59. بیماریوں کا بیان
مرض کے کفارہ ہونے کے متعلق جو احادیث ہیں، ان کا بیان اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ جو شخص برائی کرے گا، اس کا بدلہ دیا جائے گا۔
ہم سے ابوالیمان حکم بن نافع نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ کو عروہ بن زبیر نے خبر دی اور ان سے نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ عائشہ صدیقہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو مصیبت بھی کسی مسلمان کو پہنچتی ہے اللہ تعالیٰ اسے اس کے گناہ کا کفارہ کردیتا ہے (کسی مسلمان کے) ایک کانٹا بھی اگر جسم کے کسی حصہ میں چبھ جائے۔
مرض کے کفارہ ہونے کے متعلق جو احادیث ہیں، ان کا بیان اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ جو شخص برائی کرے گا، اس کا بدلہ دیا جائے گا۔
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالملک بن عمرو نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے زہیر بن محمد نے بیان کیا، ان سے محمد بن عمرو بن حلحلہ نے، ان سے عطاء بن یسار نے اور ان سے ابو سعید خدری اور ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ مسلمان جب بھی کسی پریشانی، بیماری، رنج و ملال، تکلیف اور غم میں مبتلا ہوجاتا ہے یہاں تک کہ اگر اسے کوئی کانٹا بھی چبھ جائے تو اللہ تعالیٰ اسے اس کے گناہوں کا کفارہ بنا دیتا ہے۔
مرض کے کفارہ ہونے کے متعلق جو احادیث ہیں، ان کا بیان اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ جو شخص برائی کرے گا، اس کا بدلہ دیا جائے گا
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، ان سے سعد نے، ان سے عبداللہ بن کعب نے اور ان سے ان کے والد نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ مومن کی مثال پودے کی سب سے پہلی نکلی ہوئی ہری شاخ جیسی ہے کہ ہوا اسے کبھی جھکا دیتی ہے اور کبھی برابر کردیتی ہے اور منافق کی مثال صنوبر کے درخت جیسی ہے کہ وہ سیدھا ہی کھڑا رہتا ہے اور آخر ایک جھوکے میں کبھی اکھڑ ہی جاتا ہے۔ اور زکریا نے بیان کیا کہ ہم سے سعد نے بیان کیا، ان سے ابن کعب نے بیان کیا، ان سے ان کے والد ماجد محترم المقام کعب (رض) نے نبی کریم ﷺ سے یہی بیان کیا۔
مرض کے کفارہ ہونے کے متعلق جو احادیث ہیں، ان کا بیان اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ جو شخص برائی کرے گا، اس کا بدلہ دیا جائے گا
ہم سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے محمد بن فلیح نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، ان سے بنی عامر بن لوی کے ایک مرد ہلال بن علی نے، ان سے عطاء بن یسار نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مومن کی مثال پودے کی پہلی نکلی ہوئی ہری شاخ جیسی ہے کہ جب بھی ہوا چلتی ہے اسے جھکا دیتی ہے پھر وہ سیدھا ہو کر مصیبت برداشت کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے اور بدکار کی مثال صنوبر کے درخت جیسی ہے کہ سخت ہوتا ہے اور سیدھا کھڑا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ جب چاہتا ہے اسے اکھاڑ کر پھینک دیتا ہے۔
مرض کے کفارہ ہونے کے متعلق جو احادیث ہیں، ان کا بیان اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ جو شخص برائی کرے گا، اس کا بدلہ دیا جائے گا
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں محمد بن عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن ابی صعصعہ نے، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے سعید بن یسار ابوالحباب سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے ابوہریرہ (رض) سے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ خیر و بھلائی کرنا چاہتا ہے اسے بیماری کی تکالیف اور دیگر مصیبتوں میں مبتلا کردیتا ہے۔
مرض کی شدت کا بیان
ہم سے قبیصہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان سے بیان کیا، ان سے اعمش نے (دوسری سند) اور امام بخاری (رح) نے کہا کہ مجھ سے بشر بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی، کہا ہم کو شعبہ نے خبر دی، انہیں اعمش نے، انہیں ابو وائل نے، انہیں مسروق نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ میں نے (مرض وفات کی تکلیف) رسول اللہ ﷺ سے زیادہ اور کسی میں نہیں دیکھی۔
