49. فضائل قرآن

【1】

باب: وحی کیونکر اتری اور سب سے پہلے کون سی آیت نازل ہوئی تھی؟

ہم سے عبداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا ‘ ان سے شیبان بن عبدالرحمٰن نے ‘ ان سے یحییٰ بن کثیر نے ‘ ان سے سلمی بن عبدالرحمٰن بن عوف نے بیان کیا کہ مجھ کو عائشہ، عبداللہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم نے خبر دی کہ نبی کریم ﷺ مکہ میں دس سال رہے اور قرآن نازل ہوتا رہا اور مدینہ میں بھی دس سال تک رہے اور آپ ﷺ پر وہاں بھی قرآن نازل ہوتا رہا۔

【2】

باب: وحی کیونکر اتری اور سب سے پہلے کون سی آیت نازل ہوئی تھی؟

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے معتمر بن سلیمان نے ‘ کہا کہ میں نے اپنے والد سے سنا ‘ ان سے ابوعثمان مہدی نے بیان کیا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ جبرائیل (علیہ السلام) نبی کریم ﷺ کے پاس آئے اور آپ ﷺ سے بات کرنے لگے۔ اس وقت ام المؤمنین ام سلمہ (رض) آپ کے پاس موجود تھیں نبی کریم ﷺ نے ان سے پوچھا کہ جانتی ہو یہ کون ہیں ؟ یا اسی طرح کے الفاظ آپ ﷺ نے فرمائے۔ ام المؤمنین نے کہا کہ دحیہ الکلبی ہیں۔ جب آپ ﷺ کھڑے ہوئے ام سلمہ (رض) نے بیان کیا : اللہ کی قسم ! اس وقت (تک) بھی میں انہیں دحیہ الکلبی سمجھتی رہی۔ آخر جب میں نے نبی کریم ﷺ کا خطبہ سنا جس میں آپ ﷺ نے جبرائیل (علیہ السلام) کے آنے کی خبر سنائی تب مجھے حال معلوم ہوا یا اسی طرح کے الفاظ بیان کئے۔ معتمر نے بیان کیا کہ میرے والد (سلیمان) نے کہا ‘ میں نے ابوعثمان مہدی سے کہا کہ آپ نے یہ حدیث کس سے سنی تھی ؟ انہوں نے بتایا کہ اسامہ بن زید (رض) سے۔

【3】

باب: وحی کیونکر اتری اور سب سے پہلے کون سی آیت نازل ہوئی تھی؟

ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، کہا ہم سے سعد مقبری نے بیان کیا، ان سے ان کے والد کیسان نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہر نبی کو ایسے ایسے معجزات عطا کئے گئے کہ (انہیں دیکھ کر لوگ) ان پر ایمان لائے (بعد کے زمانے میں ان کا کوئی اثر نہیں رہا) اور مجھے جو معجزہ دیا گیا ہے وہ وحی (قرآن) ہے جو اللہ تعالیٰ نے مجھ پر نازل کی ہے۔ (اس کا اثر قیامت تک باقی رہے گا) اس لیے مجھے امید ہے کہ قیامت کے دن میرے تابع فرمان لوگ دوسرے پیغمبروں کے تابع فرمانوں سے زیادہ ہوں گے۔

【4】

باب: وحی کیونکر اتری اور سب سے پہلے کون سی آیت نازل ہوئی تھی؟

ہم سے عمرو بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد (ابراہیم بن سعد) نے، ان سے صالح بن کیسان نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، کہا، مجھ سے انس بن مالک نے خبر دی کہ اللہ تعالیٰ نبی کریم ﷺ پر پے در پے وحی اتارتا رہا اور آپ ﷺ کی وفات کے قریبی زمانے میں تو بہت وحی اتری پھر اس کے بعد نبی کریم ﷺ کی وفات ہوگئی۔

【5】

باب: وحی کیونکر اتری اور سب سے پہلے کون سی آیت نازل ہوئی تھی؟

ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے اسود بن قیس نے، کہا کہ میں نے جندب بن عبداللہ بجلی (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ بیمار پڑے اور ایک یا دو راتوں میں (تہجد کی نماز کے لیے) نہ اٹھ سکے تو ایک عورت (عوراء بنت رب ابولہب کی جورو) نبی کریم ﷺ کے پاس آئی اور کہنے لگی محمد ! میرا خیال ہے کہ تمہارے شیطان نے تمہیں چھوڑ دیا ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی والضحى * والليل إذا سجى * ما ودعک ربک وما قلى‏ قسم ہے دن کی روشنی کی اور رات کی جب وہ قرار پکڑے کہ آپ کے پروردگار نے نہ آپ کو چھوڑا ہے اور نہ وہ آپ سے خفا ہوا ہے۔

【6】

باب: قرآن مجید قریش اور عرب کے محاورہ میں نازل ہوا۔

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم سے شعیب نے بیان کیا، ان سے زہری نے اور انہیں انس بن مالک (رض) نے خبر دی، انہوں نے بیان کیا کہ عثمان (رض) نے زید بن ثابت، سعید بن عاص، عبداللہ بن زبیر، عبدالرحمٰن بن حارث بن ہشام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ قرآن مجید کو کتابی شکل میں لکھیں اور فرمایا کہ اگر قرآن کے کسی محاورے میں تمہارا زید بن ثابت (رض) سے اختلاف ہو تو اس لفظ کو قریش کے محاورہ کے مطابق لکھو، کیونکہ قرآن ان ہی کے محاورے پر نازل ہوا ہے چناچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔

【7】

باب: قرآن مجید قریش اور عرب کے محاورہ میں نازل ہوا۔

ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمام بن یحییٰ نے بیان کیا، ہم سے عطاء بن ابی رباح نے بیان کیا۔ (دوسری سند) اور (میرے والد) مسدد بن زید نے بیان کیا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے بیان کیا، کہا مجھ کو عطاء بن ابی رباح نے خبر دی، کہا کہ مجھے صفوان بن یعلیٰ بن امیہ نے خبر دی کہ (میرے والد) یعلیٰ کہا کرتے تھے کہ کاش میں رسول اللہ ﷺ کو اس وقت دیکھتا جب آپ ﷺ پر وحی نازل ہوتی ہو۔ چناچہ جب آپ ﷺ مقام جعرانہ میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ آپ ﷺ کے اوپر کپڑے سے سایہ کردیا گیا تھا اور آپ ﷺ کے ساتھ آپ کے چند صحابہ موجود تھے کہ ایک شخص کے بارے میں کیا فتویٰ ہے۔ جس نے خوشبو میں بسا ہوا ایک جبہ پہن کر احرام باندھا ہو۔ تھوڑی دیر کے لیے نبی کریم ﷺ نے دیکھا اور پھر آپ ﷺ پر وحی آنا شروع ہوگئی۔ عمر (رض) نے یعلیٰ کو اشارہ سے بلایا۔ یعلیٰ آئے اور اپنا سر (اس کپڑے کے جس سے نبی کریم ﷺ کے لیے سایہ کیا گیا تھا) اندر کرلیا، نبی کریم ﷺ کا چہرہ اس وقت سرخ ہو رہا تھا اور آپ ﷺ تیزی سے سانس لے رہے تھے، تھوڑی دیر تک یہی کیفیت رہی۔ پھر یہ کیفیت دور ہوگئی اور آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ جس نے ابھی مجھ سے عمرہ کے متعلق فتویٰ پوچھا تھا وہ کہاں ہے ؟ اس شخص کو تلاش کر کے آپ کے پاس لایا گیا۔ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ جو خوشبو تمہارے بدن یا کپڑے پر لگی ہوئی ہے اس کو تین مرتبہ دھو لو اور جبہ کو اتار دو پھر عمرہ میں بھی اسی طرح کرو جس طرح حج میں کرتے ہو۔

【8】

باب: قرآن مجید کے جمع کرنے کا بیان۔

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے عبید بن سباق نے اور ان سے زید بن ثابت (رض) نے بیان کیا کہ جنگ یمامہ میں (صحابہ کی بہت بڑی تعداد کے) شہید ہوجانے کے بعد ابوبکر (رض) نے مجھے بلا بھیجا۔ اس وقت عمر (رض) میرے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ یمامہ کی جنگ میں بہت بڑی تعداد میں قرآن کے قاریوں کی شہادت ہوگئی ہے اور مجھے ڈر ہے کہ اسی طرح کفار کے ساتھ دوسری جنگوں میں بھی قراء قرآن بڑی تعداد میں قتل ہوجائیں گے اور یوں قرآن کے جاننے والوں کی بہت بڑی تعداد ختم ہوجائے گی۔ اس لیے میرا خیال ہے کہ آپ قرآن مجید کو (باقاعدہ کتابی شکل میں) جمع کرنے کا حکم دے دیں۔ میں نے عمر (رض) سے کہا کہ آپ ایک ایسا کام کس طرح کریں گے جو رسول اللہ ﷺ نے (اپنی زندگی میں) نہیں کیا ؟ عمر (رض) نے اس کا یہ جواب دیا کہ اللہ کی قسم ! یہ تو ایک کارخیر ہے۔ عمر (رض) یہ بات مجھ سے باربار کہتے رہے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے اس مسئلہ میں میرا بھی سینہ کھول دیا اور اب میری بھی وہی رائے ہوگئی جو عمر (رض) کی تھی۔ زید (رض) نے بیان کیا کہ ابوبکر (رض) نے کہا آپ (زید رضی اللہ عنہ) جوان اور عقلمند ہیں، آپ کو معاملہ میں متہم بھی نہیں کیا جاسکتا اور آپ رسول اللہ ﷺ کی وحی لکھتے بھی تھے، اس لیے آپ قرآن مجید کو پوری تلاش اور محنت کے ساتھ ایک جگہ جمع کردیں۔ اللہ کی قسم ! اگر یہ لوگ مجھے کسی پہاڑ کو بھی اس کی جگہ سے دوسری جگہ ہٹانے کے لیے کہتے تو میرے لیے یہ کام اتنا مشکل نہیں تھا جتنا کہ ان کا یہ حکم کہ میں قرآن مجید کو جمع کر دوں۔ میں نے اس پر کہا کہ آپ لوگ ایک ایسے کام کو کرنے کی ہمت کیسے کرتے ہیں جو رسول اللہ ﷺ نے خود نہیں کیا تھا۔ ابوبکر (رض) نے کہا : اللہ کی قسم ! یہ ایک عمل خیر ہے۔ ابوبکر (رض) یہ جملہ برابر دہراتے رہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے میرا بھی ان کی اور عمر (رض) کی طرح سینہ کھول دیا۔ چناچہ میں نے قرآن مجید (جو مختلف چیزوں پر لکھا ہوا موجود تھا) کی تلاش شروع کردی اور قرآن مجید کو کھجور کی چھلی ہوئی شاخوں، پتلے پتھروں سے، (جن پر قرآن مجید لکھا گیا تھا) اور لوگوں کے سینوں کی مدد سے جمع کرنے لگا۔ سورة التوبہ کی آخری آیتیں مجھے ابوخزیمہ انصاری (رض) کے پاس لکھی ہوئی ملیں، یہ چند آیات مکتوب شکل میں ان کے سوا اور کسی کے پاس نہیں تھیں لقد جاء کم رسول من أنفسکم عزيز عليه ما عنتم‏ سے سورة براۃ (سورۃ توبہ) کے خاتمہ تک۔ جمع کے بعد قرآن مجید کے یہ صحیفے ابوبکر (رض) کے پاس محفوظ تھے۔ پھر ان کی وفات کے بعد عمر (رض) نے جب تک وہ زندہ رہے اپنے ساتھ رکھا پھر وہ ام المؤمنین حفصہ بنت عمر (رض) کے پاس محفوظ رہے۔

