56. ذبیحوں اور شکار کا بیان

【1】

شکار پر بسم اللہ پڑھنے کا بیان اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ تم پر مردار حرام کیا گیا فلاتخشوھم واخشون تک اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ اے ایمان والو ! اللہ تعالیٰ تمہیں شکار کے ذریعہ آزمائے گا، جہاں تک تمہارے ہاتھ اور تمہارے نیزے پہنچ سکیں گے تا آخر آیت اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ احلت لکم بھیمہ الانعام الاما یتلی علیکم آخر آیت فلاتخشوھم واخشون تک اور ابن عباس (رض) نے کہا کہ العقود سے مراد وہ عہد ہیں جو حلال وحرام سے متعلق کیے جائیں اور الامایتلی علیکم سے مراد سور ہے اور یجرمنکم کے معنی یحملنکم (تمہیں ابھارے) کے ہیں اور شنآن سے مراد دشمنی ہے اور منخنقہ سے مراد وہ جانور ہے جس کا گلا گھونٹ کر مارا جائے، موقوذہ سے مراد وہ ہے جس کو لاٹھی سے مارا جائے (چنانچہ عرب بولتے ہیں) یوقذھا فتموت اور متردیہ پہاڑ سے گر کر مر جانے والے کو اور نطیحہ وہ ہے جس کو بکری اپنے سینگوں سے مارے، اگر تو اس کو دم ہلاتا ہوا یا آنکھ پھڑکاتا ہوا پائے تو اسے ذبح کرکے کھالے

ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، کہا ہم سے زکریا بن ابی زائدہ نے بیان کیا، ان سے عامر شعبی نے، ان سے عدی بن حاتم (رض) نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے بےپر کے تیر یا لکڑی یا گز سے شکار کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ اگر اس کی نوک شکار کو لگ جائے تو کھالو لیکن اگر اس کی عرض کی طرف سے شکار کو لگے تو وہ نہ کھاؤ کیونکہ وہ موقوذة‏ ہے اور میں نے آپ سے کتے کے شکار کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ جسے وہ تمہارے لیے رکھے (یعنی وہ خود نہ کھائے) اسے کھالو کیونکہ کتے کا شکار کو پکڑ لینا یہ بھی ذبح کرنا ہے اور اگر تم اپنے کتے یا کتوں کے ساتھ کوئی دوسرا کتا بھی پاؤ اور تمہیں اندیشہ ہو کہ تمہارے کتے نے شکار اس دوسرے کے ساتھ پکڑا ہوگا اور کتا شکار کو مار چکا ہو تو ایسا شکار نہ کھاؤ کیونکہ تم نے اللہ کا نام (بسم اللہ پڑھ کر) اپنے کتے پر لیا تھا دوسرے کتے پر نہیں لیا تھا۔

【2】

معراض کے شکار کا بیان اور ابن عمر (رض) نے غلیل سے مارے ہوئے شکار کے متعلق فرمایا کہ وہ موقوذہ کے حکم میں ہے اور سالم، قاسم، مجاہد، ابراہیم عطاء اور حسن نے اس کو مکروہ سمجھا ہے اور حسن نے بستیوں اور شہروں میں غلیل چلانے کو مکروہ سمجھا اور اس کے سوا دوسری جگہوں میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھا

ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن ابی السفر نے، ان سے شعبی نے کہا کہ میں نے عدی بن حاتم (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے بےپر کے تیر یا لکڑی گز سے شکار کے بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب تم اس کی نوک سے شکار کو مار لو تو اسے کھاؤ لیکن اگر اس کی عرض کی طرف سے شکار کو لگے اور اس سے وہ مرجائے تو وہ موقوذة‏ (مردار) ہے اسے نہ کھاؤ۔ میں نے سوال کیا کہ میں اپنا کتا بھی (شکار کے لیے) دوڑاتا ہوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب تم اپنے کتے پر بسم اللہ پڑھ کر شکار کے پیچھے دوڑاؤ تو وہ شکار کھا سکتے ہو۔ میں نے پوچھا اور اگر وہ کتا شکار میں سے کھالے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر نہ کھاؤ کیونکہ وہ شکار اس نے تمہارے لیے نہیں پکڑا تھا، صرف اپنے لیے پکڑا تھا۔ میں نے پوچھا میں بعض وقت اپنا کتا چھوڑتا ہوں اور بعد میں اس کے ساتھ دوسرا کتا بھی پاتا ہوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر (اس کا شکار) نہ کھاؤ کیونکہ تم نے بسم اللہ صرف اپنے کتے پر پڑھی ہے، دوسرے پر نہیں پڑھی ہے۔

【3】

اس شکار کا بیان جس کو تیر کا دوسرا سرا لگ جائے اور مرجائے۔

ہم سے قبیصہ بن عقبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے منصور بن معتمر نے، ان سے ابراہیم نخعی نے، ان سے ہمام بن حارث نے اور ان سے عدی بن حاتم (رض) نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! ہم سکھائے ہوئے کتے (شکار پر) چھوڑتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو شکار وہ صرف تمہارے لیے رکھے اسے کھاؤ۔ میں نے عرض کیا اگرچہ کتے شکار کو مار ڈالیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ (ہاں) اگرچہ مار ڈالیں ! میں نے عرض کیا کہ ہم بےپر کے تیر یا لکڑی سے شکار کرتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر ان کی دھار اس کو زخمی کر کے پھاڑ ڈالے تو کھاؤ لیکن اگر ان کے عرض سے شکار مارا جائے تو اسے نہ کھاؤ (وہ مردار ہے) ۔

【4】

کمان سے شکار کرنے کا بیان اور حسن اور ابراہیم نے کہا اگر تم کسی شکار کو مارو اور اس کا ہاتھ یا پاؤں ٹوٹ کر جدا ہوجائے تو جو حصہ جدا ہوگیا، اس کو نہ کھاؤ اور باقی حصہ کو کھاؤ اور ابراہیم نے کہا کہ اگر اس کی گردن یا کمر میں مارا (اور مر گیا) تو اس کو کھالو اور اعمش نے زید سے نقل کیا کہ آل عبداللہ میں سے ایک شخص نیل گائے کا شکار نہ کرسکا تو عبداللہ نے حکم دیا کہ جہاں موقعہ ہو ماریں اور جو حصہ اس کا گر جائے، اس کو چھوڑ دو اور باقی کو کھاؤ

ہم سے عبداللہ بن یزید مقبری نے بیان کیا، کہا ہم سے حیوہ بن شریح نے بیان کیا، کہا کہ مجھے ربیعہ بن یزید دمشقی نے خبر دی، انہیں ابوادریس عائذ اللہ خولانی نے، انہیں ابوثعلبہ خشنی (رض) نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا : اے اللہ کے نبی ! ہم اہل کتاب کے گاؤں میں رہتے ہیں تو کیا ہم ان کے برتن میں کھا سکتے ہیں ؟ اور ہم ایسی زمین میں رہتے ہیں جہاں شکار بہت ہوتا ہے۔ میں تیر کمان سے بھی شکار کرتا ہوں اور اپنے اس کتے سے بھی جو سکھایا ہوا نہیں ہے اور اس کتے سے بھی جو سکھایا ہوا ہے تو اس میں سے کس کا کھانا میرے لیے جائز ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم نے جو اہل کتاب کے برتن کا ذکر کیا ہے تو اگر تمہیں اس کے سوا کوئی اور برتن مل سکے تو اس میں نہ کھاؤ لیکن تمہیں کوئی دوسرا برتن نہ ملے تو ان کے برتن کو خوب دھو کر اس میں کھا سکتے ہو اور جو شکار تم اپنی تیر کمان سے کرو اور (تیر پھینکتے وقت) اللہ کا نام لیا ہو تو (اس کا شکار) کھا سکتے ہو اور جو شکار تم نے غیر سدھائے ہوئے کتے سے کیا ہو اور شکار خود ذبح کیا ہو تو اسے کھا سکتے ہو۔

【5】

کنکری پھینکنے اور گولی مارنے کا بیان

ہم سے یوسف بن راشد نے بیان کیا، کہا ہم سے وکیع اور یزید بن ہارون نے بیان کیا اور الفاظ حدیث یزید کے ہیں، ان سے کہمس بن حسن نے، ان سے عبداللہ بن بریدہ نے، عبداللہ بن مغفل (رض) نے ایک شخص کو کنکری پھینکتے دیکھا تو فرمایا کہ کنکری نہ پھینکو کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے کنکری پھینکنے سے منع فرمایا ہے یا (انہوں نے بیان کیا کہ) نبی کریم ﷺ کنکری پھینکنے کو پسند نہیں کرتے تھے اور کہا کہ اس سے نہ شکار کیا جاسکتا ہے اور نہ دشمن کو کوئی نقصان پہنچایا جاسکتا ہے البتہ یہ کبھی کسی کا دانت توڑ دیتی ہے اور آنکھ پھوڑ دیتی ہے۔ اس کے بعد بھی انہوں نے اس شخص کو کنکریاں پھینکتے دیکھا تو کہا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی حدیث تمہیں سنا رہا ہوں کہ آپ نے کنکری پھینکنے سے منع فرمایا یا کنکری پھینکنے کو ناپسند کیا اور تم اب بھی پھینکے جا رہے ہو، میں تم سے اتنے دنوں تک کلام نہیں کروں گا۔

【6】

اس شخص کا بیان جو ایسا کتا پالے کہ شکار یا جانور کی حفاظت کے لئے نہ ہو

ہم سے مسلم بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالعزیز بن مسلم نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن دینار نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے ابن عمر (رض) سے سنا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جس نے ایسا کتا پالا جو نہ مویشی کی حفاظت کے لیے ہے اور نہ شکار کرنے کے لیے تو روزانہ اس کی نیکیوں میں سے دو قیراط کی کمی ہوجاتی ہے۔

