62. ادب کا بیان

【1】

اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ ہم نے انسان کو والدین کے متعلق نصیحت کی

ہم سے ابوالولید ہشام نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے، انہوں نے کہا کہ مجھے ولید بن عیزار نے خبر دی، کہا کہ میں نے ابوعمرو شیبانی سے سنا، کہا کہ ہمیں اس گھر والے نے خبر دی اور انہوں نے اپنے ہاتھ سے عبداللہ بن مسعود (رض) کے گھر کی طرف اشارہ کیا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا اللہ تعالیٰ کے نزدیک کون سا عمل سب سے زیادہ پسند ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وقت پر نماز پڑھنا۔ پوچھا کہ پھر کون سا ؟ فرمایا کہ والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنا، پوچھا پھر کون سا ؟ فرمایا کہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنا۔ عبداللہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے مجھ سے ان کاموں کے متعلق بیان کیا اور اگر میں اسی طرح سوال کرتا رہتا تو آپ جواب دیتے رہتے۔

【2】

حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے عمارہ بن قعقاع بن شبرمہ نے، ان سے ابوزرعہ نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ ایک صحابی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میرے اچھے سلوک کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے ؟ فرمایا کہ تمہاری ماں ہے۔ پوچھا اس کے بعد کون ہے ؟ فرمایا کہ تمہاری ماں ہے۔ انہوں نے پھر پوچھا اس کے بعد کون ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تمہاری ماں ہے۔ انہوں نے پوچھا اس کے بعد کون ہے ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پھر تمہارا باپ ہے۔ ابن شبرمہ اور یحییٰ بن ایوب نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوزرعہ نے اسی کے مطابق بیان کیا۔

【3】

والدین کی اجازت کے بغیرجہاد نہ کرے

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے سفیان اور شعبہ نے بیان کیا کہ ہم سے حبیب نے بیان کیا (دوسری سند) امام بخاری (رح) نے کہا اور ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا ہم کو سفیان نے خبر دی، انہیں حبیب نے، انہیں ابوعباس نے اور ان سے عبداللہ بن عمرو نے بیان کیا کہ ایک صحابی نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا کیا میں بھی جہاد میں شریک ہوجاؤں ؟ نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا کہ تمہارے ماں باپ موجود ہیں انہوں نے کہا کہ جی ہاں موجود ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پھر انہیں میں جہاد کرو۔

【4】

کوئی شخص اپنے والدین کو گالی نہ دے

ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے، ان سے حمید بن عبدالرحمٰن نے اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یقیناً سب سے بڑے گناہوں میں سے یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے والدین پر لعنت بھیجے۔ پوچھا گیا : یا رسول اللہ ! کوئی شخص اپنے ہی والدین پر کیسے لعنت بھیجے گا ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ وہ شخص دوسرے کے باپ کو برا بھلا کہے گا تو دوسرا بھی اس کے باپ کو اور اس کی ماں کو برا بھلا کہے گا۔

【5】

اسکی دعاقبول ہونے کا بیان جو اپنے والدین سے حسن سلوک کرے

ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن ابراہیم بن عقبہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھے نافع نے خبر دی، انہیں ابن عمر (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تین آدمی چل رہے تھے کہ بارش نے انہیں آلیا اور انہوں نے مڑ کر پہاڑی کی غار میں پناہ لی۔ اس کے بعد ان کے غار کے منہ پر پہاڑ کی ایک چٹان گری اور اس کا منہ بند ہوگیا۔ اب بعض نے بعض سے کہا کہ تم نے جو نیک کام کئے ہیں ان میں سے ایسے کام کو دھیان میں لاؤ جو تم نے خالص اللہ کے لیے کیا ہو تاکہ اللہ سے اس کے ذریعہ دعا کرو ممکن ہے وہ غار کو کھول دے۔ اس پر ان میں سے ایک نے کہا : اے اللہ ! میرے والدین تھے اور بہت بوڑھے تھے اور میرے چھوٹے چھوٹے بچے بھی تھے۔ میں ان کے لیے بکریاں چراتا تھا اور واپس آ کر دودھ نکالتا تو سب سے پہلے اپنے والدین کو پلاتا تھا اپنے بچوں سے بھی پہلے۔ ایک دن چارے کی تلاش نے مجھے بہت دور لے جا ڈالا چناچہ میں رات گئے واپس آیا۔ میں نے دیکھا کہ میرے والدین سو چکے ہیں۔ میں نے معمول کے مطابق دودھ نکالا پھر میں دوھا ہوا دودھ لے کر آیا اور ان کے سرہانے کھڑا ہوگیا میں گوارا نہیں کرسکتا تھا کہ انہیں سونے میں جگاؤں اور یہ بھی مجھ سے نہیں ہوسکتا تھا کہ والدین سے پہلے بچوں کو پلاؤں۔ بچے بھوک سے میرے قدموں پر لوٹ رہے تھے اور اسی کشمکش میں صبح ہوگئی۔ پس اے اللہ ! اگر تیرے علم میں بھی یہ کام میں نے صرف تیری رضا حاصل کرنے کے لیے کیا تھا تو ہمارے لیے کشادگی پیدا کر دے کہ ہم آسمان دیکھ سکیں۔ اللہ تعالیٰ نے (دعا قبول کی اور) ان کے لیے اتنی کشادگی پیدا کردی کہ وہ آسمان دیکھ سکتے تھے۔ دوسرے شخص نے کہا : اے اللہ ! میری ایک چچا زاد بہن تھی اور میں اس سے محبت کرتا تھا، وہ انتہائی محبت جو ایک مرد ایک عورت سے کرسکتا ہے۔ میں نے اس سے اسے مانگا تو اس نے انکار کیا اور صرف اس شرط پر راضی ہوئی کہ میں اسے سو دینار دوں۔ میں نے دوڑ دھوپ کی اور سو دینار جمع کر لایا پھر اس کے پاس انہیں لے کر گیا پھر جب میں اس کے دونوں پاؤں کے درمیان میں بیٹھ گیا تو اس نے کہا کہ اے اللہ کے بندے ! اللہ سے ڈر اور مہر کو مت توڑ۔ میں یہ سن کر کھڑا ہوگیا (اور زنا سے باز رہا) پس اگر تیرے علم میں بھی میں نے یہ کام تیری رضا و خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کیا تھا تو ہمارے لیے کچھ اور کشادگی (چٹان کو ہٹا کر) پیدا کر دے۔ چناچہ ان کے لیے تھوڑی سی اور کشادگی ہوگئی۔ تیسرے شخص نے کہا : اے اللہ ! میں نے ایک مزدور ایک فرق چاول کی مزدوری پر رکھا تھا اس نے اپنا کام پورا کر کے کہا کہ میری مزدوری دو ۔ میں نے اس کی مزدوری دے دی لیکن وہ چھوڑ کر چلا گیا اور اس کے ساتھ بےتوجہی کی۔ میں اس کے اس بچے ہوئے دھان کو بوتا رہا اور اس طرح میں نے اس سے ایک گائے اور اس کا چرواہا کرلیا (پھر جب وہ آیا تو) میں نے اس سے کہا کہ یہ گائے اور چرواہا لے جاؤ۔ اس نے کہا اللہ سے ڈرو اور میرے ساتھ مذاق نہ کرو۔ میں نے کہا کہ میں تمہارے ساتھ مذاق نہیں کرتا۔ اس گائے اور چرواہے کو لے جاؤ۔ چناچہ وہ انہیں لے کر چلا گیا۔ پس اگر تیرے علم میں بھی میں نے یہ کام تیری رضا و خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کیا تھا تو (چٹان کی وجہ سے غار سے نکلنے میں جو رکاوٹ باقی رہ گئی ہے اسے بھی کھول دے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے پوری طرح کشادگی کردی جس سے وہ باہر آگئے۔

【6】

والدین کی نافرمانی گناہ کبیرہ ہے

ہم سے سعد بن حفص نے بیان کیا، کہا ہم سے شیبان نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے مسیب نے ان سے وراد نے اور ان سے مغیرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ نے تم پر ماں کی نافرمانی حرام قرار دی ہے اور (والدین کے حقوق) نہ دینا اور ناحق ان سے مطالبات کرنا بھی حرام قرار دیا ہے، لڑکیوں کو زندہ دفن کرنا (بھی حرام قرار دیا ہے) اور قيل وقال (فضول باتیں) کثرت سوال اور مال کی بربادی کو بھی ناپسند کیا ہے۔

【7】

والدین کی نافرمانی گناہ کبیرہ ہے

مجھ سے اسحاق بن شاہین واسطی نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد واسطی نے بیان کیا، ان سے جریری نے، ان سے عبدالرحمٰن بن ابی بکرہ نے اور ان سے ان کے والد (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا میں تمہیں سب سے بڑا گناہ نہ بتاؤں ؟ ہم نے عرض کیا ضرور بتائیے یا رسول اللہ ! آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کے ساتھ شرک کرنا اور والدین کی نافرمانی کرنا۔ نبی کریم ﷺ اس وقت ٹیک لگائے ہوئے تھے اب آپ سیدھے بیٹھ گئے اور فرمایا آگاہ ہوجاؤ جھوٹی بات بھی اور جھوٹی گواہی بھی (سب سے بڑے گناہ ہیں) آگاہ ہوجاؤ جھوٹی بات بھی اور جھوٹی گواہی بھی۔ نبی کریم ﷺ اسے مسلسل دہراتے رہے اور میں نے سوچا کہ نبی کریم ﷺ خاموش نہیں ہوں گے۔

【8】

والدین کی نافرمانی گناہ کبیرہ ہے

مجھ سے محمد بن ولید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے عبیداللہ بن ابی بکر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے انس بن مالک (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے کبائر کا ذکر کیا یا (انہوں نے کہا کہ) نبی کریم ﷺ سے کبائر کے متعلق پوچھا گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے ساتھ شرک کرنا، کسی کی (ناحق) جان لینا، والدین کی نافرمانی کرنا پھر فرمایا کیا میں تمہیں سب سے بڑا گناہ نہ بتادوں ؟ فرمایا کہ جھوٹی بات یا فرمایا کہ جھوٹی شہادت (سب سے بڑا گناہ ہے) شعبہ نے بیان کیا کہ میرا غالب گمان یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے جھوٹی گواہی فرمایا تھا۔

【9】

مشرک باپ سے صلہ رحمی کا بیان

ہم سے عبداللہ بن زبیر حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، کہا مجھ کو میرے والد نے خبر دی، انہیں اسماء بنت ابی بکر (رض) نے خبر دی کہ میری والدہ نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں میرے پاس آئیں، وہ اسلام سے منکر تھیں۔ میں نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا کیا میں اس کے ساتھ صلہ رحمی کرسکتی ہوں ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہاں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی لا ينهاكم الله عن الذين لم يقاتلوکم في الدين‏ یعنی اللہ پاک تم کو ان لوگوں کے ساتھ نیک سلوک کرنے سے منع نہیں کرتا جو تم سے ہمارے دین کے متعلق کوئی لڑائی جھگڑا نہیں کرتے۔

【10】

None

میری والدہ مشرکہ تھیں وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریش کے ساتھ صلح کے زمانہ میں اپنے والد کے ساتھ ( مدینہ منورہ ) آئیں۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے متعلق پوچھا کہ میری والدہ آئی ہیں اور وہ اسلام سے الگ ہیں ( کیا میں ان کے ساتھ صلہ رحمی کر سکتی ہوں؟ ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں اپنی والدہ کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔

【11】

عورت کا اپنی ماں سے حسن سلوک کرنے کا بیان، جب کہ اس کا شوہر بھی اور لیث نے کہا مجھ سے ہشام نے بواسطہ عروہ اسماء کا قول نقل کیا ہے کہ اس زمانہ میں جب کہ قریش نے نبی ﷺ کے ساتھ معاہدہ کیا تھا میری مشرکہ ماں اپنے بیٹے کے ساتھ آئی، میں نے نبی ﷺ سے دریافت کیا اور عرض کیا کہ میری ماں آئی ہے اور وہ مشرک ہے، آپ نے فرمایا اپنی ماں سے حسن سلوک کرو

ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ نے اور انہیں عبداللہ بن عباس (رض) نے خبر دی اور انہیں ابوسفیان (رض) نے خبر دی کہ ہرقل نے انہیں بلا بھیجا تو انہوں نے اسے بتایا کہ وہ یعنی نبی کریم ﷺ ہمیں نماز، صدقہ، پاک دامنی اور صلہ رحمی کا حکم فرماتے ہیں۔

【12】

مشرک بھائی کے ساتھ صلہ رحمی کرنے کا بیان

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن مسلم نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن دینار نے بیان کیا، کہا کہ میں نے عبداللہ بن عمر (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ عمر (رض) نے سیراء کا (ایک ریشمی) حلہ بکتے دیکھا تو عرض کیا : یا رسول اللہ ! آپ اسے خرید لیں اور جمعہ کے دن اور جب آپ کے پاس وفود آئیں تو اسے پہنا کریں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اسے تو وہی پہن سکتا ہے جس کا (آخرت میں) کوئی حصہ نہ ہو۔ اس کے بعد نبی کریم ﷺ کے پاس اسی قسم کے کئی حلے آئے تو نبی کریم ﷺ نے اس میں سے ایک حلہ عمر (رض) کے لیے بھیجا۔ عمر (رض) نے عرض کیا کہ میں اسے کیسے پہن سکتا ہوں جبکہ نبی کریم ﷺ اس کے متعلق پہلے ممانعت فرما چکے ہیں ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں نے اسے تمہیں پہننے کے لیے نہیں دیا بلکہ اس لیے دیا ہے کہ تم اسے بیچ دو یا کسی دوسرے کو پہنا دو چناچہ عمر (رض) نے وہ حلہ اپنے ایک بھائی کو بھیج دیا جو مکہ مکرمہ میں تھے اور اسلام نہیں لائے تھے۔

【13】

صلہ رحمی کی فضیلت کا بیان

ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھے ابن عثمان نے خبر دی، کہا کہ میں نے موسیٰ بن طلحہ سے سنا اور ان سے ابوایوب (رض) نے بیان کیا، کہا گیا کہ یا رسول اللہ ! کوئی ایسا عمل بتائیں جو مجھے جنت میں لے جائے۔ (دوسری سند) امام بخاری (رح) نے کہا کہ مجھ سے عبدالرحمٰن بن بشر نے بیان کیا، ان سے بہز بن اسد بصریٰ نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابن عثمان بن عبداللہ بن موہب اور ان کے والد عثمان بن عبداللہ نے بیان کیا کہ انہوں نے موسیٰ بن طلحہ سے سنا اور انہوں نے ابوایوب انصاری (رض) سے کہ ایک صاحب نے کہا : یا رسول اللہ ! کوئی ایسا عمل بتائیں جو مجھے جنت میں لے جائے۔ اس پر لوگوں نے کہا کہ اسے کیا ہوگیا ہے، اسے کیا ہوگیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ کیوں ہو کیا گیا ہے ؟ اجی اس کو ضرورت ہے بیچارہ اس لیے پوچھتا ہے۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ اللہ کی عبادت کر اور اس کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کر، نماز قائم کر، زکوٰۃ دیتے رہو اور صلہ رحمی کرتے رہو۔ (بس یہ اعمال تجھ کو جنت میں لے جائیں گے) چل اب نکیل چھوڑ دے۔ راوی نے کہا شاید اس وقت نبی کریم ﷺ اپنی اونٹنی پر سوار تھے۔

【14】

قطع رحمی کا گناہ

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے محمد بن جبیر بن مطعم نے بیان کیا اور انہیں ان کے والد جبیر بن مطعم (رض) نے خبر دی انہوں نے نبی کریم ﷺ سے سنا، نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ قطع رحمی کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔

【15】

صلہ رحمی کی وجہ سے رزق میں کشادگی کا بیان

مجھ سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے محمد بن معن نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سعید بن ابی سعید نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جسے پسند ہے کہ اس کی روزی میں فراخی ہو اور اس کی عمردراز کی جائے تو وہ صلہ رحمی کیا کرے۔

【16】

صلہ رحمی کی وجہ سے رزق میں کشادگی کا بیان

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، کہا کہ مجھے انس بن مالک (رض) نے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو چاہتا ہو کہ اس کے رزق میں فراخی ہو اور اس کی عمردراز ہو تو وہ صلہ رحمی کیا کرے۔

【17】

جو شخص صلہ رحمی کرتا ہے اللہ اسے ملاتا ہے

مجھ سے بشر بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی، کہا ہم کو معاویہ بن ابی مزرد نے خبر دی، کہا کہ میں نے اپنے چچا سعید بن یسار سے سنا، وہ ابوہریرہ (رض) سے بیان کرتے تھے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مخلوق پیدا کی اور جب اس سے فراغت ہوئی تو رحم نے عرض کیا کہ یہ اس شخص کی جگہ ہے جو قطع رحمی سے تیری پناہ مانگے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہاں کیا تم اس پر راضی نہیں کہ میں اس سے جوڑوں گا جو تم سے اپنے آپ کو جوڑے اور اس سے توڑ لوں گا جو تم سے اپنے آپ کو توڑ لے ؟ رحم نے کہا کیوں نہیں، اے رب ! اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ پس یہ تجھ کو دیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کے بعد فرمایا کہ اگر تمہارا جی چاہے تو یہ آیت پڑھ لو فهل عسيتم إن توليتم أن تفسدوا في الأرض وتقطعوا أرحامکم‏ یعنی کچھ عجیب نہیں کہ اگر تم کو حکومت مل جائے تو تم ملک میں فساد برپا کرو اور رشتے ناطے توڑ ڈالو۔

【18】

جو شخص صلہ رحمی کرتا ہے اللہ اسے ملاتا ہے

ہم سے خالد بن مخلد نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن دینار نے، ان سے ابوصالح نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ رحم کا تعلق رحمن سے جڑا ہوا ہے پس جو کوئی اس سے اپنے آپ کو جوڑتا ہے اللہ پاک نے فرمایا کہ میں بھی اس کو اپنے سے جوڑ لیتا ہوں اور جو کوئی اسے توڑتا ہے میں بھی اپنے آپ کو اس سے توڑ لیتا ہوں۔

【19】

جو شخص صلہ رحمی کرتا ہے اللہ اسے ملاتا ہے

ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سلیمان بن بلال نے، انہوں نے کہا مجھ کو معاویہ بن ابی مزرد نے خبر دی، انہوں نے یزید بن رومان سے، انہوں نے عروہ سے، ام المؤمنین انہوں نے عائشہ (رض) سے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ رحم (رشتہ داری رحمن سے ملی ہوئی) شاخ ہے جو شخص اس سے ملے میں اس سے ملتا ہوں اور جو اس سے قطع تعلق کرے میں اس سے قطع تعلق کرتا ہوں۔

【20】

رشتہ داری تھوڑی سی تری سے بھی تر ہوجاتی ہے

ہم سے عمرو بن عباس نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے اسماعیل بن ابی خالد نے بیان کیا، ان سے قیس بن ابی حازم نے بیان کیا، ان سے عمرو بن العاص (رض) نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا کہ فلاں کی اولاد (یعنی ابوسفیان بن حکم بن عاص یا ابولہب کی اولاد) یہ عمرو بن عباس نے کہا کہ محمد بن جعفر کی کتاب میں اس وہم پر سفید جگہ خالی تھی (یعنی تحریر نہ تھی) میرے عزیز نہیں ہیں (گو ان سے نسبی رشتہ ہے) میرا ولی تو اللہ ہے اور میرے عزیز تو ولی ہیں جو مسلمانوں میں نیک اور پرہیزگار ہیں (گو ان سے نسبی رشتہ بھی نہ ہو) ۔ عنبسہ بن عبدالواحد نے بیان بن بشر سے، انہوں نے قیس سے، انہوں نے عمرو بن العاص سے اتنا بڑھایا ہے کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا، آپ نے فرمایا البتہ ان سے میرا رشتہ ناطہٰ ہے اگر وہ تر رکھیں گے تو میں بھی تر رکھوں گا یعنی وہ ناطہٰ جوڑیں گے تو میں بھی جوڑوں گا۔

【21】

بدلہ دینے والا صلہ رحمی کرنے والا نہیں ہے

ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی، انہیں اعمش اور حسن بن عمرو اور فطر بن خلیفہ نے، ان سے مجاہد بن جبیر نے اور ان سے عبداللہ بن عمرو (رض) نے سفیان سے، کہا کہ اعمش نے یہ حدیث نبی کریم ﷺ تک مرفوع نہیں بیان کی لیکن حسن اور فطر نے نبی کریم ﷺ سے مرفوعاً بیان کیا، فرمایا کہ کسی کام کا بدلہ دینا صلہ رحمی نہیں ہے بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ جب اس کے ساتھ صلہ رحمی کا معاملہ نہ کیا جا رہا ہو تب بھی وہ صلہ رحمی کرے۔

【22】

اس شخص کا بیان جو حالت شرک میں صلہ رحمی کرے پھر وہ مسلمان ہوجائے

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے کہا کہ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی اور انہیں حکیم بن حزام نے خبر دی، انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ کا ان کاموں کے بارے میں کیا خیال ہے جنہیں میں عبادت سمجھ کر زمانہ جاہلیت میں کرتا تھا مثلاً صلہ رحمی، غلام کی آزادی، صدقہ، کیا مجھے ان پر ثواب ملے گا ؟ حکیم (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے تم ان تمام اعمال خیر کے ساتھ اسلام لائے ہو جو پہلے کرچکے ہو۔ اور بعضوں نے ابوالیمان سے بجائے اتحنث کے اتحت (تاء کے ساتھ) روایت کیا ہے اور معمر اور صالح اور ابن مسافر نے بھی اتحت روایت کیا ہے۔ ابن اسحاق نے کہا اتحنث ، تحت سے نکلا ہے اس کے معنی مثل اور عبادت کرنا۔ ہشام نے بھی اپنے والد عروہ سے ان لوگوں کی متابعت کی ہے۔

【23】

دوسرے کے بچے کو کھیلنے دینا اور اس کو بوسہ دینا یا اس سے ہنسی کرنا

ہم سے حبان بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں خالد بن سعید نے، انہیں ان کے والد نے، ان سے ام خالد بنت سعید (رض) نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں اپنے والد کے ساتھ حاضر ہوئی۔ میں ایک زرد قمیص پہنے ہوئے تھی۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، سنہ سنہ عبداللہ بن مبارک نے کہا کہ یہ حبشی زبان میں اچھا کے معنی میں ہے۔ ام خالد نے بیان کیا کہ پھر میں نبی کریم ﷺ کی خاتم نبوت سے کھیلنے لگی تو میرے والد نے مجھے ڈانٹا لیکن نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اسے کھیلنے دو پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم ایک زمانہ تک زندہ رہو گی اللہ تعالیٰ تمہاری عمر خوب طویل کرے، تمہاری زندگی دراز ہو۔ عبداللہ نے بیان کیا چناچہ انہوں نے بہت ہی طویل عمر پائی اور ان کی طول عمر کے چرچے ہونے لگے۔

【24】

بچے کے ساتھ مہربانی اور اس کو بوسہ دینا اور گلے لگانا اور ثابت نے بواسطہ انس روایت کیا ہے کہ نبی ﷺ نے (اپنے صاحبزادے) ابراہیم کو بوسہ دیا اور سونگھا

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے مہدی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن یعقوب نے بیان کیا، ان سے ابونعیم نے بیان کیا کہ میں ابن عمر (رض) کی خدمت میں موجود تھا ان سے ایک شخص نے (حالت احرام میں) مچھر کے مارنے کے متعلق پوچھا (کہ اس کا کیا کفارہ ہوگا) ابن عمر (رض) نے دریافت فرمایا کہ تم کہاں کے ہو ؟ اس نے بتایا کہ عراق کا، فرمایا کہ اس شخص کو دیکھو، (مچھر کی جان لینے کے تاوان کا مسئلہ پوچھتا ہے) حالانکہ اس کے ملک والوں نے رسول اللہ ﷺ کے نواسہ کو (بےتکلف قتل کر ڈالا) میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرما رہے تھے کہ یہ دونوں (حسن اور حسین رضی اللہ عنہما) دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔

【25】

بچے کے ساتھ مہربانی اور اس کو بوسہ دینا اور گلے لگانا اور ثابت نے بواسطہ انس روایت کیا ہے کہ نبی ﷺ نے (اپنے صاحبزادے) ابراہیم کو بوسہ دیا اور سونگھا

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، کہا مجھ سے عبداللہ بن ابی بکر نے بیان کیا، انہیں عروہ بن زبیر نے خبر دی اور ان سے نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ میرے یہاں ایک عورت (اور) اس کے ساتھ دو بچیاں تھیں، وہ مانگنے آئی تھی۔ میرے پاس سے سوا ایک کھجور کے اسے اور کچھ نہ ملا۔ میں نے اسے وہ کھجور دے دی اور اس نے وہ کھجور اپنی دونوں لڑکیوں کو تقسیم کردی۔ پھر اٹھ کر چلی گئی اس کے بعد نبی کریم ﷺ تشریف لائے تو میں نے آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص بھی اس طرح کی لڑکیوں کی پرورش کرے گا اور ان کے ساتھ اچھا معاملہ کرے گا تو یہ اس کے لیے جہنم سے پردہ بن جائیں گی۔

【26】

بچے کے ساتھ مہربانی اور اس کو بوسہ دینا اور گلے لگانا اور ثابت نے بواسطہ انس روایت کیا ہے کہ نبی ﷺ نے (اپنے صاحبزادے) ابراہیم کو بوسہ دیا اور سونگھا

ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، کہا ہم سے سعید مقبری نے بیان کیا، کہا ہم سے عمرو بن سلیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوقتادہ (رض) نے بیان کیا، کہا کہ نبی کریم ﷺ باہر تشریف لائے اور امامہ بنت ابی العاص (جو بچی تھیں) وہ آپ کے شانہ مبارک پر تھیں پھر نبی کریم ﷺ نے نماز پڑھی جب آپ رکوع کرتے تو انہیں اتار دیتے اور جب کھڑے ہوتے تو پھر اٹھا لیتے۔

【27】

بچے کے ساتھ مہربانی اور اس کو بوسہ دینا اور گلے لگانا اور ثابت نے بواسطہ انس روایت کیا ہے کہ نبی ﷺ نے (اپنے صاحبزادے) ابراہیم کو بوسہ دیا اور سونگھا

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے خبر دی، ان سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے حسن بن علی (رض) کو بوسہ دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اقرع بن حابس (رض) بیٹھے ہوئے تھے۔ اقرع (رض) نے اس پر کہا کہ میرے دس لڑکے ہیں اور میں نے ان میں سے کسی کو بوسہ نہیں دیا۔ نبی کریم ﷺ نے ان کی طرف دیکھا اور فرمایا کہ جو اللہ کی مخلوق پر رحم نہیں کرتا اس پر بھی رحم نہیں کیا جاتا۔

【28】

بچے کے ساتھ مہربانی اور اس کو بوسہ دینا اور گلے لگانا اور ثابت نے بواسطہ انس روایت کیا ہے کہ نبی ﷺ نے (اپنے صاحبزادے) ابراہیم کو بوسہ دیا اور سونگھا

ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے ہشام نے، ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ ایک دیہاتی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا آپ لوگ بچوں کو بوسہ دیتے ہیں، ہم تو انہیں بوسہ نہیں دیتے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر اللہ نے تمہارے دل سے رحم نکال دیا ہے تو میں کیا کرسکتا ہوں۔

【29】

بچے کے ساتھ مہربانی اور اس کو بوسہ دینا اور گلے لگانا اور ثابت نے بواسطہ انس روایت کیا ہے کہ نبی ﷺ نے (اپنے صاحبزادے) ابراہیم کو بوسہ دیا اور سونگھا

ہم سے ابن ابی مریم نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوغسان نے، کہا کہ مجھ سے زید بن اسلم نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عمر بن خطاب (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کے پاس کچھ قیدی آئے قیدیوں میں ایک عورت تھی جس کا پستان دودھ سے بھرا ہوا تھا اور وہ دوڑ رہی تھی، اتنے میں ایک بچہ اس کو قیدیوں میں ملا اس نے جھٹ اپنے پیٹ سے لگا لیا اور اس کو دودھ پلانے لگی۔ ہم سے نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ کیا تم خیال کرسکتے ہو کہ یہ عورت اپنے بچے کو آگ میں ڈال سکتی ہے ہم نے عرض کیا کہ نہیں جب تک اس کو قدرت ہوگی یہ اپنے بچے کو آگ میں نہیں پھینک سکتی۔ نبی کریم ﷺ نے اس پر فرمایا کہ اللہ اپنے بندوں پر اس سے بھی زیادہ رحم کرنے والا ہے جتنا یہ عورت اپنے بچہ پر مہربان ہوسکتی ہے۔

【30】

اللہ تعالیٰ نے رحمت کے سو حصے کئے ہیں

ہم سے حکم بن نافع نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، کہا ہم کو سعید بن مسیب نے خبر دی کہ ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ نے رحمت کے سو حصے بنائے اور اپنے پاس ان میں سے ننانوے حصے رکھے صرف ایک حصہ زمین پر اتارا اور اسی کی وجہ سے تم دیکھتے ہو کہ مخلوق ایک دوسرے پر رحم کرتی ہے، یہاں تک کہ گھوڑی بھی اپنے بچہ کو اپنے سم نہیں لگنے دیتی بلکہ سموں کو اٹھا لیتی ہے کہ کہیں اس سے اس کے بچہ کو تکلیف نہ پہنچے۔

【31】

اولاد کو اس ڈر سے قتل کرنا کہ وہ اس کے ساتھ کھائے گی

ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی، انہیں منصور بن معتمر نے، انہیں ابو وائل نے، انہیں عمرو بن شرحبیل نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ میں نے کہا : یا رسول اللہ ! کون سا گناہ سب سے بڑا ہے۔ فرمایا یہ کہ تم اللہ تعالیٰ کا کسی کو شریک بناؤ حالانکہ اسی نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ انہوں نے کہا پھر، اس کے بعد فرمایا یہ کہ تم اپنے لڑکے کو اس خوف سے قتل کرو کہ اگر زندہ رہا تو تمہاری روزی میں شریک ہوگا۔ انہوں نے کہا اس کے بعد، نبی کریم ﷺ نے فرمایا یہ کہ تم اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرو۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے بھی نبی کریم ﷺ کے اس ارشاد کی تائید میں یہ آیت والذين لا يدعون مع الله إلها آخر‏ الخ، نازل کی کہ اور وہ لوگ جو اللہ کے سوا کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور نہ وہ ناحق کسی کو قتل کرتے ہیں اور نہ وہ زنا کرتے ہیں۔

【32】

بچے کو گود میں رکھنے کا بیان

ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، ان سے ہشام نے بیان کیا، کہا مجھ کو میرے والد عروہ نے خبر دی اور انہیں عائشہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک بچہ (عبداللہ بن زبیر) کو اپنی گود میں بٹھلایا اور کھجور چبا کر اس کے منہ میں دی، اس نے آپ پر پیشاب کردیا آپ نے پانی منگوا کر اس پر بہا دیا۔