مرض کی شدت کا بیان
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابراہیم تیمی نے، ان سے حارث بن سوید نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آپ کے مرض کے زمانہ میں حاضر ہوا نبی کریم ﷺ اس وقت بڑے تیز بخار میں تھے۔ میں نے عرض کیا : (یا رسول اللہ ! ) آپ کو بڑا تیز بخار ہے۔ میں نے یہ بھی کہا کہ یہ بخار آپ کو اس لیے اتنا تیز ہے کہ آپ کا ثواب بھی دوگنا ہے آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں جو مسلمان کسی بھی تکلیف میں گرفتار ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس کے گناہ اس طرح جھاڑ دیتا ہے جیسے درخت کے پتے جھڑ جاتے ہیں۔
لوگوں میں انبیاء پر بہت زیادہ سختی ہوتی ہے پھر رتبہ کے مطابق درجہ بدرجہ سب پر ہوتی ہے۔
ہم سے عبدان نے بیان کیا، ان سے ابوحمزہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابراہیم تیمی نے، ان سے حارث بن سوید نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا آپ کو شدید بخار تھا میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! آپ کو بہت تیز بخار ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہاں مجھے تنہا ایسا بخار ہوتا ہے جتنا تم میں کے دو آدمیوں کو ہوتا ہے میں نے عرض کیا یہ اس لیے کہ آپ کا ثواب بھی دوگنا ہے ؟ فرمایا کہ ہاں یہی بات ہے، مسلمان کو جو بھی تکلیف پہنچتی ہے کاٹنا ہو یا اس سے زیادہ تکلیف دینے والی کوئی چیز تو جیسے درخت اپنے پتوں کو گراتا ہے اسی طرح اللہ پاک اس تکلیف کو اس (مسلمان) کے گناہوں کا کفارہ بنا دیتا ہے۔
مریض کی عیادت کے واجب ہونے کا بیان
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے ابو وائل نے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بھوکے کو کھانا کھلاؤ اور مریض کی عیادت یعنی مزاج پرسی کرو اور قیدی کو چھڑاؤ۔
مریض کی عیادت کے واجب ہونے کا بیان
ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھے اشعث بن سلیم نے خبر دی، کہا کہ میں نے معاویہ بن سوید بن مقرن سے سنا، ان سے براء بن عازب (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں سات باتوں کا حکم دیا تھا اور سات باتوں سے منع فرمایا تھا۔ ہمیں نبی کریم ﷺ نے سونے کی انگوٹھی، ریشم، دیبا، استبرق (ریشمی کپڑے) پہننے سے اور قسی اور مثیرہ (ریشمی) کپڑوں کی دیگر جملہ قسمیں پہننے سے منع فرمایا تھا اور آپ نے ہمیں یہ حکم دیا تھا کہ ہم جنازہ کے پیچھے چلیں، مریض کی مزاج پرسی کریں اور سلام کو پھیلائیں۔
بے ہوش آدمی کی عیادت کا بیان
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے ابن المنکدر نے، انہوں نے جابر بن عبداللہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں ایک مرتبہ بیمار پڑا تو نبی کریم ﷺ اور ابوبکر صدیق (رض) پیدل میری عیادت کو تشریف لائے ان بزرگوں نے دیکھا کہ مجھ پر بےہوشی غالب ہے۔ چناچہ نبی کریم ﷺ نے وضو کیا اور اپنے وضو کا پانی مجھ پر چھڑکا، اس سے مجھے ہوش آگیا تو میں نے دیکھا کہ نبی کریم ﷺ تشریف رکھتے ہیں، میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! میں اپنے مال میں کیا کروں کس طرح اس کا فیصلہ کروں ؟ نبی کریم ﷺ نے مجھے کوئی جواب نہیں دیا۔ یہاں تک کہ میراث کی آیت نازل ہوئی۔
اس کی فضیلت کا بیان جسے مرگی آتی ہو (اور وہ اس پر صابر وشاکر ہو)
مجھ سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا، تمہیں میں ایک جنتی عورت کو نہ دکھا دوں؟ میں نے عرض کیا کہ ضرور دکھائیں، کہا کہ ایک سیاہ عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی اور کہا کہ مجھے مرگی آتی ہے اور اس کی وجہ سے میرا ستر کھل جاتا ہے۔ میرے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کر دیجئیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تو چاہے تو صبر کر تجھے جنت ملے گی اور اگر چاہے تو میں تیرے لیے اللہ سے اس مرض سے نجات کی دعا کر دوں۔ اس نے عرض کیا کہ میں صبر کروں گی پھر اس نے عرض کیا کہ مرگی کے وقت میرا ستر کھل جاتا ہے۔ آپ اللہ تعالیٰ سے اس کی دعا کر دیں کہ ستر نہ کھلا کرے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دعا فرمائی۔