【7】

اس شخص کا بیان جو ایسا کتا پالے کہ شکار یا جانور کی حفاظت کے لئے نہ ہو

ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو حنظلہ بن ابی سفیان نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ میں نے سالم سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عبداللہ بن عمر (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شکاریوں اور مویشی کی حفاظت کی غرض کے سوا جس نے کتا پالا تو اس کے ثواب میں سے روزانہ دو قیراط کی کمی ہوجاتی ہے۔

【8】

اس شخص کا بیان جو ایسا کتا پالے کہ شکار یا جانور کی حفاظت کے لئے نہ ہو

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس نے مویشی کی حفاظت یا شکار کی غرض کے سوا کسی اور وجہ سے کتا پالا اس کے ثواب سے روزانہ دو قیراط کی کمی ہوجاتی ہے۔

【9】

اگر کتا کھالے (تو کیا حکم ہے) اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ آپ سے پوچھتے ہیں کہ ان کے لئے کیا حلال ہے؟ آپ کہہ دیجئے کہ تمہارے لئے پاک چیزیں حلال کی گئی ہیں اور جن شکاری جانوروں کو تم تعلیم دو جو تم کو اللہ نے تعلیم دی تو ایسے جانور جس شکار کو تمہارے لئے پکڑیں اسے کھاؤ اور اس پر اللہ کا نام بھی لو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو، بے شک اللہ تعالیٰ جلد حساب لینے والا ہے، جوارح سے مراد صوائد اور کو اسب اجترحوا بمعنی اکتسبوا آتا ہے اور ابن عباس (رض) نے کہا کہ کتے کا کھانا اسے خراب کریتا ہے، اس نے اپنے لئے رکھ چھوڑا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم کو ان کو سکھاتے ہو یہاں تک کہ وہ چھوڑ دیتا ہے اور ابن عمر (رض) نے اسے مکروہ سمجھا ہے اور عطاء نے کہا کہ اگر خون پی لے اور اس میں سے کھائے نہیں تو کھالو

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن فضیل نے بیان کیا، ان سے بیان بن بشر نے، ان سے شعبی نے اور ان سے عدی بن حاتم (رض) نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ ہم لوگ ان کتوں سے شکار کرتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم اپنے سکھائے ہوئے کتوں کو شکار کے لیے چھوڑتے وقت اللہ کا نام لیتے ہو تو جو شکار وہ تمہارے لیے پکڑ کر لائیں اسے کھاؤ خواہ وہ شکار کو مار ہی ڈالیں۔ البتہ اگر کتا شکار میں سے خود بھی کھالے تو اس میں یہ اندیشہ ہے کہ اس نے یہ شکار خود اپنے لیے پکڑا تھا اور اگر دوسرے کتے بھی تمہارے کتوں کے سوا شکار میں شریک ہوجائیں تو نہ کھاؤ۔

【10】

اس شکار کا بیان جو دو یا تین دن تک غائب رہے

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ثابت بن یزید نے بیان کیا، کہا ہم سے عاصم بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے شعبی نے، ان سے عدی بن حاتم (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب تم نے اپنا کتا شکار پر چھوڑا اور بسم اللہ بھی پڑھی اور کتے نے شکار پکڑا اور اسے مار ڈالا تو اسے کھاؤ اور اگر اس نے خود بھی کھالیا تو تم نہ کھاؤ کیونکہ یہ شکار اس نے اپنے لیے پکڑا ہے اور اگر دوسرے کتے جن پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو، اس کتے کے ساتھ شکار میں شریک ہوجائیں اور شکار پکڑ کر مار ڈالیں تو ایسا شکار نہ کھاؤ کیونکہ تمہیں معلوم نہیں کہ کس کتے نے مارا ہے اور اگر تم نے شکار پر تیر مارا پھر وہ شکار تمہیں دو یا تین دن بعد ملا اور اس پر تمہارے تیر کے نشان کے سوا اور کوئی دوسرا نشان نہیں ہے تو ایسا شکار کھاؤ لیکن اگر وہ پانی میں گرگیا ہو تو نہ کھاؤ۔ اور عبدالاعلیٰ نے بیان کیا، ان سے داؤد بن ابی یاسر نے، ان سے عامر شعبی نے اور ان سے عدی بن حاتم (رض) نے کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ سے عرض کی کہ وہ شکار تیر سے مارتے ہیں پھر دو یا تین دن پر اسے تلاش کرتے ہیں، تب وہ مردہ حالت میں ملتا ہے اور اس کے اندر ان کا تیر گھسا ہوا ہوتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر تو چاہے تو کھا سکتا ہے۔

【11】

اگر شکار کے پاس دوسرا کتا ہو

ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن ابی السفر نے، ان سے عامر شعبی نے اور ان سے عدی بن حاتم (رض) نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میں (شکار کے لیے) اپنا کتا چھوڑتے وقت بسم اللہ پڑھ لیتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب کتا چھوڑتے وقت بسم اللہ پڑھ لیا ہو اور پھر وہ کتا شکار پکڑ کے مار ڈالے اور خود بھی کھالے تو ایسا شکار نہ کھاؤ کیونکہ یہ شکار اس نے خود اپنے لیے پکڑا ہے۔ میں نے کہا کہ میں کتا شکار پر چھوڑتا ہوں لیکن اس کے ساتھ دوسرا کتا بھی مجھے ملتا ہے اور مجھے یہ معلوم نہیں کہ کس نے شکار پکڑا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایسا شکار نہ کھاؤ کیونکہ تم نے اپنے کتے پر بسم اللہ پڑھی ہے دوسرے کتے پر نہیں پڑھی اور میں نے آپ سے بےپر کے تیر یا لکڑی سے شکار کا حکم پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر شکار نوک کی دھار سے مرا ہو تو کھا لیکن اگر تو نے اس کی چوڑائی سے اسے مارا ہے تو ایسا شکار بوجھ سے مرا ہے پس اسے نہ کھا۔

【12】

ان روایات کا بیان جو شکار کرنے کے متعلق ہیں

مجھ سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم کو محمد ابن فضل نے خبر دی، ان سے بیان بن بشر نے، ان سے عامر شعبی نے اور ان سے عدی بن حاتم (رض) نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ ہم اس قوم میں سکونت رکھتے ہیں جو ان کتوں سے شکار کرتی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب تم اپنا سکھایا ہوا کتا چھوڑو اور اس پر اللہ کا نام لے لو تو اگر وہ کتا تمہارے لیے شکار لایا ہو تو تم اسے کھا سکتے ہو لیکن اگر کتے نے خود بھی کھالیا ہو تو وہ شکار نہ کھاؤ کیونکہ اندیشہ ہے کہ اس نے وہ شکار خود اپنے لیے پکڑا ہے اور اگر اس کتے کے ساتھ کوئی دوسرا کتا بھی شکار میں شریک ہوجائے تو پھر شکار نہ کھاؤ۔

【13】

ان روایات کا بیان جو شکار کرنے کے متعلق ہیں

ہم سے ابوعاصم نبیل نے بیان کیا، ان سے حیوہ بن شریح نے (دوسری سند) اور امام بخاری (رح) نے کہا، مجھ سے احمد بن ابی رجاء نے بیان کیا، ان سے سلمہ بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن المبارک نے بیان کیا، ان سے حیوہ بن شریح نے بیان کیا کہ میں نے ربیعہ بن یزید دمشقی سے سنا، کہا کہ مجھے ابوادریس عائذ اللہ نے خبر دی، کہا کہ میں ابوثعلبہ خشنی (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! ہم اہل کتاب کے ملک میں رہتے ہیں اور ان کے برتن میں کھاتے ہیں اور ہم شکار کی زمین میں رہتے ہیں، جہاں میں اپنے تیر سے شکار کرتا ہوں اور اپنے سدھائے ہوئے کتے سے۔ تو اس میں سے کیا چیز ہمارے لیے جائز ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا تم نے جو یہ کہا ہے کہ تم اہل کتاب کے ملک میں رہتے ہو اور ان کے برتن میں بھی کھاتے ہو تو اگر تمہیں ان کے برتنوں کے سوا دوسرے برتن مل جائیں تو ان کے برتنوں میں نہ کھاؤ لیکن ان کے برتنوں کے سوا دوسرے برتن نہ ملیں تو انہیں دھو کر پھر ان میں کھاؤ اور تم نے شکار کی سر زمین کا ذکر کیا ہے تو جو شکار تم اپنے تیر سے مارو اور تیر چلاتے وقت اللہ کا نام لیا ہو تو اسے کھاؤ اور جو شکار تم نے اپنے سدھائے ہوئے کتے سے کیا ہو اور اس پر اللہ کا نام لیا ہو تو اسے کھاؤ اور جو شکار تم نے اپنے بلا سدھائے کتے سے کیا ہو اور اسے ذبح بھی خود ہی کیا ہو تو اسے بھی کھاؤ۔

【14】

ان روایات کا بیان جو شکار کرنے کے متعلق ہیں

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ہشام بن زید نے بیان کیا اور ان سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ مرالظہران (مکہ کے قریب ایک مقام) میں ہم نے ایک خرگوش کو ابھارا لوگ اس کے پیچھے دوڑے مگر نہ پایا پھر میں اس کے پیچھے لگا اور میں نے اسے پکڑ لیا اور اسے ابوطلحہ (رض) کے پاس لایا، انہوں نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں اس کا کو لھا اور دونوں رانیں بھیجیں تو آپ نے انہیں قبول فرما لیا۔

