64. دعاؤں کا بیان
اللہ تعالیٰ کا قول کہ تم مجھے سے دعا کرو میں قبول کروں گا، بے شک جو لوگ میری عبادت سے اعراض کرتے ہیں وہ عنقریب جہنم میں ذلیل ہو کر داخل ہوں گے اور اس امر کا بیان کہ ہر نبی کی دعا قبول ہوتی ہے۔
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ابوالزناد نے، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہر نبی کو ایک دعا حاصل ہوتی ہے (جو قبول کی جاتی ہے) اور میں چاہتا ہوں کہ میں اپنی دعا کو آخرت میں اپنی امت کی شفاعت کے لیے محفوظ رکھوں۔
اللہ تعالیٰ کا قول کہ تم مجھے سے دعا کرو میں قبول کروں گا، بے شک جو لوگ میری عبادت سے اعراض کرتے ہیں وہ عنقریب جہنم میں ذلیل ہو کر داخل ہوں گے اور اس امر کا بیان کہ ہر نبی کی دعا قبول ہوتی ہے۔
اور معتمر نے بیان کیا، انہوں نے اپنے والد سے سنا، انہوں نے انس (رض) سے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہر نبی نے کچھ چیزیں مانگیں یا فرمایا کہ ہر نبی کو ایک دعا دی گئی جس چیز کی اس نے دعا مانگی پھر اسے قبول کیا گیا لیکن میں نے اپنی دعا قیامت کے دن اپنی امت کی شفاعت کے لیے محفوظ رکھی ہوئی ہے۔
سب سے بہتر استغفار کا بیان اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ اپنے رب سے مغفرت طلب کرو بے شک وہ بڑا بخشنے والا ہے جو تم پر آسمان کو بارش برسانے والا بنا کر بھیجتا ہے اور اموال و اولاد کے ذریعہ تمہاری امداد کرتا ہے اور تمہارے لئے باغات اور نہریں بناتا ہے، اور جو لوگ کہ بے حیائی کا کام کرتے ہیں یا اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں، پھر اللہ کو یاد کرتے ہیں اور اپنے گناہوں کی مغفرت چاہتے ہیں، اور کون ہے جو اللہ کے سوا گناہوں کو بخشے اور اس چیز پر جو وہ کرتے ہیں، جان بوجھ کر اصرار نہیں کرتے۔
ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوارث بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے حسین بن ذکوان معلم نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن بریدہ نے بیان کیا ان سے بشیر بن کعب عدوی نے کہا کہ مجھ سے شداد بن اوس (رض) نے بیان کیا اور ان سے رسول اللہ ﷺ نے کہ سیدالاستغفار (مغفرت مانگنے کے سب کلمات کا سردار) یہ ہے یوں کہے اللهم أنت ربي، لا إله إلا أنت، خلقتني وأنا عبدک، وأنا على عهدک ووعدک ما استطعت، أعوذ بک من شر ما صنعت، أبوء لک بنعمتک على وأبوء بذنبي، اغفر لي، فإنه لا يغفر الذنوب إلا أنت. اے اللہ ! تو میرا رب ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ تو نے ہی مجھے پیدا کیا اور میں تیرا ہی بندہ ہوں میں اپنی طاقت کے مطابق تجھ سے کئے ہوئے عہد اور وعدہ پر قائم ہوں۔ ان بری حرکتوں کے عذاب سے جو میں نے کی ہیں تیری پناہ مانگتا ہوں مجھ پر نعمتیں تیری ہیں اس کا اقرار کرتا ہوں۔ میری مغفرت کر دے کہ تیرے سوا اور کوئی بھی گناہ نہیں معاف کرتا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جس نے اس دعا کے الفاظ پر یقین رکھتے ہوئے دل سے ان کو کہہ لیا اور اسی دن اس کا انتقال ہوگیا شام ہونے سے پہلے، تو وہ جنتی ہے اور جس نے اس دعا کے الفاظ پر یقین رکھتے ہوئے رات میں ان کو پڑھ لیا اور پھر اس کا صبح ہونے سے پہلے انتقال ہوگیا تو وہ جنتی ہے۔
نبی ﷺ کا دن اور رات میں استغفار پڑھنے کا بیان۔
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے کہا کہ مجھے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کی قسم میں دن میں ستر مرتبہ سے زیادہ اللہ سے استغفار اور اس سے توبہ کرتا ہوں۔
توبہ کا بیان تو بو الی اللہ توبۃ نصوحا کی تفیسر میں قتادہ نے کہا، کہ (توبۃً نصوحا سے) مراد خالص اور سچی توبہ ہے۔
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوشہاب نے، ان سے اعمش نے، ان سے عمارہ بن عمیر نے، ان سے حارث بن سوید اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے دو احادیث (بیان کیں) ایک نبی کریم ﷺ سے اور دوسری خود اپنی طرف سے کہا کہ مومن اپنے گناہوں کو ایسا محسوس کرتا ہے جیسے وہ کسی پہاڑ کے نیچے بیٹھا ہے اور ڈرتا ہے کہ کہیں وہ اس کے اوپر نہ گرجائے اور بدکار اپنے گناہوں کو مکھی کی طرح ہلکا سمجھتا ہے کہ وہ اس کے ناک کے پاس سے گزری اور اس نے اپنے ہاتھ سے یوں اس طرف اشارہ کیا۔ ابوشہاب نے ناک پر اپنے ہاتھ کے اشارہ سے اس کی کیفیت بتائی پھر انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث بیان کی۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندہ کی توبہ سے اس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جس نے کسی پرخطر جگہ پڑاؤ کیا ہو اس کے ساتھ اس کی سواری بھی ہو اور اس پر کھانے پینے کی چیزیں موجود ہوں۔ وہ سر رکھ کر سو گیا ہو اور جب بیدار ہوا ہو تو اس کی سواری غائب رہی ہو۔ آخر بھوک و پیاس یا جو کچھ اللہ نے چاہا اسے سخت لگ جائے وہ اپنے دل میں سوچے کہ مجھے اب گھر واپس چلا جانا چاہیے اور جب وہ واپس ہوا اور پھر سو گیا لیکن اس نیند سے جو سر اٹھایا تو اس کی سواری وہاں کھانا پینا لیے ہوئے سامنے کھڑی ہے تو خیال کرو اس کو کس قدر خوشی ہوگی۔ ابوشہاب کے ساتھ اس حدیث کو ابوعوانہ اور جریر نے بھی اعمش سے روایت کیا، اور شعبہ اور ابومسلم (عبیداللہ بن سعید) نے اس کو اعمش سے روایت کیا، انہوں نے ابراہیم تیمی سے، انہوں نے حارث بن سوید سے اور ابومعاویہ نے یوں کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، انہوں نے عمارہ سے انہوں نے اسود بن یزید سے، انہوں نے عبداللہ بن مسعود (رض) سے۔ اور ہم سے اعمش نے بیان کیا انہوں نے ابراہیم تیمی سے، انہوں نے حارث بن سوید سے، انہوں نے عبداللہ بن مسعود (رض) سے۔
