48. تفاسیر کا بیان
باب: سورۃ الفاتحہ کے بارے میں جو آیا ہے اس کا بیان۔
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا کہ مجھ سے خبیب بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، ان سے حفص بن عاصم نے اور ان سے ابوسعید بن معلی (رض) نے بیان کیا کہ میں مسجد میں نماز پڑھ رہا تھا، رسول اللہ ﷺ نے مجھے اسی حالت میں بلایا، میں نے کوئی جواب نہیں دیا (پھر بعد میں، میں نے حاضر ہو کر) عرض کیا : یا رسول اللہ ! میں نماز پڑھ رہا تھا۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیا اللہ تعالیٰ نے تم سے نہیں فرمایا ہے استجيبوا لله وللرسول إذا دعاکم اللہ اور اس کے رسول جب تمہیں بلائیں تو ہاں میں جواب دو ۔ پھر آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ آج میں تمہیں مسجد سے نکلنے سے پہلے ایک ایسی سورت کی تعلیم دوں گا جو قرآن کی سب سے بڑی سورت ہے۔ پھر آپ نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور جب آپ باہر نکلنے لگے تو میں نے یاد دلایا کہ آپ نے مجھے قرآن کی سب سے بڑی سورت بتانے کا وعدہ کیا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا الحمد لله رب العالمين یہی وہ سبع مثانی اور قرآن عظیم ہے جو مجھے عطا کیا گیا ہے۔
باب: آیت «غير المغضوب عليهم ولا الضالين» کی تفسیر۔
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں سمی نے، انہیں ابوصالح نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب امام غير المغضوب عليهم ولا الضالين کہے تو تم آمين. کہو کیونکہ جس کا یہ کہنا ملائکہ کے کہنے کے ساتھ ہوجائے اس کی تمام پچھلی خطائیں معاف ہوجاتی ہیں۔
باب: اللہ تعالیٰ کے ارشاد «وعلم آدم الأسماء كلها» کا بیان۔
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام دستوائی نے بیان کیا، کہا ہم سے قتادہ نے بیان کیا، ان سے انس بن مالک (رض) نے نبی کریم ﷺ سے (دوسری سند) اور مجھ سے خلیفہ بن خیاط نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، کہا ہم سے سعید نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا مومنین قیامت کے دن پریشان ہو کر جمع ہوں گے اور (آپس میں) کہیں گے، بہتر یہ تھا کہ اپنے رب کے حضور میں آج کسی کو ہم اپنا سفارشی بناتے۔ چناچہ سب لوگ آدم (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہونگے اور عرض کریں گے کہ آپ انسانوں کے باپ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے بنایا۔ آپ کے لیے فرشتوں کو سجدہ کا حکم دیا اور آپ کو ہر چیز کے نام سکھائے۔ آپ ہمارے لیے اپنے رب کے حضور میں سفارش کردیں تاکہ آج کی مصیبت سے ہمیں نجات ملے۔ آدم (علیہ السلام) کہیں گے، میں اس کے لائق نہیں ہوں، وہ اپنی لغزش کو یاد کریں گے اور ان کو پروردگار کے حضور میں جانے سے شرم آئے گی۔ کہیں گے کہ تم لوگ نوح (علیہ السلام) کے پاس جاؤ۔ وہ سب سے پہلے نبی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے (میرے بعد) زمین والوں کی طرف مبعوث کیا تھا۔ سب لوگ نوح (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوں گے۔ وہ بھی کہیں گے کہ میں اس قابل نہیں اور وہ اپنے رب سے اپنے سوال کو یاد کریں گے جس کے متعلق انہیں کوئی علم نہیں تھا۔ ان کو بھی شرم آئے گی اور کہیں گے کہ اللہ کے خلیل (علیہ السلام) کے پاس جاؤ۔ لوگ ان کی خدمت میں حاضر ہوں گے لیکن وہ بھی یہی کہیں گے کہ میں اس قابل نہیں، موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جاؤ، ان سے اللہ تعالیٰ نے کلام فرمایا تھا اور تورات دی تھی۔ لوگ ان کے پاس آئیں گے لیکن وہ بھی عذر کردیں گے کہ مجھ میں اس کی جرات نہیں۔ ان کو بغیر کسی حق کے ایک شخص کو قتل کرنا یاد آجائے گا اور اپنے رب کے حضور میں جاتے ہوئے شرم دامن گیر ہوگی۔ کہیں گے تم عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جاؤ، وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول، اس کا کلمہ اور اس کی روح ہیں لیکن عیسیٰ (علیہ السلام) بھی یہی کہیں گے کہ مجھ میں اس کی ہمت نہیں، تم محمد ﷺ کے پاس جاؤ، وہ اللہ کے مقبول بندے ہیں اور اللہ نے ان کے تمام اگلے اور پچھلے گناہ معاف کر دئیے ہیں۔ چناچہ لوگ میرے پاس آئیں گے، میں ان کے ساتھ جاؤں گا اور اپنے رب سے اجازت چاہوں گا۔ مجھے اجازت مل جائے گی، پھر میں اپنے رب کو دیکھتے ہی سجدہ میں گر پڑوں گا اور جب تک اللہ چاہے گا میں سجدہ میں رہوں گا، پھر مجھ سے کہا جائے گا کہ اپنا سر اٹھاؤ اور جو چاہو مانگو، تمہیں دیا جائے گا، جو چاہو کہو تمہاری بات سنی جائے گی۔ شفاعت کرو، تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور اللہ کی وہ حمد بیان کروں گا جو مجھے اس کی طرف سے سکھائی گئی ہوگی۔ اس کے بعد شفاعت کروں گا اور میرے لیے ایک حد مقرر کردی جائے گی۔ میں انہیں جنت میں داخل کراؤں گا چوتھی مرتبہ جب میں واپس آؤں گا تو عرض کروں گا کہ جہنم میں ان لوگوں کے سوا اور کوئی اب باقی نہیں رہا جنہیں قرآن نے ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہنا ضروری قرار دے دیا ہے۔ ابوعبداللہ امام بخاری (رح) نے کہا کہ قرآن کی رو سے دوزخ میں قید رہنے سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے لیے خالدين فيها کہا گیا ہے۔ کہ وہ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ کسی کو اللہ کا شریک مت بناؤ حالانکہ تم جانتے ہو
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے ابو وائل نے، ان سے عمرو بن شرحبیل نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا، اللہ کے نزدیک کون سا گناہ سب سے بڑا ہے ؟ فرمایا اور یہ کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو برابر ٹھہراؤ حالانکہ اللہ ہی نے تم کو پیدا کیا ہے۔ میں نے عرض کیا یہ تو واقعی سب سے بڑا گناہ ہے، پھر اس کے بعد کون سا گناہ سب سے بڑا ہے ؟ فرمایا یہ کہ تم اپنی اولاد کو اس خوف سے مار ڈالو کہ وہ تمہارے ساتھ کھائیں گے۔ میں نے پوچھا اور اس کے بعد ؟ فرمایا یہ کہ تم اپنے پڑوسی کی عورت سے زنا کرو۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور تم پر ہم نے بادل کا سایہ کیا، اور تم پر ہم نے من و سلویٰ اتارا اور کہا کہ کھاؤ ان پاکیزہ چیزوں کو جو ہم نے تمہیں عطا کی ہیں، ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا تھا بلکہ انہوں نے نے خود اپنے نفسوں پر ظلم کیا“۔
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے سفیان نے بیان کیا، ان سے عبدالملک نے، ان سے عمرو بن حریث نے اور ان سے سعید بن زید (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا كمأة (یعنی کھنبی) بھی من کی قسم ہے اور اس کا پانی آنکھ کی دوا ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور جب ہم نے کہا کہ اس بستی میں داخل ہو جاؤ اور پوری کشادگی کے ساتھ جہاں چاہو اپنا رزق کھاؤ اور دروازے سے جھکتے ہوئے داخل ہونا، یوں کہتے ہوئے کہ اے اللہ! ہمارے گناہ معاف کر دے تو ہم تمہارے گناہ معاف کر دیں گے اور خلوص کے ساتھ عمل کرنے والوں کے ثواب میں ہم زیادتی کریں گے“۔
مجھ سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالرحمٰن بن مہدی نے، ان سے عبداللہ بن مبارک نے، ان سے معمر نے، ان سے ہمام بن منبہ نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ بنی اسرائیل کو یہ حکم ہوا تھا کہ شہر کے دروازے میں جھکتے ہوئے داخل ہوں اور حطة کہتے ہوئے (یعنی) اے اللہ ! ہمارے گناہ معاف کر دے۔ لیکن وہ الٹے چوتڑوں کے بل گھسٹتے ہوئے داخل ہوئے اور کلمہ حطة کو بھی بدل دیا اور کہا کہ حبة في شعرة یعنی دل لگی کے طور پر کہنے لگے کہ دانہ بال کے اندر ہونا چاہیے۔
باب: اللہ تعالیٰ کے ارشاد «من كان عدوا لجبريل» کی تفسیر۔
ہم سے عبداللہ بن منیر نے بیان کیا، انہوں نے عبداللہ بن بکر سے سنا، اس نے کہا کہ مجھ سے حمید نے اور ان سے انس (رض) نے بیان کیا کہ جب عبداللہ بن سلام (رض) (جو یہود کے بڑے عالم تھے) نے رسول اللہ ﷺ کی (مدینہ) تشریف لانے کی خبر سنی تو وہ اپنے باغ میں پھل توڑ رہے تھے۔ وہ اسی وقت نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میں آپ سے ایسی تین چیزوں کے متعلق پوچھتا ہوں، جنہیں نبی کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔ بتلائیے ! قیامت کی نشانیوں میں سب سے پہلی نشانی کیا ہے ؟ اہل جنت کی دعوت کے لیے سب سے پہلے کیا چیز پیش کی جائے گی ؟ بچہ کب اپنے باپ کی صورت میں ہوگا اور کب اپنی ماں کی صورت پر ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ مجھے ابھی جبرائیل نے آ کر ان کے متعلق بتایا ہے۔ عبداللہ بن سلام بولے جبرائیل (علیہ السلام) نے ! فرمایا : ہاں، عبداللہ بن سلام نے کہا کہ وہ تو یہودیوں کے دشمن ہیں۔ اس پر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت کی من کان عدوا لجبريل فإنه نزله على قلبک اور ان کے سوالات کے جواب میں فرمایا، قیامت کی سب سے پہلی نشانی ایک آگ ہوگی جو انسانوں کو مشرق سے مغرب کی طرف جمع کر لائے گی۔ اہل جنت کی دعوت میں جو کھانا سب سے پہلے پیش کیا جائے گا وہ مچھلی کے جگر کا بڑھا ہوا حصہ ہوگا اور جب مرد کا پانی عورت کے پانی پر غلبہ کرجاتا ہے تو بچہ باپ کی شکل پر ہوتا ہے اور جب عورت کا پانی مرد کے پانی پر غلبہ کرجاتا ہے تو بچہ ماں کی شکل پر ہوتا ہے۔ عبداللہ بن سلام (رض) بول اٹھے أشهد أن لا إله إلا الله، وأشهد أنک رسول الله. میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ (پھر عرض کیا) یا رسول اللہ ! یہودی بڑی بہتان باز قوم ہے، اگر اس سے پہلے کہ آپ میرے متعلق ان سے کچھ پوچھیں، انہیں میرے اسلام کا پتہ چل گیا تو مجھ پر بہتان تراشیاں شروع کردیں گے۔ بعد میں جب یہودی آئے تو نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا کہ عبداللہ تمہارے یہاں کیسے آدمی سمجھے جاتے ہیں ؟ وہ کہنے لگے، ہم میں سب سے بہتر اور ہم میں سب سے بہتر کے بیٹے ! ہمارے سردار اور ہمارے سردار کے بیٹے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر وہ اسلام لے آئیں پھر تمہارا کیا خیال ہوگا ؟ کہنے لگے، اللہ تعالیٰ اس سے انہیں پناہ میں رکھے۔ اتنے میں عبداللہ بن سلام (رض) نے ظاہر ہو کر کہا أشهد أن لا إله إلا الله، وأن محمدا رسول الله. کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے سچے رسول ہیں۔ اب وہی یہودی ان کے بارے میں کہنے لگے کہ یہ ہم میں سب سے بدتر ہے اور سب سے بدتر شخص کا بیٹا ہے اور ان کی توہین شروع کردی۔ عبداللہ (رض) نے کہا : یا رسول اللہ ! یہی وہ چیز تھی جس سے میں ڈرتا تھا۔
باب: اللہ تعالیٰ کا ارشاد «ما ننسخ من آية أو ننسأها» الآیۃ کی تفسیر۔
ہم سے عمرو بن علی نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے حبیب نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ عمر (رض) نے فرمایا، ہم میں سب سے بہتر قاری قرآن ابی بن کعب (رض) ہیں اور ہم میں سب سے زیادہ علی (رض) میں قضاء یعنی فیصلے کرنے کی صلاحیت ہے۔ اس کے باوجود ہم ابی (رض) کی اس بات کو تسلیم نہیں کرتے جو ابی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے جن آیات کی بھی تلاوت سنی ہے، میں انہیں نہیں چھوڑ سکتا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے ما ننسخ من آية أو ننسأها الخ کہ ہم نے جو آیت بھی منسوخ کی یا اسے بھلایا تو پھر اس سے اچھی آیت لائے۔
باب: اللہ تعالیٰ کے ارشاد «وقالوا اتخذ الله ولدا سبحانه» کی تفسیر میں۔
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں عبداللہ بن ابی حسین نے، ان سے ان سے نافع بن جبیر نے بیان کیا اور ان سے ابن عباس (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے، ابن آدم نے مجھے جھٹلایا حالانکہ اس کے لیے یہ مناسب نہ تھا۔ اس نے مجھے گالی دی، حالانکہ اس کے لیے یہ مناسب نہ تھا۔ اس کا مجھے جھٹلانا تو یہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ میں اسے دوبارہ زندہ کرنے پر قادر نہیں ہوں اور اس کا مجھے گالی دینا یہ ہے کہ میرے لیے اولاد بتاتا ہے، میری ذات اس سے پاک ہے کہ میں اپنے لیے بیوی یا اولاد بناؤں۔
باب: اللہ تعالیٰ کے ارشاد «واتخذوا من مقام إبراهيم مصلى» کی تفسیر۔
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید نے، ان سے حمید طویل نے اور ان سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ عمر (رض) فرمایا، تین مواقع پر اللہ تعالیٰ کے نازل ہونے والے حکم سے میری رائے نے پہلے ہی موافقت کی یا میرے رب نے تین مواقع پر میری رائے کے موافق حکم نازل فرمایا۔ میں نے عرض کیا تھا کہ یا رسول اللہ ! کیا اچھا ہوتا کہ آپ مقام ابراہیم کو طواف کے بعد نماز پڑھنے کی جگہ بناتے تو بعد میں یہی آیت نازل ہوئی۔ اور میں نے عرض کیا تھا کہ یا رسول اللہ ! آپ کے گھر میں اچھے اور برے ہر طرح کے لوگ آتے ہیں۔ کیا اچھا ہوتا کہ آپ امہات المؤمنین کو پردہ کا حکم دے دیتے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت حجاب (پردہ کی آیت) نازل فرمائی اور انہوں نے بیان کیا اور مجھے بعض ازواج مطہرات سے نبی کریم ﷺ کی خفگی کی خبر ملی۔ میں نے ان کے یہاں گیا اور ان سے کہا کہ تم باز آجاؤ، ورنہ اللہ تعالیٰ تم سے بہتر بیویاں نبی کریم ﷺ کے لیے بدل دے گا۔ بعد میں ازواج مطہرات میں سے ایک کے ہاں گیا تو وہ مجھ سے کہنے لگیں کہ عمر ! رسول اللہ ﷺ تو اپنی ازواج کو اتنی نصیحتیں نہیں کرتے جتنی تم انہیں کرتے رہتے ہو۔ آخر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی عسى ربه إن طلقکن أن يبدله أزواجا خيرا منکن مسلمات کوئی تعجب نہ ہونا چاہیے اگر اس نبی کا رب تمہیں طلاق دلا دے اور دوسری مسلمان بیویاں تم سے بہتر بدل دے۔ آخر آیت تک۔ اور ابن ابی مریم نے بیان کیا، انہیں یحییٰ بن ایوب نے خبر دی، ان سے حمید نے بیان کیا اور انہوں نے انس (رض) سے سنا، انہوں نے عمر (رض) سے نقل کیا۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور جب ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام بیت اللہ کی بنیادیں اٹھا رہے تھے (اور یہ دعا کرتے جاتے تھے کہ) اے ہمارے رب! ہماری اس خدمت کو قبول فرما کہ تو خوب سننے والا اور بڑا جاننے والا ہے“۔
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے سالم بن عبداللہ نے، ان سے عبداللہ بن محمد بن ابی بکر نے، ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے اور ان سے نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ عائشہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا دیکھتی نہیں ہو کہ جب تمہاری قوم (قریش) نے کعبہ کی تعمیر کی تو ابراہیم (علیہ السلام) کی بنیادوں سے اسے کم کردیا۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! پھر آپ ابراہیم (علیہ السلام) کی بنیادوں کے مطابق پھر سے کعبہ کی تعمیر کیوں نہیں کروا دیتے۔ آپ ﷺ نے فرمایا اگر تمہاری قوم ابھی نئی نئی کفر سے نکلی نہ ہوتی (تو میں ایسا ہی کرتا) ۔ عبداللہ بن عمر (رض) نے کہا، جب کہ عائشہ (رض) نے کہا کہ میں نے یہ حدیث رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ آپ ﷺ نے ان دو رکنوں کا جو حطیم کے قریب ہیں (طواف کے وقت) چھونا اسی لیے چھوڑا تھا کہ بیت اللہ کی تعمیر ابراہیم (علیہ السلام) کی بنیاد کے مطابق مکمل نہیں تھی۔
باب: اللہ تعالیٰ کے ارشاد «قولوا آمنا بالله وما أنزل إلينا» کی تفسیر۔
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عثمان بن عمر نے بیان کیا، انہیں علی بن مبارک نے خبر دی، انہیں یحییٰ بن ابی کثیر نے، انہیں ابوسلمہ نے کہ ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ اہل کتاب (یہودی) توراۃ کو خود عبرانی زبان میں پڑھتے ہیں لیکن مسلمانوں کے لیے اس کی تفسیر عربی میں کرتے ہیں۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا تم اہل کتاب کی نہ تصدیق کرو اور نہ تم تکذیب کرو بلکہ یہ کہا کرو آمنا بالله وما أنزل إلينا یعنی ہم ایمان لائے اللہ پر اور اس چیز پر جو ہماری طرف نازل کی گئی ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”بہت جلد بیوقوف لوگ کہنے لگیں گے کہ مسلمانوں کو ان کے پہلے قبلہ سے کس چیز نے پھیر دیا، آپ کہہ دیں کہ اللہ ہی کے لیے سب مشرق و مغرب ہے اور اللہ جسے چاہتا ہے سیدھی راہ کی طرف ہدایت کر دیتا ہے“۔
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا میں نے زہیر سے سنا، انہوں نے ابواسحاق سے اور انہوں نے براء بن عازب (رض) سے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیت المقدس کی طرف رخ کر کے سولہ یا سترہ مہینے تک نماز پڑھی لیکن آپ چاہتے تھے کہ آپ کا قبلہ بیت اللہ (کعبہ) ہوجائے (آخر ایک دن اللہ کے حکم سے) آپ نے عصر کی نماز (بیت اللہ کی طرف رخ کر کے) پڑھی اور آپ کے ساتھ بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھی پڑھی۔ جن صحابہ نے یہ نماز آپ کے ساتھ پڑھی تھی، ان میں سے ایک صحابی مدینہ کی ایک مسجد کے قریب سے گزرے۔ اس مسجد میں لوگ رکوع میں تھے، انہوں نے اس پر کہا کہ میں اللہ کا نام لے کر گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مکہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی ہے، تمام نمازی اسی حالت میں بیت اللہ کی طرف پھرگئے۔ اس کے بعد لوگوں نے کہا کہ جو لوگ کعبہ کے قبلہ ہونے سے پہلے انتقال کر گئے، ان کے متعلق ہم کیا کہیں۔ (ان کی نمازیں قبول ہوئیں یا نہیں ؟ ) اس پر یہ آیت نازل ہوئی وما کان الله ليضيع إيمانکم إن الله بالناس لرءوف رحيم اللہ ایسا نہیں کہ تمہاری عبادات کو ضائع کرے، بیشک اللہ اپنے بندوں پر بہت بڑا مہربان اور بڑا رحیم ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور اسی طرح ہم نے تم کو امت وسط (یعنی امت عادل) بنایا، تاکہ تم لوگوں پرگواہ رہو اور رسول تم پر گواہ رہیں“۔
ہم سے یوسف بن راشد نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر اور ابواسامہ نے بیان کیا۔ (حدیث کے الفاظ جریر کی روایت کے مطابق ہیں) ان سے اعمش نے، ان سے ابوصالح نے اور ابواسامہ نے بیان کیا (یعنی اعمش کے واسطہ سے کہ) ہم سے ابوصالح نے بیان کیا اور ان سے ابو سعید خدری (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن نوح (علیہ السلام) کو بلایا جائے گا۔ وہ عرض کریں گے، لبيك وسعديك : یا رب ! اللہ رب العزت فرمائے گا، کیا تم نے میرا پیغام پہنچا دیا تھا ؟ نوح (علیہ السلام) عرض کریں گے کہ میں نے پہنچا دیا تھا، پھر ان کی امت سے پوچھا جائے گا، کیا انہوں نے تمہیں میرا پیغام پہنچا دیا تھا ؟ وہ لوگ کہیں گے کہ ہمارے یہاں کوئی ڈرانے والا نہیں آیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا (نوح (علیہ السلام) سے) کہ آپ کے حق میں کوئی گواہی بھی دے سکتا ہے ؟ وہ کہیں گے کہ محمد ( ﷺ ) اور ان کی امت میری گواہ ہے۔ چناچہ آپ ﷺ کی امت ان کے حق میں گواہی دے گی کہ انہوں نے پیغام پہنچا دیا تھا اور رسول (یعنی آپ ﷺ ) اپنی امت کے حق میں گواہی دیں گے (کہ انہوں نے سچی گواہی دی ہے) یہی مراد ہے اللہ کے اس ارشاد سے وكذلک جعلناکم أمة وسطا لتکونوا شهداء على الناس ويكون الرسول عليكم شهيدا کہ اور اسی طرح ہم نے تم کو امت وسط بنایا تاکہ تم لوگوں کے لیے گواہی دو اور رسول تمہارے لیے گواہی دیں۔ آیت میں لفظ وسط کے معنی عادل، منصف، بہتر کے ہیں۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور جس قبلہ پر آپ اب تک تھے، اسے تو ہم نے اسی لیے رکھا تھا کہ ہم جان لیں رسول کی اتباع کرنے والے کو، الٹے پاؤں واپس چلے جانے والوں میں سے، یہ حکم بہت بھاری ہے مگر ان لوگوں پر نہیں جنہیں اللہ نے راہ دکھا دی ہے اور اللہ ایسا نہیں کہ ضائع ہو جانے دے، تمہارے ایمان (یعنی پہلی نمازوں) کو اور اللہ تو لوگوں پر بڑا مہربان ہے“۔
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، ان سے عبداللہ بن دینار نے اور ان سے ابن عمر (رض) نے کہ لوگ مسجد قباء میں صبح کی نماز پڑھ ہی رہے تھے کہ ایک صاحب آئے اور انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ پر قرآن نازل کیا ہے کہ آپ نماز میں کعبہ کی طرف منہ کریں، لہٰذا آپ لوگ بھی کعبہ کی طرف رخ کرلیں۔ سب نمازی اسی وقت کعبہ کی طرف پھرگئے۔
باب: آیت کی تفسیر ”بیشک ہم نے دیکھ لیا آپ کے منہ کا باربار آسمان کی طرف اٹھنا، سو ہم آپ کو ضرور پھیر دیں گے اس قبلہ کی طرف جسے آپ چاہتے ہیں“ آخر آیت «عما تعملون» تک۔
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے معتمر نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے انس (رض) نے بیان کیا کہ میرے سوا ان صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے جنہوں نے دونوں قبلوں کی طرف نماز پڑھی تھی اور کوئی اب زندہ نہیں رہا۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور اگر آپ ان لوگوں کے سامنے جنہیں کتاب مل چکی ہے، ساری ہی دلیلیں لے آئیں جب بھی یہ آپ کے قبلہ کی طرف منہ نہ کریں گے“ آخر آیت «إنك إذا لمن الظالمين» تک۔
ہم سے خالد بن مخلد نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان نے بیان کیا، کہا مجھ سے عبداللہ بن دینار نے بیان کیا اور ان سے ابن عمر (رض) نے بیان کیا کہ لوگ مسجد قباء میں صبح کی نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک صاحب وہاں آئے اور کہا کہ رات رسول اللہ ﷺ پر قرآن نازل ہوا ہے کہ (نماز میں) کعبہ کی طرف منہ کریں، پس آپ لوگ بھی اب کعبہ کی طرف رخ کرلیں۔ راوی نے بیان کیا کہ لوگوں کا منہ اس وقت شام (بیت المقدس) کی طرف تھا، اسی وقت لوگ کعبہ کی طرف پھرگئے۔
باب: آیت کی تفسیر ”جن لوگوں کو ہم کتاب دے چکے ہیں، وہ آپ کو پہچانتے ہیں جیسے وہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں اور بیشک ان میں کے کچھ لوگ البتہ چھپاتے ہیں حق کو“ آخر آیت «من الممترين» تک۔
ہم سے یحییٰ بن قزعہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن دینار نے اور ان سے ابن عمر (رض) نے بیان کیا کہ لوگ مسجد قباء میں صبح کی نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک صاحب (مدینہ سے) آئے اور کہا کہ رات رسول اللہ ﷺ پر قرآن نازل ہوا ہے اور آپ کو حکم ہوا ہے کہ کعبہ کی طرف منہ کرلیں۔ اس لیے آپ لوگ بھی کعبہ کی طرف پھرجائیں۔ اس وقت ان کا منہ شام کی طرف تھا۔ چناچہ سب نمازی کعبہ کی طرف پھرگئے۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور ہر ایک کے لیے کوئی رخ ہوتا ہے، جدھر وہ متوجہ رہتا ہے، سو تم نیکیوں کی طرف بڑھو، تم جہاں کہیں بھی ہو گے اللہ تم سب کو پا لے گا، بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے“۔
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، ان سے ابواسحاق نے بیان کیا، کہا کہ میں نے براء بن عازب (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ہم نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ سولہ یا سترہ مہینے تک بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں کعبہ کی طرف منہ کرنے کا حکم دیا۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور آپ جس جگہ سے بھی باہر نکلیں نماز میں اپنا منہ مسجد الحرام کی طرف موڑ لیا کریں اور یہ حکم آپ کے پروردگار کی طرف سے بالکل حق ہے اور اللہ اس سے بےخبر نہیں، جو تم کر رہے ہو“۔
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالعزیز بن مسلم نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن دینار نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابن عمر (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ لوگ قباء میں صبح کی نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک صاحب آئے اور کہا کہ رات قرآن نازل ہوا ہے اور کعبہ کی طرف منہ کرلینے کا حکم ہوا ہے۔ اس لیے آپ لوگ بھی کعبہ کی طرف منہ کرلیں اور جس حالت میں ہیں، اسی طرح اس کی طرف متوجہ ہوجائیں (یہ سنتے ہی) تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کعبہ کی طرف متوجہ ہوگئے۔ اس وقت لوگوں کا منہ شام کی طرف تھا۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور آپ جس جگہ سے بھی باہر نکلیں، اپنا منہ بوقت نماز مسجد الحرام کی طرف موڑ لیا کریں اور تم لوگ بھی جہاں کہیں ہو اپنا منہ اس کی طرف موڑ لیا کرو“ «ولعلكم تهتدون» تک۔
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے، ان سے عبداللہ بن دینار نے اور ان سے ابن عمر (رض) نے بیان کیا کہ ابھی لوگ مسجد قباء میں صبح کی نماز پڑھ ہی رہے تھے کہ ایک آنے والے صاحب آئے اور کہا کہ رات کو رسول اللہ ﷺ پر قرآن نازل ہوا ہے اور آپ کو کعبہ کی طرف منہ کرنے کا حکم ہوا ہے۔ اس لیے آپ لوگ بھی اسی طرف منہ کرلیں۔ وہ لوگ شام کی طرف منہ کر کے نماز پڑھ رہے تھے لیکن اسی وقت کعبہ کی طرف پھرگئے۔
باب: آیات کی تفسیر ”صفا اور مروہ بیشک اللہ کی یادگار چیزوں میں سے ہیں، پس جو کوئی بیت اللہ کا حج کرے یا عمرہ کرے اس پر کوئی گناہ نہیں کہ ان دونوں کے درمیان سعی کرے اور جو کوئی خوشی سے اور کوئی نیکی زیادہ کرے سو اللہ تو بڑا قدر دان، بڑا ہی علم رکھنے والا ہے“۔
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ عائشہ (رض) سے پوچھا (ان دنوں میں نوعمر تھا) کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے اس ارشاد کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے إن الصفا والمروة من شعائر الله فمن حج البيت أو اعتمر فلا جناح عليه أن يطوف بهما صفا اور مروہ بیشک اللہ کی یادگار چیزوں میں سے ہیں۔ پس جو کوئی بیت اللہ کا حج کرے یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں کہ ان دونوں کے درمیان آمدورفت (یعنی سعی) کرے۔ میرا خیال ہے کہ اگر کوئی ان کی سعی نہ کرے تو اس پر بھی کوئی گناہ نہیں ہونا چاہیے۔ عائشہ (رض) نے کہا کہ ہرگز نہیں جیسا کہ تمہارا خیال ہے۔ اگر مسئلہ یہی ہوتا تو پھر واقعی ان کے سعی نہ کرنے میں کوئی گناہ نہ تھا۔ لیکن یہ آیت انصار کے بارے میں نازل ہوئی تھی (اسلام سے پہلے) انصار منات بت کے نام سے احرام باندھتے تھے، یہ بت مقام قدید میں رکھا ہوا تھا اور انصار صفا اور مروہ کی سعی کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ جب اسلام آیا تو انہوں نے سعی کے متعلق آپ ﷺ سے پوچھا : اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی إن الصفا والمروة من شعائر الله فمن حج البيت أو اعتمر فلا جناح عليه أن يطوف بهما صفا اور مروہ بیشک اللہ کی یادگار چیزوں میں سے ہیں، سو جو کوئی بیت اللہ کا حج کرے یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی بھی گناہ نہیں کہ ان دونوں کے درمیان (سعی) کرے۔
باب: آیات کی تفسیر ”صفا اور مروہ بیشک اللہ کی یادگار چیزوں میں سے ہیں، پس جو کوئی بیت اللہ کا حج کرے یا عمرہ کرے اس پر کوئی گناہ نہیں کہ ان دونوں کے درمیان سعی کرے اور جو کوئی خوشی سے اور کوئی نیکی زیادہ کرے سو اللہ تو بڑا قدر دان، بڑا ہی علم رکھنے والا ہے“۔
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے عاصم بن سلیمان نے بیان کیا اور انہوں نے انس بن مالک (رض) سے صفا اور مروہ کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے بتایا کہ اسے ہم جاہلیت کے کاموں میں سے سمجھتے تھے۔ جب اسلام آیا تو ہم ان کی سعی سے رک گئے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی إن الصفا والمروة سے ارشاد أن يطوف بهما تک۔ یعنی بیشک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ پس ان کی سعی کرنے میں حج اور عمرہ کے دوران کوئی گناہ نہیں ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو بھی اس کا شریک بنائے ہوئے ہیں“۔
ہم سے عبدان نے بیان کیا، ان سے ابوحمزہ نے، ان سے اعمش نے، ان سے شقیق نے اور ان سے عبداللہ (رض) نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کلمہ ارشاد فرمایا اور میں نے ایک اور بات کہی۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اس حالت میں مرجائے کہ وہ اللہ کے سوا اوروں کو بھی اس کا شریک ٹھہراتا رہا ہو تو وہ جہنم میں جاتا ہے اور میں نے یوں کہا کہ جو شخص اس حالت میں مرے کہ اللہ کا کسی کو شریک نہ ٹھہراتا رہا تو وہ جنت میں جاتا ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”اے ایمان والو! تم پر مقتولوں کے بارے میں بدلہ لینا فرض کر دیا گیا ہے، آزاد کے بدلہ میں آزاد اور غلام کے بدلے میں غلام“ آخر آیت «عذاب أليم» تک۔
ہم سے حمیدی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے عمرو نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے مجاہد سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے ابن عباس (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ بنی اسرائیل میں قصاص یعنی بدلہ تھا لیکن دیت نہیں تھی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس امت سے کہا کہ تم پر مقتولوں کے باب میں قصاص فرض کیا گیا، آزاد کے بدلے میں آزاد اور غلام کے بدلے میں غلام اور عورت کے بدلے میں عورت، ہاں جس کسی کو اس کے فریق مقتول کی طرف سے کچھ معافی مل جائے۔ تو معافی سے مراد یہی دیت قبول کرنا ہے۔ سو مطالبہ معقول اور نرم طریقہ سے ہو اور مطالبہ کو اس فریق کے پاس خوبی سے پہنچایا جائے۔ یہ تمہارے پروردگار کی طرف سے رعایت اور مہربانی ہے۔ یعنی اس کے مقابلہ میں جو تم سے پہلی امتوں پر فرض تھا۔ سو جو کوئی اس کے بعد بھی زیادتی کرے گا، اس کے لیے آخرت میں درد ناک عذاب ہوگا۔ (زیادتی سے مراد یہ ہے کہ) دیت بھی لے لی اور پھر اس کے بعد قتل بھی کردیا۔
باب: آیت کی تفسیر ”اے ایمان والو! تم پر مقتولوں کے بارے میں بدلہ لینا فرض کر دیا گیا ہے، آزاد کے بدلہ میں آزاد اور غلام کے بدلے میں غلام“ آخر آیت «عذاب أليم» تک۔
ہم سے محمد بن عبداللہ انصاری نے بیان کیا، کہا ہم سے حمیدی نے بیان کیا، ان سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کتاب اللہ کا حکم قصاص کا ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”اے ایمان والو! تم پر مقتولوں کے بارے میں بدلہ لینا فرض کر دیا گیا ہے، آزاد کے بدلہ میں آزاد اور غلام کے بدلے میں غلام“ آخر آیت «عذاب أليم» تک۔
مجھ سے عبداللہ بن منیر نے بیان کیا، کہا کہ میں نے عبداللہ بن بکر سہمی سے سنا، ان سے حمید نے بیان کیا اور ان سے انس (رض) نے کہ میری پھوپھی ربیع نے ایک لڑکی کے دانت توڑ دئیے، پھر اس لڑکی سے لوگوں نے معافی کی درخواست کی لیکن اس لڑکی کے قبیلے والے معافی دینے کو تیار نہیں ہوئے اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور قصاص کے سوا اور کسی چیز پر راضی نہیں تھے۔ چناچہ آپ ﷺ نے قصاص کا حکم دے دیا۔ اس پر انس بن نضر (رض) نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! کیا ربیع (رض) کے دانت توڑ دئیے جائیں گے، نہیں، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے، ان کے دانت نہ توڑے جائیں گے۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ انس ! کتاب اللہ کا حکم قصاص کا ہی ہے۔ پھر لڑکی والے راضی ہوگئے اور انہوں نے معاف کردیا۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ کچھ اللہ کے بندے ایسے ہیں کہ اگر وہ اللہ کا نام لے کر قسم کھائیں تو اللہ ان کی قسم پوری کر ہی دیتا ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”اے ایمان والوں! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جیسا کہ ان لوگوں پر فرض کئے گئے تھے جو تم سے پہلے ہو گزرے ہیں تاکہ تم متقی بن جاؤ“۔
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ نے بیان کیا، انہیں نافع نے خبر دی اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ عاشوراء کے دن جاہلیت میں ہم روزہ رکھتے تھے لیکن جب رمضان کے روزے نازل ہوگئے تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جس کا جی چاہے عاشوراء کا روزہ رکھے اور جس کا جی چاہے نہ رکھے۔
باب: آیت کی تفسیر ”اے ایمان والوں! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جیسا کہ ان لوگوں پر فرض کئے گئے تھے جو تم سے پہلے ہو گزرے ہیں تاکہ تم متقی بن جاؤ“۔
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن عیینہ نے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ (رض) نے کہ عاشوراء کا روزہ رمضان کے روزوں کے حکم سے پہلے رکھا جاتا تھا۔ پھر جب رمضان کے روزوں کا حکم نازل ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ جس کا جی چاہے عاشوراء کا روزہ رکھے اور جس کا جی چاہے نہ رکھے۔
باب: آیت کی تفسیر ”اے ایمان والوں! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جیسا کہ ان لوگوں پر فرض کئے گئے تھے جو تم سے پہلے ہو گزرے ہیں تاکہ تم متقی بن جاؤ“۔
مجھ سے محمود نے بیان کیا، کہا ہم کو عبیداللہ نے خبر دی، انہیں اسرائیل نے، انہیں منصور نے، انہیں ابراہیم نے، انہیں علقمہ نے اور ان سے عبداللہ (رض) نے بیان کیا کہ اشعث ان کے یہاں آئے، وہ اس وقت کھانا کھا رہے تھے، اشعث نے کہا کہ آج تو عاشوراء کا دن ہے۔ ابن مسعود (رض) نے کہا کہ ان دنوں میں عاشوراء کا روزہ رمضان کے روزوں کے نازل ہونے سے پہلے رکھا جاتا تھا لیکن جب رمضان کے روزے کا حکم نازل ہوا تو یہ روزہ چھوڑ دیا گیا۔ آؤ تم بھی کھانے میں شریک ہوجاؤ۔
باب: آیت کی تفسیر ”اے ایمان والوں! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جیسا کہ ان لوگوں پر فرض کئے گئے تھے جو تم سے پہلے ہو گزرے ہیں تاکہ تم متقی بن جاؤ“۔
مجھ سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام نے بیان کیا، کہا کہ مجھے میرے والد نے خبر دی اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ عاشوراء کے دن قریش زمانہ جاہلیت میں روزے رکھتے تھے اور نبی کریم ﷺ بھی اس دن روزہ رکھتے تھے۔ جب آپ ﷺ مدینہ تشریف لائے تو یہاں بھی آپ ﷺ نے اس دن روزہ رکھا اور صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھی اس کے رکھنے کا حکم دیا، لیکن جب رمضان کے روزوں کا حکم نازل ہوا تو رمضان کے روزے فرض ہوگئے اور عاشوراء کے روزہ (کی فرضیت) باقی نہیں رہی۔ اب جس کا جی چاہے اس دن بھی روزہ رکھے اور جس کا جی چاہے نہ رکھے۔
باب: آیت کی تفسیر ”یہ روزے گنتی کے چند دنوں میں رکھنے ہیں، پھر تم میں سے جو شخص بیمار ہو یا سفر میں ہو اس پر دوسرے دنوں کا گن رکھنا ہے اور جو لوگ اسے مشکل سے برداشت کر سکیں ان کے ذمہ فدیہ ہے جو ایک مسکین کا کھانا ہے اور جو کوئی خوشی خوشی نیکی کرے اس کے حق میں بہتر ہے اور اگر تم علم رکھتے ہو تو بہتر تمہارے حق میں یہی ہے کہ تم روزے رکھو“۔
مجھ سے اسحاق نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو روح نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم سے زکریا بن اسحاق نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عمرو بن دینار نے بیان کیا، ان سے عطاء نے اور انہوں نے عبداللہ بن عباس (رض) سے سنا وہ یوں قرآت کر رہے تھے وعلى الذين يطوقونه فدية طَعام مسكين (تفعیل سے) فدية طَعام مسكين۔ ابن عباس (رض) نے کہا کہ یہ آیت منسوخ نہیں ہے۔ اس سے مراد بہت بوڑھا مرد یا بہت بوڑھی عورت ہے۔ جو روزے کی طاقت نہ رکھتی ہو، انہیں چاہیے کہ ہر روزہ کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں۔
باب: آیت کی تفسیر میں ”پس تم میں سے جو کوئی اس مہینے کو پائے اسے چاہئیے کہ وہ مہینے بھر روزے رکھے“۔
ہم سے عیاش بن ولید نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالاعلیٰ نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر (رض) نے بیان کیا کہ انھوں نے یوں قرآت کی فدية بغیر تنوین طَعام مساکين بتلایا کہ یہ آیت منسوخ ہے۔
اللہ تعالیٰ کا قول کہ جو شخص رمضان کو پائے وہ پورے مہینے کے روزے رکھے۔
جب یہ آیت نازل ہوئی۔ «وعلى الذين يطيقونه فدية طَعام مسكين» تو جس کا جی چاہتا تھا روزہ چھوڑ دیتا تھا اور اس کے بدلے میں فدیہ دے دیتا تھا۔ یہاں تک کہ اس کے بعد والی آیت نازل ہوئی اور اس نے پہلی آیت کو منسوخ کر دیا۔ ابوعبداللہ ( امام بخاری رحمہ اللہ ) نے کہا کہ بکیر کا انتقال یزید سے پہلے ہو گیا تھا۔ بکیر جو یزید کے شاگرد تھے یزید سے پہلے 120 ھ میں مر گئے تھے۔
باب: آیت کی تفسیر ”جائز کر دیا گیا ہے تمہارے لیے روزوں کی رات میں اپنی بیویوں سے مشغول ہونا، وہ تمہارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو، اللہ کو خبر ہو گئی کہ تم اپنے کو خیانت میں مبتلا کرتے رہتے تھے، پس اس نے تم پر رحمت سے توجہ فرمائی اور تم کو معاف کر دیا، سو اب تم ان سے ملو ملاؤ اور اسے تلاش کرو، جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے“۔
ہم سے عبیداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے اسرائیل نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق نے اور ان سے براء (رض) نے (دوسری سند) اور ہم سے احمد بن عثمان نے بیان کیا، ان سے شریح بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابراہیم بن یوسف نے بیان کا، ان سے ان کے والد نے، ان سے ابواسحاق نے بیان کیا، انہوں نے براء بن عازب (رض) سے سنا کہ جب رمضان کے روزے کا حکم نازل ہوا تو مسلمان پورے رمضان میں اپنی بیویوں کے قریب نہیں جاتے تھے اور کچھ لوگوں نے اپنے کو خیانت میں مبتلا کرلیا تھا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی علم الله أنكم کنتم تختانون أنفسکم فتاب عليكم وعفا عنکم اللہ نے جان لیا کہ تم اپنے کو خیانت میں مبتلا کرتے رہتے تھے۔ پس اس نے تم پر رحمت سے توجہ فرمائی اور تم کو معاف کردیا۔
باب: آیت کی تفسیر ”کھاؤ اور پیو جب تک کہ تم پر صبح کی سفید دھاری رات کی سیاہ دھاری سے ممتاز نہ ہو جائے، پھر روزے کو رات (ہونے) تک پورا کرو اور بیویوں سے اس حال میں صحبت نہ کرو جب تم اعتکاف کئے ہو مسجدوں میں“ آخر آیت «تتقون» تک۔
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے حصین بن عبدالرحمٰن نے، ان سے عامر شعبی نے عدی بن حاتم (رض) سے، انہوں نے بیان کیا کہ انھوں نے ایک سفید دھاگا اور ایک سیاہ دھاگا لیا (اور سوتے ہوئے اپنے ساتھ رکھ لیا) ۔ جب رات کا کچھ حصہ گزر گیا تو انہوں نے اسے دیکھا، وہ دونوں میں تمیز نہیں ہوئی۔ جب صبح ہوئی تو عرض کیا : یا رسول اللہ ! میں نے اپنے تکئے کے نیچے (سفید و سیاہ دھاگے رکھے تھے اور کچھ نہیں ہوا) تو نبی کریم ﷺ نے اس پر بطور مذاق کے فرمایا کہ پھر تو تمہارا تکیہ بہت لمبا چوڑا ہوگا کہ صبح کا سفیدی خط اور سیاہ خط اس کے نیچے آگیا تھا۔
باب: آیت کی تفسیر ”کھاؤ اور پیو جب تک کہ تم پر صبح کی سفید دھاری رات کی سیاہ دھاری سے ممتاز نہ ہو جائے، پھر روزے کو رات (ہونے) تک پورا کرو اور بیویوں سے اس حال میں صحبت نہ کرو جب تم اعتکاف کئے ہو مسجدوں میں“ آخر آیت «تتقون» تک۔
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے مطرف نے بیان کیا، ان سے شعبی نے بیان کیا اور ان سے عدی بن حاتم (رض) نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! (آیت میں) الخيط الأبيض اور الخيط الأسود سے کیا مراد ہے ؟ کیا ان سے مراد دو دھاگے ہیں ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تمہاری کھوپڑی پھر تو بڑی لمبی چوڑی ہوگی۔ اگر تم نے رات کو دو دھاگے دیکھے ہیں۔ پھر فرمایا کہ ان سے مراد رات کی سیاہی اور صبح کی سفیدی ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”کھاؤ اور پیو جب تک کہ تم پر صبح کی سفید دھاری رات کی سیاہ دھاری سے ممتاز نہ ہو جائے، پھر روزے کو رات (ہونے) تک پورا کرو اور بیویوں سے اس حال میں صحبت نہ کرو جب تم اعتکاف کئے ہو مسجدوں میں“ آخر آیت «تتقون» تک۔
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابوغسان محمد بن مطرف نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے ابوحازم سلمہ بن دینار نے بیان کیا، ان سے سہل بن سعد (رض) نے بیان کیا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی کہ وکلوا واشربوا حتى يتبين لکم الخيط الأبيض من الخيط الأسود اور من الفجر کے الفاظ ابھی نازل نہیں ہوئے تھے تو کئی لوگ جب روزہ رکھنے کا ارادہ کرتے تو اپنے دونوں پاؤں میں سفید اور سیاہ دھاگا باندھ لیتے اور پھر جب تک وہ دونوں دھاگے صاف دکھائی دینے نہ لگ جاتے برابر کھاتے پیتے رہتے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے من الفجر کے الفاظ اتارے تب ان کو معلوم ہوا کہ کالے دھاگے سے رات اور سفید دھاگے سے دن مراد ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور یہ تو کوئی بھی نیکی نہیں کہ تم گھروں میں ان کی پچھلی دیوار کی طرف سے آؤ، البتہ نیکی یہ ہے کہ کوئی شخص تقویٰ اختیار کرے اور گھروں میں ان کے دروازوں سے آؤ اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم فلاح پا جاؤ“۔
ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ان سے اسرائیل نے، ان سے ابواسحاق نے اور ان سے براء بن عازب (رض) نے بیان کیا کہ جب لوگ جاہلیت میں احرام باندھ لیتے تو گھروں میں پیچھے کی طرف سے چھت پر چڑھ کر داخل ہوتے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی وليس البر بأن تأتوا البيوت من ظهورها ولکن البر من اتقى وأتوا البيوت من أبوابها کہ اور یہ نیکی نہیں ہے کہ تم گھروں میں ان کے پیچھے کی طرف سے آؤ، البتہ نیکی یہ ہے کہ کوئی شخص تقویٰ اختیار کرے اور گھروں میں ان کے دروازوں سے آؤ۔
باب: آیت کی تفسیر اور ”ان کافروں سے لڑو، یہاں تک کہ فتنہ (شرک) باقی نہ رہ جائے اور دین اللہ ہی کے لیے رہ جائے، سو اگر وہ باز آ جائیں تو سختی کسی پر بھی نہیں بجز (اپنے حق میں) ظلم کرنے والوں کے“۔
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوہاب نے بیان کیا، کہا ہم سے عبیداللہ عمری نے بیان کیا، ان سے نافع نے ابن عمر (رض) سے کہ ان کے پاس ابن زبیر (رض) کے فتنے کے زمانہ میں (جب ان پر حجاج ظالم نے حملہ کیا اور مکہ کا محاصرہ کیا) دو آدمی (علاء بن عرار اور حبان سلمی) آئے اور کہا کہ لوگ آپس میں لڑ کر تباہ ہو رہے ہیں۔ آپ عمر (رض) کے صاحبزادے اور رسول اللہ ﷺ کے صحابی ہیں پھر آپ کیوں خاموش ہیں ؟ اس فساد کو رفع کیوں نہیں کرتے ؟ ابن عمر (رض) نے کہا کہ میری خاموشی کی وجہ صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میرے کسی بھی بھائی مسلمان کا خون مجھ پر حرام قرار دیا ہے۔ اس پر انہوں نے کہا : کیا اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد نہیں فرمایا ہے وقاتلوهم حتى لا تکون فتنة کہ اور ان سے لڑو یہاں تک کہ فساد باقی نہ رہے۔ ابن عمر (رض) نے فرمایا کہ ہم (قرآن کے حکم کے مطابق) لڑے ہیں، یہاں تک کہ فتنہ یعنی شرک و کفر باقی نہیں رہا اور دین خالص اللہ کے لیے ہوگیا، لیکن تم لوگ چاہتے ہو کہ تم اس لیے لڑو کہ فتنہ اور فساد پیدا ہو اور دین اسلام ضعیف ہو، کافروں کو جیت ہو اور اللہ کے برخلاف دوسروں کا حکم سنا جائے۔ اور عثمان بن صالح نے زیادہ بیان کیا کہ ان سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، انہیں فلاں شخص عبداللہ بن ربیعہ اور حیوہ بن شریح نے خبر دی، انہیں بکر بن عمرو معافری نے، ان سے بکیر بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے نافع نے کہ ایک شخص (حکیم) ابن عمر (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ اے ابوعبدالرحمٰن ! تم کو کیا ہوگیا ہے کہ تم ایک سال حج کرتے ہو اور ایک سال عمرہ اور اللہ عزوجل کے راستے میں جہاد میں شریک نہیں ہوتے۔ آپ کو خود معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جہاد کی طرف کتنی رغبت دلائی ہے۔ ابن عمر (رض) نے فرمایا کہ میرے بھتیجے ! اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا، پانچ وقت کی نماز پڑھنا، رمضان کے روزے رکھنا، زکوٰۃ دینا اور حج کرنا۔ انہوں نے کہا : اے ابا عبدالرحمٰن ! کتاب اللہ میں جو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کیا آپ کو وہ معلوم نہیں ہے وإن طائفتان من المؤمنين اقتتلوا فأصلحوا بينهما کہ مسلمانوں کی دو جماعتیں اگر آپس میں جنگ کریں تو ان میں صلح کراؤ۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد إلى أمر الله تک (اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد کہ ان سے جنگ کرو) یہاں تک کہ فساد باقی نہ رہے۔ ابن عمر (رض) بولے کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد میں ہم یہ فرض انجام دے چکے ہیں اس وقت مسلمان بہت تھوڑے تھے، کافروں کا ہجوم تھا تو کافر لوگ مسلمانوں کا دین خراب کرتے تھے، کہیں مسلمانوں کو مار ڈالتے، کہیں تکلیف دیتے یہاں تک کہ مسلمان بہت ہوگئے فتنہ جاتا رہا۔ پھر اس شخص نے پوچھا اچھا یہ تو کہو کہ عثمان اور علی (رض) کے بارے میں تمہارا کیا اعتقاد ہے۔ انہوں نے کہا عثمان (رض) کا قصور اللہ نے معاف کردیا لیکن تم اس معافی کو اچھا نہیں سمجھتے ہو۔ اب رہے علی (رض) تو وہ نبی کریم ﷺ کے چچا زاد بھائی اور آپ کے داماد تھے اور ہاتھ کے اشارے سے بتلایا کہ یہ دیکھو ان کا گھر نبی کریم ﷺ کے گھر سے ملا ہوا ہے۔
None
پھر اس شخص نے پوچھا اچھا یہ تو کہو کہ عثمان اور علی رضی اللہ عنہما کے بارے میں تمہارا کیا اعتقاد ہے۔ انہوں نے کہا عثمان رضی اللہ عنہ کا قصور اللہ نے معاف کر دیا لیکن تم اس معافی کو اچھا نہیں سمجھتے ہو۔ اب رہے علی رضی اللہ عنہ تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی اور آپ کے داماد تھے اور ہاتھ کے اشارے سے بتلایا کہ یہ دیکھو ان کا گھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر سے ملا ہوا ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور اللہ کی راہ میں خرچ کرتے رہو اور اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں سے ہلاکت میں نہ ڈالو اور اچھے کام کرتے رہو، اللہ اچھے کام کرنے والوں کو پسند کرتا ہے“۔
ہم سے اسحاق نے بیان کیا، کہا ہم کو نضر نے خبر دی، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے سلیمان نے بیان کیا، انہوں نے ابو وائل سے سنا اور ان سے حذیفہ (رض) نے بیان کیا کہ اور اللہ کی راہ میں خرچ کرتے رہو اور اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں سے ہلاکت میں نہ ڈالو۔ اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔
باب: آیت کی تفسیر ”لیکن اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہو، اس پر ایک مسکین کا کھلانا بطور فدیہ ضروری ہے“۔
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے، ان سے عبدالرحمٰن بن اصبہانی نے، کہا میں نے عبداللہ بن معقل سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں کعب بن عجرہ (رض) کی خدمت میں اس مسجد میں حاضر ہوا، ان کی مراد کوفہ کی مسجد سے تھی اور ان سے روزے کے فدیہ کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے بیان کیا کہ مجھے احرام میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لوگ لے گئے اور جوئیں (سر سے) میرے چہرے پر گر رہی تھیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میرا خیال یہ نہیں تھا کہ تم اس حد تک تکلیف میں مبتلا ہوگئے ہو تم کوئی بکری نہیں مہیا کرسکتے ؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں۔ فرمایا، پھر تین دن کے روزے رکھ لو یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلا دو ، ہر مسکین کو آدھا صاع کھانا کھلانا اور اپنا سر منڈوا لو۔ کعب (رض) نے کہا تو یہ آیت خاص میرے بارے میں نازل ہوئی تھی اور اس کا حکم تم سب کے لیے عام ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”تو پھر جو شخص حج کو عمرہ کے ساتھ ملا کر فائدہ اٹھائے“۔
ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے عمران ابی بکر نے، ان سے ابورجاء نے بیان کیا اور ان سے عمران بن حصین (رض) نے بیان کیا کہ (حج میں) تمتع کا حکم قرآن میں نازل ہوا اور ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تمتع کے ساتھ (حج) کیا، پھر اس کے بعد قرآن نے اس سے نہیں روکا اور نہ اس سے نبی کریم ﷺ نے روکا، یہاں تک کہ آپ کی وفات ہوگئی (لہٰذا تمتع اب بھی جائز ہے) یہ تو ایک صاحب نے اپنی رائے سے جو چاہا کہہ دیا ہے۔
باب: آیت «ليس عليكم جناح أن تبتغوا فضلا من ربكم» کی تفسیر۔
مجھ سے محمد نے بیان کیا، کہا کہ مجھے ابن عیینہ نے خبر دی، انہیں عمرو نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ عکاظ، مجنہ اور ذوالمجاز زمانہ جاہلیت کے بازار (میلے) تھے، اس لیے (اسلام کے بعد) موسم حج میں صحابہ رضی اللہ عنہم نے وہاں کاروبار کو برا سمجھا تو آیت نازل ہوئی ليس عليكم جناح أن تبتغوا فضلا من ربکم کہ تمہیں اس بارے میں کوئی حرج نہیں کہ تم اپنے پروردگار کے یہاں سے تلاش معاش کرو۔ یعنی موسم حج میں تجارت کے لیے مذکورہ منڈیوں میں جاؤ۔
باب: آیت کی تفسیر ”پھر تم بھی وہاں جا کر لوٹ آؤ جہاں سے لوگ لوٹ آتے ہیں“۔
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے محمد بن حازم نے بیان کیا، ان سے ہشام نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ (رض) نے کہ قریش اور ان کے طریقے کی پیروی کرنے والے عرب (حج کے لیے) مزدلفہ میں ہی وقوف کیا کرتے تھے، اس کا نام انہوں الحمس رکھا تھا اور باقی عرب عرفات کے میدان میں وقوف کرتے تھے۔ پھر جب اسلام آیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم ﷺ کو حکم دیا کہ آپ عرفات میں آئیں اور وہیں وقوف کریں اور پھر وہاں سے مزدلفہ آئیں۔ آیت ثم أفيضوا من حيث أفاض الناس سے یہی مراد ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”پھر تم بھی وہاں جا کر لوٹ آؤ جہاں سے لوگ لوٹ آتے ہیں“۔
مجھ سے محمد بن ابی بکر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے فضیل بن سلیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ کو کریب نے خبر دی اور انہوں نے عبداللہ بن عباس (رض) سے بیان کیا کہ (جو کوئی تمتع کرے عمرہ کر کے احرام کھول ڈالے وہ) جب تک حج کا احرام نہ باندھے بیت اللہ کا نفل طواف کرتا رہے۔ جب حج کا احرام باندھے اور عرفات جانے کو سوار ہو تو حج کے بعد جو قربانی ہو سکے وہ کرے، اونٹ ہو یا گائے یا بکری۔ ان تینوں میں سے جو ہو سکے اگر قربانی میسر نہ ہو تو تین روزے حج کے دنوں میں رکھے عرفہ کے دن سے پہلے اگر آخری روزہ عرفہ کے دن آجائے تب بھی کوئی قباحت نہیں۔ شہر مکہ سے چل کر عرفات کو جائے وہاں عصر کی نماز سے رات کی تاریکی ہونے تک ٹھہرے، پھر عرفات سے اس وقت لوٹے جب دوسرے لوگ لوٹیں اور سب لوگوں کے ساتھ رات مزدلفہ میں گزارے اور اللہ کی یاد، تکبیر اور تہلیل بہت کرتا رہے صبح ہونے تک۔ صبح کو لوگوں کے ساتھ مزدلفہ سے منیٰ کو لوٹے جیسے اللہ نے فرمایا ثم أفيضوا من حيث أفاض الناس واستغفروا الله إن الله غفور رحيم یعنی کنکریاں مارنے تک اسی طرح اللہ کی یاد اور تکبیر و تہلیل کرتے رہو۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور کچھ ان میں ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! ہم کو دنیا میں بہتری دے اور آخرت میں بھی بہتری دے اور ہم کو دوزخ کے عذاب سے بچائیو“۔
ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، ان سے عبدالعزیز نے اور ان سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ دعا کرتے تھے اللهم ربنا آتنا في الدنيا حسنة وفي الآخرة حسنة وقنا عذاب النار اے پروردگار ! ہمارے ! ہم کو دنیا میں بھی بہتری دے اور آخرت میں بھی بہتری اور ہم کو دوزخ کے عذاب سے بچائیو۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد کہ وہ بہت سخت جھگڑالو ہے کی تفسیر کا بیان
اور عبداللہ (عبداللہ بن ولید عدنی) نے بیان کیا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، کہا مجھ سے ابن جریج نے بیان کیا، ان سے ابن ابی ملیکہ نے، ان سے عائشہ (رض) نے اور ان سے نبی کریم ﷺ نے فرمایا (وہی حدیث جو اوپر گزری) ۔
باب: آیت کی تفسیر ”کیا تم یہ گمان رکھتے ہو کہ جنت میں داخل ہو جاؤ گے، حالانکہ ابھی تم کو ان لوگوں جیسے حالات پیش نہیں آئے جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں، انہیں تنگی اور سختی پیش آئی“ آخر آیت «قريب» تک۔
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو ہشام نے خبر دی، ان سے ابن جریج نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابن ابی ملیکہ سے سنا، بیان کیا کہ ابن عباس (رض) سورة یوسف کی آیت حتى إذا استيأس الرسل وظنوا أنهم قد کذبوا (میں کذبوا کو ذال کی) تخفیف کے ساتھ قرآت کیا کرتے تھے۔ آیت کا جو مفہوم وہ مراد لے سکتے تھے لیا، اس کے بعد یوں تلاوت کرتے حتى يقول الرسول والذين آمنوا معه متى نصر الله ألا إن نصر الله قريب پھر میری ملاقات عروہ بن زبیر سے ہوئی، تو میں نے ان سے ابن عباس (رض) کی تفسیر کا ذکر کیا۔ انھوں نے بیان کیا کہ عائشہ (رض) تو کہتی تھیں اللہ کی پناہ ! پیغمبر، تو جو وعدہ اللہ نے ان سے کیا ہے اس کو سمجھتے ہیں کہ وہ مرنے سے پہلے ضرور پورا ہوگا۔ بات یہ کہ ہے پیغمبروں کی آزمائش برابر ہوتی رہی ہے۔ (مدد آنے میں اتنی دیر ہوئی) کہ پیغمبر ڈر گئے۔ ایسا نہ ہو ان کی امت کے لوگ ان کو جھوٹا سمجھ لیں تو عائشہ (رض) اس آیت سورة یوسف) کو یوں پڑھتی تھیں وظنوا أنهم قد کذبوا (ذال کی تشدید کے ساتھ) ۔
باب: آیت کی تفسیر ”تمہاری بیویاں تمہاری کھیتی ہیں، سو تم اپنے کھیت میں آؤ جس طرح سے چاہو اور اپنے حق میں آخرت کے لیے کچھ نیکیاں کرتے رہو“۔
ہم سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا، کہا ہم کو نضر بن شمیل نے خبر دی، کہا ہم کو عبداللہ ابن عون نے خبر دی، ان سے نافع نے بیان کیا کہ جب ابن عمر (رض) قرآن پڑھتے تو اور کوئی لفظ زبان پر نہیں لاتے یہاں تک کہ تلاوت سے فارغ ہوجاتے۔ ایک دن میں (قرآن مجید لے کر) ان کے سامنے بیٹھ گیا اور انہوں نے سورة البقرہ کی تلاوت شروع کی۔ جب اس آیت نساؤكم حرث لكم الخ پر پہنچے تو فرمایا، معلوم ہے یہ آیت کس کے بارے میں نازل ہوئی تھی ؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں، فرمایا کہ فلاں فلاں چیز (یعنی عورت سے پیچھے کی طرف سے جماع کرنے کے بارے میں) نازل ہوئی تھی اور پھر تلاوت کرنے لگے۔ اور عبدالصمد بن عبدالوارث سے روایت ہے، ان سے ان کے والد نے بیان کیا، ان سے ایوب نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر (رض) نے کہ آیت فأتوا حرثکم أنى شئتم سو تم اپنے کھیت میں آؤ جس طرح چاہو۔ کے بارے میں فرمایا کہ (پیچھے سے بھی) آسکتا ہے۔ اور اس حدیث کو محمد بن یحییٰ بن سعید بن قطان نے بھی اپنے والد سے، انہوں نے عبیداللہ سے، انہوں نے نافع سے اور انہوں نے عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت کیا ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”تمہاری بیویاں تمہاری کھیتی ہیں، سو تم اپنے کھیت میں آؤ جس طرح سے چاہو اور اپنے حق میں آخرت کے لیے کچھ نیکیاں کرتے رہو“۔
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے محمد بن منکدر نے اور انہوں نے جابر (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ یہودی کہتے تھے کہ اگر عورت سے ہمبستری کے لیے کوئی پیچھے سے آئے گا تو بچہ بھینگا پیدا ہوگا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی نساؤكم حرث لکم فأتوا حرثکم أنى شئتم کہ تمہاری بیویاں تمہاری کھیتی ہیں، سو اپنے کھیت میں آؤ جدھر سے چاہو۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور جب تم عورتوں کو طلاق دے چکو اور پھر وہ اپنی مدت کو پہنچ چکیں تو تم انہیں اس سے مت روکو کہ وہ اپنے پہلے شوہر سے پھر نکاح کر لیں“۔
ہم سے عبیداللہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعامر عقدی نے بیان کیا، کہا ہم سے عباد بن راشد نے بیان کیا، کہا ہم سے حسن نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے معقل بن یسار (رض) نے بیان کیا، انہوں نے بیان کیا کہ میری ایک بہن تھیں۔ ان کو ان کے اگلے خاوند نے نکاح کا پیغام دیا۔ (دوسری سند) اور ابراہیم بن طہمان نے بیان کیا، ان سے یونس نے، ان سے امام حسن بصری نے اور ان سے معقل بن یسار (رض) نے بیان کیا۔ (تیسری سند) اور امام بخاری (رح) نے کہا کہ ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، کہا ہم سے یونس نے بیان کیا اور ان سے امام حسن بصری نے کہ معقل بن یسار (رض) کی بہن کو ان کے شوہر نے طلاق دے دی تھی لیکن جب عدت گزر گئی اور طلاق بائن ہوگئی تو انہوں نے پھر ان کے لیے پیغام نکاح بھیجا۔ معقل (رض) نے اس پر انکار کیا، مگر عورت چاہتی تھی تو یہ آیت نازل ہوئی فلا تعضلوهن أن ينكحن أزواجهن کہ تم انہیں اس سے مت روکو کہ وہ اپنے پہلے شوہر سے دوبارہ نکاح کریں۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور تم میں سے جو لوگ وفات پا جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ بیویاں اپنے آپ کو چار مہینے اور دس دن تک روکے رکھیں“ آخر آیت «بما تعملون خبير» تک۔
ہم سے امیہ بن بسطام نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن زریع نے، ان سے حبیب نے، ان سے ابن ابی ملیکہ نے اور ان سے عبداللہ بن زبیر (رض) نے بیان کیا کہ میں نے آیت والذين يتوفون منکم ويذرون أزواجا یعنی اور تم میں سے جو لوگ وفات پا جاتے ہیں اور بیویاں چھوڑ جاتے ہیں۔ کے متعلق عثمان (رض) سے عرض کیا کہ اس آیت کو دوسری آیت نے منسوخ کردیا ہے۔ اس لیے آپ اسے (مصحف میں) نہ لکھیں یا (یہ کہا کہ) نہ رہنے دیں۔ اس پر عثمان (رض) نے کہا کہ بیٹے ! میں (قرآن کا) کوئی حرف اس کی جگہ سے نہیں ہٹا سکتا۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور تم میں سے جو لوگ وفات پا جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ بیویاں اپنے آپ کو چار مہینے اور دس دن تک روکے رکھیں“ آخر آیت «بما تعملون خبير» تک۔
ہم سے امیہ بن بسطام نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن زریع نے، ان سے حبیب نے، ان سے ابن ابی ملیکہ نے اور ان سے عبداللہ بن زبیر (رض) نے بیان کیا کہ میں نے آیت والذين يتوفون منکم ويذرون أزواجا یعنی اور تم میں سے جو لوگ وفات پا جاتے ہیں اور بیویاں چھوڑ جاتے ہیں۔ کے متعلق عثمان (رض) سے عرض کیا کہ اس آیت کو دوسری آیت نے منسوخ کردیا ہے۔ اس لیے آپ اسے (مصحف میں) نہ لکھیں یا (یہ کہا کہ) نہ رہنے دیں۔ اس پر عثمان (رض) نے کہا کہ بیٹے ! میں (قرآن کا) کوئی حرف اس کی جگہ سے نہیں ہٹا سکتا۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور تم میں سے جو لوگ وفات پا جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ بیویاں اپنے آپ کو چار مہینے اور دس دن تک روکے رکھیں“ آخر آیت «بما تعملون خبير» تک۔
ہم سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا، کہا ہم سے روح بن عبادہ نے بیان کیا، کہا ہم سے شبل بن عباد نے بیان کیا، ان سے ابن ابی نجیح نے اور انہوں نے مجاہد سے آیت والذين يتوفون منکم ويذرون أزواجا اور تم میں سے جو لوگ وفات پا جاتے ہیں اور بیویاں چھوڑ جاتے ہیں۔ کے بارے میں (زمانہ جاہلیت کی طرح) کہا کہ عدت (یعنی چار مہینے دس دن کی) تھی جو شوہر کے گھر عورت کو گزارنی ضروری تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی والذين يتوفون منکم ويذرون أزواجا وصية لأزواجهم متاعا إلى الحول غير إخراج فإن خرجن فلا جناح عليكم فيما فعلن في أنفسهن من معروف اور جو لوگ تم میں سے وفات پاجائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں ان کو چاہیے کہ اپنی بیویوں کے حق میں نفع اٹھانے کی وصیت (کر جائیں) کہ وہ ایک سال تک گھر سے نہ نکالی جائیں، لیکن اگر وہ (خود) نکل جائیں تو کوئی گناہ تم پر نہیں۔ اگر وہ دستور کے موافق اپنے لیے کوئی کام کریں۔ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کے لیے سات مہینے اور بیس دن وصیت کے قرار دیئے کہ اگر وہ اس مدت میں چاہے تو اپنے لیے وصیت کے مطابق (شوہر کے گھر میں ہی) ٹھہرے اور اگر چاہے تو کہیں اور چلی جائے کہ اگر ایسی عورت کہیں اور چلی جائے تو تمہارے حق میں کوئی گناہ نہیں۔ پس عدت کے ایام تو وہی ہیں جنہیں گزارنا اس پر ضروری ہے (یعنی چار مہینے دس دن) ۔ شبل نے کہا ابن ابی نجیح نے مجاہد سے ایسا ہی نقل کیا ہے اور عطا بن ابی رباح نے کہا کہ ابن عباس (رض) نے کہا، اس آیت نے اس رسم کو منسوخ کردیا کہ عورت اپنے خاوند کے گھر والوں کے پاس عدت گزارے۔ اس آیت کی رو سے عورت کو اختیار ملا جہاں چاہے وہاں عدت گزارے اور اللہ پاک کے قول غير إخراج کا یہی مطلب ہے۔ عطا نے کہا، عورت اگر چاہے تو اپنے خاوند کے گھر والوں میں عدت گزارے اور خاوند کی وصیت کے موافق اسی کے گھر میں رہے اور اگر چاہے تو وہاں سے نکل جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا فلا جناح عليكم فيما فعلن اگر وہ نکل جائیں تو دستور کے موافق اپنے حق میں جو بات کریں اس میں کوئی گناہ تم پر نہ ہوگا۔ عطاء نے کہا کہ پھر میراث کا حکم نازل ہوا جو سورة نساء میں ہے اور اس نے (عورت کے لیے) گھر میں رکھنے کے حکم کو منسوخ قرار دیا۔ اب عورت جہاں چاہے عدت گزار سکتی ہے۔ اسے مکان کا خرچہ دینا ضروری نہیں اور محمد بن یوسف نے روایت کیا، ان سے ورقاء بن عمرو نے بیان کیا، ان سے ابن ابی نجیح نے اور ان سے مجاہد نے، یہی قول بیان کیا اور فرزندان ابن ابی نجیح سے نقل کیا، ان سے عطاء بن ابی رباح نے بیان کیا اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ اس آیت نے صرف شوہر کے گھر میں عدت کے حکم کو منسوخ قرار دیا ہے۔ اب وہ جہاں چاہے عدت گزار سکتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد غير إخراج وغیرہ سے ثابت ہے۔
باب: آیت کی تفسیر یعنی ”سب ہی نمازوں کی حفاظت رکھو اور درمیانی نماز کی پابندی خاص طور پر لازم پکڑو“۔
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن ہارون نے بیان کیا، ان سے ہشام بن حسان نے بیان کیا، ان سے محمد بن سیرین نے، ان سے عبیدہ نے اور ان سے علی (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ (دوسری سند) امام بخاری نے کہا کہ مجھ سے عبدالرحمٰن بن بشیر بن حکم نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے ہشام بن حسان نے، کہا کہ مجھ سے محمد بن سیرین نے بیان کیا، ان سے عبیدہ بن عمرو نے اور ان سے علی (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے غزوہ خندق کے موقع پر فرمایا تھا، ان کفار نے ہمیں درمیانی نماز نہیں پڑھنے دی، یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا، اللہ ان کی قبروں اور گھروں کو یا ان کے پیٹوں کو آگ سے بھر دے۔ قبروں اور گھروں یا پیٹوں کے لفظوں میں شک یحییٰ بن سعید راوی کی طرف سے ہے۔
باب: آیت «وقوموا لله قانتين» کی تفسیر «قانتين» بمعنی «مطيعين» یعنی فرمانبردار۔
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا، ان سے اسماعیل بن ابی خالد نے، ان سے حارث بن شبل نے، ان سے ابوعمرو شیبانی نے اور ان سے زید بن ارقم (رض) نے بیان کیا کہ پہلے ہم نماز پڑھتے ہوئے بات بھی کرلیا کرتے تھے، کوئی بھی شخص اپنے دوسرے بھائی سے اپنی کسی ضرورت کے لیے بات کرلیتا تھا۔ یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى وقوموا لله قانتين سب ہی نمازوں کی پابندی رکھو اور خاص طور پر بیچ والی نماز کی اور اللہ کے سامنے فرماں برداروں کی طرح کھڑے ہوا کرو۔ اس آیت کے ذریعہ ہمیں نماز میں چپ رہنے کا حکم دیا گیا۔
None
جب عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے نماز خوف کے متعلق پوچھا جاتا تو وہ فرماتے کہ امام مسلمانوں کی ایک جماعت کو لے کر خود آگے بڑھے اور انہیں ایک رکعت نماز پڑھائے۔ اس دوران میں مسلمانوں کی دوسری جماعت ان کے اور دشمن کے درمیان میں رہے۔ یہ لوگ نماز میں ابھی شریک نہ ہوں، پھر جب امام ان لوگوں کو ایک رکعت پڑھا چکے جو پہلے اس کے ساتھ تھے تو اب یہ لوگ پیچھے ہٹ جائیں اور ان کی جگہ لے لیں، جنہوں نے اب تک نماز نہیں پڑھی ہے، لیکن یہ لوگ سلام نہ پھیریں۔ اب وہ لوگ آگے بڑھیں جنہوں نے نماز نہیں پڑھی ہے اور امام انہیں بھی ایک رکعت نماز پڑھائے، اب امام دو رکعت پڑھ چکنے کے بعد نماز سے فارغ ہو چکا۔ پھر دونوں جماعتیں ( جنہوں نے الگ الگ امام کے ساتھ ایک ایک رکعت نماز پڑھی تھی ) اپنی باقی ایک ایک رکعت ادا کر لیں۔ جبکہ امام اپنی نماز سے فارغ ہو چکا ہے۔ اس طرح دونوں جماعتوں کی دو دو رکعت پوری ہو جائیں گی۔ لیکن اگر خوف اس سے بھی زیادہ ہے تو ہر شخص تنہا نماز پڑھ لے، پیدل ہو یا سوار، قبلہ کی طرف رخ ہو یا نہ ہو۔ امام مالک نے بیان کیا، ان سے نافع نے کہ مجھ کو یقین ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے یہ باتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر ہی بیان کی ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا قول کہ جن مردوں کا انتقال ہوجائے اور بیویاں چھوڑ جائیں کی تفسیر کا بیان
مجھ سے عبداللہ بن ابی اسود نے بیان کیا، کہا ہم سے حمید بن اسود اور یزید بن زریع نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حبیب بن شہید نے بیان کیا، ان سے ابن ابی ملیکہ نے بیان کیا کہ ابن زبیر (رض) نے عثمان بن عفان (رض) سے کہا کہ سورة البقرہ کی آیت والذين يتوفون منکم ويذرون أزواجا یعنی جو لوگ تم میں سے وفات پاجائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان غير إخراج تک کو دوسری آیت نے منسوخ کردیا ہے۔ اس کو آپ نے مصحف میں کیوں لکھوایا، چھوڑ کیوں نہیں دیا ؟ انہوں نے کہا : میرے بھتیجے ! میں کسی آیت کو اس کے ٹھکانے سے بدلنے والا نہیں۔ یہ حمید نے کہا یا کچھ ایسا ہی جواب دیا۔
باب: آیت کی تفسیر ”اس وقت کو یاد کرو، جب ابراہیم علیہ السلام نے عرض کیا کہ اے میرے رب! مجھے دکھا دے کہ تو مردوں کو کس طرح زندہ کرے گا“۔
ہم سے احمد بن صالح نے بیان کیا، ان سے ابن وہب نے بیان کیا، انہیں یونس نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں ابوسلمہ اور سعید نے، ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا شک کرنے کا ہمیں ابراہیم (علیہ السلام) سے زیادہ حق ہے، جب انہوں نے عرض کیا تھا کہ اے میرے رب ! مجھے دکھا دے کہ تو مردوں کو کس طرح زندہ کرے گا، اللہ کی طرف سے ارشاد ہوا، کیا تجھ کو یقین نہیں ہے ؟ عرض کی یقین ضرور ہے، لیکن میں نے یہ درخواست اس لیے کی ہے کہ میرے دل کو اور اطمینان حاصل ہوجائے۔
باب: آیت کی تفسیر ”کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ اس کا ایک باغ ہو“ آخر آیت «تتفكرون» تک۔
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو ہشام نے خبر دی، انہیں ابن جریج نے، انہوں نے عبداللہ بن ابی ملیکہ سے سنا، وہ عبداللہ بن عباس (رض) سے بیان کرتے تھے، ابن جریج نے کہا اور میں نے ابن ابی ملیکہ کے بھائی ابوبکر بن ابی ملیکہ سے بھی سنا، وہ عبید بن عمیر سے روایت کرتے تھے کہ ایک دن عمر (رض) نے نبی کریم ﷺ کے اصحاب سے دریافت کیا کہ آپ لوگ جانتے ہو یہ آیت کس سلسلے میں نازل ہوئی ہے أيود أحدکم أن تکون له جنة کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ اس کا ایک باغ ہو۔ سب نے کہا کہ اللہ زیادہ جاننے والا ہے۔ یہ سن کر عمر (رض) بہت خفا ہوگئے اور کہا، صاف جواب دیں کہ آپ لوگوں کو اس سلسلے میں کچھ معلوم ہے یا نہیں۔ ابن عباس (رض) نے عرض کیا : امیرالمؤمنین ! میرے دل میں ایک بات آتی ہے۔ عمر (رض) نے فرمایا : بیٹے ! تمہیں کہو اور اپنے کو حقیر نہ سمجھو۔ ابن عباس (رض) نے عرض کیا کہ اس میں عمل کی مثال بیان کی گئی ہے۔ عمر (رض) نے پوچھا، کیسے عمل کی ؟ ابن عباس (رض) نے عرض کیا کہ عمل کی۔ عمر (رض) نے کہا کہ یہ ایک مالدار شخص کی مثال ہے جو اللہ کی اطاعت میں نیک عمل کرتا رہتا ہے۔ پھر اللہ شیطان کو اس پر غالب کردیتا ہے، وہ گناہوں میں مصروف ہوجاتا ہے اور اس کے اگلے نیک اعمال سب غارت ہوجاتے ہیں۔
باب: آیت کی تفسیر یعنی ”وہ لوگوں سے چمٹ کر نہیں مانگتے“۔
ہم سے سعید ابن ابی مریم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے شریک بن ابی نمر نے بیان کیا، ان سے عطاء بن یسار اور عبدالرحمٰن بن ابی عمرہ انصاری نے بیان کیا اور انہوں نے کہا ہم نے ابوہریرہ (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا مسکین وہ نہیں ہے جسے ایک یا دو کھجور، ایک یا دو لقمے در بدر لیے پھریں، بلکہ مسکین وہ ہے جو مانگنے سے بچتا رہے اور اگر تم دلیل چاہو تو (قرآن سے) اس آیت کو پڑھ لو لا يسألون الناس إلحافا کہ وہ لوگوں سے چمٹ کر نہیں مانگتے۔
باب: آیت «وأحل الله البيع وحرم الربا» کی تفسیر۔
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا، ہم سے اعمش نے بیان کیا، ہم سے مسلم نے بیان کیا، ان سے مسروق نے اور ان سے ام المؤمنین عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ جب سود کے سلسلے میں سورة البقرہ کی آخری آیتیں نازل ہوئیں تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں پڑھ کر لوگوں کو سنایا اور اس کے بعد شراب کی تجارت بھی حرام قرار پائی۔
باب: آیت کی تفسیر ”اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے“ لفظ «يمحق» بمعنی «يذهبه» کے ہے یعنی مٹا دیتا ہے اور دور کر دیتا ہے۔
ہم سے بشر بن خالد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو محمد بن جعفر نے خبر دی، انہیں شعبہ نے، انہیں سلیمان اعمش نے، انہوں نے کہا کہ میں نے ابوالضحیٰ سے سنا، وہ مسروق سے روایت کرتے تھے کہ ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا جب سورة البقرہ کی آخری آیتیں نازل ہوئیں تو رسول اللہ ﷺ باہر تشریف لائے اور مسجد میں انہیں پڑھ کر سنایا اس کے بعد شراب کی تجارت حرام ہوگئی۔
باب: آیت «فأذنوا بحرب» کی تفسیر لفظ «فأذنوا» بمعنی «فاعلموا» ہے یعنی جان لو، آگاہ ہو جاؤ۔
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے ابوالضحیٰ نے، ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ جب سورة البقرہ کی آخری آیتیں نازل ہوئیں تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں مسجد میں پڑھ کر سنایا اور شراب کی تجارت حرام قرار دی گئی۔
باب: آیت کی تفسیر ”اگر مقروض تنگ دست ہے تو اس کے لیے آسانی مہیا ہونے تک مہلت دینا بہتر ہے اور اگر تم اس کا قرض معاف ہی کر دو تو تمہارے حق میں یہ اور بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو“۔
اور ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا، ان سے سفیان ثوری نے، ان سے منصور اور اعمش نے، ان سے ابوالضحیٰ نے، ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ جب سورة البقرہ کی آخری آیات نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے اور ہمیں پڑھ کر سنایا پھر شراب کی تجارت حرام کردی۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور اس دن سے ڈرتے رہو جس دن تم سب کو اللہ کی طرف واپس جانا ہے“۔
ہم سے قبیصہ بن عقبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے عاصم بن سلیمان نے، ان سے شعبی نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ آخری آیت جو نبی کریم ﷺ پر نازل ہوئی وہ سود کی آیت تھی۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور جو خیال تمہارے دلوں کے اندر چھپا ہوا ہے اگر تم اس کو ظاہر کر دو یا اسے چھپائے رکھو ہر حال میں اللہ اس کا حساب تم سے لے گا، پھر جسے چاہے بخش دے گا اور جسے چاہے عذاب کرے گا اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے“۔
ہم سے محمد بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن محمد نفیلی نے بیان کیا، کہا ہم سے مسکین بن بکیر حران نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، ان سے خالد حذاء نے، ان سے مروان اصفر نے اور ان سے نبی کریم ﷺ کے ایک صحابی یعنی ابن عمر (رض) نے کہ آیت وإن تبدوا ما في أنفسکم أو تخفوه اور جو کچھ تمہارے نفسوں کے اندر ہے اگر تم ان کو ظاہر کر ویا چھپائے رکھو۔ آخر تک منسوخ ہوگی تھی۔
باب
الفاظ تقاة وتقية دونوں کا معنی ایک ہے یعنی بچاؤ کرنا۔ صر کا معنی برد یعنی سرد ٹھنڈک۔ شفا حفرة کا معنی گڑھے کا کنارہ، جیسے کچے کنویں کا کنارہ ہوتا ہے۔ تبوئ یعنی تو لشکر کے مقامات، پڑاؤ تجویز کرتا تھا، مورچے بنانا مراد ہیں۔ مسومين مسوم اس کو کہتے ہیں جس پر کوئی نشانی ہو، مثلاً پشم یا اور کوئی نشانی۔ ربيون جمع ہے اس کا واحد ربي ہے یعنی اللہ والا۔ تحسونهم ان کو قتل کر کے جڑ پیڑ سے اکھاڑتے ہو۔ غزا لفظ غازى کی جمع ہے یعنی جہاد کرنے والا۔ سنکتب کا معنی ہم کو یاد رہے گا۔ نزلا کا معنی ثواب کے ہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ لفظ نزلا اسم مفعول کے معنی میں ہو یعنی اللہ کی طرف سے اتارا گیا جیسے کہتے ہیں أنزلته میں نے اس کو اتارا۔ مجاہد نے کہا والخيل المسومة کا معنی موٹے موٹے اچھے اچھے گھوڑے اور سعید بن جبیر نے کہا حصورا اس شخص کو کہتے ہیں جو عورتوں کی طرف مطلق مائل نہ ہو۔ عکرمہ نے کہا من فورهم کا معنی بدر کے دن غصے اور جوش سے۔ مجاہد نے کہا يخرج الحى یعنی نطفہ بےجان ہوتا ہے اس سے جاندار پیدا ہوتا ہے۔ إبكار صبح سویرے۔ عشي کے معنی سورج ڈھلے سے ڈوبنے تک جو وقت ہوتا ہے اسے عشي کہتے ہیں۔
باب: آیت کی تفسیر ”بعض اس میں محکم آیتیں ہیں اور بعض متشابہ ہیں“۔
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، ہم سے یزید بن ابراہیم تستری نے بیان کیا، ان سے ابن ابی ملیکہ نے، ان سے قاسم بن محمد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس آیت کی تلاوت کی هو الذي أنزل عليك الکتاب منه آيات محکمات هن أم الکتاب وأخر متشابهات فأما الذين في قلوبهم زيغ فيتبعون ما تشابه منه ابتغاء الفتنة وابتغاء تأويله یعنی وہ وہی اللہ ہے جس نے تجھ پر کتاب اتاری ہے، اس میں محکم آیتیں ہیں اور وہی کتاب کا اصل دارومدار ہیں اور دوسری آیتیں متشابہ ہیں۔ سو وہ لوگ جن کے دلوں میں چڑ پن ہے۔ وہ اس کے اسی حصے کے پیچھے لگ جاتے ہیں جو متشابہ ہیں، فتنے کی تلاش میں اور اس کی غلط تاویل کی تلاش میں۔ آخر آیت أولو الألباب تک۔ عائشہ (رض) نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو متشابہ آیتوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہوں تو یاد رکھو کہ یہ وہی لوگ ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے (آیت بالا میں) ذکر فرمایا ہے۔ اس لیے ان سے بچتے رہو۔
باب: آیت کی تفسیر ”مریم علیہا السلام کی ماں نے کہا اے رب! میں اس (مریم) کو اور اس کی اولاد کو شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں“۔
مجھ سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں سعید بن مسیب نے اور انہیں ابوہریرہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ہر بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو شیطان اسے پیدا ہوتے ہی چھوتا ہے، جس سے وہ بچہ چلاتا ہے، سوا مریم اور ان کے بیٹے (عیسیٰ علیہ السلام) کے۔ پھر ابوہریرہ (رض) نے کہا کہ اگر تمہارا جی چاہے تو یہ آیت پڑھ لو وإني أعيذها بک وذريتها من الشيطان الرجيم یہ کلمہ مریم (علیہ السلام) کی ماں نے کہا تھا، اللہ نے ان کی دعا قبول کی اور مریم اور عیسیٰ (علیہما السلام) کو شیطان کے ہاتھ لگانے سے بچا لیا۔
باب: آیت کی تفسیر ”بیشک جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں، یہ وہی لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں کوئی بھلائی نہیں ہے اور ان کو دکھ کا عذاب ہو گا“۔
ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابو وائل نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص نے اس لیے قسم کھائی کہ کسی مسلمان کا مال (جھوٹ بول کر وہ) مار لے تو جب وہ اللہ سے ملے گا، اللہ تعالیٰ اس پر نہایت ہی غصہ ہوگا، پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کے اس فرمان کی تصدیق میں یہ آیت نازل کی إن الذين يشترون بعهد الله وأيمانهم ثمنا قليلا أولئك لا خلاق لهم في الآخرة بیشک جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پر بیچتے ہیں، یہ وہی لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں کوئی بھلائی نہیں ہے۔ آخر آیت تک۔ ابو وائل نے بیان کیا کہ اشعث بن قیس کندی (رض) تشریف لائے اور پوچھا : ابوعبدالرحمٰن (عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ) نے آپ لوگوں سے کوئی حدیث بیان کی ہے ؟ ہم نے بتایا کہ ہاں، اس اس طرح سے حدیث بیان کی ہے۔ اشعث (رض) نے اس پر کہا کہ یہ آیت تو میرے ہی بارے میں نازل ہوئی تھی۔ میرے ایک چچا کے بیٹے کی زمین میں میرا ایک کنواں تھا (ہم دونوں کا اس بارے میں جھگڑا ہوا اور مقدمہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں پیش ہوا تو) آپ نے مجھ سے فرمایا کہ تو گواہ پیش کر یا پھر اس کی قسم پر فیصلہ ہوگا۔ میں نے کہا پھر تو یا رسول اللہ وہ (جھوٹی) قسم کھالے گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص جھوٹی قسم اس لیے کھائے کہ اس کے ذریعہ کسی مسلمان کا مال لے اور اس کی نیت بری ہو تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حالت میں ملے گا کہ اللہ اس پر نہایت ہی غضبناک ہوگا۔