【15】

ان روایات کا بیان جو شکار کرنے کے متعلق ہیں

ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے عمر بن عبیداللہ کے غلام ابوالنضر نے، ان سے ابوقتادہ (رض) کے غلام نافع نے اور ان سے ابوقتادہ (رض) نے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے وہ مکہ کے راستہ میں ایک جگہ پر اپنے بعض ساتھیوں کے ساتھ جو احرام باندھے ہوئے تھے پیچھے رہ گئے خود ابوقتادہ (رض) احرام سے نہیں تھے اسی عرصہ میں انہوں نے ایک گورخر دیکھا اور (اسے شکار کرنے کے ارادہ سے) اپنے گھوڑے پر بیٹھ گئے۔ اس کے بعد اپنے ساتھیوں سے (جو محرم تھے) کوڑا مانگا لیکن انہوں نے دینے سے انکار کیا پھر اپنا نیزہ مانگا لیکن اسے بھی اٹھانے کے لیے وہ تیار نہیں ہوئے تو انہوں نے وہ خود اٹھایا اور گورخر پر حملہ کیا اور اسے شکار کرلیا پھر بعض نے اس کا گوشت کھایا اور بعض نے کھانے سے انکار کیا۔ اس کے بعد جب وہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اس کا حکم پوچھا آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ تو ایک کھانا تھا جو اللہ نے تمہارے لیے مہیا کیا تھا۔

【16】

ان روایات کا بیان جو شکار کرنے کے متعلق ہیں

ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے زید بن اسلم نے، ان سے عطاء بن یسار نے اور ان سے ابوقتادہ (رض) نے اسی طرح روایت کیا البتہ اس روایت میں یہ لفظ زیادہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے پوچھا تھا کہ تمہارے پاس اس کا کچھ گوشت بچا ہوا ہے یا نہیں۔

【17】

پہاڑوں پر شکار کرنے کا بیان

ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابن وہب نے بیان کیا، انہیں عمرو نے خبر دی، ان سے ابوالنضر نے بیان کیا، ان سے ابوقتادہ کے غلام نافع اور توامہ کے غلام ابوصالح نے کہ انہوں نے ابوقتادہ (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں مکہ اور مدینہ کے درمیان راستے میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھا۔ دوسرے لوگ تو احرام باندھے ہوئے تھے لیکن میں احرام میں نہیں تھا اور ایک گھوڑے پر سوار تھا۔ میں پہاڑوں پر چڑھنے کا بڑا عادی تھا پھر اچانک میں نے دیکھا کہ لوگ للچائی ہوئی نظروں سے کوئی چیز دیکھ رہے ہیں۔ میں نے جو دیکھا تو ایک گورخر تھا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ یہ کیا ہے ؟ لوگوں نے کہا ہمیں معلوم نہیں ! میں نے کہا کہ یہ تو گورخر ہے۔ لوگوں نے کہا کہ جو تم نے دیکھا ہے وہی ہے۔ میں اپنا کوڑا بھول گیا تھا اس لیے ان سے کہا کہ مجھے میرا کوڑا دے دو لیکن انہوں نے کہا کہ ہم اس میں تمہاری کوئی مدد نہیں کریں گے (کیونکہ ہم محرم ہیں) میں نے اتر کر خود کوڑا اٹھایا اور اس کے پیچھے سے اسے مارا، وہ وہیں گرگیا پھر میں نے اسے ذبح کیا اور اپنے ساتھیوں کے پاس اسے لے کر آیا۔ میں نے کہا کہ اب اٹھو اور اسے اٹھاؤ، انہوں نے کہا کہ ہم اسے نہیں چھوئیں گے۔ چناچہ میں ہی اسے اٹھا کر ان کے پاس لایا۔ بعض نے تو اس کا گوشت کھایا لیکن بعض نے انکار کردیا پھر میں نے ان سے کہا کہ اچھا میں اب تمہارے لیے نبی کریم ﷺ سے رکنے کی درخواست کروں گا۔ میں نبی کریم ﷺ کے پاس پہنچا اور آپ سے واقعہ بیان کیا، آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہارے پاس اس میں سے کچھ باقی بچا ہے ؟ میں نے عرض کیا جی ہاں۔ فرمایا کھاؤ کیونکہ یہ ایک کھانا ہے جو اللہ تعالیٰ نے تم کو کھلایا ہے۔

【18】

اللہ تعالیٰ کا قول کہ دریا کا شکار تمہارے لئے حلال ہے اور حضرت عمر نے فرمایا کہ صید سے مراد وہ ہے جو جال سے شکار کیا جائے اور طعام سے مراد وہ ہے جس کو دریا پھینک دے، حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا کہ طافی (دریا میں خود مر کر تیرنے والا) حلال ہے، اور ابن عباس نے فرمایا کہ طعام سے مراد دریا میں مرا ہوا جانور ہے مگر وہ جو تجھے مکروہ معلوم ہو اور جریث کو یہودی نہیں کھاتے، لیکن ہم کھاتے ہیں، آپ ﷺ کے صحابی شریح نے فرمایا کہ دریا کی تمام چیزیں مذبوح کے حکم میں ہیں، عطاء نے کہا کہ پرندے (جو پانی پر اترتے ہیں) کا ذبح کرنا میں مناسب سمجھتا ہوں اور ابن جریج نے کہا کہ میں نے عطاء سے نہروں اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر جو پانی جمع ہوگیا، اسے کے شکار کے متعلق پوچھا کہ کیا یہ بھی دریائی شکار کے حکم میں ہے، انہوں نے کہا ہاں ! پھر یہ آیت تلاوت کی ھذا عذب فرات سائغ شرابہ وھذا ملح اجاج ومن کل تأکلون لحما طریا، اور حسن (رض) دریائی کتوں کی کھال سے بنی ہوئی زین پر سوار ہوتے تھے اور شعبی نے کہا کہ اگر میرے گھر کے لوگ مینڈک کھاتے تو میں ان کو کھلا دیتا ، اور حسن بصری نے کچھوے میں کچھ حرج نہیں سمجھا اور ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ دریا کا شکار کھاؤ، اگرچہ اس کو یہودی، نصری یا مجوسی نے شکار کیا ہو، ابوالدرداء نے مری کے متعلق فرمایا کہ دھوپ اور مچھلیوں نے شراب کو ذبح کردیا (حلال کردیا ہے)

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے کہا کہ مجھے عمرو نے خبر دی اور انہوں نے جابر (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ہم غزوہ خبط میں شریک تھے، ہمارے امیر الجیش ابوعبیدہ (رض) تھے۔ ہم سب بھوک سے بیتاب تھے کہ سمندر نے ایک مردہ مچھلی باہر پھینکی۔ ایسی مچھلی دیکھی نہیں گئی تھی۔ اسے عنبر کہتے تھے، ہم نے وہ مچھلی پندرہ دن تک کھائی۔ پھر ابوعبیدہ (رض) نے اس کی ایک ہڈی لے کر (کھڑی کردی) تو وہ اتنی اونچی تھی کہ ایک سوار اس کے نیچے سے گزر گیا۔

【19】

اللہ تعالیٰ کا قول کہ دریا کا شکار تمہارے لئے حلال ہے اور حضرت عمر نے فرمایا کہ صید سے مراد وہ ہے جو جال سے شکار کیا جائے اور طعام سے مراد وہ ہے جس کو دریا پھینک دے، حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا کہ طافی (دریا میں خود مر کر تیرنے والا) حلال ہے، اور ابن عباس نے فرمایا کہ طعام سے مراد دریا میں مرا ہوا جانور ہے مگر وہ جو تجھے مکروہ معلوم ہو اور جریث کو یہودی نہیں کھاتے، لیکن ہم کھاتے ہیں، آپ ﷺ کے صحابی شریح نے فرمایا کہ دریا کی تمام چیزیں مذبوح کے حکم میں ہیں، عطاء نے کہا کہ پرندے (جو پانی پر اترتے ہیں) کا ذبح کرنا میں مناسب سمجھتا ہوں اور ابن جریج نے کہا کہ میں نے عطاء سے نہروں اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر جو پانی جمع ہوگیا، اسے کے شکار کے متعلق پوچھا کہ کیا یہ بھی دریائی شکار کے حکم میں ہے، انہوں نے کہا ہاں ! پھر یہ آیت تلاوت کی ھذا عذب فرات سائغ شرابہ وھذا ملح اجاج ومن کل تائکلون لحما طریا، اور حسن (رض) دریائی کتوں کی کھال سے بنی ہوئی زین پر سوار ہوتے تھے اور شعبی نے کہا کہ اگر میرے گھر کے لوگ مینڈک کھاتے تو میں ان کو کھلا دیتا ، اور حسن بصری نے کچھوے میں کچھ حرج نہیں سمجھا اور ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ دریا کا شکار کھاؤ، اگرچہ اس کو یہودی، نصری یا مجوسی نے شکار کیا ہو، ابوالدرداء نے مری کے متعلق فرمایا کہ دھوپ اور مچھلیوں نے شراب کو ذبح کردیا (حلال کردیا ہے)

ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی، ان سے عمرو بن دینار نے، انہوں نے جابر (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے تین سو سوار روانہ کئے۔ ہمارے امیر ابوعبیدہ (رض) تھے۔ ہمیں قریش کے تجارتی قافلہ کی نقل و حرکت پر نظر رکھنی تھی پھر (کھانا ختم ہوجانے کی وجہ سے) ہم سخت بھوک اور فاقہ کی حالت میں تھے۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ ہم سلم کے پتے (خبط) کھا کر وقت گزارتے تھے۔ اسی لیے اس مہم کا نام جیش الخبط پڑگیا اور سمندر نے ایک مچھلی باہر ڈال دی۔ جس کا نام عنبر تھا۔ ہم نے اسے آدھے مہینہ تک کھایا اور اس کی چربی تیل کے طور پر اپنے جسم پر ملی جس سے ہمارے جسم تندرست ہوگئے۔ بیان کیا کہ پھر ابو عبیداللہ (رض) نے اس کی ایک پسلی کی ہڈی لے کر کھڑی کی تو ایک سوار اس کے نیچے سے گزر گیا۔ ہمارے ساتھ ایک صاحب (قیس بن سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہما) تھے جب ہم بہت زیادہ بھوکے ہوئے تو انہوں نے یکے بعد دیگر تین اونٹ ذبح کردیئے۔ بعد میں ابوعبیدہ (رض) نے انہیں اس سے منع کردیا۔