توبہ کا بیان تو بو الی اللہ توبۃ نصوحا کی تفیسر میں قتادہ نے کہا، کہ (توبۃً نصوحا سے) مراد خالص اور سچی توبہ ہے۔
ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم کو حبان بن ہلال نے خبر دی، کہا ہم سے ہمام بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے قتادہ نے بیان کیا اور ان سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا اور ان سے نبی کریم ﷺ نے (دوسری سند) امام بخاری (رح) نے کہا کہ ہم سے ہدبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمام نے بیان کیا، کہا ہم سے قتادہ نے بیان کیا، ان سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ سے تم میں سے اس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جس کا اونٹ مایوسی کے بعد اچانک اسے مل گیا ہو حالانکہ وہ ایک چٹیل میدان میں گم ہوا تھا۔
دائیں پہلو پر لیٹنے کا بیان۔
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ہشام بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں عروہ نے اور انہیں عائشہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ رات میں (تہجد کی) گیارہ رکعات پڑھتے تھے پھر جب فجر طلوع ہوجاتی تو دو ہلکی رکعات (سنت فجر) پڑھتے۔ اس کے بعد آپ دائیں پہلو لیٹ جاتے آخر مؤذن آتا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دیتا تو آپ فجر کی نماز پڑھاتے۔
طہارت کی حالت میں سونے کا بیان۔
ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے معتمر بن سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ میں نے منصور سے سنا، ان سے سعد بن عبیدہ نے بیان کیا کہ مجھ سے براء بن عازب (رض) نے بیان کیا، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تو سونے لگے تو نماز کے وضو کی طرح وضو کر پھر دائیں کروٹ لیٹ جا اور یہ دعا پڑھ اللهم أسلمت نفسي إليك، وفوضت أمري إليك، وألجأت ظهري إليك، رهبة ورغبة إليك، لا ملجأ ولا منجا منک إلا إليك، آمنت بکتابک الذي أنزلت، وبنبيك الذي أرسلت. اے اللہ ! میں نے اپنے آپ کو تیری اطاعت میں دے دیا۔ اپنا سب کچھ تیرے سپرد کردیا۔ اپنے معاملات تیرے حوالے کر دئیے۔ خوف کی وجہ سے اور تیری (رحمت و ثواب کی) امید میں کوئی پناہ گاہ کوئی مخلص تیرے سوا نہیں میں تیری کتاب پر ایمان لایا جو تو نے نازل کی ہے اور تیرے نبی پر جن کو تو نے بھیجا ہے۔ اس کے بعد اگر تم مرگئے تو فطرت (دین اسلام پر مرو گے پس ان کلمات کو (رات کی) سب سے آخری بات بناؤ جنہیں تم اپنی زبان سے ادا کرو (براء بن عازب (رض) نے بیان کیا) میں نے عرض کی وبرسولک الذي أرسلت. کہنے میں کیا وجہ ہے ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ نہیں وبنبيك الذي أرسلت کہو۔
جب سونے لگے تو کیا کہے۔
ہم سے قبیصہ بن عقبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے عبدالملک بن عمیر نے، ان سے ربعی بن حراش نے اور ان سے حذیفہ بن یمان (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ جب اپنے بستر پر لیٹتے تو یہ کہتے باسمک أموت وأحيا تیرے ہی نام کے ساتھ میں مردہ اور زندہ رہتا ہوں اور جب بیدار ہوتے تو کہتے الحمد لله الذي أحيانا بعد ما أماتنا وإليه النشور اسی اللہ کے لیے تمام تعریفیں ہیں جس نے ہمیں زندہ کیا۔ اس کے بعد کہ اس نے موت طاری کردی تھی اور اسی کی طرف لوٹنا ہے۔ قرآن شریف میں جو لفظ ننشرها ہے اس کا بھی یہی معنی ہے کہ ہم اس کو نکال کر اٹھاتے ہیں۔
جب سونے لگے تو کیا کہے۔
ہم سے سعید بن ربیع اور محمد بن عرعرہ نے بیان کیا، ان دونوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق نے بیان کیا، انہوں نے براء بن عازب (رض) سے سنا کہ نبی کریم ﷺ نے ایک صحابی کو حکم دیا (دوسری سند) امام بخاری (رح) نے کہا کہ ہم سے آدم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ان سے ابواسحاق ہمدانی نے بیان کیا، اور ان سے براء بن عازب (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے ایک صحابی کو وصیت کی اور فرمایا کہ جب بستر پر جانے لگو تو یہ دعا پڑھا کرو اللهم أسلمت نفسي إليك، وفوضت أمري إليك، ووجهت وجهي إليك، وألجأت ظهري إليك، رغبة ورهبة إليك، لا ملجأ ولا منجا منک إلا إليك، آمنت بکتابک الذي أنزلت، وبنبيك الذي أرسلت. اے اللہ ! میں نے اپنی جان تیرے سپرد کی اور اپنا معاملہ تجھے سونپا اور اپنے آپ کو تیری طرف متوجہ کیا اور تجھ پر بھروسہ کیا، تیری طرف رغبت ہے تیرے خوف کی وجہ سے، تجھ سے تیرے سوا کوئی جائے پناہ نہیں، میں تیری کتاب پر ایمان لایا جو تو نے نازل کی اور تیرے نبی پر جنہیں تو نے بھیجا۔ پھر اگر وہ مرا تو فطرت (اسلام) پر مرے گا۔
دائیں رخسار کے نیچے اپنا دایاں ہاتھ رکھنے کا بیان
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے عبدالملک بن عمیر نے، ان سے ربعی نے اور ان سے حذیفہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ جب رات میں بستر پر لیٹتے تو اپنا ہاتھ اپنے رخسار کے نیچے رکھتے اور یہ کہتے اللهم باسمک أموت وأحيا اے اللہ ! تیرے نام کے ساتھ مرتا ہوں اور زندہ ہوتا ہوں۔ اور جب آپ بیدار ہوتے تو کہتے الحمد لله الذي أحيانا بعد ما أماتنا وإليه النشور. تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں زندہ کیا اس کے بعد کہ ہمیں موت (مراد نیند ہے) دے دی تھی اور تیری ہی طرف جانا ہے۔
دائیں پہلو پر سونے کا بیان۔
ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالواحد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے علاء بن مسیب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا اور ان سے براء بن عازب (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ جب اپنے بستر پر لیٹتے تو دائیں پہلو پر لیٹتے اور پھر کہتے اللهم أسلمت نفسي إليك، ووجهت وجهي إليك، وفوضت أمري إليك، وألجأت ظهري إليك، رغبة ورهبة إليك، لا ملجأ ولا منجا منک إلا إليك، آمنت بکتابک الذي أنزلت، ونبيك الذي أرسلت. اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص نے یہ دعا پڑھی اور پھر اس رات اگر اس کی وفات ہوگئی تو اس کی وفات فطرت پر ہوگی۔ قرآن مجید میں جو سترهبوهم کا لفظ آیا ہے یہ بھی رهبت سے نکالا ہے ( رهبت کے معنی ڈر کے ہیں) ملکوت کا معنی ملک یعنی سلطنت جیسے کہتے ہیں کہ رهبوت ، رحموت سے بہتر ہے یعنی ڈرانا رحم کرنے سے بہتر ہے۔
رات کو جاگنے پر دعا پڑھنے کا بیان۔
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرحمٰن ابن مہدی نے، ان سے سفیان ثوری نے، ان سے سلمہ بن کہیل نے، ان سے کریب نے اور ان سے عبداللہ بن عباس (رض) نے بیان کیا کہ میں میمونہ (رضی اللہ عنہا) کے یہاں ایک رات سویا تو نبی کریم ﷺ اٹھے اور آپ نے اپنی حوائج ضرورت پوری کرنے کے بعد اپنا چہرہ دھویا، پھر دونوں ہاتھ دھوئے اور پھر سو گئے اس کے بعد آپ کھڑے ہوگئے اور مشکیزہ کے پاس گئے اور آپ نے اس کا منہ کھولا پھر درمیانہ وضو کیا (نہ مبالغہ کے ساتھ نہ معمولی اور ہلکے قسم کا، تین تین مرتبہ سے) کم دھویا۔ البتہ پانی ہر جگہ پہنچا دیا۔ پھر آپ نے نماز پڑھی۔ میں بھی کھڑا ہوا اور آپ کے پیچھے ہی رہا کیونکہ میں اسے پسند نہیں کرتا تھا کہ نبی کریم ﷺ یہ سمجھیں کہ میں آپ کا انتظار کر رہا تھا۔ میں نے بھی وضو کرلیا تھا۔ نبی کریم ﷺ جب کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے تو میں بھی آپ کے بائیں طرف کھڑا ہوگیا۔ آپ نے میرا کان پکڑ کر دائیں طرف کردیا، میں نے نبی کریم ﷺ (کی اقتداء میں) تیرہ رکعت نماز مکمل کی۔ اس کے بعد آپ سو گئے اور آپ کی سانس میں آواز پیدا ہونے لگی۔ نبی کریم ﷺ جب سوتے تھے تو آپ کی سانس میں آواز پیدا ہونے لگتی تھی۔ اس کے بعد بلال (رض) نے آپ کو نماز کی اطلاع دی چناچہ آپ نے (نیا وضو) کئے بغیر نماز پڑھی۔ نبی کریم ﷺ اپنی دعا میں یہ کہتے تھے اللهم اجعل في قلبي نورا، وفي بصري نورا، وفي سمعي نورا، وعن يميني نورا، وعن يساري نورا، وفوقي نورا، وتحتي نورا، وأمامي نورا، وخلفي نورا، واجعل لي نورا اے اللہ ! میرے دل میں نور پیدا کر، میری نظر میں نور پیدا کر، میرے کان میں نور پیدا کر، میرے دائیں طرف نور پیدا کر، میرے بائیں طرف نور پیدا کر، میرے اوپر نور پیدا کر، میرے نیچے نور پیدا کر میرے آگے نور پیدا کر، میرے پیچھے نور پیدا کر اور مجھے نور عطا فرما۔ کریب (راوی حدیث) نے بیان کیا کہ میرے پاس مزید سات لفظ محفوظ ہیں۔ پھر میں نے عباس (رض) کے ایک صاحب زادے سے ملاقات کی تو انہوں نے مجھ سے ان کے متعلق بیان کیا کہ عصبي ولحمي ودمي وشعري وبشري، وذکر خصلتين. میرے پٹھے، میرا گوشت، میرا خون، میرے بال اور میرا چمڑا ان سب میں نور بھر دے۔ اور دو چیزوں کا اور بھی ذکر کیا۔
رات کو جاگنے پر دعا پڑھنے کا بیان۔
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا میں نے سلیمان بن ابی مسلم سے سنا، انہوں نے طاؤس سے روایت کیا اور انہوں نے ابن عباس (رض) سے کہ نبی کریم ﷺ جب رات میں تہجد کے لیے کھڑے ہوتے تو یہ دعا کرتے اللهم لک الحمد، أنت نور السموات والأرض ومن فيهن، ولک الحمد أنت قيم السموات والأرض ومن فيهن، ولک الحمد، أنت الحق ووعدک حق، وقولک حق، ولقاؤك حق، والجنة حق، والنار حق، والساعة حق، والنبيون حق، ومحمد حق، اللهم لك أسلمت وعليك توکلت وبک آمنت، وإليك أنبت، وبک خاصمت، وإليك حاکمت، فاغفر لي ما قدمت وما أخرت، وما أسررت، وما أعلنت، أنت المقدم وأنت المؤخر لا إله إلا أنت اے اللہ ! تیرے ہی لیے تمام تعریفیں ہیں تو آسمان و زمین اور ان میں موجود تمام چیزوں کا نور ہے، تیرے ہی لیے تمام تعریفیں ہیں تو آسمان اور زمین اور ان میں موجود تمام چیزوں کا قائم رکھنے والا ہے اور تیرے ہی لیے تمام تعریفیں ہیں، تو حق ہے، تیرا وعدہ حق ہے، تیرا قول حق ہے، تجھ سے ملنا حق ہے، جنت حق ہے، دوزخ حق ہے، قیامت حق ہے، انبیاء حق ہیں اور محمد رسول اللہ ﷺ حق ہیں۔ اے اللہ ! تیرے سپرد کیا، تجھ پر بھروسہ کیا، تجھ پر ایمان لایا، تیری طرف رجوع کیا، دشمنوں کا معاملہ تیرے سپرد کیا، فیصلہ تیرے سپرد کیا، پس میری اگلی پچھلی خطائیں معاف کر۔ وہ بھی جو میں نے چھپ کر کی ہیں اور وہ بھی جو کھل کر کی ہیں تو ہی سب سے پہلے ہے اور تو ہی سب سے بعد میں ہے، صرف تو ہی معبود ہے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔
سونے کے وقت تکبیر اور تسبیح پڑھنے کا بیان۔
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ بن حجاج نے بیان کیا، ان سے حکم بن عیینہ نے، ان سے ابن ابی لیلیٰ ٰ نے، ان سے علی (رض) نے کہ فاطمہ (رض) نے چکی پیسنے کی تکلیف کی وجہ سے کہ ان کے مبارک ہاتھ کو صدمہ پہنچتا ہے تو نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ایک خادم مانگنے کے لیے حاضر ہوئیں۔ نبی کریم ﷺ گھر میں موجود نہیں تھے۔ اس لیے انہوں نے عائشہ (رض) سے ذکر کیا۔ جب آپ تشریف لائے تو عائشہ (رض) نے آپ سے اس کا ذکر کیا۔ علی (رض) نے بیان کیا کہ پھر نبی کریم ﷺ ہمارے یہاں تشریف لائے ہم اس وقت تک اپنے بستروں پر لیٹ چکے تھے میں کھڑا ہونے لگا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیا میں تم دونوں کو وہ چیز نہ بتادوں جو تمہارے لیے خادم سے بھی بہتر ہو۔ جب تم اپنے بستر پر جانے لگو تو تینتیس (33) مرتبہ الله اکبر کہو، تینتیس (33) مرتبہ سبحان الله کہو اور تینتیس (33) مرتبہ الحمد الله کہو، یہ تمہارے لیے خادم سے بہتر ہے اور شعبہ سے روایت ہے ان سے خالد نے، ان سے ابن سیرین نے بیان کیا کہ سبحان اللہ چونتیس (34) مرتبہ کہو۔