اس شخص کی فضیلت کا بیان، جس کی بینائی جاتی رہے
ہم سے عبداللہ بن یوسف تینسی نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے یزید بن عبداللہ بن ہاد نے بیان کیا، ان سے مطلب بن عبداللہ بن جذب کے غلام عمرو نے اور ان سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جب میں اپنے کسی بندہ کو اس کے دو محبوب اعضاء (آنکھوں) کے بارے میں آزماتا ہوں ( یعنی نابینا کردیتا ہوں) اور وہ اس پر صبر کرتا ہے تو اس کے بدلے میں اسے جنت دیتا ہوں۔
عورتوں کا مردوں کی عیادت کرنے کا بیان اور ام درداء (رض) نے ایک انصاری مرد کی عیادت کی جو مسجد میں رہتے تھے
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ ﷺ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو ابوبکر (رض) اور بلال (رض) کو بخار ہوگیا۔ بیان کیا کہ پھر میں ان کے پاس (عیادت کے لیے) گئی اور پوچھا، محترم والد بزرگوار آپ کا مزاج کیسا ہے ؟ بلال (رض) سے بھی پوچھا کہ آپ کا کیا حال ہے ؟ بیان کیا کہ جب ابوبکر (رض) کو بخار ہوا تو وہ یہ شعر پڑھا کرتے تھے ہر شخص اپنے گھر والوں میں صبح کرتا ہے اور موت اس کے تسمے سے بھی زیادہ قریب ہے۔ اور بلال (رض) کو جب افاقہ ہوتا تو یہ شعر پڑھتے تھے کاش مجھے معلوم ہوتا کہ کیا پھر ایک رات وادی میں گزار سکوں گا اور میرے چاروں طرف اذخر اور جلیل (مکہ مکرمہ کی گھاس) کے جنگل ہوں گے اور کیا میں کبھی مجنہ (مکہ سے چند میل کے فاصلہ پر ایک بازار) کے پانی پر اتروں گا اور کیا پھر کبھی شامہ اور طفیل (مکہ کے قریب دو پہاڑوں) کو میں اپنے سامنے دیکھ سکوں گا۔ عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ پھر میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ کو اس کی اطلاع دی آپ ﷺ نے دعا فرمائی کہ اے اللہ ! ہمارے دل میں مدینہ کی محبت بھی اتنی ہی کر دے جتنی مکہ کی محبت ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ اور اس کی آب و ہوا کو ہمارے موافق کر دے اور ہمارے لیے اس کے مد اور صاع میں برکت عطا فرما، اللہ اس کا بخار کہیں اور جگہ منتقل کر دے اسے مقام جحفہ میں بھیج دے۔
بچوں کی عیادت کا بیان
ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عاصم نے خبر دی، کہا کہ میں نے ابوعثمان سے سنا اور انہوں نے اسامہ بن زید (رض) سے کہ نبی کریم ﷺ کی ایک صاحبزادی (زینب رضی اللہ عنہا) نے آپ کو کہلوا بھیجا۔ اس وقت نبی کریم ﷺ کے ساتھ سعد (رض) اور ہمارا خیال ہے کہ ابی بن کعب (رض) تھے کہ میری بچی بستر مرگ پر پڑی ہے اس لیے نبی کریم ﷺ ہمارے یہاں تشریف لائیں۔ نبی کریم ﷺ نے انہیں سلام کہلوایا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو اختیار ہے جو چاہے دے اور جو چاہے لے لے ہر چیز اس کے یہاں متعین و معلوم ہے۔ اس لیے اللہ سے اس مصیبت پر اجر کی امیدوار رہو اور صبر کرو۔ صاحبزادی نے پھر دوبارہ قسم دے کر ایک آدمی بلانے کو بھیجا۔ چناچہ آپ کھڑے ہوئے اور ہم بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہوگئے پھر بچی نبی کریم ﷺ کی گود میں اٹھا کر رکھی گئی اور وہ جانکنی کے عالم میں پریشان تھی۔ آپ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اس پر سعد (رض) نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! یہ کیا ہے ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا یہ رحمت ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس کے دل میں چاہتا ہے رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ بھی اپنے انہیں بندوں پر رحم کرتا ہے جو خود بھی رحم کرنے والے ہوتے ہیں۔
اعراب کی عیادت کرنے کا بیان
ہم سے معلی بن اسد نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن مختار نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ ایک دیہاتی کے پاس اس کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ راوی نے بیان کیا کہ جب نبی کریم ﷺ کسی کی عیادت کو تشریف لے جاتے تو مریض سے فرماتے لا بأس طهور إن شاء الله کوئی فکر کی بات نہیں۔ انشاء اللہ یہ مرض گناہوں سے پاک کرنے والا ہے لیکن اس دیہاتی نے آپ کے ان مبارک کلمات کے جواب میں کہا کہ آپ کہتے ہیں کہ یہ پاک کرنے والا ہے ہرگز نہیں بلکہ یہ بخار ایک بوڑھے پر غالب آگیا ہے اور اسے قبر تک پہنچا کے رہے گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر ایسا ہی ہوگا۔