【33】

بچے کو ران پر رکھنے کا بیان

ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عارم محمد بن فضل نے بیان کیا، کہا ہم سے معتمر بن سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ ان سے ان کے والد نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابو تمیمہ سے سنا، وہ ابوعثمان نہدی سے بیان کرتے تھے اور ابوعثمان نہدی نے کہا کہ ان سے اسامہ بن زید (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ مجھے اپنی ایک ران پر بٹھاتے تھے اور حسن (رض) کو دوسری ران پر بٹھلاتے تھے۔ پھر دونوں کو ملاتے اور فرماتے، اے اللہ ! ان دونوں پر رحم کر کہ میں بھی ان پر رحم کرتا ہوں۔ اور علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا کہ ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان تیمی نے بیان کیا، ان سے ابوعثمان نہدی نے اسی حدیث کو بیان کیا۔ سلیمان تیمی نے کہا جب ابو تمیمہ نے یہ حدیث مجھ سے بیان کی ابوعثمان نہدی سے تو میرے دل میں شک پیدا ہوا۔ میں نے ابوعثمان سے بہت سی احادیث سنی ہیں پر یہ حدیث کیوں نہیں سنی پھر میں نے اپنی احادیث کی کتاب دیکھی تو اس میں یہ حدیث ابوعثمان نہدی سے لکھی ہوئی تھی۔

【34】

اچھی خدمت کرنا جزو ایمان ہے

ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد عروہ نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ مجھے کسی عورت پر اتنا رشک نہیں آتا تھا جتنا خدیجہ (رض) پر آتا تھا حالانکہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجھ سے شادی سے تین سال پہلے وفات پاچکی تھیں۔ (رشک کی وجہ یہ تھی) کہ نبی کریم ﷺ کو میں کثرت سے ان کا ذکر کرتے سنتی تھی اور نبی کریم ﷺ کو ان کے رب نے حکم دیا تھا کہ خدیجہ کو جنت میں ایک خولدار موتیوں کے گھر کی خوشخبری سنا دیں۔ نبی کریم ﷺ کبھی بکری ذبح کرتے پھر اس میں سے خدیجہ (رض) کی سہیلیوں کو حصہ بھیجتے تھے۔

【35】

یتیم کی پرورش کرنے والے کی فضیلت کا بیان

ہم سے عبداللہ بن عبدالوہاب نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبدالعزیز بن ابی حازم نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، کہا کہ میں نے سہل بن سعد (رض) سے سنا، ان سے نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں اور یتیم کی پرورش کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے اور آپ نے شہادت اور درمیانی انگلیوں کے اشارہ سے (قرب کو ) بتایا۔

【36】

بیواؤں کے لئے محنت کرنے والے کا بیان

ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ثور بن زید دیلی نے، ان سے ابن مطیع کے مولیٰ ابوالغیث نے، ان سے ابوہریرہ (رض) نے اور ان سے نبی کریم ﷺ نے اسی طرح فرمایا۔

【37】

مسکین کے لئے محنت کرنے والے کا بیان

ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ثور بن زید نے، ان سے ابوالغیث نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بیواؤں اور مسکینوں کے لیے کوشش کرنے والا اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے۔ عبداللہ قعنبی کو اس میں شک ہے۔ امام مالک نے اس حدیث میں یہ بھی کہا تھا اس شخص کے برابر ثواب ملتا ہے جو نماز میں کھڑا رہتا ہے تھکتا ہی نہیں اور اس شخص کے برابر جو روزے برابر رکھے چلا جاتا ہے افطار ہی نہیں کرتا ہے۔

【38】

آدمیوں اور جانوروں کے ساتھ مہربانی کرنے کا بیان

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن علیہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ایوب سختیانی نے بیان کیا، ان سے ابوقلابہ نے، ان سے ابوسلیمان مالک بن حویرث (رض) نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم ﷺ کی خدمت میں مدینہ حاضر ہوئے اور ہم سب نوجوان اور ہم عمر تھے۔ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ بیس دنوں تک رہے۔ پھر نبی کریم ﷺ کو خیال ہوا کہ ہمیں اپنے گھر کے لوگ یاد آ رہے ہوں گے اور نبی کریم ﷺ نے ہم سے ان کے متعلق پوچھا جنہیں ہم اپنے گھروں پر چھوڑ کر آئے تھے۔ ہم نے نبی کریم ﷺ کو سارا حال سنا دیا۔ آپ بڑے ہی نرم خو اور بڑے رحم کرنے والے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اپنے گھروں کو واپس جاؤ اور اپنے ملک والوں کو دین سکھاؤ اور بتاؤ اور تم اس طرح نماز پڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے اور جب نماز کا وقت آجائے تو تم میں سے ایک شخص تمہارے لیے اذان دے پھر جو تم میں بڑا ہو وہ امامت کرائے۔

【39】

آدمیوں اور جانوروں کے ساتھ مہربانی کرنے کا بیان

ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ابوبکر کے غلام سمی نے، ان سے ابوصالح سمان نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ایک شخص راستہ میں چل رہا تھا کہ اسے شدت کی پیاس لگی اسے ایک کنواں ملا اور اس نے اس میں اتر کر پانی پیا۔ جب باہر نکلا تو وہاں ایک کتا دیکھا جو ہانپ رہا تھا اور پیاس کی وجہ سے تری کو چاٹ رہا تھا۔ اس شخص نے کہا کہ یہ کتا بھی اتنا ہی زیادہ پیاسا معلوم ہو رہا ہے جتنا میں تھا۔ چناچہ وہ پھر کنویں میں اترا اور اپنے جوتے میں پانی بھرا اور منہ سے پکڑ کر اوپر لایا اور کتے کو پانی پلایا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے اس عمل کو پسند فرمایا اور اس کی مغفرت کردی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! کیا ہمیں جانوروں کے ساتھ نیکی کرنے میں بھی ثواب ملتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں ہر تازہ کلیجے والے پر نیکی کرنے میں ثواب ملتا ہے۔

【40】

آدمیوں اور جانوروں کے ساتھ مہربانی کرنے کا بیان

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، کہا کہ مجھے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے خبر دی اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ ایک نماز کے لیے کھڑے ہوئے اور ہم بھی نبی کریم ﷺ کے ساتھ کھڑے ہوئے۔ نماز پڑھتے ہی ایک دیہاتی نے کہا : اے اللہ ! مجھ پر رحم کر اور محمد ( ﷺ ) پر اور ہمارے ساتھ کسی اور پر رحم نہ کر۔ جب نبی کریم ﷺ نے سلام پھیرا تو دیہاتی سے فرمایا کہ تم نے ایک وسیع چیز کو تنگ کردیا آپ کی مراد اللہ کی رحمت سے تھی۔

【41】

آدمیوں اور جانوروں کے ساتھ مہربانی کرنے کا بیان

ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے زکریا نے بیان کیا، ان سے عامر نے کہا کہ میں نے انہیں یہ کہتے سنا ہے کہ میں نے نعمان بن بشیر سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم مومنوں کو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ رحمت و محبت کا معاملہ کرنے اور ایک دوسرے کے ساتھ لطف و نرم خوئی میں ایک جسم جیسا پاؤ گے کہ جب اس کا کوئی ٹکڑا بھی تکلیف میں ہوتا ہے، تو سارا جسم تکلیف میں ہوتا ہے ایسا کہ نیند اڑ جاتی ہے اور جسم بخار میں مبتلا ہوجاتا ہے۔

【42】

آدمیوں اور جانوروں کے ساتھ مہربانی کرنے کا بیان

ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اگر کوئی مسلمان کسی درخت کا پودا لگاتا ہے اور اس درخت سے کوئی انسان یا جانور کھاتا ہے تو لگانے والے کے لیے وہ صدقہ ہوتا ہے۔

【43】

آدمیوں اور جانوروں کے ساتھ مہربانی کرنے کا بیان

ہم سے عمر بن حفص نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے زید بن وہب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے جریر بن عبداللہ (رض) سے سنا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔

【44】

پڑوسی کے حق میں وصی کرنے والوں کا بیان اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ اللہ کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ اور والدین کے ساتھ احسان کرنا مختالا فخورا تک

ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن سعید نے کہا کہ مجھے ابوبکر بن محمد نے خبر دی، انہیں عمرہ نے اور انہیں عائشہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جبرائیل (علیہ السلام) مجھے پڑوسی کے بارے میں باربار اس طرح وصیت کرتے رہے کہ مجھے خیال گزرا کہ شاید پڑوسی کو وراثت میں شریک نہ کردیں۔

【45】

پڑوسی کے حق میں وصی کرنے والوں کا بیان اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ اللہ کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ اور والدین کے ساتھ احسان کرنا مختالا فخورا تک

ہم سے محمد بن منہال نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، ان سے عمر بن محمد نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابن عمر (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جبرائیل (علیہ السلام) مجھے اس طرح باربار پڑوسی کے حق میں وصیت کرتے رہے کہ مجھے خیال گزرا کہ شاید پڑوسی کو وراثت میں شریک نہ کردیں۔

【46】

اس شخص کا گناہ جس کا پڑوسی اس کی تکلیف سے بے خوف نہ ہو، یوبقھن کے معنی ہیں ان کو ہلاک کردے، موبقا کے معنی ہلاکت کی جگہ کے ہیں

ہم سے عاصم بن علی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابن ابی ذئب نے بیان کیا، ان سے سعید نے بیان کیا، ان سے ابوشریح نے بیان کیا اور ان سے نبی کریم ﷺ نے بیان کیا واللہ ! وہ ایمان والا نہیں۔ واللہ ! وہ ایمان والا نہیں۔ واللہ ! وہ ایمان والا نہیں۔ عرض کیا گیا کون : یا رسول اللہ ؟ فرمایا وہ جس کے شر سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ ہو۔ اس حدیث کو شبابہ اور اسد بن موسیٰ نے بھی روایت کیا ہے اور حمید بن اسود اور عثمان بن عمر اور ابوبکر بن عیاش اور شعیب بن اسحاق نے اس حدیث کو ابن ابی ذئب سے یوں روایت کیا ہے، انہوں نے مقبری سے، انہوں نے ابوہریرہ (رض) سے۔

【47】

کوئی عورت اپنی پڑوسن کو حقیر نہ سمجھے

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، کہا ہم سے سعید نے بیان کیا وہ سعید مقبری ہیں، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ فرمایا کرتے تھے اے مسلمان عورتو ! تم میں سے کوئی عورت اپنی کسی پڑوسن کے لیے کسی بھی چیز کو ( ہدیہ میں) دینے کے لیے حقیر نہ سمجھے خواہ بکری کا پایہ ہی کیوں نہ ہو۔

【48】

جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے تو وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابوالاحوص نے بیان، ان سے ابوحصین نے، ان سے ابوصالح نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے اور جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی عزت کرے اور جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اچھی بات زبان سے نکالے ورنہ خاموش رہے۔

【49】

جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے تو وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے سعید مقبری نے بیان کیا، ان سے ابوشریح عدوی (رض) نے بیان کیا انہوں نے کہا کہ میرے کانوں نے سنا اور میری آنکھوں نے دیکھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گفتگو فرما رہے تھے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کا اکرام کرے اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی دستور کے موافق ہر طرح سے عزت کرے۔ پوچھا : یا رسول اللہ ! دستور کے موافق کب تک ہے۔ فرمایا ایک دن اور ایک رات اور میزبانی تین دن کی ہے اور جو اس کے بعد ہو وہ اس کے لیے صدقہ ہے اور جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ بہتر بات کہے یا خاموش رہے۔

【50】

ہمسایہ کا حق دروازے کے قرب کے لحاظ سے ہے

ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھے ابوعمران نے خبر دی، کہا کہ میں نے طلحہ سے سنا اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! میری پڑوسنیں ہیں (اگر ہدیہ ایک ہو تو) میں ان میں سے کس کے پاس ہدیہ بھیجوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا جس کا دروازہ تم سے (تمہارے دروازے سے) زیادہ قریب ہو۔

【51】

ہرنیکی صدقہ ہے

ہم سے علی بن عیاش نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابوغسان نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے محمد بن منکدر نے بیان کیا، ان سے جابر بن عبداللہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہر نیک کام صدقہ ہے۔

【52】

ہرنیکی صدقہ ہے

ہم سے آدم نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے، ان سے سعید بن ابی بردہ بن ابی موسیٰ اشعری نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ان کے دادا (ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہر مسلمان پر صدقہ کرنا ضروری ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا اگر کوئی چیز کسی کو (صدقہ کے لیے) جو میسر نہ ہو۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر اپنے ہاتھ سے کام کرے اور اس سے خود کو بھی فائدہ پہنچائے اور صدقہ بھی کرے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی اگر اس میں اس کی طاقت نہ ہو یا کہا کہ نہ کرسکے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پھر کسی حاجت مند پریشان حال کی مدد کرے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا اگر وہ یہ بھی نہ کرسکے۔ فرمایا کہ پھر بھلائی کی طرف لوگوں کو رغبت دلائے یا امر بالمعروف کا کرنا عرض کیا اور اگر یہ بھی نہ کرسکے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پھر برائی سے رکا رہے کہ یہ بھی اس کے لیے صدقہ ہے۔

【53】

اچھی گفتگو کرنے کا بیان اور حضرت ابوہریرہ (رض) نے نبی ﷺ سے روایت کیا کہ اچھی گفتگو صدقہ ہے

ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے، کہا کہ مجھے عمرو نے خبر دی، انہیں خیثمہ نے اور ان سے عدی بن حاتم (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے جہنم کا ذکر کیا اور اس سے پناہ مانگی اور چہرے سے اعراض و ناگواری کا اظہار کیا۔ پھر نبی کریم ﷺ نے جہنم کا ذکر کیا اور اس سے پناہ مانگی اور چہرے سے اعراض و ناگواری کا اظہار کیا، شعبہ نے بیان کیا کہ دو مرتبہ نبی کریم ﷺ کے جہنم سے پناہ مانگنے کے سلسلے میں مجھے کوئی شک نہیں ہے۔ پھر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جہنم سے بچو۔ خواہ آدھی کھجور ہی (کسی کو) صدقہ کر کے ہو سکے اور اگر کسی کو یہ بھی میسر نہ ہو تو اچھی بات کر کے ہی۔

【54】

ہر امر میں نرمی برتنے کا بیان

ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابراہیم بن سعید نے بیان کیا، ان سے صالح نے، ان سے ابن شہاب نے اور ان سے عروہ بن زبیر نے کہ نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ کچھ یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا السام عليكم‏.‏ (تمہیں موت آئے) عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ میں اس کا مفہوم سمجھ گئی اور میں نے ان کا جواب دیا کہ وعليكم السام واللعنة‏.‏ (یعنی تمہیں موت آئے اور لعنت ہو) بیان کیا کہ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ٹھہرو، اے عائشہ ! اللہ تعالیٰ تمام معاملات میں نرمی اور ملائمت کو پسند کرتا ہے۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! کیا آپ نے سنا نہیں انہوں نے کیا کہا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں نے اس کا جواب دے دیا تھا کہ وعليكم (اور تمہیں بھی) ۔

【55】

ہر امر میں نرمی برتنے کا بیان

ہم سے عبداللہ بن عبدالوہاب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ثابت نے اور ان سے انس بن مالک (رض) نے کہا کہ ایک دیہاتی نے مسجد میں پیشاب کردیا تھا۔ صحابہ کرام ان کی طرف دوڑے لیکن رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اس کے پیشاب کو مت روکو۔ پھر آپ نے پانی کا ڈول منگوایا اور وہ پیشاب کی جگہ پر بہا دیا گیا۔

【56】

ایمان داروں کا ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا

ہم سے محمد بن یونس نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے ابوبردہ برید بن ابی بردہ نے کہا کہ مجھے میرے دادا ابوبردہ نے خبر دی، ان سے ان کے والد ابوموسیٰ اشعری (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ایک مومن دوسرے مومن کے لیے اس طرح ہے جیسے عمارت کہ اس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو تھامے رہتا ہے (گرنے نہیں دیتا) پھر آپ نے اپنی انگلیوں کو قینچی کی طرح کرلیا۔ اور ایسا ہوا کہ نبی کریم ﷺ اس وقت بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک صاحب نے آ کر سوال کیا یا کوئی ضرورت پوری کرانی چاہی۔ نبی کریم ﷺ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ تم خاموش کیوں بیٹھے رہتے ہو بلکہ اس کی سفارش کرو تاکہ تمہیں بھی اجر ملے اور اللہ جو چاہے گا اپنے نبی کی زبان پر جاری کرے گا (تم اپنا ثواب کیوں کھوؤ) ۔

【57】

اللہ تعالیٰ کا قول کہ جس شخص نے اچھی سفارش کی تو اس میں سے ایک حصہ اور جس نے بری سفارش کی تو اس کو اس میں سے ایک حصہ ملے گا اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر محافظ ہے، کفل بمعنی حصہ سے اور ابوموسی نے کہا کہ کفلین کے معنی حبشی زبان میں دہرے اجر کے ہیں

ہم سے محمد بن العلاء نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے برید نے، ان سے ابوبردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ کے پاس جب کوئی مانگنے والا یا ضرورت مند آتا تو آپ ﷺ فرماتے کہ لوگو ! تم سفارش کرو تاکہ تمہیں بھی ثواب ملے اور اللہ اپنے نبی کی زبان پر جو چاہے گا فیصلہ کرائے گا۔

【58】

نبی ﷺ کو نہ تو فحش گوئی کی عادت تھی اور نہ قصداً فحش گوئی کرتے تھے

ہم سے حفص بن عمر بن حارث ابوعمرو حوش نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ بن حجاج نے بیان کیا، ان سے سلیمان نے، انہوں نے ابو وائل شقیق بن سلمہ سے سنا، انہوں نے مسروق سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ عمر (رض) نے کہا (دوسری سند) امام بخاری (رح) نے کہا ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے شقیق بن سلمہ نے اور ان سے مسروق نے بیان کیا کہ جب معاویہ (رض) کے ساتھ عبداللہ بن عمرو بن عاص کوفہ تشریف لائے تو ہم ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کا ذکر کیا اور بتلایا کہ نبی کریم ﷺ بدگو نہ تھے اور نہ آپ بدزبان تھے اور انہوں نے یہ بھی بیان کیا کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سب سے بہتر وہ آدمی ہے، جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں۔

【59】

نبی ﷺ کو نہ تو فحش گوئی کی عادت تھی اور نہ قصداً فحش گوئی کرتے تھے

ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدالوہاب ثقفی نے خبر دی، انہیں ایوب سختیانی نے، انہیں عبداللہ بن ابی ملیکہ نے اور انہیں عائشہ (رض) نے کہ کچھ یہودی رسول اللہ ﷺ کے یہاں آئے اور کہا السام عليكم‏.‏ (تم پر موت آئے) اس پر عائشہ (رض) نے کہا عليكم،‏‏‏‏ ولعنکم الله،‏‏‏‏ وغضب الله عليكم‏.‏ کہ تم پر بھی موت آئے اور اللہ کی تم پر لعنت ہو اور اس کا غضب تم پر نازل ہو۔ لیکن نبی کریم ﷺ نے فرمایا، (ٹھہرو) عائشہ ! تمہیں نرم خوئی اختیار کرنے چاہیے سختی اور بد زبانی سے بچنا چاہیئے۔ عائشہ (رض) نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! آپ نے ان کی بات نہیں سنی، نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تم نے انہیں میرا جواب نہیں سنا، میں نے ان کی بات انہیں پر لوٹا دی اور ان کے حق میں میری بددعا قبول ہوجائے گی۔ لیکن میرے حق میں ان کی بددعا قبول ہی نہ ہوگی۔

【60】

نبی ﷺ کو نہ تو فحش گوئی کی عادت تھی اور نہ قصداً فحش گوئی کرتے تھے

ہم سے اصبغ بن فرج نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے عبداللہ بن وہب نے خبر دی انہوں نے کہا ہم کو ابویحییٰ فلیح بن سلیمان نے خبر دی، انہیں ہلال بن اسامہ نے بیان کیا اور ان سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نہ گالی دیتے تھے نہ بدگو تھے نہ بدخو تھے اور نہ لعنت ملامت کرتے تھے۔ اگر ہم میں سے کسی پر ناراض ہوتے اتنا فرماتے اسے کیا ہوگیا ہے، اس کی پیشانی میں خاک لگے۔

【61】

نبی ﷺ کو نہ تو فحش گوئی کی عادت تھی اور نہ قصداً فحش گوئی کرتے تھے

ہم سے عمرو بن عیسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن سواء نے بیان کیا، کہا ہم سے روح ابن قاسم نے بیان کیا، ان سے محمد بن منکدر نے، ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ سے ایک شخص نے اندر آنے کی اجازت چاہی۔ نبی کریم ﷺ نے اسے دیکھ کر فرمایا کہ برا ہے فلاں قبیلہ کا بھائی۔ یا (آپ ﷺ نے فرمایا) کہ برا ہے فلاں قبیلہ کا بیٹا۔ پھر جب وہ نبی کریم ﷺ کے پاس آ بیٹھا تو آپ اس کے ساتھ بہت خوش خلقی کے ساتھ پیش آئے۔ وہ شخص جب چلا گیا تو عائشہ (رض) نے آپ سے عرض کیا : یا رسول اللہ ! جب آپ نے اسے دیکھا تھا تو اس کے متعلق یہ کلمات فرمائے تھے، جب آپ اس سے ملے تو بہت ہی خندہ پیشانی سے ملے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اے عائشہ ! تم نے مجھے بدگو کب پایا۔ اللہ کے یہاں قیامت کے دن وہ لوگ بدترین ہوں گے جن کے شر کے ڈر سے لوگ اس سے ملنا چھوڑ دیں۔

【62】

حسن خلق اور سخاوت کا بیان اور یہ کہ بخل مکروہ ہے، حضرت ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ نبی ﷺ لوگوں میں سب سے زیادہ سخی تھے اور رمضان میں معمول سے زیادہ سخی ہوجاتے، حضرت ابوذر کا بیان ہے کہ جب ان کو نبی ﷺ کے مبعوث ہونے کی خبر ملی تو اپنے بھائی سے کہا کہ اس وادی میں جاؤ اور آپ کی باتیں سنو، جب وہ لوٹا تو اس نے بیان کیا کہ میں نے آپ کو اچھے اخلاق کا حکم دیتے ہوئے دیکھا

ہم سے عمرو بن عون نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ثابت نے اور ان سے انس (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ سب سے زیادہ خوبصورت، سب سے زیادہ سخی اور سب سے زیادہ بہادر تھے۔ ایک رات مدینہ والے (شہر کے باہر شور سن کر) گھبرا گئے۔ (کہ شاید دشمن نے حملہ کیا ہے) سب لوگ اس شور کی طرف بڑھے۔ لیکن نبی کریم ﷺ آواز کی طرف بڑھنے والوں میں سب سے آگے تھے اور فرماتے جاتے تھے کہ کوئی ڈر کی بات نہیں، کوئی ڈر کی بات نہیں۔ نبی کریم ﷺ اس وقت ابوطلحہ کے (مندوب نامی) گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سوار تھے، اس پر کوئی زین نہیں تھی اور گلے میں تلوار لٹک رہی تھی۔ آپ نے فرمایا کہ میں نے اس گھوڑے کو سمندر پایا یا فرمایا کہ یہ تیز دوڑنے میں سمندر کی طرح تھا۔

【63】

حسن خلق اور سخاوت کا بیان اور یہ کہ بخل مکروہ ہے، حضرت ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ نبی ﷺ لوگوں میں سب سے زیادہ سخی تھے اور رمضان میں معمول سے زیادہ سخی ہوجاتے، حضرت ابوذر کا بیان ہے کہ جب ان کو نبی ﷺ کے مبعوث ہونے کی خبر ملی تو اپنے بھائی سے کہا کہ اس وادی میں جاؤ اور آپ کی باتیں سنو، جب وہ لوٹا تو اس نے بیان کیا کہ میں نے آپ کو اچھے اخلاق کا حکم دیتے ہوئے دیکھا

ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا ہم کو سفیان نے خبر دی، ان سے ابن منکدر نے بیان کیا، انہوں نے جابر (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ رسول اللہ ﷺ سے کسی نے کوئی چیز مانگی ہو اور آپ نے اس کے دینے سے انکار کیا ہو۔

【64】

حسن خلق اور سخاوت کا بیان اور یہ کہ بخل مکروہ ہے، حضرت ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ نبی ﷺ لوگوں میں سب سے زیادہ سخی تھے اور رمضان میں معمول سے زیادہ سخی ہوجاتے، حضرت ابوذر کا بیان ہے کہ جب ان کو نبی ﷺ کے مبعوث ہونے کی خبر ملی تو اپنے بھائی سے کہا کہ اس وادی میں جاؤ اور آپ کی باتیں سنو، جب وہ لوٹا تو اس نے بیان کیا کہ میں نے آپ کو اچھے اخلاق کا حکم دیتے ہوئے دیکھا

ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا مجھ سے شفیق نے بیان کیا، ان سے مسروق نے بیان کیا کہ ہم عبداللہ بن عمرو کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، وہ ہم سے باتیں کر رہے تھے اسی دوران انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نہ بدگو تھے نہ بد زبانی کرتے تھے (کہ منہ سے گالیاں نکالیں) بلکہ آپ ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ تم میں سب سے زیادہ بہتر وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں۔

【65】

حسن خلق اور سخاوت کا بیان اور یہ کہ بخل مکروہ ہے، حضرت ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ نبی ﷺ لوگوں میں سب سے زیادہ سخی تھے اور رمضان میں معمول سے زیادہ سخی ہوجاتے، حضرت ابوذر کا بیان ہے کہ جب ان کو نبی ﷺ کے مبعوث ہونے کی خبر ملی تو اپنے بھائی سے کہا کہ اس وادی میں جاؤ اور آپ کی باتیں سنو، جب وہ لوٹا تو اس نے بیان کیا کہ میں نے آپ کو اچھے اخلاق کا حکم دیتے ہوئے دیکھا

ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوغسان (محمد بن مطرف) نے بیان کیا کہ کہا مجھ سے ابوحازم نے بیان کیا، ان سے سہل بن سعد (رض) نے بیان کیا کہ ایک خاتون نبی کریم ﷺ کی خدمت میں بردہ لے کر آئیں پھر سہل نے موجود لوگوں سے کہا تمہیں معلوم ہے، کہ بردہ کیا چیز ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ بردہ شملہ کو کہتے ہیں۔ سہل (رض) نے کہا کہ ہاں لنگی جس میں حاشیہ بنا ہوا ہوتا ہے تو اس خاتون نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میں یہ لنگی آپ کے پہننے کے لیے لائی ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ لنگی ان سے قبول کرلی۔ اس وقت آپ کو اس کی ضرورت بھی تھی پھر آپ نے پہن لیا۔ صحابہ میں سے ایک صحابی عبدالرحمٰن بن عوف (رض) نے نبی کریم ﷺ کے بدن پر وہ لنگی دیکھی تو عرض کیا : یا رسول اللہ ! یہ بڑی عمدہ لنگی ہے، آپ مجھے اس کو عنایت فرما دیجئیے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ لے لو، جب نبی کریم ﷺ وہاں سے اٹھ کر تشریف لے گئے تو اندر جا کر وہ لنگی بدل کر تہہ کر کے عبدالرحمٰن کو بھیج دی تو لوگوں نے ان صاحب کو ملامت سے کہا کہ تم نے نبی کریم ﷺ سے لنگی مانگ کر اچھا نہیں کیا، تم نے دیکھ لیا تھا کہ نبی کریم ﷺ نے اسے اس طرح قبول کیا تھا گویا آپ کو اس کی ضرورت تھی۔ اس کے باوجود تم نے لنگی نبی کریم ﷺ سے مانگی، حالانکہ تمہیں معلوم ہے کہ نبی کریم ﷺ سے جب بھی کوئی چیز مانگی جاتی ہے تو آپ انکار نہیں کرتے۔ اس صحابی نے عرض کیا کہ میں تو صرف اس کی برکت کا امیدوار ہوں کہ نبی کریم ﷺ اسے پہن چکے تھے میری غرض یہ تھی کہ میں اس لنگی میں کفن دیا جاؤں گا۔

【66】

حسن خلق اور سخاوت کا بیان اور یہ کہ بخل مکروہ ہے، حضرت ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ نبی ﷺ لوگوں میں سب سے زیادہ سخی تھے اور رمضان میں معمول سے زیادہ سخی ہوجاتے، حضرت ابوذر کا بیان ہے کہ جب ان کو نبی ﷺ کے مبعوث ہونے کی خبر ملی تو اپنے بھائی سے کہا کہ اس وادی میں جاؤ اور آپ کی باتیں سنو، جب وہ لوٹا تو اس نے بیان کیا کہ میں نے آپ کو اچھے اخلاق کا حکم دیتے ہوئے دیکھا

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے کہا کہ مجھے حمید بن عبدالرحمٰن نے خبر دی اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا زمانہ جلدی جلدی گزرے گا اور دین کا علم دنیا میں کم ہوجائے گا اور دلوں میں بخیلی سما جائے گی اور لڑائی بڑھ جائے گی۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا هرج کیا ہوتا ہے ؟ فرمایا قتل خون ریزی۔

【67】

حسن خلق اور سخاوت کا بیان اور یہ کہ بخل مکروہ ہے، حضرت ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ نبی ﷺ لوگوں میں سب سے زیادہ سخی تھے اور رمضان میں معمول سے زیادہ سخی ہوجاتے، حضرت ابوذر کا بیان ہے کہ جب ان کو نبی ﷺ کے مبعوث ہونے کی خبر ملی تو اپنے بھائی سے کہا کہ اس وادی میں جاؤ اور آپ کی باتیں سنو، جب وہ لوٹا تو اس نے بیان کیا کہ میں نے آپ کو اچھے اخلاق کا حکم دیتے ہوئے دیکھا

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے سلام بن مسکین سے سنا، کہا کہ میں نے ثابت سے سنا، کہا کہ ہم سے انس (رض) نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی دس سال تک خدمت کی لیکن آپ نے کبھی مجھے اف تک نہیں کہا اور نہ کبھی یہ کہا کہ فلاں کام کیوں کیا اور فلاں کام کیوں نہیں کیا۔

【68】

آدمی اپنے گھر میں کس طرح رہے

ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے حکم نے، ان سے ابراہیم نخعی نے، ان سے اسود نے بیان کیا کہ میں نے عائشہ (رض) سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ اپنے گھر میں کیا کرتے تھے ؟ فرمایا نبی کریم ﷺ اپنے گھر کے کام کاج کرتے اور جب نماز کا وقت ہوجاتا تو نماز کے لیے مسجد تشریف لے جاتے تھے۔

【69】

محبت اللہ کی طرف سے ہے

ہم سے عمرو بن علی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعاصم نے، ان سے ابن جریج نے، کہا مجھ کو موسیٰ بن عقبہ نے خبر دی، انہیں نافع نے اور انہیں ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جب اللہ کسی بندہ سے محبت کرتا ہے تو جبرائیل (علیہ السلام) کو آواز دیتا ہے کہ اللہ فلاں بندے سے محبت کرتا ہے تم بھی اس سے محبت کرو۔ جبرائیل (علیہ السلام) بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں، پھر وہ تمام آسمان والوں میں آواز دیتے ہیں کہ اللہ فلاں بندے سے محبت کرتا ہے۔ تم بھی اس سے محبت کرو۔ پھر تمام آسمان والے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں۔ اس کے بعد وہ زمین میں بھی (اللہ کے بندوں کا) مقبول اور محبوب بن جاتا ہے۔

【70】

خدا کے لئے محبت کرنے کا بیان

ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کوئی شخص ایمان کی حلاوت (مٹھاس) اس وقت تک نہیں پاسکتا جب تک وہ کسی شخص سے محبت کرئے تو صرف اللہ کے لیے کرے اور اس کو آگ میں ڈالا جانا اچھا لگے لیکن ایمان کے بعد کفر میں جانا اسے پسند نہ ہو، اور جب تک اللہ اور اس کے رسول سے اسے ان کے سوا دوسری تمام چیزوں کے مقابلے میں زیادہ محبت نہ ہو۔