【9】

باب: قرآن مجید کے جمع کرنے کا بیان۔

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد عوفی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن شہاب نے بیان کیا اور ان سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ حذیفہ بن الیمان (رض) امیرالمؤمنین عثمان (رض) کے پاس آئے اس وقت عثمان (رض) ارمینیہ اور آذربیجان کی فتح کے سلسلے میں شام کے غازیوں کے لیے جنگ کی تیاریوں میں مصروف تھے، تاکہ وہ اہل عراق کو ساتھ لے کر جنگ کریں۔ حذیفہ (رض) قرآن مجید کی قرآت کے اختلاف کی وجہ سے بہت پریشان تھے۔ آپ نے عثمان (رض) سے کہا کہ امیرالمؤمنین اس سے پہلے کہ یہ امت (امت مسلمہ) بھی یہودیوں اور نصرانیوں کی طرح کتاب اللہ میں اختلاف کرنے لگے، آپ اس کی خبر لیجئے۔ چناچہ عثمان (رض) نے حفصہ (رض) کے یہاں کہلایا کہ صحیفے (جنہیں زید (رض) نے ابوبکر (رض) کے حکم سے جمع کیا تھا اور جن پر مکمل قرآن مجید لکھا ہوا تھا) ہمیں دے دیں تاکہ ہم انہیں مصحفوں میں (کتابی شکل میں) نقل کروا لیں۔ پھر اصل ہم آپ کو لوٹا دیں گے حفصہ (رض) نے وہ صحیفے عثمان (رض) کے پاس بھیج دئیے اور آپ نے زید بن ثابت، عبداللہ بن زبیر، سعد بن العاص، عبدالرحمٰن بن حارث بن ہشام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ وہ ان صحیفوں کو مصحفوں میں نقل کرلیں۔ عثمان (رض) نے اس جماعت کے تین قریشی صحابیوں سے کہا کہ اگر آپ لوگوں کا قرآن مجید کے کسی لفظ کے سلسلے میں زید (رض) سے اختلاف ہو تو اسے قریش ہی کی زبان کے مطابق لکھ لیں کیونکہ قرآن مجید بھی قریش ہی کی زبان میں نازل ہوا تھا۔ چناچہ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا اور جب تمام صحیفے مختلف نسخوں میں نقل کرلیے گئے تو عثمان (رض) نے ان صحیفوں کو واپس لوٹا دیا اور اپنی سلطنت کے ہر علاقہ میں نقل شدہ مصحف کا ایک ایک نسخہ بھیجوا دیا اور حکم دیا کے اس کے سوا کوئی چیز اگر قرآن کی طرف منسوب کی جاتی ہے خواہ وہ کسی صحیفہ یا مصحف میں ہو تو اسے جلا دیا جائے۔ ابن شہاب نے بیان کیا کہ مجھے خارجہ بن زید بن ثابت نے خبر دی، انہوں نے زید بن ثابت سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ جب ہم (عثمان (رض) کے زمانہ میں) مصحف کی صورت میں قرآن مجید کو نقل کر رہے تھے، تو مجھے سورة الاحزاب کی ایک آیت نہیں ملی حالانکہ میں اس آیت کو بھی رسول اللہ ﷺ سے سنا کرتا تھا اور آپ اس کی تلاوت کیا کرتے تھے، پھر ہم نے اسے تلاش کیا تو وہ خزیمہ بن ثابت انصاری (رض) کے پاس ملی۔ وہ آیت یہ تھی من المؤمنين رجال صدقوا ما عاهدوا الله عليه‏ چناچہ ہم نے اس آیت کو سورة الاحزاب میں لگا دیا۔

【10】

باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب کا بیان۔

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے یونس نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عبید ابن سباق نے بیان کیا اور ان سے زید بن ثابت (رض) نے بیان کیا کہ ابوبکر (رض) نے اپنے زمانہ خلافت میں مجھے بلایا اور کہا کہ تم رسول اللہ ﷺ کے سامنے قرآن لکھتے تھے۔ اس لیے اب بھی قرآن (جمع کرنے کے لیے) تم ہی تلاش کرو۔ میں نے تلاش کی اور سورة التوبہ کی آخری دو آیتیں مجھے خزیمہ انصاری کے پاس لکھی ہوئی ملیں، ان کے سوا اور کہیں یہ دو آیتیں نہیں مل رہی تھیں۔ وہ آیتیں یہ تھیں لقد جاء کم رسول من أنفسکم عزيز عليه ما عنتم‏ آخر تک۔

【11】

باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب کا بیان۔

ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، ان سے اسرائیل نے، ان سے ابواسحاق نے اور ان سے براء بن عازب (رض) نے بیان کیا کہ جب آیت لا يستوي القاعدون من المؤمنين والمجاهدون في سبيل الله‏ نازل ہوئی تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ زید کو میرے پاس بلاؤ اور ان سے کہو کہ تختی، دوات اور مونڈھے کی ہڈی (لکھنے کا سامان) لے کر آئیں، یا راوی نے اس کی بجائے ہڈی اور دوات (کہا) پھر (جب وہ آگئے تو) نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ لکھو لا يستوي القاعدون‏‏ الخ۔ نبی کریم ﷺ کے پیچھے عمرو ابن ام مکتوم بیٹھے ہوئے تھے جو نابینا تھے، انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! پھر آپ کا میرے بارے میں کیا حکم ہے۔ میں تو نابینا ہوں (جہاد میں نہیں جاسکتا اب مجھ کو بھی مجاہدین کا درجہ ملے گا یا نہیں) اس وقت یہ آیت یوں اتری لا يستوي القاعدون من المؤمنين‏ الخ نازل ہوئی۔

【12】

باب: قرآن مجید سات قراتوں سے نازل ہوا ہے۔

ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے لیث بن سعد نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبیداللہ بن عبداللہ نے بیان کیا اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جبرائیل (علیہ السلام) نے مجھ کو (پہلے) عرب کے ایک ہی محاورے پر قرآن پڑھایا۔ میں نے ان سے کہا (اس میں بہت سختی ہوگی) میں برابر ان سے کہتا رہا کہ اور محاوروں میں بھی پڑھنے کی اجازت دو ۔ یہاں تک کہ سات محاوروں کی اجازت ملی۔

【13】

باب: قرآن مجید سات قراتوں سے نازل ہوا ہے۔

ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے لیث بن سعد نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، کہا مجھ سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا، ان سے مسور بن مخرمہ اور عبدالرحمٰن بن عبدالقاری نے بیان کیا، انہوں نے عمر بن خطاب (رض) سے سنا وہ بیان کرتے تھے کہ نبی کریم ﷺ کی زندگی میں، میں نے ہشام بن حکیم کو سورة الفرقان نماز میں پڑھتے سنا، میں نے ان کی قرآت کو غور سے سنا تو معلوم ہوا کہ وہ سورت میں ایسے حروف پڑھ رہے ہیں کہ مجھے اس طرح نبی کریم ﷺ نے نہیں پڑھایا تھا، قریب تھا کہ میں ان کا سر نماز ہی میں پکڑ لیتا لیکن میں نے بڑی مشکل سے صبر کیا اور جب انہوں نے سلام پھیرا تو میں نے ان کی چادر سے ان کی گردن باندھ کر پوچھا یہ سورت جو میں نے ابھی تمہیں پڑھتے ہوئے سنی ہے، تمہیں کس نے اس طرح پڑھائی ہے ؟ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے اسی طرح پڑھائی ہے، میں نے کہا تم جھوٹ بولتے ہو۔ خود نبی کریم ﷺ نے مجھے اس سے مختلف دوسرے حرفوں سے پڑھائی جس طرح تم پڑھ رہے تھے۔ آخر میں انہیں کھینچتا ہوا نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں نے اس شخص سے سورة الفرقان ایسے حرفوں میں پڑھتے سنی جن کی آپ نے مجھے تعلیم نہیں دی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ عمر (رض) تم پہلے انہیں چھوڑ دو اور اے ہشام ! تم پڑھ کے سناؤ۔ انہوں نے نبی کریم ﷺ کے سامنے بھی ان ہی حرفوں میں پڑھا جن میں میں نے انہیں نماز میں پڑھتے سنا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے سن کر فرمایا کہ یہ سورت اسی طرح نازل ہوئی ہے۔ پھر فرمایا عمر ! اب تم پڑھ کر سناؤ میں نے اس طرح پڑھا جس طرح نبی کریم ﷺ نے مجھے تعلیم دی تھی۔ نبی کریم ﷺ نے اسے بھی سن کر فرمایا کہ اسی طرح نازل ہوئی ہے۔ یہ قرآن سات حرفوں پر نازل ہوا ہے پس تمہیں جس طرح آسان ہو پڑھو۔

【14】

باب: قرآن مجید یا آیتوں کی ترتیب کا بیان۔

ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو ہشام بن یوسف نے خبر دی، انہیں ابن جریج نے خبر دی، ان سے کیسان نے کہا کہ مجھے یوسف بن ماہک نے خبر دی، انہوں نے بیان کیا کہ میں ام المؤمنین عائشہ (رض) کی خدمت میں حاضر تھا کہ ایک عراقی ان کے پاس آیا اور پوچھا کہ کفن کیسا ہونا چاہیے ؟ ام المؤمنین نے کہا : افسوس اس سے مطلب ! کسی طرح کا بھی کفن ہو تجھے کیا نقصان ہوگا۔ پھر اس شخص نے کہا ام المؤمنین مجھے اپنے مصحف دکھا دیجئیے۔ انہوں نے کہا کیوں ؟ (کیا ضرورت ہے) اس نے کہا تاکہ میں بھی قرآن مجید اس ترتیب کے مطابق پڑھوں کیونکہ لوگ بغیر ترتیب کے پڑھتے ہیں۔ انہوں نے کہا پھر اس میں کیا قباحت ہے جونسی سورت تو چاہے پہلے پڑھ لے (جونسی سورت چاہے بعد میں پڑھ لے اگر اترنے کی ترتیب دیکھتا ہے) تو پہلے مفصل کی ایک سورت، اتری ( اقرا باسم ربك ) جس میں جنت و دوزخ کا ذکر ہے۔ جب لوگوں کا دل اسلام کی طرف رجوع ہوگیا (اعتقاد پختہ ہوگئے) اس کے بعد حلال و حرام کے احکام اترے، اگر کہیں شروع شروع ہی میں یہ اترتا کہ شراب نہ پینا تو لوگ کہتے ہم تو کبھی شراب پینا نہیں چھوڑیں گے۔ اگر شروع ہی میں یہ اترتا کہ زنا نہ کرو تو لوگ کہتے ہم تو زنا نہیں چھوڑیں گے اس کے بجائے مکہ میں محمد ﷺ پر اس وقت جب میں بچی تھی اور کھیلا کرتی تھی یہ آیت نازل ہوئی بل الساعة موعدهم والساعة أدهى وأمر‏ لیکن سورة البقرہ اور سورة نساء اس وقت نازل ہوئیں، جب میں (مدینہ میں) نبی کریم ﷺ کے پاس تھی۔ بیان کیا کہ پھر انہوں نے اس عراقی کے لیے اپنا مصحف نکالا اور ہر سورت کی آیات کی تفصیل لکھوائی۔