【20】

ٹڈی کھانے کا بیان

ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ بن حجاج نے بیان کیا، ان سے ابویعفور نے بیان کیا کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفی (رض) سے سنا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ سات یا چھ غزووں میں شریک ہوئے، ہم آپ کے ساتھ ٹڈی کھاتے تھے۔ سفیان، ابوعوانہ اور اسرائیل نے ابویعفور سے بیان کیا اور ان سے ابن ابی اوفی نے، سات غزوہ کے لفظ روایت کئے۔

【21】

مجوس کے برتن اور مردار کا بیان

ہم سے ابوعاصم نبیل نے بیان کیا، ان سے حیوہ بن شریح نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ربیعہ بن یزید دمشقی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابوادریس خولانی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابوثعلبہ خشنی (رض) نے بیان کیا کہ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا : یا رسول اللہ ! ہم اہل کتاب کے ملک میں رہتے ہیں اور ان کے برتنوں میں کھاتے ہیں اور ہم شکار کی زمین میں رہتے ہیں اور میں اپنے تیر کمان سے بھی شکار کرتا ہوں اور سدھائے ہوئے کتے سے اور بےسدھائے کتے سے بھی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم نے جو یہ کہا ہے کہ تم اہل کتاب کے ملک میں رہتے ہو تو ان کے برتنوں میں نہ کھایا کرو۔ البتہ اگر ضرورت ہو اور کھانا ہی پڑجائے تو انہیں خوب دھو لیا کرو اور جو تم نے یہ کہا ہے کہ تم شکار کی زمین میں رہتے ہو تو جو شکار تم اپنے تیر کمان سے کرو اور اس پر اللہ کا نام لیا ہو تو اسے کھاؤ اور جو شکار تم نے اپنے سدھائے ہوئے کتے سے کیا ہو اور اس پر اللہ کا نام لیا ہو وہ بھی کھاؤ اور جو شکار تم نے اپنے بلا سدھائے ہوئے کتے سے کیا ہو اور اسے خود ذبح کیا ہو اسے کھاؤ۔

【22】

مجوس کے برتن اور مردار کا بیان

ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے یزید بن ابی عبیدہ نے بیان کیا، ان سے سلمہ بن الاکوع (رض) نے بیان کیا کہ فتح خیبر کی شام کو لوگوں نے آگ روشن کی تو نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا کہ یہ آگ تم لوگوں نے کس لیے روشن کی ہے ؟ لوگوں نے بتایا کہ گدھے کا گوشت ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہانڈیوں میں کچھ (گدھے کا گوشت) ہے اسے پھینک دو اور ہانڈیوں کو توڑ ڈالو۔ ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا ہانڈی میں جو کچھ (گوشت وغیرہ) ہے اسے ہم پھینک دیں اور برتن دھو لیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ بھی کرسکتے ہو۔

【23】

ذبیحہ پر بسم اللہ پڑھنے کا بیان، اور اس شخص کا بیان جو قصدا چھوڑ دے، ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ اگر بھول جائے تو کوئی حرج نہیں اور اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ نہ کھاؤ اس میں سے جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو یہ فسق ہے اور بھول کر چھوڑنے والے کو فاسق نہیں کہا جائے گا، اللہ تعالیٰ کا قول وان الشیاطین لیوحون الی اولیائھم لیجادلوکم وان اطعتموھم انکم لمشرکون

مجھ سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے سعید بن مسروق نے، ان سے عبایہ بن رفاعہ بن رافع نے اپنے دادا رافع بن خدیج سے، انہوں نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ مقام ذی الحلیفہ میں تھے کہ (ہم) لوگ بھوک اور فاقہ میں مبتلا ہوگئے پھر ہمیں (غنیمت میں) اونٹ اور بکریاں ملیں۔ نبی کریم ﷺ سب سے پیچھے تھے۔ لوگوں نے جلدی کی بھوک کی شدت کی وجہ سے (اور نبی کریم ﷺ کے تشریف لانے سے پہلے ہی غنیمت کے جانوروں کو ذبح کرلیا) اور ہانڈیاں پکنے کے لیے چڑھا دیں پھر جب نبی کریم ﷺ وہاں پہنچے تو آپ ﷺ نے حکم دیا اور ہانڈیاں الٹ دی گئیں پھر نبی کریم ﷺ نے غنیمت کی تقسیم کی اور دس بکریوں کو ایک اونٹ کے برابر قرار دیا۔ ان میں سے ایک اونٹ بھاگ گیا۔ قوم کے پاس گھوڑوں کی کمی تھی لوگ اس اونٹ کے پیچھے دوڑے لیکن اس نے سب کو تھکا دیا۔ آخر ایک شخص نے اس پر تیر کا نشانہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے روک دیا اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ان جانوروں میں جنگلیوں کی طرح وحشت ہوتی ہے۔ اس لیے جب کوئی جانور بھڑک کر بھاگ جائے تو اس کے ساتھ ایسا ہی کیا کرو۔ عبایہ نے بیان کیا کہ میرے دادا (رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ) نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا کہ ہمیں اندیشہ ہے کہ کل ہمارا دشمن سے مقابلہ ہوگا اور ہمارے پاس چھریاں نہیں ہیں کیا ہم (دھاردار) لکڑی سے ذبح کرلیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو چیز بھی خون بہا دے اور (ذبح کرتے وقت) جانور پر اللہ کا نام لیا ہو تو اسے کھاؤ البتہ (ذبح کرنے والا آلہ) دانت اور ناخن نہ ہونا چاہیئے۔ دانت اس لیے نہیں کہ یہ ہڈی ہے (اور ہڈی سے ذبح کرنا جائز نہیں ہے) اور ناخن کا اس لیے نہیں کہ حبشی لوگ ان کو چھری کی جگہ استعمال کرتے ہیں۔

【24】

اس چیز کا بیان جواصنام اور بتوں پر ذبح کی جائے

ہم سے معلی بن اسد نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز یعنی ابن المختار نے بیان کیا، انہیں موسیٰ بن عقبہ نے خبر دی، کہا کہ مجھے سالم نے خبر دی، انہوں نے عبداللہ بن عمر (رض) سے سنا اور ان سے رسول اللہ ﷺ نے کہ آپ ﷺ کی زید بن عمرو بن نوفل سے مقام بلد کے نشیبی حصہ میں ملاقات ہوئی۔ یہ آپ ﷺ پر وحی نازل ہونے سے پہلے کا زمانہ ہے۔ آپ نے وہ دستر خوان جس میں گوشت تھا جسے ان لوگوں نے آپ کی ضیافت کے لیے پیش کیا تھا مگر ان پر ذبح کے وقت بتوں کا نام لیا گیا تھا، آپ نے اسے زید بن عمرو کے سامنے واپس فرما دیا اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم جو جانور اپنے بتوں کے نام پر ذبح کرتے ہو میں انہیں نہیں کھاتا، میں صرف اسی جانور کا گوشت کھاتا ہوں جس پر (ذبح کرتے وقت) اللہ کا نام لیا گیا ہو۔

【25】

آپ ﷺ کا فرمان کی اللہ کے نام پر ذبح کرنا چاہئے

ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے، ان سے اسود بن قیس نے، ان سے جندب بن سفیان بجلی نے بیان کیا کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک مرتبہ قربانی کی۔ کچھ لوگوں نے عید کی نماز سے پہلے ہی قربانی کرلی تھی۔ جب نبی کریم ﷺ (نماز پڑھ کر) واپس تشریف لائے تو آپ ﷺ نے دیکھا کہ لوگوں نے اپنی قربانیاں نماز سے پہلے ہی ذبح کرلی ہیں پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص نے نماز سے پہلے قربانی ذبح کرلی ہو، اسے چاہیئے کہ اس کی جگہ دوسری ذبح کرے اور جس نے نماز پڑھنے سے پہلے نہ ذبح کی ہو اسے چاہیئے کہ اللہ کے نام پر ذبح کرے۔

【26】

اس چیز (سے ذبح کرنے) کا بیان جو خون بہادے مثلابانس، پتھر اور لوہاوغیرہ

ہم سے محمد بن ابی بکر نے بیان کیا، کہا ہم سے معتمر نے، ان سے عبیداللہ نے، ان سے نافع نے، انہوں نے ابن کعب بن مالک سے سنا، انہوں نے ابن عمر (رض) سے سنا کہ انہیں ان کے والد نے خبر دی کہ ان کے گھر ایک لونڈی سلع پہاڑی پر بکریاں چرایا کرتی تھی (چراتے وقت ایک مرتبہ) اس نے دیکھا کہ ایک بکری مرنے والی ہے۔ چناچہ اس نے ایک پتھر توڑ کر اس سے بکری ذبح کردی تو کعب بن مالک (رض) نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ اسے اس وقت تک نہ کھانا جب تک میں رسول اللہ ﷺ سے اس کا حکم نہ پوچھ آؤں یا (انہوں نے یہ کہا کہ) میں کسی کو بھیجوں جو نبی کریم ﷺ سے مسئلہ پوچھ آئے پھر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے یا کسی کو بھیجا اور نبی کریم ﷺ نے اس کے کھانے کی اجازت بخشی۔