【71】

اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ اے ایمان والو ! کوئی جماعت کی دوسری جماعت سے مذاق نہ کرے شاید کہ وہ ان سے بہتر ہوں، فاولئک ھم الظالمون تک

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عبداللہ بن زمعہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے کسی کی ریح خارج ہونے پر ہنسنے سے منع فرمایا اور آپ نے یہ بھی فرمایا کہ تم میں سے کس طرح ایک شخص اپنی بیوی کو زور سے مارتا ہے جیسے اونٹ، حالانکہ اس کی پوری امید ہے کہ شام میں اسے وہ گلے لگائے گا۔ اور ثوری، وہیب اور ابومعاویہ نے ہشام سے بیان کیا کہ (جانور کی طرح) کے بجائے لفظ غلام کی طرح کا استعمال کیا۔

【72】

اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ اے ایمان والو ! کوئی جماعت کی دوسری جماعت سے مذاق نہ کرے شاید کہ وہ ان سے بہتر ہوں، فاولئک ھم الظالمون تک

مجھ سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یزید بن ہارون نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عاصم بن محمد بن زید نے خبر دی، انہوں نے کہا مجھے میرے والد اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے (حجۃ الوداع) کے موقع پر منیٰ میں فرمایا تم جانتے ہو یہ کون سا دن ہے ؟ صحابہ بولے اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ فرمایا یہ حرمت والا دن ہے (پھر فرمایا) تم جانتے ہو یہ کون سا شہر ہے ؟ صحابہ بولے اللہ اور اس رسول کو زیادہ علم ہے، فرمایا یہ حرمت والا شہر ہے۔ (پھر فرمایا) تم جانتے ہو یہ کون سا مہینہ ہے ؟ صحابہ بولے اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے، فرمایا یہی حرمت والا مہینہ ہے۔ پھر فرمایا بلاشبہ اللہ نے تم پر تمہارا (ایک دوسرے کا) خون، مال اور عزت اسی طرح حرام کیا ہے جیسے اس دن کو اس نے تمہارے اس مہینہ میں اور تمہارے اس شہر میں حرمت والا بنایا ہے۔

【73】

گالی گلوچ اور لعنت کی ممانعت کا بیان

ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے منصور نے بیان کیا، کہا میں نے ابو وائل سے سنا اور وہ عبداللہ بن مسعود (رض) سے بیان کرتے تھے کہ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مسلمان کو گالی دینا گناہ ہے اور اس کو قتل کرنا کفر ہے۔ غندر نے شعبہ سے روایت کرنے میں سلیمان کی متابعت کی ہے۔

【74】

گالی گلوچ اور لعنت کی ممانعت کا بیان

ہم سے ابومعمر عبداللہ بن عمرو نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، ان سے حسین بن ذکوان معلم نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن بریدہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے یحییٰ بن یعمر نے بیان کیا، ان سے ابوالاسود دیلی نے بیان کیا اور ان سے ابوذر غفاری (رض) نے کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ سے سنا، نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص کسی شخص کو کافر یا فاسق کہے اور وہ درحقیقت کافر یا فاسق نہ ہو تو خود کہنے والا فاسق اور کافر ہوجائے گا۔

【75】

گالی گلوچ اور لعنت کی ممانعت کا بیان

ہم سے محمد بن سنان نے بیان کیا، کہا ہم سے فلیح بن سلیمان نے بیان کیا کہا ہم سے ہلال بن علی نے بیان کیا اور ان سے انس (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ فحش گو نہیں تھے، نہ آپ لعنت ملامت کرنے والے تھے اور نہ گالی دیتے تھے، آپ کو بہت غصہ آتا تو صرف اتنا کہہ دیتے، اسے کیا ہوگیا ہے، اس کی پیشانی پہ خاک لگے۔

【76】

گالی گلوچ اور لعنت کی ممانعت کا بیان

ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے عثمان بن عمر نے، کہا ہم سے علی بن مبارک نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے، ان سے ابوقلابہ نے کہ ثابت بن ضحاک (رض) اصحاب شجر (بیعت رضوان کرنے والوں) میں سے تھے، انہوں نے ان سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو اسلام کے سوا کسی اور مذہب پر قسم کھائے (کہ اگر میں نے فلاں کام کیا تو میں نصرانی ہوں، یہودی ہوں) تو وہ ایسا ہوجائے گا جیسے کہ اس نے کہا اور کسی انسان پر ان چیزوں کی نذر صحیح نہیں ہوتی جو اس کے اختیار میں نہ ہوں اور جس نے دنیا میں کسی چیز سے خودکشی کرلی اسے اسی چیز سے آخرت میں عذاب ہوگا اور جس نے کسی مسلمان پر لعنت بھیجی تو یہ اس کے خون کرنے کے برابر ہے اور جو شخص کسی مسلمان کو کافر کہے تو وہ ایسا ہے جیسے اس کا خون کیا۔

【77】

گالی گلوچ اور لعنت کی ممانعت کا بیان

ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عدی بن ثابت نے بیان کیا کہ میں نے سلیمان بن صرد سے سنا وہ نبی کریم ﷺ کے صحابی ہیں، انہوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ کے سامنے دو آدمیوں نے آپس میں گالی گلوچ کی ایک صاحب کو غصہ آگیا اور بہت زیادہ آیا، ان کا چہرہ پھول گیا اور رنگ بدل دیا گیا۔ نبی کریم ﷺ نے اس وقت فرمایا کہ مجھے ایک کلمہ معلوم ہے کہ اگر (غصہ کرنے والا شخص) اسے کہہ لے تو اس کا غصہ دور ہوجائے گا۔ چناچہ ایک صاحب نے جا کر غصہ ہونے والے کو نبی کریم ﷺ کا ارشاد سنایا اور کہا شیطان سے اللہ کی پناہ مانگ وہ کہنے لگا کیا تم مجھ کو روگی سمجھتے ہو یا دیوانہ ؟ جا اپنا راستہ لے۔

【78】

گالی گلوچ اور لعنت کی ممانعت کا بیان

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے بشر بن مفضل نے بیان کیا، ان سے حمید نے بیان کیا، ان سے انس (رض) نے بیان کیا کہ مجھ سے عبادہ بن صامت (رض) نے کہا، نبی کریم ﷺ لوگوں کو لیلۃ القدر کی بشارت دینے کے لیے حجرے سے باہر تشریف لائے، لیکن مسلمانوں کے دو آدمی اس وقت آپس میں کسی بات پر لڑنے لگے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں تمہیں (لیلۃ القدر کے متعلق) بتانے کے لیے نکلا تھا لیکن فلاں فلاں آپس میں لڑنے لگے اور (میرے علم سے) وہ اٹھا لی گئی۔ ممکن ہے کہ یہی تمہارے لیے اچھا ہو۔ اب تم اسے 29 رمضان اور 27 رمضان اور 25 رمضان کی راتوں میں تلاش کرو۔

【79】

گالی گلوچ اور لعنت کی ممانعت کا بیان

مجھ سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے معرور نے اور ان سے ابوذر (رض) نے، معرور نے بیان کیا کہ میں نے ابوذر (رض) کے جسم پر ایک چادر دیکھی اور ان کے غلام کے جسم پر بھی ایک ویسی ہی چادر تھی، میں نے عرض کیا : اگر اپنے غلام کی چادر لے لیں اور اسے بھی پہن لیں تو ایک رنگ کا جوڑا ہوجائے غلام کو دوسرا کپڑا دے دیں۔ ابوذر (رض) نے اس پر کہا کہ مجھ میں اور ایک صاحب (بلال رضی اللہ عنہ) میں تکرار ہوگئی تھی تو ان کی ماں عجمی تھیں، میں نے اس بارے میں ان کو طعنہ دے دیا انہوں نے جا کر یہ بات نبی کریم ﷺ سے کہہ دی۔ نبی کریم ﷺ نے مجھ سے دریافت فرمایا کیا تم نے اس سے جھگڑا کیا ہے ؟ میں نے عرض کیا جی ہاں۔ دریافت کیا تم نے اسے اس کی ماں کی وجہ سے طعنہ دیا ہے ؟ میں نے عرض کیا جی ہاں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تمہارے اندر ابھی جاہلیت کی بو باقی ہے۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! اس بڑھاپے میں بھی ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہاں یاد رکھو یہ (غلام بھی) تمہارے بھائی ہیں، اللہ تعالیٰ نے انہیں تمہاری ماتحتی میں دیا ہے، پس اللہ تعالیٰ جس کی ماتحتی میں بھی اس کے بھائی کو رکھے اسے چاہیے کہ جو وہ کھائے اسے بھی کھلائے اور جو وہ پہنے اسے بھی پہنائے اور اسے ایسا کام کرنے کے لیے نہ کہے، جو اس کے بس میں نہ ہو اگر اسے کوئی ایسا کام کرنے کے لیے کہنا ہی پڑے تو اس کام میں اس کی مدد کرے۔

【80】

لوگوں کا ذکر کس طرح جائز ہے مثلا کسی کو لمبا یا ٹھگنا کہنا اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ ذوالیدین (لمبے ہاتھوں والا) کیا کہتا ہے اور ایسی باتیں کہنا جس سے اس کی برائی مقصود نہ ہو

ہم سے حفص بن عمر حوضی نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن سیرین نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے ہمیں ظہر کی نماز دو رکعت پڑھائی اور سلام پھیر دیا اس کے بعد آپ مسجد کے آگے کے حصہ یعنی دالان میں ایک لکڑی پر سہارا لے کر کھڑے ہوگئے اور اس پر اپنا ہاتھ رکھا، حاضرین میں ابوبکر اور عمر (رض) بھی موجود تھے مگر آپ کے دبدبے کی وجہ سے کچھ بول نہ سکے اور جلد باز لوگ مسجد سے باہر نکل گئے آپس میں صحابہ نے کہا کہ شاید نماز میں رکعات کم ہوگئیں ہیں اسی لیے نبی کریم ﷺ نے ظہر کی نماز چار کے بجائے صرف دو ہی رکعات پڑھائیں ہیں۔ حاضرین میں ایک صحابی تھے جنہیں آپ ذوالیدین (لمبے ہاتھوں والا) کہہ کر مخاطب فرمایا کرتے تھے، انہوں نے عرض کیا : اے اللہ کے نبی ! نماز کی رکعات کم ہوگئیں ہیں یا آپ بھول گئے ہیں ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ نہ میں بھولا ہوں اور نہ نماز کی رکعات کم ہوئیں ہیں۔ صحابہ نے عرض کیا : نہیں یا رسول اللہ ! آپ بھول گئے ہیں، چناچہ آپ نے یاد کر کے فرمایا کہ ذوالیدین نے صحیح کہا ہے۔ پھر آپ کھڑے ہوئے اور دو رکعات اور پڑھائیں پھر سلام پھیرا اور تکبیر کہہ کر سجدہ (سجدہ سہو) میں گئے، نماز کے سجدہ کی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ لمبا سجدہ کیا پھر سر اٹھایا اور تکبیر کہہ کر پھر سجدہ میں گئے پہلے سجدہ کی طرح یا اس سے بھی لمبا، پھر سر اٹھایا اور تکبیر کہی۔

【81】

غیبت کا بیان اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ تم میں سے بعض بعض کی غیبت نہ کرے کیا تم میں سے کوئی شخص پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے تم اس کو برا سمجھو گے اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو، بے شک اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے

ہم سے یحییٰ بن موسیٰ بلخی نے بیان کیا، کہا ہم سے وکیع نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، انہوں نے مجاہد سے سنا، وہ طاؤس سے بیان کرتے تھے اور وہ ابن عباس (رض) سے، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ دو قبروں کے پاس سے گزرے اور فرمایا کہ ان دونوں مردوں کو عذاب ہو رہا ہے اور یہ کسی بڑے گناہ کی وجہ سے عذاب میں گرفتار نہیں ہیں بلکہ یہ (ایک قبر کا مردہ) اپنے پیشاب کی چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا (یا پیشاب کرتے وقت پردہ نہیں کرتا تھا) اور یہ (دوسری قبر والا مردہ) چغل خور تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہری شاخ منگائی اور اسے دو ٹکڑوں میں توڑ کر دونوں قبروں پر گاڑ دیا اس کے بعد فرمایا کہ جب تک یہ شاخیں سوکھ نہ جائیں اس وقت تک شاید ان دونوں کا عذاب ہلکا رہے۔

【82】

آپ ﷺ کا فرمان کہ انصار کے گھروں میں سب سے بہتر ( کون ہے)

ہم سے قبیصہ بن عقبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے ابوالزناد نے، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابواسید ساعدی (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا قبیلہ انصار میں سب سے بہتر گھرانہ بنو نجار کا گھرانہ ہے۔

【83】

فساد پھیلانے والوں اور اہل شک کی غیبت جائز ہے۔

ہم سے صدقہ بن فضل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو سفیان بن عیینہ نے خبر دی، انہوں نے محمد بن منکدر سے سنا، انہوں نے عروہ بن زبیر سے سنا اور انہیں ام المؤمنین عائشہ (رض) نے خبر دی، انہوں نے بیان کیا کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے اندر آنے کی اجازت چاہی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اسے اجازت دے دو ، فلاں قبیلہ کا یہ برا آدمی ہے جب وہ شخص اندر آیا تو آپ نے اس کے ساتھ بڑی نرمی سے گفتگو کی۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! آپ کو اس کے متعلق جو کچھ کہنا تھا وہ ارشاد فرمایا اور پھر اس کے ساتھ نرم گفتگو کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا، عائشہ ! وہ بدترین آدمی ہے جسے اس کی بدکلامی کے ڈر سے لوگ (اسے) چھوڑ دیں۔

【84】

چغلخوری گناہ کبیرہ ہے

ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم کو عبیدہ بن عبدالرحمٰن نے خبر دی، انہیں منصور بن معمر نے، انہیں مجاہد نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ مدینہ منورہ کے کسی باغ سے تشریف لائے تو آپ نے دو (مردہ) انسانوں کی آواز سنی جنہیں ان کی قبروں میں عذاب دیا جا رہا تھا پھر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ انہیں عذاب ہو رہا ہے اور کسی بڑے گناہ کی وجہ سے انہیں عذاب نہیں ہو رہا ہے۔ ان میں سے ایک شخص پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا چغل خور تھا۔ پھر آپ ﷺ نے کھجور کی ایک ہری شاخ منگوائی اور اسے دو حصوں میں توڑا اور ایک ٹکڑا ایک کی قبر پر اور دوسرا دوسرے کی قبر پر گاڑ دیا۔ پھر فرمایا شاید کہ ان کے عذاب میں اس وقت تک کے لیے کمی کردی جائے، جب تک یہ سوکھ نہ جائیں۔

【85】

چغلخوری کی کراہت کا بیان اور اللہ تعالیٰ کا قول ھمازمشاء بنمیم اور ویل لکل ھمزہ لمزہ) یھمز اور ویلمز کے معنی ہیں کسی کو عیب لگانا

ہم سے ابونعیم (فضل بن دکین) نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے منصور بن معمر نے، ان سے ابراہیم نخعی نے، ان سے ہمام بن حارث نے بیان کیا کہ ہم حذیفہ (رض) کے پاس موجود تھے، ان سے کہا گیا کہ ایک شخص ایسا ہے جو یہاں کی باتیں عثمان سے جا لگاتا ہے۔ اس پر حذیفہ (رض) نے کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا ہے آپ ﷺ نے بتلایا کہ جنت میں چغل خور نہیں جائے گا۔

【86】

اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ جھوٹی بات کہنے سے پرہیز کرو

ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن ابی ذئب نے بیان کیا، ان سے سعید مقبری نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص (روزہ کی حالت میں) جھوٹ بات کرنا اور فریب کرنا اور جہالت کی باتوں کو نہ چھوڑے تو اللہ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑے۔ احمد بن یونس نے کہا یہ حدیث میں نے سنی تو تھی مگر میں اس کی سند بھول گیا تھا جو مجھ کو ایک شخص (ابن ابی ذئب) نے بتلا دی۔

【87】

دوغلے کے متعلق جو کہا گیاہے

ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوصالح نے بیان کیا، ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تم قیامت کے دن اللہ کے ہاں اس شخص کو سب سے بدتر پاؤ گے جو کچھ لوگوں کے سامنے ایک رخ سے آتا ہے اور دوسروں کے سامنے دوسرے رخ سے جاتا ہے۔

【88】

اپنے ساتھی سے بیان کرنا کہ اس کے متعلق کیا کہا جاتا ہے

ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا، کہا ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی، انہیں اعمش نے، انہیں ابو وائل نے اور ان سے ابن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے کچھ مال تقسیم کیا تو انصار میں سے ایک شخص نے کہا کہ اللہ کی قسم ! محمد ﷺ کو اس تقسیم سے اللہ کی رضا مقصود نہ تھی۔ میں نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اس شخص کی یہ بات آپ کو سنائی تو نبی کریم ﷺ کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ موسیٰ (علیہ السلام) پر رحم کرے، انہیں اس سے بھی زیادہ ایذا دی گئی، لیکن انہوں نے صبر کیا۔

【89】

کس قسم کی تعریف مکروہ ہے

ہم سے محمد بن صباح نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن زکریا نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے برید بن عبداللہ بن ابی بردہ نے بیان کیا، ان سے ابوبردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے سنا کہ ایک شخص دوسرے شخص کی تعریف کر رہا ہے اور تعریف میں بہت مبالغہ سے کام لے رہا تھا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تم نے اسے ہلاک کردیا یا (یہ فرمایا کہ) تم نے اس شخص کی کمر کو توڑ دیا۔

【90】

کس قسم کی تعریف مکروہ ہے

ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے خالد نے، ان سے عبدالرحمٰن بن ابی بکرہ نے، ان سے ان کے والد نے نبی کریم ﷺ کی مجلس میں ایک شخص کا ذکر آیا تو ایک دوسرے شخص نے ان کی مبالغہ سے تعریف کی تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ افسوس تم نے اپنے ساتھی کی گردن توڑ دی۔ نبی کریم ﷺ نے یہ جملہ کئی بار فرمایا، اگر تمہارے لیے کسی کی تعریف کرنی ضروری ہو تو یہ کہنا چاہیئے کہ میں اس کے متعلق ایسا خیال کرتا ہوں، باقی علم اللہ کو ہے وہ ایسا ہے۔ اگر اس کو یہ معلوم ہو کہ وہ ایسا ہی ہے اور یوں نہ کہے کہ وہ اللہ کے نزدیک اچھا ہی ہے۔ اور وہیب نے اسی سند کے ساتھ خالد سے یوں روایت کی ارے تیری خرابی تو نے اس کی گردن کاٹ ڈالی یعنی لفظ ويحك کے بجائے لفظ ويلك بیان کیا۔

【91】

اپنے بھائی کی ایسی تعریف کرنا جس کے متعلق (یقین کے ساتھ) معلوم ہوا اور سعد نے بیان کیا کہ میں نے نبی ﷺ کو سوائے عبداللہ بن سلام کے زمین پر کسی چلنے والے کے متعلق فرماتے ہوئے فرماتے ہوئے سنا کہ وہ اہل جنت میں سے ہیں

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، ان سے سالم نے اور ان سے ان کے والد عبداللہ بن عمر (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ کو ازار لٹکانے کے بارے میں جو کچھ فرمانا تھا جب آپ نے فرمایا تو ابوبکر (رض) نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میرا تہمد ایک طرف سے لٹکنے لگتا ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم ان تکبر کرنے والوں میں سے نہیں ہو۔

【92】

اللہ تعالیٰ کا قول کہ بے شک اللہ عدل واحسان کا اور قرابت والوں کو دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی اور بری باتوں اور سرکشی سے منع فرماتا ہے تمہیں نصیحت کرتا ہے شاید کہ تم نصیحت پکڑو اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ تمہاری سرکشی کا وبال تم ہی پر آئے گا، پھر اس پر ظلم کیا گیا تو اللہ اس کی مدد کرے گا، اور مسلمان یا کافر کی برائی مشہور نہ کرنے کا بیان

ہم سے عبداللہ بن زبیر حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ اتنے اتنے دنوں تک اس حال میں رہے کہ آپ کو خیال ہوتا تھا کہ جیسے آپ اپنی بیوی کے پاس جا رہے ہیں حالانکہ ایسا نہیں تھا۔ عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ایک دن فرمایا، عائشہ ! میں نے اللہ تعالیٰ سے ایک معاملہ میں سوال کیا تھا اور اس نے وہ بات مجھے بتلا دی، دو فرشتے میرے پاس آئے، ایک میرے پاؤں کے پاس بیٹھ گیا اور دوسرا سر کے پاس بیٹھ گیا۔ اس نے اس سے کہا کہ جو میرے سر کے پاس تھا ان صاحب (نبی کریم ﷺ ) کا کیا حال ہے ؟ دوسرے نے جواب دیا کہ ان پر جادو کردیا گیا ہے۔ پوچھا، کس نے ان پر جادو کیا ہے ؟ جواب دیا کہ لبید بن اعصم نے، پوچھا، کس چیز میں کیا ہے، جواب دیا کہ نر کھجور کے خوشہ کے غلاف میں، اس کے اندر کنگھی ہے اور کتان کے تار ہیں۔ اور یہ ذروان کے کنویں میں ایک چٹان کے نیچے دبا دیا ہے۔ اس کے بعد نبی کریم ﷺ تشریف لے گئے اور فرمایا کہ یہی وہ کنواں ہے جو مجھے خواب میں دکھلایا گیا تھا۔ اس کے باغ کے درختوں کے پتے سانپوں کے پھن جیسے ڈراؤنے معلوم ہوتے ہیں اور اس کا پانی مہندی کے نچوڑے ہوئے پانی کی طرح سرخ تھا۔ پھر نبی کریم ﷺ کے حکم سے وہ جادو نکالا گیا۔ عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! پھر کیوں نہیں، ان کی مراد یہ تھی کہ نبی کریم ﷺ نے اس واقعہ کو شہرت کیوں نہ دی۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ مجھے اللہ نے شفاء دے دی ہے اور میں ان لوگوں میں خواہ مخواہ برائی کے پھیلانے کو پسند نہیں کرتا۔ عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ لبید بن اعصم یہود کے حلیف بنی زریق سے تعلق رکھتا تھا۔

【93】

حسد اور غیبت کرنے کی ممانعت کا بیان اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ اور حسد کرنے والے کی برائی سے ( پناہ مانگتا ہوں) جب کہ وہ حسد کرے

ہم سے بشر بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں ہمام بن منبہ نے خبر دی اور انہیں ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا بدگمانی سے بچتے رہو کیونکہ بدگمانی کی باتیں اکثر جھوٹی ہوتی ہیں، لوگوں کے عیوب تلاش کرنے کے پیچھے نہ پڑو، آپس میں حسد نہ کرو، کسی کی پیٹھ پیچھے برائی نہ کرو، بغض نہ رکھو، بلکہ سب اللہ کے بندے آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو۔

【94】

حسد اور غیبت کرنے کی ممانعت کا بیان اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ اور حسد کرنے والے کی برائی سے ( پناہ مانگتا ہوں) جب کہ وہ حسد کرے

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا انہوں نے کہا کہ مجھ سے انس مالک (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا آپس میں بغض نہ رکھو، حسد نہ کرو، پیٹھ پیچھے کسی کی برائی نہ کرو، بلکہ اللہ کے بندے آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو اور کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ ایک بھائی کسی بھائی سے تین دن سے زیادہ سلام کلام چھوڑ کر رہے۔

【95】

اے ایمان والو! زیادہ بدگمانی سے بچو اس لئے کہ بغض بد گمانی ہے اور نہ کسی کے عیوب کی جستجو میں رہو

ہم سے عبداللہ بن یوسف تینسی نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک (رح) نے خبر دی، ابوالزناد سے وہ اعرج سے اور وہ ابوہریرہ (رض) سے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بدگمانی سے بچتے رہو، بدگمانی اکثر تحقیق کے بعد جھوٹی بات ثابت ہوتی ہے اور کسی کے عیوب ڈھونڈنے کے پیچھے نہ پڑو، کسی کا عیب خواہ مخواہ مت ٹٹولو اور کسی کے بھاؤ پر بھاؤ نہ بڑھاؤ اور حسد نہ کرو، بغض نہ رکھو، کسی کی پیٹھ پیچھے برائی نہ کرو بلکہ سب اللہ کے بندے آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو۔

【96】

کس طرح گمان کیا جا سکتا ہے

ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا میں گمان کرتا ہوں کہ فلاں اور فلاں ہمارے دین کی کوئی بات نہیں جانتے ہیں۔ لیث بن سعد نے بیان کیا کہ یہ دونوں آدمی منافق تھے۔ ہم سے یحییٰ بن بکیر نے کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے یہی حدیث نقل کی اور (اس میں یوں ہے کہ) عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ ایک دن نبی کریم ﷺ میرے یہاں تشریف لائے اور فرمایا عائشہ میں گمان کرتا ہوں کہ فلاں فلاں لوگ ہم جس دین پر ہیں اس کو نہیں پہچانتے۔

【97】

مومن کا اپنے گناہ پر پردہ ڈالنا

ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے، ان سے ان کے بھتیجے ابن شہاب نے، ان سے ابن شہاب (محمد بن مسلم) نے، ان سے سالم بن عبداللہ نے بیان کیا کہ میں نے ابوہریرہ (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میری تمام امت کو معاف کیا جائے گا سوا گناہوں کو کھلم کھلا کرنے والوں کے اور گناہوں کو کھلم کھلا کرنے میں یہ بھی شامل ہے کہ ایک شخص رات کو کوئی (گناہ کا) کام کرے اور اس کے باوجود کہ اللہ نے اس کے گناہ کو چھپا دیا ہے مگر صبح ہونے پر وہ کہنے لگے کہ اے فلاں ! میں نے کل رات فلاں فلاں برا کام کیا تھا۔ رات گزر گئی تھی اور اس کے رب نے اس کا گناہ چھپائے رکھا، لیکن جب صبح ہوئی تو وہ خود اللہ کے پردے کو کھولنے لگا۔

【98】

مومن کا اپنے گناہ پر پردہ ڈالنا

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے، انہوں نے قتادہ سے، انہوں نے صفوان بن محرز سے کہ ایک شخص نے ابن عمر (رض) سے پوچھا تم نے نبی کریم ﷺ سے کانا پھوسی کے بارے میں کیا سنا ہے ؟ (یعنی سرگوشی کے بارے میں) انہوں نے کہا نبی کریم ﷺ فرماتے تھے (قیامت کے دن تم مسلمانوں) میں سے ایک شخص (جو گنہگار ہوگا) اپنے پروردگار سے نزدیک ہوجائے گا۔ پروردگار اپنا بازو اس پر رکھ دے گا اور فرمائے گا تو نے (فلاں دن دنیا میں) یہ یہ برے کام کئے تھے، وہ عرض کرے گا۔ بیشک (پروردگار مجھ سے خطائیں ہوئی ہیں پر تو غفور رحیم ہے) غرض (سارے گناہوں کا) اس سے (پہلے) اقرار کرا لے گا پھر فرمائے گا دیکھ میں نے دنیا میں تیرے گناہ چھپائے رکھے تو آج میں ان گناہوں کو بخش دیتا ہوں۔

【99】

تکبر کا بیان اور مجاہد نے کہا کہ ثانی عطفہ سے مراد اپنے دل میں اپنے کو بڑا سمجھنے والا ہے۔ عطف سے مراد گردن ہے

ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو سفیان بن عیینہ نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم سے معبد بن خالد قیسی نے بیان کیا، ان سے حارثہ بن وہب خزاعی (رض) نے بیان کیا نبی کریم ﷺ نے فرمایا کیا میں تمہیں جنت والوں کی خبر نہ دوں۔ ہر کمزور و تواضع کرنے والا اگر وہ (اللہ کا نام لے کر) قسم کھالے تو اللہ اس کی قسم پوری کر دے۔ کیا میں تمہیں دوزخ والوں کی خبر نہ دوں ہر تند خو، اکڑ کر چلنے والا اور متکبر۔ اور محمد بن عیسیٰ نے بیان کیا کہ ہم سے ہشیم نے بیان کیا، کہا ہم کو حمید طویل نے خبر دی، کہا ہم سے انس بن مالک نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق فاضلہ کا یہ حال تھا کہ ایک لونڈی مدینہ کی لونڈیوں میں سے آپ کا ہاتھ پکڑ لیتی اور اپنے کسی بھی کام کے لیے جہاں چاہتی آپ کو لے جاتی تھی۔

【100】

ترک ملاقات کا بیان اور رسول اللہ ﷺ کا فرمانا کہ کسی شخص کے لئے جائز نہیں ہے کہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ ترک ملاقات کرے۔

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے، کہا مجھ سے عوف بن مالک بن طفیل نے بیان کیا وہ رسول اللہ ﷺ کی زوجہ مطہرہ عائشہ (رض) کے مادری بھتیجے تھے، انہوں نے کہا کہ عائشہ (رض) نے کوئی چیز بھیجی یا خیرات کی تو عبداللہ بن زبیر جو ان کے بھانجے تھے کہنے لگے کہ عائشہ (رض) کو ایسے معاملوں سے باز رہنا چاہیئے نہیں تو اللہ کی قسم میں ان کے لیے حجر کا حکم جاری کر دوں گا۔ ام المؤمنین نے کہا کیا اس نے یہ الفاظ کہے ہیں ؟ لوگوں نے بتایا کہ جی ہاں۔ فرمایا پھر میں اللہ سے نذر کرتی ہوں کہ ابن زبیر (رض) سے اب کبھی نہیں بولوں گی۔ اس کے بعد جب ان کے قطع تعلقی پر عرصہ گزر گیا۔ تو عبداللہ بن زبیر (رض) کے لیے ان سے سفارش کی گئی (کہ انہیں معاف فرما دیں) ام المؤمنین نے کہا ہرگز نہیں، اللہ کی قسم ! اس کے بارے میں کوئی سفارش نہیں مانوں گی اور اپنی نذر نہیں توڑوں گی۔ جب یہ قطعی تعلق عبداللہ بن زبیر (رض) کے لیے بہت تکلیف دہ ہوگئی تو انہوں نے مسور بن مخرمہ اور عبدالرحمٰن بن اسود بن عبد یغوث رضی اللہ عنہم سے اس سلسلے میں بات کی وہ دونوں بنی زہرہ سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے ان سے کہا کہ میں تمہیں اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کسی طرح تم لوگ مجھے عائشہ (رض) کے حجرہ میں داخل کرا دو کیونکہ ان کے لیے یہ جائز نہیں کہ میرے ساتھ صلہ رحمی کو توڑنے کی قسم کھائیں چناچہ مسور اور عبدالرحمٰن دونوں اپنی چادروں میں لپٹے ہوئے عبداللہ بن زبیر (رض) کو اس میں ساتھ لے کر آئے اور عائشہ (رض) سے اندر آنے کی اجازت چاہی اور عرض کی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، کیا ہم اندر آسکتے ہیں ؟ عائشہ (رض) نے کہا آجاؤ۔ انہوں نے عرض کیا ہم سب ؟ کہا ہاں، سب آجاؤ۔ ام المؤمنین کو اس کا علم نہیں تھا کہ عبداللہ بن زبیر (رض) بھی ان کے ساتھ ہیں۔ جب یہ اندر گئے تو عبداللہ بن زبیر (رض) پردہ ہٹا کر اندر چلے گئے اور ام المؤمنین (رض) سے لپٹ کر اللہ کا واسطہ دینے لگے اور رونے لگے (کہ معاف کردیں، یہ ام المؤمنین کے بھانجے تھے) مسور اور عبدالرحمٰن بھی ام المؤمنین کو اللہ کا واسطہ دینے لگے کہ عبداللہ بن زبیر (رض) سے بولیں اور انہیں معاف کردیں ان حضرات نے یہ بھی عرض کیا کہ جیسا کہ تم کو معلوم ہے نبی کریم ﷺ نے تعلق توڑنے سے منع کیا ہے کہ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ کسی اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ والی حدیث یاد دلانے لگے اور یہ کہ اس میں نقصان ہے تو ام المؤمنین بھی انہیں یاد دلانے لگیں اور رونے لگیں اور فرمانے لگیں کہ میں نے تو قسم کھالی ہے ؟ اور قسم کا معاملہ سخت ہے لیکن یہ بزرگ لوگ برابر کوشش کرتے رہے، یہاں تک کہ ام المؤمنین نے عبداللہ بن زبیر (رض) سے بات کرلی اور اپنی قسم (توڑنے) کی وجہ سے چالیس غلام آزاد کئے۔ اس کے بعد جب بھی آپ یہ قسم یاد کرتیں تو رونے لگتیں اور آپ کا دوپٹہ آنسوؤں سے تر ہوجاتا۔