【15】

باب: قرآن مجید یا آیتوں کی ترتیب کا بیان۔

ہم آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق نے بیان کیا، انہوں نے عبدالرحمٰن بن امیہ سے سنا اور انہوں نے ابن مسعود (رض) سے سنا، انہوں نے کہا سورة بنی اسرائیل، سورة الکہف، سورة مریم، سورة طہٰ اور سورة انبیاء کے متعلق بتلایا کہ یہ پانچوں سورتیں اول درجہ کی فصیح سورتیں ہیں اور میری یاد کی ہوئی ہیں۔

【16】

باب: قرآن مجید یا آیتوں کی ترتیب کا بیان۔

ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم کو ابواسحاق نے خبر دی، انہوں نے براء بن عازب (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے سورة سبح اسم ربک الأعلى نبی کریم ﷺ کے مدینہ منورہ آنے سے پہلے ہی سیکھ لی تھی۔

【17】

باب: قرآن مجید یا آیتوں کی ترتیب کا بیان۔

ہم سے عبدان نے بیان کیا، ان سے ابوحمزہ (محمد بن میمون) نے ان سے اعمش نے، ان سے شقیق نے بیان کیا کہ عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہا میں ان جڑواں سورتوں کو جانتا ہوں جنہیں نبی کریم ﷺ ہر رکعت میں دو دو پڑھتے تھے پھر عبداللہ بن مسعود (رض) مجلس سے کھڑے ہوگئے (اور اپنے گھر) چلے گئے۔ علقمہ بھی آپ کے ساتھ اندر گئے۔ جب علقمہ (رض) باہر نکلے تو ہم نے ان سے انہیں سورتوں کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے کہا یہ شروع مفصل کی بیس سورتیں ہیں، ان کی آخری سورتیں وہ ہیں جن کی اول میں حم ہے۔ حم الدخان اور عم يتساء لون‏.‏ بھی ان ہی میں سے ہیں۔

【18】

باب: جبرائیل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن کا دور کیا کرتے تھے۔

ہم سے یحییٰ بن قزعہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے زہری نے ان سے عبداللہ بن عبداللہ نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ خیر خیرات کرنے میں سب سے زیادہ سخی تھے اور رمضان میں آپ کی سخاوت کی تو کوئی حد ہی نہیں تھی کیونکہ رمضان کے مہینوں میں جبرائیل (علیہ السلام) آپ سے آ کر ہر رات ملتے تھے یہاں تک کہ رمضان کا مہینہ ختم ہوجاتا وہ ان راتوں میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ قرآن مجید کا دورہ کیا کرتے تھے۔ جب جبرائیل (علیہ السلام) آپ سے ملتے تو اس زمانہ میں نبی کریم ﷺ تیز ہوا سے بھی بڑھ کر سخی ہوجاتے تھے۔

【19】

باب: جبرائیل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن کا دور کیا کرتے تھے۔

ہم سے خالد بن یزید نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوبکر بن عیاش نے بیان کیا، ان سے ابوحصین نے، ان سے ابوصالح نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ جبرائیل (علیہ السلام) رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہر سال ایک مرتبہ قرآن مجید کا دورہ کیا کرتے تھے لیکن جس سال نبی کریم ﷺ کی وفات ہوئی اس میں انہوں نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ دو مرتبہ دورہ کیا۔ نبی کریم ﷺ ہر سال دس دن کا اعتکاف کیا کرتے تھے لیکن جس سال آپ کی وفات ہوئی اس سال آپ نے بیس دن کا اعتکاف کیا۔

【20】

باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں قرآن کے قاری (حافظ) کون کون تھے؟

ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن مرہ نے، ان سے ابراہیم نخعی نے، ان سے مسروق نے کہ عبداللہ بن عمرو بن العاص نے عبداللہ بن مسعود (رض) کا ذکر کیا اور کہا کہ اس وقت سے ان کی محبت میرے دل میں گھر کرگئی ہے جب سے میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ قرآن مجید کو چار اصحاب سے حاصل کرو جو عبداللہ بن مسعود، سالم، معاذ اور ابی بن کعب ہیں۔

【21】

باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں قرآن کے قاری (حافظ) کون کون تھے؟

ہم سے عمرو بن حفص نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، ان سے شقیق بن سلمہ نے بیان کیا کہ عبداللہ بن مسعود (رض) نے ہمیں خطبہ دیا اور کہا کہ اللہ کی قسم میں نے کچھ اوپر ستر سورتیں خود رسول اللہ ﷺ کی زبان مبارک سے سن کر حاصل کی ہیں۔ اللہ کی قسم نبی کریم ﷺ کے صحابہ کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ میں ان سب سے زیادہ قرآن مجید کا جاننے والا ہوں حالانکہ میں ان سے بہتر نہیں ہوں۔ شقیق نے بیان کیا کہ پھر میں مجلس میں بیٹھا تاکہ صحابہ کی رائے سن سکوں کہ وہ کیا کہتے ہیں لیکن میں نے کسی سے اس بات کی تردید نہیں سنی۔

【22】

آنحضرت ﷺ کے قراء صحابہ (رض) کا بیان۔

مجھ سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی، انہیں اعمش نے، انہیں ابراہیم نخعی نے، ان سے علقمہ نے بیان کیا کہ ہم حمص میں تھے ابن مسعود (رض) نے سورة یوسف پڑھی تو ایک شخص بولا کہ اس طرح نہیں نازل ہوئی تھی۔ ابن مسعود (رض) نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے اس سورت کی تلاوت کی تھی اور آپ نے میری قرآت کی تحسین فرمائی تھی۔ انہوں نے محسوس کیا کہ اس معترض کے منہ سے شراب کی بدبو آرہی ہے فرمایا کہ اللہ کی کتاب کے متعلق جھوٹا بیان اور شراب پینا جیسے گناہ ایک ساتھ کرتا ہے۔ پھر انہوں نے اس پر حد جاری کرا دی۔

【23】

آنحضرت ﷺ کے قراء صحابہ (رض) کا بیان۔

ہم سے عمر بن حفص نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا ہم سے مسلم نے بیان کیا، ان سے مسروق نے بیان کیا کہ ابن مسعود (رض) نے کہا، اس اللہ کی قسم جس کے سوا اور کوئی معبود نہیں کتاب اللہ کی جو سورت بھی نازل ہوئی ہے اس کے متعلق میں جانتا ہوں کہ کہاں نازل ہوئی اور کتاب اللہ کی جو آیت بھی نازل ہوئی اس کے متعلق میں جانتا ہوں کہ کس کے بارے میں نازل ہوئی، اور اگر مجھے خبر ہوجائے کہ کوئی شخص مجھ سے زیادہ کتاب اللہ کا جاننے والا ہے اور اونٹ ہی اس کے پاس مجھے پہنچا سکتے ہیں (یعنی ان کا گھر بہت دور ہے) تب بھی میں سفر کر کے اس کے پاس جا کر اس سے اس علم کو حاصل کروں گا۔

【24】

آنحضرت ﷺ کے قراء صحابہ (رض) کا بیان۔

ہم سے حفص بن عمر بن غیاث نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمام بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے قتادہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے انس بن مالک (رض) سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں قرآن کو کن لوگوں نے جمع کیا تھا، انہوں نے بتلایا کہ چار صحابیوں نے، یہ چاروں قبیلہ انصار سے ہیں۔ ابی بن کعب، معاذ بن جبل، زید بن ثابت اور ابوزید۔ اس روایت کی متابعت فضل نے حسین بن واقد سے کی ہے۔ ان سے ثمامہ نے اور ان سے انس (رض) نے۔

【25】

آنحضرت ﷺ کے قراء صحابہ (رض) کا بیان۔

ہم سے معلی بن اسد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عبداللہ بن مثنی نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے ثابت بنانی اور ثمامہ نے بیان کیا اور ان سے انس نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کی وفات تک قرآن مجید کو چار صحابیوں کے سوا اور کسی نے جمع نہیں کیا تھا۔ ابودرداء ‘ معاذ بن جبل ‘ زید بن ثابت اور ابوزید رضی اللہ عنہم۔ انس نے کہا کہ ابوزید کے وارث ہم ہوئے ہیں۔

【26】

آنحضرت ﷺ کے قراء صحابہ (رض) کا بیان۔

ہم سے صدقہ بن فضل نے بیان کیا، کہا ہم کو یحییٰ بن سعید قطان نے خبر دی، انہیں سفیان ثوری نے، انہیں حبیب بن ابی ثابت نے، انہیں سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ عمر (رض) نے کہا، ابی بن کعب ہم میں سب سے اچھے قاری ہیں لیکن ابی جہاں غلطی کرتے ہیں اس کو ہم چھوڑ دیتے ہیں (وہ بعض منسوخ التلاوۃ آیتوں کو بھی پڑھتے ہیں) اور کہتے ہیں کہ میں نے تو اس آیت کو نبی کریم ﷺ کے منہ مبارک سے سنا ہے، میں کسی کے کہنے سے اسے چھوڑنے والا نہیں اور اللہ نے خود فرمایا ہے ما ننسخ من آية أو ننسأها نأت بخير منها أو مثلها‏ کہ ہم جب کسی آیت کو منسوخ کردیتے ہیں پھر یا تو اسے بھلا دیتے ہیں یا اس سے بہتر لاتے ہیں۔

【27】

سورۃ فاتحہ کی فضیلت کا بیان

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ بن حجاج نے بیان کیا، کہا مجھ سے حبیب بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، ان سے حفص بن عاصم نے اور ان سے ابوسعید بن معلی (رض) نے کہ میں نماز میں مشغول تھا تو رسول اللہ ﷺ نے مجھے بلایا اس لیے میں کوئی جواب نہیں دے سکا، پھر میں نے (آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر) عرض کیا : یا رسول اللہ ! میں نماز پڑھ رہا تھا۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کیا اللہ تعالیٰ نے تمہیں حکم نہیں فرمایا ہے استجيبوا لله وللرسول إذا دعاکم‏ کہ اللہ کے رسول جب تمہیں پکاریں تو ان کی پکار پر فوراً اللہ کے رسول کے لیے لبیک کہا کرو۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا مسجد سے نکلنے سے پہلے قرآن کی سب سے بڑی سورت میں تمہیں کیوں نہ سکھا دوں۔ پھر آپ نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور جب ہم مسجد سے باہر نکلنے لگے تو میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! آپ نے ابھی فرمایا تھا کہ مسجد کے باہر نکلنے سے پہلے آپ مجھے قرآن کی سب سے بڑی سورت بتائیں گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں وہ سورت الحمد لله رب العالمين ہے یہی وہ سات آیات ہیں جو (ہر نماز میں) باربار پڑھی جاتی ہیں اور یہی وہ قرآن عظیم ہے جو مجھے دیا گیا ہے۔

