت تعداد پر گھمنڈ ہو گیا تھا پھر وہ کثرت تمہارے کچھ کام نہ آئی اور تم پر زمین باوجود اپنی فراخی کے تنگ ہونے لگی، پھر تم پیٹھ دے کر بھاگ کھڑے ہوئے، اس کے بعد اللہ نے تم پر اپنی طرف سے تسلی نازل کی“ «غفور رحيم» تک۔
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق نے، کہا کہ میں نے براء (رض) سے سنا، ان کے یہاں ایک شخص آیا اور کہنے لگا کہ اے ابو عمارہ ! کیا تم نے حنین کی لڑائی میں پیٹھ پھیرلی تھی ؟ انہوں نے کہا، میں اس کی گواہی دیتا ہوں کہ نبی کریم ﷺ اپنی جگہ سے نہیں ہٹے تھے۔ البتہ جو لوگ قوم میں جلد باز تھے، انہوں نے اپنی جلد بازی کا ثبوت دیا تھا، پس قبیلہ ہوازن والوں نے ان پر تیر برسائے۔ ابوسفیان بن حارث (رض) نبی کریم ﷺ کے سفید خچر کی لگام تھامے ہوئے تھے اور نبی کریم ﷺ فرما رہے تھے أنا النبي لا کذب، أنا ابن عبد المطلب میں نبی ہوں اس میں بالکل جھوٹ نہیں، میں عبدالمطلب کی اولاد ہوں۔
باب: اللہ تعالیٰ کا فرمان اور اللہ تعالیٰ کا فرمان (سورۃ التوبہ میں) کہ ”یاد کرو تم کو اپنی کثرت تعداد پر گھمنڈ ہو گیا تھا پھر وہ کثرت تمہارے کچھ کام نہ آئی اور تم پر زمین باوجود اپنی فراخی کے تنگ ہونے لگی، پھر تم پیٹھ دے کر بھاگ کھڑے ہوئے، اس کے بعد اللہ نے تم پر اپنی طرف سے تسلی نازل کی“ «غفور رحيم» تک۔
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق نے کہ براء بن عازب (رض) سے پوچھا گیا اور میں سن رہا تھا کہ تم لوگوں نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ غزوہ حنین میں پیٹھ پھیرلی تھی ؟ انہوں نے کہا جہاں تک نبی کریم ﷺ کا تعلق ہے تو آپ نے پیٹھ نہیں پھیری تھی۔ ہوا یہ تھا کہ ہوازن والے بڑے تیرانداز تھے، نبی کریم ﷺ نے اس موقع پر فرمایا تھا أنا النبي لا کذب أنا ابن عبد المطلب میں نبی ہوں اس میں جھوٹ نہیں، میں عبدالمطلب کی اولاد ہوں۔
باب: اللہ تعالیٰ کا فرمان اور اللہ تعالیٰ کا فرمان (سورۃ التوبہ میں) کہ ”یاد کرو تم کو اپنی کثرت تعداد پر گھمنڈ ہو گیا تھا پھر وہ کثرت تمہارے کچھ کام نہ آئی اور تم پر زمین باوجود اپنی فراخی کے تنگ ہونے لگی، پھر تم پیٹھ دے کر بھاگ کھڑے ہوئے، اس کے بعد اللہ نے تم پر اپنی طرف سے تسلی نازل کی“ «غفور رحيم» تک۔
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق نے، انہوں نے براء (رض) سے سنا اور ان سے قبیلہ قیس کے ایک آدمی نے پوچھا کہ کیا تم لوگ نبی کریم ﷺ کو غزوہ حنین میں چھوڑ کر بھاگ نکلے تھے ؟ انہوں نے کہا : لیکن نبی کریم ﷺ اپنی جگہ سے نہیں ہٹے تھے۔ قبیلہ ہوازن کے لوگ تیرانداز تھے، جب ان پر ہم نے حملہ کیا تو وہ پسپا ہوگئے پھر ہم لوگ مال غنیمت میں لگ گئے۔ آخر ہمیں ان کے تیروں کا سامنا کرنا پڑا۔ میں نے خود دیکھا تھا کہ نبی کریم ﷺ اپنے سفید خچر پر سوار تھے اور ابوسفیان بن حارث (رض) اس کی لگام تھامے ہوئے تھے۔ آپ ﷺ فرما رہے تھے أنا النبي لا کذب میں نبی ہوں، اس میں جھوٹ نہیں۔ اسرائیل اور زہیر نے بیان کیا کہ بعد میں آپ ﷺ اپنے خچر سے اتر گئے۔
باب: اللہ تعالیٰ کا فرمان اور اللہ تعالیٰ کا فرمان (سورۃ التوبہ میں) کہ ”یاد کرو تم کو اپنی کثرت تعداد پر گھمنڈ ہو گیا تھا پھر وہ کثرت تمہارے کچھ کام نہ آئی اور تم پر زمین باوجود اپنی فراخی کے تنگ ہونے لگی، پھر تم پیٹھ دے کر بھاگ کھڑے ہوئے، اس کے بعد اللہ نے تم پر اپنی طرف سے تسلی نازل کی“ «غفور رحيم» تک۔
ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے لیث بن سعد نے بیان کیا، کہا مجھ سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے (دوسری سند) اور مجھ سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، ہم سے ابن شہاب کے بھتیجے (محمد بن عبداللہ بن شہاب نے) بیان کیا کہ محمد بن شہاب نے کہا کہ ان سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا کہ انہیں مروان بن حکم اور مسور بن مخرمہ (رض) نے خبر دی کہ جب قبیلہ ہوازن کا وفد مسلمان ہو کر حاضر ہوا تو رسول اللہ ﷺ رخصت دینے کھڑے ہوئے، انہوں نے آپ سے یہ درخواست کی کہ ان کا مال اور ان کے (قبیلے کے قیدی) انہیں واپس دے دئیے جائیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جیسا کہ تم لوگ دیکھ رہے ہو، میرے ساتھ کتنے اور لوگ بھی ہیں اور دیکھو سچی بات مجھے سب سے زیادہ پسند ہے۔ اس لیے تم لوگ ایک ہی چیز پسند کرلو یا تو اپنے قیدی لے لو یا مال لے لو۔ میں نے تم ہی لوگوں کے خیال سے (قیدیوں کی تقسیم میں) تاخیر کی تھی۔ نبی کریم ﷺ نے طائف سے واپس ہو کر تقریباً دس دن ان کا انتظار کیا تھا۔ آخر جب ان پر واضح ہوگیا کہ نبی کریم ﷺ انہیں صرف ایک ہی چیز واپس کریں گے تو انہوں نے کہا کہ پھر ہم اپنے (قبیلے کے) قیدیوں کی واپسی چاہتے ہیں۔ چناچہ آپ ﷺ نے مسلمانوں کو خطاب کیا، اللہ تعالیٰ کی اس کی شان کے مطابق ثنا کرنے کے بعد فرمایا : امابعد ! تمہارے بھائی (قبیلہ ہوازن کے لوگ) توبہ کر کے ہمارے پاس آئے ہیں، مسلمان ہو کر اور میری رائے یہ ہے کہ ان کے قیدی انہیں واپس کر دئیے جائیں۔ اس لیے جو شخص (بلا کسی دنیاوی صلہ کے) انہیں اپنی خوشی سے واپس کرنا چاہے وہ واپس کر دے یہ بہتر ہے اور جو لوگ اپنا حصہ نہ چھوڑنا چاہتے ہوں، ان کا حق قائم رہے گا۔ وہ یوں کرلیں کہ اس کے بعد جو سب سے پہلے غنیمت اللہ تعالیٰ ہمیں عنایت فرمائے گا اس میں سے ہم انہیں اس کے بدلہ دے دیں گے تو وہ ان کے قیدی واپس کردیں۔ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا : یا رسول اللہ ! ہم خوشی سے (بلا کسی بدلہ کے) واپس کرنا چاہتے ہیں لیکن آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس طرح ہمیں اس کا علم نہیں ہوگا کہ کس نے اپنی خوشی سے واپس کیا ہے اور کس نے نہیں، اس لیے سب لوگ جائیں اور تمہارے چودھری لوگ تمہارا فیصلہ ہمارے پاس لائیں۔ چناچہ سب واپس آگئے اور ان کے چودھریوں نے ان سے گفتگو کی پھر وہ آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ سب نے خوشی اور فراخ دلی کے ساتھ اجازت دے دی ہے۔ ابن عباس (رض) نے کہا یہی ہے وہ حدیث جو مجھے قبیلہ ہوازن کے قیدیوں کے متعلق پہنچی ہے۔
باب: اللہ تعالیٰ کا فرمان اور اللہ تعالیٰ کا فرمان (سورۃ التوبہ میں) کہ ”یاد کرو تم کو اپنی کثرت تعداد پر گھمنڈ ہو گیا تھا پھر وہ کثرت تمہارے کچھ کام نہ آئی اور تم پر زمین باوجود اپنی فراخی کے تنگ ہونے لگی، پھر تم پیٹھ دے کر بھاگ کھڑے ہوئے، اس کے بعد اللہ نے تم پر اپنی طرف سے تسلی نازل کی“ «غفور رحيم» تک۔
ہم سے ابوالنعمان محمد بن فضل نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب نے، ان سے نافع نے کہ عمر (رض) نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! (دوسری سند) اور مجھ سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں معمر نے خبر دی، انہیں ایوب نے، انہیں نافع نے اور ان سے ابن عمر (رض) نے بیان کیا کہ جب ہم غزوہ حنین سے واپس ہو رہے تھے تو عمر (رض) نے نبی کریم ﷺ سے اپنی ایک نذر کے متعلق پوچھا جو انہوں نے زمانہ جاہلیت میں اعتکاف کی مانی تھی اور نبی کریم ﷺ نے انہیں اسے پوری کرنے کا حکم دیا اور بعض (احمد بن عبدہ ضبی) نے حماد سے بیان کیا، ان سے ایوب نے، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر (رض) نے۔ اور اس روایت کو جریر بن حازم اور حماد بن سلمہ نے ایوب سے بیان کیا، ان سے نافع نے، ان سے ابن عمر (رض) نے، نبی کریم ﷺ سے۔
باب: اللہ تعالیٰ کا فرمان اور اللہ تعالیٰ کا فرمان (سورۃ التوبہ میں) کہ ”یاد کرو تم کو اپنی کثرت تعداد پر گھمنڈ ہو گیا تھا پھر وہ کثرت تمہارے کچھ کام نہ آئی اور تم پر زمین باوجود اپنی فراخی کے تنگ ہونے لگی، پھر تم پیٹھ دے کر بھاگ کھڑے ہوئے، اس کے بعد اللہ نے تم پر اپنی طرف سے تسلی نازل کی“ «غفور رحيم» تک۔
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک (رح) نے خبر دی، انہیں یحییٰ بن سعید نے، انہیں عمرو بن کثیر بن افلح نے، انہیں قتادہ کے مولیٰ ابو محمد نے اور ان سے ابوقتادہ (رض) نے بیان کیا کہ غزوہ حنین کے لیے ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ نکلے۔ جب جنگ ہوئی تو مسلمان ذرا ڈگمگا گئے (یعنی آگے پیچھے ہوگئے) ۔ میں نے دیکھا کہ ایک مشرک ایک مسلمان کے اوپر غالب ہو رہا ہے، میں نے پیچھے سے اس کی گردن پر تلوار ماری اور اس کی زرہ کاٹ ڈالی۔ اب وہ مجھ پر پلٹ پڑا اور مجھے اتنی زور سے بھینچا کہ موت کی تصویر میری آنکھوں میں پھر گئی، آخر وہ مرگیا اور مجھے چھوڑ دیا۔ پھر میری ملاقات عمر (رض) سے ہوئی۔ میں نے پوچھا لوگوں کو کیا ہوگیا ہے ؟ انہوں نے فرمایا، یہی اللہ عزوجل کا حکم ہے۔ پھر مسلمان پلٹے اور (جنگ ختم ہونے کے بعد) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہوئے اور فرمایا کہ جس نے کسی کو قتل کیا ہو اور اس کے لیے کوئی گواہ بھی رکھتا ہو تو اس کا تمام سامان و ہتھیار اسے ہی ملے گا۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ میرے لیے کون گواہی دے گا ؟ پھر میں بیٹھ گیا۔ بیان کیا کہ پھر آپ نے دوبارہ یہی فرمایا۔ اس مرتبہ پھر میں نے دل میں کہا کہ میرے لیے کون گواہی دے گا ؟ اور پھر بیٹھ گیا۔ آپ ﷺ نے پھر اپنا فرمان دہرایا تو میں اس مرتبہ کھڑا ہوگیا۔ آپ ﷺ نے اس مرتبہ فرمایا کیا بات ہے، اے ابوقتادہ ! میں نے آپ ﷺ کو بتایا تو ایک صاحب (اسود بن خزاعی اسلمی) نے کہا کہ یہ سچ کہتے ہیں اور ان کے مقتول کا سامان میرے پاس ہے۔ آپ میرے حق میں انہیں راضی کردیں (کہ سامان مجھ سے نہ لیں) اس پر ابوبکر (رض) نے فرمایا : نہیں، اللہ کی قسم ! اللہ کے شیروں میں سے ایک شیر، جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے لڑتا ہے پھر نبی کریم ﷺ اس کا حق تمہیں ہرگز نہیں دے سکتے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ انہوں نے سچ کہا، تم سامان ابوقتادہ کو دے دو ۔ انہوں نے سامان مجھے دے دیا۔ میں نے اس سامان سے قبیلہ سلمہ کے محلہ میں ایک باغ خریدا اسلام کے بعد یہ میرا پہلا مال تھا، جسے میں نے حاصل کیا تھا۔ اور لیث بن سعد نے بیان کیا، مجھ سے یحییٰ بن سعید انصاری نے بیان کیا تھا کہ ان سے عمر بن کثیر بن افلح نے، ان سے ابوقتادہ (رض) کے مولیٰ ابو محمد نے کہ ابوقتادہ (رض) نے بیان کیا کہ غزوہ حنین کے دن میں نے ایک مسلمان کو دیکھا کہ ایک مشرک سے لڑ رہا تھا اور ایک دوسرا مشرک پیچھے سے مسلمان کو قتل کرنے کی گھات میں تھا، پہلے تو میں اسی کی طرف بڑھا، اس نے اپنا ہاتھ مجھے مارنے کے لیے اٹھایا تو میں نے اس کے ہاتھ پر وار کر کے کاٹ دیا۔ اس کے بعد وہ مجھ سے چمٹ گیا اور اتنی زور سے مجھے بھینچا کہ میں ڈر گیا۔ آخر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور ڈھیلا پڑگیا۔ میں نے اسے دھکا دے کر قتل کردیا اور مسلمان بھاگ نکلے اور میں بھی ان کے ساتھ بھاگ پڑا۔ لوگوں میں عمر بن خطاب (رض) نظر آئے تو میں نے ان سے پوچھا، کہ لوگ بھاگ کیوں رہے ہیں ؟ انہوں نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا یہی حکم ہے، پھر لوگ نبی کریم ﷺ کے پاس آ کر جمع ہوگئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اس پر گواہ قائم کر دے گا کہ کسی مقتول کو اسی نے قتل کیا ہے تو اس کا سارا سامان اسے ملے گا۔ میں اپنے مقتول پر گواہ کے لیے اٹھا لیکن مجھے کوئی گواہ دکھائی نہیں دیا۔ آخر میں بیٹھ گیا پھر میرے سامنے ایک صورت آئی۔ میں نے اپنے معاملے کی اطلاع نبی کریم ﷺ کو دی۔ آپ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے ایک صاحب (اسود بن خزاعی اسلمی رضی اللہ عنہ) نے کہا کہ ان کے مقتول کا ہتھیار میرے پاس ہے، آپ میرے حق میں انہیں راضی کردیں۔ اس پر ابوبکر (رض) نے کہا ہرگز نہیں، اللہ کے شیروں میں سے ایک شیر کو چھوڑ کر جو اللہ اور اس کے رسول کے لیے جنگ کرتا ہے، اس کا حق قریش کے ایک بزدل کو آپ ﷺ نہیں دے سکتے۔ ابوقتادہ (رض) نے بیان کیا کہ آپ ﷺ کھڑے ہوئے اور مجھے وہ سامان عطا فرمایا۔ میں نے اس سے ایک باغ خریدا اور یہ سب سے پہلا مال تھا جسے میں نے اسلام لانے کے بعد حاصل کیا تھا۔
باب: غزوہ اوطاس کا بیان۔
ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے برید بن عبداللہ نے، ان سے ابوبردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری (رض) نے کہ جب رسول اللہ ﷺ غزوہ حنین سے فارغ ہوگئے تو آپ نے ایک دستے کے ساتھ ابوعامر (رض) کو وادی اوطاس کی طرف بھیجا۔ اس معرکہ میں درید ابن الصمہ سے مقابلہ ہوا۔ درید قتل کردیا گیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے لشکر کو شکست دے دی۔ ابوموسیٰ اشعری (رض) نے بیان کیا کہ ابوعامر (رض) کے ساتھ نبی کریم ﷺ نے مجھے بھی بھیجا تھا۔ ابوعامر (رض) کے گھٹنے میں تیر آ کر لگا۔ بنی جعشم کے ایک شخص نے ان پر تیر مارا تھا اور ان کے گھٹنے میں اتار دیا تھا۔ میں ان کے پاس پہنچا اور کہا : چچا ! یہ تیر آپ پر کس نے پھینکا ؟ انہوں نے ابوموسیٰ (رض) کو اشارے سے بتایا کہ وہ جعشمی میرا قاتل ہے جس نے مجھے نشانہ بنایا ہے۔ میں اس کی طرف لپکا اور اس کے قریب پہنچ گیا لیکن جب اس نے مجھے دیکھا تو وہ بھاگ پڑا میں نے اس کا پیچھا کیا اور میں یہ کہتا جاتا تھا، تجھے شرم نہیں آتی، تجھ سے مقابلہ نہیں کیا جاتا۔ آخر وہ رک گیا اور ہم نے ایک دوسرے پر تلوار سے وار کیا۔ میں نے اسے قتل کردیا اور ابوعامر (رض) سے جا کر کہا کہ اللہ نے آپ کے قاتل کو قتل کروا دیا۔ انہوں نے فرمایا کہ میرے (گھٹنے میں سے) تیر نکال لے، میں نے نکال دیا تو اس سے پانی جاری ہوگیا پھر انہوں نے فرمایا : بھتیجے ! نبی کریم ﷺ کو میرا سلام پہنچانا اور عرض کرنا کہ میرے لیے مغفرت کی دعا فرمائیں۔ ابوعامر (رض) نے لوگوں پر مجھے اپنا نائب بنادیا۔ اس کے بعد وہ تھوڑی دیر اور زندہ رہے اور شہادت پائی۔ میں واپس ہوا اور نبی کریم ﷺ کی خدمت میں پہنچا۔ آپ اپنے گھر میں بانوں کی ایک چارپائی پر تشریف فرما تھے۔ اس پر کوئی بستر بچھا ہوا نہیں تھا اور بانوں کے نشانات آپ کی پیٹھ اور پہلو پر پڑگئے تھے۔ میں نے آپ سے اپنے اور ابوعامر (رض) کے واقعات بیان کئے اور یہ کہ انہوں نے دعا مغفرت کے لیے درخواست کی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے پانی طلب فرمایا اور وضو کیا پھر ہاتھ اٹھا کر دعا کی، اے اللہ ! عبید ابوعامر کی مغفرت فرما۔ میں نے آپ ﷺ کی بغل میں سفیدی (جب آپ دعا کر رہے تھے) دیکھی۔ پھر نبی کریم ﷺ نے دعا کی، اے اللہ ! قیامت کے دن ابوعامر کو اپنی بہت سی مخلوق سے بلند تر درجہ عطا فرمائیو۔ میں نے عرض کیا اور میرے لیے بھی اللہ سے مغفرت کی دعا فرما دیجئیے۔ آپ ﷺ نے دعا کی اے اللہ ! عبداللہ بن قیس ابوموسیٰ کے گناہوں کو بھی معاف فرما اور قیامت کے دن اچھا مقام عطا فرمائیو۔ ابوبردہ نے بیان کیا کہ ایک دعا ابوعامر (رض) کے لیے تھی اور دوسری ابوموسیٰ (رض) کے لیے۔
باب:غزوہ طائف کا بیان جو شوال سنہ ۸ ھ میں ہوا۔
ہم سے محمود نے بیان کیا، ان سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے ہشام نے اسی طرح بیان کیا اور یہ اضافہ کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ اس وقت طائف کا محاصرہ کئے ہوئے تھے۔
باب:غزوہ طائف کا بیان جو شوال سنہ ۸ ھ میں ہوا۔
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے، ان سے ابو العباس نابینا شاعر نے اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے، انہوں نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ ﷺ نے طائف کا محاصرہ کیا تو دشمن کا کچھ بھی نقصان نہیں کیا۔ آخر آپ نے فرمایا کہ اب انشاء اللہ ہم واپس ہوجائیں گے۔ مسلمانوں کے لیے ناکام لوٹنا بڑا شاق گزرا۔ انہوں نے کہا کہ واہ بغیر فتح کے ہم واپس چلے جائیں (راوی نے) ایک مرتبہ نذهب کے بجائے نقفل کا لفظ استعمال کیا یعنی ہم۔۔۔ لوٹ جائیں اور طائف کو فتح نہ کریں (یہ کیونکر ہوسکتا ہے) اس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پھر صبح سویرے میدان میں جنگ کے لیے آجاؤ۔ پس وہ صحابہ سویرے ہی آگئے لیکن ان کی بڑی تعداد زخمی ہوگئی۔ اب پھر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ انشاء اللہ ہم کل واپس چلیں گے۔ صحابہ نے اسے بہت پسند کیا۔ آپ ﷺ اس پر ہنس پڑے۔ اور سفیان نے ایک مرتبہ بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ مسکرا دئیے۔ حمیدی نے کہا کہ ہم سے سفیان نے یہ پوری خبر بیان کی۔
باب:غزوہ طائف کا بیان جو شوال سنہ ۸ ھ میں ہوا۔
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر (محمد بن جعفر) نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عاصم بن سلیمان نے بیان کیا، انہوں نے ابوعثمان نہدی سے سنا کہا میں نے سعد بن ابی وقاص (رض) سے سنا، جنہوں نے سب سے پہلے اللہ کے راستے میں تیر چلایا تھا اور ابوبکرہ (رض) سے جو طائف کے قلعے پر چند مسلمانوں کے ساتھ چڑھے تھے اور اس طرح نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے۔ ان دونوں صحابیوں نے بیان کیا کہ ہم نے نبی کریم ﷺ سے سنا، آپ فرما رہے تھے کہ جو شخص جانتے ہوئے اپنے باپ کے سوا کسی دوسرے کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرے تو اس پر جنت حرام ہے۔ اور ہشام نے بیان کیا اور انہیں معمر نے خبر دی، انہیں عاصم نے، انہیں ابوالعالیہ یا ابوعثمان نہدی نے، کہا کہ میں نے سعد بن ابی وقاص (رض) اور ابوبکرہ (رض) سے سنا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، عاصم نے بیان کیا کہ میں نے (ابوالعالیہ یا ابوعثمان نہدی رضی اللہ عنہ) سے کہا آپ سے یہ روایت ایسے دو اصحاب (سعد اور ابوبکرہ رضی اللہ عنہما) نے بیان کی ہے کہ یقین کے لیے ان کے نام کافی ہیں۔ انہوں نے کہا یقیناً ان میں سے ایک (سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ) تو وہ ہیں جنہوں نے اللہ کے راستے میں سب سے پہلے تیر چلایا تھا اور دوسرے (ابوبکرہ رضی اللہ عنہ) وہ ہیں جو تیسویں آدمی تھے ان لوگوں میں جو طائف کے قلعہ سے اتر کر نبی کریم ﷺ کے پاس آئے تھے۔
باب:غزوہ طائف کا بیان جو شوال سنہ ۸ ھ میں ہوا۔
ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے برید بن عبداللہ نے، ان سے ابوبردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری (رض) نے بیان کیا کہ میں نبی کریم ﷺ کے قریب ہی تھا جب آپ جعرانہ سے، جو مکہ اور مدینہ کے درمیان میں ایک مقام ہے اتر رہے تھے۔ آپ ﷺ کے ساتھ بلال (رض) تھے۔ اسی دوران میں نبی کریم ﷺ کے پاس ایک بدوی آیا اور کہنے لگا کہ آپ نے جو مجھ سے وعدہ کیا ہے وہ پورا کیوں نہیں کرتے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہیں بشارت ہو۔ اس پر وہ بدوی بولا بشارت تو آپ مجھے بہت دے چکے پھر آپ ﷺ نے چہرہ مبارک ابوموسیٰ اور بلال کی طرف پھیرا، آپ بہت غصے میں معلوم ہو رہے تھے۔ آپ نے فرمایا اس نے بشارت واپس کردی اب تم دونوں اسے قبول کرلو۔ ان دونوں حضرات نے عرض کیا کہ ہم نے قبول کیا۔ پھر آپ نے پانی کا ایک پیالہ طلب فرمایا اور اپنے دونوں ہاتھوں اور چہرے کو اس میں دھویا اور اسی میں کلی کی اور (ابوموسیٰ اشعری (رض) اور بلال (رض) ہر دو سے) فرمایا کہ اس کا پانی پی لو اور اپنے چہروں اور سینوں پر اسے ڈال لو اور بشارت حاصل کرو۔ ان دونوں نے پیالہ لے لیا اور ہدایت کے مطابق عمل کیا۔ پردہ کے پیچھے سے ام سلمہ (رض) نے بھی کہا اپنی ماں کے لیے بھی کچھ چھوڑ دینا۔ چناچہ ان دونوں نے ان کے لیے ایک حصہ چھوڑ دیا۔
باب:غزوہ طائف کا بیان جو شوال سنہ ۸ ھ میں ہوا۔
ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن ابراہیم بن علیہ نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے بیان کیا، کہا مجھ کو عطا بن ابی رباح نے خبر دی، انہیں صفوان بن یعلیٰ بن امیہ نے خبر دی کہ یعلیٰ نے کہا کاش میں رسول اللہ ﷺ کو اس وقت دیکھ سکتا جب آپ پر وحی نازل ہوتی ہے۔ بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ جعرانہ میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ آپ کے لیے ایک کپڑے سے سایہ کردیا گیا تھا اور اس میں چند صحابہ رضی اللہ عنہم بھی آپ کے ساتھ موجود تھے۔ اتنے میں ایک اعرابی آئے وہ ایک جبہ پہنے ہوئے تھے، خوشبو میں بسا ہوا۔ انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! ایک ایسے شخص کے بارے میں آپ کا کیا حکم ہے جو اپنے جبہ میں خوشبو لگانے کے بعد احرام باندھے ؟ فوراً ہی عمر (رض) نے یعلیٰ (رض) کو آنے کے لیے ہاتھ سے اشارہ کیا۔ یعلیٰ (رض) حاضر ہوگئے اور اپنا سر (نبی کریم ﷺ کو دیکھنے کے لیے) اندر کیا (نزول وحی کی کیفیت سے) نبی کریم ﷺ کا چہرہ مبارک سرخ ہو رہا تھا اور زور زور سے سانس چل رہی تھی۔ تھوڑی دیر تک یہی کیفیت رہی پھر ختم ہوگئی تو آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ ابھی عمرہ کے متعلق جس نے سوال کیا تھا وہ کہاں ہے ؟ انہیں تلاش کر کے لایا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو خوشبو تم نے لگا رکھی ہے اسے تین مرتبہ دھو لو اور جبہ اتار دو اور پھر عمرہ میں وہی کام کرو جو حج میں کرتے ہو۔
باب:غزوہ طائف کا بیان جو شوال سنہ ۸ ھ میں ہوا۔
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا، ان سے عمرو بن یحییٰ نے، ان سے عباد بن تمیم نے، ان سے عبداللہ بن زید بن عاصم (رض) نے بیان کیا کہ غزوہ حنین کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو جو غنیمت دی تھی آپ نے اس کی تقسیم کمزور ایمان کے لوگوں میں (جو فتح مکہ کے بعد ایمان لائے تھے) کردی اور انصار کو اس میں سے کچھ نہیں دیا۔ اس کا انہیں کچھ ملال ہوا کہ وہ مال جو نبی کریم ﷺ نے دوسروں کو دیا انہیں کیوں نہیں دیا۔ آپ نے اس کے بعد انہیں خطاب کیا اور فرمایا : اے انصاریو ! کیا میں نے تمہیں گمراہ نہیں پایا تھا پھر تم کو میرے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت نصیب کی اور تم میں آپس میں دشمنی اور نااتفاقی تھی تو اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ تم میں باہم الفت پیدا کی اور تم محتاج تھے اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ غنی کیا۔ آپ کے ایک ایک جملے پر انصار کہتے جاتے تھے کہ اللہ اور اس کے رسول کے ہم سب سے زیادہ احسان مند ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میری باتوں کا جواب دینے سے تمہیں کیا چیز مانع رہی ؟ بیان کیا کہ آپ ﷺ کے ہر اشارہ پر انصار عرض کرتے جاتے کہ اللہ اور اس کے رسول کے ہم سب سے زیادہ احسان مند ہیں پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر تم چاہتے تو مجھ سے اس طرح بھی کہہ سکتے تھے (کہ آپ آئے تو لوگ آپ کو جھٹلا رہے تھے، لیکن ہم نے آپ کی تصدیق کی وغیرہ) کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ جب لوگ اونٹ اور بکریاں لے جا رہے ہوں تو تم اپنے گھروں کی طرف رسول اللہ ﷺ کو ساتھ لے جاؤ ؟ اگر ہجرت کی فضیلت نہ ہوتی تو میں بھی انصار کا ایک آدمی ہوتا۔ لوگ خواہ کسی گھاٹی یا وادی میں رہیں گے میں تو انصار کی گھاٹی اور وادی میں رہوں گا۔ انصار استر کی طرح ہیں جو جسم سے ہمیشہ لگا رہتا ہے اور دوسرے لوگ اوپر کے کپڑے یعنی ابرہ کی طرح ہیں۔ تم لوگ (انصار) دیکھو گے کہ میرے بعد تم پر دوسروں کو ترجیح دی جائے گی۔ تم ایسے وقت میں صبر کرنا یہاں تک کہ مجھ سے حوض پر آ ملو۔