مشرک کی عیادت کرنے کا بیان
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ثابت نے اور ان سے انس (رض) نے کہ ایک یہودی لڑکا (عبدوس نامی) نبی کریم ﷺ کی خدمت کیا کرتا تھا وہ بیمار ہوا تو نبی کریم ﷺ اس کی مزاج پرسی کے لیے تشریف لائے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اسلام قبول کرلے چناچہ اس نے اسلام قبول کرلیا اور سعید بن مسیب نے بیان کیا اپنے والد سے کہ جب ابوطالب کی وفات کا وقت قریب ہوا تو نبی کریم ﷺ ان کے پاس مزاج پرسی کے لیے تشریف لے گئے۔
اگر کوئی شخص کسی مریض کی عیادت کو جائے اور نماز کا وقت آجائے تو وہیں جماعت سے نماز پڑھ لینے کا بیان
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھے میرے والد نے خبر دی اور انہیں عائشہ (رض) نے کہ کچھ صحابہ نبی کریم ﷺ کی آپ کے ایک مرض کے دوران مزاج پرسی کرنے آئے۔ نبی کریم ﷺ نے انہیں بیٹھ کر نماز پڑھائی لیکن صحابہ کھڑے ہو کر ہی نماز پڑھ رہے تھے۔ اس لیے نبی کریم ﷺ نے انہیں بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ امام اس لیے ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے پس جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو، جب وہ سر اٹھائے تو تم (مقتدی) بھی اٹھاؤ اور اگر وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر پڑھو۔ ابوعبداللہ امام بخاری (رح) نے کہا کہ مطابق قول حمیدی یہ حدیث منسوخ ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ نے آخر (مرض الوفات ) میں نماز بیٹھ کر پڑھائی اور لوگ آپ کے پیچھے کھڑے ہو کر اقتداء کر رہے تھے۔
مریض پر ہاتھ رکھنے کا بیان۔
ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم کو جعید بن عبدالرحمٰن نے خبر دی، انہیں عائشہ بنت سعد نے کہ ان کے والد (سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ) نے بیان کیا کہ میں مکہ میں بہت سخت بیمار پڑگیا تو رسول اللہ ﷺ میری مزاج پرسی کے لیے تشریف لائے۔ میں نے عرض کیا : اے اللہ کے نبی ! (اگر وفات ہوگئی تو) میں مال چھوڑوں گا اور میرے پاس سوا ایک لڑکی کے اور کوئی وارث نہیں ہے۔ کیا میں اپنے دو تہائی مال کی وصیت کر دوں اور ایک تہائی چھوڑ دوں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ نہیں میں نے عرض کیا پھر آدھے کی وصیت کر دوں اور آدھا (اپنی بچی کے لیے) چھوڑ دوں فرمایا کہ نہیں پھر میں نے کہا کہ ایک تہائی کی وصیت کر دوں اور باقی دو تہائی لڑکی کے لیے چھوڑ دوں ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ایک تہائی کر دو اور ایک تہائی بھی بہت ہے۔ پھر نبی کریم ﷺ نے اپنا ہاتھ ان کی پیشانی پر رکھا (سعد (رض) نے بیان کیا) اور میرے چہرے اور پیٹ پر آپ ﷺ نے اپنا مبارک ہاتھ پھیرا پھر فرمایا : اے اللہ ! سعد کو شفاء عطا فرما اور اس کی ہجرت کو مکمل کر۔ نبی کریم ﷺ کے دست مبارک کی ٹھنڈک اپنے جگر کے حصہ پر میں اب تک پا رہا ہوں۔
مریض پر ہاتھ رکھنے کا بیان۔
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، ان سے ابراہیم تیمی نے بیان کیا، ان سے حارث بن سوید نے بیان کیا کہ عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہا، میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ کو بخار آیا ہوا تھا میں نے اپنے ہاتھ سے نبی کریم ﷺ کا جسم چھوا اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! آپ کو تو بڑا تیز بخار ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہاں مجھے تم میں کے دو آدمیوں کے برابر بخار چڑھتا ہے۔ میں نے عرض کیا یہ اس لیے ہوگا کہ آپ کو دگنا اجر ملتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں اس کے بعد نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ کسی بھی مسلمان کو مرض کی تکلیف یا کوئی اور کوئی تکلیف ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو اس طرح گراتا ہے جیسے درخت اپنے پتوں کو گرا دیتا ہے۔
مریض سے کیا کہا جائے اور وہ کیا جواب دے