باب: آیت کی تفسیر ”بیشک جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں، یہ وہی لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں کوئی بھلائی نہیں ہے اور ان کو دکھ کا عذاب ہو گا“۔
ہم سے علی بن ابی ہاشم نے بیان کیا، انہوں نے ہشیم سے سنا، انہوں نے کہا ہم کو عوام بن حوشب نے خبر دی، انہیں ابراہیم بن عبدالرحمٰن نے اور انہیں عبداللہ بن ابی اوفی (رض) نے کہ ایک شخص نے بازار میں سامان بیچتے ہوئے قسم کھائی کہ فلاں شخص اس سامان کا اتنا روپیہ دے رہا تھا، حالانکہ کسی نے اتنی قیمت نہیں لگائی تھی، بلکہ اس کا مقصد یہ تھا کہ اس طرح کسی مسلمان کو وہ دھوکا دے کر اسے ٹھگ لے تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی إن الذين يشترون بعهد الله وأيمانهم ثمنا قليلا کہ بیشک جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پر بیچتے ہیں۔ آخر آیت تک۔
باب: آیت کی تفسیر ”بیشک جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں، یہ وہی لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں کوئی بھلائی نہیں ہے اور ان کو دکھ کا عذاب ہو گا“۔
ہم سے نصر بن علی بن نصر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن داؤد نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے، ان سے ابن ابی ملیکہ نے کہ دو عورتیں کسی گھر یا حجرہ میں بیٹھ کر موزے بنایا کرتی تھیں۔ ان میں سے ایک عورت باہر نکلی اس کے ہاتھ میں موزے سینے کا سوا چبھو دیا گیا تھا۔ اس نے دوسری عورت پر دعویٰ کیا۔ یہ مقدمہ ابن عباس (رض) کے پاس آیا تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ اگر صرف دعویٰ کی وجہ سے لوگوں کا مطالبہ مان لیا جانے لگے تو بہت سوں کا خون اور مال برباد ہوجائے گا۔ جب گواہ نہیں ہے تو دوسری عورت کو جس پر یہ الزام ہے، اللہ سے ڈراؤ اور اس کے سامنے یہ آیت پڑھو إن الذين يشترون بعهد الله چناچہ جب لوگوں نے اسے اللہ سے ڈرایا تو اس نے اقرار کرلیا۔ ابن عباس (رض) نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے، قسم مدعیٰ علیہ پر ہے۔ اگر وہ جھوٹی قسم کھا کر کسی کا مال ہڑپ کرے گا تو اس کو اس وعید کا مصداق قرار دیا جائے گا جو آیت میں بیان کی گئی ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”آپ کہہ دیں کہ اے کتاب والو! ایسے قول کی طرف آ جاؤ جو ہم میں تم میں برابر ہے، وہ یہ کہ ہم اللہ کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کریں“۔
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام نے، ان سے معمر نے (دوسری سند) امام بخاری (رح) نے کہا کہ اور مجھ سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدالرزاق نے خبر دی، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، ان سے امام زہری نے بیان کیا، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے خبر دی، کہا کہ مجھ سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوسفیان (رض) نے منہ در منہ بیان کیا، انہوں نے بتلایا کہ جس مدت میں میرے اور رسول اللہ ﷺ کے درمیان صلح (صلح حدیبیہ کے معاہدہ کے مطابق) تھی، میں (سفر تجارت پر شام میں) گیا ہوا تھا کہ نبی کریم ﷺ کا خط ہرقل کے پاس پہنچا۔ انہوں نے بیان کیا کہ دحیہ الکلبی (رض) وہ خط لائے تھے اور عظیم بصریٰ کے حوالے کردیا تھا اور ہرقل کے پاس اسی سے پہنچا تھا۔ ابوسفیان (رض) نے بیان کیا کہ ہرقل نے پوچھا کیا ہمارے حدود سلطنت میں اس شخص کی قوم کے بھی کچھ لوگ ہیں جو نبی ہونے کا دعویدار ہے ؟ درباریوں نے بتایا کہ جی ہاں موجود ہیں۔ ابوسفیان (رض) نے بیان کیا کہ پھر مجھے قریش کے چند دوسرے آدمیوں کے ساتھ بلایا گیا۔ ہم ہرقل کے دربار میں داخل ہوئے اور اس کے سامنے ہمیں بٹھا دیا گیا۔ اس نے پوچھا، تم لوگوں میں اس شخص سے زیادہ قریبی کون ہے جو نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے ؟ ابوسفیان (رض) نے بیان کیا کہ میں نے کہا کہ میں زیادہ قریب ہوں۔ اب درباریوں نے مجھے بادشاہ کے بالکل قریب بٹھا دیا اور میرے دوسرے ساتھیوں کو میرے پیچھے بٹھا دیا۔ اس کے بعد ترجمان کو بلایا اور اس سے ہرقل نے کہا کہ انہیں بتاؤ کہ میں اس شخص کے بارے میں تم سے کچھ سوالات کروں گا، جو نبی ہونے کا دعویدار ہے، اگر یہ (یعنی ابوسفیان رضی اللہ عنہ) جھوٹ بولے تو تم اس کے جھوٹ کو ظاہر کردینا۔ ابوسفیان (رض) کا بیان تھا کہ اللہ کی قسم ! اگر مجھے اس کا خوف نہ ہوتا کہ میرے ساتھی کہیں میرے متعلق جھوٹ بولنا نقل نہ کردیں تو میں (نبی کریم ﷺ کے بارے میں) ضرور جھوٹ بولتا۔ پھر ہرقل نے اپنے ترجمان سے کہا کہ اس سے پوچھو کہ جس نے نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہے وہ اپنے نسب میں کیسے ہیں ؟ ابوسفیان (رض) نے بتلایا کہ ان کا نسب ہم میں بہت ہی عزت والا ہے۔ اس نے پوچھا کیا ان کے باپ دادا میں کوئی بادشاہ بھی ہوا ہے ؟ بیان کیا کہ میں نے کہا، نہیں۔ اس نے پوچھا، تم نے دعویٰ نبوت سے پہلے کبھی ان پر جھوٹ کی تہمت لگائی تھی ؟ میں نے کہا نہیں۔ پوچھا ان کی پیروی معزز لوگ زیادہ کرتے ہیں یا کمزور ؟ میں نے کہا کہ قوم کے کمزور لوگ زیادہ ہیں۔ اس نے پوچھا، ان کے ماننے والوں میں زیادتی ہوتی رہتی ہے یا کمی ؟ میں نے کہا کہ نہیں بلکہ زیادتی ہوتی رہتی ہے۔ پوچھا کبھی ایسا بھی کوئی واقعہ پیش آیا ہے کہ کوئی شخص ان کے دین کو قبول کرنے کے بعد پھر ان سے بدگمان ہو کر ان سے پھر گیا ہو ؟ میں نے کہا ایسا بھی کبھی نہیں ہوا۔ اس نے پوچھا، تم نے کبھی ان سے جنگ بھی کی ہے ؟ میں نے کہا کہ ہاں۔ اس نے پوچھا، تمہاری ان کے ساتھ جنگ کا کیا نتیجہ رہا ؟ میں نے کہا کہ ہماری جنگ کی مثال ایک ڈول کی ہے کہ کبھی ان کے ہاتھ میں اور کبھی ہمارے ہاتھ میں۔ اس نے پوچھا، کبھی انہوں نے تمہارے ساتھ کوئی دھوکا بھی کیا ؟ میں نے کہا کہ اب تک تو نہیں کیا، لیکن آج کل بھی ہمارا ان سے ایک معاہدہ چل رہا ہے، نہیں کہا جاسکتا کہ اس میں ان کا طرز عمل کیا رہے گا۔ ابوسفیان (رض) نے بیان کیا کہ اللہ کی قسم ! اس جملہ کے سوا اور کوئی بات میں اس پوری گفتگو میں اپنی طرف سے نہیں ملا سکا، پھر اس نے پوچھا اس سے پہلے بھی یہ دعویٰ تمہارے یہاں کسی نے کیا تھا ؟ میں نے کہا کہ نہیں۔ اس کے بعد ہرقل نے اپنے ترجمان سے کہا، اس سے کہو کہ میں نے تم سے نبی کے نسب کے بارے میں پوچھا تو تم نے بتایا کہ وہ تم لوگوں میں باعزت اور اونچے نسب کے سمجھے جاتے ہیں، انبیاء کا بھی یہی حال ہے۔ ان کی بعثت ہمیشہ قوم کے صاحب حسب و نسب خاندان میں ہوتی ہے اور میں نے تم سے پوچھا تھا کہ کیا کوئی ان کے باپ دادوں میں بادشاہ گزرا ہے، تو تم نے اس کا انکار کیا میں اس سے اس فیصلہ پر پہنچا کہ اگر ان کے باپ دادوں میں کوئی بادشاہ گزرا ہوتا تو ممکن تھا کہ وہ اپنی خاندانی سلطنت کو اس طرح واپس لینا چاہتے ہوں اور میں نے تم سے ان کی اتباع کرنے والوں کے متعلق پوچھا کہ آیا وہ قوم کے کمزور لوگ ہیں یا اشراف، تو تم نے بتایا کہ کمزور لوگ ان کی پیروی کرنے والوں میں (زیادہ) ہیں۔ یہی طبقہ ہمیشہ سے انبیاء کی اتباع کرتا رہا ہے اور میں نے تم سے پوچھا تھا کہ کیا تم نے دعویٰ نبوت سے پہلے ان پر جھوٹ کا کبھی شبہ کیا تھا، تو تم نے اس کا بھی انکار کیا۔ میں نے اس سے یہ سمجھا کہ جس شخص نے لوگوں کے معاملہ میں کبھی جھوٹ نہ بولا ہو، وہ اللہ کے معاملے میں کس طرح جھوٹ بول دے گا اور میں نے تم سے پوچھا تھا کہ ان کے دین کو قبول کرنے کے بعد پھر ان سے بدگمان ہو کر کوئی شخص ان کے دین سے کبھی پھرا بھی ہے، تو تم نے اس کا بھی انکار کیا۔ ایمان کا یہی اثر ہوتا ہے جب وہ دل کی گہرائیوں میں اتر جائے۔ میں نے تم سے پوچھا تھا کہ ان کے ماننے والوں کی تعداد بڑھتی رہتی ہے یا کم ہوتی ہے، تو تم نے بتایا کہ ان میں اضافہ ہی ہوتا ہے، ایمان کا یہی معاملہ ہے، یہاں تک کہ وہ کمال کو پہنچ جائے۔ میں نے تم سے پوچھا تھا کہ کیا تم نے کبھی ان سے جنگ بھی کی ہے ؟ تو تم نے بتایا کہ جنگ کی ہے اور تمہارے درمیان لڑائی کا نتیجہ ایسا رہا ہے کہ کبھی تمہارے حق میں اور کبھی ان کے حق میں۔ انبیاء کا بھی یہی معاملہ ہے، انہیں آزمائش میں ڈالا جاتا ہے اور آخر انجام انہیں کے حق میں ہوتا ہے اور میں نے تم سے پوچھا تھا کہ اس نے تمہارے ساتھ کبھی خلاف عہد بھی معاملہ کیا ہے تو تم نے اس سے بھی انکار کیا۔ انبیاء کبھی عہد کے خلاف نہیں کرتے اور میں نے تم سے پوچھا تھا کہ کیا تمہارے یہاں اس طرح کا دعویٰ پہلے بھی کسی نے کیا تھا تو تم نے کہا کہ پہلے کسی نے اس طرح کا دعویٰ نہیں کیا، میں اس سے اس فیصلے پر پہنچا کہ اگر کسی نے تمہارے یہاں اس سے پہلے اس طرح کا دعویٰ کیا ہوتا تو یہ کہا جاسکتا تھا کہ یہ بھی اسی کی نقل کر رہے ہیں۔ بیان کیا کہ پھر ہرقل نے پوچھا وہ تمہیں کن چیزوں کا حکم دیتے ہیں ؟ میں نے کہا نماز، زکوٰۃ، صلہ رحمی اور پاکدامنی کا۔ آخر اس نے کہا کہ جو کچھ تم نے بتایا ہے اگر وہ صحیح ہے تو یقیناً وہ نبی ہیں اس کا علم تو مجھے بھی تھا کہ ان کی نبوت کا زمانہ قریب ہے لیکن یہ خیال نہ تھا کہ وہ تمہاری قوم میں ہوں گے۔ اگر مجھے ان تک پہنچ سکنے کا یقین ہوتا تو میں ضرور ان سے ملاقات کرتا اور اگر میں ان کی خدمت میں ہوتا تو ان کے قدموں کو دھوتا اور ان کی حکومت میرے ان دو قدموں تک پہنچ کر رہے گی۔ ابوسفیان (رض) نے بیان کیا کہ پھر اس نے رسول اللہ ﷺ کا خط منگوایا اور اسے پڑھا، اس میں یہ لکھا ہوا تھا، اللہ، رحمن، رحیم کے نام سے شروع کرتا ہوں۔ اللہ کے رسول ﷺ کی طرف سے عظیم روم ہرقل کی طرف، سلامتی ہو اس پر جو ہدایت کی اتباع کرے۔ امابعد ! میں تمہیں اسلام کی طرف بلاتا ہوں، اسلام لاؤ تو سلامتی پاؤ گے اور اسلام لاؤ تو اللہ تمہیں دوہرا اجر دے گا۔ لیکن تم نے اگر منہ موڑا تو تمہاری رعایا (کے کفر کا بار بھی سب) تم پر ہوگا اور اے کتاب والو ! ایک ایسی بات کی طرف آجاؤ جو ہم میں اور تم میں برابر ہے، وہ یہ کہ ہم سوائے اللہ کے اور کسی کی عبادت نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان اشهدوا بأنا مسلمون تک جب ہرقل خط پڑھ چکا تو دربار میں بڑا شور برپا ہوگیا اور پھر ہمیں دربار سے باہر کردیا گیا۔ باہر آ کر میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ابن ابی کبشہ کا معاملہ تو اب اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ ملک بنی الاصفر (ہرقل) بھی ان سے ڈرنے لگا۔ اس واقعہ کے بعد مجھے یقین ہوگیا کہ نبی کریم ﷺ غالب آ کر رہیں گے اور آخر اللہ تعالیٰ نے اسلام کی روشنی میرے دل میں بھی ڈال ہی دی۔ زہری نے کہا کہ پھر ہرقل نے روم کے سرداروں کو بلا کر ایک خاص کمرے میں جمع کیا، پھر ان سے کہا اے رومیو ! کیا تم ہمیشہ کے لیے اپنی فلاح اور بھلائی چاہتے ہو اور یہ کہ تمہارا ملک تمہارے ہی ہاتھ میں رہے (اگر تم ایسا چاہتے ہو تو اسلام قبول کرلو) راوی نے بیان کیا کہ یہ سنتے ہی وہ سب وحشی جانوروں کی طرح دروازے کی طرف بھاگے، دیکھا تو دروازہ بند تھا، پھر ہرقل نے سب کو اپنے پاس بلایا کہ انہیں میرے پاس لاؤ اور ان سے کہا کہ میں نے تو تمہیں آزمایا تھا کہ تم اپنے دین میں کتنے پختہ ہو، اب میں نے اس چیز کا مشاہدہ کرلیا جو مجھے پسند تھی۔ چناچہ سب درباریوں نے اسے سجدہ کیا اور اس سے راضی ہوگئے۔
باب: آیت کی تفسیر ”اے مسلمانو! جب تک اللہ کی راہ میں تم اپنی محبوب چیزوں کو خرچ نہ کرو گے، نیکی کو نہ پہنچ سکو گے“ آخر آیت «به عليم» تک۔
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے، انہوں نے انس بن مالک (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ مدینہ میں ابوطلحہ (رض) کے پاس انصار میں سب سے زیادہ کھجوروں کے درخت تھے اور بیرحاء کا باغ اپنی تمام جائیداد میں انہیں سب سے زیادہ عزیز تھا۔ یہ باغ مسجد نبوی کے سامنے ہی تھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس میں تشریف لے جاتے اور اس کے میٹھے اور عمدہ پانی کو پیتے، پھر جب آیت لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون جب تک تم اپنی عزیز ترین چیزوں کو نہ خرچ کرو گے نیکی کے مرتبہ کو نہ پہنچ سکو گے۔ نازل ہوئی تو ابوطلحہ (رض) اٹھے اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تک تم اپنی عزیز چیزوں کو خرچ نہ کرو گے نیکی کے مرتبہ کو نہ پہنچ سکو گے اور میرا سب سے زیادہ عزیز مال بیرحاء ہے اور یہ اللہ کی راہ میں صدقہ ہے۔ اللہ ہی سے میں اس کے ثواب و اجر کی توقع رکھتا ہوں، پس یا رسول اللہ ! جہاں آپ مناسب سمجھیں اسے استعمال کریں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ خوب یہ فانی ہی دولت تھی، یہ فانی ہی دولت تھی۔ جو کچھ تم نے کہا ہے وہ میں نے سن لیا اور میرا خیال ہے کہ تم اپنے عزیز و اقرباء کو اسے دے دو ۔ ابوطلحہ (رض) نے کہا کہ میں ایسا ہی کروں گا، یا رسول اللہ ! چناچہ انہوں نے وہ باغ اپنے عزیزوں اور اپنے ناطہٰ والوں میں بانٹ دیا۔ عبداللہ بن یوسف اور روح بن عبادہ نے ذلک مال رايح ( ربح سے) بیان کیا ہے۔ یعنی یہ مال بہت نفع دینے والا ہے۔ مجھ سے یحییٰ بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے امام مالک کے سامنے مال رايح ( رواح سے) پڑھا تھا۔
باب: آیت کی تفسیر ”اے مسلمانو! جب تک اللہ کی راہ میں تم اپنی محبوب چیزوں کو خرچ نہ کرو گے، نیکی کو نہ پہنچ سکو گے“ آخر آیت «به عليم» تک۔
ہم سے محمد بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے انصاری نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، ان سے ثمامہ نے اور ان سے انس (رض) نے بیان کیا کہ پھر ابوطلحہ نے وہ باغ حسان اور ابی (رض) کو دے دیا تھا۔ میں ان دونوں سے ان کا زیادہ قریبی تھا لیکن مجھے نہیں دیا۔
باب: آیت کی تفسیر ”تو آپ کہہ دیں کہ توریت لاؤ اور اسے پڑھو اگر تم سچے ہو۔
مجھ سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوضمرہ نے بیان کیا، ان سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے کہ کچھ یہودی نبی کریم ﷺ کے پاس اپنے قبیلہ کے ایک مرد اور ایک عورت کو لے کر آئے، جنہوں نے زنا کیا تھا۔ آپ ﷺ نے ان سے پوچھا اگر تم میں سے کوئی زنا کرے تو تم اس کو کیا سزا دیتے ہو ؟ انہوں نے کہا کہ ہم اس کا منہ کالا کر کے اسے مارتے پیٹتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کیا توریت میں رجم کا حکم نہیں ہے ؟ انہوں نے کہا کہ ہم نے توریت میں رجم کا حکم نہیں دیکھا۔ عبداللہ بن سلام (رض) بولے کہ تم جھوٹ بول رہے ہو، توریت لاؤ اور اسے پڑھو، اگر تم سچے ہو۔ (جب توریت لائی گئی) تو ان کے ایک بہت بڑے مدرس نے جو انہیں توریت کا درس دیا کرتا تھا، آیت رجم پر اپنی ہتھیلی رکھ لی اور اس سے پہلے اور اس کے بعد کی عبارت پڑھنے لگا اور آیت رجم نہیں پڑھتا تھا۔ عبداللہ بن سلام (رض) نے اس کے ہاتھ کو آیت رجم سے ہٹا دیا اور اس سے پوچھا کہ یہ کیا ہے ؟ جب یہودیوں نے دیکھا تو کہنے لگے کہ یہ آیت رجم ہے۔ پھر نبی کریم ﷺ نے حکم دیا اور ان دونوں کو مسجد نبوی کے قریب ہی جہاں جنازے لا کر رکھے جاتے تھے، رجم کردیا گیا۔ میں نے دیکھا کہ اس عورت کا ساتھی عورت کو پتھر سے بچانے کے لیے اس پر جھک جھک پڑتا تھا۔
باب: آیت کی تفسیر ”تم لوگ بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے پیدا کی گئی ہو تم نیک کاموں کا حکم کرتے ہو، برے کاموں سے روکتے ہو“۔
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، کہا ان سے سفیان نے، ان سے میسرہ نے، ان سے ابوحازم نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے آیت کنتم خير أمة أخرجت للناس تم لوگ لوگوں کے لیے سب لوگوں سے بہتر ہو اور کہا ان کو گردنوں میں زنجیریں ڈال کر (لڑائی میں گرفتار کر کے) لاتے ہو پھر وہ اسلام میں داخل ہوجاتے ہیں۔
باب: آیت کی تفسیر ”جب تم میں سے دو جماعتیں اس کا خیال کر بیٹھی تھیں کہ وہ بزدل ہو کر ہمت ہار بیٹھیں“۔
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا عمرو بن دینار نے کہا، انہوں نے جابر بن عبداللہ انصاری (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ہمارے ہی بارے میں یہ آیت نازل ہوئی تھی، جب ہم سے دو جماعتیں اس کا خیال کر بیٹھی تھیں کہ ہمت ہار دیں، درآں حالیکہ اللہ دونوں کا مددگار تھا۔ سفیان نے بیان کیا کہ ہم دو جماعتیں بنو حارثہ اور بنو سلمہ تھے۔ حالانکہ اس آیت میں ہمارے بودے پن کا ذکر ہے، مگر ہم کو یہ پسند نہیں کہ یہ آیت نہ اترتی کیونکہ اس میں یہ مذکور ہے کہ اللہ ان دونوں گروہوں کا مددگار (سرپرست) ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”آپ کو اس امر میں کوئی دخل نہیں کہ یہ ہدایت کیوں نہیں قبول کرتے اللہ جسے چاہے اسے ہدایت ملتی ہے“۔
ہم سے حبان بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، کہا مجھ سے سالم نے بیان کیا، ان سے ان کے والد عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ نے فجر کی دوسری رکعت کے رکوع سے سر اٹھا کر یہ بددعا کی۔ اے اللہ ! فلاں، فلاں اور فلاں کافر پر لعنت کر۔ یہ بددعا آپ نے سمع الله لمن حمده اور ربنا ولک الحمد کے بعد کی تھی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری ليس لک من الأمر شىء آپ کو اس میں کوئی دخل نہیں۔ آخر آیت فإنهم ظالمون تک۔ اس روایت کو اسحاق بن راشد نے زہری سے نقل کیا ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”آپ کو اس امر میں کوئی دخل نہیں کہ یہ ہدایت کیوں نہیں قبول کرتے اللہ جسے چاہے اسے ہدایت ملتی ہے“۔
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے سعید بن مسیب اور ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی پر بددعا کرنا چاہتے یا کسی کے لیے دعا کرنا چاہتے تو رکوع کے بعد کرتے سمع الله لمن حمده، اللهم ربنا لک الحمد کے بعد۔ بعض اوقات آپ ﷺ نے یہ دعا بھی کی اے اللہ ! ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام اور عیاش بن ابی ربیعہ کو نجات دے، اے اللہ ! مضر والوں کو سختی کے ساتھ پکڑ لے اور ان میں ایسی قحط سالی لا، جیسی یوسف (علیہ السلام) کے زمانے میں ہوئی تھی۔ آپ ﷺ بلند آواز سے یہ دعا کرتے اور آپ نماز فجر کی بعض رکعت میں یہ دعا کرتے۔ اے اللہ، فلاں اور فلاں کو اپنی رحمت سے دور کر دے۔ عرب کے چند خاص قبائل کے حق میں آپ (یہ بددعا کرتے تھے) یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آیت نازل کی ليس لک من الأمر شىء کہ آپ کو اس امر میں کوئی دخل نہیں۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور رسول تم کو پکارتے تھے تمہارے پیچھے سے“۔
ہم سے عمرو بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے زہیر نے بیان کیا۔ ان سے ابواسحاق نے بیان کیا، کہا کہ میں نے براء بن عازب (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ احد کی لڑائی میں رسول اللہ ﷺ نے (تیر اندازوں کے) پیدل دستے پر عبداللہ بن جبیر (رض) کو افسر مقرر کیا تھا، پھر بہت سے مسلمانوں نے پیٹھ پھیرلی، آیت فذاک إذ يدعوهم الرسول في أخراهم اور رسول تم کو پکار رہے تھے تمہارے پیچھے سے۔ میں اسی کی طرف اشارہ ہے، اس وقت رسول اللہ ﷺ کے ساتھ بارہ صحابیوں کے سوا اور کوئی موجود نہ تھا۔
باب
باب : آیت کی تفسیر جن لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول کی دعوت کو قبول کرلیا بعد اس کے کہ انہیں زخم پہنچ چکا تھا ، ان میں سے جو نیک اور متقی ہیں ان کے لیے بہت بڑا ثواب ہے القرح یعنی الجراح زخم۔ استجابوا یعنی اجابوا انہوں نے قبول کیا۔ يستجيب اى يجيب وہ قبول کرتے ہیں۔
باب: آیت کی تفسیر ”مسلمانوں سے کہا گیا کہ بیشک لوگوں نے تمہارے خلاف بہت سامان جنگ جمع کیا ہے، پس ان سے ڈرو تو مسلمانوں نے جواب میں حسبنا اللہ ونعم الوکیل کہا“۔
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے یہ کہا کہ ہم سے ابوبکر شعبہ بن عیاش نے بیان کیا، ان سے ابوحصین عثمان بن عاصم نے اور ان سے ابوالضحیٰ نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے کہ کلمہ حسبنا الله ونعم الوکيل ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا تھا، اس وقت جب ان کو آگ میں ڈالا گیا تھا اور یہی کلمہ محمد ﷺ نے اس وقت کہا تھا جب لوگوں نے مسلمانوں کو ڈرانے کے لیے کہا تھا کہ لوگوں (یعنی قریش) نے تمہارے خلاف بڑا سامان جنگ اکٹھا کر رکھا ہے، ان سے ڈرو لیکن اس بات نے ان مسلمانوں کا (جوش) ایمان اور بڑھا دیا اور یہ مسلمان بولے کہ ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کام بنانے والا ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”مسلمانوں سے کہا گیا کہ بیشک لوگوں نے تمہارے خلاف بہت سامان جنگ جمع کیا ہے، پس ان سے ڈرو تو مسلمانوں نے جواب میں حسبنا اللہ ونعم الوکیل کہا“۔
ہم سے مالک بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے اسرائیل نے بیان کیا، ان سے ابوحصین نے، ان سے ابوالضحیٰ نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں ڈالا گیا تو آخری کلمہ جو آپ کی زبان مبارک سے نکلا حسبي الله ونعم الوکيل. تھا یعنی میری مدد کے لیے اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کام بنانے والا ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور جو لوگ کہ اس مال میں بخل کرتے رہتے ہیں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دے رکھا ہے، وہ ہرگز یہ نہ سمجھیں کہ یہ مال ان کے حق میں اچھا ہے، نہیں، بلکہ ان کے حق میں بہت برا ہے، یقیناً قیامت کے دن انہیں اس کا طوق بنا کر پہنایا جائے گا، جس میں انہوں نے بخل کیا تھا اور آسمانوں اور زمین کا اللہ ہی مالک ہے اور جو تم کرتے ہو اللہ اس سے خبردار ہے“۔
مجھ سے عبداللہ بن منیر نے بیان کیا، انہوں نے ابوالنضر ہاشم بن قاسم سے سنا، کہا ہم سے عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن دینار نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے، ان سے ابوصالح نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جسے اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور پھر اس نے اس کی زکوٰۃ نہیں ادا کی تو (آخرت میں) اس کا مال نہایت زہریلے سانپ بن کر جس کی آنکھوں کے اوپر دو نقطے ہوں گے۔ اس کی گردن میں طوق کی طرح پہنا دیا جائے گا۔ پھر وہ سانپ اس کے دونوں جبڑوں کو پکڑ کر کہے گا کہ میں ہی تیرا مال ہوں، میں ہی تیرا خزانہ ہوں، پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت ولا يحسبن الذين يبخلون بما آتاهم الله من فضله کی اور جو لوگ کہ اس مال میں بخل کرتے ہیں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دے رکھا ہے، وہ یہ نہ سمجھیں کہ یہ مال ان کے حق میں بہتر ہے۔ آخر تک۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور یقیناً تم لوگ بہت سی دل دکھانے والی باتیں ان سے سنو گے جنہیں تم سے پہلے کتاب مل چکی ہے اور ان سے بھی سنو گے جو مشرک ہیں“۔
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، انہیں عروہ بن زبیر نے خبر دی اور انہیں اسامہ بن زید (رض) نے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ ایک گدھے کی پشت پر فدک کی بنی ہوئی ایک موٹی چادر رکھنے کے بعد سوار ہوئے اور اسامہ بن زید (رض) کو اپنے پیچھے بٹھایا۔ آپ ﷺ بنو حارث بن خزرج میں سعد بن عبادہ رضی اللہ کی مزاج پرسی کے لیے تشریف لے جا رہے تھے۔ یہ جنگ بدر سے پہلے کا واقعہ ہے۔ راستہ میں ایک مجلس سے آپ گزرے جس میں عبداللہ بن ابی ابن سلول (منافق) بھی موجود تھا، یہ عبداللہ بن ابی کے ظاہری اسلام لانے سے بھی پہلے کا قصہ ہے۔ مجلس میں مسلمان اور مشرکین یعنی بت پرست اور یہودی سب ہی طرح کے لوگ تھے، انہیں میں عبداللہ بن رواحہ (رض) بھی تھے۔ سواری کی (ٹاپوں سے گرد اڑی اور) مجلس والوں پر پڑی تو عبداللہ بن ابی نے چادر سے اپنی ناک بند کرلی اور بطور تحقیر کہنے لگا کہ ہم پر گرد نہ اڑاؤ، اتنے میں رسول اللہ ﷺ بھی قریب پہنچ گئے اور انہیں سلام کیا، پھر آپ سواری سے اتر گئے اور مجلس والوں کو اللہ کی طرف بلایا اور قرآن کی آیتیں پڑھ کر سنائیں۔ اس پر عبداللہ بن ابی ابن سلول کہنے لگا، جو کلام آپ نے پڑھ کر سنایا ہے، اس سے عمدہ کوئی کلام نہیں ہوسکتا۔ اگرچہ یہ کلام بہت اچھا، پھر بھی ہماری مجلسوں میں آ آ کر آپ ہمیں تکلیف نہ دیا کریں، اپنے گھر بیٹھیں، اگر کوئی آپ کے پاس جائے تو اسے اپنی باتیں سنایا کریں۔ (یہ سن کر) عبداللہ بن رواحہ (رض) نے کہا، ضرور یا رسول اللہ ! آپ ہماری مجلسوں میں تشریف لایا کریں، ہم اسی کو پسند کرتے ہیں۔ اس کے بعد مسلمان، مشرکین اور یہودی آپس میں ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے لگے اور قریب تھا کہ فساد اور لڑائی تک کی نوبت پہنچ جاتی لیکن آپ نے انہیں خاموش اور ٹھنڈا کردیا اور آخر سب لوگ خاموش ہوگئے، پھر آپ ﷺ اپنی سواری پر سوار ہو کر وہاں سے چلے آئے اور سعد بن عبادہ (رض) کے یہاں تشریف لے گئے۔ نبی کریم ﷺ نے سعد بن عبادہ (رض) سے بھی اس کا ذکر کیا کہ سعد ! تم نے نہیں سنا، ابوحباب، آپ کی مراد عبداللہ بن ابی ابن سلول سے تھی، کیا کہہ رہا تھا ؟ اس نے اس طرح کی باتیں کی ہیں۔ سعد بن عبادہ (رض) نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! آپ اسے معاف فرما دیں اور اس سے درگزر کردیں۔ اس ذات کی قسم ! جس نے آپ پر کتاب نازل کی ہے اللہ نے آپ کے ذریعہ وہ حق بھیجا ہے جو اس نے آپ پر نازل کیا ہے۔ اس شہر (مدینہ) کے لوگ (پہلے) اس پر متفق ہوچکے تھے کہ اس (عبداللہ بن ابی) کو تاج پہنا دیں اور (شاہی) عمامہ اس کے سر پر باندھ دیں لیکن جب اللہ تعالیٰ نے اس حق کے ذریعہ جو آپ کو اس نے عطا کیا ہے، اس باطل کو روک دیا تو اب وہ چڑ گیا ہے اور اس وجہ سے وہ معاملہ اس نے آپ کے ساتھ کیا جو آپ نے ملاحظہ فرمایا ہے۔ آپ نے اسے معاف کردیا۔ نبی کریم ﷺ اور صحابہ رضی اللہ عنہم مشرکین اور اہل کتاب سے درگزر کیا کرتے تھے اور ان کی اذیتوں پر صبر کیا کرتے تھے۔ اسی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی اور یقیناً تم بہت سی دل آزاری کی باتیں ان سے بھی سنو گے، جنہیں تم سے پہلے کتاب مل چکی ہے اور ان سے بھی جو مشرک ہیں اور اگر تم صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو یہ بڑے عزم و حوصلہ کی بات ہے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا بہت سے اہل کتاب تو دل ہی سے چاہتے ہیں کہ تمہیں ایمان (لے آنے) کے بعد پھر سے کافر بنالیں، حسد کی راہ سے جو ان کے دلوں میں ہے۔ آخر آیت تک۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا حکم تھا نبی کریم ﷺ ہمیشہ کفار کو معاف کردیا کرتے تھے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان کے ساتھ جنگ کی اجازت دے دی اور جب آپ نے غزوہ بدر کیا تو اللہ تعالیٰ کی منشا کے مطابق قریش کے کافر سردار اس میں مارے گئے تو عبداللہ بن ابی ابن سلول اور اس کے دوسرے مشرک اور بت پرست ساتھیوں نے آپس میں مشورہ کر کے ان سب نے بھی نبی کریم ﷺ سے اسلام پر بیعت کرلی اور ظاہراً اسلام میں داخل ہوگئے۔
باب: آیت کی تفسیر ”جو لوگ اپنے کرتوتوں پر خوش ہوتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ جو نیک کام انہوں نے نہیں کئے خواہ مخواہ ان پر بھی ان کی تعریف کی جائے، سو ایسے لوگوں کے لیے ہرگز خیال نہ کرو کہ وہ عذاب سے بچ سکیں گے“۔
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو محمد بن جعفر نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھ سے زید بن اسلم نے بیان کیا، ان سے عطاء بن یسار نے اور ان سے ابو سعید خدری (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں چند منافقین ایسے تھے کہ جب نبی کریم ﷺ جہاد کے لیے تشریف لے جاتے تو یہ مدینہ میں پیچھے رہ جاتے اور پیچھے رہ جانے پر بہت خوش ہوا کرتے تھے لیکن جب نبی کریم ﷺ واپس آتے تو عذر بیان کرتے اور قسمیں کھالیتے بلکہ ان کو ایسے کام پر تعریف ہونا پسند آتا جس کو انہوں نے نہ کیا ہوتا اور بعد میں چکنی چیڑی باتوں سے اپنی بات بنانا چاہتے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی پر یہ آیت لا يحسبن الذين يفرحون آخر آیت تک اتاری۔
باب: آیت کی تفسیر ”جو لوگ اپنے کرتوتوں پر خوش ہوتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ جو نیک کام انہوں نے نہیں کئے خواہ مخواہ ان پر بھی ان کی تعریف کی جائے، سو ایسے لوگوں کے لیے ہرگز خیال نہ کرو کہ وہ عذاب سے بچ سکیں گے“۔
مجھ سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو ہشام نے خبر دی، انہیں ابن جریج نے خبر دی، انہیں ابن ابی ملیکہ نے اور انہیں علقمہ بن وقاص نے خبر دی کہ مروان بن حکم نے (جب وہ مدینہ کے امیر تھے) اپنے دربان سے کہا کہ رافع ! ابن عباس (رض) کے یہاں جاؤ اور ان سے پوچھو کہ آیت لا يحسبن الذين يفرحون کی رو سے تو ہم سب کو عذاب ہونا چاہیئے کیونکہ ہر ایک آدمی ان نعمتوں پر جو اس کو ملی ہیں، خوش ہے اور یہ چاہتا ہے کہ جو کام اس نے کیا نہیں اس پر بھی اس کی تعریف ہو۔ ابورافع نے ابن عباس (رض) سے جا کر پوچھا، تو ابن عباس (رض) نے کہا، تم مسلمانوں سے اس آیت کا کیا تعلق ! یہ تو رسول اللہ ﷺ نے یہودیوں کو بلایا تھا اور ان سے ایک دین کی بات پوچھی تھی۔ (جو ان کی آسمانی کتاب میں موجود تھی) انہوں نے اصل بات کو تو چھپایا اور دوسری غلط بات بیان کردی، پھر بھی اس بات کے خواہشمند رہے کہ نبی کریم ﷺ کے سوال کے جواب میں جو کچھ انہوں نے بتایا ہے اس پر ان کی تعریف کی جائے اور ادھر اصل حقیقت کو چھپا کر بھی بڑے خوش تھے۔ پھر ابن عباس (رض) نے اس آیت کی تلاوت وإذ أخذ الله ميثاق الذين أوتوا الکتاب کی اور وہ وقت یاد کرو جب اللہ نے اہل کتاب سے عہد لیا تھا کہ کتاب کو پوری ظاہر کردینا لوگوں پر، آیت يفرحون بما أتوا ويحبون أن يحمدوا بما لم يفعلوا جو لوگ اپنے کرتوتوں پر خوش ہیں اور چاہتے ہیں کہ جو کام نہیں کئے ہیں، ان پر بھی ان کی تعریف کی جائے۔ تک۔ ہشام بن یوسف کے ساتھ اس حدیث کو عبدالرزاق نے بھی ابن جریج سے روایت کیا۔ ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، کہا ہم کو حجاج بن محمد نے خبر دی، انہوں نے ابن جریج سے کہا مجھ کو ابن ابی ملیکہ نے خبر دی، ان کو حمید بن عبدالرحمٰن بن عوف (رض) نے کہ مروان نے اپنے دربان رافع سے کہا، پھر یہی حدیث بیان کی۔
باب: آیت کی تفسیر ”بیشک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات دن کے اختلاف ہونے میں عقلمندوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں“، ”اختلاف سے رات و دن کا گھٹنا بڑھنا مراد ہے، جو موسمی اثرات سے ہوتا رہتا ہے، یہ سب قدرت الٰہی کے نمونے ہیں“۔
گھر رہ گیا۔ پہلے رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیوی (میمونہ رضی اللہ عنہا) کے ساتھ تھوڑی دیر تک بات چیت کی پھر سو گئے۔ جب رات کا تیسرا حصہ باقی رہا تو آپ اٹھ کر بیٹھ گئے اور آسمان کی طرف نظر کی اور یہ آیت تلاوت کی إن في خلق السموات والأرض واختلاف الليل والنهار لآيات لأولي الألباب بیشک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور دن و رات کے مختلف ہونے میں عقلمندوں کے لیے (بڑی) نشانیاں ہیں۔ اس کے بعد آپ ﷺ کھڑے ہوئے اور وضو کیا اور مسواک کی، پھر گیارہ رکعتیں تہجد اور وتر پڑھیں۔ جب بلال (رض) نے (فجر کی) اذان دی تو آپ نے دو رکعت (فجر کی سنت) پڑھی اور باہر مسجد میں تشریف لائے اور فجر کی نماز پڑھائی۔
باب: آیت کی تفسیر ”جو اللہ کو کھڑے اور بیٹھے اور اپنی کروٹوں پر ہر حالت میں یاد کرتے رہتے ہیں اور آسمانوں اور زمینوں کی پیدائش میں غور کرتے رہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! تو نے اس کائنات کو بیکار پیدا نہیں کیا“ آخر آیت تک۔
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرحمٰن بن مہدی نے بیان کیا، ان سے امام مالک بن انس نے، ان سے مخرمہ بن سلیمان نے، ان سے کریب نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ میں ایک رات اپنی خالہ میمونہ (رض) کے یہاں سو گیا، ارادہ یہ تھا کہ آج رسول اللہ ﷺ کی نماز دیکھوں گا۔ میری خالہ نے آپ کے لیے گدا بچھا دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے طول میں لیٹ گئے پھر (جب آخری رات میں بیدار ہوئے تو) چہرہ مبارک پر ہاتھ پھیر کر نیند کے آثار دور کئے۔ پھر سورة آل عمران کی آخری دس آیات پڑھیں، اس کے بعد آپ ایک مشکیزے کے پاس آئے اور اس سے پانی لے کر وضو کیا اور نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہوگئے۔ میں بھی کھڑا ہوگیا اور جو کچھ آپ نے کیا تھا وہی سب کچھ میں نے بھی کیا اور آپ کے پاس آ کر آپ کے بازو میں میں بھی کھڑا ہوگیا۔ آپ ﷺ نے میرے سر پر اپنا دایاں ہاتھ رکھا اور میرے کان کو (شفقت سے) پکڑ کر ملنے لگے۔ پھر آپ ﷺ نے دو رکعت تہجد کی نماز پڑھی، پھر دو رکعت نماز پڑھی، پھر دو رکعت نماز پڑھی، پھر دو رکعت نماز پڑھی، پھر دو رکعت نماز پڑھی، پھر دو رکعت نماز پڑھی، پھر وتر کی نماز پڑھی۔
باب: آیت کی تفسیر ”اے ہمارے رب! تو نے جسے دوزخ میں داخل کر دیا، اسے تو نے واقعی ذلیل و رسوا کر دیا اور ظالموں کا کوئی بھی مددگار نہیں ہے“۔
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے معن بن عیسیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے مخرمہ بن سلیمان نے، ان سے عبداللہ بن عباس (رض) کے غلام کریب نے اور انہیں عبداللہ بن عباس (رض) نے خبر دی کہ ایک رات وہ نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ میمونہ (رض) کے گھر میں رہ گئے جو ان کی خالہ تھیں۔ انہوں نے کہا کہ میں بستر کے عرض میں لیٹا اور نبی کریم ﷺ اور آپ کی بیوی طول میں لیٹے، پھر آپ سو گئے اور آدھی رات میں یا اس سے تھوڑی دیر پہلے یا بعد میں آپ بیدار ہوئے اور چہرہ پر ہاتھ پھیر کر نیند کو دور کیا۔ پھر سورة آل عمران کی آخری دس آیتوں کی تلاوت کی۔ اس کے بعد آپ اٹھ کر مشکیزے کے قریب گئے جو لٹکا ہوا تھا۔ اس کے پانی سے آپ نے وضو بہت ہی اچھی طرح سے پورے آداب کے ساتھ کیا اور نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہوگئے۔ میں نے بھی آپ ہی کی طرح (وضو وغیرہ) کیا اور نماز کے لیے آپ کے بازو میں جا کر کھڑا ہوگیا۔ نبی کریم ﷺ نے اپنا داہنا ہاتھ میرے سر پر رکھا اور اسی ہاتھ سے (بطور شفقت) میرا کان پکڑ کر ملنے لگے، پھر آپ نے دو رکعت نماز پڑھی، پھر دو رکعت پڑھی، پھر دو رکعت پڑھی، پھر دو رکعت پڑھی، پھر دو رکعت پڑھی اور پھر دو رکعت پڑھی اور آخر میں وتر کی نماز پڑھی۔ اس سے فارغ ہو کر آپ لیٹ گئے، پھر جب مؤذن آیا تو آپ اٹھے اور دو ہلکی (فجر کی سنت) رکعتیں پڑھیں اور نماز فرض کے لیے باہر تشریف (مسجد میں) لے گئے اور صبح کی نماز پڑھائی۔
باب
باب : سورة نساء کی تفسیر ابن عباس (رض) نے کہا کہ (قرآن مجید کی آیت) يستنکف ، يستکبر کے معنی میں ہے۔ قواما ( قياما ) یعنی جس پر تمہارے گزران کی بنیاد قائم ہے۔ لهن سبيلا یعنی شادی شدہ کے لیے رجم اور کنوارے کے لیے کوڑے کی سزا ہے (جب وہ زنا کریں) اور دوسرے لوگوں نے کہا (آیت میں) مثنى وثلاث ورباع سے مراد دو دو تین تین اور چار چار ہیں۔ اہل عرب رباع سے آگے اس وزن سے تجاوز نہیں کرتے۔
باب: آیت «وإن خفتم أن لا تقسطوا في اليتامى» کی تفسیر۔
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو ہشام بن یوسف نے خبر دی، ان سے ابن جریج نے کہا، کہا مجھ کو ہشام بن عروہ نے خبر دی، انہیں ان کے والد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ ایک آدمی کی پرورش میں ایک یتیم لڑکی تھی، پھر اس نے اس سے نکاح کرلیا، اس یتیم لڑکی کی ملکیت میں کھجور کا ایک باغ تھا۔ اسی باغ کی وجہ سے یہ شخص اس کی پرورش کرتا رہا حالانکہ دل میں اس سے کوئی خاص لگاؤ نہ تھا۔ اس سلسلے میں یہ آیت اتری وإن خفتم أن لا تقسطوا في اليتامى کہ اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم یتیموں کے حق میں انصاف نہ کرسکو گے۔ ہشام بن یوسف نے کہا میں سمجھتا ہوں، ابن جریج نے یوں کہا یہ لڑکی اس درخت اور دوسرے مال اسباب میں اس مرد کی حصہ دار تھی۔
باب: آیت «وإن خفتم أن لا تقسطوا في اليتامى» کی تفسیر۔
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے صالح بن کیسان نے، ان سے ابن شہاب نے، انہوں نے کہا مجھ کو عروہ بن زبیر نے خبر دی انہوں نے عائشہ (رض) سے آیت وإن خفتم أن لا تقسطوا في اليتامى کا مطلب پوچھا۔ انہوں نے کہا میرے بھانجے اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک یتیم لڑکی اپنے ولی کی پرورش میں ہو اور اس کی جائیداد کی حصہ دار ہو (ترکے کی رو سے اس کا حصہ ہو) اب اس ولی کو اس کی مالداری خوبصورتی پسند آئے۔ اس سے نکاح کرنا چاہے پر انصاف کے ساتھ پورا مہر جتنا مہر اس کو دوسرے لوگ دیں، نہ دینا چاہے، تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں لوگوں کو ایسی یتیم لڑکیوں کے ساتھ جب تک ان کا پورا مہر انصاف کے ساتھ نہ دیں، نکاح کرنے سے منع فرمایا اور ان کو یہ حکم دیا کہ تم دوسری عورتوں سے جو تم کو بھلی لگیں نکاح کرلو۔ (یتیم لڑکی کا نقصان نہ کرو) عروہ نے کہا عائشہ (رض) کہتی تھیں، اس آیت کے اترنے کے بعد لوگوں نے پھر نبی کریم ﷺ سے اس بارے میں مسئلہ پوچھا، اس وقت اللہ نے یہ آیت ويستفتونک في النساء اتاری۔ عائشہ (رض) نے کہا دوسری آیت میں یہ جو فرمایا وترغبون أن تنکحوهن یعنی وہ یتیم لڑکیاں جن کا مال و جمال کم ہو اور تم ان کے ساتھ نکاح کرنے سے نفرت کرو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تم ان یتیم لڑکیوں سے جن کا مال و جمال کم ہو نکاح کرنا نہیں چاہتے تو مال اور جمال والی یتیم لڑکیوں سے بھی جن سے تم کو نکاح کرنے کی رغبت ہے نکاح نہ کرو، مگر جب انصاف کے ساتھ ان کا مہر پورا ادا کرو۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور جو شخص نادار ہو وہ مناسب مقدار میں کھا لے اور جب امانت ان یتیم بچوں کے حوالے کرنے لگو تو ان پر گواہ بھی کر لیا کرو“ آخر آیت تک۔
ہم سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن نمیر نے خبر دی، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے اللہ تعالیٰ کے ارشاد ومن کان غنيا فليستعفف ومن کان فقيرا فليأكل بالمعروف بلکہ جو شخص خوشحال ہو وہ اپنے کو بالکل روکے رکھے۔ البتہ جو شخص نادار ہو وہ واجبی طور پر کھا سکتا ہے۔ کے بارے میں فرمایا کہ یہ آیت یتیم کے بارے میں اتری ہے کہ اگر ولی نادار ہو تو یتیم کی پرورش اور دیکھ بھال کی اجرت میں وہ واجبی طور پر (یتیم کے مال میں سے کچھ) کھا سکتا ہے (بشرطیکہ نیت میں فساد نہ ہو) ۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور جب تقسیم ورثہ کے وقت کچھ عزیز قرابت دار اور بچے اور یتیم اور مسکین لوگ موجود ہوں تو ان کو بھی کچھ دے دیا کرو“ آخر آیت تک۔
ہم سے احمد بن حمید نے بیان کیا، ہم کو عبیداللہ اشجعی نے خبر دی، انہیں سفیان ثوری نے، انہیں ابواسحاق شیبانی نے، انہیں عکرمہ نے اور ان سے عبداللہ بن عباس (رض) نے آیت وإذا حضر القسمة أولو القربى واليتامى والمساکين اور جب تقسیم کے وقت عزیز و اقارب اور یتیم اور مسکین موجود ہوں۔ کے متعلق فرمایا کہ یہ محکم ہے، منسوخ نہیں ہے۔ عکرمہ کے ساتھ اس حدیث کو سعید بن جبیر نے بھی عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت کیا ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”اللہ تمہیں تمہاری اولاد (کی میراث) کے بارے میں وصیت کرتا ہے“۔
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن یوسف نے بیان کیا کہ انہیں ابن جریج نے خبر دی، بیان کیا کہ مجھے ابن منکدر نے خبر دی اور ان سے جابر (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ اور ابوبکر صدیق (رض) قبیلہ بنو سلمہ تک پیدل چل کر میری عیادت کے لیے تشریف لائے۔ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ مجھ پر بےہوشی طاری ہے، اس لیے آپ نے پانی منگوایا اور وضو کر کے اس کا پانی مجھ پر چھڑکا، میں ہوش میں آگیا، پھر میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! آپ کا کیا حکم ہے، میں اپنے مال کا کیا کروں ؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی يوصيكم الله في أولادکم کہ اللہ تمہیں تمہاری اولاد (کی میراث) کے بارے میں حکم دیتا ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور تمہارے لیے اس مال کا آدھا حصہ ہے جو تمہاری بیویاں چھوڑ جائیں جبکہ ان کے اولاد نہ ہو“۔
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، ان سے ورقاء بن عمر یشکری نے، ان سے ابن ابی نجیح نے، ان سے عطاء نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ ابتداء اسلام میں میت کا سارا مال اولاد کو ملتا تھا، البتہ والدین کو وہ ملتا جو میت ان کے لیے وصیت کر جائے، پھر اللہ تعالیٰ نے جیسا مناسب سمجھا اس میں نسخ کردیا۔ چناچہ اب مرد کا حصہ دو عورتوں کے حصہ کے برابر ہے اور میت کے والدین یعنی ان دونوں میں ہر ایک کے لیے اس مال کا چھٹا حصہ ہے۔ بشرطیکہ میت کے کوئی اولاد ہو، لیکن اگر اس کے کوئی اولاد نہ ہو، بلکہ اس کے والدین ہی اس کے وارث ہوں تو اس کی ماں کا ایک تہائی حصہ ہوگا اور بیوی کا آٹھواں حصہ ہوگا، جبکہ اولاد ہو، لیکن اگر اولاد نہ ہو تو چوتھائی ہوگا اور شوہر کا آدھا حصہ ہوگا، جبکہ اولاد نہ ہو لیکن اگر اولاد ہو تو چوتھائی ہوگا۔
باب: آیت کی تفسیر ”تمہارے لیے جائز نہیں کہ تم بیوہ عورتوں کے زبردستی مالک بن جاؤ“ آخر آیت تک۔
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، کہا ہم سے اسباط بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسحاق شیبانی نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے اور شیبانی نے کہا کہ یہ حدیث ابوالحسن عطا سوائی نے بھی بیان کی ہے اور جہاں تک مجھے یقین ہے ابن عباس (رض) ہی سے بیان کیا ہے کہ آیت يا أيها الذين آمنوا لا يحل لکم أن ترثوا النساء کر ها ولا تعضلوهن لتذهبوا ببعض ما آتيتموهن اے ایمان والو ! تمہارے لیے جائز نہیں کہ تم عورتوں کے زبردستی مالک ہوجاؤ اور نہ انہیں اس غرض سے قید رکھو کہ تم نے انہیں جو کچھ دے رکھا ہے، اس کا کچھ حصہ وصول کرلو، انہوں نے بیان کیا کہ جاہلیت میں کسی عورت کا شوہر مرجاتا تو شوہر کے رشتہ دار اس عورت کے زیادہ مستحق سمجھے جاتے۔ اگر انہیں میں سے کوئی چاہتا تو اس سے شادی کرلیتا، یا پھر وہ جس سے چاہتے اسی سے اس کی شادی کرتے اور چاہتے تو نہ بھی کرتے، اس طرح عورت کے گھر والوں کے مقابلہ میں بھی شوہر کے رشتہ دار اس کے زیادہ مستحق سمجھے جاتے، اسی پر یہ آیت يا أيها الذين آمنوا لا يحل لکم أن ترثوا النساء کرها نازل ہوئی۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور جو مال والدین اور قرابت دار چھوڑ جائیں اس کے لیے ہم نے وارث ٹھہرا دیئے ہیں“۔
ہم سے صلت بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے ادریس نے، ان سے طلحہ بن مصرف نے، ان سے سعید بن جبیر نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عباس (رض) نے بیان کیا کہ (آیت میں) ولکل جعلنا موالي سے مراد وارث ہیں اور والذين عاقدت أيمانکم کی تفسیر یہ ہے کہ شروع میں جب مہاجرین مدینہ آئے تو قرابت داروں کے علاوہ انصار کے وارث مہاجرین بھی ہوتے تھے۔ اس بھائی چارہ کی وجہ سے جو نبی کریم ﷺ نے مہاجرین اور انصار کے درمیان کرایا تھا، پھر جب یہ آیت نازل ہوئی کہ ولکل جعلنا موالي تو پہلا طریقہ منسوخ ہوگیا پھر بیان کیا کہ والذين عاقدت أيمانکم سے وہ لوگ مراد ہیں، جن سے دوستی اور مدد اور خیر خواہی کی قسم کھا کر عہد کیا جائے۔ لیکن اب ان کے لیے میراث کا حکم منسوخ ہوگیا مگر وصیت کا حکم رہ گیا۔ اس اسناد میں ابواسامہ نے ادریس سے اور ادریس نے طلحہ بن مصرف سے سنا ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”بیشک اللہ ایک ذرہ برابر بھی کسی پر ظلم نہیں کرے گا، «مثقال ذرة» سے ذرہ برابر مراد ہے۔
مجھ سے محمد بن عبدالعزیز نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعمر حفص بن میسرہ نے بیان کیا، ان سے زید بن اسلم نے، ان سے عطاء بن یسار نے اور ان سے ابو سعید خدری (رض) نے بیان کیا کہ کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں آپ ﷺ سے پوچھا : یا رسول اللہ ! کیا قیامت کے دن ہم اپنے رب کو دیکھ سکیں گے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں، کیا سورج کو دوپہر کے وقت دیکھنے میں تمہیں کوئی دشواری ہوتی ہے، جبکہ اس پر بادل بھی نہ ہو ؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ نہیں۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا اور کیا چودھویں رات کے چاند کو دیکھنے میں تمہیں کچھ دشواری پیش آتی ہے، جبکہ اس پر بادل نہ ہو ؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ نہیں۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ بس اسی طرح تم بلا کسی دقت اور رکاوٹ کے اللہ تعالیٰ کو دیکھو گے۔ قیامت کے دن ایک منادی ندا کرے گا کہ ہر امت اپنے جھوٹے معبودوں کے ساتھ حاضر ہوجائے۔ اس وقت اللہ کے سوا جتنے بھی بتوں اور پتھروں کی پوجا ہوتی تھی، سب کو جہنم میں جھونک دیا جائے گا۔ پھر جب وہی لوگ باقی رہ جائیں گے جو صرف اللہ کی پوجا کیا کرتے تھے، خواہ نیک ہوں یا گنہگار اور اہل کتاب کے کچھ لوگ، تو پہلے یہود کو بلایا جائے گا اور پوچھا جائے گا کہ تم (اللہ کے سوا) کس کی پوجا کرتے تھے ؟ وہ عرض کریں گے کہ عزیر ابن اللہ کی، اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا لیکن تم جھوٹے تھے، اللہ نے نہ کسی کو اپنی بیوی بنایا اور نہ بیٹا، اب تم کیا چاہتے ہو ؟ وہ کہیں گے، ہمارے رب ! ہم پیاسے ہیں، ہمیں پانی پلا دے۔ انہیں اشارہ کیا جائے گا کہ کیا ادھر نہیں چلتے۔ چناچہ سب کو جہنم کی طرف لے جایا جائے گا۔ وہاں چمکتی ریت پانی کی طرح نظر آئے گی، بعض بعض کے ٹکڑے کئے دے رہی ہوگی۔ پھر سب کو آگ میں ڈال دیا جائے گا۔ پھر نصاریٰ کو بلایا جائے گا اور ان سے پوچھا جائے گا کہ تم کس کی عبادت کیا کرتے تھے ؟ وہ کہیں گے کہ ہم مسیح ابن اللہ کی عبادت کرتے تھے۔ ان سے بھی کہا جائے گا کہ تم جھوٹے تھے۔ اللہ نے کسی کو بیوی اور بیٹا نہیں بنایا، پھر ان سے پوچھا جائے گا کہ کیا چاہتے ہو ؟ اور ان کے ساتھ یہودیوں کی طرح برتاؤ کیا جائے گا۔ یہاں تک کہ جب ان لوگوں کے سوا اور کوئی باقی نہ رہے گا جو صرف اللہ کی عبادت کرتے تھے، خواہ وہ نیک ہوں یا گنہگار، تو ان کے پاس ان کا رب ایک صورت میں جلوہ گر ہوگا، جو پہلی صورت سے جس کو وہ دیکھ چکے ہوں گے، ملتی جلتی ہوگی (یہ وہ صورت نہ ہوگی) اب ان سے کہا جائے گا۔ اب تمہیں کس کا انتظار ہے ؟ ہر امت اپنے معبودوں کو ساتھ لے کر جا چکی، وہ جواب دیں گے کہ ہم دنیا میں جب لوگوں سے (جنہوں نے کفر کیا تھا) جدا ہوئے تو ہم ان میں سب سے زیادہ محتاج تھے، پھر بھی ہم نے ان کا ساتھ نہیں دیا اور اب ہمیں اپنے سچے رب کا انتظار ہے جس کی ہم دنیا میں عبادت کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تمہارا رب میں ہی ہوں۔ اس پر تمام مسلمان بول اٹھیں گے کہ ہم اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے، دو یا تین مرتبہ یوں کہیں گے ہم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنے والے نہیں ہیں۔
باب: آیت کی تفسیر ”سو اس وقت کیا حال ہو گا جب ہم ہر امت سے ایک ایک گواہ حاضر کریں گے اور ان لوگوں پر تجھ کو بطور گواہ پیش کریں گے“۔
ہم سے صدقہ بن فضل نے بیان کیا، کہا ہم کو یحییٰ بن سعید قطان نے خبر دی، انہیں سفیان ثوری نے، انہیں سلیمان نے، انہیں ابراہیم نے، انہیں عبیدہ نے اور انہیں عبداللہ بن مسعود (رض) نے، یحییٰ نے بیان کیا کہ حدیث کا کچھ حصہ عمرو بن مرہ سے ہے (بواسطہ ابراہیم) کہ عبداللہ بن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ مجھ سے نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ مجھے قرآن پڑھ کر سناؤ۔ میں نے عرض کیا، نبی ﷺ کو میں پڑھ کے سناؤں ؟ وہ تو آپ ﷺ پر ہی نازل ہوتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں دوسرے سے سننا چاہتا ہوں۔ چناچہ میں نے آپ کو سورة نساء سنانی شروع کی، جب میں فكيف إذا جئنا من کل أمة بشهيد وجئنا بک على هؤلاء شهيدا پر پہنچا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ٹھہر جاؤ۔ میں نے دیکھا تو آپ ﷺ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے آیا ہو اور پانی نہ ہو تو پاک مٹی پر تیمم کرے“۔
ہم سے محمد بن سلام بیکندی نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدہ بن سلیمان نے خبر دی، انہیں ہشام بن عروہ نے، انہیں ان کے والد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ (مجھ سے) اسماء (رض) کا ایک ہار گم ہوگیا تو رسول اللہ ﷺ نے چند صحابہ رضی اللہ عنہم کو اسے تلاش کرنے کے لیے بھیجا۔ ادھر نماز کا وقت ہوگیا، نہ لوگ وضو سے تھے اور نہ پانی موجود تھا۔ اس لیے وضو کے بغیر نماز پڑھی گئی اس پر اللہ تعالیٰ نے تیمم کی آیت نازل کی۔
باب: آیت «أولي الأمر منكم» کی تفسیر۔
ہم سے صدقہ بن فضل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو حجاج بن محمد نے خبر دی، انہیں ابن جریج نے، انہیں یعلیٰ بن مسلم نے، انہیں سعید بن جبیر نے اور ان سے عبداللہ بن عباس (رض) نے بیان کیا کہ آیت أطيعوا الله وأطيعوا الرسول وأولي الأمر منکم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول ( ﷺ ) کی اور اپنے میں سے حاکموں کی۔ عبداللہ بن حذافہ بن قیس بن عدی (رض) کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ جب رسول اللہ ﷺ نے انہیں ایک مہم پر بطور افسر کے روانہ کیا تھا۔
باب: آیت کی تفسیر ”تیرے رب کی قسم! یہ لوگ ہرگز ایماندار نہ ہوں گے جب تک یہ لوگ اس جھگڑے میں جو ان کے آپس میں ہوں، تجھ کو اپنا حکم نہ بنا لیں، پھر تیرے فیصلے کو برضا و رغبت تسلیم نہ کر لیں“۔
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے اور ان سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا کہ زبیر (رض) کا ایک انصاری صحابی سے مقام حرہ کی ایک نالی کے بارے میں جھگڑا ہوگیا (کہ اس سے کون اپنے باغ کو پہلے سینچنے کا حق رکھتا ہے) نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ زبیر ! پہلے تم اپنے باغ سینچ لو پھر اپنے پڑوسی کو جلد پانی دے دینا۔ اس پر اس انصاری صحابی نے کہا : یا رسول اللہ ! اس لیے کہ یہ آپ کے پھوپھی زاد بھائی ہیں ؟ یہ سن کر نبی کریم ﷺ کے چہرہ مبارک کا رنگ بدل گیا اور آپ ﷺ نے فرمایا : زبیر ! اپنے باغ کو سینچو اور پانی اس وقت تک روکے رکھو کہ منڈیر تک بھر جائے، پھر اپنے پڑوسی کے لیے اسے چھوڑو۔ (پہلے نبی کریم ﷺ نے انصاری کے ساتھ اپنے فیصلے میں رعایت رکھی تھی) لیکن اس مرتبہ آپ ﷺ نے زبیر (رض) کو صاف طور پر ان کا پورا حق دے دیا کیونکہ انصاری نے ایسی بات کہی تھی۔ جس سے آپ کا غصہ ہونا قدرتی تھا۔ آپ ﷺ نے اپنے پہلے فیصلہ میں دونوں کے لیے رعایت رکھی تھی۔ زبیر (رض) نے بیان کیا کہ میرا خیال ہے، یہ آیات اسی سلسلے میں نازل ہوئی تھیں فلا وربک لا يؤمنون حتى يحكموک فيما شجر بينهم تیرے پروردگار کی قسم ہے کہ یہ لوگ ایماندار نہ ہوں گے جب تک یہ اس جھگڑے میں جو ان کے آپس میں ہوں آپ کو حکم نہ بنالیں اور آپ کے فیصلے کو کھلے دل کے ساتھ برضا و رغبت تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ ہوں۔
باب: آیت «فأولئك مع الذين أنعم الله عليهم من النبيين» کی تفسیر۔
ہم سے محمد بن عبداللہ بن حوشب نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے، ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو نبی مرض الموت میں بیمار ہوتا ہے تو اسے دنیا اور آخرت کا اختیار دیا جاتا ہے۔ چناچہ نبی کریم ﷺ کی مرض الموت میں جب آواز گلے میں پھنسنے لگی تو میں نے سنا کہ آپ ﷺ فرما رہے تھے مع الذين أنعم الله عليهم من النبيين والصديقين والشهداء والصالحين ان لوگوں کے ساتھ جن پر اللہ نے انعام کیا ہے یعنی انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ۔ اس لیے میں سمجھ گئی کہ آپ کو بھی اختیار دیا گیا ہے (اور آپ ﷺ نے اللهم بالرفيق الاعلي کہہ کر آخرت کو پسند فرمایا) ۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں جہاد نہیں کرتے اور ان لوگوں کی مدد کے لیے نہیں لڑتے جو کمزور ہیں، مردوں میں سے اور عورتوں اور لڑکوں میں سے“۔
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ نے بیان کیا کہ میں نے ابن عباس (رض) سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں اور میری والدہ مستضعفين (کمزوروں) میں سے تھے۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں جہاد نہیں کرتے اور ان لوگوں کی مدد کے لیے نہیں لڑتے جو کمزور ہیں، مردوں میں سے اور عورتوں اور لڑکوں میں سے“۔
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب نے، ان سے ابن ابی ملیکہ نے کہ ابن عباس (رض) نے آیت لا المستضعفين من الرجال والنساء والولدان کی تلاوت کی اور فرمایا کہ میں اور میری والدہ بھی ان لوگوں میں سے تھیں، جنہیں اللہ تعالیٰ نے معذور رکھا تھا۔ اور ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ حصرت معنی میں ضاقت کے ہے۔ تلووا یعنی تمہاری زبانوں سے گواہی ادا ہوگی۔ اور ابن عباس (رض) کے سوا دوسرے شخص (ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ) نے کہا مراغم کا معنی ہجرت کا مقام۔ عرب لوگ کہتے ہیں راغمت قومي. یعنی میں نے اپنی قوم والوں کو جمع کردیا۔ موقوتا کے معنی ایک وقت مقررہ پر یعنی جو وقت ان کے لیے مقرر ہو۔
باب: آیت کی تفسیر یعنی اور ”تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم منافقین کے بارے میں دو گروہ ہو گئے ہو حالانکہ اللہ نے ان کے کرتوتوں کے باعث انہیں الٹا پھیر دیا“۔
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر اور عبدالرحمٰن نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عدی نے، ان سے عبداللہ بن یزید نے اور ان سے زید بن ثابت (رض) نے آیت فما لکم في المنافقين فئتين اور تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم منافقین کے بارے میں دو فریق ہوگئے ہو۔ کے بارے میں فرمایا کہ کچھ لوگ منافقین جو (اوپر سے) نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھے، جنگ احد میں (آپ چھوڑ کر) واپس چلے آئے تو ان کے بارے میں مسلمانوں کی دو جماعتیں ہوگئیں۔ ایک جماعت تو یہ کہتی تھی کہ (یا رسول اللہ ! ) ان (منافقین) سے قتال کیجئے اور ایک جماعت یہ کہتی تھی کہ ان سے قتال نہ کیجئے۔ اس پر یہ آیت اتری فما لکم في المنافقين فئتين کہ تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم منافقین کے بارے میں دو گروہ ہوگئے ہو۔ اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہ مدینہ طيبة ہے۔ یہ خباثت کو اس طرح دور کردیتا ہے جیسے آگ چاندی کی میل کچیل کو دور کردیتی ہے۔
اللہ تعالیٰ کا قول کہ جو کسی مسلمان کو قصداً مار ڈالے گا اس کی سزایہ ہے کہ ہمیشہ دوزخ میں رہے گا۔
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے مغیرہ بن نعمان نے بیان کیا، کہا میں نے سعید بن جبیر سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ علماء کوفہ کا اس آیت کے بارے میں اختلاف ہوگیا تھا۔ چناچہ میں ابن عباس (رض) کی خدمت میں اس کے لیے سفر کر کے گیا اور ان سے اس کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے فرمایا کہ یہ آیت ومن يقتل مؤمنا متعمدا فجزاؤه جهنم اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے اس کی سزا دوزخ ہے۔ نازل ہوئی اور اس باب کی یہ سب سے آخری آیت ہے اسے کسی آیت نے منسوخ نہیں کیا ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور جو تمہیں سلام کرے اسے یہ نہ کہہ دیا کرو کہ تو تو مسلمان ہی نہیں“۔
مجھ سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے، ان سے عطاء نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے آیت ولا تقولوا لمن ألقى إليكم السلام لست مؤمنا اور جو تمہیں سلام کرتا ہو اسے یہ مت کہہ دیا کرو کہ تو تو مومن ہی نہیں ہے۔ کے بارے میں فرمایا کہ ایک صاحب (مرداس نامی) اپنی بکریاں چرا رہے تھے، ایک مہم پر جاتے ہوئے کچھ مسلمان انہیں ملے تو انہوں نے کہا السلام علیکم لیکن مسلمانوں نے بہانہ خور جان کر انہیں قتل کردیا اور ان کی بکریوں پر قبضہ کرلیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی تھی آخر آیت عرض الحياة الدنيا اس سے اشارہ انہیں بکریوں کی طرف تھا۔ بیان کیا کہ ابن عباس (رض) نے السلام قرآت کی ہے، مشہور قرآت بھی یہی ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”ایمان والوں میں سے (بلا عذر گھروں میں) بیٹھ رہنے والے اور اللہ کی راہ میں اپنے مال اور اپنی جان سے جہاد کرنے والے برابر نہیں ہو سکتے“۔
ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے صالح بن کیسان نے، ان سے ابن شہاب نے اور ان سے سہل بن سعد ساعدی (رض) نے بیان کیا انہوں نے مروان بن حکم بن عاص کو مسجد میں دیکھا (بیان کیا کہ) پھر میں ان کے پاس آیا اور ان کے پہلو میں بیٹھ گیا، انہوں نے مجھے خبر دی اور انہیں زید بن ثابت (رض) نے خبر دی تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے یہ آیت لکھوائی لا يستوي القاعدون من المؤمنين والمجاهدون في سبيل الله مسلمانوں میں سے (گھر) بیٹھ رہنے والے اور اللہ کی راہ میں اپنے مال اور اپنی جان سے جہاد کرنے والے برابر نہیں ہوسکتے۔ ابھی آپ یہ آیت لکھوا ہی رہے تھے کہ ابن ام مکتوم (رض) آگئے اور عرض کیا : اللہ کی قسم ! یا رسول اللہ ! اگر میں جہاد میں شرکت کرسکتا تو یقیناً جہاد کرتا۔ وہ اندھے تھے۔ اس کے بعد اللہ نے اپنے رسول پر وحی اتاری۔ آپ کی ران میری ران پر تھی (شدت وحی کی وجہ سے) اس کا مجھ پر اتنا بوجھ پڑا کہ مجھے اپنی ران کے پھٹ جانے کا اندیشہ ہوگیا۔ آخر یہ کیفیت ختم ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے غير أولي الضرر کے الفاظ اور نازل کئے۔
باب: آیت کی تفسیر ”ایمان والوں میں سے (بلا عذر گھروں میں) بیٹھ رہنے والے اور اللہ کی راہ میں اپنے مال اور اپنی جان سے جہاد کرنے والے برابر نہیں ہو سکتے“۔
ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق نے اور ان سے براء بن عازب (رض) نے کہا کہ جب آیت لا يستوي القاعدون من المؤمنين نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے زید بن ثابت (رض) کو کتابت کے لیے بلایا اور انہوں نے وہ آیت لکھ دی۔ پھر عبداللہ بن ام مکتوم (رض) حاضر ہوئے اور اپنے نابینا ہونے کا عذر پیش کیا، تو اللہ تعالیٰ نے غير أولي الضرر کے الفاظ اور نازل کئے۔
باب: آیت کی تفسیر ”ایمان والوں میں سے (بلا عذر گھروں میں) بیٹھ رہنے والے اور اللہ کی راہ میں اپنے مال اور اپنی جان سے جہاد کرنے والے برابر نہیں ہو سکتے“۔
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، ان سے اسرائیل نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق نے بیان کیا اور ان سے براء بن عازب (رض) نے بیان کیا کہ جب آیت لا يستوي القاعدون من المؤمنين نازل ہوئی تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ فلاں (یعنی زید بن ثابت رضی اللہ عنہ) کو بلاؤ۔ وہ اپنے ساتھ دوات اور تختی یا شانہ کی ہڈی لے کر حاضر ہوئے تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا لکھو لا يستوي القاعدون من المؤمنين والمجاهدون في سبيل الله۔ ابن ام مکتوم (رض) نے جو نبی کریم ﷺ کے پیچھے موجود تھے، عرض کیا : یا رسول اللہ ! میں نابینا ہوں۔ چناچہ وہیں اس طرح آیت نازل ہوئی لا يستوي القاعدون من المؤمنين غير أولي الضرر والمجاهدون في سبيل الله۔
باب: آیت کی تفسیر ”ایمان والوں میں سے (بلا عذر گھروں میں) بیٹھ رہنے والے اور اللہ کی راہ میں اپنے مال اور اپنی جان سے جہاد کرنے والے برابر نہیں ہو سکتے“۔
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو ہشام نے خبر دی، انہیں ابن جریج نے خبر دی (دوسری سند) امام بخاری (رح) نے کہا اور مجھ سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدالرزاق نے خبر دی، کہا ہم کو ابن جریج نے خبر دی، کہا ہم کو عبدالکریم جرزی نے خبر دی، انہیں عبداللہ بن حارث کے غلام مقسم نے خبر دی اور انہیں ابن عباس (رض) نے خبر دی کہ لا يستوي القاعدون من المؤمنين سے اشارہ ہے ان لوگوں کی طرف جو بدر میں شریک تھے اور جنہوں نے بلا کسی عذر کے بدر کی لڑائی میں شرکت نہیں کی تھی، وہ دونوں برابر نہیں ہوسکتے۔
باب: آیت کی تفسیر ”بیشک ان لوگوں کی جان جنہوں نے اپنے اوپر ظلم کر رکھا ہے۔ (جب) فرشتے قبض کرتے ہیں تو ان سے کہتے ہیں کہ تم کس کام میں تھے، وہ بولیں گے ہم اس ملک میں بیبس کمزور تھے، فرشتے کہیں گے کہ کیا اللہ کی سر زمین فراخ نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کر جاتے“۔
ہم سے عبداللہ بن یزید المقری نے بیان کیا، کہا ہم سے حیوہ بن شریح وغیرہ (ابن لہیعہ) نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے محمد بن عبدالرحمٰن ابوالاسود نے بیان کیا، کہا کہ اہل مدینہ کو (جب مکہ میں ابن زبیر (رض) کی خلافت کا دور تھا) شام والوں کے خلاف ایک فوج نکالنے کا حکم دیا گیا۔ اس فوج میں میرا نام بھی لکھا گیا تو ابن عباس (رض) کے غلام عکرمہ سے میں ملا اور انہیں اس صورت حال کی اطلاع کی۔ انہوں نے بڑی سختی کے ساتھ اس سے منع کیا اور فرمایا کہ مجھے ابن عباس (رض) نے خبر دی تھی کہ کچھ مسلمان مشرکین کے ساتھ رہتے تھے اور اس طرح رسول اللہ ﷺ کے خلاف ان کی زیادتی کا سبب بنتے، پھر تیر آتا اور وہ سامنے پڑجاتے تو انہیں لگ جاتا اور اس طرح ان کی جان جاتی یا تلوار سے (غلطی میں) انہیں قتل کردیا جاتا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی إن الذين توفاهم الملائكة ظالمي أنفسهم بیشک ان لوگوں کی جان جنہوں نے اپنے اوپر ظلم کر رکھا ہے (جب) فرشتے قبض کرتے ہیں۔ آخر آیت تک۔ اس روایت کو لیث بن سعد نے بھی ابوالاسود سے نقل کیا ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”سوائے ان لوگوں کے جو مردوں اور عورتوں بچوں میں سے کمزور ہیں کہ نہ کوئی تدبیر ہی کر سکتے ہیں اور نہ کوئی راہ پاتے ہیں کہ ہجرت کر سکیں“۔
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے، ان سے عبداللہ بن ابی ملیکہ نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے إلا المستضعفين کے متعلق فرمایا کہ میری ماں بھی ان ہی لوگوں میں تھیں جنہیں اللہ نے معذور رکھا تھا۔
باب: آیت کی تفسیر ”تو یہ لوگ ایسے ہیں کہ اللہ انہیں معاف کر دے گا اور اللہ تو بڑا ہی معاف کرنے والا اور بخش دینے والا ہے“۔
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شیبان نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، ان سے ابوسلمہ نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے عشاء کی نماز میں (رکوع سے اٹھتے ہوئے) سمع الله لمن حمده. کہا اور پھر سجدہ میں جانے سے پہلے یہ دعا کی اے اللہ ! عیاش بن ابی ربیعہ کو نجات دے۔ اے اللہ ! سلمہ بن ہشام کو نجات دے۔ اے اللہ ! ولید بن ولید کو نجات دے۔ اے اللہ کمزور مومنوں کو نجات دے۔ اے اللہ ! کفار مضر کو سخت سزا دے۔ اے اللہ انہیں ایسی قحط سالی میں مبتلا کر جیسی یوسف (علیہ السلام) کے زمانے میں قحط سالی آئی تھی۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور تمہارے لیے اس میں کوئی حرج نہیں کہ اگر تمہیں بارش سے تکلیف ہو رہی ہو یا تم بیمار ہو تو اپنے ہتھیار اتار کر رکھ دو“۔
ہم سے ابوالحسن محمد بن مقاتل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو حجاج بن محمد اعور نے خبر دی، ان سے ابن جریج نے بیان کیا، انہیں یعلیٰ بن مسلم نے خبر دی، انہیں سعید بن جبیر نے اور ان سے عبداللہ بن عباس (رض) نے آیت إن کان بکم أذى من مطر أو کنتم مرضى کے سلسلے میں بتلایا کہ عبدالرحمٰن بن عوف (رض) زخمی ہوگئے تھے ان سے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔
باب: آیت کی تفسیر ”لوگ آپ سے عورتوں کے بارے میں مسئلہ معلوم کرتے ہیں، آپ کہہ دیں کہ اللہ تمہیں عورتوں کی بابت حکم دیتا ہے اور وہ حکم وہی ہے جو تم کو قرآن مجید میں ان یتیم لڑکیوں کے حق میں سنایا جاتا ہے جن کو تم پورا حق نہیں دیتے“۔
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ حماد بن اسامہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے آیت ويستفتونک في النساء قل الله يفتيكم فيهن لوگ آپ سے عورتوں کے بارے میں فتویٰ مانگتے ہیں۔ آپ کہہ دیں کہ اللہ تمہیں ان کے بارے میں (وہی) فتویٰ دیتا ہے آیت وترغبون أن تنکحوهن تک۔ انہوں نے بیان کیا کہ یہ آیت ایسے شخص کے بارے میں نازل ہوئی کہ اگر اس کی پرورش میں کوئی یتیم لڑکی ہو اور وہ اس کا ولی اور وارث بھی ہو اور لڑکی اس کے مال میں بھی حصہ دار ہو۔ یہاں تک کہ کھجور کے درخت میں بھی۔ اب وہ شخص خود اس لڑکی سے نکاح کرنا چاہے، کیونکہ اسے یہ پسند نہیں کہ کسی دوسرے سے اس کا نکاح کر دے کہ وہ اس کے اس مال میں حصہ دار بن جائے، جس میں لڑکی حصہ دار تھی، اس وجہ سے اس لڑکی کا کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ ہونے دے تو ایسے شخص کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی تھی۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور اگر کسی عورت کو اپنے شوہر کی طرف سے ظلم زیادتی یا بے رغبتی کا خوف ہو تو ان کو باہمی صلح کر لینے میں کوئی گناہ نہیں کیونکہ صلح بہتر ہے“۔
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا ہم کو ہشام بن عروہ نے خبر دی، انہیں ان کے والد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے آیت وإن امرأة خافت من بعلها نشوزا أو إعراضا. اور کسی عورت کو اپنے شوہر کی طرف سے زیادتی یا بےرغبتی کا خوف ہو کے متعلق کہا کہ ایسا مرد جس کے ساتھ اس کی بیوی رہتی ہے، لیکن شوہر کو اس کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں، بلکہ وہ اسے جدا کردینا چاہتا ہے، اس پر عورت کہتی ہے کہ میں اپنی باری اور اپنا (نان نفقہ) معاف کردیتی ہوں (تم مجھے طلاق نہ دو ) تو ایسی صورت کے متعلق یہ آیت اسی باب میں اتری۔
باب: آیت کی تفسیر ”بلا شک منافقین دوزخ کے سب سے نچلے درجہ میں ہوں گے“۔
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا ان سے ان کے باپ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابراہیم نے بیان کیا، ان سے اسود نے بیان کیا کہ ہم عبداللہ بن مسعود (رض) کے حلقہ درس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ حذیفہ (رض) تشریف لائے اور ہمارے پاس کھڑے ہو کر سلام کیا۔ پھر کہا نفاق میں وہ جماعت مبتلا ہوگئی جو تم سے بہتر تھی۔ اس پر اسود بولے، سبحان اللہ، اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے إن المنافقين في الدرک الأسفل من النار کہ منافق دوزخ کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے۔ عبداللہ بن مسعود (رض) مسکرانے لگے اور حذیفہ (رض) مسجد کے کونے میں جا کر بیٹھ گئے۔ اس کے بعد عبداللہ بن مسعود (رض) اٹھ گئے اور آپ کے شاگرد بھی ادھر ادھر چلے گئے۔ پھر حذیفہ (رض) نے مجھ پر کنکری پھینکی (یعنی مجھ کو بلایا) میں حاضر ہوگیا تو کہا کہ مجھے عبداللہ بن مسعود (رض) کی ہنسی پر حیرت ہوئی حالانکہ جو کچھ میں نے کہا تھا اسے وہ خوب سمجھتے تھے۔ یقیناً نفاق میں ایک جماعت کو مبتلا کیا گیا تھا جو تم سے بہتر تھی، اس لیے کہ پھر انہوں نے توبہ کرلی اور اللہ نے بھی ان کی توبہ قبول کرلی۔
باب: آیت کی تفسیر ”یقیناً ہم نے آپ کی طرف وحی بھیجی ایسی ہی وحی جیسی ہم نے نوح اور ان کے بعد والے نبیوں کی طرف بھیجی تھی اور یونس اور ہارون اور سلیمان پر“ آخر آیت تک۔
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے سفیان ثوری نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے ابو وائل نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کسی کے لیے مناسب نہیں کہ مجھے یونس بن متی سے بہتر کہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”یقیناً ہم نے آپ کی طرف وحی بھیجی ایسی ہی وحی جیسی ہم نے نوح اور ان کے بعد والے نبیوں کی طرف بھیجی تھی اور یونس اور ہارون اور سلیمان پر“ آخر آیت تک۔
ہم سے محمد بن سنان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے فلیح نے بیان کیا، ان سے ہلال نے بیان کیا، ان سے عطاء بن یسار نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص یہ کہتا ہے میں یونس بن متی سے بہتر ہوں اس نے جھوٹ کہا۔
باب
باب : سورة المائدہ کی تفسیر حرم ، حرام کی جمع ہے (یعنی احرام باندھے ہوئے ہو) ۔ فبما نقضهم ، ميثاقهم سے یہ مراد ہے کہ اللہ نے جو حکم ان کو دیا تھا کہ بیت المقدس میں داخل ہوجاؤ وہ نہیں بجا لائے۔ تبوء باثمى یعنی تو میرا گناہ اٹھا لے گا۔ دائرة کے معنی زمانہ کی گردش۔ اور دوسرے لوگوں نے کہا إغراء کا معنی مسلط کرنا، ڈال دینا۔ أجورهن یعنی ان کے مہر۔ المهيمن کا معنی امانتدار (نگہبان) قرآن گویا اگلی آسمانی کتابوں کا محافظ ہے۔ سفیان ثوری نے کہا سارے قرآن میں اس سے زیادہ کوئی آیت مجھ پر سخت نہیں ہے وہ آیت یہ ہے لستم على شيء حتى تقيموا التوراة، والإنجيل الخ (کیونکہ اس آیت میں یہ ہے کہ جب تک کوئی اللہ کی کتاب کے موافق سب حکموں پر مضبوطی سے عمل نہ کرے، اس وقت تک اس کا دین و ایمان لائق اعتبار نہیں ہے) ۔ مخمصة کے معنی بھوک۔ من أحياها یعنی جس نے ناحق آدمی کا خون کرنا حرام سمجھا گویا سب آدمی اس کی وجہ سے زندہ رہے۔ شرعة ومنهاجا سے راستہ اور طریقہ مراد ہے۔
باب: آیت کی تفسیر یعنی آج میں نے تمہارے دین کو کامل کر دیا۔
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرحمٰن بن مہدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے قیس بن اسلم نے اور ان سے طارق بن شہاب نے کہ یہودیوں نے عمر (رض) سے کہا کہ آپ لوگ ایک ایسی آیت کی تلاوت کرتے ہیں کہ اگر ہمارے یہاں وہ نازل ہوئی ہوتی تو ہم (جس دن وہ نازل ہوئی ہوتی) اس دن عید منایا کرتے۔ عمر (رض) نے کہا، میں خوب اچھی طرح جانتا ہوں کہ یہ آیت اليوم أکملت لکم دينكم کہاں اور کب نازل ہوئی تھی اور جب عرفات کے دن نازل ہوئی تو نبی کریم ﷺ کہاں تشریف رکھتے تھے۔ اللہ کی قسم ! ہم اس وقت میدان عرفات میں تھے۔ سفیان ثوری نے کہا کہ مجھے شک ہے کہ وہ جمعہ کا دن تھا یا اور کوئی دوسرا دن۔
باب: آیت کی تفسیر ”پھر اگر تم کو پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تیمم کر لیا کرو“۔
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن قاسم نے بیان کیا، ان سے ان کے والد قاسم بن محمد نے بیان کیا اور ان سے نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ ایک سفر میں ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ روانہ ہوئے۔ جب ہم مقام بیداء یا ذات الجیش تک پہنچے تو میرا ہار گم ہوگیا۔ اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اسے تلاش کروانے کے لیے وہیں قیام کیا اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھی آپ ﷺ کے ساتھ قیام کیا۔ وہاں کہیں پانی نہیں تھا اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ بھی پانی نہیں تھا۔ لوگ ابوبکر صدیق (رض) کے پاس آئے اور کہنے لگے، ملاحظہ نہیں فرماتے، عائشہ (رض) نے کیا کر رکھا ہے اور نبی کریم ﷺ کو یہیں ٹھہرا لیا اور ہمیں بھی، حالانکہ یہاں کہیں پانی نہیں ہے اور نہ کسی کے پاس پانی ہے۔ ابوبکر (رض) (میرے یہاں) آئے۔ نبی کریم ﷺ سر مبارک میری ران پر رکھ کر سو گئے تھے اور کہنے لگے تم نے نبی کریم ﷺ کو اور سب کو روک لیا، حالانکہ یہاں کہیں پانی نہیں ہے اور نہ کسی کے ساتھ پانی ہے۔ عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ ابوبکر صدیق (رض) مجھ پر بہت خفا ہوئے اور جو اللہ کو منظور تھا مجھے کہا، سنا اور ہاتھ سے میری کوکھ میں کچوکے لگائے۔ میں نے صرف اس خیال سے کوئی حرکت نہیں کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میری ران پر اپنا سر رکھے ہوئے تھے۔ پھر نبی کریم ﷺ اٹھے اور صبح تک کہیں پانی کا نام و نشان نہیں تھا، پھر اللہ تعالیٰ نے تیمم کی آیت اتاری تو اسید بن حضیر نے کہا کہ آل ابی بکر ! یہ تمہاری کوئی پہلی برکت نہیں ہے۔ بیان کیا کہ پھر ہم نے وہ اونٹ اٹھایا جس پر میں سوار تھی تو ہار اسی کے نیچے مل گیا۔
باب: آیت کی تفسیر ”پھر اگر تم کو پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تیمم کر لیا کرو“۔
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عمرو بن حارث نے خبر دی، ان سے عبدالرحمٰن بن قاسم نے بیان کیا، ان سے ان کے والد قاسم نے اور ان سے عائشہ (رض) نے کہ میرا ہار مقام بیداء میں گم ہوگیا تھا۔ ہم مدینہ واپس آ رہے تھے، نبی کریم ﷺ نے وہیں اپنی سواری روک دی اور اتر گئے، پھر نبی کریم ﷺ سر مبارک میری گود میں رکھ کر سو رہے تھے کہ ابوبکر (رض) اندر آگئے اور میرے سینے پر زور سے ہاتھ مار کر فرمایا کہ ایک ہار کے لیے تم نے نبی کریم ﷺ کو روک لیا لیکن نبی کریم ﷺ کے آرام کے خیال سے میں بےحس و حرکت بیٹھی رہی حالانکہ مجھے تکلیف ہوئی تھی۔ پھر نبی کریم ﷺ بیدار ہوئے اور صبح کا وقت ہوا اور پانی کی تلاش ہوئی لیکن کہیں پانی کا نام و نشان نہ تھا۔ اسی وقت یہ آیت اتری يا أيها الذين آمنوا إذا قمتم إلى الصلاة الخ۔ اسید بن حضیر (رض) نے کہا : اے آل ابی بکر ! تمہیں اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے لیے باعث برکت بنایا ہے۔ یقیناً تم لوگوں کے لیے باعث برکت ہو۔ تمہارا ہار گم ہوا اللہ نے اس کی وجہ سے تیمم کی آیت نازل فرما دی جو قیامت تک مسلمانوں کے لیے آسانی اور برکت ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”سو آپ خود اور آپ کا رب جہاد کرنے چلے جاؤ اور آپ دونوں ہی لڑو بھڑو، ہم تو اس جگہ بیٹھے رہیں گے“۔
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے اسرائیل نے بیان کیا، ان سے مخارق نے، ان سے طارق بن شہاب نے اور انہوں نے ابن مسعود (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں مقداد بن اسود (رض) کے قریب موجود تھا (دوسری سند) اور مجھ سے حمدان بن عمر نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوالنضر (ہاشم بن قاسم) نے بیان کیا، کہا ہم سے عبیداللہ بن عبدالرحمٰن اشجعی نے بیان کیا، ان سے سفیان ثوری نے، ان سے مخارق بن عبداللہ نے، ان سے طارق بن شہاب نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ جنگ بدر کے موقع پر مقداد بن اسود (رض) نے کہا تھا : یا رسول اللہ ! ہم آپ سے وہ بات نہیں کہیں گے جو بنی اسرائیل نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہی تھی فاذهب أنت وربک فقاتلا إنا ها هنا قاعدون کہ آپ خود اور آپ کے خدا چلے جائیں اور آپ دونوں لڑ بھڑ لیں۔ ہم تو یہاں سے ٹلنے کے نہیں۔ نہیں ! آپ چلئے، ہم آپ کے ساتھ جان دینے کو حاضر ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کو ان کی اس بات سے خوشی ہوئی۔ اس حدیث کو وکیع نے بھی سفیان ثوری سے، انہوں نے مخارق سے، انہوں نے طارق سے روایت کیا ہے کہ مقداد (رض) نے نبی کریم ﷺ سے یہ عرض کیا (جو اوپر بیان ہوا) ۔
باب: آیت کی تفسیر ”جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے لڑائی کرتے ہیں اور ملک میں فساد پھیلانے میں لگے رہتے ہیں ان کی سزا بس یہی ہے کہ وہ قتل کر دیئے جائیں یا سولی دیئے جائیں“ آخر آیت «أو ينفوا من الأرض» تک یعنی یا وہ جلا وطن کر دیئے جائیں۔
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن عبداللہ انصاری نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن عون نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے سلمان ابورجاء، ابوقلابہ کے غلام نے بیان کیا اور ان سے ابوقلابہ نے کہ وہ (امیرالمؤمنین) عمر بن عبدالعزیز (رح) خلیفہ کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے (مجلس میں قسامت کا ذکر آگیا) لوگوں نے کہا کہ قسامت میں قصاص لازم ہوگا۔ آپ سے پہلے خلفاء راشدین نے بھی اس میں قصاص لیا ہے۔ پھر عمر بن عبدالعزیز (رح) ابوقلابہ کی طرف متوجہ ہوئے وہ پیچھے بیٹھے ہوئے تھے اور پوچھا : عبداللہ بن زید تمہاری کیا رائے ہے، یا یوں کہا کہ ابوقلابہ ! آپ کی کیا رائے ہے ؟ میں نے کہا کہ مجھے تو کوئی ایسی صورت معلوم نہیں ہے کہ اسلام میں کسی شخص کا قتل جائز ہو، سوا اس کے کہ کسی نے شادی شدہ ہونے کے باوجود زنا کیا ہو، یا ناحق کسی کو قتل کیا ہو، یا (پھر) اللہ اور اس کے رسول سے لڑا ہو (مرتد ہوگیا ہو) ۔ اس پر عنبسہ نے کہا کہ ہم سے انس (رض) نے اس طرح حدیث بیان کی تھی۔ ابوقلابہ بولے کہ مجھ سے بھی انہوں نے یہ حدیث بیان کی تھی۔ بیان کیا کہ کچھ لوگ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام پر بیعت کرنے کے بعد نبی کریم ﷺ سے کہا کہ ہمیں اس شہر مدینہ کی آب و ہوا موافق نہیں آئی۔ نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا کہ ہمارے یہ اونٹ چرنے جا رہے ہیں تم بھی ان کے ساتھ چلے جاؤ اور ان کا دودھ اور پیشاب پیو (کیونکہ ان کے مرض کا یہی علاج تھا) چناچہ وہ لوگ ان اونٹوں کے ساتھ چلے گئے اور ان کا دودھ اور پیشاب پیا۔ جس سے انہیں صحت حاصل ہوگئی۔ اس کے بعد انہوں نے (نبی کریم ﷺ کے چرواہے) کو پکڑ کر قتل کردیا اور اونٹ لے کر بھاگے۔ اب ایسے لوگوں سے بدلہ لینے میں کیا تامل ہوسکتا تھا۔ انہوں نے ایک شخص کو قتل کیا اور اللہ اور اس کے رسول سے لڑے اور نبی کریم ﷺ کو خوفزدہ کرنا چاہا۔ عنبسہ نے اس پر کہا : سبحان اللہ ! میں نے کہا، کیا تم مجھے جھٹلانا چاہتے ہو ؟ انہوں نے کہا کہ (نہیں) یہی حدیث انس (رض) نے مجھ سے بھی بیان کی تھی۔ میں نے اس پر تعجب کیا کہ تم کو حدیث خوب یاد رہتی ہے۔ ابوقلابہ نے بیان کیا کہ عنبسہ نے کہا، اے شام والو ! جب تک تمہارے یہاں ابوقلابہ یا ان جیسے عالم موجود رہیں گے، تم ہمیشہ اچھے رہو گے۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور زخموں میں قصاص ہے“۔