【28】

سورۃ فاتحہ کی فضیلت کا بیان

مجھ سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے وہب بن جریر نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن حسان نے بیان کیا، ان سے محمد بن سیرین نے، ان سے معبد بن سیرین نے اور ان سے ابو سعید خدری (رض) نے بیان کیا کہ ہم ایک فوجی سفر میں تھے (رات میں) ہم نے ایک قبیلہ کے نزدیک پڑاؤ کیا۔ پھر ایک لونڈی آئی اور کہا کہ قبیلہ کے سردار کو بچھو نے کاٹ لیا ہے اور ہمارے قبیلے کے مرد موجود نہیں ہیں، کیا تم میں کوئی بچھو کا جھاڑ پھونک کرنے والا ہے ؟ ایک صحابی (خود ابوسعید) اس کے ساتھ کھڑے ہوگئے، ہم کو معلوم تھا کہ وہ جھاڑ پھونک نہیں جانتے لیکن انہوں نے قبیلہ کے سردار کو جھاڑا تو اسے صحت ہوگئی۔ اس نے اس کے شکرانے میں تیس بکریاں دینے کا حکم دیا اور ہمیں دودھ پلایا۔ جب وہ جھاڑ پھونک کر کے واپس آئے تو ہم نے ان سے پوچھا کیا تم واقعی کوئی منتر جانتے ہو ؟ انہوں نے کہا کہ نہیں میں نے تو صرف سورة فاتحہ پڑھ کر اس پر دم کردیا تھا۔ ہم نے کہا کہ اچھا جب تک ہم رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق نہ پوچھ لیں ان بکریوں کے بارے میں اپنی طرف سے کچھ نہ کہو۔ چناچہ ہم نے مدینہ پہنچ کر نبی کریم ﷺ سے ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ انہوں نے کیسے جانا کہ سورة فاتحہ منتر بھی ہے۔ (جاؤ یہ مال حلال ہے) اسے تقسیم کرلو اور اس میں میرا بھی حصہ لگانا۔ اور معمر نے بیان کیا ہم سے عبدالوارث بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن حسان نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن سیرین نے بیان کیا، کہا ہم سے معبد بن سیرین نے بیان کیا اور ان سے ابو سعید خدری (رض) نے یہی واقعہ بیان کیا۔

【29】

سورۃ بقرہ کی فضیلت کا بیان

ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا ہم کو شعبہ نے خبر دی، انہیں سلیمان بن مہران نے، انہیں ابراہیم نخعی نے، انہیں عبدالرحمٰن بن یزید نے، انہیں ابومسعود انصاری (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ (سورۃ البقرہ میں سے) جس نے بھی دو آخری آیتیں پڑھیں۔ (دوسری سند اگلی حدیث دیکھیں) ۔ اور ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے منصور بن معتمر نے، ان سے ابراہیم نخعی نے، ان سے عبدالرحمٰن بن یزید نے اور ان سے ابومسعود (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس نے سورة البقرہ کی دو آخری آیتیں رات میں پڑھ لیں وہ اسے ہر آفت سے بچانے کے لیے کافی ہوجائیں گی۔ اور عثمان بن ہیثم نے کہا کہ ہم سے عوف بن ابی جمیلہ نے بیان کیا، ان سے محمد بن سیرین نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے صدقہ فطر کی حفاظت پر مقرر فرمایا۔ پھر ایک شخص آیا اور دونوں ہاتھوں سے (کھجوریں) سمیٹنے لگا۔ میں نے اسے پکڑ لیا اور کہا کہ میں تجھے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کروں گا۔ پھر انہوں نے یہ پورا قصہ بیان کیا (مفصل حدیث اس سے پہلے کتاب الوکالۃ میں گزر چکی ہے) (جو صدقہ فطر چرانے آیا تھا) اس نے کہا کہ جب تم رات کو اپنے بستر پر سونے کے لیے جاؤ تو آیت الکرسی پڑھ لیا کرو، پھر صبح تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہاری حفاظت کرنے والا ایک فرشتہ مقرر ہوجائے گا اور شیطان تمہارے پاس بھی نہ آسکے گا۔ (ابوہریرہ (رض) نے یہ بات آپ سے بیان کی تو) نبی کریم ﷺ نے فرمایا اس نے تمہیں یہ ٹھیک بات بتائی ہے اگرچہ وہ بڑا جھوٹا ہے، وہ شیطان تھا۔

【30】

None

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے صدقہ فطر کی حفاظت پر مقرر فرمایا۔ پھر ایک شخص آیا اور دونوں ہاتھوں سے ( کھجوریں ) سمیٹنے لگا۔ میں نے اسے پکڑ لیا اور کہا کہ میں تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کروں گا۔ پھر انہوں نے یہ پورا قصہ بیان کیا ( مفصل حدیث اس سے پہلے کتاب الوکالۃ میں گزر چکی ہے ) ( جو صدقہ فطر چرانے آیا تھا ) اس نے کہا کہ جب تم رات کو اپنے بستر پر سونے کے لیے جاؤ تو آیت الکرسی پڑھ لیا کرو، پھر صبح تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہاری حفاظت کرنے والا ایک فرشتہ مقرر ہو جائے گا اور شیطان تمہارے پاس بھی نہ آ سکے گا۔ ( ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ بات آپ سے بیان کی تو ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس نے تمہیں یہ ٹھیک بات بتائی ہے اگرچہ وہ بڑا جھوٹا ہے، وہ شیطان تھا۔

【31】

سورت کہف کی فضیلت کا بیان

ہم سے عمرو بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے زہیر نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسحاق نے بیان کیا اور ان سے براء بن عازب (رض) نے کہ ایک صحابی (اسید بن حضیر) سورة الکہف پڑھ رہے تھے۔ ان کے ایک طرف ایک گھوڑا دو رسوں سے بندھا ہوا تھا۔ اس وقت ایک ابر اوپر سے آیا اور نزدیک سے نزدیک تر ہونے لگا۔ ان کا گھوڑا اس کی وجہ سے بدکنے لگا۔ پھر صبح کے وقت وہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے اس کا ذکر کیا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ وہ (ابر کا ٹکڑا) سكينة تھا جو قرآن کی تلاوت کی وجہ سے اترا تھا۔

【32】

سورت فتح کی فضیلت کا بیان

ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے زید بن اسلم نے اور ان سے ان کے والد اسلم نے کہ رسول اللہ ﷺ رات کو ایک سفر میں جا رہے تھے۔ عمر بن خطاب (رض) بھی آپ کے ساتھ تھے۔ عمر (رض) نے نبی کریم ﷺ سے کچھ پوچھا۔ لیکن نبی کریم ﷺ نے اس کا کوئی جواب نہ دیا۔ عمر (رض) نے پھر پوچھا آپ نے پھر کوئی جواب نہیں دیا۔ تیسری مرتبہ پھر پوچھا اور جب اس مرتبہ بھی کوئی جواب نہیں دیا تو عمر (رض) نے (اپنے آپ کو) کہا تیری ماں تجھ پر روئے تو نے نبی کریم ﷺ سے تین مرتبہ عاجزی سے سوال کیا اور نبی کریم ﷺ نے کسی مرتبہ بھی جواب نہیں دیا۔ عمر (رض) نے بیان کیا کہ پھر میں نے اپنی اونٹنی کو دوڑایا اور لوگوں سے آگے ہوگیا (آپ کے برابر چلنا چھوڑ دیا) مجھے خوف تھا کہ کہیں اس حرکت پر میرے بارے میں کوئی آیت نازل نہ ہوجائے ابھی تھوڑا ہی وقت گزرا تھا کہ میں نے ایک پکارنے والے کو سنا جو پکار رہا تھا۔ عمر (رض) نے بیان کیا کہ میں نے سوچا مجھے تو خوف تھا ہی کہ میرے بارے میں کچھ وحی نازل ہوگی۔ عمر (رض) نے بیان کیا چناچہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آیا اور میں نے آپ کو سلام کیا (سلام کے جواب کے بعد نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اے عمر ! آج رات مجھ پر ایسی سورت نازل ہوئی ہے جو مجھے ان سب چیزوں سے زیادہ پسند ہے جن پر سورج نکلتا ہے۔ پھر آپ نے سورة إنا فتحنا لک فتحا مبينا‏ کی تلاوت فرمائی۔

【33】

سورت قل ھواللہ احد کی فضیلت کا بیان، اس میں عمرہ کی حدیث بواسطہ حضرت عائشہ (رض) نبی ﷺ سے منقول ہے

ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن ابی صعصعہ نے، انہیں ان کے والد عبداللہ نے اور انہیں ابو سعید خدری (رض) نے کہ ایک صحابی (خود ابو سعید خدری) نے ایک دوسرے صحابی (قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ) اپنے ماں جائے بھائی کو دیکھا کہ وہ رات کو سورة قل هو الله أحد‏ باربار پڑھ رہے ہیں۔ صبح ہوئی تو وہ صحابی (ابوسعید رضی اللہ عنہ) رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور نبی کریم ﷺ سے اس کا ذکر کیا گویا انہوں نے سمجھا کہ اس میں کوئی بڑا ثواب نہ ہوگا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! یہ سورت قرآن مجید کے ایک تہائی حصہ کے برابر ہے۔ اور ابومعمر (عبداللہ بن عمرو منقری) نے اتنا زیادہ کیا کہ ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا، ان سے امام مالک بن انس نے، ان سے عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن ابی صعصعہ نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابو سعید خدری (رض) نے کہ مجھے میرے بھائی قتادہ بن نعمان (رض) نے خبر دی کہ ایک صحابی نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں سحری کے وقت سے کھڑے قل هو الله أحد‏ پڑھتے رہے۔ ان کے سوا اور کچھ نہیں پڑھتے تھے۔ پھر جب صبح ہوئی تو دوسرے صحابی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے (باقی حصہ) پچھلی حدیث کی طرح بیان کیا۔

【34】

سورت قل ھواللہ احد کی فضیلت کا بیان، اس میں عمرہ کی حدیث بواسطہ حضرت عائشہ (رض) نبی ﷺ سے منقول ہے

ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم نخعی اور ضحاک مشرقی نے بیان کیا اور ان سے ابو سعید خدری (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے اپنے صحابہ سے فرمایا کہ کیا تم میں سے کسی کے لیے یہ ممکن نہیں کہ قرآن کا ایک تہائی حصہ ایک رات میں پڑھا کرے ؟ صحابہ کو یہ عمل بڑا مشکل معلوم ہوا اور انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! ہم میں سے کون اس کی طاقت رکھتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے اس پر فرمایا کہ الواحد الصمد (یعنی قل هو الله أحد‏ ) قرآن مجید کا ایک تہائی حصہ ہے۔ محمد بن یوسف فربری نے بیان کیا کہ میں نے ابوعبداللہ امام بخاری (رح) کے کاتب ابو جعفر محمد بن ابی حاتم سے سنا، وہ کہتے تھے کہ امام بخاری (رح) نے کہا ابراہیم نخعی کی روایت ابو سعید خدری (رض) سے منقطع ہے (ابراہیم نے ابوسعید سے نہیں سنا) لیکن ضحاک مشرقی کی روایت ابوسعید سے متصل ہے۔

【35】

معوذات کی فضیلت کا بیان

ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں عروہ بن زبیر نے اور انہیں عائشہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ جب بیمار پڑتے تو معوذات کی سورتیں پڑھ کر اسے اپنے اوپر دم کرتے (اس طرح کہ ہوا کے ساتھ کچھ تھوک بھی نکلتا) پھر جب (مرض الموت میں) آپ کی تکلیف بڑھ گئی تو میں ان سورتوں کو پڑھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں سے برکت کی امید میں آپ کے جسد مبارک پر پھیرتی تھی۔