باب:غزوہ طائف کا بیان جو شوال سنہ ۸ ھ میں ہوا۔
مجھ سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، انہیں معمر نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا اور انہیں انس بن مالک (رض) نے خبر دی، بیان کیا کہ جب قبیلہ ہوازن کے مال میں سے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو جو دینا تھا وہ دیا تو انصار کے کچھ لوگوں کو رنج ہوا کیونکہ آپ ﷺ نے کچھ لوگوں کو سو سو اونٹ دے دئیے تھے۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ اللہ اپنے رسول کی مغفرت کرے، قریش کو تو آپ عنایت فرما رہے ہیں اور ہم کو آپ نے چھوڑ دیا ہے حالانکہ ہماری تلواروں سے ان کا خون ٹپک رہا ہے۔ انس (رض) نے بیان کیا کہ انصار کی یہ بات نبی کریم ﷺ کے کانوں میں آئی تو آپ نے انہیں بلا بھیجا اور چمڑے کے ایک خیمے میں انہیں جمع کیا، ان کے ساتھ ان کے علاوہ کسی کو بھی آپ نے نہیں بلایا تھا۔ جب سب لوگ جمع ہوگئے تو آپ ﷺ کھڑے ہوئے اور آپ نے فرمایا تمہاری جو بات مجھے معلوم ہوئی ہے کیا وہ صحیح ہے ؟ انصار کے جو سمجھدار لوگ تھے انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! جو لوگ ہمارے معزز اور سردار ہیں، انہوں نے ایسی کوئی بات نہیں کہی۔ البتہ ہمارے کچھ لوگ جو ابھی نوعمر ہیں، انہوں نے کہا ہے کہ اللہ، رسول اللہ ﷺ کی مغفرت کرے، قریش کو آپ دے رہے ہیں اور ہمیں آپ نے چھوڑ دیا ہے حالانکہ ہماری تلواروں سے ان کا خون ٹپک رہا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے اس پر فرمایا کہ میں ایسے لوگوں کو دیتا ہوں جو ابھی نئے نئے اسلام میں داخل ہوئے ہیں، اس طرح میں ان کی دلجوئی کرتا ہوں۔ کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ دوسرے لوگ تو مال و دولت لے جائیں اور تم نبی کو اپنے ساتھ اپنے گھر لے جاؤ۔ اللہ کی قسم ! جو چیز تم اپنے ساتھ لے جاؤ گے وہ اس سے بہتر ہے جو وہ لے جا رہے ہیں۔ انصار نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! ہم اس پر راضی ہیں۔ اس کے بعد نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میرے بعد تم دیکھو گے کہ تم پر دوسروں کو ترجیح دی جائے گی۔ اس وقت صبر کرنا، یہاں تک کہ اللہ اور اس کے رسول سے آ ملو۔ میں حوض کوثر پر ملوں گا۔ انس (رض) نے کہا لیکن انصار نے صبر نہیں کیا۔
باب:غزوہ طائف کا بیان جو شوال سنہ ۸ ھ میں ہوا۔
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابوالتیاح نے اور ان سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ فتح مکہ کے زمانے میں نبی کریم ﷺ نے قریش میں (حنین کی) غنیمت کی تقسیم کردی۔ انصار رضی اللہ عنہم اس سے رنجیدہ ہوئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ دوسرے لوگ دنیا اپنے ساتھ لے جائیں اور تم اپنے ساتھ رسول اللہ ﷺ کو لے جاؤ۔ انصار نے عرض کیا کہ ہم اس پر خوش ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ لوگ دوسرے کسی وادی یا گھاٹی میں رہیں تو میں انصار کی وادی یا گھاٹی میں رہوں گا۔
باب:غزوہ طائف کا بیان جو شوال سنہ ۸ ھ میں ہوا۔
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے ازہر بن سعد سمان نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عون نے، انہیں ہشام بن زید بن انس نے خبر دی اور ان سے انس (رض) نے بیان کیا کہ غزوہ حنین میں جب قبیلہ ہوازن سے جنگ شروع ہوئی تو نبی کریم ﷺ کے ساتھ دس ہزار فوج تھی۔ قریش کے وہ لوگ بھی ساتھ تھے جنہیں فتح مکہ کے بعد نبی کریم ﷺ نے چھوڑ دیا تھا پھر سب نے پیٹھ پھیرلی۔ آپ ﷺ نے پکارا : اے انصاریو ! انہوں نے جواب دیا کہ ہم حاضر ہیں، یا رسول اللہ ! آپ کے ہر حکم کی تعمیل کے لیے ہم حاضر ہیں۔ ہم آپ کے سامنے ہیں۔ پھر آپ ﷺ اپنی سواری سے اتر گئے اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں پھر مشرکین کی ہار ہوگئی۔ جن لوگوں کو آپ ﷺ نے فتح مکہ کے بعد چھوڑ دیا تھا اور مہاجرین کو نبی کریم ﷺ نے دیا لیکن انصار کو کچھ نہیں دیا۔ اس پر انصار رضی اللہ عنہم نے اپنے غم کا اظہار کیا تو آپ نے انہیں بلایا اور ایک خیمہ میں جمع کیا پھر فرمایا کہ تم اس پر راضی نہیں ہو کہ دوسرے لوگ بکری اور اونٹ اپنے ساتھ لے جائیں اور تم رسول اللہ ﷺ کو اپنے ساتھ لے جاؤ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر لوگ کسی وادی یا گھاٹی میں رہیں اور انصار دوسری گھاٹی میں رہیں تو میں انصار کی گھاٹی کو اختیار کروں گا۔
باب:غزوہ طائف کا بیان جو شوال سنہ ۸ ھ میں ہوا۔
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، انہوں نے کہا، ہم سے غندر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے قتادہ سے سنا اور ان سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے انصار کے کچھ لوگوں کو جمع کیا اور فرمایا کہ قریش کے کفر کا اور ان کی بربادیوں کا زمانہ قریب ہے۔ میرا مقصد صرف ان کی دلجوئی اور تالیف قلب تھا۔ کیا تم اس پر راضی اور خوش نہیں ہو کہ لوگ دنیا اپنے ساتھ لے کر جائیں اور تم اللہ کے رسول کو اپنے گھر لے جاؤ ؟ سب انصاری بولے، کیوں نہیں (ہم اسی پر راضی ہیں) نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر دوسرے لوگ کسی وادی میں چلیں اور انصار کسی اور گھاٹی میں چلیں تو میں انصار کی وادی یا گھاٹی میں چلوں گا۔
باب:غزوہ طائف کا بیان جو شوال سنہ ۸ ھ میں ہوا۔
ہم سے قبیصہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابو وائل نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہ جب رسول اللہ ﷺ حنین کے مال غنیمت کی تقسیم کر رہے تھے تو انصار کے ایک شخص نے (جو منافق تھا) کہا کہ اس تقسیم میں اللہ کی خوشنودی کا کوئی خیال نہیں رکھا گیا۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ ﷺ کو اس بدگو کی اطلاع دی تو آپ ﷺ کے چہرہ مبارک کا رنگ بدل گیا پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ موسیٰ (علیہ السلام) پر رحم فرمائے، انہیں اس سے بھی زیادہ دکھ پہنچایا گیا پس انہوں نے صبر کیا۔
باب:غزوہ طائف کا بیان جو شوال سنہ ۸ ھ میں ہوا۔
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے ابو وائل نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہ غزوہ حنین کے موقع پر رسول اللہ ﷺ نے چند لوگوں کو بہت بہت جانور دئیے۔ چناچہ اقرع بن حابس کو جن کا دل بہلانا منظور تھا، سو اونٹ دئیے۔ عیینہ بن حصن فزاری کو بھی اتنے ہی دئیے اور اسی طرح دوسرے اشراف عرب کو دیا۔ اس پر ایک شخص نے کہا کہ اس تقسیم میں اللہ کی رضا کا کوئی خیال نہیں کیا گیا۔ (ابن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ) میں نے کہا کہ میں اس کی خبر رسول اللہ ﷺ کو کروں گا۔ جب نبی کریم ﷺ نے یہ کلمہ سنا تو فرمایا کہ اللہ موسیٰ (علیہ السلام) پر رحم فرمائے کہ انہیں اس سے بھی زیادہ دکھ دیا گیا تھا لیکن انہوں نے صبر کیا۔
باب:غزوہ طائف کا بیان جو شوال سنہ ۸ ھ میں ہوا۔
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے معاذ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن عون نے، ان سے ہشام بن زید بن انس بن مالک نے اور ان سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ جب حنین کا دن ہوا تو قبیلہ ہوازن اور غطفان اپنے مویشی اور بال بچوں کو ساتھ لے کر جنگ کے لیے نکلے۔ اس وقت نبی کریم ﷺ کے ساتھ دس ہزار کا لشکر تھا۔ ان میں کچھ لوگ وہ بھی تھے، جنہیں نبی کریم ﷺ نے فتح مکہ کے بعد احسان رکھ کر چھوڑ دیا تھا، پھر ان سب نے پیٹھ پھیرلی اور نبی کریم ﷺ تنہا رہ گئے۔ اس دن آپ ﷺ نے دو مرتبہ پکارا دونوں پکار ایک دوسرے سے الگ الگ تھیں، آپ ﷺ نے دائیں طرف متوجہ ہو کر پکارا : اے انصاریو ! انہوں نے جواب دیا ہم حاضر ہیں : یا رسول اللہ ! آپ کو بشارت ہو، ہم آپ کے ساتھ ہیں، لڑنے کو تیار ہیں۔ پھر آپ بائیں طرف متوجہ ہوئے اور آواز دی، اے انصاریو ! انہوں نے ادھر سے جواب دیا کہ ہم حاضر ہیں، یا رسول اللہ ! بشارت ہو، ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ آپ ﷺ اس وقت ایک سفید خچر پر سوار تھے پھر آپ اتر گئے اور فرمایا کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ انجام کار کافروں کو ہار ہوئی اور اس لڑائی میں بہت زیادہ غنیمت حاصل ہوئی۔ آپ ﷺ نے اسے مہاجرین میں اور قریشیوں میں تقسیم کردیا (جنہیں فتح مکہ کے موقع پر احسان رکھ کر چھوڑ دیا تھا) انصار کو ان میں سے کچھ نہیں عطا فرمایا۔ انصار (کے بعض نوجوانوں) نے کہا کہ جب سخت وقت آتا ہے تو ہمیں بلایا جاتا ہے اور غنیمت دوسروں کو تقسیم کردی جاتی ہے۔ یہ بات نبی کریم ﷺ تک پہنچی تو آپ نے انصار کو ایک خیمہ میں جمع کیا اور فرمایا اے انصاریو ! کیا وہ بات صحیح ہے جو تمہارے بارے میں مجھے معلوم ہوئی ہے ؟ اس پر وہ خاموش ہوگئے پھر آپ ﷺ نے فرمایا : اے انصاریو ! کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ لوگ دنیا اپنے ساتھ لے جائیں اور تم رسول اللہ کو اپنے گھر لے جاؤ۔ انصاریوں نے عرض کیا ہم اسی پر خوش ہیں۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر لوگ کسی وادی میں چلیں اور انصار کسی گھاٹی میں چلیں تو میں انصار ہی کی گھاٹی میں چلنا پسند کروں گا۔ اس پر ہشام نے پوچھا : اے ابوحمزہ ! کیا آپ وہاں موجود تھے ؟ انہوں نے کہا کہ میں آپ ﷺ سے غائب ہی کب ہوتا تھا۔
باب: نجد کی طرف جو لشکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روانہ کیا تھا (اس کا بیان)۔
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، کہا ہم سے ایوب سختیانی نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے نجد کی طرف ایک لشکر روانہ کیا تھا، میں بھی اس میں شریک تھا۔ اس میں ہمارا حصہ (مال غنیمت میں) بارہ بارہ اونٹ پڑے اور ایک ایک اونٹ ہمیں اور فالتو دیا گیا۔ اس طرح ہم تیرہ تیرہ اونٹ ساتھ لے کر واپس آئے۔
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو بنی جذیمہ قبیلے کی طرف بھیجنا۔
مجھ سے محمود بن غیلان نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، انہیں معمر نے خبر دی۔ (دوسری سند) اور مجھ سے نعیم بن حماد نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں معمر نے، انہیں زہری نے، انہیں سالم نے اور ان سے ان کے والد عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے خالد بن ولید (رض) کو بنی جذیمہ کی طرف بھیجا۔ خالد بن ولید (رض) نے انہیں اسلام کی دعوت دی لیکن انہیں أسلمنا. ہم اسلام لائے کہنا نہیں آتا تھا، اس کے بجائے وہ صبأنا.، صبأنا. ہم بےدین ہوگئے، یعنی اپنے آبائی دین سے ہٹ گئے کہنے لگے۔ خالد (رض) نے انہیں قتل کرنا اور قید کرنا شروع کردیا اور پھر ہم میں سے ہر شخص کو اس کا قیدی اس کی حفاظت کے لیے دے دیا پھر جب ایک دن خالد (رض) نے ہم سب کو حکم دیا کہ ہم اپنے قیدیوں کو قتل کردیں۔ میں نے کہا : اللہ کی قسم ! میں اپنے قیدی کو قتل نہیں کروں گا اور نہ میرے ساتھیوں میں کوئی اپنے قیدی کو قتل کرے گا آخر جب ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے صورت حال بیان کیا تو آپ نے ہاتھ اٹھا کر دعا کی۔ اے اللہ ! میں اس فعل سے بیزاری کا اعلان کرتا ہوں، جو خالد نے کیا۔ دو مرتبہ آپ ﷺ نے یہی فرمایا۔
باب: عبداللہ بن حذافہ سہمی اور علقمہ بن مجزز المدلجی رضی اللہ عنہما کے دستہ کا بیان۔
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا مجھ سے سعد بن عبیدہ نے بیان کیا، ان سے ابوعبدالرحمٰن اسلمی نے اور ان سے علی (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے ایک مختصر لشکر روانہ کیا اور اس کا امیر ایک انصاری صحابی (عبداللہ بن حذافہ سہمی رضی اللہ عنہ) کو بنایا اور لشکریوں کو حکم دیا کہ سب اپنے امیر کی اطاعت کریں پھر امیر کسی وجہ سے غصہ ہوگئے اور اپنے فوجیوں سے پوچھا کہ کیا تمہیں رسول اللہ ﷺ نے میری اطاعت کرنے کا حکم نہیں فرمایا ہے ؟ سب نے کہا کہ ہاں فرمایا ہے۔ انہوں نے کہا پھر تم سب لکڑیاں جمع کرو۔ انہوں نے لکڑیاں جمع کیں تو امیر نے حکم دیا کہ اس میں آگ لگاؤ اور انہوں نے آگ لگا دی۔ اب انہوں نے حکم دیا کہ سب اس میں کود جاؤ۔ فوجی کود جانا ہی چاہتے تھے کہ انہیں میں سے بعض نے بعض کو روکا اور کہا کہ ہم تو اس آگ ہی کے خوف سے رسول اللہ ﷺ کی طرف آئے ہیں ! ان باتوں میں وقت گزر گیا اور آگ بھی بجھ گئی۔ اس کے بعد امیر کا غصہ ٹھنڈا ہوگیا۔ جب اس کی خبر رسول اللہ ﷺ کو پہنچی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر یہ لوگ اس میں کود جاتے تو پھر قیامت تک اس میں سے نہ نکلتے۔ اطاعت کا حکم صرف نیک کاموں کے لیے ہے۔
باب: حجۃ الوداع سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ابوموسیٰ اشعری اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہما کو یمن بھیجنا۔
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالملک بن عمیر نے بیان کیا، ان سے ابوبردہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ابوموسیٰ اشعری اور معاذ بن جبل (رض) کو یمن کا حاکم بنا کر بھیجا۔ راوی نے بیان کیا کہ دونوں صحابیوں کو اس کے ایک ایک صوبے میں بھیجا۔ راوی نے بیان کیا کہ یمن کے دو صوبے تھے۔ پھر نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا کہ دیکھو لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنا، دشواریاں نہ پیدا کرنا، انہیں خوش کرنے کی کوشش کرنا، دین سے نفرت نہ دلانا۔ یہ دونوں بزرگ اپنے اپنے کاموں پر روانہ ہوگئے۔ دونوں میں سے جب کوئی اپنے علاقے کا دورہ کرتے کرتے اپنے دوسرے ساتھی کے پاس پہنچ جاتا تو ان سے تازی (ملاقات) کے لیے آتا اور سلام کرتا۔ ایک مرتبہ معاذ (رض) اپنے علاقہ میں اپنے صاحب ابوموسیٰ (رض) کے قریب پہنچ گئے اور اپنے خچر پر ان سے ملاقات کے لیے چلے۔ جب ان کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ وہ بیٹھے ہوئے ہیں اور ان کے پاس کچھ لوگ جمع ہیں اور ایک شخص ان کے سامنے ہے جس کی مشکیں کسی ہوئی ہیں۔ معاذ (رض) نے ان سے پوچھا : اے عبداللہ بن قیس ! یہ کیا واقعہ ہے ؟ ابوموسیٰ (رض) نے بتلایا کہ یہ شخص اسلام لانے کے بعد مرتد ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پھر جب تک اسے قتل نہ کردیا جائے میں اپنی سواری سے نہیں اتروں گا۔ موسیٰ (رض) نے کہا کہ قتل کرنے ہی کے لیے اسے یہاں لایا گیا ہے۔ آپ اتر جائیں لیکن انہوں نے اب بھی یہی کہا کہ جب تک اسے قتل نہ کیا جائے گا میں نہ اتروں گا۔ آخر موسیٰ (رض) نے حکم دیا اور اسے قتل کردیا گیا۔ تب وہ اپنی سواری سے اترے اور پوچھا، عبداللہ ! آپ قرآن کس طرح پڑھتے ہیں ؟ انہوں نے کہا میں تو تھوڑا تھوڑا ہر وقت پڑھتا رہتا ہوں پھر انہوں نے معاذ (رض) سے پوچھا کہ معاذ ! آپ قرآن مجید کس طرح پڑھتے ہیں ؟ معاذ (رض) نے کہا کہ میں تو رات کے شروع میں سوتا ہوں پھر اپنی نیند کا ایک حصہ پورا کر کے میں اٹھ بیٹھتا ہوں اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے میرے لیے مقدر کر رکھا ہے اس میں قرآن مجید پڑھتا ہوں۔ اس طرح بیداری میں جس ثواب کی امید اللہ تعالیٰ سے رکھتا ہوں سونے کی حالت کے ثواب کا بھی اس سے اسی طرح امیدوار رہتا ہوں۔
باب: حجۃ الوداع سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ابوموسیٰ اشعری اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہما کو یمن بھیجنا۔
مجھ سے اسحاق نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد نے، ان سے شیبانی نے، ان سے سعید بن ابی بردہ نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے انہیں یمن بھیجا۔ ابوموسیٰ (رض) نے نبی کریم ﷺ سے ان شربتوں کا مسئلہ پوچھا جو یمن میں بنائے جاتے تھے۔ نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا کہ وہ کیا ہیں ؟ ابوموسیٰ (رض) نے بتایا کہ بتع اور مزر (سعید بن ابی بردہ نے کہا کہ) میں نے ابوبردہ (اپنے والد) سے پوچھا بتع کیا چیز ہے ؟ انہوں نے بتایا کہ شہد سے تیاری کی ہوئی شراب اور مزر جَو سے تیار کی ہوئی شراب۔ نبی کریم ﷺ نے جواب میں فرمایا کہ ہر نشہ آور چیز پینا حرام ہے۔ اس کی روایت جریر اور عبدالواحد نے شیبانی سے کی ہے اور انہوں نے ابوبردہ سے کی ہے۔
باب: حجۃ الوداع سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ابوموسیٰ اشعری اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہما کو یمن بھیجنا۔
ہم سے مسلم نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سعید بن ابی بردہ نے اور ان کے والد نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے ان کے دادا ابوموسیٰ (رض) اور معاذ بن جبل (رض) کو یمن کا حاکم بنا کر بھیجا اور فرمایا کہ لوگوں کے لیے آسانی پیدا کرنا، ان کو دشواریوں میں نہ ڈالنا۔ لوگوں کو خوش خبریاں دینا دین سے نفرت نہ دلانا اور تم دونوں آپس میں موافقت رکھنا۔ اس پر ابوموسیٰ اشعری (رض) نے عرض کیا : اے اللہ کے نبی ! ہمارے ملک میں جَو سے ایک شراب تیار ہوتی ہے جس کا نام مزر ہے اور شہد سے ایک شراب تیار ہوتی ہے جو بتع کہلاتی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہر نشہ لانے والی چیز حرام ہے۔ پھر دونوں بزرگ روانہ ہوئے۔ معاذ (رض) نے ابوموسیٰ (رض) سے پوچھا آپ قرآن کس طرح پڑھتے ہیں ؟ انہوں نے بتایا کہ کھڑے ہو کر بھی، بیٹھ کر بھی اور اپنی سواری پر بھی اور میں تھوڑے تھوڑے عرصہ بعد پڑھتا ہی رہتا ہوں۔ معاذ (رض) نے کہا لیکن میرا معمول یہ ہے کہ شروع رات میں، میں سو جاتا ہوں اور پھر بیدار ہوجاتا ہوں۔ اس طرح میں اپنی نیند پر بھی ثواب کا امیدوار ہوں جس طرح بیدار ہو کر (عبادت کرنے پر) ثواب کی مجھے امید ہے اور انہوں نے ایک خیمہ لگا لیا اور ایک دوسرے سے ملاقات برابر ہوتی رہتی۔ ایک مرتبہ معاذ (رض) ابوموسیٰ (رض) سے ملنے کے لیے آئے، دیکھا ایک شخص بندھا ہوا ہے۔ پوچھا یہ کیا بات ہے ؟ ابوموسیٰ (رض) نے بتلایا کہ یہ ایک یہودی ہے، پہلے خود اسلام لایا اب یہ مرتد ہوگیا ہے۔ معاذ (رض) نے کہا کہ میں اسے قتل کئے بغیر ہرگز نہ رہوں گا۔ مسلم بن ابراہیم کے ساتھ اس حدیث کو عبدالملک بن عمرو عقدی اور وہب بن جریر نے شعبہ سے روایت کیا ہے اور وکیع، نضر اور ابوداؤد نے اس کو شعبہ سے، انہوں نے سعید سے، انہوں اپنے باپ بردہ سے، انہوں نے سعید کے دادا ابوموسیٰ (رض) سے، انہوں نے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا اور جریر بن عبد الحمید نے اس کو شیبانی سے روایت کیا، انہوں نے ابوبردہ سے۔
باب: حجۃ الوداع سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ابوموسیٰ اشعری اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہما کو یمن بھیجنا۔
ہم سے عباس بن ولید نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا، ان سے ایوب بن عائذ نے، ان سے قیس بن مسلم نے بیان کیا، کہا میں نے طارق بن شہاب سے سنا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابوموسیٰ اشعری (رض) نے کہا کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے میری قوم کے وطن (یمن) میں بھیجا۔ پھر میں آیا تو نبی کریم ﷺ (مکہ کی) وادی ابطح میں پڑاؤ کئے ہوئے تھے۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا : عبداللہ بن قیس ! تم نے حج کا احرام باندھا لیا ؟ میں نے عرض کیا : جی ہاں یا رسول اللہ ! آپ نے دریافت فرمایا کہ کلمات احرام کس طرح کہے ؟ بیان کیا کہ میں نے عرض کیا (کہ یوں کلمات ادا کئے ہیں) اے اللہ میں حاضر ہوں، اور جس طرح آپ ﷺ نے احرام باندھا ہے، میں نے بھی اسی طرح باندھا ہے۔ فرمایا تم اپنے ساتھ قربانی کا جانور بھی لائے ہو ؟ میں نے کہا کہ کوئی جانور تو میں اپنے ساتھ نہیں لایا۔ فرمایا تم پھر پہلے بیت اللہ کا طواف اور صفا اور مروہ کی سعی کرلو۔ ان رکنوں کی ادائیگی کے بعد حلال ہوجانا۔ میں نے اسی طرح کیا اور بنو قیس کی خاتون نے میرے سر میں کنگھا کیا اور اسی قاعدے پر ہم اس وقت تک چلتے رہے جب تک عمر (رض) خلیفہ ہوئے (اسی کو حج تمتع کہتے ہیں اور یہ بھی سنت ہے) ۔
باب: حجۃ الوداع سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ابوموسیٰ اشعری اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہما کو یمن بھیجنا۔
مجھ سے حبان بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں زکریا بن اسحاق نے، انہیں یحییٰ بن عبداللہ بن صیفی نے، انہیں ابن عباس (رض) کے غلام ابومعبد نافذ نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے معاذ بن جبل (رض) کو یمن کا (حاکم بنا کر بھیجتے وقت انہیں) ہدایت فرمائی تھی کہ تم ایک ایسی قوم کی طرف جا رہے ہو جو اہل کتاب یہودی اور نصرانی وغیرہ میں سے ہیں۔ اس لیے جب تم وہاں پہنچو تو پہلے انہیں اس کی دعوت دو کہ وہ گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ اگر اس میں وہ تمہاری بات مان لیں تو پھر انہیں بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے روزانہ ان پر پانچ وقت کی نمازیں فرض کی ہیں، جب یہ بھی مان لیں تو انہیں بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر زکوٰۃ کو بھی فرض کیا ہے، جو ان کے مالدار لوگوں سے لی جائے گی اور انہیں کے غریبوں میں تقسیم کردی جائے گی۔ جب یہ بھی مان جائیں تو (پھر زکوٰۃ وصول کرتے وقت) ان کا سب سے عمدہ مال لینے سے پرہیز کرنا اور مظلوم کی آہ سے ہر وقت ڈرتے رہنا کہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی ہے۔ ابوعبداللہ امام بخاری (رح) نے کہا کہ سورة المائدہ میں جو طوعت کا لفظ آیا ہے اس کا وہی معنی ہے جو طاعت اور أطاعت کا ہے جیسے کہتے ہیں طعت وطعت وأطعت. سب کا معنی ایک ہی ہے۔
باب: حجۃ الوداع سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ابوموسیٰ اشعری اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہما کو یمن بھیجنا۔
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے حبیب بن ابی ثابت نے بیان کیا، ان سے سعید بن جبیر نے بیان کیا، ان سے عمرو بن میمون نے اور ان سے معاذ (رض) نے بیان کیا کہ جب وہ یمن پہنچے تو یمن والوں کو صبح کی نماز پڑھائی اور نماز میں آیت واتخذ الله إبراهيم خليلا کی قرآت کی تو ان میں سے ایک صاحب (نماز ہی میں) بولے کہ ابراہیم کی والدہ کی آنکھ ٹھنڈی ہوگئی ہوگی۔ معاذ بن معاذ بغوی نے شعبہ سے، انہوں نے حبیب سے، انہوں نے سعید سے، انہوں نے عمرو بن میمون سے اس حدیث میں صرف اتنا بڑھایا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے معاذ کو یمن بھیجا وہاں انہوں نے صبح کی نماز میں سورة نساء پڑھی جب اس آیت پر پہنچے واتخذ الله إبراهيم خليلا تو ایک صاحب جو ان کے پیچھے کھڑے ہوئے تھے کہا کہ ابراہیم کی والدہ کی آنکھ ٹھنڈی ہوگئی ہوگی۔