【101】

None

وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے مادری بھتیجے تھے، انہوں نے کہا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کوئی چیز بھیجی یا خیرات کی تو عبداللہ بن زبیر جو ان کے بھانجے تھے کہنے لگے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو ایسے معاملوں سے باز رہنا چاہیئے نہیں تو اللہ کی قسم میں ان کے لیے حجر کا حکم جاری کر دوں گا۔ ام المؤمنین نے کہا کیا اس نے یہ الفاظ کہے ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ جی ہاں۔ فرمایا پھر میں اللہ سے نذر کرتی ہوں کہ ابن زبیر رضی اللہ عنہما سے اب کبھی نہیں بولوں گی۔ اس کے بعد جب ان کے قطع تعلقی پر عرصہ گزر گیا۔ تو عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے لیے ان سے سفارش کی گئی ( کہ انہیں معاف فرما دیں ) ام المؤمنین نے کہا ہرگز نہیں، اللہ کی قسم! اس کے بارے میں کوئی سفارش نہیں مانوں گی اور اپنی نذر نہیں توڑوں گی۔ جب یہ قطعی تعلق عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے لیے بہت تکلیف دہ ہو گئی تو انہوں نے مسور بن مخرمہ اور عبدالرحمٰن بن اسود بن عبد یغوث رضی اللہ عنہم سے اس سلسلے میں بات کی وہ دونوں بنی زہرہ سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے ان سے کہا کہ میں تمہیں اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کسی طرح تم لوگ مجھے عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ میں داخل کرا دو کیونکہ ان کے لیے یہ جائز نہیں کہ میرے ساتھ صلہ رحمی کو توڑنے کی قسم کھائیں چنانچہ مسور اور عبدالرحمٰن دونوں اپنی چادروں میں لپٹے ہوئے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کو اس میں ساتھ لے کر آئے اور عائشہ رضی اللہ عنہا سے اندر آنے کی اجازت چاہی اور عرض کی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، کیا ہم اندر آ سکتے ہیں؟ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا آ جاؤ۔ انہوں نے عرض کیا ہم سب؟ کہا ہاں، سب آ جاؤ۔ ام المؤمنین کو اس کا علم نہیں تھا کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما بھی ان کے ساتھ ہیں۔ جب یہ اندر گئے تو عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما پردہ ہٹا کر اندر چلے گئے اور ام المؤمنین رضی اللہ عنہا سے لپٹ کر اللہ کا واسطہ دینے لگے اور رونے لگے ( کہ معاف کر دیں، یہ ام المؤمنین کے بھانجے تھے ) مسور اور عبدالرحمٰن بھی ام المؤمنین کو اللہ کا واسطہ دینے لگے کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے بولیں اور انہیں معاف کر دیں ان حضرات نے یہ بھی عرض کیا کہ جیسا کہ تم کو معلوم ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلق توڑنے سے منع کیا ہے کہ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ کسی اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ والی حدیث یاد دلانے لگے اور یہ کہ اس میں نقصان ہے تو ام المؤمنین بھی انہیں یاد دلانے لگیں اور رونے لگیں اور فرمانے لگیں کہ میں نے تو قسم کھا لی ہے؟ اور قسم کا معاملہ سخت ہے لیکن یہ بزرگ لوگ برابر کوشش کرتے رہے، یہاں تک کہ ام المؤمنین نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے بات کر لی اور اپنی قسم ( توڑنے ) کی وجہ سے چالیس غلام آزاد کئے۔ اس کے بعد جب بھی آپ یہ قسم یاد کرتیں تو رونے لگتیں اور آپ کا دوپٹہ آنسوؤں سے تر ہو جاتا۔

【102】

ترک ملاقات کا بیان اور رسول اللہ ﷺ کا فرمانا کہ کسی شخص کے لئے جائز نہیں ہے کہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ ترک ملاقات کرے۔

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا انہیں امام مالک (رح) نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے اور ان سے انس بن مالک (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا آپس میں بغض نہ رکھو اور ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، پیٹھ پیچھے کسی کی برائی نہ کرو، بلکہ اللہ کے بندے اور آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو اور کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ کسی بھائی سے تین دن سے زیادہ تک بات چیت بند کرے۔

【103】

ترک ملاقات کا بیان اور رسول اللہ ﷺ کا فرمانا کہ کسی شخص کے لئے جائز نہیں ہے کہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ ترک ملاقات کرے۔

ہم سے عبدالرحمٰن بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک (رح) نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں عطاء بن یزید لیثی نے اور انہیں ابوایوب انصاری (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کسی شخص کے لیے جائز نہیں کہ اپنے کسی بھائی سے تین دن سے زیادہ کے لیے ملاقات چھوڑے، اس طرح کہ جب دونوں کا سامنا ہوجائے تو یہ بھی منہ پھیر لے اور وہ بھی منہ پھیر لے اور ان دونوں میں بہتر وہ ہے جو سلام میں پہل کرے۔

【104】

نافرمانی کرنے والے سے ترک ملاقات کا جائز ہونا اور کعب نے بیان کیا کہ جب وہ نبی ﷺ سے پیچھے رہ گئے اور نبی ﷺ نے مسلمانوں کو ہم سے گفتگو کرنے سے منع فرمایا اور پچاس راتوں کا تذکرہ کیا

ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدہ بن سلیمان نے خبر دی، انہیں ہشام بن عروہ نے، انہیں ان کے والد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں تمہاری ناراضگی اور خوشی کو خوب پہچانتا ہوں۔ ام المؤمنین نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! آپ کس طرح سے پہچانتے ہیں ؟ فرمایا کہ جب تم خوش ہوتی ہو کہتی ہو، ہاں محمد کے رب کی قسم ! اور جب ناراض ہوتی ہو تو کہتی ہو نہیں، ابراہیم کے رب کی قسم ! بیان کیا کہ میں نے عرض کیا : جی ہاں ، آپ کا فرمانا بالکل صحیح ہے میں صرف آپ کا نام لینا چھوڑتی ہوں۔

【105】

کیا اپنے دوست کی ملاقات کے لئے روزانہ یا صبح و شام کے وقت جایا جائے

ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو ہشام بن عروہ نے خبر دی، انہیں معمر نے، ان سے زہری نے (دوسری سند) اور لیث بن سعد نے بیان کیا کہ مجھے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، انہیں عروہ بن زبیر نے خبر دی اور ان سے نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ جب میں نے ہوش سنبھالا تو اپنے والدین کو دین اسلام کا پیرو پایا اور کوئی دن ایسا نہیں گزرتا تھا کہ جس میں رسول اللہ ﷺ ان کے پاس صبح و شام تشریف نہ لاتے ہوں، ایک دن ابوبکر (رض) (والد ماجد) گھر میں بھری دوپہر میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص نے کہا یہ رسول اللہ ﷺ تشریف لا رہے ہیں، یہ ایسا وقت تھا کہ اس وقت ہمارے یہاں نبی کریم ﷺ کے آنے کا معمول نہیں تھا، ابوبکر (رض) بولے کہ اس وقت نبی کریم ﷺ کا تشریف لانا کسی خاص وجہ ہی سے ہوسکتا ہے، پھر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ مجھے مکہ چھوڑنے کی اجازت مل گئی ہے۔

【106】

ملاقات اور اس شخص کا بیان، جو کسی جماعت کی ملاقات کو جائے اور وہاں کھانا کھائے اور سلمان نبی ﷺ کے زمانہ میں ابودرادء کی ملاقات کو گئے تو ان کے ہاں کھانا کھایا

ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدالوہاب ثقفی نے خبر دی، انہیں خالد حذاء نے، انہیں انس بن سیرین نے اور انہیں انس بن مالک (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ قبیلہ انصار کے گھرانہ میں ملاقات کے لیے تشریف لے گئے اور انہیں کے یہاں کھانا کھایا، جب آپ واپس تشریف لانے لگے تو آپ کے حکم سے ایک چٹائی پر پانی چھڑکا گیا اور نبی کریم ﷺ نے اس پر نماز پڑھی اور گھر والوں کے لیے دعا کی۔

【107】

وفد سے ملنے کے لئے زینت کرنے کا بیان

ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالصمد بن عبدالوارث نے، کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے یحییٰ بن ابی اسحاق نے، کہا کہ مجھ سے سالم بن عبداللہ نے پوچھا کہ إستبرق کیا چیز ہے ؟ میں نے کہا کہ دیبا سے بنا ہوا دبیز اور کھردرا کپڑا پھر انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عبداللہ بن عمر (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ عمر (رض) نے ایک شخص کو استبرق کا جوڑا پہنے ہوئے دیکھا تو نبی کریم ﷺ کی خدمت میں اسے لے کر حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! اسے آپ خرید لیں اور وفد جب آپ سے ملاقات کے لیے آئیں تو ان کی ملاقات کے وقت اسے پہن لیا کریں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ریشم تو وہی پہن سکتا ہے جس کا (آخرت میں) کوئی حصہ نہ ہو خیر اس بات پر ایک مدت گزر گئی پھر ایسا ہوا کہ ایک دن نبی کریم ﷺ نے خود انہیں ایک جوڑا بھیجا تو وہ اسے لے کر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا آپ نے یہ جوڑا میرے لیے بھیجا ہے، حالانکہ اس کے بارے میں آپ اس سے پہلے ایسا ارشاد فرما چکے ہیں ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ میں نے تمہارے پاس اس لیے بھیجا ہے تاکہ تم اس کے ذریعہ (بیچ کر) مال حاصل کرو۔ چناچہ ابن عمر (رض) اسی حدیث کی وجہ سے کپڑے میں (ریشم کے) بیل بوٹوں کو بھی مکروہ جانتے تھے۔

【108】

بھائی چارہ کرنے اور قسم کھانے کا بیان اور ابوجحیفہ کا بیان ہے کہ آپ ﷺ نے سلمان اور ابودرداء کے درمیان بھائی چارہ کرادیا تھا اور عبدالرحمن بن عوف نے بیان کیا کہ ہم لوگ جب مدینہ آئے تو نبی ﷺ نے میرے اور سعد بن ربیع کے درمیان بھائی چارہ قائم کردیا

ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے حمید طویل نے اور ان سے انس (رض) نے بیان کیا کہ جب عبدالرحمٰن بن عوف ہمارے یہاں آئے تو نبی کریم ﷺ نے ان میں اور سعد بن ربیع میں بھائی چارگی کرائی تو پھر (جب عبدالرحمٰن بن عوف نے نکاح کیا تو) نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اب ولیمہ کر خواہ ایک بکری کا ہو۔

【109】

بھائی چارہ کرنے اور قسم کھانے کا بیان اور ابوجحیفہ کا بیان ہے کہ آپ ﷺ نے سلمان اور ابودرداء کے درمیان بھائی چارہ کرادیا تھا اور عبدالرحمن بن عوف نے بیان کیا کہ ہم لوگ جب مدینہ آئے تو نبی ﷺ نے میرے اور سعد بن ربیع کے درمیان بھائی چارہ قائم کردیا

ہم سے محمد بن صباح نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن زکریا نے بیان کیا، کہا ہم سے عاصم بن سلیمان احول نے بیان کیا، کہا کہ میں نے انس بن مالک (رض) سے پوچھا، کیا تم کو یہ بات معلوم ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اسلام میں معاہدہ (حلف) کی کوئی اصل نہیں ؟ انس (رض) نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ نے خود قریش اور انصار کے درمیان میرے گھر میں حلف کرائی تھی۔

【110】

مسکراہٹ اور ہنسی کا بیان اور فاطمہ (رض) نے بیان کیا کہ آپ ﷺ نے مجھ سے چپکے سے فرمایا تو میں ہنس پڑی اور حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہی ہنساتا اور رلاتا ہے

ہم سے حبان بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں عروہ نے اور انہیں عائشہ (رض) نے کہ رفاعہ قرظی نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور طلاق رجعی نہیں دی۔ اس کے بعد ان سے عبدالرحمٰن بن زبیر (رض) نے نکاح کرلیا، لیکن وہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! میں رفاعہ (رض) کے نکاح میں تھی لیکن انہوں نے مجھے تین طلاقیں دے دیں۔ پھر مجھ سے عبدالرحمٰن بن زبیر (رض) نے نکاح کرلیا، لیکن اللہ کی قسم ان کے پاس تو پلو کی طرح کے سوا اور کچھ نہیں۔ (مراد یہ کہ وہ نامرد ہیں) اور انہوں نے اپنے چادر کا پلو پکڑ کر بتایا (راوی نے بیان کیا کہ) ابوبکر (رض) نبی کریم ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور سعید بن العاص کے لڑکے خالد حجرہ کے دروازے پر تھے اور اندر داخل ہونے کی اجازت کے منتظر تھے۔ خالد بن سعید اس پر ابوبکر (رض) کو آواز دے کر کہنے لگے کہ آپ اس عورت کو ڈانتے نہیں کہ نبی کریم ﷺ کے سامنے کس طرح کی بات کہتی ہے اور نبی کریم ﷺ نے تبسم کے سوا اور کچھ نہیں فرمایا۔ پھر فرمایا، غالباً تم رفاعہ کے پاس دوبارہ جانا چاہتی ہو لیکن یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک تم ان کا (عبدالرحمٰن (رض) کا) مزا نہ چکھ لو اور وہ تمہارا مزہ نہ چکھ لیں۔

【111】

مسکراہٹ اور ہنسی کا بیان اور فاطمہ (رض) نے بیان کیا کہ آپ ﷺ نے مجھ سے چپکے سے فرمایا تو میں ہنس پڑی اور حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہی ہنساتا اور رلاتا ہے

ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم نے بیان کیا، ان سے صالح بن کیسان نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عبدالحمید بن عبدالرحمٰن بن زید بن خطاب نے، ان سے محمد بن سعد نے اور ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ عمر بن خطاب (رض) نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت چاہی۔ اس وقت نبی کریم ﷺ کے پاس آپ کی کئی بیویاں جو قریش سے تعلق رکھتی تھیں آپ سے خرچ دینے کے لیے تقاضا کر رہی تھیں اور اونچی آواز میں باتیں کر رہی تھیں۔ جب عمر (رض) نے اجازت چاہی تو وہ جلدی سے بھاگ کر پردے کے پیچھے چلی گئیں۔ پھر نبی کریم ﷺ نے ان کو اجازت دی اور وہ داخل ہوئے۔ نبی کریم ﷺ اس وقت ہنس رہے تھے، عمر (رض) نے عرض کیا : اللہ آپ کو خوش رکھے، یا رسول اللہ ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ان پر مجھے حیرت ہوئی، جو ابھی میرے پاس تقاضا کر رہی تھیں، جب انہوں نے تمہاری آواز سنی تو فوراً بھاگ کر پردے کے پیچھے چلی گئیں۔ عمر (رض) نے اس پر عرض کیا : یا رسول اللہ ! آپ اس کے زیادہ مستحق ہیں کہ آپ سے ڈرا جائے، پھر عورتوں کو مخاطب کر کے انہوں نے کہا، اپنی جانوں کی دشمن ! مجھ سے تو تم ڈرتی ہو او اللہ کے رسول سے نہیں ڈرتیں۔ انہوں نے عرض کیا : آپ نبی کریم ﷺ سے زیادہ سخت ہیں۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ہاں اے ابن خطاب ! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر شیطان بھی تمہیں راستے پر آتا ہوا دیکھے گا تو تمہارا راستہ چھوڑ کر دوسرے راستے پر چلا جائے گا۔

【112】

مسکراہٹ اور ہنسی کا بیان اور فاطمہ (رض) نے بیان کیا کہ آپ ﷺ نے مجھ سے چپکے سے فرمایا تو میں ہنس پڑی اور حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہی ہنساتا اور رلاتا ہے

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے، ان سے ابو العباس سائب نے اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ ﷺ طائف میں تھے (فتح مکہ کے بعد) تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر اللہ نے چاہا تو ہم یہاں سے کل واپس ہوں گے۔ آپ کے بعض صحابہ نے کہا کہ ہم اس وقت تک نہیں جائیں گے جب تک اسے فتح نہ کرلیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر یہی بات ہے تو کل صبح لڑائی کرو۔ بیان کیا کہ دوسرے دن صبح کو صحابہ نے گھمسان کی لڑائی لڑی اور بکثرت صحابہ زخمی ہوئے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ انشاء اللہ ہم کل واپس ہوں گے۔ بیان کیا کہ اب سب لوگ خاموش رہے۔ اس پر نبی کریم ﷺ ہنس پڑے۔ حمیدی نے بیان کیا کہ ہم سے سفیان نے پوری سند خبر‏. کے لفظ کے ساتھ بیان کی۔

【113】

مسکراہٹ اور ہنسی کا بیان اور فاطمہ (رض) نے بیان کیا کہ آپ ﷺ نے مجھ سے چپکے سے فرمایا تو میں ہنس پڑی اور حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہی ہنساتا اور رلاتا ہے

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، کہا ہم کو ابن شہاب نے خبر دی، انہیں حمید بن عبدالرحمٰن نے، ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ ایک صاحب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : میں تو تباہ ہوگیا اپنی بیوی کے ساتھ رمضان میں (روزہ کی حالت میں) ہمبستری کرلی۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پھر ایک غلام آزاد کر۔ انہوں نے عرض کیا : میرے پاس کوئی غلام نہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پھر دو مہینے کے روزے رکھ۔ انہوں نے عرض کیا : اس کی مجھ میں طاقت نہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا پھر ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا۔ انہوں نے عرض کیا کہ اتنا بھی میرے پاس نہیں ہے۔ بیان کیا کہ پھر کھجور کا ایک ٹوکرا لایا گیا۔ ابراہیم نے بیان کیا کہ عرق ایک طرح کا (نو کلوگرام کا) ایک پیمانہ تھا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پوچھنے والا کہاں ہے ؟ لو اسے صدقہ کردینا۔ انہوں نے عرض کیا مجھ سے جو زیادہ محتاج ہو اسے دوں ؟ اللہ کی قسم ! مدینہ کے دونوں میدانوں کے درمیان کوئی گھرانہ بھی ہم سے زیادہ محتاج نہیں ہے۔ اس پر نبی کریم ﷺ ہنس دیئے اور آپ کے سامنے کے دندان مبارک کھل گئے، اس کے بعد فرمایا کہ اچھا پھر تو تم میاں بیوی ہی اسے کھالو۔

【114】

مسکراہٹ اور ہنسی کا بیان اور فاطمہ (رض) نے بیان کیا کہ آپ ﷺ نے مجھ سے چپکے سے فرمایا تو میں ہنس پڑی اور حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہی ہنساتا اور رلاتا ہے

ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک (رح) نے بیان کیا، ان سے اسحاق بن عبداللہ ابن ابی طلحہ نے اور ان سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ چل رہا تھا۔ آپ کے جسم پر ایک نجرانی چادر تھی، جس کا حاشیہ موٹا تھا۔ اتنے میں ایک دیہاتی آپ ﷺ کے پاس آیا اور اس نے آپ کی چادر بڑے زور سے کھینچی۔ انس (رض) نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کے شانے کو دیکھا کہ زور سے کھینچنے کی وجہ سے، اس پر نشان پڑگئے۔ پھر اس نے کہا : اے محمد ! اللہ کا جو مال آپ کے پاس ہے اس میں سے مجھے دیئے جانے کا حکم فرمایئے۔ اس وقت میں نے نبی کریم ﷺ کو مڑ کر دیکھا تو آپ مسکرا دیئے پھر آپ ﷺ نے اسے دیئے جانے کا حکم فرمایا۔

【115】

مسکراہٹ اور ہنسی کا بیان اور فاطمہ (رض) نے بیان کیا کہ آپ ﷺ نے مجھ سے چپکے سے فرمایا تو میں ہنس پڑی اور حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہی ہنساتا اور رلاتا ہے

ہم سے ابن نمیر نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن ادریس نے بیان کیا، ان سے اسماعیل نے، ان سے قیس نے اور ان سے جریر (رض) نے بیان کیا کہ جب سے میں نے اسلام قبول کیا نبی کریم ﷺ نے (اپنے پاس آنے سے) کبھی نہیں روکا اور جب بھی آپ نے مجھے دیکھا تو مسکرائے۔ میں نے نبی کریم ﷺ سے شکایت کی کہ میں گھوڑے پر جم کر نہیں بیٹھ پاتا تو نبی کریم ﷺ نے اپنا ہاتھ میرے سینے پر مارا اور دعا کی اللهم ثبته واجعله هاديا مهديا اے اللہ ! اسے ثبات فرما، اسے ہدایت کرنے والا اور خود ہدایت پایا ہوا بنا۔

【116】

مسکراہٹ اور ہنسی کا بیان اور فاطمہ (رض) نے بیان کیا کہ آپ ﷺ نے مجھ سے چپکے سے فرمایا تو میں ہنس پڑی اور حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہی ہنساتا اور رلاتا ہے

ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، انہیں ان کے والد نے خبر دی، انہیں زینب بنت ام سلمہ (رض) نے، انہیں ام سلمہ (رض) نے کہ ام سلیم (رض) نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! اللہ حق سے نہیں شرماتا، کیا عورت کو جب احتلام ہو تو اس پر غسل واجب ہے ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہاں جب عورت پانی دیکھے (تو اس پر غسل واجب ہے) اس پر ام سلمہ (رض) ہنسیں اور عرض کیا، کیا عورت کو بھی احتلام ہوتا ہے ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پھر بچہ کی صورت ماں سے کیوں ملتی ہے۔

【117】

مسکراہٹ اور ہنسی کا بیان اور فاطمہ (رض) نے بیان کیا کہ آپ ﷺ نے مجھ سے چپکے سے فرمایا تو میں ہنس پڑی اور حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہی ہنساتا اور رلاتا ہے

ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابن وہب نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عمرو نے خبر دی، ان سے ابوالنضر نے بیان کیا، ان سے سلیمان بن یسار نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کو اس طرح کھل کر کبھی ہنستے نہیں دیکھا کہ آپ کے حلق کا کوا نظر آنے لگتا ہو، آپ ﷺ صرف مسکراتے تھے۔

【118】

مسکراہٹ اور ہنسی کا بیان اور فاطمہ (رض) نے بیان کیا کہ آپ ﷺ نے مجھ سے چپکے سے فرمایا تو میں ہنس پڑی اور حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہی ہنساتا اور رلاتا ہے

ہم سے محمد بن محبوب نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس (رض) نے (دوسری سند) اور مجھ سے خلیفہ نے بیان کیا، کہا ہم کو یزید بن زریع نے بیان کیا، ان سے سعید نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس (رض) نے کہ ایک صاحب جمعہ کے دن نبی کریم ﷺ کے پاس آئے نبی کریم ﷺ اس وقت مدینہ میں جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے، انہوں نے عرض کیا بارش کا قحط پڑگیا ہے، آپ اپنے رب سے بارش کی دعا کیجئے۔ نبی کریم ﷺ نے آسمان کی طرف دیکھا کہیں ہمیں بادل نظر نہیں آ رہا تھا۔ پھر آپ نے بارش کی دعا کی، اتنے میں بادل اٹھا اور بعض ٹکڑے بعض کی طرف بڑھے اور بارش ہونے لگی، یہاں تک کہ مدینہ کے نالے بہنے لگے۔ اگلے جمعہ تک اسی طرح بارش ہوتی رہی سلسلہ ٹوٹتا ہی نہ تھا چناچہ وہی صاحب یا کوئی دوسرے (اگلے جمعہ کو) کھڑے ہوئے، نبی کریم ﷺ خطبہ دے رہے تھے اور انہوں نے عرض کیا : ہم ڈوب گئے، اپنے رب سے دعا کریں کہ اب بارش بند کر دے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، اے اللہ ! ہمارے چاروں طرف بارش ہو، ہم پر نہ ہو۔ دو یا تین مرتبہ آپ ﷺ نے یہ فرمایا، چناچہ مدینہ منورہ سے بادل چھٹنے لگے، بائیں اور دائیں، ہمارے چاروں طرف دوسرے مقامات پر بارش ہونے لگی اور ہمارے یہاں بارش یکدم بند ہوگئی۔ یہ اللہ نے لوگوں کو نبی کریم ﷺ کا معجزہ اور اپنے پیغمبر ﷺ کی کرامت اور دعا کی قبولیت بتلائی۔

【119】

اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور صادقین کے ساتھ ہوجاؤ اور جھوٹ کی ممانعت کا بیان

ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے منصور نے بیان کیا، ان سے ابو وائل نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا بلاشبہ سچ آدمی کو نیکی کی طرف بلاتا ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے اور ایک شخص سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ صدیق کا لقب اور مرتبہ حاصل کرلیتا ہے اور بلاشبہ جھوٹ برائی کی طرف لے جاتا ہے اور برائی جہنم کی طرف اور ایک شخص جھوٹ بولتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ کے یہاں بہت جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔

【120】

اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور صادقین کے ساتھ ہوجاؤ اور جھوٹ کی ممانعت کا بیان

ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا، ان سے ابی سہیل نافع بن مالک بن ابی عامر نے، ان سے ان کے والد مالک بن ابی عامر نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا منافق کی تین نشانیاں ہیں، جب بولتا ہے جھوٹ بولتا ہے، جب وعدہ کرتا ہے خلاف کرتا ہے اور جب اسے امین بنایا جاتا ہے تو خیانت کرتا ہے۔

【121】

اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور صادقین کے ساتھ ہوجاؤ اور جھوٹ کی ممانعت کا بیان

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابورجاء نے بیان کیا، ان سے سمرہ بن جندب (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا میرے پاس گذشتہ رات خواب میں دو آدمی آئے انہوں نے کہا کہ جسے آپ نے دیکھا کہ اس کا جبڑا چیرا جا رہا تھا وہ بڑا ہی جھوٹا تھا، جو ایک بات کو لیتا اور ساری دنیا میں پھیلا دیتا تھا، قیامت تک اس کو یہی سزا ملتی رہے گی۔

【122】

اچھے طریقوں کا بیان

ہم سے اسحاق بن ابراہیم راہویہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابواسامہ سے پوچھا کیا تم سے اعمش نے یہ بیان کیا کہ میں نے شقیق سے سنا، کہا میں نے حذیفہ (رض) سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ بلاشبہ سب لوگوں سے اپنی چال ڈھال اور وضع اور سیرت میں رسول اللہ ﷺ سے سب سے زیادہ مشابہ عبداللہ بن مسعود (رض) ہیں۔ جب وہ اپنے گھر سے باہر نکلتے اور اس کے بعد دوبارہ اپنے گھر واپس آنے تک ان کا یہی حال رہتا ہے لیکن جب وہ اکیلے گھر میں رہتے تو معلوم نہیں کیا کرتے رہتے ہیں۔

【123】

اچھے طریقوں کا بیان

ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے مخارق نے، انہوں نے کہا میں نے طارق سے سنا، کہا کہ عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہا بلاشبہ سب سے اچھا کلام اللہ کی کتاب ہے اور سب سے اچھا طریقہ (چال چلن) محمد ﷺ کا طریقہ ہے۔

【124】

تکلیف پر صبر کرنے کا بیان اور اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بغیر حساب ملے گا

ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے سفیان ثوری نے بیان کیا، کہا مجھ سے اعمش نے بیان کیا، ان سے سعید بن جبیر نے، ان سے ابوعبدالرحمٰن سلمی نے، ان سے ابوموسیٰ اشعری (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کوئی شخص بھی یا کوئی چیز بھی تکلیف برداشت کرنے والی، جو اسے کسی چیز کو سن کر ہوئی ہو، اللہ سے زیادہ (صبر کرنے والا) نہیں ہے۔ لوگ اس کے لیے اولاد ٹھہراتے ہیں اور وہ انہیں تندرستی دیتا ہے بلکہ انہیں روزی بھی دیتا ہے۔

【125】

تکلیف پر صبر کرنے کا بیان اور اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بغیر حساب ملے گا

ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ان سے سنا وہ بیان کرتے تھے کہ عبداللہ بن مسعود نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے (جنگ حنین) میں کچھ مال تقسیم کیا جیسا کہ آپ ہمیشہ تقسیم کیا کرتے تھے۔ اس پر قبیلہ انصار کے ایک شخص نے کہا کہ اللہ کی قسم ! اس تقسیم سے اللہ کی رضا مندی حاصل کرنا مقصود نہیں تھا۔ میں نے کہا کہ یہ بات میں ضرور رسول اللہ ﷺ سے کہوں گا۔ چناچہ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا نبی کریم ﷺ اپنے صحابہ کے ساتھ تشریف رکھتے تھے، میں نے چپکے سے یہ بات آپ ﷺ سے کہی۔ نبی کریم ﷺ کو اس کی یہ بات بڑی ناگوار گزری اور آپ کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور آپ غصہ ہوگئے یہاں تک کہ میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ کاش میں نے نبی کریم ﷺ کو اس بات کی خبر نہ دی ہوتی پھر نبی کریم ﷺ نے فرمایا موسیٰ (علیہ السلام) کو اس سے بھی زیادہ تکلیف پہنچائی گئی تھی لیکن انہوں نے صبر کیا۔

【126】

اس شخص کا بیان جو عتاب کہ وجہ سے لوگوں کی طرف متوجہ ہو

ہم سے عمرو بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا ہم سے مسلم نے بیان کیا، ان سے مسروق نے بیان کیا اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے ایک کام کیا اور لوگوں کو بھی اس کی اجازت دے دی لیکن کچھ لوگوں نے اس کا نہ کرنا اچھا جانا۔ جب نبی کریم ﷺ کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے خطبہ دیا اور اللہ کی حمد کے بعد فرمایا کہ ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے جو اس کام سے پرہیز کرتے ہیں، جو میں کرتا ہوں، اللہ کی قسم میں اللہ کو ان سب سے زیادہ جانتا ہوں اور ان سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں۔

【127】

اس شخص کا بیان جو عتاب کہ وجہ سے لوگوں کی طرف متوجہ ہو

ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن مبارک نے، کہا ہم کو شعبہ نے خبر دی، انہیں قتادہ نے، کہا میں نے عبداللہ بن عتبہ سے سنا، جو انس (رض) کے غلام ہیں کہ ابو سعید خدری (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کنواری لڑکیوں سے بھی زیادہ شرمیلے تھے، جب آپ کوئی ایسی چیز دیکھتے جو آپ کو ناگوار ہوتی تو ہم آپ کے چہرے مبارک سے سمجھ جاتے تھے۔