【36】

معوذات کی فضیلت کا بیان

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے مفضل بن فضالہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عقیل بن خالد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے عروہ نے بیان کیا، اور ان سے ام المؤمنین عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ ہر رات جب بستر پر آرام فرماتے تو اپنی دونوں ہتھیلیوں کو ملا کر قل هو الله أحد ، قل أعوذ برب الفلق اور قل أعوذ برب الناس (تینوں سورتیں مکمل) پڑھ کر ان پر پھونکتے اور پھر دونوں ہتھیلیوں کو جہاں تک ممکن ہوتا اپنے جسم پر پھیرتے تھے۔ پہلے سر اور چہرہ پر ہاتھ پھیرتے اور سامنے کے بدن پر۔ یہ عمل آپ ﷺ تین دفعہ کرتے تھے۔

【37】

بوقت قرأت سکینہ اور فرشتوں کے نزول کا بیان

اور لیث بن سعد نے بیان کیا کہ مجھ سے یزید بن الہاد نے بیان کیا ‘ ان سے محمد بن ابراہیم نے کہ اسید بن حضیر (رض) نے بیان کیا کہ رات کے وقت وہ سورة البقرہ کی تلاوت کر رہے تھے اور ان کا گھوڑا ان کے پاس ہی بندھا ہوا تھا۔ اتنے میں گھوڑا بدکنے لگا تو انہوں نے تلاوت بند کردی تو گھوڑا بھی رک گیا۔ پھر انہوں نے تلاوت شروع کی تو گھوڑا پھر بدکنے لگا۔ اس مرتبہ بھی جب انہوں نے تلاوت بند کی تو گھوڑا بھی خاموش ہوگیا۔ تیسری مرتبہ انہوں نے تلاوت شروع کی تو پھر گھوڑا بد کا۔ ان کے بیٹے یحییٰ چونکہ گھوڑے کے قریب ہی تھے اس لیے اس ڈر سے کہ کہیں انہیں کوئی تکلیف نہ پہنچ جائے۔ انہوں نے تلاوت بند کردی اور بچے کو وہاں سے ہٹا دیا پھر اوپر نظر اٹھائی تو کچھ نہ دکھائی دیا۔ صبح کے وقت یہ واقعہ انہوں نے نبی کریم ﷺ سے بیان کیا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ابن حضیر ! تم پڑھتے رہتے تلاوت بند نہ کرتے (تو بہتر تھا) انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے ڈر لگا کہ کہیں گھوڑا میرے بچے یحییٰ کو نہ کچل ڈالے، وہ اس سے بہت قریب تھا۔ میں سر اوپر اٹھایا اور پھر یحییٰ کی طرف گیا۔ پھر میں نے آسمان کی طرف سر اٹھایا تو ایک چھتری سی نظر آئی جس میں روشن چراغ تھے۔ پھر جب میں دوبارہ باہر آیا تو میں نے اسے نہیں دیکھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں معلوم بھی ہے وہ کیا چیز تھی ؟ اسید نے عرض کیا کہ نہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ وہ فرشتے تھے تمہاری آواز سننے کے لیے قریب ہو رہے تھے اگر تم رات بھر پڑھتے رہتے تو صبح تک اور لوگ بھی انہیں دیکھتے وہ لوگوں سے چھپتے نہیں۔ اور ابن الہاد نے بیان کیا ‘ کہا مجھ سے یہ حدیث عبداللہ بن خباب نے بیان کی، ان سے ابو سعید خدری (رض) نے اور ان سے اسید بن حضیر (رض) نے۔

【38】

قرآن کی جلد کے درمیان جو کچھ ہے رسول اللہ کا اس کے علاوہ اور کچھ نہ چھوڑنے یعنی قرآن ترکہ رسالت مآب ہونے کا بیان

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ‘ ان سے عبدالعزیز بن رفیع نے بیان کیا کہ میں اور شداد بن معقل ابن عباس (رض) کے پاس گئے۔ شداد بن معقل نے ان سے پوچھا کیا نبی کریم ﷺ نے اس قرآن کے سوا کوئی اور بھی قرآن چھوڑا تھا۔ ابن عباس (رض) نے کہا نبی کریم ﷺ نے (وحی متلو) جو کچھ بھی چھوڑی ہے وہ سب کی سب ان دو گتوں کے درمیان صحیفہ میں محفوظ ہے عبدالعزیز بن رفیع کہتے ہیں کہ ہم محمد بن حنیفہ کی خدمت میں بھی حاضر ہوئے اور ان سے بھی پوچھا تو انہوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے جو بھی وحی متلو چھوڑی وہ سب دو دفتیوں کے درمیان (قرآن مجید کی شکل میں) محفوظ ہے۔

【39】

قرآن شریف کی سب کلاموں پر فضیلت کا بیان

ہم سے ابوخالد ہدبہ بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمام بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے قتادہ نے بیان کیا ان سے انس بن مالک نے بیان کیا اور ان سے ابوموسیٰ اشعری (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اس کی (مومن کی) مثال جو قرآن کی تلاوت کرتا ہے سنگترے کی سی ہے جس کا مزا بھی لذیذ ہوتا ہے اور جس کی خوشبو بھی بہترین ہوتی ہے اور جو مومن قرآن کی تلاوت نہیں کرتا اس کی مثال کھجور کی سی ہے اس کا مزہ تو عمدہ ہوتا ہے لیکن اس میں خوشبو نہیں ہوتی اور اس بدکار (منافق) کی مثال جو قرآن کی تلاوت کرتا ہے ریحانہ کی سی ہے کہ اس کی خوشبو تو اچھی ہوتی لیکن مزا کڑوا ہوتا ہے اور اس بدکار کی مثال جو قرآن کی تلاوت بھی نہیں کرتا اندرائن کی سی ہے جس کا مزا بھی کڑوا ہوتا ہے اور اس میں کوئی خوشبو بھی نہیں ہوتی۔

【40】

قرآن شریف کی سب کلاموں پر فضیلت کا بیان

ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن سعید انصاری نے بیان کیا، ان سے سفیان ثوری نے کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن دینار نے بیان کیا، کہا کہ میں نے عبداللہ بن عمر (رض) سے سنا، نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ مسلمانو ! گزری امتوں کی عمروں کے مقابلہ میں تمہاری عمر ایسی ہے جیسے عصر سے سورج ڈوبنے تک کا وقت ہوتا ہے اور تمہاری اور یہود و نصاریٰ کی مثال ایسی ہے کہ کسی شخص نے کچھ مزدور کام پر لگائے اور ان سے کہا کہ ایک قیراط مزدوری پر میرا کام صبح سے دوپہر تک کون کرے گا ؟ یہ کام یہودیوں نے کیا۔ پھر اس نے کہا کہ اب میرا کام آدھے دن سے عصر تک (ایک ہی قیراط مزدوری پر) کون کرے گا ؟ یہ کام نصاریٰ نے کیا۔ پھر تم نے عصر سے مغرب تک دو دو قیراط مزدوری پر کام کیا۔ یہود و نصاریٰ قیامت کے دن کہیں گے ہم نے کام زیادہ کیا لیکن مزدوری کم پائی ؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا تمہارا کچھ حق مارا گیا ؟ وہ کہیں گے کہ نہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ پھر یہ میرا فضل ہے، میں جسے چاہوں اور جتنا چاہوں عطا کروں۔

【41】

قرآن کی وصیت پر عمل کرنے کا بیان

ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا، کہا ہم سے مالک بن مغول نے، کہا ہم سے طلحہ بن مصرف نے بیان کیا، کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفی (رض) سے سوال کیا : کیا نبی کریم نے کوئی وصیت فرمائی تھی ؟ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ میں نے عرض کیا : پھر لوگوں پر وصیت کیسے فرض کی گئی کہ مسلمانوں کو تو وصیت کا حکم ہے اور خود نبی کریم ﷺ نے کوئی وصیت نہیں فرمائی۔ انہوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے کتاب اللہ کو مضبوطی سے تھامے رہنے کی وصیت فرمائی تھی۔

【42】

کسی شخص کا قرآن شریف سے بے پرواہ ہونے کا بیان اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ کیا انہیں کافی نہیں ہے کہ ہم نے تجھ پر کتاب اتاری، جو ان پر پڑھی جاتی ہے

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے لیث بن سعد نے، ان سے عقیل نے، ان سے شہاب نے بیان کیا، کہا کہ مجھ کو ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے خبر دی اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ نے کوئی چیز اتنی توجہ سے نہیں سنی جتنی توجہ سے اس نے نبی کریم ﷺ کا قرآن بہترین آواز کے ساتھ پڑھتے ہوئے سنا ہے۔ ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن کا ایک دوست عبدالحمید بن عبدالرحمٰن کہتا تھا کہ اس حدیث میں يتغنى بالقرآن سے یہ مراد ہے کہ اچھی آواز سے اسے پکار کر پڑھے۔

【43】

کسی شخص کا قرآن شریف سے بے پرواہ ہونے کا بیان اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ کیا انہیں کافی نہیں ہے کہ ہم نے تجھ پر کتاب اتاری، جو ان پر پڑھی جاتی ہے

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی چیز توجہ سے نہیں سنی جتنی توجہ سے اپنے نبی ( ﷺ ) کو بہترین آواز کے ساتھ قرآن مجید پڑھتے سنا ہے۔ سفیان بن عیینہ نے کہا يتغنى بالقرآن سے مراد ہے کہ قرآن پر قناعت کرے۔

【44】

قرآن پڑھنے والے پر رشک کا بیان

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی ان سے زہری نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے سالم بن عبداللہ نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا، رشک تو بس دو ہی آدمیوں پر ہوسکتا ہے ایک تو اس پر جسے اللہ نے قرآن مجید کا علم دیا اور وہ اس کے ساتھ رات کی گھڑیوں میں کھڑا ہو کر نماز پڑھتا رہا اور دوسرا آدمی وہ جسے اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور وہ اسے محتاجوں پر رات دن خیرات کرتا رہا۔

【45】

قرآن پڑھنے والے پر رشک کا بیان

ہم سے علی بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے روح بن عبادہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے سلیمان نے، انہوں نے کہا میں نے ذکوان سے سنا اور انہوں نے ابوہریرہ (رض) سے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ رشک تو بس دو ہی آدمیوں پر ہونا چاہیے ایک اس پر جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن کا علم دیا اور وہ رات دن اس کی تلاوت کرتا رہتا ہے کہ اس کا پڑوسی سن کر کہہ اٹھے کہ کاش مجھے بھی اس جیسا علم قرآن ہوتا اور میں بھی اس کی طرح عمل کرتا اور وہ دوسرا جسے اللہ نے مال دیا اور وہ اسے حق کے لیے لٹا رہا ہے (اس کو دیکھ کر) دوسرا شخص کہہ اٹھتا ہے کہ کاش میرے پاس بھی اس کے جتنا مال ہوتا اور میں بھی اس کی طرح خرچ کرتا۔

【46】

اس شخص کا سب سے بہتر ہونے کا بیان جو قرآن کریم سیکھے یا کسی کو سکھائے

ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ بن حجاج نے بیان کیا، کہا کہ مجھے علقمہ بن مرثد نے خبر دی، انہوں نے سعد بن عبیدہ سے سنا، انہوں نے ابوعبدالرحمٰن سلمی سے اور انہوں نے عثمان بن عفان (رض) سے، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو قرآن مجید پڑھے اور پڑھائے۔ سعد بن عبیدہ نے بیان کیا کہ ابوعبدالرحمٰن سلمی نے لوگوں کو عثمان (رض) کے زمانہ خلافت سے حجاج بن یوسف کے عراق کے گورنر ہونے تک قرآن مجید کی تعلیم دی۔ وہ کہا کرتے تھے کہ یہی حدیث ہے جس نے مجھے اس جگہ (قرآن مجید پڑھانے کے لیے) بٹھا رکھا ہے۔