سونے کے وقت تعوذ اور کوئی چیز پڑھنے کا بیان۔
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، انہیں عروہ نے خبر دی اور انہیں ام المؤمنین عائشہ (رض) نے کہ جب رسول اللہ ﷺ لیٹتے تو اپنے ہاتھوں پر پھونکتے اور معوذات پڑھتے اور دونوں ہاتھ اپنے جسم پر پھیرتے۔
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا ہم سے زہیر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبیداللہ بن عمر نے بیان کیا، کہا مجھ سے سعید بن ابی سعید مقبری نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص بستر پر لیٹے تو پہلے اپنا بستر اپنے ازار کے کنارے سے جھاڑ لے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اس کی بیخبر ی میں کیا چیز اس پر آگئی ہے پھر یہ دعا پڑھے باسمک رب وضعت جنبي، وبك أرفعه، إن أمسکت نفسي فارحمها، وإن أرسلتها فاحفظها بما تحفظ به الصالحين. میرے پالنے والے ! تیرے نام سے میں نے اپنا پہلو رکھا ہے اور تیرے ہی نام سے اٹھاؤں گا اگر تو نے میری جان کو روک لیا تو اس پر رحم کرنا اور اگر چھوڑ دیا (زندگی باقی رکھی) تو اس کی اس طرح حفاظت کرنا جس طرح تو صالحین کی حفاظت کرتا ہے۔ اس کی روایت ابوضمرہ اور اسماعیل بن زکریا نے عبیداللہ کے حوالے سے کی اور یحییٰ اور بشر نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ نے، ان سے سعید نے، ان سے ابوہریرہ (رض) نے اور ان سے نبی کریم ﷺ نے اور اس کی روایت امام مالک اور ابن عجلان نے کی ہے۔ ان سے سعید نے، ان سے ابوہریرہ (رض) نے نبی کریم ﷺ سے اس طرح روایت کی ہے۔
آدھی رات سے پہلے دعا کرنے کا بیان۔
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے ابوعبداللہ الاغر اور ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ہمارا رب تبارک و تعالیٰ ہر رات آسمان دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے، اس وقت جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے اور فرماتا ہے کون ہے جو مجھ سے دعا کرتا ہے کہ میں اس کی دعا قبول کروں، کون ہے جو مجھ سے مانگتا ہے کہ میں اسے دوں، کون ہے جو مجھ سے بخشش طلب کرتا ہے کہ میں اس کی بخشش کروں۔
پائخانہ جاتے وقت دعا پڑھنے کا بیان۔
ہم سے محمد بن عرعرہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عبدالعزیز بن صہیب نے بیان کیا اور ان سے انس (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ جب بیت الخلاء جاتے تو یہ دعا پڑھتے اللهم إني أعوذ بک من الخبث والخبائث اے اللہ ! میں خبیث جنوں اور جنیوں کی برائی سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔
صبح کو اٹھنے پر کیا پڑھے۔
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، کہا ہم سے حسین نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن بریدہ نے بیان کیا، ان سے بشیر بن کعب نے اور ان سے شداد بن اوس (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ سب سے عمدہ استغفار یہ ہے اللهم أنت ربي لا إله إلا أنت، خلقتني وأنا عبدک، وأنا على عهدک ووعدک ما استطعت، أبوء لک بنعمتک، وأبوء لک بذنبي، فاغفر لي، فإنه لا يغفر الذنوب إلا أنت، أعوذ بک من شر ما صنعت. اے اللہ ! تو میرا پالنے والا ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو نے مجھے پیدا کیا اور میں تیرا بندہ ہوں اور میں تیرے عہد پر قائم ہوں اور تیرے وعدہ پر۔ جہاں تک مجھ سے ممکن ہے۔ تیری نعمت کا طالب ہو کر تیری پناہ میں آتا ہوں اور اپنے گناہوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں، پس تو میری مغفرت فرما کیونکہ تیرے سوا گناہ اور کوئی نہیں معاف کرتا۔ میں تیری پناہ مانگتا ہوں اپنے برے کاموں سے۔ اگر کسی نے رات ہوتے ہی یہ کہہ لیا اور اسی رات اس کا انتقال ہوگیا تو وہ جنت میں جائے گا۔ یا (فرمایا کہ) وہ اہل جنت میں ہوگا اور اگر یہ دعا صبح کے وقت پڑھی اور اسی دن اس کی وفات ہوگئی تو بھی ایسا ہی ہوگا۔
صبح کو اٹھنے پر کیا پڑھے۔
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عبدالملک بن عمیر نے، ان سے ربعی بن حراش نے اور ان سے حذیفہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ جب سونے کا ارادہ کرتے تو کہتے باسمک اللهم أموت وأحيا تیرے نام کے ساتھ، اے اللہ ! میں مرتا اور تیرے ہی نام سے جیتا ہوں۔ اور جب بیدار ہوتے تو یہ دعا پڑھتے الحمد لله الذي أحيانا بعد ما أماتنا، وإليه النشور تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں موت کے بعد زندگی بخشی اور اسی کی طرف ہم کو لوٹنا ہے۔
صبح کو اٹھنے پر کیا پڑھے۔
ہم سے عبداللہ نے بیان کیا، ان سے ابوحمزہ محمد بن میمون نے، ان سے منصور بن معمر نے، ان سے ربعی بن حراش نے، ان سے خرشہ بن الحر نے اور ان سے ابوذر غفاری (رض) نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ ﷺ رات میں اپنی خواب گاہ پر جاتے تو کہتے اللهم باسمک أموت وأحيا اے اللہ ! میں تیرے ہی نام سے مرتا ہوں اور تیرے ہی نام سے زندہ ہوتا ہوں۔ اور جب بیدار ہوتے تو فرماتے الحمد لله الذي أحيانا بعد ما أماتنا وإليه النشور. تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں موت کے بعد زندگی بخشی اور اسی کی طرف ہم کو جانا ہے۔