باب: حجۃ الوداع سے پہلے علی بن ابی طالب اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہما کو یمن بھیجنا۔
مجھ سے احمد بن عثمان بن حکیم نے بیان کیا، کہا ہم سے شریح بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن یوسف بن اسحاق بن ابی اسحاق نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق نے کہا کہ میں نے براء بن عازب (رض) سے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں خالد بن ولید (رض) کے ساتھ یمن بھیجا، بیان کیا کہ پھر اس کے بعد ان کی جگہ علی (رض) کو بھیجا اور آپ نے انہیں ہدایت کی کہ خالد کے ساتھیوں سے کہو کہ جو ان میں سے تمہارے ساتھ یمن میں رہنا چاہے وہ تمہارے ساتھ پھر یمن کو لوٹ جائے اور جو وہاں سے واپس آنا چاہے وہ چلا آئے۔ براء (رض) کہتے ہیں کہ میں ان لوگوں میں سے تھا جو یمن کو لوٹ گئے۔ انہوں نے بیان کیا کہ مجھے غنیمت میں کئی اوقیہ چاندی کے ملے تھے۔
باب: حجۃ الوداع سے پہلے علی بن ابی طالب اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہما کو یمن بھیجنا۔
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے روح بن عبادہ نے بیان کیا، کہا ہم سے علی بن سوید بن منجوف نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن بریدہ نے اور ان سے ان کے والد (بریدہ بن حصیب) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے خالد بن ولید (رض) کی جگہ علی (رض) کو (یمن) بھیجا تاکہ غنیمت کے خمس (پانچواں حصہ) کو ان سے لے آئیں۔ مجھے علی (رض) سے بہت بغض تھا اور میں نے انہیں غسل کرتے دیکھا تھا۔ میں نے خالد (رض) سے کہا تم دیکھتے ہو علی (رض) نے کیا کیا (اور ایک لونڈی سے صحبت کی) پھر جب ہم نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو میں نے آپ سے بھی اس کا ذکر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا (بریدہ) کیا تمہیں علی (رض) کی طرف سے بغض ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ جی ہاں، فرمایا علی سے دشمنی نہ رکھنا کیونکہ خمس (غنیمت کے پانچویں حصے) میں اس سے بھی زیادہ حق ہے۔
باب: حجۃ الوداع سے پہلے علی بن ابی طالب اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہما کو یمن بھیجنا۔
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا، ان سے عمارہ بن قعقاع بن شبرمہ نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن ابی نعیم نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابو سعید خدری (رض) سے سنا وہ کہتے تھے کہ یمن سے علی بن ابی طالب (رض) نے رسول اللہ ﷺ کے پاس بیری کے پتوں سے دباغت دئیے ہوئے چمڑے کے ایک تھیلے میں سونے کے چند ڈلے بھیجے۔ ان سے (کان کی) مٹی بھی ابھی صاف نہیں کی گئی تھی۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر نبی کریم ﷺ نے وہ سونا چار آدمیوں میں تقسیم کردیا۔ عیینہ بن بدر، اقرع بن حابس، زید بن خیل اور چوتھے علقمہ رضی اللہ عنہم تھے یا عامر بن طفیل (رض) تھے۔ آپ کے اصحاب میں سے ایک صاحب نے اس پر کہا کہ ان لوگوں سے زیادہ ہم اس سونے کے مستحق تھے۔ راوی نے بیان کیا کہ جب نبی کریم ﷺ کو معلوم ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم مجھ پر اعتبار نہیں کرتے حالانکہ اس اللہ نے مجھ پر اعتبار کیا ہے جو آسمان پر ہے اور اس کی جو آسمان پر ہے وحی میرے پاس صبح و شام آتی ہے۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر ایک شخص جس کی آنکھیں دھنسی ہوئی تھیں، دونوں رخسار پھولے ہوئے تھے، پیشانی بھی ابھری ہوئی تھی، گھنی داڑھی اور سر منڈا ہوا، تہبند اٹھائے ہوئے تھا، کھڑا ہوا اور کہنے لگا : یا رسول اللہ ! اللہ سے ڈرئیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ افسوس تجھ پر، کیا میں اس روئے زمین پر اللہ سے ڈرنے کا سب سے زیادہ مستحق نہیں ہوں ؟ راوی نے بیان کیا پھر وہ شخص چلا گیا۔ خالد بن ولید (رض) نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! میں کیوں نہ اس شخص کی گردن مار دوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ نہیں شاید وہ نماز پڑھتا ہو اس پر خالد (رض) نے عرض کیا کہ بہت سے نماز پڑھنے والے ایسے ہیں جو زبان سے اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں اور ان کے دل میں وہ نہیں ہوتا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس کا حکم نہیں ہوا ہے کہ لوگوں کے دلوں کی کھوج لگاؤں اور نہ اس کا حکم ہوا کہ ان کے پیٹ چاک کروں۔ راوی نے کہا پھر نبی کریم ﷺ نے اس (منافق) کی طرف دیکھا تو وہ پیٹھ پھیر کر جا رہا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس کی نسل سے ایک ایسی قوم نکلے گی جو کتاب اللہ کی تلاوت بڑی خوش الحانی کے ساتھ کرے گی لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ دین سے وہ لوگ اس طرح نکل چکے ہوں گے جیسے تیر جانور کے پار نکل جاتا ہے اور میرا خیال ہے کہ آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ اگر میں ان کے دور میں ہوا تو ثمود کی قوم کی طرح ان کو بالکل قتل کر ڈالوں گا۔
باب: حجۃ الوداع سے پہلے علی بن ابی طالب اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہما کو یمن بھیجنا۔
ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے کہ عطاء بن ابی رباح نے بیان کیا اور ان سے جابر (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے علی (رض) سے (جب وہ یمن سے مکہ آئے) فرمایا تھا کہ وہ اپنے احرام پر باقی رہیں۔ محمد بن بکر نے ابن جریج سے اتنا بڑھایا کہ ان سے عطاء نے بیان کیا کہ جابر (رض) نے کہا علی (رض) اپنی ولایت (یمن) سے آئے تو آپ ﷺ نے ان سے دریافت فرمایا کہ علی ! تم نے احرام کس طرح باندھا ہے ؟ عرض کیا کہ جس طرح احرام آپ نے باندھا ہو۔ فرمایا پھر قربانی کا جانور بھیج دو اور جس طرح احرام باندھا ہے، اسی کے مطابق عمل کرو۔ بیان کیا کہ علی (رض) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے قربانی کے جانور لائے تھے۔
باب: حجۃ الوداع سے پہلے علی بن ابی طالب اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہما کو یمن بھیجنا۔
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے بشر بن مفضل نے بیان کیا، ان سے حمید طویل نے، کہا ہم سے بکر بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے عبداللہ بن عمر (رض) سے ذکر کیا کہ انس (رض) نے ان سے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے عمرہ اور حج دونوں کا احرام باندھا تھا اور ہم نے بھی آپ کے ساتھ حج ہی کا احرام باندھا تھا۔ پھر ہم جب مکہ آئے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ جس کے ساتھ قربانی کا جانور نہ ہو وہ اپنے حج کے احرام کو عمرہ کا احرام کرلے (اور طواف اور سعی کر کے احرام کھول دے) اور نبی کریم ﷺ کے ساتھ قربانی کا جانور تھا۔ پھر علی بن ابی طالب (رض) یمن سے لوٹ کر حج کا احرام باندھ کر آئے۔ آپ ﷺ نے ان سے دریافت فرمایا کہ تم نے کس طرح احرام باندھا ہے ؟ ہمارے ساتھ تمہاری زوجہ فاطمہ بھی ہیں۔ انہوں نے عرض کیا کہ میں نے اسی طرح کا احرام باندھا ہے جس طرح آپ ﷺ نے باندھا ہو۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر اپنے احرام پر قائم رہو، کیونکہ ہمارے ساتھ قربانی کا جانور ہے۔
باب: غزوہ ذوالخلصہ کا بیان۔
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد بن عبداللہ طحان نے بیان کیا، ان سے بیان بن بشر نے بیان کیا، ان سے قیس نے اور ان سے جریر بن عبداللہ بجلی (رض) نے بیان کیا کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ذوالخلصہ سے مجھے کیوں نہیں بےفکری دلاتے ! میں نے عرض کیا میں حکم کی تعمیل کروں گا۔ چناچہ قبیلہ احمس کے ڈیڑھ سو سواروں کو ساتھ لے کر میں روانہ ہوا۔ یہ سب اچھے سوار تھے، لیکن میں سواری اچھی طرح نہیں کر پاتا تھا۔ میں نے اس کے متعلق نبی کریم ﷺ سے ذکر کیا تو آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ میرے سینے پر مارا جس کا اثر میں نے اپنے سینہ میں دیکھا اور نبی کریم ﷺ نے دعا فرمائی۔
باب: غزوہ ذوالخلصہ کا بیان۔
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعد قطان نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن ابی خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے قیس بن ابی حازم نے بیان کیا، کہا مجھ سے جریر بن عبداللہ بجلی (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ تم مجھے ذوالخلصہ سے کیوں نہیں بےفکر کرتے ؟ یہ قبیلہ خثعم کا ایک بت خانہ تھا۔ اسے کعبہ یمانیہ بھی کہتے تھے۔ چناچہ میں ڈیڑھ سو قبیلہ احمس کے سواروں کو لے کر روانہ ہوا۔ یہ سب اچھے شہسوار تھے۔ مگر میں گھوڑے کی سواری اچھی طرح نہیں کرسکتا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے میرے سینے پر ہاتھ مارا یہاں تک کہ میں نے آپ کی انگلیوں کا اثر اپنے سینے میں پایا۔ پھر آپ نے دعا کی کہ اے اللہ ! اسے گھوڑے کا اچھا سوار بنا دے اور اسے راستہ بتلانے والا اور خود راستہ پایا ہوا بنا دے۔ پھر وہ اس بت خانے کی طرف روانہ ہوئے اور اسے ڈھا کر اس میں آگ لگا دی۔ پھر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں اطلاع بھیجی۔ جریر کے ایلچی نے آ کر عرض کیا : اس ذات کی قسم ! جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا، میں اس وقت تک آپ کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے نہیں چلا جب تک وہ خارش زدہ اونٹ کی طرح جل کر (سیاہ) نہیں ہوگیا۔ بیان کیا کہ پھر نبی کریم ﷺ نے قبیلہ احمس کے گھوڑوں اور لوگوں کے لیے پانچ مرتبہ برکت کی دعا فرمائی۔
باب: غزوہ ذوالخلصہ کا بیان۔
ہم سے یوسف بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو خبر دی ابواسامہ نے، انہیں اسماعیل بن ابی خالد نے، انہیں قیس بن ابی حازم نے اور ان سے جریر بن عبداللہ بجلی (رض) نے بیان کیا کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ذوالخلصہ سے مجھے کیوں نہیں بےفکری دلاتے ! میں نے عرض کیا میں حکم کی تعمیل کروں گا۔ چناچہ قبیلہ احمس کے ڈیڑھ سو سواروں کو ساتھ لے کر میں روانہ ہوا۔ یہ سب اچھے سوار تھے، لیکن میں سواری اچھی طرح نہیں کر پاتا تھا۔ میں نے اس کے متعلق نبی کریم ﷺ سے ذکر کیا تو آپ نے اپنا ہاتھ میرے سینے پر مارا جس کا اثر میں نے اپنے سینہ میں دیکھا اور نبی کریم ﷺ نے دعا فرمائی اے اللہ ! اسے اچھا سوار بنا دے اور اسے ہدایت کرنے والا اور خود ہدایت پایا ہوا بنا دے۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر اس کے بعد میں کبھی کسی گھوڑے سے نہیں گرا۔ راوی نے بیان کیا کہ ذوالخلصہ ایک (بت خانہ) تھا، یمن میں قبیلہ خثعم اور بجیلہ کا، اس میں بت تھے جن کی پوجا کی جاتی تھی اور اسے کعبہ بھی کہتے تھے۔ بیان کیا کہ پھر جریر وہاں پہنچے اور اسے آگ لگا دی اور منہدم کردیا۔ بیان کیا کہ جب جریر (رض) یمن پہنچے تو وہاں ایک شخص تھا جو تیروں سے فال نکالا کرتا تھا۔ اس سے کسی نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کے ایلچی یہاں آگئے ہیں۔ اگر انہوں نے تمہیں پا لیا تو تمہاری گردن مار دیں گے۔ بیان کیا کہ ابھی وہ فال نکال ہی رہے تھے کہ جریر (رض) وہاں پہنچ گئے۔ آپ نے اس سے فرمایا کہ یہ فال کے تیر توڑ کر کلمہ لا الٰہ الا اللہ پڑھ لے ورنہ میں تیری گردن مار دوں گا۔ راوی نے بیان کیا اس شخص نے تیر وغیرہ توڑ ڈالے اور کلمہ ایمان کی گواہی دی۔ اس کے بعد جریر (رض) نے قبیلہ احمس کے ایک صحابی ابوارطاط (رض) نامی کو نبی کریم ﷺ کی خدمت میں بھیجا جب وہ خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے۔ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے اس وقت تک نہیں چلا جب تک اس بت کدہ کو خارش زدہ اونٹ کی طرح جلا کر سیاہ نہیں کردیا۔ بیان کیا کہ پھر آپ ﷺ نے قبیلہ احمس کے گھوڑوں اور سواروں کے لیے پانچ مرتبہ برکت کی دعا فرمائی۔
باب: غزوہ ذات السلاسل کا بیان۔
ہم سے اسحاق بن شاہین نے بیان کیا، کہا ہم کو خالد بن عبداللہ نے خبر دی، انہیں خالد حذاء نے، انہیں ابوعثمان نہدی (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے عمرو بن العاص (رض) کو غزوہ ذات السلاسل کے لیے امیر لشکر بنا کر بھیجا۔ عمرو بن العاص (رض) نے بیان کیا کہ (غزوہ سے واپس آ کر) میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے پوچھا کہ آپ کو سب سے زیادہ عزیز کون شخص ہے ؟ فرمایا کہ عائشہ، میں نے پوچھا اور مردوں میں ؟ فرمایا کہ اس کے والد، میں نے پوچھا، اس کے بعد کون ؟ فرمایا کہ عمر۔ اس طرح آپ نے کئی آدمیوں کے نام لیے بس میں خاموش ہوگیا کہ کہیں آپ مجھے سب سے بعد میں نہ کردیں۔
باب: جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ کا یمن کی طرف جانا۔
مجھ سے عبداللہ بن ابی شیبہ عبسی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبداللہ بن ادریس نے بیان کیا، ان سے اسماعیل بن ابی خالد نے، ان سے قیس بن ابی حازم نے اور ان سے جریر بن عبداللہ بجلی (رض) نے بیان کیا کہ (یمن سے واپسی پر مدینہ آنے کے لیے) میں دریا کے راستے سے سفر کر رہا تھا۔ اس وقت یمن کے دو آدمیوں ذوکلاع اور ذوعمرو سے میری ملاقات ہوئی میں ان سے نبی کریم ﷺ کی باتیں کرنے لگا اس پر ذوعمرو نے کہا : اگر تمہارے صاحب (یعنی نبی کریم ﷺ ) وہی ہیں جن کا ذکر تم کر رہے ہو تو ان کی وفات کو بھی تین دن گزر چکے۔ یہ دونوں میرے ساتھ ہی (مدینہ) کی طرف چل رہے تھے۔ راستے میں ہمیں مدینہ کی طرف سے آتے ہوئے کچھ سوار دکھائی دئیے، ہم نے ان سے پوچھا تو انہوں نے اس کی تصدیق کی کہ نبی کریم ﷺ وفات پا گئے ہیں۔ آپ کے خلیفہ ابوبکر (رض) منتخب ہوئے ہیں اور لوگ اب بھی سب خیریت سے ہیں۔ ان دونوں نے مجھ سے کہا کہ اپنے صاحب (ابوبکر رضی اللہ عنہ) سے کہنا کہ ہم آئے تھے اور انشاء اللہ پھر مدینہ آئیں گے یہ کہہ کر دونوں یمن کی طرف واپس چلے گئے۔ پھر میں نے ابوبکر (رض) کو ان کی باتوں کی اطلاع دی تو آپ نے فرمایا کہ پھر انہیں اپنے ساتھ لائے کیوں نہیں ؟ بہت دنوں بعد خلافت عمری میں ذوعمرو نے ایک مرتبہ مجھ سے کہا کہ جریر ! تمہارا مجھ پر احسان ہے اور تمہیں میں ایک بات بتاؤں گا کہ تم اہل عرب اس وقت تک خیر و بھلائی کے ساتھ رہو گے جب تک تمہارا طرز عمل یہ ہوگا کہ جب تمہارا کوئی امیر وفات پا جائے گا تو تم اپنا کوئی دوسرا امیر منتخب کرلیا کرو گے۔ لیکن جب (امارت کے لیے) تلوار تک بات پہنچ جائے تو تمہارے امیر بادشاہ بن جائیں گے۔ بادشاہوں کی طرح غصہ ہوا کریں گے اور انہیں کی طرح خوش ہوا کریں گے۔
باب: غزوہ سیف البحر کا بیان۔
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک (رح) نے بیان کیا، ان سے وہیب بن کیسان نے بیان کیا اور ان سے جابر بن عبداللہ انصاری (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ساحل سمندر کی طرف ایک لشکر بھیجا اور اس کا امیر ابوعبیدہ بن جراح (رض) کو بنایا۔ اس میں تین سو آدمی شریک تھے۔ خیر ہم مدینہ سے روانہ ہوئے اور ابھی راستے ہی میں تھے کہ راشن ختم ہوگیا، جو کچھ بچ رہا تھا وہ ابوعبیدہ (رض) ہمیں روزانہ تھوڑا تھوڑا اسی میں سے کھانے کو دیتے رہے۔ آخر جب یہ بھی ختم کے قریب پہنچ گیا تو ہمارے حصے میں صرف ایک ایک کھجور آتی تھی۔ وہب نے کہا میں نے جابر (رض) سے پوچھا کہ ایک کھجور سے کیا ہوتا رہا ہوگا ؟ جابر (رض) نے کہا وہ ایک کھجور ہی غنیمت تھی۔ جب وہ بھی نہ رہی تو ہم کو اس کی قدر معلوم ہوئی تھی، آخر ہم سمندر کے کنارے پہنچ گئے۔ وہاں کیا دیکھتے ہیں بڑے ٹیلے کی طرح ایک مچھلی نکل کر پڑی ہے۔ اس مچھلی کو سارا لشکر اٹھارہ راتوں تک کھاتا رہا۔ بعد میں ابوعبیدہ (رض) کے حکم سے اس کی پسلی کی دو ہڈیاں کھڑی کی گئیں وہ اتنی اونچی تھیں کہ اونٹ پر کجاوہ کسا گیا وہ ان کے تلے سے نکل گیا اور ہڈیوں کو بالکل نہیں لگا۔
باب: غزوہ سیف البحر کا بیان۔
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم نے عمرو بن دینار سے جو یاد کیا وہ یہ ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے جابر بن عبداللہ (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے تین سو سواروں کے ساتھ بھیجا اور ہمارا امیر ابوعبیدہ بن جراح (رض) کو بنایا۔ تاکہ ہم قریش کے قافلہ تجارت کی تلاش میں رہیں۔ ساحل سمندر پر ہم پندرہ دن تک پڑاؤ ڈالے رہے۔ ہمیں (اس سفر میں) بڑی سخت بھوک اور فاقے کا سامنا کرنا پڑا، یہاں تک نوبت پہنچی کہ ہم نے ببول کے پتے کھا کر وقت گذارا۔ اسی لیے اس فوج کا لقب پتوں کی فوج ہوگیا۔ پھر اتفاق سے سمندر نے ہمارے لیے ایک مچھلی جیسا جانور ساحل پر پھینک دیا، اس کا نام عنبر تھا، ہم نے اس کو پندرہ دن تک کھایا اور اس کی چربی کو تیل کے طور پر (اپنے جسموں پر) ملا۔ اس سے ہمارے بدن کی طاقت و قوت پھر لوٹ آئی۔ بعد میں ابوعبیدہ (رض) نے اس کی ایک پسلی نکال کر کھڑی کروائی اور جو لشکر میں سب سے لمبے آدمی تھے، انہیں اس کے نیچے سے گزارا۔ سفیان بن عیینہ نے ایک مرتبہ اس طرح بیان کیا کہ ایک پسلی نکال کر کھڑی کردی اور ایک شخص کو اونٹ پر سوار کرایا وہ اس کے نیچے سے نکل گیا۔ جابر (رض) نے بیان کیا کہ لشکر کے ایک آدمی نے پہلے تین اونٹ ذبح کئے پھر تین اونٹ ذبح کئے اور جب تیسری مرتبہ تین اونٹ ذبح کئے تو ابوعبیدہ نے انہیں روک دیا کیونکہ اگر سب اونٹ ذبح کردیتے تو سفر کیسے ہوتا اور عمرو بن دینار نے بیان کیا کہ ہم کو ابوصالح ذکوان نے خبر دی کہ قیس بن سعد (رض) نے (واپس آ کر) اپنے والد (سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ) سے کہا کہ میں بھی لشکر میں تھا جب لوگوں کو بھوک لگی تو ابوعبیدہ (رض) نے کہا کہ اونٹ ذبح کرو، قیس بن سعد (رض) نے بیان کیا کہ میں نے ذبح کردیا کہا کہ پھر بھوکے ہوئے تو انہوں نے کہا کہ اونٹ ذبح کرو، میں نے ذبح کیا، بیان کیا کہ جب پھر بھوکے ہوئے تو کہا کہ اونٹ ذبح کرو، میں نے ذبح کیا، پھر بھوکے ہوئے تو کہا کہ اونٹ ذبح کرو، پھر قیس (رض) نے بیان کیا کہ اس مرتبہ مجھے امیر لشکر کی طرف سے منع کردیا گیا۔
باب: غزوہ سیف البحر کا بیان۔
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے ابن جریر نے بیان کیا، انہیں عمرو بن دینار نے خبر دی اور انہوں نے جابر بن عبداللہ انصاری (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ہم پتوں کی فوج میں شریک تھے۔ ابوعبیدہ (رض) ہمارے امیر تھے۔ پھر ہمیں شدت سے بھوک لگی، آخر سمندر نے ایک ایسی مردہ مچھلی باہر پھینکی کہ ہم نے ویسی مچھلی پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ اسے عنبر کہتے تھے۔ وہ مچھلی ہم نے پندرہ دن تک کھائی۔ پھر ابوعبیدہ (رض) نے اس کی ہڈی کھڑی کروا دی تو اونٹ کا سوار اس کے نیچے سے گزر گیا۔ (ابن جریر نے بیان کیا کہ) پھر مجھے ابو الزبیر نے خبر دی اور انہوں نے جابر (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ابوعبیدہ (رض) نے کہا اس مچھلی کو کھاؤ پھر جب ہم مدینہ لوٹ کر آئے تو ہم نے اس کا ذکر نبی کریم ﷺ سے کیا، آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ روزی کھاؤ جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے بھیجی ہے۔ اگر تمہارے پاس اس میں سے کچھ بچی ہو تو مجھے بھی کھلاؤ۔ چناچہ ایک آدمی نے اس کا گوشت لا کر آپ کی خدمت میں پیش کیا اور آپ نے بھی اسے تناول فرمایا۔
باب: ابوبکر رضی اللہ عنہ کا لوگوں کے ساتھ سنہ ۹ ھ میں حج کرنا۔
ہم سے سلیمان بن داؤد ابوالربیع نے بیان کیا، کہا ہم سے فلیح بن سلیمان نے بیان کیا کہ ان سے زہری نے، ان سے حمید بن عبدالرحمٰن نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے ابوبکر (رض) کو حجۃ الوداع سے پہلے جس حج کا امیر بنا کر بھیجا تھا، اس میں ابوبکر (رض) نے مجھے کئی آدمیوں کے ساتھ قربانی کے دن (منیٰ ) میں اعلان کرنے کے لیے بھیجا تھا کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک (بیت اللہ) کا حج کرنے نہ آئے اور نہ کوئی شخص بیت اللہ کا طواف ننگے ہو کر کرے۔
باب: ابوبکر رضی اللہ عنہ کا لوگوں کے ساتھ سنہ ۹ ھ میں حج کرنا۔
مجھ سے عبداللہ بن رجاء نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے اسرائیل نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق نے بیان کیا اور ان سے براء بن عازب (رض) نے بیان کیا کہ سب سے آخری سورة جو پوری اتری وہ سورة برات (توبہ) تھی اور آخری آیت جو اتری وہ سورة نساء کی یہ آیت ہے يستفتونک قل الله يفتيكم في الکلالة۔
باب: بنی تمیم کے وفد کا بیان۔
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا ان سے ابوصخرہ نے، ان سے صفوان بن محرز مازنی نے اور ان سے عمران بن حصین نے بیان کیا کہ بنو تمیم کے چند لوگوں کا (ایک وفد) نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا اے بنو تمیم ! بشارت قبول کرو۔ وہ کہنے لگے کہ بشارت تو آپ ہمیں دے چکے، کچھ مال بھی دیجئیے۔ ان کے اس جواب پر نبی کریم ﷺ کے چہرہ مبارک پر ناگواری کا اثر دیکھا گیا، پھر یمن کے چند لوگوں کا ایک (وفد) نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ بنو تمیم نے بشارت نہیں قبول کی، تم قبول کرلو۔ انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! ہم کو بشارت قبول ہے۔
ابن اسحاق کہتے ہیں عیینہ بن حصن بن حذیفہ بن بدر کو آنحضرت ﷺ نے بنو تمیم کی شاخ بنو عنبر سے جنگ کرنے کے لئے بھیجا تو انہوں نے شبخون مار کر مردوں کو تہ و تیغ کر کے ان کی عورتوں کو قیدی بنا لیا۔
مجھ سے زہیر بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے عمارہ بن قعقاع نے، ان سے ابوزرعہ نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ میں اس وقت سے ہمیشہ بنو تمیم سے محبت رکھتا ہوں جب سے نبی کریم ﷺ کی زبانی ان کی تین خوبیاں میں نے سنی ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے ان کے متعلق فرمایا تھا کہ بنو تمیم دجال کے حق میں میری امت کے سب سے زیادہ سخت لوگ ثابت ہوں گے اور بنو تمیم کی ایک قیدی خاتون عائشہ (رض) کے پاس تھیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اسے آزاد کر دو کیونکہ یہ اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ہے اور ان کے یہاں سے زکوٰۃ وصول ہو کر آئی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ ایک قوم کی یا (یہ فرمایا کہ) یہ میری قوم کی زکوٰۃ ہے۔
ابن اسحاق کہتے ہیں عیینہ بن حصن بن حذیفہ بن بدر کو آنحضرت ﷺ نے بنو تمیم کی شاخ بنو عنبر سے جنگ کرنے کے لئے بھیجا تو انہوں نے شبخون مار کر مردوں کو تہ و تیغ کر کے ان کی عورتوں کو قیدی بنا لیا۔