【47】

اس شخص کا سب سے بہتر ہونے کا بیان جو قرآن کریم سیکھے یا کسی کو سکھائے

ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے علقمہ بن مرثد نے، ان سے ابو عبیدالرحمن سلمی نے، ان سے عثمان (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم سب میں بہتر وہ ہے جو قرآن مجید پڑھے اور پڑھائے۔

【48】

اس شخص کا سب سے بہتر ہونے کا بیان جو قرآن کریم سیکھے یا کسی کو سکھائے

ہم سے عمرو بن عون نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ابوحازم نے بیان کیا، ان سے سہل بن سعد (رض) نے بیان کیا کہ ایک خاتون نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا کہ انہوں نے اپنے آپ کو اللہ اور اس کے رسول (کی رضا) کے لیے ہبہ کردیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اب مجھے عورتوں سے نکاح کی کوئی حاجت نہیں ہے۔ ایک صاحب نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! ان کا نکاح مجھ سے کردیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پھر انہیں (مہر میں) ایک کپڑا لا کے دے دو ۔ انہوں نے عرض کیا کہ مجھے تو یہ بھی میسر نہیں ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا پھر انہیں کچھ تو دو ایک لوہے کی انگوٹھی ہی سہی۔ وہ اس پر بہت پریشان ہوئے (کیونکہ ان کے پاس یہ بھی نہ تھی) ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اچھا تم کو قرآن کتنا یاد ہے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ فلاں فلاں سورتیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پھر میں نے تمہارا ان سے قرآن کی ان سورتوں پر نکاح کیا جو تمہیں یاد ہیں۔

【49】

قرآن شریف بغیر دیکھے پڑھنے کی فضیلت کا بیان

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے یعقوب بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے ابوحازم نے، ان سے سہل بن سعد (رض) نے کہ ایک خاتون رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میں آپ کی خدمت میں اپنے آپ کو ہبہ کرنے کے لیے آئی ہوں۔ نبی کریم ﷺ نے ان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا اور پھر نظر نیچی کرلی اور سر جھکا لیا۔ جب اس خاتون نے دیکھا کہ ان کے بارے میں کوئی فیصلہ نبی کریم ﷺ نے نہیں فرمایا تو وہ بیٹھ گئی۔ پھر نبی کریم ﷺ کے صحابہ میں سے ایک صاحب اٹھے اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! اگر آپ کو ان کی ضرورت نہیں ہے تو میرے ساتھ ان کا نکاح کردیں۔ نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا تمہارے پاس کچھ (مہر کے لیے) بھی ہے۔ انہوں نے عرض کیا نہیں یا رسول اللہ، اللہ کی قسم ! تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اپنے گھر جاؤ اور دیکھو شاید کوئی چیز ملے، وہ صاحب گئے اور واپس آگئے اور عرض کیا نہیں، اللہ کی قسم ! یا رسول اللہ ! مجھے وہاں کوئی چیز نہیں ملی۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پھر دیکھ لو ایک لوہے کی انگوٹھی ہی سہی۔ وہ صاحب گئے اور پھر واپس آگئے اور عرض کیا نہیں اللہ کی قسم، یا رسول اللہ ! لوہے کی ایک انگوٹھی بھی مجھے نہیں ملی۔ البتہ یہ ایک تہبند میرے پاس ہے۔ سہل (رض) کہتے ہیں کہ ان کے پاس کوئی چادر بھی (اوڑھنے کے لیے) نہیں تھی۔ اس صحابی نے کہا کہ خاتون کو اس میں سے آدھا پھاڑ کر دے دیجئیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہارے اس تہبند کا وہ کیا کرے گی۔ اگر تم اسے پہنتے ہو تو اس کے قابل نہیں رہتا اور اگر وہ پہنتی ہے تو تمہارے قابل نہیں۔ پھر وہ صاحب بیٹھ گئے کافی دیر تک بیٹھے رہنے کے بعد اٹھے۔ نبی کریم ﷺ نے انہیں جاتے ہوئے دیکھا تو بلوایا۔ جب وہ حاضر ہوئے تو آپ نے دریافت فرمایا کہ تمہیں قرآن مجید کتنا یاد ہے ؟ انہوں نے بتلایا کہ فلاں، فلاں، فلاں سورتیں مجھے یاد ہیں۔ انہوں نے ان کے نام گنائے۔ نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا کہ کیا تم انہیں زبانی پڑھ لیتے ہو ؟ عرض کیا جی ہاں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جاؤ تمہیں قرآن مجید کی جو سورتیں یاد ہیں ان کے بدلے میں میں نے اسے تمہارے نکاح میں دے دیا۔

【50】

قرآن شریف پڑھنے اور اس کی ہمیشہ تلاوت کرنے کا بیان

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں نافع نے اور انہیں عبداللہ بن عمر (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ حافظ قرآن کی مثال رسی سے بندھے ہوئے اونٹ کے مالک جیسی ہے اور وہ اس کی نگرانی رکھے گا تو وہ اسے روک سکے گا ورنہ وہ رسی تڑوا کر بھاگ جائے گا۔

【51】

قرآن شریف پڑھنے اور اس کی ہمیشہ تلاوت کرنے کا بیان

ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن عبدالحمید نے، اور ان سے منصور بن معتمر نے پچھلی حدیث کی طرح۔ محمد بن عرعرہ کے ساتھ اس کو بشر بن عبداللہ نے بھی عبداللہ بن مبارک سے، انہوں نے شعبہ سے روایت کیا ہے اور محمد بن عرعرہ کے ساتھ اس کو ابن جریج نے بھی عبدہ سے، انہوں نے شقیق سے، انہوں نے عبداللہ بن مسعود سے ایسا ہی روایت کیا ہے۔

【52】

قرآن شریف پڑھنے اور اس کی ہمیشہ تلاوت کرنے کا بیان

ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے برید نے، ان سے ابوبردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا قرآن مجید کا پڑھتے رہنا لازم پکڑ لو اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے وہ اونٹ کے اپنی رسی تڑوا کر بھاگ جانے سے زیادہ تیزی سے بھاگتا ہے۔

【53】

سواری پر قرآن شریف پڑھنے کا بیان

ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھے ابوایاس نے خبر دی، کہا کہ میں نے عبداللہ بن مغفل (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فتح مکہ کے دن دیکھا کہ آپ سواری پر سورة الفتح کی تلاوت فرما رہے تھے۔

【54】

بچوں کو قرآن شریف پڑھانے کا بیان

مجھ سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے ابوبشر نے، ان سے سعید بن جبیر نے بیان کیا کہ جن سورتوں کو تم مفصل کہتے ہو وہ سب محکم ہیں۔ انہوں نے بیان کیا کہ ابن عباس (رض) نے کہا جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی تو میری عمر دس سال کی تھی اور میں نے محکم سورتیں سب پڑھ لی تھیں۔

【55】

بچوں کو قرآن شریف پڑھانے کا بیان

ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشیم نے بیان کیا، کہا ہم کو ابوبشر نے خبر دی، انہیں سعید بن جبیر نے اور انہیں ابن عباس (رض) نے کہ میں نے محکم سورتیں رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں سب یاد کرلی تھیں، میں نے پوچھا کہ محکم سورتیں کون سی ہیں ؟ کہا کہ مفصل۔

【56】

قرآن شریف بھول جانا اور یہ کہنا کہ میں فلاں فلاں آیت بھول گیا (جائز نہیں) کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے جلد ہی ہم تجھے پڑھائیں گے پھر تو ہرگز نہ بھولے گا مگر جو اللہ چاہے گا

ہم سے محمد بن عبید بن میمون نے بیان کیا، کہا ہم سے عیسیٰ بن یونس نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے (اضافہ کے ساتھ بیان کیا کہ) میں نے فلاں سورت کی فلاں فلاں آیتیں بھلا دی تھیں۔ محمد بن عبید کے ساتھ اس کو علی بن مسہر اور عبدہ نے بھی ہشام سے روایت کیا ہے۔

【57】

قرآن شریف بھول جانا اور یہ کہنا کہ میں فلاں فلاں آیت بھول گیا (جائز نہیں) کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے جلد ہی ہم تجھے پڑھائیں گے پھر تو ہرگز نہ بھولے گا مگر جو اللہ چاہے گا

ہم سے احمد بن ابی رجاء نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد (عروہ بن زبیر) نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک صاحب کو رات کے وقت ایک سورت پڑھتے ہوئے سنا تو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم کرے، اس نے مجھے فلاں آیتیں یاد دلا دیں جو مجھے فلاں فلاں سورتوں میں سے بھلا دی گئی تھیں۔

【58】

قرآن شریف بھول جانا اور یہ کہنا کہ میں فلاں فلاں آیت بھول گیا (جائز نہیں) کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے جلد ہی ہم تجھے پڑھائیں گے پھر تو ہرگز نہ بھولے گا مگر جو اللہ چاہے گا

ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے ابو وائل نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ کسی کے لیے یہ مناسب نہیں کہ یہ کہے کہ میں فلاں فلاں آیتیں بھول گیا بلکہ اسے (یوں کہنا چاہیے) کہ میں فلاں فلاں آیتوں کو بھلا دیا گیا۔

【59】

سورۃ بقرہ یا فلاں فلاں سورت کہنے میں کوئی حرج نہ ہونے کا بیان

ہم سے عمر بن حفص نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابراہیم نے بیان کیا، ان سے علقمہ اور عبدالرحمٰن بن یزید نے اور ان سے ابومسعود انصاری (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ سورة البقرہ کے آخر کی دو آیتوں کو جو شخص رات میں پڑھ لے گا وہ اس کے لیے کافی ہوں گی۔

【60】

سورۃ بقرہ یا فلاں فلاں سورت کہنے میں کوئی حرج نہ ہونے کا بیان

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، کہا کہ مجھ کو عروہ بن زبیر نے مسعود بن مخرمہ اور عبدالرحمٰن بن عبدالقاری سے خبر دی کہ ان دونوں نے عمر بن خطاب (رض) سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے ہشام بن حکیم بن حزام (رض) کو رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں سورة الفرقان پڑھتے سنا۔ میں ان کی قرآت کو غور سے سننے لگا تو معلوم ہوا کہ وہ ایسے بہت سے طریقوں میں تلاوت کر رہے تھے جنہیں رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نہیں سکھایا تھا۔ ممکن تھا کہ میں نماز ہی میں ان کا سر پکڑ لیتا لیکن میں نے انتظار کیا اور جب انہوں نے سلام پھیرا تو میں نے ان کے گلے میں چادر لپیٹ دی اور پوچھا یہ سورتیں جنہیں ابھی ابھی تمہیں پڑھتے ہوئے میں نے سنا ہے تمہیں کس نے سکھائی ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ مجھے اس طرح ان سورتوں کو رسول اللہ ﷺ نے سکھایا ہے۔ میں نے کہا کہ تم جھوٹ بول رہے ہو۔ خود نبی کریم ﷺ نے مجھے بھی یہ سورتیں پڑھائی ہیں جو میں نے تم سے سنیں۔ میں انہیں کھینچتے ہوئے آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! میں نے خود سنا کہ یہ شخص سورة الفرقان ایسی قرآت سے پڑھ رہا تھا۔ جس کی تعلیم آپ نے ہمیں نہیں دی ہے آپ مجھے بھی سورة الفرقان پڑھا چکے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہشام ! پڑھ کر سناؤ۔ انہوں نے اسی طرح اس کی قرآت کی جس طرح میں ان سے سن چکا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اسی طرح یہ سورت نازل ہوئی ہے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ عمر ! اب تم پڑھو۔ میں نے بھی اسی طرح قرآت کی جس طرح نبی کریم ﷺ نے مجھے سکھایا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسی طرح یہ سورت نازل ہوئی تھی۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ قرآن مجید سات قسم کی ق راتوں پر نازل ہوا ہے بس تمہارے لیے جو آسان ہو اس کے مطابق پڑھو۔