【128】

جو شخص اپنے بھائی کو بغیر تاویل کے کافر کہے تو وہ ویسا ہی ہے جیسے اس نے کہا

ہم سے محمد بن یحییٰ ذہلی (یا محمد بن بشار) اور احمد بن سعید دارمی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عثمان بن عمر نے بیان کیا، کہا ہم کو علی بن مبارک نے خبر دی، انہیں یحییٰ بن ابی کثیر نے، انہیں ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب کوئی شخص اپنے کسی بھائی کو کہتا ہے کہ اے کافر ! تو ان دونوں میں سے ایک کافر ہوگیا۔ اور عکرمہ بن عمار نے یحییٰ سے بیان کیا کہ ان سے عبداللہ بن یزید نے کہا، انہوں نے ابوسلمہ سے سنا اور انہوں نے ابوہریرہ (رض) سے سنا انہوں نے نبی کریم ﷺ سے۔

【129】

جو شخص اپنے بھائی کو بغیر تاویل کے کافر کہے تو وہ ویسا ہی ہے جیسے اس نے کہا

ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک (رح) نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن دینار نے، ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے بھی اپنے کسی بھائی کو کہا کہ اے کافر ! تو ان دونوں میں سے ایک کافر ہوگیا۔

【130】

جو شخص اپنے بھائی کو بغیر تاویل کے کافر کہے تو وہ ویسا ہی ہے جیسے اس نے کہا

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے وہیب نے بیان کیا، کہا ہم سے ایوب سختیانی نے بیان کیا، ان سے ابوقلابہ نے، ان سے ثابت بن ضحاک (رض) نے اور ان سے نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جس نے اسلام کے سوا کسی اور مذہب کی جھوٹ موٹ قسم کھائی تو وہ ویسا ہی ہوجاتا ہے، جس کی اس نے قسم کھائی ہے اور جس نے کسی چیز سے خودکشی کرلی تو اسے جہنم میں اسی سے عذاب دیا جائے گا اور مومن پر لعنت بھیجنا اسے قتل کرنے کے برابر ہے اور جس نے کسی مومن پر کفر کی تہمت لگائی تو یہ اس کے قتل کے برابر ہے۔

【131】

ان لوگوں کی دلیل جو جہالت یا تاویل کی بناء پر کسی کافر کہنے والے کو کافر نہیں کہتے، حضرت عمر (رض) نے حاطب کے متعلق فرمایا کہ وہ منافق ہے تو نبی ﷺ نے فرمایا تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ اللہ اہل بدر کے متعلق واقف تھا، چنانچہ ان کے متعلق اللہ نے فرمایا کہ میں نے تم کو بخش دیا

ہم سے محمد بن عبادہ نے بیان کیا، کہا ہم کو یزید نے خبر دی، کہا ہم کو سلیم نے خبر دی، کہا ہم سے عمرو بن دینار نے بیان کیا، ان سے جابر بن عبداللہ (رض) نے بیان کیا کہ معاذ بن جبل (رض) نبی کریم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھتے، پھر اپنی قوم میں آتے اور انہیں نماز پڑھاتے۔ انہوں نے (ایک مرتبہ) نماز میں سورة البقرہ پڑھی۔ اس پر ایک صاحب جماعت سے الگ ہوگئے اور ہلکی نماز پڑھی۔ جب اس کے متعلق معاذ کو معلوم ہوا تو کہا وہ منافق ہے۔ معاذ کی یہ بات جب ان کو معلوم ہوئی تو وہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! ہم لوگ محنت کا کام کرتے ہیں اور اپنی اونٹنیوں کو خود پانی پلاتے ہیں معاذ نے کل رات ہمیں نماز پڑھائی اور سورة البقرہ پڑھنی شروع کردی۔ اس لیے میں نماز توڑ کر الگ ہوگیا، اس پر وہ کہتے ہیں کہ میں منافق ہوں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اے معاذ ! تم لوگوں کو فتنہ میں مبتلا کرتے ہو، تین مرتبہ آپ ﷺ نے یہ فرمایا (جب امام ہو تو) سورة اقرأ ، والشمس وضحاها‏ اور سبح اسم ربک الأعلى‏ جیسی سورتیں پڑھا کرو۔

【132】

ان لوگوں کی دلیل جو جہالت یا تاویل کی بناء پر کسی کافر کہنے والے کو کافر نہیں کہتے، حضرت عمر (رض) نے حاطب کے متعلق فرمایا کہ وہ منافق ہے تو نبی ﷺ نے فرمایا تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ اللہ اہل بدر کے متعلق واقف تھا، چنانچہ ان کے متعلق اللہ نے فرمایا کہ میں نے تم کو بخش دیا

مجھ سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا، کہا ہم کو ابوالمغیرہ نے خبر دی، کہا ہم سے امام اوزاعی نے بیان کیا انہوں نے کہا ہم سے زہری نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حمید بن عبدالرحمٰن بن عوف نے، انہوں نے ابوہریرہ (رض) سے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میں سے جس نے لات، عزیٰ کی (یا دوسرے بتوں کی) قسم کھائی تو اسے لا إله إلا الله‏.‏ پڑھنا چاہیئے اور جس نے اپنے ساتھی سے کہا کہ آؤ جوا کھیلیں تو اسے بطور کفارہ صدقہ دینا چاہیئے۔

【133】

ان لوگوں کی دلیل جو جہالت یا تاویل کی بناء پر کسی کافر کہنے والے کو کافر نہیں کہتے، حضرت عمر (رض) نے حاطب کے متعلق فرمایا کہ وہ منافق ہے تو نبی ﷺ نے فرمایا تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ اللہ اہل بدر کے متعلق واقف تھا، چنانچہ ان کے متعلق اللہ نے فرمایا کہ میں نے تم کو بخش دیا

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے نافع نے، ان سے ابن عمر (رض) نے کہ وہ عمر بن خطاب (رض) کے پاس پہنچے جو چند سواروں کے ساتھ تھے، اس وقت عمر (رض) اپنے والد کی قسم کھا رہے تھے۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے انہیں پکار کر کہا، خبردار ! یقیناً اللہ پاک تمہیں منع کرتا ہے کہ تم اپنے باپ دادوں کی قسم کھاؤ، پس اگر کسی کو قسم ہی کھانی ہے تو اللہ کی قسم کھائے، ورنہ چپ رہے۔

【134】

اللہ تعالیٰ کے احکام میں غضب اور سختی جائز ہے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کفار اور منافقین سے جہاد کرو اور ان پر سختی کرو

ہم سے بسرہ بن صفوان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابراہیم نے بیان کیا، ان سے زہری نے بیان کیا، ان سے قاسم نے بیان کیا اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ اندر تشریف لائے اور گھر میں ایک پردہ لٹکا ہوا تھا جس پر تصویریں تھیں۔ نبی کریم ﷺ کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ پھر آپ نے پردہ پکڑا اور اسے پھاڑ دیا۔ ام المؤمنین نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن ان لوگوں پر سب سے زیادہ عذاب ہوگا، جو یہ صورتیں بناتے ہیں۔

【135】

اللہ تعالیٰ کے احکام میں غضب اور سختی جائز ہے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کفار اور منافقین سے جہاد کرو اور ان پر سختی کرو

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے اسماعیل بن ابی خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے قیس بن ابی حازم نے اور ان سے ابومسعود نے بیان کیا کہ ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا میں صبح کی نماز جماعت سے فلاں امام کی وجہ سے نہیں پڑھتا کیونکہ وہ بہت لمبی نماز پڑھاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس دن ان امام صاحب کو نصیحت کرنے میں نبی کریم ﷺ کو میں نے جتنا غصہ میں دیکھا ایسا میں نے آپ کو کبھی نہیں دیکھا تھا، پھر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اے لوگو ! تم میں سے کچھ لوگ (نماز باجماعت پڑھنے سے) لوگوں کو دور کرنے والے ہیں، پس جو شخص بھی لوگوں کو نماز پڑھائے مختصر پڑھائے، کیونکہ نمازیوں میں کوئی بیمار ہوتا ہے کوئی بوڑھا کوئی کام کاج والا۔

【136】

اللہ تعالیٰ کے احکام میں غضب اور سختی جائز ہے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کفار اور منافقین سے جہاد کرو اور ان پر سختی کرو

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے جویریہ نے بیان کیا، ان سے نافع نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نماز پڑھ رہے تھے کہ آپ ﷺ نے مسجد میں قبلہ کی جانب منہ کا تھوک دیکھا۔ پھر آپ نے اسے اپنے ہاتھ سے صاف کیا اور غصہ ہوئے پھر فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص نماز میں ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے سامنے ہوتا ہے۔ اس لیے کوئی شخص نماز میں اپنے سامنے نہ تھوکے۔

【137】

اللہ تعالیٰ کے احکام میں غضب اور سختی جائز ہے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کفار اور منافقین سے جہاد کرو اور ان پر سختی کرو

ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم کو اسماعیل بن جعفر نے خبر دی، کہا ہم کو ربیعہ بن ابی عبدالرحمٰن نے خبر دی، انہیں زید بن خالد جہنی نے کہ ایک صاحب نے رسول اللہ ﷺ سے لقطہٰ (راستہ میں گری پڑی چیز جسے کسی نے اٹھا لیا ہو) کے متعلق پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا سال بھر لوگوں سے پوچھتے رہو پھر اس کا سر بندھن اور ظرف پہچان کے رکھ اور خرچ کر ڈال۔ پھر اگر اس کے بعد اس کا مالک آجائے تو وہ چیز اسے آپس کر دے۔ پوچھا : یا رسول اللہ ! بھولی بھٹکی بکری کے متعلق کیا حکم ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے پکڑ لا کیونکہ وہ تمہارے بھائی کی ہے یا پھر بھیڑیئے کی ہوگی۔ پوچھا : یا رسول اللہ ! اور کھویا ہوا اونٹ ؟ بیان کیا کہ اس پر نبی کریم ﷺ ناراض ہوگئے اور آپ کے دونوں رخسار سرخ ہوگئے، یا راوی نے یوں کہا کہ آپ کا چہرہ سرخ ہوگیا، پھر آپ نے فرمایا کہ تمہیں اس اونٹ سے کیا غرض ہے اس کے ساتھ تو اس کے پاؤں ہیں اور اس کا پانی ہے وہ کبھی نہ کبھی اپنے مالک کو پالے گا۔

【138】

اللہ تعالیٰ کے احکام میں غضب اور سختی جائز ہے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کفار اور منافقین سے جہاد کرو اور ان پر سختی کرو

اور مکی بن ابراہیم نے بیان کیا انہوں نے کہا کہ ہم سے عبداللہ بن سعید نے بیان کیا (دوسری سند) امام بخاری (رح) نے کہا اور مجھ سے محمد بن زیاد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبداللہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے عمر بن عبیداللہ کے غلام سالم ابوالنضر نے بیان کیا، ان سے بسر بن سعید نے بیان کیا اور ان سے زید بن ثابت (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے کھجور کی شاخوں یا بوریئے سے ایک مکان چھوٹے سے حجرے کی طرح بنا لیا تھا۔ وہاں آ کر آپ تہجد کی نماز پڑھا کرتے تھے، چند لوگ بھی وہاں آگئے اور انہوں نے آپ کی اقتداء میں نماز پڑھی پھر سب لوگ دوسری رات بھی آگئے اور ٹھہرے رہے لیکن آپ گھر ہی میں رہے اور باہر ان کے پاس تشریف نہیں لائے۔ لوگ آواز بلند کرنے لگے اور دروازے پر کنکریاں ماریں تو نبی کریم ﷺ غصہ کی حالت میں باہر تشریف لائے اور فرمایا تم چاہتے ہو کہ ہمیشہ یہ نماز پڑھتے رہو تاکہ تم پر فرض ہوجائے (اس وقت مشکل ہو) دیکھو تم نفل نمازیں اپنے گھروں میں ہی پڑھا کرو۔ کیونکہ فرض نمازوں کے سوا آدمی کی بہترین نفل نماز وہ ہے جو گھر میں پڑھی جائے۔

【139】

غصے سے پرہیز کرنے کا بیان، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا جو لوگ بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کی باتوں سے پرہیز کرتے ہیں اور جب وہ غصہ ہوتے ہیں تو بخش دیتے ہیں، جو لوگ خوشحالی اور مصیبت میں خرچ کرتے ہیں اور غصہ کو ضبط کرنے والے ہیں اور لوگوں سے درگذر کرنے والے ہیں اور اللہ نیکی کرنے والوں کو پسند کرتا ہے

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں سعید بن مسیب نے اور انہیں ابوہریرہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا پہلوان وہ نہیں ہے جو کشتی لڑنے میں غالب ہوجائے بلکہ اصلی پہلوان تو وہ ہے جو غصہ کی حالت میں اپنے آپ پر قابو پائے بےقابو نہ ہوجائے۔

【140】

غصے سے پرہیز کرنے کا بیان، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا جو لوگ بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کی باتوں سے پرہیز کرتے ہیں اور جب وہ غصہ ہوتے ہیں تو بخش دیتے ہیں، جو لوگ خوشحالی اور مصیبت میں خرچ کرتے ہیں اور غصہ کو ضبط کرنے والے ہیں اور لوگوں سے درگذر کرنے والے ہیں اور اللہ نیکی کرنے والوں کو پسند کرتا ہے

ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے عدی بن ثابت نے، ان سے سلیمان بن صرد (رض) نے بیان کیا کہ دو آدمیوں نے نبی کریم ﷺ کی موجودگی میں جھگڑا کیا، ہم بھی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک شخص دوسرے کو غصہ کی حالت میں گالی دے رہا تھا اور اس کا چہرہ سرخ تھا، نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں کہ اگر یہ شخص اسے کہہ لے تو اس کا غصہ دور ہوجائے۔ اگر یہ أعوذ بالله من الشيطان الرجيم کہہ لے۔ صحابہ نے اس سے کہا کہ سنتے نہیں، نبی کریم ﷺ کیا فرما رہے ہیں ؟ اس نے کہا کہ کیا میں دیوانہ ہوں ؟

【141】

غصے سے پرہیز کرنے کا بیان، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا جو لوگ بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کی باتوں سے پرہیز کرتے ہیں اور جب وہ غصہ ہوتے ہیں تو بخش دیتے ہیں، جو لوگ خوشحالی اور مصیبت میں خرچ کرتے ہیں اور غصہ کو ضبط کرنے والے ہیں اور لوگوں سے درگذر کرنے والے ہیں اور اللہ نیکی کرنے والوں کو پسند کرتا ہے

مجھ سے یحییٰ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو ابوبکر نے خبر دی جو ابن عیاش ہیں، انہیں ابوحصین نے، انہیں ابوصالح نے اور انہیں ابوہریرہ (رض) نے کہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا کہ مجھے آپ کوئی نصیحت فرما دیجئیے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ غصہ نہ ہوا کر۔ انہوں نے کئی مرتبہ یہ سوال کیا اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ غصہ نہ ہوا کر۔

【142】

حیا کا بیان

ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے ان سے ابوالسوار عدوی نے بیان کیا، کہا کہ میں نے عمران بن حصین سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا حیاء سے ہمیشہ بھلائی پیدا ہوتی ہے۔ اس پر بشیر بن کعب نے کہا کہ حکمت کی کتابوں میں لکھا ہے کہ حیاء سے وقار حاصل ہوتا ہے، حیاء سے سکینت حاصل ہوتی ہے۔ عمران نے ان سے کہا میں تجھ سے رسول اللہ ﷺ کی حدیث بیان کرتا ہوں اور تو اپنی (دو ورقی) کتاب کی باتیں مجھ کو سناتا ہے۔

【143】

حیا کا بیان

ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالعزیز بن ابوسلمہ نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے سالم نے اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کا گزر ایک شخص پر سے ہوا جو اپنے بھائی پر حیاء کی وجہ سے ناراض ہو رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ تم بہت شرماتے ہو، گویا وہ کہہ رہا تھا کہ تم اس کی وجہ سے اپنا نقصان کرلیتے ہو۔ نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو کہ حیاء ایمان میں سے ہے۔

【144】

حیا کا بیان

ہم سے علی بن الجعد نے بیان کیا، کہا ہم کو شعبہ نے خبر دی، انہیں قتادہ نے، انہیں انس (رض) کے غلام قتادہ نے، ابوعبداللہ امام بخاری (رح) نے کہا کہ ان کا نام عبداللہ بن ابی عتبہ ہے، میں نے ابوسعید سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ پردہ میں رہنے والی کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیاء والے تھے۔

【145】

جب تو حیا نہ کرے تو جو چاہے کر

ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے زہیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے منصور نے بیان کیا، ان سے ربعی بن خراش نے بیان کیا، ان سے ابومسعود انصاری (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اگلے پیغمبروں کا کلام جو لوگوں کو ملا اس میں یہ بھی ہے کہ جب شرم ہی نہ رہی تو پھر جو جی چاہے وہ کرے۔

【146】

دین کی بات سمجھنے کے لئے حق بات سے حیا نہ کی جائے

ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے، ان سے زینب بنت ابی سلمہ (رض) نے اور ان سے ام سلمہ (رض) نے بیان کیا کہ ام سلیم (رض) رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! اللہ حق بات سے حیاء نہیں کرتا کیا عورت کو جب احتلام ہو تو اس پر غسل واجب ہے ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہاں اگر عورت منی کی تری دیکھے تو اس پر بھی غسل واجب ہے۔

【147】

دین کی بات سمجھنے کے لئے حق بات سے حیا نہ کی جائے

ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے محارب بن دثار نے، کہا کہ میں نے ابن عمر (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا مومن کی مثال اس سرسبز درخت کی ہے، جس کے پتے نہیں جھڑتے۔ صحابہ نے کہا کہ یہ فلاں درخت ہے، یہ فلاں درخت ہے۔ میرے دل میں آیا کہ کہوں کہ یہ کھجور کا درخت ہے لیکن چونکہ میں نوجوان تھا، اس لیے مجھ کو بولتے ہوئے حیاء آئی۔ پھر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ وہ کھجور کا درخت ہے۔ اور اسی سند سے شعبہ سے روایت ہے کہ کہا ہم سے خبیب بن عبدالرحمٰن نے، ان سے حفص بن عاصم نے اور ان سے ابن عمر (رض) نے اسی طرح بیان کیا اور یہ اضافہ کیا کہ پھر میں نے اس کا ذکر عمر (رض) سے کیا تو انہوں نے کہا اگر تم نے کہہ دیا ہوتا تو مجھے اتنا اتنا مال ملنے سے بھی زیادہ خوشی حاصل ہوتی۔

【148】

دین کی بات سمجھنے کے لئے حق بات سے حیا نہ کی جائے

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے مرحوم بن عبدالعزیز نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے کہا کہ میں نے ثابت سے سنا اور انہوں نے انس (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ایک خاتون نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور اپنے آپ کو نبی کریم ﷺ کے نکاح کے لیے پیش کیا اور عرض کیا : کیا نبی کریم ﷺ کو مجھ سے نکاح کی ضرورت ہے ؟ اس پر انس (رض) کی صاحبزادی بولیں، وہ کتنی بےحیا تھی۔ انس (رض) نے کہا کہ وہ تم سے تو اچھی تھیں انہوں نے اپنے آپ کو نبی کریم ﷺ کے نکاح کے لیے پیش کیا۔

【149】

None

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ( ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ ) اور معاذ بن جبل کو ( یمن ) بھیجا تو ان سے فرمایا کہ ( لوگوں کے لیے ) آسانیاں پیدا کرنا، تنگی میں نہ ڈالنا، انہیں خوشخبری سنانا، دین سے نفرت نہ دلانا اور تم دونوں آپس میں اتفاق سے کام کرنا، ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم ایسی سر زمین میں جا رہے ہیں جہاں شہد سے شراب بنائی جاتی ہے اور اسے «بتع» کہا جاتا ہے اور جَو سے شراب بنائی جاتی ہے اور اسے «مزر‏.‏» کہا جاتا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر نشہ لانے والی چیز حرام ہے۔

【150】

آنحضرت ﷺ کا فرمانا کہ آسانی کرو سختی نہ کرو اور آپ ﷺ لوگوں کے ساتھ تخفیف اور آسانی برتنے کو پسند فرماتے تھے۔

ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابوالتیاح نے بیان کیا، انہوں نے انس بن مالک (رض) سے سنا، انہوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا آسانی پیدا کرو، تنگی نہ پیدا کرو، لوگوں کو تسلی اور تشفی دو نفرت نہ دلاؤ۔

【151】

آنحضرت ﷺ کا فرمانا کہ آسانی کرو سختی نہ کرو اور آپ ﷺ لوگوں کے ساتھ تخفیف اور آسانی برتنے کو پسند فرماتے تھے۔

ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، ان سے مالک نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ جب بھی رسول اللہ ﷺ کو دو چیزوں میں سے ایک کو اختیار کرنے کا اختیار دیا گیا تو آپ نے ہمیشہ ان میں آسان چیزوں کو اختیار فرمایا، بشرطیکہ اس میں گناہ کا کوئی پہلو نہ ہوتا۔ اگر اس میں گناہ کا کوئی پہلو ہوتا تو نبی کریم ﷺ اس سے سب سے زیادہ دور رہتے اور نبی کریم ﷺ نے اپنی ذات کے لیے کسی سے بدلہ نہیں لیا، البتہ اگر کوئی شخص اللہ کی حرمت و حد کو توڑتا تو نبی کریم ﷺ ان سے تو محض اللہ کی رضا مندی کے لیے بدلہ لیتے۔

【152】

آنحضرت ﷺ کا فرمانا کہ آسانی کرو سختی نہ کرو اور آپ ﷺ لوگوں کے ساتھ تخفیف اور آسانی برتنے کو پسند فرماتے تھے۔

ہم سے ابوالنعمان بن محمد بن فضل سدوسی نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ازرق بن قیس نے کہ اہواز نامی ایرانی شہر میں ہم ایک نہر کے کنارے تھے جو خشک پڑی تھی، پھر ابوبرزہ اسلمی صحابی گھوڑے پر تشریف لائے اور نماز پڑھی اور گھوڑا چھوڑ دیا۔ گھوڑا بھاگنے لگا تو آپ نے نماز توڑ دی اور اس کا پیچھا کیا، آخر اس کے قریب پہنچے اور اسے پکڑ لیا۔ پھر واپس آ کر نماز قضاء کی، وہاں ایک شخص خارجی تھا، وہ کہنے لگا کہ اس بوڑھے کو دیکھو اس نے گھوڑے کے لیے نماز توڑ ڈالی۔ ابوبرزہ اسلمی (رض) نماز سے فارغ ہو کر آئے اور کہا جب سے میں رسول اللہ ﷺ سے جدا ہوا ہوں، کسی نے مجھ کو ملامت نہیں کی اور انہوں نے کہا کہ میرا گھر یہاں سے دور ہے، اگر میں نماز پڑھتا رہتا اور گھوڑے کو بھاگنے دیتا تو اپنے گھر رات تک بھی نہ پہنچ پاتا اور انہوں نے بیان کیا کہ وہ نبی کریم ﷺ کی صحبت میں رہے ہیں اور میں نے نبی کریم ﷺ کو آسان صورتوں کو اختیار کرتے دیکھا ہے۔

【153】

آنحضرت ﷺ کا فرمانا کہ آسانی کرو سختی نہ کرو اور آپ ﷺ لوگوں کے ساتھ تخفیف اور آسانی برتنے کو پسند فرماتے تھے۔

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے (دوسری سند) اور لیث بن سعد نے بیان کیا کہ مجھ سے یونس نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے خبر دی اور انہیں ابوہریرہ (رض) نے خبر دی کہ ایک دیہاتی نے مسجد میں پیشاب کردیا، لوگ اس کی طرف مارنے کو بڑھے، لیکن رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو اور جہاں اس نے پیشاب کیا ہے اس جگہ پر پانی کا ایک ڈول بھرا ہوا بہا دو ، کیونکہ تم آسانی کرنے والے بنا کر بھیجے گئے ہو تنگی کرنے والے بنا کر نہیں بھیجے گئے۔

【154】

لوگوں کے ساتھ اچھی طرح پیش آنے اور گھر والوں کے ساتھ مذاق کرنے کا بیان اور ابن مسعود (رض) کا قول ہے کہ لوگوں کے ساتھ اس طرح میل جول رکھو کہ تمہارا دین مجروح نہ ہونے پائے۔

ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوالتیاح نے، کہا میں نے انس بن مالک (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ ہم بچوں سے بھی دل لگی کرتے، یہاں تک کہ میرے چھوٹے بھائی ابوعمیر نامی سے (مزاحاً ) فرماتے يا أبا عمير ما فعل النغير‏‏‏.‏ اے ابو عمیر ! تیری نغیر نامی چڑیا تو بخیر ہے ؟

【155】

لوگوں کے ساتھ اچھی طرح پیش آنے اور گھر والوں کے ساتھ مذاق کرنے کا بیان اور ابن مسعود (رض) کا قول ہے کہ لوگوں کے ساتھ اس طرح میل جول رکھو کہ تمہارا دین مجروح نہ ہونے پائے۔

ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم کو ابومعاویہ نے خبر دی، کہا ہم سے ہشام نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ میں نبی کریم ﷺ کے یہاں لڑکیوں کے ساتھ کھیلتی تھی، میری بہت سی سہیلیاں تھیں جو میرے ساتھ کھیلا کرتی تھیں، جب نبی کریم ﷺ اندر تشریف لاتے تو وہ چھپ جاتیں پھر نبی کریم ﷺ انہیں میرے پاس بھیجتے اور وہ میرے ساتھ کھیلتیں۔

【156】

لوگوں کے ساتھ حسن سلوک کا بیان اور ابوالدرداء سے منقول ہے کہ ہم لوگ بعض لوگوں سے اچھی طرح پیش آتے تھے لیکن ہمارے دل ان پر لعنت کرتے تھے۔

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے، ان سے ابن المنکدر نے، ان سے عروہ بن زبیر نے اور انہیں عائشہ (رض) نے خبر دی کہ نبی کریم ﷺ سے ایک شخص نے اندر آنے کی اجازت چاہی تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اسے اندر بلا لو، یہ اپنی قوم کا بہت ہی برا آدمی ہے۔ جب وہ شخص اندر آگیا تو نبی کریم ﷺ نے اس کے ساتھ نرمی کے ساتھ گفتگو فرمائی۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! آپ نے ابھی اس کے متعلق کیا فرمایا تھا اور پھر اتنی نرمی کے ساتھ گفتگو فرمائی۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، عائشہ اللہ کے نزدیک مرتبہ کے اعتبار سے وہ شخص سب سے برا ہے جسے لوگ اس کی بدخلقی کی وجہ سے چھوڑ دیں۔

【157】

لوگوں کے ساتھ حسن سلوک کا بیان اور ابوالدرداء سے منقول ہے کہ ہم لوگ بعض لوگوں سے اچھی طرح پیش آتے تھے لیکن ہمارے دل ان پر لعنت کرتے تھے۔

ہم سے عبداللہ بن عبدالوہاب نے بیان کیا، کہا ہم کو ابن علیہ نے خبر دی، کہا ہم کو ایوب نے خبر دی، انہیں عبداللہ بن ابی ملیکہ نے خبر دی کہ نبی کریم ﷺ کے پاس ہدیہ میں دیبا کی چند ق بائیں آئیں، ان میں سونے کے بٹن لگے ہوئے تھے۔ نبی کریم ﷺ نے وہ ق بائیں اپنے صحابہ میں تقسیم کردیں اور مخرمہ کے لیے باقی رکھی، جب مخرمہ آیا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہ میں نے تمہارے لیے چھپا رکھی تھی۔ ایوب نے کہا یعنی اپنے کپڑے میں چھپا رکھی تھی آپ مخرمہ کو خوش کرنے کے لیے اس کے تکمے یا گھنڈی کو دکھلا رہے تھے کیونکہ وہ ذرا سخت مزاج آدمی تھے۔ اس حدیث کو حماد بن زید نے بھی ایوب کے واسطہ سے روایت کیا مرسلات میں اور حاتم بن وردان نے کہا ہم سے ایوب نے بیان کیا، ان سے ابی ملیکہ نے اور ان سے مسور بن مخرمہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ کے پاس چند ق بائیں تحفہ میں آئیں پھر ایسی ہی حدیث بیان کی۔

【158】

مومن ایک سوراخ سے دو بار ڈنگ نہیں کھاتا اور معاویہ (رض) نے کہا کہ حکیم تجربہ والا ہی ہوتا ہے۔

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ان سے عقیل نے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے ابن مسیب نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا مومن کو ایک سوراخ سے دوبارہ ڈنگ نہیں لگ سکتا۔

【159】

مہمان کے حق کا بیان

ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم سے روح بن عبادہ نے، کہا ہم سے حسین نے، ان سے یحییٰ بن ابی بکر نے، ان سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے اور ان سے عبداللہ بن عمرو (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا، کیا یہ میری خبر صحیح ہے کہ تم رات بھر عبادت کرتے رہتے ہو اور دن میں روزے رکھتے ہو ؟ میں نے کہا کہ جی ہاں یہ صحیح ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ایسا نہ کرو، عبادت بھی کرو اور سو بھی، روزے بھی رکھو اور بلا روزے بھی رہو، کیونکہ تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے، تمہاری آنکھوں کا بھی تم پر حق ہے، تم سے ملاقات کے لیے آنے والوں کا بھی تم پر حق ہے، تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے، امید ہے کہ تمہاری عمر لمبی ہوگی، تمہارے لیے یہی کافی ہے کہ ہر مہینہ میں تین روزے رکھو، کیونکہ ہر نیکی کا بدلہ دس گناہ ملتا ہے، اس طرح زندگی بھر کا روزہ ہوگا۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے سختی چاہی تو آپ نے میرے اوپر سختی کردی۔ میں نے عرض کیا کہ میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پھر ہر ہفتے تین روزہ رکھا کر، بیان کیا کہ میں نے اور سختی چاہی اور آپ نے میرے اوپر سختی کردی۔ میں نے عرض کیا کہ میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پھر اللہ کے نبی داؤد (علیہ السلام) جیسا روزہ رکھ۔ میں نے پوچھا، اللہ کے نبی داؤد (علیہ السلام) کا روزہ کیسا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ایک دن روزہ ایک دن افطار گویا آدھی عمر کے روزے۔

【160】

مہمان کی عزت کرنے اور خود اس کی خدمت کرنے کا بیان اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ ابراہیم کے معزز مہمان

ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے اسی طرح بیان کیا اور یہ لفظ زیادہ کئے کہ جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے اچھی بات کہنی چاہیئے ورنہ اسے چپ رہنا چاہیئے۔

【161】

مہمان کی عزت کرنے اور خود اس کی خدمت کرنے کا بیان اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ ابراہیم کے معزز مہمان

ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابن مہندی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے ابوحصین نے، ان سے ابوصالح نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، اس پر لازم ہے کہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ دے، جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، اس پر لازم ہے کہ اپنے مہمان کی عزت کرے اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، اس پر لازم ہے کہ بھلی بات کہے ورنہ چپ رہے۔

【162】

مہمان کی عزت کرنے اور خود اس کی خدمت کرنے کا بیان اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ ابراہیم کے معزز مہمان

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، ہم سے لیث بن سعد نے، ان سے یزید بن ابی حبیب نے، ان سے ابوالخیر نے اور ان سے عقبہ بن عامر (رض) نے بیان کیا کہ ہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! آپ ہمیں (تبلیغ وغیرہ کے لیے) بھیجتے ہیں اور راستے میں ہم بعض قبیلوں کے گاؤں میں قیام کرتے ہیں لیکن وہ ہماری مہمانی نہیں کرتے، نبی کریم ﷺ کا اس سلسلے میں کیا ارشاد ہے ؟ نبی کریم ﷺ نے اس پر ہم سے فرمایا کہ جب تم ایسے لوگوں کے پاس جا کر اترو اور وہ جیسا دستور ہے مہمانی کے طور پر تم کو کچھ دیں تو اسے منظور کرلو اگر نہ دیں تو مہمانی کا حق قاعدے کے موافق ان سے وصول کرلو۔