【27】

اس چیز (سے ذبح کرنے) کا بیان جو خون بہادے مثلابانس، پتھر اور لوہاوغیرہ

ہم سے موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے جویریہ نے بیان کیا، ان سے نافع نے، ان سے بنی سلمہ کے ایک صاحب (ابن کعب بن مالک) نے کہ انہوں نے ابن عمر (رض) کو یہ خبر دی کہ کعب بن مالک (رض) کی ایک لونڈی اس پہاڑی پر جو سوق مدنی میں ہے اور جس کا نام سلع ہے، بکریاں چرایا کرتی تھی۔ ایک بکری مرنے کے قریب ہوگئی تو اس نے ایک پتھر توڑ کر اس سے بکری کو ذبح کرلیا، پھر لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو نبی کریم ﷺ نے اسے کھانے کی اجازت عطا فرمائی۔

【28】

اس چیز (سے ذبح کرنے) کا بیان جو خون بہادے مثلابانس، پتھر اور لوہاوغیرہ

ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا کہ مجھے میرے والد نے خبر دی، انہیں شعبہ نے، انہیں سعید بن مسروق نے، انہیں عبایہ بن رافع نے اور انہیں ان کے دادا (رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ) نے کہ انہوں نے کہا : یا رسول اللہ ! ہمارے پاس چھری نہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جو (دھار دار) چیز خون بہا دے اور اس پر اللہ کا نام لے لیا گیا ہو تو (اس سے ذبح کیا ہوا جانور) کھا سکتے ہو لیکن ناخن اور دانت سے ذبح نہ کیا گیا ہو کیونکہ ناخن حبشیوں کی چھری ہے اور دانت ہڈی ہے . اور ایک اونٹ بھاگ گیا تو (تیر مار کر) اسے روک لیا گیا۔ آپ ﷺ نے اس پر فرمایا یہ اونٹ بھی جنگلی جانوروں کی طرح بھڑک اٹھتے ہیں اس لیے جو تمہارے قابو سے باہر ہوجائے اس کے ساتھ ایسا ہی کیا کرو۔

【29】

عورت اور لونڈی کے ذبیحہ کا بیان

ہم سے صدقہ نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدہ نے خبر دی، انہیں عبیداللہ نے، انہیں نافع نے، انہیں کعب بن مالک کے ایک بیٹے نے اور انہیں ان کے باپ کعب بن مالک (رض) نے کہ ایک عورت نے بکری پتھر سے ذبح کرلی تھی تو نبی کریم ﷺ سے اس کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے اس کے کھانے کا حکم فرمایا۔ اور لیث نے بیان کیا، ان سے نافع نے بیان کیا، انہوں نے قبیلہ انصار کے ایک شخص کو سنا کہ انہوں نے عبداللہ بن عمر (رض) کو خبر دی نبی کریم ﷺ سے کہ کعب (رض) کی ایک لونڈی تھی پھر اسی حدیث کی طرح بیان کیا۔

【30】

عورت اور لونڈی کے ذبیحہ کا بیان

ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے نافع نے، ان سے قبیلہ انصار کے ایک آدمی نے کہ معاذ بن سعد یا سعد بن معاذ نے انہیں خبر دی کہ کعب بن مالک (رض) کی ایک لونڈی سلع پہاڑی پر بکریاں چرایا کرتی تھی۔ ریوڑ میں سے ایک بکری مرنے لگی تو اس نے اسے مرنے سے پہلے پتھر سے ذبح کردیا پھر نبی کریم ﷺ سے اس کے متعلق پوچھا گیا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اسے کھاؤ۔

【31】

دانت، ہڈی اور ناخن سے ذبح نہ کیا جائے

ہم سے قبیصہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے، ان سے ان کے والد نے، ان سے عبایہ بن رفاعہ نے اور ان سے رافع بن خدیج (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ کھاؤ یعنی (ایسے جانور کو جسے ایسی دھاردار چیز سے ذبح کیا گیا ہو) جو خون بہا دے۔ سوا دانت اور ناخن کے (یعنی ان سے ذبح کرنا درست نہیں ہے) ۔

【32】

اعراب ( گنواروں) وغیرہ کے ذبح کا بیان

ہم سے محمد بن عبیداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے اسامہ بن حفص مدنی نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے کہ (گاؤں کے) کچھ لوگ ہمارے یہاں گوشت (بیچنے) لاتے ہیں اور ہمیں معلوم نہیں کہ انہوں نے اس پر اللہ کا نام بھی (ذبح کرتے وقت) لیا تھا یا نہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ تم ان پر کھاتے وقت اللہ کا نام لیا کرو اور کھالیا کرو۔ عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ یہ لوگ ابھی اسلام میں نئے نئے داخل ہوئے تھے۔ اس کی متابعت علی نے دراوردی سے کی اور اس کی متابعت ابوخالد اور طفاوی نے کی۔

【33】

دارالحرب وغیرہ کے اہل کتاب کے ذبیحوں کا بیان اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ آج تمہارے لئے پاکیزہ چیزیں حلال کردی گئیں، اور اہل کتاب کا کھانا تمہارے لئے حلال ہے، اور تمہارا کھانا ان کے حلال ہے اور زہری کا بیان ہے کہ عرب کے نصاری کے ذبیحوں کے کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے اور اگر تم سن لو کہ اس نے غیر اللہ کا نام لیا تو نہ کھاؤ اور اگر نہ سنو تو اللہ تعالیٰ نے اس کو حلال کیا ہے حالانکہ ان کا کفر معلوم ہے اور حضرت علی (رض) سے بھی اسی طرح منقول ہے اور حسن وابراہیم نے کہا کہ اقلف (بغیر ختنہ کئے ہوئے) کے ذبیحہ کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے

ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے حمید بن ہلال نے اور ان سے عبداللہ بن مغفل رضی اللہ نے بیان کیا کہ ہم خیبر کے قلعے کا محاصرہ کئے ہوئے تھے کہ ایک شخص نے ایک تھیلا پھینکا جس میں (یہودیوں کے ذبیحہ کی) چربی تھی۔ میں اس پر جھپٹا کہ اٹھا لوں لیکن مڑ کے جو دیکھا تو پیچھے رسول اللہ ﷺ تشریف فرما تھے۔ میں آپ ﷺ کو دیکھ کر شرما گیا۔ ابن عباس (رض) نے کہا کہ (آیت میں) طَعامهم سے مراد اہل کتاب کا ذبح کردہ جانور ہے۔

【34】

جو جانور بھاگ جائے وہ بمنزلہ جنگلی جانور کے ہے، ابن مسعود (رض) نے اس کو جائز کہا ہے، ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ جو چوپائے تمہارے ہاتھوں سے بھاگ جائیں وہ شکار کی طرح ہیں، اور اس اونٹ کے متعلق جو کنویں میں گر جائے، فرمایا کہ جہاں تک ممکن ہو اسے ذبح کر ڈالو، حضرت علی، ابن عمر اور حضرت عائشہ (رض) کا بھی یہی خیال ہے

ہم سے عمرو بن علی نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے، ان سے ان کے والد نے، ان سے عبایہ بن رفاعہ بن رافع بن خدیج نے اور ان سے رافع بن خدیج (رض) نے بیان کیا کہ میں نے عرض کی : یا رسول اللہ ! کل ہمارا مقابلہ دشمن سے ہوگا اور ہمارے پاس چھریاں نہیں ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر جلدی کرلو یا (اس کے بجائے) أرن کہا یعنی جلدی کرلو جو آلہ خون بہا دے اور ذبیحہ پر اللہ کا نام لیا گیا ہو تو اسے کھاؤ۔ البتہ دانت اور ناخن نہ ہونا چاہیئے اور اس کی وجہ بھی بتادوں۔ دانت تو ہڈی ہے اور ناخن حبشیوں کی چھری ہے۔ اور ہمیں غنیمت میں اونٹ اور بکریاں ملیں ان میں سے ایک اونٹ بدک کر بھاگ پڑا تو ایک صاحب نے تیر سے مار کر گرا لیا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہ اونٹ بھی بعض اوقات جنگلی جانوروں کی طرح بدکتے ہیں، اس لیے اگر ان میں سے بھی کوئی تمہارے قابو سے باہر ہوجائے تو اس کے ساتھ ایسا ہی کرو۔

【35】

نحر اور ذبح کا بیان اور ابن جریج نے عطاء کا قول نقل کیا ہے کہ ذبح (حلق پر چھری پھیرنا) اور نحر (سینے پر برچھا مارنا) حلق کی جگہ اور نحر کی جگہ پر ہی ہوتا ہے، میں نے پوچھا کہ اگر ذبح ہونے والے جانور کو نحر کرودں تو کیا یہ جائز ہے، انہوں نے کہا ہاں، اللہ تعالیٰ نے گائے کا ذبح کرنا بیان کیا، اگر نحر کیے جانے والے جانور کو ذبح کردیا تو جائز ہے، اور نحر میرے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے، اور ذبح رگوں کا کاٹنا ہے، میں نے پوچھا کیا رگیں پیچھے چھوڑ دی جائیں، یہاں حرام مغز کاٹ دیا جائے، انہوں نے فرمایا میں اسے ٹھیک نہیں سمجھتا، اور نافع نے مجھ سے بیان کیا کہ ابن عمر نے حرام مغز کاٹنے سے منع فرمایا ہے، وہ کہتے تھے کہ ہڈی تک پہنچا کر چھوڑ دیں، یہاں تک مرجائے، اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ گائے ذبح کرو اور بیان کیا کہ ان لوگوں نے اس کو ذبح کیا اور وہ ایسا کرنے والے نہیں تھے، اور سعید نے ابن عباس (رض) سے نقل کیا کہ ذبح حلق اور لبہ (دونوں) میں ہوجاتا ہے، حضرت ابن عمر، ابن عباس اور انس نے فرمایا کہ اگر سرکٹ جائے تو کوئی حرج نہیں

ہم سے خلاد بن یحییٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے کہا کہ مجھے میری بیوی فاطمہ بنت منذر نے خبر دی ان سے اسماء بنت ابی بکر (رض) نے بیان کیا کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایک گھوڑا نحر کیا اور اسے کھایا۔