【61】

سورۃ بقرہ یا فلاں فلاں سورت کہنے میں کوئی حرج نہ ہونے کا بیان

ہم سے بشر بن آدم نے بیان کیا، کہا ہم کو علی بن مسہر نے خبر دی، کہا ہم کو ہشام بن عروہ نے خبر دی، انہیں ان کے والد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک قاری کو رات کے وقت مسجد میں قرآن مجید پڑھتے ہوئے سنا تو فرمایا کہ اللہ اس آدمی پر رحم کرے اس نے مجھے فلاں فلاں آیتیں یاد دلا دیں جنہیں میں نے فلاں فلاں سورتوں میں سے چھوڑ رکھا تھا۔

【62】

قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے کا بیان اور اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ قرآن کریم ٹھہر ٹھہر کر پڑھو اور (اور دوسرا) قول وقرآنا فرقناہ لتقرائہ علی الناس علی مکث ترتیل سے پڑھنے کی دلیل ہے، شعروں کی طرح جلد جلد نہ پڑھا جائے، امام بخاری لفظ یفرق کی تفسیر تفصیل سے کی ہے، اور ابن عباس نے فرقناہ کی تفسیر فصلناہ سے کی ہے

ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے مہدی بن میمون نے، کہا ہم سے واصل احدب نے، ان سے ابو وائل نے عبداللہ بن مسعود (رض) سے بیان کیا کہ ہم ان کی خدمت میں صبح سویرے حاضر ہوئے۔ حاضرین میں سے ایک صاحب نے کہا کہ رات میں نے (تمام) مفصل سورتیں پڑھ ڈالیں۔ اس پر عبداللہ بن مسعود (رض) بولے جیسے اشعار جلدی جلدی پڑھتے ہیں تم نے ویسے ہی پڑھ لی ہوگی۔ ہم سے قرآت سنی ہے اور مجھے وہ جوڑ والی سورتیں بھی یاد ہیں جن کو ملا کر نمازوں میں نبی کریم ﷺ پڑھا کرتے تھے۔ یہ اٹھارہ سورتیں مفصل کی ہیں اور وہ دو سورتیں جن کے شروع میں حم‏.‏ ہے۔

【63】

قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے کا بیان اور اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ قرآن کریم ٹھہر ٹھہر کر پڑھو اور (اور دوسرا) قول وقرآنا فرقناہ لتقرائہ علی الناس علی مکث ترتیل سے پڑھنے کی دلیل ہے، شعروں کی طرح جلد جلد نہ پڑھا جائے، امام بخاری لفظ یفرق کی تفسیر تفصیل سے کی ہے، اور ابن عباس نے فرقناہ کی تفسیر فصلناہ سے کی ہے

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے موسیٰ بن ابی عائشہ نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے اللہ تعالیٰ کے فرمان لا تحرک به لسانک لتعجل به‏ آپ قرآن کو جلدی جلدی لینے کے لیے اس پر زبان کو نہ ہلایا کریں۔ بیان کیا کہ جب جبرائیل (علیہ السلام) وحی لے کر نازل ہوتے تو رسول اللہ ﷺ اپنی زبان اور ہونٹ ہلایا کرتے تھے۔ اس کی وجہ سے آپ کے لیے وحی یاد کرنے میں بہت بار پڑتا تھا اور یہ آپ کے چہرے سے بھی ظاہر ہوجاتا تھا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت جو سورة لا أقسم بيوم القيامة‏ میں ہے، نازل کی کہ آپ قرآن کو جلدی جلدی لینے کے لیے اس پر زبان کو نہ ہلایا کریں یہ تو ہمارے ذمہ ہے اس کا جمع کرنا اور اس کا پڑھوانا تو جب ہم اسے پڑھنے لگیں تو آپ اس کے پیچھے پیچھے پڑھا کریں پھر آپ کی زبان سے اس کی تفسیر بیان کرا دینا بھی ہمارے ذمہ ہے۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر جب جبرائیل (علیہ السلام) آتے تو آپ سر جھکا لیتے اور جب واپس جاتے تو پڑھتے جیسا کہ اللہ نے آپ سے یاد کروانے کا وعدہ کیا تھا کہ تیرے دل میں جما دینا اس کو پڑھا دینا ہمارا کام ہے پھر آپ اس کے موافق پڑھتے۔

【64】

الفاظ کھینچ کر تلاوت کرنے کا بیان

ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن حازم ازدی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے قتادہ نے بیان کہ میں نے انس بن مالک (رض) سے نبی کریم ﷺ کی تلاوت قرآن مجید کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے بتلایا کہ نبی کریم ﷺ ان الفاظ کو کھینچ کر پڑھتے تھے جن میں مد ہوتا تھا۔

【65】

الفاظ کھینچ کر تلاوت کرنے کا بیان

ہم سے عمرو بن عاصم نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمام نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے کہ انس (رض) سے پوچھا گیا کہ رسول اللہ ﷺ کی قرآت کیسی تھی ؟ انہوں نے بیان کیا کہ مد کے ساتھ۔ پھر آپ نے بسم الله الرحمن الرحيم پڑھا اور کہا کہ بسم الله (میں اللہ کی لام) کو مد کے ساتھ پڑھتے الرحمن (میں میم) کو مد کے ساتھ پڑھتے اور الرحيم‏. (میں حاء کو) مد کے ساتھ پڑھتے۔

【66】

آواز کو گھما کر قرآن مجید کی تلاوت کرنے کا بیان

ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوایاس نے بیان کیا، کہا کہ میں نے عبداللہ بن مغفل (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ اپنی اونٹنی یا اونٹ پر سوار ہو کر تلاوت کر رہے تھے سواری چل رہی تھی اور آپ ﷺ سورة الفتح پڑھ رہے تھے یا (راوی نے یہ بیان کیا کہ) سورة الفتح میں سے پڑھ رہے تھے نرمی اور آہستگی کے ساتھ قرآت کر رہے تھے اور آواز کو حلق میں دہراتے تھے۔

【67】

خوش الحانی سے قرآن شریف پڑھنے کا بیان

ہم سے محمد بن خلف ابوبکر عسقلانی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابویحییٰ حمانی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے برید بن عبداللہ بن ابی بردہ نے بیان کیا، ان سے ان کے دادا ابوبردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے ابوموسیٰ ! تجھے داؤد (علیہ السلام) جیسی بہترین آواز عطا کی گئی ہے۔

【68】

دوسرے شخص سے قرآن شریف پڑھوا کر سننے کا بیان

ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد نے، ان سے اعمش نے بیان کیا، ان سے ابراہیم نے بیان کیا، ان سے عبیدہ نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے قرآن مجید پڑھ کر سناؤ۔ میں نے عرض کیا میں آپ کو قرآن سناؤں آپ پر تو قرآن نازل ہوتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں قرآن مجید دوسرے سے سننا محبوب رکھتا ہوں۔

【69】

قرآن کریم پڑھوا کر سننے والے کو بس بس کہنے کا بیان

ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابراہیم نے، ان سے عبیدہ نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ مجھ سے نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ مجھے قرآن پڑھ کر سناؤ۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! میں آپ کو پڑھ کر سناؤں، آپ پر تو قرآن مجید نازل ہوتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہاں سناؤ۔ چناچہ میں نے سورة نساء پڑھی جب میں آیت فكيف إذا جئنا من کل أمة بشهيد وجئنا بک على هؤلاء شهيدا‏ پر پہنچا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اب بس کرو۔ میں نے آپ کی طرف دیکھا تو نبی کریم ﷺ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔

【70】

کتنے دنوں میں قرآن کریم ختم کیا جائے، اس کا بیان اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ جو انسان آسانی سے پڑھ سکے وہ پڑھے

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا کہا، ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابن شبرمہ نے بیان کیا (جو کوفہ کے قاضی تھے) کہ میں نے غور کیا کہ نماز میں کتنا قرآن پڑھنا کافی ہوسکتا ہے۔ پھر میں نے دیکھا کہ ایک سورت میں تین آیتوں سے کم نہیں ہے۔ اس لیے میں نے یہ رائے قائم کی کہ کسی کے لیے تین آیتوں سے کم پڑھنا مناسب نہیں۔ علی المدینی نے بیان کیا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، کہا ہم کو منصور نے خبر دی، انہیں ابراہیم نے، انہیں عبدالرحمٰن بن یزید نے، انہیں علقمہ نے خبر دی اور انہیں ابومسعود (رض) نے (علقمہ نے بیان کیا کہ) میں نے ان سے ملاقات کی تو وہ بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ انہوں نے نبی کریم ﷺ کا ذکر کیا (کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا) کہ جس نے سورة البقرہ کے آخری کی دو آیتیں رات میں پڑھ لیں وہ اس کے لیے کافی ہیں۔

【71】

کتنے دنوں میں قرآن کریم ختم کیا جائے، اس کا بیان اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ جو انسان آسانی سے پڑھ سکے وہ پڑھے