نماز میں دعا پڑھنے کا بیان۔
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا ہم کو لیث بن سعد نے خبر دی، کہا کہ مجھ سے یزید بن ابی حبیب نے بیان کیا، ان سے ابوالخیر مرثد بن عبداللہ نے، ان سے عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) نے اور ان سے ابوبکر صدیق (رض) نے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے کہا کہ مجھے ایسی دعا سکھا دیجئیے جسے میں اپنی نماز میں پڑھا کروں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہ کہا کر اللهم إني ظلمت نفسي ظلما کثيرا، ولا يغفر الذنوب إلا أنت، فاغفر لي مغفرة من عندک، وارحمني، إنك أنت الغفور الرحيم اے اللہ ! میں نے اپنی جان پر بہت ظلم کیا ہے اور گناہوں کو تیرے سوا کوئی معاف نہیں کرتا پس میری مغفرت کر، ایسی مغفرت جو تیرے پاس سے ہو اور مجھ پر رحم کر بلاشبہ تو بڑا مغفرت کرنے ولا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔ اور عمرو بن حارث نے بھی اس حدیث کو یزید سے، انہوں نے ابوالخیر سے، انہوں نے عبداللہ بن عمرو (رض) سے سنا کہ ابوبکر صدیق (رض) نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا آخر تک۔
نماز میں دعا پڑھنے کا بیان۔
ہم سے علی نے بیان کیا، کہا ہم سے مالک بن سعیر نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے کہ ولا تجهر بصلاتک ولا تخافت بها دعا کے بارے میں نازل ہوئی (کہ نہ بہت زور زور سے اور نہ بالکل آہستہ آہستہ) بلکہ درمیانی راستہ اختیار کرو۔
نماز میں دعا پڑھنے کا بیان۔
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے جریر بن عبدالحمید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے منصور بن معتمر نے بیان کیا، ان سے ابو وائل نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ ہم نماز میں یہ کہا کرتے تھے کہ اللہ پر سلام ہو، فلاں پر سلام ہو۔ پھر نبی کریم ﷺ نے ہم سے ایک دن فرمایا کہ اللہ خود سلام ہے اس لیے جب تم نماز میں بیٹھو تو یہ پڑھا کرو التحيات لله ارشاد الصالحين. تک اس لیے کہ جب تم یہ کہو گے تو آسمان و زمین میں موجود اللہ تبارک و تعالیٰ کے ہر صالح بندہ کو (یہ سلام) پہنچے گا۔ أشهد أن لا إله إلا الله، وأشهد أن محمدا عبده ورسوله. اس کے بعد ثنا میں اختیار ہے جو دعا چاہو پڑھو۔
نماز کے بعد دعا پڑھنے کا بیان۔
مجھ سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم کو زید بن ہارون نے خبر دی، کہا ہم کو ورقاء نے خبر دی، انہیں سمی نے، انہیں ابوصالح ذکوان نے اور انہیں ابوہریرہ (رض) نے کہ صحابہ کرام نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! مالدار لوگ بلند درجات اور ہمیشہ رہنے والی جنت کی نعمتوں کو حاصل کرلے گئے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہ کیسے ؟ صحابہ کرام نے عرض کیا جس طرح ہم نماز پڑھتے ہیں وہ بھی پڑھتے ہیں اور جس طرح ہم جہاد کرتے ہیں وہ بھی جہاد کرتے ہیں اور اس کے ساتھ وہ اپنا زائد مال بھی (اللہ کے راستہ میں) خرچ کرتے ہیں اور ہمارے پاس مال نہیں ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کیا میں تمہیں ایک ایسا عمل نہ بتلاؤں جس سے تم اپنے آگے کے لوگوں کے ساتھ ہوجاؤ اور اپنے پیچھے آنے والوں سے آگے نکل جاؤ اور کوئی شخص اتنا ثواب نہ حاصل کرسکے جتنا تم نے کیا ہو، سوا اس صورت کے جب کہ وہ بھی وہی عمل کرے جو تم کرو گے (اور وہ عمل یہ ہے) کہ ہر نماز کے بعد دس مرتبہ سبحان الله پڑھا کرو، دس مرتبہ الحمد الله پڑھا کرو اور دس مرتبہ الله اکبر پڑھا کرو۔ اس کی روایت عبیداللہ بن عمر نے سمی اور رجاء بن حیوہ سے کی اور اس کی روایت جریر نے عبدالعزیز بن رفیع سے کی، ان سے ابوصالح نے اور ان سے ابودرداء (رض) نے۔ اور اس کی روایت سہیل نے اپنے والد سے کی، ان سے ابوہریرہ (رض) نے اور ان سے نبی کریم ﷺ نے۔
نماز کے بعد دعا پڑھنے کا بیان۔
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے منصور بن معتمر نے، ان سے مسیب بن رافع نے، ان سے مغیرہ بن شعبہ (رض) کے مولا وراد نے بیان کیا کہ مغیرہ بن شعبہ (رض) نے معاویہ بن ابی سفیان (رض) کو لکھا کہ رسول اللہ ﷺ ہر نماز کے بعد جب سلام پھیرتے تو یہ کہا کرتے تھے لا إله إلا الله، وحده لا شريك له، له الملک، وله الحمد، وهو على كل شىء قدير، اللهم لا مانع لما أعطيت، ولا معطي لما منعت، ولا ينفع ذا الجد منک الجد. اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، ملک اسی کے لیے ہے اور اسی کے لیے تمام تعریفیں ہیں اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ اے اللہ ! جو کچھ تو نے دیا ہے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جو کچھ تو نے روک دیا اسے کوئی دینے والا نہیں اور کسی مالدار اور نصیبہ ور (کو تیری بارگاہ میں) اس کا مال نفع نہیں پہنچا سکتا۔ اور شعبہ نے بیان کیا، ان سے منصور نے بیان کیا کہ میں نے مسیب (رض) سے سنا۔
اللہ تعالیٰ کے قول وصل علیہم کا بیان اور اس شخص کا بیان جو صرف اپنے بھائی کیلئے دعا کرے، اپنے لئے نہ کرے، اور ابوموسیٰ نے بیان کیا کی نبی ﷺ نے فرمایا، کہ اے اللہ عبید ابی عامر کو بخش دے، اے اللہ عبداللہ بن قیس کے گناہ کو بخش دے۔