【36】

نحر اور ذبح کا بیان اور ابن جریج نے عطاء کا قول نقل کیا ہے کہ ذبح (حلق پر چھری پھیرنا) اور نحر (سینے پر برچھا مارنا) حلق کی جگہ اور نحر کی جگہ پر ہی ہوتا ہے، میں نے پوچھا کہ اگر ذبح ہونے والے جانور کو نحر کرودں تو کیا یہ جائز ہے، انہوں نے کہا ہاں، اللہ تعالیٰ نے گائے کا ذبح کرنا بیان کیا، اگر نحر کیے جانے والے جانور کو ذبح کردیا تو جائز ہے، اور نحر میرے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے، اور ذبح رگوں کا کاٹنا ہے، میں نے پوچھا کیا رگیں پیچھے چھوڑ دی جائیں، یہاں حرام مغز کاٹ دیا جائے، انہوں نے فرمایا میں اسے ٹھیک نہیں سمجھتا، اور نافع نے مجھ سے بیان کیا کہ ابن عمر نے حرام مغز کاٹنے سے منع فرمایا ہے، وہ کہتے تھے کہ ہڈی تک پہنچا کر چھوڑ دیں، یہاں تک مرجائے، اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ گائے ذبح کرو اور بیان کیا کہ ان لوگوں نے اس کو ذبح کیا اور وہ ایسا کرنے والے نہیں تھے، اور سعید نے ابن عباس (رض) سے نقل کیا کہ ذبح حلق اور لبہ (دونوں) میں ہوجاتا ہے، حضرت ابن عمر، ابن عباس اور انس نے فرمایا کہ اگر سرکٹ جائے تو کوئی حرج نہیں

ہم سے اسحاق نے بیان کیا، انہوں نے عبدہ سے سنا، انہوں نے ہشام سے، انہوں نے فاطمہ سے اور ان سے اسماء (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ہم نے ایک گھوڑا ذبح کیا اور اس کا گوشت کھایا اس وقت ہم مدینہ میں تھے۔

【37】

نحر اور ذبح کا بیان اور ابن جریج نے عطاء کا قول نقل کیا ہے کہ ذبح (حلق پر چھری پھیرنا) اور نحر (سینے پر برچھا مارنا) حلق کی جگہ اور نحر کی جگہ پر ہی ہوتا ہے، میں نے پوچھا کہ اگر ذبح ہونے والے جانور کو نحر کرودں تو کیا یہ جائز ہے، انہوں نے کہا ہاں، اللہ تعالیٰ نے گائے کا ذبح کرنا بیان کیا، اگر نحر کیے جانے والے جانور کو ذبح کردیا تو جائز ہے، اور نحر میرے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے، اور ذبح رگوں کا کاٹنا ہے، میں نے پوچھا کیا رگیں پیچھے چھوڑ دی جائیں، یہاں حرام مغز کاٹ دیا جائے، انہوں نے فرمایا میں اسے ٹھیک نہیں سمجھتا، اور نافع نے مجھ سے بیان کیا کہ ابن عمر نے حرام مغز کاٹنے سے منع فرمایا ہے، وہ کہتے تھے کہ ہڈی تک پہنچا کر چھوڑ دیں، یہاں تک مرجائے، اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ گائے ذبح کرو اور بیان کیا کہ ان لوگوں نے اس کو ذبح کیا اور وہ ایسا کرنے والے نہیں تھے، اور سعید نے ابن عباس (رض) سے نقل کیا کہ ذبح حلق اور لبہ (دونوں) میں ہوجاتا ہے، حضرت ابن عمر، ابن عباس اور انس نے فرمایا کہ اگر سرکٹ جائے تو کوئی حرج نہیں

ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے ہشام نے، ان سے فاطمہ بنت منذر نے کہ اسماء بنت ابی بکر (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ہم نے ایک گھوڑے کو نحر کیا (اس کے سینے کے اوپر کے حصہ میں چھری مار کر) پھر اسے کھایا۔ اس کی متابعت وکیع اور ابن عیینہ نے ہشام سے نحر‏.‏ کے ذکر کے ساتھ کی۔

【38】

مثلہ (ہاتھ پاؤں کاٹنے)، مصبورہ (باندھ کر مارنا) اور مجسمہ کی کراہت کا بیان

ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے، ان سے ہشام بن زید نے، کہا کہ میں انس (رض) کے ساتھ حکم بن ایوب کے یہاں گیا، انہوں نے وہاں چند لڑکوں کو یا نوجوانوں کو دیکھا کہ ایک مرغی کو باندھ کر اس پر تیر کا نشانہ لگا رہے ہیں تو انہوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے زندہ جانور کو باندھ کر مارنے سے منع فرمایا ہے۔

【39】

مثلہ (ہاتھ پاؤں کاٹنے)، مصبورہ (باندھ کر مارنا) اور مجسمہ کی کراہت کا بیان

ہم سے احمد بن یعقوب نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو اسحاق بن سعید بن عمرو نے خبر دی، انہوں نے اپنے والد سے سنا کہ وہ عبداللہ بن عمر (رض) سے بیان کرتے تھے کہ وہ یحییٰ بن سعید کے یہاں تشریف لے گئے۔ یحییٰ کی اولاد میں ایک بچہ ایک مرغی باندھ کر اس پر تیر کا نشانہ لگا رہا تھا۔ عبداللہ بن عمر (رض) مرغی کے پاس گئے اور اسے کھول لیا پھر مرغی کو اور بچے کو اپنے ساتھ لائے اور یحییٰ سے کہا کہ اپنے بچہ کو منع کر دو کہ اس جانور کو باندھ کر نہ مارے کیونکہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا ہے آپ نے کسی جنگلی جانور یا کسی بھی جانور کو باندھ کر جان سے مارنے سے منع فرمایا ہے۔

【40】

مثلہ (ہاتھ پاؤں کاٹنے)، مصبورہ (باندھ کر مارنا) اور مجسمہ کی کراہت کا بیان

ہم سے منہال نے بیان کیا، ان سے سعید نے اور ان سے ابن عمر (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے ایسے شخص پر لعنت بھیجی ہے جو کسی زندہ جانور کے پاؤں یا دوسرے ٹکڑے کاٹ ڈالے۔ اور عدی نے بیان کیا، ان سے سعید نے، ان سے ابن عباس (رض) نے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا۔

【41】

مثلہ (ہاتھ پاؤں کاٹنے)، مصبورہ (باندھ کر مارنا) اور مجسمہ کی کراہت کا بیان

ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ کو عدی بن ثابت نے خبر دی، کہا کہ میں نے عبداللہ بن زید (رض) سے سنا، انہوں نے نبی کریم ﷺ سے کہ نبی کریم ﷺ نے رہزنی کرنے اور مثلہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔

【42】

مرغی کھانے کے بیان میں

ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے وکیع نے بیان کیا، ان سے سفیان نے بیان کیا، ان سے ایوب نے، ان سے ابوقلابہ نے، ان سے زہدم جرمی نے، ان سے ابوموسیٰ یعنی الاشعری (رض) نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو مرغی کھاتے دیکھا ہے۔

【43】

مرغی کھانے کے بیان میں

ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، کہا ہم سے ایوب بن ابی تمیمہ نے بیان کیا، ان سے قاسم نے، ان سے زہدم جرمی نے بیان کیا کہ ہم سے ابوموسیٰ اشعری (رض) کے پاس تھے ہم میں اور اس قبیلہ جرم میں بھائی چارہ تھا پھر کھانا لایا گیا جس میں مرغی کا گوشت بھی تھا، حاضرین میں ایک شخص سرخ رنگ کا بیٹھا ہوا تھا لیکن وہ کھانے میں شریک نہیں ہوا، ابوموسیٰ (رض) نے اس سے کہا کہ تم بھی شریک ہوجاؤ۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس کا گوشت کھاتے ہوئے دیکھا ہے۔ اس نے کہا کہ میں نے مرغی کو گندگی کھاتے دیکھا تھا اسی وقت سے مجھے اس سے گھن آنے لگی ہے اور میں نے قسم کھالی ہے کہ اب اس کا گوشت نہیں کھاؤں گا۔ ابوموسیٰ (رض) نے کہا کہ شریک ہوجاؤ میں تمہیں خبر دیتا ہوں یا انہوں نے کہا کہ میں تم سے بیان کرتا ہوں کہ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں قبیلہ اشعر کے چند لوگوں کو ساتھ لے کر حاضر ہوا، میں نبی کریم ﷺ کے سامنے آیا تو آپ خفا تھے آپ صدقہ کے اونٹ تقسیم فرما رہے تھے۔ اسی وقت ہم نے نبی کریم ﷺ سے سواری کے لیے اونٹ کا سوال کیا نبی کریم ﷺ نے قسم کھالی کہ آپ ہمیں سواری کے لیے اونٹ نہیں دیں گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میرے پاس تمہارے لیے سواری کا کوئی جانور نہیں ہے۔ اس کے بعد نبی کریم ﷺ کے پاس غنیمت کے اونٹ لائے گئے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اشعری کہاں ہیں، اشعری کہاں ہیں ؟ بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے ہمیں پانچ سفید کوہان والے اونٹ دے دیئے۔ تھوڑی دیر تک تو ہم خاموش رہے لیکن پھر میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ نبی کریم ﷺ اپنی قسم بھول گئے ہیں اور اگر ہم نے نبی کریم ﷺ کو آپ کی قسم کے بارے میں غافل رکھا تو ہم کبھی فلاح نہیں پاسکیں گے۔ چناچہ ہم آپ کی خدمت میں واپس آئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ہم نے آپ سے سواری کے اونٹ ایک مرتبہ مانگے تھے تو آپ نے ہمیں سواری کے لیے کوئی جانور نہ دینے کی قسم کھالی تھی ہمارے خیال میں آپ اپنی قسم بھول گئے ہیں نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ بلاشبہ اللہ ہی کی وہ ذات ہے جس نے تمہیں سواری کے لیے جانور عطا فرمایا۔ اللہ کی قسم ! اگر اللہ نے چاہا تو کبھی ایسا نہیں ہوسکتا کہ میں کوئی قسم کھا لوں اور پھر بعد میں مجھ پر واضح ہوجائے کہ اس کے سوا دوسری چیز اس سے بہتر ہے اور پھر وہی میں نہ کروں جو بہتر ہے، میں قسم توڑ دوں گا اور وہی کروں گا جو بہتر ہوگا اور قسم توڑنے کا کفارہ ادا کر دوں گا۔