【163】

مہمان کی عزت کرنے اور خود اس کی خدمت کرنے کا بیان اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ ابراہیم کے معزز مہمان

ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے انہیں ابوسلمہ نے اور انہیں ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے اپنے مہمان کی عزت کرنی چاہیئے اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ صلہ رحمی کرے، جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، اسے چاہیئے کہ اچھی بات زبان سے نکالے ورنہ چپ رہے۔

【164】

مہمان کے لئے کھانا تیار کرنے، اور تکلف کرنے کا بیان۔

ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے جعفر بن عون نے بیان کیا، کہا ہم ابوالعمیس (عتبہ بن عبداللہ) نے بیان کیا، ان سے عون بن ابی جحیفہ نے اور ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے سلمان فارسی اور ابودرداء (رض) کو بھائی بھائی بنادیا۔ ایک مرتبہ سلمان، ابودرداء (رض) کی ملاقات کے لیے تشریف لائے اور ام الدرداء (رض) کو بڑی خستہ حالت میں دیکھا اور پوچھا کیا حال ہے ؟ وہ بولیں تمہارے بھائی ابودرداء کو دنیا سے کوئی سروکار نہیں۔ پھر ابودرداء تشریف لائے تو سلمان (رض) نے ان کے سامنے کھانا پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ آپ کھائیے، میں روزے سے ہوں۔ سلمان فارسی (رض) بولے کہ میں اس وقت تک نہیں کھاؤں گا۔ جب تک آپ بھی نہ کھائیں۔ چناچہ ابودرداء نے بھی کھایا رات ہوئی تو ابودرداء (رض) نماز پڑھنے کی تیاری کرنے لگے۔ سلمان نے کہا کہ سو جایئے، پھر جب آخر رات ہوئی تو ابودرداء نے کہا اب اٹھئیے، بیان کیا کہ پھر دونوں نے نماز پڑھی۔ اس کے بعد سلمان (رض) نے کہا کہ بلاشبہ تمہارے رب کا تم پر حق ہے اور تمہاری جان کا بھی تم پر حق ہے، تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے، پس سارے حق داروں کے حقوق ادا کرو۔ پھر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے اس کا ذکر کیا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ سلمان نے سچ کہا ہے۔ ابوجحیفہ کا نام وہب السوائی ہے، جسے وہب الخیر بھی کہتے ہیں۔

【165】

مہمان کے پاس غصہ کرنے اور گھبرانے کی کرامت کا بیان۔

ہم سے عیاش بن ولید نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالاعلیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے سعید الجریری نے بیان کیا، ان سے ابوعثمان نہدی نے، ان سے عبدالرحمٰن بن ابی بکر (رض) نے کہ ابوبکر (رض) نے کچھ لوگوں کی میزبانی کی اور عبدالرحمٰن سے کہا کہ مہمانوں کا پوری طرح خیال رکھنا کیونکہ میں نبی کریم ﷺ کے پاس جاؤں گا، میرے آنے سے پہلے انہیں کھانا کھلا دینا۔ چناچہ عبدالرحمٰن کھانا مہمانوں کے پاس لائے اور کہا کہ کھانا کھائیے۔ انہوں نے پوچھا کہ ہمارے گھر کے مالک کہاں ہیں ؟ انہوں نے عرض کیا کہ آپ لوگ کھانا کھا لیں۔ مہمانوں نے کہا کہ جب تک ہمارے میزبان نہ آجائیں ہم کھانا نہیں کھائیں گے۔ عبدالرحمٰن (رض) نے عرض کیا کہ ہماری درخواست قبول کرلیجئے کیونکہ ابوبکر (رض) کے آنے تک اگر آپ لوگ کھانے سے فارغ نہیں ہوگئے تو ہمیں ان کی خفگی کا سامنا ہوگا۔ انہوں نے اس پر بھی انکار کیا۔ میں جانتا تھا کہ ابوبکر (رض) مجھ پر ناراض ہوں گے۔ اس لیے جب وہ آئے میں ان سے بچنے لگا۔ انہوں نے پوچھا : تم لوگوں نے کیا کیا ؟ گھر والوں نے انہیں بتایا تو انہوں نے عبدالرحمٰن (رض) کو پکارا ! میں خاموش رہا۔ پھر انہوں نے پکارا ! عبدالرحمٰن ! میں اس مرتبہ بھی خاموش رہا۔ پھر انہوں نے کہا ارے پاجی میں تجھ کو قسم دیتا ہوں کہ اگر تو میری آواز سن رہا ہے تو باہر آ جا، میں باہر نکلا اور عرض کیا کہ آپ اپنے مہمانوں سے پوچھ لیں۔ مہمانوں نے بھی کہا عبدالرحمٰن سچ کہہ رہا ہے۔ وہ کھانا ہمارے پاس لائے تھے۔ آخر والد (رض) نے کہا کہ تم لوگوں نے میرا انتظار کیا، اللہ کی قسم ! میں آج رات کھانا نہیں کھاؤں گا۔ مہمانوں نے بھی قسم کھالی اللہ کی قسم جب تک آپ نہ کھائیں ہم بھی نہ کھائیں گے۔ ابوبکر (رض) نے کہا بھائی میں نے ایسی خراب بات کبھی نہیں دیکھی۔ مہمانو ! تم لوگ ہماری میزبانی سے کیوں انکار کرتے ہو۔ خیر عبدالرحمٰن کھانا لا، وہ کھانا لائے تو آپ نے اس پر اپنا ہاتھ رکھ کر کہا، اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں، پہلی حالت (کھانا نہ کھانے کی قسم) شیطان کی طرف سے تھی۔ چناچہ انہوں نے کھانا کھایا اور ان کے ساتھ مہمانوں نے بھی کھایا۔

【166】

مہمان کا صاحب خانہ سے یہ کہنا جب تک تم نہ کھاؤ گے میں نہ کھاؤں گا۔ اس میں ابوجحیفہ کی حدیث نبی ﷺ سے مروی ہے۔

مجھ سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن ابی عدی نے بیان کیا، ان سے سلیمان ابن طرفان نے، ان سے ابوعثمان نہدی نے کہ عبدالرحمٰن بن ابی بکر (رض) نے بیان کیا کہ ابوبکر (رض) اپنا ایک مہمان یا کئی مہمان لے کر گھر آئے۔ پھر آپ شام ہی سے نبی کریم ﷺ کے پاس چلے گئے، جب وہ لوٹ کر آئے تو میری والدہ نے کہا کہ آج اپنے مہمانوں کو چھوڑ کر آپ کہاں رہ گئے تھے۔ ابوبکر (رض) نے پوچھا کیا تم نے ان کو کھانا نہیں کھلایا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے تو کھانا ان کے سامنے پیش کیا لیکن انہوں نے انکار کیا۔ یہ سن کر ابوبکر (رض) کو غصہ آیا اور انہوں نے (گھر والوں کی) سرزنش کی اور دکھ کا اظہار کیا اور قسم کھالی کہ میں کھانا نہیں کھاؤں گا۔ عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ میں تو ڈر کے مارے چھپ گیا تو آپ نے پکارا کہ اے پاجی ! کدھر ہے تو ادھر آ۔ میری والدہ نے بھی قسم کھالی کہ اگر وہ کھانا نہیں کھائیں گے تو وہ بھی نہیں کھائیں گی۔ اس کے بعد مہمانوں نے بھی قسم کھالی کہ اگر ابوبکر (رض) نہیں کھائیں گے تو وہ بھی نہیں کھائیں گے۔ آخر ابوبکر (رض) نے کہا کہ یہ غصہ کرنا شیطانی کام تھا، پھر آپ نے کھانا منگوایا اور خود بھی مہمانوں کے ساتھ کھایا (اس کھانے میں یہ برکت ہوئی) جب یہ لوگ ایک لقمہ اٹھاتے تو نیچے سے کھانا اور بھی بڑھ جاتا تھے۔ ابوبکر (رض) نے کہا : اے بنی فراس کی بہن ! یہ کیا ہو رہا ہے، کھانا تو اور بڑھ گیا۔ انہوں نے کہا کہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک ! اب یہ اس سے بھی زیادہ ہوگیا۔ جب ہم نے کھانا کھایا بھی نہیں تھا۔ پھر سب نے کھایا اور اس میں سے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں بھیجا، کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے بھی اس کھانے میں سے کھایا۔

【167】

بڑوں کی عزت کرنے اور اس امر کا بیان کہ سوال اور گفتگو میں بڑا آدمی ابتداء کرے

ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد نے بیان کیا، وہ ابن زید ہیں، ان سے یحییٰ بن سعید نے، ان سے انصار کے غلام بشیر بن یسار نے، ان سے رافع بن خدیج اور سہل بن ابی حثمہ نے بیان کیا کہ عبداللہ بن سہل اور محیصہ بن مسعود خیبر سے آئے اور کھجور کے باغ میں ایک دوسرے سے جدا ہوگئے۔ عبداللہ بن سہل وہیں قتل کردیئے گئے۔ پھر عبدالرحمٰن بن سہل اور مسعود کے دونوں بیٹے حویصہ اور محیصہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اپنے مقتول ساتھی (عبداللہ رضی اللہ عنہ) کے مقدمہ میں گفتگو کی۔ پہلے عبدالرحمٰن نے بولنا چاہا جو سب سے چھوٹے تھے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ بڑے کی بڑائی کرو۔ (ابن سعید نے اس کا مقصد یہ) بیان کیا کہ جو بڑا ہے وہ گفتگو کرے، پھر انہوں نے اپنے ساتھی کے مقدمہ میں گفتگو کی۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر تم میں سے 50 آدمی قسم کھا لیں کہ عبداللہ کو یہودیوں نے مارا ہے تو تم دیت کے مستحق ہوجاؤ گے۔ انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! ہم نے خود تو اسے دیکھا نہیں تھا (پھر اس کے متعلق قسم کیسے کھا سکتے ہیں ؟ ) نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پھر یہود اپنے پچاس آدمیوں سے قسم کھلوا کر تم سے چھٹکارا پالیں گے۔ انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! یہ کافر لوگ ہیں (ان کی قسم کا کیا بھروسہ) چناچہ رسول اللہ ﷺ نے عبداللہ بن سہل کے وارثوں کو دیت خود اپنی طرف سے ادا کردی۔ سہل (رض) نے بیان کیا کہ ان اونٹوں میں سے (جو نبی کریم ﷺ نے انہیں دیت میں دئیے تھے) ایک اونٹنی کو میں نے پکڑا وہ تھان میں گھس گئی، اس نے ایک لات مجھ کو لگائی۔ اور لیث نے کہا مجھ سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے بشیر نے اور ان سے سہل نے، یحییٰ نے یہاں بیان کیا کہ میں سمجھتا ہوں کہ بشیر نے مع رافع بن خديج کے الفاظ کہے تھے۔ اور سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے بشیر نے اور انہوں نے صرف سہل سے روایت کی۔

【168】

بڑوں کی عزت کرنے اور اس امر کا بیان کہ سوال اور گفتگو میں بڑا آدمی ابتداء کرے

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن کثیر نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ نے کہا کہ مجھ سے نافع نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے اس درخت کا نام بتاؤ، جس کی مثال مسلمان کی سی ہے۔ وہ ہمیشہ اپنے رب کے حکم سے پھل دیتا ہے اور اس کے پتے نہیں جھڑا کرتے۔ میرے دل میں آیا کہ کہہ دوں کہ وہ کھجور کا درخت ہے لیکن میں نے کہنا پسند نہیں کیا۔ کیونکہ مجلس میں حضرات ابوبکر اور عمر (رض) جیسے اکابر بھی موجود تھے۔ پھر جب ان دونوں بزرگوں نے کچھ نہیں کہا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہ کھجور کا درخت ہے۔ جب میں اپنے والد کے ساتھ نکلا تو میں نے عرض کیا کہ میرے دل میں آیا کہ کہہ دوں یہ کھجور کا درخت ہے، انہوں نے کہا پھر تم نے کہا کیوں نہیں ؟ اگر تم نے کہہ دیا ہوتا میرے لیے اتنا مال اور اسباب ملنے سے بھی زیادہ خوشی ہوتی۔ ابن عمر (رض) نے بیان کیا کہ (میں نے عرض کیا) صرف اس وجہ سے میں نے نہیں کہا کہ جب میں نے آپ کو اور ابوبکر (رض) جیسے بزرگ کو خاموش دیکھا تو میں نے آپ بزرگوں کے سامنے بات کرنا برا جانا۔

【169】

شعر اور جزا اور حدی خوانی کس طرح کی جائز ہے اور کیا مکروہ ہے اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ شعراء کی اتباع بھٹکے ہوئے لوگ کرتے ہیں کیا تم نہیں دیکھتے کہ وہ ہر وادی میں حیران و سرگرداں پھرتے ہیں اور وہ لوگ ایسی بات کہتے ہیں جو نہیں کرتے مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور عمل صالح کرتے ہیں اور اللہ کو بہت یاد کرتے ہیں اور ظلم کئے جانے کے بعد بدلہ لیتے ہیں اور ظلم کرنے والوں کو عنقریب معلوم ہوجائے گا کہ کس کروٹ پلٹتے ہیں اور ابن عباس (رض) نے (فی کل واد یھیمون کی) تفسیر یہ بیان کی لغو خیالات میں غوطے لگاتے ہیں۔

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ کو ابوبکر بن عبدالرحمٰن نے خبر دی، انہیں مروان بن حکم نے خبر دی، انہیں عبدالرحمٰن بن اسود بن عبد یغوث نے خبر دی، انہیں ابی بن کعب (رض) نے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بعض شعروں میں دانائی ہوتی ہے۔

【170】

شعر اور جزا اور حدی خوانی کس طرح کی جائز ہے اور کیا مکروہ ہے اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ شعراء کی اتباع بھٹکے ہوئے لوگ کرتے ہیں کیا تم نہیں دیکھتے کہ وہ ہر وادی میں حیران و سرگرداں پھرتے ہیں اور وہ لوگ ایسی بات کہتے ہیں جو نہیں کرتے مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور عمل صالح کرتے ہیں اور اللہ کو بہت یاد کرتے ہیں اور ظلم کئے جانے کے بعد بدلہ لیتے ہیں اور ظلم کرنے والوں کو عنقریب معلوم ہوجائے گا کہ کس کروٹ پلٹتے ہیں اور ابن عباس (رض) نے (فی کل واد یھیمون کی) تفسیر یہ بیان کی لغو خیالات میں غوطے لگاتے ہیں۔

ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے اسود بن قیس نے، انہوں نے کہا کہ میں نے جندب بن عبداللہ بجلی سے سنا، انہوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ چل رہے تھے کہ آپ کو پتھر سے ٹھوکر لگی اور آپ گرپڑے، اس سے آپ کی انگلی سے خون بہنے لگا، آپ ﷺ نے یہ شعر پڑھا تو تو اک انگلی ہے اور کیا ہے جو زخمی ہوگئی ... کیا ہوا اگر راہ مولیٰ میں تو زخمی ہوگئی۔

【171】

شعر و رجز اور حدی خوانی کس طرح کی جائز ہے اور کیا مکروہ ہے اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ شعراء کی اتباع بھٹکے ہوئے لوگ کرتے ہیں کیا تم نہیں دیکھتے کہ وہ ہر وادی میں حیران و سرگرداں پھرتے ہیں اور وہ لوگ ایسی بات کہتے ہیں جو نہیں کرتے مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور عمل صالح کرتے ہیں اور اللہ کو بہت یاد کرتے ہیں اور ظلم کئے جانے کے بعد بدلہ لیتے ہیں اور ظلم کرنے والوں کو عنقریب معلوم ہوجائے گا کہ کس کروٹ پلٹتے ہیں اور ابن عباس (رض) نے (فی کل واد یھیمون کی) تفسیر یہ بیان کی لغو خیالات میں غوطے لگاتے ہیں۔

ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالرحمٰن بن مہدی نے بیان کیا، ان سے سفیان نے بیان کیا، ان سے عبدالملک نے، انہوں نے کہا ہم سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کی شعراء کے کلام میں سے سچا کلمہ لبید کا مصرعہ ہے جو یہ ہے کہ اللہ کے سوا جو کچھ ہے سب معدوم و فنا ہونے والا ہے۔ امیہ بن ابی الصلت شاعر تو قریب تھا کہ مسلمان ہوجائے۔

【172】

شعر و رجز اور حدی خوانی کس طرح کی جائز ہے اور کیا مکروہ ہے اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ شعراء کی اتباع بھٹکے ہوئے لوگ کرتے ہیں کیا تم نہیں دیکھتے کہ وہ ہر وادی میں حیران و سرگرداں پھرتے ہیں اور وہ لوگ ایسی بات کہتے ہیں جو نہیں کرتے مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور عمل صالح کرتے ہیں اور اللہ کو بہت یاد کرتے ہیں اور ظلم کئے جانے کے بعد بدلہ لیتے ہیں اور ظلم کرنے والوں کو عنقریب معلوم ہوجائے گا کہ کس کروٹ پلٹتے ہیں اور ابن عباس (رض) نے (فی کل واد یھیمون) کی تفسیر یہ بیان کی لغو خیالات میں غوطے لگاتے ہیں۔

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے حاتم بن اسماعیل نے، ان سے برید ابن ابی عبید نے اور ان سے سلمہ بن اکوع (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جنگ خیبر میں گئے اور ہم نے رات میں سفر کیا، اتنے میں مسلمانوں کے آدمی نے عامر بن اکوع رضی للہ عنہ سے کہا کہ اپنے کچھ شعر اشعار سناؤ۔ راوی نے بیان کیا کہ عامر شاعر تھے۔ وہ لوگوں کو اپنی حدی سنانے لگے۔ اے اللہ ! اگر تو نہ ہوتا تو ہم ہدایت نہ پاتے نہ ہم صدقہ دے سکتے اور نہ نماز پڑھ سکتے۔ ہم تجھ پر فدا ہوں، ہم نے جو کچھ پہلے گناہ کئے ان کو تو معاف کر دے اور جب (دشمن سے) ہمارا سامنا ہو تو ہمیں ثابت قدم رکھ اور ہم پر سکون نازل فرما۔ جب ہمیں جنگ کے لیے بلایا جاتا ہے، تو ہم موجود ہوجاتے ہیں اور دشمن نے بھی پکار کر ہم سے نجات چاہی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ یہ کون اونٹوں کو ہانک رہا ہے جو حدی گا رہا ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا کہ عامر بن اکوع ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ پاک اس پر رحم کرے۔ ایک صحابی یعنی عمر (رض) نے کہا : یا رسول اللہ ! اب تو عامر شہید ہوئے۔ کاش اور چند روز آپ ہم کو عامر سے فائدہ اٹھانے دیتے۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر ہم خیبر آئے اور اس کو گھیر لیا اس گھراؤ میں ہم شدید فاقوں میں مبتلا ہوئے، پھر اللہ تعالیٰ نے خیبر والوں پر ہم کو فتح عطا فرمائی جس دن ان پر فتح ہوئی اس کی شام کو لوگوں نے جگہ جگہ آگ جلائی۔ نبی کریم ﷺ نے پوچھا کہ یہ آگ کیسی ہے، کس کام کے لیے تم لوگوں نے یہ آگ جلائی ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا کہ گوشت پکانے کے لیے۔ اس پر آپ نے دریافت فرمایا کس چیز کے گوشت کے لیے ؟ صحابہ نے کہا کہ بستی کے پالتو گدھوں کا گوشت پکانے کے لیے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ گوشت کو برتنوں میں سے پھینک دو اور برتنوں کو توڑ دو ۔ ایک صحابی نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! ہم گوشت تو پھینک دیں، مگر برتن توڑنے کے بجائے اگر دھو لیں ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اچھا یوں ہی کرلو۔ جب لوگوں نے جنگ کی صف بندی کرلی تو عامر (ابن اکوع شاعر) نے اپنی تلوار سے ایک یہودی پر وار کیا، ان کی تلوار چھوٹی تھی اس کی نوک پلٹ کر خود ان کے گھٹنوں پر لگی اور اس کی وجہ سے ان کی شہادت ہوگئی۔ جب لوگ واپس آنے لگے تو سلمہ (عامر کے بھائی) نے بیان کیا کہ مجھے نبی کریم ﷺ نے دیکھا کہ میرے چہرے کا رنگ بدلا ہوا ہے۔ دریافت فرمایا کہ کیا بات ہے ؟ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! پر میرے ماں اور باپ فدا ہوں، لوگ کہہ رہے ہیں کہ عامر کے اعمال برباد ہوگئے۔ (کیونکہ ان کی موت خود ان کی تلوار سے ہوئی ہے) نبی کریم ﷺ نے فرمایا یہ کس نے کہا ؟ میں نے عرض کیا : فلاں، فلاں، فلاں اور اسید بن حضیر انصاری نے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جس نے یہ بات کہی اس نے جھوٹ کہا ہے انہیں تو دوہرا اجر ملے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دو انگلیوں کو ملا کر اشارہ کیا کہ وہ عابد بھی تھا اور مجاہد بھی (تو عبادت اور جہاد دونوں کا ثواب اس نے پایا) عامر کی طرح تو بہت کم بہادر عرب میں پیدا ہوئے ہیں (وہ ایسا بہادر اور نیک آدمی تھا) ۔

【173】

شعر اور جزا اور حدی خوانی کس طرح کی جائز ہے اور کیا مکروہ ہے اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ شعراء کی اتباع بھٹکے ہوئے لوگ کرتے ہیں کیا تم نہیں دیکھتے کہ وہ ہر وادی میں حیران و سرگرداں پھرتے ہیں اور وہ لوگ ایسی بات کہتے ہیں جو نہیں کرتے مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور عمل صالح کرتے ہیں اور اللہ کو بہت یاد کرتے ہیں اور ظلم کئے جانے کے بعد بدلہ لیتے ہیں اور ظلم کرنے والوں کو عنقریب معلوم ہوجائے گا کہ کس کروٹ پلٹتے ہیں اور ابن عباس (رض) نے (فی کل واد یھیمون کی) تفسیر یہ بیان کی لغو خیالات میں غوطے لگاتے ہیں۔

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ایوب سختیانی نے بیان کیا، ان سے ابوقلابہ نے اور ان سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ (ایک سفر کے موقع پر) اپنی عورتوں کے پاس آئے جو اونٹوں پر سوار جا رہی تھیں، ان کے ساتھ ام سلیم (رض) انس کی والدہ بھی تھیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ افسوس، انجشہ ! شیشوں کو آہستگی سے لے چل۔ ابوقلابہ نے کہا کہ نبی کریم نے عورتوں سے متعلق ایسے الفاظ کا استعمال فرمایا کہ اگر تم میں کوئی شخص استعمال کرے تو تم اس پر عیب جوئی کرو۔ یعنی نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد کہ شیشوں کو نرمی سے لے چل۔

【174】

مشرکین کی ہجو کرنے کا بیان۔

ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدہ نے بیان کیا، کہا ہم کو ہشام بن عروہ نے خبر دی، انہیں ان کے والد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے کہا کہ حسان بن ثابت (رض) نے مشرکین کی ہجو کرنے کی اجازت چاہی تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ان کا اور میرا خاندان تو ایک ہی ہے (پھر تو میں بھی اس ہجو میں شریک ہوجاؤں گا) ۔ حسان (رض) نے کہا کہ میں ہجو سے آپ کو اس طرح صاف نکال دوں گا جس طرح گندھے ہوئے آٹے سے بال نکال لیا جاتا ہے۔ اور ہشام بن عروہ سے روایت ہے، ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ میں حسان بن ثابت (رض) کو عائشہ (رض) کی مجلس میں برا کہنے لگا تو انہوں نے کہا کہ حسان کو برا بھلا نہ کہو، وہ نبی کریم ﷺ کی طرف سے مشرکوں کو جواب دیتا تھا۔

【175】

مشرکین کی ہجو کرنے کا بیان۔

ہم سے اصبغ بن فرج نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، کہا کہ مجھے یونس نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں ہشیم بن ابی سنان نے خبر دی کہ انہوں نے ابوہریرہ (رض) سے سنا وہ حالات اور قصص کے تحت رسول اللہ ﷺ کا تذکرہ کر رہے تھے۔ کہ ایک دفعہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تمہارے ایک بھائی نے کوئی بری بات نہیں کہی۔ آپ کا اشارہ ابن رواحہ کی طرف تھا (اپنے اشعار میں) انہوں نے یوں کہا تھا اور ہم میں اللہ کے رسول ہیں جو اس کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں، اس وقت جب فجر کی روشنی پھوٹ کر پھیل جاتی ہے۔ ہمیں انہوں نے گمراہی کے بعد ہدایت کا راستہ دکھایا۔ پس ہمارے دل اس امر پر یقین رکھتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے جو کچھ فرمایا وہ ضرور واقع ہوگا۔ آپ رات اس طرح گزارتے ہیں کہ ان کا پہلو بستر سے جدا رہتا ہے (یعنی جاگ کر) جب کہ کافروں کے بوجھ سے ان کی خواب گاہیں بوجھل ہوئی رہتی ہیں۔ یونس کے ساتھ اس حدیث کو عقیل نے بھی زہری سے روایت کیا اور محمد بن ولید زبیدی نے زہری سے، انہوں نے سعید بن مسیب سے اور عبدالرحمٰن اعرج سے انہوں نے ابوہریرہ (رض) سے اس حدیث کو روایت کیا۔

【176】

مشرکین کی ہجو کرنے کا بیان۔

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے (دوسری سند) امام بخاری (رح) نے کہا اور ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے بھائی عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے سلیمان نے، ان سے محمد بن ابی عتیق نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف نے، انہوں نے حسان بن ثابت انصاری (رض) سے سنا، وہ ابوہریرہ (رض) کو گواہ بنا کر کہہ رہے تھے کہ اے ابوہریرہ ! میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں، کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اے حسان ! اللہ کے رسول کی طرف سے مشرکوں کو جواب دو ، اے اللہ ! روح القدس کے ذریعہ ان کی مدد کر۔ ابوہریرہ (رض) نے کہا کہ ہاں۔

【177】

مشرکین کی ہجو کرنے کا بیان۔

ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عدی بن ثابت نے اور ان سے براء بن عازب (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے حسان (رض) سے فرمایا ان کی ہجو کرو (یعنی مشرکین قریش کی) ۔ یا نبی کریم ﷺ نے ( هاجهم کے الفاظ فرمائے) جبرائیل (علیہ السلام) تیرے ساتھ ہیں۔

【178】

یہ مکروہ ہے کہ کسی شخص پر شعر اس طرح غالب آ جائے کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر اور علم اور قرآن سے اس کو روک دے۔

ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو حنظلہ نے خبر دی، انہیں سالم نے اور انہیں عبداللہ بن عمر (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اگر تم میں سے کوئی شخص اپنا پیٹ پیپ سے بھرے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ اسے شعر سے بھرے۔

【179】

یہ مکروہ ہے کہ کسی شخص پر شعر اس طرح غالب آ جائے کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر اور علم اور قرآن سے اس کو روک دے۔

ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، انہوں کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابوصالح سے سنا اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ سے فرمایا اگر تم میں سے کوئی شخص اپنا پیٹ پیپ سے بھر لے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ شعروں سے بھر جائے۔

【180】

نبی ﷺ کا تربت یمینک (تیرا دایاں) ہاتھ خاک آلود ہو) اور عقری حلقتی (مونڈی کاٹی) فرمانا۔

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ ابوقعیس کے بھائی افلح (میرے رضاعی چچا نے) مجھ سے پردہ کا حکم نازل ہونے کے بعد اندر آنے کی اجازت چاہی، میں نے کہا کہ اللہ کی قسم جب تک نبی کریم ﷺ اجازت نہ دیں گے میں اندر آنے کی اجازت نہیں دوں گی۔ کیونکہ ابوقعیس کے بھائی نے مجھے دودھ نہیں پلایا بلکہ ابوقعیس کی بیوی نے دودھ پلایا ہے۔ پھر جب رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! مرد نے تو مجھے دودھ نہیں پلایا تھا، دودھ تو ان کی بیوی نے پلایا تھا، نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ انہیں اندر آنے کی اجازت دے دو ، کیونکہ وہ تمہارے چچا ہیں، تمہارے ہاتھ میں مٹی لگے۔ عروہ نے کہا کہ اسی وجہ سے عائشہ (رض) کہتی تھیں کہ جتنے رشتے خون کی وجہ سے حرام ہوتے ہیں وہ رضاعت سے بھی حرام ہی سمجھو۔

【181】

نبی ﷺ کا تربت یمینک (تیرا دایاں) ہاتھ خاک آلود ہو) اور عقری حلقتی (مونڈی کاٹی) فرمانا۔

ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حکم بن عتیبہ نے بیان کیا، ان سے ابراہیم نخعی نے، ان سے اسود نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے (حج سے) واپسی کا ارادہ کیا تو دیکھا کہ صفیہ (رض) اپنے خیمے کے دروازہ پر رنجیدہ کھڑی ہیں کیونکہ وہ حائضہ ہوگئی تھیں۔ نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا عقرى حلقى (یہ قریش کا محاورہ ہے) اب تم ہمیں روکو گی ! پھر دریافت فرمایا کیا تم نے قربانی کے دن طواف افاضہ کرلیا تھا ؟ انہوں نے کہا کہ جی ہاں، فرمایا کہ پھر چلو۔

【182】

لفظ زعموا کے استعمال کا بیان۔

ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے، ان سے عمر بن عبیداللہ کے غلام ابوالنضر نے، ان سے ام ہانی بنت ابی طالب کے غلام ابو مرہ نے خبر دی کہ انہوں نے ام ہانی بنت ابی طالب سے سنا۔ انہوں نے بیان کیا کہ فتح مکہ کے موقع پر میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ میں نے دیکھا کہ آپ غسل کر رہے ہیں اور آپ کی صاحبزادی فاطمہ (رض) نے پردہ کردیا ہے۔ میں نے سلام کیا تو نبی کریم ﷺ نے دریافت کیا کہ یہ کون ہیں ؟ میں نے کہا کہ ام ہانی بنت ابی طالب ہوں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، ام ہانی ! مرحبا ہو۔ جب آپ غسل کرچکے تو کھڑے ہو کر آٹھ رکعات پڑھیں۔ آپ اس وقت ایک کپڑے میں جسم مبارک کو لپیٹے ہوئے تھے۔ جب نماز سے فارغ ہوگئے تو میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! میرے بھائی (علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ) کا خیال ہے کہ وہ ایک ایسے شخص کو قتل کریں گے جسے میں نے امان دے رکھی ہے۔ یعنی فلاں بن ہبیرہ کو۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ام ہانی جسے تم نے امان دی اسے ہم نے بھی امان دی۔ ام ہانی نے بیان کیا کہ یہ نماز چاشت کی تھی۔

【183】

کسی شخص کا (کسی کو) ویلک کہنا۔

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمام بن یحییٰ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا کہ قربانی کے لیے ایک اونٹنی ہانکے لیے جا رہا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اس پر سوار ہو کر جا، انہوں نے کہا کہ یہ تو قربانی کا جانور ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ سوار ہوجا، افسوس ويلك دوسری یا تیسری مرتبہ یہ فرمایا۔

【184】

کسی شخص کا (کسی کو) ویلک کہنا۔

مجھ سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، وہ امام مالک سے روایت کرتے ہیں، وہ ابوالزناد سے، وہ اعرج سے، وہ ابوہریرہ (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا کہ قربانی کا اونٹ ہنکائے جا رہا ہے۔ آپ ﷺ نے اس سے کہا کہ تو اس پر سوار ہوجا۔ اس نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! یہ تو قربانی کا اونٹ ہے۔ آپ ﷺ نے دوسری بار یا تیسری بار فرمایا کہ تیری خرابی ہو، تو سوار ہوجا۔