مجھ سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ہشام بن یوسف نے بیان کیا، انہیں ابن جریج نے خبر دی، انہیں ابن ابی ملیکہ نے اور انہیں عبداللہ بن زبیر (رض) نے خبر دی کہ بنو تمیم کے چند سوار نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے عرض کیا کہ آپ ہمارا کوئی امیر منتخب کر دیجئیے۔ ابوبکر (رض) نے کہا کہ قعقاع بن معبد بن زرارہ (رض) کو امیر منتخب کر دیجئیے۔ عمر (رض) نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! بلکہ آپ اقرع بن حابس (رض) کو ان کا امیر منتخب فرما دیجئیے۔ اس پر ابوبکر (رض) نے عمر (رض) سے کہا کہ تمہارا مقصد صرف مجھ سے اختلاف کرنا ہے۔ عمر (رض) نے کہا کہ نہیں میری غرض مخالفت کی نہیں ہے۔ دونوں اتنا جھگڑے کی آواز بلند ہوگئی۔ اسی پر سورة الحجرات کی یہ آیت نازل ہوئی يا أيها الذين آمنوا لا تقدموا آخر آیت تک۔
وفد عبدالقیس کا بیان
مجھ سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا، کہا ہم کو ابوعامر عقدی نے خبر دی، کہا ہم سے قرہ بن خالد نے بیان کیا، ان سے ابوحمزہ نے کہ میں نے ابن عباس (رض) سے پوچھا کہ میرے پاس ایک گھڑا ہے جس میں میرے لیے نبیذ یعنی کھجور کا شربت بنایا جاتا ہے۔ میں وہ میٹھے رہنے تک پیا کرتا ہوں۔ بعض وقت بہت پی لیتا ہوں اور لوگوں کے پاس دیر تک بیٹھا رہتا ہوں تو ڈرتا ہوں کہ کہیں فضیحت نہ ہو۔ (لوگ کہنے لگیں کہ یہ نشہ باز ہے) اس پر ابن عباس (رض) نے کہا کہ قبیلہ عبدالقیس کا وفد نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اچھے آئے نہ ذلیل ہوئے، نہ شرمندہ (خوشی سے مسلمان ہوگئے نہ ہوتے تو ذلت اور شرمندگی حاصل ہوتی) انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! ہمارے اور آپ کے درمیان میں مشرکین کے قبائل پڑتے ہیں۔ اس لیے ہم آپ کی خدمت میں صرف حرمت والے مہینے ہی میں حاضر ہوسکتے ہیں۔ آپ ﷺ ہمیں وہ احکام و ہدایات سنا دیں کہ اگر ہم ان پر عمل کرتے رہیں تو جنت میں داخل ہوں اور جو لوگ ہمارے ساتھ نہیں آسکے ہیں انہیں بھی وہ ہدایات پہنچا دیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں تمہیں چار چیزوں کا حکم دیتا ہوں اور چار چیزوں سے روکتا ہوں۔ میں تمہیں حکم دیتا ہوں اللہ پر ایمان لانے کا، تمہیں معلوم ہے اللہ پر ایمان لانا کسے کہتے ہیں ؟ اس کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، نماز قائم کرنے کا، زکوٰۃ دینے کا، رمضان کے روزے رکھنے اور مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ (بیت المال کو) ادا کرنے کا حکم دیتا ہوں اور میں تمہیں چار چیزوں سے روکتا ہوں یعنی کدو کے تون بے میں اور کریدی ہوئی لکڑی کے برتن میں اور سبز لاکھی برتن میں اور روغنی برتن میں نبیذ بھگونے سے منع کرتا ہوں۔
وفد عبدالقیس کا بیان
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ابوجمرہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابن عباس (رض) سے سنا کہ وہ بیان کرتے تھے کہ جب قبیلہ عبدالقیس کا وفد نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ہم قبیلہ ربیعہ کی ایک شاخ ہیں اور ہمارے اور آپ کے درمیان کفار مضر کے قبائل پڑتے ہیں۔ ہم آپ کی خدمت میں صرف حرمت والے مہینوں میں ہی حاضر ہوسکتے ہیں۔ اس لیے آپ چند ایسی باتیں بتلا دیجئیے کہ ہم بھی ان پر عمل کریں اور جو لوگ ہمارے ساتھ نہیں آسکے ہیں، انہیں بھی اس کی دعوت دیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں تمہیں چار چیزوں کا حکم دیتا ہوں اور چار چیزوں سے روکتا ہوں (میں تمہیں حکم دیتا ہوں) اللہ پر ایمان لانے کا یعنی اس کی گواہی دینے کا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، پھر آپ ﷺ نے (اپنی انگلی سے) ایک اشارہ کیا، اور نماز قائم کرنے کا، زکوٰۃ دینے کا اور اس کا کہ مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ (بیت المال کو) ادا کرتے رہنا اور میں تمہیں دباء، نقیر، مزفت اور حنتم کے برتنوں کے استعمال سے روکتا ہوں۔
وفد عبدالقیس کا بیان
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، کہا مجھ سے عبداللہ بن وہب نے، کہا مجھ کو عمرو بن حارث نے خبر دی اور بکر بن مضر نے یوں بیان کیا کہ عبداللہ بن وہب نے عمرو بن حارث سے روایت کیا، ان سے بکیر نے اور ان سے کریب (ابن عباس (رض) کے غلام) نے بیان کیا کہ ابن عباس، عبدالرحمٰن بن ازہر اور مسور بن مخرمہ نے انہیں عائشہ (رض) کی خدمت میں بھیجا اور کہا کہ ام المؤمنین سے ہم سب کا سلام کہنا اور عصر کے بعد دو رکعتوں کے متعلق ان سے پوچھنا اور یہ کہ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ آپ انہیں پڑھتی ہیں اور ہمیں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں پڑھنے سے روکا تھا۔ ابن عباس (رض) نے کہا کہ میں ان دو رکعتوں کے پڑھنے پر عمر (رض) کے ساتھ (ان کے دور خلافت میں) لوگوں کو مارا کرتا تھا۔ کریب نے بیان کیا کہ پھر میں ام المؤمنین کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان کا پیغام پہنچایا۔ عائشہ (رض) نے فرمایا کہ اس کے متعلق ام سلمہ سے پوچھو، میں نے ان حضرات کو آ کر اس کی اطلاع دی تو انہوں نے مجھ کو ام سلمہ (رض) کی خدمت میں بھیجا، وہ باتیں پوچھنے کے لیے جو عائشہ سے انہوں نے پچھوائی تھیں۔ ام سلمہ (رض) نے فرمایا کہ میں نے خود بھی رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ آپ عصر کے بعد دو رکعتوں سے منع کرتے تھے لیکن آپ ﷺ نے ایک مرتبہ عصر کی نماز پڑھی، پھر میرے یہاں تشریف لائے، میرے پاس اس وقت قبیلہ بنو حرام کی کچھ عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں اور آپ نے دو رکعت نماز پڑھی۔ یہ دیکھ کر میں نے خادمہ کو آپ کی خدمت میں بھیجا اور اسے ہدایت کردی کہ نبی کریم ﷺ کے پہلو میں کھڑی ہوجانا اور عرض کرنا کہ ام سلمہ (رض) نے پوچھا ہے : یا رسول اللہ ! میں نے تو آپ سے ہی سنا تھا اور آپ نے عصر کے بعد ان دو رکعتوں کے پڑھنے سے منع کیا تھا لیکن میں آج خود آپ کو دو رکعت پڑھتے دیکھ رہی ہوں۔ اگر نبی کریم ﷺ ہاتھ سے اشارہ کریں تو پھر پیچھے ہٹ جانا۔ خادمہ نے میری ہدایت کے مطابق کیا اور نبی کریم ﷺ نے ہاتھ سے اشارہ کیا تو وہ پیچھے ہٹ گئی۔ پھر جب آپ فارغ ہوئے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اے ابوامیہ کی بیٹی ! عصر کے بعد کی دو رکعتوں کے متعلق تم نے سوال کیا ہے، وجہ یہ ہوئی تھی کہ قبیلہ عبدالقیس کے کچھ لوگ میرے یہاں اپنی قوم کا اسلام لے کر آئے تھے اور ان کی وجہ سے ظہر کے بعد کی دو رکعتیں میں نہیں پڑھ سکا تھا یہ وہی دو رکعتیں ہیں۔
وفد عبدالقیس کا بیان
مجھ سے عبداللہ بن محمد الجعفی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعامر عبدالملک نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابراہیم نے بیان کیا، (یہ طہمان کے بیٹے ہیں۔ ) ان سے ابوجمرہ نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عباس (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کی مسجد یعنی مسجد نبوی کے بعد سب سے پہلا جمعہ جواثی کی مسجد عبدالقیس میں قائم ہوا۔ جواثی بحرین کا ایک گاؤں تھا۔
باب: وفد بنو حنیفہ اور ثمامہ بن اثال کے واقعات کا بیان۔
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے سعید بن ابی سعید نے بیان کیا، انہوں نے ابوہریرہ (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے نجد کی طرف کچھ سوار بھیجے وہ قبیلہ بنو حنیفہ کے (سرداروں میں سے) ایک شخص ثمامہ بن اثال نامی کو پکڑ کر لائے اور مسجد نبوی کے ایک ستون سے باندھ دیا۔ نبی کریم ﷺ باہر تشریف لائے اور پوچھا ثمامہ تو کیا سمجھتا ہے ؟ (میں تیرے ساتھ کیا کروں گا ؟ ) انہوں نے کہا : اے محمد ( ﷺ ) ! میرے پاس خیر ہے (اس کے باوجود) اگر آپ مجھے قتل کردیں تو آپ ایک شخص کو قتل کریں گے جو خونی ہے، اس نے جنگ میں مسلمانوں کو مارا اور اگر آپ مجھ پر احسان کریں گے تو ایک ایسے شخص پر احسان کریں گے جو (احسان کرنے والے کا) شکر ادا کرتا ہے لیکن اگر آپ کو مال مطلوب ہے تو جتنا چاہیں مجھ سے مال طلب کرسکتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ وہاں سے چلے آئے، دوسرے دن آپ نے پھر پوچھا : ثمامہ اب تو کیا سمجھتا ہے ؟ انہوں نے کہا، وہی جو میں پہلے کہہ چکا ہوں، کہ اگر آپ نے احسان کیا تو ایک ایسے شخص پر احسان کریں گے جو شکر ادا کرتا ہے۔ نبی کریم ﷺ پھر چلے گئے، تیسرے دن پھر آپ نے ان سے پوچھا : اب تو کیا سمجھتا ہے ثمامہ ؟ انہوں نے کہا کہ وہی جو میں آپ سے پہلے کہہ چکا ہوں۔ نبی کریم ﷺ نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا کہ ثمامہ کو چھوڑ دو (رسی کھول دی گئی) تو وہ مسجد نبوی سے قریب ایک باغ میں گئے اور غسل کر کے مسجد نبوی میں حاضر ہوئے اور پڑھا أشهد أن لا إله إلا الله، وأشهد أن محمدا رسول الله اور کہا اے محمد ! اللہ کی قسم روئے زمین پر کوئی چہرہ آپ کے چہرے سے زیادہ میرے لیے برا نہیں تھا لیکن آج آپ کے چہرے سے زیادہ کوئی چہرہ میرے لیے محبوب نہیں ہے۔ اللہ کی قسم کوئی دین آپ کے دین سے زیادہ مجھے برا نہیں لگتا تھا لیکن آج آپ کا دین مجھے سب سے زیادہ پسندیدہ اور عزیز ہے۔ اللہ کی قسم ! کوئی شہر آپ کے شہر سے زیادہ برا مجھے نہیں لگتا تھا لیکن آج آپ کا شہر میرا سب سے زیادہ محبوب شہر ہے۔ آپ کے سواروں نے مجھے پکڑا تو میں عمرہ کا ارادہ کرچکا تھا۔ اب آپ کا کیا حکم ہے ؟ رسول اللہ ﷺ نے انہیں بشارت دی اور عمرہ ادا کرنے کا حکم دیا۔ جب وہ مکہ پہنچے تو کسی نے کہا کہ تم بےدین ہوگئے ہو۔ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں بلکہ میں محمد ﷺ کے ساتھ ایمان لے آیا ہوں اور اللہ کی قسم ! اب تمہارے یہاں یمامہ سے گیہوں کا ایک دانہ بھی اس وقت تک نہیں آئے گا جب تک نبی کریم ﷺ اجازت نہ دے دیں۔
باب: وفد بنو حنیفہ اور ثمامہ بن اثال کے واقعات کا بیان۔
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں عبداللہ بن ابی حسین نے، کہا ہم کو نافع بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کے عہد میں مسیلمہ کذاب آیا، اس دعویٰ کے ساتھ کہ اگر محمد ﷺ مجھے اپنے بعد (اپنا نائب و خلیفہ) بنادیں تو میں ان کی اتباع کرلوں۔ اس کے ساتھ اس کی قوم (بنو حنیفہ) کا بہت بڑا لشکر تھا۔ نبی کریم ﷺ اس کی طرف تبلیغ کے لیے تشریف لے گئے۔ آپ ﷺ کے ساتھ ثابت بن قیس بن شماس (رض) بھی تھے۔ آپ کے ہاتھ میں کھجور کی ایک ٹہنی تھی۔ جہاں مسیلمہ اپنی فوج کے ساتھ پڑاؤ کئے ہوئے تھا، آپ وہیں جا کر ٹھہر گئے اور آپ نے اس سے فرمایا اگر تو مجھ سے یہ ٹہنی مانگے گا تو میں تجھے یہ بھی نہیں دوں گا اور تو اللہ کے اس فیصلے سے آگے نہیں بڑھ سکتا جو تیرے بارے میں پہلے ہی ہوچکا ہے۔ تو نے اگر میری اطاعت سے روگردانی کی تو اللہ تعالیٰ تجھے ہلاک کر دے گا۔ میرا تو خیال ہے کہ تو وہی ہے جو مجھے خواب میں دکھایا گیا تھا۔ اب تیری باتوں کا جواب میری طرف سے ثابت بن قیس دیں گے، پھر آپ ﷺ واپس تشریف لائے۔ ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ پھر میں نے رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد کے متعلق پوچھا کہ میرا خیال تو یہ ہے کہ تو وہی ہے جو مجھے خواب میں دکھایا گیا تھا۔ تو ابوہریرہ (رض) نے مجھے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں سویا ہوا تھا، میں نے اپنے ہاتھوں میں سونے کے دو کنگن دیکھے، مجھے انہیں دیکھ کر بڑا دکھ ہوا پھر خواب ہی میں مجھ پر وحی کی گئی کہ میں ان میں پھونک مار دوں۔ چناچہ میں نے ان میں پھونکا تو وہ اڑ گئے۔ میں نے اس کی تعبیر دو جھوٹوں سے لی جو میرے بعد نکلیں گے۔ ایک اسود عنسی تھا اور دوسرا مسیلمہ کذاب، جن ہر دو کو خدا نے پھونک کی طرح ختم کردیا۔
None
پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے متعلق پوچھا کہ ”میرا خیال تو یہ ہے کہ تو وہی ہے جو مجھے خواب میں دکھایا گیا تھا۔“ تو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے مجھے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں سویا ہوا تھا، میں نے اپنے ہاتھوں میں سونے کے دو کنگن دیکھے، مجھے انہیں دیکھ کر بڑا دکھ ہوا پھر خواب ہی میں مجھ پر وحی کی گئی کہ میں ان میں پھونک مار دوں۔ چنانچہ میں نے ان میں پھونکا تو وہ اڑ گئے۔ میں نے اس کی تعبیر دو جھوٹوں سے لی جو میرے بعد نکلیں گے۔ ایک اسود عنسی تھا اور دوسرا مسیلمہ کذاب، جن ہر دو کو خدا نے پھونک کی طرح ختم کر دیا۔
باب: وفد بنو حنیفہ اور ثمامہ بن اثال کے واقعات کا بیان۔
ہم سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، ان سے معمر نے ان سے ہمام نے اور انہوں نے ابوہریرہ (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا خواب میں میرے پاس زمین کے خزانے لائے گئے اور میرے ہاتھوں میں سونے کے دو کنگن رکھ دئیے گئے۔ یہ مجھ پر بڑا شاق گزرا۔ اس کے بعد مجھے وحی کی گئی کہ میں ان میں پھونک ماروں۔ میں نے پھونکا تو وہ اڑ گئے۔ میں نے اس کی تعبیر دو جھوٹوں سے لی جن کے درمیان میں، میں ہوں یعنی صاحب صنعاء (اسود عنسی) اور صاحب یمامہ (مسیلمہ کذاب) ۔
باب: وفد بنو حنیفہ اور ثمامہ بن اثال کے واقعات کا بیان۔
ہم سے صلت بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے مہدی بن میمون سے سنا کہ میں نے ابورجاء عطاردی (رض) سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ ہم پہلے پتھر کی پوجا کرتے تھے اور اگر کوئی پتھر ہمیں اس سے اچھا مل جاتا تو اسے پھینک دیتے اور اس دوسرے کی پوجا شروع کردیتے۔ اگر ہمیں پتھر نہ ملتا تو مٹی کا ایک ٹیلہ بنا لیتے اور بکری لا کر اس پر دوہتے اور اس کے گرد طواف کرتے۔ جب رجب کا مہینہ آجاتا تو ہم کہتے کہ یہ مہینہ نیزوں کو دور رکھنے کا ہے۔ چناچہ ہمارے پاس لوہے سے بنے ہوئے جتنے بھی نیزے یا تیر ہوتے ہم رجب کے مہینے میں انہیں اپنے سے دور رکھتے اور انہیں کسی طرف پھینک دیتے۔ اور میں نے ابورجاء سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ جب نبی کریم ﷺ مبعوث ہوئے تو میں ابھی کم عمر تھا اور اپنے گھر کے اونٹ چرایا کرتا تھا پھر جب ہم نے آپ ﷺ کی فتح (مکہ کی خبر سنی) تو ہم آپ کو چھوڑ کر دوزخ میں چلے گئے، یعنی مسیلمہ کذاب کے تابعدار بن گئے۔
باب: اسود عنسی کا قصہ۔
ہم سے سعید بن محمد جرمی نے بیان کیا، کہا ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا مجھ سے ان کے والد ابراہیم بن سعد نے، ان سے صالح بن کیسان نے، ان سے ابن عبیدہ بن نشیط نے، دوسرے موقع پر (ابن عبیدہ رضی اللہ عنہ) کے نام کی تصریح ہے یعنی عبداللہ اور ان سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے بیان کیا کہ ہمیں معلوم ہے کہ جب مسیلمہ کذاب مدینہ آیا تو بنت حارث کے گھر اس نے قیام کیا، کیونکہ بنت حارث بن کریز اس کی بیوی تھی۔ یہی عبداللہ بن عبداللہ بن دعامر کی ماں ہے، پھر نبی کریم ﷺ اس کے یہاں تشریف لائے ( تبلیغ کے لیے) آپ کے ساتھ ثابت بن قیس بن شماس (رض) بھی تھے۔ ثابت (رض) وہی ہیں جو نبی کریم ﷺ کے خطیب کے نام سے مشہور تھے۔ نبی کریم ﷺ کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی۔ آپ ﷺ اس کے پاس آ کر ٹھہر گئے اور اس سے گفتگو کی اور اسے اسلام کی دعوت دی۔ مسیلمہ نے کہا کہ میں اس شرط پر مسلمان ہوتا ہوں کہ آپ کے بعد مجھ کو حکومت ملے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر تم مجھ سے یہ چھڑی مانگو گے تو میں یہ بھی نہیں دے سکتا اور میں تو سمجھتا ہوں کہ تم وہی ہو جو مجھے خواب میں دکھائے گئے تھے۔ یہ ثابت بن قیس (رض) ہیں اور میری طرف سے تمہاری باتوں کا یہی جواب دیں گے، پھر آپ ﷺ واپس تشریف لے آئے۔ عبیداللہ بن عبداللہ نے کہا کہ میں نے عبداللہ بن عباس (رض) سے نبی کریم ﷺ کے اس خواب کے متعلق پوچھا جس کا ذکر آپ ﷺ نے فرمایا تھا تو انہوں نے بتایا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ مجھے خواب میں دکھایا گیا تھا کہ میرے ہاتھوں پر سونے کے دو کنگن رکھ دئیے گئے ہیں۔ میں اس سے بہت گھبرایا اور ان کنگنوں سے مجھے تشویش ہوئی، پھر مجھے حکم ہوا اور میں نے انہیں پھونک دیا تو دونوں کنگن اڑ گئے۔ میں نے اس کی تعبیر دو جھوٹوں سے لی جو خروج کرنے والے ہیں۔ عبیداللہ نے بیان کیا کہ ان میں سے ایک اسود عنسی تھا، جسے فیروز نے یمن میں قتل کیا اور دوسرا مسیلمہ کذاب تھا۔
باب: نجران کے نصاریٰ کا قصہ۔
مجھ سے عباس بن حسین نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن آدم نے بیان کیا، ان سے اسرائیل نے، ان سے ابواسحاق نے، ان سے صلہ بن زفر نے اور ان سے حذیفہ (رض) نے بیان کیا کہ نجران کے دو سردار عاقب اور سید، رسول اللہ ﷺ سے مباہلہ کرنے کے لیے آئے تھے لیکن ایک نے اپنے دوسرے ساتھی سے کہا کہ ایسا نہ کرو کیونکہ اللہ کی قسم ! اگر یہ نبی ہوئے اور پھر بھی ہم نے ان سے مباہلہ کیا تو ہم پنپ نہیں سکتے اور نہ ہمارے بعد ہماری نسلیں رہ سکیں گی۔ پھر ان دونوں نے نبی کریم ﷺ سے کہا کہ جو کچھ آپ مانگیں ہم جزیہ دینے کے لیے تیار ہیں۔ آپ ہمارے ساتھ کوئی امین بھیج دیجئیے، جو بھی آدمی ہمارے ساتھ بھیجیں وہ امین ہونا ضروری ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں تمہارے ساتھ ایک ایسا آدمی بھیجوں گا جو امانت دار ہوگا بلکہ پورا پورا امانت دار ہوگا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نبی کریم ﷺ کے منتظر تھے، آپ نے فرمایا کہ ابوعبیدہ بن الجراح ! اٹھو۔ جب وہ کھڑے ہوئے تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہ اس امت کے امین ہیں۔
باب: نجران کے نصاریٰ کا قصہ۔
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابواسحاق سے سنا، انہوں نے صلہ بن زفر سے اور ان سے ابوحذیفہ (رض) نے بیان کیا کہ اہل نجران نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہمارے ساتھ کوئی امانت دار آدمی بھیجئے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں تمہارے ساتھ ایسا آدمی بھیجوں گا جو ہر حیثیت سے امانت دار ہوگا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم منتظر تھے، آخر آپ ﷺ نے ابوعبیدہ بن الجراح (رض) کو بھیجا۔
باب: نجران کے نصاریٰ کا قصہ۔
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے خالد نے، ان سے ابوقلابہ نے اور ان سے انس (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہر امت میں امین (امانتدار) ہوتے ہیں اور اس امت کے امین ابوعبیدہ بن الجراح ہیں۔
باب: عمان اور بحرین کا قصہ۔
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا کہ انہوں نے محمد بن المنکدر سے سنا، انہوں نے جابر بن عبداللہ (رض) سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا تھا جب میرے پاس بحرین سے روپیہ آئے گا تو میں تمہیں اتنا اتنا تین لپ بھر کر روپیہ دوں گا، لیکن بحرین سے جس وقت روپیہ آیا تو نبی کریم ﷺ کی وفات ہوچکی تھی۔ اس لیے وہ روپیہ ابوبکر صدیق (رض) کے پاس آیا اور انہوں نے اعلان کروا دیا کہ اگر کسی کا نبی کریم ﷺ پر قرض یا کسی سے نبی کریم ﷺ کا کوئی وعدہ ہو تو وہ میرے پاس آئے۔ جابر (رض) نے بیان کیا کہ میں ان کے یہاں آگیا اور انہیں بتایا کہ نبی کریم ﷺ نے مجھ سے فرمایا تھا کہ اگر بحرین سے میرے پاس روپیہ آیا تو میں تمہیں اتنا اتنا تین لپ بھر کر دوں گا۔ جابر (رض) نے بیان کیا کہ پھر میں نے ان سے ملاقات کی اور ان سے اس کے متعلق کہا لیکن انہوں نے اس مرتبہ مجھے نہیں دیا۔ میں پھر ان کے یہاں گیا اس مرتبہ بھی انہوں نے نہیں دیا۔ میں تیسری مرتبہ گیا، اس مرتبہ بھی انہوں نے نہیں دیا۔ اس لیے میں نے ان سے کہا کہ میں آپ کے یہاں ایک مرتبہ آیا۔ آپ نے نہیں دیا، پھر آیا اور آپ نے نہیں دیا۔ پھر تیسری مرتبہ آیا ہوں اور آپ اس مرتبہ بھی نہیں دے رہے ہیں۔ اگر آپ کو مجھے دینا ہے تو دے دیجئیے ورنہ صاف کہہ دیجئیے کہ میرا دل دینے کو نہیں چاہتا، میں بخیل ہوں۔ اس پر ابوبکر (رض) نے فرمایا تم نے کہا ہے کہ میرے معاملہ میں بخل کرلو، بھلا بخل سے بڑھ کر اور کیا عیب ہوسکتا ہے۔ تین مرتبہ انہوں نے یہ جملہ دہرایا اور کہا میں نے تمہیں جب بھی ٹالا تو میرا ارادہ یہی تھا کہ بہرحال تمہیں دینا ہے۔ اور اسی سند سے عمرو بن دینار سے روایت ہے، ان سے محمد بن علی باقر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے جابر (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں حاضر ہوا تو ابوبکر (رض) نے مجھے ایک لپ بھر کر روپیہ دیا اور کہا کہ اسے گن لو۔ میں نے گنا تو پانچ سو تھا۔ فرمایا کہ دو مرتبہ اتنا ہی اور لے لو۔
باب: قبیلہ اشعر اور اہل یمن کی آمد کا بیان۔
مجھ سے عبداللہ بن محمد اور اسحاق بن نصر نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن آدم نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن زکریا بن ابی زائدہ نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابواسحاق عمرو بن عبداللہ نے، ان سے اسود بن یزید نے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری (رض) نے کہ میں اور میرے بھائی ابورحم یا ابوبردہ یمن سے آئے تو ہم (ابتداء میں) بہت دنوں تک یہ سمجھتے رہے کہ ابن مسعود (رض) اور ان کی والدہ ام عبداللہ (رض) دونوں نبی کریم ﷺ کے اہل بیت میں سے ہیں کیونکہ یہ نبی کریم ﷺ کے گھر میں رات دن بہت آیا جایا کرتے تھے اور ہر وقت نبی کریم ﷺ کے ساتھ رہا کرتے تھے۔
باب: قبیلہ اشعر اور اہل یمن کی آمد کا بیان۔
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالسلام بن حرب نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے، ان سے ابوقلابہ نے اور ان سے زہدم نے کہ جب ابوموسیٰ (رض) (کوفہ کے امیر بن کر عثمان (رض) کے عہد خلافت میں) آئے تو اس قبیلہ جرم کا انہوں نے بہت اعزاز کیا۔ زہدم کہتے ہیں ہم آپ کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے اور وہ مرغ کا ناشتہ کر رہے تھے۔ حاضرین میں ایک اور صاحب بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ ابوموسیٰ (رض) نے انہیں بھی کھانے پر بلایا تو ان صاحب نے کہا کہ جب سے میں نے مرغیوں کو کچھ (گندی) چیزیں کھاتے دیکھا ہے، اسی وقت سے مجھے اس کے گوشت سے گھن آنے لگی ہے۔ ابوموسیٰ (رض) نے کہا کہ آؤ بھائی میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس کا گوشت کھاتے دیکھا ہے۔ ان صاحب نے کہا لیکن میں نے اس کا گوشت نہ کھانے کی قسم کھا رکھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تم آ تو جاؤ میں تمہیں تمہاری قسم کے بارے میں بھی علاج بتاؤں گا۔ ہم قبیلہ اشعر کے چند لوگ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے (غزوہ تبوک کے لیے) جانور مانگے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ سواری نہیں ہے۔ ہم نے پھر آپ سے مانگا تو آپ نے اس مرتبہ قسم کھائی کہ آپ ہم کو سواری نہیں دیں گے لیکن ابھی کچھ زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ غنیمت میں کچھ اونٹ آئے اور نبی کریم ﷺ نے ان میں سے پانچ اونٹ ہم کو دلائے۔ جب ہم نے انہیں لے لیا تو پھر ہم نے کہا کہ یہ تو ہم نے نبی کریم ﷺ کو دھوکا دیا۔ آپ کو غفلت میں رکھا، قسم یاد نہیں دلائی۔ ایسی حالت میں ہماری بھلائی کبھی نہیں ہوگی۔ آخر میں آپ کے پاس آیا اور میں نے کہا : یا رسول اللہ ! آپ نے تو قسم کھالی تھی کہ آپ ہم کو سواری نہیں دیں گے پھر آپ نے سواری دے دی۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ٹھیک ہے لیکن جب بھی میں کوئی قسم کھاتا ہوں اور اس کے سوا دوسری صورت مجھے اس سے بہتر نظر آتی ہے تو میں وہی کرتا ہوں جو بہتر ہوتا ہے (اور قسم کا کفارہ دے دیتا ہوں) ۔