【44】

گھوڑے کے گوشت کا بیان

ہم سے حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام نے بیان کیا، ان سے فاطمہ نے اور ان سے اسماء (رض) نے بیان کیا کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ایک گھوڑا ذبح کیا اور اسے کھایا۔

【45】

گھوڑے کے گوشت کا بیان

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے، ان سے محمد بن علی نے اور ان سے جابر بن عبداللہ (رض) نے بیان کیا کہ جنگ خیبر میں رسول اللہ ﷺ نے گدھے کا گوشت کھانے کی ممانعت فرما دی تھی اور گھوڑے کا گوشت کھانے کی رخصت دی تھی۔

【46】

پالتو گدھوں کے گوشت کے بیان میں، اس میں سلمہ کی روایت نبی ﷺ سے منقول ہے

ہم سے صدقہ نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدہ نے خبر دی، انہیں عبیداللہ نے، انہیں سالم اور نافع نے اور انہیں ابن عمر (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے جنگ خیبر کے موقع پر پالتو گدھوں کے گوشت کی ممانعت کردی تھی۔

【47】

پالتو گدھوں کے گوشت کے بیان میں، اس میں سلمہ کی روایت نبی ﷺ سے منقول ہے

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ نے، کہا مجھ سے نافع نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے پالتو گدھوں کے گوشت کی ممانعت کی تھی۔ اس روایت کی متابعت ابن مبارک نے کی تھی، ان سے نافع نے اور ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ نے اور ان سے سالم نے اسی طرح سے بیان کیا۔

【48】

پالتو گدھوں کے گوشت کے بیان میں، اس میں سلمہ کی روایت نبی ﷺ سے منقول ہے

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں محمد بن علی کے بیٹے عبداللہ اور حسن نے اور انہیں ان کے والد نے کہ علی (رض) نے بیان کیا کہ جنگ خیبر کے سال رسول اللہ ﷺ نے متعہ اور پالتو گدھوں کے گوشت کے کھانے سے منع فرما دیا تھا۔

【49】

پالتو گدھوں کے گوشت کے بیان میں، اس میں سلمہ کی روایت نبی ﷺ سے منقول ہے

ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد نے بیان کیا، ان سے عمرو نے، ان سے محمد بن علی نے اور ان سے جابر بن عبداللہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے جنگ خیبر کے موقع پر گدھوں کے گوشت کھانے سے منع فرما دیا تھا اور گھوڑوں کے لیے رخصت فرما دی تھی۔

【50】

پالتو گدھوں کے گوشت کے بیان میں، اس میں سلمہ کی روایت نبی ﷺ سے منقول ہے

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عدی نے بیان کیا اور ان سے براء اور ابن ابی اوفی (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے گدھے کا گوشت کھانے سے منع فرما دیا تھا۔

【51】

پالتو گدھوں کے گوشت کے بیان میں، اس میں سلمہ کی روایت نبی ﷺ سے منقول ہے

ہم سے اسحاق نے بیان کیا، کہا ہم کو یعقوب بن ابراہیم نے خبر دی، کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا، ان سے صالح نے، ان سے ابن شہاب نے، انہیں ابوادریس نے خبر دی اور ان سے ابوثعلبہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے پالتو گدھے کا گوشت کھانا حرام قرار دیا تھا۔ اس روایت کی متابعت زبیدی اور عقیل نے ابن شہاب سے کی ہے۔ مالک، معمر، ماجشون، یونس اور ابن اسحاق نے زہری سے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے ہر پھاڑ کر کھانے والے درندے کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ہے۔

【52】

پالتو گدھوں کے گوشت کے بیان میں، اس میں سلمہ کی روایت نبی ﷺ سے منقول ہے

ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدالوہاب ثقفی نے خبر دی، انہیں ایوب نے، انہیں محمد نے اور انہیں انس بن مالک (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک صاحب آئے اور عرض کیا کہ میں نے گدھے کا گوشت کھالیا ہے پھر دوسرے صاحب آئے اور کہا کہ میں نے گدھے کا گوشت کھالیا ہے پھر تیسرے صاحب آئے اور کہا کہ گدھے ختم ہوگئے۔ اس کے بعد نبی کریم ﷺ نے ایک منادی کے ذریعہ لوگوں میں اعلان کرایا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول تمہیں پالتو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع کرتے ہیں کیونکہ وہ ناپاک ہیں چناچہ اسی وقت ہانڈیاں الٹ دی گئیں حالانکہ وہ (گدھے کے) گوشت سے جوش مار رہی تھیں۔

【53】

پالتو گدھوں کے گوشت کے بیان میں، اس میں سلمہ کی روایت نبی ﷺ سے منقول ہے

ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے عمرو نے بیان کیا کہ میں نے جابر بن زید (رض) سے پوچھا کہ لوگوں کا خیال ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پالتو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع کیا تھا ؟ انہوں نے کہا کہ حکم بن عمرو غفاری (رض) نے ہمیں بصرہ میں یہی بتایا تھا لیکن علم کے سمندر ابن عباس (رض) نے اس سے انکار کیا اور (استدلال میں) اس آیت کی تلاوت کی قل لا أجد فيما أوحي إلى محرما‏۔

【54】

ہر کچلی والی درندے کے کھانے (کی حرمت) کا بیان

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں ابوادریس خولانی نے اور وہ ابوثعلبہ خشنی (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہر پھاڑ کھانے والے درندوں کا گوشت کھانے سے منع کیا تھا۔ اس روایت کی متابعت یونس، معمر، ابن عیینہ اور ماجشون نے زہری کی سند سے کی ہے۔

【55】

مردار کی کھالوں کا بیان

ہم سے زہیر بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا، ان سے صالح نے بیان کیا، کہا مجھ سے ابن شہاب نے بیان کیا، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ نے خبر دی اور انہیں عبداللہ بن عباس (رض) نے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ ایک مری ہوئی بکری کے قریب سے گزرے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم نے اس کے چمڑے سے فائدہ کیوں نہیں اٹھایا ؟ لوگوں نے کہا کہ یہ تو مری ہوئی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ صرف اس کا کھانا حرام کیا گیا ہے۔

【56】

مردار کی کھالوں کا بیان

ہم سے خطاب بن عثمان نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن حمیر نے بیان کیا، ان سے ثابت بن عجلان نے بیان کیا، انہوں نے سعید بن جبیر سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے ابن عباس (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کہ نبی کریم ﷺ ایک مرے ہوئے بکرے کے پاس سے گزرے تو فرمایا کہ اس کے مالکوں کو کیا ہوگیا ہے اگر وہ اس کے چمڑے کو کام میں لاتے (تو بہتر ہوتا) ۔

【57】

مشک کا بیان

ہم سے مسدد نے بیان کیا، ان سے عبدالواحد نے بیان کیا، کہا ہم سے عمارہ بن قعقاع نے بیان کیا، ان سے ابوزرعہ بن عمرو بن جریر نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو زخمی بھی اللہ کے راستے میں زخمی ہوگیا ہو اسے قیامت کے دن اس حالت میں اٹھایا جائے گا کہ اس کے زخم سے جو خون جاری ہوگا اس کا رنگ تو خون ہی جیسا ہوگا مگر اس میں مشک جیسی خوشبو ہوگی۔

【58】

مشک کا بیان

ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے برید بن عبداللہ نے، ان سے بردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ نیک اور برے دوست کی مثال مشک ساتھ رکھنے والے اور بھٹی دھونکنے والے کی سی ہے (جس کے پاس مشک ہے اور تم اس کی محبت میں ہو) وہ اس میں سے یا تمہیں کچھ تحفہ کے طور پردے گا یا تم اس سے خرید سکو گے یا (کم از کم) تم اس کی عمدہ خوشبو سے تو محظوظ ہو ہی سکو گے اور بھٹی دھونکنے والا یا تمہارے کپڑے (بھٹی کی آگ سے) جلا دے گا یا تمہیں اس کے پاس سے ایک ناگوار بدبودار دھواں پہنچے گا۔

【59】

خرگوش کا بیان

ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ہشام بن زید نے اور ان سے انس (رض) نے بیان کیا کہ ہم نے ایک خرگوش کا پیچھا کیا۔ ہم مرالظہران میں تھے۔ لوگ اس کے پیچھے دوڑے اور تھک گئے پھر میں نے اسے پکڑ لیا اور اسے ابوطلحہ (رض) کے پاس لایا۔ انہوں نے اسے ذبح کیا اور اس کے دونوں کو ل ہے یا (راوی نے بیان کیا کہ) اس کی دونوں رانیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجیں اور نبی کریم ﷺ نے انہیں قبول فرمایا۔

【60】

گوہ کا بیان

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالعزیز بن مسلم نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن دینار نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے عبداللہ بن عمر (رض) سے سنا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ساہنہ میں خود نہیں کھاتا لیکن اسے حرام بھی نہیں قرار دیتا۔