مجھ سے محمد بن سلام نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو مروان بن معاویہ فزاری نے خبر دی، انہیں حمید طویل نے اور ان سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ ربیع نے جو انس (رض) کی پھوپھی تھیں، انصار کی ایک لڑکی کے آگے کے دانت توڑ دیئے۔ لڑکی والوں نے قصاص چاہا اور نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ نبی کریم ﷺ نے بھی قصاص کا حکم دیا۔ انس بن مالک (رض) کے چچا انس بن نضر (رض) نے کہا : نہیں اللہ کی قسم ! ان کا دانت نہ توڑ ا جائے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انس ! لیکن کتاب اللہ کا حکم قصاص ہی کا ہے۔ پھر لڑکی والے معافی پر راضی ہوگئے اور دیت لینا منظور کرلیا۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کے بہت سے بندے ایسے ہیں کہ اگر وہ اللہ کا نام لے کر قسم کھا لیں تو اللہ ان کی قسم سچی کردیتا ہے۔
باب: آیت «يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك» کی تفسیر۔
ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے اسماعیل بن ابی خالد نے، ان سے شعبی نے، ان سے مسروق نے کہ ان سے عائشہ (رض) نے کہا، جو شخص بھی تم سے یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ پر جو کچھ نازل کیا تھا، اس میں سے آپ نے کچھ چھپالیا تھا، تو وہ جھوٹا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك کہ اے پیغمبر ! جو کچھ آپ پر آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل ہوا ہے، یہ (سب) آپ (لوگوں تک) پہنچا دیں۔
باب: آیت کی تفسیر ”اللہ تم سے تمہاری فضول قسموں پر پکڑ نہیں کرتا“۔
ہم سے علی بن سلمہ نے بیان کیا، کہا ہم سے مالک بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے کہ آیت لا يؤاخذکم الله باللغو في أيمانکم اللہ تم سے تمہاری فضول قسموں پر پکڑ نہیں کرتا۔ کسی کے اس طرح قسم کھانے کے بارے میں نازل ہوئی تھی کہ نہیں، اللہ کی قسم، ہاں اللہ کی قسم !۔
باب: آیت کی تفسیر ”اللہ تم سے تمہاری فضول قسموں پر پکڑ نہیں کرتا“۔
ہم سے احمد بن ابی رجاء نے بیان کیا، کہا ہم سے نضر بن شمیل نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، کہا مجھ کو میرے والد نے خبر دی اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ ان کے والد ابوبکر صدیق (رض) اپنی قسم کے خلاف کبھی نہیں کیا کرتے تھے۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ نے قسم کے کفارہ کا حکم نازل کردیا تو ابوبکر (رض) نے کہا کہ اب اگر اس کے (یعنی جس کے لیے قسم کھا رکھی تھی) سوا دوسری چیز مجھے اس سے بہتر معلوم ہوتی ہے تو میں اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی رخصت پر عمل کرتا ہوں اور وہی کام کرتا ہوں جو بہتر ہوتا ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”اے ایمان والو! اپنے اوپر ان پاک چیزوں کو جو اللہ نے تمہارے لیے حلال کی ہیں از خود حرام نہ کر لو“۔
ہم سے عمرو بن عون نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد بن عبداللہ طحان نے بیان کیا، ان سے اسماعیل بن ابی خالد نے، ان سے قیس بن ابی حازم نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہو کر جہاد کیا کرتے تھے اور ہمارے ساتھ ہماری بیویاں نہیں ہوتی تھیں۔ اس پر ہم نے عرض کیا کہ ہم اپنے آپ کو خصی کیوں نہ کرلیں۔ لیکن نبی کریم ﷺ نے ہمیں اس سے روک دیا اور اس کے بعد ہمیں اس کی اجازت دی کہ ہم کسی عورت سے کپڑے (یا کسی بھی چیز) کے بدلے میں نکاح کرسکتے ہیں۔ پھر عبداللہ (رض) نے یہ آیت پڑھی يا أيها الذين آمنوا لا تحرموا طيبات ما أحل الله لكم اے ایمان والو ! اپنے اوپر ان پاکیزہ چیزوں کو حرام نہ کرو جو اللہ نے تمہارے لیے جائز کی ہیں۔
باب: آیت کی تفسیر ”شراب اور جوا اور بت اور پانسے یہ سب گندی چیزیں ہیں بلکہ یہ شیطانی کام ہیں“۔
ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم کو محمد بن بشر نے خبر دی، ان سے عبدالعزیز بن عمر بن عبدالعزیز نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے نافع نے بیان کیا اور ان سے ابن عمر (رض) نے بیان کیا کہ جب شراب کی حرمت نازل ہوئی تو مدینہ میں اس وقت پانچ قسم کی شراب استعمال ہوتی تھی۔ لیکن انگوری شراب کا استعمال نہیں ہوتا تھا (بہرحال وہ بھی حرام قرار پائی) ۔
باب: آیت کی تفسیر ”شراب اور جوا اور بت اور پانسے یہ سب گندی چیزیں ہیں بلکہ یہ شیطانی کام ہیں“۔
ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن علیہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن صہیب نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا ہم لوگ تمہاری فضيخ (کھجور سے بنائی ہوئی شراب) کے سوا اور کوئی شراب استعمال نہیں کرتے تھے، یہی جس کا نام تم نے فضيخ رکھ رکھا ہے۔ میں کھڑا ابوطلحہ (رض) کو پلا رہا تھا اور فلاں اور فلاں کو، کہ ایک صاحب آئے اور کہا : تمہیں کچھ خبر بھی ہے ؟ لوگوں نے پوچھا کیا بات ہے ؟ انہوں نے بتایا کہ شراب حرام قرار دی جا چکی ہے۔ فوراً ہی ان لوگوں نے کہا : انس (رض) اب ان شراب کے مٹکوں کو بہا دو ۔ انہوں نے بیان کیا کہ ان کی اطلاع کے بعد ان لوگوں نے اس میں سے ایک قطرہ بھی نہ مانگا اور نہ پھر اس کا استعمال کیا۔
باب: آیت کی تفسیر ”شراب اور جوا اور بت اور پانسے یہ سب گندی چیزیں ہیں بلکہ یہ شیطانی کام ہیں“۔
ہم سے صدقہ بن فضل نے بیان کیا، کہا ہم کو ابن عیینہ نے خبر دی، انہیں عمرو نے اور ان سے جابر (رض) نے بیان کیا کہ غزوہ احد میں بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم نے صبح صبح شراب پی تھی اور اسی دن وہ سب شہید کردیئے گئے تھے۔ اس وقت شراب حرام نہیں ہوئی تھی (اس لیے وہ گنہگار نہیں ٹھہرے) ۔
باب: آیت کی تفسیر ”شراب اور جوا اور بت اور پانسے یہ سب گندی چیزیں ہیں بلکہ یہ شیطانی کام ہیں“۔
ہم سے اسحاق بن ابراہیم حنظلی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عیسیٰ اور ابن ادریس نے خبر دی، انہیں ابوحیان نے، انہیں شعبی نے اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ میں نے عمر (رض) سے سنا، وہ نبی کریم ﷺ کے منبر پر کھڑے فرما رہے تھے۔ امابعد ! اے لوگو ! جب شراب کی حرمت نازل ہوئی تو وہ پانچ چیزوں سے تیار کی جاتی تھی۔ انگور، کھجور، شہد، گیہوں اور جَو سے اور شراب ہر وہ پینے کی چیز ہے جو عقل کو زائل کر دے۔
باب: آیت کی تفسیر ”جو لوگ ایمان رکھتے ہیں اور نیک کام کرتے رہتے ہیں ان پر اس چیز میں کوئی گناہ نہیں جس کو انہوں نے پہلے کھا لیا ہے“ آخر آیت «والله يحب المحسنين» تک، یعنی شراب کی حرمت نازل ہونے سے پہلے پہلے جن لوگوں نے شراب پی ہے اور اب وہ تائب ہو گئے، ان پر کوئی گناہ نہیں ہے۔
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، کہا ہم سے ثابت نے، ان سے انس بن مالک نے کہ (حرمت نازل ہونے کے بعد) جو شراب بہائی گئی تھی وہ فضيخ. کی تھی۔ امام بخاری (رح) نے بیان کیا کہ مجھ سے محمد نے ابوالنعمان سے اس زیادتی کے ساتھ بیان کیا کہ انس (رض) نے کہا : میں صحابہ کی ایک جماعت کو ابوطلحہ (رض) کے گھر شراب پلا رہا تھا کہ شراب کی حرمت نازل ہوئی۔ نبی کریم ﷺ نے منادی کو حکم دیا اور انہوں نے اعلان کرنا شروع کیا۔ ابوطلحہ (رض) نے کہا : باہر جا کے دیکھو یہ آواز کیسی ہے۔ بیان کیا کہ میں باہر آیا اور کہا کہ ایک منادی اعلان کر رہا ہے کہ خبردار ہوجاؤ، شراب حرام ہوگئی ہے۔ یہ سنتے ہی انہوں نے مجھ کو کہا کہ جاؤ اور شراب بہا دو ۔ راوی نے بیان کیا، مدینہ کی گلیوں میں شراب بہنے لگی۔ راوی نے بیان کیا کہ ان دنوں فضيخ. شراب استعمال ہوتی تھی۔ بعض لوگوں نے شراب کو جو اس طرح بہتے دیکھا تو کہنے لگے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ لوگوں نے شراب سے اپنا پیٹ بھر رکھا تھا اور اسی حالت میں انہیں قتل کردیا گیا ہے۔ بیان کیا کہ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی ليس على الذين آمنوا وعملوا الصالحات جناح فيما طعموا جو لوگ ایمان رکھتے ہیں اور نیک کام کرتے رہتے ہیں، ان پر اس چیز میں کوئی گناہ نہیں جس کو انہوں نے کھالیا۔
باب: آیت کی تفسیر ”اے لوگو! ایسی باتیں نبی سے مت پوچھو کہ اگر تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں وہ باتیں ناگوار گزریں“۔
ہم سے منذر بن ولید بن عبدالرحمٰن جارودی نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے موسیٰ بن انس نے اور ان سے انس (رض) نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے ایسا خطبہ دیا کہ میں نے ویسا خطبہ کبھی نہیں سنا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا جو کچھ میں جانتا ہوں اگر تمہیں بھی معلوم ہوتا تو تم ہنستے کم اور روتے زیادہ۔ بیان کیا کہ پھر نبی کریم ﷺ کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے اپنے چہرے چھپا لیے، باوجود ضبط کے ان کے رونے کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ ایک صحابی نے اس موقع پر پوچھا : میرے والد کون ہیں ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ فلاں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی لا تسألوا عن أشياء إن تبد لکم تسؤكم کہ ایسی باتیں مت پوچھو کہ اگر تم پر ظاہر کردی جائیں تو تمہیں ناگوار گزریں۔ اس کی روایت نضر اور روح بن عبادہ نے شعبہ سے کی ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”اے لوگو! ایسی باتیں نبی سے مت پوچھو کہ اگر تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں وہ باتیں ناگوار گزریں“۔
ہم سے فضل بن سہل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوالنضر نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوخیثمہ نے بیان کیا، ان سے ابوجویریہ نے بیان کیا اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ بعض لوگ رسول اللہ ﷺ سے مذاقاً سوالات کیا کرتے تھے۔ کوئی شخص یوں پوچھتا کہ میرا باپ کون ہے ؟ کسی کی اگر اونٹنی گم ہوجاتی تو وہ یہ پوچھتے کہ میری اونٹنی کہاں ہوگی ؟ ایسے ہی لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی يا أيها الذين آمنوا لا تسألوا عن أشياء إن تبد لکم تسؤكم کہ اے ایمان والو ! ایسی باتیں مت پوچھو کہ اگر تم پر ظاہر کردی جائیں تو تمہیں ناگوار گزرے۔ یہاں تک کہ پوری آیت پڑھ کر سنائی۔
باب: آیت کی تفسیر ”اللہ نے نہ بحیرہ کو مقرر کیا ہے، نہ سائبہ کو اور نہ وصیلہ کو اور نہ حام کو“۔
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے صالح بن کیسان نے، ان سے ابن شہاب نے اور ان سے سعید بن مسیب نے بیان کیا کہ بحيرة اس اونٹنی کو کہتے تھے جس کا دودھ بتوں کے لیے روک دیا جاتا اور کوئی شخص اس کے دودھ کو دوہنے کا مجاز نہ سمجھا جاتا اور سائبة اس اونٹنی کو کہتے تھے جسے وہ اپنے دیوتاؤں کے نام پر آزاد چھوڑ دیتے اور اس سے باربرداری و سواری وغیرہ کا کام نہ لیتے۔ سعید راوی نے بیان کیا کہ ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے عمرو بن عامر خزاعی کو دیکھا کہ وہ اپنی آنتوں کو جہنم میں گھسیٹ رہا تھا، اس نے سب سے پہلے سانڈ چھوڑنے کی رسم نکالی تھی۔ اور وصيلة اس جوان اونٹنی کو کہتے تھے جو پہلی مرتبہ مادہ بچہ جنتی اور پھر دوسری مرتبہ بھی مادہ ہی جنتی، اسے بھی وہ بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے تھے لیکن اسی صورت میں جبکہ وہ برابر دو مرتبہ مادہ بچہ جنتی اور اس درمیان میں کوئی نر بچہ نہ ہوتا۔ اور حام وہ نر اونٹ جو مادہ پر شمار سے کئی دفعہ چڑھتا (اس کے نطفے سے دس بچے پیدا ہوجاتے) جب وہ اتنی صحبتیں کر چکتا تو اس کو بھی بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے اور بوجھ لادنے سے معاف کردیتے (نہ سواری کرتے) اس کا نام حام رکھتے اور ابوالیمان (حکم بن نافع) نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہوں نے زہری سے سنا، کہا میں نے سعید بن مسیب سے یہی حدیث سنی جو اوپر گزری۔ سعید نے کہا ابوہریرہ (رض) نے کہا میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا (وہی عمرو بن عامر خزاعی کا قصہ جو اوپر گزرا) اور یزید بن عبداللہ بن ہاد نے بھی اس حدیث کو ابن شہاب سے روایت کیا۔ انہوں نے سعید بن مسیب سے، انہوں نے ابوہریرہ (رض) سے، کہا میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا۔
باب: آیت کی تفسیر ”اللہ نے نہ بحیرہ کو مقرر کیا ہے، نہ سائبہ کو اور نہ وصیلہ کو اور نہ حام کو“۔
مجھ سے محمد بن ابی یعقوب ابوعبداللہ کرمانی نے بیان کیا، کہا ہم سے حسان بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے یونس نے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے جہنم کو دیکھا کہ اس کے بعض حصے بعض دوسرے حصوں کو کھائے جا رہے ہیں اور میں نے عمرو بن عامر خزاعی کو دیکھا کہ وہ اپنی آنتیں اس میں گھسیٹا پھر رہا تھا۔ یہی وہ شخص ہے جس نے سب سے پہلے سانڈ چھوڑنے کی رسم ایجاد کی تھی۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور میں ان پر گواہ رہا جب تک میں ان کے درمیان موجود رہا، پھر جب تو نے مجھے اٹھا لیا (جب سے) تو ہی ان پر نگراں ہے اور تو تو ہر چیز پر گواہ ہے“۔
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم کو مغیرہ بن نعمان نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ میں نے سعید بن جبیر سے سنا اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے خطبہ دیا اور فرمایا کہ اے لوگو ! تم اللہ کے پاس جمع کئے جاؤ گے، ننگے پاؤں ننگے جسم اور بغیر ختنہ کے، پھر آپ ﷺ نے یہ آیت پڑھی كما بدأنا أول خلق نعيده وعدا علينا إنا کنا فاعلين جس طرح ہم نے اول بار پیدا کرنے کے وقت ابتداء کی تھی، اسی طرح اسے دوبارہ زندہ کردیں گے، ہمارے ذمہ وعدہ ہے، ہم ضرور اسے کر کے ہی رہیں گے۔ آخر آیت تک۔ پھر فرمایا قیامت کے دن تمام مخلوق میں سب سے پہلے ابراہیم (علیہ السلام) کو کپڑا پہنایا جائے گا۔ ہاں اور میری امت کے کچھ لوگوں کو لایا جائے گا اور انہیں جہنم کی بائیں طرف لے جایا جائے گا۔ میں عرض کروں گا، میرے رب ! یہ تو میرے امتی ہیں ؟ مجھ سے کہا جائے گا، آپ کو نہیں معلوم ہے کہ انہوں نے آپ کے بعد نئی نئی باتیں شریعت میں نکالی تھیں۔ اس وقت میں بھی وہی کہوں گا جو عبد صالح عیسیٰ (علیہ السلام) نے کہا ہوگا وكنت عليهم شهيدا ما دمت فيهم فلما توفيتني كنت أنت الرقيب عليهم کہ میں ان کا حال دیکھتا رہا جب تک میں ان کے درمیان رہا، پھر جب تو نے مجھے اٹھا لیا (جب سے) تو ہی ان پر نگراں ہے۔ مجھے بتایا جائے گا کہ آپ کی جدائی کے بعد یہ لوگ دین سے پھرگئے تھے۔
باب
باب : سورة انعام ابن عباس (رض) نے کہا ثم لم تکن فتنتهم کا معنی پھر ان کا اور کوئی عذر نہ ہوگا۔ معروشات کا معنی ٹٹیوں پر چڑھائے ہوئے جیسے انگور وغیرہ (جن کی بیل ہوتی ہے) ۔ حمولة کا معنی لدو یعنی بوجھ لادنے کے جانور۔ وللبسنا کا معنی ہم شبہ ڈال دیں گے۔ ينأون کا معنی دور ہوجاتے ہیں۔ تبسل کا معنی رسوا کیا جائے۔ أبسلوا رسوا کئے گئے۔ باسطو أيديهم میں بسط کے معنی مارنا۔ استکثرتم یعنی تم نے بہتوں کو گمراہ کیا۔ وجعلوا لله من ثمراتهم ومالهم نصيبا یعنی انہوں نے اپنے پھلوں اور مالوں میں اللہ کا ایک حصہ اور شیطان اور بتوں کا ایک حصہ ٹھہرایا۔ اكنة ، کنان کی جمع ہے یعنی پردہ۔ أما اشتملت یعنی کیا مادوں کی پیٹ میں نر مادہ نہیں ہوتے پھر تم ایک کو حرام ایک کو حلال کیوں بناتے ہو۔ اور وما مسفوحا یعنی بہایا گیا خون۔ صدف کا معنی منہ پھیرا۔ أبلسوا کا معنی ناامید ہوئے۔ فاذاهم مبلسون میں اور أبسلوا بما کسبوا میں یہ معنی ہے کہ ہلاکت کے لیے سپرد کئے گئے۔ سرمدا کا معنی ہمیشہ۔ استهوته کا معنی گمراہ کیا۔ يمترون کا معنی شک کرتے ہو۔ وقر کا معنی بوجھ (جس سے کان بہرا ہو) ۔ اور وقر بکسرہ واؤ معنی بوجھ جو جانور پر لادا جائے۔ أساطير ، أسطورة اور إسطارة کی جمع ہے یعنی واہیات اور لغو باتیں۔ البأساء ، بأس سے نکلا ہے یعنی سخت مایوس سے یعنی تکلیف اور محتاجی نیز بؤس. سے بھی آتا ہے اور محتاج۔ جهرة کھلم کھلا۔ صور ( يوم ينقخ فى الصور ) میں صورت کی جمع جیسے سور ، سورة کی جمع۔ ملکوت سے ملك یعنی سلطنت مراد ہے۔ جیسے رهبوت اور رحموت مثل ہے رهبوت یعنی ڈر۔ رحموت (مہربانی) سے بہتر ہے اور کہتے ہیں تیرا ڈرایا جانا بچہ پر مہربانی کرنے سے بہتر ہے۔ جن عليه اليل رات کی اندھیری اس پر چھا گئی۔ حسبان کا معنی حساب۔ کہتے ہیں اللہ پر اس کا حسبان یعنی حساب ہے اور بعضوں نے کہا حسبان سے مراد تیر اور شیطان پر پھینکنے کے حربے۔ مستقر باپ کی پشت۔ مستودع ماں کا پیٹ۔ قنو (خوشہ) گچھہ اس کا تثنیہ قنوان اور جمع بھی قنوان جیسے صنو اور صنوان. (یعنی جڑ ملے ہوئے درخت) ۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور اس ہی کے پاس ہیں غیب کے خزانے، انہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا“۔
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے سالم بن عبداللہ نے اور ان سے ان کے والد (عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ غیب کے خزانے پانچ ہیں۔ جیسا کہ ارشاد باری ہے۔ بیشک اللہ ہی کو قیامت کی خبر ہے اور وہی جانتا ہے کہ رحموں میں کیا ہے اور کوئی بھی نہیں جان سکتا کہ وہ کل کیا عمل کرے گا اور نہ کوئی یہ جان سکتا ہے کہ وہ کس زمین پر مرے گا، بیشک اللہ ہی علم والا ہے، خبر رکھنے والا ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”آپ کہہ دیں کہ اللہ اس پر قادر ہے کہ تمہارے اوپر سے کوئی عذاب بھیج دے“ آخر آیت تک۔
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے بیان کیا اور ان سے جابر (رض) نے بیان کیا کہ جب یہ آیت قل هو القادر على أن يبعث عليكم عذابا من فوقکم نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اے اللہ ! میں تیرے منہ کی پناہ مانگتا ہوں۔ پھر یہ اترا أو من تحت أرجلکم آپ ﷺ نے فرمایا کہ یا اللہ ! میں تیرے منہ کی پناہ مانگتا ہوں۔ پھر یہ اترا أو يلبسکم شيعا ويذيق بعضکم بأس بعض اس وقت نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہ پہلے عذابوں سے ہلکا یا آسان ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کو ظلم سے خلط ملط نہیں کیا“ یہاں ظلم سے شرک مراد ہے۔
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے بیان کیا اور ان سے جابر (رض) نے بیان کیا کہ جب یہ آیت قل هو القادر على أن يبعث عليكم عذابا من فوقکم نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اے اللہ ! میں تیرے منہ کی پناہ مانگتا ہوں۔ پھر یہ اترا أو من تحت أرجلکم آپ ﷺ نے فرمایا کہ یا اللہ ! میں تیرے منہ کی پناہ مانگتا ہوں۔ پھر یہ اترا أو يلبسکم شيعا ويذيق بعضکم بأس بعض اس وقت نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہ پہلے عذابوں سے ہلکا یا آسان ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور یونس اور لوط علیہما السلام کو اور ان میں سے سب کو ہم نے جہاں والوں پر فضیلت دی تھی“۔
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن عدی نے بیان کیا، ان سے شعبی نے، ان سے سلیمان نے، ان سے ابراہیم نے، ان سے علقمہ نے اور ان سے عبداللہ (رض) نے بیان کیا کہ جب آیت ولم يلبسوا إيمانهم بظلم نازل ہوئی صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا، ہم میں کون ہوگا جس کا دامن ظلم سے پاک ہو۔ اس یہ آیت اتری إن الشرک لظلم عظيم بیشک شرک ظلم عظیم ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور یونس اور لوط علیہما السلام کو اور ان میں سے سب کو ہم نے جہاں والوں پر فضیلت دی تھی“۔
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابن مہدی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے، ان سے ابوالعالیہ نے بیان کیا کہ مجھ سے تمہارے نبی کے چچا زاد بھائی یعنی ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ کسی کے لیے مناسب نہیں کہ مجھے یونس بن متی (علیہ السلام) سے بہتر بتائے۔
باب: آیت کی تفسیر ”یہی وہ لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت کی تھی، سو آپ بھی ان کی ہدایت کی پیروی کریں“۔
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو سعد بن ابراہیم نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ میں نے حمید بن عبدالرحمٰن بن عوف (رض) سے سنا، انہوں نے ابوہریرہ (رض) سے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ کسی شخص کے لیے جائز نہیں کہ مجھے یونس بن متی (علیہ السلام) سے بہتر بتائے۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور جو لوگ کہ یہودی ہوئے ان پر ناخن والے کل جانور ہم نے حرام کر دیئے تھے اور گائے اور بکری میں سے ہم نے ان پر ان دونوں کی چربیاں حرام کی تھیں“ آخر آیت تک۔
ہم سے عمرو بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے یزید بن ابی حبیب نے کہ عطاء نے بیان کیا کہ انہوں نے جابر بن عبداللہ (رض) سے سنا انہوں نے نبی کریم ﷺ سے سنا، نبی کریم ﷺ نے فرمایا، اللہ یہودیوں کو غارت کرے، جب اللہ تعالیٰ نے ان پر مردہ جانوروں کی چربی حرام کردی تو اس کا تیل نکال کر اسے بیچنے اور کھانے لگے۔ اور ابوعاصم نے بیان کیا، ان سے عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے یزید نے بیان کیا، انہیں عطاء نے لکھا تھا کہ میں نے جابر (رض) سے سنا اور انہوں نے نبی کریم ﷺ سے۔
باب: آیت «ولا تقربوا الفواحش ما ظهر منها وما بطن» کی تفسیر۔
ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عمرو نے، ان سے ابو وائل نے اور ان سے عبداللہ (رض) نے کہا کہ اللہ سے زیادہ اور کوئی غیرت مند نہیں، یہی وجہ ہے کہ اس نے بےحیائیوں کو حرام قرار دیا ہے۔ خواہ وہ ظاہر ہوں خواہ پوشیدہ اور اللہ کو اپنی تعریف سے زیادہ اور کوئی چیز پسند نہیں، یہی وجہ ہے کہ اس نے اپنی خود مدح کی ہے۔ (عمرو بن مرہ نے بیان کیا کہ) میں نے پوچھا آپ نے یہ حدیث خود عبداللہ بن مسعود (رض) سے سنی تھی انہوں نے بیان کیا کہ ہاں، میں نے پوچھا اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے حوالہ سے حدیث بیان کی تھی ؟ کہا کہ ہاں۔ وکیل سے مراد حفیظ اور اس پر نگران یا اس کو گھیرنے والا۔ قبلا ، قبيل کی جمع ہے یعنی عذاب کی قسمیں۔ قبيل ایک ایک قسم۔ زخرف لغو اور بیکار چیز (یا بات) جس کو ظاہر میں آراستہ پیراستہ کریں۔ ( زخرف القول چکنی چپڑی باتیں) ۔ حرث حجر یعنی روکی گئی۔ حجر کہتے ہیں حرام اور ممنوع کو۔ اسی سے ہے حجر محجور اور حجر عمارت کو بھی کہتے ہیں اور مادہ گھوڑیوں کو بھی اور عقل کو بھی حجر اور حجى. کہتے ہیں اور اصحاب الحجر میں ثمود کی بستی والے مراد ہیں اور جس زمین کو تو روک دے اس میں کوئی آنے اور جانور چرانے نہ پائے اس کو بھی حجر کہتے ہیں۔ اسی سے خانہ کعبہ کے حطيم کو حجر کہتے ہیں۔ حطيم ، محطوم کے معنوں میں ہے جیسے قتيل ، مقتول کے معنی میں اب رہا یمامہ کا حجر تو وہ ایک مقام کا نام ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”کسی شخص کو اس کا ایمان فائدہ نہ دے گا“۔
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالواحد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عمارہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابوزرعہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اس وقت تک قیامت قائم نہ ہوگی، جب تک سورج مغرب سے طلوع نہ ہو لے۔ جب لوگ اسے دیکھیں گے تو ایمان لائیں گے لیکن یہ وہ وقت ہوگا جب کسی ایسے شخص کو اس کا ایمان کوئی نفع نہ دے گا جو پہلے سے ایمان نہ رکھتا ہو۔
باب
باب : سورة اعراف ابن عباس (رض) نے کہا يوارى ، سواتکم ، ورياشا میں رياشا سے مال اسباب مراد ہے۔ لا يحب المعتدين میں معتدي سے دعا میں حد سے بڑھ جانے والے مراد ہیں۔ عفوا کا معنی بہت ہوگئے ان کے مال زیادہ ہوئے۔ فتاح کہتے ہیں فیصلہ کرنے والے کو۔ افتح بيننا ہمارا فیصلہ کر۔ نتقنا اٹھایا۔ انبجست پھوٹ نکلے۔ متبر تباہی نقصان۔ آسى غم کھاؤں۔ فلا تأس غم نہ کھا۔ اوروں نے کہا ما منعک أن لا تسجد میں لا زائد ہے۔ یعنی تجھے سجدہ کرنے سے کس بات نے روکا يخصفان من ورق الجنة انہوں نے بہشت کے پتوں کا دونا بنا لیا یعنی بہشت کے پتے اپنے اوپر جوڑ لیے (تاکہ ستر نظر نہ آئے) ۔ سوآتهما سے شرمگاہ مراد ہے۔ ومتاع إلى حين میں حين سے قیامت مراد ہے۔ عرب کے محاورے میں حين ایک ساعت سے لے کے بےانتہا مدت کو کہہ سکتے ہیں۔ رياشا اور ريش کے معنی ایک ہیں یعنی ظاہری لباس۔ قبيله اس کی ذات والے شیطان جن میں سے وہ خود بھی ہے۔ ادارکوا اکٹھا ہوجائیں گے آدمی اور جانور سب کے سوراخ (یا مساموں) کو سموم کہتے ہیں اس کا مفرد سم یعنی آنکھ کے سوراخ، نتھنے، منہ، کان، پاخانہ کا مقام، پیشاب کا مقام۔ غواش غلاف جس سے ڈھانپے جائیں گے۔ نشرا متفرق نكدا تھوڑا۔ يغنوا جیے یا بسے۔ حقيق حق واجب۔ استرهبوهم ، رهبة سے نکلا ہے یعنی ڈرایا۔ تلقف لقمہ کرنے لگا (نگلنے لگا) ۔ طائرهم ان کا نصیبہ حصہ طوفان سیلاب، کبھی موت کی کثرت کو بھی طوفان کہتے ہیں۔ قمل چچڑیاں چھوٹی جوؤں کی طرح۔ عروش اور عريش عمارت، سقط جب کوئی شرمندہ ہوتا ہے تو کہتے ہیں سقط في يده.۔ الأسباط بنی اسرائیل کے خاندان قبیلے يعدون في السبت ہفتہ کے دن حد سے بڑھ جاتے تھے اسی سے ہے تعد یعنی حد سے بڑھ جائے۔ شرعا پانی کے اوپر تیرتے ہوئے۔ بئيس سخت۔ أخلد بیٹھ رہا، پیچھے ہٹ گیا۔ سنستدرجهم یعنی جہاں سے ان کو ڈر نہ ہوگا ادھر سے ہم آئیں گے جیسے اس آیت میں ہے فأتاهم الله من حيث لم يحتسبوا یعنی اللہ کا عذاب ادھر سے آپہنچا جدھر سے گمان نہ تھا۔ من جنة یعنی جنون دیوانگی فمرت به برابر پیٹ رہا، اس نے پیٹ کی مدت پوری کی ينزغنک گدگدائے پھسلائے۔ طيف اور طائف شیطان کی طرف سے جو اترے یعنی وسوسہ آئے۔ دونوں کا معنی ایک ہے يمدونهم ان کو اچھا کر دکھلاتے ہیں خفية کا معنی خوف، ڈر خيفة ، الإخفاء سے ہے یعنی چپکے چپکے الآصال ، أصيل کی جمع ہے وہ وقت جو عصر سے مغرب تک ہوتا ہے جیسے اس آیت میں ہے بكرة وأصيلا۔
باب: آیت کی تفسیر ”آپ کہہ دیں کہ میرے پروردگار نے بےحیائی کے کاموں کو حرام کیا ہے، ان میں سے جو ظاہر ہوں (ان کو بھی) اور جو چھپے ہوئے ہوں (ان کو بھی)۔
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن مرہ نے، ان سے ابو وائل نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے (عمرو بن مرہ نے بیان کیا کہ) میں نے (ابو وائل سے) پوچھا، کیا تم نے یہ حدیث ابن مسعود (رض) سے خود سنی ہے ؟ انہوں نے کہا کہ جی ہاں اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے بیان کیا، نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ سے زیادہ اور کوئی غیرت مند نہیں ہے۔ اسی لیے اس نے بےحیائیوں کو حرام کیا خواہ ظاہر میں ہوں یا پوشیدہ اور اللہ سے زیادہ اپنی مدح کو پسند کرنے والا اور کوئی نہیں، اسی لیے اس نے اپنے نفس کی خود تعریف کی ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور جب موسیٰ ہمارے مقرر کردہ وقت پر (کوہ طور) پر آ گئے اور ان سے ان کے رب نے کلام کیا، موسیٰ بولے، اے میرے رب! مجھے تو اپنا دیدار کرا دے (کہ) میں تجھ کو ایک نظر دیکھ لوں (اللہ تعالیٰ نے فرمایا) تم مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکتے، البتہ تم (اس) پہاڑ کی طرف دیکھو، سو اگر یہ اپنی جگہ پر قائم رہا تو تم (مجھ کو بھی دیکھ سکو گے، پھر جب ان کے رب نے پہاڑ پر اپنی تجلی ڈالی تو (تجلی نے) پہاڑ کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور موسیٰ بیہوش ہو کر گر پڑے، پھر جب انہیں ہوش آیا تو بولے اے رب! تو پاک ہے، میں تجھ سے معافی طلب کرتا ہوں اور میں سب سے پہلا ایمان لانے والا ہوں“۔
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے عمرو بن یحییٰ مازنی نے، ان سے ان کے والد یحییٰ مازنی نے اور ان سے ابو سعید خدری (رض) نے بیان کیا کہ ایک یہودی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، اس کے منہ پر کسی نے طمانچہ مارا تھا۔ اس نے کہا : اے محمد ! آپ کے انصاری صحابہ میں سے ایک شخص نے مجھے طمانچہ مارا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ انہیں بلاؤ۔ لوگوں نے انہیں بلایا، پھر آپ ﷺ نے ان سے پوچھا تم نے اسے طمانچہ کیوں مارا ہے ؟ اس نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! میں یہودیوں کی طرف سے گزرا تو میں نے سنا کہ یہ کہہ رہا تھا۔ اس ذات کی قسم ! جس نے موسیٰ (علیہ السلام) کو تمام انسانوں پر فضیلت دی۔ میں نے کہا اور محمد ﷺ پر بھی۔ مجھے اس کی بات پر غصہ آگیا اور میں نے اسے طمانچہ مار دیا۔ نبی کریم ﷺ نے اس پر فرمایا کہ مجھے انبیاء پر فضیلت نہ دیا کرو۔ قیامت کے دن تمام لوگ بیہوش کردیئے جائیں گے۔ سب سے پہلے میں ہوش میں آؤں گا لیکن میں موسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھوں گا کہ وہ عرش کا ایک پایہ پکڑے کھڑے ہوں گے اب مجھے نہیں معلوم کہ وہ مجھ سے پہلے ہوش میں آگئے یا طور کی بےہوشی کا انہیں بدلہ دیا گیا۔
باب: آیت کی تفسیر ”ہم نے تمہارے کھانے کے لیے من اور سلویٰ اتارا“۔
ہم سے مسلم نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عبدالملک نے، ان سے عمرو بن حریث نے اور ان سے سعید بن زید (رض) کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، کھنبی من میں سے ہے اور اس کا پانی آنکھوں کے لیے شفاء ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”اے نبی! آپ کہہ دیں کہ اے انسانو! بیشک میں اللہ کا سچا رسول ہوں، تم سب کی طرف اسی اللہ کا جس کی حکومت آسمانوں اور زمین میں ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہی جلاتا اور وہی مارتا ہے، سو ایمان لاؤ اللہ اور اس کے امی رسول و نبی پر جو خود ایمان رکھتا ہے اللہ اور اس کی باتوں پر اور اس کی پیروی کرتے رہو تاکہ تم ہدایت پا جاؤ“۔
ہم سے عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سلیمان بن عبدالرحمٰن اور موسیٰ بن ہارون نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ولید بن مسلم نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن علاء بن زبیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے بسر بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوادریس خولانی نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابودرداء (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ابوبکر اور عمر (رض) کے درمیان کچھ بحث سی ہوگئی تھی۔ عمر (رض) ابوبکر (رض) پر غصہ ہوگئے اور ان کے پاس سے آنے لگے۔ ابوبکر (رض) بھی ان کے پیچھے پیچھے ہوگئے، معافی مانگتے ہوئے۔ لیکن عمر (رض) نے انہیں معاف نہیں کیا اور (گھر پہنچ کر) اندر سے دروازہ بند کرلیا۔ اب ابوبکر (رض) رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ابودرداء (رض) نے بیان کیا کہ ہم لوگ اس وقت نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تمہارے یہ صاحب (یعنی ابوبکر رضی اللہ عنہ) لڑ آئے ہیں۔ راوی نے بیان کیا کہ عمر (رض) بھی اپنے طرز عمل پر نادم ہوئے اور نبی کریم ﷺ کی طرف چلے اور سلام کر کے آپ ﷺ کے قریب بیٹھ گئے۔ پھر نبی کریم ﷺ سے سارا واقعہ بیان کیا۔ ابودرداء (رض) نے بیان کیا کہ آپ بہت ناراض ہوئے۔ ادھر ابوبکر (رض) باربار یہ عرض کرتے کہ یا رسول اللہ ! واقعی میری ہی زیادتی تھی۔ پھر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ کیا تم لوگ مجھے میرے ساتھی سے جدا کرنا چاہتے ہو ؟ کیا تم لوگ میرے ساتھی کو مجھ سے جدا کرنا چاہتے ہو ؟ جب میں نے کہا تھا کہ اے انسانو ! بیشک میں اللہ کا رسول ہوں، تم سب کی طرف، تو تم لوگوں نے کہا کہ تم جھوٹ بولتے ہو، اس وقت ابوبکر نے کہا تھا کہ آپ سچے ہیں۔ ابوعبداللہ نے کہا غامر کے معنی حدیث میں یہ ہے کہ ابوبکر (رض) نے بھلائی میں سبقت کی ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور کہتے جاؤ کہ یا اللہ! گناہوں سے ہماری توبہ ہے“۔
ہم سے اسحاق نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدالرزاق نے خبر دی، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں ہمام بن منبہ نے، انہوں نے ابوہریرہ (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بنی اسرائیل سے کہا گیا تھا کہ دروازے میں (عاجزی سے) جھکتے ہوئے داخل ہو اور کہتے جاؤ کہ توبہ ہے، تو ہم تمہاری خطائیں معاف کردیں گے، لیکن انہوں نے حکم بدل ڈالا۔ چوتڑوں کے بل گھسٹتے ہوئے داخل ہوئے اور یہ کہا کہ حبة في شعرة یعنی ہم کو بالیوں میں دانہ چاہیئے۔
باب: آیت کی تفسیر ”اے نبی! معافی اختیار کر اور نیک کاموں کا حکم دیتے رہو اور جاہلوں سے منہ موڑیو «العرف»، «المعروف» کے معنی میں ہے جس کے معنی نیک کاموں کے ہیں۔
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے خبر دی اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ عیینہ بن حصن بن حذیفہ نے اپنے بھتیجے حر بن قیس کے یہاں آ کر قیام کیا۔ حر، ان چند خاص لوگوں میں سے تھے جنہیں عمر (رض) اپنے بہت قریب رکھتے تھے جو لوگ قرآن مجید کے زیادہ عالم اور قاری ہوتے۔ عمر (رض) کی مجلس میں انہیں کو زیادہ نزدیکی حاصل ہوتی تھی اور ایسے لوگ آپ کے مشیر ہوتے۔ اس کی کوئی قید نہیں تھی کہ وہ عمر رسیدہ ہوں یا نوجوان۔ عیینہ نے اپنے بھتیجے سے کہا کہ تمہیں اس امیر کی مجلس میں بہت نزدیکی حاصل ہے۔ میرے لیے بھی مجلس میں حاضری کی اجازت لے دو ۔ حر بن قیس نے کہا کہ میں آپ کے لیے بھی اجازت مانگوں گا۔ ابن عباس (رض) (رض) نے بیان کیا۔ چناچہ انہوں نے عیینہ کے لیے بھی اجازت مانگی اور عمر (رض) نے انہیں مجلس میں آنے کی اجازت دے دی۔ مجلس میں جب وہ پہنچے تو کہنے لگے : اے خطاب کے بیٹے ! اللہ کی قسم ! نہ تو تم ہمیں مال ہی دیتے ہو اور نہ عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرتے ہو۔ عمر (رض) کو ان کی اس بات پر بڑا غصہ آیا اور آگے بڑھ ہی رہے تھے کہ حر بن قیس نے عرض کیا : یا امیرالمؤمنین ! اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے خطاب کر کے فرمایا ہے معافی اختیار کر اور نیک کام کا حکم دے اور جاہلوں سے کنارہ کش ہوجایا کیجئے۔ اور یہ بھی جاہلوں میں سے ہیں۔ اللہ کی قسم ! کہ جب حر نے قرآن مجید کی تلاوت کی تو عمر (رض) بالکل ٹھنڈے پڑگئے اور کتاب اللہ کے حکم کے سامنے آپ کی یہی حالت ہوتی تھی۔
باب: آیت کی تفسیر ”اے نبی! معافی اختیار کر اور نیک کاموں کا حکم دیتے رہو اور جاہلوں سے منہ موڑیو «العرف»، «المعروف» کے معنی میں ہے جس کے معنی نیک کاموں کے ہیں۔
ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے وکیع نے بیان کیا، ان سے ہشام نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عبداللہ بن زبیر (رض) نے بیان کیا کہ آیت خذ العفو وأمر بالعرف معافی اختیار کیجئے اور نیک کام کا حکم دیتے رہئیے۔ لوگوں کے اخلاق کی اصلاح کے لیے ہی نازل ہوئی ہے۔ اور عبداللہ بن براد نے بیان کیا، ان سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے ہشام نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عبداللہ بن زبیر (رض) نے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم ﷺ کو حکم دیا ہے کہ لوگوں کے اخلاق ٹھیک کرنے کے لیے درگزر اختیار کریں یا کچھ ایسا ہی کہا۔
باب: آیت کی تفسیر ”یہ لوگ آپ سے غنیمتوں کے بارے میں سوال کرتے ہیں، آپ کہہ دیں کہ غنیمتیں اللہ کی ملک ہیں پھر رسول کی، پس اللہ سے ڈرتے رہو اور اپنے آپس کی اصلاح کرو“۔
مجھ سے محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سعید بن سلیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو ہشیم نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم کو ابوبشر نے خبر دی، ان سے سعید بن جبیر نے بیان کیا کہ میں نے ابن عباس (رض) سے سورة الانفال کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے بتلایا کہ غزوہ بدر میں نازل ہوئی تھی۔ الشوکة کا معنی دھار نوک۔ مردفين کے معنی فوج در فوج۔ کہتے ہیں ردفني وأردفني یعنی میرے بعد آیا۔ ذلکم فذوقوه ذوقوا کا معنی یہ ہے کہ یہ عذاب اٹھاؤ اس کا تجربہ کرو، منہ سے چکھنا مراد نہیں ہے۔ فيركمه کا معنی اس کا جمع کرے۔ شرد کا معنی جدا کر دے (یا سخت سزا دے) ۔ جنحوا کے معنی طلب کریں۔ يثخن کا معنی غالب ہوا اور مجاہد نے کہا مكاء کا معنی انگلیاں منہ پر رکھنا۔ تصدية سیٹی بجانا۔ يثبتوک تاکہ تجھ کو قید کرلیں۔
باب: آیت کی تفسیر ”بدترین حیوانات اللہ کے نزدیک وہ بہرے، گونگے لوگ ہیں جو ذرا بھی عقل نہیں رکھتے“۔
ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا، کہا ہم سے ورقاء بن عمر نے بیان کیا، ان سے ابن ابی نجیح نے، ان سے مجاہد نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے کہ آیت إن شر الدواب عند الله الصم البکم الذين لا يعقلون بدترین حیوانات اللہ کے نزدیک وہ بہرے گونگے ہیں جو عقل سے ذرا کام نہیں لیتے۔ بنو عبدالدار کے کچھ لوگوں کے بارے میں اتری تھی۔
باب: آیت کی تفسیر ”اے ایمان والو! اللہ اور رسول کی آواز پر لبیک کہو جبکہ وہ رسول تم کو تمہاری زندگی بخشنے والی چیز کی طرف بلائیں اور جان لو کہ اللہ حائل ہو جاتا ہے انسان اور اس کے دل کے درمیان اور یہ کہ تم سب کو اسی کے پاس اکٹھا ہونا ہے“۔
مجھ سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا، کہا ہم کو روح بن عبادہ نے خبر دی، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے خبیب بن عبدالرحمٰن نے انہوں نے حفص بن عاصم سے سنا اور ان سے ابوسعید بن معلی (رض) نے بیان کیا کہ میں نماز پڑھ رہا تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے پکارا۔ میں آپ ﷺ کی خدمت میں نہ پہنچ سکا بلکہ نماز سے فارغ ہونے کے بعد حاضر ہوا۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ آنے میں دیر کیوں ہوئی ؟ کیا اللہ تعالیٰ نے تمہیں حکم نہیں دیا ہے يا أيها الذين آمنوا استجيبوا لله وللرسول إذا دعاکم کہ اے ایمان والو ! اللہ اور اس کے رسول کی آواز پر لبیک کہو، جبکہ وہ (یعنی رسول) تم کو بلائیں۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ مسجد سے نکلنے سے پہلے میں تمہیں قرآن کی عظیم ترین سورة سکھاؤں گا۔ تھوڑی دیر بعد آپ باہر تشریف لے جانے لگے تو میں نے آپ کو یاد دلایا۔ اور معاذ بن معاذ عنبری نے اس حدیث کو یوں روایت کیا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے خبیب نے، انہوں نے حفص سے سنا اور انہوں نے ابوسعید بن معلی (رض) جو نبی کریم ﷺ کے صحابی تھے، سنا اور انہوں نے بیان کیا وہ (سورۃ فاتحه) الحمد لله رب العالمين ہے جس میں سات آیتیں ہیں جو ہر نماز میں مکرر پڑھی جاتی ہیں۔
باب: آیت کی تفسیر ”اے نبی! ان کو وہ وقت بھی یاد دلاؤ جب ان کافروں نے کہا تھا کہ اے اللہ! اگر یہ (کلام) تیری طرف سے واقعی برحق ہے ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے یا پھر (کوئی اور ہی) عذاب درد ناک لے آ“۔
مجھ سے احمد بن نضر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبیداللہ بن معاذ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے صاحب الزیادی عبدالحمید نے جو کردید کے صاحبزادے تھے، انہوں نے انس بن مالک (رض) سے سنا کہ ابوجہل نے کہا تھا کہ اے اللہ ! اگر یہ کلام تیری طرف سے واقعی حق ہے تو ہم پر آسمانوں سے پتھر برسا دے یا پھر کوئی اور ہی عذاب درد ناک لے آ ! تو اس پر آیت وما کان الله ليعذبهم وأنت فيهم وما کان الله معذبهم وهم يستغفرون * وما لهم أن لا يعذبهم الله وهم يصدون عن المسجد الحرام حالانکہ اللہ ایسا نہیں کرے گا کہ انہیں عذاب دے، اس حال میں کہ آپ ان میں موجود ہوں اور نہ اللہ ان پر عذاب لائے گا اس حال میں کہ وہ استغفار کر رہے ہوں۔ ان لوگوں کے لیے کیا وجہ کہ اللہ ان پر عذاب (ہی سرے سے) نہ لائے درآں حالیکہ وہ مسجد الحرام سے روکتے ہیں۔ آخر آیت تک۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور اللہ ایسا نہیں کرے گا کہ انہیں عذاب کرے اس حال میں کہ اے نبی! آپ ان میں موجود ہوں اور نہ اللہ ان پر عذاب لائے گا اس حالت میں کہ وہ استغفار کر رہے ہوں“۔
ہم سے محمد بن نضر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبیداللہ بن معاذ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے صاحب الزیادی عبدالحمید نے اور انہوں نے انس بن مالک (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ابوجہل نے کہا تھا کہ اے اللہ ! اگر یہ کلام تیری طرف سے واقعی حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے یا پھر کوئی اور ہی عذاب لے آ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی وما کان الله ليعذبهم وأنت فيهم وما کان الله معذبهم وهم يستغفرون * وما لهم أن لا يعذبهم الله وهم يصدون عن المسجد الحرام حالانکہ اللہ ایسا نہیں کرے گا کہ انہیں عذاب دے اس حال میں کہ آپ ان میں موجود ہوں اور نہ اللہ ان پر عذاب لائے گا۔ اس حال میں کہ وہ استغفار کر رہے ہوں۔ ان لوگوں کو اللہ کیوں نہ عذاب کرے جن کا حال یہ ہے کہ وہ مسجد الحرام سے روکتے ہیں۔ آخر آیت تک۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور ان سے لڑو، یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہ جائے“۔
ہم سے حسن بن عبدالعزیز نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن یحییٰ نے، کہا ہم سے حیوہ بن شریح نے، انہوں نے بکر بن عمرو سے، انہوں نے بکیر سے، انہوں نے نافع سے، انہوں نے عبداللہ بن عمر (رض) سے کہ ایک شخص (حبان یا علاء بن عرار نامی) نے پوچھا : ابوعبدالرحمٰن ! آپ نے قرآن کی یہ آیت نہیں سنی وإن طائفتان من المؤمنين اقتتلوا کہ جب مسلمانوں کی دو جماعتیں لڑنے لگیں الخ، اس آیت کے بموجب تم (علی اور معاویہ (رض) دونوں سے) کیوں نہیں لڑتے جیسے اللہ نے فرمایا فقاتلوا التي تبغيإ۔ انہوں نے کہا میرے بھتیجے ! اگر میں اس آیت کی تاویل کر کے مسلمانوں سے نہ لڑوں تو یہ مجھ کو اچھا معلوم ہوتا ہے بہ نسبت اس کے کہ میں اس آیت ومن يقتل مؤمنا متعمدا کی تاویل کروں۔ وہ شخص کہنے لگا اچھا اس آیت کو کیا کرو گے جس میں مذکور ہے وقاتلوهم حتى لا تکون فتنة کہ ان سے لڑو تاکہ فتنہ باقی نہ رہے اور سارا دین اللہ کا ہوجائے۔ عبداللہ بن عمر (رض) نے کہا (واہ، واہ) یہ لڑائی تو ہم نبی کریم ﷺ کے عہد میں کرچکے، اس وقت مسلمان بہت تھوڑے تھے اور مسلمان کو اسلام اختیار کرنے پر تکلیف دی جاتی۔ قتل کرتے، قید کرتے یہاں تک کہ اسلام پھیل گیا۔ مسلمان بہت ہوگئے اب فتنہ جو اس آیت میں مذکور ہے وہ کہاں رہا۔ جب اس شخص نے دیکھا کہ عبداللہ بن عمر (رض) کسی طرح لڑائی پر اس کے موافق نہیں ہوتے تو کہنے لگا اچھا بتلاؤ علی (رض) اور عثمان (رض) کے بارے میں تمہارا کیا اعتقاد ہے ؟ انہوں نے کہا ہاں یہ کہو تو سنو، علی اور عثمان (رض) عنہما کے بارے میں اپنا اعتقاد بیان کرتا ہوں۔ عثمان (رض) کا جو قصور تم بیان کرتے ہو (کہ وہ جنگ احد میں بھاگ نکلے) تو اللہ نے ان کا یہ قصور معاف کردیا مگر تم کو یہ معافی پسند نہیں (جب تو اب تک ان پر قصور لگاتے جاتے ہو) اور علی (رض) تو (سبحان اللہ) نبی کریم ﷺ کے چچا زاد بھائی اور آپ داماد بھی تھے اور ہاتھ سے اشارہ کر کے بتلایا یہ ان کا گھر ہے جہاں تم دیکھ رہے ہو۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور ان سے لڑو، یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہ جائے“۔
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا ہم سے زہیر نے بیان کیا، کہا ہم سے بیان نے بیان کیا، ان سے وبرہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے سعید بن جبیر نے بیان کیا، کہا کہ ابن عمر (رض) ہمارے پاس تشریف لائے، تو ایک صاحب نے ان سے پوچھا کہ (مسلمانوں کے باہمی) فتنہ اور جنگ کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ؟ ابن عمر (رض) نے ان سے پوچھا تمہیں معلوم بھی ہے فتنہ کیا چیز ہے۔ محمد ﷺ مشرکین سے جنگ کرتے تھے اور ان میں ٹھہر جانا ہی فتنہ تھا۔ نبی کریم ﷺ کی جنگ تمہاری ملک و سلطنت کی خاطر جنگ کی طرح نہیں تھی۔
باب: آیت کی تفسیر ”اے نبی! مومنوں کو قتال پر آمادہ کیجئے، اگر تم میں سے بیس آدمی بھی صبر کرنے والے ہوں گے تو وہ دو سو پر غالب آ جائیں گے اور اگر تم میں سے سو ہوں گے تو ایک ہزار کافروں پر غالب آ جائیں گے اس لیے کہ یہ ایسے لوگ ہیں جو کچھ نہیں سمجھتے“۔
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی إن يكن منکم عشرون صابرون يغلبوا مائتين کہ اگر تم میں سے بیس آدمی بھی صبر کرنے والے ہوں تو وہ دو سو پر غالب آجائیں گے۔ تو مسلمانوں کے لیے فرض قرار دے دیا گیا کہ ایک مسلمان دس کافروں کے مقابلے سے نہ بھاگے اور کئی مرتبہ سفیان ثوری نے یہ بھی کہا کہ بیس دو سو کے مقابلے سے نہ بھاگیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری الآن خفف الله عنكم اب اللہ نے تم پر تخفیف کردی۔ اس کے بعد یہ فرض قرار دیا کہ ایک سو، دو سو کے مقابلے سے نہ بھاگیں۔ سفیان ثوری نے ایک مرتبہ اس زیادتی کے ساتھ روایت بیان کی کہ آیت نازل ہوئی حرض المؤمنين على القتال إن يكن منکم عشرون صابرون کہ اے نبی مومنوں کو قتال پر آمادہ کرو۔ اگر تم میں سے بیس آدمی صبر کرنے والے ہوں گے۔ سفیان ثوری نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن شبرمہ (کوفہ کے قاضی) نے بیان کیا کہ میرا خیال ہے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں بھی یہی حکم ہے۔
باب
باب : سورة برات کی تفسیر وليجة وہ چیز جو کسی دوسری چیز کے اندر داخل کی جائے (یہاں مراد بھیدی ہے) ۔ الشقة سفر یا دور دراز راستہ۔ خبال کے معنی فساد اور خبال موت کو بھی کہتے ہیں۔ ولا تفتني یعنی مجھ کو مت جھڑک، مجھ پر خفا مت ہو۔ كَرها اور كُرها دونوں کا معنی ایک ہے یعنی زبردستی ناخوشی سے۔ مدخلا گھس بیٹھنے کا مقام (مثلا سرنگ وغیرہ) ۔ يجمحون دوڑتے جائیں۔ مؤتفکات یہ ائتفکت انقلبت بها الأرض. سے نکلا ہے یعنی اس کی زمین الٹ دی گئی۔ أهوى یعنی اس کو ایک گڑھے میں دھکیل دیا۔ عدن کا معنی ہمیشگی کے ہیں۔ عرب لوگ بولتے ہیں عدنت بأرض یعنی میں اس سر زمین میں رہ گیا۔ اس سے معدن کا لفظ نکلا ہے۔ (جس کا معنی سونے یا چاندی یا کسی اور دھات کی کان کے ہیں) ۔ معدن صدق. یعنی اس سر زمین میں جہاں سچائی اگتی ہے۔ الخوالف ، خالف کی جمع ہے۔ خالف وہ جو مجھ کو چھوڑ کر پیچھے بیٹھ رہا۔ اسی سے ہے یہ حدیث يخلفه في الغابرين یعنی جو لوگ میت کے بعد باقی رہ گئے تو ان میں اس کا قائم مقام بن (یعنی ان کا محافظ اور نگہبان ہو) ۔ اور الخوالف سے عورتیں مراد ہیں اس صورت میں یہ يخلفه کی جمع ہوگی (جیسے فاعلة کی جمع فواعل آتی ہے) ۔ اگر خالف مذکر کی جمع ہو تو یہ شاذ ہوگی ایسے مذکر کی زبان عرب میں دو ہی جمعه آتی ہیں جیسے فارس اور فوارس اور هالك اور هوالک۔ الخيرات ، خيرة کی جمع ہے۔ یعنی نیکیاں بھلائیاں۔ مرجئون ڈھیل میں دیئے گئے۔ الشفا کہتے ہیں شفير کو یعنی کنارہ۔ الجرف وہ زمین جو ندی نالوں کے بہاؤ سے کھد جاتی ہے۔ هار گرنے والی اسی سے ہے تهورت البئر یعنی کنواں گرگیا ۔ لأواه یعنی خدا کے خوف سے اور ڈر سے آہ وزاری کرنے والا جیسے شاعر ( مشقب عبدى ) کہتا ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”اعلان بیزاری ہے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ان مشرکین سے جن سے تم نے عہد کر رکھا ہے (اور اب عہد کو انہوں نے توڑ دیا ہے)“۔
ہم سے ابوالولید ہشام بن عبدالملک نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق نے کہ میں نے براء بن عازب (رض) سے سنا۔ انہوں نے کہا کہ سب سے آخر میں یہ آیت نازل ہوئی تھی يستفتونک قل الله يفتيكم في الکلالة اور سب سے آخر میں سورة برات نازل ہوئی۔
باب: آیت کی تفسیر ”(اے مشرکو!) زمین میں چار ماہ چل پھر لو اور جان لو کہ تم اللہ کو عاجز نہیں کر سکتے، بلکہ اللہ ہی کافروں کو رسوا کرنے والا ہے“ «سيحوا» یعنی «سيروا» یعنی چلو پھرو۔
ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، کہا مجھ سے لیث بن سعد نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے (کہا) اور مجھے حمید بن عبدالرحمٰن بن عوف نے خبر دی کہ ابوہریرہ (رض) نے کہا : ابوبکر صدیق (رض) نے اس حج کے موقع پر (جس کا نبی کریم ﷺ نے انہیں امیر بنایا تھا) مجھے بھی اعلان کرنے والوں میں رکھا تھا، جنہیں نبی کریم ﷺ نے یوم نحر میں اس لیے بھیجا تھا کہ اعلان کردیں کہ آئندہ سال سے کوئی مشرک حج کرنے نہ آئے اور کوئی شخص بیت اللہ کا طواف ننگے ہو کر نہ کرے۔ حمید بن عبدالرحمٰن نے کہا کہ پھر اس کے بعد نبی کریم ﷺ نے علی (رض) کو پیچھے سے بھیجا اور انہیں سورة برات کے احکام کے اعلان کرنے کا حکم دیا۔ ابوہریرہ (رض) نے کہا، چناچہ ہمارے ساتھ علی (رض) نے بھی یوم نحر ہی میں سورة برات کا اعلان کیا اور اس کا کہ آئندہ سال سے کوئی مشرک حج نہ کرے اور نہ کوئی ننگے ہو کر طواف کرے۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور اعلان (کیا جاتا ہے) اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے لوگوں کے سامنے بڑے حج کے دن کہ اللہ اور اس کا رسول مشرکوں سے بیزار ہیں، پھر بھی اگر تم توبہ کر لو تو تمہارے حق میں بہتر ہے اور اگر تم منہ پھیرتے ہی رہے تو جان لو کہ تم اللہ کو عاجز کرنے والے نہیں ہو اور کافروں کو عذاب درد ناک کی خوشخبری سنا دیجئیے“ «آذنهم أعلمهم» یعنی ان کو آگاہ کیا۔
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، کہا مجھ سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، کہا مجھ کو حمید بن عبدالرحمٰن نے خبر دی کہ ابوہریرہ (رض) نے کہا : ابوبکر صدیق (رض) نے حج کے موقع پر (جس کا نبی کریم ﷺ نے انہیں امیر بنایا تھا) مجھ کو ان اعلان کرنے والوں میں رکھا تھا جنہیں آپ نے یوم نحر میں بھیجا تھا۔ منیٰ میں یہ اعلان کرنے کے لیے کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج کرنے نہ آئے اور نہ کوئی شخص بیت اللہ کا طواف ننگا ہو کر کرے۔ حمید نے کہا کہ پھر پیچھے سے نبی کریم ﷺ نے علی (رض) کو بھیجا اور انہیں حکم دیا کہ سورة برات کا اعلان کردیں۔ ابوہریرہ (رض) نے کہا کہ علی (رض) نے ہمارے ساتھ منیٰ کے میدان میں دسویں تاریخ میں سورة برات کا اعلان کیا اور یہ کہ کوئی مشرک آئندہ سال سے حج کرنے نہ آئے اور نہ کوئی بیت اللہ کا طواف ننگا ہو کر کرے۔
باب: آیت «إلا الذين عاهدتم من المشركين» کی تفسیر۔
ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد (ابراہیم بن سعد) نے بیان کیا، ان سے صالح نے، ان سے ابن شہاب نے، انہیں حمید بن عبدالرحمٰن نے خبر دی اور انہیں ابوہریرہ (رض) نے خبر دی کہ ابوبکر (رض) نے اس حج کے موقع پر جس کا انہیں رسول اللہ ﷺ نے امیر بنایا تھا۔ حجۃ الوداع سے (ایک سال) پہلے 9 ھ میں انہیں بھی ان اعلان کرنے والوں میں رکھا تھا جنہیں لوگوں میں آپ نے یہ اعلان کرنے کے لیے بھیجا تھا کہ آئندہ سال سے کوئی مشرک حج کرنے نہ آئے اور نہ کوئی بیت اللہ کا طواف ننگا ہو کر کرے۔ حمید نے کہا کہ ابوہریرہ (رض) کی اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یوم نحر بڑے حج کا دن ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”کفر کے سرداروں سے جہاد کرو عہد توڑ دینے کی صورت میں اب ان کی قسمیں باطل ہو چکی ہیں“۔
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن ابی خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے زید بن وہب نے بیان کیا کہ ہم حذیفہ بن یمان کی خدمت میں حاضر تھے۔ انہوں نے کہا یہ آیت جن لوگوں کے بارے میں اتری ان میں سے اب صرف تین شخص باقی ہیں، اسی طرح منافقوں میں سے بھی اب چار شخص باقی ہیں۔ اتنے میں ایک دیہاتی کہنے لگا آپ تو نبی کریم ﷺ کے صحابی ہیں، ہمیں ان لوگوں کے متعلق بتائیے کہ ان کا کیا حشر ہوگا جو ہمارے گھروں میں چھید کر کے اچھی چیزیں چرا کرلے جاتے ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ یہ لوگ فاسق بدکار ہیں۔ ہاں ان منافقوں میں چار کے سوا اور کوئی باقی نہیں رہا ہے اور ایک تو اتنا بوڑھا ہوچکا ہے کہ اگر ٹھنڈا پانی پیتا ہے تو اس کی ٹھنڈ کا بھی اسے پتہ نہیں چلتا۔
باب: آیت کی تفسیر ”اے نبی اور جو لوگ کہ سونا اور چاندی زمین میں گاڑ کر رکھتے ہیں اور اس کو اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے! آپ انہیں ایک درد ناک عذاب کی خبر سنا دیں“۔
ہم سے حکم بن نافع نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن اعرج نے بیان کیا اور انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ ﷺ فرما رہے تھے کہ تمہارا خزانہ جس میں زکوٰۃ نہ دی گئی ہو قیامت کے دن گنجے ناگ کی شکل اختیار کرے گا۔
باب: آیت کی تفسیر ”اے نبی اور جو لوگ کہ سونا اور چاندی زمین میں گاڑ کر رکھتے ہیں اور اس کو اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے! آپ انہیں ایک درد ناک عذاب کی خبر سنا دیں“۔
ہم سے قتیبہ بن سعد نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے حصین نے، ان سے زید بن وہب نے بیان کیا کہ میں مقام ربذہ میں ابوذر غفاری (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ اس جنگل میں آپ نے کیوں قیام کو پسند کیا ؟ فرمایا کہ ہم شام میں تھے۔ (مجھ میں اور وہاں کے حاکم معاویہ (رض) میں اختلاف ہوگیا) میں نے یہ آیت پڑھی والذين يکنزون الذهب والفضة ولا ينفقونها في سبيل الله فبشرهم بعذاب أليم کہ اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں اور اس کو خرچ نہیں کرتے اللہ کی راہ میں، آپ انہیں ایک درد ناک عذاب کی خبر سنا دیں۔ تو معاویہ (رض) کہنے لگے کہ یہ آیت ہم مسلمانوں کے بارے میں نہیں ہے (جب وہ زکوٰۃ دیتے رہیں) بلکہ اہل کتاب کے بارے میں ہے۔ فرمایا کہ میں نے اس پر کہا کہ یہ ہمارے بارے میں بھی ہے اور اہل کتاب کے بارے میں بھی ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”اس دن کو یاد کرو جس دن (سونے چاندی) کو دوزخ کی آگ میں تپایا جائے گا، پھر اس سے (جنہوں نے اس خزانے کی زکوٰۃ نہیں ادا کی) ان کی پیشانیوں کو اور ان کے پہلوؤں کو اور ان کی پشتوں کو داغا جائے گا۔ (اور ان سے کہا جائے گا) یہی ہے وہ مال جسے تم نے اپنے واسطے جمع کر رکھا تھا سو اب اپنے جمع کرنے کا مزہ چکھو“۔
احمد بن شبیب بن سعید نے کہا کہ ہم سے میرے والد (شبیب بن سعید) نے بیان کیا، ان سے یونس نے، ان سے ابن شہاب نے اور ان سے خالد بن اسلم نے کہ ہم عبداللہ بن عمر (رض) کے ساتھ نکلے تو انہوں نے کہا کہ یہ (مذکورہ بالا آیت) زکوٰۃ کے حکم سے پہلے نازل ہوئی تھی۔ پھر جب زکوٰۃ کا حکم ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ سے مالوں کو پاک کردیا۔
باب: آیت کی تفسیر ”بیشک مہینوں کا شمار اللہ کے نزدیک کتاب الٰہی میں بارہ ہی مہینے ہیں، جس روز سے کہ اس نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا اور ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں“ «قیم» بمعنی «القائم» جس کے معنی درست اور سیدھے کے ہیں۔۔
ہم سے عبداللہ بن عبدالوہاب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے، ان سے محمد بن سیرین نے، ان سے عبدالرحمٰن بن ابی بکرہ نے، ان سے ان کے والد ابوبکرہ نفیع بن حارث (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے (حجۃ الوداع کے خطبے میں) فرمایا کہ دیکھو زمانہ پھر اپنی پہلی اسی ہیئت پر آگیا ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا تھا۔ سال بارہ مہینے کا ہوتا ہے، ان میں سے چار حرمت والے مہینے ہیں۔ تین تو لگاتار یعنی ذی قعدہ، ذی الحجۃ اور محرم اور چوتھا رجب مضر جو جمادی الاخریٰ اور شعبان کے درمیان میں پڑتا ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”جب کہ دو میں سے ایک وہ تھے دونوں غار میں (موجود) تھے جب وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھا کہ فکر نہ کر اللہ پاک ہمارے ساتھ ہے“۔
ہم سے عبداللہ بن محمد جعفی نے بیان کیا، کہا ہم سے حبان بن ہلال باہلی نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمام بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ثابت نے بیان کیا، کہا ہم سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوبکر صدیق (رض) نے بیان کیا : انہوں نے کہا کہ میں غار ثور میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھا۔ میں نے کافروں کے پاؤں دیکھے (جو ہمارے سر پر کھڑے ہوئے تھے) ابوبکر صدیق (رض) گھبرا گئے اور بولے : یا رسول اللہ ! اگر ان میں سے کسی نے ذرا بھی قدم اٹھائے تو وہ ہم کو دیکھ لے گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تو کیا سمجھتا ہے ان دو آدمیوں کو (کوئی نقصان پہنچا سکے گا) جن کے ساتھ تیسرا اللہ تعالیٰ ہو۔
باب: آیت کی تفسیر ”جب کہ دو میں سے ایک وہ تھے دونوں غار میں (موجود) تھے جب وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھا کہ فکر نہ کر اللہ پاک ہمارے ساتھ ہے“۔
ہم سے عبداللہ بن محمد بن جعفی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے، ان سے ابن ابی ملیکہ نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ جب میرا عبداللہ بن زبیر (رض) سے اختلاف ہوگیا تھا تو میں نے کہا کہ ان کے والد زبیر بن عوام (رض) تھے، ان کی والدہ اسماء بنت ابوبکر (رض) تھیں، ان کی خالہ عائشہ (رض) تھیں۔ ان کے نانا ابوبکر (رض) تھے اور ان کی دادی (نبی کریم ﷺ کی پھوپھی) صفیہ (رض) تھیں۔ (عبداللہ بن محمد نے بیان کیا کہ) میں نے سفیان (ابن عیینہ) سے پوچھا کہ اس روایت کی سند کیا ہے ؟ تو انہوں نے کہنا شروع کیا حدثنا ہم سے حدیث بیان کی لیکن ابھی اتنا ہی کہنے پائے تھے کہ انہیں ایک دوسرے شخص نے دوسری باتوں میں لگا دیا اور (راوی کا نام) ابن جریج وہ نہ بیان کرسکے۔
باب: آیت کی تفسیر ”جب کہ دو میں سے ایک وہ تھے دونوں غار میں (موجود) تھے جب وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھا کہ فکر نہ کر اللہ پاک ہمارے ساتھ ہے“۔
مجھ سے عبداللہ بن محمد جعفی نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے یحییٰ ابن معین نے بیان کیا، کہا ہم سے حجاج بن محمد نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے بیان کیا، ان سے ابن ابی ملیکہ نے بیان کیا کہ ابن عباس اور ابن زبیر رضی اللہ عنہم کے درمیان بیعت کا جھگڑا پیدا ہوگیا تھا۔ میں صبح کو ابن عباس (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا آپ عبداللہ بن زبیر (رض) سے جنگ کرنا چاہتے ہیں، اس کے باوجود کہ اللہ کے حرم کی بےحرمتی ہوگی ؟ ابن عباس (رض) نے فرمایا : معاذاللہ ! یہ تو اللہ تعالیٰ نے ابن زبیر اور بنو امیہ ہی کے مقدر میں لکھ دیا ہے کہ وہ حرم کی بےحرمتی کریں۔ اللہ کی قسم ! میں کسی صورت میں بھی اس بےحرمتی کے لیے تیار نہیں ہوں۔ ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ لوگوں نے مجھ سے کہا تھا کہ ابن زبیر سے بیعت کرلو۔ میں نے ان سے کہا کہ مجھے ان کی خلافت کو تسلیم کرنے میں کیا تامل ہوسکتا ہے، ان کے والد نبی کریم ﷺ کے حواری تھے، آپ کی مراد زبیر بن عوام سے تھی۔ ان کے نانا صاحب غار تھے، اشارہ ابوبکر صدیق (رض) کی طرف تھا۔ ان کی والدہ صاحب نطاقین تھیں یعنی اسماء رضی اللہ عنہا۔ ان کی خالہ ام المؤمنین تھیں، مراد عائشہ (رض) سے تھی۔ ان کی پھوپھی نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ تھیں، مراد خدیجہ (رض) سے تھی۔ ابن عباس کی مراد ان باتوں سے یہ تھی کہ وہ بہت سی خوبیوں کے مالک ہیں اور نبی کریم ﷺ کی پھوپھی ان کی دادی ہیں، اشارہ صفیہ (رض) کی طرف تھا۔ اس کے علاوہ وہ خود اسلام میں ہمیشہ صاف کردار اور پاک دامن رہے اور قرآن کے عالم ہیں اور اللہ کی قسم ! اگر وہ مجھ سے اچھا برتاؤ کریں تو ان کو کرنا ہی چاہیے وہ میرے بہت قریب کے رشتہ دار ہیں اور اگر وہ مجھ پر حکومت کریں تو خیر حکومت کریں وہ ہمارے برابر کے عزت والے ہیں۔ لیکن عبداللہ بن زبیر (رض) نے تو تویت، اسامہ اور حمید کے لوگوں کو ہم پر ترجیح دی ہے۔ ان کی مراد مختلف قبائل یعنی بنو اسد، بنو تویت، بنو اسامہ اور بنو اسد سے تھی۔ ادھر ابن ابی العاص بڑی عمدگی سے چل رہا ہے یعنی عبدالملک بن مروان مسلسل پیش قدمی کر رہا ہے اور عبداللہ بن زبیر (رض) نے اس کے سامنے دم دبا لی ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”جب کہ دو میں سے ایک وہ تھے دونوں غار میں (موجود) تھے جب وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھا کہ فکر نہ کر اللہ پاک ہمارے ساتھ ہے“۔
ہم سے محمد بن عبید بن میمون نے بیان کیا، کہا ہم سے عیسیٰ بن یونس نے، ان سے عمر بن سعید نے، انہیں ابن ابی ملیکہ نے خبر دی کہ ہم ابن عباس (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے کہا کہ ابن زبیر پر تمہیں حیرت نہیں ہوتی۔ وہ اب خلافت کے لیے کھڑے ہوگئے ہیں تو میں نے ارادہ کرلیا کہ ان کے لیے محنت مشقت کروں گا کہ ایسی محنت اور مشقت میں نے ابوبکر اور عمر (رض) کے لیے بھی نہیں کی۔ حالانکہ وہ دونوں ان سے ہر حیثیت سے بہتر تھے۔ میں نے لوگوں سے کہا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی پھوپھی کی اولاد میں سے ہیں۔ زبیر (رض) کے بیٹے اور ابوبکر (رض) کے نواسے، خدیجہ (رض) کے بھائی کے بیٹے، عائشہ (رض) کی بہن کے بیٹے۔ لیکن عبداللہ بن زبیر نے کیا کیا وہ مجھ سے غرور کرنے لگے۔ انہوں نے نہیں چاہا کہ میں ان کے خاص مصاحبوں میں رہوں (اپنے دل میں کہا) مجھ کو ہرگز یہ گمان نہ تھا کہ میں تو ان سے ایسی عاجزی کروں گا اور وہ اس پر بھی مجھ سے راضی نہ ہوں گے۔ خیر اب مجھے امید نہیں کہ وہ میرے ساتھ بھلائی کریں گے جو ہونا تھا وہ ہوا اب بنی امیہ جو میرے چچا زاد بھائی ہیں اگر مجھ پر حکومت کریں تو یہ مجھ کو اوروں کے حکومت کرنے سے زیادہ پسند ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”نیز ان (نومسلموں کا بھی حق ہے) جن کی دلجوئی منظور ہے“۔
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی، انہیں ان کے والد سعید بن مسروق نے، انہیں ابن ابی نعم نے اور ان سے ابو سعید خدری نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کے پاس کچھ مال آیا تو آپ نے چار آدمیوں میں اسے تقسیم کردیا۔ (جو نو مسلم تھے) اور فرمایا کہ میں یہ مال دے کر ان کی دلجوئی کرنا چاہتا ہوں اس پر (بنو تمیم کا) ایک شخص بولا کہ آپ نے انصاف نہیں کیا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اس شخص کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو دین سے باہر ہوجائیں گے۔
باب: آیت «الذين يلمزون المطوعين من المؤمنين» کی تفسیر۔
مجھ سے ابو محمد بشر بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم کو محمد بن جعفر نے خبر دی، انہیں شعبہ نے، انہیں سلیمان اعمش نے، انہیں ابو وائل نے اور ان سے ابومسعود انصاری (رض) نے بیان کیا کہ جب ہمیں خیرات کرنے کا حکم ہوا تو ہم مزدوری پر بوجھ اٹھاتے (اور اس کی مزدوری صدقہ میں دے دیتے) چناچہ ابوعقیل اسی مزدوری سے آدھا صاع خیرات لے کر آئے اور ایک دوسرے صحابی عبدالرحمٰن بن عوف اس سے زیادہ لائے۔ اس پر منافقوں نے کہا کہ اللہ کو اس (یعنی عقیل) کے صدقہ کی کوئی ضرورت نہیں تھی اور اس دوسرے (عبدالرحمٰن بن عوف) نے تو محض دکھاوے کے لیے اتنا بہت سا صدقہ دیا ہے۔ چناچہ یہ آیت نازل ہوئی الذين يلمزون المطوعين من المؤمنين في الصدقات والذين لا يجدون إلا جهدهم کہ یہ ایسے لوگ ہیں جو صدقات کے بارے میں نفل صدقہ دینے والے مسلمانوں پر طعن کرتے ہیں اور خصوصاً ان لوگوں پر جنہیں بجز ان کی محنت مزدوری کے کچھ نہیں ملتا۔ آخر آیت تک۔
باب: آیت «الذين يلمزون المطوعين من المؤمنين» کی تفسیر۔
ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابواسامہ (حماد بن اسامہ) سے پوچھا، آپ حضرات سے زائدہ بن قدامہ نے بیان کیا تھا کہ ان سے سلیمان نے، ان سے شقیق نے اور ان سے ابومسعود انصاری نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ صدقہ کی ترغیب دیتے تھے تو آپ ﷺ کے بعض صحابہ مزدوری کر کے لاتے اور (بڑی مشکل سے) ایک مد کا صدقہ کرسکتے لیکن آج انہیں میں بعض ایسے ہیں جن کے پاس لاکھوں درہم ہیں۔ غالباً ان کا اشارہ خود اپنی طرف تھا (حماد نے کہا ہاں سچ ہے) ۔
باب: آیت کی تفسیر ”اے نبی! آپ ان کے لیے استغفار کریں یا نہ کریں اگر آپ ان کے لیے ستر مرتبہ بھی استغفار کریں گے (جب بھی اللہ انہیں نہیں بخشے گا)“۔
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، ان سے ابواسامہ نے، ان سے عبیداللہ بن عمری نے، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر (رض) نے کہ جب عبداللہ بن ابی (منافق) کا انتقال ہوا تو اس کے لڑکے عبداللہ بن عبداللہ (جو پختہ مسلمان تھے) رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آپ اپنی قمیص ان کے والد کے کفن کے لیے عنایت فرما دیں۔ نبی کریم ﷺ نے قمیص عنایت فرمائی۔ پھر انہوں نے عرض کی کہ آپ نماز جنازہ بھی پڑھا دیں۔ نبی کریم ﷺ نماز جنازہ پڑھانے کے لیے بھی آگے بڑھ گئے۔ اتنے میں عمر (رض) نے آپ ﷺ کا دامن پکڑ لیا اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! اس کی نماز جنازہ پڑھانے جا رہے ہیں، جبکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس سے منع بھی فرما دیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا ہے فرمایا ہے استغفر لهم أو لا تستغفر لهم إن تستغفر لهم سبعين مرة کہ آپ ان کے لیے استغفار کریں خواہ نہ کریں۔ اگر آپ ان کے لیے ستر بار بھی استغفار کریں گے (تب بھی اللہ انہیں نہیں بخشے گا) ۔ اس لیے میں ستر مرتبہ سے بھی زیادہ استغفار کروں گا۔ (ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ زیادہ استغفار کرنے سے معاف کر دے) عمر (رض) بولے لیکن یہ شخص تو منافق ہے۔ ابن عمر (رض) نے بیان کیا کہ آخر نبی کریم ﷺ نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا ولا تصل على أحد منهم مات أبدا ولا تقم على قبره کہ اور ان میں سے جو کوئی مرجائے اس پر کبھی بھی نماز نہ پڑھئے اور نہ اس کی قبر پر کھڑا ہوئیے۔
باب: آیت کی تفسیر ”اے نبی! آپ ان کے لیے استغفار کریں یا نہ کریں اگر آپ ان کے لیے ستر مرتبہ بھی استغفار کریں گے (جب بھی اللہ انہیں نہیں بخشے گا)“۔
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے اور ان کے علاوہ (ابوصالح عبداللہ بن صالح) نے بیان کیا، کہ مجھ سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ نے خبر دی اور ان سے ابن عباس (رض) نے، ان سے عمر (رض) نے جب عبداللہ بن ابی ابن سلول کی موت ہوئی تو رسول اللہ ﷺ سے اس کی نماز جنازہ پڑھانے کے لیے کہا گیا۔ جب آپ ﷺ نماز پڑھانے کے لیے کھڑے ہوئے تو میں جلدی سے خدمت نبوی میں پہنچا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ ابن ابی (منافق) کی نماز جنازہ پڑھانے لگے حالانکہ اس نے فلاں فلاں دن اس اس طرح کی باتیں (اسلام کے خلاف) کی تھیں ؟ عمر (رض) نے بیان کیا کہ میں اس کی کہی ہوئی باتیں ایک ایک کر کے پیش کرنے لگا۔ لیکن نبی کریم ﷺ نے تبسم کر کے فرمایا کہ عمر ! میرے پاس سے ہٹ جاؤ (اور صف میں جا کے کھڑے ہوجاؤ) ۔ میں نے اصرار کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے اختیار دیا گیا ہے۔ اس لیے میں نے (اس کے لیے استغفار کرنے اور اس کی نماز جنازہ پڑھانے ہی کو) پسند کیا، اگر مجھے یہ معلوم ہوجائے کہ ستر مرتبہ سے زیادہ استغفار کرنے سے اس کی مغفرت ہوجائے گی تو میں ستر مرتبہ سے زیادہ استغفار کروں گا۔ بیان کیا کہ پھر نبی کریم ﷺ نے نماز پڑھائی اور واپس تشریف لائے، تھوڑی دیر ابھی ہوئی تھی کہ سورة برات کی دو آیتیں نازل ہوئیں ولا تصل على أحد منهم مات أبدا کہ ان میں سے جو کوئی مرجائے اس پر کبھی بھی نماز نہ پڑھئے۔ آخر آیت وهم فاسقون تک۔ عمر (رض) نے بیان کیا کہ بعد میں مجھے نبی کریم ﷺ کے سامنے اپنی اس درجہ جرات پر خود بھی حیرت ہوئی اور اللہ اور اس کے رسول بہتر جاننے والے ہیں۔
باب: آیت کی تفسیر ”اے نبی! اگر ان میں سے کوئی مر جائے تو آپ اس پر کبھی بھی نماز جنازہ نہ پڑھئیے اور نہ اس کی (دعائے مغفرت کے لیے) قبر پر کھڑے ہوئیے، بیشک انہوں نے اللہ اور رسول کے ساتھ کفر کیا ہے اور وہ فاسق مرے ہیں“۔
مجھ سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے انس بن عیاض نے، ان سے عبیداللہ نے اور ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر (رض) نے بیان کیا کہ جب عبداللہ بن ابی کا انتقال ہوا تو اس کے بیٹے عبداللہ بن عبداللہ بن ابی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئے۔ نبی کریم ﷺ نے انہیں اپنا کرتہ عنایت فرمایا اور فرمایا کہ اس کرتے سے اسے کفن دیا جائے پھر آپ اس پر نماز پڑھانے کے لیے کھڑے ہوئے تو عمر (رض) نے آپ کا دامن پکڑ لیا اور عرض کیا آپ اس پر نماز پڑھانے کے لیے تیار ہوگئے حالانکہ یہ منافق ہے، اللہ تعالیٰ بھی آپ کو ان کے لیے استغفار سے منع کرچکا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا ہے۔ یا راوی نے خيرني کی جگہ لفظ أخبرني نقل کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے استغفر لهم أو لا تستغفر لهم إن تستغفر لهم سبعين مرة فلن يغفر الله لهم کہ آپ ان کے لیے استغفار کریں خواہ نہ کریں۔ اگر آپ ان کے لیے ستر بار بھی استغفار کریں گے جب بھی اللہ انہیں نہیں بخشے گا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں ستر مرتبہ سے بھی زیادہ استغفار کروں گا۔ عمر (رض) نے بیان کیا کہ پھر آپ ﷺ نے اس پر نماز پڑھی اور ہم نے بھی ان کے ساتھ پڑھی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری ولا تصل على أحد منهم مات أبدا ولا تقم على قبره إنهم کفروا بالله ورسوله وماتوا وهم فاسقون کہ اور ان میں سے جو کوئی مرجائے، آپ اس پر کبھی بھی جنازہ نہ پڑھیں اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہوں۔ بیشک انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا ہے اور وہ اس حال میں مرے ہیں کہ وہ نافرمان تھے۔
باب: آیت کی تفسیر ”عنقریب یہ لوگ تمہارے سامنے جب تم ان کے پاس واپس لوٹو گے اللہ کی قسم کھائیں گے تاکہ تم ان کو ان کی حالت پر چھوڑے رہو، سو تم ان کو ان کی حالت پر چھوڑے رہو بیشک یہ گندے ہیں اور ان کا ٹھکا نا دوزخ ہے، بدلہ میں ان افعال کے جو وہ کرتے رہے ہیں“۔
ہم سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عبدالرحمٰن بن عبداللہ نے اور ان سے عبداللہ بن کعب بن مالک نے بیان کیا کہ انہوں نے کعب بن مالک (رض) سے ان کے غزوہ تبوک میں شریک نہ ہوسکنے کا واقعہ سنا۔ انہوں نے بتلایا، اللہ کی قسم ! ہدایت کے بعد اللہ نے مجھ پر اتنا بڑا اور کوئی انعام نہیں کیا جتنا رسول اللہ ﷺ کے سامنے سچ بولنے کے بعد ظاہر ہوا تھا کہ اس نے مجھے جھوٹ بولنے سے بچایا، ورنہ میں بھی اسی طرح ہلاک ہوجاتا جس طرح دوسرے لوگ جھوٹی معذرتیں بیان کرنے والے ہلاک ہوئے تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں وحی نازل کی تھی سيحلفون بالله لکم إذا انقلبتم إليهم کہ عنقریب یہ لوگ تمہارے سامنے، جب تم ان کے پاس واپس جاؤ گے۔ اللہ کی قسم کھا جائیں گے۔ آخر آیت الفاسقين تک۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور کچھ اور لوگ ہیں جنہوں نے اپنے گناہوں کا اقرار کر لیا، انہوں نے ملے جلے عمل کئے (کچھ بھلے اور کچھ برے) قریب ہے کہ اللہ ان پر نظر رحمت فرمائے، بیشک اللہ بہت ہی بڑا بخشش کرنے والا اور بہت ہی بڑا مہر بان ہے“۔
ہم سے مؤمل بن ہشام نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے عوف نے بیان کیا، کہا ہم سے ابورجاء نے بیان کیا، کہا ہم سے سمرہ بن جندب نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم سے فرمایا کہ رات (خواب میں) میرے پاس دو فرشتے آئے اور مجھے اٹھا کر ایک شہر میں لے گئے جو سونے اور چاندی کی اینٹوں سے بنایا گیا تھا، وہاں ہمیں ایسے لوگ ملے جن کا آدھا بدن نہایت خوبصورت، اتنا کہ کسی دیکھنے والے نے ایسا حسن نہ دیکھا ہوگا اور بدن کا دوسرا آدھا حصہ نہایت بدصورت تھا، اتنا کہ کسی نے بھی ایسی بدصورتی نہیں دیکھی ہوگی۔ دونوں فرشتوں نے ان لوگوں سے کہا جاؤ اور اس نہر میں غوطہٰ لگاؤ۔ وہ گئے اور نہر میں غوطہٰ لگا آئے۔ جب وہ ہمارے پاس آئے تو ان کی بدصورتی جاتی رہی اور اب وہ نہایت خوبصورت نظر آتے تھے پھر فرشتوں نے مجھ سے کہا کہ یہ جنت عدن ہے اور آپ کا مکان یہیں ہے۔ جن لوگوں کو ابھی آپ نے دیکھا کہ جسم کا آدھا حصہ خوبصورت تھا اور آدھا بدصورت، تو یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے دنیا میں اچھے اور برے سب کام کئے تھے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کردیا تھا۔
باب: آیت کی تفسیر ”نبی اور جو لوگ ایمان لائے، ان کے لیے اجازت نہیں کہ وہ مشرکوں کے لیے بخشش کی دعا کریں اگرچہ وہ ان کے قرابت دار ہوں جبکہ ان پر ظاہر ہو جائے کہ وہ دوزخی ہیں“۔
ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں سعید بن مسیب نے اور ان سے ان کے والد مسیب بن حزن نے کہ جب ابوطالب کے انتقال کا وقت ہوا تو نبی کریم ﷺ ان کے پاس تشریف لے گئے، اس وقت وہاں ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ بیٹھے ہوئے تھے۔ نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا کہ (آپ ایک بار زبان سے کلمہ) لا الہٰ الا اللہ کہہ دیجئیے میں اسی کو (آپ کی نجات کے لیے وسیلہ بنا کر) اللہ کی بارگاہ میں پیش کرلوں گا۔ اس پر ابوجہل اور عبداللہ ابی امیہ کہنے لگے : ابوطالب ! کیا آپ عبدالمطلب کے دین سے پھر جاؤ گے ؟ آپ ﷺ نے کہا کہ اب میں آپ کے لیے برابر مغفرت کی دعا مانگتا رہوں گا جب تک مجھے اس سے روک نہ دیا جائے، تو یہ آیت نازل ہوئی ما کان للنبي والذين آمنوا أن يستغفروا للمشرکين ولو کانوا أولي قربى من بعد ما تبين لهم أنهم أصحاب الجحيم کہ نبی اور ایمان والوں کے لیے جائز نہیں کہ وہ مشرکوں کے لیے بخشش کی دعا کریں۔ اگرچہ وہ (مشرکین) رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں۔ جب ان پر یہ ظاہر ہوچکے کہ وہ (یقیناً ) اہل دوزخ سے ہیں۔
باب: آیت کی تفسیر ”بیشک اللہ نے نبی پر مہاجرین و انصار پر رحمت فرمائی، وہ لوگ جنہوں نے نبی کا ساتھ تنگی کے وقت (جنگ تبوک) میں دیا، بعد اس کے کہ ان میں سے ایک گروہ کے دلوں میں کچھ تزلزل پیدا ہو گیا تھا۔ پھر (اللہ نے) ان لوگوں پر رحمت کے ساتھ توجہ فرما دی، بیشک وہ ان کے حق میں بڑا ہی شفیق بڑا ہی رحم کرنے والا ہے“۔
ہم سے احمد بن صالح نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، کہا کہ مجھے یونس نے خبر دی (دوسری سند) احمد بن صالح نے بیان کیا کہ ہم سے عنبسہ بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے یونس نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، کہا مجھ کو عبدالرحمٰن بن کعب نے خبر دی، کہا کہ مجھے عبداللہ بن کعب نے خبر دی کہ (ان کے والد) کعب بن مالک (رض) جب نابینا ہوگئے تو ان کے بیٹوں میں یہی ان کو راستے میں ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے کعب بن مالک سے ان کے واقعہ کے سلسلے میں سنا جس کے بارے میں آیت وعلى الثلاثة الذين خلفوا نازل ہوئی تھی۔ آپ نے آخر میں (نبی کریم ﷺ سے) عرض کیا تھا کہ اپنی توبہ کے قبول ہونے کی خوشی میں اپنا تمام مال اللہ اور اس کے رسول کے راستے میں خیرات کرتا ہوں۔ لیکن نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ نہیں اپنا کچھ تھوڑا مال اپنے پاس ہی رہنے دو ۔ یہ تمہارے حق میں بھی بہتر ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور ان تینوں پر بھی اللہ نے (توجہ فرمائی) جن کا مقدمہ پیچھے کو ڈال دیا گیا تھا، یہاں تک کہ جب زمین ان پر باوجود اپنی فراخی کے تنگ ہونے لگی اور وہ خود اپنی جانوں سے تنگ آ گئے اور انہوں نے سمجھ لیا کہ اللہ سے کہیں پناہ نہیں مل سکتی بجز اسی کی طرف کے، پھر اس نے ان پر رحمت سے توجہ فرمائی تاکہ وہ بھی توبہ کر کے رجوع کریں۔ بیشک اللہ توبہ قبول کرنے والا بڑا ہی مہربان ہے“۔