【185】

کسی شخص کا (کسی کو) ویلک کہنا۔

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ثابت بنانی نے اور ان سے انس بن مالک (رض) نے (دوسری سند) اور اس حدیث کو حماد نے ایوب سختیانی سے اور ایوب نے ابوقلابہ سے روایت کیا اور ان سے انس بن مالک (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ ایک سفر میں تھے اور آپ کے ساتھ آپ کا ایک حبشی غلام تھا۔ ان کا نام انجشہ تھا وہ حدی پڑھ رہا تھا (جس کی وجہ سے سواری تیز چلنے لگی) ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا افسوس ويحك اے انجشہ ! شیشوں کے ساتھ آہستہ آہستہ چل۔

【186】

کسی شخص کا (کسی کو) ویلک کہنا۔

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے وہیب نے بیان کیا، ان سے خالد نے، ان سے عبدالرحمٰن بن ابی بکرہ نے اور ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کے سامنے ایک شخص نے دوسرے شخص کی تعریف کی۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا افسوس ويلك تم نے اپنے بھائی کی گردن کاٹ دی، تین مرتبہ (یہ فرمایا) اگر تمہیں کسی کی تعریف ہی کرنی پڑجائے تو یہ کہو کہ فلاں کے متعلق میرا یہ خیال ہے۔ اگر وہ بات اس کے متعلق جانتا ہو اور اللہ اس کا نگراں ہے میں تو اللہ کے مقابلے میں کسی کو نیک نہیں کہہ سکتا یعنی یوں نہیں کہہ سکتا کہ وہ اللہ کے علم میں بھی نیک ہے۔

【187】

کسی شخص کا (کسی کو) ویلک کہنا۔

مجھ سے عبدالرحمٰن بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ولید نے بیان کیا، ان سے امام اوزاعی نے، ان سے زہری نے، ان سے ابوسلمہ اور ضحاک نے اور ان سے ابو سعید خدری (رض) نے بیان کیا کہ ایک دن نبی کریم ﷺ کچھ تقسیم کر رہے تھے۔ بنی تمیم کے ایک شخص ذوالخویصرۃ نے کہا : یا رسول اللہ ! انصاف سے کام لیجئے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، افسوس ! اگر میں ہی انصاف نہیں کروں گا تو پھر کون کرے گا۔ عمر (رض) نے کہا : یا رسول اللہ ! مجھے اجازت دیں تو میں اس کی گردن مار دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں۔ اس کے کچھ (قبیلہ والے) ایسے لوگ پیدا ہوں گے کہ تم ان کی نماز کے مقابلہ میں اپنی نماز کو معمولی سمجھو گے اور ان کے روزوں کے مقابلہ میں اپنے روزے کو معمولی سمجھو گے لیکن وہ دین سے اس طرح نکل چکے ہوں گے جس طرح تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔ تیر کے پھل میں دیکھا جائے تو اس پر بھی کوئی نشان نہیں ملے گا۔ اس کی لکڑی پر دیکھا جائے تو اس پر بھی کوئی نشان نہیں ملے گا۔ پھر اس کے دندانوں میں دیکھا جائے اور اس میں بھی کچھ نہیں ملے گا پھر اس کے پر میں دیکھا جائے تو اس میں بھی کچھ نہیں ملے گا۔ (یعنی شکار کے جسم کو پار کرنے کا کوئی نشان) تیر لید اور خون کو پار کر کے نکل چکا ہوگا۔ یہ لوگ اس وقت پیدا ہوں گے جب لوگوں میں پھوٹ پڑجائے گی۔ (ایک خلیفہ پر متفق نہ ہوں گے) ان کی نشانی ان کا ایک مرد (سردار لشکر) ہوگا۔ جس کا ایک ہاتھ عورت کے پستان کی طرح ہوگا یا (فرمایا) گوشت کے لوتھڑے کی طرح تھل تھل ہل رہا ہوگا۔ ابوسعید (رض) نے بیان کیا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ حدیث سنی اور میں گواہی دیتا ہوں کہ میں علی (رض) کے ساتھ تھا۔ جب انہوں نے ان خارجیوں سے (نہروان میں) جنگ کی تھی۔ مقتولین میں تلاش کی گئی تو ایک شخص انہیں صفات کا لایا گیا جو نبی کریم ﷺ نے بیان کی تھیں۔ اس کا ایک ہاتھ پستان کی طرح کا تھا۔

【188】

کسی شخص کا (کسی کو) ویلک کہنا۔

ہم سے محمد بن مقاتل ابوالحسن نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا ہم کو امام اوزاعی نے خبر دی، کہا کہ مجھ کو ابن شہاب نے خبر دی، بیان کیا ان سے حمید بن عبدالرحمٰن نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ ایک صحابی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! میں تو تباہ ہوگیا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، افسوس (کیا بات ہوئی ؟ ) انہوں نے کہا کہ میں نے رمضان میں اپنی بیوی سے صحبت کرلی۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پھر ایک غلام آزاد کر۔ انہوں نے عرض کیا کہ میرے پاس غلام ہے ہی نہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پھر دو مہینے متواتر روزے رکھ۔ اس نے کہا کہ اس کی مجھ میں طاقت نہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پھر ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا۔ کہا کہ اتنا بھی میں اپنے پاس نہیں پاتا۔ اس کے بعد کھجور کا ایک ٹوکرا آیا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اسے لے اور صدقہ کر دے۔ انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! کیا اپنے گھر والوں کے سوا کسی اور کو ؟ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! سارے مدینہ کے دونوں طنابوں یعنی دونوں کناروں میں مجھ سے زیادہ کوئی محتاج نہیں۔ نبی کریم ﷺ اس پر اتنا ہنس دیئے کہ آپ کے آگے کے دندان مبارک دکھائی دینے لگے۔ فرمایا کہ جاؤ تم ہی لے لو۔ اوازاعی کے ساتھ اس حدیث کو یونس نے بھی زہری سے روایت کیا اور عبدالرحمٰن بن خالد نے زہری سے اس حدیث میں بجائے لفظ ويحك کے لفظ ويلك‏.‏ روایت کیا ہے (معنی دونوں کے ایک ہی ہیں) ۔

【189】

کسی شخص کا (کسی کو) ویلک کہنا۔

ہم سے سلیمان بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ولید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابوعمرو اوزاعی نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابن شہاب زہری نے بیان کیا، ان سے عطاء بن یزید لیثی نے اور ان سے ابو سعید خدری نے کہ ایک دیہاتی نے کہا : یا رسول اللہ ! ہجرت کے بارے میں مجھے کچھ بتائیے (اس کی نیت ہجرت کی تھی) ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تجھ پر افسوس ! ہجرت کو تو نے کیا سمجھا ہے یہ بہت مشکل ہے۔ تمہارے پاس کچھ اونٹ ہیں۔ انہوں نے عرض کیا کہ جی ہاں، نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا کیا تم ان کی زکوٰۃ ادا کرتے ہو ؟ انہوں نے عرض کیا کہ جی ہاں، فرمایا کہ پھر سات سمندر پار عمل کرتے رہو۔ اللہ تمہارے کسی عمل کے ثواب کو ضائع نہ کرے گا۔

【190】

کسی شخص کا (کسی کو) ویلک کہنا۔

ہم سے عبداللہ بن عبدالوہاب نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے خالد بن حارث نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے واقد بن محمد بن زید نے بیان کیا، انہوں نے ان کے والد سے سنا اور انہوں نے عبداللہ بن عمر (رض) سے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، افسوس ( ويلكم یا ويحكم ) شعبہ نے بیان کیا کہ شک ان کے شیخ (واقد بن محمد کو) تھا۔ میرے بعد تم کافر نہ ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو۔ اور نضر نے شعبہ سے بیان کیا ويحكم اور عمر بن محمد نے اپنے والد سے ويلكم یا ويحكم کے لفظ نقل کئے ہیں۔

【191】

کسی شخص کا (کسی کو) ویلک کہنا۔

ہم سے عمرو بن عاصم نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمام بن یحییٰ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس نے کہ ایک بدوی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا : یا رسول اللہ ! قیامت کب آئے گی ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، افسوس ويلك تم نے اس قیامت کے لیے کیا تیاری کرلی ہے ؟ انہوں نے عرض کیا میں نے اس کے لیے تو کوئی تیاری نہیں کی ہے البتہ میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہوں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پھر تم قیامت کے دن ان کے ساتھ ہو، جس سے تم محبت رکھتے ہو۔ ہم نے عرض کیا اور ہمارے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوگا ؟ فرمایا کہ ہاں۔ ہم اس دن بہت زیادہ خوش ہوئے، پھر مغیرہ کے ایک غلام وہاں سے گزرے وہ میرے ہم عمر تھے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر یہ بچہ زندہ رہا تو اس کے بڑھاپا آنے سے پہلے قیامت قائم ہوجائے گی۔

【192】

اللہ بزرگ و برتر کی محبت کی نشانی کا بیان اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تعالیٰ تمہیں محبوب رکھے گا۔

ہم سے بشر بن خالد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے سلیمان نے، ان سے ابو وائل نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا انسان اس کے ساتھ ہے جس سے وہ محبت رکھتا ہے۔

【193】

اللہ بزرگ و برتر کی محبت کی نشانی کا بیان اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تعالیٰ تمہیں محبوب رکھے گا۔

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابو وائل نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود نے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! آپ کا اس شخص کے بارے میں کیا ارشاد ہے جو ایک جماعت سے محبت رکھتا ہے لیکن ان سے میل نہیں ہوسکا ہے ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ انسان اس کے ساتھ ہے جس سے وہ محبت رکھتا ہے۔ اس روایت کی متابعت جریر بن حازم، سلیمان بن قرم اور ابوعوانہ نے اعمش سے کی، ان سے ابو وائل نے، ان سے عبداللہ بن مسعود نے اور ان سے نبی کریم ﷺ نے۔

【194】

اللہ بزرگ و برتر کی محبت کی نشانی کا بیان اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تعالیٰ تمہیں محبوب رکھے گا۔

ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابو وائل نے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ سے عرض کیا گیا ایک شخص ایک جماعت سے محبت رکھتا ہے لیکن اس سے مل نہیں سکا ہے ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ انسان اس کے ساتھ ہے جس سے وہ محبت رکھتا ہے۔ سفیان کے ساتھ اس روایت کی متابعت ابومعاویہ اور محمد بن عبید نے کی ہے۔

【195】

اللہ بزرگ و برتر کی محبت کی نشانی کا بیان اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تعالیٰ تمہیں محبوب رکھے گا۔

ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہم کو ہمارے والد عثمان مروزی نے خبر دی، انہیں شعبہ نے، انہیں عمرو بن مرہ نے، انہیں سالم بن ابی الجعد نے اور انہیں انس بن مالک (رض) نے کہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا : یا رسول اللہ ! قیامت کب قائم ہوگی ؟ نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا کہ تم نے اس کے لیے کیا تیاری کی ہے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ میں نے اس کے لیے بہت ساری نمازیں، روزے اور صدقے نہیں تیار کر رکھے ہیں، لیکن میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اس کے ساتھ ہو جس سے تم محبت رکھتے ہو۔

【196】

کسی شخص کا کسی کو کہنا کہ دور ہوجا۔

ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے مسلم بن زریر نے بیان کیا، کہا میں نے ابورجاء سے سنا اور انہوں نے ابن عباس (رض) سے سنا کہ نبی کریم ﷺ نے ابن صیاد سے فرمایا میں نے اس وقت اپنے دل میں ایک بات چھپا رکھی ہے، وہ کیا ہے ؟ وہ بولا الدخ‏.‏ نبی کریم ﷺ نے فرمایا چل دور ہوجا۔

【197】

کسی شخص کا کسی کو کہنا کہ دور ہوجا۔

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے کہا کہ مجھے سالم بن عبداللہ نے خبر دی، انہیں عبداللہ بن عمر (رض) نے خبر دی، کہ عمر بن خطاب (رض) رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ابن صیاد کی طرف گئے۔ بہت سے دوسرے صحابہ بھی ساتھ تھے۔ نبی کریم ﷺ نے دیکھا کہ وہ چند بچوں کے ساتھ بنی مغالہ کے قلعہ کے پاس کھیل رہا ہے۔ ان دنوں ابن صیاد بلوغ کے قریب تھا۔ نبی کریم ﷺ کی آمد کا اسے احساس نہیں ہوا۔ یہاں تک کہ آپ نے اس کی پیٹھ پر اپنا ہاتھ مارا۔ پھر فرمایا کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں ؟ اس نے نبی کریم ﷺ کی طرف دیکھ کر کہا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ امیوں کے یعنی (عربوں کے) رسول ہیں۔ پھر ابن صیاد نے کہا کیا آپ گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں ؟ نبی کریم ﷺ نے اس پر اسے دفع کردیا اور فرمایا، میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لایا۔ پھر ابن صیاد سے آپ نے پوچھا، تم کیا دیکھتے ہو ؟ اس نے کہا کہ میرے پاس سچا اور جھوٹا دونوں آتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تمہارے لیے معاملہ کو مشتبہ کردیا گیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں نے تمہارے لیے ایک بات اپنے دل میں چھپا رکھی ہے ؟ اس نے کہا کہ وہ الدخ‏.‏ ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ دور ہو، اپنی حیثیت سے آگے نہ بڑھ۔ عمر (رض) نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! کیا آپ مجھے اجازت دیں گے کہ اسے قتل کر دوں ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، اگر یہ وہی (دجال) ہے تو اس پر غالب نہیں ہوا جاسکتا اور اگر یہ دجال نہیں ہے تو اسے قتل کرنے میں کوئی خیر نہیں۔ سالم نے بیان کیا کہ میں نے عبداللہ بن عمر (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ ابی بن کعب انصاری (رض) کو ساتھ لے کر اس کھجور کے باغ کی طرف روانہ ہوئے جہاں ابن صیاد رہتا تھا۔ جب نبی کریم ﷺ باغ میں پہنچے تو آپ نے کھجور کی ٹہنیوں میں چھپنا شروع کیا۔ نبی کریم ﷺ چاہتے تھے کہ اس سے پہلے کہ وہ دیکھے چھپ کر کسی بہانے ابن صیاد کی کوئی بات سنیں۔ ابن صیاد ایک مخملی چادر کے بستر پر لیٹا ہوا تھا اور کچھ گنگنا رہا تھا۔ ابن صیاد کی ماں نے نبی کریم ﷺ کو کھجور کے تنوں سے چھپ کر آتے ہوئے دیکھ لیا اور اسے بتادیا کہ اے صاف ! (یہ اس کا نام تھا) محمد آ رہے ہیں۔ چناچہ وہ متنبہ ہوگیا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر اس کی ماں اسے متنبہ نہ کرتی تو بات صاف ہوجاتی۔ سالم نے بیان کیا کہ عبداللہ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ لوگوں کے مجمع میں کھڑے ہوئے اور اللہ کی اس کی شان کے مطابق تعریف کرنے کے بعد آپ ﷺ نے دجال کا ذکر کیا اور فرمایا کہ میں تمہیں اس سے ڈراتا ہوں۔ کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے اپنی قوم کو اس سے نہ ڈرایا ہو۔ نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اس سے ڈرایا لیکن میں اس کی تمہیں ایک ایسی نشانی بتاؤں گا جو کسی نبی نے اپنی قوم کو نہیں بتائی تم جانتے ہو کہ وہ کانا ہوگا اور اللہ کانا نہیں ہے۔

【198】

None

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے مجمع میں کھڑے ہوئے اور اللہ کی اس کی شان کے مطابق تعریف کرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کا ذکر کیا اور فرمایا کہ میں تمہیں اس سے ڈراتا ہوں۔ کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے اپنی قوم کو اس سے نہ ڈرایا ہو۔ نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو اس سے ڈرایا لیکن میں اس کی تمہیں ایک ایسی نشانی بتاؤں گا جو کسی نبی نے اپنی قوم کو نہیں بتائی تم جانتے ہو کہ وہ کانا ہو گا اور اللہ کانا نہیں ہے۔

【199】

کسی کو مرحبا کہنے کا بیان اور حضرت عائشہ (رض) کا بیان ہے کہ نبی ﷺ نے فاطمہ (رض) سے فرمایا مرحباً اے میری بیٹی اور ام ہانی کا بیان ہے کہ میں آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی تو آپ نے فرمایا مرحباً اے ام ہانی۔

ہم سے عمران بن میسرہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، ان سے ابوالتیاح یزید بن حمید نے بیان کیا، ان سے ابوحمزہ نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ جب قبیلہ عبدالقیس کا وفد نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ مرحبا ان لوگوں کو جو آن پہنچے تو نہ وہ ذلیل ہوئے، نہ شرمندہ (خوشی سے مسلمان ہوگئے ورنہ مارے جاتے شرمندہ ہوتے) انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! ہم قبیلہ ربیع کی شاخ سے تعلق رکھتے ہیں اور چونکہ ہمارے اور آپ کے درمیان قبیلہ مضر کے کافر لوگ حائل ہیں اس لیے ہم آپ کی خدمت میں صرف حرمت والے مہینوں ہی میں حاضر ہوسکتے ہیں (جن میں لوٹ کھسوٹ نہیں ہوتی) آپ کچھ ایسی جچی تلی بات بتادیں جس پر عمل کرنے سے ہم جنت میں داخل ہوجائیں اور جو لوگ نہیں آسکے ہیں انہیں بھی اس کی دعوت پہنچائیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ چار چار چیزیں ہیں۔ نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو ، رمضان کے روزے رکھو اور غنیمت کا پانچواں حصہ (بیت المال کو) ادا کرو اور دباء، حنتم، نقیر اور مزفت میں نہ پیو۔

【200】

لوگ اپنے باپوں کے نام سے پکارے جائیں گے۔

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ عمری نے، ان سے نافع نے ان سے ابن عمر (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا عہد توڑنے والے کے لیے قیامت میں ایک جھنڈا اٹھایا جائے گا اور پکار دیا جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی دغا بازی کا نشان ہے۔

【201】

لوگ اپنے باپوں کے نام سے پکارے جائیں گے۔

ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے، ان سے عبداللہ بن دینار نے اور ان سے ابن عمر (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا عہد توڑنے والے کے لیے قیامت میں ایک جھنڈا اٹھایا جائے گا اور پکارا جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی دغا بازی کا نشان ہے۔

【202】

کوئی شخص یہ نہ کہے کہ میرا نفس (مزاج) خبیث ہوا۔

ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تم میں کوئی شخص یہ نہ کہے کہ میرا نفس پلید ہوگیا ہے بلکہ یہ کہے کہ میرا دل خراب یا پریشان ہوگیا۔

【203】

کوئی شخص یہ نہ کہے کہ میرا نفس (مزاج) خبیث ہوا۔

ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، وہ یونس سے روایت کرتے ہیں، وہ زہری سے، وہ ابوامامہ بن سہل سے، وہ اپنے باپ سے، وہ نبی کریم ﷺ سے، آپ ﷺ نے فرمایا تم میں سے کوئی ہرگز یوں نہ کہے کہ میرا نفس پلید ہوگیا لیکن یوں کہہ سکتا ہے کہ میرا دل خراب یا پریشان ہوگیا۔ اس حدیث کو عقیل نے بھی ابن شہاب سے روایت کیا ہے۔

【204】

زمانے کو برا بھلا نہ کہو۔

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے یونس نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، انہیں ابوسلمہ نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان زمانہ کو گالی دیتا ہے حالانکہ میں ہی زمانہ ہوں، میرے ہی ہاتھ میں رات اور دن ہیں۔

【205】

زمانے کو برا بھلا نہ کہو۔

ہم سے عیاش بن ولید نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالاعلیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے معمر نے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا انگور عنب کو كرم نہ کہو اور یہ نہ کہو کہ ہائے زمانہ کی نامرادی۔ کیونکہ زمانہ تو اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔

【206】

نبی ﷺ کا فرمانا کہ کرم مومن کا دل ہے اور فرمایا مفلس وہ ہے جو قیامت کے (اعمال کے اعتبار سے) مفلس ہو نیز آپ ﷺ کا فرمانا کہ کشتی میں بچھاڑنا دراصل یہ ہے کہ بوقت غضب اپنے نفس کو قابو میں رکھے نیز آپ کا فرمانا کہ ملک اللہ ہی کا ہے اور آپ نے اس طرح بیان کیا کہ وہی آخری بادشاہ ہے پھر بادشاہوں کا بھی ذکر کیا اور فرمایا کہ بادشاہ جب کسی آبادی میں داخل ہوتے ہیں تو اس کو تاخت و تاراج کر ڈالتے ہیں۔

ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے زہری نے بیان کیا، ان سے سعید بن مسیب نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا لوگ (انگور کو) كرم کہتے ہیں،كرم تو مومن کا دل ہے۔

【207】

کسی شخص کا فداک ابی و امی کہنا اس میں زبیر کی روایت ہے۔

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا، ان سے سفیان ثوری نے، ان سے سعد بن ابراہیم نے، ان سے عبداللہ بن شداد نے اور ان سے علی (رض) نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو کسی کے لیے اپنے آپ کو قربان کرنے کا لفظ کہتے نہیں سنا، سوا سعد بن ابی وقاص کے۔ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا، آپ ﷺ فرما رہے تھے۔ تیر مار، اے سعد ! میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں، میرا خیال ہے کہ یہ غزوہ احد کے موقع پر فرمایا۔

【208】

کسی شخص کا یہ کہنا کہ اللہ مجھ کو تم پر فدا کرے اور حضرت ابوبکر (رض) نے نبی ﷺ سے کہا کہ ہم اپنے باپوں اور ماؤں کو آپ پر فدا کریں۔

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے بشر بن مفضل نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن ابی اسحاق نے بیان کیا اور ان سے انس بن مالک (رض) نے کہ وہ اور ابوطلحہ نبی کریم ﷺ کے ساتھ (مدینہ منورہ کے لیے) روانہ ہوئے۔ ام المؤمنین صفیہ (رض) نبی کریم ﷺ کی سواری پر آپ کے پیچھے تھیں، راستہ میں کسی جگہ اونٹنی کا پاؤں پھسل گیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ام المؤمنین گرگئے۔ انس (رض) نے بیان کیا کہ میرا خیال ہے ابوطلحہ نے اپنی سواری سے فوراً اپنے کو گرا دیا اور نبی کریم ﷺ کی خدمت میں پہنچ گئے اور عرض کیا : یا نبی اللہ ! اللہ آپ پر مجھے قربان کرے کیا آپ کو کوئی چوٹ آئی ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ نہیں، البتہ عورت کو دیکھو۔ چناچہ ابوطلحہ (رض) نے کپڑا اپنے چہرے پر ڈال لیا، پھر ام المؤمنین کی طرف بڑھے اور اپنا کپڑا ان کے اوپر ڈال دیا۔ اس کے بعد وہ کھڑی ہوگئیں اور نبی کریم ﷺ اور ام المؤمنین کے لیے ابوطلحہ نے پالان مضبوط باندھا۔ اب آپ نے سوار ہو کر پھر سفر شروع کیا، جب مدینہ منورہ کے قریب پہنچے (یا یوں کہا کہ مدینہ دکھائی دینے لگا) تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا آيبون تائبون،‏‏‏‏ عابدون لربنا حامدون ہم لوٹنے والے ہیں توبہ کرتے ہوئے اپنے رب کی عبادت کرتے ہوئے اور اس کی حمد بیان کرتے ہوئے۔ نبی کریم ﷺ اسے برابر کہتے رہے یہاں تک کہ مدینہ میں داخل ہوگئے۔

【209】

اللہ کے نزدیک محبوب ترین نام کا بیان۔

ہم سے صدقہ بن فضل نے بیان کیا، کہا ہم کو سفیان بن عیینہ نے خبر دی، ان سے ابن المنکدر نے بیان کیا اور ان سے جابر (رض) نے بیان کیا کہ ہم میں سے ایک صاحب کے یہاں بچہ پیدا ہوا تو انہوں نے اس کا نام قاسم رکھا۔ ہم نے ان سے کہا کہ ہم تم کو ابوالقاسم کہہ کر نہیں پکاریں گے (کیونکہ ابوالقاسم نبی کریم ﷺ کی کنیت تھی) اور نہ ہم تمہاری عزت کے لیے ایسا کریں گے۔ ان صاحب نے اس کی خبر نبی کریم ﷺ کو دی، تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اپنے بیٹے کا نام عبدالرحمٰن رکھ لے۔

【210】

نبی ﷺ کا فرمانا کہ میرے نام پر اپنا نام رکھو لیکن میری کنیت پر اپنی کنیت نہ رکھو۔ انس نے نبی ﷺ سے اس کو نقل کیا ہے۔

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے حصین نے بیان کیا، ان سے سالم نے اور ان سے جابر (رض) نے بیان کیا کہ ہم میں سے ایک شخص کے یہاں بچہ پیدا ہوا تو انہوں نے اس کا نام قاسم رکھا۔ صحابہ نے ان سے کہا کہ جب تک ہم نبی کریم ﷺ سے نہ پوچھ لیں۔ ہم اس نام پر تمہاری کنیت نہیں ہونے دیں گے۔ پھر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میرے نام پر نام رکھو لیکن میری کنیت نہ اختیار کرو۔

【211】

نبی ﷺ کا فرمانا کہ میرے نام پر اپنا نام رکھو لیکن میری کنیت پر اپنی کنیت نہ رکھو۔ انس نے نبی ﷺ سے اس کو نقل کیا ہے۔

ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے، ان سے محمد بن سیرین نے اور انہوں نے ابوہریرہ (رض) سے سنا کہ ابوالقاسم ﷺ نے فرمایا میرے نام پر نام رکھو لیکن میری کنیت نہ رکھو۔

【212】

نبی ﷺ کا فرمانا کہ میرے نام پر اپنا نام رکھو لیکن میری کنیت پر اپنی کنیت نہ رکھو۔ انس نے نبی ﷺ سے اس کو نقل کیا ہے۔

ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، کہا کہ میں نے محمد بن المنکدر سے سنا کہ کہا کہ میں نے جابر بن عبداللہ انصاری (رض) سے سنا کہ ہم میں سے ایک آدمی کے یہاں بچہ پیدا ہوا تو انہوں نے اس کا نام قاسم رکھا۔ صحابہ نے کہا کہ ہم تمہاری کنیت ابوالقاسم نہیں رکھیں گے اور نہ تیری آنکھ اس کنیت سے پکار کر ٹھنڈی کریں گے۔ وہ شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے اس کا ذکر کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اپنے لڑکے کا نام عبدالرحمٰن رکھ لو۔

【213】

حزن نام رکھنے کا بیان

اس سند سے بھی یہی روایت ہے۔

【214】

ایک نام بدل کر اس سے اچھا نام رکھنے کا بیان۔

ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوغسان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوحازم نے بیان کیا اور ان سے سہل (رض) نے بیان کیا کہ منذر بن ابی اسید (رض) کی ولادت ہوئی تو انہیں نبی کریم ﷺ کے پاس لایا گیا۔ نبی کریم ﷺ نے بچہ کو اپنی ران پر رکھ لیا۔ ابواسید (رض) بیٹھے ہوئے تھے۔ نبی کریم ﷺ کسی چیز میں جو سامنے تھی مصروف ہوگئے (اور بچہ کی طرف توجہ ہٹ گئی) ۔ ابواسید (رض) نے بچہ کے متعلق حکم دیا اور نبی کریم ﷺ کی ران سے اٹھا لیا گیا۔ پھر جب نبی کریم ﷺ متوجہ ہوئے تو فرمایا کہ بچہ کہاں ہے ؟ ابواسید (رض) نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! ہم نے اسے گھر بھیج دیا۔ نبی کریم ﷺ نے پوچھا : اس کا نام کیا ہے ؟ عرض کیا کہ فلاں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، بلکہ اس کا نام منذر ہے۔ چناچہ اسی دن نبی کریم ﷺ نے ان کا یہی نام منذر رکھا۔

【215】

ایک نام بدل کر اس سے اچھا نام رکھنے کا بیان۔

ہم سے صدقہ بن فضل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو محمد بن جعفر نے خبر دی، انہیں شعبہ نے، انہیں عطاء بن ابی میمونہ نے، انہیں ابورافع نے اور انہیں ابوہریرہ (رض) نے کہ ام المؤمنین زینب (رض) کا نام برہ تھا، کہا جانے لگا کہ وہ اپنی پاکی ظاہر کرتی ہیں۔ چناچہ نبی کریم ﷺ نے ان کا نام زینب رکھا۔

【216】

ایک نام بدل کر اس سے اچھا نام رکھنے کا بیان۔

ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن یوسف نے بیان کیا، انہیں ابن جریج نے خبر دی، کہا مجھ کو عبدالحمید بن جبیر بن شیبہ نے خبر دی، کہا کہ میں سعید بن مسیب کے پاس بیٹھا ہوا تھا تو انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ ان کے دادا حزن نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ تمہارا نام کیا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ میرا نام حزن ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تم سہل ہو، انہوں نے کہا کہ میں تو اپنے باپ کا رکھا ہوا نام نہیں بدلوں گا۔ سعید بن مسیب نے کہا اس کے بعد سے اب تک ہمارے خاندان میں سختی اور مصیبت ہی رہی۔ حزونة سے صعوبت مراد ہے۔

【217】

انبیاء علیھم السلام کے نام پر نام رکھنے کا بیان اور حضرت انس (رض) نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے ابراہیم یعنی اپنے صاحبزادے کا بوسہ لیا۔

ہم سے محمد بن عبداللہ بن نمیر نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن بشر نے، ان سے اسماعیل بن ابی خالد بجلی نے، کہ میں نے ابن ابی اوفی سے پوچھا۔ تم نے نبی کریم ﷺ کے صاحبزادے ابراہیم کو دیکھا تھا ؟ بیان کیا کہ ان کی وفات بچپن ہی میں ہوگئی تھی اور اگر نبی کریم ﷺ کے بعد کسی نبی کی آمد ہوتی تو نبی کریم ﷺ کے صاحبزادے زندہ رہتے لیکن نبی کریم ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔

【218】

انبیاء کے نام پر نام رکھنے کا بیان اور حضرت انس (رض) نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے ابراہیم یعنی اپنے صاحبزادے کا بوسہ لیا۔

ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم کو شعبہ نے خبر دی، انہیں عدی بن ثابت نے کہا کہ میں نے براء (رض) سے سنا، بیان کیا کہ جب آپ کے فرزند ابراہیم (علیہ السلام) کا انتقال ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس کے لیے جنت میں ایک دودھ پلانے والی دایہ مقرر ہوگئی ہے۔

【219】

انبیاء کے نام پر نام رکھنے کا بیان اور حضرت انس (رض) نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے ابراہیم یعنی اپنے صاحبزادے کا بوسہ لیا۔

ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے حصین بن عبدالرحمٰن نے، ان سے سالم بن ابی الجعد نے اور ان سے جریر بن عبداللہ انصاری نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میرے نام پر نام رکھو، لیکن میری کنیت نہ اختیار کرو کیونکہ میں قاسم (تقسیم کرنے والا) ہوں اور تمہارے درمیان (علوم دین کو) تقسیم کرتا ہوں۔ اور اس روایت کو انس (رض) نے بھی نبی کریم ﷺ سے نقل کیا۔

【220】

انبیاء کے نام پر نام رکھنے کا بیان اور حضرت انس (رض) نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے ابراہیم یعنی اپنے صاحبزادے کا بوسہ لیا۔

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابوحصین نے بیان کیا، ان سے ابوصالح نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تم میرے نام پر نام رکھو لیکن تم میری کنیت نہ اختیار کرو اور جس نے مجھے خواب میں دیکھا تو اس نے مجھے ہی دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت میں نہیں آسکتا اور جس نے قصداً میری طرف کوئی جھوٹی بات منسوب کی اس نے اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لیا۔