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے، ان سے مغیرہ بن مقسم نے، ان سے مجاہد بن جبیر نے اور ان سے عبداللہ بن عمرو (رض) نے بیان کیا کہ میرے والد عمرو بن العاص (رض) نے میرا نکاح ایک شریف خاندان کی عورت (ام محمد بنت محمیہ) سے کردیا تھا اور ہمیشہ اس کی خبرگیری کرتے رہتے تھے اور ان سے باربار اس کے شوہر (یعنی خود ان) کے متعلق پوچھتے رہتے تھے۔ میری بیوی کہتی کہ بہت اچھا مرد ہے۔ البتہ جب سے میں ان کے نکاح میں آئی ہوں انہوں نے اب تک ہمارے بستر پر قدم بھی نہیں رکھا نہ میرے کپڑے میں کبھی ہاتھ ڈالا۔ جب بہت دن اسی طرح ہوگئے تو والد صاحب نے مجبور ہو کر اس کا تذکرہ نبی کریم ﷺ سے کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھ سے اس کی ملاقات کراؤ۔ چناچہ میں اس کے بعد نبی کریم ﷺ سے ملا۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ روزہ کس طرح رکھتے ہو۔ میں نے عرض کیا کہ روزانہ پھر دریافت فرمایا قرآن مجید کس طرح ختم کرتے ہو ؟ میں نے عرض کیا ہر رات۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہر مہینے میں تین دن روزے رکھو اور قرآن ایک مہینے میں ختم کرو۔ بیان کیا کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! مجھے اس سے زیادہ کی طاقت ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر بلا روزے کے رہو اور ایک دن روزے سے۔ میں نے عرض کیا مجھے اس سے بھی زیادہ کی طاقت ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پھر وہ روزہ رکھو جو سب سے افضل ہے، یعنی داؤد (علیہ السلام) کا روزہ، ایک دن روزہ رکھو اور ایک دن افطار کرو اور قرآن مجید سات دن میں ختم کرو۔ عبداللہ بن عمرو (رض) کہا کرتے تھے کاش میں نے نبی کریم ﷺ کی رخصت قبول کرلی ہوتی کیونکہ اب میں بوڑھا اور کمزور ہوگیا ہوں۔ حجاج نے کہا کہ آپ اپنے گھر کے کسی آدمی کو قرآن مجید کا ساتواں حصہ یعنی ایک منزل دن میں سنا دیتے تھے۔ جتنا قرآن مجید آپ رات کے وقت پڑھتے اسے پہلے دن میں سنا رکھتے تاکہ رات کے وقت آسانی سے پڑھ سکیں اور جب (قوت ختم ہوجاتی اور نڈھال ہوجاتے اور) قوت حاصل کرنا چاہتے تو کئی کئی دن روزہ نہ رکھتے کیونکہ آپ کو یہ پسند نہیں تھا کہ جس چیز کا رسول اللہ ﷺ کے آگے وعدہ کرلیا ہے (ایک دن روزہ رکھنا ایک دن افطار کرنا) اس میں سے کچھ بھی چھوڑیں۔ امام بخاری (رح) کہتے ہیں کہ بعض راویوں نے تین دن میں اور بعض نے پانچ دن میں۔ لیکن اکثر نے سات راتوں میں ختم کی حدیث روایت کی ہے۔

【72】

کتنے دنوں میں قرآن کریم ختم کیا جائے، اس کا بیان اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ جو انسان آسانی سے پڑھ سکے وہ پڑھے

ہم سے سعد بن حفص نے بیان کیا، کہا ہم سے شیبان نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے، ان سے محمد بن عبدالرحمٰن نے، ان سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف نے اور ان سے عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) نے بیان کیا کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ قرآن مجید تم کتنے دن میں ختم کرلیتے ہو ؟

【73】

کتنے دنوں میں قرآن کریم ختم کیا جائے، اس کا بیان اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ جو انسان آسانی سے پڑھ سکے وہ پڑھے

مجھ سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم کو عبیداللہ بن موسیٰ نے خبر دی، انہیں شیبان نے، انہیں یحییٰ بن ابی کثیر نے، انہیں بنی زہرہ کے مولیٰ محمد بن عبدالرحمٰن نے، انہیں ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے، یحییٰ نے کہا اور میں خیال کرتا ہوں شاید میں نے یہ حدیث خود ابوسلمہ سے سنی ہے۔ بلاواسطہ (محمد بن عبدالرحمٰن کے) خیر ابوسلمہ نے عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) سے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ ہر مہینے میں قرآن کا ایک ختم کیا کرو میں نے عرض کیا مجھ کو تو زیادہ پڑھنے کی طاقت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا سات راتوں میں ختم کیا کرو اس سے زیادہ مت پڑھ۔

【74】

قرآن شریف پڑھتے وقت رونے کا بیان

ہم سے صدقہ بن فضل نے بیان کیا، کہا ہم کو یحییٰ بن سعید نے خبر دی، انہیں سفیان ثوری نے، انہیں سلیمان نے، انہیں ابراہیم نخعی نے، انہیں عبیدہ سلمانی نے اور انہیں عبداللہ بن مسعود (رض) نے، یحییٰ بن قطان نے کہا اس حدیث کا کچھ ٹکڑا اعمش نے ابراہیم سے سنا ہے کہ مجھ سے نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ دوسری سند ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ قطان نے، ان سے سفیان ثوری نے، ان سے اعمش نے، ان سے ابراہیم نے، ان سے عبیدہ سلمانی نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے، اعمش نے بیان کیا کہ میں نے اس حدیث کا ایک ٹکڑا تو خود ابراہیم سے سنا اور ایک ٹکڑا اس حدیث کا مجھ سے عمرو بن مرہ نے نقل کیا، ان سے ابراہیم نے، ان سے ان کے والد نے، ان سے ابوالضحیٰ نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میرے سامنے قرآن مجید کی تلاوت کرو۔ میں نے عرض کیا نبی کریم ﷺ کے سامنے میں کیا تلاوت کروں آپ پر تو قرآن مجید نازل ہی ہوتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں چاہتا ہوں کہ کسی اور سے سنوں۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر میں نے سورة نساء پڑھی اور جب میں آیت فكيف إذا جئنا من کل أمة بشهيد وجئنا بک على هؤلاء شهيدا‏ پر پہنچا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ٹھہر جاؤ (نبی کریم ﷺ نے) كف فرمایا یا أمسك راوی کو شک ہے۔ میں نے دیکھا کہ نبی کریم ﷺ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔

【75】

قرآن شریف پڑھتے وقت رونے کا بیان

ہم سے قیس بن حفص نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالواحد نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے ابراہیم نے بیان کیا، ان سے عبیدہ سلمانی نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے قرآن مجید پڑھ کر سناؤ۔ میں نے عرض کیا : کیا میں سناؤں ؟ آپ پر تو قرآن مجید نازل ہوتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں کسی سے سننا محبوب رکھتا ہوں۔

【76】

لوگوں کو دکھانے، دنیا کمانے یا فخر کے طور پر قرآن پڑھنے کا بیان

ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے خیثمہ بن عبدالرحمٰن کوفی نے، ان سے سوید بن غفلہ نے اور ان سے علی (رض) نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا، نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ آخری زمانہ میں ایک قوم پیدا ہوگی نوجوانوں اور کم عقلوں کی۔ یہ لوگ ایسا بہترین کلام پڑھیں گے جو بہترین خلق کا (پیغمبر کا) ہے یا ایسا کلام پڑھیں گے جو سارے خلق کے کلاموں سے افضل ہے۔ (یعنی حدیث یا آیت پڑھیں گے اس سے سند لائیں گے) لیکن اسلام سے وہ اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار کو پار کر کے نکل جاتا ہے ان کا ایمان ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا تم انہیں جہاں بھی پاؤ قتل کر دو ۔ کیونکہ ان کا قتل قیامت میں اس شخص کے لیے باعث اجر ہوگا جو انہیں قتل کر دے گا۔

【77】

لوگوں کو دکھانے، دنیا کمانے یا فخر کے طور پر قرآن پڑھنے کا بیان

ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں یحییٰ بن سعید انصاری نے، انہیں محمد بن ابراہیم بن حارث تیمی نے، انہیں ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے اور ان سے ابو سعید خدری (رض) نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم میں ایک قوم ایسی پیدا ہوگی کہ تم اپنی نماز کو ان کی نماز کے مقابلہ میں حقیر سمجھو گے، ان کے روزوں کے مقابلہ میں تمہیں اپنے روزے اور ان کے عمل کے مقابلہ میں تمہیں اپنا عمل حقیر نظر آئے گا اور وہ قرآن مجید کی تلاوت بھی کریں گے لیکن قرآن مجید ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ دین سے وہ اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار کو پار کرتے ہوئے نکل جاتا ہے اور وہ بھی اتنی صفائی کے ساتھ (کہ تیر چلانے والا) تیر کے پھل میں دیکھتا ہے تو اس میں بھی (شکار کے خون وغیرہ کا) کوئی اثر نظر نہیں آتا۔ اس سے اوپر دیکھتا ہے وہاں بھی کچھ نظر نہیں آتا۔ تیر کے پر کو دیکھتا ہے اور وہاں بھی کچھ نظر نہیں آتا۔ بس سوفار میں کچھ شبہ گزرتا ہے۔

【78】

لوگوں کو دکھانے، دنیا کمانے یا فخر کے طور پر قرآن پڑھنے کا بیان

ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے، ان سے انس بن مالک نے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اس مومن کی مثال جو قرآن مجید پڑھتا ہے اور اس پر عمل بھی کرتا ہے میٹھے لیموں کی سی ہے جس کا مزا بھی لذت دار اور خوشبو بھی اچھی اور وہ مومن جو قرآن پڑھتا تو نہیں لیکن اس پر عمل کرتا ہے اس کی مثال کھجور کی ہے جس کا مزہ تو عمدہ ہے لیکن خوشبو کے بغیر اور اس منافق کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے ریحان کی سی ہے جس کی خوشبو تو اچھی ہوتی ہے لیکن مزا کڑوا ہوتا ہے اور اس منافق کی مثال جو قرآن بھی نہیں پڑھتا اندرائن کے پھل کی سی ہے جس کا مزہ بھی کڑوا ہوتا ہے (راوی کو شک ہے) کہ لفظ مر ہے یا خبيث اور اس کی بو بھی خراب ہوتی ہے۔

【79】

دل لگنے تک قرآن شریف پڑھنے کا بیان

ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد نے بیان کیا، ان سے ابوعمران جونی نے اور ان سے جندب بن عبداللہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ قرآن مجید اس وقت تک پڑھو جب تک اس میں دل لگے، جب جی اچاٹ ہونے لگے تو پڑھنا بند کر دو ۔

【80】

دل لگنے تک قرآن شریف پڑھنے کا بیان

ہم سے عمرو بن علی فلاس نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرحمٰن بن مہدی نے بیان کیا، ان سے سلام بن ابی مطیع نے بیان کیا، ان سے ابوعمران جونی نے اور ان سے جندب بن عبداللہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اس قرآن کو جب ہی تک پڑھو جب تک تمہارے دل ملے جلے یا لگے رہیں۔ جب اختلاف اور جھگڑا کرنے لگو تو اٹھ کھڑے ہو۔ (قرآن مجید پڑھنا موقوف کر دو ) سلام کے ساتھ اس حدیث کو حارث بن عبید اور سعید بن زید نے بھی ابوعمران جونی سے روایت کیا اور حماد بن سلمہ اور ابان نے اس کو مرفوع نہیں بلکہ موقوفاً روایت کیا ہے اور غندر محمد بن جعفر نے بھی شعبہ سے، انہوں نے ابوعمران سے یوں روایت کیا کہ میں نے جندب سے سنا، وہ کہتے تھے۔ (لیکن موقوفاً روایت کیا) اور عبداللہ بن عون نے اس کو ابوعمران سے، انہوں نے عبداللہ بن صامت سے، انہوں نے عمر (رض) سے ان کا قول روایت کیا (مرفوعاً نہیں کیا) اور جندب کی روایت زیادہ صحیح ہے۔

【81】

دل لگنے تک قرآن شریف پڑھنے کا بیان

ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے، ان سے عبدالملک بن میسرہ نے، ان سے نزال بن سبرہ نے کہ عبداللہ بن مسعود (رض) نے ایک صاحب (ابی بن کعب رضی اللہ عنہ) کو ایک آیت پڑھتے سنا، وہی آیت انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے خلاف سنی تھی۔ (ابن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ) پھر میں نے ان کا ہاتھ پکڑا اور انہیں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں لایا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تم دونوں صحیح ہو (اس لیے اپنے اپنے طور پر پڑھو۔ ) (شعبہ کہتے ہیں کہ) میرا غالب گمان یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ (اختلاف و نزاع نہ کیا کرو) کیونکہ تم سے پہلے کی امتوں نے اختلاف کیا اور اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انہیں ہلاک کردیا۔