مجھ سے محمد بن نصر نیشاپوری نے بیان کیا، کہا ہم سے احمد بن ابی شعیب نے بیان کیا، کہا ہم سے موسیٰ بن اعین نے بیان کیا، کہا ہم سے اسحاق بن راشد نے بیان کیا، ان سے زہری نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن کعب بن مالک نے خبر دی، ان سے ان کے والد عبداللہ نے بیان کیا کہ میں نے اپنے والد کعب بن مالک (رض) سے سنا۔ وہ ان تین صحابہ میں سے تھے جن کی توبہ قبول کی گئی تھی۔ انہوں نے بیان کیا کہ دو غزووں، غزوہ عسرت (یعنی غزوہ تبوک) اور غزوہ بدر کے سوا اور کسی غزوے میں کبھی میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جانے سے نہیں رکا تھا۔ انہوں نے بیان کیا چاشت کے وقت جب رسول اللہ ﷺ (غزوہ سے واپس تشریف لائے) تو میں نے سچ بولنے کا پختہ ارادہ کرلیا اور آپ کا سفر سے واپس آنے میں معمول یہ تھا کہ چاشت کے وقت ہی آپ (مدینہ) پہنچتے تھے اور سب سے پہلے مسجد میں تشریف لے جاتے اور دو رکعت نماز پڑھتے (بہرحال) آپ ﷺ نے مجھ سے اور میری طرح عذر بیان کرنے والے دو اور صحابہ سے دوسرے صحابہ کو بات چیت کرنے سے منع کردیا۔ ہمارے علاوہ اور بھی بہت سے لوگ (جو ظاہر میں مسلمان تھے) اس غزوے میں شریک نہیں ہوئے لیکن آپ نے ان میں سے کسی سے بھی بات چیت کی ممانعت نہیں کی تھی۔ چناچہ لوگوں نے ہم سے بات چیت کرنا چھوڑ دیا۔ میں اسی حالت میں ٹھہرا رہا۔ معاملہ بہت طول پکڑتا جا رہا تھا۔ ادھر میری نظر میں سب سے اہم معاملہ یہ تھا کہ اگر کہیں (اس عرصہ میں) میں مرگیا تو آپ ﷺ مجھ پر نماز جنازہ نہیں پڑھائیں گے یا آپ ﷺ کی وفات ہوجائے تو افسوس لوگوں کا یہی طرز عمل میرے ساتھ پھر ہمیشہ کے لیے باقی رہ جائے گا، نہ مجھ سے کوئی گفتگو کرے گا اور نہ مجھ پر نماز جنازہ پڑھے گا۔ آخر اللہ تعالیٰ نے ہماری توبہ کی بشارت آپ ﷺ پر اس وقت نازل کی جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ گیا تھا۔ آپ ﷺ اس وقت ام سلمہ (رض) کے گھر میں تشریف رکھتے تھے۔ ام سلمہ (رض) کا مجھ پر بڑا احسان و کرم تھا اور وہ میری مدد کیا کرتی تھیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ام سلمہ ! کعب کی توبہ قبول ہوگئی۔ انہوں نے عرض کیا۔ پھر میں ان کے یہاں کسی کو بھیج کر یہ خوشخبری نہ پہنچوا دوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ خبر سنتے ہی لوگ جمع ہوجائیں گے اور ساری رات تمہیں سونے نہیں دیں گے۔ چناچہ نبی کریم ﷺ نے فجر کی نماز پڑھنے کے بعد بتایا کہ اللہ نے ہماری توبہ قبول کرلی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے جب یہ خوشخبری سنائی تو آپ کا چہرہ مبارک منور ہوگیا جیسے چاند کا ٹکڑا ہو اور (غزوہ میں نہ شریک ہونے والے دوسرے لوگوں سے) جنہوں نے معذرت کی تھی اور ان کی معذرت قبول بھی ہوگئی تھی۔ ہم تین صحابہ کا معاملہ بالکل مختلف تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری توبہ قبول ہونے کے متعلق وحی نازل کی، لیکن جب ان دوسرے غزوہ میں شریک نہ ہونے والے لوگوں کا ذکر کیا، جنہوں نے آپ ﷺ کے سامنے جھوٹ بولا تھا اور جھوٹی معذرت کی تھی تو اس درجہ برائی کے ساتھ کیا کہ کسی کا بھی اتنی برائی کے ساتھ ذکر نہ کیا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا يعتذرون إليكم إذا رجعتم إليهم قل لا تعتذروا لن نؤمن لکم قد نبأنا الله من أخبارکم وسيرى الله عملکم ورسوله کہ یہ لوگ تمہارے سب کے سامنے عذر پیش کریں گے، جب تم ان کے پاس واپس جاؤ گے تو آپ کہہ دیں کہ بہانے نہ بناؤ ہم ہرگز تمہاری بات نہ مانیں گے ! بیشک ہم کو اللہ تمہاری خبر دے چکا ہے اور عنقریب اللہ اور اس کا رسول تمہارا عمل دیکھ لیں گے۔ آخر آیت تک۔
باب: آیت کی تفسیر ”اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور سچے لوگوں کے ساتھ رہا کرو“۔
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن کعب بن مالک نے اور ان سے عبداللہ بن کعب بن مالک نے، وہ کعب بن مالک (رض) کو ساتھ لے کر چلتے تھے۔ (جب وہ نابینا ہوگئے تھے) عبداللہ نے بیان کیا کہ میں نے کعب بن مالک (رض) سے سنا، وہ غزوہ تبوک میں اپنی غیر حاضری کا قصہ بیان کر رہے تھے، کہا کہ اللہ کی قسم ! سچ بولنے کا جتنا عمدہ پھل اللہ تعالیٰ نے مجھے دیا، کسی کو نہ دیا ہوگا۔ جب سے رسول اللہ ﷺ کے سامنے میں نے اس بارے میں سچی بات کہی تھی، اس وقت سے آج تک کبھی جھوٹ کا ارادہ بھی نہیں کیا اور اللہ نے اپنے رسول ﷺ پر یہ آیت نازل کی تھی لقد تاب الله على النبي والمهاجرين کہ بیشک اللہ نے نبی پر اور مہاجرین و انصار پر رحمت کے ساتھ توجہ فرمائی۔ آخر آیت وکونوا مع الصادقين تک۔
باب
باب : سورة یونس کی تفسیر اور ابن عباس (رض) نے کہا کہ فاختلط کا معنی یہ ہے کہ پانی برسنے کی وجہ سے زمین سے ہر قسم کا سبزہ اگا۔ یعنی عیسائی کہتے ہیں کہ اللہ نے ایک بیٹا بنا رکھا ہے۔ سبحان اللہ، وہ بےنیاز ہے اور زید بن اسلم نے کہا کہ أن لهم قدم صدق سے محمد ﷺ مراد ہیں۔ اور مجاہد نے بیان کیا کہ اس سے بھلائی مراد ہے۔ تلک آيات میں تلك جو حاضر کے لیے ہے مراد اس سے غائب ہے۔ یعنی یہ قرآن کی نشانیاں ہیں، اسی طرح اس آیت۔ حتى إذا کنتم في الفلک وجرين بهم میں بهم سے بكم. مراد ہے یعنی غائب سے حاضر مراد ہے۔ دعواهم ای دعاؤهم ان کی دعا أحيط بهم یعنی ہلاکت و بربادی کے قریب آگئے، جیسے أحاطت به خطيئته یعنی گناہوں نے اس کو سب طرف سے گھیر لیا۔ فاتبعهم اور وأتبعهم کے ایک معنی ہیں۔ عدوا ،عدوان. سے نکلا ہے۔ آیت يعجل الله للناس الشر استعجالهم بالخير کے متعلق مجاہد نے کہا کہ اس سے مراد غصہ کے وقت آدمی کا اپنی اولاد اور اپنے مال کے متعلق یہ کہنا کہ اے اللہ ! اس میں برکت نہ فرما اور اس کو اپنی رحمت سے دور کر دے تو (بعض اوقات ان کی یہ دعا نہیں لگتی) کیونکہ ان کی تقدیر کا فیصلہ پہلے ہی ہوچکا ہوتا ہے اور (بعض اوقات) جس پر بددعا کی جاتی ہے، وہ ہلاک و برباد ہوجاتے ہیں۔ للذين أحسنوا الحسنى میں مجاہد نے کہا زيادة سے مغفرت اور اللہ کی رضا مندی مراد ہے دوسرے لوگوں نے کہا وزيادة سے اللہ کا دیدار مراد ہے۔ الکبرياء سے سلطنت اور بادشاہی مراد ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر کے پار کر دیا، پھر فرعون اور اس کے لشکر نے ظلم کرنے کے (ارادہ) سے ان کا پیچھا کیا۔ (وہ سب سمندر میں ڈوب گئے اور فرعون بھی ڈوبنے لگا تو وہ بولا) میں ایمان لاتا ہوں کہ کوئی خدا نہیں سوائے اس کے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے اور میں بھی مسلمان ہوتا ہوں“۔
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابوبشر نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے عبداللہ بن عباس (رض) نے بیان کیا کہ جب نبی کریم ﷺ مدینہ تشریف لائے تو یہود عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ اسی دن موسیٰ (علیہ السلام) کو فرعون پر فتح ملی تھی۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے صحابہ سے فرمایا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے ہم ان سے بھی زیادہ مستحق ہیں اس لیے تم بھی روزہ رکھو۔
باب: آیت کی تفسیر ”خبردار ہو، وہ لوگ جو اپنے سینوں کو دہرا کئے دیتے ہیں، تاکہ اپنی باتیں اللہ سے چھپا سکیں وہ غلطی پر ہیں، اللہ سینے کے بھیدوں سے واقف ہے۔ خبردار رہو! وہ لوگ جس وقت چھپنے کے لیے اپنے کپڑے لپیٹتے ہیں (اس وقت بھی) وہ جانتا ہے جو کچھ وہ چھپاتے ہیں اور جو کچھ وہ ظاہر کرتے ہیں، بیشک وہ (ان کے) دلوں کے اندر (کی باتوں) سے خوب خبردار ہے“۔
ہم سے حسن بن محمد بن صباح نے بیان کیا، کہا ہم سے حجاج بن محمد اعور نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابن جریج نے بیان کیا، کہا کہ مجھ کو محمد بن عباد بن جعفر نے خبر دی اور انہوں نے ابن عباس (رض) سے سنا کہ آپ آیت کی قرآت اس طرح کرتے تھے ألا إنهم تثنوني صدورهم میں نے ان سے آیت کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ اس میں حیاء کرتے تھے کہ کھلی ہوئی جگہ میں حاجت کے لیے بیٹھنے میں، آسمان کی طرف ستر کھولنے میں، اس طرح صحبت کرتے وقت آسمان کی طرف کھولنے میں پروردگار سے شرماتے۔
باب: آیت کی تفسیر ”خبردار ہو، وہ لوگ جو اپنے سینوں کو دہرا کئے دیتے ہیں، تاکہ اپنی باتیں اللہ سے چھپا سکیں وہ غلطی پر ہیں، اللہ سینے کے بھیدوں سے واقف ہے۔ خبردار رہو! وہ لوگ جس وقت چھپنے کے لیے اپنے کپڑے لپیٹتے ہیں (اس وقت بھی) وہ جانتا ہے جو کچھ وہ چھپاتے ہیں اور جو کچھ وہ ظاہر کرتے ہیں، بیشک وہ (ان کے) دلوں کے اندر (کی باتوں) سے خوب خبردار ہے“۔
مجھ سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو ہشام نے خبر دی، انہیں ابن جریج نے، انہیں محمد بن عباد بن جعفر نے خبر دی کہ ابن عباس (رض) اس طرح قرآت کرتے تھے ألا إنهم تثنوني صدورهم محمد بن عباد نے پوچھا : اے ابو العباس ! تثنوني صدورهم کا کیا مطلب ہے ؟ بتلایا کہ کچھ لوگ اپنی بیوی سے ہمبستری کرنے میں حیاء کرتے اور خلاء کے لیے بیٹھتے ہوئے بھی حیاء کرتے تھے۔ انہیں کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی کہ ألا إنهم تثنوني صدورهم آخر آیت تک۔
باب: آیت کی تفسیر ”خبردار ہو، وہ لوگ جو اپنے سینوں کو دہرا کئے دیتے ہیں، تاکہ اپنی باتیں اللہ سے چھپا سکیں وہ غلطی پر ہیں، اللہ سینے کے بھیدوں سے واقف ہے۔ خبردار رہو! وہ لوگ جس وقت چھپنے کے لیے اپنے کپڑے لپیٹتے ہیں (اس وقت بھی) وہ جانتا ہے جو کچھ وہ چھپاتے ہیں اور جو کچھ وہ ظاہر کرتے ہیں، بیشک وہ (ان کے) دلوں کے اندر (کی باتوں) سے خوب خبردار ہے“۔
ہم سے عبداللہ بن زبیر حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے، کہا ہم سے عمرو بن دینار نے بیان کیا، کہا کہ ابن عباس (رض) نے آیت کی قرآت اس طرح کی تھی ألا إنهم يثنون صدورهم ليستخفوا منه ألا حين يستغشون ثيابهم اور عمرو بن دینار کے علاوہ اوروں نے بیان کیا ابن عباس (رض) سے کہ يستغشون یعنی اپنے سر چھپالیتے ہیں۔ سيء بهم یعنی اپنی قوم سے وہ بدگمان ہوا۔ وضاق بهم یعنی اپنے مہمانوں کو دیکھ کر وہ بدگمان ہوا کہ ان کی قوم انہیں بھی پریشان کرے گی۔ بقطع من الليل یعنی رات کی سیاہی میں اور مجاہد نے کہا أنيب کے معنی میں رجوع کرتا ہوں (متوجہ ہوتا ہوں) ۔
باب: آیت کی تفسیر ”اللہ کا عرش پانی پر تھا“۔
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، کہا ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بندو ! (میری راہ میں) خرچ کرو تو میں بھی تم پر خرچ کروں گا اور فرمایا، اللہ کا ہاتھ بھرا ہوا ہے۔ رات اور دن مسلسل کے خرچ سے بھی اس میں کم نہیں ہوتا اور فرمایا تم نے دیکھا نہیں جب سے اللہ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے، مسلسل خرچ کئے جا رہا ہے لیکن اس کے ہاتھ میں کوئی کمی نہیں ہوئی، اس کا عرش پانی پر تھا اور اس کے ہاتھ میں میزان عدل ہے جسے وہ جھکاتا اور اٹھاتا رہتا ہے۔ اعتراک باب افتعال سے ہے عروته سے یعنی میں نے اس کو پکڑ پایا اسی سے ہے۔ يعروه مضارع کا صیغہ اور اعتراني آخذ بناصيتها یعنی اس کی حکومت اور قبضہ قدرت میں ہیں۔ عنيد ، عنود اور عاند سب کے معنی ایک ہی ہیں یعنی سرکش مخالف اور یہ جبار کی تاکید ہے۔ استعمرکم تم کو بسایا، آباد کیا۔ عرب لوگ کہتے ہیں أعمرته الدار فهى عمرى یعنی یہ گھر میں نے اس کو عمر بھر کے لیے دے ڈالا۔ نكرهم ،أنكرهم اور استنکرهم سب کے ایک ہی معنی ہیں۔ یعنی ان کو پردیسی سمجھا۔ حميد ، فعيل کے وزن پر ہے بہ معنی محمود میں سراہا گیا اور مجيد ، ماجد. کے معنی میں ہے (یعنی کرم کرنے والا) ۔ سجيل اور سجين دونوں کے معنی سخت اور بڑا کے ہیں۔ لام اور نون بہنیں ہیں (ایک دوسرے سے بدلی جاتی ہیں) ۔ تمیم بن مقبل شاعر کہتا ہے۔ بعضے پیدل دن دھاڑے خود پر ضرب لگاتے ہیں ایسی ضرب جس کی سختی کے لیے بڑے بڑے پہلوان اپنے شاگردوں کو وصیت کیا کرتے ہیں۔ آیت کی تفسیر اور مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو ( بھیجا ) وإلى مدين یعنی مدین والوں کی طرف کیونکہ مدین ایک شہر کا نام ہے جسے دوسری جگہ فرمایا واسأل القرية یعنی گاؤں والوں سے پوچھ۔ واسأل العير یعنی قافلہ والوں سے پوچھ۔ وراء کم ظهريا یعنی پس پشت ڈال دیا اس کی طرف التفات نہ کیا۔ جب کوئی کسی کا مقصد پورا نہ کرے تو عرب لوگ کہتے ہیں ظهرت بحاجتي اور جعلتني ظهريا اس جگہ ظهري کا معنی وہ جانور یا برتن ہے جس کو تو اپنے کام کے لیے ساتھ رکھے۔ أراذلنا ہمارے میں سے کمینے لوگ۔ إجرام ، أجرمت کا مصدر ہے یا جرمت ثلاثى مجرد۔ فلك اور فلك جمع اور مفرد دونوں کے لیے آتا ہے۔ ایک کشتی اور کئی کشتیوں کو بھی کہتے ہیں۔ مجراها کشتی کا چلنا یہ أجريت کا مصدر ہے۔ اسی طرح مرساها ، أرسيت کا مصدر ہے یعنی میں نے کشتی تھما لی (لنگر کردیا) بعضوں نے مرساها بفتح میم پڑھا ہے رست سے۔ اسی طرح مجراها بھی جرت سے ہے۔ بعضوں نے مجريها ، مرسيها یعنی اللہ اس کو چلانے والا ہے اور وہی اس کا تھمانے والا ہے یہ معنوں میں مفعول کے ہیں۔ راسيات کے معنی جمی ہوئی کے ہیں۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور گواہ کہیں گے کہ یہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار پر جھوٹ باندھا تھا، خبردار رہو کہ اللہ کی لعنت ہے ظالموں پر“۔
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، کہا ہم سے سعید بن ابی عروبہ اور ہشام بن ابی عبداللہ دستوائی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے قتادہ نے بیان کیا اور ان سے صفوان بن محرز نے کہ ابن عمر (رض) طواف کر رہے تھے کہ ایک شخص نام نامعلوم آپ کے سامنے آیا اور پوچھا : اے ابوعبدالرحمٰن ! یا یہ کہا کہ اے ابن عمر ! کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ سے سرگوشی کے متعلق کچھ سنا ہے (جو اللہ تعالیٰ مؤمنین سے قیامت کے دن کرے گا) ۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا، آپ ﷺ فرما رہے تھے کہ مومن اپنے رب کے قریب لایا جائے گا۔ اور ہشام نے يدنو المؤمن (بجائے يدنى المؤمن کہا) مطلب ایک ہی ہے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا ایک جانب اس پر رکھے گا اور اس کے گناہوں کا اقرار کرائے گا کہ فلاں گناہ تجھے یاد ہے ؟ بندہ عرض کرے گا، یاد ہے، میرے رب ! مجھے یاد ہے، دو مرتبہ اقرار کرے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں نے دنیا میں تمہارے گناہوں کو چھپائے رکھا اور آج بھی تمہاری مغفرت کروں گا۔ پھر اس کی نیکیوں کا دفتر لپیٹ دیا جائے گا۔ لیکن دوسرے لوگ یا (یہ کہا کہ) کفار تو ان کے متعلق محشر میں اعلان کیا جائے گا کہ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ پر جھوٹ باندھا تھا۔ اور شیبان نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے کہ ہم سے صفوان نے بیان کیا۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور تیرے پروردگار کی پکڑ اسی طرح ہے جب وہ بستی والوں کو پکڑتا ہے جو (اپنے اوپر) ظلم کرتے رہتے ہیں، بیشک اس کی پکڑ بڑی دکھ دینے والی اور بڑی ہی سخت ہے“۔
ہم سے صدقہ بن فضل نے بیان کیا، کہا ہم کو ابومعاویہ نے خبر دی، ان سے برید بن ابی بردہ نے بیان کیا، ان سے ابوبردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ظالم کو چند روز دنیا میں مہلت دیتا رہتا ہے لیکن جب پکڑتا ہے تو پھر نہیں چھوڑتا۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر آپ ﷺ نے اس آیت کی تلاوت کی وكذلك أخذ ربک إذا أخذ القرى وهى ظالمة إن أخذه أليم شديد اور تیرے پروردگار کی پکڑ اسی طرح ہے، جب وہ بستی والوں کو پکڑتا ہے۔ جو (اپنے اوپر) ظلم کرتے رہتے ہیں، بیشک اس کی پکڑ بڑی تکلیف دینے والی اور بڑی ہی سخت ہے۔
باب
باب : سورة یوسف کی تفسیر اور فضیل بن عیاض (زاہد مشہور) نے حصین بن عبدالرحمٰن سے روایت کیا، انہوں نے مجاہد سے انہوں نے کہا متكأ کا معنی لأترج اور خود فضیل نے بھی کہا کہ متكأ حبشی زبان میں لأترج کو کہتے ہیں۔ اور سفیان بن عیینہ نے ایک شخص (نام نامعلوم) سے روایت کی اس نے مجاہد سے انہوں نے کہا۔ متكأ وہ چیز جو چھری سے کاٹی جائے (میوہ ہو یا ترکاری) ۔ اور قتادہ نے کہا ذو علم کا معنی اپنے علم پر عمل کرنے والا۔ اور سعید بن جبیر نے کہا صواع ایک ماپ ہے جس کو مكوک الفارسي بھی کہتے ہیں یہ ایک گلاس کی طرح کا ہوتا ہے جس کے دونوں کنارے مل جاتے ہیں۔ عجم کے لوگ اس میں پانی پیا کرتے ہیں۔ اور ابن عباس نے کہا لو لا ان تفندون اگر تم مجھ کو جاہل نہ کہو۔ دوسرے لوگوں نے کہا غيابة وہ چیز جو دوسری چیز کو چھپاوے غائب کر دے اور جب کچا کنواں جس کی بندش نہ ہوئی ہو۔ وما انت بمؤمن لنا یعنی تو ہماری بات سچ ماننے والا نہیں۔ أشده وہ عمر جو زمانہ انحطاط سے پہلے ہو (تیس سے چالیس برس تک) عرب بولا کرتے ہیں۔ بلغ أشده وبلغوا أشدهم یعنی اپنی جوانی کی عمر کو پہنچا یا پہنچے۔ بعضوں نے کہا اشد ، شد کی جمع ہے۔ متكأ مسند، تکیہ جس پر تو پینے کھانے یا باتیں کرنے کے لیے ٹیکا دے۔ اور جس نے یہ کہا کہ متكأ، لأترج کو کہتے ہیں اس نے غلط کہا۔ عربی زبان میں متكأ کے معنی لأترج کے بالکل نہیں آئے ہیں جب اس شخص سے جو متكأ کے معنی لأترج کہتا ہے اصل بیان کی گئی کہ متكأ مسند یا تکیہ کو کہتے ہیں تو وہ اس سے بھی بدتر ایک بات کہنے لگا کہ یہ لفظ المتک ساکنة التاء ہے۔ حالانکہ متك عربی زبان میں عورت کی شرمگاہ کو کہتے ہیں۔ جہاں عورت کو ختنہ کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ عورت کو عربی زبان میں متكأ ( متك والی) کہتے ہیں اور آدمی کو متكأ کا پیٹ کہتے ہیں۔ اگر بالفرض زلیخا نے لأترج بھی منگوا کر عورتوں کو دیا ہوگا تو مسند تکیہ کے بعد دیا ہوگا۔ شعفها یعنی اس کے دل کے شغاف (غلاف) میں اس کی محبت سما گئی ہے۔ بعضوں نے شعفها عین مہملہ سے پڑھا ہے وہ مشعوف سے نکلا ہے۔ أصب کا معنی مائل ہوجاؤں گا جھک پڑوں گا۔ أضغاث أحلام پریشان خواب جس کی کچھ تعبیر نہ دی جاسکے۔ اصل میں أضغاث ، ضغث کی جمع ہے یعنی ایک مٹھی بھر گھاس تنکے وغیرہ اس سے ہے (سورۃ ص میں) خذ بيدک ضغثا یعنی اپنے ہاتھ میں سینکوں کا ایک مٹھا لے۔ اور أضغاث أحلام میں ضغث کے یہ معنی مراد نہیں ہیں۔ بلکہ پریشان خواب مراد ہے۔ نمير ، ميرة سے نکلا ہے اس کے معنی کھانے کے ہیں۔ ونزداد كيل بعير یعنی ایک اونٹ کا بوجھ اور زیادہ لائیں گے۔ أوى إليه اپنے سے ملا لیا۔ اپنے پاس بیٹھا لیا۔ سقاية ایک ماپ تھا (جس سے غلہ ماپتے تھے) ۔ تفتأ ہمیشہ رہو گے۔ فلما استياسوا جب ناامید ہوگئے۔ ولا تياسوا من روح الله اللہ سے امید رکھو اس کی رحمت سے ناامید نہ ہو۔ خلصوا نجيا الگ جا کر مشورہ کرنے لگے۔ نجي کا معنی مشورہ کرنے والا۔ اس کی جمع انجية بھی آئی ہے اس سے بنا ہے يتنا جون یعنی مشورہ کر رہے ہیں۔ نجي مفرد کا صیغہ ہے اور تثنیہ اور جمع میں نجي اور انجية دونوں مستعمل ہیں۔ حرضا یعنی رنج و غم تجھ کو گلا ڈالے گا۔ تحسسوا یعنی خبر لو، لو لگاؤ، تلاش کرو۔ مزجاة تھوڑی پونجی۔ غاشية من عذاب الله اللہ کا عام عذاب جو سب کو گھیر لے۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور اپنا انعام تمہارے اوپر اور اولاد یعقوب پر پورا کرے گا جیسا کہ وہ اسے اس سے پہلے پورا کر چکا ہے، تمہارے باپ دادا ابراہیم اور اسحاق پر“۔
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالصمد نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن دینار نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ کریم بن کریم بن کریم بن کریم یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم تھے۔ (علیہم الصلٰوۃ والسلام) ۔
باب: آیت «لقد كان في يوسف وإخوته آيات للسائلين» کی تفسیر۔
مجھ سے محمد نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدہ نے خبر دی، انہیں عبیداللہ نے، انہیں سعید بن ابی سعید نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ سے کسی نے سوال کیا کہ انسانوں میں کون سب سے زیادہ شریف ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ سب سے زیادہ شریف وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہو۔ صحابہ نے عرض کیا کہ ہمارے سوال کا مقصد یہ نہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پھر سب سے زیادہ شریف یوسف (علیہ السلام) ہیں نبي الله ابن نبي الله ابن نبي الله ابن خليل الله۔ صحابہ نے عرض کیا کہ ہمارے سوال کا یہ بھی مقصد نہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اچھا، عرب کے خاندانوں کے متعلق تم معلوم کرنا چاہتے ہو ؟ صحابہ نے عرض کیا جی ہاں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جاہلیت میں جو لوگ شریف سمجھے جاتے تھے، اسلام لانے کے بعد بھی وہ شریف ہیں، جبکہ دین کی سمجھ بھی انہیں حاصل ہوجائے۔ اس روایت کی متابعت ابواسامہ نے عبیداللہ سے کی ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”یعقوب نے کہا، تم نے اپنے دل سے خود ایک جھوٹی بات گھڑ لی ہے“۔
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویس نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے صالح بن کیسان نے، ان سے ابن شہاب نے (دوسری سند) امام بخاری (رح) نے کہا کہ ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن عمر نمیری نے بیان کیا، ان سے یونس بن یزید ایلی نے بیان کیا کہا کہ میں زہری سے سنا، انہوں نے عروہ بن زبیر، سعید بن مسیب، علقمہ بن وقاص اور عبیداللہ بن عبداللہ سے نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ عائشہ (رض) کے اس واقعہ کے متعلق سنا جس میں تہمت لگانے والوں نے ان پر تہمت لگائی تھی اور پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی پاکی نازل کی۔ ان تمام لوگوں نے مجھ سے اس قصہ کا کچھ کچھ ٹکڑا بیان کیا۔ نبی کریم ﷺ نے (عائشہ (رض) سے) فرمایا کہ اگر تم بَری ہو تو عنقریب اللہ تعالیٰ تمہاری پاکی نازل کر دے گا لیکن اگر تو آلودہ ہوگئی ہے تو اللہ سے مغفرت طلب کر اور اس کے حضور میں توبہ کر (عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ) میں نے اس پر کہا : اللہ کی قسم ! میری اور آپ کی مثال یوسف (علیہ السلام) کے والد جیسی ہے (اور انہیں کی کہی ہوئی بات میں بھی دہراتی ہوں کہ) فصبر جميل والله المستعان على ما تصفون سو صبر کرنا (ہی) اچھا ہے اور تم جو کچھ بیان کرتے ہو اس پر اللہ ہی مدد کرے گا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے عائشہ (رض) کی پاکی میں سورة النور کی إن الذين جاء وا بالإفك سے آخر تک دس آیات اتاریں۔
باب: آیت کی تفسیر ”یعقوب نے کہا، تم نے اپنے دل سے خود ایک جھوٹی بات گھڑ لی ہے“۔
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے حصین بن عبدالرحمٰن نے، ان سے ابو وائل شقیق بن سلمہ نے، کہا کہ مجھ سے مسروق بن اجدع نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ام رومان (رض) نے بیان کیا، وہ عائشہ (رض) کی والدہ ہیں، انہوں نے بیان کیا کہ میں اور عائشہ بیٹھے ہوئے تھے کہ عائشہ (رض) کو بخار چڑھ گیا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ غالباً یہ ان باتوں کی وجہ ہوا ہوگا جن کا چرچا ہو رہا ہے۔ ام رومان (رض) نے عرض کیا کہ جی ہاں۔ اس کے بعد عائشہ (رض) بیٹھ گئیں اور کہا کہ میری اور آپ لوگوں کی مثال یعقوب (علیہ السلام) اور ان کے بیٹوں جیسی ہے اور آپ لوگ جو کچھ بیان کرتے ہو اس پر اللہ ہی مدد کرے۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور جس عورت کے گھر میں وہ تھے وہ اپنا مطلب نکالنے کو انہیں پھسلانے لگی اور دروازے بند کر لیے اور بولی کہ بس آ جا“۔
مجھ سے احمد بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے بشر بن عمر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے سلیمان نے، ان سے ابو وائل نے کہ عبداللہ بن مسعود (رض) نے هيت لك پڑھا اور کہا کہ جس طرح ہمیں یہ لفظ سکھایا گیا ہے۔ اسی طرح ہم پڑھتے ہیں۔ مثواه یعنی اس کا ٹھکانا، درجہ۔ ألفيا یعنی پایا اسی سے ہے۔ ألفوا آباء هم اور ألفينا (دوسری آیتوں میں) اور ابن مسعود سے (سورۃ الصافات) میں بل عجبت ويسخرون منقول ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور جس عورت کے گھر میں وہ تھے وہ اپنا مطلب نکالنے کو انہیں پھسلانے لگی اور دروازے بند کر لیے اور بولی کہ بس آ جا“۔
ہم سے عبداللہ بن زبیر حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے مسلم نے، ان سے مسروق نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہ قریش نے جب رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانے میں تاخیر کی تو آپ نے ان کے حق میں بددعا کی کہ اے اللہ ! ان پر یوسف (علیہ السلام) کے زمانہ کا سا قحط نازل فرما۔ چناچہ ایسا قحط پڑا کہ کوئی چیز نہیں ملتی تھی اور وہ ہڈیوں کے کھانے پر مجبور ہوگئے تھے۔ لوگوں کی اس وقت یہ کیفیت تھی کہ آسمان کی طرف نظر اٹھا کے دیکھتے تھے تو بھوک و پیاس کی شدت سے دھواں سا نظر آتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا فارتقب يوم تأتي السماء بدخان مبين تو آپ انتظار کیجئے اس روز کا جب آسمان کی طرف ایک نظر آنے والا دھواں پیدا ہو۔ اور فرمایا إنا کاشفو العذاب قليلا إنكم عائدون بیشک ہم اس عذاب کو ہٹا لیں گے اور تم بھی (اپنی پہلی حالت پر) لوٹ آؤ گے۔ ابن مسعود (رض) نے کہا کہ عذاب سے یہی قحط کا عذاب مراد ہے کیونکہ آخرت کا عذاب کافروں سے ٹلنے والا نہیں ہے۔
None
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ لوط علیہ السلام پر اپنی رحمت نازل فرمائے کہ انہوں نے ایک زبردست سہارے کی پناہ لینے کے لیے کہا تھا اور اگر میں قید خانے میں اتنے دنوں تک رہ چکا ہوتا جتنے دن یوسف علیہ السلام رہے تھے تو بلانے والے کی بات رد نہ کرتا اور ہم کو تو ابراہیم علیہ السلام کے بہ نسبت شک ہونا زیادہ سزاوار ہے۔ جب اللہ پاک نے ان سے فرمایا «أولم تؤمن قال بلى ولكن ليطمئن قلبي» کہ کیا تجھ کو یقین نہیں؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں یقین تو ہے پر میں چاہتا ہوں کہ اور اطمینان ہو جائے۔
باب: آیت کی تفسیر ”یہاں تک کہ جب پیغمبر مایوس ہو گئے کہ افسوس ہم لوگوں کی نگاہوں میں جھوٹے ہوئے“ آخر تک۔
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویس نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے صالح بن کیسان نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، انہیں عروہ بن زبیر نے خبر دی اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا عروہ نے ان سے آیت حتى إذا استيأس الرسل کے متعلق پوچھا تھا۔ عروہ نے بیان کیا کہ میں نے پوچھا تھا (آیت میں) کذبوا (تخفیف کے ساتھ) یا کذبوا (تشدید کے ساتھ) اس پر عائشہ (رض) نے کہا کہ کذبوا (تشدید کے ساتھ) اس پر میں نے ان سے کہا کہ انبیاء تو یقین کے ساتھ جانتے تھے کہ ان کی قوم انہیں جھٹلا رہی ہے۔ پھر ظنوا سے کیا مراد ہے، انہوں نے کہا اپنی زندگی کی قسم بیشک پیغمبروں کو اس کا یقین تھا۔ میں نے کہا کذبوا تخفیف ذال کے ساتھ پڑھیں تو کیا قباحت ہے۔ انہوں نے کہا معاذاللہ ! کہیں پیغمبر اپنے پروردگار کی نسبت ایسا گمان کرسکتے ہیں۔ میں نے کہا اچھا اس آیت کا مطلب کیا ہے ؟ انہوں نے کہا مطلب یہ ہے کہ پیغمبروں کو جن لوگوں نے مانا ان کی تصدیق کی جب ان پر ایک مدت دراز تک آفت اور مصیبت آتی رہی اور اللہ کی مدد آنے میں دیر ہوئی اور پیغمبر ان کے ایمان لانے سے ناامید ہوگئے جنہوں نے ان کو جھٹلایا تھا اور یہ گمان کرنے لگے کہ جو لوگ ایمان لائے ہیں اب وہ بھی ہم کو جھوٹا سمجھنے لگیں گے، اس وقت اللہ کی مدد آن پہنچی۔
اللہ تعالیٰ کا قول کہ یہاں تک کہ جب رسول اللہ نا امید ہوگئے۔
ہم سے ابوالیمان حکم بن نافع نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب بن ابی حمزہ نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، کہا مجھ کو عروہ بن زبیر نے خبر دی کہ میں نے عائشہ (رض) سے کہا ہوسکتا ہے یہ کذبوا تخفیف ذال کے ساتھ ہو تو انہوں نے فرمایا، معاذاللہ ! پھر وہی حدیث بیان کی جو اوپر گزری۔
باب
ابن عباس (رض) نے کہا هاد کا معنی بلانے والا، ہدایت کرنے والا (نبی و رسول مراد ہیں) ۔ اور مجاہد نے کہا صديد کا معنی پیپ اور لہو۔ اور سفیان بن عیینہ نے کہ اذکروا نعمة الله عليكم کا معنی یہ ہے کہ اللہ کی جو نعمتیں تمہارے پاس ہیں ان کو یاد کرو اور جو جو اگلے واقعات اس کی قدرت کے ہوئے ہیں اور مجاہد نے کہا من کل ما سألتموه کا معنی یہ ہے کہ جن جن چیزوں کی تم نے رغبت کی يبغونها عوجا اس میں کجی پیدا کرنے کی تلاش کرتے رہتے ہیں۔ وإذ تأذن ربکم جب تمہارے مالک نے تم کو خبردار کردیا جتلا دیا۔ ردوا أيديهم في أفواههم یہ عرب کی زبان میں ایک مثل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کا جو حکم ہوا تھا اس سے باز رہے، بجا نہ لائے۔ مقامي وہ جگہ جہاں اللہ پاک اس کو اپنے سامنے کھڑا کرے گا۔ من ورائه سامنے سے۔ لكم تبعا ، تبع ، تابع کی جمع ہے جیسے غيب ، غائب کی۔ بمصرخکم عرب لوگ کہتے ہیں استصرخني یعنی اس نے میری فریاد سن لی۔ يستصرخه اس کی فریاد سنتا ہے دونوں صراخ سے نکلے ہیں ( صراخ کا معنی فریاد) ۔ ولا خلال ،خاللته کا مصدر ہے اور خلة کی جمع بھی ہوسکتا ہے (یعنی اس دن دوستی نہ ہوگی یا دوستیاں نہ ہوں گی) اجتثت جڑ سے اکھاڑ لیا گیا۔
باب: آیت «كشجرة طيبة أصلها ثابت وفرعها في السماء تؤتي أكلها كل حين» کی تفسیر۔
مجھ سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے، ان سے عبیداللہ نے، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر (رض) نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے، آپ ﷺ نے دریافت فرمایا : اچھا مجھ کو بتلاؤ تو وہ کون سا درخت ہے جو مسلمان کی مانند ہے جس کے پتے نہیں گرتے، ہر وقت میوہ دے جاتا ہے ؟ ابن عمر (رض) کہتے ہیں میرے دل میں آیا وہ کھجور کا درخت ہے مگر میں نے دیکھا کہ ابوبکر اور عمر (رض) بیٹھے ہوئے ہیں انہوں نے جواب نہیں دیا تو مجھ کو ان بزرگوں کے سامنے کلام کرنا اچھا معلوم نہیں ہوا۔ جب ان لوگوں نے کچھ جواب نہیں دیا تو نبی کریم ﷺ نے خود ہی فرمایا وہ کھجور کا درخت ہے۔ جب ہم اس مجلس سے کھڑے ہوئے تو میں نے اپنے والد عمر (رض) سے عرض کیا : بابا جان ! اللہ کی قسم ! میرے دل میں آیا تھا کہ میں کہہ دوں وہ کھجور کا درخت ہے۔ انہوں نے کہا پھر تو نے کہہ کیوں نہ دیا۔ میں نے کہا آپ لوگوں نے کوئی بات نہیں کی میں نے آگے بڑھ کر بات کرنا مناسب نہ جانا۔ انہوں نے کہا واہ اگر تو اس وقت کہہ دیتا تو مجھ کو اتنے اتنے (لال لال اونٹ کا) مال ملنے سے بھی زیادہ خوشی ہوتی۔
باب: آیت کی تفسیر یعنی ”اللہ ایمان والوں کو اس کی پکی بات کی برکت سے مضبوط رکھتا ہے، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی“۔
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے علقمہ بن مرثد نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ میں نے سعد بن عبیدہ سے سنا اور انہوں نے براء بن عازب (رض) سے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مسلمان سے جب قبر میں سوال ہوگا تو وہ گواہی دے گا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد يثبت الله الذين آمنوا بالقول الثابت في الحياة الدنيا وفي الآخرة اللہ ایمان والوں کی اس پکی بات (کی برکت) سے مضبوط رکھتا ہے، دنیوی زندگی میں (بھی) اور آخرت میں (بھی) کا یہی مطلب ہے۔
باب
مجاہد نے کہا صراط على مستقيم کا معنی سچا راستہ جو اللہ تک پہنچتا ہے۔ اللہ کی طرف جاتا ہے لبإمام مبين یعنی کھلے راستے پر۔ اور ابن عباس (رض) نے کہا لعمرک کا معنی یعنی تیری زندگی کی قسم۔ قوم منکرون لوط نے ان کو اجنبی پردیسی سمجھا۔ دوسرے لوگوں نے کہا کتاب معلوم کا معنی معین میعاد۔ لوما تاتينا کیوں ہمارے پاس نہیں لاتا۔ شيع امتیں اور کبھی دوستوں کو بھی شيع کہتے ہیں اور ابن عباس (رض) نے کہا يهرعون کا معنی دوڑتے، جلدی کرتے۔ للمتوسمين دیکھنے والوں کے لیے۔ سكرت ڈھانکی گئیں۔ بروجا ، برج یعنی سورج چاند کی منزلیں۔ لواقح ، ملاقح کے معنی میں ہے جو ملفحة کی جمع یعنی حاملہ کرنے والی۔ حما ، حماة کی جمع ہے بدبودار کیچڑ۔ مسنون قالب میں ڈھالی گئی۔ لا توجل مت ڈر۔ دابر اخر (دم) ۔ لبامام مبين امام، وہ شخص جس کی تو پیروی کرے اس سے راہ پائے۔ الصيحة ہلاکت کے معنی میں ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”ہاں مگر کوئی بات چوری چھپے سن بھاگے تو اس کے پیچھے ایک جلتا ہوا انگارہ لگ جاتا ہے“۔
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے، کہا ہم سے عمرو بن دینار نے، انہوں نے عکرمہ سے بیان کیا، انہوں نے ابوہریرہ (رض) سے یہی حدیث بیان کی اس میں یوں ہے جب اللہ پاک کوئی حکم دیتا ہے اور ساحر کے بعد اس روایت میں كاهن. کا لفظ زیادہ کیا۔ علی نے کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا کہ عمرو نے کہا میں نے عکرمہ سے سنا، انہوں نے کہا ہم سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب اللہ پاک کوئی حکم دیتا ہے اور اس روایت میں على فم الساحر. کا لفظ ہے۔ علی بن عبداللہ نے کہا میں نے سفیان بن عیینہ سے پوچھا کہ تم نے عمرو بن دینار سے خود سنا، وہ کہتے تھے میں نے عکرمہ سے سنا، وہ کہتے تھے میں نے ابوہریرہ (رض) سے سنا، انہوں نے کہا ہاں۔ علی بن عبداللہ نے کہا میں نے سفیان بن عیینہ سے کہا۔ ایک آدمی (نام نامعلوم) نے تو تم سے یوں روایت کی تم نے عمرو سے، انہوں نے عکرمہ سے، انہوں نے ابوہریرہ (رض) سے، انہوں نے اس حدیث کو مرفوع کیا اور کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فزع پڑھا۔ سفیان نے کہا میں نے عمرو کو اس طرح پڑھتے سنا اب میں نہیں جانتا انہوں نے عکرمہ سے سنا یا نہیں سنا۔ سفیان نے کہا ہماری بھی قرآت یہی ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور بالیقین حجر والوں نے بھی ہمارے رسولوں کو جھٹلایا“۔
ہم سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے معن نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے امام مالک (رح) نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن دینار نے بیان کیا، اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے اصحاب حجر کے متعلق فرمایا تھا کہ اس قوم کی بستی سے جب گزرنا ہی پڑگیا ہے تو روتے ہوئے گزرو اور اگر روتے ہوئے نہیں گزر سکتے تو پھر اس میں نہ جاؤ۔ کہیں تم پر بھی وہی عذاب نہ آئے جو ان پر آیا تھا۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور تحقیق ہم نے آپ کو (وہ) سات (آیتیں) دی ہیں (جو) باربار (پڑھی جاتی ہیں) اور وہ قرآن عظیم ہے“۔
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے خبیب بن عبدالرحمٰن نے، ان سے حفص بن عاصم نے اور ان سے ابوسعید بن معلی (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ میرے پاس سے گزرے میں اس وقت نماز پڑھ رہا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے مجھے بلایا۔ میں نماز سے فارغ ہونے کے بعد خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ فوراً ہی کیوں نہ آئے ؟ عرض کیا کہ نماز پڑھ رہا تھا۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیا اللہ نے تم لوگوں کو حکم نہیں دیا ہے کہ اے ایمان والو ! جب اللہ اور اس کے رسول تمہیں بلائیں تو لبیک کہو، پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیوں نہ آج میں تمہیں مسجد سے نکلنے سے پہلے قرآن کی سب سے عظیم سورت بتاؤں۔ پھر آپ (بتانے سے پہلے) مسجد سے باہر تشریف لے جانے کے لیے اٹھے تو میں نے بات یاد دلائی۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ سورة فاتحہ الحمد لله رب العالمين یہی سبع مثانی ہے اور یہی قرآن عظیم ہے جو مجھے دیا گیا ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور تحقیق ہم نے آپ کو (وہ) سات (آیتیں) دی ہیں (جو) باربار (پڑھی جاتی ہیں) اور وہ قرآن عظیم ہے“۔
ہم سے آدم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابن ابی ذئب نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سعید مقبری نے بیان کیا، ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ام القرآن (یعنی سورة فاتحہ) ہی سبع مثانی اور قرآن عظیم ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”جنہوں نے قرآن کے ٹکڑے ٹکڑے کر رکھے ہیں“۔
مجھ سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ہشیم نے بیان کیا، انہیں ابوبشر نے خبر دی، انہیں سعید بن جبیر نے اور ان سے عبداللہ بن عباس (رض) نے بیان کیا آیت الذين جعلوا القرآن عضين جنہوں نے قرآن کے ٹکڑے کر رکھے ہیں کے متعلق کہا کہ اس سے مراد اہل کتاب ہیں کہ انہوں نے قرآن کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے۔
باب
نزل به الروح الأمين میں روح الأمين سے روح القدس جبرائیل مراد ہیں۔ في ضيق عرب لوگ کہتے ہیں أمر ضيق اور ضيق جیسے هين اور وهين اور لين اور ولين اور ميت اور وميت.۔ ابن عباس (رض) نے کہا في تقلبهم کا معنی ان کے اختلاف میں۔ اور مجاہد نے کہا تميد کا معنی جھک جائے، الٹ جائے۔ مفرطون کا معنی بھلائے گئے۔ دوسرے لوگوں نے کہا فإذا قرأت القرآن فاستعذ بالله اس آیت میں عبارت آگے پیچھے ہوگئی ہے۔ کیونکہ اعوذ بالله قرآت سے پہلے پڑھنا چاہیے۔ لاستعاذة کے معنی اللہ سے پناہ مانگنا۔ اور عبداللہ بن عباس (رض) نے کہا تسيمون کا معنی چراتے ہو۔ شاكلة اپنے اپنے طریق پر۔ قصد السبيل سچے راستے کا بیان کرنا۔ الدفء ہر وہ چیز جس سے گرمی حاصل کی جائے، سردی دفع ہو۔ تريحون شام کو لاتے ہو۔ تسرحون صبح کو چرانے لے جاتے ہو۔ بشق تکلیف اٹھا کر محنت مشقت سے۔ على تخوف نقصان کر کے۔ وان لکم في الأنعام لعبرة میں الأنعام ، نعم کی جمع ہے۔ مذکر مؤنث دونوں کو الأنعام اور نعم کہتے ہیں۔ سرابيل تقيكم الحر میں سرابيل سے کرتے اور سرابيل تقيكم بأسكم میں سرابيل سے زرہیں مراد ہیں۔ دخلا بينكم جو ناجائز بات ہو اس کو دخل. کہتے ہیں۔ جیسے ( دخل. یعنی خیانت) ۔ ابن عباس (رض) نے کہا حفدة آدمی کی اولاد۔ السکر نشے آور مشروب جو حرام ہے۔ رزق الحسنا جس کو اللہ نے حلال کیا۔ اور سفیان بن عیینہ نے صدقة ابوالہذیل سے نقل کیا۔ أنکاثا ٹکڑے ٹکڑے یہ ایک عورت کا ذکر ہے اس کا نام خرقاء تھا (جو مکہ میں رہتی تھی) وہ دن بھر سوت کا تتی پھر توڑ توڑ کر پھینک دیتی۔ ابن مسعود نے کہا لأمة کا معنی لوگوں کو اچھی باتیں سکھانے والا اور قانت کے معنی مطيع اور فرمانبردار کے ہیں۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور تم میں سے بعض کو نکمی عمر کی طرف لوٹا دیا جاتا ہے“۔
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ہارون بن موسیٰ ابوعبداللہ اعور نے بیان کیا، ان سے شعیب نے اور ان سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ دعا کیا کرتے تھے أعوذ بک من البخل والکسل، وأرذل العمر، و عذاب القبر، وفتنة الدجال، وفتنة المحيا والممات . کہ اے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں بخل سے، سستی سے، ارذل عمر سے (نکمی اور خراب عمر 80 یا 90 سال کے بعد) عذاب قبر سے، دجال کے فتنے سے اور زندگی اور موت کے فتنے سے۔
سورت بنی اسرائیل کی تفسیر
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے، ان سے ابواسحاق عمرو بن عبیداللہ سبیعی نے بیان کیا، کہا کہ میں نے عبدالرحمٰن بن یزید سے سنا، کہا کہ میں نے عبداللہ بن مسعود (رض) سے سنا، انہوں نے سورة بنی اسرائیل، سورة الکہف اور سورة مریم کے متعلق کہا کہ یہ اول درجہ کی عمدہ نہایت فصیح و بلیغ سورتیں ہیں اور میری پرانی یاد کی ہوئی (آیت) فسينغضون کے متعلق ابن عباس (رض) نے کہا کہ اپنے سر ہلائیں گے اور دوسرے لوگوں نے کہا کہ یہ نغضت سنك سے نکلا ہے یعنی تیرا دانت ہل گیا۔
باب: آیت «أسرى بعبده ليلا من المسجد الحرام» کی تفسیر۔
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن مبارک نے بیان کیا، کہا ہم کو یونس بن یزید نے خبر دی (دوسری سند) امام بخاری (رح) نے کہا اور ہم سے احمد بن صالح نے بیان کیا، کہا ہم سے عنبسہ بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے یونس بن یزید نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے کہ ابن مسیب نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ معراج کی رات میں نبی کریم ﷺ کے سامنے بیت المقدس میں دو پیالے پیش کئے گئے ایک شراب کا اور دوسرا دودھ کا۔ نبی کریم ﷺ نے دونوں کو دیکھا پھر دودھ کا پیالہ اٹھا لیا۔ اس پر جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا کہ تمام حمد اس اللہ کے لیے ہے جس نے آپ کو فطرت (اسلام) کی ہدایت کی۔ اگر آپ شراب کا پیالہ اٹھا لیتے تو آپ کی امت گمراہ ہوجاتی۔
باب: آیت «أسرى بعبده ليلا من المسجد الحرام» کی تفسیر۔
ہم سے احمد بن صالح نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، کہا کہ مجھے یونس بن یزید نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، ان سے ابوسلمہ نے بیان کیا اور انہوں نے جابر بن عبداللہ انصاری (رض) سے سنا کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا، آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب قریش نے مجھ کو واقعہ معراج کے سلسلہ میں جھٹلایا تو میں (کعبہ کے) مقام حجر میں کھڑا ہوا تھا اور میرے سامنے پورا بیت المقدس کردیا گیا تھا۔ میں اسے دیکھ دیکھ کر اس کی ایک ایک علامت بیان کرنے لگا۔ یعقوب بن ابراہیم نے اپنی روایت میں یہ زیادہ کیا کہ ہم سے ابن شہاب کے بھتیجے نے اپنے چچا ابن شہاب سے بیان کیا کہ (رسول اللہ ﷺ نے فرمایا) جب مجھے قریش نے بیت المقدس کے معراج کے سلسلہ میں جھٹلایا، پھر پہلی حدیث کی طرح بیان کیا۔ قاصفا وہ آندھی جو ہر چیز کو تباہ کر دے۔
باب: آیت «إذا أردنا أن نهلك قرية أمرنا مترفيها» کی تفسیر۔
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، کہا ہم کو منصور نے خبر دی، انہیں ابو وائل نے اور ان سے عبداللہ نے بیان کیا کہ جب کسی قبیلہ کے لوگ بڑھ جاتے تو زمانہ جاہلیت میں ہم ان کے متعلق کہا کرتے تھے کہ أمر بنو فلان. (یعنی فلاں کا خاندان بہت بڑھ گیا) ۔ ہم سے حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا اور اس روایت میں انہوں نے بھی لفظ أمر. کا ذکر کیا۔
باب: آیت کی تفسیر ”ان لوگوں کی نسل والو! جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ کشتی میں سوار کیا تھا، وہ (نوح) بیشک بڑا ہی شکر گزار بندہ تھا“۔
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا ہم کو ابوحیان (یحییٰ بن سعید) تیمی نے خبر دی۔ انہیں ابوزرعہ (ہرم) بن عمرو بن جریر نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں گوشت لایا گیا اور دست کا حصہ آپ کو پیش کیا گیا۔ تو آپ نے اپنے دانتوں سے اسے ایک بار نوچا اور نبی کریم ﷺ کو دست کا گوشت بہت پسند تھا۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن میں سب لوگوں کا سردار ہوں گا تمہیں معلوم بھی ہے یہ کون سا دن ہوگا ؟ اس دن دنیا کے شروع سے قیامت کے دن تک کی ساری خلقت ایک چٹیل میدان میں جمع ہوگی کہ ایک پکارنے والے کی آواز سب کے کانوں تک پہنچ سکے گی اور ایک نظر سب کو دیکھ سکے گی۔ سورج بالکل قریب ہوجائے گا اور لوگوں کی پریشانی اور بےقراری کی کوئی حد نہ رہے گی جو برداشت سے باہر ہوجائے گی۔ لوگ آپس میں کہیں گے، دیکھتے نہیں کہ ہماری کیا حالت ہوگئی ہے۔ کیا ایسا کوئی مقبول بندہ نہیں ہے جو اللہ پاک کی بارگاہ میں تمہاری شفاعت کرے ؟ بعض لوگ بعض سے کہیں گے کہ آدم (علیہ السلام) کے پاس چلنا چاہیے۔ چناچہ سب لوگ آدم (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے آپ انسانوں کے پردادا ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور اپنی طرف سے خصوصیت کے ساتھ آپ میں روح پھونکی۔ فرشتوں کو حکم دیا اور انہوں نے آپ کو سجدہ کیا اس لیے آپ رب کے حضور میں ہماری شفاعت کردیں، آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہم کس حال کو پہنچ چکے ہیں۔ آدم (علیہ السلام) کہیں گے کہ میرا رب آج انتہائی غضبناک ہے۔ اس سے پہلے اتنا غضبناک وہ کبھی نہیں ہوا تھا اور نہ آج کے بعد کبھی اتنا غضب ناک ہوگا اور رب العزت نے مجھے بھی درخت سے روکا تھا لیکن میں نے اس کی نافرمانی کی، پس نفسی، نفسی، نفسی مجھ کو اپنی فکر ہے تم کسی اور کے پاس جاؤ۔ ہاں نوح (علیہ السلام) کے پاس جاؤ۔ چناچہ سب لوگ نوح (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے، اے نوح ! آپ سب سے پہلے پیغمبر ہیں جو اہل زمین کی طرف بھیجے گئے تھے اور آپ کو اللہ نے شکر گزار بندہ (عبد شکور) کا خطاب دیا۔ آپ ہی ہمارے لیے اپنے رب کے حضور میں شفاعت کردیں، آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہم کس حالت کو پہنچ گئے ہیں۔ نوح (علیہ السلام) بھی کہیں گے کہ میرا رب آج اتنا غضبناک ہے کہ اس سے پہلے کبھی اتنا غضبناک نہیں تھا اور نہ آج کے بعد کبھی اتنا غضبناک ہوگا اور مجھے ایک دعا کی قبولیت کا یقین دلایا گیا تھا جو میں نے اپنی قوم کے خلاف کرلی تھی۔ نفسی، نفسی، نفسی آج مجھ کو اپنے ہی نفس کی فکر ہے تم میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ، ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس جاؤ۔ سب لوگ ابراہیم (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے، اے ابراہیم ! آپ اللہ کے نبی اور اللہ کے خلیل ہیں روئے زمین میں منتخب، آپ ہماری شفاعت کیجئے، آپ ملاحظہ فرما رہے ہیں کہ ہم کس حالت کو پہنچ چکے ہیں۔ ابراہیم (علیہ السلام) بھی کہیں گے کہ آج میرا رب بہت غضبناک ہے ؟ اتنا غضبناک نہ وہ پہلے ہوا تھا اور نہ آج کے بعد ہوگا اور میں نے تین جھوٹ بولے تھے (راوی) ابوحیان نے اپنی روایت میں تینوں کا ذکر کیا ہے۔ نفسی، نفسی، نفسی مجھ کو اپنے نفس کی فکر ہے۔ میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ۔ ہاں موسیٰ (علیہ السلام) پاس کے جاؤ۔ سب لوگ موسیٰ (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے اے موسیٰ ! آپ اللہ کے رسول ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی طرف سے رسالت اور اپنے کلام کے ذریعہ فضیلت دی۔ آپ ہماری شفاعت اپنے رب کے حضور میں کریں، آپ ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ ہم کس حالت کو پہنچ چکے ہیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) کہیں گے کہ آج اللہ تعالیٰ بہت غضبناک ہے، اتنا غضبناک کہ وہ نہ پہلے کبھی ہوا تھا اور نہ آج کے بعد کبھی ہوگا اور میں نے ایک شخص کو قتل کردیا تھا، حالانکہ اللہ کی طرف سے مجھے اس کا کوئی حکم نہیں ملا تھا۔ نفسی، نفسی، نفسی بس مجھ کو آج اپنی فکر ہے، میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ۔ ہاں عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جاؤ۔ سب لوگ عیسیٰ (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے۔ اے عیسیٰ ! آپ اللہ کے رسول اور اس کا کلمہ ہیں جسے اللہ نے مریم علیھا السلام پر ڈالا تھا اور اللہ کی طرف سے روح ہیں، آپ نے بچپن میں ماں کی گود ہی میں لوگوں سے بات کی تھی، ہماری شفاعت کیجئے، آپ ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ ہماری کیا حالت ہوچکی ہے۔ عیسیٰ بھی کہیں گے کہ میرا رب آج اس درجہ غضبناک ہے کہ نہ اس سے پہلے کبھی اتنا غضبناک ہوا تھا اور نہ کبھی ہوگا اور آپ کسی لغزش کا ذکر نہیں کریں گے (صرف) اتنا کہیں گے، نفسی، نفسی، نفسی میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ۔ ہاں، محمد ( ﷺ ) کے پاس جاؤ۔ سب لوگ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے، اے محمد ( ﷺ ) ! آپ اللہ کے رسول اور سب سے آخری پیغمبر ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے تمام اگلے پچھلے گناہ معاف کردیئے ہیں، اپنے رب کے دربار میں ہماری شفاعت کیجئے۔ آپ خود ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ ہم کس حالت کو پہنچ چکے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ آخر میں آگے بڑھوں گا اور عرش تلے پہنچ کر اپنے رب عزوجل کے لیے سجدہ میں گر پڑوں گا، پھر اللہ تعالیٰ مجھ پر اپنی حمد اور حسن ثناء کے دروازے کھول دے گا کہ مجھ سے پہلے کسی کو وہ طریقے اور وہ محامد نہیں بتائے تھے۔ پھر کہا جائے گا، اے محمد ! اپنا سر اٹھایئے، مانگئے آپ کو دیا جائے گا۔ شفاعت کیجئے، آپ کی شفاعت قبول ہوجائے گی۔ اب میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور عرض کروں گا۔ اے میرے رب ! میری امت، اے میرے رب ! میری امت پر کرم کر، کہا جائے گا اے محمد ! اپنی امت کے ان لوگوں کو جن پر کوئی حساب نہیں ہے، جنت کے داہنے دروازے سے داخل کیجئے ویسے انہیں اختیار ہے، جس دروازے سے چاہیں دوسرے لوگوں کے ساتھ داخل ہوسکتے ہیں۔ پھر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ جنت کے دروازے کے دونوں کناروں میں اتنا فاصلہ ہے جتنا مکہ اور حمیر میں ہے یا جتنا مکہ اور بصریٰ میں ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور ہم نے داود کو زبور دی“۔
مجھ سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا اور ان سے معمر نے، ان سے ہمام بن منبہ نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ داؤد (علیہ السلام) پر زبور کی تلاوت آسان کردی گئی تھی۔ آپ گھوڑے پر زین کسنے کا حکم دیتے اور اس سے پہلے کہ زین کسی جا چکے، تلاوت سے فارغ ہوجاتے تھے۔
باب: آیت کی تفسیر ”آپ کہئے تم جن کو اللہ کے سوا معبود قرار دے رہے ہو، ذرا ان کو پکارو تو سہی، سو نہ وہ تمہاری کوئی تکلیف ہی دور کر سکتے ہیں اور نہ وہ (اسے) بدل ہی سکتے ہیں“۔
مجھ سے عمرو بن علی بن فلاس نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے کہا ہم سے سفیان نے، کہا مجھ سے سلیمان اعمش نے بیان کیا، ان سے ابراہیم نخعی نے، ان سے عبداللہ بن معمر نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے (آیت) إلى ربهم الوسيلة کا شان نزول یہ ہے کہ کچھ لوگ جنوں کی عبادت کرتے تھے، لیکن وہ جِن بعد میں مسلمان ہوگئے اور یہ مشرک (کم بخت) ان ہی کی پرستش کرتے جاہلی شریعت پر قائم رہے۔ عبیداللہ اشجعی نے اس حدیث کو سفیان سے روایت کیا اور ان سے اعمش نے بیان کیا، اس میں یوں ہے کہ اس آیت قل ادعوا الذين زعمتم کا شان نزول یہ ہے آخر تک۔
باب: آیت کی تفسیر ”یہ لوگ جن کو یہ (مشرکین) پکار رہے ہیں وہ (خود ہی) اپنے پروردگار کا تقرب تلاش کر رہے ہیں“۔
ہم سے بشر بن خالد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو محمد بن جعفر نے خبر دی، انہیں شعبہ نے، انہیں سلیمان اعمش نے، انہیں ابراہیم نخعی نے، انہیں ابومعمر نے اور انہیں عبداللہ بن مسعود (رض) نے آیت الذين يدعون يبتغون إلى ربهم الوسيلة کی تفسیر میں کہا کہ کچھ جِن ایسے تھے جن کی آدمی پرستش کیا کرتے تھے پھر وہ جِن مسلمان ہوگئے۔
باب: آیت کی تفسیر ”یعنی (معراج کی رات میں) ہم نے جو جو مناظر دکھلائے تھے، ان کو ہم نے ان لوگوں کی آزمائش کا سبب بنا دیا“۔
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے، ان سے عکرمہ نے اور ان سے عبداللہ بن عباس (رض) نے بیان کیا کہ آیت وما جعلنا الرؤيا التي أريناك إلا فتنة للناس میں رؤيا سے آنکھ کا دیکھنا مراد ہے (بیداری میں نہ کہ خواب میں) یعنی وہ جو نبی کریم ﷺ کو شب معراج میں دکھایا گیا اور شجرة الملعونة سے تھوہڑ کا درخت مراد ہے۔
باب: آیت کی تفسیر یعنی ”بیشک صبح کی نماز (فرشتوں کی حاضری) کا وقت ہے“۔
مجھ سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق بن ہمام نے بیان کیا، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف اور سعید بن مسیب اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تنہا نماز پڑھنے کے مقابلے میں جماعت سے نماز پڑھنے کی فضیلت پچیس گنا زیادہ ہے اور صبح کی نماز میں رات کے اور دن کے فرشتے اکٹھے ہوجاتے ہیں۔ ابوہریرہ (رض) نے کہا کہ اگر تمہارا جی چاہے تو یہ آیت پڑھو وقرآن الفجر إن قرآن الفجر کان مشهودا یعنی فجر میں قرآت قرآن زیادہ کیا کرو کیونکہ یہ نماز فرشتوں کی حاضری کا وقت ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”قریب ہے کہ آپ کا پروردگار آپ کو مقام محمود میں اٹھائے گا“۔
مجھ سے اسماعیل بن ابان نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوالاحوص (سلام بن سلیم) نے بیان کیا، ان سے آدم بن علی نے بیان کیا اور انہوں نے ابن عمر (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ قیامت کے دن امتیں گروہ در گروہ چلیں گی۔ ہر امت اپنے نبی کے پیچھے ہوگی اور (انبیاء سے) کہے گی کہ اے فلاں ! ہماری شفاعت کرو (مگر وہ سب ہی انکار کردیں گے) آخر شفاعت کے لیے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوں گے تو یہی وہ دن ہے جب اللہ تعالیٰ نبی کریم ﷺ کو مقام محمود عطا فرمائے گا۔
باب: آیت کی تفسیر ”قریب ہے کہ آپ کا پروردگار آپ کو مقام محمود میں اٹھائے گا“۔
ہم سے علی بن عیاش نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعیب بن ابی حمزہ نے بیان کیا، ان سے محمد بن منکدر نے بیان کیا اور ان سے جابر بن عبداللہ انصاری (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس نے اذان سن کر یہ دعا پڑھی اللهم رب هذه الدعوة التامة والصلاة القائمة، آت محمدا الوسيلة والفضيلة، وابعثه مقاما محمودا الذي وعدته، حلت له شفاعتي يوم القيامة. اے اللہ ! اس کامل پکار کے رب اور کھڑی ہونے والی نماز کے رب ! محمد ( ﷺ ) کو قرب اور فضیلت عطا فرما اور انہیں مقام محمود پر کھڑا کیجؤ۔ جس کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے۔ تو اس کے لیے قیامت کے دن میری شفاعت ضروری ہوگی۔ اس حدیث کو حمزہ بن عبداللہ نے بھی اپنے والد (عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما) سے روایت کیا ہے اور انہوں نے نبی کریم ﷺ سے۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور آپ کہہ دیں کہ حق (اب تو غالب) آ ہی گیا اور باطل مٹ ہی گیا، بیشک باطل تو مٹنے والا ہی تھا“ «يزهق» کے معنی ہلاک ہوا۔
ہم سے عبداللہ بن زبیر حمیدی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عبداللہ ابن ابی نجیح نے، ان سے مجاہد نے، ان سے ابومعمر نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ جب مکہ میں (فتح کے بعد) داخل ہوئے تو کعبہ کے چاروں طرف تین سو ساٹھ بت تھے۔ نبی کریم ﷺ اپنے ہاتھ کی لکڑی سے ایک کو ٹکراتے جاتے اور پڑھتے جاتے جاء الحق وزهق الباطل إن الباطل کان زهوقا ، جاء الحق وما يبدئ الباطل وما يعيد حق آیا اور جھوٹ نابود ہوا بیشک جھوٹ نابود ہونے والا ہی تھا۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور آپ سے یہ لوگ روح کی بابت پوچھتے ہیں“۔
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا ہم سے میرے والد نے، کہا ہم سے اعمش نے، کہا کہ مجھ سے ابراہیم نخعی نے بیان کیا، ان سے علقمہ نے، ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک کھیت میں حاضر تھا نبی کریم ﷺ اس وقت کھجور کے ایک تنے پر ٹیک لگائے ہوئے تھے کہ کچھ یہودی اس طرف سے گزرے۔ کسی یہودی نے اپنے دوسرے ساتھی سے کہا کہ ان سے روح کے بارے میں پوچھو۔ ان میں سے کسی نے اس پر کہا ایسا کیوں کرتے ہو ؟ دوسرا یہودی بولا۔ کہیں وہ کوئی ایسی بات نہ کہہ دیں، جو تم کو ناپسند ہو۔ رائے اس پر ٹھہری کہ روح کے بارے میں پوچھنا ہی چاہیے۔ چناچہ انہوں نے آپ سے اس کے بارے میں سوال کیا۔ نبی کریم ﷺ تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہوگئے اور ان کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ میں سمجھ گیا کہ اس وقت آپ ﷺ پر وحی اتر رہی ہے۔ اس لیے میں وہیں کھڑا رہا۔ جب وحی ختم ہوئی تو آپ ﷺ نے اس آیت کی تلاوت کی ويسألونک عن الروح قل الروح من أمر ربي وما أوتيتم من العلم إلا قليلا کہ اور یہ آپ سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ آپ کہہ دیں کہ روح میرے پروردگار کے حکم ہی سے ہے اور تمہیں علم تو تھوڑا ہی دیا گیا ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور آپ نماز میں نہ تو بہت پکار کر پڑھیں اور نہ (بالکل) چپکے ہی چپکے پڑھیں“۔
ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشیم بن بشیر نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوبشر نے بیان کیا، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے اللہ تعالیٰ کے ارشاد ولا تجهر بصلاتک ولا تخافت بها اور آپ نماز میں نہ تو بہت پکار کر پڑھئے اور نہ (بالکل) چپکے ہی چپکے کے متعلق فرمایا کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی تھی جب رسول اللہ ﷺ مکہ میں (کافروں کے ڈر سے) چھپے رہتے تو اس زمانہ میں جب آپ اپنے صحابہ کے ساتھ نماز پڑھتے تو قرآن مجید کی تلاوت بلند آواز سے کرتے، مشرکین سنتے تو قرآن کو بھی گالی دیتے اور اس کے نازل کرنے والے اور اس کے لانے والے کو بھی۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے کہا کہ آپ نماز نہ تو بہت پکار کر پڑھیں (یعنی قرآت خوب جہر کے ساتھ نہ کریں) کہ مشرکین سن کر گالیاں دیں اور نہ بالکل چپکے ہی چپکے کہ آپ کے صحابہ بھی نہ سن سکیں، بلکہ درمیانی آواز میں پڑھا کریں۔
باب
مجاہد نے کہا تقرضهم کا معنی ان کو چھوڑ دیتا تھا، کترا جاتا تھا۔ وكان له ثمر میں ثمر سے مراد سونا روپیہ ہے۔ دوسروں نے کہا ثمر یعنی پھل کی جمع ہے۔ باخع کا معنی ہلاک کرنے والا۔ أسفا ندامت اور رنج سے۔ كهف پہاڑ کا کھوہ یا غار۔ الرقيم کے معنی لکھا ہوا بمعنی مرقوم یہ اسم مفعول کا صیغہ ہے رقم سے۔ ربطنا على قلوبهم ہم نے ان کے دلوں میں صبر ڈالا جیسے سورة قصص میں ہے۔ لولا أن ربطنا على قلبها (وہاں بھی صبر کے معنی ہیں) ۔ شططا حد سے بڑھ جانا۔ مرفقا جس چیز پر تکیہ لگائے۔ تزاور زور سے نکلا ہے یعنی جھک جاتا تھا اسی سے ازور ہے بہت جھکنے والا۔ فجوة کشادہ جگہ اس کی جمع فجوات اور فجاء آتی ہے جیسے زكوة کی جمع زكاء ہے۔ اور وصيدا آنگن، صحن اس کی جمع وصائد اور وصد ہے۔ بعضوں نے کہا وصيد کے معنی دروازہ۔ مؤصدة کے معنی بند کی ہوئی عرب لوگ کہتے ہیں آصد الباب یعنی اس نے دروازہ بند کردیا۔ بعثناهم ہم نے ان کو زندہ کیا کھڑا کردیا۔ أزكى طعاما اور أوصد الباب یعنی جو بستی کی اکثر خوراک ہے یا جو کھانا خوب حلال کا ہو، خوب پک کر بڑھ گیا ہو۔ أكلها اس کا میوہ، یہ ابن عباس نے کہا ہے۔ ولم تظلم میوہ کم نہیں ہوا۔ اور سعید بن جبیر نے ابن عباس (رض) سے نقل کیا۔ رقيم وہ ایک تختی ہے سیسے کی اس پر اس وقت کے حاکم نے اصحاب کہف کے نام لکھ کر اپنے خزانے میں ڈال دی تھی۔ فضرب الله على آذانهم اللہ نے ان کے کان بند کردیئے۔ (ان پر پردہ ڈال دیا) وہ سو گئے۔ ابن عباس کے سوا اور لوگوں نے کہا۔ موئلا وال يئل سے نکلا ہے۔ یعنی نجات پائے اور مجاہد نے کہا موئل محفوظ مقام۔ لا يستطيعون سمعا کے معنی وہ عقل نہیں رکھتے۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور انسان سب چیز سے بڑھ کر جھگڑالو ہے“۔
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے یعقوب بن ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، کہا ہم سے میرے والد نے بیان کیا، ان سے صالح نے، ان سے ابن شہاب نے، کہا مجھے علی بن حسین نے خبر دی، انہیں حسین بن علی (رض) نے خبر دی اور انہیں علی (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ رات کے وقت ان کے اور فاطمہ (رض) کے گھر آئے اور فرمایا۔ تم لوگ تہجد کی نماز نہیں پڑھتے (آخر حدیث تک) ۔ رجما بالغيب یعنی سنی سنائی اور ان کو خود کچھ علم نہیں۔ فرطا ندامت، شرمندگی۔ سرادقها یعنی قناتوں کی طرح سب طرف سے ان کو آگ گھیر لے گی جیسے کوٹھری کو سب طرف سے خیمے گھیر لیتے ہیں۔ يح اوره ، محاورة سے نکلا ہے یعنی گفتگو کرنا، تکرار کرنا۔ لكنا هو الله ربي اصل میں لكن أنا هو الله ربي تھا أنا کا ہمزہ حذف کر کے نون کو نون میں ادغام کردیا لكنا ہوگیا۔ خلالهما نهرا یعنی بينهما ان کے بیچ میں۔ زلقا چکنا، صاف جس پر پاؤں پھسلے (جمے نہیں) ۔ هنالک الولاية ، ولايت ، ولي کا مصدر ہے۔ عقبا ، عاقبت اسی طرح عقبى اور عقبة سب کا ایک ہی معنی ہے یعنی آخرت۔ قبلا اور قبلا اور قبلا (تینوں طرح پڑھا ہے) یعنی سامنے آنا۔ ليدحضوا ، دحض سے نکلا ہے یعنی پھسلانا (مطلب یہ ہے کہ حق بات کو ناحق کریں) ۔
باب: آیت «وإذ قال موسى لفتاه لا أبرح حتى أبلغ مجمع البحرين أو أمضي حقبا» کی تفسیر۔
ہم سے عبدا اللہ بن زبیر حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عمرو بن دینار نے بیان کیا، کہا کہ مجھے سعید بن جبیر نے خبر دی، کہا کہ میں نے ابن عباس (رض) سے کہا نوف بکالی کہتا ہے (جو کعب احبار کا رہیب تھا) کہ جن موسیٰ کی خضر کے ساتھ ملاقات ہوئی تھی وہ بنی اسرائیل کے (رسول) موسیٰ کے علاوہ دوسرے ہیں۔ (یعنی موسیٰ بن میثا بن افراثیم بن یوسف بن یعقوب) ابن عباس (رض) نے کہا دشمن خدا نے غلط کہا۔ مجھ سے ابی بن کعب نے بیان کیا کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ ﷺ فرما رہے تھے کہ موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کو وعظ سنانے کے لیے کھڑے ہوئے تو ان سے پوچھا گیا کہ انسانوں میں سب سے زیادہ علم کسے ہے ؟ انہوں نے فرمایا کہ مجھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان پر غصہ کیا کیونکہ انہوں نے علم کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب نہیں کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں وحی کے ذریعہ بتایا کہ دو دریاؤں (فارس اور روم) کے سنگم پر میرا ایک بندہ ہے جو تم سے زیادہ علم رکھتا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا : اے رب ! میں ان تک کیسے پہنچ پاؤں گا ؟ اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ اپنے ساتھ ایک مچھلی لے لو اور اسے ایک زنبیل میں رکھ لو، وہ جہاں گم ہوجائے (زندہ ہو کر دریا میں کود جائے) بس میرا وہ بندہ وہیں ملے گا چناچہ آپ نے مچھلی لی اور زنبیل میں رکھ کر روانہ ہوئے۔ آپ کے ساتھ آپ کے خادم یوشع بن نون بھی تھے۔ جب یہ دونوں چٹان کے پاس آئے تو سر رکھ کر سو گئے، ادھر مچھلی زنبیل میں تڑپی اور اس سے نکل گئی اور اس نے دریا میں اپنا راستہ پا لیا۔ مچھلی جہاں گری تھی اللہ تعالیٰ نے وہاں پانی کی روانی کو روک دیا اور پانی ایک طاق کی طرح اس پر بن گیا (یہ حال یوشع اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے) پھر جب موسیٰ (علیہ السلام) بیدار ہوئے تو یوشع ان کو مچھلی کے متعلق بتانا بھول گئے۔ اس لیے دن اور رات کا جو حصہ باقی تھا اس میں چلتے رہے، دوسرے دن موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے خادم سے فرمایا کہ اب کھانا لاؤ، ہم کو سفر نے بہت تھکا دیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ موسیٰ (علیہ السلام) اس وقت تک نہیں تھکے جب تک وہ اس مقام سے نہ گزر چکے جس کا اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا تھا۔ اب ان کے خادم نے کہا آپ نے نہیں دیکھا جب ہم چٹان کے پاس تھے تو مچھلی کے متعلق بتانا بھول گیا تھا اور صرف شیطانوں نے یاد رہنے نہیں دیا۔ اس نے تو عجیب طریقہ سے اپنا راستہ بنا لیا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : مچھلی نے تو دریا میں اپنا راستہ لیا اور موسیٰ اور ان کے خادم کو (مچھلی کا جو نشان پانی میں اب تک موجود تھا) دیکھ کر تعجب ہوا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ یہ وہی جگہ تھی جس کی تلاش میں ہم تھے، چناچہ دونوں حضرات پیچھے اسی راستہ سے لوٹے۔ بیان کیا کہ دونوں حضرات پیچھے اپنے نقش قدم پر چلتے چلتے آخر اس چٹان تک پہنچ گئے وہاں انہوں نے دیکھا کہ ایک صاحب (خضر علیہ السلام) کپڑے میں لپٹے ہوئے وہاں بیٹھے ہیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے انہیں سلام کیا۔ خضر (علیہ السلام) نے کہا (تم کون ہو) تمہارے ملک میں سلام کہاں سے آگیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں موسیٰ ہوں۔ پوچھا بنی اسرائیل کے موسیٰ ؟ فرمایا کہ جی ہاں۔ آپ کے پاس اس غرض سے حاضر ہوا ہوں تاکہ جو ہدایت کا علم آپ کو حاصل ہے وہ مجھے بھی سکھا دیں۔ خضر (علیہ السلام) نے فرمایا، موسیٰ ! آپ میرے ساتھ صبر نہیں کرسکتے مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک خاص علم ملا ہے جسے آپ نہیں جانتے، اسی طرح آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو علم ملا ہے وہ میں نہیں جانتا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا انشاء اللہ آپ مجھے صابر پائیں گے اور میں کسی معاملے میں آپ کے خلاف نہیں کروں گا۔ خضر (علیہ السلام) نے فرمایا، اچھا اگر آپ میرے ساتھ چلیں تو کسی چیز کے متعلق سوال نہ کریں یہاں تک کہ میں خود آپ کو اس کے متعلق بتادوں گا۔ اب یہ دونوں سمندر کے کنارے کنارے روانہ ہوئے اتنے میں ایک کشتی گزری، انہوں نے کشتی والوں سے بات کی کہ انہیں بھی اس پر سوار کرلیں۔ کشتی والوں نے خضر (علیہ السلام) کو پہچان لیا اور کسی کرایہ کے بغیر انہیں سوار کرلیا۔ جب یہ دونوں کشتی پر بیٹھ گئے تو خضر (علیہ السلام) نے کلہاڑے سے کشتی کا ایک تختہ نکال ڈالا۔ اس پر موسیٰ (علیہ السلام) نے دیکھا تو خضر (علیہ السلام) سے کہا کہ ان لوگوں نے ہمیں بغیر کسی کرایہ کے اپنی کشتی میں سوار کرلیا تھا اور آپ نے انہیں کی کشتی چیر ڈالی تاکہ سارے مسافر ڈوب جائیں۔ بلاشبہ آپ نے یہ بڑا ناگوار کام کیا ہے۔ خضر (علیہ السلام) نے فرمایا، کیا میں نے آپ سے پہلے ہی نہ کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کرسکتے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا جو بات میں بھول گیا تھا اس پر مجھے معاف کردیں اور میرے معاملہ میں تنگی نہ کریں۔ بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، یہ پہلی مرتبہ موسیٰ (علیہ السلام) نے بھول کر انہیں ٹوکا تھا۔ راوی نے بیان کیا کہ اتنے میں ایک چڑیا آئی اور اس نے کشتی کے کنارے بیٹھ کر سمندر میں ایک مرتبہ اپنی چونچ ماری تو خضر (علیہ السلام) نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ میرے اور آپ کے علم کی حیثیت اللہ کے علم کے مقابلے میں اس سے زیادہ نہیں ہے جتنا اس چڑیا نے اس سمندر کے پانی سے کم کیا ہے۔ پھر یہ دونوں کشتی سے اتر گئے، ابھی وہ سمندر کے کنارے چل ہی رہے تھے کہ خضر (علیہ السلام) نے ایک بچہ کو دیکھا جو دوسرے بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ آپ نے اس بچے کا سر اپنے ہاتھ میں دبایا اور اسے (گردن سے) اکھاڑ دیا اور اس کی جان لے لی۔ موسیٰ (علیہ السلام) اس پر بولے، آپ نے ایک بےگناہ کی جان بغیر کسی جان کے بدلے کے لے لی، یہ آپ نے بڑا ناپسند کام کیا۔ خضر (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں تو پہلے ہی کہہ چکا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کرسکتے۔ سفیان بن عیینہ (راوی حدیث) نے کہا اور یہ کام تو پہلے سے بھی زیادہ سخت تھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے آخر اس مرتبہ بھی معذرت کی کہ اگر میں نے اس کے بعد پھر آپ سے سوال کیا تو آپ مجھے ساتھ نہ رکھئے گا۔ آپ میرا باربار عذر سن چکے ہیں (اس کے بعد میرے لیے بھی عذر کا کوئی موقع نہ رہے گا) پھر دونوں روانہ ہوئے، یہاں تک کہ ایک بستی میں پہنچے اور بستی والوں سے کہا کہ ہمیں اپنا مہمان بنا لو، لیکن انہوں نے میزبانی سے انکار کیا، پھر انہیں بستی میں ایک دیوار دکھائی دی جو بس گرنے ہی والی تھی۔ بیان کیا کہ دیوار جھک رہی تھی۔ خضر (علیہ السلام) کھڑے ہوگئے اور دیوار اپنے ہاتھ سے سیدھی کردی۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ ان لوگوں کے یہاں ہم آئے اور ان سے کھانے کے لیے کہا، لیکن انہوں نے ہماری میزبانی سے انکار کیا، اگر آپ چاہتے تو دیوار کے اس سیدھا کرنے کے کام پر اجرت لے سکتے تھے۔ خضر (علیہ السلام) نے فرمایا کہ بس اب میرے اور آپ کے درمیان جدائی ہے، اللہ تعالیٰ کے ارشاد ذلک تأويل ما لم تسطع عليه صبرا تک۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، ہم تو چاہتے تھے کہ موسیٰ نے صبر کیا ہوتا تاکہ اللہ تعالیٰ ان کے اور واقعات ہم سے بیان کرتا۔ سعید بن جبیر نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عباس (رض) اس آیت کی تلاوت کرتے تھے (جس میں خضر (علیہ السلام) نے اپنے کاموں کی وجہ بیان کی ہے کہ) کشتی والوں کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر اچھی کشتی کو چھین لیا کرتا تھا اور اس کی بھی آپ تلاوت کرتے تھے کہ اور وہ غلام (جس کی گردن خضر (علیہ السلام) نے توڑ دی تھی) تو وہ (اللہ کے علم میں) کافر تھا اور اس کے والدین مومن تھے۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور جب وہ دونوں دو دریاؤں کے ملاپ کی جگہ پر پہنچے تو دونوں اپنی مچھلی بھول گئے، مچھلی نے دریا میں اپنا راستہ بنا لیا“۔
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو ہشام بن یوسف نے خبر دی، انہیں ابن جریر نے خبر دی، کہا کہ مجھے یعلیٰ بن مسلم اور عمرو بن دینار نے خبر دی سعید بن جبیر سے، دونوں میں سے ایک اپنے ساتھی اور دیگر راوی کے مقابلہ میں بعض الفاظ زیادہ کہتا ہے اور ان کے علاوہ ایک اور صاحب نے بھی سعید بن جبیر سے سن کر بیان کیا کہ انہوں نے کہا ہم ابن عباس (رض) کی خدمت میں ان کے گھر حاضر تھے۔ انہوں نے فرمایا کہ دین کی باتیں مجھ سے کچھ پوچھو۔ میں نے عرض کیا : اے ابوعباس ! اللہ آپ پر مجھے قربان کرے کوفہ میں ایک واعظ شخص نوف نامی (نوف بکالی) ہے اور وہ کہتا ہے کہ موسیٰ ، خضر (علیہ السلام) سے ملنے والے وہ نہیں تھے جو بنی اسرائیل کے پیغمبر موسیٰ (علیہ السلام) ہوئے ہیں (ابن جریج نے بیان کیا کہ) عمرو بن دینار نے تو روایت اس طرح بیان کی کہ ابن عباس نے کہا دشمن خدا جھوٹی بات کہتا ہے اور یعلیٰ بن مسلم نے اپنی روایت میں اس طرح مجھ سے بیان کیا کہ ابن عباس (رض) نے کہا کہ مجھ سے ابی بن کعب (رض) نے بیان کیا، کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ موسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے رسول تھے ایک دن آپ نے لوگوں (بنی اسرائیل) کو ایسا وعظ فرمایا کہ لوگوں کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے اور دل پسیج گئے تو آپ واپس جانے کے لیے مڑے۔ اس وقت ایک شخص نے ان سے پوچھا : اے اللہ کے رسول ! کیا دنیا میں آپ سے بڑا کوئی عالم ہے ؟ انہوں نے کہا کہ نہیں، اس پر اللہ نے موسیٰ (علیہ السلام) پر عتاب نازل کیا، کیونکہ انہوں نے علم کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف نہیں کی تھی۔ (ان کو یوں کہنا چاہیے تھا کہ اللہ ہی جانتا ہے) ۔ ان سے کہا گیا کہ ہاں تم سے بھی بڑا عالم ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا، اے پروردگار ! وہ کہاں ہے۔ اللہ نے فرمایا جہاں (فارس اور روم کے) دو دریا ملے ہیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا : اے پروردگار ! میرے لیے ان کی کوئی نشانی ایسی بتلا دے کہ میں ان تک پہنچ جاؤں۔ اب عمرو بن دینار نے مجھ سے اپنی روایت اس طرح بیان کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، جہاں تم سے مچھلی تمہاری زنبیل سے چل دے (وہیں وہ ملیں گے) اور یعلیٰ نے حدیث اس طرح بیان کی کہ ایک مردہ مچھلی ساتھ لے لو، جہاں اس مچھلی میں جان پڑجائے (وہیں وہ ملیں گے) موسیٰ (علیہ السلام) نے مچھلی ساتھ لے لی اور اسے ایک زنبیل میں رکھ لیا۔ آپ نے اپنے ساتھی یوشع سے فرمایا کہ میں بس تمہیں اتنی تکلیف دیتا ہوں کہ جب یہ مچھلی زنبیل سے نکل کر چل دے تو مجھے بتانا۔ انہوں نے عرض کیا کہ یہ کون سی بڑی تکلیف ہے۔ اسی کی طرف اشارہ ہے اللہ تعالیٰ کے ارشاد وإذ قال موسیٰ لفتاه میں وہ فتي (رفیق سفر) یوشع ابن نون تھے۔ سعید بن جبیر (راوی حدیث) نے اپنی روایت میں یوشع بن نون کا نام نہیں لیا۔ بیان کیا کہ پھر موسیٰ (علیہ السلام) ایک چٹان کے سایہ میں ٹھہر گئے جہاں نمی اور ٹھنڈ تھی۔ اس وقت مچھلی تڑپی اور دریا میں کود گئی۔ موسیٰ (علیہ السلام) سو رہے تھے اس لیے یوشع نے سوچا کہ آپ کو جگانا نہ چاہیے۔ لیکن جب موسیٰ (علیہ السلام) بیدار ہوئے تو مچھلی کا حال کہنا بھول گئے۔ اسی عرصہ میں مچھلی تڑپ کر پانی میں چلی گئی۔ اللہ تعالیٰ نے مچھلی کی جگہ پانی کے بہاؤ کو روک دیا اور مچھلی کا نشان پتھر پر جس پر سے گئی تھی بن گیا۔ عمرو بن دینار نے مجھ (ابن جریج) سے بیان کیا کہ اس کا نشان پتھر پہ بن گیا اور دونوں انگوٹھوں اور کلمہ کی انگلیوں کو ملا کر ایک حلقہ کی طرح اس کو بتایا۔ بیدار ہونے کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) باقی دن اور باقی رات چلتے رہے۔ آخر کہنے لگے۔ ہمیں اب اس سفر میں تھکن ہو رہی ہے۔ ان کے خادم نے عرض کیا۔ اللہ نے آپ کی تھکن کو دور کردیا ہے (اور مچھلی زندہ ہوگئی ہے) ۔ ابن جریج نے بیان کیا کہ یہ ٹکڑا سعید بن جبیر کی روایت میں نہیں ہے۔ پھر موسیٰ (علیہ السلام) اور یوشع دونوں واپس لوٹے اور خضر (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی (ابن جریج نے کہا) مجھ سے عثمان بن ابی سلیمان نے بیان کیا کہ خضر (علیہ السلام) دریا کے بیچ میں ایک چھوٹے سے سبز زین پوش پر تشریف رکھتے تھے۔ اور سعید بن جبیر نے یوں بیان کیا کہ وہ اپنے کپڑے سے تمام جسم لپیٹے ہوئے تھے۔ کپڑے کا ایک کنارہ ان کے پاؤں کے نیچے تھا اور دوسرا سر کے تلے تھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے پہنچ کو سلام کیا تو خضر (علیہ السلام) نے اپنا چہرہ کھولا اور کہا، میری اس زمین میں سلام کا رواج کہاں سے آگیا۔ آپ کون ہیں ؟ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں موسیٰ ہوں۔ پوچھا، موسیٰ بنی اسرائیل ؟ فرمایا کہ ہاں ! پوچھا، آپ کیوں آئے ہیں ؟ فرمایا کہ میرے آنے کا مقصد یہ ہے کہ جو ہدایت کا علم آپ کو اللہ نے دیا ہے وہ مجھے بھی سکھا دیں۔ اس پر خضر (علیہ السلام) نے فرمایا کہ موسیٰ کیا آپ کے لیے یہ کافی نہیں ہے اس کا پورا سیکھنا آپ کے لیے مناسب نہیں ہے۔ اسی طرح آپ کو جو علم حاصل ہے اس کا پورا سیکھنا میرے لیے مناسب نہیں۔ اس عرصہ میں ایک چڑیا نے اپنی چونچ سے دریا کا پانی لیا تو خضر (علیہ السلام) نے فرمایا : اللہ کی قسم ! میرا اور آپ کا علم اللہ کے علم کے مقابلے میں اس سے زیادہ نہیں ہے۔ جتنا اس چڑیا نے دریا کا پانی اپنی چونچ میں لیا ہے۔ کشتی پر چڑھنے کے وقت انہوں نے چھوٹی چھوٹی کشتیاں دیکھیں جو ایک کنارے والوں کو دوسرے کنارے پر لے جا کر چھوڑ آتی تھیں۔ کشتی والوں نے خضر (علیہ السلام) کو پہچان لیا اور کہا کہ یہ اللہ کے صالح بندے ہیں ہم ان سے کرایہ نہیں لیں گے۔ لیکن خضر (علیہ السلام) نے کشتی میں شگاف کردیئے اور اس میں (تختوں کی جگہ) کیلیں گاڑ دیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا آپ نے اس لیے اسے پھاڑ ڈالا کہ اس کے مسافروں کو ڈبو دیں۔ بلاشبہ آپ نے ایک بڑا ناگوار کام کیا ہے۔ مجاہد نے آیت میں إمرا کا ترجمہ منکرا کیا ہے۔ خضر (علیہ السلام) نے فرمایا میں نے پہلے ہی نہ کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کرسکتے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کا پہلا سوال تو بھولنے کی وجہ سے تھا لیکن دوسرا بطور شرط تھا اور تیسرا قصداً انہوں نے کیا تھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اس پہلے سوال پر کہا کہ جو میں بھول گیا اس پر مجھ سے مؤاخذہ نہ کیجئے اور میرے معاملہ میں تنگی نہ کیجئے۔ پھر انہیں ایک بچہ ملا تو خضر (علیہ السلام) نے اسے قتل کردیا۔ یعلیٰ نے بیان کیا کہ سعید بن جبیر نے کہا کہ خضر (علیہ السلام) کو چند بچے ملے جو کھیل رہے تھے آپ نے ان میں سے ایک بچہ کو پکڑا جو کافر اور چالاک تھا اور اسے لٹا کر چھری سے ذبح کردیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا، آپ نے بلا کسی خون کے ایک بےگناہ جان کو جس نے کہ برا کام نہیں کیا تھا، قتل کر ڈالا۔ ابن عباس (رض) آیت میں زكية کی جگہ زاكية پڑھا کرتے تھے۔ بمعنی مسلمة جیسے غلاما زكيا میں ہے۔ پھر وہ دونوں بزرگ آگے بڑھے تو ایک دیوار پر نظر پڑی جو بس گرنے ہی والی تھی۔ خضر (علیہ السلام) نے اسے ٹھیک کردیا۔ سعید بن جبیر نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کر کے بتایا کہ اس طرح۔ یعلیٰ بن مسلم نے بیان کیا میرا خیال ہے کہ سعید بن جبیر نے بیان کیا کہ خضر نے دیوار پر ہاتھ پھیر کر اسے ٹھیک کردیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اگر آپ چاہتے تو اس پر اجرت لے سکتے تھے۔ سعید بن جبیر نے اس کی تشریح کی کہ اجرت جسے ہم کھا سکتے۔ آیت وكان وراء هم کی ابن عباس (رض) نے قرآت وكان أمامهم کی یعنی کشتی جہاں جا رہی تھی اس ملک میں ایک بادشاہ تھا۔ سعید کے سوا دوسرے راوی سے اس بادشاہ کا نام ہدد بن بدد نقل کرتے ہیں اور جس بچہ کو خضر (علیہ السلام) نے قتل کیا تھا اس کا نام لوگ جیسور بیان کرتے ہیں۔ وہ بادشاہ ہر (نئی) کشتی کو زبردستی چھین لیا کرتا تھا۔ اس لیے میں نے چاہا کہ جب یہ کشتی اس کے سامنے سے گزرے تو اس کے اس عیب کی وجہ سے اسے نہ چھینے۔ جب کشتی والے اس بادشاہ کی سلطنت سے گزر جائیں گے تو وہ خود اسے ٹھیک کرلیں گے اور اسے کام میں لاتے رہیں گے۔ بعض لوگوں کا تو یہ خیال ہے کہ انہوں نے کشتی کو پھر سیسہ لگا کر جوڑا تھا اور بعض کہتے ہیں کہ تار کول سے جوڑا تھا (اور جس بچہ کو قتل کردیا تھا) تو اس کے والدین مومن تھے اور وہ بچہ (اللہ کی تقدیر میں) کافر تھا۔ اس لیے ہمیں ڈر تھا کہ کہیں (بڑا ہو کر) وہ انہیں بھی کفر میں مبتلا نہ کر دے کہ اپنے لڑکے سے انتہائی محبت انہیں اس کے دین کی اتباع پر مجبور کر دے۔ اس لیے ہم نے چاہا کہ اللہ اس کے بدلے میں انہیں کوئی نیک اور اس سے بہتر اولاد دے۔ وأقرب رحما یعنی اس کے والدین اس بچہ پر جو اب اللہ تعالیٰ انہیں دے گا پہلے سے زیادہ بہتر مہربان ہوں جسے خضر (علیہ السلام) نے قتل کردیا ہے۔ سعید بن جبیر (رض) نے کہا کہ ان والدین کو اس بچے کے بدلے ایک لڑکی دی گئی تھی۔ داود بن ابی عاصم (رح) کئی راویوں سے نقل کرتے ہیں کہ وہ لڑکی ہی تھی۔