ہم سے قبیصہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، ان سے ابراہیم تیمی نے، ان سے حارث بن سوید نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں جب آپ بیمار تھے حاضر ہوا۔ میں نے آپ کا جسم چھوا، آپ کو تیز بخار تھا۔ میں نے عرض کیا آپ کو تو بڑا تیز بخار ہے یہ اس لیے ہوگا کہ آپ کو دگنا ثواب ملے گا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہاں اور کسی مسلمان کو بھی جب کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اس کے گناہ اس طرح جھڑ جاتے ہیں جیسے درخت کے پتے جھڑ جاتے ہیں۔
مریض سے کیا کہا جائے اور وہ کیا جواب دے
ہم سے اسحاق بن شاہین واسطی نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے خالد حذاء نے، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ ایک شخص کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے اور ان سے فرمایا لا بأس طهور إن شاء الله کہ کوئی فکر نہیں اگر اللہ نے چاہا (یہ مرض) گناہوں سے پاک کرنے والا ہوگا لیکن اس نے یہ جواب دیا کہ ہرگز نہیں یہ تو ایسا بخار ہے جو ایک بوڑھے پر غالب آچکا ہے اور اسے قبر تک پہنچا کر ہی رہے گا، اس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پھر ایسا ہی ہوگا۔
سوار ہو کر پیدا پا اور گدھے پر کسی کے پیچھے سوار ہو کر عیادت کو جانے کا بیان
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ نے، انہیں اسامہ بن زید (رض) نے خبر دی کہ نبی کریم ﷺ گدھے کی پالان پر فدک کی چادر ڈال کر اس پر سوار ہوئے اور اسامہ بن زید (رض) کو اپنے پیچھے سوار کیا، نبی کریم ﷺ سعد بن عبادہ (رض) کی عیادت کو تشریف لے جا رہے تھے، یہ جنگ بدر سے پہلے کا واقعہ ہے۔ نبی کریم ﷺ روانہ ہوئے اور ایک مجلس سے گزرے جس میں عبداللہ بن ابی بن سلول بھی تھا۔ عبداللہ ابھی مسلمان نہیں ہوا تھا اس مجلس میں ہر گروہ کے لوگ تھے مسلمان بھی، مشرکین بھی یعنی بت پرست اور یہودی بھی۔ مجلس میں عبداللہ بن رواحہ (رض) بھی تھے، سواری کی گرد جب مجلس تک پہنچی تو عبداللہ بن ابی نے اپنی چادر اپنی ناک پر رکھ لی اور کہا کہ ہم پر گرد نہ اڑاؤ۔ پھر نبی کریم ﷺ نے انہیں سلام کیا اور سواری روک کر وہاں اتر گئے پھر آپ نے انہیں اللہ کے طرف بلایا اور قرآن مجید پڑھ کر سنایا۔ اس پر عبداللہ بن ابی نے کہا میاں تمہاری باتیں میری سمجھ میں نہیں آتیں اگر حق ہیں تو ہماری مجلس میں انہیں بیان کر کے ہم کو تکلیف نہ پہنچایا کرو، اپنے گھر جاؤ وہاں جو تمہارے پاس آئے اس سے بیان کرو۔ اس پر ابن رواحہ (رض) نے کہا کیوں نہیں یا رسول اللہ ! آپ ہماری مجلسوں میں ضرور تشریف لائیں کیونکہ ہم ان باتوں کو پسند کرتے ہیں۔ اس پر مسلمانوں، مشرکوں اور یہودیوں میں جھگڑے بازی ہوگئی اور قریب تھا کہ ایک دوسرے پر حملہ کر بیٹھتے لیکن آپ انہیں خاموش کرتے رہے یہاں تک کہ سب خاموش ہوگئے پھر نبی کریم ﷺ اپنی سواری پر سوار ہو کر سعد بن عبادہ (رض) کے یہاں تشریف لے گئے اور ان سے فرمایا سعد ! تم نے سنا نہیں ابوحباب نے کیا کہا، آپ کا اشارہ عبداللہ بن ابی کی طرف تھا۔ اس پر سعد (رض) بولے کہ یا رسول اللہ ! اسے معاف کر دیجئیے اور اس سے درگزر فرمایئے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وہ نعمت عطا فرما دی جو عطا فرمانی تھی (آپ کے مدینہ تشریف لانے سے پہلے) اس بستی کے لوگ اس پر متفق ہوگئے تھے کہ اسے تاج پہنا دیں اور اپنا سردار بنالیں لیکن جب اللہ تعالیٰ نے اس منصوبہ کو اس حق کے ذریعہ جو آپ کو اس نے عطا فرمایا ہے ختم کردیا تو وہ اس پر بگڑ گیا یہ جو کچھ معاملہ اس نے آپ کے ساتھ کیا ہے اسی کا نتیجہ ہے۔
سوار ہو کر پیدا پا اور گدھے پر کسی کے پیچھے سوار ہو کر عیادت کو جانے کا بیان
ہم سے عمرو بن عباس نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرحمٰن نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے محمد نے جو منکدر کے بیٹے ہیں اور ان سے جابر بن عبداللہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ میری عیادت کے لیے تشریف لائے آپ نہ کسی خچر پر سوار تھے نہ کسی گھوڑے پر۔ (بلکہ آپ پیدل تشریف لائے تھے) ۔
مریض کا کہنا کہ میرے تکلیف ہے ہائے میرا سر اور مجھے سخت درد ہے اور حضرت ایوب (علیہ السلام) کا کہنا کہ مجھے بیماری لگ گئی ہے اور تو بہت بڑا رحم کرنے والا ہے