باب: قبیلہ اشعر اور اہل یمن کی آمد کا بیان۔
مجھ سے عمرو بن علی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعاصم نبیل نے بیان کیا۔ کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوصخرہ جامع بن شداد نے بیان کیا، کہا ہم سے صفوان بن محرز مازنی نے بیان کیا، کہا ہم سے عمران بن حصین (رض) نے بیان کیا کہ بنو تمیم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اے بنو تمیم ! بشارت قبول کرو۔ انہوں نے کہا کہ جب آپ نے ہمیں بشارت دی ہے تو کچھ روپے بھی عنایت فرمائیے۔ اس پر آپ ﷺ کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ پھر یمن کے کچھ اشعری لوگ آئے، آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ بنو تمیم نے بشارت قبول نہیں کی، یمن والو ! تم قبول کرلو۔ وہ بولے ہم نے قبول کی یا رسول اللہ۔
باب: قبیلہ اشعر اور اہل یمن کی آمد کا بیان۔
ہم سے عبداللہ بن محمد جعفی نے بیان کیا، کہا ہم سے وہب بن جریر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے اسماعیل بن ابی خالد نے، ان سے قیس بن ابی حازم نے اور ان سے ابومسعود (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ایمان تو ادھر ہے اور آپ نے اپنے ہاتھ سے یمن کی طرف اشارہ کیا اور بےرحمی اور سخت دلی اونٹ کی دم کے پیچھے پیچھے چلانے والوں میں ہے، جدھر سے شیطان کے دونوں سینگ نکلتے ہیں (یعنی مشرق) قبیلہ ربیعہ اور مضر کے لوگوں میں۔
باب: قبیلہ اشعر اور اہل یمن کی آمد کا بیان۔
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن ابی عدی نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، ان سے سلیمان نے، ان سے ذکوان نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تمہارے یہاں اہل یمن آگئے ہیں، ان کے دل کے پردے باریک، دل نرم ہوتے ہیں، ایمان یمن والوں کا ہے اور حکمت بھی یمن کی اچھی ہے اور فخر و تکبر اونٹ والوں میں ہوتا ہے اور اطمینان اور سہولت بکری والوں میں۔ اور غندر نے بیان کیا اس حدیث کو شعبہ سے، ان سے سلیمان نے، انہوں نے ذکوان سے سنا، انہوں نے ابوہریرہ (رض) سے اور انہوں نے نبی کریم ﷺ سے۔
باب: قبیلہ اشعر اور اہل یمن کی آمد کا بیان۔
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے بھائی عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے ابن بلال نے، ان سے ثور بن زید نے، ان سے ابوالغیث (سالم) نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ایمان یمن کا ہے اور فتنہ (دین کی خرابی) ادھر سے ہے اور ادھر ہی سے شیطان کے سر کا کونا نمودار ہوگا۔
باب: قبیلہ اشعر اور اہل یمن کی آمد کا بیان۔
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، کہا ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تمہارے یہاں اہل یمن آئے ہیں جو نرم دل رقیق القلب ہیں، دین کی سمجھ یمن والوں میں ہے اور حکمت بھی یمن کی ہے۔
باب: قبیلہ اشعر اور اہل یمن کی آمد کا بیان۔
ہم سے عبدان نے بیان کیا، ان سے ابوحمزہ محمد بن میمون نے، ان سے اعمش نے، ان سے ابراہیم نخعی نے اور ان سے علقمہ نے بیان کیا کہ ہم عبداللہ بن مسعود (رض) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ اتنے میں خباب بن ارت (رض) مشہور صحابی تشریف لائے اور کہا : ابوعبدالرحمٰن ! کیا یہ نوجوان لوگ (جو تمہارے شاگرد ہیں) اسی طرح قرآن پڑھ سکتے ہیں جیسے آپ پڑھتے ہیں ؟ ابن مسعود (رض) نے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں کسی سے تلاوت کے لیے کہوں ؟ انہوں نے فرمایا کہ ضرور۔ اس پر ابن مسعود (رض) نے کہا : علقمہ ! تم پڑھو، زید بن حدیر، زیاد بن حدیر کے بھائی، بولے آپ علقمہ سے تلاوت قرآن کے لیے فرماتے ہیں حالانکہ وہ ہم سب سے اچھے قاری نہیں ہیں۔ ابن مسعود (رض) نے کہا اگر تم چاہو تو میں تمہیں وہ حدیث سنا دوں جو رسول اللہ ﷺ نے تمہاری قوم کے حق میں فرمائی تھی۔ خیر علقمہ کہتے ہیں کہ میں نے سورة مریم کی پچاس آیتیں پڑھ کر سنائیں۔ عبداللہ بن مسعود (رض) نے خباب (رض) سے پوچھا کہو کیسا پڑھتا ہے ؟ خباب (رض) نے کہا بہت خوب پڑھا۔ عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہا کہ جو آیت بھی میں جس طرح پڑھتا ہوں علقمہ بھی اسی طرح پڑھتا ہے، پھر انہوں نے خباب (رض) کو دیکھا، ان کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی تھی، تو کہا : کیا ابھی وقت نہیں آیا ہے کہ یہ انگوٹھی پھینک دی جائے۔ خباب (رض) نے کہا کہ آج کے بعد آپ یہ انگوٹھی میرے ہاتھ میں نہیں دیکھیں گے۔ چناچہ انہوں نے انگوٹھی اتار دی۔ اسی حدیث کو غندر نے شعبہ سے روایت کیا ہے۔
باب: قبیلہ دوس اور طفیل بن عمرو دوسی رضی اللہ عنہ کا بیان۔
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن ذکوان نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ طفیل بن عمرو (رض) نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ قبیلہ دوس تو تباہ ہوا۔ اس نے نافرمانی اور انکار کیا (اسلام قبول نہیں کیا) آپ اللہ سے ان کے لیے دعا کیجئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ ! قبیلہ دوس کو ہدایت دے اور انہیں میرے یہاں لے آ۔
باب: قبیلہ دوس اور طفیل بن عمرو دوسی رضی اللہ عنہ کا بیان۔
مجھ سے محمد بن علاء نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن ابی خالد نے بیان کیا، ان سے قیس نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ جب میں اپنے وطن سے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے چلا تو راستے میں، میں نے یہ شعر پڑھا (ترجمہ) کیسی ہے تکلیف کی لمبی یہ رات، خیر اس نے کفر سے دی ہے نجات اور میرا غلام راستے میں بھاگ گیا تھا، پھر میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے بیعت کی، ابھی آپ کے پاس میں بیٹھا ہی ہوا تھا کہ وہ غلام دکھائی دیا، آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا : ابوہریرہ ! یہ ہے تمہارا غلام ! میں نے کہا اللہ کے لیے میں نے اس کو اب آزاد کردیا۔
باب: قبیلہ طے کے وفد اور عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کا قصہ۔
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالملک بن عمیر نے بیان کیا، ان سے عمرو بن حریث نے اور ان سے عدی بن حاتم (رض) نے بیان کیا کہ ہم عمر (رض) کی خدمت میں (ان کی دور خلافت میں) ایک وفد کی شکل میں آئے۔ وہ ایک ایک شخص کو نام لے لے کر بلاتے جاتے تھے) میں نے ان سے کہا کیا آپ مجھے پہچانتے نہیں ؟ اے امیرالمؤمنین ! فرمایا کیا تمہیں بھی نہیں پہچانوں گا، تم اس وقت اسلام لائے جب یہ سب کفر پر قائم تھے۔ تم نے اس وقت توجہ کی جب یہ سب منہ موڑ رہے تھے۔ تم نے اس وقت وفا کی جب یہ سب بےوفائی کر رہے تھے اور اس وقت پہچانا جب ان سب نے انکار کیا تھا۔ عدی (رض) نے کہا بس اب مجھے کوئی پرواہ نہیں۔
باب: حجۃ الوداع کا بیان۔
ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ بن زبیر نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ حجۃ الوداع کے موقع پر ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ روانہ ہوئے۔ ہم نے عمرہ کا احرام باندھا تھا پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ جس کے ساتھ ہدی ہو وہ عمرہ کے ساتھ حج کا بھی احرام باندھ لے اور جب تک دونوں کے ارکان نہ ادا کرلے احرام نہ کھولے۔ پھر میں آپ ﷺ کے ساتھ جب مکہ آئی تو مجھ کو حیض آگیا۔ اس لیے نہ بیت اللہ کا طواف کرسکی اور نہ صفا اور مروہ کی سعی کرسکی۔ میں نے اس کی شکایت آپ ﷺ سے کی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ سر کھول لے اور کنگھا کرلے۔ اس کے بعد حج کا احرام باندھ لو اور عمرہ چھوڑ دو ۔ میں نے ایسا ہی کیا۔ پھر جب ہم حج ادا کرچکے تو نبی کریم ﷺ نے مجھے (میرے بھائی) عبدالرحمٰن بن ابی بکر (رض) کے ساتھ تنعیم سے (عمرہ کی) نیت کرنے کے لیے بھیجا اور میں نے عمرہ کیا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہ تمہارے اس چھوٹے ہوئے عمرہ کی قضاء ہے۔ عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ جن لوگوں نے صرف عمرہ کا احرام باندھا تھا۔ انہوں نے بیت اللہ کے طواف اور صفا اور مروہ کی سعی کے بعد احرام کھول دیا۔ پھر منیٰ سے واپسی کے بعد انہوں نے دوسرا طواف (حج کا) کیا، لیکن جن لوگوں نے حج اور عمرہ دونوں کا احرام ایک ساتھ باندھا تھا، انہوں نے ایک ہی طواف کیا۔
باب: حجۃ الوداع کا بیان۔
مجھ سے عمرو بن علی فلاس نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن جریج نے بیان کیا، کہا مجھ سے عطاء بن ابی رباح نے بیان کیا اور ان سے ابن عباس (رض) نے کہ (عمرہ کرنے والا) صرف بیت اللہ کے طواف سے حلال ہوسکتا ہے۔ (ابن جریج نے کہا) میں نے عطاء سے پوچھا کہ ابن عباس (رض) نے یہ مسئلہ کہاں سے نکالا ؟ انہوں نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ثم محلها إلى البيت العتيق (سورۃ الحج) سے اور نبی کریم ﷺ کے اس حکم کی وجہ سے جو آپ نے اپنے اصحاب کو حجۃ الوداع میں احرام کھول دینے کے لیے دیا تھا میں نے کہا کہ یہ حکم تو عرفات میں ٹھہرنے کے بعد کے لیے ہے۔ انہوں نے کہا لیکن ابن عباس (رض) کا یہ مذہب تھا کہ عرفات میں ٹھہرنے سے پہلے اور بعد ہر حال میں جب طواف کرلے تو احرام کھول ڈالنا درست ہے۔
باب: حجۃ الوداع کا بیان۔
مجھ سے بیان بن عمرو نے بیان کیا، کہا ہم سے نضر بن شمیل نے بیان کیا، انہیں شعبہ نے خبر دی، ان سے قیس بن مسلم نے بیان کیا، انہوں نے طارق بن شہاب سے سنا اور ان سے ابوموسیٰ اشعری (رض) نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس وقت آپ ﷺ وادی بطحاء (سنگریزی زمین) میں قیام کئے ہوئے تھے۔ آپ نے پوچھا تم نے حج کا احرام باندھ لیا ؟ میں نے عرض کیا کہ جی ہاں۔ دریافت فرمایا، احرام کس طرح باندھا ہے ؟ عرض کیا (اس طرح) کہ میں بھی اسی طرح احرام باندھتا ہوں جس طرح نبی کریم ﷺ نے باندھا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ پہلے (عمرہ کرنے کے لیے) بیت اللہ کا طواف کر، پھر صفا اور مروہ کی سعی کر، پھر حلال ہوجا۔ چناچہ میں بیت اللہ کا طواف اور صفا اور مروہ کی سعی کر کے قبیلہ قیس کی ایک عورت کے گھر آیا اور انہوں نے میرے سر سے جوئیں نکالیں۔
باب: حجۃ الوداع کا بیان۔
مجھ سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، کہا ہم کو انس بن عیاض نے خبر دی، کہا ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، ان سے نافع نے انہیں عبداللہ بن عمر (رض) نے خبر دی کہ نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ حفصہ (رض) نے انہیں خبر دی کہ نبی کریم ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر اپنی بیویوں کو حکم دیا کہ (عمرہ کرنے کے بعد) حلال ہوجائیں (یعنی احرام کھول دیں) حفصہ (رض) نے عرض کیا (یا رسول اللہ ! ) پھر آپ کیوں نہیں حلال ہوتے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے تو اپنے بالوں کو جما لیا ہے اور اپنی قربانی کو ہار پہنا دیا ہے، اس لیے میں جب تک قربانی نہ کرلوں اس وقت تک احرام نہیں کھول سکتا۔
باب: حجۃ الوداع کا بیان۔
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے شعیب نے بیان کیا، ان سے زہری نے، (دوسری سند) (اور امام بخاری (رح) نے کہا) اور مجھ سے محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا، کہا ہم سے امام اوزاعی نے بیان کیا، کہا کہ مجھے ابن شہاب نے خبر دی، انہیں سلیمان بن یسار نے اور انہیں ابن عباس (رض) نے کہ قبیلہ خثعم کی ایک عورت نے حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ ﷺ سے ایک مسئلہ پوچھا، فضل بن عباس (رض) نبی کریم ﷺ ہی کی سواری پر آپ کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ! اللہ کا جو فریضہ اس کے بندوں پر ہے (یعنی حج) میرے والد پر بھی فرض ہوچکا ہے لیکن بڑھاپے کی وجہ سے ان کی حالت یہ ہے کہ وہ سواری پر نہیں بیٹھ سکتے۔ تو کیا میں ان کی طرف سے حج ادا کرسکتی ہوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں ! کرسکتی ہو۔
باب: حجۃ الوداع کا بیان۔
مجھ سے محمد بن رافع نے بیان کیا، کہا ہم سے سریج بن نعمان نے بیان کیا، ان سے فلیح بن سلیمان نے بیان کیا ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ فتح مکہ کے دن نبی کریم ﷺ تشریف لائے، آپ ﷺ کی قصواء اونٹنی پر پیچھے اسامہ (رض) بیٹھے ہوئے تھے اور آپ کے ساتھ بلال اور عثمان بن طلحہ (رض) بھی تھے آپ نے کعبہ کے پاس اپنی اونٹنی بٹھا دی اور عثمان (رض) سے فرمایا کہ کعبہ کی کنجی لاؤ، وہ کنجی لائے اور دروازہ کھولا۔ آپ اندر داخل ہوئے تو آپ ﷺ کے ساتھ اسامہ، بلال اور عثمان (رض) عنہم بھی اندر گئے، پھر دروازہ اندر سے بند کرلیا اور دیر تک اندر (نماز اور دعاؤں میں مشغول) رہے۔ جب آپ ﷺ باہر تشریف لائے تو لوگ اندر جانے کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے لگے اور میں سب سے آگے بڑھ گیا۔ میں نے دیکھا کہ بلال (رض) دروازے کے پیچھے کھڑے ہوئے ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ نبی کریم ﷺ نے نماز کہاں پڑھی تھی ؟ انہوں نے بتایا کہ خانہ کعبہ میں چھ ستون تھے۔ دو قطاروں میں اور آپ ﷺ نے آگے کی قطار کے دو ستونوں کے درمیان نماز پڑھی تھی۔ کعبہ کا دروازہ آپ ﷺ کی پیٹھ کی طرف تھا اور چہرہ مبارک اس طرف تھا، جدھر دروازے سے اندر جاتے ہوئے چہرہ کرنا پڑتا ہے۔ آپ کے اور دیوار کے درمیان (تین ہاتھ کا فاصلہ تھا) ۔ ابن عمر (رض) نے بیان کیا کہ یہ پوچھنا میں بھول گیا کہ نبی کریم ﷺ نے کتنی رکعت نماز پڑھی تھی۔ جس جگہ آپ نے نماز پڑھی تھی وہاں سرخ سنگ مرمر بچھا ہوا تھا۔
باب: حجۃ الوداع کا بیان۔
ہم سے ابوالیمان حکم بن نافع نے بیان کیا کہ ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، کہا مجھ سے عروہ بن زبیر اور ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا اور انہیں نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ عائشہ (رض) نے خبر دی کہ نبی کریم ﷺ کی زوجہ صفیہ (رض) حجۃ الوداع کے موقع پر حائضہ ہوگئی تھیں۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ کیا ابھی ہمیں ان کی وجہ سے رکنا پڑے گا ؟ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! یہ تو مکہ لوٹ کر طواف زیارت کرچکی ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر اسے چلنا چاہیے (طواف وداع کی ضرورت نہیں) ۔
باب: حجۃ الوداع کا بیان۔
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عبداللہ بن وہب نے خبر دی، کہا کہ مجھ سے عمر بن محمد نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ ہم (حجۃ الوداع) کہا کرتے تھے، جبکہ نبی کریم ﷺ موجود تھے اور ہم نہیں سمجھتے تھے کہ حجۃ الوداع کا مفہوم کیا ہے۔ پھر نبی کریم ﷺ نے اللہ کی حمد اور اس کی ثنا بیان کی پھر مسیح دجال کا ذکر تفصیل کے ساتھ کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جتنے بھی انبیاء اللہ نے بھیجے ہیں، سب نے دجال سے اپنی امت کو ڈرایا ہے۔ نوح (علیہ السلام) نے اپنی امت کو اس سے ڈرایا اور دوسرے بعد میں آنے والے انبیاء نے بھی اور وہ تم ہی میں سے نکلے گا۔ پس یاد رکھنا کہ تم کو اس کے جھوٹے ہونے کی اور کوئی دلیل نہ معلوم ہو تو یہی دلیل کافی ہے کہ وہ مردود کانا ہوگا اور تمہارا رب کانا نہیں ہے اس کی آنکھ ایسی معلوم ہوگی جیسے انگور کا دانہ !۔ خوب سن لو کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر تمہارے آپس کے خون اور اموال اسی طرح حرام کئے ہیں جیسے اس دن کی حرمت اس شہر اور اس مہینے میں ہے۔ ہاں بولو ! کیا میں نے پہنچا دیا ؟ صحابہ رضی اللہ عنہم بولے کہ آپ نے پہنچا دیا۔ فرمایا : اے اللہ ! تو گواہ رہیو، تین مرتبہ آپ ﷺ نے یہ جملہ دہرایا۔ افسوس ! (آپ نے ويلكم فرمایا یا ويحكم ، راوی کو شک ہے) دیکھو، میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے (مسلمان) کی گردن مارنے لگ جاؤ۔
باب: حجۃ الوداع کا بیان۔
ہم سے عمرو بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے زہیر بن معاویہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسحاق سبیعی نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے زید بن ارقم (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے انیس غزوے کئے اور ہجرت کے بعد صرف ایک حج کیا۔ اس حج کے بعد پھر آپ ﷺ نے کوئی حج نہیں کیا۔ یہ حج، حجۃ الوداع تھا۔ ابواسحاق نے بیان کیا کہ دوسرا حج آپ ﷺ نے (ہجرت سے پہلے) مکہ میں کیا تھا۔
باب: حجۃ الوداع کا بیان۔
ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ بن حجاج نے بیان کیا، ان سے علی بن مدرک نے بیان کیا، ان سے ابوزرعہ ہرم بن عمرو بن جریر نے بیان کیا اور ان سے جریر بن عبداللہ بجلی (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر جریر (رض) سے فرمایا تھا لوگوں کو خاموش کر دو ، پھر فرمایا، میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو۔
باب: حجۃ الوداع کا بیان۔
مجھ سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوہاب ثقفی نے بیان کیا، کہا ہم سے ایوب سختیانی نے بیان کیا، ان سے محمد بن سیرین نے، ان سے عبدالرحمٰن بن ابی بکرہ (رض) نے اور ان سے ابوبکرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ زمانہ اپنی اصل حالت پر گھوم کر آگیا ہے۔ اس دن کی طرح جب اللہ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا تھا۔ دیکھو ! سال کے بارہ مہینے ہوتے ہیں۔ چار ان میں سے حرمت والے مہینے ہیں۔ تین لگاتار ہیں، ذی قعدہ، ذی الحجہ اور محرم (اور چوتھا) رجب مضر جو جمادی الاولیٰ اور شعبان کے بیچ میں پڑتا ہے۔ (پھر آپ نے دریافت فرمایا) یہ کون سا مہینہ ہے ؟ ہم نے کہا کہ اللہ اور ان کے رسول کو بہتر علم ہے۔ اس پر آپ ﷺ خاموش ہوگئے۔ ہم نے سمجھا شاید آپ مشہور نام کے سوا اس کا کوئی اور نام رکھیں گے۔ لیکن آپ نے فرمایا : کیا یہ ذی الحجہ نہیں ہے ؟ ہم بولے کہ کیوں نہیں۔ پھر دریافت فرمایا اور یہ شہر کون سا ہے ؟ ہم بولے کہ اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ بہتر علم ہے۔ پھر آپ ﷺ خاموش ہوگئے۔ ہم نے سمجھا شاید اس کا کوئی اور نام آپ ﷺ رکھیں گے، جو مشہور نام کے علاوہ ہوگا۔ ، لیکن آپ ﷺ نے فرمایا : کیا یہ مکہ نہیں ہے ؟ ہم بولے کیوں نہیں (یہ مکہ ہی ہے) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا اور یہ دن کون سا ہے ؟ ہم بولے کہ اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ بہتر علم ہے، پھر آپ ﷺ خاموش ہوگئے اور ہم نے سمجھا شاید اس کا آپ ﷺ اس کے مشہور نام کے سوا کوئی اور نام رکھیں گے، لیکن آپ ﷺ نے فرمایا : کیا یہ یوم النحر (قربانی کا دن) نہیں ہے ؟ ہم بولے کہ کیوں نہیں۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا : پس تمہارا خون اور تمہارا مال۔ محمد نے بیان کیا کہ میرا خیال ہے کہ ابوبکرہ (رض) نے یہ بھی کہا، اور تمہاری عزت تم پر اسی طرح حرام ہے جس طرح یہ دن کا تمہارے اس شہر اور تمہارے اس مہینے میں اور تم بہت جلد اپنے رب سے ملو گے اور وہ تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں سوال کرے گا۔ ہاں، پس میرے بعد تم گمراہ نہ ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو۔ ہاں اور جو یہاں موجود ہیں وہ ان لوگوں کو پہنچا دیں جو موجود نہیں ہیں، ہوسکتا ہے کہ جسے وہ پہنچائیں ان میں سے کوئی ایسا بھی ہو جو یہاں بعض سننے والوں سے زیادہ اس (حدیث) کو یاد رکھ سکتا ہو۔ محمد بن سیرین جب اس حدیث کا ذکر کرتے تو فرماتے کہ محمد ﷺ نے سچ فرمایا۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ تو کیا میں نے پہنچا دیا۔ آپ ﷺ نے دو مرتبہ یہ جملہ فرمایا۔
باب: حجۃ الوداع کا بیان۔
ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے قیس بن مسلم نے، ان سے طارق بن شہاب نے کہ چند یہودیوں نے کہا کہ اگر یہ آیت ہمارے یہاں نازل ہوئی ہوتی تو ہم اس دن عید منایا کرتے۔ عمر (رض) نے فرمایا، کون سی آیت ؟ انہوں نے کہا اليوم أکملت لکم دينكم وأتممت عليكم نعمتي آج میں نے تم پر اپنے دین کو مکمل کیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کردی۔ اس پر عمر (رض) نے فرمایا کہ مجھے خوب معلوم ہے کہ یہ آیت کہاں نازل ہوئی تھی۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول ﷺ میدان عرفات میں کھڑے ہوئے تھے (یعنی حجۃ الوداع میں) ۔
باب: حجۃ الوداع کا بیان۔
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ابوالاسود محمد بن عبدالرحمٰن بن نوفل نے، ان سے عروہ بن زبیر (رض) نے بیان کیا اور ان سے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ (رض) نے بیان کیا کہ ہم جب رسول اللہ ﷺ کے ساتھ (حج کے لیے) نکلے تو کچھ لوگ ہم میں سے عمرہ کا احرام باندھے ہوئے تھے، کچھ حج کا اور کچھ عمرہ اور حج دونوں کا۔ نبی کریم ﷺ نے بھی حج کا احرام باندھا تھا۔ جو لوگ حج کا احرام باندھے ہوئے تھے یا جنہوں نے حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھا تھا، وہ قربانی کے دن حلال ہوئے تھے۔ ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، پھر یہی حدیث بیان کی۔ اس میں یوں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حجۃ الوداع (کے لیے ہم نکلے) ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، ہم سے امام مالک نے بیان کیا، اسی طرح جو پہلے مذکور ہوا۔
باب: حجۃ الوداع کا بیان۔