باب: آیت کی تفسیر ”پس جب وہ دونوں اس جگہ سے آگے بڑھ گئے تو موسیٰ نے اپنے ساتھی سے فرمایا کہ ہمارا کھانا لاؤ سفر سے ہمیں اب تو تھکن ہونے لگی ہے“ لفظ «عجبا» تک۔
مجھ سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا ان سے عمرو بن دینار نے اور ان سے سعید بن جبیر نے بیان کیا کہ میں نے ابن عباس (رض) سے عرض کیا۔ نوف بکالی کہتے ہیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) جو اللہ کے نبی تھے وہ نہیں ہیں جنہوں نے خضر (علیہ السلام) سے ملاقات کی تھی۔ ابن عباس (رض) نے کہا، دشمن خدا نے غلط بات کہی ہے۔ ہم سے ابی بن کعب نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کو وعظ کرنے کے لیے کھڑے ہوئے تو ان سے پوچھا گیا کہ سب سے بڑا عالم کون شخص ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر غصہ کیا، کیونکہ انہوں نے علم کی نسبت اللہ کی طرف نہیں کی تھی اور ان کے پاس وحی بھیجی کہ ہاں، میرے بندوں میں سے ایک بندہ دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ پر ہے اور وہ تم سے بڑا عالم ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا : اے پروردگار ! ان تک پہنچنے کا طریقہ کیا ہوگا ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایک مچھلی زنبیل میں ساتھ لے لو۔ پھر جہاں وہ مچھلی گم ہوجائے وہیں انہیں تلاش کرو۔ بیان کیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نکل پڑے اور آپ کے ساتھ آپ کے رفیق سفر یوشع بن نون بھی تھے۔ مچھلی ساتھ تھی۔ جب چٹان تک پہنچے تو وہاں ٹھہر گئے۔ موسیٰ (علیہ السلام) اپنا سر رکھ کر وہیں سو گئے، عمرو کی روایت کے سوا دوسری روایت کے حوالہ سے سفیان نے بیان کیا کہ اس چٹان کی جڑ میں ایک چشمہ تھا، جسے حیات کہا جاتا تھا۔ جس چیز پر بھی اس کا پانی پڑجاتا وہ زندہ ہوجاتی تھی۔ اس مچھلی پر بھی اس کا پانی پڑا تو اس کے اندر حرکت پیدا ہوگئی اور وہ اپنی زنبیل سے نکل کر دریا میں چلی گئی۔ موسیٰ (علیہ السلام) جب بیدار ہوئے تو انہوں نے اپنے ساتھی سے فرمایا قال لفتاه آتنا غداء نا کہ ہمارا ناشتہ لاؤ الآیۃ۔ بیان کیا کہ سفر میں موسیٰ (علیہ السلام) کو اس وقت تک کوئی تھکن نہیں ہوئی جب تک وہ مقررہ جگہ سے آگے نہیں بڑھ گئے۔ رفیق سفر یوشع بن نون نے اس پر کہا أرأيت إذ أوينا إلى الصخرة فإني نسيت الحوت آپ نے دیکھا جب ہم چٹان کے نیچے بیٹھے ہوئے تھے تو میں مچھلی کے متعلق کہنا بھول گیا الآیۃ۔ بیان کیا کہ پھر وہ دونوں الٹے پاؤں واپس لوٹے۔ دیکھا کہ جہاں مچھلی پانی میں گری تھی وہاں اس کے گزرنے کی جگہ طاق کی سی صورت بنی ہوئی ہے۔ مچھلی تو پانی میں چلی گئی تھی لیکن یوشع بن نون کو اس طرح پانی کے رک جانے پر تعجب تھا۔ جب چٹان پر پہنچے تو دیکھا کہ ایک بزرگ کپڑے میں لپٹے ہوئے وہاں موجود ہیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے انہیں سلام کیا تو انہوں نے فرمایا کہ تمہاری زمین میں سلام کہاں سے آگیا ؟ آپ نے فرمایا کہ میں موسیٰ ہوں۔ پوچھا بنی اسرائیل کے موسیٰ ؟ فرمایا کہ جی ہاں ! موسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے کہا کیا آپ کے ساتھ رہ سکتا ہوں تاکہ جو ہدایت کا علم اللہ تعالیٰ نے آپ کو دیا ہے وہ آپ مجھے بھی سکھا دیں۔ خضر (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ آپ کو اللہ کی طرف سے ایسا علم حاصل ہے جو میں نہیں جانتا اور اسی طرح مجھے اللہ کی طرف سے ایسا علم حاصل ہے جو آپ نہیں جانتے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا، لیکن میں آپ کے ساتھ رہوں گا۔ خضر (علیہ السلام) نے اس پر کہا کہ اگر آپ کو میرے ساتھ رہنا ہی ہے تو پھر مجھ سے کسی چیز کے متعلق نہ پوچھئے گا، میں خود آپ کو بتاؤں گا۔ چناچہ دونوں حضرات دریا کے کنارے روانہ ہوئے، ان کے قریب سے ایک کشتی گزری تو خضر (علیہ السلام) کو کشتی والوں نے پہچان لیا اور اپنی کشتی میں ان کو بغیر کرایہ کے چڑھا لیا دونوں کشتی میں سوار ہوگئے۔ بیان کیا کہ اسی عرصہ میں ایک چڑیا کشتی کے کنارے آ کے بیٹھی اور اس نے اپنی چونچ کو دریا میں ڈالا تو خضر (علیہ السلام) نے موسیٰ (علیہ السلام) سے فرمایا کہ میرا، آپ کا اور تمام مخلوقات کا علم اللہ کے علم کے مقابلہ میں اس سے زیادہ نہیں ہے جتنا اس چڑیا نے اپنی چونچ میں دریا کا پانی لیا ہے۔ بیان کیا کہ پھر یکدم جب خضر (علیہ السلام) نے بسولا اٹھایا اور کشتی کو پھاڑ ڈالا تو موسیٰ (علیہ السلام) اس طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا ان لوگوں نے ہمیں بغیر کسی کرایہ کے اپنی کشتی میں سوار کرلیا تھا اور آپ نے اس کا بدلہ یہ دیا ہے کہ ان کی کشتی ہی چیر ڈالی تاکہ اس کے مسافر ڈوب مریں۔ بلاشبہ آپ نے بڑا نا مناسب کام کیا ہے۔ پھر وہ دونوں آگے بڑھے تو دیکھا کہ ایک بچہ جو بہت سے دوسرے بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا، خضر نے اس کا سر پکڑا اور کاٹ ڈالا۔ اس پر موسیٰ (علیہ السلام) بول پڑے کہ آپ نے بلا کسی خون و بدلہ کے ایک معصوم بچے کی جان لے لی، یہ تو بڑی بری بات ہے۔ خضر (علیہ السلام) نے فرمایا، میں نے آپ سے پہلے ہی نہیں کہہ دیا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کرسکتے، اللہ تعالیٰ کے ارشاد پس اس بستی والوں نے ان کی میزبانی سے انکار کیا، پھر اس بستی میں انہیں ایک دیوار دکھائی دی جو بس گرنے ہی والی تھی۔ خضر (علیہ السلام) نے اپنا ہاتھ یوں اس پر پھیرا اور اسے سیدھا کردیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا ہم اس بستی میں آئے تو انہوں نے ہماری میزبانی سے انکار کیا اور ہمیں کھانا بھی نہیں دیا اگر آپ چاہتے تو اس پر اجرت لے سکتے تھے۔ خضر (علیہ السلام) نے فرمایا بس یہاں سے اب میرے اور آپ کے درمیان جدائی ہے اور میں آپ کو ان کاموں کی وجہ بتاؤں گا جن پر آپ صبر نہیں کرسکے تھے۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ کاش موسیٰ (علیہ السلام) نے صبر کیا ہوتا اور اللہ تعالیٰ ان کے سلسلے میں اور واقعات ہم سے بیان کرتا۔ بیان کیا کہ ابن عباس (رض) وكان وراء هم ملك کی بجائے وكان أمامهم ملك يأخذ کل سفينة صالحة غصبا قرآت کرتے تھے اور بچہ (جسے قتل کیا تھا) اس کے والدین مومن تھے۔ اور یہ بچہ (مشیت الٰہی میں) کافر تھا۔
باب: آیت کی تفسیر ”کیا ہم تم کو خبر دیں ان بدبختوں کے متعلق جو اپنے اعمال کے اعتبار سے سراسر گھاٹے میں ہیں“۔
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن مرہ نے، ان سے مصعب بن سعد بن ابی وقاص نے بیان کیا کہ میں نے اپنے والد (سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ) سے آیت قل هل ننبئكم بالأخسرين أعمالا کے متعلق سوال کیا کہ ان سے کون لوگ مراد ہیں ؟ کیا ان سے خوارج مراد ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ نہیں، اس سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں۔ یہود نے تو محمد ﷺ کی تکذیب کی اور نصاریٰ نے جنت کا انکار کیا اور کہا کہ اس میں کھانے پینے کی کوئی چیز نہیں ملے گی اور خوارج وہ ہیں جنہوں نے اللہ کے عہد و میثاق کو توڑا سعد (رض) انہیں فاسق کہا کرتے تھے۔
باب
ابن عباس (رض) نے کہا أبصر بهم وأسمع یہ اللہ فرماتا ہے آج کے دن (یعنی دنیا میں) نہ تو کافر سنتے ہیں نہ دیکھتے ہیں بلکہ کھلی ہوئی گمراہی میں ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ أسمع بهم وأبصر یعنی کافر قیامت کے دن خوب سنتے اور خوب دیکھتے ہوں گے (مگر اس وقت کا سننا دیکھنا کچھ فائدہ نہ دے گا) ۔ لأرجمنک میں تجھ پر گالیوں کا پتھراؤ کروں گا۔ لفظ رئيا کے معنی منظر، دکھاوا اور ابو وائل شقیق بن سلمہ نے کہا مریم (علیہا السلام) جانتی تھیں کہ جو پرہیزگار ہوتا ہے وہ صاحب عقل ہوتا ہے۔ اسی لیے انہوں نے کہا میں تجھ سے اللہ کی پناہ چاہتی ہوں اگر تو پرہیزگار ہے۔ اور سفیان بن عیینہ نے کہا تؤزهم أزا کا معنی یہ ہے کہ شیطان کافروں کو گناہوں کی طرف گھسیٹتے ہیں۔ مجاہد نے کہا إدا کے معنی کج اور ٹیڑھی، غلط بات (یا کج اور ٹیڑھی باتیں) ۔ ابن عباس (رض) نے کہا وردا کے معنی پیاسے کے ہیں اور أثاثا کے معنی مال اسباب۔ إدا بڑی بات۔ ركزا ہلکی، پست آواز۔ غيا نقصان، ٹوٹا۔ بكيا ، باكى کی جمع ہے یعنی رونے والے۔ صليا مصدر ہے۔ صلي ، يصلى باب سمع ، يسمع سے یعنی جلنا۔ ندي اور لنادي دونوں کے معنی مجلس کے ہیں۔
باب: آیت کی تفسیر ”اے رسول! ان کافروں کو حسرت ناک دن سے ڈرائیے“۔
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد نے، ہم سے اعمش نے، ہم سے ابوصالح نے بیان کیا اور ان سے ابو سعید خدری (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن موت ایک چتکبرے مینڈھے کی شکل میں لائی جائے گی۔ ایک آواز دینے والا فرشتہ آواز دے گا کہ اے جنت والو ! تمام جنتی گردن اٹھا اٹھا کر دیکھیں گے، آواز دینے والا فرشتہ پوچھے گا۔ تم اس مینڈھے کو بھی پہچانتے ہو ؟ وہ بولیں گے کہ ہاں، یہ موت ہے اور ان سے ہر شخص اس کا ذائقہ چکھ چکا ہوگا۔ پھر اسے ذبح کردیا جائے گا اور آواز دینے والا جنتیوں سے کہے گا کہ اب تمہارے لیے ہمیشگی ہے، موت تم پر کبھی نہ آئے گی اور اے جہنم والو ! تمہیں بھی ہمیشہ اسی طرح رہنا ہے، تم پر بھی موت کبھی نہیں آئے گی۔ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت کی وأنذرهم يوم الحسرة إذ قضي الأمر وهم في غفلة الخ اور انہیں حسرت کے دن سے ڈرا دو ۔ جبکہ اخیر فیصلہ کردیا جائے گا اور یہ لوگ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں (یعنی دنیادار لوگ) اور ایمان نہیں لاتے۔
باب: آیت کی تفسیر ”ہم فرشتے نہیں اترتے مگر تیرے رب کے حکم سے“۔
ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، کہا ہم سے عمر بن ذر نے بیان کیا، کہا کہ میں نے اپنے والد سے سنا، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا جیسا کہ اب آپ ہماری ملاقات کو آیا کرتے ہیں، اس سے زیادہ آپ ہم سے ملنے کے لیے کیوں نہیں آیا کرتے ؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی وما نتنزل إلا بأمر ربک له ما بين أيدينا وما خلفنا الخ یعنی ہم (فرشتے) نازل نہیں ہوتے بجز آپ کے پروردگار کے حکم کے، اسی کی ملک ہے جو کچھ ہمارے آگے ہے اور جو کچھ ہمارے پیچھے ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”بھلا تم نے اس شخص کو بھی دیکھا جو ہماری آیتوں سے کفر کرتا ہے“۔
ہم سے عبداللہ بن زبیر حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابوالضحیٰ (مسلم بن صبیح) نے، ان سے مسروق بن اجدع نے بیان کیا کہ میں نے خباب بن ارت (رض) سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں عاص بن وائل سہمی کے پاس اپنا حق مانگنے گیا تو وہ کہنے لگا کہ جب تک تم محمد ﷺ سے کفر نہیں کرو گے میں تمہیں مزدوری نہیں دوں گا۔ میں نے اس پر کہا کہ یہ کبھی نہیں کرسکتا۔ یہاں تک کہ تم مرنے کے بعد پھر زندہ کئے جاؤ۔ اس پر وہ بولا، کیا مرنے کے بعد پھر مجھے زندہ کیا جائے گا ؟ میں نے کہا ہاں، ضرور، کہنے لگا کہ پھر وہاں بھی میرے پاس مال اولاد ہوگی اور میں وہیں تمہاری مزدوری بھی دے دوں گا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی أفرأيت الذي کفر بآياتنا وقال لأوتين مالا وولدا کہ بھلا آپ نے اس شخص کو بھی دیکھا جو ہماری نشانیوں سے کفر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے مال اور اولاد مل کر رہیں گے۔ اس حدیث کو سفیان ثوری اور شعبہ اور حفص اور ابومعاویہ اور وکیع نے بھی اعمش سے روایت کیا ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”کیا وہ غیب پر آگاہ ہوتا ہے یا اس نے خدائے رحمن سے کوئی عہد نامہ حاصل کر لیا ہے“۔
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی، انہیں اعمش نے، انہیں ابوالضحیٰ نے، انہیں مسروق نے اور ان سے خباب بن ارت (رض) نے بیان کیا کہ میں مکہ میں لوہار تھا اور عاص بن وائل سہمی کے لیے میں نے ایک تلوار بنائی تھی۔ میری مزدوری باقی تھی اس لیے ایک دن میں اس کو مانگنے آیا تو کہنے لگا کہ اس وقت تک نہیں دوں گا جب تک تم محمد ﷺ سے پھر نہیں جاؤ گے۔ میں نے کہا کہ میں نبی کریم ﷺ سے ہرگز نہیں پھروں گا یہاں تک کہ اللہ تجھے مار دے اور پھر زندہ کر دے اور وہ کہنے لگا کہ جب اللہ تعالیٰ مجھے مار کر دوبارہ زندہ کر دے گا تو میرے پاس اس وقت بھی مال و اولاد ہوگی۔ اور اسی وقت تم اپنی مزدوری مجھ سے لے لینا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی أفرأيت الذي کفر بآياتنا وقال لأوتين مالا وولدا * أطلع الغيب أم اتخذ عند الرحمن عهدا کہ بھلا تو نے اس شخص کو بھی دیکھا جو ہماری آیتوں کا انکار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے تو مال و اولاد مل کر ہی رہیں گے تو کیا یہ غیب پر مطلع ہوگیا ہے یا اس نے خدائے رحمن سے کوئی وعدہ لے لیا ہے۔ عهد کا معنی مضبوط اقرار۔ عبیداللہ اشجعی نے بھی اس حدیث کو سفیان ثوری سے روایت کیا ہے لیکن اس میں تلوار بنانے کا ذکر نہیں ہے نہ عہد کی تفسیر مذکور ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”ہرگز نہیں ہم اس کا کہا ہوا اس کے اعمال نامے میں لکھ لیتے ہیں اور ہم اس کو عذاب میں بڑھاتے ہی چلے جائیں گے“۔
ہم سے بشر بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، ان سے سلیمان اعمش نے، انہوں نے ابوالضحیٰ سے سنا، ان سے مسروق نے بیان کیا کہ خباب بن ارت (رض) نے بیان کیا کہ میں زمانہ جاہلیت میں لوہاری کا کام کرتا تھا اور عاص بن وائل پر میرا کچھ قرض تھا۔ بیان کیا کہ میں اس کے پاس اپنا قرض مانگنے گیا تو وہ کہنے لگا کہ جب تک تم محمد ﷺ کا انکار نہیں کرتے، تمہاری مزدوری نہیں مل سکتی۔ میں نے اس پر جواب دیا کہ اللہ کی قسم ! میں ہرگز نبی کریم ﷺ کا انکار نہیں کرسکتا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تجھے مار دے اور پھر تجھے دوبارہ زندہ کر دے۔ عاص کہنے لگا کہ پھر مرنے تک مجھ سے قرض نہ مانگو۔ مرنے کے بعد جب میں زندہ رہوں گا تو مجھے مال و اولاد بھی ملیں گے اور اس وقت تمہارا قرض ادا کر دوں گا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی أفرأيت الذي کفر بآياتنا وقال لأوتين مالا وولدا لخ۔
باب
سعید بن جبیر اور ضحاک بن مزاحم نے کہا حبشی زبان میں لفظ طه کے معنی اے مرد کے ہیں۔ کہتے ہیں کہ جس کی زبان سے کوئی حرف نہ نکل سکے یا رک رک کر نکلے تو اس کی زبان میں عقدة. گرہ ہے۔ (موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا واحلل عقدة من لساني میں یہی اشارہ ہے) أزري کے معنی میری پیٹھ۔ فيسحتکم کے معنی تم کو ہلاک کر دے۔ لفظ المثلى ، الأمثل کا مؤنث ہے یعنی تمہارا دین۔ عرب لوگ کہتے ہیں مثلى اچھی بات کرے۔ خذ الأمثل. یعنی بہتر بات لے۔ ثم ائتوا صفا عرب لوگ کہتے ہیں کیا آج تو صف میں گیا تھا ؟ یعنی نماز کے مقام میں جہاں جمع ہو کر نماز پڑھتے ہیں (جیسے عیدگاہ وغیرہ) ۔ فأوجس دل میں سہم گیا۔ خيفة اصل میں خوفة تھا واؤ بہ سبب کسرہ ما قبل یاء ہوگیا۔ في جذوع النخل کھجور کی شاخوں پر في علي کے معنی میں ہے۔ خطبک یعنی تیرا کیا حال ہے، تو نے یہ کام کیوں کیا۔ مساس مصدر ہے۔ ماسه ، مساسا. سے یعنی چھونا۔ لننسفنه بکھیر ڈالیں گے یعنی جلا کر راکھ کو دریا میں بہا دیں گے۔ قاعا وہ زمین جس کے اوپر پانی چڑھ آئے (یعنی صاف ہموار میدان) ۔ صفصفا ہموار زمین۔ اور مجاہد نے کہا من زينة القوم. سے وہ زیور مراد ہے جو بنی اسرائیل نے فرعون کی قوم سے مانگ کرلیا تھا۔ فقذفتها میں نے اس کو ڈال دیا۔ وکذالک ألقى السامري یعنی سامری نے بھی اور بنی اسرائیل کی طرح اپنا زیور ڈالا۔ فنسي موسى یعنی سامری اور اس کے تابعدار لوگ کہنے لگے موسیٰ چوک گیا کہ اپنے پروردگار بچھڑے کو یہاں چھوڑ کر کوہ طور پر چلا گیا۔ لا يرجع إليهم قولا یعنی یہ نہیں دیکھتے کہ بچھڑا ان کی بات کو جواب تک نہیں دے سکتا۔ همسا پاؤں کی آہٹ۔ حشرتني أعمى یعنی مجھ کو دنیا میں دلیل اور حجت معلوم ہوتی تھی یہاں تو نے بالکل مجھ کو اندھا کر کے کیوں اٹھایا۔ اور ابن عباس نے کہا لعلي اتيكم منها بقبس کے بیان میں کہ موسیٰ اور ان کے ساتھی راستہ بھول گئے تھے ادھر سردی میں مبتلا تھے کہنے لگے اگر وہاں کوئی راستہ بتانے والا ملا تو بہتر ورنہ میں تھوڑی سی آگ تمہارے تاپنے کے لیے لے آؤں گا۔ سفیان بن عیینہ نے (اپنی تفسیر میں) کہا أمثلهم یعنی ان میں کا افضل اور سمجھدار آدمی۔ اور ابن عباس نے کہا هضما یعنی اس پر ظلم نہ ہوگا اور اس کی نیکیوں کا ثواب کم نہ کیا جاوے گا۔ عوجا نالا کھڈا۔ أمتا ٹیلہ بلندی۔ سيرتها الأولى یعنی اگلی حالت پر۔ النهى پرہیزگاری یا عقل۔ ضنكا بدبختی۔ هوى بدبخت ہوا۔ المقدس برکت والی۔ طوى اس وادی کا نام تھا۔ بملکنا (بہ کسرئہ میم مشہور قرآت بہ ضمہ میم ہے بعضوں نے بہ ضم میم پڑھا ہے) یعنی اپنے اختیار اپنے حکم سے۔ سوى یعنی ہم میں اور تم میں برابر کے فاصلہ پر۔ يبسا خشک علی قدر اپنے معین وقت پر جو اللہ پاک نے لکھ دیا تھا۔ لا تنيا ضعیف مت بنو، یا سستی نہ کرو۔
باب: آیت کی تفسیر ”اے موسیٰ! میں نے تجھ کو اپنے لیے منتخب کر لیا“۔
ہم سے صلت بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے مہدی بن میمون نے، ان سے محمد بن سیرین نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ (عالم مثال میں) آدم (علیہ السلام) اور موسیٰ (علیہ السلام) کی ملاقات ہوئی تو موسیٰ (علیہ السلام) نے آدم (علیہ السلام) سے کہا کہ آپ ہی نے لوگوں کو پریشانی میں ڈالا اور انہیں جنت سے نکالا۔ آدم (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ آپ وہی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی رسالت کے لیے پسند کیا اور خود اپنے لیے پسند کیا اور آپ پر توریت نازل کی۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ جی ہاں۔ اس پر آدم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ پھر آپ نے تو دیکھا ہی ہوگا کہ میری پیدائش سے پہلے ہی یہ سب کچھ میرے لیے لکھ دیا گیا تھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ جی ہاں معلوم ہے۔ چناچہ آدم (علیہ السلام) موسیٰ (علیہ السلام) پر غالب آگئے۔ اليم کے معنی دریا کے ہیں۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور ہم نے موسیٰ کے پاس وحی بھیجی کہ میرے بندوں کو راتوں رات یہاں سے نکال کر لے جا، پھر ان کے لیے سمندر میں (لاٹھی مار کر) خشک راستہ بنا لینا تم کو نہ پکڑے جانے کا خوف ہو گا اور نہ تم کو (اور کوئی) ڈر ہو گا، پھر فرعون نے بھی اپنے لشکر سمیت ان کا پیچھا کیا تو دریا جب ان پر آ ملنے کو تھا آ ملا اور فرعون نے تو اپنی قوم کو گمراہ ہی کیا تھا اور سیدھی راہ پر نہ لایا“۔
مجھ سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے روح بن عبادہ نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوبشر نے بیان کیا، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لائے تو یہودی عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے۔ نبی کریم ﷺ نے ان سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ اس دن موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون پر غلبہ پایا تھا۔ آپ ﷺ نے اس پر فرمایا کہ پھر ہم ان کے مقابلے میں موسیٰ کے زیادہ حقدار ہیں۔ مسلمانو ! تم لوگ بھی اس دن روزہ رکھو (پھر آپ ﷺ نے یہود کی مشابہت سے بچنے کے لیے اس کے ساتھ ایک روزہ اور ملانے کا حکم صادر فرمایا جو اب بھی مسنون ہے۔ )
باب: آیت کی تفسیر ”(وہ شیطان) تم کو جنت سے نہ نکلوا دے پس تم کم نصیب ہو جاؤ“۔
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ایوب بن نجار نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی بکر نے، ان سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے آدم (علیہ السلام) سے بحث کی اور ان سے کہا کہ آپ ہی نے اپنی غلطی کے نتیجہ میں انسانوں کو جنت سے نکالا اور مشقت میں ڈالا۔ آدم (علیہ السلام) بولے کہ اے موسیٰ ! آپ کو اللہ نے اپنی رسالت کے لیے پسند فرمایا اور ہم کلامی کا شرف بخشا۔ کیا آپ ایک ایسی بات پر مجھے ملامت کرتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے میری پیدائش سے بھی پہلے میرے لیے مقرر کردیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا چناچہ آدم (علیہ السلام) موسیٰ (علیہ السلام) پر بحث میں غالب آگئے۔
سورہ انبیاء کی تفسیر
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر نے، کہا ہم سے شعبہ نے، انہوں نے ابواسحاق سے سنا، کہا میں نے عبدالرحمٰن بن یزید سے سنا، انہوں نے عبداللہ بن مسعود (رض) سے وہ کہتے تھے کہ سورة بنی اسرائیل اور سورة کہف اور سورة مریم اور سورة طہٰ اور سورة انبیاء اگلی بہت فصیح سورتوں میں سے ہیں (جو مکہ میں اتری تھیں) اور میری پرانی یاد کی ہوئی ہیں۔ قتادہ نے کہا جذاذا کا معنی ٹکڑے ٹکڑے۔ اور حسن بصری نے کہا كل في فلك یعنی ہر ایک تارہ ایک ایک آسمان میں گول گھومتا ہے، جیسے سوت کاتنے کا چرخہ۔ يسبحون یعنی گول گھومتے ہیں۔ ابن عباس (رض) نے کہا نفشت کے معنی چر گئیں۔ يصحبون کے معنی روکے جائیں گے۔ بچائے جائیں گے۔ أمتکم أمة واحدة یعنی تمہارا دین اور مذہب ایک ہی دین اور مذہب ہے۔ اور عکرمہ نے کہا حصب حبشی زبان میں جلانے کی لکڑیوں ایندھن کو کہتے ہیں۔ اور لوگوں نے کہا لفظ أحسوا کے معنی توقع پائی یہ أحسست سے نکلا ہے یعنی آہٹ پائی۔ خامدين کے معنی بجھے ہوئے (یعنی مرے ہوئے) ۔ حصيد کے معنی جڑ سے اکھاڑا گیا، واحد اور تثنیہ اور جمع سب پر یہی لفظ بولا جاتا ہے۔ لا يستحسرون کے معنی نہیں تھکے اسی سے ہے لفظ حسير تھکا ہوا۔ اور حسرت بعيري. کے معنی میں نے اپنے اونٹ کو تھکا دیا۔ عميق کے معنی دور دراز۔ نکسوا یہ کفر کی طرف پھیرے گئے۔ صنعة لبوس زرہیں بنانا۔ تقطعوا أمرهم یعنی اختلاف کیا، جدا جدا طریقہ اختیار کیا۔ لا يسمعون حسيسها کے معنی اور لفظ حس اور جرس اور همس کے معانی ایک ہی ہیں یعنی پست آواز۔ آذناک ہم نے تجھ کو آگاہ کیا عرب لوگ کہتے ہیں۔ آذنتکم یعنی میں نے تم کو خبر دی تم ہم برابر ہوگئے میں نے کوئی دغا نہیں کی جب آپ مخاطب کو کسی بات کی خبر دے چکے تو آپ اور وہ دونوں برابر ہوگئے اور آپ نے اس سے کوئی دغا نہیں کی۔ اور مجاہد نے کہا لعلکم تسألون کے معنی یہ ہیں شاید تم سمجھو۔ ارتضى کے معنی پسند کیا راضی ہوا۔ التماثيل کے معنی مورتیں بت۔ السجل معنی کے خطوں کا مجموعہ دفتر۔
باب
سفیان بن عیینہ نے کہا المخبتين کا معنی اللہ پر بھروسہ کرنے والے (یا، اللہ کی بارگاہ میں عاجزی کرنے والے) اور ابن عباس (رض) نے آیت في أمنيته کی تفسیر میں کہا جب پیغمبر کلام کرتا ہے (اللہ کے حکم سناتا ہے) تو شیطان اس کی بات میں اپنی طرف سے (پیغمبر کی آواز بنا کر) کچھ ملا دیتا ہے۔ پھر اللہ پاک شیطان کا ملایا ہوا مٹا دیتا ہے اور اپنی سچی آیتوں کو قائم رکھتا ہے۔ بعضوں نے کہا أمنيته سے پیغمبر کی قرآت مراد ہے۔ إلا أماني جو سورة البقرہ میں ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ مگر آرزوئیں۔ اور مجاہد نے کہا (طبری نے اس کو وصل کیا) ۔ مشيد کے معنی چونہ گچ کئے گئے۔ اوروں نے کہا يسطون کا معنی یہ ہے زیادتی کرتے ہیں یہ لفظ سطوة سے نکلا ہے۔ بعضوں نے کہا يسطون کا معنی سخت پکڑتے ہیں۔ وهدوا إلى الطيب من القول یعنی اچھی بات کا ان کو الہام کیا گیا۔ ابن عباس (رض) نے کہا بسبب کا معنی رسی جو چھت تک لگی ہو۔ تذهل کا معنی غافل ہوجائے۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور لوگ تجھے نشہ میں دکھائی دیں گے حالانکہ وہ نشہ میں نہ ہوں گے بلکہ اللہ کا عذاب سخت ہے“۔
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے ابوصالح نے اور ان سے ابو سعید خدری (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ پاک قیامت کے دن آدم (علیہ السلام) سے فرمائے گا۔ اے آدم ! وہ عرض کریں گے، میں حاضر ہوں اے رب ! تیری فرمانبرداری کے لیے۔ پروردگار آواز سے پکارے گا (یا فرشتہ پروردگار کی طرف سے آواز دے گا) اللہ حکم دیتا ہے کہ اپنی اولاد میں سے دوزخ کا جتھا نکالو۔ وہ عرض کریں گے اے پروردگار ! دوزخ کا جتھا کتنا نکالوں۔ حکم ہوگا (راوی نے کہا میں سمجھتا ہوں) ہر ہزار آدمیوں میں نو سو ننانوے (گویا ہزار میں ایک جنتی ہوگا) یہ ایسا سخت وقت ہوگا کہ پیٹ والی کا حمل گرجائے گا اور بچہ (فکر کے مارے) بوڑھا ہوجائے گا (یعنی جو بچپن میں مرا ہو) اور تو قیامت کے دن لوگوں کو ایسا دیکھے گا جیسے وہ نشہ میں متوالے ہو رہے ہیں حالانکہ ان کو نشہ نہ ہوگا بلکہ اللہ کا عذاب ایسا سخت ہوگا (یہ حدیث جو صحابہ حاضر تھے ان پر سخت گزری۔ ان کے چہرے (مارے ڈر کے) بدل گئے۔ اس وقت نبی کریم ﷺ نے ان کی تسلی کے لیے فرمایا (تم اتنا کیوں ڈرتے ہو) اگر یاجوج ماجوج (جو کافر ہیں) کی نسل تم سے ملائی جائے تو ان میں سے نو سو ننانوے کے مقابل تم میں سے ایک آدمی پڑے گا۔ غرض تم لوگ حشر کے دن دوسرے لوگوں کی نسبت (جو دوزخی ہوں گے) ایسے ہو گے جیسے سفید بیل کے جسم پر ایک بال کالا ہوتا ہے یا جیسے کالے بیل کے جسم پر ایک دو بال سفید ہوتے ہیں اور مجھ کو امید ہے تم لوگ سارے جنتیوں کا چوتھائی حصہ ہو گے (باقی تین حصوں میں اور سب امتیں ہوں گی) ۔ یہ سن کر ہم نے اللہ اکبر کہا۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا نہیں بلکہ تم تہائی ہو گے ہم نے پھر نعرہ تکبیر بلند کیا پھر فرمایا نہیں بلکہ آدھا حصہ ہو گے (آدھے حصہ میں اور امتیں ہوں گی) ہم نے پھر نعرہ تکبیر بلند کیا اور ابواسامہ نے اعمش سے یوں روایت کیا ترى الناس سکارى وما هم بسکارى جیسے مشہور قرآت ہے اور کہا کہ ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے نکالو (تو ان کی روایت حفص بن غیاث کے موافق ہے) اور جریر بن عبدالحمید اور عیسیٰ بن یونس اور ابومعاویہ نے یوں نقل کیا سكرى وما هم بسكرى (حمزہ اور کسائی کی بھی یہی قرآت ہے) ۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور انسانوں میں سے بعض آدمی ایسا بھی ہوتا ہے جو اللہ کی عبادت کنارہ پر (کھڑا ہو کر یعنی شک اور تردد کے ساتھ کرتا ہے۔) پھر اگر اسے کوئی نفع پہنچ گیا تو وہ اس پر جما رہا اور اگر کہیں اس پر کوئی آزمائش آ پڑی تو وہ منہ اٹھا کر واپس چل دیا۔ یعنی مرتد ہو کر دنیا و آخرت دونوں کو کھو بیٹھا۔ ”اللہ تعالیٰ کے ارشاد“ یہی تو ہے انتہائی گمراہی سے یہی مراد ہے۔
مجھ سے ابراہیم بن حارث نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن ابی بکیر نے، کہا ہم سے اسرائیل نے بیان کیا، ان سے ابوحصین نے ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے آیت ومن الناس من يعبد الله على حرف اور انسانوں میں کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جو اللہ کی عبادت کنارہ پر (کھڑا ہو کر) کرتا ہے۔ کے متعلق فرمایا کہ بعض لوگ مدینہ آتے (اور اپنے اسلام کا اظہار کرتے) اس کے بعد اگر اس کی بیوی کے یہاں لڑکا پیدا ہوتا اور گھوڑی بھی بچہ دیتی تو وہ کہتے کہ یہ دین (اسلام) بڑا اچھا دین ہے، لیکن اگر ان کے یہاں لڑکا نہ پیدا ہوتا اور گھوڑی بھی کوئی بچہ نہ دیتی تو کہتے کہ یہ تو برا دین ہے اس پر مذکور بالا آیت نازل ہوئی۔
باب: آیت کی تفسیر ”یہ دو فریق ہیں، جنہوں نے اپنے پروردگار کے بارے میں جھگڑا کیا“۔
ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشیم نے بیان کیا، کہا ہم کو ابوہاشم نے خبر دی، انہیں ابومجلز نے، انہیں قیس بن عباد نے اور انہیں ابوذر (رض) نے وہ قسم کھا کر بیان کرتے تھے کہ یہ آیت هذان خصمان اختصموا في ربهم یہ دو فریق ہیں، جنہوں نے اپنے پروردگار کے بارے میں جھگڑا کیا۔ حمزہ اور آپ کے دونوں ساتھیوں (علی بن ابی طالب (رض) اور عبیدہ بن حارث (رض) مسلمانوں کی طرف سے) اور (مشرکین کی طرف سے) عتبہ اور اس کے دونوں ساتھیوں (شیبہ اور ولید بن عتبہ) کے بارے میں نازل ہوئی تھی، جب انہوں نے بدر کی لڑائی میں میدان میں آ کر مقابلہ کی دعوت دی تھی۔ اس روایت کو سفیان نے ابوہاشم سے اور عثمان نے جریر سے، انہوں نے منصور سے، انہوں نے ابوہاشم سے اور انہوں نے ابومجلز سے اسی طرح نقل کیا ہے۔
باب
من خلاله کا معنی بادل کے پردوں کے بیچ میں سے۔ سنا برقه اس کی بجلی کی روشنی۔ مذعنين ، مذعن کی جمع ہے یعنی عاجزی کرنے والا۔ أشتاتا اور شتى اور شتات اور شت سب کے ایک ہی معنی ہیں (یعنی الگ الگ) اور ابن عباس (رض) نے کہا سورة أنزلناها کا معنی ہم نے اس کو کھول کر بیان کیا کہ سورتوں کے مجموعہ کی وجہ سے قرآن کا نام پڑا اور سورة کو سورة اس وجہ سے کہتے ہیں کہ وہ دوسری سورة سے علیحدہ ہوتی ہے پھر جب ایک سورة دوسری کے قریب کردی گئی تو مجموعہ کو قرآن کہنے لگے، (تو یہ قرن سے نکلا ہے) اور سعد بن عیاض ثمالی نے کہا (اس کو ابن شاہین نے وصل کیا) ۔ مشكاة کہتے ہیں طاق کو یہ حبشی زبان کا لفظ ہے۔ اور یہ جو سورة قیامت میں فرمایا ہم پر اس کا جمع کرنا اور قرآن کرنا ہے تو قرآن سے اس کا جوڑنا اور ایک ٹکڑے سے دوسرا ٹکڑا ملانا مراد ہے۔ پھر فرمایا فإذا قرأناه فاتبع قرآن ه یعنی جب ہم اس کو جوڑ دیں اور مرتب کردیں تو اس مجموعہ کی پیروی کر یعنی اس میں جس بات کا حکم ہے اس کو بجا لا اور جس کی اللہ نے ممانعت کی ہے اس سے باز رہ اور عرب لوگ کہتے ہیں اس کے شعروں کا قرآن نہیں ہے۔ یعنی کوئی مجموعہ نہیں ہے اور قرآن کو فرقان بھی کہتے ہیں کیونکہ وہ حق اور باطل کو جدا کرتا ہے اور عورت کے حق میں کہتے ہیں ما قرأت بسلا قط یعنی اس نے اپنے پیٹ میں بچہ کبھی نہیں رکھا اور کہا فرضناها تشدید سے تو معنی یہ ہوگا ہم نے اس میں مختلف فرائض نازل کئیے اور جس نے فرضناها تخفیف سے پڑھا ہے تو معنی یہ ہوگا ہم نے تم پر اور جو لوگ قیامت تک تمہارے بعد آئیں گے ان پر فرض کیا۔ مجاہد نے کہا أو الطفل الذين لم يظهروا سے وہ کم سن بچے مراد ہیں جو کم سنی کی وجہ سے عورتوں کی شرمگاہ یا جماع سے واقف نہیں ہیں اور شعبی نے کہا غير أولي الإربة سے وہ مرد مراد ہیں جن کو عورتوں کی احتیاج نہ ہو۔ اور طاؤس نے کہا (اس کو عبدالرزاق نے وصل کیا) وہ احمق مراد ہے جس کو عورتوں کا خیال نہ ہو اور مجاہد نے کہا (اس کو طبری نے وصل کیا) جن کو اپنے پیٹ کی دھن لگی ہو ان سے یہ ڈر نہ ہو کہ عورتوں کو ہاتھ لگائیں گے۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور جو لوگ اپنی بیویوں کو تہمت لگائیں اور ان کے پاس سوائے اپنے (اور) کوئی گواہ نہ ہو تو ان کی شہادت یہ کہ وہ (مرد) چار بار اللہ کی قسم کھا کر کہے کہ میں سچا ہوں“۔
ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے، کہا ہم سے امام اوزاعی نے، کہا کہ مجھ سے زہری نے بیان کیا۔ ان سے سہل بن سعد نے بیان کیا کہ عویمر بن حارث بن زید بن جد بن عجلان عاصم بن عدی کے پاس آئے۔ عاصم بنی عجلان کے سردار تھے۔ انہوں نے آپ سے کہا کہ آپ لوگوں کا ایک ایسے شخص کے بارے میں کیا خیال ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر مرد کو پا لیتا ہے کیا وہ اسے قتل کر دے ؟ لیکن تم پھر اسے قصاص میں قتل کر دو گے ! آخر ایسی صورت میں انسان کیا طریقہ اختیار کرے ؟ رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق پوچھ کے مجھے بتائیے۔ چناچہ عاصم، نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! (صورت مذکورہ میں خاوند کیا کرے) نبی کریم ﷺ نے ان مسائل (میں سوال و جواب) کو ناپسند فرمایا۔ جب عویمر نے ان سے پوچھا تو انہوں نے بتادیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ان مسائل کو ناپسند فرمایا ہے۔ عویمر نے ان سے کہا کہ واللہ میں خود نبی کریم ﷺ سے اسے پوچھوں گا۔ چناچہ وہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا۔ یا رسول اللہ ! ایک شخص اپنی بیوی کے ساتھ ایک غیر مرد کو دیکھتا ہے کیا وہ اس کو قتل کر دے ؟ لیکن پھر آپ قصاص میں اس کو قتل کریں گے۔ ایسی صورت میں اس کو کیا کرنا چاہیے ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے اور تمہاری بیوی کے بارے میں قرآن کی آیت اتاری ہے۔ پھر آپ نے انہیں قرآن کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق لعان کا حکم دیا۔ اور عویمر نے اپنی بیوی کے ساتھ لعان کیا، پھر انہوں نے کہا : یا رسول اللہ ! اگر میں اپنی بیوی کو روکے رکھوں تو میں ظالم ہوں گا۔ اس لیے عویمر نے اسے طلاق دے دی۔ اس کے لعان کے بعد میاں بیوی میں جدائی کا طریقہ جاری ہوگیا۔ نبی کریم ﷺ نے پھر فرمایا کہ دیکھتے رہو اگر اس عورت کے کالا، بہت کالی پتلیوں والا، بھاری سرین اور بھری ہوئی پنڈلیوں والا بچہ پیدا ہو تو میرا خیال ہے کہ عویمر نے الزام غلط نہیں لگایا ہے۔ لیکن اگر سرخ سرخ گر گٹ جیسا پیدا ہو تو میرا خیال ہے کہ عویمر نے غلط الزام لگایا ہے۔ اس کے بعد ان عورت کے جو بچہ پیدا ہوا وہ انہیں صفات کے مطابق تھا جو نبی کریم ﷺ نے بیان کی تھیں اور جس سے عویمر کی تصدیق ہوتی تھی۔ چناچہ اس لڑکے کا نسب اس کی ماں کی طرف رکھا گیا۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور پانچویں بار مرد یہ کہے کہ مجھ پر اللہ کی لعنت ہو اگر میں جھوٹا ہوں“۔
مجھ سے ابوالربیع سلیمان بن داؤد نے بیان کیا، کہا ہم سے فلیح نے، ان سے زہری نے، ان سے سہل بن سعد نے کہ ایک صاحب (یعنی عویمر) رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! ایسے شخص کے متعلق آپ کا کیا ارشاد ہے جس نے اپنی بیوی کے ساتھ ایک غیر مرد کو دیکھا ہو کیا وہ اسے قتل کر دے ؟ لیکن پھر آپ قصاص میں قاتل کو قتل کردیں گے۔ پھر اسے کیا کرنا چاہیے ؟ انہیں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے دو آیات نازل کیں جن میں لعان کا ذکر ہے۔ چناچہ نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا کہ تمہارے اور تمہاری بیوی کے بارے میں فیصلہ کیا جا چکا ہے۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر دونوں میاں بیوی نے لعان کیا اور میں اس وقت نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر تھا۔ پھر آپ نے دونوں میں جدائی کرا دی اور دو لعان کرنے والوں میں اس کے بعد یہی طریقہ قائم ہوگیا کہ ان میں جدائی کرا دی جائے۔ ان کی بیوی حاملہ تھیں، لیکن انہوں نے اس کا بھی انکار کردیا۔ چناچہ جب بچہ پیدا ہوا تو اسے ماں ہی کے نام سے پکارا جانے لگا۔ میراث کا یہ طریقہ ہوا کہ بیٹا ماں کا وارث ہوتا ہے اور ماں اللہ کے مقرر کئے ہوئے حصہ کے مطابق بیٹے کی وارث ہوتی ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور عورت سزا سے اس طرح بچ سکتی ہے کہ وہ چار دفعہ اللہ کی قسم کھا کر کہے کہ بیشک وہ مرد جھوٹا ہے، پانچویں دفعہ کہے کہ اگر وہ مرد سچا ہو تو مجھ پر اللہ کا غضب نازل ہو“۔
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن ابی عدی نے بیان کیا، ان سے ہشام بن حسان نے ان سے عکرمہ نے بیان کیا اور ان سے ابن عباس (رض) نے کہ ہلال بن امیہ نے نبی کریم ﷺ کے سامنے اپنی بیوی پر شریک بن سحماء کے ساتھ تہمت لگائی۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اس کے گواہ لاؤ ورنہ تمہاری پیٹھ پر حد لگائی جائے گی۔ انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! ایک شخص اپنی بیوی کے ساتھ ایک غیر کو مبتلا دیکھتا ہے تو کیا وہ ایسی حالت میں گواہ تلاش کرنے جائے گا ؟ لیکن آپ یہی فرماتے رہے کہ گواہ لاؤ، ورنہ تمہاری پیٹھ پر حد جاری کی جائے گی۔ اس پر ہلال نے عرض کیا۔ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ نبی بنا کر بھیجا ہے میں سچا ہوں اور اللہ تعالیٰ خود ہی کوئی ایسی آیت نازل فرمائے گا۔ جس کے ذریعہ میرے اوپر سے حد دور ہوجائے گی۔ اتنے میں جبرائیل (علیہ السلام) تشریف لائے اور یہ آیت نازل ہوئی والذين يرمون أزواجهم سے إن کان من الصادقين۔ (جس میں ایسی صورت میں لعان کا حکم ہے) جب نزول وحی کا سلسلہ ختم ہوا تو نبی کریم ﷺ نے ہلال کو آدمی بھیج کر بلوایا وہ آئے اور آیت کے مطابق چار مرتبہ قسم کھائی۔ نبی کریم ﷺ نے اس موقع پر فرمایا کہ اللہ خوب جانتا ہے کہ تم میں سے ایک ضرور جھوٹا ہے تو کیا وہ توبہ کرنے پر تیار نہیں ہے۔ اس کے بعد ان کی بیوی کھڑی ہوئیں اور انہوں نے بھی قسم کھائی، جب وہ پانچویں پر پہنچیں (اور چار مرتبہ اپنی برات کی قسم کھانے کے بعد، کہنے لگیں کہ اگر میں جھوٹی ہوں تو مجھ پر اللہ کا غضب ہو) تو لوگوں نے انہیں روکنے کی کوشش کی اور کہا کہ (اگر تم جھوٹی ہو تو) اس سے تم پر اللہ کا عذاب ضرور نازل ہوگا۔ ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ اس پر وہ ہچکچائیں ہم نے سمجھا کہ اب وہ اپنا بیان واپس لے لیں گی۔ لیکن یہ کہتے ہوئے کہ زندگی بھر کے لیے میں اپنی قوم کو رسوا نہیں کروں گی۔ پانچویں بار قسم کھائی۔ پھر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ دیکھنا اگر بچہ خوب سیاہ آنکھوں والا، بھاری سرین اور بھری بھری پنڈلیوں والا پیدا ہوا تو پھر وہ شریک بن سحماء ہی کا ہوگا۔ چناچہ جب پیدا ہوا تو وہ اسی شکل و صورت کا تھا نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر کتاب اللہ کا حکم نہ آچکا ہوتا تو میں اسے رجمی سزا دیتا۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور پانچویں مرتبہ یہ کہے کہ مجھ پر اللہ کا غضب نازل ہو اگر وہ مرد سچا ہے“۔
ہم سے مقدم بن محمد بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے چچا قاسم بن یحییٰ نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ نے، قاسم نے عبیداللہ سے سنا تھا اور عبیداللہ نے نافع سے اور انہوں نے ابن عمر (رض) سے کہ ایک صاحب نے اپنی بیوی پر رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ایک غیر مرد کے ساتھ تہمت لگائی اور کہا کہ عورت کا حمل میرا نہیں ہے۔ چناچہ نبی کریم ﷺ کے حکم سے دونوں میاں بیوی نے اللہ کے فرمان کے مطابق لعان کیا۔ اس کے بعد نبی کریم ﷺ نے بچہ کے بارے میں فیصلہ کیا کہ وہ عورت ہی کا ہوگا اور لعان کرنے والے دونوں میاں بیوی میں جدائی کروا دی۔
باب: آیت کی تفسیر ”بیشک جن لوگوں نے (عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر) تہمت لگائی ہے وہ تم میں سے ایک چھوٹا سا گروہ ہے تم اسے اپنے حق میں برا نہ سمجھو، بلکہ یہ تمہارے حق میں بہتر ہی ہے، ان میں سے ہر شخص کو جس نے جتنا جو کچھ کیا تھا گناہ ہوا اور جس نے ان میں سے سب سے بڑھ کر حصہ لیا تھا اس کے لیے سزا بھی سب سے بڑھ کر سخت ہے“۔
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے معمر نے، ان سے زہری نے، ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا والذي تولى كبره یعنی اور جس نے ان میں سے سب سے بڑھ کر حصہ لیا تھا اور مراد عبداللہ بن ابی ابن سلول (منافق) ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”جب تم لوگوں نے یہ بری خبر سنی تھی تو کیوں نہ مسلمان مردوں اور عورتوں نے اپنی ماں کے حق میں نیک گمان کیا اور یہ کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ تو صریح جھوٹا طوفان لگانا ہے، یہ بہتان باز، نزدیک اللہ اپنے قول پر چار گواہ کیوں نہ لائے، سو جب یہ لوگ گواہ نہیں لائے تو بس یہ لوگ اللہ کے نزدیک سر بسر جھوٹے ہی ہیں“۔
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے یونس بن یزید نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، انہیں عروہ بن زبیر، سعید بن مسیب، علقمہ بن وقاص اور عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ عائشہ (رض) پر تہمت لگانے کا واقعہ بیان کیا۔ یعنی جس میں تہمت لگانے والوں نے ان کے متعلق افواہ اڑائی تھی اور پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو اس سے بری قرار دیا تھا۔ ان تمام راویوں نے پوری حدیث کا ایک ایک ٹکڑا بیان کیا اور ان راویوں میں سے بعض کا بیان بعض دوسرے کے بیان کی تصدیق کرتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان میں سے بعض راوی کو بعض دوسرے کے مقابلہ میں حدیث زیادہ بہتر طریقہ پر محفوظ، یاد تھی۔ مجھ سے یہ حدیث عروہ نے عائشہ (رض) سے اس طرح بیان کی کہ نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ عائشہ (رض) نے کہا کہ جب نبی کریم ﷺ سفر کا ارادہ کرتے تو اپنی بیویوں میں سے کسی کو اپنے ساتھ لے جانے کے لیے قرعہ ڈالتے جن کا نام نکل جاتا انہیں اپنے ساتھ لے جاتے۔ انہوں نے بیان کیا کہ ایک غزوہ کے موقع پر اسی طرح آپ نے قرعہ ڈالا اور میرا نام نکلا۔ میں آپ کے ساتھ روانہ ہوئی۔ یہ واقعہ پردہ کے حکم نازل ہونے کے بعد کا ہے۔ مجھے ہودج سمیت اونٹ پر چڑھا دیا جاتا اور اسی طرح اتار لیا جاتا تھا۔ یوں ہمارا سفر جاری رہا۔ پھر جب آپ اس غزوہ سے فارغ ہو کر واپس لوٹے اور ہم مدینہ کے قریب پہنچ گئے تو ایک رات جب کوچ کا حکم ہوا۔ میں (قضائے حاجت کے لیے) پڑاؤ سے کچھ دور گئی اور قضائے حاجت کے بعد اپنے کجاوے کے پاس واپس آگئی۔ اس وقت مجھے خیال ہوا کہ میرا ظفار کے نگینوں کا بنا ہوا ہار کہیں راستہ میں گرگیا ہے۔ میں اسے ڈھونڈنے لگی اور اس میں اتنا محو ہوگئی کہ کوچ کا خیال ہی نہ رہا۔ اتنے میں جو لوگ میرے ہودج کو سوار کیا کرتے تھے آئے اور میرے ہودج کو اٹھا کر اس اونٹ پر رکھ دیا جو میری سواری کے لیے تھا۔ انہوں نے یہی سمجھا کہ میں اس میں بیٹھی ہوئی ہوں۔ ان دنوں عورتیں بہت ہلکی پھلکی ہوا کرتی تھیں گوشت سے ان کا جسم بھاری نہیں ہوتا تھا کیونکہ کھانے پینے کو بہت کم ملتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جب لوگوں نے ہودج کو اٹھایا تو اس کے ہلکے پن میں انہیں کوئی اجنبیت نہیں محسوس ہوئی۔ میں یوں بھی اس وقت کم عمر لڑکی تھی۔ چناچہ ان لوگوں نے اس اونٹ کو اٹھایا اور چل پڑے۔ مجھے ہار اس وقت ملا جب لشکر گزر چکا تھا۔ میں جب پڑاؤ پر پہنچی تو وہاں نہ کوئی پکارنے والا تھا اور نہ کوئی جواب دینے والا۔ میں وہاں جا کر بیٹھ گئی جہاں پہلے بیٹھی ہوئی تھی۔ مجھے یقین تھا کہ جلد ہی انہیں میرے نہ ہونے کا علم ہوجائے گا اور پھر وہ مجھے تلاش کرنے کے لیے یہاں آئیں گے۔ میں اپنی اسی جگہ پر بیٹھی تھی کہ میری آنکھ لگ گئی اور میں سو گئی۔ صفوان بن معطل سلمی ثم ذکوانی لشکر کے پیچھے پیچھے آ رہے تھے (تاکہ اگر لشکر والوں سے کوئی چیز چھوٹ جائے تو اسے اٹھا لیں سفر میں یہ دستور تھا) رات کا آخری حصہ تھا، جب میرے مقام پر پہنچے تو صبح ہوچکی تھی۔ انہوں نے (دور سے) ایک انسانی سایہ دیکھا کہ پڑا ہوا ہے وہ میرے قریب آئے اور مجھے دیکھتے ہی پہچان گئے۔ پردہ کے حکم سے پہلے انہوں نے مجھے دیکھا تھا۔ جب وہ مجھے پہچان گئے تو إنا لله پڑھنے لگے۔ میں ان کی آواز پر جاگ گئی اور چہرہ چادر سے چھپالیا۔ اللہ کی قسم ! اس کے بعد انہوں نے مجھ سے ایک لفظ بھی نہیں کہا اور نہ میں نے إنا لله وإنا إليه راجعون کے سوا ان کی زبان سے کوئی کلمہ سنا۔ اس کے بعد انہوں نے اپنا اونٹ بٹھا دیا اور میں اس پر سوار ہوگئی وہ (خود پیدل) اونٹ کو آگے سے کھینچتے ہوئے لے چلے۔ ہم لشکر سے اس وقت ملے جب وہ بھری دوپہر میں (دھوپ سے بچنے کے لیے) پڑاؤ کئے ہوئے تھے، اس تہمت میں پیش پیش عبداللہ بن ابی ابن سلول منافق تھا۔ مدینہ پہنچ کر میں بیمار پڑگئی اور ایک مہینہ تک بیمار رہی۔ اس عرصہ میں لوگوں میں تہمت لگانے والوں کی باتوں کا برابر چرچا رہا لیکن مجھے ان باتوں کا کوئی احساس بھی نہ تھا۔ صرف ایک معاملہ سے مجھے شبہ سا ہوتا تھا کہ میں اپنی بیماری میں رسول اللہ ﷺ کی طرف سے لطف و محبت کا اظہار نہیں دیکھتی تھی جو پہلی بیماریوں کے دنوں میں دیکھ چکی تھی۔ نبی کریم ﷺ اندر تشریف لاتے سلام کر کے صرف اتنا پوچھ لیتے کہ کیا حال ہے ؟ اور پھر واپس چلے جاتے۔ نبی کریم ﷺ کے اسی طرز عمل سے شبہ ہوتا تھا لیکن صورت حال کا مجھے کوئی احساس نہیں تھا۔ ایک دن جب (بیماری سے کچھ افاقہ تھا) کمزوری باقی تھی تو میں باہر نکلی میرے ساتھ ام مسطح (رض) بھی تھیں ہم مناصع کی طرف گئے۔ قضائے حاجت کے لیے ہم وہیں جایا کرتے تھے اور قضائے حاجت کے لیے ہم صرف رات ہی کو جایا کرتے تھے۔ یہ اس سے پہلے کی بات ہے جب ہمارے گھروں کے قریب بتی الخلاء نہیں بنے تھے۔ اس وقت تک ہم قدیم عرب کے دستور کے مطابق قضائے حاجت آبادی سے دور جا کر کیا کرتے تھے۔ اس سے ہمیں بدبو سے تکلیف ہوتی تھی کہ بیت الخلاء ہمارے گھر کے قریب بنا دیئے جائیں۔ خیر میں اور ام مسطح قضائے حاجت کے لیے روانہ ہوئے۔ وہ ابورہم بن عبد مناف کی بیٹی تھیں اور ان کی والدہ (رانطہٰ نامی) صخر بن عامر کی بیٹی تھیں۔ اس طرح وہ ابوبکر (رض) کی خالہ ہوتی ہیں۔ ان کے لڑکے مسطح بن اثاثہ ہیں۔ قضائے حاجت کے بعد جب ہم گھر واپس آنے لگے تو مسطح کی ماں کا پاؤں انہیں کی چادر میں الجھ کر پھسل گیا۔ اس پر ان کی زبان سے نکلا مسطح برباد ہو، میں نے کہا تم نے بری بات کہی، تم ایک ایسے شخص کو برا کہتی ہو جو غزوہ بدر میں شریک رہا ہے۔ انہوں نے کہا، واہ اس کی باتیں تو نے نہیں سنی ؟ میں نے پوچھا : انہوں نے کیا کہا ہے ؟ پھر انہوں نے مجھے تہمت لگانے والوں کی باتیں بتائیں میں پہلے سے بیمار تھی ہی، ان باتوں کو سن کر میرا مرض اور بڑھ گیا پھر جب میں گھر پہنچی اور رسول اللہ ﷺ اندر تشریف لائے تو آپ نے سلام کیا اور دریافت فرمایا کہ کیسی طبیعت ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ کیا آپ مجھے اپنے ماں باپ کے گھر جانے کی اجازت دیں گے ؟ میرا مقصد ماں باپ کے یہاں جانے سے صرف یہ تھا کہ اس خبر کی حقیقت ان سے پوری طرح معلوم ہوجائے گی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جانے کی اجازت دے دی اور میں اپنے والدین کے گھر آگئی۔ میں نے والدہ سے پوچھا کہ یہ لوگ کس طرح کی باتیں کر رہے ہیں ؟ انہوں نے فرمایا بیٹی صبر کرو، کم ہی کوئی ایسی حسین و جمیل عورت کسی ایسے مرد کے نکاح میں ہوگی جو اس سے محبت رکھتا ہو اور اس کی سوکنیں بھی ہوں اور پھر بھی وہ اس طرح اسے نیچا دکھانے کی کوشش نہ کریں۔ بیان کیا کہ اس پر میں نے کہا : سبحان اللہ ! کیا اس طرح کا چرچا لوگوں نے بھی کردیا ؟ انہوں نے بیان کیا کہ اس کے بعد میں رونے لگی اور رات بھر روتی رہی۔ صبح ہوگئی لیکن میرے آنسو نہیں تھمتے تھے اور نہ نیند کا نام و نشان تھا۔ صبح ہوگئی اور میں روئے جا رہی تھی اسی عرصہ میں نبی کریم ﷺ نے علی بن ابی طالب اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہم کو بلایا کیونکہ اس معاملہ میں آپ پر کوئی وحی نازل نہیں ہوئی تھی۔ آپ ان سے میرے چھوڑ دینے کے لیے مشورہ لینا چاہتے تھے۔ کیونکہ وحی اترنے میں دیر ہوگئی تھی۔ عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ اسامہ بن زید (رض) نے نبی کریم ﷺ کو اسی کے مطابق مشورہ دیا جس کا انہیں علم تھا کہ آپ کی اہلیہ (یعنی خود عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا) اس تہمت سے بَری ہیں۔ اس کے علاوہ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ نبی کریم ﷺ کو ان سے کتنا تعلق خاطر ہے۔ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ کی بیوی کے بارے میں خیر و بھلائی کے سوا اور ہمیں کسی چیز کا علم نہیں اور علی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! اللہ تعالیٰ نے آپ پر کوئی تنگی نہیں کی ہے، عورتیں ان کے سوا اور بھی بہت ہیں، ان کی باندی (بریرہ) سے بھی آپ اس معاملہ میں دریافت فرما لیں۔ عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ پھر نبی کریم ﷺ نے بریرہ کو بلایا اور دریافت فرمایا : بریرہ ! کیا تم نے کوئی ایسی چیز دیکھی ہے جس سے تجھ کو شبہ گزرا ہو ؟ انہوں نے عرض کیا، نہیں حضور ! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، میں نے ان میں کوئی ایسی بات نہیں پائی جس پر میں عیب لگا سکوں، ایک بات ضرور ہے کہ وہ کم عمر لڑکی ہیں، آٹا گوندھنے میں بھی سو جاتی ہیں اور اتنے میں کوئی بکری یا پرندہ وغیرہ وہاں پہنچ جاتا ہے اور ان کا گوندھا ہوا آٹا کھا جاتا ہے۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے اور اس دن آپ نے عبداللہ بن ابی بن سلول کی شکایت کی۔ بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے ممبر پر کھڑے ہو کر فرمایا کہ اے مسلمانو ! ایک ایسے شخص کے بارے میں کون میری مدد کرتا ہے جس کی اذیت رسانی اب میرے گھر پہنچ گئی ہے۔ اللہ کی قسم کہ میں اپنی بیوی کو نیک پاک دامن ہونے کے سوا کچھ نہیں جانتا اور یہ لوگ جس مرد کا نام لے رہے ہیں ان کے بارے میں بھی خیر کے سوا میں اور کچھ نہیں جانتا۔ وہ جب بھی میرے گھر میں گئے تو میرے ساتھ ہی گئے ہیں۔ اس پر سعد بن معاذ انصاری (رض) اٹھے اور کہا کہ یا رسول اللہ ! میں آپ کی مدد کروں گا اور اگر وہ شخص قبیلہ اوس سے تعلق رکھتا ہے تو میں اس کی گردن اڑا دوں گا اور اگر وہ ہمارے بھائیوں یعنی خزرج میں کا کوئی آدمی ہے تو آپ ہمیں حکم دیں، تعمیل میں کوتاہی نہیں ہوگی۔ راوی نے بیان کیا کہ اس کے بعد سعد بن عبادہ (رض) کھڑے ہوئے، وہ قبیلہ خزرج کے سردار تھے، اس سے پہلے وہ مرد صالح تھے لیکن آج ان پر قومی حمیت غالب آگئی تھی (عبداللہ بن ابی ابن سلول منافق) ان ہی کے قبیلہ سے تعلق رکھتا تھا انہوں نے اٹھ کر سعد بن معاذ (رض) سے کہا : اللہ کی قسم ! تم نے جھوٹ کہا ہے تم اسے قتل نہیں کرسکتے، تم میں اس کے قتل کی طاقت نہیں ہے۔ پھر اسید بن حضیر (رض) کھڑے ہوئے وہ سعد بن معاذ کے چچیرے بھائی تھے انہوں نے سعد بن عبادہ سے کہا کہ اللہ کی قسم ! تم جھوٹ بولتے ہو، ہم اسے ضرور قتل کریں گے، کیا تم منافق ہوگئے ہو کہ منافقوں کی طرفداری میں لڑتے ہو ؟ اتنے میں دونوں قبیلے اوس و خزرج اٹھ کھڑے ہوئے اور نوبت آپس ہی میں لڑنے تک پہنچ گئی۔ رسول اللہ ﷺ ممبر پر کھڑے تھے۔ آپ لوگوں کو خاموش کرنے لگے۔ آخر سب لوگ چپ ہوگئے اور نبی کریم ﷺ بھی خاموش ہوگئے۔ عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ اس دن بھی میں برابر روتی رہی نہ آنسو تھمتا تھا اور نہ نیند آتی تھی۔ عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ جب (دوسری) صبح ہوئی تو میرے والدین میرے پاس ہی موجود تھے، دو راتیں اور ایک دن مجھے مسلسل روتے ہوئے گزر گیا تھا۔ اس عرصہ میں نہ مجھے نیند آتی تھی اور نہ آنسو تھمتے تھے۔ والدین سوچنے لگے کہ کہیں روتے روتے میرا دل نہ پھٹ جائے۔ انہوں نے بیان کیا کہ ابھی وہ اسی طرح میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور میں روئے جا رہی تھی کہ قبیلہ انصار کی ایک خاتون نے اندر آنے کی اجازت چاہی، میں نے انہیں اندر آنے کی اجازت دے دی، وہ بھی میرے ساتھ بیٹھ کر رونے لگیں۔ ہم اسی حال میں تھے کہ رسول اللہ ﷺ اندر تشریف لائے اور بیٹھ گئے۔ انہوں نے کہا کہ جب سے مجھ پر تہمت لگائی گئی تھی اس وقت سے اب تک نبی کریم ﷺ میرے پاس نہیں بیٹھے تھے، آپ نے ایک مہینہ تک اس معاملہ میں انتظار کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اس سلسلہ میں کوئی وحی نازل نہیں ہوئی۔ انہوں نے بیان کیا کہ بیٹھنے کے بعد نبی کریم ﷺ نے خطبہ پڑھا پھر فرمایا، امابعد ! اے عائشہ ! تمہارے بارے میں مجھے اس اس طرح کی خبریں پہنچی ہیں پس اگر تم بَری ہو تو اللہ تعالیٰ تمہاری برات خود کر دے گا۔ لیکن اگر تم سے غلطی سے گناہ ہوگیا ہے تو اللہ سے دعائے مغفرت کرو اور اس کی بارگاہ میں توبہ کرو، کیونکہ بندہ جب اپنے گناہ کا اقرار کرلیتا ہے اور پھر اللہ سے توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی توبہ قبول کرلیتا ہے۔ عائشہ (رض) نے کہا کہ جب نبی کریم ﷺ اپنی گفتگو ختم کرچکے تو یکبارگی میرے آنسو اس طرح خشک ہوگئے جیسے ایک قطرہ بھی باقی نہ رہا ہو۔ میں نے اپنے والد (ابوبکر) سے کہا کہ آپ میری طرف سے رسول اللہ ﷺ کو جواب دیجئیے۔ انہوں نے فرمایا کہ اللہ کی قسم ! میں نہیں سمجھتا کہ مجھے رسول اللہ ﷺ سے اس سلسلہ میں کیا کہنا ہے۔ پھر میں نے اپنی والدہ سے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کا میری طرف سے آپ جواب دیں۔ انہوں نے بھی یہی کہا کہ اللہ کی قسم ! مجھے نہیں معلوم کہ میں آپ سے کیا عرض کروں۔ عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ پھر میں خود ہی بولی میں اس وقت نوعمر لڑکی تھی، میں نے بہت زیادہ قرآن بھی نہیں پڑھا تھا (میں نے کہا کہ) اللہ کی قسم ! میں تو یہ جانتی ہوں کہ ان افواہوں کے متعلق جو کچھ آپ لوگوں نے سنا ہے وہ آپ لوگوں کے دل میں جم گیا ہے اور آپ لوگ اسے صحیح سمجھنے لگے ہیں، اب اگر میں یہ کہتی ہوں کہ میں ان تہمتوں سے بَری ہوں اور اللہ خوب جانتا ہے کہ میں واقعی بَری ہوں، تو آپ لوگ میری بات کا یقین نہیں کریں گے، لیکن اگر میں تہمت کا اقرار کرلوں، حالانکہ اللہ کے علم میں ہے کہ میں اس سے قطعاً بَری ہوں، تو آپ لوگ میری تصدیق کرنے لگیں گے۔ اللہ کی قسم ! میرے پاس آپ لوگوں کے لیے کوئی مثال نہیں ہے سوا یوسف کے والد کے اس ارشاد کے کہ انہوں نے فرمایا تھا فصبر جميل والله المستعان على ما تصفون پس صبر ہی اچھا ہے اور تم جو کچھ بیان کرتے ہو اس پر اللہ ہی مدد کرے گا بیان کیا کہ پھر میں نے اپنا رخ دوسری طرف کرلیا اور اپنے بستر پر لیٹ گئی۔ کہا کہ مجھے پورا یقین تھا کہ میں بَری ہوں اور اللہ تعالیٰ میری برات ضرور کرے گا لیکن اللہ کی قسم ! مجھے اس کا وہم و گمان بھی نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ میرے بارے میں ایسی وحی نازل فرمائے گا جس کی تلاوت کی جائے گی۔ میں اپنی حیثیت اس سے بہت کم تر سمجھتی تھی کہ اللہ تعالیٰ میرے بارے میں (قرآن مجید کی آیت) نازل فرمائے۔ البتہ مجھے اس کی توقع ضرور تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے متعلق کوئی خواب دیکھیں گے اور اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ میری برات کر دے گا۔ بیان کیا کہ اللہ کی قسم رسول اللہ ﷺ ابھی اپنی اسی مجلس میں تشریف رکھتے تھے گھر والوں میں سے کوئی باہر نہ تھا کہ آپ پر وحی کا نزول شروع ہوا اور وہی کیفیت آپ ﷺ پر طاری ہوئی تھی جو وحی کے نازل ہوتے ہوئے طاری ہوتی تھی یعنی آپ ﷺ پسینے پسینے ہوگئے اور پسینہ موتیوں کی طرف آپ کے جسم اطہر سے ڈھلنے لگا حالانکہ سردی کے دن تھے۔ یہ کیفیت آپ پر اس وحی کی شدت کی وجہ سے طاری ہوتی تھی جو آپ پر نازل ہوتی تھی۔ بیان کیا کہ پھر جب نبی کریم ﷺ کی کیفیت ختم ہوئی تو آپ ﷺ تبسم فرما رہے تھے اور سب سے پہلا کلمہ جو آپ کی زبان مبارک سے نکلا، یہ تھا کہ عائشہ ! اللہ نے تمہیں بَری قرار دیا ہے۔ میری والدہ نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ کے سامنے (آپ کا شکر ادا کرنے کے لیے) کھڑی ہوجاؤ۔ بیان کیا کہ میں نے کہا : اللہ کی قسم ! میں ہرگز آپ کے سامنے کھڑی نہیں ہوں گی اور اللہ پاک کے سوا اور کسی کی تعریف نہیں کروں گی۔ اللہ تعالیٰ نے جو آیت نازل کی تھی وہ یہ تھی إن الذين جاء وا بالإفک عصبة منکم لا تحسبوه کہ بیشک جن لوگوں نے تہمت لگائی ہے وہ تم میں سے ایک چھوٹا سے گروہ ہے مکمل دس آیتوں تک۔ جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں میری برات میں نازل کردیں تو ابوبکر صدیق (رض) جو مسطح بن اثاثہ (رض) کے اخراجات ان سے قرابت اور ان کی محتاجی کی وجہ سے خود اٹھایا کرتے تھے انہوں نے ان کے متعلق کہا کہ اللہ کی قسم ! اب مسطح پر کبھی کچھ بھی خرچ نہیں کروں گا۔ اس نے عائشہ (رضی اللہ عنہا) پر کیسی کیسی تہمتیں لگا دی ہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی ولا يأتل أولو الفضل منکم والسعة أن يؤتوا أولي القربى والمساکين والمهاجرين في سبيل الله وليعفوا وليصفحوا ألا تحبون أن يغفر الله لکم والله غفور رحيم اور جو لوگ تم میں بزرگی اور وسعت والے ہیں، وہ قرابت والوں کو اور مسکینوں کو اور اللہ کے راستے میں ہجرت کرنے والوں کی مدد دینے سے قسم نہ کھا بیٹھیں بلکہ چاہیے کہ ان کی لغزشوں کو معاف کرتے رہیں اور درگزر کرتے رہیں، کیا تم یہ نہیں چاہتے کہ اللہ تمہارے قصور معاف کرتا رہے، بیشک اللہ بڑا مغفرت والا، بڑا ہی رحمت والا ہے۔ ابوبکر (رض) بولے، ہاں اللہ کی قسم ! میری تو یہی خواہش ہے کہ اللہ تعالیٰ میری مغفرت فرما دے چناچہ مسطح (رض) کو وہ تمام اخراجات دینے لگے جو پہلے دیا کرتے تھے اور فرمایا کہ اللہ کی قسم ! اب کبھی ان کا خرچ بند نہیں کروں گا۔ عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ام المؤمنین زینب بن جحش (رض) سے بھی میرے معاملہ میں پوچھا تھا۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ زینب ! تم نے بھی کوئی چیز کبھی دیکھی ہے ؟ انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! میرے کان اور میری آنکھ کو اللہ سلامت رکھے، میں نے ان کے اندر خیر کے سوا اور کوئی چیز نہیں دیکھی۔ عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ ازواج مطہرات میں وہی ایک تھیں جو مجھ سے بھی اوپر رہنا چاہتی تھیں لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی پرہیزگاری کی وجہ سے انہیں تہمت لگانے سے محفوظ رکھا۔ لیکن ان کی بہن حمنہ ان کے لیے لڑی اور تہمت لگانے والوں کے ساتھ وہ بھی ہلاک ہوگئی۔
باب: آیت کی تفسیر ”اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی تو جس شغل (تہمت) میں تم پڑے تھے اس میں تم پر سخت عذاب نازل ہوتا“۔
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا ہم کو سلیمان بن کثیر نے خبر دی، انہیں حصین بن عبدالرحمٰن نے، انہیں ابو وائل نے، انہیں مسروق نے اور ان سے ام المؤمنین عائشہ کی والدہ ام رومان (رض) نے بیان کیا کہ جب عائشہ نے تہمت کی خبر سنی تو وہ بیہوش ہو کر گر پڑی تھی۔
باب: آیت کی تفسیر ”اللہ کا بڑا بھاری عذاب تو تم کو اس وقت پکڑتا جب تم اپنی زبانوں سے تہمت کو منہ در منہ بیان کر رہے تھے اور اپنی زبانوں سے وہ کچھ کہہ رہے تھے جس کی تمہیں کوئی تحقیق نہ تھی اور تم اسے ہلکا سمجھ رہے تھے، حالانکہ وہ اللہ کے نزدیک بہت بڑی بات تھی“۔
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن یوسف نے بیان کیا، انہیں ابن جریج نے خبر دی کہ ابن ابی ملیکہ نے کہا کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے سنا وہ مذکورہ بالا آیت إذ تلقونه بألسنتکم (جب تم اپنی زبانوں سے اسے منہ در منہ نقل کر رہے تھے) پڑھ رہی تھیں۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور تم نے جب اسے سنا تھا تو کیوں نہ کہہ دیا کہ ہم کیسے ایسی بات منہ سے نکالیں (پاک ہے تو یا اللہ!) یہ تو سخت بہتان ہے“۔
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے، ان سے عمر بن سعید بن ابی حسین نے، ان سے ابن ابی ملیکہ نے، کہا کہ عائشہ (رض) کی وفات سے تھوڑی دیر پہلے، جبکہ وہ نزع کی حالت میں تھیں، ابن عباس (رض) نے ان کے پاس آنے کی اجازت چاہی، عائشہ (رض) نے کہا کہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ میری تعریف نہ کرنے لگیں۔ کسی نے عرض کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے چچا زاد بھائی ہیں اور خود بھی عزت دار ہیں (اس لیے آپ کو اجازت دے دینی چاہیے) اس پر انہوں نے کہا کہ پھر انہیں اندر بلا لو۔ ابن عباس (رض) نے ان سے پوچھا کہ آپ کس حال میں ہیں ؟ اس پر انہوں نے فرمایا کہ اگر میں اللہ کے نزدیک اچھی ہوں تو سب اچھا ہی اچھا ہے۔ اس پر ابن عباس (رض) نے کہا کہ انشاء اللہ آپ اچھی ہی رہیں گی۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ہیں اور آپ کے سوا نبی کریم ﷺ نے کسی کنواری عورت سے نکاح نہیں فرمایا اور آپ کی برات (قرآن مجید میں) آسمان سے نازل ہوئی۔ ابن عباس (رض) کے تشریف لے جانے کے بعد آپ کی خدمت میں ابن زبیر (رض) حاضر ہوئے۔ محترمہ نے ان سے فرمایا کہ ابھی ابن عباس آئے تھے اور میری تعریف کی، میں تو چاہتی ہوں کہ کاش میں ایک بھولی بسری گمنام ہوتی۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور تم نے جب اسے سنا تھا تو کیوں نہ کہہ دیا کہ ہم کیسے ایسی بات منہ سے نکالیں (پاک ہے تو یا اللہ!) یہ تو سخت بہتان ہے“۔
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوہاب بن عبدالمجید نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن عون نے بیان کیا، ان سے قاسم بن محمد نے کہ ابن عباس (رض) نے عائشہ (رض) کے پاس آنے کی اجازت چاہی۔ پھر راوی نے مذکورہ بالا حدیث کی طرح بیان کیا لیکن اس حدیث میں راوی نے لفظ نسيا منسيا. کا ذکر نہیں کیا۔
باب: آیت کی تفسیر ”اللہ تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ خبردار پھر اس قسم کی حرکت کبھی نہ کرنا“۔
ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابوالضحیٰ نے، ان سے مسروق نے کہ عائشہ (رض) سے ملاقات کرنے کی حسان بن ثابت (رض) نے اجازت چاہی۔ میں نے عرض کیا کہ آپ انہیں بھی اجازت دیتی ہیں (حالانکہ انہوں نے بھی آپ پر تہمت لگانے والوں کا ساتھ دیا تھا) اس پر عائشہ (رض) نے کہا۔ کیا انہیں اس کی ایک بڑی سزا نہیں ملی ہے۔ سفیان نے کہا کہ ان کا اشارہ ان کے نابینا ہوجانے کی طرف تھا۔ پھر حسان نے یہ شعر پڑھا۔ عفیفہ اور بڑی عقلمند ہیں کہ ان کے متعلق کسی کو کوئی شبہ بھی نہیں گزر سکتا۔ وہ غافل اور پاکدامن عورتوں کا گوشت کھانے سے اکمل پرہیز کرتی ہیں۔ عائشہ (رض) نے فرمایا، لیکن تو نے ایسا نہیں کیا۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور اللہ تم سے صاف صاف احکام بیان کرتا ہے اور اللہ بڑے علم والا بڑی حکمت والا ہے“۔
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن ابی عدی نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو شعبہ نے خبر دی، انہیں اعمش نے، انہیں ابوالضحیٰ نے اور ان سے مسروق نے بیان کیا، کہ حسان بن ثابت (رض) عائشہ (رض) کے پاس آئے اور یہ شعر پڑھا۔ عفیفہ اور بڑی عقلمند ہیں، ان کے متعلق کسی کو شبہ بھی نہیں گزر سکتا۔ آپ غافل اور پاک دامن عورتوں کا گوشت کھانے سے کامل پرہیز کرتی ہیں۔ اس پر عائشہ (رض) نے فرمایا کہ لیکن اے حسان ! تو ایسا نہیں ہے۔ بعد میں، میں نے عرض کیا آپ ایسے شخص کو اپنے پاس آنے دیتی ہیں ؟ اللہ تعالیٰ تو یہ آیت بھی نازل کرچکا ہے والذي تولى كبره منهم کہ اور جس نے ان میں سے سب سے بڑا حصہ لیا۔ الخ۔ عائشہ (رض) نے کہا کہ نابینا ہوجانے سے بڑھ کر اور کیا عذاب ہوگا، پھر انہوں نے کہا کہ حسان (رض) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کفار کی ہجو کا جواب دیا کرتے تھے (کیا یہ شرف ان کے لیے کم ہے) ۔
باب
باب : آیت کی تفسیر یقیناً جو لوگ چاہتے ہیں کہ مومنین کے درمیان بےحیائی کا چرچا رہے ان کے لیے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی درد ناک سزا ہے اللہ علم رکھتا ہے اور تم علم نہیں رکھتے اور اگر اللہ کا فضل نہ ہوتا اور یہ بات نہ ہوتی کہ اللہ بڑا شفیق بڑا رحیم ہے ( تو تم بھی نہ بچتے ) ۔ تشیع بمعنی تظھر ہے یعنی ظاہر ہو۔ آیت کی تفسیر یعنی اور جو لوگ تم میں بزرگی والے اور فراخ دست ہیں وہ قرابت والوں کو اور مسکینوں کو اور اللہ کے راستہ میں ہجرت کرنے والوں کو امداد دینے سے قسم نہ کھا بیٹھیں ، بلکہ ان کو چاہیے کہ وہ ان کی لغزشیں معاف کرتے رہیں اور درگزر کرتے رہیں کیا تم یہ نہیں چاہتے کہ اللہ تمہارے قصور معاف کرتا رہے۔ بیشک اللہ بڑا مغفرت کرنے والا بڑا ہی رحمت والا ہے۔
باب: آیت «وليضربن بخمرهن على جيوبهن» کی تفسیر۔
اور ابواسامہ حماد بن اسامہ نے ہشام بن عروہ سے بیان کیا کہ انہوں نے کہا کہ مجھے میرے والد عروہ بن زبیر نے خبر دی اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ جب میرے متعلق ایسی باتیں کہی گئیں جن کا مجھے گمان بھی نہیں تھا تو رسول اللہ ﷺ میرے معاملہ میں لوگوں کو خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے۔ آپ ﷺ نے شہادت کے بعد اللہ کی حمد و ثنا اس کی شان کے مطابق بیان کی، پھر فرمایا، امابعد ! تم لوگ مجھے ایسے لوگوں کے بارے میں مشورہ دو جنہوں نے میری بیوی کو بدنام کیا ہے اور اللہ کی قسم ! کہ میں نے اپنی بیوی میں کوئی برائی نہیں دیکھی اور تہمت بھی ایسے شخص (صفوان بن معطل) کے ساتھ لگائی ہے کہ اللہ کی قسم ! ان میں بھی میں نے کبھی کوئی برائی نہیں دیکھی۔ وہ میرے گھر میں جب بھی داخل ہوا تو میری موجودگی ہی میں داخل ہوا اور اگر میں کبھی سفر کی وجہ سے مدینہ نہیں ہوتا تو وہ بھی نہیں ہوتا اور وہ میرے ساتھ ہی رہتے ہیں۔ اس کے بعد سعد بن معاذ (رض) کھڑے ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! ہمیں حکم فرمایئے کہ ہم ایسے مردود لوگوں کی گردنیں اڑا دیں۔ اس کے بعد قبیلہ خزرج کے ایک صاحب (سعد بن عبادہ) کھڑے ہوئے، حسان بن ثابت کی والدہ اسی قبیلہ خزرج سے تھیں، انہوں نے کھڑے ہو کر کہا کہ تم جھوٹے ہو، اگر وہ لوگ (تہمت لگانے والے) قبیلہ اوس کے ہوتے تو تم کبھی انہیں قتل کرنا پسند نہ کرتے۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ مسجد ہی میں اوس و خزرج کے قبائل میں باہم فساد کا خطرہ ہوگیا، اس فساد کی مجھ کو کچھ خبر نہ تھی، اسی دن کی رات میں، میں قضائے حاجت کے لیے باہر نکلی، میرے ساتھ ام مسطح بھی تھیں۔ وہ (راستے میں) پھسل گئیں اور ان کی زبان سے نکلا کہ مسطح کو اللہ غارت کرے۔ میں نے کہا، آپ اپنے بیٹے کو کو ستی ہیں، اس پر وہ خاموش ہوگئیں، پھر دوبارہ وہ پھسلیں اور ان کی زبان سے وہی الفاظ نکلے کہ مسطح کو اللہ غارت کرے۔ میں نے پھر کہا کہ اپنے بیٹے کو کو ستی ہو، پھر وہ تیسری مرتبہ پھسلیں تو میں نے پھر انہیں ٹوکا۔ انہوں نے بتایا کہ اللہ کی قسم ! میں تو تیری ہی وجہ سے اسے کو ستی ہوں۔ میں نے کہا کہ میرے کس معاملہ میں انہیں آپ کوس رہی ہیں ؟ بیان کیا۔ کہ اب انہوں نے طوفان کا سارا قصہ بیان کیا میں نے پوچھا، کیا واقعی یہ سب کچھ کہا گیا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ ہاں، اللہ کی قسم ! پھر میں اپنے گھر گئی۔ لیکن (ان واقعات کو سن کر غم کا یہ حال تھا کہ) مجھے کچھ خبر نہیں کہ کس کام کے لیے میں باہر گئی تھی اور کہاں سے آئی ہوں، ذرہ برابر بھی مجھے اس کا احساس نہیں رہا۔ اس کے بعد مجھے بخار چڑھ گیا اور میں نے رسول اللہ ﷺ سے کہا کہ آپ مجھے ذرا میرے والد کے گھر پہنچوا دیجئیے۔ آپ ﷺ نے میرے ساتھ ایک بچہ کو کردیا۔ میں گھر پہنچی تو میں نے دیکھا کہ ام رومان نیچے کے حصہ میں ہیں اور ابوبکر (رض) بالاخانے میں قرآن پڑھ رہے ہیں۔ والدہ نے پوچھا بیٹی اس وقت کیسے آگئیں۔ میں نے وجہ بتائی اور واقعہ کی تفصیلات سنائیں ان باتوں سے جتنا غم مجھ کو تھا ایسا معلوم ہوا کہ ان کو اتنا غم نہیں ہے۔ انہوں نے فرمایا، بیٹی اتنا فکر کیوں کرتی ہو کم ہی ایسی کوئی خوبصورت عورت کسی ایسے مرد کے نکاح میں ہوگی جو اس سے محبت رکھتا ہو اور اس کی سوکنیں بھی ہوں اور وہ اس سے حسد نہ کریں اور اس میں سو عیب نہ نکالیں۔ اس تہمت سے وہ اس درجہ بالکل بھی متاثر نہیں معلوم ہوتی تھیں جتنا میں متاثر تھی۔ میں نے پوچھا والد کے علم میں بھی یہ باتیں آگئیں ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ ہاں، میں نے پوچھا اور رسول اللہ ﷺ کے ؟ انہوں نے بتایا کہ نبی کریم ﷺ کے بھی علم میں سب کچھ ہے۔ میں یہ سن کر رونے لگی تو ابوبکر (رض) نے بھی میری آواز سن لی، وہ گھر کے بالائی حصہ میں قرآن پڑھ رہے تھے، اتر کر نیچے آئے اور والدہ سے پوچھا کہ اسے کیا ہوگیا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ وہ تمام باتیں اسے بھی معلوم ہوگئی ہیں جو اس کے متعلق کہی جا رہی ہیں۔ ان کی بھی آنکھیں بھر آئیں اور فرمایا : بیٹی ! تمہیں قسم دیتا ہوں، اپنے گھر واپس چلی جاؤ چناچہ میں واپس چلی آئی۔ (جب میں اپنے والدین کے گھر آگئی تھی تو) رسول اللہ ﷺ میرے حجرہ میں تشریف لائے تھے اور میری خادمہ (بریرہ) سے میرے متعلق پوچھا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ نہیں، اللہ کی قسم ! میں ان کے اندر کوئی عیب نہیں جانتی، البتہ ایسا ہوجایا کرتا تھا (کم عمری کی غفلت کی وجہ سے) کہ (آٹا گوندھتے ہوئے) سو جایا کرتیں اور بکری آ کر ان کا گندھا ہوا آٹا کھا جاتی۔ رسول اللہ ﷺ کے بعض صحابہ نے ڈانٹ کر ان سے کہا کہ نبی کریم ﷺ کو بات صحیح صحیح کیوں نہیں بتا دیتی۔ پھر انہوں نے کھول کر صاف لفظوں میں ان سے واقعہ کی تصدیق چاہی۔ اس پر وہ بولیں کہ سبحان اللہ، میں تو عائشہ (رض) کو اس طرح جانتی ہوں جس طرح سنار کھرے سونے کو جانتا ہے۔ اس تہمت کی خبر جب ان صاحب کو معلوم ہوئی جن کے ساتھ تہمت لگائی گئی تھی تو انہوں نے کہا کہ سبحان اللہ، اللہ کی قسم ! کہ میں نے آج تک کسی (غیر) عورت کا کپڑا نہیں کھولا۔ عائشہ (رض) نے کہا کہ پھر انہوں نے اللہ کے راستے میں شہادت پائی۔ بیان کیا کہ صبح کے وقت میرے والدین میرے پاس آگئے اور میرے پاس ہی رہے۔ آخر عصر کی نماز سے فارغ ہو کر رسول اللہ ﷺ بھی تشریف لائے۔ میرے والدین مجھے دائیں اور بائیں طرف سے پکڑے ہوئے تھے، نبی کریم ﷺ نے اللہ کی حمد و ثنا کی اور فرمایا : امابعد ! اے عائشہ ! اگر تم نے واقعی کوئی برا کام کیا ہے اور اپنے اوپر ظلم کیا ہے تو پھر اللہ سے توبہ کرو، کیونکہ اللہ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے۔ عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ ایک انصاری خاتون بھی آگئی تھیں اور دروازے پر بیٹھی ہوئی تھیں، میں نے عرض کی، آپ ان خاتون کا لحاظ نہیں فرماتے کہیں یہ (اپنی سمجھ کے مطابق کوئی الٹی سیدھی) بات باہر کہہ دیں۔ پھر نبی کریم ﷺ نے نصیحت فرمائی، اس کے بعد میں اپنے والد کی طرف متوجہ ہوئی اور ان سے عرض کیا کہ آپ ہی جواب دیجئیے، انہوں نے بھی یہی کہا کہ میں کیا کہوں جب کسی نے میری طرف سے کچھ نہیں کہا تو میں نے شہادت کے بعد اللہ کی شان کے مطابق اس کی حمد و ثنا کی اور کہا : امابعد ! اللہ کی قسم ! اگر میں آپ لوگوں سے یہ کہوں کہ میں نے اس طرح کی کوئی بات نہیں کی اور اللہ عزوجل گواہ ہے کہ میں اپنے اس دعوے میں سچی ہوں، تو آپ لوگوں کے خیال کو بدلنے میں میری یہ بات مجھے کوئی نفع نہیں پہنچائے گی، کیونکہ یہ بات آپ لوگوں کے دل میں رچ بس گئی ہے اور اگر میں یہ کہہ دوں کہ میں نے واقعتاً یہ کام کیا ہے حالانکہ اللہ خوب جانتا ہے کہ میں نے ایسا نہیں کیا ہے، تو آپ لوگ کہیں گے کہ اس نے تو جرم کا اقرار کرلیا ہے۔ اللہ کی قسم ! میری اور آپ لوگوں کی مثال یوسف (علیہ السلام) کے والد کی سی ہے کہ انہوں نے فرمایا تھا فصبر جميل والله المستعان على ما تصفون پس صبر ہی اچھا ہے اور تم لوگ جو کچھ بیان کرتے ہو اس پر اللہ ہی مدد کرے۔ میں نے ذہن پر بہت زور دیا کہ یعقوب (علیہ السلام) کا نام یاد آجائے لیکن نہیں یاد آیا۔ اسی وقت رسول اللہ ﷺ پر وحی کا نزول شروع ہوگیا اور ہم سب خاموش ہوگئے۔ پھر آپ سے یہ کیفیت ختم ہوئی تو میں نے دیکھا کہ خوشی نبی کریم ﷺ کے چہرہ مبارک سے ظاہر ہو رہی تھی۔ نبی کریم ﷺ نے (پسینہ سے) اپنی پیشانی صاف کرتے ہوئے فرمایا کہ عائشہ ! تمہیں بشارت ہو اللہ تعالیٰ نے تمہاری پاکی نازل کردی ہے۔ بیان کیا کہ اس وقت مجھے بڑا غصہ آ رہا تھا۔ میرے والدین نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے کھڑی ہوجاؤ، میں نے کہا کہ اللہ کی قسم ! میں نبی کریم ﷺ کے سامنے کھڑی نہیں ہوں گی نہ آپ کا شکریہ ادا کروں گی اور نہ آپ لوگوں کا شکریہ ادا کروں گی، میں تو صرف اللہ کا شکر ادا کروں گی جس نے میری برات نازل کی ہے۔ آپ لوگوں نے تو یہ افواہ سنی اور اس کا انکار بھی نہ کرسکے، اس کے ختم کرنے کی بھی کوشش نہیں کی۔ عائشہ (رض) فرماتی تھیں کہ زینب بنت جحش کو اللہ تعالیٰ نے ان کی دینداری کی وجہ سے اس تہمت میں پڑنے سے بچا لیا۔ میری بابت انہوں نے خیر کے سوا اور کوئی بات نہیں کہی، البتہ ان کی بہن حمنہ ہلاک ہونے والوں کے ساتھ ہلاک ہوئیں۔ اس طوفان کو پھیلانے میں مسطح اور حسان اور منافق عبداللہ بن ابی نے حصہ لیا تھا۔ عبداللہ بن ابی منافق ہی تو کھود کھود کر اس کو پوچھتا اور اس پر حاشیہ چڑھاتا، وہی اس طوفان کا بانی مبانی تھا۔ وهو الذي تولى كبره سے وہ اور حمنہ مراد ہیں۔ عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ پھر ابوبکر (رض) نے قسم کھائی کہ مسطح کو کوئی فائدہ آئندہ کبھی وہ نہیں پہنچائیں گے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی ولا يأتل أولو الفضل منکم اور جو لوگ تم میں بزرگی والے اور فراخ دست ہیں الخ، اس سے مراد ابوبکر (رض) ہیں۔ وہ قرابت والوں اور مسکینوں کو اس سے مراد مسطح ہیں۔ (دینے سے قسم نہ کھا بیٹھیں) اللہ تعالیٰ کے ارشاد ألا تحبون أن يغفر الله لکم والله غفور رحيم کیا تم یہ نہیں چاہتے کہ اللہ تمہارے قصور معاف کرتا رہے، بیشک اللہ بڑی مغفرت کرنے والا بڑا ہی مہربان ہے تک۔ چناچہ ابوبکر (رض) نے کہا کہ ہاں، اللہ کی قسم ! اے ہمارے رب ! ہم تو اسی کے خواہشمند ہیں کہ تو ہماری مغفرت فرما۔ پھر وہ پہلے کی طرح مسطح کو جو دیا کرتے تھے وہ جاری کردیا۔
باب
عبداللہ بن عباس (رض) نے کہا هباء منثورا کے معنی جو چیز ہوا اڑا کر لائے (گرد و غبار وغیرہ) ۔ مد الظل سے وہ وقت مراد ہے جو طلوع صبح سے سورج نکلنے تک ہوتا ہے۔ ساکنا کا معنی ہمیشہ۔ عليه دليلا میں دليل سے سورج کا نکلنا مراد ہے۔ خلفة سے یہ مطلب ہے کہ رات کا جو کام نہ ہو سکے وہ دن کو پورا کرسکتا ہے، دن کا جو کام نہ ہو سکے وہ رات کو پورا کرسکتا ہے۔ اور امام حسن بصری نے کہا قرة اعین کا مطلب یہ ہے کہ ہماری بیویوں کو اور اولاد کو خدا پرست، اپنا تابعدار بن دے۔ مومن کی آنکھ کی ٹھنڈک اس سے زیادہ کسی بات میں نہیں ہوتی کہ اس کا محبوب اللہ کی عبادت میں مصروف ہو۔ اور عبداللہ بن عباس (رض) نے کہا ثبورا کے معنی ہلاکت خرابی۔ اوروں نے کہا سعير کا لفظ مذکر ہے، یہ تسعر سے نکلا ہے، تسعر اور اضطرام آگ کے خوب سلگنے کو کہتے ہیں۔ تملى عليه اس کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں یہ أمليت اور أمللت سے نکلا ہے۔ الرس ،كان کو کہتے ہیں اس کی جمع رساس آتی ہے۔ كان بمعنی معدن ما يعبأ عرب لوگ کہتے ہیں ما عبأت به شيئا یعنی میں نے اس کی کچھ پروا نہیں کی۔ غراما کے معنی ہلاکت اور مجاہد نے کہا عتوا کا معنی شرارت کے ہیں اور سفیان بن عیینہ نے کہا عاتية کا معنی یہ ہے کہ اس نے خزانہ دار فرشتوں کا کہنا نہ سنا۔
باب: آیت کی تفسیر یعنی ”یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے چہروں کے بل جہنم کی طرف چلائے جائیں گے، یہ لوگ دوزخ میں ٹھکانے کے لحاظ سے بدترین ہوں گے اور یہ راہ چلنے میں بہت ہی بھٹکے ہوئے ہیں“۔
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے یونس بن محمد بغدادی نے بیان کیا، کہا ہم سے شیبان نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے، کہا ہم سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ ایک صاحب نے پوچھا، اے اللہ کے نبی ! کافر کو قیامت کے دن اس کے چہرے کے بل کس طرح چلایا جائے گا ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ جس نے اسے اس دنیا میں دو پاؤں پر چلایا ہے اس پر قادر ہے کہ قیامت کے دن اس کو اس کے چہرے کے بل چلا دے۔ قتادہ نے کہا یقیناً ہمارے رب کی عزت کی قسم ! یونہی ہوگا۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہیں پکارتے اور جس (انسان) کی جان کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے اسے وہ قتل نہیں کرتے، مگر ہاں حق پر اور نہ زنا کرتے ہیں اور جو کوئی ایسا کرے گا اسے سزا بھگتنی ہی پڑے گی“ «أثاما» کے معنی عقوبت و سزا ہے۔
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے سفیان ثوری نے بیان کیا کہ مجھ سے منصور اور سلیمان نے بیان کیا، ان سے ابو وائل نے، ان سے ابومیسرہ نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے (سفیان ثوری نے کہا کہ) اور مجھ سے واصل نے بیان کیا اور ان سے ابو وائل نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ میں نے پوچھا، یا (آپ نے یہ فرمایا کہ) رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ کون سا گناہ اللہ کے نزدیک سب سے بڑا ہے ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا یہ کہ تم اللہ کا کسی کو شریک ٹھہراؤ حالانکہ اسی نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ میں نے پوچھا اس کے بعد کون سا ؟ فرمایا کہ اس کے بعد سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ تم اپنی اولاد کو اس خوف سے مار ڈالو کہ وہ تمہاری روزی میں شریک ہوگی۔ میں نے پوچھا اس کے بعد کون سا ؟ فرمایا کہ اس کے بعد یہ کہ تم اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرو۔ راوی نے بیان کیا کہ یہ آیت نبی کریم ﷺ کے فرمان کی تصدیق کے لیے نازل ہوئی والذين لا يدعون مع الله إلها آخر ولا يقتلون النفس التي حرم الله إلا بالحق کہ اور جو اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہیں پکارتے اور جس (انسان) کی جان کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے اسے قتل نہیں کرتے مگر ہاں حق پر اور نہ وہ زنا کرتے ہیں۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہیں پکارتے اور جس (انسان) کی جان کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے اسے وہ قتل نہیں کرتے، مگر ہاں حق پر اور نہ زنا کرتے ہیں اور جو کوئی ایسا کرے گا اسے سزا بھگتنی ہی پڑے گی“ «أثاما» کے معنی عقوبت و سزا ہے۔