ہم سے قبیصہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے ابن ابی نجیح اور ایوب نے، ان سے مجاہد نے، ان سے عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ نے اور ان سے کعب بن عجرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ میرے قریب سے گزرے اور میں ہانڈی کے نیچے آگ سلگا رہا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کیا تمہارے سر کی جو ویں تمہیں تکلیف پہنچاتی ہیں۔ میں نے عرض کیا : جی ہاں ! پھر آپ ﷺ نے حجام بلوایا اور اس نے میرا سر مونڈ دیا اس کے بعد نبی کریم ﷺ نے مجھے فدیہ ادا کردینے کا حکم فرمایا۔
مریض کا کہنا کہ میرے تکلیف ہے ہائے میرا سر اور مجھے سخت درد ہے اور حضرت ایوب (علیہ السلام) کا کہنا کہ مجھے بیماری لگ گئی ہے اور تو بہت بڑا رحم کرنے والا ہے
ہم سے یحییٰ بن یحییٰ ابوزکریا نے بیان کیا، کہا ہم کو سلیمان بن بلال نے خبر دی، ان سے یحییٰ بن سعید نے، کہ میں نے قاسم بن محمد سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ (سر کے شدید درد کی وجہ سے) عائشہ (رض) نے کہا : ہائے رے سر ! اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اگر ایسا میری زندگی میں ہوگیا (یعنی تمہارا انتقال ہوگیا) تو میں تمہارے لیے استغفار اور دعا کروں گا۔ عائشہ (رض) نے کہا افسوس، اللہ کی قسم ! میرا خیال ہے کہ آپ میرا مرجانا ہی پسند کرتے ہیں اور اگر ایسا ہوگیا تو آپ تو اسی دن رات اپنی کسی بیوی کے یہاں گزاریں گے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا بلکہ میں خود درد سر میں مبتلا ہوں۔ میرا ارادہ ہوتا تھا کہ ابوبکر (رض) اور ان کے بیٹے کو بلا بھیجوں اور انہیں (خلافت کی) وصیت کر دوں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ میرے بعد کہنے والے کچھ اور کہیں (کہ خلافت ہمارا حق ہے) یا آرزو کرنے والے کسی اور بات کی آرزو کریں (کہ ہم خلیفہ ہوجائیں) پھر میں نے اپنے جی میں کہا (اس کی ضرورت ہی کیا ہے) خود اللہ تعالیٰ ابوبکر (رض) کے سوا اور کسی کو خلیفہ نہ ہونے دے گا نہ مسلمان اور کسی کی خلافت ہی قبول کریں گے۔
مریض کا کہنا کہ میرے تکلیف ہے ہائے میرا سر اور مجھے سخت درد ہے اور حضرت ایوب (علیہ السلام) کا کہنا کہ مجھے بیماری لگ گئی ہے اور تو بہت بڑا رحم کرنے والا ہے
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن مسلم نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان اعمش نے بیان کیا، ان سے ابراہیم تیمی نے، ان سے حارث بن سوید نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ کو بخار آیا ہوا تھا میں نے آپ کا جسم چھو کر عرض کیا کہ آپ کو بڑا تیز بخار ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہاں تم میں کے دو آدمیوں کے برابر ہے۔ ابن مسعود (رض) نے عرض کیا کہ نبی کریم ﷺ کا اجر بھی دو گنا ہے۔ کہا ہاں پھر آپ نے فرمایا کہ کسی مسلمان کو بھی جب کسی مرض کی تکلیف یا اور کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اللہ اس کے گناہ کو اس طرح جھاڑ دیتا ہے جس طرح درخت اپنے پتوں کو جھاڑتا ہے۔
مریض کا کہنا کہ میرے تکلیف ہے ہائے میرا سر اور مجھے سخت درد ہے اور حضرت ایوب (علیہ السلام) کا کہنا کہ مجھے بیماری لگ گئی ہے اور تو بہت بڑا رحم کرنے والا ہے
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ بن ابی سلمہ نے بیان کیا، کہا ہم کو زہری نے خبر دی، انہیں عامر بن سعد بن ابی وقاص نے اور ان سے ان کے والد نے کہ ہمارے یہاں رسول اللہ ﷺ میری عیادت کے لیے تشریف لائے میں حجۃ الوداع کے زمانہ میں ایک سخت بیماری میں مبتلا ہوگیا تھا میں نے عرض کیا کہ میری بیماری جس حد کو پہنچ چکی ہے اسے آپ دیکھ رہے ہیں، میں صاحب دولت ہوں اور میری وارث میری صرف ایک لڑکی کے سوا اور کوئی نہیں تو کیا میں اپنا دو تہائی مال صدقہ کروں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ نہیں۔ میں نے عرض کیا پھر آدھا کر دوں، آپ نے فرمایا کہ نہیں۔ میں نے عرض کیا ایک تہائی کر دوں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تہائی بہت کافی ہے اگر تم اپنے وارثوں کو غنی چھوڑ کر جاؤ یہ اس سے بہتر ہے کہ انہیں محتاج چھوڑو اور وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں اور تم جو بھی خرچ کرو گے اور اس سے اللہ کی خوشنودی حاصل کرنا مقصود ہوگا اس پر بھی تمہیں ثواب ملے گا۔ یہاں تک کہ اس لقمہ پر بھی تمہیں ثواب ملے گا جو تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتے ہو۔