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن شہاب نے، ان سے عامر بن سعد بن ابی وقاص (رض) نے اور ان سے ان کے والد سعد (رض) نے بیان کیا کہ حجۃ الوداع کے موقع پر نبی کریم ﷺ میری عیادت کے لیے تشریف لائے۔ بیماری نے مجھے موت کے منہ میں لا ڈالا تھا۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا ہے، میرا مرض اس حد کو پہنچ گیا ہے اور میرے پاس مال ہے، جس کی وارث خالی میری ایک لڑکی ہے، تو کیا میں اپنا دو تہائی مال خیرات کر دوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ نہیں۔ میں نے عرض کیا، آدھا کر دوں۔ فرمایا کہ نہیں۔ میں نے فرمایا کیا پھر تہائی کر دوں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تہائی بھی بہت ہے۔ تم اپنے وارثوں کو مالدار چھوڑ کر جاؤ تو یہ اس سے بہتر ہے کہ انہیں محتاج چھوڑو اور وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں اور تم جو کچھ بھی خرچ کرو گے، اگر اس سے اللہ کی رضا مقصود رہی تو تمہیں اس پر ثواب ملے گا۔ حتیٰ کہ اس لقمہ پر بھی تمہیں ثواب ملے گا جو تم اپنی بیوی کے منہ میں رکھو گے۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! (بیماری کی وجہ سے) کیا میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ (مدینہ) نہیں جا سکوں گا ؟ فرمایا اگر تم نہیں جاسکے تب بھی اگر تم اللہ کی رضا جوئی کے لیے کوئی عمل کرو گے تو تمہارا درجہ اللہ کے یہاں اور بلند ہوگا اور امید ہے کہ تم ابھی زندہ رہو گے اور تم سے کچھ لوگوں (مسلمانوں) کو نفع پہنچے گا اور کچھ لوگوں (اسلام کے دشمنوں) کو نقصان پہنچے گا۔ اے اللہ ! میرے ساتھیوں کی ہجرت کو کامل فرما اور انہیں پیچھے نہ ہٹا لیکن نقصان میں تو سعد بن خولہ رہے۔ نبی کریم ﷺ نے ان کے مکہ میں وفات پا جانے کی وجہ سے ظاہر فرمایا۔
باب: حجۃ الوداع کا بیان۔
مجھ سے ابراہیم بن منذر خزامی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابوضمرہ انس بن عیاض نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور انہیں عبداللہ بن عمر (رض) نے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع میں اپنا سر منڈوایا تھا۔
باب: حجۃ الوداع کا بیان۔
ہم سے عبیداللہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن بکر نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن جریج نے بیان کیا، ان سے موسیٰ بن عقبہ نے، انہیں نافع نے اور انہیں ابن عمر (رض) نے خبر دی کہ نبی کریم ﷺ اور آپ ﷺ کے ساتھ آپ کے بعض اصحاب نے حجۃ الوداع کے موقع پر سر منڈوایا تھا اور بعض دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم نے صرف ترشوا لیا تھا۔
باب: حجۃ الوداع کا بیان۔
ہم سے یحییٰ بن قزعہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے شہاب نے بیان کیا (دوسری سند) اور لیث بن سعد نے بیان کیا کہ مجھ سے یونس نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ نے بیان کیا اور انہیں عبداللہ بن عباس (رض) نے خبر دی کہ وہ ایک گدھے پر سوار ہو کر آئے تو رسول اللہ ﷺ منیٰ میں کھڑے لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے۔ یہ حجۃ الوداع کا موقع تھا۔ ان کا گدھا صف کے کچھ حصے سے گزرا، پھر وہ اتر کر لوگوں کے ساتھ صف میں کھڑے ہوگئے۔
باب: حجۃ الوداع کا بیان۔
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا کہ مجھ سے میرے والد عروہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ اسامہ (رض) سے حجۃ الوداع کے موقع پر نبی کریم ﷺ کی (سفر میں) رفتار کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ بیچ کی چال چلتے تھے اور جب کشادہ جگہ ملتی تو اس سے تیز چلتے تھے۔
باب: حجۃ الوداع کا بیان۔
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن سعید نے، ان سے عدی بن ثابت نے اور ان سے عبداللہ بن یزید خطمی نے اور انہیں ابوایوب (رض) نے خبر دی کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ حجۃ الوداع کے موقع پر مغرب اور عشاء ملا کر ایک ساتھ پڑھی تھیں۔
باب: غزوہ تبوک کا بیان، اس کا دوسرا غزوہ عسرت یعنی (تنگی کا غزوہ) بھی ہے۔
مجھ سے محمد بن علاء نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے برید بن عبداللہ بن ابی بردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری (رض) نے بیان کیا کہ مجھے میرے ساتھیوں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھیجا کہ میں آپ ﷺ سے ان کے لیے سواری کے جانوروں کی درخواست کروں۔ وہ لوگ آپ کے ساتھ جیش عسرت (یعنی غزوہ تبوک) میں شریک ہونا چاہتے تھے۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! میرے ساتھیوں نے مجھے آپ کی خدمت میں بھیجا ہے تاکہ آپ ان کے لیے سواری کے جانوروں کا انتظام کرا دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ کی قسم ! میں تم کو سواری کے جانور نہیں دے سکتا۔ میں جب آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا تو آپ غصہ میں تھے اور میں اسے معلوم نہ کرسکا تھا۔ آپ ﷺ کے انکار سے میں بہت غمگین واپس ہوا۔ یہ خوف بھی تھا کہ کہیں آپ سواری مانگنے کی وجہ سے خفا نہ ہوگئے ہوں۔ میں اپنے ساتھیوں کے پاس آیا اور انہیں نبی کریم ﷺ کے ارشاد کی خبر دی، لیکن ابھی کچھ زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ میں نے بلال (رض) کی آواز سنی، وہ پکار رہے تھے، اے عبداللہ بن قیس ! میں نے جواب دیا تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ تمہیں بلا رہے ہیں۔ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ دو جوڑے اور یہ دو جوڑے اونٹ کے لے جاؤ۔ آپ نے چھ اونٹ عنایت فرمائے۔ ان اونٹوں کو آپ نے اسی وقت سعد (رض) سے خریدا تھا اور فرمایا کہ انہیں اپنے ساتھیوں کو دے دو اور انہیں بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے یا آپ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے تمہاری سواری کے لیے انہیں دیا ہے، ان پر سوار ہوجاؤ۔ میں ان اونٹوں کو لے کر اپنے ساتھیوں کے پاس گیا اور ان سے میں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے تمہاری سواری کے لیے یہ عنایت فرمائے ہیں لیکن اللہ کی قسم ! کہ اب تمہیں ان صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاس چلنا پڑے گا، جنہوں نے نبی کریم ﷺ کا انکار فرمانا سنا تھا، کہیں تم یہ خیال نہ کر بیٹھو کہ میں نے تم سے نبی کریم ﷺ کے ارشاد کے متعلق غلط بات کہہ دی تھی۔ انہوں نے کہا کہ تمہاری سچائی میں ہمیں کوئی شبہ نہیں ہے لیکن اگر آپ کا اصرار ہے تو ہم ایسا بھی کرلیں گے۔ ابوموسیٰ (رض) ان میں سے چند لوگوں کو لے کر ان صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاس آئے جنہوں نے نبی کریم ﷺ کا وہ ارشاد سنا تھا کہ نبی کریم ﷺ نے پہلے تو دینے سے انکار کیا تھا لیکن پھر عنایت فرمایا۔ ان صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھی اسی طرح حدیث بیان کی جس طرح ابوموسیٰ (رض) نے ان سے بیان کی تھی۔
باب: غزوہ تبوک کا بیان، اس کا دوسرا غزوہ عسرت یعنی (تنگی کا غزوہ) بھی ہے۔
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سمیر قفان نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، ان سے حکم بن عتبہ نے، ان سے مصعب بن سعد نے اور ان سے ان کے والد نے کہ رسول اللہ ﷺ غزوہ تبوک کے لیے تشریف لے گئے تو علی (رض) کو مدینہ میں اپنا نائب بنایا۔ علی (رض) نے عرض کیا کہ آپ مجھے بچوں اور عورتوں میں چھوڑے جا رہے ہیں ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ میرے لیے تم ایسے ہو جیسے موسیٰ کے لیے ہارون تھے۔ لیکن فرق یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔ اور ابوداؤد طیالسی نے اس حدیث کو یوں بیان کیا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے حکم بن عتبہ نے اور انہوں نے کہا میں نے مصعب سے سنا۔
باب: غزوہ تبوک کا بیان، اس کا دوسرا غزوہ عسرت یعنی (تنگی کا غزوہ) بھی ہے۔
ہم سے عبیداللہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن بکر نے بیان کیا، کہا ہم کو ابن جریج نے خبر دی، کہا کہ میں نے عطاء سے سنا، انہوں نے خبر دیتے ہوئے کہا کہ مجھے صفوان بن یعلٰی بن امیہ نے خبر دی اور ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ غزوہ عسرت میں شریک تھا۔ بیان کیا کہ یعلٰی (رض) کہا کرتے تھے کہ مجھے اپنے تمام عملوں میں اسی پر سب سے زیادہ بھروسہ ہے۔ عطاء نے بیان کیا، ان سے صفوان نے بیان کیا کہ یعلٰی (رض) نے کہا، میں نے ایک مزدور بھی اپنے ساتھ لے لیا تھا۔ وہ ایک شخص سے لڑ پڑا اور ایک نے دوسرے کا ہاتھ دانت سے کاٹا۔ عطاء نے بیان کیا کہ مجھے صفوان (رض) نے خبر دی کہ ان دونوں میں سے کس نے اپنے مقابل کا ہاتھ کاٹا تھا، یہ مجھے یاد نہیں ہے۔ بہرحال جس کا ہاتھ کاٹا گیا تھا اس نے اپنا ہاتھ کاٹنے والے کے منہ سے جو کھینچا تو کاٹنے والے کے آگے کا ایک دانت بھی ساتھ چلا آیا۔ وہ دونوں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے دانت کے ٹوٹنے پر کوئی قصاص نہیں دلوایا۔ عطاء نے بیان کیا میرا خیال ہے کہ انہوں نے یہ بھی بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا پھر کیا وہ تیرے منہ میں اپنا ہاتھ رہنے دیتا تاکہ تو اسے اونٹ کی طرح چبا جاتا۔
باب: کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کے واقعہ کا بیان۔
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن کعب بن مالک نے، ان سے عبداللہ بن کعب بن مالک نے، (جب کعب (رض) نابینا ہوگئے تو ان کے لڑکوں میں وہ ہی کعب (رض) کو راستے میں پکڑ کر چلا کرتے تھے) انہوں نے بیان کیا کہ میں نے کعب (رض) سے ان کے غزوہ تبوک میں شریک نہ ہوسکنے کا واقعہ سنا۔ انہوں نے بتایا کہ غزوہ تبوک کے سوا اور کسی غزوہ میں ایسا نہیں ہوا تھا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شریک نہ ہوا ہوں۔ البتہ غزوہ بدر میں بھی شریک نہیں ہوا تھا لیکن جو لوگ غزوہ بدر میں شریک نہیں ہو سکے تھے، ان کے متعلق نبی کریم ﷺ نے کسی قسم کی خفگی کا اظہار نہیں فرمایا تھا کیونکہ آپ ﷺ اس موقع پر صرف قریش کے قافلے کی تلاش میں نکلے تھے، لیکن اللہ تعالیٰ کے حکم سے کسی پہلی تیاری کے بغیر، آپ کی دشمنوں سے ٹکر ہوگئی اور میں لیلہ عقبہ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا۔ یہ وہی رات ہے جس میں ہم نے (مکہ میں) اسلام کے لیے عہد کیا تھا اور مجھے تو یہ غزوہ بدر سے بھی زیادہ عزیز ہے۔ اگرچہ بدر کا لوگوں کی زبانوں پر چرچہ زیادہ ہے۔ میرا واقعہ یہ ہے کہ میں اپنی زندگی میں کبھی اتنا قوی اور اتنا صاحب مال نہیں ہوا تھا جتنا اس موقع پر تھا۔ جبکہ میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ تبوک کے غزوے میں شریک نہیں ہوسکا تھا۔ اللہ کی قسم ! اس سے پہلے کبھی میرے پاس دو اونٹ جمع نہیں ہوئے تھے لیکن اس موقع پر میرے پاس دو اونٹ موجود تھے۔ نبی کریم ﷺ جب کبھی کسی غزوے کے لیے تشریف لے جاتے تو آپ اس کے لیے ذومعنی الفاظ استعمال کیا کرتے تھے لیکن اس غزوہ کا جب موقع آیا تو گرمی بڑی سخت تھی، سفر بھی بہت لمبا تھا، بیابانی راستہ اور دشمن کی فوج کی کثرت تعداد ! تمام مشکلات سامنے تھیں۔ اس لیے نبی کریم ﷺ نے مسلمانوں سے اس غزوہ کے متعلق بہت تفصیل کے ساتھ بتادیا تھا تاکہ اس کے مطابق پوری طرح سے تیاری کرلیں۔ چناچہ آپ ﷺ نے اس سمت کی بھی نشاندہی کردی جدھر سے آپ کا جانے کا ارادہ تھا۔ مسلمان بھی آپ ﷺ کے ساتھ بہت تھے۔ اتنے کہ کسی رجسٹر میں سب کے ناموں کا لکھنا بھی مشکل تھا۔ کعب (رض) نے بیان کیا کہ کوئی بھی شخص اگر اس غزوے میں شریک نہ ہونا چاہتا تو وہ یہ خیال کرسکتا تھا کہ اس کی غیر حاضری کا کسی کو پتہ نہیں چلے گا۔ سوا اس کے کہ اس کے متعلق وحی نازل ہو۔ نبی کریم ﷺ جب اس غزوہ کے لیے تشریف لے جا رہے تھے تو پھل پکنے کا زمانہ تھا اور سایہ میں بیٹھ کر لوگ آرام کرتے تھے۔ نبی کریم ﷺ بھی تیاریوں میں مصروف تھے اور آپ کے ساتھ مسلمان بھی۔ لیکن میں روزانہ سوچا کرتا تھا کہ کل سے میں بھی تیاری کروں گا اور اس طرح ہر روز اسے ٹالتا رہا۔ مجھے اس کا یقین تھا کہ میں تیاری کرلوں گا۔ مجھے آسانیاں میسر ہیں، یوں ہی وقت گزرتا رہا اور آخر لوگوں نے اپنی تیاریاں مکمل بھی کرلیں اور نبی کریم ﷺ مسلمانوں کو ساتھ لے کر روانہ بھی ہوگئے۔ اس وقت تک میں نے تیاری نہیں کی تھی۔ اس موقع پر بھی میں نے اپنے دل کو یہی کہہ کر سمجھا لیا کہ کل یا پرسوں تک تیاری کرلوں گا اور پھر لشکر سے جا ملوں گا۔ کوچ کے بعد دوسرے دن میں نے تیاری کے لیے سوچا لیکن اس دن بھی کوئی تیاری نہیں کی۔ پھر تیسرے دن کے لیے سوچا اور اس دن بھی کوئی تیاری نہیں کی۔ یوں ہی وقت گزر گیا اور اسلامی لشکر بہت آگے بڑھ گیا۔ غزوہ میں شرکت میرے لیے بہت دور کی بات ہوگئی اور میں یہی ارادہ کرتا رہا کہ یہاں سے چل کر انہیں پا لوں گا۔ کاش ! میں نے ایسا کرلیا ہوتا لیکن یہ میرے نصیب میں نہیں تھا۔ نبی کریم ﷺ کے تشریف لے جانے کے بعد جب میں باہر نکلتا تو مجھے بڑا رنج ہوتا کیونکہ یا تو وہ لوگ نظر آتے جن کے چہروں سے نفاق ٹپکتا تھا یا پھر وہ لوگ جنہیں اللہ تعالیٰ نے معذور اور ضعیف قرار دے دیا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے میرے بارے میں کسی سے کچھ نہیں پوچھا تھا لیکن جب آپ تبوک پہنچ گئے تو وہیں ایک مجلس میں آپ نے دریافت فرمایا کہ کعب نے کیا کیا ؟ بنو سلمہ کے ایک صاحب نے کہا کہ یا رسول اللہ ! اس کے غرور نے اسے آنے نہیں دیا۔ (وہ حسن و جمال یا لباس پر اترا کر رہ گیا) اس پر معاذ بن جبل (رض) بولے تم نے بری بات کہی۔ یا رسول اللہ ! اللہ کی قسم ! ہمیں ان کے متعلق خیر کے سوا اور کچھ معلوم نہیں۔ نبی کریم ﷺ نے کچھ نہیں فرمایا۔ کعب بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ جب مجھے معلوم ہوا کہ نبی کریم ﷺ واپس تشریف لا رہے ہیں تو اب مجھ پر فکر سوار ہوا اور میرا ذہن کوئی ایسا جھوٹا بہانہ تلاش کرنے لگا جس سے میں کل نبی کریم ﷺ کی خفگی سے بچ سکوں۔ اپنے گھر کے ہر عقلمند آدمی سے اس کے متعلق میں نے مشورہ لیا لیکن جب مجھے معلوم ہوا کہ نبی کریم ﷺ مدینہ سے بالکل قریب آ چکے ہیں تو غلط خیالات میرے ذہن سے نکل گئے اور مجھے یقین ہوگیا کہ اس معاملہ میں جھوٹ بول کر میں اپنے کو کسی طرح محفوظ نہیں کرسکتا۔ چناچہ میں نے سچی بات کہنے کا پختہ ارادہ کرلیا۔ صبح کے وقت نبی کریم ﷺ تشریف لائے۔ جب آپ کسی سفر سے واپس تشریف لاتے تو یہ آپ کی عادت تھی کہ پہلے مسجد میں تشریف لے جاتے اور دو رکعت نماز پڑھتے، پھر لوگوں کے ساتھ مجلس میں بیٹھتے۔ جب آپ اس عمل سے فارغ ہوچکے تو آپ کی خدمت میں لوگ آنے لگے جو غزوہ میں شریک نہیں ہو سکے تھے اور قسم کھا کھا کر اپنے عذر بیان کرنے لگے۔ ایسے لوگوں کی تعداد اسی کے قریب تھی۔ نبی کریم ﷺ نے ان کے ظاہر کو قبول فرما لیا، ان سے عہد لیا۔ ان کے لیے مغفرت کی دعا فرمائی اور ان کے باطن کو اللہ کے سپرد کیا۔ اس کے بعد میں حاضر ہوا۔ میں نے سلام کیا تو آپ مسکرائے۔ آپ کی مسکراہٹ میں خفگی تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا : آؤ، میں چند قدم چل کر آپ ﷺ کے سامنے بیٹھ گیا۔ آپ ﷺ نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ تم غزوہ میں کیوں شریک نہیں ہوئے۔ کیا تم نے کوئی سواری نہیں خریدی تھی ؟ میں نے عرض کیا، میرے پاس سواری موجود تھی۔ اللہ کی قسم ! اگر میں آپ ﷺ کے سوا کسی دنیادار شخص کے سامنے آج بیٹھا ہوتا تو کوئی نہ کوئی عذر گھڑ کر اس کی خفگی سے بچ سکتا تھا، مجھے خوبصورتی کے ساتھ گفتگو کا سلیقہ معلوم ہے۔ لیکن اللہ کی قسم ! مجھے یقین ہے کہ اگر آج میں آپ کے سامنے کوئی جھوٹا عذر بیان کر کے آپ کو راضی کرلوں تو بہت جلد اللہ تعالیٰ آپ کو مجھ سے ناراض کر دے گا۔ اس کے بجائے اگر میں آپ ﷺ سے سچی بات بیان کر دوں تو یقیناً آپ کو میری طرف سے خفگی ہوگی لیکن اللہ سے مجھے معافی کی پوری امید ہے۔ نہیں، اللہ کی قسم ! مجھے کوئی عذر نہیں تھا، اللہ کی قسم اس وقت سے پہلے کبھی میں اتنا فارغ البال نہیں تھا اور پھر بھی میں آپ کے ساتھ شریک نہیں ہوسکا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ انہوں نے سچی بات بتادی۔ اچھا اب جاؤ، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تمہارے بارے میں خود کوئی فیصلہ کر دے۔ میں اٹھ گیا اور میرے پیچھے بنو سلمہ کے کچھ لوگ بھی دوڑے ہوئے آئے اور مجھ سے کہنے لگے کہ اللہ کی قسم ! ہمیں تمہارے متعلق یہ معلوم نہیں تھا کہ اس سے پہلے تم نے کوئی گناہ کیا ہے اور تم نے بڑی کوتاہی کی۔ نبی کریم ﷺ کے سامنے ویسا ہی کوئی عذر نہیں بیان کیا جیسا دوسرے نہ شریک ہونے والوں نے بیان کردیا تھا۔ تمہارے گناہ کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا استغفار ہی کافی ہوجاتا۔ اللہ کی قسم ! ان لوگوں نے مجھے اس پر اتنی ملامت کی کہ مجھے خیال آیا کہ واپس جا کر نبی کریم ﷺ سے کوئی جھوٹا عذر کر آؤں۔ پھر میں نے ان سے پوچھا کیا میرے علاوہ کسی اور نے بھی مجھ جیسا عذر بیان کیا ہے ؟ انہوں نے بتایا کہ ہاں دو حضرات نے اسی طرح معذرت کی جس طرح تم نے کی ہے اور انہیں جواب بھی وہی ملا ہے جو تمہیں ملا۔ میں نے پوچھا کہ ان کے نام کیا ہیں ؟ انہوں نے بتا کیا کہ مرارہ بن ربیع عمری اور ہلال بن امیہ واقفی رضی اللہ عنہما۔ ان دو ایسے صحابہ کا نام انہوں نے لے دیا تھا جو صالح تھے اور بدر کی جنگ میں شریک ہوئے تھے۔ ان کا طرز عمل میرے لیے نمونہ بن گیا۔ چناچہ انہوں نے جب ان بزرگوں کا نام لیا تو میں اپنے گھر چلا آیا اور نبی کریم ﷺ نے لوگوں کو ہم سے بات چیت کرنے کی ممانعت کردی، بہت سے لوگ جو غزوے میں شریک نہیں ہوئے تھے، ان میں سے صرف ہم تین تھے ! لوگ ہم سے الگ رہنے لگے اور سب لوگ بدل گئے۔ ایسا نظر آتا تھا کہ ہم سے ساری دنیا بدل گئی ہے۔ ہمارا اس سے کوئی واسطہ ہی نہیں ہے۔ پچاس دن تک ہم اسی طرح رہے، میرے دو ساتھیوں نے تو اپنے گھروں سے نکلنا ہی چھوڑ دیا، بس روتے رہتے تھے لیکن میرے اندر ہمت تھی کہ میں باہر نکلتا تھا، مسلمانوں کے ساتھ نماز میں شریک ہوتا تھا اور بازاروں میں گھوما کرتا تھا لیکن مجھ سے بولتا کوئی نہ تھا۔ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں بھی حاضر ہوتا تھا، آپ کو سلام کرتا، جب آپ نماز کے بعد مجلس میں بیٹھتے، میں اس کی جستجو میں لگا رہتا تھا کہ دیکھوں سلام کے جواب میں نبی کریم ﷺ کے مبارک ہونٹ ہلے یا نہیں، پھر آپ کے قریب ہی نماز پڑھنے لگ جاتا اور آپ کو کنکھیوں سے دیکھتا رہتا جب میں اپنی نماز میں مشغول ہوجاتا تو نبی کریم ﷺ میری طرف دیکھتے لیکن جونہی میں آپ کی طرف دیکھتا آپ رخ مبارک پھیر لیتے۔ آخر جب اس طرح لوگوں کی بےرخی بڑھتی ہی گئی تو میں (ایک دن) ابوقتادہ (رض) کے باغ کی دیوار پر چڑھ گیا، وہ میرے چچا زاد بھائی تھے اور مجھے ان سے بہت گہرا تعلق تھا، میں نے انہیں سلام کیا، لیکن اللہ کی قسم ! انہوں نے بھی میرے سلام کا جواب نہیں دیا۔ میں نے کہا، ابوقتادہ ! تمہیں اللہ کی قسم ! کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ اور اس کے رسول سے مجھے کتنی محبت ہے۔ انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ میں نے دوبارہ ان سے یہی سوال کیا اللہ کی قسم دے کر لیکن اب بھی وہ خاموش تھے، پھر میں نے اللہ کا واسطہ دے کر ان سے یہی سوال کیا۔ اس مرتبہ انہوں نے صرف اتنا کہا کہ اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ اس پر میرے آنسو پھوٹ پڑے۔ میں واپس چلا آیا اور دیوار پر چڑھ کر (نیچے، باہر اتر آیا) انہوں نے بیان کیا کہ ایک دن میں مدینہ کے بازار میں جا رہا تھا کہ شام کا ایک کاشتکار جو غلہ بیچنے مدینہ آیا تھا، پوچھ رہا تھا کہ کعب بن مالک کہاں رہتے ہیں ؟ لوگوں نے میری طرف اشارہ کیا تو وہ میرے پاس آیا اور ملک غسان کا ایک خط مجھے دیا، اس خط میں یہ تحریر تھا۔ امابعد ! مجھے معلوم ہوا ہے کہ تمہارے صاحب (یعنی نبی کریم ﷺ ) تمہارے ساتھ زیادتی کرنے لگے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں کوئی ذلیل نہیں پیدا کیا ہے کہ تمہارا حق ضائع کیا جائے، تم ہمارے پاس آجاؤ، ہم تمہارے ساتھ بہتر سے بہتر سلوک کریں گے۔ جب میں نے یہ خط پڑھا تو میں نے کہا کہ یہ ایک اور امتحان آگیا۔ میں نے اس خط کو تنور میں جلا دیا۔ ان پچاس دنوں میں سے جب چالیس دن گزر چکے تو رسول اللہ ﷺ کے ایلچی میرے پاس آئے اور کہا کہ نبی کریم ﷺ نے تمہیں حکم دیا ہے کہ اپنی بیوی کے بھی قریب نہ جاؤ۔ میں نے پوچھا میں اسے طلاق دے دوں یا پھر مجھے کیا کرنا چاہیے ؟ انہوں نے بتایا کہ نہیں صرف ان سے جدا ہو، ان کے قریب نہ جاؤ میرے دونوں ساتھیوں کو (جنہوں نے میری طرح معذرت کی تھی) بھی یہی حکم آپ نے بھیجا تھا۔ میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ اب اپنے میکے چلی جاؤ اور اس وقت تک وہیں رہو جب تک اللہ تعالیٰ اس معاملہ کا کوئی فیصلہ نہ کر دے۔ کعب (رض) نے بیان کیا کہ ہلال بن امیہ (جن کا مقاطعہ ہوا تھا) کی بیوی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کی : یا رسول اللہ ! ہلال بن امیہ بہت ہی بوڑھے اور کمزور ہیں، ان کے پاس کوئی خادم بھی نہیں ہے، کیا اگر میں ان کی خدمت کردیا کروں تو آپ ناپسند فرمائیں گے ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ صرف وہ تم سے صحبت نہ کریں۔ انہوں نے عرض کی۔ اللہ کی قسم ! وہ تو کسی چیز کے لیے حرکت بھی نہیں کرسکتے۔ جب سے یہ خفگی ان پر ہوئی ہے وہ دن ہے اور آج کا دن ہے ان کے آنسو تھمنے میں نہیں آتے۔ میرے گھر کے بعض لوگوں نے کہا کہ جس طرح ہلال بن امیہ (رض) کی بیوی کو ان کی خدمت کرتے رہنے کی اجازت نبی کریم ﷺ نے دے دی ہے، آپ بھی اسی طرح کی اجازت نبی کریم ﷺ سے لے لیجئے۔ میں نے کہا نہیں، اللہ کی قسم ! میں اس کے لیے نبی کریم ﷺ سے اجازت نہیں لوں گا، میں جوان ہوں، معلوم نہیں جب سے اجازت لینے جاؤں تو نبی کریم ﷺ کیا فرمائیں۔ اس طرح دس دن اور گزر گئے اور جب سے نبی کریم ﷺ نے ہم سے بات چیت کرنے کی ممانعت فرمائی تھی اس کے پچاس دن پورے ہوگئے۔ پچاسویں رات کی صبح کو جب میں فجر کی نماز پڑھ چکا اور اپنے گھر کی چھت پر بیٹھا ہوا تھا، اس طرح جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ذکر کیا ہے، میرا دم گھٹا جا رہا تھا اور زمین اپنی تمام وسعتوں کے باوجود میرے لیے تنگ ہوتی جا رہی تھی کہ میں نے ایک پکارنے والے کی آواز سنی، جبل سلع پر چڑھ کر کوئی بلند آواز سے کہہ رہا تھا، اے کعب بن مالک ! تمہیں بشارت ہو۔ انہوں نے بیان کیا کہ یہ سنتے ہی میں سجدے میں گرپڑا اور مجھے یقین ہوگیا کہ اب فراخی ہوجائے گی۔ فجر کی نماز کے بعد رسول اللہ ﷺ نے اللہ کی بارگاہ میں ہماری توبہ کی قبولیت کا اعلان کردیا تھا۔ لوگ میرے یہاں بشارت دینے کے لیے آنے لگے اور میرے دو ساتھیوں کو بھی جا کر بشارت دی۔ ایک صاحب (زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ) اپنا گھوڑا دوڑائے آ رہے تھے، ادھر قبیلہ اسلم کے ایک صحابی نے پہاڑی پر چڑھ کر (آواز دی) اور آواز گھوڑے سے زیادہ تیز تھی۔ جن صحابی نے (سلع پہاڑی پر سے) آواز دی تھی، جب وہ میرے پاس بشارت دینے آئے تو اپنے دونوں کپڑے اتار کر اس بشارت کی خوشی میں، میں نے انہیں دے دئیے۔ اللہ کی قسم کہ اس وقت ان دو کپڑوں کے سوا (دینے کے لائق) اور میرے پاس کوئی چیز نہیں تھی۔ پھر میں نے (ابوقتادہ (رض) سے) دو کپڑے مانگ کر پہنے اور نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، جوق در جوق لوگ مجھ سے ملاقات کرتے جاتے تھے اور مجھے توبہ کی قبولیت پر بشارت دیتے جاتے تھے، کہتے تھے اللہ کی بارگاہ میں توبہ کی قبولیت مبارک ہو۔ کعب (رض) نے بیان کیا، آخر میں مسجد میں داخل ہوا نبی کریم ﷺ تشریف رکھتے تھے۔ چاروں طرف صحابہ کا مجمع تھا۔ طلحہ بن عبیداللہ (رض) دوڑ کر میری طرف بڑھے اور مجھ سے مصافحہ کیا اور مبارکباد دی۔ اللہ کی قسم ! (وہاں موجود) مہاجرین میں سے کوئی بھی ان کے سوا، میرے آنے پر کھڑا نہیں ہوا۔ طلحہ (رض) کا یہ احسان میں کبھی نہیں بھولوں گا۔ کعب (رض) نے بیان کیا کہ جب میں نبی کریم ﷺ کو سلام کیا تو آپ نے فرمایا : (چہرہ مبارک خوشی اور مسرت دمک اٹھا تھا) اس مبارک دن کے لیے تمہیں بشارت ہو جو تمہاری عمر کا سب سے مبارک دن ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! یہ بشارت آپ کی طرف سے ہے یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ؟ فرمایا نہیں، بلکہ اللہ کی طرف سے ہے۔ نبی کریم ﷺ جب کسی بات پر خوش ہوتے تو چہرہ مبارک روشن ہوجاتا تھا، ایسا جیسے چاند کا ٹکڑا ہو۔ آپ کی مسرت ہم تو چہرہ مبارک سے سمجھ جاتے تھے۔ پھر جب میں آپ کے سامنے بیٹھ گیا تو عرض کیا : یا رسول اللہ ! اپنی توبہ کی قبولیت کی خوشی میں، میں اپنا مال اللہ اور اس کے رسول کی راہ میں صدقہ کر دوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا لیکن کچھ مال اپنے پاس بھی رکھ لو، یہ زیادہ بہتر ہے۔ میں نے عرض کیا پھر میں خیبر کا حصہ اپنے پاس رکھ لوں گا۔ پھر میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! اللہ تعالیٰ نے مجھے سچ بولنے کی وجہ سے نجات دی۔ اب میں اپنی توبہ کی قبولیت کی خوشی میں یہ عہد کرتا ہوں کہ جب تک زندہ رہوں گا سچ کے سوا اور کوئی بات زبان پر نہ لاؤں گا۔ پس اللہ کی قسم ! جب سے میں نے نبی کریم ﷺ کے سامنے یہ عہد کیا، میں کسی ایسے مسلمان کو نہیں جانتا جسے اللہ نے سچ بولنے کی وجہ سے اتنا نوازا ہو، جتنی نوازشات اس کی مجھ پر سچ بولنے کی وجہ سے ہیں۔ جب سے میں نے نبی کریم ﷺ کے سامنے یہ عہد کیا، پھر آج تک کبھی جھوٹ کا ارادہ بھی نہیں کیا اور مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ باقی زندگی میں بھی مجھے اس سے محفوظ رکھے گا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر آیت (ہمارے بارے میں) نازل کی تھی۔ یقیناً اللہ تعالیٰ نے نبی، مہاجرین اور انصار کی توبہ قبول کی اس کے ارشاد وکونوا مع الصادقين تک اللہ کی قسم ! اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسلام کے لیے ہدایت کے بعد، میری نظر میں نبی کریم ﷺ کے سامنے اس سچ بولنے سے بڑھ کر اللہ کا مجھ پر اور کوئی انعام نہیں ہوا کہ میں نے جھوٹ نہیں بولا اور اس طرح اپنے کو ہلاک نہیں کیا۔ جیسا کہ جھوٹ بولنے والے ہلاک ہوگئے تھے۔ نزول وحی کے زمانہ میں جھوٹ بولنے والوں پر اللہ تعالیٰ نے اتنی شدید وعید فرمائی جتنی شدید کسی دوسرے کے لیے نہیں فرمائی ہوگی۔ فرمایا ہے سيحلفون بالله لکم إذا انقلبتم ارشاد فإن الله لا يرضى عن القوم الفاسقين تک۔ کعب (رض) نے بیان کیا۔ چناچہ ہم تین، ان لوگوں کے معاملے سے جدا رہے جنہوں نے نبی کریم ﷺ کے سامنے قسم کھالی تھی اور آپ نے ان کی بات مان بھی لی تھی، ان سے بیعت بھی لی تھی اور ان کے لیے طلب مغفرت بھی فرمائی تھی۔ ہمارا معاملہ نبی کریم ﷺ نے چھوڑ دیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے خود اس کا فیصلہ فرمایا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد وعلى الثلاثة الذين خلفوا سے یہی مراد ہے کہ ہمارا مقدمہ ملتوی رکھا گیا اور ہم ڈھیل میں ڈال دئیے گئے۔ یہ نہیں مراد ہے کہ جہاد سے پیچھے رہ گئے بلکہ مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کے پیچھے رہے جنہوں نے قسمیں کھا کر اپنے عذر بیان کئے اور نبی کریم ﷺ نے ان کے عذر قبول کرلیے۔
باب: بستی حجر سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزرنا۔
ہم سے عبداللہ بن محمد جعفی نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں سالم بن عبداللہ نے اور ان سے ابن عمر (رض) نے بیان کیا کہ جب نبی کریم ﷺ مقام حجر سے گزرے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ان لوگوں کی بستیوں سے جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا، جب گزرنا ہو تو روتے ہوئے ہی گزرو، ایسا نہ ہو کہ تم پر بھی وہی عذاب آجائے جو ان پر آیا تھا۔ پھر آپ ﷺ نے سر مبارک پر چادر ڈال لی اور بڑی تیزی کے ساتھ چلنے لگے، یہاں تک کہ اس وادی سے نکل آئے۔
باب: بستی حجر سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزرنا۔
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن دینار نے بیان کیا اور ان سے ابن عمر (رض) نے بیان کیا رسول اللہ ﷺ نے اصحاب حجر کے متعلق فرمایا کہ اس معذب قوم کی بستی سے جب تمہیں گزرنا ہی ہے تو تم روتے ہوئے گزرو، کہیں تم پر بھی وہ عذاب نہ آجائے جو ان پر آیا تھا۔
آنحضرت ﷺ کے مقام حجر میں قیام فرمانے کا بیان
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے، ان سے عبدالعزیز بن ابی سلمہ نے، ان سے سعد بن ابراہیم نے، ان سے نافع بن جبیر نے، ان سے عروہ بن مغیرہ نے اور ان سے ان کے والد مغیرہ بن شعبہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ قضائے حاجت کے لیے تشریف لے گئے تھے، پھر (جب آپ ﷺ فارغ ہو کر واپس آئے تو) آپ ﷺ کے وضو کے لیے میں پانی لے کر حاضر ہوا، جہاں تک مجھے یقین ہے انہوں نے یہی بیان کیا کہ یہ واقعہ غزوہ تبوک کا ہے۔ پھر نبی کریم ﷺ نے چہرہ مبارک دھویا اور جب کہنیوں تک دھونے کا ارادہ کیا تو جبہ کی آستین تنگ نکلی۔ چناچہ آپ نے ہاتھ جبے کے نیچے سے نکال لیے اور انہیں دھویا، پھر موزوں پر مسح کیا۔
آنحضرت ﷺ کے مقام حجر میں قیام فرمانے کا بیان
ہم سے خالد بن مخلد نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عمرو بن یحییٰ نے بیان کیا، ان سے عباس بن سہل بن سعد نے اور ان سے ابوحمید (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ کے ساتھ ہم غزوہ تبوک سے واپس آ رہے تھے۔ جب آپ مدینہ کے قریب پہنچے تو (مدینہ کی طرف اشارہ کر کے) فرمایا کہ یہ طابة ہے اور یہ احد پہاڑ ہے، یہ ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہم اس سے محبت رکھتے ہیں۔
آنحضرت ﷺ کے مقام حجر میں قیام فرمانے کا بیان
ہم سے احمد بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا ہم کو حمید طویل نے خبر دی اور انہیں انس بن مالک (رض) نے کہ جب رسول اللہ ﷺ غزوہ تبوک سے واپس ہوئے۔ اور مدینہ کے قریب پہنچے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ مدینہ میں بہت سے ایسے لوگ ہیں کہ جہاں بھی تم چلے اور جس وادی کو بھی تم نے قطع کیا وہ (اپنے دل سے) تمہارے ساتھ ساتھ تھے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! اگرچہ ان کا قیام اس وقت بھی مدینہ میں ہی رہا ہو ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں، وہ مدینہ میں رہتے ہوئے بھی (اپنے دل سے تمہارے ساتھ تھے) وہ کسی عذر کی وجہ سے رک گئے تھے۔
باب: کسریٰ (شاہ ایران) اور قیصر (شاہ روم) کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خطوط لکھنا۔
ہم سے اسحاق بن رباح نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، ان سے ان کے والد (ابراہیم بن سعد) نے بیان کیا، ان سے صالح بن کیسان نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ نے خبر دی اور انہیں عبداللہ بن عباس (رض) نے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ نے ( شاہ فارس) کسریٰ کے پاس اپنا خط عبداللہ بن حذافہ سہمی (رض) کو دے کر بھیجا اور انہیں حکم دیا کہ یہ خط بحرین کے گورنر کو دے دیں (جو کسریٰ کا عالم تھا) کسریٰ نے جب آپ کا خط مبارک پڑھا تو اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے۔ میرا خیال ہے کہ ابن مسیب نے بیان کیا کہ پھر نبی کریم ﷺ نے ان کے لیے بددعا کی کہ وہ بھی ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں۔
باب: کسریٰ (شاہ ایران) اور قیصر (شاہ روم) کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خطوط لکھنا۔
ہم سے عثمان بن ہیثم نے بیان کیا، کہا ہم سے عوف اعرابی نے بیان کیا، ان سے امام حسن بصری نے، ان سے ابوبکرہ (رض) نے بیان کیا کہ جنگ جمل کے موقع پر وہ جملہ میرے کام آگیا جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا تھا۔ میں ارادہ کرچکا تھا کہ اصحاب جمل، عائشہ (رض) اور آپ کے لشکر کے ساتھ شریک ہو کر (علی (رض) کی) فوج سے لڑوں۔ انہوں نے بیان کیا کہ جب نبی کریم ﷺ کو معلوم ہوا کہ اہل فارس نے کسریٰ کی لڑکی کو وارث تخت و تاج بنایا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ قوم کبھی فلاح نہیں پاسکتی جس نے اپنا حکمران کسی عورت کو بنایا ہو۔
باب: کسریٰ (شاہ ایران) اور قیصر (شاہ روم) کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خطوط لکھنا۔
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے زہری سے سنا، انہوں نے سائب بن یزید (رض) سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ مجھے یاد ہے جب میں بچوں کے ساتھ ثنیۃ الوداع کی طرف رسول اللہ ﷺ کا استقبال کرنے گیا تھا۔ سفیان نے ایک مرتبہ ( مع الغلمان کے بجائے) مع الصبيان. بیان کیا۔
باب: کسریٰ (شاہ ایران) اور قیصر (شاہ روم) کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خطوط لکھنا۔
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے زہری نے اور ان سے سائب بن یزید (رض) نے کہ مجھے یاد ہے، جب میں بچوں کے ساتھ نبی کریم ﷺ کا استقبال کرنے گیا تھا۔ آپ ﷺ غزوہ تبوک سے واپس تشریف لا رہے تھے۔
None
اور یونس نے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے عروہ نے بیان کیا اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا بیان۔
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ نے، ان سے عبداللہ بن عباس (رض) نے اور ان سے ام فضل بنت حارث (رض) نے بیان کیا کہ میں نے سنا رسول اللہ ﷺ مغرب کی نماز میں والمرسلات عرفا کی قرآت کر رہے تھے، اس کے بعد پھر آپ نے ہمیں کبھی نماز نہیں پڑھائی، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی روح قبض کرلی۔
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا بیان۔
ہم سے محمد بن عرعرہ نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابوبشر نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ عمر (رض) آپ کو (مجالس میں) اپنے قریب بٹھاتے تھے۔ اس پر عبدالرحمٰن بن عوف (رض) نے اعتراض کیا کہ اس جیسے تو ہمارے بچے ہیں۔ عمر (رض) نے فرمایا کہ میں نے یہ طرز عمل جس وجہ سے اختیار کیا، وہ آپ کو معلوم بھی ہے ؟ پھر عمر (رض) نے ابن عباس (رض) سے اس آیت (یعنی) إذا جاء نصر الله والفتح کے متعلق پوچھا۔ ابن عباس (رض) نے جواب دیا کہ یہ رسول اللہ ﷺ کی وفات تھی، آپ کو اللہ تعالیٰ نے (آیت میں) اسی کی اطلاع دی ہے۔ عمر (رض) نے فرمایا کہ جو تم نے بتایا وہی میں بھی اس آیت کے متعلق جانتا ہوں۔
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا بیان۔
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے سلیمان احول نے، ان سے سعید بن جبیر نے بیان کیا کہ ابن عباس (رض) نے جمعرات کے دن کا ذکر کیا اور فرمایا معلوم بھی ہے جمعرات کے دن کیا ہوا تھا۔ رسول اللہ ﷺ کے مرض میں تیزی پیدا ہوئی تھی۔ اس وقت آپ نے فرمایا کہ لاؤ، میں تمہارے لیے وصیت نامہ لکھ دوں کہ تم اس پر چلو گے تو اس کے بعد پھر تم کبھی صحیح راستے کو نہ چھوڑو گے لیکن یہ سن کر وہاں اختلاف پیدا ہوگیا، حالانکہ نبی کریم ﷺ کے سامنے نزاع نہ ہونا چاہیے۔ بعض لوگوں نے کہا کہ کیا آپ شدت مرض کی وجہ سے بےمعنی کلام فرما رہے ہیں ؟ (جو آپ کی شان اقدس سے بعید ہے) پھر آپ سے بات سمجھنے کی کوشش کرو۔ پس آپ سے صحابہ پوچھنے لگے۔ آپ ﷺ نے فرمایا جاؤ (یہاں شور و غل نہ کرو) میں جس کام میں مشغول ہوں، وہ اس سے بہتر ہے جس کے لیے تم کہہ رہے ہو۔ اس کے بعد آپ نے صحابہ کو تین چیزوں کی وصیت کی، فرمایا کہ مشرکین کو جزیرہ عرب سے نکال دو ۔ ایلچی (جو قبائل کے تمہارے پاس آئیں) ان کی اس طرح خاطر کیا کرنا جس طرح میں کرتا آیا ہوں اور تیسری بات ابن عباس نے یا سعید نے بیان نہیں کی یا سعید بن جبیر نے یا سلیمان نے کہا میں تیسری بات بھول گیا۔
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا بیان۔
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالرزاق بن ہمام نے بیان کیا، انہیں معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے اور ان سے عبداللہ بن عباس (رض) نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات کا وقت قریب ہوا تو گھر میں بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم موجود تھے۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ لاؤ، میں تمہارے لیے ایک دستاویز لکھ دوں، اگر تم اس پر چلتے رہے تو پھر تم گمراہ نہ ہو سکو گے۔ اس پر (عمر رضی اللہ عنہ) نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بیماری کی سختی ہو رہی ہے، تمہارے پاس قرآن موجود ہے۔ ہمارے لیے تو اللہ کی کتاب بس کافی ہے۔ پھر گھر والوں میں جھگڑا ہونے لگا، بعض نے تو یہ کہا کہ نبی کریم ﷺ کو کوئی چیز لکھنے کی دے دو کہ اس پر آپ ہدایت لکھوا دیں اور تم اس کے بعد گمراہ نہ ہو سکو۔ بعض لوگوں نے اس کے خلاف دوسری رائے پر اصرار کیا۔ جب شور و غل اور نزاع زیادہ ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہاں سے جاؤ۔ عبیداللہ نے بیان کیا کہ ابن عباس (رض) کہتے تھے کہ مصیبت سب سے بڑی یہ تھی کہ لوگوں نے اختلاف اور شور کر کے آپ ﷺ کو وہ ہدایت نہیں لکھنے دی۔
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا بیان۔
ہم سے یسرہ بن صفوان بن جمیل لخمی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابرہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے، ان سے عروہ نے اور ان سے ام المؤمنین عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ مرض الموت میں رسول اللہ ﷺ نے فاطمہ (رض) کو بلایا اور آہستہ سے کوئی بات ان سے کہی جس پر وہ رونے لگیں۔ پھر دوبارہ آہستہ سے کوئی بات کہی جس پر وہ ہنسنے لگیں۔ پھر ہم نے ان سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتلایا کہ نبی کریم ﷺ نے مجھ سے فرمایا تھا کہ آپ کی وفات اسی مرض میں ہوجائے گی، میں یہ سن کر رونے لگی۔ دوسری مرتبہ آپ ﷺ نے مجھ سے جب سرگوشی کی تو یہ فرمایا کہ آپ کے گھر کے آدمیوں میں سب سے پہلے میں آپ سے جا ملوں گی تو میں ہنسی تھی۔
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا بیان۔
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے سعد نے، ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ میں سنتی آئی تھی کہ ہر نبی کو وفات سے پہلے دنیا اور آخرت کے رہنے میں اختیار دیا جاتا ہے، پھر میں نے رسول اللہ ﷺ سے بھی سنا، آپ اپنے مرض الموت میں فرما رہے تھے۔ آپ ﷺ کی آواز بھاری ہوچکی تھی۔ آپ آیت مع الذين أنعم الله عليهم کی تلاوت فرما رہے تھے (یعنی ان لوگوں کے ساتھ جن پر اللہ نے انعام کیا ہے) مجھے یقین ہوگیا کہ آپ کو بھی اختیار دے دیا گیا ہے۔
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا بیان۔
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے، ان سے سعد بن ابراہیم نے، ان سے عروہ بن زبیر نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ اپنے مرض الموت میں باربار فرماتے تھے۔ ( اللهم ) الرفيق الأعلى اے اللہ ! مجھے میرے رفقاء (انبیاء اور صدیقین) میں پہنچا دے (جو اعلیٰ علیین میں رہتے ہیں) ۔
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا بیان۔
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے کہ عروہ بن زبیر نے بیان کیا اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا تندرستی کے زمانے میں رسول اللہ ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ جب بھی کسی نبی کی روح قبض کی گئی تو پہلے جنت میں اس کی قیام گاہ اسے ضرور دکھا دی گئی، پھر اسے اختیار دیا گیا (راوی کو شک تھا کہ لفظ يحيا ہے یا يخير ، دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے) پھر جب نبی کریم ﷺ بیمار پڑے اور وقت قریب آگیا تو سر مبارک عائشہ (رض) کی ران پر تھا اور آپ پر غشی طاری ہوگئی تھی، جب کچھ ہوش ہوا تو آپ کی آنکھیں گھر کی چھت کی طرف اٹھ گئیں اور آپ ﷺ نے فرمایا۔ اللهم في الرفيق الأعلى۔ میں سمجھ گئی کہ اب نبی کریم ﷺ ہمیں (یعنی دنیاوی زندگی کو) پسند نہیں فرمائیں گے۔ مجھے وہ حدیث یاد آگئی جو آپ ﷺ نے تندرستی کے زمانے میں فرمائی تھی۔
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا بیان۔
ہم سے محمد بن یحییٰ ذہلی نے بیان کیا۔ کہا ہم سے عفان بن مسلم نے بیان کیا، ان سے صخر بن جویریہ نے، ان سے عبدالرحمٰن بن قاسم نے، ان سے ان کے والد (قاسم بن محمد) نے اور ان سے عائشہ (رض) نے کہ (ان کے بھائی) عبدالرحمٰن بن ابی بکر (رض) نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ نبی کریم ﷺ میرے سینے سے ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ عبدالرحمٰن (رض) کے ہاتھ میں ایک تازہ مسواک استعمال کے لیے تھی۔ آپ ﷺ اس مسواک کی طرف دیکھتے رہے۔ چناچہ میں نے ان سے مسواک لے لی اور اسے اپنے دانتوں سے چبا کر اچھی طرح جھاڑنے اور صاف کرنے کے بعد نبی کریم ﷺ کو دے دی۔ آپ نے وہ مسواک استعمال کی جتنے عمدہ طریقہ سے آپ ﷺ اس وقت مسواک کر رہے تھے، میں نے آپ کو اتنی اچھی طرح مسواک کرتے کبھی نہیں دیکھا۔ مسواک سے فارغ ہونے کے بعد آپ نے اپنا ہاتھ یا اپنی انگلی اٹھائی اور فرمایا۔ في الرفيق الأعلى تین مرتبہ، اور آپ کا انتقال ہوگیا۔ عائشہ (رض) کہا کرتی تھیں کہ نبی کریم ﷺ کی وفات ہوئی تو سر مبارک میری ہنسلی اور ٹھوڑی کے درمیان میں تھا۔
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا بیان۔
مجھ سے حبان بن موسیٰ مروزی نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں یونس نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے کہا کہ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی اور انہیں عائشہ (رض) نے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ جب بیمار پڑتے تو اپنے اوپر معوذتین (سورۃ الفلق اور سورة الناس) پڑھ کر دم کرلیا کرتے تھے اور اپنے جسم پر اپنے ہاتھ پھیرلیا کرتے تھے، پھر جب وہ مرض آپ کو لاحق ہوا جس میں آپ کی وفات ہوئی تو میں معوذتین پڑھ کر آپ پر دم کیا کرتی تھی اور ہاتھ پر دم کر کے نبی کریم ﷺ کے جسم پر پھیرا کرتی تھی۔
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا بیان۔
ہم سے معلی بن اسد نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن مختار نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، ان سے عباد بن عبداللہ بن زبیر نے اور انہیں عائشہ (رض) نے خبر دی کہ آپ نے نبی کریم ﷺ سے سنا، وفات سے کچھ پہلے نبی کریم ﷺ پشت سے ان کا سہارا لیے ہوئے تھے۔ آپ نے کان لگا کر سنا کہ نبی کریم ﷺ دعا کر رہے ہیں اللهم اغفر لي وارحمني، وألحقني بالرفيق اے اللہ ! میری مغفرت فرما، مجھ پر رحم کر اور میرے رفیقوں سے مجھے ملا۔
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا بیان۔
ہم سے صلت بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ وضاح یشکری نے بیان کیا، ان سے ہلال بن ابی حمید وزان نے، ان سے عروہ بن زبیر نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے اپنے مرض الموت میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کو اپنی رحمت سے دور کردیا کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا تھا۔ عائشہ (رض) نے کہا کہ اگر یہ بات نہ ہوتی تو آپ ﷺ کی قبر بھی کھلی رکھی جاتی لیکن آپ کو یہ خطرہ تھا کہ کہیں آپ کی قبر کو بھی سجدہ نہ کیا جانے لگے۔
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا بیان۔
ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے لیث بن سعد نے بیان کیا کہ مجھ سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے کہا کہ مجھے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے خبر دی اور ان سے ام المؤمنین عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اٹھنا بیٹھنا دشوار ہوگیا اور آپ کے مرض نے شدت اختیار کرلی تو تمام ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن سے آپ نے میرے گھر میں ایام مرض گزارنے کے لیے اجازت مانگی۔ سب نے جب اجازت دے دی تو آپ میمونہ (رض) کے گھر سے نکلے، آپ دو آدمیوں کا سہارا لیے ہوئے تھے اور آپ کے پاؤں زمین سے گھسٹ رہے تھے۔ جن دو صحابہ کا آپ ﷺ سہارا لیے ہوئے تھے، ان میں ایک عباس بن عبدالمطلب (رض) تھے اور ایک اور صاحب۔ عبیداللہ نے بیان کیا کہ پھر میں نے عائشہ (رض) کی اس روایت کی خبر عبداللہ بن عباس (رض) کو دی تو انہوں نے بتلایا، معلوم ہے وہ دوسرے صاحب جن کا نام عائشہ (رض) نے نہیں لیا، کون ہیں ؟ بیان کیا کہ میں نے عرض کیا مجھے تو نہیں معلوم ہے۔ انہوں نے بتلایا کہ وہ علی (رض) تھے اور نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ عائشہ (رض) بیان کرتی تھیں کہ نبی کریم ﷺ جب میرے گھر میں آگئے اور تکلیف بہت بڑھ گئی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ سات مشکیزے پانی کے بھر کر لاؤ اور مجھ پر ڈال دو ، ممکن ہے اس طرح میں لوگوں کو کچھ نصیحت کرنے کے قابل ہوجاؤں۔ چناچہ ہم نے آپ کو آپ کی زوجہ مطہرہ حفصہ (رض) کے ایک لگن میں بٹھایا اور انہیں مشکیزوں سے آپ پر پانی دھارنے لگے۔ آخر آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ کے اشارہ سے روکا کہ بس ہوچکا، بیان کیا کہ پھر آپ لوگوں کے مجمع میں گئے اور نماز پڑھائی اور لوگوں کو خطاب کیا۔
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا بیان۔
اور مجھے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے خبر دی اور ان سے عائشہ (رض) اور عبداللہ بن عباس (رض) نے بیان کیا کہ شدت مرض کے دنوں میں نبی کریم ﷺ اپنی چادر کھینچ کر باربار اپنے چہرے پر ڈالتے تھے، پھر جب دم گھٹنے لگتا تو چہرے سے ہٹا دیتے۔ آپ ﷺ اسی شدت کے عالم میں فرماتے تھے، یہود و نصاریٰ اللہ کی رحمت سے دور ہوئے کیونکہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا تھا۔ اس طرح آپ ﷺ (اپنی امت کو) ان کا عمل اختیار کرنے سے بچتے رہنے کی تاکید فرما رہے تھے۔
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا بیان۔