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے مسلم کے مولیٰ یزید بن ابی عبیدہ نے اور ان سے سلمہ بن الاکوع (رض) نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ خیبر گئے (راستہ میں) مسلمانوں میں سے کسی شخص نے کہا عامر ! اپنی حدی سناؤ۔ وہ حدی پڑھنے لگے اور کہنے لگے۔ اللہ کی قسم ! اگر اللہ نہ ہوتا تو ہم ہدایت نہ پاتے اس کے علاوہ دوسرے اشعار بھی انہوں نے پڑھے مجھے وہ یاد نہیں ہیں۔ (اونٹ حدی سن کر تیز چلنے لگے تو) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ یہ سواریوں کو کون ہنکا رہا ہے، لوگوں نے کہا کہ عامر بن اکوع ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ اس پر رحم کرے۔ مسلمانوں میں سے ایک شخص نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! کاش ابھی آپ ان سے ہمیں اور فائدہ اٹھانے دیتے۔ پھر جب صف بندی ہوئی تو مسلمانوں نے کافروں سے جنگ کی اور عامر (رض) کی تلوار چھوٹی تھی جو خود ان کے پاؤں پر لگ گئی اور ان کی موت ہوگئی۔ شام ہوئی تو لوگوں نے جگہ جگہ آگ جلائی۔ نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا کہ یہ آگ کیسی ہے، اسے کیوں جلایا گیا ہے ؟ صحابہ نے کہا کہ پالتو گدھوں (کا گوشت پکانے) کے لیے نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جو کچھ ہانڈیوں میں گوشت ہے اسے پھینک دو اور ہانڈیوں کو توڑ دو ۔ ایک صحابی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! اجازت ہو تو ایسا کیوں نہ کرلیں کہ ہانڈیوں میں جو کچھ ہے اسے پھینک دیں اور ہانڈیوں کو دھو لیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اچھا یہی کرلو۔
اللہ تعالیٰ کے قول وصل علیہم کا بیان اور اس شخص کا بیان جو صرف اپنے بھائی کیلئے دعا کرے، اپنے لئے نہ کرے، اور ابوموسیٰ نے بیان کیا کی نبی ﷺ نے فرمایا، کہ اے اللہ عبید ابی عامر کو بخش دے، اے اللہ عبداللہ بن قیس کے گناہ کو بخش دے۔
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن مرہ نے، کہا میں نے عبداللہ بن ابی اوفی (رض) سے سنا کہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں اگر کوئی شخص صدقہ لاتا تو نبی کریم ﷺ فرماتے کہ اے اللہ ! فلاں کی آل اولاد پر اپنی رحمتیں نازل فرما۔ میرے والد صدقہ لائے تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اے اللہ ! ابی اوفی کی آل اولاد پر رحمتیں نازل فرما۔
اللہ تعالیٰ کے قول وصل علیہم کا بیان اور اس شخص کا بیان جو صرف اپنے بھائی کیلئے دعا کرے، اپنے لئے نہ کرے، اور ابوموسیٰ نے بیان کیا کی نبی ﷺ نے فرمایا، کہ اے اللہ عبید ابی عامر کو بخش دے، اے اللہ عبداللہ بن قیس کے گناہ کو بخش دے۔
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے اسماعیل بن ابی خالد نے، ان سے قیس نے کہ میں نے جریر بن عبداللہ بجلی سے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کوئی ایسا مرد مجاہد ہے جو مجھ کو ذی الخلصہ بت سے آرام پہنچائے وہ ایک بت تھا جس کو جاہلیت میں لوگ پوجا کرتے تھے اور اس کو کعبہ کہا کرتے تھے۔ میں نے کہا : یا رسول اللہ ! اس خدمت کے لیے میں تیار ہوں لیکن میں گھوڑے پر ٹھیک جم کر بیٹھ نہیں سکتا ہوں آپ نے میرے سینہ پر ہاتھ مبارک پھیر کر دعا فرمائی کہ اے اللہ ! اسے ثابت قدمی عطا فرما اور اس کو ہدایت کرنے والا اور نور ہدایت پانے والا بنا۔ جریر نے کہا کہ پھر میں اپنی قوم احمس کے پچاس آدمی لے کر نکلا اور ابی سفیان نے یوں نقل کیا کہ میں اپنی قوم کی ایک جماعت لے کر نکلا اور میں وہاں گیا اور اسے جلا دیا پھر میں نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! اللہ کی قسم ! میں آپ کے پاس نہیں آیا جب تک میں نے اسے جلے ہوئے خارش زدہ اونٹ کی طرح سیاہ نہ کردیا۔ پس آپ نے قبیلہ احمس اور اس کے گھوڑوں کے لیے دعا فرمائی۔
اللہ تعالیٰ کے قول وصل علیہم کا بیان اور اس شخص کا بیان جو صرف اپنے بھائی کیلئے دعا کرے، اپنے لئے نہ کرے، اور ابوموسیٰ نے بیان کیا کی نبی ﷺ نے فرمایا، کہ اے اللہ عبید ابی عامر کو بخش دے، اے اللہ عبداللہ بن قیس کے گناہ کو بخش دے۔
ہم سے سعید بن ربیع نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے کہا کہ میں نے انس (رض) سے سنا، کہا کہ ام سلیم (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے کہا کہ انس آپ کا خادم ہے اس کے حق میں دعا فرمائیے۔ نبی کریم ﷺ نے دعا فرمائی اللهم أكثر ماله وولده، و بارک له فيما أعطيته یا اللہ ! اس کے مال و اولاد کو زیادہ کر اور جو کچھ تو نے اسے دیا ہے، اس میں اسے برکت عطا فرمائیو۔
اللہ تعالیٰ کے قول وصل علیہم کا بیان اور اس شخص کا بیان جو صرف اپنے بھائی کیلئے دعا کرے، اپنے لئے نہ کرے، اور ابوموسیٰ نے بیان کیا کی نبی ﷺ نے فرمایا، کہ اے اللہ عبید ابی عامر کو بخش دے، اے اللہ عبداللہ بن قیس کے گناہ کو بخش دے۔
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدہ بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک صحابی کو مسجد میں قرآن پڑھتے سنا تو فرمایا اللہ اس پر رحم فرمائے اس نے مجھے فلاں فلاں آیتیں یاد دلا دیں جو میں فلاں فلاں سورتوں سے بھول گیا تھا۔
اللہ تعالیٰ کے قول وصل علیہم کا بیان اور اس شخص کا بیان جو صرف اپنے بھائی کیلئے دعا کرے، اپنے لئے نہ کرے، اور ابوموسیٰ نے بیان کیا کی نبی ﷺ نے فرمایا، کہ اے اللہ عبید ابی عامر کو بخش دے، اے اللہ عبداللہ بن قیس کے گناہ کو بخش دے۔
ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ بن حجاج نے، کہا مجھ کو سلیمان بن مہران نے خبر دی، انہیں ابو وائل نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے کوئی چیز تقسیم فرمائی تو ایک شخص بولا کہ یہ ایسی تقسیم ہے کہ اس سے اللہ کی رضا مقصود نہیں ہے۔ میں نے نبی کریم ﷺ کو اس کی خبر دی تو آپ اس پر غصہ ہوئے اور میں نے خفگی کے آثار آپ کے چہرہ مبارک پر دیکھے اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ موسیٰ (علیہ السلام) پر رحم فرمائے، انہیں اس سے بھی زیادہ تکلیف دی گئی لیکن انہوں نے صبر کیا۔
دعا میں قافیہ آرائی کی کراہت کا بیان
ہم سے یحییٰ بن محمد بن سکن نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حبان بن ہلال ابوحبیب نے بیان کیا، کہا ہم سے ہارون مقری نے بیان، کہا ہم سے زبیر بن خریت نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے عبداللہ بن عباس (رض) نے کہا کہ لوگوں کو وعظ ہفتہ میں صرف ایک دن جمعہ کو کیا کر، اگر تم اس پر تیار نہ ہو تو دو مرتبہ اگر تم زیادہ ہی کرنا چاہتے ہو تو پس تین دن اور لوگوں کو اس قرآن سے اکتا نہ دینا، ایسا نہ ہو کہ تم کچھ لوگوں کے پاس پہنچو، وہ اپنی باتوں میں مصروف ہوں اور تم پہنچتے ہی ان سے اپنی بات (بشکل وعظ) بیان کرنے لگو اور ان کی آپس کی گفتگو کو کاٹ دو کہ اس طرح وہ اکتا جائیں، بلکہ (ایسے مقام پر) تمہیں خاموش رہنا چاہیے۔ جب وہ تم سے کہیں تو پھر تم انہیں اپنی باتیں سناؤ۔ اس طرح کہ وہ بھی اس تقریر کے خواہشمند ہوں اور دعا میں قافیہ بندی سے پرہیز کرتے رہنا، کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ کو دیکھا ہے کہ وہ ہمیشہ ایسا ہی کرتے تھے۔
یقین کے ساتھ دعا کرے، اس لئے اللہ پر کوئی جبر کرنیوالا نہیں۔
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن علیہ نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدالعزیز بن صہیب نے خبر دی، ان سے انس (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی دعا کرے تو اللہ سے قطعی طور پر مانگے اور یہ نہ کہے کہ اے اللہ ! اگر تو چاہے تو مجھے عطا فرما کیونکہ اللہ پر کوئی زبردستی کرنے والا نہیں ہے۔
یقین کے ساتھ دعا کرے، اس لئے اللہ پر کوئی جبر کرنیوالا نہیں۔
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے، ان سے ابوالزناد نے، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص اس طرح نہ کہے کہ یا اللہ ! اگر تو چاہے تو مجھے معاف کر دے، میری مغفرت کر دے۔ بلکہ یقین کے ساتھ دعا کرے کیونکہ اللہ پر کوئی زبردستی کرنے والا نہیں ہے۔
بندے کی دعا مقبول ہوتی ہے جب کہ وہ جلد بازی سے کام نہ لے۔
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں عبدالرحمٰن بن ازہر کے غلام ابوعبید نے اور انہیں ابوہریرہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بندہ کی دعا قبول ہوتی ہے جب تک کہ وہ جلدی نہ کرے کہ کہنے لگے کہ میں نے دعا کی تھی اور میری دعا قبول نہیں ہوئی۔
باب
باب : دعا میں ہاتھوں کا اٹھانا اور ابوموسیٰ اشعری (رض) نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے دعا کی اور اپنے ہاتھ اٹھائے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بغلوں کی سفیدی دیکھی اور عبداللہ بن عمر (رض) نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور دعا فرمائی کہ اے اللہ ! خالد نے جو کچھ کیا ہے میں اس سے بیزار ہوں۔ ابوعبداللہ امام بخاری (رح) نے کہا اور عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے کہا مجھ سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن سعید اور شریک بن ابی نمر نے، انہوں نے انس (رض) سے سنا کہ نبی کریم ﷺ نے اپنے ہاتھ اتنے اٹھائے کہ میں نے آپ کی بغلوں کی سفیدی دیکھی۔
قبلہ رو ہوئے بغیر دعا مانگنے کا بیان۔
ہم سے محمد بن محبوب نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے کہ ایک آدمی کھڑا ہوا اور کہا کہ یا رسول اللہ ! اللہ سے دعا فرما دیجئیے کہ ہمارے لیے بارش برسائے (نبی کریم ﷺ نے دعا فرمائی) اور آسمان پر بادل چھا گیا اور بارش برسنے لگی، یہ حال ہوگیا کہ ہمارے لیے گھر تک پہنچنا مشکل تھا۔ یہ بارش اگلے جمعہ تک ہوتی رہی پھر وہی صحابی یا کوئی دوسرے صحابی اس دوسرے جمعہ کو کھڑے ہوئے اور کہا کہ اللہ سے دعا فرمائیے کہ اب بارش بند کر دے ہم تو ڈوب گئے۔ نبی کریم ﷺ نے دعا کی کہ اے اللہ ! ہمارے چاروں طرف بستیوں کو سیراب کر اور ہم پر بارش بند کر دے۔ چناچہ بادل ٹکڑے ہو کر مدینہ کے چاروں طرف بستیوں میں چلا گیا اور مدینہ والوں پر بارش رک گئی۔
قبلہ رو ہو کر دعا کرنے کا بیان۔
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عمرو بن یحییٰ نے بیان کیا، ان سے عبادہ بن تمیم نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن زید انصاری (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ اس عیدگاہ میں استسقاء کی دعا کے لیے نکلے اور بارش کی دعا کی، پھر آپ قبلہ رخ ہوگئے اور اپنی چادر کو پلٹا۔
نبی ﷺ کا اپنے خادم کیلئے طول عمر اور کثرت مال کی دعا کرنا۔
ہم سے عبداللہ بن ابی الاسود نے بیان کیا، کہا ہم سے حرمی بن عمارہ نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس (رض) نے کہ میری والدہ (ام سلیم رضی اللہ عنہ) نے کہا : یا رسول اللہ ! انس (رض) آپ کا خادم ہے اس کے لیے دعا فرما دیں۔ نبی کریم ﷺ نے دعا کی کہ اے اللہ ! اس کے مال و اولاد کو زیادہ کر اور جو کچھ تو نے اسے دیا ہے اس میں برکت عطا فرما۔
تکلیف کے وقت دعا کرے کا بیان۔