【61】

گوہ کا بیان

ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے ابوامامہ بن سہل نے، ان سے عبداللہ بن عباس (رض) نے بیان کیا اور ان سے خالد بن ولید (رض) نے بیان کیا کہ وہ نبی کریم ﷺ کے ساتھ ام المؤمنین میمونہ (رض) کے گھر گئے تو نبی کریم ﷺ کی خدمت میں بھنا ہوا ساہنہ لایا گیا آپ نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا لیکن بعض عورتوں نے کہا کہ آپ جو کھانا دیکھ رہے ہیں اس کے متعلق نبی کریم ﷺ کو بتادو ، عورتوں نے کہا کہ یہ ساہنہ ہے یا رسول اللہ ! چناچہ نبی کریم ﷺ نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! کیا یہ حرام ہے ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ نہیں لیکن چونکہ یہ ہمارے ملک میں نہیں پایا جاتا اس لیے طبیعت اس سے انکار کرتی ہے۔ خالد (رض) نے بیان کیا کہ پھر میں نے اسے اپنی طرف کھینچ لیا اور کھایا اور نبی کریم ﷺ دیکھ رہے تھے۔

【62】

منجمد یا پگھلے ہوئے گھی میں چوہاگر جانے کا بیان

ہم سے حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے زہری نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے خبر دی، انہوں نے ابن عباس (رض) سے سنا، ان سے میمونہ (رض) نے بیان کیا کہ ایک چوہا گھی میں پڑ کر مرگیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا حکم پوچھا گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ چوہے کو اور اس کے چاروں طرف سے گھی کو پھینک دو اور باقی گھی کو کھاؤ۔ سفیان سے کہا گیا کہ معمر اس حدیث کو زہری سے بیان کرتے ہیں کہ ان سے سعید بن مسیب اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے یہ حدیث زہری سے صرف عبیداللہ سے بیان کرتے سنی ہے کہ ان سے ابن عباس (رض) نے، ان سے میمونہ (رض) نے اور ان سے نبی کریم ﷺ نے فرمایا اور میں نے یہ حدیث ان سے بارہا سنی ہے۔

【63】

منجمد یا پگھلے ہوئے گھی میں چوہاگر جانے کا بیان

ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی، انہیں یونس نے، انہیں محمد بن عبداللہ بن شہاب زہری نے کہ اگر کوئی جانور چوہا یا کوئی اور جمے ہوئے یا غیر جمے ہوئے گھی یا تیل میں پڑجائے تو اس کے متعلق کہا کہ ہمیں یہ حدیث پہنچی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے چوہے کہ متعلق جو گھی میں مرگیا تھا، حکم دیا کہ اسے اور اس کے چاروں طرف سے گھی نکال کر پھینک دیا جائے اور پھر باقی گھی کھایا گیا۔ ہمیں یہ حدیث عبیداللہ بن عبداللہ کی سند سے پہنچی ہے۔

【64】

منجمد یا پگھلے ہوئے گھی میں چوہاگر جانے کا بیان

ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عبداللہ بن عبداللہ نے، ان سے عبداللہ بن عباس (رض) نے اور ان سے میمونہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ سے اس چوہے کا حکم پوچھا گیا جو گھی میں گرگیا ہو۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ چوہے کو اور اس کے چاروں طرف سے گھی کو پھینک دو پھر باقی گھی کھالو۔

【65】

چہرہ پر داغ لگانے اور نشان کرنے کا بیان

ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، ان سے حنظلہ نے، ان سے سالم نے، ان سے ابن عمر (رض) نے کہ وہ چہرے پر نشان لگانے کو ناپسند کرتے تھے اور ابن عمر (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے چہرے پر مارنے سے منع کیا ہے۔ عبیداللہ بن موسیٰ کے ساتھ اس حدیث کو قتیبہ بن سعید نے بھی روایت کیا، کہا ہم کو عمرو بن محمد عنقزی نے خبر دی، انہوں نے حنظلہ سے۔

【66】

چہرہ پر داغ لگانے اور نشان کرنے کا بیان

ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ہشام بن زید نے ان سے انس (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں اپنے بھائی (عبداللہ بن ابی طلحہ نومولود) کو لایا تاکہ آپ اس کی تحنیک فرما دیں۔ نبی کریم ﷺ اس وقت اونٹوں کے باڑے میں تشریف رکھتے تھے۔ میں نے دیکھا کہ آپ ایک بکری کو داغ رہے تھے (شعبہ نے کہا کہ) میں سمجھتا ہوں کہ (ہشام نے) کہا کہ اس کے کانوں کو داغ رہے تھے۔

【67】

اگر ایک جماعت کو مال غنیمت ہاتھ لگے اور ان میں سے کوئی شخص اپنے ساتھی کے حکم کے بغیر بکری یا اونٹ ذبح کردے، تو وہ رافع کی حدیث بناء پر نہیں کھایا جائے گا، جو وہ آنحضرت ﷺ سے روایت کرتے ہیں اور طاؤس وعکرمہ نے چور کے ذبیحہ کے متعلق فرمایا کہ اس کو پھینک دو

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوالاحوص نے بیان کیا، ان سے سعید بن مسروق نے بیان کیا، ان سے عبایہ بن رفاعہ نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عبایہ کے دادا رافع بن خدیج (رض) نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا کہ کل ہمارا دشمن سے مقابلہ ہوگا اور ہمارے پاس چھریاں نہیں ہیں ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جو آلہ خون بہا دے اور (جانوروں کو ذبح کرتے وقت) اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو اسے کھاؤ بشرطیکہ ذبح کا آلہ دانت اور ناخن نہ ہو اور میں اس کی وجہ تمہیں بتاؤں گا۔ دانت تو ہڈی ہے اور ناخن حبشیوں کی چھری ہے اور جلدی کرنے والے لوگ آگے بڑھ گئے تھے اور غنیمت پر قبضہ کرلیا تھا لیکن نبی کریم ﷺ پیچھے کے صحابہ کے ساتھ تھے چناچہ (آگے پہنچنے والوں نے جانور ذبح کر کے) ہانڈیاں پکنے کے لیے چڑھا دیں لیکن نبی کریم ﷺ نے انہیں الٹ دینے کا حکم فرمایا۔ پھر آپ ﷺ نے غنیمت لوگوں کے درمیان تقسیم کی۔ اس تقسیم میں ایک اونٹ کو دس بکریوں کے برابر آپ نے قرار دیا تھا پھر آگے کے لوگوں سے ایک اونٹ بدک کر بھاگ گیا۔ لوگوں کے پاس گھوڑے نہیں تھے پھر ایک شخص نے اس اونٹ پر تیر مارا اور اللہ تعالیٰ نے اسے روک لیا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہ جانور بھی کبھی وحشی جانوروں کی طرح بدکنے لگتے ہیں۔ اس لیے جب ان میں سے کوئی ایسا کرے تو تم بھی ان کے ساتھ ایسا ہی کرو۔

【68】

باب

باب : جو شخص بھوک سے بےقرار ہو ( صبر نہ کرسکے) وہ مردار کھا سکتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے (سورۃ البقرہ میں) فرمایا مسلمانو ! ہم نے جو پاکیزہ روزیاں تم کو دی ہیں ان میں سے کھاؤ اور اگر تم خاص کر اللہ کو پوجنے والے ہو (تو ان نعمتوں پر) اس کا شکر ادا کرو اللہ نے تو تم پر بس مردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جانور جس پر اللہ کے سوا اور کسی کا نام پکارا جائے حرام کیا ہے پھر جو کوئی بھوک سے بےقرار ہوجائے بشرطیکہ بےحکمی نہ کرے نہ زیادتی تو اس پر کچھ گناہ نہیں ہے۔ اور اللہ نے سورة المائدہ میں فرمایا پھر جو کوئی بھوک سے لاچار ہوگیا ہو اس کو گناہ کی خواہش نہ ہو۔ اور سورة الانعام میں فرمایا جن جانوروں پر اللہ کا نام لیا جائے ان کو کھاؤ اگر تم اس کی آیتوں پر ایمان رکھتے ہو اور تم کو کیا ہوگیا ہے جو تم ان جانوروں کو نہیں کھاتے جن پر اللہ کا نام لیا گیا ہے اور اللہ نے تو صاف صاف ان چیزوں کو بیان کردیا جن کا کھانا تم پر حرام ہے وہ بھی جب تم لاچار نہ ہوجاؤ (لاچار ہوجاؤ تو ان کو بھی کھا سکتے ہو) اور بہت لوگ ایسے ہیں جو بغیر جانے بوجھے اپنے من مانے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں اور تیرا مالک ایسے حد سے بڑھ جانے والوں کو خوب جانتا ہے۔ اور اللہ نے سورة الانعام میں فرمایا اے پیغمبر ! کہہ دے کہ جو مجھ پر وحی بھیجی گئی اس میں کسی کھانے والے پر کوئی کھانا حرام نہیں جانتا البتہ اگر مردار ہو یا بہتا خون یا سور کا گوشت تو وہ حرام ہے کیونکہ وہ پلید ہے یا کوئی گناہ کی چیز ہو کہ اس پر اللہ کے سوا اور کسی کا نام پکارا گیا ہو پھر جو کوئی بھوک سے لاچار ہوجائے بشرطیکہ بےحکمی نہ کرے نہ زیادتی تو تیرا مالک بخشنے والا مہربان ہے۔ ابن عباس (رض) نے کہا مسفوحا کے معنی بہتا ہوا خون اور سورة النحل میں فرمایا اللہ نے جو تم کو پاکیزہ روزی دی ہے حلال اس کو کھاؤ اور جو تم خالص اللہ کو پوجنے والے ہو تو اس کی نعمت کا شکر ادا کرو، اللہ نے بس تم پر مردار حرام کیا ہے اور بہتا ہوا خون اور سور کا گوشت اور وہ جانور جس پر اللہ کے سوا اور کسی کا نام پکارا جائے پھر جو کوئی بےحکمی اور زیادتی کی نیت نہ رکھتا ہو لیکن بھوک سے مجبور ہوجائے (وہ ان چیزوں کو بھی کھالے) تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