مجھے عبیداللہ نے خبر دی کہ عائشہ (رض) نے کہا، میں نے اس معاملہ (یعنی ایام مرض میں ابوبکر (رض) کو امام بنانے) کے سلسلے میں نبی کریم ﷺ سے باربار پوچھا۔ میں باربار آپ سے صرف اس لیے پوچھ رہی تھی کہ مجھے یقین تھا کہ جو شخص (نبی کریم ﷺ کی زندگی میں) آپ کی جگہ پر کھڑا ہوگا، لوگ اس سے کبھی محبت نہیں رکھ سکتے بلکہ میرا خیال تھا کہ لوگ اس سے بدفالی لیں گے، اس لیے میں چاہتی تھی کہ نبی کریم ﷺ ابوبکر (رض) کو اس کا حکم نہ دیں۔ اس کی روایت ابن عمر، ابوموسیٰ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم نے نبی کریم ﷺ سے کی ہے۔
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا بیان۔
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے یزید بن الہاد نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن قاسم نے، ان سے ان کے والد قاسم بن محمد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کی وفات ہوئی تو آپ میری ہنسلی اور ٹھوڑی کے درمیان (سر رکھے ہوئے) تھے۔ آپ ﷺ (کی شدت سکرات) دیکھنے کے بعد اب میں کسی کے لیے بھی نزع کی شدت کو برا نہیں سمجھتی۔
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا بیان۔
مجھ سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا، کہا ہم کو بشر بن شعیب بن ابی حمزہ نے خبر دی، کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، ان سے زہری نے بیان کیا، انہیں عبداللہ بن کعب بن مالک انصاری نے خبر دی اور کعب بن مالک (رض) ان تین صحابہ میں سے ایک تھے جن کی (غزوہ تبوک میں شرکت نہ کرنے کی) توبہ قبول ہوئی تھی۔ انہیں عبداللہ بن عباس (رض) نے خبر دی کہ علی بن ابی طالب (رض) رسول اللہ ﷺ کے پاس سے باہر آئے۔ یہ اس مرض کا واقعہ ہے جس میں آپ ﷺ نے وفات پائی تھی۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپ سے پوچھا : ابوالحسن ! نبی کریم ﷺ کا آج مزاج کیا ہے ؟ صبح انہوں نے بتایا کہ الحمدللہ اب آپ کو افاقہ ہے۔ پھر عباس بن عبدالمطلب (رض) نے علی (رض) کا ہاتھ پکڑ کے کہا کہ تم، اللہ کی قسم تین دن کے بعد زندگی گزارنے پر تم مجبور ہوجاؤ گے۔ اللہ کی قسم، مجھے تو ایسے آثار نظر آ رہے ہیں کہ نبی کریم ﷺ اس مرض سے صحت نہیں پاسکیں گے۔ موت کے وقت بنو عبدالمطلب کے چہروں کی مجھے خوب شناخت ہے۔ اب ہمیں آپ کے پاس چلنا چاہیے اور آپ سے پوچھنا چاہیے کہ ہمارے بعد خلافت کسے ملے گی۔ اگر ہم اس کے مستحق ہیں تو ہمیں معلوم ہوجائے گا اور اگر کوئی دوسرا مستحق ہوگا تو وہ بھی معلوم ہوجائے گا اور آپ ﷺ ہمارے متعلق اپنے خلیفہ کو ممکن ہے کچھ وصیتیں کردیں لیکن علی (رض) نے کہا کہ اللہ کی قسم ! اگر ہم نے اس وقت آپ سے اس کے متعلق کچھ پوچھا اور آپ نے انکار کردیا تو پھر لوگ ہمیں ہمیشہ کے لیے اس سے محروم کردیں گے۔ میں تو ہرگز آپ ﷺ سے اس کے متعلق کچھ نہیں پوچھوں گا۔
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا بیان۔
ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے لیث نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ پیر کے دن مسلمان فجر کی نماز پڑھ رہے تھے اور ابوبکر (رض) نماز پڑھا رہے تھے کہ اچانک نبی کریم ﷺ نظر آئے۔ آپ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ (رض) کے حجرہ کا پردہ اٹھا کر صحابہ رضی اللہ عنہم کو دیکھ رہے تھے۔ صحابہ رضی للہ عنہم نماز میں صف باندھے کھڑے ہوئے تھے۔ نبی کریم ﷺ دیکھ کر ہنس پڑے۔ ابوبکر (رض) پیچھے ہٹنے لگے تاکہ صف میں آجائیں۔ آپ نے سمجھا کہ نبی کریم ﷺ نماز کے لیے تشریف لانا چاہتے ہیں۔ انس (رض) نے بیان کیا، قریب تھا کہ مسلمان اس خوشی کی وجہ سے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر انہیں ہوئی تھی کہ وہ اپنی نماز توڑنے ہی کو تھے لیکن آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ نماز پوری کرلو، پھر آپ حجرہ کے اندر تشریف لے گئے اور پردہ ڈال لیا۔
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا بیان۔
مجھ سے محمد بن عبید نے بیان کیا، کہا ہم سے عیسیٰ بن یونس نے بیان کیا، ان سے عمر بن سعید نے، انہیں ابن ابی ملیکہ نے خبر دی اور انہیں عائشہ (رض) کے غلام ابوعمرو ذکوان نے کہ عائشہ (رض) فرمایا کرتی تھیں، اللہ کی بہت سی نعمتوں میں ایک نعمت مجھ پر یہ بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات میرے گھر میں اور میری باری کے دن ہوئی۔ آپ اس وقت میرے سینے سے ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ اور یہ کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی وفات کے وقت میرے اور آپ کے تھوک کو ایک ساتھ جمع کیا تھا کہ عبدالرحمٰن (رض) گھر میں آئے تو ان کے ہاتھ میں مسواک تھی۔ آپ ﷺ مجھ پر ٹیک لگائے ہوئے تھے، میں نے دیکھا کہ آپ ﷺ اس مسواک کو دیکھ رہے ہیں۔ میں سمجھ گئی کہ آپ مسواک کرنا چاہتے ہیں، اس لیے میں نے آپ سے پوچھا، یہ مسواک آپ کے لیے لے لوں ؟ آپ ﷺ نے سر کے اشارہ سے اثبات میں جواب دیا، میں نے وہ مسواک ان سے لے لی۔ آپ ﷺ اسے چبا نہ سکے، میں نے پوچھا آپ کے لیے میں اسے نرم کر دوں ؟ آپ نے سر کے اشارہ سے اثبات میں جواب دیا۔ میں نے مسواک نرم کردی۔ آپ کے سامنے ایک بڑا پیالہ تھا، چمڑے کا یا لکڑی کا (راوی حدیث) عمر کو اس سلسلے میں شک تھا، اس کے اندر پانی تھا، نبی کریم ﷺ باربار اپنے ہاتھ اس کے اندر داخل کرتے اور پھر انہیں اپنے چہرے پر پھیرتے اور فرماتے لا إله إلا الله۔ موت کے وقت شدت ہوتی ہے پھر آپ ﷺ اپنا ہاتھ اٹھا کر کہنے لگے في الرفيق الأعلى یہاں تک کہ آپ رحلت فرما گئے اور آپ کا ہاتھ جھک گیا۔
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا بیان۔
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا مجھ سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، انہیں ان کے والد نے خبر دی اور انہیں عائشہ (رض) نے کہ مرض الموت میں رسول اللہ ﷺ پوچھتے رہتے تھے کہ کل میرا قیام کہاں ہوگا، کل میرا قیام کہاں ہوگا ؟ آپ عائشہ (رض) کی باری کے منتظر تھے، پھر ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن نے عائشہ (رض) کے گھر قیام کی اجازت دے دی اور آپ کی وفات انہیں کے گھر میں ہوئی۔ عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ آپ کی وفات اسی دن ہوئی جس دن قاعدہ کے مطابق میرے یہاں آپ کے قیام کی باری تھی۔ رحلت کے وقت سر مبارک میرے سینے پر تھا اور میرا تھوک آپ کے تھوک کے ساتھ ملا تھا۔ انہوں نے بیان کیا کہ عبدالرحمٰن بن ابی بکر (رض) داخل ہوئے اور ان کے ہاتھ میں استعمال کے قابل مسواک تھی۔ آپ ﷺ نے اس کی طرف دیکھا تو میں نے کہا : عبدالرحمٰن ! یہ مسواک مجھے دے دو ۔ انہوں نے مسواک مجھے دے دی۔ میں نے اسے اچھی طرح چبایا اور جھاڑ کر آپ ﷺ کو دی، پھر آپ نے وہ مسواک کی، اس وقت آپ میرے سینے سے ٹیک لگائے ہوئے تھے۔
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا بیان۔
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب نے، ان سے ابن ابی ملیکہ نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات میرے گھر میں، میری باری کے دن ہوئی۔ آپ اس وقت میرے سینے سے ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ جب آپ بیمار پڑے تو ہم آپ کی صحت کے لیے دعائیں کیا کرتے تھے۔ اس بیماری میں بھی میں آپ کے لیے دعا کرنے لگی لیکن آپ ﷺ فرما رہے تھے اور آپ کا سر آسمان کی طرف اٹھا ہوا تھا في الرفيق الأعلى في الرفيق الأعلى اور عبدالرحمٰن بن ابی بکر (رض) آئے تو ان کے ہاتھ میں ایک تازہ ٹہنی تھی۔ آپ ﷺ نے اس کی طرف دیکھا تو میں سمجھ گئی کہ آپ ﷺ مسواک کرنا چاہتے ہیں۔ چناچہ وہ ٹہنی میں نے ان سے لے لی۔ پہلے میں نے اسے چبایا، پھر صاف کر کے آپ کو دے دی۔ آپ ﷺ نے اس سے مسواک کی، جس طرح پہلے آپ مسواک کیا کرتے تھے اس سے بھی اچھی طرح سے۔ پھر آپ ﷺ نے وہ مسواک مجھے عنایت فرمائی اور آپ کا ہاتھ جھک گیا، یا (راوی نے یہ بیان کیا کہ) مسواک آپ کے ہاتھ سے چھوٹ گئی۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے میرے اور آپ ﷺ کے تھوک کو اس دن جمع کردیا جو آپ کی دنیا کی زندگی کا سب سے آخری اور آخرت کی زندگی کا سب سے پہلا دن تھا۔
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا بیان۔
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، انہیں ابوسلمہ نے خبر دی اور انہیں عائشہ (رض) نے خبر دی کہ ابوبکر (رض) اپنی قیام گاہ، مسخ سے گھوڑے پر آئے اور آ کر اترے، پھر مسجد کے اندر گئے۔ کسی سے آپ نے کوئی بات نہیں کی۔ اس کے بعد آپ عائشہ (رض) کے حجرہ میں آئے اور نبی کریم ﷺ کی طرف گئے، نعش مبارک ایک یمنی چادر سے ڈھکی ہوئی تھی۔ آپ نے چہرہ کھولا اور جھک کر چہرہ مبارک کو بوسہ دیا اور رونے لگے، پھر کہا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں اللہ کی قسم ! اللہ تعالیٰ آپ پر دو مرتبہ موت طاری نہیں کرے گا۔ جو ایک موت آپ کے مقدر میں تھی، وہ آپ پر طاری ہوچکی ہے۔ زہری نے بیان کیا اور ان سے ابوسلمہ نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن عباس (رض) نے کہ ابوبکر (رض) آئے تو عمر (رض) لوگوں سے کچھ کہہ رہے تھے۔ ابوبکر (رض) نے کہا : عمر ! بیٹھ جاؤ، لیکن عمر (رض) نے بیٹھنے سے انکار کیا۔ اتنے میں لوگ عمر (رض) کو چھوڑ کر ابوبکر (رض) کے پاس آگئے اور آپ نے خطبہ مسنونہ کے بعد فرمایا : امابعد ! تم میں جو بھی محمد ﷺ کی عبادت کرتا تھا تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ آپ کی وفات ہوچکی ہے اور جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا تھا تو (اس کا معبود) اللہ ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے اور اس کو کبھی موت نہیں آئے گی۔ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے وما محمد إلا رسول قد خلت من قبله الرسل کہ محمد صرف رسول ہیں، ان سے پہلے بھی رسول گزر چکے ہیں۔ ارشاد الشاکرين تک۔ ابن عباس (رض) نے بیان کیا : اللہ کی قسم ! ایسا محسوس ہوا کہ جیسے پہلے سے لوگوں کو معلوم ہی نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی ہے اور جب ابوبکر (رض) نے اس کی تلاوت کی تو سب نے ان سے یہ آیت سیکھی۔ اب یہ حال تھا کہ جو بھی سنتا تھا وہی اس کی تلاوت کرنے لگ جاتا تھا۔ (زہری نے بیان کیا کہ) پھر مجھے سعید بن مسیب نے خبر دی کہ عمر (رض) نے کہا : اللہ کی قسم ! مجھے اس وقت ہوش آیا، جب میں نے ابوبکر (رض) کو اس آیت کی تلاوت کرتے سنا، جس وقت میں نے انہیں تلاوت کرتے سنا کہ نبی کریم ﷺ کی وفات ہوگئی ہے تو میں سکتے میں آگیا اور ایسا محسوس ہوا کہ میرے پاؤں میرا بوجھ نہیں اٹھا پائیں گے اور میں زمین پر گر جاؤں گا۔
None
ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے تو عمر رضی اللہ عنہ لوگوں سے کچھ کہہ رہے تھے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: عمر! بیٹھ جاؤ، لیکن عمر رضی اللہ عنہ نے بیٹھنے سے انکار کیا۔ اتنے میں لوگ عمر رضی اللہ عنہ کو چھوڑ کر ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آ گئے اور آپ نے خطبہ مسنونہ کے بعد فرمایا: امابعد! تم میں جو بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ آپ کی وفات ہو چکی ہے اور جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا تھا تو ( اس کا معبود ) اللہ ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے اور اس کو کبھی موت نہیں آئے گی۔ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے «وما محمد إلا رسول قد خلت من قبله الرسل» کہ ”محمد صرف رسول ہیں، ان سے پہلے بھی رسول گزر چکے ہیں۔“ ارشاد «الشاكرين» تک۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا: اللہ کی قسم! ایسا محسوس ہوا کہ جیسے پہلے سے لوگوں کو معلوم ہی نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی ہے اور جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس کی تلاوت کی تو سب نے ان سے یہ آیت سیکھی۔ اب یہ حال تھا کہ جو بھی سنتا تھا وہی اس کی تلاوت کرنے لگ جاتا تھا۔ ( زہری نے بیان کیا کہ ) پھر مجھے سعید بن مسیب نے خبر دی کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! مجھے اس وقت ہوش آیا، جب میں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اس آیت کی تلاوت کرتے سنا، جس وقت میں نے انہیں تلاوت کرتے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی ہے تو میں سکتے میں آ گیا اور ایسا محسوس ہوا کہ میرے پاؤں میرا بوجھ نہیں اٹھا پائیں گے اور میں زمین پر گر جاؤں گا۔
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا بیان۔
مجھ سے عبداللہ بن ابی شیبہ نے بیان کیا کہا ہم سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، ان سے سفیان بن عیینہ نے، ان سے موسیٰ بن ابی عائشہ نے، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے اور ان سے عائشہ (رض) اور ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد ابوبکر (رض) نے آپ کو بوسہ دیا تھا۔
None
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ کو بوسہ دیا تھا۔
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا بیان۔
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا۔ کہا ہم سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا عبداللہ بن ابی شیبہ کی حدیث کی طرح، لیکن انہوں نے اپنی اس روایت میں یہ اضافہ کیا کہ عائشہ (رض) نے کہا نبی کریم ﷺ کے مرض میں ہم آپ کے منہ میں دوا دینے لگے تو آپ نے اشارہ سے دوا دینے سے منع کیا۔ ہم نے سمجھا کہ مریض کو دوا پینے سے (بعض اوقات) جو ناگواری ہوتی ہے یہ بھی اسی کا نتیجہ ہے (اس لیے ہم نے اصرار کیا) تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ گھر میں جتنے آدمی ہیں سب کے منہ میں میرے سامنے دوا ڈالی جائے۔ صرف عباس (رض) اس سے الگ ہیں کہ وہ تمہارے ساتھ اس کام میں شریک نہیں تھے۔ اس کی روایت ابن ابی الزناد نے بھی کی، ان سے ہشام نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے نبی کریم ﷺ کے حوالہ سے۔
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا بیان۔
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم کو ازہر بن سعد سمان نے خبر دی، کہا ہم کو عبداللہ بن عون نے خبر دی، انہیں ابراہیم نخعی نے اور ان سے اسود بن یزید نے بیان کیا کہ عائشہ (رض) کے سامنے اس کا ذکر آیا کہ نبی کریم ﷺ نے علی (رض) کو کوئی (خاص) وصیت کی تھی ؟ تو انہوں نے بتلایا کون کہتا ہے، میں خود نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر تھی، آپ میرے سینے سے ٹیک لگائے ہوئے تھے، آپ نے طشت منگوایا، پھر ایک طرف جھک گئے اور آپ کی وفات ہوگئی۔ اس وقت مجھے بھی کچھ معلوم نہیں ہوا، پھر علی (رض) کو آپ نے کب وصی بنادیا۔
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا بیان۔
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے مالک بن مغول نے بیان کیا، ان سے طلحہ بن مصرف نے بیان کیا کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفی (رض) سے پوچھا، کیا رسول اللہ ﷺ نے کسی کو وصی بنایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ میں نے پوچھا کہ لوگوں پر وصیت کرنا کیسے فرض ہے یا وصیت کرنے کا کیسے حکم ہے ؟ انہوں نے بتایا کہ آپ نے کتاب اللہ کے مطابق عمل کرتے رہنے کی وصیت کی تھی۔
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا بیان۔
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابوالاحوص (سلام بن حکیم) نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق نے، ان سے عمرو بن حارث (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے نہ درہم چھوڑے تھے، نہ دینار، نہ کوئی غلام نہ باندی، سوا اپنے سفید خچر کے جس پر آپ ﷺ سوار ہوا کرتے تھے اور آپ کا ہتھیار اور کچھ وہ زمین جو آپ ﷺ نے اپنی زندگی میں مجاہدوں اور مسافروں کے لیے وقف کر رکھی تھی۔
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا بیان۔
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ثابت بنانی نے اور ان سے انس بن مالک (رض) نے کہ شدت مرض کے زمانے میں نبی کریم ﷺ کی بےچینی بہت بڑھ گئی تھی۔ فاطمۃ الزہراء (رض) نے کہا : آہ، ابا جان کو کتنی بےچینی ہے۔ آپ ﷺ نے اس پر فرمایا کہ آج کے بعد تمہارے ابا جان کی یہ بےچینی نہیں رہے گی۔ پھر جب نبی کریم ﷺ کی وفات ہوگئی تو فاطمہ (رض) کہتی تھیں، ہائے ابا جان ! آپ اپنے رب کے بلاوے پر چلے گئے، ہائے ابا جان ! آپ جنت الفردوس میں اپنے مقام پر چلے گئے۔ ہم جبرائیل (علیہ السلام) کو آپ کی وفات کی خبر سناتے ہیں۔ پھر جب نبی کریم ﷺ دفن کر دئیے گئے تو آپ (رض) نے انس (رض) سے کہا انس ! تمہارے دل رسول اللہ ﷺ کی نعش پر مٹی ڈالنے کے لیے کس طرح آمادہ ہوگئے تھے۔
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری کلمہ جو زبان مبارک سے نکلا۔
ہم سے بشر بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن مبارک نے بیان کیا، ان سے یونس نے بیان کیا، ان سے زہری نے بیان کیا، انہیں سعید بن مسیب نے کئی اہل علم کی موجودگی میں خبر دی اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ حالت صحت میں فرمایا کرتے تھے کہ ہر نبی کی روح قبض کرنے سے پہلے انہیں جنت میں ان کی قیام گاہ دکھائی گئی، پھر اختیار دیا گیا۔ پھر جب آپ ﷺ بیمار ہوئے اور آپ کا سر مبارک میری ران پر تھا۔ اس وقت آپ پر غشی طاری ہوگئی۔ جب ہوش میں آئے تو آپ نے اپنی نظر گھر کی چھت کی طرف اٹھا لی اور فرمایا اللهم الرفيق الأعلى اے اللہ ! مجھے اپنی بارگاہ میں انبیاء اور صدیقین سے ملا دے۔ میں اسی وقت سمجھ گئی کہ اب آپ ہمیں پسند نہیں کرسکتے اور مجھے وہ حدیث یاد آگئی جو آپ حالت صحت میں ہم سے بیان کیا کرتے تھے۔ عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ آخری کلمہ جو زبان مبارک سے نکلا وہ یہی تھا کہ اللهم الرفيق الأعلى۔
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا بیان۔
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے شیبان بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے، ان سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے اور ان سے عائشہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم نے کہ نبی کریم ﷺ نے (بعثت کے بعد) مکہ میں دس سال تک قیام کیا۔ جس میں آپ ﷺ پر وحی نازل ہوتی رہی اور مدینہ میں بھی دس سال تک آپ کا قیام رہا۔
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا بیان۔
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ بن زبیر نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی تو آپ کی عمر تریسٹھ سال کی تھی۔ ابن شہاب نے کہا کہ مجھے سعید بن مسیب نے بھی اسی طرح خبر دی تھی۔
ہم سے قبیصہ بن عتبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابراہیم نخعی نے، ان سے اسود بن یزید نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ جب نبی کریم ﷺ کی وفات ہوئی تو آپ کی زرہ ایک یہودی کے یہاں تیس صاع جَو کے بدلے میں گروی رکھی ہوئی تھی۔
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کو مرض الموت میں ایک مہم پر روانہ کرنا۔
ہم سے ابوعاصم ضحاک بن مخلد نے بیان کیا، کہا ہم سے فضیل بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، ان سے سالم نے اور ان سے ان کے والد (عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما) نے کہ نبی کریم ﷺ نے اسامہ بن زید (رض) کو ایک لشکر کا امیر بنایا تو بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے ان کی امارت پر اعتراض کیا۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم اسامہ (رض) پر اعتراض کر رہے ہو حالانکہ وہ مجھے سب سے زیادہ عزیز ہے۔
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کو مرض الموت میں ایک مہم پر روانہ کرنا۔
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن دینار نے اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک لشکر روانہ فرمایا اور اس کا امیر اسامہ بن زید (رض) کو بنایا۔ بعض لوگوں نے ان کی امارت پر اعتراض کیا۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو خطاب کیا اور فرمایا کہ اگر آج تم اس کی امارت پر اعتراض کرتے ہو تو تم اس سے پہلے اس کے والد کی امارت پر اسی طرح اعتراض کرچکے ہو اور اللہ کی قسم ! اس کے والد (زید رضی اللہ عنہ) امارت کے بہت لائق تھے اور مجھے سب سے زیادہ عزیز تھے اور یہ (یعنی اسامہ رضی اللہ عنہ) بھی ان کے بعد مجھے سب سے زیادہ عزیز ہے۔
ہم سے اصبغ بن فرج نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عبداللہ بن وہب نے خبر دی، کہا کہ مجھے عمرو بن حارث نے خبر دی، انہیں عمرو بن ابی حبیب نے، ان سے ابوالخیر نے عبدالرحمٰن بن عسیلہ صنابحی سے، جناب ابوالخیر نے ان سے پوچھا تھا کہ تم نے کب ہجرت کی تھی ؟ انہوں نے بیان کیا کہ ہم ہجرت کے ارادے سے یمن چلے، ابھی ہم مقام جحفہ میں پہنچے تھے کہ ایک سوار سے ہماری ملاقات ہوئی۔ ہم نے ان سے مدینہ کی خبر پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ نبی کریم ﷺ کی وفات کو پانچ دن ہوچکے ہیں میں نے پوچھا تم نے لیلۃ القدر کے بارے میں کوئی حدیث سنی ہے ؟ انہوں نے فرمایا کہ ہاں، نبی کریم ﷺ کے مؤذن بلال (رض) نے مجھے خبر دی ہے کہ لیلۃ القدر رمضان کے آخری عشرہ کے سات دنوں میں (ایک طاق رات) ہوتی ہے۔
باب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کل کتنے غزوے کئے؟
ہم سے عبداللہ بن رجاء نے بیان کیا، انہوں نے بیان کیا ہم سے اسرائیل نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق نے بیان کیا کہ میں نے زید بن ارقم (رض) سے پوچھا کہ نبی کریم ﷺ کے ساتھ تم نے کتنے غزوے کئے تھے ؟ انہوں نے بتایا کہ سترہ۔ میں نے پوچھا اور نبی کریم ﷺ نے کتنے غزوے کئے تھے ؟ فرمایا کہ انیس۔
باب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کل کتنے غزوے کئے؟
ہم سے عبداللہ بن رجاء نے بیان کیا، کہا ہم سے اسرائیل نے بیان کیا، انہوں نے ان سے ابواسحاق نے، کہا ہم سے براء بن عازب (رض) نے کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ پندرہ غزوں میں شریک رہا ہوں۔
باب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کل کتنے غزوے کئے؟
مجھ سے احمد بن حسن نے بیان کیا، کہا ہم سے احمد بن محمد بن حنبل بن ہلال نے بیان کیا، کہا ہم سے معتمر بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے کہمس نے، ان سے عبداللہ بن بریدہ نے اور ان سے ان کے والد (بریدہ بن حصیب رضی اللہ عنہ) نے بیان کیا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سولہ غزووں میں شریک تھے۔