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو ہشام بن یوسف نے خبر دی، انہیں ابن جریج نے خبر دی، کہا کہ مجھے قاسم بن ابی بزہ نے خبر دی، انہوں نے سعید بن جبیر سے پوچھا کہ اگر کوئی شخص کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کر دے تو کیا اس کی اس گناہ سے توبہ قبول ہوسکتی ہے ؟ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ (ابن ابی بزہ نے بیان کیا کہ) میں نے اس پر یہ آیت پڑھی ولا يقتلون النفس التي حرم الله إلا بالحق کہ اور جس جان کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے اسے قتل نہ کرتے، مگر ہاں حق کے ساتھ۔ سعید بن جبیر نے کہا کہ میں نے بھی یہ آیت ابن عباس (رض) کے سامنے پڑھی تھی تو انہوں نے کہا تھا کہ مکی آیت اور مدنی آیت جو اس سلسلہ میں سورة نساء میں ہے اس سے اس کا حکم منسوخ ہوگیا ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہیں پکارتے اور جس (انسان) کی جان کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے اسے وہ قتل نہیں کرتے، مگر ہاں حق پر اور نہ زنا کرتے ہیں اور جو کوئی ایسا کرے گا اسے سزا بھگتنی ہی پڑے گی“ «أثاما» کے معنی عقوبت و سزا ہے۔
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے، ان سے مغیرہ بن نعمان نے، ان سے سعید بن جبیر نے بیان کیا کہ اہل کوفہ کا مومن کے قتل کے مسئلے میں اختلاف ہوا (کہ اس کے قاتل کی توبہ قبول ہوسکتی ہے یا نہیں) تو میں سفر کر کے ابن عباس (رض) کی خدمت میں پہنچا تو انہوں نے کہا کہ (سورۃ نساء کی آیت جس میں یہ ذکر ہے کہ جس نے کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کیا اس کی جہنم ہے۔ ) اس سلسلہ میں سب سے آخر میں نازل ہوئی ہے اور کسی دوسری سے منسوخ نہیں ہوئی۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہیں پکارتے اور جس (انسان) کی جان کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے اسے وہ قتل نہیں کرتے، مگر ہاں حق پر اور نہ زنا کرتے ہیں اور جو کوئی ایسا کرے گا اسے سزا بھگتنی ہی پڑے گی“ «أثاما» کے معنی عقوبت و سزا ہے۔
ہم سے آدم نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے منصور نے بیان کیا، ان سے سعید بن جبیر نے بیان کیا کہ میں نے ابن عباس (رض) سے فجزاؤه جهنم کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے فرمایا کہ اس کی توبہ قبول نہیں ہوگی اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد لا يدعون مع الله إلها آخر کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ یہ ان لوگوں کے متعلق ہے جنہوں نے زمانہ جاہلیت میں قتل کیا ہو۔
باب: آیت کی تفسیر ”قیامت کے دن اس کا عذاب کئی گنا بڑھتا ہی جائے گا اور وہ اس میں ہمیشہ کے لیے ذلیل ہو کر پڑا رہے گا“۔
ہم سے سعد بن حفص نے بیان کیا، کہا ہم سے شیبان نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے سعید بن جبیر نے بیان کیا کہ ان سے عبدالرحمٰن بن ابزیٰ نے بیان کیا کہ ابن عباس (رض) سے آیت ومن يقتل مؤمنا متعمدا فجزاؤه جهنم اور جو کوئی کسی مومن کو جان کر قتل کرے اس کی سزا جہنم ہے۔ اور سورة الفرقان کی آیت لا يقتلون النفس التي حرم الله إلا بالحق اور جس انسان کی جان مارنے کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے اسے قتل نہیں کرتے مگر ہاں حق کے ساتھ إلا من تاب تک، میں نے اس آیت کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو اہل مکہ نے کہا کہ پھر تو ہم نے اللہ کے ساتھ شریک بھی ٹھہرایا ہے اور ناحق ایسے قتل بھی کئے ہیں جنہیں اللہ نے حرام قرار دیا تھا اور ہم نے بدکاریوں کا بھی ارتکاب کیا ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی إلا من تاب وآمن وعمل عملا صالحا کہ مگر ہاں جو توبہ کرے اور ایمان لائے اور نیک کام کرتا رہے، اللہ بہت بخشنے والا بڑا ہی مہربان ہے تک۔
باب: آیت کی تفسیر ”مگر ہاں جو توبہ کرے اور ایمان لائے اور نیک کام کرتا رہے، سو ان کی بدیوں کو اللہ نیکیوں سے بدل دے گا اور اللہ تو ہے ہی بڑا بخشش کرنے والا بڑا ہی مہربان ہے“۔
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا مجھ کو میرے والد نے خبر دی، انہیں شعبہ نے، انہیں منصور نے، ان سے سعید بن جبیر نے بیان کیا کہ مجھے عبدالرحمٰن بن ابزیٰ نے حکم دیا کہ میں ابن عباس (رض) سے دو آیتوں کے بارے میں پوچھوں یعنی ومن يقتل مؤمنا متعمدا اور جس نے کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کیا الخ۔ میں نے ان سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ یہ آیت کسی چیز سے بھی منسوخ نہیں ہوئی ہے۔ (اور دوسری آیت جس کے) بارے میں مجھے انہوں نے پوچھنے کا حکم دیا وہ یہ تھی والذين لا يدعون مع الله إلها آخر اور جو لوگ کسی معبود کو اللہ کے ساتھ نہیں پکارتے آپ نے اس کے متعلق فرمایا کہ یہ مشرکین کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔
باب
مجاہد نے کہا لفظ تعبثون کا معنی بناتے ہو۔ هضيم وہ چیز جو چھونے سے ریزہ ریزہ ہوجائے۔ مسحرين کا معنی جادو کئے گئے۔ ليكة اور لأيكة جمع ہے أيكة کی اور لفظ أيكة صحیح ہے۔ شجر یعنی درخت۔ يوم الظلة یعنی وہ دن جس میں عذاب نے ان پر سایہ کیا تھا۔ موزون کا معنی معلوم۔ کالطود یعنی پہاڑ کی طرح۔ الشرذمة یعنی چھوٹا گروہ۔ في الساجدين یعنی نمازیوں میں۔ ابن عباس نے کہا لعلکم تخلدون کا معنی یہ ہے کہ جیسے ہمیشہ دنیا میں رہو گے۔ ريع بلند زمین جیسے ٹیلہ ريع مفرد ہے اس کی جمع ريعة اور أرياع آتی ہے۔ مصانع ہر عمارت کو کہتے ہیں (یا اونچے اونچے محلوں کو) ۔ فرهين کا معنی اتراتے ہوئے خوش و خرم۔ فاتحه فارھین کا بھی یہی معنی ہے۔ بعضوں نے کہا فارهين کا معنی کاریگر ہوشیار تجربہ کار۔ تعثوا جیسے عاث ، يعيث ، عيثا ، عيث کہتے ہیں سخت فساد کرنے کو (دھند مچانا) ۔ تعثوا کا وہی معنی ہے یعنی سخت فساد نہ کرو۔ خلقت جبل یعنی پیدا کیا گیا ہے۔ اسی سے جبلا اور جبلا اور جبلا نکلا ہے یعنی خلقت۔
باب: آیت کی تفسیر ”ابراہیم نے یہ بھی دعا کی تھی کہ یا اللہ! مجھے رسوا نہ کرنا اس دن جب حساب کے لیے سب جمع کئے جائیں گے“۔
اور ہم سے ابراہیم بن طہمان نے کہا کہ ان سے ابن ابی ذئب نے بیان کیا، ان سے سعید بن ابی سعید مقبری نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ابراہیم علیہ الصلٰوۃ والسلام اپنے والد (آذر) کو قیامت کے دن گرد آلود کالا کلوٹا دیکھیں گے۔ امام بخاری (رح) نے کہا غبرة اور قترة. ہم معنی ہیں۔
باب: آیت کی تفسیر ”ابراہیم نے یہ بھی دعا کی تھی کہ یا اللہ! مجھے رسوا نہ کرنا اس دن جب حساب کے لیے سب جمع کئے جائیں گے“۔
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے بھائی (عبدالحمید) نے بیان کیا، ان سے ابن ابی ذئب نے، ان سے سعید مقبری نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ابراہیم علیہ الصلٰوۃ والسلام اپنے والد سے (قیامت کے دن) جب ملیں گے تو اللہ تعالیٰ سے عرض کریں گے کہ اے رب ! تو نے وعدہ کیا تھا کہ تو مجھے اس دن رسوا نہیں کرے گا جب سب اٹھائے جائیں گے لیکن اللہ تعالیٰ جواب دے گا کہ میں نے جنت کو کافروں پر حرام قرار دے دیا ہے۔
باب: آیت کی تفسیر «واخفض جناحك» یعنی اپنا بازو نرم رکھے۔
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا ہم سے میرے والد نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے، کہا کہ مجھ سے عمرو بن مرہ نے بیان کیا، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ جب آیت وأنذر عشيرتک الأقربين اور آپ اپنے خاندانی قرابت داروں کو ڈراتے رہئیے نازل ہوئی تو نبی کریم ﷺ صفا پہاڑی پر چڑھ گئے اور پکارنے لگے۔ اے بنی فہر ! اور اے بنی عدی ! اور قریش کے دوسرے خاندان والو ! اس آواز پر سب جمع ہوگئے اگر کوئی کسی وجہ سے نہ آسکا تو اس نے اپنا کوئی چودھری بھیج دیا، تاکہ معلوم ہو کہ کیا بات ہے۔ ابولہب قریش کے دوسرے لوگوں کے ساتھ مجمع میں تھا۔ نبی کریم ﷺ نے انہیں خطاب کر کے فرمایا کہ تمہارا کیا خیال ہے، اگر میں تم سے کہوں کہ وادی میں (پہاڑی کے پیچھے) ایک لشکر ہے اور وہ تم پر حملہ کرنا چاہتا ہے تو کیا تم میری بات سچ مانو گے ؟ سب نے کہا کہ ہاں، ہم آپ کی تصدیق کریں گے ہم نے ہمیشہ آپ کو سچا ہی پایا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پھر سنو، میں تمہیں اس سخت عذاب سے ڈراتا ہوں جو بالکل سامنے ہے۔ اس پر ابولہب بولا، تجھ پر سارے دن تباہی نازل ہو، کیا تو نے ہمیں اسی لیے اکٹھا کیا تھا۔ اسی واقعہ پر یہ آیت نازل ہوئی تبت يدا أبي لهب وتب * ما أغنى عنه ماله وما کسب ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ برباد ہوگیا، نہ اس کا مال اس کے کام آیا اور نہ اس کی کمائی ہی اس کے آڑے آئی۔
باب
كل شىء هالك إلا وجهه یعنی ہر شے فنا ہونے والی ہے، سوائے اس کی ذات کے ( إلا وجهه سے مراد ہے) بجز اس کی سلطنت کے بعض لوگوں نے اس سے مراد وہ اعمال لیے ہیں جو اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے کئے گئے ہوں۔ (ثواب کے لحاظ سے وہ بھی فنا نہ ہوں گے) مجاہد نے کہا کہ الأنباء سے دلیلیں مراد ہیں۔
باب: آیت کی تفسیر ”جس کو تم چاہو ہدایت نہیں کر سکتے، البتہ اللہ ہدایت دیتا ہے اسے جس کے لیے وہ ہدایت چاہتا ہے“۔
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا۔ انہیں سعید بن مسیب نے خبر دی اور ان سے ان کے والد (مسیب بن حزن) نے بیان کیا کہ جب ابوطالب کی وفات کا وقت قریب ہوا تو رسول اللہ ﷺ ان کے پاس آئے، ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ بن مغیرہ وہاں پہلے ہی سے موجود تھے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ چچا ! آپ صرف کلمہ لا إله إلا الله پڑھ دیجئیے تاکہ اس کلمہ کے ذریعہ اللہ کی بارگاہ میں آپ کی شفاعت کروں۔ اس پر ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ بولے کیا تم عبدالمطلب کے مذہب سے پھر جاؤ گے ؟ نبی کریم ﷺ باربار ان سے یہی کہتے رہے (کہ آپ صرف ایک کلمہ پڑھ لیں) اور یہ دونوں بھی اپنی بات ان کے سامنے باربار دہراتے رہے (کہ کیا تم عبدالمطلب کے مذہب سے پھر جاؤ گے ؟ ) آخر ابوطالب کی زبان سے جو آخری کلمہ نکلا وہ یہی تھا کہ وہ عبدالمطلب کے مذہب پر ہی قائم ہیں۔ انہوں نے لا إله إلا الله پڑھنے سے انکار کردیا۔ راوی نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کی قسم ! میں آپ کے لیے طلب مغفرت کرتا رہوں گا تاآنکہ مجھے اس سے روک نہ دیا جائے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی ما کان للنبي والذين آمنوا أن يستغفروا للمشرکين نبی اور ایمان والوں کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ مشرکین کے لیے دعائے مغفرت کریں۔ اور خاص ابوطالب کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی نبی کریم ﷺ سے کہا گیا إنک لا تهدي من أحببت ولکن الله يهدي من يشاء کہ جس کو تم چاہو ہدایت نہیں کرسکتے، البتہ اللہ ہدایت دیتا ہے اسے جس کے لیے وہ ہدایت چاہتا ہے۔ ابن عباس (رض) نے کہا أولي القوة سے یہ مراد ہے کہ کئی زور دار آدمی مل کر بھی اس کی کنجیاں نہیں اٹھا سکتے تھے۔ لتنوء کا مطلب ڈھوئی جاتی تھیں۔ فارغا کا معنی یہ ہے کہ موسیٰ کی ماں کے دل میں موسیٰ کے سوا اور کوئی خاص نہیں رہا تھا۔ الفرحين کا معنی خوشی سے اتراتے ہوئے۔ قصيه یعنی اس کے پیچھے پیچھے چلی جا۔ قصص کے معنی بیان کرنے کے ہوتے ہیں جیسے سورة یوسف میں فرمایا نحن نقص عليك ، عن جنب یعنی دور سے عن جنابة کا بھی یہی معنی ہے اور عن اجتناب کا بھی یہی ہے۔ يبطش بہ کسرہ طاء اور يبطش. بہ ضمہ طاء دونوں قرآت ہیں۔ يأتمرون مشورہ کر رہے ہیں۔ عدوان اور عدو اور تعدي سب کا ایک ہی مفہوم ہے یعنی حد سے بڑھ جانا ظلم کرنا۔ آنس کا معنی دیکھنا۔ جذوة لکڑی کا موٹا ٹکڑا جس کے سرے پر آگ لگی ہو مگر اس میں شعلہ نہ ہو اور شهاب جو آیت اواتیکم بشهاب قبس میں ہے اس سے مراد ایسی جلتی ہوئی لکڑی جس میں شعلہ ہو۔ حيات یعنی سانپوں کی مختلف قسمیں (جیسے) جان، افعی، اسود وغیرہ ردء ا یعنی مددگار، پشت پناہ۔ ابن عباس (رض) نے يصدقني بہ ضمہ قاف پڑھا ہے۔ اوروں نے کہا سنشد کا معنی یہ ہے کہ ہم تیری مدد کریں گے عرب لوگ کا محاورہ ہے جب کسی کو قوت دیتے ہیں تو کہتے ہیں جعلت له عضدا.۔ مقبوحين کا معنی ہلاک کئے گئے۔ وصلنا ہم نے اس کو بیان کیا اور پورا کیا۔ يجبى کچھے آتے ہیں۔ بطرت شرارت کی۔ في أمها رسولا ، أم القرى مکہ اور اس کے اطراف کو کہتے ہیں۔ تكن کا معنی چھپاتی ہیں۔ عرب لوگ کہتے ہیں أکننت یعنی میں نے اس کو چھپالیا۔ کننته کا بھی یہی معنی ہے۔ ويكأن الله کا معنی ألم تر أن الله کے یعنی کیا تو نے نہیں دیکھا۔ يبسط الرزق لمن يشاء ويقدر یعنی اللہ جس کو چاہتا ہے فراغت سے روزی دیتا ہے جسے چاہتا ہے تنگی سے دیتا ہے۔
باب
فلا يربو یعنی جو سود پر قرض دے اس کو کچھ ثواب نہیں ملے گا۔ مجاہد نے کہا يحبرون کا معنی نعمتیں دیئے جائیں گے۔ فلا نفسهم يمهدون یعنی اپنے لیے بسترے، بچھونے بچھاتے ہیں (قبر میں یا بہشت میں) ۔ الودق مینہ کو کہتے ہیں۔ ابن عباس نے کہا کہ یہ آیت هل لکم مما ملکت أيمانکم اللہ پاک اور بتوں کی مثال میں اتری ہے۔ تخافونهم یعنی تم کیا اپنے لونڈی غلاموں سے یہ خوف کرتے ہو کہ وہ تمہارے وارث بن جائیں گے جیسے تم آپس میں ایک دوسرے کے وارث ہوتے ہو۔ يصدعون کے معنی جدا جدا ہوجائیں گے۔ فاصدع کا معنی حق بات کھول کر بیان کر دے اور بعض نے کہا ضعف اور ضعف ضاد کے ضمہ اور فتحہ کے ساتھ دونوں قرآت ہیں۔ مجاہد نے کہا السوأى کا معنی برائی یعنی برائی کرنے والوں کا بدلہ برا ملے گا۔
باب: سورۃ الروم کی تفسیر۔
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، کہا ہم سے منصور اور اعمش نے بیان کیا، ان سے ابوالضحیٰ نے، ان سے مسروق نے بیان کیا کہ ایک شخص نے قبیلہ کندہ میں وعظ بیان کرتے ہوئے کہا کہ قیامت کے دن ایک دھواں اٹھے گا جس سے منافقوں کے آنکھ کان بالکل بیکار ہوجائیں گے لیکن مومن پر اس کا اثر صرف زکام جیسا ہوگا۔ ہم اس کی بات سے بہت گھبرا گئے۔ پھر میں ابن مسعود (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا (اور انہیں ان صاحب کی یہ بات سنائی) وہ اس وقت ٹیک لگائے بیٹھے تھے، اسے سن کر بہت غصہ ہوئے اور سیدھے بیٹھ گئے۔ پھر فرمایا کہ اگر کسی کو کسی بات کا واقعی علم ہے تو پھر اسے بیان کرنا چاہیے لیکن اگر علم نہیں ہے تو کہہ دینا چاہیے کہ اللہ زیادہ جاننے والا ہے۔ یہ بھی علم ہی ہے کہ آدمی اپنی لاعلمی کا اقرار کرلے اور صاف کہہ دے کہ میں نہیں جانتا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم ﷺ سے فرمایا تھا قل ما أسألكم عليه من أجر وما أنا من المتکلفين آپ کہہ دیجئیے کہ میں اپنی تبلیغ و دعوت پر تم سے کوئی اجر نہیں چاہتا اور نہ میں بناوٹ کرتا ہوں۔ اصل میں واقعہ یہ ہے کہ قریش کسی طرح اسلام نہیں لاتے تھے۔ اس لیے نبی کریم ﷺ نے ان کے حق میں بددعا کی کہ اے اللہ ! ان پر یوسف (علیہ السلام) کے زمانے جیسا قحط بھیج کر میری مدد کر پھر ایسا قحط پڑا کہ لوگ تباہ ہوگئے اور مردار اور ہڈیاں کھانے لگے کوئی اگر فضا میں دیکھتا (تو فاقہ کی وجہ سے) اسے دھویں جیسا نظر آتا۔ پھر ابوسفیان آئے اور کہا کہ اے محمد ! آپ ہمیں صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں لیکن آپ کی قوم تباہ ہو رہی ہے، اللہ سے دعا کیجئے (کہ ان کی یہ مصیبت دور ہو) ۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے یہ آیت پڑھی فارتقب يوم تأتي السماء بدخان مبين سے عائدون تک۔ ابن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ قحط کا یہ عذاب تو نبی کریم ﷺ کی دعا کے نتیجہ میں ختم ہوگیا تھا لیکن کیا آخرت کا عذاب بھی ان سے ٹل جائے گا ؟ چناچہ قحط ختم ہونے کے بعد پھر وہ کفر سے باز نہ آئے، اس کی طرف اشارہ يوم نبطش البطشة الکبرى میں ہے، یہ بطش کفار پر غزوہ بدر کے موقع پر نازل ہوئی تھی (کہ ان کے بڑے بڑے سردار قتل کردیئے گئے) اور لزاما (قید) سے اشارہ بھی معرکہ بدر ہی کی طرف ہے الم * غلبت الروم سے سيغلبون تک کا واقعہ گزر چکا ہے کہ (کہ روم والوں نے فارس والوں پر فتح پالی تھی) ۔
باب: آیت کی تفسیر ”اللہ کی بنائی ہوئی فطرت «خلق الله» میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں“۔
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں یونس بن یزید نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، انہیں ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے خبر دی اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ہر پیدا ہونے والا بچہ دین فطرت پر پیدا ہوتا ہے لیکن اس کے ماں باپ اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنا لیتے ہیں۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسی جانور کا بچہ صحیح سالم پیدا ہوتا ہے کیا تم نے انہیں ناک کان کٹا ہوا کوئی بچہ دیکھا ہے۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے اس آیت کی تلاوت کی فطرة الله التي فطر الناس عليها لا تبديل لخلق الله ذلک الدين القيم اللہ کی اس فطرت کی اتباع کرو جس پر اس نے انسان کو پیدا کیا ہے، اللہ کی بنائی ہوئی فطرت میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں، یہی سیدھا دین ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”اللہ کا شریک نہ ٹھہرا، بیشک شرک کرنا بہت بڑا ظلم ہے“۔
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابراہیم نے، ان سے علقمہ نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ جب آیت الذين آمنوا ولم يلبسوا إيمانهم بظلم کہ جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان کے ساتھ ظلم کی آمیزش نہیں کی۔ نازل ہوئی تو اصحاب رسول ﷺ بہت گھبرائے اور کہنے لگے کہ ہم میں کون ایسا ہوگا جس نے اپنے ایمان کے ساتھ ظلم کی ملاوٹ نہیں کی ہوگی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ آیت میں ظلم سے یہ مراد نہیں ہے۔ تم نے لقمان (علیہ السلام) کی وہ نصیحت نہیں سنی جو انہوں نے اپنے بیٹے کو کی تھی إن الشرک لظلم عظيم کہ بیشک شرک کرنا بڑا بھاری ظلم ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”قیامت (کے واقع ہونے کی تاریخ) کی خبر صرف اللہ پاک ہی کو ہے“۔
مجھ سے اسحاق نے بیان کیا، ان سے جریر نے، ان سے ابوحیان نے، ان سے ابوزرعہ نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن لوگوں کے ساتھ تشریف رکھتے تھے کہ ایک نیا آدمی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا : یا رسول اللہ ! ایمان کیا ہے ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ایمان یہ ہے کہ تم اللہ اور اس کے فرشتوں، رسولوں اور اس کی ملاقات پر ایمان لاؤ اور قیامت کے دن پر ایمان لاؤ۔ انہوں نے پوچھا : یا رسول اللہ ! اسلام کیا ہے ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اسلام یہ ہے کہ تنہا اللہ کی عبادت کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ، نماز قائم کرو اور فرض زکوٰۃ ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو۔ انہوں نے پوچھا : یا رسول اللہ ! احسان کیا ہے ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی اس طرح عبادت کرو گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو ورنہ یہ عقیدہ لازماً رکھو کہ اگر تم اسے نہیں دیکھتے تو وہ تمہیں ضرور دیکھ رہا ہے۔ انہوں نے پوچھا : یا رسول اللہ ! قیامت کب قائم ہوگی ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جس سے پوچھا جا رہا ہے خود وہ سائل سے زیادہ اس کے واقع ہونے کے متعلق نہیں جانتا۔ البتہ میں تمہیں اس کی چند نشانیاں بتاتا ہوں۔ جب عورت ایسی اولاد جنے جو اس کے آقا بن جائیں تو یہ قیامت کی نشانی ہے، جب ننگے پاؤں، ننگے جسم والے لوگ لوگوں پر حاکم ہوجائیں تو یہ قیامت کی نشانی ہے۔ قیامت بھی ان پانچ چیزوں میں سے ہے جسے اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا، بیشک اللہ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے۔ وہی مینہ برساتا ہے اور وہی جانتا ہے کہ ماں کے رحم میں کیا ہے (لڑکا یا لڑکی) پھر وہ صاحب اٹھ کر چلے گئے تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ انہیں میرے پاس واپس بلا لاؤ۔ لوگوں نے انہیں تلاش کیا تاکہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں دوبارہ لائیں لیکن ان کا کہیں پتہ نہیں تھا۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ صاحب جبرائیل تھے (انسانی صورت میں) لوگوں کو دین کی باتیں سکھانے آئے تھے۔
باب
مجاہد نے کہا کہ مهين کا معنی ناتواں کمزور (یا حقیر) مراد مرد کا نطفہ ہے۔ ضللنا کے معنی ہم تباہ ہوئے۔ ابن عباس (رض) نے کہا جرز وہ زمین جہاں بالکل کم بارش ہوتی ہے جس سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا (یا سخت اور خشک زمیں) يهد کے معنی ہم بیان کرتے ہیں۔
باب: آیت کی تفسیر ”کسی مومن کو علم نہیں جو جو سامان (جنت میں) ان کے لیے پوشیدہ کر کے رکھے گئے ہیں جو ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنیں گے“۔
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے ابوالزناد نے، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں نے اپنے صالح اور نیک بندوں کے لیے وہ چیزیں تیار کر رکھی ہیں جنہیں کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی کے گمان و خیال میں وہ آئی ہیں۔ ابوہریرہ (رض) نے کہا کہ اگر چاہو تو اس آیت کو پڑھ لو فلا تعلم نفس ما أخفي لهم من قرة أعين کہ سو کسی کو نہیں معلوم جو جو سامان آنکھوں کی ٹھنڈک کا ان کے لیے جنت میں چھپا کر رکھا گیا ہے۔ علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا کہ ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے، پہلی حدیث کی طرح۔ سفیان سے پوچھا گیا کہ یہ آپ نبی کریم ﷺ کی حدیث روایت کر رہے ہیں یا اپنے اجتہاد سے فرما رہے ہیں ؟ انہوں نے فرمایا کہ (اگر یہ نبی کریم ﷺ کی حدیث نہیں ہے) تو پھر اور کیا ہے ؟ ابومعاویہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے اور ان سے صالح نے کہ ابوہریرہ (رض) نے (آیت مذکورہ میں) قرآت (صیغہ جمع کے ساتھ) پڑھا ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”کسی مومن کو علم نہیں جو جو سامان (جنت میں) ان کے لیے پوشیدہ کر کے رکھے گئے ہیں جو ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنیں گے“۔
مجھ سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، کہا ہم سے ابوصالح نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ میں نے اپنے نیکوکار بندوں کے لیے وہ چیزیں تیار رکھی ہیں جنہیں کسی آنکھ نے نہ دیکھا اور کسی کان نے نہ سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں ان کا کبھی گمان و خیال پیدا ہوا۔ اللہ کی ان نعمتوں سے واقفیت اور آگاہی تو الگ رہی (ان کا کسی کو گمان و خیال بھی پیدا نہیں ہوا) ۔ پھر نبی کریم ﷺ نے اس آیت کی تلاوت کی فلا تعلم نفس ما أخفي لهم من قرة أعين جزاء بما کانوا يعملون کہ سو کسی نفس مومن کو معلوم نہیں جو جو سامان آنکھوں کی ٹھنڈک کا (جنت میں) ان کے لیے چھپا کر رکھا گیا ہے، یہ بدلہ ہے ان کے نیک عملوں کا جو دنیا میں کرتے رہے۔
باب: آیت کی تفسیر یعنی ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مومنین کے ساتھ خود ان کے نفس سے بھی زیادہ تعلق رکھتے ہیں“۔
ہم سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن فلیح نے، کہا مجھ سے میرے والد نے، ان سے ہلال بن علی نے اور ان سے عبدالرحمٰن بن ابی عمرہ نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کوئی مومن ایسا نہیں کہ میں خود اس کے نفس سے بھی زیادہ اس سے اور آخرت میں تعلق نہ رکھتا ہوں، اگر تمہارا جی چاہے تو یہ آیت پڑھ لو النبي أولى بالمؤمنين من أنفسهم کہ نبی مؤمنین کے ساتھ خود ان کے نفس سے بھی زیادہ تعلق رکھتے ہے۔ پس جو مومن بھی (مرنے کے بعد) ترکہ مال و اسباب چھوڑے اور کوئی ان کا ولی وارث نہیں ہے اس کے عزیز و اقارب جو بھی ہوں، اس کے مال کے وارث ہوں گے، لیکن اگر کسی مومن نے کوئی قرض چھوڑا ہے یا اولاد چھوڑی ہے تو وہ میرے پاس آجائیں ان کا ذمہ دار میں ہوں۔
باب: آیت کی تفسیر یعنی ”ان (آزاد شدہ غلاموں کو) ان کے حقیقی باپوں کی طرف منسوب کیا کرو“۔
ہم سے معلی بن اسد نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن مختار نے بیان کیا، کہا ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے سالم نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے آزاد کئے ہوئے غلام زید بن حارثہ کو ہم ہمیشہ زید بن محمد کہہ کر پکارا کرتے تھے، یہاں تک کہ قرآن کریم میں آیت نازل ہوئی ادعوهم لآبائهم هو أقسط عند الله کہ انہیں ان کے باپوں کی طرف منسوب کرو کہ یہی اللہ کے نزدیک سچی اور ٹھیک بات ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”سو ان میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنی نذر پوری کر چکے اور کچھ ان میں سے وقت آنے کا انتظار کر رہے ہیں اور انہوں نے اپنے عہد میں ذرا فرق نہیں آنے دیا“۔
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن عبداللہ انصاری نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، ان سے ثمامہ نے اور ان سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ ہمارے خیال میں یہ آیت انس بن نضر کے بارے میں نازل ہوئی تھی من المؤمنين رجال صدقوا ما عاهدوا الله عليه کہ اہل ایمان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ انہوں نے اللہ سے جو عہد کیا تھا اس میں وہ سچے اترے۔
باب: آیت کی تفسیر ”سو ان میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنی نذر پوری کر چکے اور کچھ ان میں سے وقت آنے کا انتظار کر رہے ہیں اور انہوں نے اپنے عہد میں ذرا فرق نہیں آنے دیا“۔
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، کہا مجھ کو خارجہ بن زید بن ثابت (رض) نے خبر دی اور ان سے زید بن ثابت (رض) نے بیان کیا کہ جب ہم قرآن مجید کو مصحف کی صورت میں جمع کر رہے تھے تو مجھے سورة الاحزاب کی ایک آیت (کہیں لکھی ہوئی) نہیں مل رہی تھی۔ میں وہ آیت رسول اللہ ﷺ سے سن چکا تھا۔ آخر وہ مجھے خزیمہ انصاری (رض) کے پاس ملی جن کی شہادت کو رسول اللہ ﷺ نے دو مومن مردوں کی شہادت کے برابر قرار دیا تھا۔ وہ آیت یہ تھی من المؤمنين رجال صدقوا ما عاهدوا الله عليه اہل ایمان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ انہوں نے اللہ سے جو عہد کیا تھا اس میں وہ سچے اترے۔
باب: آیت کی تفسیر ”اے نبی! آپ اپنی بیویوں سے فرما دیجئیے کہ اگر تم دنیوی زندگی اور اس کی زیب و زینت کا ارادہ رکھتی ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ دنیوی اسباب دے دلا کر خوبی کے ساتھ رخصت کر دوں“۔
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، کہا کہ مجھے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے خبر دی اور انہیں نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ عائشہ (رض) نے خبر دی کہ جب اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا کہ نبی کریم ( ﷺ ) اپنی ازواج کو (آپ کے سامنے رہنے یا آپ سے علیحدگی کا) اختیار دیں تو آپ عائشہ (رض) کے پاس بھی تشریف لے گئے اور فرمایا کہ میں تم سے ایک معاملہ کے متعلق کہنے آیا ہوں ضروری نہیں کہ تم اس میں جلد بازی سے کام لو، اپنے والدین سے بھی مشورہ کرسکتی ہو۔ نبی کریم ﷺ تو جانتے ہی تھے کہ میرے والد کبھی آپ سے جدائی کا مشورہ نہیں دے سکتے۔ عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ پھر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے يا أيها النبي قل لأزواجک کہ اے نبی ! اپنی بیویوں سے فرما دیجئیے آخر آیت تک۔ میں نے عرض کیا، لیکن کس چیز کے لیے مجھے اپنے والدین سے مشورہ کی ضرورت ہے، کھلی ہوئی بات ہے کہ میں اللہ، اس کے رسول اور عالم آخرت کو چاہتی ہوں۔
باب: آیت کی تفسیر ”اے نبی کی بیویو! اگر تم اللہ کو، اس کے رسول کو اور عالم آخرت کو چاہتی ہو تو اللہ نے تم میں سے نیک عمل کرنے والیوں کے لیے بہت بڑا ثواب تیار رکھا ہے“۔
اور لیث نے بیان کیا کہ مجھ سے یونس نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، کہا مجھے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے خبر دی اور ان سے نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ ﷺ کو حکم ہوا کہ اپنی ازواج کو اختیار دیں تو آپ ﷺ میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ میں تم سے ایک معاملہ کے متعلق کہنے آیا ہوں، ضروری نہیں کہ تم جلدی کرو، اپنے والدین سے بھی مشورہ لے سکتی ہو۔ انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کو تو معلوم ہی تھا کہ میرے والدین آپ سے جدائی کا کبھی مشورہ نہیں دے سکتے۔ عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ پھر نبی کریم ﷺ نے (وہ آیت جس میں یہ حکم تھا) پڑھی کہ اللہ پاک کا ارشاد ہے يا أيها النبي قل لأزواجک إن کنتن تردن الحياة الدنيا وزينتها اے نبی ! اپنی بیویوں سے فرما دیجئیے کہ اگر تم دنیوی زندگی اور اس کی زینت کو چاہتی ہو سے أجرا عظيما تک۔ عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا لیکن اپنے والدین سے مشورہ کی کس بات کے لیے ضرورت ہے، ظاہر ہے کہ میں اللہ اور اس کے رسول اور عالم آخرت کو چاہتی ہوں۔ بیان کیا کہ پھر دوسری ازواج مطہرات نے بھی وہی کہا جو میں کہہ چکی تھی۔ اس کی متابعت موسیٰ بن اعین نے معمر سے کی ہے کہ ان سے زہری نے بیان کیا کہ انہیں ابوسلمہ نے خبر دی اور عبدالرزاق اور ابوسفیان معمری نے معمر سے بیان کیا، ان سے زہری نے، اور ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ (رض) نے۔
باب: آیت کی تفسیر ”اے نبی کی بیویو! اگر تم اللہ کو، اس کے رسول کو اور عالم آخرت کو چاہتی ہو تو اللہ نے تم میں سے نیک عمل کرنے والیوں کے لیے بہت بڑا ثواب تیار رکھا ہے“۔
ہم سے محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا، کہا ہم سے معلی بن منصور نے بیان کیا، اسے حماد بن زید نے کہا ہم سے ثابت نے بیان کیا اور ان سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ آیت وتخفي في نفسک ما الله مبديه اور آپ اپنے دل میں وہ چھپاتے رہے جسے اللہ ظاہر کرنے والا تھا۔ زینب بنت جحش (رض) اور زید بن حارثہ (رض) کے معاملہ میں نازل ہوئی تھی۔
باب: آیت کی تفسیر ”اے نبی! ان (ازواج مطہرات) میں سے آپ جس کو چاہیں اپنے سے دور رکھیں اور جس کو چاہیں اپنے نزدیک رکھیں اور جن کو آپ نے الگ کر رکھا ہو ان میں سے کسی کو پھر طلب کر لیں جب بھی آپ پر کوئی گناہ نہیں“۔
ہم سے زکریا بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام نے اپنے والد سے سن کر بیان کیا اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ جو عورتیں اپنے نفس کو رسول اللہ ﷺ کے لیے ہبہ کرنے آتی تھیں مجھے ان پر بڑی غیرت آتی تھی۔ میں کہتی کہ کیا عورت خود ہی اپنے کو کسی مرد کے لیے پیش کرسکتی ہے ؟ پھر جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی ترجئ من تشاء منهن وتؤوي إليك من تشاء ومن ابتغيت ممن عزلت فلا جناح عليك کہ ان میں سے جس کو چاہیں اپنے سے دور رکھیں اور جس کو چاہیں اپنے نزدیک رکھیں اور جن کو آپ نے الگ کر رکھا تھا اس میں سے کسی کو پھر طلب کرلیں جب بھی، آپ پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ تو میں نے کہا کہ میں تو سمجھتی ہوں کہ آپ کا رب آپ کی مراد بلا تاخیر پوری کردینا چاہتا ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”اے نبی! ان (ازواج مطہرات) میں سے آپ جس کو چاہیں اپنے سے دور رکھیں اور جس کو چاہیں اپنے نزدیک رکھیں اور جن کو آپ نے الگ کر رکھا ہو ان میں سے کسی کو پھر طلب کر لیں جب بھی آپ پر کوئی گناہ نہیں“۔
ہم سے حبان بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی، کہا ہم کو عاصم احول نے خبر دی، انہیں معاذہ نے اور انہیں عائشہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد بھی ترجئ من تشاء منهن وتؤوي إليك من تشاء ومن ابتغيت ممن عزلت فلا جناح عليك کہ ان میں سے آپ جس کو چاہیں اپنے سے دور رکھیں اور جن کو آپ نے الگ کر رکھا تھا ان میں سے کسی کو طلب کرلیں جب بھی آپ پر کوئی گناہ نہیں۔ اگر (ازواج مطہرات) میں سے کسی کی باری میں کسی دوسری بیوی کے پاس جانا چاہتے تو جن کی باری ہوتی ان سے اجازت لیتے تھے (معاذہ نے بیان کیا کہ) میں نے اس پر عائشہ (رض) سے پوچھا کہ ایسی صورت میں آپ نبی کریم ﷺ سے کیا کہتی تھیں ؟ انہوں نے فرمایا کہ میں تو یہ عرض کردیتی تھی کہ یا رسول اللہ ! اگر یہ اجازت آپ مجھ سے لے رہے ہیں تو میں تو اپنی باری کا کسی دوسرے پر ایثار نہیں کرسکتی۔ اس روایت کی متابعت عباد بن عباد نے کی، انہوں نے عاصم سے سنا۔
باب: آیت کی تفسیر ”اے نبی! ان (ازواج مطہرات) میں سے آپ جس کو چاہیں اپنے سے دور رکھیں اور جس کو چاہیں اپنے نزدیک رکھیں اور جن کو آپ نے الگ کر رکھا ہو ان میں سے کسی کو پھر طلب کر لیں جب بھی آپ پر کوئی گناہ نہیں“۔
ہم سے مسدد نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن سعید قطان نے، ان سے حمید طویل نے اور ان سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ عمر (رض) نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! آپ کے پاس اچھے برے ہر طرح کے لوگ آتے ہیں، کاش آپ ازواج مطہرات کو پردہ کا حکم دے دیں۔ اس کے بعد اللہ نے پردہ کا حکم اتارا۔
باب: آیت کی تفسیر یعنی اے ایمان والو! نبی کے گھروں میں مت جایا کرو۔ سوائے اس وقت کے جب تمہیں کھانے کے لیے (آنے کی) اجازت دی جائے، ایسے طور پر کہ اس کی تیاری کے منتظر نہ بیٹھے رہو، البتہ جب تم کو بلایا جائے تب جایا کرو۔ پھر جب کھانا کھا چکو تو اٹھ کر چلے جایا کرو اور وہاں باتوں میں جی لگا کر مت بیٹھے رہا کرو۔ اس بات سے نبی کو تکلیف ہوتی ہے سودہ تمہارا لحاظ کرتے ہیں اور اللہ صاف بات کہنے سے (کسی کا) لحاظ نہیں کرتا اور جب تم ان (رسول کی ازواج) سے کوئی چیز مانگو تو ان سے پردے کے باہر سے مانگا کرو، یہ تمہارے اور ان کے دلوں کے پاک رہنے کا عمدہ ذریعہ ہے اور تمہیں جائز نہیں کہ تم رسول اللہ کو (کسی طرح بھی) تکلیف پہنچاؤ اور نہ یہ کہ آپ کے بعد آپ کی بیویوں سے کبھی بھی نکاح کرو، بیشک یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑی بات ہے“۔
ہم سے محمد بن عبداللہ رقاشی نے بیان کیا، کہا ہم سے معتمر بن سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ میں نے اپنے والد سے سنا، انہوں نے بیان کیا ہم سے ابومجلز نے بیان کیا اور ان سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا جب رسول اللہ ﷺ نے زینب بنت جحش (رض) سے نکاح کیا تو قوم کو آپ نے دعوت ولیمہ دی، کھانا کھانے کے بعد لوگ (گھر کے اندر ہی) بیٹھے (دیر تک) باتیں کرتے رہے۔ نبی کریم ﷺ نے ایسا کیا گویا آپ اٹھنا چاہتے ہیں (تاکہ لوگ سمجھ جائیں اور اٹھ جائیں) لیکن کوئی بھی نہیں اٹھا، جب آپ نے دیکھا کہ کوئی نہیں اٹھتا تو آپ ﷺ کھڑے ہوگئے۔ جب آپ ﷺ کھڑے ہوئے تو دوسرے لوگ بھی کھڑے ہوگئے، لیکن تین آدمی اب بھی بیٹھے رہ گئے۔ نبی کریم ﷺ جب باہر سے اندر جانے کے لیے آئے تو دیکھا کہ کچھ اب بھی بیٹھے ہوئے ہیں۔ اس کے بعد وہ لوگ بھی اٹھ گئے تو میں نے آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر خبر دی کہ وہ لوگ بھی چلے گئے ہیں تو آپ اندر تشریف لائے۔ میں نے بھی چاہا کہ اندر جاؤں، لیکن نبی کریم ﷺ نے اپنے اور میرے بیچ میں دروازہ کا پردہ گرا لیا، اس کے بعد آیت (مذکورہ بالا) نازل ہوئی يا أيها الذين آمنوا لا تدخلوا بيوت النبي کہ اے ایمان والو ! نبی کے گھروں میں مت جایا کرو۔ آخر آیت تک۔
باب: آیت کی تفسیر یعنی اے ایمان والو! نبی کے گھروں میں مت جایا کرو۔ سوائے اس وقت کے جب تمہیں کھانے کے لیے (آنے کی) اجازت دی جائے، ایسے طور پر کہ اس کی تیاری کے منتظر نہ بیٹھے رہو، البتہ جب تم کو بلایا جائے تب جایا کرو۔ پھر جب کھانا کھا چکو تو اٹھ کر چلے جایا کرو اور وہاں باتوں میں جی لگا کر مت بیٹھے رہا کرو۔ اس بات سے نبی کو تکلیف ہوتی ہے سودہ تمہارا لحاظ کرتے ہیں اور اللہ صاف بات کہنے سے (کسی کا) لحاظ نہیں کرتا اور جب تم ان (رسول کی ازواج) سے کوئی چیز مانگو تو ان سے پردے کے باہر سے مانگا کرو، یہ تمہارے اور ان کے دلوں کے پاک رہنے کا عمدہ ذریعہ ہے اور تمہیں جائز نہیں کہ تم رسول اللہ کو (کسی طرح بھی) تکلیف پہنچاؤ اور نہ یہ کہ آپ کے بعد آپ کی بیویوں سے کبھی بھی نکاح کرو، بیشک یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑی بات ہے“۔
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے، ان سے ابوقلابہ نے کہ انس بن مالک (رض) نے کہا کہ اس آیت یعنی آیت پردہ (کے شان نزول) کے متعلق میں سب سے زیادہ جانتا ہوں، جب زینب (رض) سے رسول اللہ ﷺ نے نکاح کیا اور وہ آپ کے ساتھ آپ کے گھر ہی میں تھیں تو آپ ﷺ نے کھانا تیار کروایا اور قوم کو بلایا (کھانے سے فارغ ہونے کے بعد) لوگ بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ نبی کریم ﷺ باہر جاتے اور پھر اندر آتے (تاکہ لوگ اٹھ جائیں) لیکن لوگ بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی يا أيها الذين آمنوا لا تدخلوا بيوت النبي إلا أن يؤذن لکم إلى طعام غير ناظرين إناه کہ اے ایمان والو ! نبی کے گھروں میں مت جایا کرو۔ سوائے اس وقت کے جب تمہیں (کھانے کے لیے) آنے کی اجازت دی جائے۔ ایسے طور پر کہ اس کی تیاری کے منتظر نہ رہو۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد من وراء حجاب تک اس کے بعد پردہ ڈال دیا گیا اور لوگ کھڑے ہوگئے۔
باب: آیت کی تفسیر یعنی اے ایمان والو! نبی کے گھروں میں مت جایا کرو۔ سوائے اس وقت کے جب تمہیں کھانے کے لیے (آنے کی) اجازت دی جائے، ایسے طور پر کہ اس کی تیاری کے منتظر نہ بیٹھے رہو، البتہ جب تم کو بلایا جائے تب جایا کرو۔ پھر جب کھانا کھا چکو تو اٹھ کر چلے جایا کرو اور وہاں باتوں میں جی لگا کر مت بیٹھے رہا کرو۔ اس بات سے نبی کو تکلیف ہوتی ہے سودہ تمہارا لحاظ کرتے ہیں اور اللہ صاف بات کہنے سے (کسی کا) لحاظ نہیں کرتا اور جب تم ان (رسول کی ازواج) سے کوئی چیز مانگو تو ان سے پردے کے باہر سے مانگا کرو، یہ تمہارے اور ان کے دلوں کے پاک رہنے کا عمدہ ذریعہ ہے اور تمہیں جائز نہیں کہ تم رسول اللہ کو (کسی طرح بھی) تکلیف پہنچاؤ اور نہ یہ کہ آپ کے بعد آپ کی بیویوں سے کبھی بھی نکاح کرو، بیشک یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑی بات ہے“۔
ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن صہیب نے بیان کیا اور ان سے انس (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے زینب بنت جحش (رض) سے نکاح کے بعد (بطور ولیمہ) گوشت اور روٹی تیار کروائی اور مجھے کھانے پر لوگوں کو بلانے کے لیے بھیجا، پھر کچھ لوگ آئے اور کھا کر واپس چلے گئے۔ پھر دوسرے لوگ آئے اور کھا کر واپس چلے، میں بلاتا رہا۔ آخر جب کوئی باقی نہیں رہا تو میں نے عرض کیا : اے اللہ کے نبی ! اب تو کوئی باقی نہیں رہا جس کو میں دعوت دوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب دستر خوان اٹھا لو لیکن تین اشخاص گھر میں باتیں کرتے رہے۔ نبی کریم ﷺ باہر نکل آئے اور عائشہ (رض) کے حجرہ کے سامنے جا کر فرمایا السلام علیکم اہل البیت ورحمۃ اللہ۔ انہوں نے کہا وعلیک السلام ورحمۃ اللہ، اپنی اہل کو آپ نے کیسا پایا ؟ اللہ برکت عطا فرمائے۔ نبی کریم ﷺ اسی طرح تمام ازواج مطہرات کے حجروں کے سامنے گئے اور جس طرح عائشہ (رض) سے فرمایا تھا اس طرح سب سے فرمایا اور انہوں نے بھی عائشہ (رض) کی طرح جواب دیا۔ اس کے بعد نبی کریم ﷺ واپس تشریف لائے تو وہ تین آدمی اب بھی گھر میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ نبی کریم ﷺ بہت زیادہ حیاء دار تھے، آپ (یہ دیکھ کر کہ لوگ اب بھی بیٹھے ہوئے ہیں) عائشہ (رض) کے حجرہ کی طرف پھر چلے گئے، مجھے یاد نہیں کہ اس کے بعد میں نے یا کسی اور نے آپ کو جا کر خبر کی کہ اب وہ تینوں آدمی روانہ ہوچکے ہیں۔ پھر نبی کریم ﷺ اب واپس تشریف لائے اور پاؤں چوکھٹ پر رکھا۔ ابھی آپ کا ایک پاؤں اندر تھا اور ایک پاؤں باہر کہ آپ نے پردہ گرا لیا اور پردہ کی آیت نازل ہوئی۔
باب: آیت کی تفسیر یعنی اے ایمان والو! نبی کے گھروں میں مت جایا کرو۔ سوائے اس وقت کے جب تمہیں کھانے کے لیے (آنے کی) اجازت دی جائے، ایسے طور پر کہ اس کی تیاری کے منتظر نہ بیٹھے رہو، البتہ جب تم کو بلایا جائے تب جایا کرو۔ پھر جب کھانا کھا چکو تو اٹھ کر چلے جایا کرو اور وہاں باتوں میں جی لگا کر مت بیٹھے رہا کرو۔ اس بات سے نبی کو تکلیف ہوتی ہے سودہ تمہارا لحاظ کرتے ہیں اور اللہ صاف بات کہنے سے (کسی کا) لحاظ نہیں کرتا اور جب تم ان (رسول کی ازواج) سے کوئی چیز مانگو تو ان سے پردے کے باہر سے مانگا کرو، یہ تمہارے اور ان کے دلوں کے پاک رہنے کا عمدہ ذریعہ ہے اور تمہیں جائز نہیں کہ تم رسول اللہ کو (کسی طرح بھی) تکلیف پہنچاؤ اور نہ یہ کہ آپ کے بعد آپ کی بیویوں سے کبھی بھی نکاح کرو، بیشک یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑی بات ہے“۔
ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن بکر سہمی نے خبر دی، کہا ہم سے حمید طویل نے بیان کیا کہ انس بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے زینب بنت جحش (رض) سے نکاح پر دعوت ولیمہ کی اور گوشت اور روٹی لوگوں کو کھلائی۔ پھر امہات المؤمنین کے حجروں کی طرف گئے، جیسا کہ آپ کا معمول تھا کہ نکاح کی صبح کو آپ جایا کرتے تھے، آپ انہیں سلام کرتے اور ان کے حق میں دعا کرتے اور امہات المؤمنین بھی آپ کو سلام کرتیں اور آپ کے لیے دعا کرتیں۔ امہات المؤمنین کے حجروں سے جب آپ اپنے حجرہ میں واپس تشریف لائے تو آپ نے دیکھا کہ دو آدمی آپس میں گفتگو کر رہے ہیں۔ جب آپ نے انہیں بیٹھے ہوئے دیکھا تو پھر آپ حجرہ سے نکل گئے۔ ان دونوں نے جب دیکھا کہ اللہ کے نبی اپنے حجرہ سے واپس چلے گئے ہیں تو بڑی جلدی جلدی وہ اٹھ کر باہر نکل گئے۔ مجھے یاد نہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو ان کے چلے جانے کی اطلاع دی یا کسی اور نے پھر نبی کریم ﷺ واپس آئے اور گھر میں آتے ہی دروازہ کا پردہ گرا لیا اور آیت حجاب نازل ہوئی۔ اور سعید ابن ابی مریم نے بیان کیا کہ ہم کو یحی ٰبن کثیر نے خبر دی، کہا مجھ سے حمید طویل نے بیان کیا اور انہوں نے انس (رض) سے سنا، انہوں نے نبی کریم ﷺ سے نقل کیا۔
باب: آیت کی تفسیر یعنی اے ایمان والو! نبی کے گھروں میں مت جایا کرو۔ سوائے اس وقت کے جب تمہیں کھانے کے لیے (آنے کی) اجازت دی جائے، ایسے طور پر کہ اس کی تیاری کے منتظر نہ بیٹھے رہو، البتہ جب تم کو بلایا جائے تب جایا کرو۔ پھر جب کھانا کھا چکو تو اٹھ کر چلے جایا کرو اور وہاں باتوں میں جی لگا کر مت بیٹھے رہا کرو۔ اس بات سے نبی کو تکلیف ہوتی ہے سودہ تمہارا لحاظ کرتے ہیں اور اللہ صاف بات کہنے سے (کسی کا) لحاظ نہیں کرتا اور جب تم ان (رسول کی ازواج) سے کوئی چیز مانگو تو ان سے پردے کے باہر سے مانگا کرو، یہ تمہارے اور ان کے دلوں کے پاک رہنے کا عمدہ ذریعہ ہے اور تمہیں جائز نہیں کہ تم رسول اللہ کو (کسی طرح بھی) تکلیف پہنچاؤ اور نہ یہ کہ آپ کے بعد آپ کی بیویوں سے کبھی بھی نکاح کرو، بیشک یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑی بات ہے“۔
ہم سے زکریا بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے ہشام نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ ام المؤمنین سودہ (رض) پردہ کا حکم نازل ہونے کے بعد قضائے حاجت کے لیے نکلیں وہ بہت بھاری بھر کم تھیں جو انہیں جانتا تھا اس سے پوشیدہ نہیں رہ سکتی تھیں۔ راستے میں عمر بن خطاب (رض) نے انہیں دیکھ لیا اور کہا کہ اے سودہ ! ہاں اللہ کی قسم ! آپ ہم سے اپنے آپ کو نہیں چھپا سکتیں دیکھئیے تو آپ کس طرح باہر نکلی ہیں۔ بیان کیا کہ سودہ (رض) الٹے پاؤں وہاں سے واپس آگئیں، رسول اللہ ﷺ اس وقت میرے حجرہ میں تشریف رکھتے تھے اور رات کا کھانا کھا رہے تھے۔ نبی کریم ﷺ کے ہاتھ میں اس وقت گوشت کی ایک ہڈی تھی۔ سودہ (رض) نے داخل ہوتے ہی کہا : یا رسول اللہ ! میں قضائے حاجت کے لیے نکلی تھی تو عمر (رضی اللہ عنہ) نے مجھ سے باتیں کیں، بیان کیا کہ آپ ﷺ پر وحی کا نزول شروع ہوگیا اور تھوڑی دیر بعد یہ کیفیت ختم ہوئی، ہڈی اب بھی آپ کے ہاتھ میں تھی۔ آپ نے اسے رکھا نہیں تھا۔ پھر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تمہیں (اللہ کی طرف سے) قضائے حاجت کے لیے باہر جانے کی اجازت دے دی گئی ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”اے مسلمانو! اگر تم کسی چیز کو ظاہر کرو گے یا اسے (دل میں) پوشیدہ رکھو گے تو اللہ ہر چیز کو خوب جانتا ہے، ان (رسول کی بیویوں) پر کوئی گناہ نہیں، سامنے آنے میں اپنے باپوں کے اور اپنے بیٹوں کے اور اپنے بھائیوں کے اور اپنے بھانجوں کے اور اپنی (دینی بہنوں) عورتوں کے اور نہ اپنی باندیوں کے اور اللہ سے ڈرتی رہو، بیشک اللہ ہر چیز پر (اپنے علم کے لحاظ سے) موجود اور دیکھنے والا ہے“۔
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، ان سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا، ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ پردہ کا حکم نازل ہونے کے بعد ابوالقعیس کے بھائی افلح (رض) نے مجھ سے ملنے کی اجازت چاہی، لیکن میں نے کہلوا دیا کہ جب تک اس سلسلے میں رسول اللہ ﷺ سے اجازت حاصل نہ لے لوں، ان سے نہیں مل سکتی۔ میں نے سوچا کہ ان کے بھائی ابوالقعیس نے مجھے تھوڑا ہی دودھ پلایا تھا، دودھ پلانے والی تو ابوالقعیس کی بیوی تھی۔ پھر نبی کریم ﷺ تشریف لائے تو میں نے آپ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ابوالقعیس کے بھائی افلح (رض) نے مجھ سے ملنے کی اجازت چاہی، لیکن میں نے یہ کہلوا دیا کہ جب تک نبی کریم ﷺ سے اجازت نہ لے لوں ان سے ملاقات نہیں کرسکتی۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے چچا سے ملنے سے تم نے کیوں انکار کردیا۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! ابوالقعیس نے مجھے تھوڑا ہی دودھ پلایا تھا، دودھ پلانے والی تو ان کی بیوی تھیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا انہیں اندر آنے کی اجازت دے دو وہ تمہارے چچا ہیں۔ عروہ نے بیان کیا کہ اسی وجہ سے عائشہ (رض) فرماتی تھیں کہ رضاعت سے بھی وہ چیزیں (مثلاً نکاح وغیرہ) حرام ہوجاتی ہیں جو نسب کی وجہ سے حرام ہوتی ہیں۔
باب: آیت کی تفسیر ”بیشک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھتیجے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی آپ پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو“۔
مجھ سے سعید بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، کہا ہم سے مسعر نے بیان کیا، ان سے حکم نے، ان سے ابن ابی لیلیٰ نے اور ان سے کعب بن عجرہ (رض) نے کہ عرض کیا گیا : یا رسول اللہ ! آپ پر سلام کا طریقہ تو ہمیں معلوم ہوگیا ہے، لیکن آپ پر صلاة کا کیا طریقہ ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یوں پڑھا کرو اللهم صل على محمد وعلى آل محمد، كما صليت على آل إبراهيم، إنک حميد مجيد، اللهم بارک على محمد وعلى آل محمد، كما بارکت على آل إبراهيم، إنک حميد مجيد.۔
اللہ تعالیٰ کا قول کہ بے شک اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں نبی پر اے ایمان والو! تم بھی درود و رحمت اور سلام بھیجا کرو اور سلامتی کی دعا کیا کرو ابوالعالیہ کہتے ہیں کہ صلوۃ سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں کے پاس ان کی تعریف کرتے ہیں فرشتوں کی صلوۃ سے دعا مراد ہے ابن عباس کہتے ہیں کہ "یصلون" برکت کی دعا کرتے ہیں "لنغرینک" غالب کریں گے ہم تم کو۔
ہم سے ابراہیم بن حمزہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن ابی حازم اور دراوردی نے بیان کیا، اور ان سے یزید نے اور انہوں نے اس طرح بیان کیا کہ كما صليت على إبراهيم، و بارک على محمد وآل محمد کما بارکت على إبراهيم وآل إبراهيم اس روایت میں ذرا لفظوں میں کمی بیشی ہے اور ان الفاظ میں بھی یہ درود پڑھنا جائز ہے معنی میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
باب
معاجزين کے معنی آگے بڑھنے والے۔ بمعجزين ہمارے ہاتھ سے نکل جانے والے۔ سبقوا کے معنی ہمارے ہاتھ سے نکل گئے۔ لا يعجزون ہمارے ہاتھ سے نہیں نکل سکتے۔ يسبقونا ہم کو عاجز کرسکیں گے۔ بمعجزين عاجز کرنے والے (جیسے مشہور قرآت ہے) اور معاجزين (جو دوسری قرآت ہے) اس کا معنی ایک دوسرے پر غلبہ ڈھونڈنے والے ایک دوسرے کا عجز ظاہر کرنے والے۔ معشار کا معنی دسواں حصہ۔ لأكل پھل۔ باعد (جیسے مشہور قرآت ہے) اور بعد جو ابن کثیر کی قرآت ہے دونوں کا معنی ایک ہے اور مجاہد نے کہا لا يعزب کا معنی اس سے غائب نہیں ہوتا۔ العرم وہ بند یا ایک لال پانی تھا جس کو اللہ پاک نے بند پر بھیجا وہ پھٹ کر گرگیا اور میدان میں گڑھا پڑگیا۔ باغ دونوں طرف سے اونچے ہوگئے پھر پانی غائب ہوگیا۔ دونوں باغ سوکھ گئے اور یہ لال پانی بند میں سے بہہ کر نہیں آیا تھا بلکہ اللہ کا عذاب تھا جہاں سے چاہا وہاں سے بھیجا اور عمرو بن شرحبیل نے کہا عرم کہتے ہیں بند کو یمن والوں کی زبان میں۔ دوسروں نے کہا کہ عرم کے معنی نالے کے ہیں۔ السابغات کے معنی زرہیں۔ مجاہد نے کہا۔ يجازى کے معنی عذاب دیئے جاتے ہیں۔ أعظکم بواحدة یعنی میں تم کو اللہ کی اطاعت کرنے کی نصیحت کرتا ہوں۔ مثنى دو دو کو۔ فرادى ایک ایک کو کہتے ہیں۔ التناوش آخرت سے پھر دنیا میں آنا (جو ممکن نہیں ہے) ۔ ما يشتهون ان کی خواہشات مال و اولاد دنیا کی زیب و زینت۔ بأشياعهم ان کی جوڑ والے دوسرے کافر۔ ابن عباس (رض) نے کہا کالجواب جیسے پانی بھرنے کے گڑھے جیسے جوبته کہتے ہیں حوض کو۔ امام بخاری (رح) کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جواب اور جوبة کا مادہ ایک ہے کیونکہ جوابى ، جابية کا جمع ہے۔ اس کا عین کلمہ ب اور جوبة کا عین کلمہ واؤ ہے۔ خمط پیلو کا درخت۔ لأثل جھاؤ کا درخت۔ العرم سخت زور کی (بارش) ۔
باب: آیت کی تفسیر ”یہ رسول تو تم کو بس ایک سخت عذاب (دوزخ) کے آنے سے پہلے ڈرانے والے ہیں“۔
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن حازم نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے عمرو بن مرہ نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ صفا پہاڑی پر چڑھے اور پکارا : یا صباحاہ ! (لوگو دوڑو) اس آواز پر قریش جمع ہوگئے اور پوچھا کیا بات ہے ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تمہاری کیا رائے ہے اگر میں تمہیں بتاؤں کہ دشمن صبح کے وقت یا شام کے وقت تم پر حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم میری بات کی تصدیق نہیں کرو گے ؟ انہوں نے کہا کہ ہم آپ کی تصدیق کریں گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر میں تم کو سخت ترین عذاب (دوزخ) سے پہلے ڈرانے والا ہوں۔ ابولہب (مردود) بولا تو ہلاک ہوجا، کیا تو نے اسی لیے ہمیں بلایا تھا۔ اس پر اللہ پاک نے آیت تبت يدا أبي لهب نازل فرمائی۔
باب: آیت «والشمس تجري لمستقر لها ذلك تقدير العزيز العليم» کی تفسیر۔
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے ابراہیم تیمی نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابوذر (رض) نے بیان کیا کہ آفتاب غروب ہونے کے وقت میں مسجد میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ موجود تھا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ابوذر ! تمہیں معلوم ہے یہ آفتاب کہاں غروب ہوتا ہے ؟ میں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ چلتا رہتا ہے یہاں تک کہ عرش کے نیچے سجدہ کرتا ہے جیسا کہ ارشاد باری ہے والشمس تجري لمستقر لها ذلک تقدير العزيز العليم کہ اور آفتاب اپنے ٹھکانے کی طرف چلتا رہتا ہے، یہ زبردست علم والے کا ٹھہرایا ہوا اندازہ ہے۔
باب: آیت «والشمس تجري لمستقر لها ذلك تقدير العزيز العليم» کی تفسیر۔
ہم سے حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے وکیع نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے ابراہیم تیمی نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابوذر (رض) نے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے اللہ تعالیٰ کے فرمان والشمس تجري لمستقر لها اور سورج اپنے ٹھکانے کی طرف چلتا رہتا ہے۔ کے متعلق سوال کیا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اس کا ٹھکانا عرش کے نیچے ہے۔
باب: آیت کی تفسیر میں ”بلاشبہ یونس رسولوں میں سے تھے“۔
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابو وائل نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کسی کے لیے مناسب نہیں کہ وہ یونس بن متی (علیہ السلام) سے بہتر ہونے کا دعویٰ کرے۔
باب: آیت کی تفسیر میں ”بلاشبہ یونس رسولوں میں سے تھے“۔
مجھ سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے محمد بن فلیح نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، ان سے بنی عامر بن لوی کے ہلال بن علی نے، ان سے عطاء بن یسار نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص یہ دعویٰ کرے کہ میں یونس بن متی (علیہ السلام) سے بہتر ہوں وہ جھوٹا ہے۔
باب: سورۃ ص کی تفسیر۔
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عوام بن حوشب نے کہ میں نے مجاہد سے سورة ص میں سجدہ کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ یہ سوال ابن عباس (رض) سے بھی کیا گیا تھا تو انہوں نے اس آیت کی تلاوت کی أولئك الذين هدى الله فبهداهم اقتده یہی وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت دی تھی پس آپ بھی انہی کی ہدایت کی اتباع کریں۔ اور ابن عباس (رض) اس میں سجدہ کیا کرتے تھے۔
باب: سورۃ ص کی تفسیر۔
مجھ سے محمد بن عبداللہ ذہلی نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن عبید طنافسی نے، ان سے عوام بن حوشب نے بیان کیا کہ میں نے مجاہد سے سورة ص میں سجدہ کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میں نے ابن عباس (رض) سے پوچھا تھا کہ اس سورت میں آیت سجدہ کے لیے دلیل کیا ہے ؟ انہوں نے کہا کیا تم (سورت انعام) میں یہ نہیں پڑھتے ومن ذريته داود وسليمان کہ اور ان کی نسل سے داؤد اور سلیمان ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ نے یہ ہدایت دی تھی، سو آپ بھی ان کی ہدایت کی اتباع کریں۔ داؤد (علیہ السلام) بھی ان میں سے تھے جن کی اتباع کا نبی کریم ﷺ کو حکم تھا (چونکہ داؤد (علیہ السلام) کے سجدہ کا اس میں ذکر ہے اس لیے نبی کریم ﷺ نے بھی اس موقع پر سجدہ کیا) ۔ عجاب کا معنی عجیب۔ القط کہتے ہیں کاغذ کے ٹکڑے (پرچے) کو یہاں نیکیوں کا پرچہ مراد ہے (یا حساب کا پرچہ) ۔ اور مجاہد (رح) نے کہا في عزة کا معنی یہ ہے کہ وہ شرارت و سرکشی کرنے والے ہیں۔ الملة الآخرة سے مراد قریش کا دین ہے۔ اختلاق سے مراد جھوٹ۔ الأسباب آسمان کے راستے، دروازے مراد ہیں۔ جند ما هنالک مهزوم الایۃ سے قریش کے لوگ مراد ہیں۔ أولئك الأحزاب سے اگلی امتیں مراد ہیں۔ جن پر اللہ کا عذاب اترا۔ فواق کا معنی پھرنا، لوٹنا۔ عجل لنا قطنا میں قط سے عذاب مراد ہے۔ اتخذناهم سخريا ہم نے ان کو ٹھٹھے میں گھیر لیا تھا۔ أتراب جوڑ والے۔ اور ابن عباس (رض) نے کہا أيد کا معنی عبادت کی قوت۔ الأبصار اللہ کے کاموں کو غور سے دیکھنے والے۔ حب الخير عن ذکر ربي میں عن من کے معنی میں ہے۔ طفق مسحا گھوڑوں کے پاؤں اور ایال پر محبت سے ہاتھ پھیرنا شروع کیا۔ یا بقول بعض تلوار سے ان کو کاٹنے لگے۔ الأصفاد کے معنی زنجیریں۔
باب: آیت کی تفسیر میں ”اور مجھے ایسی سلطنت دے کہ میرے بعد کسی کو میسر نہ ہو، بیشک تو بہت بڑا دینے والا ہے“۔
ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے روح بن عبادہ اور محمد بن جعفر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، سے محمد بن زیاد نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ گزشتہ رات ایک سرکش جِن اچانک میرے پاس آیا، یا اسی طرح کا کلمہ آپ ﷺ نے فرمایا تاکہ میری نماز خراب کرے لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے اس پر قدرت دے دی اور میں نے سوچا کہ اسے مسجد کے ستون سے باندھ دوں تاکہ صبح کے وقت تم سب لوگ بھی اسے دیکھ سکو۔ پھر مجھ کو اپنے بھائی سلیمان (علیہ السلام) کی دعا یاد آگئی رب هب لي ملکا لا ينبغي لأحد من بعدي کہ اے میرے رب ! مجھے ایسی سلطنت دے کہ میرے بعد کسی کو میسر نہ ہو۔ روح نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے اس جِن کو ذلت کے ساتھ بھگا دیا۔
باب: آیت کی تفسیر میں ”اور نہ میں تکلف کرنے والوں سے ہوں“۔
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابوالضحیٰ نے، ان سے مسروق نے کہ ہم عبداللہ بن مسعود (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ انہوں نے کہا : اے لوگو ! جس شخص کو کسی چیز کا علم ہو تو وہ اسے بیان کرے اگر علم نہ ہو تو کہے کہ اللہ ہی کو زیادہ علم ہے کیونکہ یہ بھی علم ہی ہے کہ جو چیز نہ جانتا ہو اس کے متعلق کہہ دے کہ اللہ ہی زیادہ جاننے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ سے بھی کہہ دیا تھا قل ما أسألكم عليه من أجر وما أنا من المتکلفين کہ آپ کہہ دیجئیے کہ میں تم سے اس قرآن یا تبلیغ وحی پر کوئی اجرت نہیں چاہتا ہوں اور نہ میں بناوٹ کرنے والا ہوں۔ اور میں دخان (دھوئیں) کے بارے میں بتاؤں گا (جس کا ذکر قرآن میں آیا ہے) رسول اللہ ﷺ نے قریش کو اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے تاخیر کی، نبی کریم ﷺ نے ان کے حق میں بددعا کی اللهم أعني عليهم بسبع کسبع يوسف اے اللہ ! ان پر یوسف (علیہ السلام) کے زمانہ کی سی قحط سالی کے ذریعہ میری مدد کر۔ چناچہ قحط پڑا اور اتنا زبردست کہ ہر چیز ختم ہوگئی اور لوگ مردار اور چمڑے کھانے پر مجبور ہوگئے۔ بھوک کی شدت کی وجہ سے یہ حال تھا کہ آسمان کی طرف دھواں ہی دھواں نظر آتا۔ اسی کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا فارتقب يوم تأتي السماء بدخان مبين * يغشى الناس هذا عذاب أليم کہ پس انتظار کرو اس دن کا جب آسمان کھلا ہوا دھواں لائے گا جو لوگوں پر چھا جائے گا یہ درد ناک عذاب ہے۔ بیان کیا کہ پھر قریش دعا کرنے لگے ربنا اکشف عنا العذاب إنا مؤمنون * أنى لهم الذکرى وقد جاء هم رسول مبين * ثم تولوا عنه وقالوا معلم مجنون * إنا کاشفو العذاب قليلا إنكم عائدون کہ اے ہمارے رب ! اس عذاب کو ہم سے ہٹا لے تو ہم ایمان لائیں گے لیکن وہ نصیحت سننے والے کہاں ہیں ان کے پاس تو رسول صاف معجزات و دلائل کے ساتھ آچکا اور وہ اس سے منہ موڑ چکے ہیں اور کہہ چکے ہیں کہ اسے تو سکھایا جا رہا ہے، یہ مجنون ہے، بیشک ہم تھوڑے دنوں کے لیے ان سے عذاب ہٹا لیں گے یقیناً تم پھر کفر ہی کی طرف لوٹ جاؤ گے کیا قیامت میں بھی عذاب ہٹایا جائے گا۔ ابن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ پھر یہ عذاب تو ان سے دور کردیا گیا لیکن جب وہ دوبارہ کفر میں مبتلا ہوگئے تو جنگ بدر میں اللہ نے انہیں پکڑا۔ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں اسی طرف اشارہ ہے يوم نبطش البطشة الکبرى إنا منتقمون کہ جس دن ہم سخت پکڑ کریں گے، بلاشبہ ہم بدلہ لینے والے ہیں۔
باب: آیت کی تفسیر ”آپ کہہ دو کہ اے میرے بندو! جو اپنے نفسوں پر زیادتیاں کر چکے ہو، اللہ کی رحمت سے ناامید مت ہو، بیشک اللہ سارے گناہ بخش دے گا، بیشک وہ بہت ہی بخشنے والا اور بڑا مہربان ہے“۔
مجھ سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو ہشام بن یوسف نے خبر دی، انہیں ابن جریج نے خبر دی، ان سے یعلیٰ بن مسلم نے بیان کیا، انہیں سعید بن جبیر نے خبر دی اور انہیں ابن عباس (رض) نے کہ مشرکین میں بعض نے قتل کا گناہ کیا تھا اور کثرت سے کیا تھا۔ اسی طرح زناکاری بھی کثرت سے کرتے رہے تھے۔ پھر وہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آئے اور عرض کیا کہ آپ جو کچھ کہتے ہیں اور جس کی طرف دعوت دیتے ہیں (یعنی اسلام) یقیناً اچھی چیز ہے، لیکن ہمیں یہ بتائیے کہ اب تک ہم نے جو گناہ کئے ہیں وہ اسلام لانے سے معاف ہوں گے یا نہیں ؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی والذين لا يدعون مع الله إلها آخر ولا يقتلون النفس التي حرم الله إلا بالحق ولا يزنون اور وہ لوگ جو اللہ کے سوا اور کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور کسی بھی جان کو قتل نہیں کرتے جس کا قتل کرنا اللہ نے حرام کیا ہے، ہاں مگر حق کے ساتھ اور یہ آیت نازل ہوئی قل يا عبادي الذين أسرفوا على أنفسهم لا تقنطوا من رحمة الله آپ کہہ دیں کہ اے میرے بندو ! جو اپنے نفسوں پر زیادتیاں کرچکے ہو، اللہ کی رحمت سے ناامید مت ہو، بیشک اللہ سارے گناہوں کو معاف کر دے گا۔ بیشک اللہ وہ بڑا ہی بخشنے والا نہایت ہی مہربان ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور ان لوگوں نے اللہ کی قدر و عظمت نہ پہچانی جیسی کہ اس کی قدر و عظمت پہچاننی چاہئے تھی“۔
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شیبان بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے ابراہیم نخعی نے، ان سے عبیدہ سلمانی نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہ علماء یہود میں سے ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہا : اے محمد ! ہم تورات میں پاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں کو ایک انگلی پر رکھ لے گا اس طرح زمین کو ایک انگلی پر، درختوں کو ایک انگلی پر، پانی اور مٹی کو ایک انگلی پر اور تمام مخلوقات کو ایک انگلی پر، پھر فرمائے گا کہ میں ہی بادشاہ ہوں۔ نبی کریم ﷺ اس پر ہنس دیئے اور آپ کے سامنے کے دانت دکھائی دینے لگے۔ آپ کا یہ ہنسنا اس یہودی عالم کی تصدیق میں تھا۔ پھر آپ ﷺ نے اس آیت کی تلاوت کی وما قدروا الله حق قدره والأرض جميعا قبضته يوم القيامة والسموات مطويات بيمينه سبحانه وتعالى عما يشرکون اور ان لوگوں نے اللہ کی عظمت نہ کی جیسی عظمت کرنا چاہیے تھی اور حال یہ کہ ساری زمین اسی کی مٹھی میں ہوگی قیامت کے دن اور آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپٹے ہوں گے، وہ ان لوگوں کے شرک سے بالکل پاک اور بلند تر ہے۔
باب: آیت «والأرض جميعا قبضته يوم القيامة والسموات مطويات بيمينه» کی تفسیر۔
ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے لیث بن سعد نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبدالرحمٰن بن خالد بن مسافر نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے اور ان سے ابوسلمہ اور ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ قیامت کے دن اللہ ساری زمین کو اپنی مٹھی میں لے گا اور آسمان کو اپنے داہنے ہاتھ میں لپیٹ لے گا۔ پھر فرمائے گا أنا الملک، أين ملوک الأرض آج حکومت صرف میری ہے، دنیا کے بادشاہ آج کہاں ہیں ؟
باب: آیت کی تفسیر میں ”اور صور پھونکا جائے گا تو سب بیہوش ہو جائیں گے جو آسمانوں اور زمین میں ہیں سوا اس کے جس کو اللہ چاہے، پھر دوبارہ صور پھونکا جائے گا تو پھر اچانک سب کے سب دیکھتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوں گے“۔
مجھ سے حسن نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن خلیل نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدالرحیم نے خبر دی، انہیں زکریا بن ابی زائدہ نے، انہیں عامر نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ آخری مرتبہ صور پھونکے جانے کے بعد سب سے پہلے اپنا سر اٹھانے والا میں ہوں گا لیکن اس وقت میں موسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھوں گا کہ عرش کے ساتھ لپٹے ہوئے ہیں، اب مجھے نہیں معلوم کہ وہ پہلے ہی سے اسی طرح تھے یا دوسرے صور کے بعد (مجھ سے پہلے) اٹھ کر عرش الٰہی کو تھام لیں گے۔
باب: آیت کی تفسیر میں ”اور صور پھونکا جائے گا تو سب بیہوش ہو جائیں گے جو آسمانوں اور زمین میں ہیں سوا اس کے جس کو اللہ چاہے، پھر دوبارہ صور پھونکا جائے گا تو پھر اچانک سب کے سب دیکھتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوں گے“۔
ہم سے عمر بن حفص نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، انہوں نے ابوصالح سے سنا اور انہوں نے ابوہریرہ (رض) سے سنا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ دونوں صوروں کے پھونکے جانے کا درمیانی عرصہ چالیس ہے۔ ابوہریرہ (رض) کے شاگردوں نے پوچھا : کیا چالیس دن مراد ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں پھر انہوں نے پوچھا : چالیس سال ؟ اس پر بھی انہوں نے انکار کیا۔ پھر انہوں نے پوچھا : چالیس مہینے ؟ اس کے متعلق بھی انہوں نے کہا کہ مجھ کو خبر نہیں اور ہر چیز فنا ہوجائے گی، سوا ریڑھ کی ہڈی کے کہ اسی سے ساری مخلوق دوبارہ بنائی جائے گی۔
باب: سورۃ المومن۔
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے ولید بن مسلم نے بیان کیا، کہا ہم سے اوزاعی نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے محمد بن ابراہیم تیمی نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا، آپ نے بیان کیا کہ میں نے عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سب سے زیادہ سخت معاملہ مشرکین نے کیا کیا تھا ؟ عبداللہ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کعبہ کے قریب نماز پڑھ رہے تھے کہ عقبہ بن ابی معیط آیا اس نے آپ کا شانہ مبارک پکڑ کر آپ کی گردن میں اپنا کپڑا لپیٹ دیا اور اس کپڑے سے آپ کا گلا بڑی سختی کے ساتھ گھونٹنے لگا۔ اتنے میں ابوبکر صدیق (رض) بھی آگئے اور انہوں نے اس بدبخت کا مونڈھا پکڑ کر اسے نبی کریم ﷺ سے جدا کیا اور کہا کہ کیا تم ایک ایسے شخص کو قتل کردینا چاہتے ہو جو کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور وہ تمہارے رب کے پاس سے اپنی سچائی کے لیے روشن دلائل بھی ساتھ لایا ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور تم اس بات سے اپنے کو چھپا ہی نہیں سکتے تھے کہ تمہارے خلاف تمہارے کان، تمہاری آنکھیں اور تمہاری جلدیں گواہی دیں گی، بلکہ تمہیں تو یہ خیال تھا کہ اللہ کو بہت سی ان چیزوں کی خبر ہی نہیں ہے جنہیں تم کرتے رہے“۔
ہم سے صلت بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، ان سے روح بن قاسم نے، ان سے مجاہد نے، ان سے ابومعمر نے اور ان سے ابن مسعود (رض) نے آیت وما کنتم تستترون أن يشهد، عليكم سمعکم اور تم اس بات سے اپنے کو چھپا نہیں سکتے تھے کہ تمہارے کان گواہی دیں گے۔ الخ کے متعلق کہا کہ قریش کے دو آدمی اور بیوی کی طرف سے ان کے قبیلہ ثقیب کا کوئی رشتہ دار یا ثقیف کے دو افراد تھے اور بیوی کی طرف قریش کا کوئی رشتہ دار، یہ خانہ کعبہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ان میں سے بعض نے کہا کہ کیا تمہارا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری باتیں سنتا ہوگا ایک نے کہا کہ بعض باتیں سنتا ہے۔ دوسرے نے کہا کہ اگر بعض باتیں سن سکتا ہے تو سب سنتا ہوگا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی وما کنتم تستترون أن يشهد عليكم سمعکم ولا أبصارکم اور تم اس بات سے اپنے کو چھپا ہی نہیں سکتے کہ تمہارے خلاف تمہارے کان اور تمہاری آنکھیں گواہی دیں گی۔ آخر آیت وذلکم ظنکم تک۔
تفسیر سورت حم السجدہ! طاؤس نے ابن عباس سے نقل کیا کہ ائتیا طوعا بمعنی اعطیا یعنی تم دونوں قالتا اتینا طائعین میں اتینا سے مراد اعطینا یعنی ہم نے دیا ہے اور منہال نے سعید سے نقل کیا انہوں نے بیان کیا کہ ایک شخص نے ابن عباس سے کہا میں قرآن میں ایسی باتیں پاتا ہوں جو مجھ کو ایک دوسرے کے خلاف معلوم ہوتی ہیں اس دن ان کے درمیان رشتے ناطے نہیں ہوں گے اور نہ ایک دوسرے سے پوچھیں گے اور ایک دوسرے پر متوجہ ہو کر آپس میں سوال کریں گے اور وہ اللہ سے کوئی بات نہ چھپائیں گے اور اے ہمارے رب ہم مشرک نہ تھے (ان آیات میں اختلاف ظاہر ہے) اور آیت ام السماء بناھا الخ میں آسمان کی پیدائش کو زمین کی پیدائش سے قبل بیان کیا پھر اللہ نے ائنکم لتکفرون بالذی الخ میں زمین کی پیدائش کو آسمان کی پیدائش کے بعد بتایا اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا وکان اللہ غفورا رحیما عزیزا حکیما سمیعا بصیرا (یعنی اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان تھا زبردست حکمت والا تھا سننے والا دیکھنے والا تھا) گویا پہلے (ان صفات سے متصف) تھا جو گزر چکا اب نہیں ہے تو انہوں نے کہا کہ فلا انساب بینھم کا تعلق نفحہ اولیٰ سے ہے تو جو لوگ آسمانوں اور زمین میں ہیں بے ہوش ہوجائیں گے بجز ان کے جن کو اللہ چاہے تو اس وقت ان کے درمیان نہ تو رشتے ناطے ہوں گے اور نہ ایک دوسرے سے سوال کریں گے پھر دوسری بار پھونکے جانے پر ان میں سے بعض بعض سے سوال کریں گے اور اللہ تعالیٰ کا قول ما کنا مشرکین اور لا یکتمون اللہ الخ کی صورت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اخلاص والوں کے گناہ بخش دے گا اور مشرکین کہیں گے کہ ہم مشرک نہ تھے تو ان کے منہ پر مہر لگا دے گا اور ان کے ہاتھ وغیرہ بولیں گے اس وقت معلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ سے کوئی بات چھپائی نہیں جا سکتی اور زمین کو دو دن میں پیدا کیا پھر آسمان کو پیدا کیا پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور ان کو دو دنوں میں برابر کیا پھر زمین کو بچھایا اور زمین کا بچھانا یہ ہے کہ اس سے پانی اور چرنے کی جگہ نکالی پہاڑ اور ٹیلے وغیرہ اور جو کچھ آسمان اور زمین کے درمیان ہے دوسرے دو دنوں میں پیدا کی اللہ تعالیٰ کے قول دحاھا کا یہی مطلب ہے اور اللہ تعالیٰ کے قول کہ زمین کو دو دنوں میں پیدا کیا اس کی صورت یہ ہے کہ زمین کو اور اس کے اندر کی تمام چیزوں کو چار دنوں میں پیدا کیا اور آسمان دو دنوں میں پیدا کئے گئے یعنی پہلے زمین کی تخلیق ہوئی اس کے بعد آسمان کی پھر زمین کی آبادی ہوئی لہذا آسمان کی تخلیق زمین کی تخلیق کے بعد اور زمین کی آبادی سے پہلے ہوئی باقی رہا کان اللہ غفورا رحیما تو اللہ تعالیٰ نے اپنا نام ہی یہ رکھا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ وہ ہمیشہ سے ایسا ہی ہے اللہ تعالیٰ جس چیز کر بھی ارادہ کرتا ہے وہ ہو کر رہتا ہے اس لئے قرآن میں تمہیں اختلاف نہیں سمجھنا چاہئے کہ یہ سارا کلام اللہ کی طرف سے ہے اور مجاہد نے کہا ممنون بمعنی محسوب (شمار کیا ہوا) ہے اقوتھا یعنی اس کی روزی ہے فی کل سماء امرھا یعنی وہ کام جس کا اللہ کی طرف سے حکما دیا گیا ہے نحسات نامبارک منحوس قیضنا لھم قرناء تتنزل علیھم الملائکۃ ہم نے ان کا ہم نشین مقرر کردیا ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں یعنی موت کے وقت اھتزت سر سبز ہوئی ربت بلند ہوئی دوسروں نے کہا کہ من اکمامھا سے یہ مراد ہے کہ جس وقت اپنے غلاف سے نکلتا ہے لیقولن ھذالی سے یہ مراد ہے کہ وہ کہیں گے کہ یہ میرے عمل کا بدلہ ہے اور میں اس کا سزا وار ہوں سواء للسائلین یعنی پوچھنے والوں کے لئے اس کا پورا اندازہ مقرر کیا فہدینا ہم سے مراد ہے کہ ہم نے اس کو بھلائی اور برائی کا راستہ بتا دیا جیسا کہ اللہ کا قول ھدیناہ النجدین اور ھدیناہ السبیل اور ہدایت کے معنی منزل مقصود کی طرف راہنمائی کے بھی ہیں اللہ کے قول اولئک الذین ھدی اللہ فبھداھم اقتدہ میں یہی مراد ہے یوزعون روکے جائیں گے من اکمامھا کم کی جمع ہے کلی کے اوپر کے چھلکے کو کہتے ہیں ولی حیمم قریبی دوست من محیص بھاگنے کی جگہ) حاص (بھاگا) سے مشتق ہے مریہ اور مریہ کے ایک ہی معنی ہیں یعنی شک و شبہ اور مجاہد نے کہا اعملوا ماشئتم (جو چاہو کرو) وعید ہے اور ابن عباس نے کہا کہ التی ھی احسن سے مراد ہے غصہ کے وقت صبر کرنا اور برائی کے وقت معاف کرنا جب وہ ایسا کریں گے تو اللہ ان کو محفوظ رکھے گا اور ان کے دشمن ان کے لئے نرم ہوجائیں گے گویا وہ قریبی دوست ہیں اور تم اس سے پردہ نہیں کرتے کہ تم پر تمہارے کان تمہاری آنکھیں اور تمہاری کھال گواہی دے گی بلکہ تم گمان کرتے تھے کہ اللہ تمہارے بہت کاموں کو نہیں جانتا ہے۔
ہم سے عمرو بن علی نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے منصور نے بیان کیا، ان سے مجاہد نے، ان سے ابومعمر نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے پہلی حدیث کی طرح بیان کیا۔
باب: آیت کی تفسیر ”قرابتداری کی محبت کے سوا میں تم سے اور کچھ نہیں چاہتا“۔
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے، ان سے عبدالملک بن میسرہ نے بیان کیا کہ میں نے طاؤس سے سنا کہ ابن عباس (رض) سے اللہ تعالیٰ کے ارشاد إلا المودة في القربى سوا رشتہ داری کی محبت کے متعلق پوچھا گیا تو سعید بن جبیر نے فرمایا کہ آل محمد ﷺ کی قرابتداری مراد ہے۔ ابن عباس (رض) نے اس پر کہا کہ تم نے جلد بازی کی۔ قریش کی کوئی شاخ ایسی نہیں جس میں نبی کریم ﷺ کی قرابت داری نہ ہو۔ نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا کہ تم سے صرف یہ چاہتا ہوں کہ تم اس قرابت داری کی وجہ سے صلہ رحمی کا معاملہ کرو جو میرے اور تمہارے درمیان میں موجود ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”جہنمی کہیں گے اے داروغہ جہنم! تمہارا رب ہمیں موت دیدے، وہ کہے گا تم اسی حال میں پڑے رہو“۔
ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو نے، ان سے عطاء نے، ان سے صفوان بن یعلیٰ نے اور ان سے ان کے والد نے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو منبر پر یہ آیت پڑھتے سنا ونادوا يا مالک ليقض علينا ربك اور یہ لوگ پکاریں گے کہ اے مالک ! تمہارا پروردگار ہمارا کام ہی تمام کر دے۔ اور قتادہ نے کہا مثلا للآخرين یعنی پچھلوں کے لیے نصیحت۔ دوسرے نے کہا مقرنين کا معنی قابو میں رکھنے والے۔ عرب لوگ کہتے ہیں فلانا فلانے کا مقرن ہے یعنی اس پر اختیار رکھتا ہے (اس کو قابو میں لایا ہے) ۔ أکواب وہ کوزے جن میں ٹونٹی نہ ہو بلکہ منہ کھلا ہوا ہو جہاں سے آدمی چاہے پئے۔ ان کان للرحمن ولد کا معنی یہ ہے کہ اس کی کوئی اولاد نہیں ہے۔ (اس صورت میں ان نافيه ہے) عابدين سے آنفين مراد ہے۔ یعنی سب سے پہلے میں اس سے عار کرتا ہوں۔ اس میں دو لغت ہیں عابد وعبد اور عبداللہ بن مسعود (رض) نے اس کو وقال الرسول يا رب پڑھا ہے۔ أول العابدين کے معنی سب سے پہلا انکار کرنے والا یعنی اگر خدا کی اولاد ثابت کرتے ہو تو میں اس کا سب سے پہلا انکاری ہوں۔ اس صورت میں عابدين باب عبد يعبد. سے آئے گا اور قتادہ نے کہا في أم الکتاب کا معنی یہ ہے کہ مجموعی کتاب اور اصل کتاب (یعنی لوح محفوظ میں) ۔
باب: آیت کی تفسیر ”پس آپ انتظار کریں اس دن کا جب آسمان کی طرف ایک نظر آنے والا دھواں پیدا ہو“۔
ہم سے عبدان نے بیان کیا، ان سے ابوحمزہ نے، ان سے اعمش نے، ان سے مسلم نے، ان سے مسروق نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہ (قیامت کی) پانچ علامتیں گزر چکی ہیں الدخان دھواں، الروم غلبہ روم، القمر چاند کا ٹکڑے ہونا،والبطشة پکڑ اور واللزام ہلاکت اور قید۔
باب: آیت کی تفسیر یعنی ”ان سب لوگوں پر چھا جائے گا، یہ ایک عذاب درد ناک ہو گا“۔
ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابومعاویہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے مسلم نے، ان سے مسروق نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ یہ (قحط) اس لیے پڑا تھا کہ قریش جب رسول اللہ ﷺ کی دعوت قبول کرنے کی بجائے شرک پر جمے رہے تو آپ ﷺ نے ان کے لیے ایسے قحط کی بددعا کی جیسا یوسف (علیہ السلام) کے زمانہ میں پڑا تھا۔ چناچہ قحط کی نوبت یہاں تک پہنچی کہ لوگ ہڈیاں تک کھانے لگے۔ لوگ آسمان کی طرف نظر اٹھاتے لیکن بھوک اور فاقہ کی شدت کی وجہ سے دھویں کے سوا اور کچھ نظر نہ آتا اسی کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی فارتقب يوم تأتي السماء بدخان مبين * يغشى الناس هذا عذاب أليم تو آپ انتظار کریں اس روز کا جب آسمان کی طرف نظر آنے والا دھواں پیدا ہو جو لوگوں پر چھا جائے، یہ ایک درد ناک عذاب ہوگا۔ بیان کیا کہ پھر ایک صاحب نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہ ! قبیلہ مضر کے لیے بارش کی دعا کیجئے کہ وہ برباد ہوچکے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ مضر کے حق میں دعا کرنے کے لیے کہتے ہو، تم بڑے جری ہو۔ آخر نبی کریم ﷺ نے ان کے لیے دعا فرمائی اور بارش ہوئی۔ اس پر آیت إنكم عائدون نازل ہوئی (یعنی اگرچہ تم نے ایمان کا وعدہ کیا ہے لیکن تم کفر کی طرف پھر لوٹ جاؤ گے) چناچہ جب پھر ان میں خوشحالی ہوئی تو شرک کی طرف لوٹ گئے (اور اپنے ایمان کے وعدے کو بھلا دیا) اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی يوم نبطش البطشة الکبرى إنا منتقمون جس روز ہم بڑی سخت پکڑ پکڑیں گے (اس روز) ہم پورا بدلہ لے لیں گے۔ بیان کیا اس آیت سے مراد بدر کی لڑائی ہے۔