مریض کا یہ کہنا کہ میرے پاس سے چلے جاؤ
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، ان سے معمر نے (دوسری سند) اور مجھ سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات کا وقت قریب آیا تو گھر میں کئی صحابہ موجود تھے۔ عمر بن خطاب (رض) بھی وہیں موجود تھے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ لاؤ میں تمہارے لیے ایک تحریر لکھ دوں تاکہ اس کے بعد تم غلط راہ پر نہ چلو۔ عمر (رض) نے اس پر کہا کہ نبی کریم ﷺ اس وقت سخت تکلیف میں ہیں اور تمہارے پاس قرآن مجید تو موجود ہے ہی، ہمارے لیے اللہ کی کتاب کافی ہے۔ اس مسئلہ پر گھر میں موجود صحابہ کا اختلاف ہوگیا اور بحث کرنے لگے۔ بعض صحابہ کہتے تھے کہ نبی کریم ﷺ کو (لکھنے کی چیزیں) دے دو تاکہ نبی کریم ﷺ ایسی تحریر لکھ دیں جس کے بعد تم گمراہ نہ ہو سکو اور بعض صحابہ وہ کہتے تھے جو عمر (رض) نے کہا تھا۔ جب نبی کریم ﷺ کے پاس اختلاف اور بحث بڑھ گئی تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہاں سے چلے جاؤ۔ عبیداللہ نے بیان کیا کہ ابن عباس (رض) کہا کرتے تھے کہ سب سے زیادہ افسوس یہی ہے کہ ان کے اختلاف اور بحث کی وجہ سے نبی کریم ﷺ نے وہ تحریر نہیں لکھی جو آپ مسلمانوں کے لیے لکھنا چاہتے تھے۔
مریض بچے کو لے جانا تاکہ اس کے لئے دعائے صحت کیا جائے
ہم سے ابراہیم بن حمزہ نے بیان کیا، کہا ہم سے حاتم بن اسماعیل نے بیان کیا، ان سے جعید بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا کہ میں نے سائب بن یزید (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ مجھے میری خالہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بچپن میں لے گئیں اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! میرے بھانجے کو درد ہے۔ نبی کریم ﷺ نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور میرے لیے برکت کی دعا کی پھر آپ ﷺ نے وضو کیا اور میں نے آپ کے وضو کا پانی پیا اور میں نے آپ کی پیٹھ کے پیچھے کھڑے ہو کر نبوت کی مہر آپ کے دونوں شانوں کے درمیان دیکھی۔ یہ مہر نبوت حجلہ عروس کی گھنڈی جیسی تھی۔
مریض کاموت کی آرزو کرنا
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ثابت بنانی نے بیان کیا اور ان سے انس بن مالک (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ کسی تکلیف میں اگر کوئی شخص مبتلا ہو تو اسے موت کی تمنا نہیں کرنی چاہیئے اور اگر کوئی موت کی تمنا کرنے ہی لگے تو یہ کہنا چاہیئے اللهم أحيني ما کانت الحياة خيرا لي، وتوفني إذا کانت الوفاة خيرا لي اے اللہ ! جب تک زندگی میرے لیے بہتر ہے مجھے زندہ رکھ اور جب موت میرے لیے بہتر ہو تو مجھ کو اٹھا لے۔
مریض کاموت کی آرزو کرنا
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے، ان سے اسماعیل بن ابی خالد نے اور ان سے قیس بن ابی حازم نے بیان کیا کہ ہم خباب بن ارت (رض) کے یہاں ان کی عیادت کو گئے انہوں نے اپنے پیٹ میں سات داغ لگوائے تھے پھر انہوں نے کہا کہ ہمارے ساتھی جو رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں وفات پاچکے وہ یہاں سے اس حال میں رخصت ہوئے کہ دنیا ان کا اجر و ثواب کچھ نہ گھٹا سکی اور ان کے عمل میں کوئی کمی نہیں ہوئی اور ہم نے (مال و دولت) اتنی پائی کہ جس کے خرچ کرنے کے لیے ہم نے مٹی کے سوا اور کوئی محل نہیں پایا (لگے عمارتیں بنوانے) اور اگر نبی کریم ﷺ نے ہمیں موت کی دعا کرنے سے منع نہ کیا ہوتا تو میں اس کی دعا کرتا پھر ہم ان کی خدمت میں دوبارہ حاضر ہوئے تو وہ اپنی دیوار بنا رہے تھے انہوں نے کہا مسلمان کو ہر اس چیز پر ثواب ملتا ہے جسے وہ خرچ کرتا ہے مگر اس (کم بخت) عمارت میں خرچ کرنے کا ثواب نہیں ملتا۔
مریض کاموت کی آرزو کرنا