【221】

انبیاء کے نام پر نام رکھنے کا بیان اور حضرت انس (رض) نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے ابراہیم یعنی اپنے صاحبزادے کا بوسہ لیا۔

ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے برید بن عبداللہ بن ابی بردہ نے، ان سے ابوبردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ (رض) نے بیان کیا کہ میرے یہاں ایک بچہ پیدا ہوا تو میں اسے لے کر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ نبی کریم ﷺ نے اس کا نام ابراہیم رکھا اور ایک کھجور اپنے دہان مبارک میں نرم کر کے اس کے منہ میں ڈالی اور اس کے لیے برکت کی دعا کی پھر اسے مجھے دے دیا۔ یہ ابوموسیٰ کی بڑی اولاد تھی۔

【222】

انبیاء کے نام پر نام رکھنے کا بیان اور حضرت انس (رض) نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے ابراہیم یعنی اپنے صاحبزادے کا بوسہ لیا۔

ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے زائدہ نے، کہا ہم سے زیاد بن علاقہ نے، کہا ہم نے مغیرہ بن شعبہ (رض) سے سنا، بیان کیا کہ جس دن ابراہیم (رض) کی وفات ہوئی اس دن سورج گرہن ہوا تھا۔ اس کو ابوبکرہ نے بھی نبی کریم ﷺ سے روایت کیا ہے۔

【223】

کسی شخص کا بچے کا نام اپنا نام رکھنے کا بیان۔

ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے زہری نے بیان کیا، ان سے سعید نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ جب نبی کریم ﷺ نے سر مبارک رکوع سے اٹھایا تو یہ دعا کی اللهم أنج الوليد بن الوليد وسلمة بن هشام،‏‏‏‏ وعياش بن أبي ربيعة،‏‏‏‏ والمستضعفين بمكة اے اللہ ! ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام، عیاش بن ابی ربیعہ اور مکہ میں دیگر موجود کمزور مسلمانوں کو نجات دیدے۔ اللهم اشدد وطأتک على مضر،‏‏‏‏ اللهم اجعلها عليهم سنين كسني يوسف اے اللہ ! قبیلہ مضر کے کفاروں کو سخت پکڑ، اے اللہ ! ان پر یوسف (علیہ السلام) کے زمانہ جیسا قحط نازل فرما۔

【224】

اپنے ساتھی کو اس کے نام میں سے کوئی حرف کم کر کے پکارنے کا بیان اور ابوحازم نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ مجھ سے نبی ﷺ نے فرمایا اے ابوہر۔

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا اور ان سے نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یا عائش ! یہ جبرائیل (علیہ السلام) ہیں اور تمہیں سلام کہتے ہیں۔ میں نے کہا اور ان پر بھی سلام اور اللہ کی رحمت ہو۔ بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ وہ چیزیں دیکھتے تھے جو ہم نہیں دیکھتے تھے۔

【225】

اپنے ساتھی کو اس کے نام میں سے کوئی حرف کم کر کے پکارنے کا بیان اور ابوحازم نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ مجھ سے نبی ﷺ نے فرمایا اے ابوہر۔

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے وہیب نے بیان کیا، کہا ہم سے ایوب نے بیان کیا، ان سے ابوقلابہ نے اور ان سے انس (رض) نے بیان کیا کہ ام سلیم (رض) مسافروں کے سامان کے ساتھ تھیں اور نبی کریم ﷺ کے غلام انجشہ عورتوں کے اونٹ کو ہانک رہے تھے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا انجش ! ذرا اس طرح آہستگی سے لے چل جیسے شیشوں کو لے کرجاتا ہے۔

【226】

بچہ کی کنیت رکھنے اور جس کے بچہ پیدا نہ ہوا ہو اس کی کنیت رکھنے کا بیان۔

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، ان سے ابوالتیاح نے اور ان سے انس (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ حسن اخلاق میں سب لوگوں سے بڑھ کر تھے، میرا ایک بھائی ابوعمیر نامی تھا۔ بیان کیا کہ میرا خیال ہے کہ بچہ کا دودھ چھوٹ چکا تھا۔ نبی کریم ﷺ جب تشریف لاتے تو اس سے مزاحاً فرماتے يا أبا عمير ما فعل النغير اکثر ایسا ہوتا کہ نماز کا وقت ہوجاتا اور نبی کریم ﷺ ہمارے گھر میں ہوتے۔ آپ اس بستر کو بچھانے کا حکم دیتے جس پر آپ بیٹھے ہوئے ہوتے، چناچہ اسے جھاڑ کر اس پر پانی چھڑک دیا جاتا۔ پھر آپ کھڑے ہوتے اور ہم آپ کے پیچھے کھڑے ہوتے اور آپ ہمیں نماز پڑھاتے۔

【227】

ابو تراب کنیت رکھنے کا بیان اگرچہ اس کی دوسری کنیت بھی ہو۔

ہم سے خالد بن مخلد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سلیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے ابوحازم نے بیان کیا، ان سے سہل بن سعد نے کہ علی (رض) کو ان کی کنیت ابوتراب سب سے زیادہ پیاری تھی اور اس کنیت سے انہیں پکارا جاتا تو بہت خوش ہوتے تھے کیونکہ یہ کنیت ابوتراب خود رسول اللہ ﷺ نے رکھی تھی۔ ایک دن فاطمہ (رض) سے خفا ہو کر وہ باہر چلے آئے اور مسجد کی دیوار کے پاس لیٹ گئے۔ نبی کریم ﷺ ان کے پیچھے آئے اور فرمایا کہ یہ تو دیوار کے پاس لیٹے ہوئے ہیں۔ جب نبی کریم ﷺ تشریف لائے تو علی (رض) کی پیٹھ مٹی سے بھر چکی تھی۔ نبی کریم ﷺ ان کی پیٹھ سے مٹی جھاڑتے ہوئے (پیار سے) فرمانے لگے ابوتراب اٹھ جاؤ۔

【228】

اللہ کو سب سے زیادہ ناپسند نام کا بیان۔

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، کہا ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن اللہ کے نزدیک سب سے بدترین نام اس کا ہوگا جو اپنا نام ملک الاملاک (شہنشاہ) رکھے۔

【229】

اللہ کو سب سے زیادہ ناپسند نام کا بیان۔

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے ابوالزناد نے، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے وہ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے نزدیک سب سے بدترین نام۔ اور کبھی سفیان نے ایک سے زیادہ مرتبہ یہ روایت اس طرح بیان کیا کہ اللہ کے نزدیک سب سے بدترین ناموں (جمع کے صیغے کے ساتھ) میں اس کا نام ہوگا جو ملک الاملاک اپنا نام رکھے گا۔ سفیان نے بیان کیا کہ ابوالزناد کے غیر نے کہا کہ اس کا مفہوم ہے شاہان شاہ ۔

【230】

مشرک کی کنیت رکھنے کا بیان اور مسورنے کہا کہ میں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا مگر یہ کہ ابن ابی طالب چاہے ( یعنی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ)

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے (دوسری سند) اور ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے میرے بھائی عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے سلیمان نے بیان کیا، ان سے محمد بن ابی عتیق نے بیان کیا، ان سے ابن ابی شہاب نے بیان کیا، ان سے عروہ بن زبیر نے اور انہیں اسامہ بن زید (رض) نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گدھے پر سوار ہوئے جس پر فدک کا بنا ہوا ایک کپڑا بچھا ہوا تھا، اسامہ آپ کے پیچھے سوار تھے۔ نبی کریم ﷺ بنی حارث بن خزرج میں سعد بن عبادہ (رض) کی عیادت کے لیے تشریف لے جا رہے تھے، یہ واقعہ غزوہ بدر سے پہلے کا ہے یہ دونوں روانہ ہوئے اور راستے میں ایک مجلس سے گزرے جس میں عبداللہ بن ابی ابن سلول بھی تھا۔ عبداللہ نے ابھی تک اپنے اسلام کا اعلان نہیں کیا تھا۔ اس مجلس میں کچھ مسلمان بھی تھے۔ بتوں کی پرستش کرنے والے کچھ مشرکین بھی تھے اور کچھ یہودی بھی تھے۔ مسلمان شرکاء میں عبداللہ بن رواحہ بھی تھے۔ جب مجلس پر (نبی کریم ﷺ کی) سواری کا غبار اڑ کر پڑا تو عبداللہ بن ابی نے اپنی چادر ناک پر رکھ لی اور کہنے لگا کہ ہم پر غبار نہ اڑاؤ، اس کے بعد نبی کریم ﷺ نے (قریب پہنچنے کے بعد) انہیں سلام کیا اور کھڑے ہوگئے۔ پھر سواری سے اتر کر انہیں اللہ کی طرف بلایا اور قرآن مجید کی آیتیں انہیں پڑھ کر سنائیں۔ اس پر عبداللہ بن ابی ابن سلول نے کہا کہ بھلے آدمی جو کلام تم نے پڑھا اس سے بہتر کلام نہیں ہوسکتا۔ اگرچہ واقعی یہ حق ہے مگر ہماری مجلسوں میں آ کر اس کی وجہ سے ہمیں تکلیف نہ دیا کرو۔ جو تمہارے پاس جائے بس اس کو یہ قصے سنا دیا کرو۔ عبداللہ بن رواحہ (رض) نے عرض کیا : ضرور، یا رسول اللہ ! آپ ہماری مجلسوں میں بھی تشریف لایا کریں کیونکہ ہم اسے پسند کرتے ہیں۔ اس معاملہ پر مسلمانوں، مشرکوں اور یہودیوں کا جھگڑا ہوگیا اور قریب تھا کہ ایک دوسرے کے خلاف ہاتھ اٹھا دیں۔ لیکن نبی کریم ﷺ انہیں خاموش کرتے رہے آخر جب سب لوگ خاموش ہوگئے تو نبی کریم ﷺ اپنی سواری پر بیٹھے اور روانہ ہوئے۔ جب سعد بن عبادہ کے یہاں پہنچے تو ان سے فرمایا کہ اے سعد ! تم نے نہیں سنا آج ابوحباب نے کس طرح باتیں کی ہیں۔ آپ کا اشارہ عبداللہ بن ابی کی طرف تھا کہ اس نے یہ باتیں کہی ہیں سعد بن عبادہ (رض) بولے، میرا باپ آپ پر صدقے ہو، یا رسول اللہ ! آپ اسے معاف فرما دیں اور اس سے درگذر فرمائیں، اس ذات کی قسم جس نے آپ پر کتاب نازل کی ہے اللہ نے آپ کو سچا کلام دے کر یہاں بھیجا جو آپ پر اتارا۔ آپ کے تشریف لانے سے پہلے اس شہر (مدینہ منورہ) کے باشندے اس پر متفق ہوگئے تھے کہ اسے (عبداللہ بن ابی کو) شاہی تاج پہنا دیں اور شاہی عمامہ باندھ دیں لیکن اللہ نے سچا کلام دے کر آپ کو یہاں بھیج دیا اور یہ تجویز موقوف رہی تو وہ اس کی وجہ سے چڑ گیا اور جو کچھ آپ نے آج ملاحظہ کیا، وہ اسی جلن کی وجہ سے ہے۔ نبی کریم ﷺ نے عبداللہ بن ابی کو معاف کردیا۔ نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ، مشرکین اور اہل کتاب سے جیسا کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا تھا۔ درگزر کیا کرتے تھے اور ان کی طرف سے پہنچنے والی تکلیفوں پر صبر کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی ارشاد فرمایا ہے کہ تم ان لوگوں سے جنہیں کتاب دی گئی ہے (اذیت دہ باتیں) سنو گے۔ دوسرے موقع پر ارشاد فرمایا بہت سے اہل کتاب خواہش رکھتے ہیں۔ الخ۔ چناچہ نبی کریم ﷺ انہیں معاف کرنے کے لیے اللہ کے حکم کے مطابق توجیہ کیا کرتے تھے۔ بالآخر آپ کو (جنگ کی) اجازت دی گئی۔ جب نبی کریم ﷺ نے غزوہ بدر کیا اور اللہ کے حکم سے اس میں کفار کے بڑے بڑے بہادر اور قریش کے سردار قتل کئے گئے تو نبی کریم ﷺ اپنے صحابہ کے ساتھ فتح مند اور غنیمت کا مال لیے ہوئے واپس ہوئے، ان کے ساتھ کفار قریش کے کتنے ہی بہادر سردار قید بھی کر کے لائے تو اس وقت عبداللہ بن ابی بن سلول اور اس کے بت پرست مشرک ساتھی کہنے لگے کہ اب ان کا کام جم گیا تو نبی کریم ﷺ سے بیعت کرلو، اس وقت انہوں نے اسلام پر بیعت کی اور بظاہر مسلمان ہوگئے (مگر دل میں نفاق رہا) ۔

【231】

مشرک کی کنیت رکھنے کا بیان اور مسورنے کہا کہ میں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا مگر یہ کہ ابن ابی طالب چاہے ( یعنی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ)

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالملک نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن حارث بن نوفل نے اور ان سے عباس بن عبدالمطلب (رض) نے کہ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ نے جناب ابوطالب کو ان کی وفات کے بعد کوئی فائدہ پہنچایا، وہ آپ کی حفاظت کیا کرتے تھے اور آپ کے لیے لوگوں پر غصہ ہوا کرتے تھے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہاں وہ دوزخ میں اس جگہ پر ہیں جہاں ٹخنوں تک آگ ہے اگر میں نہ ہوتا تو وہ دوزخ کے نیچے کے طبقے میں رہتے۔

【232】

تصریح سے بات نہ کہنا جھوٹ میں داخل نہیں ہے اور اسحٰق نے کہا میں نے انس (رض) سے سنا کہ ابوطلحہ کا ایک بیٹا مر گیا ابوطلحہ (رض) نے پوچھا لڑکا کیسا ہے ؟ ام سلیم (رض) نے جواب دیا اس کی جان آرام میں ہے اور میں گمان کرتی ہوں کہ اس نے راحت پائی ابوطلحہ (رض) نے گمان کیا کہ ام سلیم ٹھیک کہتی ہے۔

ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے، ان سے ثابت بنانی نے، ان سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ ایک سفر میں تھے، راستہ میں حدی خواں نے حدی پڑھی تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا اے انجشہ ! شیشوں کو آہستہ آہستہ لے کر چل، تجھ پر افسوس۔

【233】

تصریح سے بات نہ کہنا جھوٹ میں داخل نہیں ہے اور اسحٰق نے کہا میں نے انس (رض) سے سنا کہ ابوطلحہ کا ایک بیٹا مر گیا ابوطلحہ (رض) نے پر چھا لڑکا کیسا ہے ؟ ام سلیم (رض) نے جواب دیا اس کی جان آرام میں ہے اور میں گمان کرتی ہوں کہ اس نے راحت پائی ابوطلحہ (رض) نے گمان کیا کہ ام سلیم ٹھیک کہتی ہے۔

ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حماد نے بیان کیا، ان سے ثابت بنانی نے بیان کیا، ان سے انس و ایوب نے، ان سے ابوقلابہ نے اور ان سے انس (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ ایک سفر میں تھے، انجشہ نامی غلام عورتوں کی سواریوں کو حدی پڑھتا لے کر چل رہا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے اس سے فرمایا انجشہ ! شیشوں کو آہستہ لے چل۔ ابوقلابہ نے بیان کیا کہ مراد عورتیں تھیں۔

【234】

تصریح سے بات نہ کہنا جھوٹ میں داخل نہیں ہے اور اسحٰق نے کہا میں نے انس (رض) سے سنا کہ ابوطلحہ کا ایک بیٹا مر گیا ابوطلحہ (رض) نے پر چھا لڑکا کیسا ہے ؟ ام سلیم (رض) نے جواب دیا اس کی جان آرام میں ہے اور میں گمان کرتی ہوں کہ اس نے راحت پائی ابوطلحہ (رض) نے گمان کیا کہ ام سلیم ٹھیک کہتی ہے۔

ہم سے اسحاق نے بیان کیا، کہا ہم کو حبان نے خبر دی، کہا ہم سے ہمام نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے بیان کیا، ان سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کے ایک حدی خواں تھے انجشہ نامی ان کی آواز بڑی اچھی تھی۔ نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا انجشہ ! آہستہ چال اختیار کر، ان شیشوں کو مت توڑ۔ قتادہ نے بیان کیا کہ مراد کمزور عورتیں تھیں (کہ سواری سے گر نہ جائیں) ۔

【235】

تصریح سے بات نہ کہنا جھوٹ میں داخل نہیں ہے اور اسحٰق نے کہا میں نے انس (رض) سے سنا کہ ابوطلحہ کا ایک بیٹا مر گیا ابوطلحہ (رض) نے پر چھا لڑکا کیسا ہے ؟ ام سلیم (رض) نے جواب دیا اس کی جان آرام میں ہے اور میں گمان کرتی ہوں کہ اس نے راحت پائی ابوطلحہ (رض) نے گمان کیا کہ ام سلیم ٹھیک کہتی ہے۔

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس بن مالک (رض) نے کہ مدینہ منورہ پر (ایک رات نامعلوم آواز کی وجہ سے) ڈر طاری ہوگیا۔ چناچہ رسول اللہ ﷺ ابوطلحہ کے ایک گھوڑے پر سوار ہوئے۔ پھر (واپس آ کر) فرمایا ہمیں تو کوئی (خوف کی) چیز نظر نہ آئی، البتہ یہ گھوڑا تو گویا دریا تھا۔

【236】

کسی آدمی کا یہ کہنا کہ کیا یہ چیز نہیں ہے اور اس سے مراد یہ ہو کہ کیا یہ واقعہ نہیں ہے۔

ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم کو مخلد بن یزید نے خبر دی، کہا ہم کو ابن جریج نے خبر دی کہ ابن شہاب نے بیان کیا کہ مجھ کو یحییٰ بن عروہ نے خبر دی، انہوں نے عروہ سے سنا، کہا کہ عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے کاہنوں کے بارے میں پوچھا۔ نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا کہ ان کی (پیشین گوئیوں کی) کوئی حیثیت نہیں۔ صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! لیکن وہ بعض اوقات ایسی باتیں کرتے ہیں جو صحیح ثابت ہوتی ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ وہ بات، سچی بات ہوتی ہے جسے جِن فرشتوں سے سن کر اڑا لیتا ہے اور پھر اسے اپنے ولی (کاہن) کے کان میں مرغ کی آواز کی طرح ڈالتا ہے۔ اس کے بعد کاہن اس (ایک سچی بات میں) سو سے زیادہ جھوٹ ملا دیتے ہیں۔

【237】

آسمان کی طرف نگاہ اٹھانے کا بیان اور اللہ تعالیٰ کا قول کیا وہ اونٹ کی طرف نہیں دیکھتے کہ کس طرح پیدا کیا گیا اور آسمان کی طرف کہ کس طرح بلند کئے گئے اور ایوب نے ابن ابی ملیکہ سے انہوں نے عائشہ (رض) سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے اپنا سر آسمان کی طرف بلند کیا۔

ہم سے ابن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے کہ میں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ مجھے جابر بن عبداللہ نے خبر دی، انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے، نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پھر میرے پاس وحی آنے کا سلسلہ بند ہوگیا۔ ایک دن میں چل رہا تھا کہ میں نے آسمان کی طرف سے ایک آواز سنی، میں نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی تو میں نے پھر اس فرشتہ کو دیکھا جو میرے پاس غار حرا میں آیا تھا، وہ آسمان و زمین کے درمیان کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔

【238】

آسمان کی طرف نگاہ اٹھانے کا باین اور اللہ تعالیٰ کا قول کیا وہ اونٹ کی طرف نہیں دیکھتے کہ کس طرح پیدا کیا گیا اور آسمان کی طرف کہ کس طرح بلند کئے گئے اور ایوب نے ابن ابی ملیکہ سے انہوں نے عائشہ (رض) سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے اپنا سر آسمان کی طرف بلند کیا۔

ہم سے ابن ابی مریم نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، کہا کہ مجھے شریک نے خبر دی، انہیں کریب نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ میں نے ایک رات میمونہ (رض) (خالہ) کے گھر گزاری، نبی کریم ﷺ بھی اس رات وہیں ٹھہرے ہوئے تھے۔ جب رات کا آخری تہائی حصہ ہوا یا اس کا بعض حصہ رہ گیا تو نبی کریم ﷺ اٹھ بیٹھے اور آسمان کی طرف دیکھا پھر اس آیت کی تلاوت کی إن في خلق السموات والأرض واختلاف الليل والنهار لآيات لأولي الألباب‏ بلاشبہ آسمان کی اور زمین کی پیدائش میں اور دن رات کے بدلتے رہنے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔

【239】

پانی اور مٹی میں لکڑی مارنے کا بیان

ہم سے مسدد نے کہا، کہا ہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا، ان سے عثمان بن غیاث نے، کہا ہم سے ابوعثمان نہدی نے بیان کیا اور ان سے ابوموسیٰ اشعری نے کہ وہ نبی کریم ﷺ کے ساتھ مدینہ کے باغوں میں سے ایک باغ میں تھے۔ نبی کریم ﷺ کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی، آپ اس کو پانی اور کیچڑ میں مار رہے تھے۔ اس دوران میں ایک صاحب نے باغ کا دروازہ کھلوانا چاہا۔ نبی کریم ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ اس کے لیے دروازہ کھول دے اور انہیں جنت کی خوشخبری سنا دے۔ میں گیا تو وہاں ابوبکر (رض) موجود تھے، میں نے ان کے لیے دروازہ کھولا اور انہیں جنت کی خوشخبری سنائی پھر ایک اور صاحب نے دروازہ کھلوایا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ دروازہ کھول دے اور انہیں جنت کی خوشخبری سنا دے اس مرتبہ عمر (رض) تھے۔ میں نے ان کے لیے بھی دروازہ کھولا اور انہیں بھی جنت کی خوشخبری سنا دی۔ پھر ایک تیسرے صاحب نے دروازہ کھلوایا۔ نبی کریم ﷺ اس وقت ٹیک لگائے ہوئے تھے اب سیدھے بیٹھ گئے۔ پھر فرمایا دروازہ کھول دے اور جنت کی خوشخبری سنا دے، ان آزمائشوں کے ساتھ جس سے (دنیا میں) انہیں دوچار ہونا پڑے گا۔ میں گیا تو وہاں عثمان (رض) تھے۔ ان کے لیے بھی میں نے دروازہ کھولا اور انہیں جنت کی خوشخبری سنائی اور وہ بات بھی بتادی جو نبی کریم ﷺ نے فرمائی تھی۔ عثمان (رض) نے کہا خیر اللہ مددگار ہے۔

【240】

اپنے ہاتھ سے زمین میں کسی چیز کو کریدنے کا بیان۔

ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا کہا ہم سے ابن ابی عدی نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، ان سے سلیمان و منصور نے، ان سے سعد بن عبیدہ نے ان سے ابوعبدالرحمٰن سلمی نے اور ان سے علی (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کے ساتھ ایک جنازہ میں شریک تھے۔ نبی کریم ﷺ کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی اس کو آپ زمین پر مار رہے تھے پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم میں کوئی ایسا نہیں ہے جس کا جنت یا دوزخ کا ٹھکانا طے نہ ہوچکا ہو۔ صحابہ نے عرض کیا : پھر کیوں نہ ہم اس پر بھروسہ کرلیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ عمل کرتے رہو کیونکہ ہر شخص جس ٹھکانے کے لیے پیدا کیا گیا ہے اس کو ویسی ہی توفیق دی جائے گی۔ جیسا کہ قرآن شریف کے سورة واللیل میں ہے فأما من أعطى واتقى‏ جس نے للہ خیرات کی اور اللہ تعالیٰ سے ڈرا آخر تک۔

【241】

تعجب کے وقت تکبیر اور تسبیح پڑھنے کا بیان

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، ان سے ہند بن حارث نے بیان کیا کہ ام سلمہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ (رات میں) بیدار ہوئے اور فرمایا سبحان اللہ ! اللہ کی رحمت کے کتنے خزانے آج نازل کئے گئے ہیں اور کس طرح کے فتنے بھی اتارے گئے ہیں۔ کون ہے ! جو ان حجرہ والیوں کو جگائے۔ نبی کریم ﷺ کی مراد ازواج مطہرات سے تھی تاکہ وہ نماز پڑھ لیں کیونکہ بہت سی دنیا میں کپڑے پہننے والیاں آخرت میں ننگی ہوں گی۔ اور ابن ابی ثور نے بیان کیا، ان سے ابن عباس (رض) نے اور ان سے عمر (رض) نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا، کیا آپ نے ازواج مطہرات کو طلاق دے دی ہے ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ نہیں۔ میں نے کہا اللہ اکبر !۔

【242】

تعجب کے وقت تکبیر اور تسبیح پڑھنے کا بیان

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے (دوسری سند) اور ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے میرے بھائی عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے سلیمان نے بیان کیا، ان سے محمد بن ابی عتیق نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے امام زین العابدین علی بن حسین نے کہ نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ صفیہ بنت حی (رض) نے انہیں خبر دی کہ وہ نبی کریم ﷺ کے پاس ملنے آئیں۔ نبی کریم ﷺ اس وقت مسجد میں رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کئے ہوئے تھے۔ عشاء کے وقت تھوڑی دیر انہوں نے نبی کریم ﷺ سے باتیں کیں اور واپس لوٹنے کے لیے اٹھیں تو نبی کریم ﷺ بھی انہیں چھوڑ آنے کے لیے کھڑے ہوگئے۔ جب وہ مسجد کے اس دروازہ کے پاس پہنچیں جہاں نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ ام سلمہ (رض) کا حجرہ تھا، تو ادھر سے دو انصاری صحابی گزرے اور نبی کریم ﷺ کو سلام کیا اور آگے بڑھ گئے۔ لیکن نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا کہ تھوڑی دیر کے لیے ٹھہر جاؤ۔ یہ صفیہ بنت حی میری بیوی ہیں۔ ان دونوں صحابہ نے عرض کیا : سبحان اللہ، یا رسول اللہ۔ ان پر بڑا شاق گزرا۔ لیکن آپ ﷺ نے فرمایا کہ شیطان انسان کے اندر خون کی طرح دوڑتا رہتا ہے، اس لیے مجھے خوف ہوا کہ کہیں وہ تمہارے دل میں کوئی شبہ نہ ڈال دے۔

【243】

کنکری پھینکنے کی ممانعت کا بیان

ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے، انہوں نے عقبہ بن صہبان ازدی سے سنا، وہ عبداللہ بن مغفل مزنی سے نقل کرتے تھے کہ نبی کریم ﷺ نے کنکری پھینکنے سے منع کیا تھا اور فرمایا تھا کہ وہ نہ شکار مار سکتی ہے اور نہ دشمن کو کوئی نقصان پہنچا سکتی ہے، البتہ آنکھ پھوڑ سکتی ہے اور دانت توڑ سکتی ہے۔

【244】

چھینکنے والے کا الحمد للہ کہنا۔

ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا اور ان سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کے پاس دو اصحاب چھینکے۔ نبی کریم ﷺ نے ایک کا جواب یرحمک اللہ (اللہ تم پر رحم کرے) سے دیا اور دوسرے کا نہیں۔ نبی کریم ﷺ سے اس کی وجہ پوچھی گئی تو فرمایا کہ اس نے الحمدللہ کہا تھا (اس لیے اس کا جواب دیا) اور دوسرے نے الحمدللہ نہیں کہا تھا۔ چھینکنے والے کو الحمدللہ ضرور کہنا چاہیے اور سننے والوں کو یرحمک اللہ۔

【245】

چھینکنے والا الحمدللہ کہے تو اس کا جواب دینا

ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے اشعث بن سلیم نے کہ میں نے معاویہ بن سوید بن مقرن سے سنا اور ان سے براء (رض) نے بیان کیا کہ ہمیں نبی کریم ﷺ نے سات باتوں کا حکم دیا تھا اور سات کاموں سے روکا تھا، ہمیں نبی کریم ﷺ نے بیمار کی مزاج پرسی کرنے، جنازہ کے پیچھے چلنے، چھینکنے والے کے جواب دینے، دعوت کرنے والے کی دعوت قبول کرنے، سلام کا جواب دینے، مظلوم کی مدد کرنے اور قسم کھا لینے والے کی قسم پوری کرنے میں مدد دینے کا حکم دیا تھا اور نبی کریم ﷺ نے ہمیں سات کاموں سے روکا تھا، سونے کی انگوٹھی سے، یا بیان کیا کہ سونے کے چھلے سے، ریشم اور دیبا اور سندس (دیبا سے باریک ریشمی کپڑا) پہننے سے اور ریشمی زین سے۔

【246】

چھینک کے اچھے ہونے اور جمائی کے برے ہونے کا بیان

ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابن ابی ذئب نے بیان کیا، ان سے سعید مقبری نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے، ان سے ابوہریرہ (رض) نے اور ان سے نبی کریم ﷺ نے (فرمایا کہ) اللہ تعالیٰ چھینک کو پسند کرتا ہے اور جمائی کو ناپسند کرتا ہے۔ اس لیے جب تم میں سے کوئی شخص چھینکے اور الحمدللہ کہے تو ہر مسلمان پر جو اسے سنے، حق ہے کہ اس کا جواب یرحمک اللہ سے دے۔ لیکن جمائی شیطان کی طرف سے ہوتی ہے اس لیے جہاں تک ہو سکے اسے روکے کیونکہ جب وہ منہ کھول کر ہاہاہا کہتا ہے تو شیطان اس پر ہنستا ہے۔

【247】

جب کوئی چھینکے تو اسے کس طرح جواب دیا جائے۔

ہم سے مالک بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالعزیز بن ابی سلمہ نے بیان کیا، انہیں عبداللہ بن دینار نے خبر دی، وہ ابوصالح سے اور وہ ابوہریرہ (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی چھینکے تو الحمد الله کہے اور اس کا بھائی یا اس کا ساتھی (راوی کو شبہ تھا) يرحمک الله کہے۔ جب ساتھی يرحمک الله کہے تو اس کے جواب میں چھینکنے والا يهديكم الله ويصلح بالکم۔

【248】

چھینکنے والے کا جواب نہ دیا جائے اگر وہ الحمد للہ نہ کہے۔

ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان تیمی نے بیان کیا، کہا کہ میں نے انس (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کی موجودگی میں دو آدمیوں نے چھینکا۔ لیکن نبی کریم ﷺ نے ان میں سے ایک کی چھینک پر یرحمک اللہ کہا اور دوسرے کی چھینک پر نہیں کہا۔ اس پر دوسرا شخص بولا کہ یا رسول اللہ ! آپ نے ان کی چھینک پر یرحمک اللہ فرمایا۔ لیکن میری چھینک پر نہیں فرمایا ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ انہوں نے الحمدللہ کہا تھا اور تم نے نہیں کہا تھا۔

【249】

جب جمائی آئے تو اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لینے کا بیان۔

ہم سے عاصم بن علی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابن ابی ذئب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سعید مقبری نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے بیان کیا، ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا اور ان سے نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ چھینک کو پسند کرتا ہے کیونکہ وہ بعض دفعہ صحت کی علامت ہے اور جمائی کو ناپسند کرتا ہے۔ اس لیے جب تم میں سے کوئی شخص چھینکے تو وہ الحمدللہ کہے لیکن جمائی لینا شیطان کی طرف سے ہوتا ہے۔ اس لیے جب تم میں سے کسی کو جمائی آئے تو وہ اپنی قوت و طاقت کے مطابق اسے روکے۔ اس لیے کہ جب تم میں سے کوئی جمائی لیتا ہے تو شیطان ہنستا ہے۔