باب: آیت «ربنا اكشف عنا العذاب إنا مؤمنون» کی تفسیر۔
ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے وکیع نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابوالضحیٰ نے، ان سے مسروق نے بیان کیا کہ میں عبداللہ بن مسعود (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انہوں نے کہا کہ یہ بھی علم ہی ہے کہ تمہیں اگر کوئی بات معلوم نہیں ہے تو اس کے متعلق یوں کہہ دو کہ اللہ ہی زیادہ جاننے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ سے فرمایا کہ آپ اپنی قوم سے کہہ دیں کہ میں تم سے کسی اجرت کا طالب نہیں ہوں اور نہ میں بناوٹی باتیں کرتا ہوں جب قریش آپ ﷺ کو تکلیف پہنچانے اور آپ کے ساتھ معاندانہ روش میں برابر بڑھتے ہی رہے تو آپ ﷺ نے ان کے لیے بددعا کی کہ اے اللہ ! ان کے خلاف میری مدد ایسے قحط کے ذریعہ کر جیسا کہ یوسف (علیہ السلام) کے زمانہ میں پڑا تھا۔ چناچہ قحط پڑا اور بھوک کی شدت کا یہ حال ہوا کہ لوگ ہڈیاں اور مردار کھانے لگ گئے۔ لوگ آسمان کی طرف دیکھتے تھے لیکن فاقہ کی وجہ سے دھویں کے سوا اور کچھ نظر نہ آتا۔ آخر انہوں نے کہا کہ اے ہمارے پروردگار ! ہم سے اس عذاب کو دور کر، ہم ضرور ایمان لے آئیں گے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان سے کہہ دیا تھا کہ اگر ہم نے یہ عذاب دور کردیا تو پھر بھی تم اپنی پہلی حالت پر لوٹ آؤ گے۔ نبی کریم ﷺ نے ان کے حق میں دعا کی اور یہ عذاب ان سے ہٹ گیا لیکن وہ پھر بھی کفر و شرک پر ہی جمے رہے، اس کا بدلہ اللہ تعالیٰ نے بدر کی لڑائی میں لیا۔ یہی واقعہ آیت يوم تأتي السماء بدخان مبين آخر تک میں بیان ہوا ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”ان کو کب اس سے نصیحت ہوتی ہے حالانکہ ان کے پاس پیغمبر کھلے ہوئے دلائل کے ساتھ آ چکا ہے“۔
سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن حازم نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابوالضحیٰ نے اور ان سے مسروق نے بیان کیا کہ میں عبداللہ بن مسعود (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انہوں نے فرمایا کہ جب نبی کریم ﷺ نے قریش کو اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے آپ ﷺ کو جھٹلایا اور آپ کے ساتھ سرکشی کی۔ نبی کریم ﷺ نے ان کے لیے بددعا کی کہ اے اللہ ! میری ان کے خلاف یوسف (علیہ السلام) جیسے قحط کے ذریعہ مدد فرما۔ چناچہ قحط پڑا اور ہر چیز ختم ہوگئی۔ لوگ مردار کھانے لگے۔ کوئی شخص کھڑا ہو کر آسمان کی طرف دیکھتا تو بھوک اور فاقہ کی وجہ سے آسمان اور اس کے درمیان دھواں ہی دھواں نظر آتا۔ پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت شروع کی فارتقب يوم تأتي السماء بدخان مبين * يغشى الناس هذا عذاب أليم تو آپ انتظار کریں اس روز کا جب آسمان کی طرف سے نظر آنے والا ایک دھواں پیدا ہو جو لوگوں پر چھا جائے، یہ ایک درد ناک عذاب ہوگا۔ بیشک ہم چندے اس عذاب کو ہٹا لیں گے اور تم بھی اپنی پہلی حالت پر لوٹ آؤ گے۔ عبداللہ بن مسعود (رض) نے فرمایا کہ کیا قیامت کے عذاب سے بھی وہ بچ سکیں گے ؟ فرمایا کہ سخت پکڑ بدر کی لڑائی میں ہوئی تھی۔
باب: آیت «ثم تولوا عنه وقالوا معلم مجنون» کی تفسیر۔
ہم سے بشر بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم کو محمد نے خبر دی، انہیں شعبہ نے، انہیں سلیمان اور منصور نے، انہیں ابوالضحیٰ نے اور ان سے مسروق نے بیان کیا کہ عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کو مبعوث کیا اور آپ ﷺ نے فرمایا قل ما أسألكم عليه من أجر وما أنا من المتکلفين کہ کہہ دو کہ میں تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں اور نہ میں بناوٹی باتیں کرنے والوں میں سے ہوں۔ پھر جب آپ نے دیکھا کہ قریش عناد سے باز نہیں آتے تو آپ ﷺ نے ان کے لیے بددعا کی کہ اے اللہ ! ان کے خلاف میری مدد ایسے قحط سے کر جیسا یوسف (علیہ السلام) کے زمانہ میں پڑا تھا۔ (پھر) قحط پڑا اور پر چیز ختم ہوگئی۔ لوگ ہڈیاں اور چمڑے کھانے پر مجبور ہوگئے (سلیمان اور منصور) راویان حدیث میں سے ایک نے بیان کیا کہ وہ چمڑے اور مردار کھانے پر مجبور ہوگئے اور زمین سے دھواں سا نکلنے لگا۔ آخر ابوسفیان آئے اور کہا کہ اے محمد ﷺ ! آپ کی قوم ہلاک ہوچکی، اللہ سے دعا کیجئے کہ ان سے قحط کو دور کر دے۔ نبی کریم ﷺ نے دعا فرمائی اور قحط ختم ہوگیا۔ لیکن اس کے بعد وہ پھر کفر کی طرف لوٹ گئے۔ منصور کی روایت میں ہے کہ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت پڑھی فارتقب يوم تأتي السماء بدخان مبين تو آپ اس روز کا انتظار کریں جب آسمان کی طرف ایک نظر آنے والا دھواں پیدا ہو۔ عائدون تک۔ کیا آخرت کا عذاب بھی ان سے دور ہو سکے گا ؟ دھواں اور سخت پکڑ اور ہلاکت گزر چکے۔ بعض نے چاند اور بعض نے غلبہ روم کا بھی ذکر کیا ہے کہ یہ بھی گزر چکا ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”اس دن کو یاد کرو جب کہ ہم بڑی سخت پکڑ پکڑ یں گے، ہم بلا شک اس دن پورا پورا بدلہ لیں گے“۔
ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے وکیع نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے مسلم نے، ان سے مسروق نے اور ان سے عبداللہ (رض) نے بیان کیا کہ پانچ (قرآن مجید کی پیشیں گوئیاں) گزر چکی ہیں۔ اللزام (بدر کی لڑائی کی ہلاکت) ، الروم (غلبہ روم) البطشة (سخت پکڑ) ، القمر (چاند کے ٹکڑے ہونا) اور والدخان دھواں، شدت فاقہ کی وجہ سے۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور ہم کو تو صرف زمانہ ہی ہلاک کرتا ہے“۔
ہم سے حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے زہری نے بیان کیا، ان سے سعید بن مسیب نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ابن آدم مجھے تکلیف پہنچاتا ہے وہ زمانہ کو گالی دیتا ہے حالانکہ میں ہی زمانہ ہوں، میرے ہی ہاتھ میں سب کچھ ہے۔ میں رات اور دن کو ادلتا بدلتا رہتا ہوں۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور جس شخص نے اپنے ماں باپ سے کہا کہ افسوس ہے تم پر، کیا تم مجھے یہ خبر دیتے ہو کہ میں قبر سے پھر دوبارہ نکالا جاؤں گا، مجھ سے پہلے بہت سی امتیں گزر چکی ہیں اور وہ دونوں والدین اللہ سے فریاد کر رہے ہیں (اور اس اولاد سے کہہ رہے ہیں) ارے تیری کم بختی تو ایمان لا بیشک اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ تو اس پر وہ کہتا کیا ہے کہ یہ بس اگلوں کے ڈھکوسلے ہیں“۔
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے ابوبشر نے، ان سے یوسف بن ماہک نے بیان کیا کہ مروان کو معاویہ (رض) نے حجاز کا امیر (گورنر) بنایا تھا۔ اس نے ایک موقع پر خطبہ دیا اور خطبہ میں یزید بن معاویہ کا باربار ذکر کیا، تاکہ اس کے والد (معاویہ رضی اللہ عنہ) کے بعد اس سے لوگ بیعت کریں۔ اس پر عبدالرحمٰن بن ابی بکر (رض) نے اعتراضاً کچھ فرمایا۔ مروان نے کہا اسے پکڑ لو۔ عبدالرحمٰن اپنی بہن عائشہ (رض) کے گھر میں چلے گئے تو وہ لوگ پکڑ نہیں سکے۔ اس پر مروان بولا کہ اسی شخص کے بارے میں قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی تھی والذي قال لوالديه أف لکما أتعدانني کہ اور جس شخص نے اپنے ماں باپ سے کہا کہ تف ہے تم پر کیا تم مجھے خبر دیتے ہو۔ اس پر عائشہ (رض) نے کہا کہ ہمارے (آل ابی بکر کے) بارے میں اللہ تعالیٰ نے کوئی آیت نازل نہیں کی بلکہ تہمت سے میری برات ضرور نازل کی تھی۔
باب: آیت کی تفسیر ”پھر جب ان لوگوں نے بادل کو اپنی وادیوں کے اوپر آتے دیکھا تو بولے کہ واہ یہ تو بادل ہے جو ہم پر برسے گا، نہیں بلکہ یہ تو وہ ہے جس کی تم جلدی مچایا کرتے تھے، یعنی ایک آندھی جس میں درد ناک عذاب ہے“۔
ہم سے احمد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن وہب نے بیان کیا، انہیں عمرو نے خبر دی، ان سے ابوالنضر نے بیان کیا، ان سے سلیمان بن یسار نے اور ان سے نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو کبھی اس طرح ہنستے نہیں دیکھا کہ آپ کے حلق کا کوا نظر آجائے بلکہ آپ تبسم فرمایا کرتے تھے، بیان کیا کہ جب بھی آپ بادل یا ہوا دیکھتے تو (گھبراہٹ اور اللہ کا خوف) آپ کے چہرہ مبارک سے پہچان لیا جاتا۔
None
یا رسول اللہ! جب لوگ بادل دیکھتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں کہ اس سے بارش برسے گی لیکن اس کے برخلاف آپ کو میں دیکھتی ہوں کہ آپ بادل دیکھتے ہیں تو ناگواری کا اثر آپ کے چہرہ پر نمایاں ہو جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ! کیا ضمانت ہے کہ اس میں عذاب نہ ہو۔ ایک قوم ( عاد ) پر ہوا کا عذاب آیا تھا۔ انہوں نے جب عذاب دیکھا تو بولے کہ یہ تو بادل ہے جو ہم پر برسے گا۔
باب: آیت کی تفسیر ”تم ناطہٰ رشتہ توڑ ڈالو گے“۔
ہم سے خالد بن مخلد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے معاویہ بن ابی مزرد نے بیان کیا، ان سے سعید بن یسار نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق پیدا کی، جب وہ اس کی پیدائش سے فارغ ہوا تو رحم نے کھڑے ہو کر رحم کرنے والے اللہ کے دامن میں پناہ لی۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے فرمایا کیا تجھے یہ پسند نہیں کہ جو تجھ کو جوڑے میں بھی اسے جوڑوں اور جو تجھے توڑے میں بھی اسے توڑ دوں۔ رحم نے عرض کیا، ہاں اے میرے رب ! اللہ تعالیٰ نے فرمایا، پھر ایسا ہی ہوگا۔ ابوہریرہ (رض) نے کہا کہ اگر تمہارا جی چاہے تو یہ آیت پڑھ لو فهل عسيتم إن توليتم أن تفسدوا في الأرض وتقطعوا أرحامکم اگر تم کنارہ کش رہو تو آیا تم کو یہ احتمال بھی ہے کہ تم لوگ دین میں فساد مچا دو گے اور آپس میں قطع تعلق کرلو گے۔
باب: آیت کی تفسیر ”تم ناطہٰ رشتہ توڑ ڈالو گے“۔
ہم سے ابراہیم بن حمزہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو حاتم نے بیان کیا، ان سے معاویہ نے بیان کیا، ان سے ان کے چچا ابوالحباب سعید بن یسار نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے سابقہ حدیث کی طرح۔ پھر (ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تمہارا جی چاہے تو آیت فهل عسيتم اگر تم کنارہ کش رہو پڑھ لو۔
باب: آیت کی تفسیر ”تم ناطہٰ رشتہ توڑ ڈالو گے“۔
ہم سے بشر بن محمد نے بیان کیا، ان کو عبداللہ نے خبر دی، انہیں معاویہ بن مزرد نے خبر دی، سابقہ حدیث کی طرح (اور یہ کہ ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، اگر تمہارا جی چاہے تو آیت اگر تم کنارہ کش رہو پڑھ لو۔
باب: آیت کی تفسیر ”ہم نے تجھ کو کھلی ہوئی فتح دی ہے“۔
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے، ان سے زید بن اسلم نے، ان سے ان کے والد نے کہ رسول اللہ ﷺ ایک سفر میں جا رہے تھے۔ عمر (رض) بھی آپ کے ساتھ تھے۔ رات کا وقت تھا عمر بن خطاب (رض) نے سوال کیا لیکن نبی کریم ﷺ نے کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر انہوں نے سوال کیا اور اس مرتبہ بھی آپ ﷺ نے جواب نہیں دیا، تیسری مرتبہ بھی انہوں نے سوال کیا لیکن آپ نے جواب نہیں دیا۔ اس پر عمر (رض) نے کہا، عمر کی ماں اسے روئے ! نبی کریم ﷺ سے تم نے تین مرتبہ سوال میں اصرار کیا، لیکن نبی کریم ﷺ نے تمہیں کسی مرتبہ جواب نہیں دیا۔ عمر (رض) نے بیان کیا کہ پھر میں نے اپنے اونٹ کو حرکت دی اور لوگوں سے آگے بڑھ گیا۔ مجھے خوف تھا کہ کہیں میرے بارے میں قرآن مجید کی کوئی آیت نہ نازل ہو۔ ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ ایک پکارنے والے کی آواز میں نے سنی جو مجھے ہی پکار رہا تھا۔ میں نے کہا کہ مجھے تو خوف تھا ہی کہ میرے بارے میں کوئی آیت نہ نازل ہوجائے۔ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور سلام کیا، نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ مجھ پر آج رات ایک سورت نازل ہوئی ہے جو مجھے اس ساری کائنات سے زیادہ عزیز ہے جس پر سورج طلوع ہوتا ہے پھر آپ نے سورة الفتح کی تلاوت فرمائی۔
باب: آیت کی تفسیر ”ہم نے تجھ کو کھلی ہوئی فتح دی ہے“۔
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے قتادہ سے سنا اور ان سے انس (رض) نے بیان کیا کہ سورة الفتح صلح حدیبیہ کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔
باب: آیت کی تفسیر ”ہم نے تجھ کو کھلی ہوئی فتح دی ہے“۔
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے معاویہ بن قرہ نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن مغفل (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے دن سورة الفتح خوب خوش الحانی سے پڑھی۔ معاویہ بن قرہ نے کہا کہ اگر میں چاہوں کہ تمہارے سامنے نبی کریم ﷺ کی اس موقع پر طرز قرآت کی نقل کروں تو کرسکتا ہوں۔
باب: آیت کی تفسیر ”تاکہ اللہ آپ کی سب اگلی پچھلی خطائیں معاف کر دے اور آپ پر احسانات کی تکمیل کر دے اور آپ کو سیدھے راستہ پر لے چلے“۔
ہم سے صدقہ بن فضل نے بیان کیا، انہیں ابن عیینہ نے خبر دی، ان سے زیاد نے بیان کیا اور انہوں نے مغیرہ بن شعبہ (رض) سے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نماز میں رات بھر کھڑے رہے یہاں تک کہ آپ کے دونوں پاؤں سوج گئے۔ آپ ﷺ سے عرض کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے تو آپ کی اگلی پچھلی تمام خطائیں معاف کردی ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں ؟
باب: آیت کی تفسیر ”تاکہ اللہ آپ کی سب اگلی پچھلی خطائیں معاف کر دے اور آپ پر احسانات کی تکمیل کر دے اور آپ کو سیدھے راستہ پر لے چلے“۔
ہم سے حسن بن عبدالعزیز نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن یحییٰ نے بیان کیا، انہیں حیوہ نے خبر دی، انہیں ابوالاسود نے، انہوں نے عروہ سے سنا اور انہوں نے عائشہ (رض) سے کہ نبی کریم ﷺ رات کی نماز میں اتنا طویل قیام کرتے کہ آپ کے قدم پھٹ جاتے۔ عائشہ (رض) نے ایک مرتبہ عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ اتنی زیادہ مشقت کیوں اٹھاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تو آپ کی اگلی پچھلی خطائیں معاف کردی ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کیا پھر میں شکر گزار بندہ بننا پسند نہ کروں۔ عمر کے آخری حصہ میں (جب طویل قیام دشوار ہوگیا تو) آپ ﷺ بیٹھ کر رات کی نماز پڑھتے اور جب رکوع کا وقت آتا تو کھڑے ہوجاتے (اور تقریباً تیس یا چالیس آیتیں اور پڑھتے) پھر رکوع کرتے۔
باب: آیت «إنا أرسلناك شاهدا ومبشرا ونذيرا» کی تفسیر۔
ہم سے عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن ابی سلمہ نے بیان کیا، ان سے ہلال بن ابی ہلال نے، ان سے عطاء بن یسار نے اور ان سے عبداللہ بن عمرو بن عاص نے کہ یہ آیت جو قرآن میں ہے يا أيها النبي إنا أرسلناک شاهدا ومبشرا ونذيرا اے نبی ! بیشک ہم نے آپ کو گواہی دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ تو نبی کریم ﷺ کے متعلق یہی اللہ تعالیٰ نے توریت میں بھی فرمایا تھا اے نبی ! بیشک ہم نے آپ کو گواہی دینے والا اور بشارت دینے والا اور ان پڑھوں (عربوں) کی حفاظت کرنے والا بنا کر بھیجا ہے۔ آپ میرے بندے ہیں اور میرے رسول ہیں۔ میں نے آپ کا نام متوکل رکھا، آپ نہ بدخو ہیں اور نہ سخت دل اور نہ بازاروں میں شور کرنے والے اور نہ وہ برائی کا بدلہ برائی سے دیں گے بلکہ معافی اور درگزر سے کام لیں گے اور اللہ ان کی روح اس وقت تک قبض نہیں کرے گا جب تک کہ وہ کج قوم (عربی) کو سیدھا نہ کرلیں یعنی جب تک وہ ان سے لا إله إلا الله کا اقرار نہ کرا لیں پس اس کلمہ توحید کے ذریعہ وہ اندھی آنکھوں کو اور بہرے کانوں کو اور پردہ پڑے ہوئے دلوں کو کھول دیں گے۔
باب: آیت کی تفسیر ”وہ اللہ وہی تو ہے جس نے اہل ایمان کے دلوں میں سکینت (سکون و اطمینان) پیدا کیا“۔
ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، ان سے اسرائیل نے، ان سے ابواسحاق نے اور ان سے براء (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی (اسید بن حضیر (رض) رات میں سورة الکہف) پڑھ رہے تھے۔ ان کا ایک گھوڑا جو گھر میں بندھا ہوا تھا بدکنے لگا تو وہ صحابی نکلے انہوں نے کوئی خاص چیز نہیں دیکھی وہ گھوڑا پھر بھی بدک رہا تھا۔ صبح کے وقت وہ صحابی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور رات کا واقعہ بیان کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ چیز (جس سے گھوڑا بد کا تھا) سکینت تھی جو قرآن کی وجہ سے نازل ہوئی۔
باب: آیت کی تفسیر ”وہ وقت یاد کرو جب کہ وہ درخت کے نیچے آپ کے ہاتھ پر بیعت کر رہے تھے“۔
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے عمرو نے اور ان سے جابر (رض) نے بیان کیا کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر لشکر میں ہم (مسلمان) ایک ہزار چار سو تھے۔
باب: آیت کی تفسیر ”وہ وقت یاد کرو جب کہ وہ درخت کے نیچے آپ کے ہاتھ پر بیعت کر رہے تھے“۔
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے شبابہ نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے بیان کیا، انہوں نے عقبہ بن صہبان سے سنا اور انہوں نے عبداللہ بن مغفل مزنی (رض) سے، انہوں نے کہا کہ میں درخت کے نیچے بیعت میں موجود تھا، رسول اللہ ﷺ نے دو انگلیوں کے درمیان کنکری لے کر پھینکنے سے منع فرمایا۔ اور عقبہ بن صہبان نے بیان کیا کہ میں نے عبداللہ بن مغفل مزنی (رض) سے غسل خانہ میں پیشاب کرنے کے متعلق سنا۔ یعنی یہ کہ آپ نے اس سے منع فرمایا۔
باب: آیت کی تفسیر ”وہ وقت یاد کرو جب کہ وہ درخت کے نیچے آپ کے ہاتھ پر بیعت کر رہے تھے“۔
مجھ سے محمد بن ولید نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے خالد نے، ان سے ابوقلابہ نے اور ان سے ثابت بن ضحاک نے اور وہ (صلح حدیبیہ کے دن) درخت کے نیچے بیعت کرنے والوں میں شامل تھے۔
باب: آیت کی تفسیر ”وہ وقت یاد کرو جب کہ وہ درخت کے نیچے آپ کے ہاتھ پر بیعت کر رہے تھے“۔
ہم سے احمد بن اسحاق سلمی نے بیان کیا، کہا ہم سے یعلیٰ نے، کہا ہم سے عبدالعزیز بن سیاہ نے، ان سے حبیب بن ثابت نے، کہ میں ابو وائل (رض) کی خدمت میں ایک مسئلہ پوچھنے کے لیے (خوارج کے متعلق) گیا، انہوں نے فرمایا کہ ہم مقام صفین میں پڑاؤ ڈالے ہوئے تھے (جہاں علی اور معاویہ (رض) کی جنگ ہوئی تھی) ایک شخص نے کہا کہ آپ کا کیا خیال ہے اگر کوئی شخص کتاب اللہ کی طرف صلح کے لیے بلائے ؟ علی (رض) نے فرمایا ٹھیک ہے۔ لیکن خوارج نے معاویہ (رض) کے خلاف علی (رض) کے ساتھ تھے اس کے خلاف آواز اٹھائی۔ اس پر سہل بن حنیف نے فرمایا تم پہلے اپنا جائزہ لو۔ ہم لوگ حدیبیہ کے موقع پر موجود تھے آپ کی مراد اس صلح سے تھی جو مقام حدیبیہ میں نبی کریم ﷺ اور مشرکین کے درمیان ہوئی تھی اور جنگ کا موقع آتا تو ہم اس سے پیچھے ہٹنے والے نہیں تھے۔ (لیکن صلح کی بات چلی تو ہم نے اس میں بھی صبر و ثبات کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا) اتنے میں عمر (رض) نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کیا ہم حق پر نہیں ہیں ؟ اور کیا کفار باطل پر نہیں ہیں ؟ کیا ہمارے مقتولین جنت میں نہیں جائیں گے اور کیا ان کے مقتولین دوزخ میں نہیں جائیں گے ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ کیوں نہیں ! عمر (رض) نے کہا پھر ہم اپنے دین کے بارے میں ذلت کا مظاہرہ کیوں کریں (یعنی دب کر صلح کیوں کریں) اور کیوں واپس جائیں، جبکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کا حکم فرمایا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : اے ابن خطاب ! میں اللہ کا رسول ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھے کبھی ضائع نہیں کرے گا۔ عمر (رض) نبی کریم ﷺ کے پاس سے واپس آگئے ان کو غصہ آ رہا تھا، صبر نہیں آیا اور ابوبکر (رض) کے پاس آئے اور کہا، اے ابوبکر ! کیا ہم حق پر اور وہ باطل پر نہیں ہیں ؟ ابوبکر نے بھی وہی جواب دیا کہ اے ابن خطاب ! نبی کریم ﷺ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ انہیں ہرگز ضائع نہیں کرے گا۔ پھر سورة الفتح نازل ہوئی۔
باب: آیت کی تفسیر ”اے ایمان والو! نبی کی آواز سے اپنی آوازوں کو اونچا نہ کیا کرو“۔
ہم سے یسرہ بن صفوان بن جمیل لخمی نے بیان کیا، کہا ہم سے نافع بن عمر نے، ان سے ابن ابی ملیکہ نے بیان کیا کہ قریب تھا کہ وہ سب سے بہتر افراد تباہ ہوجائیں یعنی ابوبکر اور عمر (رض) ان دونوں حضرات نے نبی کریم ﷺ کے سامنے اپنی آواز بلند کردی تھی۔ یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب بنی تمیم کے سوار آئے تھے (اور نبی کریم ﷺ سے انہوں نے درخواست کی کہ ہمارا کوئی امیر بنادیں) ان میں سے ایک (عمر رضی اللہ عنہ) نے مجاشع کے اقرع بن حابس کے انتخاب کے لیے کہا تھا اور دوسرے (ابوبکر رضی اللہ عنہ) نے ایک دوسرے کا نام پیش کیا تھا۔ نافع نے کہا کہ ان کا نام مجھے یاد نہیں۔ اس پر ابوبکر (رض) نے عمر (رض) سے کہا کہ آپ کا ارادہ مجھ سے اختلاف کرنا ہی ہے۔ عمر (رض) نے کہا کہ میرا ارادہ آپ سے اختلاف کرنا نہیں ہے۔ اس پر ان دونوں کی آواز بلند ہوگئی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری يا أيها الذين آمنوا لا ترفعوا أصواتکم اے ایمان والو ! اپنی آواز کو نبی کی آواز سے بلند نہ کیا کرو الخ۔ عبداللہ بن زبیر (رض) نے بیان کیا کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد عمر (رض) نبی کریم ﷺ کے سامنے اتنی آہستہ آہستہ بات کرتے کہ آپ صاف سن بھی نہ سکتے تھے اور دوبارہ پوچھنا پڑتا تھا۔ انہوں نے اپنے نانا یعنی ابوبکر (رض) کے متعلق اس سلسلے میں کوئی چیز بیان نہیں کی۔
باب: آیت کی تفسیر ”اے ایمان والو! نبی کی آواز سے اپنی آوازوں کو اونچا نہ کیا کرو“۔
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ازہر بن سعد نے بیان کیا، کہا ہم کو ابن عون نے خبر دی، کہا کہ مجھے موسیٰ بن انس نے خبر دی، اور انہیں انس بن مالک (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے ثابت بن قیس (رض) کو نہیں پایا۔ ایک صحابی نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! میں آپ کے لیے ان کی خبر لاتا ہوں۔ پھر وہ ثابت بن قیس (رض) کے یہاں آئے دیکھا کہ وہ گھر میں سر جھکائے بیٹھے ہیں پوچھا کیا حال ہے ؟ کہا کہ برا حال ہے کہ نبی کریم ﷺ کی آواز کے مقابلہ میں بلند آواز سے بولا کرتا تھا اب سارے نیک عمل اکارت ہوئے اور اہل دوزخ میں قرار دے دیا گیا ہوں۔ وہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے جو کچھ کہا تھا اس کی اطلاع آپ کو دی۔ موسیٰ بن انس نے بیان کیا کہ وہ شخص اب دوبارہ ان کے لیے ایک عظیم بشارت لے کر ان کے پاس آئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ ان کے پاس جاؤ اور کہو کہ تم اہل دوزخ میں سے نہیں ہو بلکہ تم اہل جنت میں سے ہو۔
باب: آیت کی تفسیر ”بیشک جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے پکارا کرتے ہیں ان میں سے اکثر عقل سے کام نہیں لیتے“۔
ہم سے حسن بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حجاج نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے بیان کیا، انہیں ابن ابی ملیکہ نے خبر دی اور انہیں عبداللہ بن زبیر (رض) نے خبر دی کہ قبیلہ بنی تمیم کے سواروں کا وفد نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آیا۔ ابوبکر (رض) نے کہا کہ ان کا امیر آپ قعقاع بن معبد کو بنادیں اور عمر (رض) نے کہا بلکہ اقرع بن حابس کو امیر بنائیں۔ ابوبکر (رض) نے اس پر کہا کہ مقصد تو صرف میری مخالفت ہی کرنا ہے۔ عمر نے کہا کہ میں نے آپ کے خلاف کرنے کی غرض سے یہ نہیں کہا ہے۔ اس پر دونوں میں بحث چلی گئی اور آواز بھی بلند ہوگئی۔ اسی کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی يا أيها الذين آمنوا لا تقدموا بين يدى الله ورسوله کہ اے ایمان والو ! تم اللہ اور اس کے رسول سے پہلے کسی کام میں جلدی مت کیا کرو۔ آخر آیت تک۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور وہ جہنم کہے گی کہ کچھ اور بھی ہے؟“۔
ہم سے عبداللہ بن ابی الاسود نے بیان کیا، کہا ہم سے حرمی نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جہنم میں دوزخیوں کو ڈالا جائے گا اور وہ کہے گی هل من مزيد. کہ کچھ اور بھی ہے ؟ یہاں تک کہ اللہ رب العزت اپنا قدم اس پر رکھے گا اور وہ کہے گی کہ بس بس۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور وہ جہنم کہے گی کہ کچھ اور بھی ہے؟“۔
ہم سے محمد بن موسیٰ قطان نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوسفیان حمیری سعید بن یحییٰ بن مہدی نے بیان کیا، ان سے عوف نے، ان سے محمد نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے نبی کریم ﷺ کے حوالے سے ابوسفیان حمیری اکثر اس حدیث کو نبی کریم ﷺ سے موقوفاً ذکر کرتے تھے کہ جہنم سے پوچھا جائے گا تو بھر بھی گئی ؟ وہ کہے گی هل من مزيد. کہ کچھ اور بھی ہے ؟ پھر اللہ تبارک تعالیٰ اپنا قدم اس پر رکھے گا اور کہے گی کہ بس بس۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور وہ جہنم کہے گی کہ کچھ اور بھی ہے؟“۔
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں حمام نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جنت اور دوزخ نے بحث کی، دوزخ نے کہا میں متکبروں اور ظالموں کے لیے خاص کی گئی ہوں۔ جنت نے کہا مجھے کیا ہوا کہ میرے اندر صرف کمزور اور کم رتبہ والے لوگ داخل ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت سے کہا کہ تو میری رحمت ہے، تیرے ذریعہ میں اپنے بندوں میں جس پر چاہوں رحم کروں اور دوزخ سے کہا کہ تو عذاب ہے تیرے ذریعہ میں اپنے بندوں میں سے جسے چاہوں عذاب دوں۔ جنت اور دوزخ دونوں بھریں گی۔ دوزخ تو اس وقت تک نہیں بھرے گی جب تک اللہ رب العزت اپنا قدم اس نہیں رکھ دے گا۔ اس وقت وہ بولے گی کہ بس بس بس ! اور اس وقت بھر جائے گی اور اس کا بعض حصہ بعض دوسرے حصے پر چڑھ جائے گا اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں کسی پر ظلم نہیں کرے گا اور جنت کے لیے اللہ تعالیٰ ایک مخلوق پیدا کرے گا وسبح بحمد ربک قبل طلوع الشمس وقبل الغروب اور اپنے رب کی حمد و تسبیح کرتے رہئیے سورج کے نکلنے سے پہلے اور اس کے چھپنے سے پہلے۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور اپنے رب کی حمد و تسبیح کرتے رہئیے سورج کے نکلنے سے پہلے اور اس کے چھپنے سے پہلے“۔
ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، ان سے جریر نے، ان سے اسماعیل نے، ان سے قیس بن ابی حازم نے اور ان سے جریر بن عبداللہ (رض) نے بیان کیا کہ ہم ایک رات نبی کریم ﷺ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے چودہویں رات تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چاند کی طرف دیکھا اور پھر فرمایا کہ یقیناً تم اپنے رب کو اسی طرح دیکھو گے جس طرح اس چاند کو دیکھ رہے ہو۔ اس کی رؤیت میں تم دھکم پیل نہیں کرو گے (بلکہ بڑے اطمینان سے ایک دوسرے کو دھکا دیئے بغیر دیکھو گے) اس لیے اگر تمہارے لیے ممکن ہو تو سورج نکلنے اور ڈوبنے سے پہلے نماز نہ چھوڑو۔ پھر آپ نے آیت وسبح بحمد ربک قبل طلوع الشمس وقبل الغروب اور اپنے رب کی حمد و تسبیح کرتے رہئیے آفتاب نکلنے سے پہلے اور چھپنے سے پہلے۔ کی تلاوت کی۔
باب
علی (علیہ السلام) نے کہا کہ الذاريات سے مراد ہوائیں ہیں۔ ان سے غیر نے کہا کہ تذروه کا معنی یہ ہے کہ اس کو بکھیر دے (یہ لفظ سورة الکہف میں ہے) الرياح کی مناسبت سے یہاں لایا گیا۔ وفي أنفسکم افلا تبصرون یعنی خود تمہاری ذات میں نشانیاں ہیں کیا تم نہیں دیکھتے کہ کھانا پینا ایک راستے منہ سے ہوتا ہے لیکن وہ فضلہ بن کر دوسرے راستوں سے نکلتا ہے۔ فراغ لوٹ آیا (یا چپکے سے) چلا آیا۔ فصكت یعنی مٹھی باندھ کر اپنے ماتھے پر ہاتھ کو مارا۔ الرميم زمین کی گھاس جب خشک ہوجائے اور روند دی جائے۔ لموسعون کے معنی ہم نے اس کو کشادہ اور وسیع کیا ہے۔ (اور سورة البقرہ میں جو ہے) على الموسع قدره یہاں موسع کے معنی زور طاقت والا ہے۔ زوجين یعنی نر و مادہ یا الگ الگ رنگ یا الگ الگ مزے کی جیسے میٹھی کھٹی یہ دو قسمیں ہیں۔ ففروا إلى الله یعنی اللہ کی معصیت سے اس کی اطاعت کی طرف بھاگ کر آؤ۔ إلا ليعبدون یعنی جِن و انس میں جتنی بھی نیک روحیں ہیں انہیں میں نے صرف اپنی توحید کے لیے پیدا کیا۔ بعضوں نے کہا جِنوں اور آدمیوں کو اللہ تعالیٰ نے پیدا تو اسی مقصد سے کیا تھا کہ وہ اللہ کی توحید کو مانیں لیکن کچھ نے مانا اور کچھ نے نہیں مانا۔ معتزلہ کے لیے اس آیت میں کوئی دلیل نہیں ہے۔ الذنوب کے معنی بڑے ڈول کے ہیں۔ مجاہد نے فرمایا کہ ذنوبا بمعنی راستہ ہے۔ مجاہد نے کہا کہ صرة کے معنی چیخنا۔ ذنوبا کے معنی راستہ اور طریق کے ہیں۔ العقيم کے معنی جس کو بچہ نہ پیدا ہو بانجھ۔ ابن عباس (رض) نے کہا کہ الحبک سے آسمان کا خوبصورت برابر ہونا مراد ہے۔ في غمرة یعنی اپنی گمراہی میں پڑے اوقات گزارتے ہیں۔ اوروں نے کہا تواصوا کا معنی یہ ہے کہ یہ بھی ان کے موافق کہنے لگے۔ مسومة نشان کئے گئے۔ یہ سيما. سے نکلا ہے جس کے معنی نشانی کے ہیں۔ قتل الخراصون یعنی جھوٹے لعنت کئے گئے۔
تفسیر سورت الطور اور قتادہ نے کہا کہ مسطور بمعنی لکھا ہوا اور مجاہد نے کہا کہ طور ایرانی زبان میں پہاڑی کو کہتے ہیں رق منشور کتاب سقف المرفوع آسمان المسجور بھڑکایا ہوا اور حسن نے کہا کہ وہ بھڑکے گا یہاں تک کہ اس کا پانی خشک ہوجائے گا اور اس میں ایک قطرہ بھی باقی نہ رہے گا اور مجاہد نے کہا کہ التناھم ہم نے کم کیا اور دوسروں نے کہا کہ تمور گھومے گا احلامھم ان کی عقلین ابن عباس نے کہا کہ البر بمعنی مہربان کسفا بمعنی ٹکڑے المنون بمعنی موت اور بعض نے کہا کہ یتنازعون سے مراد ہے ایک دوسرے کو دیں گے۔
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں محمد بن عبدالرحمٰن بن نوفل نے، انہیں عروہ نے، انہیں زینب بنت ابی سلمہ نے اور ان سے ام المؤمنین ام سلمہ (رض) نے بیان کیا کہ (حج کے موقع پر) میں نے رسول اللہ ﷺ سے کہا کہ میں بیمار ہوں آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر سواری پر بیٹھ کر لوگوں کے پیچھے سے طواف کرے چناچہ میں نے طواف کیا اور نبی کریم ﷺ اس وقت خانہ کعبہ کے پہلو میں نماز پڑھتے ہوئے سورة والطور و کتاب مسطور کی تلاوت کر رہے تھے۔
تفسیر سورت الطور اور قتادہ نے کہا کہ مسطور بمعنی لکھا ہوا اور مجاہد نے کہا کہ طور ایرانی زبان میں پہاڑی کو کہتے ہیں رق منشور کتاب سقف المرفوع آسمان المسجور بھڑکایا ہوا اور حسن نے کہا کہ وہ بھڑکے گا یہاں تک کہ اس کا پانی خشک ہوجائے گا اور اس میں ایک قطرہ بھی باقی نہ رہے گا اور مجاہد نے کہا کہ التناھم ہم نے کم کیا اور دوسروں نے کہا کہ تمور گھومے گا احلامھم ان کی عقلین ابن عباس نے کہا کہ البر بمعنی مہربان کسفا بمعنی ٹکڑے المنون بمعنی موت اور بعض نے کہا کہ یتنازعون سے مراد ہے ایک دوسرے کو دیں گے۔
ہم سے حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے اصحاب نے زہری کے واسطہ سے بیان کیا، ان سے محمد بن جبیر بن مطعم نے اور ان سے ان کے والد جبیر بن مطعم (رض) نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا۔ آپ ﷺ مغرب کی نماز میں سورة والطور پڑھ رہے تھے۔ جب آپ سورة والطور اس آیت پر پہنچے أم خلقوا من غير شىء أم هم الخالقون * أم خلقوا السموات والأرض بل لا يوقنون * أم عندهم خزائن ربك أم هم المسيطرون کیا یہ لوگ بغیر کسی کے پیدا کئے پیدا ہوگئے یا یہ خود (اپنے) خالق ہیں ؟ یا انہوں نے آسمان اور زمین کو پیدا کرلیا ہے۔ اصل یہ ہے کہ ان میں یقین ہی نہیں۔ کیا ان لوگوں کے پاس آپ کے پروردگار کے خزانے ہیں یا یہ لوگ حاکم ہیں۔ تو میرا دل اڑنے لگا۔ سفیان نے بیان کیا لیکن میں نے زہری سے سنا ہے وہ محمد بن جبیر بن مطعم سے روایت کرتے تھے، ان سے ان کے والد (جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ) نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو مغرب میں سورة والطور پڑھتے سنا (سفیان نے کہا کہ) میرے ساتھیوں نے اس کے بعد جو اضافہ کیا ہے وہ میں نے زہری سے نہیں سنا۔
تفسیر سورت والنجم! اور مجاہد نے کہا ذومرۃ کے معنی ہیں قوت والا قاب قوسین دو کمانوں کے درمیان کا فاصلہ ضیزی ٹیڑھی واکدی اپنی بخشش روک لی رب الشعری شعری ایک ستارہ ہے جو زاء کے پیچھے طلوع ہونے والا الذی وفی جو کچھ اس پر فرض تھا اس کو پورا کیا ازفت الازفۃ قیامت قریب ہوئی سامدون برطمہ جو ایک کھیل ہے اور عکرمہ نے کہا کہ حمیری زبان میں اس کے معنی گانے کے ہیں اور ابراہیم نے کہا افتجادولونہ کیا تم اس سے جھگڑا کرتے ہو اور حسن نے افتمر رونہ پڑھا اس سے مراد یہ ہے کہ کیا تم انکار کرتے ہو مازاغ محمد کی نگاہ وما طغی اور نہ اس سے آگے بڑھی جو اس نے دیکھی فتماروا جھٹلایا اور حسن نے کہا کہ اذا ھوی جب غائب ہونے لگے غروب ہونے لگے اور ابن عباس (رض) نے کہا کہ اغنی واقنی دیا اور خوش کیا۔
ہم سے یحییٰ بن موسیٰ نے بیان کیا، ان سے وکیع نے، ان سے اسماعیل بن ابی خالد نے، ان سے عامر نے اور ان سے مسروق نے بیان کیا کہ میں نے عائشہ (رض) سے پوچھا : اے ایمان والوں کی ماں ! کیا محمد ﷺ نے معراج کی رات میں اپنے رب کو دیکھا تھا ؟ عائشہ (رض) نے کہا تم نے ایسی بات کہی کہ میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے کیا تم ان تین باتوں سے بھی ناواقف ہو ؟ جو شخص بھی تم میں سے یہ تین باتیں بیان کرے وہ جھوٹا ہے جو شخص یہ کہتا ہو کہ محمد ﷺ نے شب معراج میں اپنے رب کو دیکھا تھا وہ جھوٹا ہے۔ پھر انہوں نے آیت لا تدرکه الأبصار وهو يدرک الأبصار وهو اللطيف الخبير سے لے کر من وراء حجاب تک کی تلاوت کی اور کہا کہ کسی انسان کے لیے ممکن نہیں کہ اللہ سے بات کرے سوا اس کے کہ وحی کے ذریعہ ہو یا پھر پردے کے پیچھے سے ہو اور جو شخص تم سے کہے کہ نبی کریم ﷺ آنے والے کل کی بات جانتے تھے وہ بھی جھوٹا ہے۔ اس کے لیے انہوں نے آیت وما تدري نفس ماذا تکسب غدا یعنی اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ کل کیا کرے گا۔ کی تلاوت فرمائی۔ اور جو شخص تم میں سے کہے کہ نبی کریم ﷺ نے تبلیغ دین میں کوئی بات چھپائی تھی وہ بھی جھوٹا ہے۔ پھر انہوں نے یہ آیت تلاوت کی يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك یعنی اے رسول ! پہنچا دیجئیے وہ سب کچھ جو آپ کے رب کی طرف سے آپ پر اتارا گیا ہے۔ ہاں نبی کریم ﷺ نے جبرائیل (علیہ السلام) کو ان کی اصل صورت میں دو مرتبہ دیکھا تھا۔
باب: آیت کی تفسیر ”اتنا فاصلہ رہ گیا تھا جتنا کمان سے چلہ (یعنی تانت) میں ہوتا ہے“۔
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، ان سے عبدالوحد بن زیاد نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان شیبانی نے بیان کیا، کہا کہ میں نے زر بن حبیش سے سنا اور انہوں نے عبداللہ بن مسعود (رض) سے آیت فكان قاب قوسين أو أدنى * فأوحى إلى عبده ما أوحى یعنی صرف دو کمانوں کا فاصلہ رہ گیا تھا بلکہ اور بھی کم۔ پھر اللہ نے اپنے بندہ پر وحی نازل کی جو کچھ بھی نازل کیا کے متعلق بیان کیا کہ ہم سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے جبرائیل (علیہ السلام) کو ان کی اصل صورت میں دیکھا تھا ان کے چھ سو پر تھے۔
باب: آیت کی تفسیر ”اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کی طرف وحی کی جو بھی وحی کی“۔
ہم سے طلق بن غنام نے بیان کیا، ان سے زائدہ بن قدامہ کوفی نے بیان کیا، ان سے سلیمان شیبانی نے بیان کیا کہ میں نے زر بن حبیش سے اس آیت کے بارے میں پوچھا فكان قاب قوسين أو أدنى * فأوحى إلى عبده ما أوحى الخ یعنی سو دو کمانوں کا فاصلہ رہ گیا بلکہ اور بھی کم۔ پھر اللہ نے اپنے بندے پر وحی کی جو کچھ بھی نازل کیا تو انہوں نے بیان کیا کہ ہمیں عبداللہ بن مسعود (رض) نے خبر دی کہ محمد ﷺ نے جبرائیل (علیہ السلام) کو دیکھا تھا جن کے چھ سو پر تھے۔
باب: آیت کی تفسیر ”تحقیق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیوں کو دیکھا“۔
ہم سے قبیصہ بن عقبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابراہیم نخعی نے، ان سے علقمہ نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے آیت لقد رأى من آيات ربه الکبرى یعنی آپ نے اپنے رب کی عظیم نشانیاں دیکھیں کے متعلق بتلایا کہ نبی کریم ﷺ نے رفرف (سبز فرش) کو دیکھا جس نے آسمان کے کناروں کو ڈھانپ لیا تھا۔
باب: آیت کی تفسیر ”بھلا تم نے لات اور عزیٰ کو بھی دیکھا ہے“۔
ہم سے مسلم بن ابراہیم فراہیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوالاشھب جعفر بن حیان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوالجوزاء نے بیان کیا اور ان سے ابن عباس (رض) نے لات اور عزیٰ کے حال میں کہا کہ لات ایک شخص کو کہتے تھے وہ حاجیوں کے لیے ستو گھولتا تھا۔
باب: آیت کی تفسیر ”بھلا تم نے لات اور عزیٰ کو بھی دیکھا ہے“۔
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو ہشام بن یوسف نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہوں نے کہا ہمیں زہری نے، انہیں حمید بن عبدالرحمٰن نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص قسم کھائے اور کہے کہ قسم ہے لات اور عزیٰ کی تو اسے تجدید ایمان کے لیے کہنا چاہیے لا إله إلا الله اور جو شخص اپنے ساتھی سے یہ کہے کہ آؤ جوا کھیلیں تو اسے صدقہ دینا چاہیے۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور تیسرے بت منات کے (حالات بھی سنو)“۔
ہم سے عبداللہ بن زبیر حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا کہ میں نے عروہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عائشہ (رض) سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ منات بت کے نام پر احرام باندھتے جو مقام مشلل میں تھا، وہ صفا اور مروہ کے درمیان (حج و عمرہ میں) سعی نہیں کرتے تھے اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت نازل کی إن الصفا والمروة من شعائر الله بیشک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں چناچہ رسول اللہ ﷺ نے ان کے درمیان طواف کیا اور مسلمانوں نے بھی طواف کیا۔ سفیان نے کہا کہ مناۃ مقام قدید پر مشلل میں تھا اور عبدالرحمٰن بن خالد نے بیان کیا کہ ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ نے بیان کیا اور ان سے عائشہ (رض) نے کہا کہ یہ آیت انصار کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ اسلام سے پہلے انصار اور غسان کے لوگ منات کے نام پر احرام باندھتے تھے، پہلی حدیث کی طرح۔ اور معمر نے زہری سے بیان کیا، ان سے عروہ نے، ان سے عائشہ (رض) نے کہ قبیلہ انصار کے کچھ لوگ منات کے نام کا احرام باندھتے تھے۔ منات ایک بت تھا جو مکہ اور مدینہ کے درمیان رکھا ہوا تھا (اسلام لانے کے بعد) ان لوگوں نے کہا کہ یا رسول اللہ ! ہم منات کی تعظیم کے لیے صفا اور مروہ کے درمیان سعی نہیں کیا کرتے تھے۔
باب: آیت کی تفسیر ”پس خاص اللہ کے لیے سجدہ کرو اور خاص اسی کی عبادت کرو“۔
ہم سے ابومعمر عبداللہ بن عمرو نے بیان کیا، ان سے عبدالوارث بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے ایوب سختیانی نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے سورة النجم میں سجدہ کیا اور آپ کے ساتھ مسلمانوں نے اور تمام مشرکوں اور جنات و انسانوں نے بھی سجدہ کیا۔ عبدالوارث کے ساتھ اس حدیث کو ابراہیم بن طہمان نے بھی ایوب سے روایت کیا اور اسماعیل بن علیہ نے اپنی روایت میں ابن عباس (رض) کا ذکر نہیں کیا۔
باب: آیت کی تفسیر ”پس خاص اللہ کے لیے سجدہ کرو اور خاص اسی کی عبادت کرو“۔
ہم سے نصر بن علی نے بیان کیا، کہا ہم کو ابواحمد زبیری نے خبر دی، کہا ہم کو اسرائیل نے خبر دی، ان سے ابواسحاق نے، ان سے اسود بن یزید نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ سب سے پہلے نازل ہونے والی سجدہ والی سورت سورة النجم ہے۔ بیان کیا کہ پھر رسول اللہ ﷺ نے (اس کی تلاوت کے بعد) سجدہ کیا اور جتنے لوگ آپ کے پیچھے تھے سب ہی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سجدہ کیا، سوا ایک شخص کے، میں نے دیکھا کہ اس نے اپنی ہتھیلی میں مٹی اٹھائی اور اسی پر سجدہ کرلیا۔ بعد میں (بدر کی لڑائی میں) میں نے اسے دیکھا کہ کفر کی حالت میں وہ قتل کیا ہوا پڑا ہے۔ وہ شخص امیہ بن خلف تھا۔
باب: آیت «وانشق القمر وإن يروا آية يعرضوا» کی تفسیر۔
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے شعبہ اور سفیان نے اور ان سے اعمش نے، ان سے ابراہیم نے، ان سے ابومعمر نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں چاند دو ٹکڑے ہوگیا تھا ایک ٹکڑا پہاڑ کے اوپر اور دوسرا اس کے پیچھے چلا گیا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے اسی موقع پر ہم سے فرمایا تھا کہ گواہ رہنا۔
باب: آیت «وانشق القمر وإن يروا آية يعرضوا» کی تفسیر۔
ہم سے علی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، کہا ہم کو ابن ابی نجیح نے خبر دی، انہیں مجاہد نے، انہیں ابومعمر نے اور ان سے عبداللہ (رض) نے بیان کیا کہ چاند پھٹ گیا تھا اور اس وقت ہم بھی نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھے۔ چناچہ اس کے دو ٹکڑے ہوگئے۔ نبی کریم ﷺ نے ہم سے فرمایا کہ لوگو گواہ رہنا، گواہ رہنا۔
باب: آیت «وانشق القمر وإن يروا آية يعرضوا» کی تفسیر۔
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے بکر نے بیان کیا، ان سے جعفر نے، ان سے عراک بن مالک نے، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عباس (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کے زمانے میں چاند پھٹ گیا تھا۔
باب: آیت «وانشق القمر وإن يروا آية يعرضوا» کی تفسیر۔
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے یونس بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے شیبان نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس (رض) نے بیان کیا کہ مکہ والوں نے نبی کریم ﷺ سے معجزہ دکھانے کو کہا تو نبی کریم ﷺ نے انہیں چاند کے پھٹ جانے کا معجزہ دکھایا۔
باب: آیت «وانشق القمر وإن يروا آية يعرضوا» کی تفسیر۔
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس (رض) نے بیان کیا کہ چاند دو ٹکڑوں میں پھٹ گیا تھا۔
باب: آیت «تجري بأعيننا جزاء لمن كان كفر* ولقد تركناها آية فهل من مدكر» کی تفسیر۔
ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق نے، ان سے اسود نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ فهل من مدکر پڑھا کرتے تھے۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور ہم نے آسان کر دیا ہے قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کے لیے، سو ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا؟“۔
ہم سے مسدد نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، ان سے ابواسحاق نے، ان سے اسود نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ فهل من مدکر (سو ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ؟ ) پڑھا کرتے تھے۔
باب: آیت کی تفسیر ”(وہ ہلاک شدہ کافر) گویا اکھڑی ہوئی کھجوروں کے تنے تھے سو دیکھو میرا عذاب اور میرا ڈرانا کیسا رہا“۔
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے زہیر نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق نے انہوں نے ایک شخص کو اسود سے پوچھتے سنا کہ سورة القمر میں آیت فهل من مدکر ہے یا فهل من مذکر ؟ انہوں نے کہا کہ میں نے ابن مسعود (رض) سے سنا وہ فهل من مدکر پڑھتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو بھی فهل من مدکر پڑھتے سنا ہے (دال مہملہ سے) ۔
باب: آیت کی تفسیر ”سو وہ (ثمود) ایسے ہو گئے جیسے کانٹوں کی باڑ جو چکنا چور ہو گئی ہو اور ہم نے قرآن کو آسان کر دیا ہے، کیا کوئی ہے قرآن مجید سے نصیحت حاصل کرنے والا؟ جو قرآن مجید سے نصیحت حاصل کرے“۔
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہم کو ہمارے والد عثمان نے خبر دی، انہیں شعبہ نے، انہیں ابی اسحاق نے، انہیں اسود نے اور انہیں ابن مسعود (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فهل من مدکر الآیۃ (دال مہملہ سے) ۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور صبح سویرے ہی ان پر عذاب دائمی آ پہنچا اور ان سے کہا گیا کہ پس میرے عذاب اور ڈرانے کا مزہ چکھو“۔
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق نے، ان سے اسود نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فهل من مدکر (دال مہملہ سے) پڑھا تھا۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور ہم تمہارے جیسے لوگوں کو ہلاک کر چکے ہیں سو ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا؟“۔
ہم سے یحییٰ بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو وکیع نے بیان کیا، ان سے اسرائیل نے، ان سے ابواسحاق نے، ان سے اسود بن یزید نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہ میں نے نبی کریم ﷺ کے سامنے فهل من مذکر پڑھا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ فهل من مدکر (یعنی دال مہملہ سے پڑھو) ۔
باب: آیت کی تفسیر ”کافروں کی عنقریب ساری جماعت شکست کھائے گی اور یہ سب پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے“۔
ہم سے محمد بن عبداللہ بن حوشب نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوہاب نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد حذاء نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے (دوسری سند) اور مجھ سے محمد بن یحییٰ ذہلی نے بیان کیا، کہا ہم سے عفان بن مسلم نے بیان کیا، ان سے وہیب نے کہا ہم سے خالد حذاء نے ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ جبکہ آپ بدر کی لڑائی کے دن ایک خیمے میں تھے اور یہ دعا کر رہے تھے کہ اے اللہ ! میں تجھے تیرا عہد اور وعدہ نصرت یاد دلاتا ہوں۔ اے اللہ ! تیری مرضی ہے اگر تو چاہے (ان تھوڑے سے مسلمانوں کو بھی ہلاک کر دے) پھر آج کے بعد تیری عبادت باقی نہیں رہے گی۔ پھر ابوبکر (رض) نے نبی کریم ﷺ کا ہاتھ پکڑ لیا اور عرض کیا : بس یا رسول اللہ ! آپ نے اپنے رب سے بہت ہی الحاح وزاری سے دعا کرلی ہے۔ اس وقت نبی کریم ﷺ زرہ پہنے ہوئے چل پھر رہے تھے اور آپ خیمہ سے نکلے تو زبان مبارک پر یہ آیت تھی سيهزم الجمع ويولون الدبر سو عنقریب (کافروں کی) جماعت شکست کھائے گی اور یہ سب پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے۔
باب: آیت کی تفسیر ”بلکہ ان کا اصل وعدہ تو قیامت کے دن کا ہے اور قیامت بڑی سخت اور تلخ ترین چیز ہے“۔
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن یوسف نے بیان کیا، انہیں ابن جریج نے خبر دی، کہا کہ مجھے یوسف بن ماہک نے خبر دی، انہوں نے بیان کیا کہ میں ام المؤمنین عائشہ (رض) کی خدمت میں حاضر تھا۔ آپ نے فرمایا کہ جس وقت آیت بل الساعة موعدهم والساعة أدهى وأمر لیکن ان کا اصل وعدہ تو قیامت کے دن کا ہے اور قیامت بڑی سخت اور تلخ چیز ہے محمد ﷺ پر مکہ میں نازل ہوئی تو میں بچی تھی اور کھیلا کرتی تھی۔
باب: آیت کی تفسیر ”بلکہ ان کا اصل وعدہ تو قیامت کے دن کا ہے اور قیامت بڑی سخت اور تلخ ترین چیز ہے“۔
مجھ سے اسحاق بن شاہین واسطی نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد بن عبداللہ طحان نے، کہا ان سے خالد بن مہران حذاء نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ جبکہ آپ بدر کی لڑائی کے موقع پر میدان میں ایک خیمے میں یہ دعا کر رہے تھے کہ اے اللہ ! میں تجھے تیرا عہد اور وعدہ نصرت یاد دلاتا ہوں۔ اے اللہ ! اگر تو چاہے کہ (مسلمانوں کو فنا کر دے) تو آج کے بعد پھر کبھی تیری عبادت نہیں کی جائے گی۔ اور اس پر ابوبکر (رض) نے نبی کریم ﷺ کا ہاتھ پکڑ کر عرض کیا : بس یا رسول اللہ ! آپ اپنے رب سے خوب الحاح وزاری کے ساتھ دعا کرچکے ہیں۔ نبی کریم اس وقت زرہ پہنے ہوئے تھے۔ آپ باہر تشریف لائے تو آپ کی زبان مبارک پر یہ آیت تھی سيهزم الجمع ويولون الدبر * بل الساعة موعدهم والساعة أدهى وأمر یعنی عنقریب کافروں کی یہ جماعت ہار جائے گی اور یہ سب پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے۔ لیکن ان کا اصل وعدہ تو قیامت کے دن کا ہے اور قیامت بڑی سخت اور بہت ہی کڑوی چیز ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور ان باغوں سے کم درجہ میں دو اور باغ بھی ہیں“۔
ہم سے عبداللہ بن ابی الاسود نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن عبدالصمد العمی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعمران الجونی نے بیان کیا، ان سے ابوبکر بن عبداللہ بن قیس نے اور ان سے ان کے والد (عبداللہ بن قیس ابوموسیٰ اشعری) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ (جنت میں) دو باغ ہوں گے جن کے برتن اور تمام دوسری چیزیں چاندی کی ہوں گی اور دو دوسرے باغ ہوں گے جن کے برتن اور تمام دوسری چیزیں سونے کے ہوں گے اور جنت عدن سے جنتیوں کے اپنے رب کے دیدار میں کوئی چیز سوائے کبریائی کی چادر کے جو اس کے منہ پر ہوگی، حائل نہ ہوگی۔
باب: آیت «حور مقصورات في الخيام» کی تفسیر۔
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے عبدالعزیز بن عبدالصمد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعمران جونی نے بیان کیا، ان سے ابوبکر بن عبداللہ بن قیس نے اور ان سے ان کے والد نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جنت میں کھوکھلے موتی کا خیمہ ہوگا، اس کی چوڑائی ساٹھ میل ہوگی اور اس کے ہر کنارے پر مسلمان کی ایک بیوی ہوگی ایک کنارے والی دوسرے کنارے والی کو نہ دیکھ سکے گی۔
None
اور مومن ان کے پاس باری باری جائیں گے اور دو باغ ہوں گے جن کے برتن اور تمام دوسری چیزیں چاندی کی ہوں گی اور ایسے بھی دو باغ ہوں گے جب کے برتن اور تمام دوسری چیزیں سونے کی ہوں گی۔ جنت عدن والوں کو اللہ پاک کے دیدار میں صرف ایک جلال کی چادر حائل ہو گی جو اس کے ( مبارک ) منہ پر پڑی ہو گی۔
باب
باب : سورة المجادلہ کی تفسیر مجاہد نے کہا يحادون الله کا معنی اللہ کی مخالفت کرتے ہیں۔ کبتوا ذلیل کئے گئے۔ استحوذ غالب ہوگیا۔
تفسیر سورت حشر! جلاء کے معنی ایک ملک سے دوسرے ملک میں نکال دینا۔
ہم سے محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا، کہا ہم سے سعید بن سلیمان نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشیم نے بیان کیا، کہا ہم کو ابوبشر جعفر نے خبر دی، ان سے سعید بن جبیر نے بیان کیا کہ میں نے عبداللہ بن عباس (رض) سے سورة التوبہ کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا یہ سورة التوبہ کی ہے یا فضیحت کرنے والی ہے اس سورت میں برابر یہی اترتا رہا بعض لوگ ایسے ہیں اور بعض لوگ ایسے ہیں یہاں تک کہ لوگوں کو گمان ہوا یہ سورت کسی کا کچھ بھی نہیں چھوڑے گی بلکہ سب کے بھید کھول دے گی۔ بیان کیا کہ میں نے سورة الانفال کے متعلق پوچھا تو فرمایا کہ یہ جنگ بدر کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ بیان کیا کہ میں نے سورة الحشر کے متعلق پوچھا تو فرمایا کہ قبیلہ بنو نضیر کے یہود کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔
تفسیر سورت حشر! جلاءکے معنی ایک ملک سے دوسرے ملک میں نکال دینا۔
ہم سے حسن بن مدرک نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن حماد نے بیان کیا، کہا ہم کو ابوعوانہ نے خبر دی، انہیں ابوبشر (جعفر بن ابی) نے اور ان سے سعید بن جبیر نے بیان کیا کہ میں نے ابن عباس (رض) سے سورة الحشر کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا بلکہ اسے سورة النضیر کہا۔
باب: آیت کی تفسیر ”جو کھجوروں کے درخت تم نے کاٹے“۔
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے بنو نضیر کے کھجوروں کے درخت جلا دیئے تھے اور انہیں کاٹ ڈالا تھا۔ یہ درخت مقام بویرہ میں تھے پھر اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے آیت نازل کی ما قطعتم من لينة أو ترکتموها قائمة على أصولها فبإذن الله وليخزي الفاسقين کہ جو کھجوروں کے درخت تم نے کاٹے یا انہیں ان کی جڑوں پر قائم رہنے دیا سو یہ دونوں اللہ ہی کے حکم کے موافق ہیں اور تاکہ نافرمانوں کو ذلیل کرے۔
باب: قول ”اور جو کچھ اللہ نے اپنے رسول کو ان سے بطور فے دلوایا“ کی تفسیر۔
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے کئی مرتبہ عمرو بن دینار سے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے مالک بن اوس بن حدثان نے اور ان سے عمر (رض) نے بیان کیا کہ بنی نضیر کے اموال کو اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو بغیر لڑائی کے دیا تھا۔ مسلمانوں نے اس کے لیے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے۔ ان اموال کا خرچ کرنا خاص طور سے رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ میں تھا۔ چناچہ آپ ﷺ اس میں سے ازواج مطہرات کا سالانہ خرچ دیتے تھے اور جو باقی بچتا تھا اس سے سامان جنگ اور گھوڑوں کے لیے خرچ کرتے تھے تاکہ اللہ رب العزت کے راستہ میں جہاد کے موقع پر کام آئیں۔
باب: آیت کی تفسیر ”اے مسلمانو! اور رسول تمہیں جو کچھ دیں اسے لے لیا کرو اور جس سے آپ روکیں اس سے رک جایا کرو“۔
ہم سے محمد بن یوسف بیکندی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے، بیان کیا، ان سے منصور بن معتمر نے، ان سے ابراہیم نخعی نے، ان سے علقمہ نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے گودوانے والیوں اور گودنے والیوں پر لعنت بھیجی ہے چہرے کے بال اکھاڑنے والیوں اور حسن کے لیے آگے کے دانتوں میں کشادگی کرنے والیوں پر لعنت بھیجی ہے کہ یہ اللہ کی پیدا کی ہوئی صورت میں تبدیلی کرتی ہیں۔ عبداللہ بن مسعود (رض) کا یہ کلام قبیلہ بنی اسد کی ایک عورت کو معلوم ہوا جو ام یعقوب کے نام سے معروف تھی وہ آئی اور کہا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ نے اس طرح کی عورتوں پر لعنت بھیجی ہے ؟ عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہا آخر کیوں نہ میں انہیں لعنت کروں جنہیں رسول اللہ ﷺ نے لعنت کی ہے اور جو کتاب اللہ کے حکم کے مطابق ملعون ہے۔ اس عورت نے کہا کہ قرآن مجید تو میں نے بھی پڑھا ہے لیکن آپ جو کچھ کہتے ہیں میں نے تو اس میں کہیں یہ بات نہیں دیکھی۔ انہوں نے کہا کہ اگر تم نے بغور پڑھا ہوتا تو تمہیں ضرور مل جاتا کیا تم نے یہ آیت نہیں پڑھی وما آتاکم الرسول فخذوه وما نهاكم عنه فانتهوا کہ رسول ( ﷺ ) تمہیں جو کچھ دیں لے لیا کرو اور جس سے تمہیں روک دیں، رک جایا کرو۔ اس نے کہا کہ پڑھی ہے عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہا کہ پھر نبی کریم ﷺ نے ان چیزوں سے روکا ہے۔ اس پر عورت نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ آپ کی بیوی بھی ایسا کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اچھا جاؤ اور دیکھ لو۔ وہ عورت گئی اور اس نے دیکھا لیکن اس طرح کی ان کے یہاں کوئی معیوب چیز اسے نہیں ملی۔ پھر عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہا کہ اگر میری بیوی اسی طرح کرتی تو بھلا وہ میرے ساتھ رہ سکتی تھی ؟ ہرگز نہیں۔
باب: آیت کی تفسیر ”اے مسلمانو! اور رسول تمہیں جو کچھ دیں اسے لے لیا کرو اور جس سے آپ روکیں اس سے رک جایا کرو“۔
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرحمٰن بن مہدی نے بیان کیا، ان سے سفیان ثوری نے بیان کیا کہ میں نے عبدالرحمٰن بن عابس سے منصور بن معتمر کی حدیث کا ذکر کیا جو وہ ابراہیم سے بیان کرتے تھے کہ ان سے علقمہ نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے سر کے قدرتی بالوں کے ساتھ مصنوعی بال لگانے والیوں پر لعنت بھیجی تھی۔ عبدالرحمٰن بن عابس نے کہا کہ میں نے بھی ام یعقوب نامی ایک عورت سے سنا تھا وہ عبداللہ بن مسعود (رض) منصور کی حدیث کے مثل بیان کرتی تھی۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور ان لوگوں کا (بھی حق ہے) جو دارالسلام اور ایمان میں ان سے پہلے ہی ٹھکانا پکڑے ہوئے ہیں“، آیت میں انصار مراد ہیں۔
ہم سے احمد بن یونس بیان کیا، کہا ہم سے ابوبکر نے بیان کیا، ان سے حصین نے، ان سے عمرو بن میمون نے بیان کیا کہ عمر بن خطاب (رض) نے (زخمی ہونے کے بعد انتقال سے پہلے) فرمایا تھا میں اپنے بعد ہونے والے خلیفہ کو مہاجرین اولین کے بارے میں وصیت کرتا ہوں کہ وہ ان کا حق پہچانے اور میں اپنے بعد ہونے والے خلیفہ کو انصار کے بارے میں وصیت کرتا ہوں جو دارالسلام اور ایمان میں نبی کریم ﷺ کی ہجرت سے پہلے ہی سے قرار پکڑے ہوئے ہیں یہ کہ ان میں جو نیکوکار ہیں ان کی عزت کرے اور ان کے غلط کاروں سے درگزر کرے۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور اپنے سے مقدم رکھتے ہیں“ آخرت آیت تک۔
مجھ سے یعقوب بن ابراہیم بن کثیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسامہ نے بیان کیا، کہا ہم سے فضیل بن غزوان نے بیان کیا، ان سے ابوحازم اشجعی نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک صاحب خود (ابوہریرہ رضی اللہ عنہ) حاضر ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! میں فاقہ سے ہوں۔ نبی کریم ﷺ نے انہیں ازواج مطہرات کے پاس بھیجا (کہ وہ آپ کی دعوت کریں) لیکن ان کے پاس کوئی چیز کھانے کی نہیں تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیا کوئی شخص ایسا نہیں جو آج رات اس مہمان کی میزبانی کرے ؟ اللہ اس پر رحم کرے گا۔ اس پر ایک انصاری صحابی (ابوطلحہ) کھڑے ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! یہ آج میرے مہمان ہیں پھر وہ انہیں اپنے ساتھ گھر لے گئے اور اپنی بیوی سے کہا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان ہیں، کوئی چیز ان سے بچا کے نہ رکھنا۔ بیوی نے کہا اللہ کی قسم میرے پاس اس وقت بچوں کے کھانے کے سوا اور کوئی چیز نہیں ہے۔ انصاری صحابی نے کہا اگر بچے کھانا مانگیں تو انہیں سلا دو اور آؤ یہ چراغ بھی بجھا دو ، آج رات ہم بھوکے ہی رہ لیں گے۔ بیوی نے ایسا ہی کیا۔ پھر وہ انصاری صحابی صبح کے وقت رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فلاں (انصاری صحابی) اور ان کی بیوی (کے عمل) کو پسند فرمایا۔ یا (آپ ﷺ نے یہ فرمایا کہ) اللہ تعالیٰ مسکرایا پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی ويؤثرون على أنفسهم ولو کان بهم خصاصة یعنی اور اپنے سے مقدم رکھتے ہیں اگرچہ خود فاقہ میں ہی ہوں۔
باب: آیت کی تفسیر ”اے لوگو جو ایمان لائے ہو! میرے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو دوست مت بناؤ“۔
ہم سے عبداللہ بن زبیر حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عمرو بن دینار نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے حسن بن محمد بن علی نے بیان کیا، انہوں نے علی (رض) کے کاتب عبیداللہ بن ابی رافع سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ میں نے علی (رض) سے سنا انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے، زبیر اور مقداد (رض) کو روانہ کیا اور فرمایا کہ چلے جاؤ اور جب مقام خاخ کے باغ پر پہنچ جاؤ گے (جو مکہ اور مدینہ کے درمیان تھا) تو وہاں تمہیں ہودج میں ایک عورت ملے گی، اس کے ساتھ ایک خط ہوگا، وہ خط تم اس سے لے لینا۔ چناچہ ہم روانہ ہوئے ہمارے گھوڑے ہمیں تیز رفتاری کے ساتھ لے جا رہے تھے۔ آخر جب ہم اس باغ پر پہنچے تو واقعی وہاں ہم نے ہودج میں اس عورت کو پا لیا ہم نے اس سے کہا کہ خط نکال۔ اس نے کہا میرے پاس کوئی خط نہیں ہے ہم نے اس سے کہا کہ خط نکال دے ورنہ ہم تیرا سارا کپڑا اتار کر تلاشی لیں گے۔ آخر اس نے اپنی چوٹی سے خط نکالا ہم لوگ وہ خط لے کر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اس خط میں لکھا ہوا تھا کہ حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے مشرکین کے چند آدمیوں کی طرف جو مکہ میں تھے اس خط میں انہوں نے نبی کریم ﷺ کی تیاری کا ذکر لکھا تھا (کہ نبی کریم ﷺ ایک بڑی فوج لے کر آتے ہیں تم اپنا بچاؤ کرلو) ۔ نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا : حاطب ! یہ کیا ہے ؟ انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! میرے معاملہ میں جلدی نہ فرمائیں میں قریش کے ساتھ بطور حلیف (زمانہ قیام مکہ میں) رہا کرتا تھا لیکن ان کے قبیلہ و خاندان سے میرا کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس کے برخلاف آپ کے ساتھ جو دوسرے مہاجرین ہیں ان کی قریش میں رشتہ داریاں ہیں اور ان کی رعایت سے قریش مکہ میں رہ جانے والے ان کے اہل و عیال اور مال کی حفاظت کرتے ہیں۔ میں نے چاہا کہ جبکہ ان سے میرا کوئی نسبی تعلق نہیں ہے تو اس موقع پر ان پر ایک احسان کر دوں اور اس کی وجہ سے وہ میرے رشتہ داروں کی مکہ میں حفاظت کریں۔ یا رسول اللہ ! میں نے یہ عمل کفر یا اپنے دین سے پھرجانے کی وجہ سے نہیں کیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یقیناً انہوں نے تم سے سچی بات کہہ دی ہے۔ عمر (رض) بولے کہ یا رسول اللہ ! مجھے اجازت دیں میں اس کی گردن مار دوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا یہ بدر کی جنگ میں ہمارے ساتھ موجود تھے۔ تمہیں کیا معلوم، اللہ تعالیٰ بدر والوں کے تمام حالات سے واقف تھا اور اس کے باوجود ان کے متعلق فرما دیا کہ جو جی چاہے کرو کہ میں نے تمہیں معاف کردیا۔ عمرو بن دینار نے کہا کہ حاطب بن ابی بلتعہ (رض) ہی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی تھی يا أيها الذين آمنوا لا تتخذوا عدوي وعدوکم کہ الایۃ۔ اے ایمان والو ! تم میرے دشمن اور اپنے دشمن کو دوست نہ بنا لینا۔ سفیان بن عیینہ نے کہا کہ مجھے اس کا علم نہیں کہ اس آیت کا ذکر حدیث میں داخل ہے یا نہیں یہ عمرو بن دینار کا قول ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”جب تمہارے پاس ایمان والی عورتیں ہجرت کر کے آئیں“۔
ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن شہاب کے بھتیجے نے اپنے چچا محمد بن مسلم سے، انہیں عروہ نے خبر دی اور انہیں نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ عائشہ (رض) نے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد ان مومن عورتوں کا امتحان لیا کرتے تھے جو ہجرت کر کے مدینہ آتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا تھا يا أيها النبي إذا جاءک المؤمنات يبايعنك کہ اے نبی ! جب آپ سے مسلمان عورتیں بیعت کرنے کے لیے آئیں ارشاد غفور رحيم تک۔ عروہ نے بیان کیا کہ عائشہ (رض) نے کہا چناچہ جو عورت اس شرط (آیت میں مذکور یعنی ایمان وغیرہ) کا اقرار کرلیتی نبی کریم ﷺ اس سے زبانی طور پر فرماتے کہ میں نے تمہاری بیعت قبول کرلی اور ہرگز نہیں، اللہ کی قسم ! نبی کریم ﷺ کے ہاتھ نے کسی عورت کا ہاتھ بیعت لیتے وقت کبھی نہیں چھوا صرف آپ ان سے زبانی بیعت لیتے تھے کہ آیت میں مذکورہ باتوں پر قائم رہنا۔ اس روایت کی متابعت یونس، معمر اور عبدالرحمٰن بن اسحاق نے زہری سے کی اور اسحاق بن راشد نے زہری سے بیان کیا کہ ان سے عروہ اور عمرہ بنت عبدالرحمٰن نے کہا۔
باب: آیت کی تفسیر ”(اے رسول!) جب ایمان والی عورتیں آپ کے پاس آئیں تاکہ وہ آپ سے بیعت کریں“۔
ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوارث نے، کہا ہم سے ایوب نے، ان سے حفصہ بنت سیرین نے اور ان سے ام عطیہ (رض) نے بیان کیا کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے بیعت کی تو آپ نے ہمارے سامنے اس آیت کی تلاوت کی أن لا يشرکن بالله شيئا کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گی اور ہمیں نوحہ (یعنی میت پر زور زور سے رونا پیٹنا) کرنے سے منع فرمایا۔ نبی کریم ﷺ کی اس ممانعت پر ایک عورت (خود ام عطیہ رضی اللہ عنہا) نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا اور عرض کیا کہ فلاں عورت نے نوحہ میں میری مدد کی تھی، میں چاہتی ہوں کہ اس کا بدلہ چکا آؤں نبی کریم ﷺ نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا چناچہ وہ گئیں اور پھر دوبارہ آ کر نبی کریم ﷺ سے بیعت کی۔
باب: آیت کی تفسیر ”(اے رسول!) جب ایمان والی عورتیں آپ کے پاس آئیں تاکہ وہ آپ سے بیعت کریں“۔
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے وہب بن جریر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے میرے والد نے بیان کیا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے زبیر سے سنا، انہوں نے عکرمہ سے اور انہوں نے ابن عباس (رض) سے اللہ تعالیٰ کے ارشاد ولا يعصينک في معروف یعنی اور بھلی باتوں (اور اچھے کاموں میں) آپ کی نافرمانی نہ کریں گی۔ کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یہ بھی ایک شرط تھی جسے اللہ تعالیٰ نے (نبی کریم ﷺ سے بیعت کے وقت) عورتوں کے لیے ضروری قرار دیا تھا۔
باب: آیت کی تفسیر ”(اے رسول!) جب ایمان والی عورتیں آپ کے پاس آئیں تاکہ وہ آپ سے بیعت کریں“۔
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زہری نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوادریس نے بیان کیا اور انہوں نے عبادہ بن صامت (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ کیا تم مجھ سے اس بات پر بیعت کرو گے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ گے اور نہ زنا کرو گے اور نہ چوری کرو گے۔ آپ ﷺ نے سورة النساء کی آیتیں پڑھیں۔ سفیان نے اس حدیث میں اکثر یوں کہا کہ آپ نے یہ آیت پڑھی۔ پھر تم میں سے جو شخص اس شرط کو پورا کرے گا تو اس کا اجر اللہ پر ہے اور جو کوئی ان میں سے کسی شرط کی خلاف ورزی کر بیٹھا اور اس پر اسے سزا بھی مل گئی تو سزا اس کے لیے کفارہ بن جائے گی لیکن کسی نے اپنے کسی عہد کے خلاف کیا اور اللہ نے اسے چھپالیا تو وہ اللہ کے حوالے ہے اللہ چاہے تو اسے اس پر عذاب دے اور اگر چاہے معاف کر دے، سفیان کے ساتھ اس حدیث کو عبدالرزاق نے بھی معمر سے روایت کیا انہوں نے زہری سے اور یوں ہی کہا آیت پڑھی۔
باب: آیت کی تفسیر ”(اے رسول!) جب ایمان والی عورتیں آپ کے پاس آئیں تاکہ وہ آپ سے بیعت کریں“۔
ہم سے محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ہارون بن معروف نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا کہ مجھے ابن جریج نے خبر دی، انہیں حسن بن مسلم نے خبر دی، انہیں طاؤس نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر اور عمر اور عثمان (رض) عنہم کے ساتھ عیدالفطر کی نماز پڑھی ہے۔ ان تمام بزرگوں نے نماز خطبہ سے پہلے پڑھی تھی اور خطبہ بعد میں دیا تھا (ایک مرتبہ خطبہ سے فارغ ہونے کے بعد) نبی کریم ﷺ اترے گویا اب بھی میں نبی کریم ﷺ کو دیکھ رہا ہوں، جب آپ لوگوں کو اپنے ہاتھ کے اشارے سے بٹھا رہے تھے پھر آپ صف چیرتے ہوئے آگے بڑھے اور عورتوں کے پاس تشریف لائے۔ بلال (رض) آپ کے ساتھ تھے پھر آپ نے یہ آیت تلاوت کی يا أيها النبي إذا جاءک المؤمنات يبايعنک على أن لا يشرکن بالله شيئا ولا يسرقن ولا يزنين ولا يقتلن أولادهن ولا يأتين ببهتان يفترينه بين أيديهن وأرجلهن یعنی اے نبی ! جب مومن عورتیں آپ کے پاس آئیں کہ آپ سے ان باتوں پر بیعت کریں کہ اللہ کے ساتھ نہ کسی کو شریک کریں گی اور نہ چوری کریں گی اور نہ بدکاری کریں گی اور نہ اپنے بچوں کو قتل کریں گی اور نہ بہتان لگائیں گی جسے اپنے ہاتھ اور پاؤں کے درمیان گھڑ لیں آپ نے پوری آیت آخر تک پڑھی۔ جب آپ ﷺ آیت پڑھ چکے تو فرمایا تم ان شرائط پر قائم رہنے کا وعدہ کرتی ہو ؟ ان میں سے ایک عورت نے جواب دیا جی ہاں یا رسول اللہ ! ان کے سوا اور کسی عورت نے (شرم کی وجہ سے) کوئی بات نہیں کہی۔ حسن کو اس عورت کا نام معلوم نہیں تھا بیان کیا کہ پھر عورتوں نے صدقہ دینا شروع کیا اور بلال (رض) نے اپنا کپڑا پھیلا لیا۔ عورتیں بلال (رض) کے کپڑے میں چھلے اور انگوٹھیاں ڈالنے لگیں۔
باب: آیت کی تفسیر ”عیسیٰ نے فرمایا کہ میرے بعد ایک رسول آئے گا جس کا نام احمد ہو گا“۔
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی اور ان سے زہری نے بیان کیا کہا ہم کو محمد بن جبیر بن مطعم نے خبر دی اور ان سے ان کے والد جبیر بن مطعم (رض) نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ ﷺ فرما رہے تھے کہ میرے کئی نام ہیں۔ میں محمد ہوں، میں احمد ہوں، میں ماحی ہوں کہ جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کفر کو مٹا دے گا اور میں حاشر ہوں کہ اللہ تعالیٰ سب کو حشر میں میرے بعد جمع کرے گا اور میں عاقب ہوں۔ یعنی سب پیغمبروں کے بعد دنیا میں آنے والا ہوں۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور دوسروں کے لیے بھی ان میں سے (آپ کو بھیجا) جو ابھی ان میں شامل نہیں ہوئے ہیں“۔
مجھ سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے سلیمان بن ہلال نے بیان کیا، ان سے ثور نے، ان سے ابوالغیث سالم نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ سورة الجمعہ کی یہ آیتیں نازل ہوئیں وآخرين منهم لما يلحقوا بهم الایۃ اور دوسروں کے لیے بھی جو ابھی ان میں شامل نہیں ہوئے ہیں۔ (نبی کریم ﷺ ہادی اور معلم ہیں) بیان کیا میں نے عرض کی یا رسول اللہ ! یہ دوسرے کون لوگ ہیں ؟ نبی کریم ﷺ نے کوئی جواب نہیں دیا۔ آخر یہی سوال تین مرتبہ کیا۔ مجلس میں سلمان فارسی (رض) بھی موجود تھے نبی کریم ﷺ نے ان پر ہاتھ رکھ کر فرمایا اگر ایمان ثریا پر بھی ہوگا تب بھی ان لوگوں (یعنی فارس والوں) میں سے اس تک پہنچ جائیں گے یا یوں فرمایا کہ ایک آدمی ان لوگوں میں سے اس تک پہنچ جائے گا۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور دوسروں کے لیے بھی ان میں سے (آپ کو بھیجا) جو ابھی ان میں شامل نہیں ہوئے ہیں“۔
ہم سے عبدالعزیز بن عبدالوہاب نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز نے بیان کیا، انہیں ثور نے اور ان سے ابوالغیث نے، انہیں ابوہریرہ (رض) نے اور انہیں نبی کریم ﷺ نے کہ ان کی قوم کے کچھ لوگ اسے پالیں گے۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور جب کبھی انہوں نے اموال تجارت دیکھا“ آخر تک۔
مجھ سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے حصین نے بیان کیا، ان سے سالم بن ابی الجعد نے اور ابوسفیان نے جابر بن عبداللہ (رض) سے، انہوں نے بیان کیا کہ جمعہ کے دن سامان تجارت لیے ہوئے اونٹ آئے ہم اس وقت نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھے انہیں دیکھ کر سوائے بارہ آدمی کے سب لوگ ادھر ہی دوڑ پڑے۔ اس پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی وإذا رأوا تجارة أو لهوا انفضوا إليها الایۃ یعنی اور بعض لوگوں نے جب کبھی ایک سودے یا تماشے کی چیز کو دیکھا تو اس کی طرف دوڑے ہوئے پھیل گئے۔
باب: آیت کی تفسیر ”جب منافق آپ کے پاس آتے تو کہتے ہیں کہ بیشک ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں“ «لَكَاذِبُونَ» تک۔
ہم سے عبداللہ بن رجاء نے بیان کیا، کہا ہم سے اسرائیل بن یونس نے بیان کیا، ان سے اسحاق نے اور ان سے زید بن ارقم (رض) نے بیان کیا کہ میں ایک غزوہ (غزوہ تبوک) میں تھا اور میں نے (منافقوں کے سردار) عبداللہ بن ابی کو یہ کہتے سنا کہ جو لوگ (مہاجرین) رسول اللہ ﷺ کے پاس جمع ہیں ان پر خرچ نہ کرو تاکہ وہ خود ہی رسول اللہ ﷺ سے جدا ہوجائیں گے۔ اس نے یہ بھی کہا اب اگر ہم مدینہ لوٹ کر جائیں گے تو عزت والا وہاں سے ذلت والوں کو نکال باہر کرے گا۔ میں نے اس کا ذکر اپنے چچا (سعد بن عبادہ انصاری) سے کیا یا عمر (رض) سے اس کا ذکر کیا۔ (راوی کو شک تھا) انہوں نے اس کا ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا۔ نبی کریم ﷺ نے مجھے بلایا میں نے تمام باتیں آپ کو سنا دیں۔ نبی کریم ﷺ نے عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کو بلا بھیجا۔ انہوں نے قسم کھالی کہا کہ انہوں نے اس طرح کی کوئی بات نہیں کہی تھی۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے مجھ کو جھوٹا سمجھا اور عبداللہ کو سچا سمجھا۔ مجھے اس کا اتنا صدمہ ہوا کہ ایسا کبھی نہ ہوا تھا۔ پھر میں گھر میں بیٹھ رہا۔ میرے چچا نے کہا کہ میرا خیال نہیں تھا کہ نبی کریم ﷺ تمہاری تکذیب کریں گے اور تم پر ناراض ہوں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل کی إذا جاءک المنافقون جب منافق آپ کے پاس آتے ہیں اس کے بعد نبی کریم ﷺ نے مجھے بلوایا اور اس سورت کی تلاوت کی اور فرمایا کہ اے زید ! اللہ تعالیٰ نے تم کو سچا کردیا ہے۔
باب: آیت کی تفسیر یعنی ”ان لوگوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا رکھا ہے یعنی جس سے وہ اپنے نفاق کی پردہ پوشی کرتے ہیں“۔
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے اسرائیل بن یونس نے بیان کیا، انہوں نے کہا ان سے ابواسحاق سبیعی نے بیان کیا اور ان سے زید بن ارقم (رض) نے بیان کیا کہ میں اپنے چچا (سعد بن عبادہ یا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہما) کے ساتھ تھا میں نے عبداللہ بن ابی ابن سلول کو کہتے سنا کہ جو لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس ہیں ان پر خرچ مت کرو تاکہ وہ ان کے پاس سے بھاگ جائیں۔ یہ بھی کہا کہ اگر اب ہم مدینہ لوٹ کر جائیں گے تو عزت والا وہاں سے ذلیلوں کو نکال کر باہر کر دے گا۔ میں نے اس کی یہ بات چچا سے آ کر کہی اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کا ذکر کیا۔ نبی کریم ﷺ نے عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کو بلوایا انہوں نے قسم کھالی کہ ایسی کوئی بات انہوں نے نہیں کہی تھی۔ نبی کریم ﷺ نے بھی ان کو سچا جانا اور مجھ کو جھوٹا سمجھا۔ مجھے اس اتنا صدمہ پہنچا کہ ایسا کبھی نہیں پہنچا ہوگا پھر میں گھر کے اندر بیٹھ گیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل کی إذا جاءک المنافقون سے هم الذين يقولون لا تنفقوا على من عند رسول الله اور آیت ليخرجن الأعز منها الأذل تو نبی کریم ﷺ نے مجھے بلوایا اور میرے سامنے اس سورت کی تلاوت کی پھر فرمایا کہ اللہ نے تمہارے بیان کو سچا کردیا ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”یہ اس سبب سے ہے کہ یہ لوگ ظاہر میں ایمان لے آئے پھر دلوں میں کافر ہو گئے سو ان کے دلوں میں مہر لگا دی گئی پس اب یہ نہیں سمجھتے“۔
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے حکم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے محمد بن کعب قرظی سے سنا، کہا کہ میں نے زید بن ارقم (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ جب عبداللہ بن ابی ابن سلول نے کہا کہ جو لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس ہیں ان پر خرچ نہ کرو یہ بھی کہا کہ اب اگر ہم مدینہ واپس گئے تو ہم سے عزت والا ذلیلوں کو نکال باہر کرے گا تو میں نے یہ خبر نبی کریم ﷺ تک پہنچائی۔ اس پر کفار نے مجھے ملامت کی اور عبداللہ بن ابی نے قسم کھالی کہ اس نے یہ بات نہیں کہی تھی پھر میں گھر واپس آگیا اور سو گیا۔ اس کے بعد مجھے نبی کریم ﷺ نے مجھے طلب فرمایا اور میں حاضر ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری تصدیق میں آیت نازل کردی ہے اور یہ آیت اتری ہے هم الذين يقولون لا تنفقوا الخ آخر تک۔ اور ابن ابی زائدہ نے اعمش سے بیان کیا، ان سے عمرو نے، ان سے ابن ابی لیلیٰ نے اور ان سے زید بن ارقم (رض) نے نبی کریم ﷺ سے اسی طرح نقل کیا۔
باب: آیت کی تفسیر ”اے نبی! تو ان کو دیکھتا ہے تو تجھے ان کے جسم حیران کرتے ہیں، جب وہ باتیں کرتے ہیں تو تو ان کی بات سنتا ہے گویا وہ بہت بڑی لکڑی کے کھمبے ہیں جن کے ساتھ لوگ تکیہ لگاتے ہیں، ہر ایک زور دار آواز کو اپنے ہی برخلاف جانتے ہیں پس تم اے نبی! ان دشمنوں سے بچتے رہو، ان پر اللہ کی مار ہو کہاں کو بہکے جاتے ہیں“۔