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، کہا ہمیں عبدالرحمٰن بن عوف (رض) کے غلام ابوعبیدہ نے خبر دی اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ ﷺ نے فرمایا کسی شخص کا عمل اسے جنت میں داخل نہیں کرسکے گا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! آپ کا بھی نہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں، میرا بھی نہیں، سوا اس کے کہ اللہ اپنے فضل و رحمت سے مجھے نوازے اس لیے (عمل میں) میانہ روی اختیار کرو اور قریب قریب چلو اور تم میں کوئی شخص موت کی تمنا نہ کرے کیونکہ یا وہ نیک ہوگا تو امید ہے کہ اس کے اعمال میں اور اضافہ ہوجائے اور اگر وہ برا ہے تو ممکن ہے وہ توبہ ہی کرے۔
مریض کاموت کی آرزو کرنا
ہم سے عبداللہ بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے ہشام نے، ان سے عباد بن عبداللہ بن زبیر نے بیان کیا کہ میں نے عائشہ (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، نبی کریم ﷺ میرا سہارا لیے ہوئے تھے (مرض الموت میں) اور فرما رہے تھے اللهم اغفر لي وارحمني وألحقني بالرفيق الأعلى اے اللہ ! میری مغفرت فرما مجھ پر رحم کر اور مجھ کو اچھے رفیقوں (فرشتوں اور پیغمبروں) کے ساتھ ملا دے۔
عیادت کرنے والے کا مریض کے لئے دعا کرنا اور عائشہ بنت سعد نے اپنے والد سے نقل کیا کہ یا اللہ! سعد کو شفا دے یہ نبی ﷺ نے فرمایا تھا
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے ابراہیم نے، ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی مریض کے پاس تشریف لے جاتے یا کوئی مریض آپ کے پاس لایا جاتا تو آپ ﷺ یہ دعا فرماتے أذهب الباس رب الناس، اشف وأنت الشافي لا شفاء إلا شفاؤك، شفاء لا يغادر سقما اے پروردگار لوگوں کے ! بیماری دور کر دے، اے انسانوں کے پالنے والے ! شفاء عطا فرما، تو ہی شفاء دینے والا ہے۔ تیری شفاء کے سوا اور کوئی شفاء نہیں، ایسی شفاء دے جس میں مرض بالکل باقی نہ رہے۔ اور عمرو بن ابی قیس اور ابراہیم بن طہمان نے منصور سے بیان کیا، انہوں نے ابراہیم اور ابوالضحیٰ سے کہ جب کوئی مریض نبی کریم ﷺ کے پاس لایا جاتا۔ اور جریر بن عبدالحمید نے منصور سے، انہوں نے ابوالضحی اکیلے سے یوں روایت کیا کہ آپ جب کسی بیمار کے پاس تشریف لے جاتے۔
عیادت کرنے والے کا مریض کے لئے وضو کرنا
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر (محمد بن جعفر) نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے محمد بن منکدر نے، کہا کہ میں نے جابر بن عبداللہ (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ میرے یہاں تشریف لائے میں بیمار تھا نبی کریم ﷺ نے وضو کیا اور وضو کا پانی مجھ پر ڈالا یا فرمایا کہ اس پر یہ پانی ڈال دو اس سے مجھے ہوش آگیا۔ میں نے عرض کیا کہ میں تو کلالہ ہوں (جس کے والد اور اولاد نہ ہو) میرے ترکہ میں تقسیم کیسے ہوگی اس پر میراث کی آیت نازل ہوئی۔
وبا اور بخار کے دفع ہونے کے لئے کرنے کا بیان
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا مجھ سے امام مالک نے، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ ﷺ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو ابوبکر اور بلال (رض) کو بخار ہوگیا۔ بیان کیا کہ پھر میں ان کے پاس (بیمار پرسی کے لیے) گئی اور پوچھا کہ محترم والد بزرگوار ! آپ کا کیا حال ہے اور اے بلال ! آپ کا کیا حال ہے بیان کیا کہ جب ابوبکر (رض) کو بخار ہوتا تو وہ یہ شعر پڑھا کرتے تھے۔ ہر شخص اپنے گھر والوں میں صبح کرتا ہے اور موت اس کے تسمے سے بھی زیادہ قریب ہے اور بلال (رض) کا جب بخار اترتا تو بلند آواز سے وہ یہ اشعار پڑھتے۔ کاش مجھے معلوم ہوتا کہ میں ایک رات وادی (مکہ) میں اس طرح گزار سکوں گا کہ میرے چاروں طرف اذخر اور جلیل (گھاس) کے درخت ہوں گے اور کیا کبھی پھر میں مجنہ کے گھاٹ پر اتر سکوں گا اور کیا کبھی شامہ اور طفیل میں اپنے سامنے دیکھ سکوں گا۔ راوی نے بیان کیا کہ عائشہ (رض) نے کہا پھر میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور نبی کریم ﷺ سے اس کے متعلق کہا تو آپ ﷺ نے یہ دعا فرمائی اللهم حبب إلينا المدينة کحبنا مكة أو أشد وصححها و بارک لنا في صاعها ومدها وانقل حماها فاجعلها بالجحفة اے اللہ ! ہمارے دلوں میں مدینہ کی محبت پیدا کر جیسا کہ ہمیں (اپنے وطن) مکہ کی محبت تھی بلکہ اس سے بھی زیادہ مدینہ کی محبت عطا کر اور اس کی آب و ہوا کو صحت بخش بنا دے اور ہمارے لیے اس کے صاع اور مد میں برکت عطا فرما اور اس کے بخار کو کہیں اور جگہ منتقل کر دے اسے جحفہ (نامی گاؤں) میں بھیج دے۔