ہم سے عمرو بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے زہیر بن معاویہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسحاق نے بیان کیا، کہا کہ میں نے زید بن ارقم (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک سفر (غزوہ تبوک یا بنی مصطلق) میں تھے جس میں لوگوں پر بڑے تنگ اوقات آئے تھے۔ عبداللہ بن ابی نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ جو لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس جمع ہیں ان پر کچھ خرچ مت کرو تاکہ وہ ان کے پاس سے منتشر ہوجائیں گے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ اگر ہم اب مدینہ لوٹ کر جائیں گے تو عزت والا وہاں سے ذلیلوں کو نکال باہر کرے گا۔ میں نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر ان کی اس گفتگو کی اطلاع دی تو آپ نے عبداللہ بن ابی ابن سلول کو بلا کر پوچھا۔ اس نے بڑی قسمیں کھا کر کہا کہ میں نے ایسی کوئی بات نہیں کہی۔ لوگوں نے کہا کہ زید (رض) نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے جھوٹ بولا ہے۔ لوگوں کی اس طرح کی باتوں سے میں بڑا رنجیدہ ہوا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے میری تصدیق فرمائی اور یہ آیت نازل ہوئی إذا جاءک المنافقون الخ یعنی جب آپ کے پاس منافق آئے پھر نبی کریم ﷺ نے انہیں بلایا تاکہ ان کے لیے مغفرت کی دعا کریں لیکن انہوں نے اپنے سر پھیر لیے۔ زید (رض) نے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد خشب مسندة گویا وہ بہت بڑے لکڑی کے کھمبے ہیں (ان کے متعلق اس لیے کہا گیا کہ) وہ بڑے خوبصورت اور ڈیل ڈول معقول مگر دل میں منافق تھے۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) تمہارے لیے استغفار فرما دیں تو وہ اپنا سر پھیر لیتے ہیں اور آپ انہیں دیکھیں گے کہ تکبر کرتے ہوئے وہ کس قدر بےرخی برت رہے ہیں“۔
ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، ان سے اسرائیل نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق نے اور ان سے زید بن ارقم (رض) نے بیان کیا کہ میں نے اپنے چچا کے ساتھ تھا میں نے عبداللہ بن ابی ابن سلول کو کہتے سنا کہ جو لوگ رسول ( ﷺ ) کے پاس ہیں ان پر کچھ خرچ نہ کرو تاکہ وہ منتشر ہوجائیں اور اگر اب ہم مدینہ واپس لوٹیں گے تو ہم میں سے جو عزت والے ہیں ان ذلیلوں کو نکال باہر کردیں گے۔ میں نے اس کا ذکر اپنے چچا سے کیا اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے کہا جب نبی کریم ﷺ نے ان ہی کی تصدیق کردی تو مجھے اس کا اتنا افسوس ہوا کہ پہلے کبھی کسی بات پر نہ ہوا ہوگا، میں غم سے اپنے گھر میں بیٹھ گیا۔ میرے چچا نے کہا کہ تمہارا کیا ایسا خیال تھا کہ نبی کریم ﷺ نے تمہیں جھٹلایا اور تم پر خفا ہوئے ہیں ؟ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی إذا جاءک المنافقون قالوا نشهد إنک لرسول الله جب منافق آپ کے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ آپ بیشک اللہ کے رسول ہیں نبی کریم ﷺ نے مجھے بلوا کر اس آیت کی تلاوت فرمائی اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری تصدیق نازل کردی ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”ان کے لیے برابر ہے خواہ آپ ان کے لیے استغفار کریں یا نہ کریں اللہ تعالیٰ انہیں کسی حال میں نہیں بخشے گا، بیشک اللہ تعالیٰ ایسے نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا“۔
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا کہ ان سے عمرو بن دینار نے بیان کیا اور انہوں نے جابر بن عبداللہ (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ہم ایک غزوہ (غزوہ تبوک) میں تھے۔ سفیان نے ایک مرتبہ (بجائے غزوہ کے) جیش (لشکر) کا لفظ کہا۔ مہاجرین میں سے ایک آدمی نے انصار کے ایک آدمی کو لات مار دی۔ انصاری نے کہا کہ اے انصاریو ! دوڑو اور مہاجر نے کہا اے مہاجرین ! دوڑو۔ تو رسول اللہ ﷺ نے بھی اسے سنا اور فرمایا کیا قصہ ہے ؟ یہ جاہلیت کی پکار کیسی ہے ؟ لوگوں نے بتایا کہ یا رسول اللہ ! ایک مہاجر نے ایک انصاری کو لات سے مار دیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اس طرح جاہلیت کی پکار کو چھوڑ دو کہ یہ نہایت ناپاک باتیں ہیں۔ عبداللہ بن ابی نے بھی یہ بات سنی تو کہا اچھا اب یہاں تک نوبت پہنچ گئی۔ خدا کی قسم ! جب ہم مدینہ لوٹیں گے تو ہم سے عزت والا ذلیلوں کو نکال کر باہر کر دے گا۔ اس کی خبر نبی کریم ﷺ کو پہنچ گئی۔ عمر (رض) نے کھڑے ہو کر عرض کیا : یا رسول اللہ ! مجھے اجازت دیں کہ میں اس منافق کو ختم کر دوں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو تاکہ لوگ یہ نہ کہیں کہ محمد ( ﷺ ) اپنے ساتھیوں کو قتل کرا دیتے ہیں۔ جب مہاجرین مدینہ منورہ میں آئے تو انصار کی تعداد سے ان کی تعداد کم تھی۔ لیکن بعد میں ان مہاجرین کی تعداد زیادہ ہوگئی تھی۔ سفیان نے بیان کیا کہ میں نے حدیث عمرو بن دینار سے یاد کی، عمرو نے بیان کیا کہ میں نے جابر (رض) سے سنا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھے۔
باب: آیت کی تفسیر ”یہی لوگ تو کہتے ہیں کہ جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہو رہے ہیں، ان پر خرچ مت کرو، یہاں تک کہ (بھوکے رہ کر) وہ آپ ہی خود تتر بتر ہو جائیں حالانکہ اللہ ہی کے قبضے میں آسمان اور زمین کے خزانے ہیں لیکن منافقین یہ نہیں سمجھتے“۔
ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے اسماعیل بن ابراہیم بن عقبہ نے بیان کیا، ان سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا کہ مجھ سے عبداللہ بن فضل نے بیان کیا اور انہوں نے انس بن مالک (رض) سے ان کا بیان نقل کیا کہ مقام حرہ میں جو لوگ شہید کردیئے گئے تھے ان پر مجھے بڑا رنج ہوا۔ زید بن ارقم (رض) کو میرے غم کی اطلاع پہنچی تو انہوں نے مجھے لکھا کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے، آپ ﷺ فرما رہے تھے کہ اے اللہ ! انصار کی مغفرت فرما اور ان کے بیٹوں کی بھی مغفرت فرما۔ عبداللہ بن فضل کو اس میں شک تھا کہ آپ نے انصار کے بیٹوں کے بیٹوں کا بھی ذکر کیا تھا یا نہیں۔ انس (رض) سے ان کی مجلس کے حاضرین میں سے کسی نے سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ زید بن ارقم (رض) ہی وہ ہیں جن کے سننے کی اللہ تعالیٰ نے تصدیق کی تھی۔
باب
باب : سورة التغابن کی تفسیر علقمہ نے عبداللہ سے یہ نقل کیا کہ آیت ومن يؤمن بالله يهد قلبه اور جو کوئی اللہ پر ایمان لاتا ہے اللہ اس کے دل کو نور ہدایت سے روشن کردیتا ہے سے مراد وہ شخص ہے کہ اگر اس پر کوئی مصیبت آپڑے تو اس پر بھی وہ راضی رہتا ہے بلکہ سمجھتا ہے کہ یہ اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ مجاہد نے کہا کہ وبال أمرها ای جزاء أمرها یعنی اس کے گناہ کا وبال جو سزا کی شکل میں ہے اسے بھگتنا ہوگا، وہ مراد ہے۔
تفسیر سورت الطلاق اور مجاہد نے کہا کہ وہاں " امر ہا " سے مراد اس کام کا بدلہ ہے۔
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، کہا مجھ کو سالم نے خبر دی اور انہیں عبداللہ بن عمر (رض) نے خبر دی کہ انہوں نے اپنی بیوی آمنہ بنت غفار کو جبکہ وہ حائضہ تھیں طلاق دے دی۔ عمر (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے اس کا ذکر کیا۔ آپ اس پر بہت غصہ ہوئے اور فرمایا کہ وہ ان سے (اپنی بیوی سے) رجوع کرلیں اور اپنے نکاح میں رکھیں یہاں تک کہ وہ ماہواری سے پاک ہوجائے پھر ماہواری آئے اور پھر وہ اس سے پاک ہو، اب اگر وہ طلاق دینا مناسب سمجھیں تو اس کی پاکی (طہر) کے زمانہ میں ان کے ساتھ ہمبستری سے پہلے طلاق دے سکتے ہیں بس یہی وہ وقت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے (مردوں کو) حکم دیا ہے کہ اس میں یعنی حالت طہر میں طلاق دیں۔
باب: آیت کی تفسیر ”سو حمل والیوں کی عدت ان کے بچے کا پیدا ہو جانا ہے اور جو کوئی اللہ سے ڈرے اللہ اس کے کام میں آسانی پیدا کر دے گا“۔
ہم سے سعد بن حفص نے بیان کیا، کہا ہم سے شیبان نے بیان کیا، ان سے یحییٰ نے بیان کیا، کہا مجھے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے خبر دی، انہوں نے بیان کیا کہ ایک شخص ابن عباس (رض) کے پاس آیا ابوہریرہ (رض) بھی ان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ آنے والے نے پوچھا کہ آپ مجھے اس عورت کے متعلق مسئلہ بتائیے جس نے اپنے شوہر کی وفات کے چار مہینے بعد بچہ جنا ؟ ابن عباس (رض) نے کہا کہ جس کا خاوند فوت ہو وہ عدت کی دو مدتوں میں جو مدت لمبی ہو اس کی رعایت کرے۔ (ابوسلمہ نے بیان کیا کہ) میں نے عرض کیا کہ (قرآن مجید میں تو ان کی عدت کا یہ حکم ہے) حمل والیوں کی عدت ان کے حمل کا پیدا ہوجانا ہے۔ ابوہریرہ (رض) نے کہا کہ میں بھی اس مسئلہ میں اپنے بھتیجے کے ساتھ ہوں۔ ان کی مراد ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے تھی آخر ابن عباس (رض) نے اپنے غلام کریب کو ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کی خدمت میں بھیجا یہی مسئلہ پوچھنے کے لیے۔ ام المؤمنین نے بتایا کہ سبیعہ اسلمیہ کے شوہر (سعد بن خولہ رضی اللہ عنہما) شہید کردیئے گئے تھے وہ اس وقت حاملہ تھیں شوہر کی موت کے چالیس دن بعد ان کے یہاں بچہ پیدا ہوا پھر ان کے پاس نکاح کا پیغام پہنچا اور رسول اللہ ﷺ نے ان کا نکاح کردیا۔ ابوالسنابل بھی ان کے پاس پیغام نکاح بھیجنے والوں میں سے تھے۔ اور سلیمان بن حرب اور النعمان نے بیان کیا، کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب نے اور ان سے محمد بن سیرین نے بیان کیا کہ میں ایک مجلس میں جس میں عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ بھی تھے موجود تھا۔ ان کے شاگرد ان کی بہت عزت کیا کرتے تھے۔ میں نے وہاں سبیعہ بنت الحارث کا عبداللہ بن عتبہ بن مسعود سے بیان کیا کہ اس پر ان کے شاگرد نے زبان اور آنکھوں کے اشارے سے ہونٹ کاٹ کر مجھے تنبیہ کی۔ محمد بن سیرین نے بیان کیا کہ میں سمجھ گیا اور کہا کہ عبداللہ بن عتبہ کوفہ میں ابھی زندہ موجود ہیں۔ اگر میں ان کی طرف بھی جھوٹ نسبت کرتا ہوں تو بڑی جرات کی بات ہوگی مجھے تنبیہ کرنے والے صاحب اس پر شرمندہ ہوگئے اور عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ نے کہا لیکن ان کے چچا تو یہ بات نہیں کرتے تھے۔ (ابن سیرین نے بیان کیا کہ) پھر میں ابوعطیہ مالک بن عامر سے ملا اور ان سے یہ مسئلہ پوچھا وہ بھی سبیعہ والی حدیث بیان کرنے لگے لیکن میں نے ان سے کہا آپ نے عبداللہ بن مسعود (رض) سے بھی اس سلسلہ میں کچھ سنا ہے ؟ انہوں نے بیان کیا کہ ہم عبداللہ بن مسعود (رض) کی خدمت میں حاضر تھے تو انہوں نے کہا کیا تم اس پر (جس کے شوہر کا انتقال ہوگیا اور وہ حاملہ ہو۔ عدت کی مدت کو طول دے کر) سختی کرنا چاہتے ہو اور رخصت و سہولت دینے کے لیے تیار نہیں، بات یہ ہے کہ چھوٹی سورة نساء یعنی (سورۃ الطلاق) بڑی سورة النساء کے بعد نازل ہوئی ہے اور کہا وأولات الأحمال أجلهن أن يضعن حملهن الایۃ اور حمل والیوں کی عدت ان کے حمل کا پیدا ہوجانا ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”اے نبی! جس چیز کو اللہ نے آپ کے لیے حلال کیا ہے اسے آپ اپنے لیے کیوں حرام قرار دے رہے ہیں، محض اپنی بیویوں کی خوشی حاصل کرنے کے لیے حالانکہ یہ آپ کے لیے زیبا نہیں ہے اور اللہ بڑا بخشنے والا بڑی ہی رحمت کرنے والا ہے“۔
ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن سعید قطان نے، ان سے ابن حکیم نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس نے کہا کہ اگر کسی نے اپنے اوپر کوئی حلال چیز حرام کرلی تو اس کا کفارہ دینا ہوگا۔ ابن عباس (رض) نے کہا لقد کان لکم في رسول الله إسوة حسنة یعنی بیشک تمہارے لیے تمہارے رسول اللہ کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”اے نبی! جس چیز کو اللہ نے آپ کے لیے حلال کیا ہے اسے آپ اپنے لیے کیوں حرام قرار دے رہے ہیں، محض اپنی بیویوں کی خوشی حاصل کرنے کے لیے حالانکہ یہ آپ کے لیے زیبا نہیں ہے اور اللہ بڑا بخشنے والا بڑی ہی رحمت کرنے والا ہے“۔
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو ہشام بن یوسف نے خبر دی، انہیں ابن جریج نے، انہیں عطاء نے، انہیں عبید بن عمیر اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ زینب بنت جحش (رض) کے گھر میں شہد پیتے اور وہاں ٹھہرتے تھے پھر میں نے اور حفصہ (رض) نے ایسے کیا کہ ہم میں سے جس کے پاس بھی نبی کریم ﷺ (زینب کے یہاں سے شہد پی کر آنے کے بعد) داخل ہوں تو وہ کہے کہ کیا آپ نے پیاز کھائی ہے۔ آپ کے منہ سے مغافیر کی بو آتی ہے۔ چناچہ جب آپ ﷺ تشریف لائے تو منصوبہ بندی کے تحت یہی کہا گیا۔ نبی کریم ﷺ بدبو کو بہت ناپسند فرماتے تھے۔ اس لیے آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے مغافیر نہیں کھائی ہے البتہ زینب بنت جحش کے یہاں سے شہد پیا تھا لیکن اب اسے بھی ہرگز نہیں پیوں گا۔ میں نے اس کی قسم کھالی ہے لیکن تم کسی سے اس کا ذکر نہ کرنا۔
باب: آیت کی تفسیر ”اے نبی! آپ اپنی بیویوں کی خوشی حاصل کرنا چاہتے ہیں اللہ نے تمہارے لیے قسموں کا کفارہ مقرر کر دیا ہے“۔
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا، ان سے یحییٰ نے، ان سے عبید بن حنین نے کہ انہوں نے ابن عباس (رض) کو حدیث بیان کرتے ہوئے سنا، انہوں نے کہا ایک آیت کے متعلق عمر بن خطاب (رض) سے پوچھنے کے لیے ایک سال تک میں تردد میں رہا، ان کا اتنا ڈر غالب تھا کہ میں ان سے نہ پوچھ سکا۔ آخر وہ حج کے لیے گئے تو میں بھی ان کے ساتھ ہو لیا، واپسی میں جب ہم راستہ میں تھے تو رفع حاجت کے لیے وہ پیلو کے درخت میں گئے۔ بیان کیا کہ میں ان کے انتظار میں کھڑا رہا جب وہ فارغ ہو کر آئے تو پھر میں ان کے ساتھ چلا اس وقت میں نے عرض کیا۔ امیرالمؤمنین ! امہات المؤمنین میں وہ کون دو عورتیں تھیں جنہوں نے نبی کریم ﷺ کے لیے متفقہ منصوبہ بنایا تھا ؟ انہوں نے بتلایا کہ حفصہ اور عائشہ (رض) تھیں۔ بیان کیا کہ میں نے عرض کیا اللہ کی قسم میں یہ سوال آپ سے کرنے کے لیے ایک سال سے ارادہ کر رہا تھا لیکن آپ کے رعب کی وجہ سے پوچھنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔ عمر (رض) نے کہا ایسا نہ کیا کرو جس مسئلہ کے متعلق تمہارا خیال ہو کہ میرے پاس اس سلسلے میں کوئی علم ہے تو اسے پوچھ لیا کرو، اگر میرے پاس اس کا کوئی علم ہوگا تو تمہیں بتادیا کروں گا۔ بیان کیا کہ عمر (رض) نے کہا : اللہ کی قسم ! جاہلیت میں ہماری نظر میں عورتوں کی کوئی عزت نہ تھی۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں وہ احکام نازل کئے جو نازل کرنے تھے اور ان کے حقوق مقرر کئے جو مقرر کرنے تھے۔ بتلایا کہ ایک دن میں سوچ رہا تھا کہ میری بیوی نے مجھ سے کہا کہ بہتر ہے اگر تم اس معاملہ کا فلاں فلاں طرح کرو، میں نے کہا تمہارا اس میں کیا کام۔ معاملہ مجھ سے متعلق ہے تم اس میں دخل دینے والی کون ہوتی ہو ؟ میری بیوی نے اس پر کہا : خطاب کے بیٹے ! تمہارے اس طرز عمل پر حیرت ہے تم اپنی باتوں کا جواب برداشت نہیں کرسکتے تمہاری لڑکی (حفصہ) تو رسول اللہ ﷺ کو بھی جواب دے دیتی ہیں ایک دن تو اس نے نبی کریم ﷺ کو غصہ بھی کردیا تھا۔ یہ سن کر عمر (رض) کھڑے ہوگئے اور اپنی چادر اوڑھ کر حفصہ کے گھر پہنچے اور فرمایا بیٹی ! کیا تم رسول اللہ ﷺ کی باتوں کا جواب دے دیتی ہو یہاں تک کہ ایک دن تم نے نبی کریم ﷺ کو دن بھر ناراض بھی رکھا ہے۔ حفصہ (رض) نے عرض کیا : جی ہاں، اللہ کی قسم ! ہم نبی کریم ﷺ کو کبھی جواب دے دیتے ہیں۔ عمر (رض) نے کہا کہ میں نے کہا جان لو میں تمہیں اللہ کی سزا اور اس کے رسول کی سزا (ناراضگی) سے ڈراتا ہوں۔ بیٹی ! اس عورت کی وجہ سے دھوکا میں نہ آجانا جس نے نبی کریم ﷺ کی محبت حاصل کرلی ہے۔ ان کا اشارہ عائشہ (رض) کی طرف تھا کہا کہ پھر میں وہاں سے نکل کر ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کے پاس آیا کیونکہ وہ بھی میری رشتہ دار تھیں۔ میں نے ان سے بھی گفتگو کی انہوں نے کہا ابن خطاب ! تعجب ہے کہ آپ ہر معاملہ میں دخل اندازی کرتے ہیں اور آپ چاہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ اور ان کی ازواج کے معاملات میں بھی دخل دیں۔ اللہ کی قسم ! انہوں نے میری ایسی گرفت کی کہ میرے غصہ کو ٹھنڈا کر کے رکھ دیا، میں ان کے گھر سے باہر نکل آیا۔ میرے ایک انصاری دوست تھے، جب میں نبی کریم ﷺ کی مجلس میں حاضر نہ ہوتا تو وہ مجلس کی تمام باتیں مجھ سے آ کر بتایا کرتے اور جب وہ حاضر نہ ہوتے تو میں انہیں آ کر بتایا کرتا تھا۔ اس زمانہ میں ہمیں غسان کے بادشاہ کی طرف سے ڈر تھا اطلاع ملی تھی کہ وہ مدینہ پر چڑھائی کرنے کا ارادہ کر رہا ہے، اس زمانہ میں کئی عیسائی اور ایرانی بادشاہ ایسا غلط گھمنڈ رکھتے تھے کہ یہ مسلمان کیا ہیں ہم جب چاہیں گے ان کا صفایا کردیں گے مگر یہ سارے خیالات غلط ثابت ہوئے اللہ نے اسلام کو غالب کیا۔ چناچہ ہم کو ہر وقت یہی خطرہ رہتا تھا، ایک دن اچانک میرے انصاری دوست نے دروازہ کھٹکھٹایا اور کہا کھولو ! کھولو ! کھولو ! میں نے کہا معلوم ہوتا ہے غسانی آگئے۔ انہوں نے کہا بلکہ اس سے بھی زیادہ اہم معاملہ پیش آگیا ہے، وہ یہ کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں سے علیحدگی اختیار کرلی ہے۔ میں نے کہا حفصہ اور عائشہ (رض) کی ناک غبار آلود ہو۔ چناچہ میں نے اپنا کپڑا پہنا اور باہر نکل آیا۔ میں جب پہنچا تو نبی کریم ﷺ اپنے بالاخانہ میں تشریف رکھتے تھے جس پر سیڑھی سے چڑھا جاتا تھا۔ نبی کریم کا ایک حبشی غلام (رباح) سیڑھی کے سرے پر موجود تھا، میں نے کہا : نبی کریم ﷺ سے عرض کرو کہ عمر بن خطاب آیا ہے اور اندر آنے کی اجازت چاہتا ہے۔ میں نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں پہنچ کر اپنا سارا واقعہ سنایا۔ جب میں ام سلمہ (رض) کی گفتگو پر پہنچا تو آپ کو ہنسی آگئی۔ اس وقت نبی کریم ﷺ کھجور کی ایک چٹائی پر تشریف رکھتے تھے آپ ﷺ کے جسم مبارک اور اس چٹائی کے درمیان کوئی اور چیز نہیں تھی آپ کے سر کے نیچے ایک چمڑے کا تکیہ تھا۔ جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔ پاؤں کی طرف کیکر کے پتوں کا ڈھیر تھا اور سر کی طرف مشکیزہ لٹک رہا تھا۔ میں نے چٹائی کے نشانات آپ کے پہلو پر دیکھے تو رو پڑا۔ آپ ﷺ نے فرمایا، کس بات پر رونے لگے ہو میں نے عرض کی یا رسول اللہ ! قیصر و کسریٰ کو دنیا کا ہر طرح کا آرام مل رہا ہے آپ اللہ کے رسول ہیں (آپ پھر ایسی تنگ زندگی گزارتے ہیں) نبی کریم ﷺ نے فرمایا کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ ان کے حصہ میں دنیا ہے اور ہمارے حصہ میں آخرت ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور جب نبی نے ایک بات اپنی بیوی سے فرما دی پھر جب آپ کی بیوی نے وہ بات کسی اور بیوی کو بتا دی اور اللہ نے نبی کو اس کی خبر دی تو نبی نے اس کا کچھ حصہ بتلا دیا اور کچھ سے اعراض فرمایا، پھر جب نبی نے اس بیوی کو وہ بات بتلا دی تو وہ کہنے لگیں کہ آپ کو کس نے اس کی خبر دی ہے آپ نے فرمایا کہ مجھے علم رکھنے والے اور خبر رکھنے والے اللہ نے خبر دی ہے“۔
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید انصاری نے بیان کیا، کہا میں نے عبید بن حنین سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے ابن عباس (رض) سے سنا وہ بیان کرتے تھے کہ میں نے عمر (رض) سے ایک بات پوچھنے کا ارادہ کیا اور عرض کیا امیرالمؤمنین ! وہ کون دو عورتیں تھیں جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کے ستانے کے لیے منصوبہ بنایا تھا ؟ ابھی میں نے اپنی بات پوری بھی نہیں کی تھی کہ انہوں نے کہا وہ عائشہ اور حفصہ (رض) تھیں۔ عرب لوگ کہتے ہیں صغوت ای صغوت یعنی میں جھک پڑا ( لتصغى ) جو سورة الانعام میں ہے جس کا معنی جھک جائیں۔ وإن تظاهرا عليه فإن الله هو مولاه وجبريل و صالح المؤمنين والملائكة بعد ذلک ظهير یعنی اگر نبی ( ﷺ ) کے مقابلہ میں تم روز نیا حملہ کرتی رہیں تو اس کا مددگار تو اللہ ہے اور جبرائیل ہیں اور نیک مسلمان ہیں اور ان کے علاوہ فرشتے بھی مددگار ہیں۔ ظهير کا معنی مددگار۔ تظاهرون ایک کی ایک مدد کرتے ہو۔ مجاہد نے کہا آیت قوا أنفسکم وأهليكم کا مطلب یہ ہے کہ تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اللہ کا ڈر اختیار کرنے کی نصیحت کرو اور انہیں ادب سکھاؤ۔
باب
باب : سورة الملک کی تفسیر التفاوت کا معنی اختلاف، فرق تفاوت اور تفوت دونوں کا ایک معنی ہے۔ تميز ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے۔ مناکبها اس کے کناروں میں۔ تدعون (دال کی تشدید) اور تدعون (دال کے جزم کے ساتھ) دونوں کا ایک ہی معنی ہے جیسے تذکرون. اور تذکرون (ذال کے جزم کے ساتھ) کا ایک ہی معنی ہے۔ يقبضن اپنے پنکھ مارتے ہیں (یا سمیٹ لیتے ہیں) ۔ مجاہد نے کہا صافات کے معنی اپنے بازو کھولے ہوئے۔ نفور سے کفر اور شرارت مراد ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور اگر نبی تمہیں طلاق دیدے تو اس کا پروردگار تمہارے بدلے انہیں تم سے بہتر بیویاں دیدے گا، وہ اسلام لانے والیاں، پختہ ایمان والیاں، فرمانبرداری کرنے والیاں، توبہ کرنے والیاں، عبادت کرنے والیاں، روزہ رکھنے والیاں، رانڈ بیوہ بھی ہوں گی اور کنواریاں بھی ہوں گی“۔
ہم سے عمرو بن عون نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشیم نے بیان کیا، ان سے حمید نے اور ان سے انس (رض) نے بیان کیا کہ عمر (رض) نے کہا نبی کریم ﷺ کی ازواج نبی کریم ﷺ کو غیرت دلانے کے لیے جمع ہوگئیں تو میں نے ان سے کہا اگر نبی ﷺ طلاق دے دیں تو ان کا پروردگار تمہارے بدلے میں انہیں تم سے بہتر بیویاں دیدے گا۔ چناچہ یہ آیت نازل ہوئی عسى ربه إن طلقکن آخر تک۔
باب: آیت کی تفسیر یعنی وہ کافر ”سخت مزاج ہے، اس کے علاوہ بدذات بھی ہیں“۔
ہم سے محمود نے بیان کیا، کہا ہم سے عبیداللہ نے بیان کیا، ان سے اسرائیل نے، ان سے ابوحصین نے، ان سے مجاہد نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے آیت عتل بعد ذلک زنيم یعنی وہ ظالم سخت مزاج ہے اس کے علاوہ حرامی بھی ہے۔ کے متعلق فرمایا کہ یہ آیت قریش کے ایک شخص کے بارے میں ہوئی تھی اس کی گردن میں نشانی تھی جیسے بکری میں نشانی ہوتی ہے کہ بعض ان میں کا کوئی عضو بڑھا ہوا ہوتا ہے۔
باب: آیت کی تفسیر یعنی وہ کافر ”سخت مزاج ہے، اس کے علاوہ بدذات بھی ہیں“۔
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے عبد بن خالد سے بیان کیا، کہا کہ میں نے حارثہ بن وہب خزاعی (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا، آپ ﷺ فرما رہے تھے کہ میں تمہیں بہشتی آدمی کے متعلق نہ بتادوں۔ وہ دیکھنے میں کمزور ناتواں ہوتا ہے (لیکن اللہ کے یہاں اس کا مرتبہ یہ ہے کہ) اگر کسی بات پر اللہ کی قسم کھالے تو اللہ اسے ضرور پوری کردیتا ہے اور کیا میں تمہیں دوزخ والوں کے متعلق نہ بتادوں ہر بدخو، بھاری جسم والا اور تکبر کرنے والا۔
باب
باب : سورة سأل کی تفسیر فصيلة نزدیک کا دادا جس کی طرف آدمی کو نسبت دی جاتی ہے۔ شوى دونوں ہاتھ پاؤں، بدن کے کنارے، سر کی کھال اس کو شواة کہتے ہیں اور جس عضو کے کاٹنے سے آدمی مرتا نہیں ہے وہ شوى ہے۔ عزون گروہ گروہ کا مفرد عزة. ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”ود اور سواع اور یغوث اور یعوق اور نسر“۔
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو ہشام نے خبر دی، ان سے ابن جریج نے اور عطاء نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عباس (رض) نے بیان کیا کہ جو بت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم میں پوجے جاتے تھے بعد میں وہی عرب میں پوجے جانے لگے۔ ود دومۃ الجندل میں بنی کلب کا بت تھا۔ سواع بنی ہذیل کا۔ یغوث بنی مراد کا اور مراد کی شاخ بنی غطیف کا جو وادی اجوف میں قوم سبا کے پاس رہتے تھے یعوق بنی ہمدان کا بت تھا۔ نسر حمیر کا بت تھا جو ذوالکلاع کی آل میں سے تھے۔ یہ پانچوں نوح (علیہ السلام) کی قوم کے نیک لوگوں کے نام تھے جب ان کی موت ہوگئی تو شیطان نے ان کے دل میں ڈالا کہ اپنی مجلسوں میں جہاں وہ بیٹھے تھے ان کے بت قائم کرلیں اور ان بتوں کے نام اپنے نیک لوگوں کے نام پر رکھ لیں چناچہ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا اس وقت ان بتوں کی پوجا نہیں ہوتی تھی لیکن جب وہ لوگ بھی مرگئے جنہوں نے بت قائم کئے تھے اور علم لوگوں میں نہ رہا تو ان کی پوجا ہونے لگی۔
باب
باب : سورة المزمل کی تفسیر مجاہد نے کہا کہ تبتل کے معنی خالص اسی کا ہوجا اور امام حسن بصری نے فرمایا أنکالا کا معنی بیڑیاں ہیں۔ منفطر به اس کے سبب سے بھاری ہوجائے گا، بھاری ہو کر پھٹ جائے گا۔ ابن عباس نے کہا كثيبا مهيلا پھسلتی بہتی ریت۔ وبيلا کے معنی سخت کے ہیں۔
تفسیر سورت مدثر ابن عباس نے کہا عسیر بمعنے شدید سخت دشوار اور قسورہ کے معنی ہیں آدمیوں کا شور و غوغا اور ابوہریرہ (رض) نے کہا اس کا معنی شیر ہے اور ہر سخت چیز قسورہ ہے مسنتفرۃ خوفزدہ ہو کر بھاگنے والے۔
ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے وکیع نے بیان کیا، ان سے علی بن مبارک نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے، انہوں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے پوچھا کہ قرآن مجید کی کون سی آیت سب سے پہلے نازل ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ يا أيها المدثر میں نے عرض کیا کہ لوگ تو کہتے ہیں کہ اقرأ باسم ربک الذي خلق سب سے پہلے نازل ہوئی۔ ابوسلمہ نے اس پر کہا کہ میں نے جابر بن عبداللہ (رض) سے پوچھا تھا اور جو بات ابھی تم نے مجھ سے کہی وہی میں نے بھی ان سے کہی تھی لیکن جابر (رض) نے کہا تھا کہ میں تم سے وہی حدیث بیان کرتا ہوں جو ہم سے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمائی تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ میں غار حرا میں ایک مدت کے لیے خلوت نشیں تھا۔ جب میں وہ دن پورے کر کے پہاڑ سے اترا تو مجھے آواز دی گئی، میں نے اس آواز پر اپنے دائیں طرف دیکھا لیکن کوئی چیز نہیں دکھائی دی۔ پھر بائیں طرف دیکھا ادھر بھی کوئی چیز دکھائی نہیں دی، سامنے دیکھا ادھر بھی کوئی چیز نہیں دکھائی دی۔ پیچھے کی طرف دیکھا اور ادھر بھی کوئی چیز نہیں دکھائی دی۔ اب میں نے اپنا سر اوپر کی طرف اٹھایا تو مجھے ایک چیز دکھائی دی۔ پھر میں خدیجہ (رض) کے پاس آیا اور ان سے کہا کہ مجھے کپڑا اوڑھا دو اور مجھ پر ٹھنڈا پانی ڈالو۔ فرمایا کہ پھر انہوں نے مجھے کپڑا اوڑھا دیا اور ٹھنڈا پانی مجھ پر بہایا۔ فرمایا کہ پھر یہ آیت نازل ہوئی يا أيها المدثر * قم فأنذر * وربک فکبر یعنی اے کپڑے میں لپٹنے والے ! اٹھئیے پھر لوگوں کو عذاب الٰہی سے ڈرایئے اور اپنے پروردگار کی بڑائی بیان کیجئے۔
باب: آیت «قم فأنذر» کی تفسیر۔
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبدالرحمٰن بن مہدی نے اور ان کے غیر (ابوداؤد طیالسی) نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حرب بن شداد نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے جابر عبداللہ (رض) نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں غار حرا میں تنہائی اختیار کئے ہوئے تھا۔ یہ روایت بھی عثمان بن عمر کی حدیث کی طرح ہے جو انہوں نے علی بن مبارک سے بیان کی ہے۔
باب: آیت «وربك فكبر» کی تفسیر۔
ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالصمد نے بیان کیا، کہا ہم سے حرب نے بیان کیا کہ ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابوسلمہ سے پوچھا کہ قرآن مجید کی کون سی آیت سب سے پہلے نازل ہوئی تھی ؟ فرمایا کہ يا أيها المدثر میں نے کہا کہ مجھے خبر ملی ہے کہ اقرأ باسم ربک الذي خلق سب سے پہلے نازل ہوئی تھی۔ ابوسلمہ نے بیان کیا کہ میں نے جابر بن عبداللہ (رض) سے پوچھا تھا کہ قرآن کی کون سی آیت سب سے پہلے نازل ہوئی تھی ؟ انہوں نے فرمایا کہ يا أيها المدثر اے کپڑے میں لپٹنے والے ! میں نے ان سے یہی کہا تھا کہ مجھے خبر ملی ہے کہ اقرأ باسم ربك سب سے پہلے نازل ہوئی تھی تو انہوں نے کہا کہ میں تمہیں وہی خبر دے رہا ہوں جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں نے غار حرا میں تنہائی اختیار کی جب میں وہ مدت پوری کرچکا اور نیچے اتر کر وادی کے بیچ میں پہنچا تو مجھے پکارا گیا۔ میں نے اپنے آگے پیچھے دائیں بائیں دیکھا اور مجھے دکھائی دیا کہ فرشتہ آسمان اور زمین کے درمیان کرسی پر بیٹھا ہے۔ پھر میں خدیجہ (رضی اللہ عنہا) کے پاس آیا اور ان سے کہا کہ مجھے کپڑا اوڑھا دو اور میرے اوپر ٹھنڈا پانی ڈالو اور مجھ پر یہ آیت نازل ہوئی يا أيها المدثر * قم فأنذر * وربک فکبر اے کپڑے میں لپٹنے والے ! اٹھئیے پھر لوگوں کو عذاب آخرت سے ڈرایئے اور اپنے پروردگار کی بڑائی کیجئے۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھئیے“۔
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے (دوسری سند) اور مجھ سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے خبر دی، کہا مجھ کو ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے خبر دی اور ان سے جابر بن عبداللہ (رض) نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا، نبی کریم ﷺ درمیان میں وحی کا سلسلہ رک جانے کا حال بیان فرما رہے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں رو رہا تھا کہ میں نے آسمان کی طرف سے آواز سنی۔ میں نے اپنا سر اوپر اٹھایا تو وہی فرشتہ نظر آیا جو میرے پاس غار حرا میں آیا تھا۔ وہ آسمان و زمین کے درمیان کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔ میں اس کے ڈر سے گھبرا گیا پھر میں گھر واپس آیا اور خدیجہ سے کہا کہ مجھے کپڑا اوڑھا دو ، مجھے کپڑا اوڑھا دو ۔ انہوں نے مجھے کپڑا اوڑھا دیا پھر اللہ تعالیٰ نے آیت يا أيها المدثر سے والرجز فاهجر تک نازل کی۔ یہ سورت نماز فرض کئے جانے سے پہلے نازل ہوئی تھی الرجز سے مراد بت ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور بتوں سے الگ رہیئے“۔
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا کہ میں نے ابوسلمہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے جابر بن عبداللہ (رض) سے سنا، انہوں نے نبی کریم ﷺ سے سنا، نبی کریم ﷺ درمیان میں وحی کے سلسلے کے رک جانے سے متعلق بیان فرما رہے تھے کہ میں چل رہا تھا کہ میں نے آسمان کی طرف سے آواز سنی۔ اپنی نظر آسمان کی طرف اٹھا کر دیکھا تو وہی فرشتہ نظر آیا جو میرے پاس غار حرا میں آیا تھا۔ وہ کرسی پر آسمان اور زمین کے درمیان میں بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے اسے دیکھ کر اتنا ڈرا کہ زمین پر گرپڑا۔ پھر میں اپنی بیوی کے پاس آیا اور ان سے کہا کہ مجھے کپڑا اوڑھا دو ، مجھے کپڑا اوڑھا دو ! مجھے کپڑا اوڑھا دو ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی يا أيها المدثر سے والرجز فاهجر تک ابوسلمہ نے بیان کیا کہ الرجز بت کے معنی میں ہے۔ پھر وحی گرم ہوگئی اور سلسلہ نہیں ٹوٹا۔
باب: آیت کی تفسیر ”آپ اس کو (یعنی قرآن کو) جلدی جلدی لینے کے لیے اس پر زبان نہ ہلایا جلایا کریں“۔
ہم سے حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا ہم سے موسیٰ بن ابی عائشہ نے بیان کیا اور موسیٰ ثقہ تھے، انہوں نے سعید بن جبیر سے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ جب نبی کریم ﷺ پر وحی نازل ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر اپنی زبان ہلایا کرتے تھے۔ سفیان نے کہا کہ اس ہلانے سے آپ کا مقصد وحی کو یاد کرنا ہوتا تھا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی لا تحرک به لسانک لتعجل به آپ جلدی جلدی لینے کے لیے اس پر زبان نہ ہلایا کریں، اس کا جمع کردینا اور اس کا پڑھوا دینا، یہ ہر دو کام تو ہمارے ذمہ ہیں۔
باب: آیت «إن علينا جمعه وقرآنه» کی تفسیر۔
ہم سے عبداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے اسرائیل نے، ان سے موسیٰ بن ابی عائشہ نے کہ انہوں نے سعید بن جبیر سے اللہ تعالیٰ کے ارشاد لا تحرک به لسانک الایۃ یعنی آپ قرآن کو لینے کے لیے زبان نہ ہلایا کریں کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بیان کیا کہ ابن عباس (رض) نے کہا جب نبی کریم ﷺ پر وحی نازل ہوئی تو آپ ﷺ اپنے ہونٹ ہلایا کرتے تھے اس لیے آپ سے کہا گیا لا تحرک به لسانک الخ یعنی وحی پر اپنی زبان نہ ہلایا کریں، اس کا تمہارے دل میں جما دینا اور اس کا پڑھا دینا ہمارا کام ہے۔ جب ہم اس کو پڑھ چکیں یعنی جبرائیل تجھ کو سنا چکیں تو جیسا جبرائیل نے پڑھ کر سنایا تو بھی اس طرح پڑھ۔ پھر یہ بھی ہمارا ہی کام ہے کہ ہم تیری زبان سے اس کو پڑھوا دیں گے۔
باب: آیت «فإذا قرأناه فاتبع قرآنه» کی تفسیر۔
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے موسیٰ بن ابی عائشہ نے، ان سے سعید بن جبیر نے، ان سے ابن عباس (رض) نے اللہ تعالیٰ کے ارشاد لا تحرک به لسانک لتعجل به الایۃ یعنی آپ اس کو جلدی جلدی لینے کے لیے اس پر زبان نہ ہلایا کریں کے متعلق بتلایا کہ جب جبرائیل آپ پر وحی نازل کرتے تو رسول اللہ ﷺ اپنی زبان اور ہونٹ ہلایا کرتے تھے اور آپ پر یہ بہت سخت گزرتا، یہ آپ کے چہرے سے بھی ظاہر ہوتا تھا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے وہ آیت نازل کی جو سورة لا أقسم بيوم القيامة میں ہے یعنی لا تحرک به لسانک الایۃ یعنی آپ اس کو جلدی جلدی لینے کے لیے اس پر زبان نہ ہلایا کریں۔ یہ تو ہمارے ذمہ ہے اس کا جمع کردینا اور اس کا پڑھوانا، پھر جب ہم اسے پڑھنے لگیں تو آپ اس کے پیچھے یاد کرتے جایا کریں۔ یعنی جب ہم وحی نازل کریں تو آپ غور سے سنیں۔ پھر اس کا بیان کرا دینا بھی ہمارے ذمہ ہے۔ یعنی یہ بھی ہمارے ذمہ ہے کہ ہم اسے آپ کی زبانی لوگوں کے سامنے بیان کرا دیں۔ بیان کیا کہ چناچہ اس کے بعد جب جبرائیل (علیہ السلام) وحی لے کر آتے تو نبی کریم ﷺ خاموش ہوجاتے اور جب چلے جاتے تو پڑھتے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے وعدہ کیا تھا۔ آیت أولى لک فأولى میں تهديد یعنی ڈرانا دھمکانا مراد ہے۔
تفسیر سورت والمرسلات اور مجاہد نے کہا جمالات بمعنی ڈوریاں ہیں ارکعو نماز پڑھو لا یصلون وہ نماز نہیں پڑھتے تھے اور ابن عباس (رض) سے لا ینطقون اور و اللہ ربنا ما کنا مشرکین اور الیوم نختم کا مطلب پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ وہ مختلف حالتوں میں ہوں گے کبھی تو وہ لوگ بولیں گے کبھی ان پر مہر لگائی جائے گی۔
ہم سے محمود نے بیان کیا، کہا ہم سے عبیداللہ نے بیان کیا، ان سے اسرائیل نے، ان سے منصور نے، ان سے ابراہیم نے، ان سے علقمہ نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے اور آپ پر سورة والمرسلات نازل ہوئی تھی اور ہم اس کو آپ کے منہ سے سیکھ رہے تھے کہ اتنے میں ایک سانپ نکل آیا۔ ہم لوگ اس کے مارنے کو بڑھے لیکن وہ بچ نکلا اور اپنے سوراخ میں گھس گیا۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ وہ تمہارے شر سے بچ گیا اور تم اس کے شر سے بچ گئے۔
تفسیر سورت والمرسلات اور مجاہد نے کہا جمالات بمعنی ڈوریاں ہیں ارکعو نماز پڑھو لا یصلون وہ نماز نہیں پڑھتے تھے اور ابن عباس (رض) سے لا ینطقون اور و اللہ ربنا ما کنا مشرکین اور الیوم نختم کا مطلب پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ وہ مختلف حالتوں میں ہوں گے کبھی تو وہ لوگ بولیں گے کبھی ان پر مہر لگائی جائے گی۔
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابراہیم نے، ان سے اسود نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک غار میں تھے کہ آپ پر سورة والمرسلات نازل ہوئی۔ ہم نے اسے آپ کے منہ سے یاد کرلیا۔ اس وحی سے آپ کے دہن مبارک کی تازگی ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ اتنے میں ایک سانپ نکل پڑا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اسے زندہ نہ چھوڑو۔ بیان کیا کہ ہم اس کی طرف بڑھے لیکن وہ نکل گیا۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تم اس کے شر سے بچ گئے اور وہ تمہارے شر سے بچ گیا۔
باب: آیت کی تفسیر ”وہ دوزخ بڑے بڑے محل جیسے آگ کے انگارے پھینکے گی“۔
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا ہم کو سفیان نے خبر دی، کہا ہم سے عبدالرحمٰن بن عابس نے بیان کیا کہا میں نے ابن عباس (رض) سے آیت إنها ترمي بشرر کالقصر یعنی وہ انگارے برسائے گی جیسے بڑے محل کے متعلق پوچھا اور انہوں نے کہا کہ ہم تین تین ہاتھ کی لکڑیاں اٹھا کر رکھتے تھے۔ ایسا ہم جاڑوں کے لیے کرتے تھے (تاکہ وہ جلانے کے کام آئیں) اور ان کا نام قصر. رکھتے تھے۔
باب: آیت کی تفسیر ”گویا کہ وہ انگارے پیلے پیلے رنگ والے اونٹ ہیں“۔
ہم سے عمرو بن علی نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہمیں سفیان نے خبر دی، ان سے عبدالرحمٰن بن عابس نے بیان کیا اور انہوں نے ابن عباس (رض) سے سنا، آیت ترمي بشرر کالقصر کے متعلق۔ آپ نے فرمایا کہ ہم تین ہاتھ یا اس سے بھی لمبی لکڑیاں اٹھا کر جاڑوں کے لیے رکھ لیتے تھے۔ ایسی لکڑیوں کو ہم قصر. کہتے تھے، كأنه جمالات صفر سے مراد کشتی کی رسیاں ہیں جو جوڑ کر رکھی جائیں، وہ آدمی کی کمر برابر موٹی ہوجائیں۔
باب: آیت کی تفسیر ”آج وہ دن ہے کہ اس میں یہ لوگ بول ہی نہیں سکیں گے“۔
ہم سے عمر بن حفص نے بیان کیا، کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا مجھ سے ابراہیم نے بیان کیا، ان سے اسود نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ ایک غار میں تھے کہ نبی کریم ﷺ پر سورة والمرسلات نازل ہوئی، پھر نبی کریم ﷺ نے اس کی تلاوت کی اور میں نے اسے آپ ہی کے منہ سے یاد کرلیا۔ وحی سے آپ کی منہ کی تازگی اس وقت بھی باقی تھی کہ اتنے میں غار کی طرف ایک سانپ لپکا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے مار ڈالو۔ ہم اس کی طرف بڑھے لیکن وہ بھاگ گیا۔ نبی کریم ﷺ نے اس پر فرمایا کہ وہ بھی تمہارے شر سے اس طرح بچ نکلا جیسا کہ تم اس کے شر سے بچ گئے۔ عمر بن حفص نے کہا مجھے یہ حدیث یاد ہے، میں نے اپنے والد سے سنی تھی، انہوں نے اتنا اور بڑھایا تھا کہ وہ غار منیٰ میں تھا۔
باب: آیت کی تفسیر ”وہ دن کہ جب صور پھونکا جائے گا تو تم گروہ ہو کر آؤ گے، «أفواجا» کے معنی «زمرا» یعنی گروہ گروہ کے ہیں“۔
ہم سے محمد نے بیان کیا، کہا ہم کو ابومعاویہ نے خبر دی، انہیں اعمش نے، انہیں ابوصالح نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ دو صور پھونکے جانے کے درمیان چالیس فاصلہ ہوگا۔ ابوہریرہ (رض) کے شاگردوں نے پوچھا کیا چالیس دن مراد ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں پھر شاگردوں نے پوچھا کیا چالیس مہینے مراد ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں۔ شاگردوں نے پوچھا کیا چالیس سال مراد ہیں ؟ کہا کہ مجھے معلوم نہیں۔ کہا کہ پھر اللہ تعالیٰ آسمان سے پانی برسائے گا۔ جس کی وجہ سے تمام مردے جی اٹھیں گے جیسے سبزیاں پانی سے اگ آتی ہیں۔ اس وقت انسان کا ہر حصہ گل چکا ہوگا۔ سوا ریڑھ کی ہڈی کے اور اس سے قیامت کے دن تمام مخلوق دوبارہ بنائی جائے گی۔
تفسیر سورت والنازعات اور مجاہد نے کہا کہ آیۃ الکبری سے مراد حضرت موسیٰ کا عصا اور ان کا ہاتھ ہے اور کہا جاتا ہے کہ ناخرہ اور نخرکے ایک ہی معنی جیسے طامع اور طمع اور باخل وبخیل کے ایک معنی ہیں بعض نے کہا کہ نخرہ کے معنے بوسیدہ اور ناخرہ اس کھوکھلی ہڈی کو کہتے ہیں جس سے ہوا گذرے تو آواز پیدا ہو اور ابن عباس نے کہا کہ ایان مرسٰھا سے مراد ہے کہ کب اس کی انتہا کا وقت ہے اور مرسی السفینۃ اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں جہاں لنگر انداز ہو۔
ہم سے احمد بن مقدام نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے فضیل بن سلیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابوحازم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سہل بن سعد (رض) نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہا آپ اپنی بیچ کی انگلی اور انگوٹھے کے قریب والی انگلی کے اشارے سے فرما رہے تھے کہ میں ایسے وقت میں مبعوث ہوا ہوں کہ میرے اور قیامت کے درمیان صرف ان دو کے برابر فاصلہ ہے۔
باب
باب : سورة إذا السماء انفطرت کی تفسیر ربیع بن خثیم نے کہا فجرت کے معنی بہ نکلیں اور اعمش اور عاصم نے فعدلک کو تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے۔ حجاز والوں نے فعدلک تشدید دال کے ساتھ پڑھا ہے۔ جب تشدید کے ساتھ ہو تو معنی یہ ہوگا کہ بڑی خلقت مناسب اور معتدل رکھی اور تخفیف کے ساتھ پڑھو تو معنی یہ ہوگا جس صورت میں چاہا تجھے بنادیا خوبصورت یا بدصورت لمبا یا ٹھگنا چھوٹے قد والا۔
باب: سورۃ «ويل للمطففين» کی تفسیر۔
ہم سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے معن نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے مالک نے بیان کیا، ان سے نافع اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جس دن لوگ دونوں جہان کے پالنے والے کے سامنے حساب دینے کے لیے کھڑے ہوں گے تو کانوں کی لو تک پسینہ میں ڈوب جائیں گے۔
تفسیر سورت اذا السماء انشقت ! مجاہد نے کہا کہ کتابہ بشمالہ سے مراد یہ ہے کہ وہ اپنی کتاب اپنی پیٹھ کے پیچھے سے لے گا وسق جانوروں کو جمع کرلیتی ہے ظن ان لن یحور اس نے گمان کیا کہ ہمارے پاس لوٹ کر نہیں آئے گا۔
میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔
باب
باب : سورة الطارق کی تفسیر مجاہد نے کہا ذات الرجع ، ابر کی صفت ہے (تو سماء سے ابر مراد ہے) یعنی باربار برسنے والا۔ ذات الصدع باربار اگانے والی، پھوٹنے والی، یہ زمین کی صفت ہے۔
باب
باب : سورة لا أقسم کی تفسیر مجاہد نے کہا بهذا البلد سے مکہ مراد ہے۔ مطلب یہ ہے کہ خاص تیرے لیے یہ شہر حلال ہوا اوروں کو وہاں لڑنا گناہ ہے۔ والد سے آدم، وما ولد سے ان کی اولاد مراد ہے۔ لبدا بہت سارا۔ النجدين دو رستے بھلے اور برے۔ مسغبة بھوک۔ متربة مٹی میں پڑا رہنا مراد ہے۔ فلا اقتحم العقبة یعنی اس نے دنیا میں گھاٹی نہیں پھاندی پھر گھاٹی پھاندنے کو آگے بیان کیا۔ برده غلام آزاد کرنا بھوک اور تکلیف کے دن بھوکوں کو کھانا کھلانا۔
باب: سورۃ «والشمس وضحاها» کی تفسیر۔
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے وہیب نے بیان کیا، ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور انہیں عبداللہ بن زمعہ (رض) نے خبر دی کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، نبی کریم ﷺ نے اپنے ایک خطبہ میں صالح (علیہ السلام) کی اونٹنی کا ذکر فرمایا اور اس شخص کا بھی ذکر فرمایا جس نے اس کی کونچیں کاٹ ڈالی تھیں پھر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا إذ انبعث أشقاها یعنی اس اونٹنی کو مار ڈالنے کے لیے ایک مفسد بدبخت (قدار نامی) کو اپنی قوم میں ابوزمعہ کی طرح غالب اور طاقتور تھا اٹھا۔ نبی کریم ﷺ نے عورتوں کے حقوق کا بھی ذکر فرمایا کہ تم میں بعض اپنی بیوی کو غلام کی طرح کوڑے مارتے ہیں حالانکہ اسی دن کے ختم ہونے پر وہ اس سے ہمبستری بھی کرتے ہیں۔ پھر آپ نے انہیں ریاح خارج ہونے پر ہنسنے سے منع فرمایا اور فرمایا کہ ایک کام جو تم میں ہر شخص کرتا ہے اسی پر تم دوسروں پر کس طرح ہنستے ہو۔ ابومعاویہ نے بیان کیا کہ ہم سے ہشام بن عروہ بن زبیر نے، ان سے عبداللہ بن زمعہ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے (اس حدیث میں) یوں فرمایا ابوزمعہ کی طرح جو زبیر بن عوام کا چچا تھا۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور قسم ہے دن کی جب وہ روشن ہو جائے“۔
ہم سے قبیصہ بن عقبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابراہیم نخعی نے اور ان سے علقمہ بن قیس نے بیان کیا کہ عبداللہ بن مسعود (رض) کے شاگردوں کے ساتھ میں ملک شام پہنچا ہمارے متعلق ابو الدرداء (رض) نے سنا تو ہم سے ملنے خود تشریف لائے اور دریافت فرمایا تم میں کوئی قرآن مجید کا قاری بھی ہے ؟ ہم سے کہا جی ہاں ہے۔ دریافت فرمایا کہ سب سے اچھا قاری کون ہے ؟ لوگوں نے میری طرف اشارہ کیا۔ آپ نے فرمایا کہ پھر کوئی آیت تلاوت کرو۔ میں نے والليل إذا يغشى * والنهار إذا تجلى * والذکر والأنثى کی تلاوت کی۔ ابوالدرداء (رض) نے پوچھا کیا تم نے خود یہ آیت اپنے استاد عبداللہ بن مسعود (رض) کی زبانی اسی طرح سنی ہے ؟ میں نے کہا جی ہاں۔ انہوں نے اس پر کہا کہ میں نے بھی نبی کریم ﷺ کی زبانی یہ آیت اسی طرح سنی ہے، لیکن یہ شام والے ہم پر انکار کرتے ہیں۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور قسم ہے اس کی جس نے نر اور مادہ کو پیدا کیا“۔
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے والد نے، کہا ہم سے اعمش نے، ان سے ابراہیم نخعی نے بیان کیا کہ عبداللہ بن مسعود (رض) کے کچھ شاگرد ابو الدرداء (رض) کے یہاں (شام) آئے انہوں نے انہیں تلاش کیا اور پا لیا۔ پھر ان سے پوچھا کہ تم میں کون عبداللہ بن مسعود (رض) کی قرآت کے مطابق قرآت کرسکتا ہے ؟ شاگروں نے کہا کہ ہم سب کرسکتے ہیں۔ پھر پوچھا کسے ان کی قرآت زیادہ محفوظ ہے ؟ سب نے علقمہ کی طرف اشارہ کیا۔ انہوں نے دریافت کیا انہیں سورة والليل إذا يغشى کی قرآت کرتے کس طرح سنا ہے ؟ علقمہ نے کہا کہ والذکر والأنثى (بغیر خلق کے) کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے بھی رسول اللہ ﷺ کو اسی طرح قرآت کرتے ہوئے سنا ہے۔ لیکن یہ لوگ (یعنی شام والے) چاہتے ہیں کہ وما خلق الذکر والأنثى پڑھوں۔ اللہ کی قسم میں ان کی پیروی نہیں کروں گا۔
تفسیر سورت واللیل اذا یغشی اور ابن عباس نے کہا کہ حسنی بمعنی خلف (ثواب) ہے اور مجاہد نے کہا تردی بمعنی مات (مرگیا) ہے اور تلظی بمعنی توہج (جوش مارتا) ہے اور عبیداللہ بن عمیرنے تتلظی پڑھا ہے۔
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے سعد بن عبیدہ نے، ان سے ابوعبدالرحمٰن نے اور ان سے علی (رض) نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ پھر راوی نے یہی حدیث بیان کی (جو پیچھے گزری) ۔
باب: آیت کی تفسیر ”سو ہم اس کے لیے نیک کاموں کو عمل میں لانا آسان کر دیں گے“۔
ہم سے بشر بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم کو محمد بن جعفر نے خبر دی، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے سلیمان اعمش نے، ان سے سعد بن عبیدہ نے، ان سے ابوعبدالرحمٰن سلمی نے اور ان سے علی (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ ایک جنازہ میں تھے، آپ نے ایک لکڑی اٹھائی اور اس سے زمین کریدتے ہوئے فرمایا کہ تم میں کوئی شخص ایسا نہیں جس کا جنت یا دوزخ کا ٹھکانا لکھا نہ جا چکا ہو۔ صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! کیا پھر ہم اسی پر بھروسہ نہ کرلیں ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ عمل کرتے رہو کہ ہر شخص کو توفیق دی گئی ہے (انہیں اعمال کی جن کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے) فأما من أعطى واتقى * وصدق بالحسنى سو جس نے دیا اور اللہ سے ڈرا اور اچھی بات کو سچا سمجھا آخر آیت تک۔ شعبہ نے بیان کیا کہ مجھ سے یہ حدیث منصور بن معتمر نے بھی بیان کی اور انہوں نے بھی سلیمان اعمش سے اسی کے موافق بیان کی، اس میں کوئی خلاف نہیں کیا۔
باب: آیت «وأما من بخل واستغنى» کی تفسیر۔
ہم سے یحییٰ بن موسیٰ بلخی نے بیان کیا، کہا ہم سے وکیع نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے سعد بن عبیدہ نے، ان سے ابوعبدالرحمٰن سلمی نے اور ان سے علی (رض) نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہم میں کوئی ایسا نہیں جس کا جہنم کا ٹھکانا اور جنت کا ٹھکانا لکھا نہ جا چکا ہو۔ ہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! پھر ہم اسی پر بھروسہ کیوں نہ کرلیں ؟ فرمایا نہیں عمل کرتے رہو کیونکہ ہر شخص کو آسانی دی گئی ہے اور اس کے بعد آپ نے اس آیت کی تلاوت کی فأما من أعطى واتقى * وصدق بالحسنى * فسنيسره لليسرى یعنی سو جس نے دیا اور اللہ سے ڈرا اور اچھی بات کو سچا سمجھا اس کے لیے راحت کی چیز آسان کردیں گے۔ تا فسنيسره للعسرى۔
باب: آیت «وكذب بالحسنى» کی تفسیر۔
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے جریر بن عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے سعد بن عبیدہ نے بیان کیا، ان سے ابوعبدالرحمٰن سلمی نے بیان کیا، اور ان سے علی (رض) نے بیان کیا کہ ہم بقیع الغرقد میں ایک جنازہ کے ساتھ تھے۔ پھر رسول اللہ ﷺ بھی تشریف لائے۔ آپ بیٹھ گئے اور ہم بھی آپ کے چاروں طرف بیٹھ گئے۔ آپ کے ہاتھ میں چھڑی تھی۔ آپ نے سر جھکا لیا پھر چھڑی سے زمین کو کریدنے لگے۔ پھر فرمایا کہ تم میں کوئی شخص ایسا نہیں، کوئی پیدا ہونے والی جان ایسی نہیں جس کا جنت اور جہنم کا ٹھکانا لکھا نہ جا چکا ہو۔ یہ لکھا جا چکا ہے کہ کون نیک ہے اور کون برا ہے۔ ایک صاحب نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! پھر کیا حرج ہے اگر ہم اپنی اسی تقدیر پر بھروسہ کرلیں اور نیک عمل کرنا چھوڑ دیں جو ہم میں نیک ہوگا، وہ نیکیوں کے ساتھ جا ملے گا اور جو برا ہوگا اس سے بروں کے سے اعمال ہوجائیں گے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جو لوگ نیک ہوتے ہیں انہیں نیکوں ہی کے عمل کی توفیق حاصل ہوتی ہے اور جو برے ہوتے ہیں انہیں بروں ہی جیسے عمل کرنے کی توفیق ہوتی ہے۔ پھر آپ ﷺ نے اس آیت کی تلاوت کی فأما من أعطى واتقى * وصدق بالحسنى یعنی سو جس نے دیا اور اللہ سے ڈرا اور اچھی بات کو سچا سمجھا سو ہم اس کے لیے نیک کاموں کو آسان کردیں گے۔
باب: آیت کی تفسیر ”سو ہم اس کے لیے سخت برائی کے کاموں کو عمل میں لانا آسان کر دیں گے“۔
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، کہا کہ میں نے سعد بن عبیدہ سے سنا، ان سے ابوعبدالرحمٰن سلمی بیان کرتے تھے کہ علی (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ ایک جنازے میں تشریف رکھتے تھے۔ پھر آپ ﷺ نے ایک چیز لی اور اس سے زمین کریدنے لگے اور فرمایا، تم میں کوئی ایسا شخص نہیں جس کا جہنم کا ٹھکانا یا جنت کا ٹھکانا لکھا نہ جا چکا ہو۔ صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! تو پھر ہم کیوں اپنی تقدیر پر بھروسہ نہ کرلیں اور نیک عمل کرنا چھوڑ دیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ نیک عمل کرو، ہر شخص کو ان اعمال کی توفیق دی جاتی ہے جن کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے جو شخص نیک ہوگا اسے نیکوں کے عمل کی توفیق ملی ہوتی ہے اور جو بدبخت ہوتا ہے اسے بدبختوں کے عمل کی توفیق ملتی ہے پھر آپ ﷺ نے آیت فأما من أعطى واتقى * وصدق بالحسنى آخر تک پڑھی یعنی سو جس نے دیا اور اللہ سے ڈرا اور اچھی بات کو سچا سمجھا، سو ہم اس کے لیے نیک عملوں کو آسان کردیں گے۔
تفسیر سورت والضحی مجاہد نے کہا، اذاسجی، جب برابر ہوجائے اور دوسروں نے کہا کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ جب رات تاریک اور پرسکون ہوجائے، عائل، بچوں والا۔
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا ہم سے زہیر نے بیان کیا، ان سے اسود بن قیس نے بیان کیا کہ میں نے جندب بن سفیان (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ بیمار پڑگئے اور دو یا تین راتوں کو (تہجد کے لیے) نہیں اٹھ سکے۔ پھر ایک عورت (ابولہب کی عورت عوراء) آئی اور کہنے لگی۔ اے محمد ! میرا خیال ہے کہ تمہارے شیطان نے تمہیں چھوڑ دیا ہے۔ دو یا تین راتوں سے دیکھ رہی ہوں کہ تمہارے پاس وہ نہیں آیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی والضحى * والليل إذا سجى * ما ودعک ربک وما قلى آخر تک یعنی قسم ہے دن کی روشنی کی اور رات کی جب وہ قرار پکڑے کہ آپ کے پروردگار نے نہ آپ کو چھوڑا ہے اور نہ آپ سے بیزار ہوا ہے۔
باب
باب : سورة ألم نشرح کی تفسیر مجاہد نے کہا وزرک سے وہ باتیں مراد ہیں جو نبی کریم ﷺ سے جاہلیت کے زمانہ میں صادر ہوئیں (ترک اولیٰ وغیرہ) ۔ أنقض کے معنی بھاری کیا۔ مع العسر يسرا سفیان بن عیینہ نے کہا اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک مصیبت کے ساتھ دو نعمتیں ملتی ہیں جیسے آیت هل تربصون بنا إلا إحدى الحسنيين میں مسلمانوں کے لیے دو نیکیاں مراد ہیں اور حدیث میں ہے ایک مصیبت دو نیکیوں پر غالب نہیں آسکتی اور مجاہد نے کہا فانصب یعنی اپنے پروردگار سے دعا مانگنے میں محنت اٹھا۔ اور ابن عباس (رض) سے منقول ہے انہوں نے کہا ألم نشرح لک صدرک سے مراد ہے کہ ہم نے تیرا سینہ اسلام کے لیے کھول دیا۔
تفسیر سورت والتین ! مجاہد نے کہا کہ، تین (انجیر) اور، زیتون، سے مراد ہے جسے لوگ کھاتے ہیں، فمایکذبک، کے معنی یہ بیان کئے جاتے ہیں کہ کوئی ہے جو تجھے جھٹلائے گا کہ لوگ اپنے اعمال کا بدلہ دئیے جائیں گے ؟ گویا یہ فرمایا کہ ثواب وعقاب کے متعلق کون شخص اسکی قدرت رکھتا ہے کہ تجھے جھٹلائے۔
ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھے عدی بن ثابت نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ میں نے براء بن عازب (رض) سے سنا کہ نبی کریم ﷺ ایک سفر میں تھے اور عشاء کی ایک رکعت میں آپ نے سورة والتین کی تلاوت فرمائی تھی۔ تقويم کے معنی پیدائش، بناوٹ کے ہیں۔
تفسیر سورت علق! قتیبہ نے بواسطہ حماد یحییٰ بن عتیق حسن کا قول نقل کیا کہ مصحف میں سورت فاتحہ کے شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھو اور دو سورتوں کے درمیان خط کے طور پر (یعنی امتیاز کے لئے) ہو اور ماجد نے کہا کہ نادیہ سے مراد اس کا قبیلہ ہے زبانیہ بمعنے ملائکہ فرشتے ہیں اور کہا کہ رجعی بمعنے لوٹنا ہے لنسفعن کے معنی یہ ہیں کہ ہم ضرورت پکڑیں گے لنسفعن نون خفیفہ کے ساتھ ہے سفعت بیدہ بول کر مراد لیتے ہیں کہ میں نے پکڑا۔
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے (دوسری سند) امام بخاری (رح) نے کہا اور مجھ سے سعید بن مروان نے بیان کیا اور ان سے محمد بن عبدالعزیز بن ابی رزمہ نے، انہیں ابوصالح سلمویہ نے خبر دی، کہا کہ مجھ سے عبداللہ نے بیان کیا، ان سے یونس بن یزید نے بیان کیا، کہا کہ مجھے ابن شہاب نے خبر دی انہیں عروہ بن زبیر نے خبر دی اور ان سے نبی کریم ﷺ کی پاک بیوی عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کو نبوت سے پہلے سچے خواب دکھائے جاتے تھے چناچہ اس دور میں آپ جو خواب بھی دیکھ لیتے وہ صبح کی روشنی کی طرح بیداری میں نمودار ہوتا۔ پھر آپ کو تنہائی بھلی لگنے لگی۔ اس دور میں آپ غار حرا تنہا تشریف لے جاتے اور آپ وہاں تحنث کیا کرتے تھے۔ عروہ نے کہا کہ تحنث سے عبادت مراد ہے۔ آپ وہاں کئی کئی راتیں جاگتے، گھر میں نہ آتے اور اس کے لیے اپنے گھر سے توشہ لے جایا کرتے تھے۔ پھر جب توشہ ختم ہوجاتا پھر خدیجہ (رض) کے یہاں لوٹ کر تشریف لاتے اور اتنا ہی توشہ پھر لے جاتے۔ اسی حال میں آپ غار حرا میں تھے کہ دفعتاً آپ پر وحی نازل ہوئی چناچہ فرشتہ آپ کے پاس آیا اور کہا پڑھئیے ! نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ آپ ﷺ نے بیان کیا کہ مجھے فرشتہ نے پکڑ لیا اور اتنا بھینچا کہ میں بےطاقت ہوگیا پھر انہوں نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا کہ پڑھئیے ! میں نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ انہوں نے پھر دوسری مرتبہ مجھے پکڑ کر اس طرح بھینچا کہ میں بےطاقت ہوگیا اور چھوڑنے کے بعد کہا کہ پڑھئیے ! میں نے اس مرتبہ بھی یہی کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ انہوں نے تیسری مرتبہ پھر اسی طرح مجھے پکڑ کر بھینچا کہ میں بےطاقت ہوگیا اور کہا کہ پڑھئیے ! پڑھئیے ! اقرأ باسم ربک الذي خلق * خلق الإنسان من علق * اقرأ وربک الأكرم * الذي علم بالقلم اپنے پروردگار کے نام کے ساتھ جس نے سب کو پیدا کیا، جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا ہے، آپ پڑھئیے اور آپ کا رب کریم ہے، جس نے قلم کے ذریعے تعلیم دی ہے سے آیت علم الإنسان ما لم يعلم تک۔ پھر نبی کریم ﷺ ان پانچ آیات کو لے کر واپس گھر تشریف لائے اور گھبراہٹ سے آپ کے مونڈھے اور گردن کا گوشت پھڑک (حرکت کر) رہا تھا۔ آپ نے خدیجہ (رض) کے پاس پہنچ کر فرمایا کہ مجھے چادر اڑھا دو ! مجھے چادر اڑھا دو ! چناچہ انہوں نے آپ کو چادر اڑھا دی۔ جب گھبراہٹ آپ سے دور ہوئی تو آپ نے خدیجہ (رض) سے کہا اب کیا ہوگا مجھے تو اپنی جان کا ڈر ہوگیا ہے پھر آپ نے سارا واقعہ انہیں سنایا۔ خدیجہ (رض) نے کہا ایسا ہرگز نہ ہوگا، آپ کو خوشخبری ہو، اللہ کی قسم ! اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا۔ اللہ کی قسم ! آپ تو صلہ رحمی کرنے والے ہیں، آپ ہمیشہ سچ بولتے ہیں، آپ کمزور و ناتواں کا بوجھ خود اٹھا لیتے ہیں، جنہیں کہیں سے کچھ نہیں ملتا وہ آپ کے یہاں سے پالیتے ہیں۔ آپ مہمان نواز ہیں اور حق کے راستے میں پیش آنے والی مصیبتوں پر لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ پھر خدیجہ (رض) نبی کریم ﷺ کو لے کر ورقہ بن نوفل کے پاس آئیں وہ خدیجہ (رض) کے چچا اور آپ کے والد کے بھائی تھے وہ زمانہ جاہلیت میں نصرانی ہوگئے تھے اور عربی لکھ لیتے تھے جس طرح اللہ نے چاہا انہوں نے انجیل بھی عربی میں لکھی تھی۔ وہ بہت بوڑھے تھے اور نابینا ہوگئے تھے۔ خدیجہ (رض) نے ان سے کہا چچا اپنے بھتیجے کا حال سنئیے۔ ورقہ نے کہا بیٹے ! تم نے کیا دیکھا ہے ؟ آپ نے سارا حال سنایا جو کچھ آپ نے دیکھا تھا۔ اس پر ورقہ نے کہا یہی وہ ناموس (جبرائیل علیہ السلام) ہیں جو موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آتے تھے۔ کاش میں تمہاری نبوت کے زمانہ میں جوان اور طاقتور ہوتا۔ کاش میں اس وقت تک زندہ رہ جاتا، پھر ورقہ نے کچھ اور کہا کہ جب آپ کی قوم آپ کو مکہ سے نکالے گی۔ نبی کریم ﷺ نے پوچھا کیا واقعی یہ لوگ مجھے مکہ سے نکال دیں گے ؟ ورقہ نے کہا ہاں، جو دعوت آپ لے کر آئے ہیں اسے جو بھی لے کر آیا تو اس سے عداوت ضرور کی گئی۔ اگر میں آپ کی نبوت کے زمانہ میں زندہ رہ گیا تو میں ضرور بھرپور طریقہ پر آپ کا ساتھ دوں گا۔ اس کے بعد ورقہ کا انتقال ہوگیا اور کچھ دنوں کے لیے وحی کا آنا بھی بند ہوگیا۔ آپ وحی کے بند ہوجانے کی وجہ سے غمگین رہنے لگے۔ محمد بن شہاب نے بیان کیا، انہیں ابوسلمہ (رض) نے خبر دی اور ان سے جابر بن عبداللہ انصاری (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ وحی کے کچھ دنوں کے لیے رک جانے کا ذکر فرما رہے تھے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں چل رہا تھا کہ میں نے اچانک آسمان کی طرف سے ایک آواز سنی۔ میں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو وہی فرشتہ (جبرائیل علیہ السلام) جو میرے پاس غار حرا میں آیا تھا، آسمان اور زمین کے درمیان کرسی پر بیٹھا ہوا نظر آیا۔ میں ان سے بہت ڈرا اور گھر واپس آ کر میں نے کہا کہ مجھے چادر اڑھا دو چناچہ گھر والوں نے مجھے چادر اڑھا دی، پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی يا أيها المدثر * قم فأنذر * وربک فکبر * وثيابک فطهر * والرجز فاهجر اے کپڑے میں لپٹنے والے ! اٹھئیے پھر لوگوں کو ڈرایئے اور اپنے پروردگار کی بڑائی بیان کیجئے اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھیئے۔ ابوسلمہ (رض) نے کہا کہ الرجز جاہلیت کے بت تھے جن کی وہ پرستش کیا کرتے تھے۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر وحی برابر آنے لگی۔
باب: آیت کی تفسیر ”انسان کو اللہ نے خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا“۔
ہم سے ابن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ شروع میں رسول اللہ ﷺ کو سچے خواب دکھائے جانے لگے۔ پھر آپ کے پاس فرشتہ آیا اور کہا اقرأ باسم ربک الذي خلق * خلق الإنسان من علق * اقرأ وربک الأكرم کہ آپ پڑھئے، اپنے پروردگار کے نام کے ساتھ جس نے (سب کو پیدا کیا ہے) جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا ہے۔ آپ پڑھا کیجئے اور آپ کا پروردگار بڑا کریم ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”آپ پڑھا کیجئے اور آپ کا رب بڑا ہی مہربان ہے“۔
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے (دوسری سند) اور اللیث نے بیان کیا کہ ان سے عقیل نے بیان کیا، ان سے محمد نے بیان کیا، انہیں عروہ نے خبر دی اور انہیں عائشہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ کی نبوت کی ابتداء سچے خوابوں سے کی گئی اور کہا اقرأ باسم ربک الذي خلق * خلق الإنسان من علق * اقرأ وربک الأكرم * الذي علم بالقلم کہ آپ پڑھئے، اپنے پروردگار کے نام کی مدد سے جس نے سب کو پیدا کیا ہے، جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے بنایا۔ آپ پڑھا کیجئے اور آپ کا پروردگار بڑا کریم ہے، جس نے قلم کو ذریعہ تعلیم بنایا۔
باب: آیت کی تفسیر ”وہ جس نے قلم کے ساتھ سکھایا“۔
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا اور ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، انہوں نے عروہ سے سنا، ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ پھر رسول اللہ ﷺ خدیجہ (رض) کے پاس واپس تشریف لائے اور فرمایا زملوني زملوني کہ مجھے چادر اڑھا دو ، مجھے چادر اڑھا دو ۔ پھر آپ نے سارا واقعہ بیان فرمایا۔
باب
باب : سورة القدر کی تفسیر مطلع بہ فتحہ (مصدر ہے) طلوع کے معنوں میں اور مطلع بہ کسر لام (جیسے کسائی نے پڑھا ہے) وہ مقام جہاں سے سورج نکلے۔ انا أنزلناه میں ضمیر قرآن کی طرف پھرتی ہے (گو کہ قرآن کا ذکر اوپر نہیں آیا ہے مگر اس کی شان بڑھانے کے لیے اضمار قبل الذکر کیا) أنزلناه صیغہ جمع متکلم کا ہے حالانکہ اتارنے والا ایک ہی ہے یعنی اللہ پاک مگر عربی میں واحد کو جميع اور اثبات کے لیے بہ صیغہ جمع لاتے ہیں۔
باب: سورۃ «لم يكن» کی تفسیر۔
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، میں نے قتادہ سے سنا اور انہوں نے انس بن مالک (رض) سے کہ رسول اللہ ﷺ نے ابی بن کعب سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمہیں سورة لم يكن الذين کفروا پڑھ کر سناؤں۔ ابی بن کعب (رض) نے عرض کیا، کیا اللہ تعالیٰ نے میرا نام بھی لیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں، اس پر وہ رونے لگے۔
باب: سورۃ «لم يكن» کی تفسیر۔
ہم سے حسان بن حسان نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمام نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے ابی بن کعب (رض) سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمہیں قرآن (سورۃ لم یکن) پڑھ کر سناؤں۔ ابی بن کعب نے عرض کیا : کیا آپ سے اللہ تعالیٰ میرا نام بھی لیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں، اللہ تعالیٰ نے تمہارا نام بھی مجھ سے لیا ہے۔ ابی بن کعب (رض) یہ سن کر رونے لگے۔ قتادہ نے بیان کیا کہ مجھے خبر دی گئی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سورة لم يكن الذين کفروا من أهل الکتاب پڑھ کر سنائی تھی۔
باب: سورۃ «لم يكن» کی تفسیر۔
ہم سے احمد بن ابی داؤد ابو جعفر منادی نے بیان کیا، کہا ہم سے روح نے بیان کیا، کہا ہم سے سعید بن ابی عروبہ نے، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس بن مالک (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے ابی بن کعب سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمہیں قرآن کی (سورۃ لم یکن) پڑھ کر سناؤں۔ انہوں نے پوچھا کیا اللہ نے آپ سے میرا نام بھی لیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں۔ ابی بن کعب (رض) بولے تمام جہانوں کے پالنے والے کے ہاں میرا ذکر ہوا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں اس پر ان کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے۔
باب: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ”جو کوئی ذرہ بھر بھی نیکی کرے گا اسے بھی وہ دیکھ لے گا“۔
ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے زید بن اسلم نے، ان سے ابوصالح سمان نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ گھوڑا تین طرح کے لوگ تین قسم کے پالتے ہیں۔ ایک شخص کے لیے وہ اجر ہوتا ہے دوسرے کے لیے وہ معافی ہے، تیسرے کے لیے عذاب ہے۔ جس کے لیے وہ اجر و ثواب ہے وہ شخص ہے جو اسے اللہ کے راستہ میں جہاد کی نیت سے پالتا ہے۔ چراگاہ یا اس کے بجائے راوی نے یہ کہا باغ میں اس کی رسی کو دراز کردیتا ہے اور وہ گھوڑا چراگاہ یا باغ میں اپنی رسی تڑا لے اور ایک دو کوڑے (پھینکنے کی دوری) تک اپنی حد سے آگے بڑھ گیا تو اس کے نشانات قدم اور اس کی لید بھی مالک کے لیے ثواب بن جاتی ہے اور اگر کسی نہر سے گزرتے ہوئے اس میں مالک کے ارادہ کے بغیر خود ہی اس نے پانی پی لیا تو یہ بھی مالک کے لیے باعث ثواب بن جاتا ہے۔ دوسرا شخص جس کے لیے اس کا گھوڑا باعث معافی، پردہ بنتا ہے۔ یہ وہ شخص ہے جس نے لوگوں سے بےپرواہ رہنے اور لوگوں (کے سامنے سوال کرنے سے) بچنے کے لیے اسے پالا اور اس گھوڑے کی گردن پر جو اللہ تعالیٰ کا حق ہے اور اس کی پیٹھ کو جو حق ہے اسے بھی وہ ادا کرتا رہتا ہے۔ تو گھوڑا اس کے لیے باعث معافی، پردہ بن جاتا ہے اور جو شخص گھوڑا اپنے دروازے پر فخر اور دکھاوے اور اسلام دشمنی کی غرض سے باندھتا ہے، وہ اس کے لیے وبال ہے۔ نبی کریم ﷺ سے گدھوں کے متعلق پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق مجھ پر خاص آیت سوا اس اکیلی عام اور جامع آیت کے نازل نہیں کی فمن يعمل مثقال ذرة خيرا يره * ومن يعمل مثقال ذرة شرا يره الخ یعنی جو کوئی ذرہ بھر نیکی کرے گا وہ اسے بھی لے گا دیکھ لے گا اور جو کوئی ذرہ بھر برائی کرے گا وہ اسے بھی دیکھ لے گا۔
باب
باب : سورۃأرأيت کی تفسیر مجاہد نے کہا يدع کا معنی دفع کرتا ہے یعنی یتیم کو اس کا حق نہیں لینے دیتا، کہتے ہیں یہ دعوت سے نکلا ہے۔ اسی سے سورة الطور میں لفظ يوم يدعون ہے (یعنی جس دن دوزخ کی طرف اٹھائے جائیں گے، ڈھکیلے جائیں گے۔ ساهون بھولنے والے، غافل۔ ماعون کہتے ہیں مروت کے ہر اچھے کام کو۔ بعض عرب ماعون پانی کو کہتے ہیں۔ عکرمہ نے کہا ماعون کا اعلیٰ درجہ زکوٰۃ دینا ہے اور ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ کوئی شخص کچھ سامان مانگے تو اسے وہ دیدے، اس کا انکار نہ کرے۔
باب: سورۃ «إنا أعطيناك الكوثر» کی تفسیر۔
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شیبان بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے بیان کیا، ان سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ جب نبی کریم ﷺ کو معراج ہوئی نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں ایک نہر پر پہنچا جس کے دونوں کناروں پر خولدار موتیوں کے ڈیرے لگے ہوئے تھے۔ میں نے پوچھا اے جبرائیل ! یہ نہر کیسی ہے ؟ انہوں نے بتایا کہ یہ حوض کوثر ہے (جو اللہ نے آپ کو دیا ہے) ۔
باب
باب : سورة قل يا أيها الکافرون کی تفسیر کہا گیا ہے کہ لكم دينكم سے مراد کفر ہے اور ولي دين سے مراد اسلام ہے ديني نہیں کہا کیونکہ آیات کا ختم نون پر ہوا ہے۔ اس لیے یہاں بھی یاء کو حذف کردیا، جیسے بولتے ہیں يهدين ويشفين.۔ اوروں نے کہا کہ اب نہ تو میں تمہارے معبودوں کی عبادت کروں گا یعنی جن معبودوں کی تم اس وقت عبادت کرتے ہو اور نہ میں تمہارا یہ دین اپنی باقی زندگی میں قبول کروں گا اور نہ تم میرے معبود کی عبادت کرو گے۔ اس سے مراد کفار ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے وليزيدن کثيرا منهم ما أنزل إليك من ربک طغيانا وکفرا الایۃ یعنی اور جو وحی آپ کے رب کی طرف سے ہے آپ پر نازل کی جاتی ہے۔ ان میں بہت سے لوگوں کو سرکشی اور کفر میں وہ زیادہ کردیتی ہے۔
باب: سورۃ «إنا أعطيناك الكوثر» کی تفسیر۔
ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ہشیم نے بیان کیا، ان سے ابوالبشر نے بیان کیا، ان سے سعید بن جبیر نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عباس (رض) نے کوثر کے متعلق کہ وہ خیر کثیر ہے جو اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو دی ہے۔ ابوبشر نے بیان کیا کہ میں نے سعید بن جبیر سے عرض کی، لوگوں کا خیال ہے کہ اس سے جنت کی ایک نہر مراد ہے ؟ سعید نے کہا کہ جنت کی نہر بھی اس خیر کثیر میں سے ایک ہے جو اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو دی ہے۔
تفسیر سورت اذا جاء نصر اللہ!
ہم سے حسن بن ربیع نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوالاحوص نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابوالضحیٰ نے، ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ آیت إذا جاء نصر الله والفتح یعنی جب اللہ کی مدد اور فتح آپہنچی جب سے نازل ہوئی تھی تو رسول اللہ ﷺ نے کوئی نماز ایسی نہیں پڑھی جس میں آپ یہ دعا نہ کرتے ہوں سبحانک ربنا وبحمدک، اللهم اغفر لي. یعنی پاک ہے تیری ذات، اے اللہ ! اے ہمارے رب ! اور تیرے ہی لیے تعریف ہے۔ اے اللہ میری مغفرت فرما دے۔
تفسیر سورت اذا جاء نصر اللہ!
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے ابوالضحیٰ نے، ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ (سورۃ الفتح نازل ہونے کے بعد) اپنے رکوع اور سجدوں میں بکثرت یہ دعا پڑھتے تھے سبحانک اللهم ربنا وبحمدک، اللهم اغفر لي یعنی پاک ہے تیری ذات، اے اللہ ! اے ہمارے رب ! اور تیرے ہی لیے تعریف ہے، اے اللہ ! میری مغفرت فرما دے۔ قرآن مجید کے حکم مذکور پر اس طرح آپ عمل کرتے تھے۔
باب: آیت کی تفسیر ”اور آپ اللہ کے دین میں لوگوں کو جوق در جوق داخل ہوتے ہوئے خود دیکھ رہے ہیں“۔
ہم سے عبداللہ بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرحمٰن بن مہدی نے بیان کیا، ان سے سفیان ثوری نے، ان سے حبیب بن ابی ثابت نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے کہ عمر (رض) نے بوڑھے بدری صحابہ سے اللہ تعالیٰ کے ارشاد إذا جاء نصر الله والفتح یعنی جب اللہ کی مدد اور فتح آپہنچی کے متعلق پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ اس سے اشارہ بہت سے شہروں اور ملکوں کے فتح ہونے کی طرف ہے۔ عمر (رض) نے کہا : ابن عباس تمہارا کیا خیال ہے ؟ ابن عباس (رض) نے جواب دیا کہ اس میں آپ کی وفات کی خبر یا ایک مثال ہے گویا آپ کی موت کی آپ کو خبر دی گئی ہے۔
باب: آیت کی تفسیر ”اے نبی! اب تم اپنے رب کی حمد و ثنا بیان کیا کرو اور اس سے بخشش چاہو بیشک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے“۔
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے ابوبشر نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ عمر بن خطاب (رض) مجھے بوڑھے بدری صحابہ کے ساتھ مجلس میں بٹھاتے تھے۔ بعض (عبدالرحمٰن بن عوف) کو اس پر اعتراض ہوا، انہوں نے عمر (رض) سے کہا کہ اسے آپ مجلس میں ہمارے ساتھ بٹھاتے ہیں، اس کے جیسے تو ہمارے بھی بچے ہیں ؟ عمر (رض) نے کہا کہ اس کی وجہ تمہیں معلوم ہے۔ پھر انہوں نے ایک دن ابن عباس (رض) کو بلایا اور انہیں بوڑھے بدری صحابہ کے ساتھ بٹھایا (ابن عباس (رض) نے کہا کہ) میں سمجھ گیا کہ آپ نے مجھے انہیں دکھانے کے لیے بلایا ہے، پھر ان سے پوچھا اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے إذا جاء نصر الله والفتح الخ یعنی جب اللہ کی مدد اور فتح آپہنچی بعض لوگوں نے کہا کہ جب ہمیں مدد اور فتح حاصل ہوئی تو اللہ کی حمد اور اس سے استغفار کا ہمیں آیت میں حکم دیا گیا ہے۔ کچھ لوگ خاموش رہے اور کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر آپ نے مجھ سے پوچھا : ابن عباس ! کیا تمہارا بھی یہی خیال ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں۔ پوچھا پھر تمہاری کیا رائے ہے ؟ میں نے عرض کی کہ اس میں رسول اللہ ﷺ کی وفات کی طرف اشارہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو یہی چیز بتائی ہے اور فرمایا إذا جاء نصر الله والفتح کہ جب اللہ کی مدد اور فتح آپہنچی یعنی پھر یہ آپ کی وفات کی علامت ہے۔ اس لیے آپ اپنے پروردگار کی پاکی و تعریف بیان کیجئے اور اس سے بخشش مانگا کیجئے۔ بیشک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے۔ عمر (رض) نے اس پر کہا میں بھی وہی جانتا ہوں جو تم نے کہا۔
تفسیر سورت تبت یدا ابی لہب وتب! ت بمعنے خسران اور تتیب بمعنے تدمیر (ہلاک کردینا) ہے۔
ہم سے یوسف بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے عمرو بن مرہ نے بیان کیا، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی وأنذر عشيرتک الأقربين آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرایئے اور اپنے گروہ کے ان لوگوں کو ڈرائیے جو مخلصین ہیں۔ تو رسول اللہ ﷺ صفا پہاڑی پر چڑھ گئے اور پکارا : یاصباحاہ ! قریش نے کہا یہ کون ہے، پھر وہاں سب آ کر جمع ہوگئے۔ نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا کہ تمہارا کیا خیال ہے، اگر میں تمہیں بتاؤں کہ ایک لشکر اس پہاڑ کے پیچھے سے آنے والا ہے، تو کیا تم مجھ کو سچا نہیں سمجھو گے ؟ انہوں نے کہا کہ ہمیں جھوٹ کا آپ سے تجربہ کبھی بھی نہیں ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پھر میں تمہیں اس سخت عذاب سے ڈراتا ہوں جو تمہارے سامنے آ رہا ہے۔ یہ سن کر ابولہب بولا، تو تباہ ہو، کیا تو نے ہمیں اسی لیے جمع کیا تھا ؟ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے چلے آئے اور آپ پر یہ سورت نازل ہوئی تبت يدا أبي لهب وتب الخ یعنی دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے ابولہب کے اور وہ برباد ہوگیا۔ اعمش نے یوں پڑھا وقد تب جس دن یہ حدیث روایت کی۔
باب: آیت کی تفسیر ”وہ ہلاک ہوا نہ اس کا مال اس کے کام آیا اور نہ جو کچھ اس نے کمایا وہ کام آیا“۔
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم کو ابومعاویہ نے خبر دی، ان سے اعمش نے بیان کیا، ان سے عمرو بن مرہ نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ یعنی وہ ہلاک ہوا نہ اس کا مال اس کے کام آیا اور نہ جو کچھ اس نے کمایا وہ کام آیا۔ نبی کریم ﷺ بطحاء کی طرف تشریف لے گئے اور پہاڑی پر چڑھ کر پکارا۔ یا صباحاہ ! قریش اس آواز پر آپ کے پاس جمع ہوگئے۔ نبی کریم ﷺ نے ان سے پوچھا : تمہارا کیا خیال ہے اگر میں تمہیں بتاؤں کہ دشمن تم پر صبح کے وقت یا شام کے وقت حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم میری تصدیق نہیں کرو گے ؟ انہوں نے کہا کہ ہاں ضرور آپ کی تصدیق کریں گے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تو میں تمہیں سخت عذاب سے ڈراتا ہوں جو تمہارے سامنے آ رہا ہے۔ ابولہب بولا تم تباہ ہوجاؤ۔ کیا تم نے ہمیں اسی لیے جمع کیا تھا ؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی تبت يدا أبي لهب آخر تک۔
باب: آیت کی تفسیر ”عنقریب وہ بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہو گا“۔
ہم سے عمر بن حفص نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے عمرو بن مرہ نے بیان کیا، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ ابولہب نے کہا تھا کہ تو تباہ ہو۔ کیا تو نے ہمیں اسی لیے جمع کیا تھا ؟ اس پر یہ آیت تبت يدا أبي لهب نازل ہوئی۔
تفسیر سورت قل ہو اللہ احد! بعض کہتے ہیں کہ احد پر تنوین نہیں ہے اس سے مراد واحد ہے۔
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعیب نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مجھے ابن آدم نے جھٹلایا حالانکہ اس کے لیے یہ بھی مناسب نہیں تھا۔ مجھے جھٹلانا یہ ہے کہ (ابن آدم) کہتا ہے کہ میں اس کو دوبارہ نہیں پیدا کروں گا حالانکہ میرے لیے دوبارہ پیدا کرنا اس کے پہلی مرتبہ پیدا کرنے سے زیادہ مشکل نہیں۔ اس کا مجھے گالی دینا یہ ہے کہ کہتا ہے کہ اللہ نے اپنا بیٹا بنایا ہے حالانکہ میں ایک ہوں۔ بےنیاز ہوں نہ میرے لیے کوئی اولاد ہے اور نہ میں کسی کی اولاد ہوں اور نہ کوئی میرے برابر ہے۔
باب: آیت «الله الصمد» کی تفسیر۔
ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہمیں معمر نے خبر دی، انہیں ہمام نے، ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ (اللہ پاک نے فرمایا ہے کہ) ابن آدم نے مجھے جھٹلایا حالانکہ اس کے لیے یہ مناسب نہ تھا۔ اس نے مجھے گالی دی حالانکہ یہ اس کا حق نہیں تھا۔ مجھے جھٹلانا یہ ہے کہ (ابن آدم) کہتا ہے کہ میں اسے دوبارہ زندہ نہیں کرسکتا جیسا کہ میں نے اسے پہلی دفعہ پیدا کیا تھا۔ اس کا گالی دینا یہ ہے کہ کہتا ہے اللہ نے بیٹا بنا لیا ہے حالانکہ میں بےپرواہ ہوں، میرے ہاں نہ کوئی اولاد ہے اور نہ میں کسی کی اولاد اور نہ کوئی میرے برابر کا ہے۔ كفؤا اور كفيئا اور کفاء ہم معنی ہیں۔
باب: سورۃ «الفلق» کی تفسیر۔
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے عاصم اور عبدہ نے، ان سے زر بن حبیش نے بیان کیا کہ انہوں نے ابی بن کعب (رض) سے معوذتین کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بیان کیا کہ یہ مسئلہ میں نے بھی رسول اللہ ﷺ سے پوچھا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ مجھے (جبرائیل علیہ السلام) کی زبانی کہا گیا ہے کہ یوں کہئیے کہ اعوذ برب الفلق الخ میں نے اسی طرح کہا چناچہ ہم بھی وہی کہتے ہیں جو رسول اللہ ﷺ نے کہا۔
باب: سورۃ «الناس» کی تفسیر۔
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے عبدہ بن ابی لبابہ نے بیان کیا، ان سے زر بن حبیش نے (سفیان نے کہا) اور ہم سے عاصم نے بھی بیان کیا، ان سے زر نے بیان کیا کہ میں نے ابی بن کعب (رض) سے پوچھا کہ یا اباالمنذر ! آپ کے بھائی عبداللہ بن مسعود (رض) تو یہ کہتے ہیں کہ سورة معوذتین قرآن میں داخل نہیں ہیں۔ ابی بن کعب نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس بات کو پوچھا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ (جبرائیل (علیہ السلام) کی زبانی) مجھ سے یوں کہا گیا کہ ایسا کہئیے اور میں نے کہا، ابی بن کعب (رض) نے کہا کہ ہم بھی وہی کہتے ہیں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