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے قتادہ نے بیان کیا، ان سے ابوالعالیہ نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ پریشانی کے وقت یہ دعا کرتے تھے لا إله إلا الله العظيم الحليم، لا إله إلا الله رب السموات والأرض، رب العرش العظيم اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں جو بہت عظمت والا ہے اور برد بار ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں جو آسمانوں اور زمین کا رب اور بڑے بھاری عرش کا رب ہے۔
تکلیف کے وقت دعا کرے کا بیان۔
ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، ان سے ہشام بن ابی عبداللہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے، ان سے ابوالعالیہ نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ حالت پریشانی میں یہ دعا کیا کرتے تھے لا إله إلا الله العظيم الحليم، لا إله إلا الله رب العرش العظيم، لا إله إلا الله رب السموات، ورب الأرض، ورب العرش الکريم اللہ صاحب عظمت اور بردبار کے سوا کوئی معبود نہیں، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں جو عرش عظیم کا رب ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں جو آسمانوں اور زمینوں کا رب ہے اور عرش عظیم کا رب ہے۔ اور وہب نے بیان کیا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اس طرح بیان کیا۔
سخت مصیبت سے پناہ مانگنے سے کا بیان۔
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا مجھ سے سمی نے بیان کیا، ان سے ابوصالح نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ مصیبت کی سختی، تباہی تک پہنچ جانے، قضاء و قدر کی برائی اور دشمنوں کے خوش ہونے سے پناہ مانگتے تھے اور سفیان نے کہا کہ حدیث میں تین صفات کا بیان تھا۔ ایک میں نے بھلا دی تھی اور مجھے یاد نہیں کہ وہ ایک کون سی صفت ہے۔
نبی ﷺ کا اللھم الرفیق الاعلی کہہ کر دعا مانگنا۔
ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے لیث بن سعد نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، انہیں سعید بن مسیب اور عروہ بن زبیر نے بہت سے علم والوں کے سامنے خبر دی کہ عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ جب بیمار نہیں تھے تو فرمایا کرتے تھے کہ جب بھی کسی نبی کی روح قبض کی جاتی تو پہلے جنت میں اس کا ٹھکانا دکھا دیا جاتا ہے، اس کے بعد اسے اختیار دیا جاتا ہے (کہ چاہیں دنیا میں رہیں یا جنت میں چلیں) چناچہ جب نبی کریم ﷺ بیمار ہوئے اور سر مبارک میری ران پر تھا۔ اس وقت آپ پر تھوڑی دیر کے لیے غشی طاری ہوئی۔ پھر جب آپ کو اس سے کچھ ہوش ہوا تو چھت کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے لگے، پھر فرمایا اللهم الرفيق الأعلى اے اللہ ! رفیق اعلیٰ کے ساتھ ملا دے۔ میں نے سمجھ لیا کہ نبی کریم ﷺ اب ہمیں اختیار نہیں کرسکتے، میں سمجھ گئی کہ جو بات نبی کریم ﷺ صحت کے زمانے میں بیان فرمایا کرتے تھے، یہ وہی بات ہے۔ بیان کیا کہ یہ نبی کریم ﷺ کا آخری کلمہ تھا جو آپ نے زبان سے ادا فرمایا کہا اللهم الرفيق الأعلى اے اللہ ! رفیق اعلیٰ کے ساتھ ملا دے۔
موت اور حیات کی دعا مانگنے کا بیان
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے اسماعیل بن ابی خالد نے بیان کیا، ان سے قیس بن ابی حازم نے بیان کیا، کہا کہ میں خباب بن ارت (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا انہوں نے سات داغ (کسی بیماری کے علاج کے لیے) لگوائے تھے۔ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے اگر ہمیں موت کی دعا کرنے سے منع نہ کیا ہوتا تو میں ضرور اس کی دعا کرتا۔
موت اور حیات کی دعا مانگنے کا بیان
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا، ان سے اسماعیل بن ابی خالد نے بیان کیا، ان سے قیس بن ابی حازم نے بیان کیا، کہا کہ میں خباب بن ارت (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا انہوں نے اپنے پیٹ پر سات داغ لگوا رکھے تھے، میں نے سنا کہ وہ کہہ رہے تھے کہ اگر نبی کریم ﷺ نے ہمیں موت کی دعا کرنے سے منع نہ کیا ہوتا تو میں اس کی ضرور دعا کرلیتا۔
موت اور حیات کی دعا مانگنے کا بیان
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو اسماعیل بن علیہ نے خبر دی، انہوں نے کہا ہمیں عبدالعزیز بن صہیب نے بتایا اور ان سے انس (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص کسی تکلیف کی وجہ سے جو اسے ہونے لگی ہو، موت کی تمنا نہ کرے۔ اگر موت کی تمنا ضروری ہی ہوجائے تو یہ کہے کہ اے اللہ ! جب تک میرے لیے زندگی بہتر ہے مجھے زندہ رکھیو اور جب میرے لیے موت بہتر ہو تو مجھے اٹھا لیجیو۔
بچوں کیلئے برکت کی دعا کرنے اور ان کے سر پر ہاتھ پھیرنے کا بیان، اور ابوموسیٰ (رض) نے بیان کیا، کہ میرے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا، تو آنحضرت ﷺ نے اس کیلئے برکت کی دعا فرمائی۔
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے حاتم بن اسماعیل نے بیان کیا، ان سے جعد بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا کہ میں نے سائب بن یزید (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میری خالہ مجھے لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! میرا یہ بھانجا بیمار ہے۔ چناچہ نبی کریم ﷺ نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور میرے لیے برکت کی دعا کی۔ پھر آپ نے وضو کیا اور میں نے آپ کے وضو کا پانی پیا۔ اس کے بعد میں آپ کی پشت کی طرف کھڑا ہوگیا اور میں نے مہر نبوت دیکھی جو دونوں شانوں کے درمیان میں تھی جیسے چھپر کھٹ کی گھنڈی ہوتی ہے یا حجلہ کا انڈہ۔
بچوں کیلئے برکت کی دعا کرنے اور ان کے سر پر ہاتھ پھیرنے کا بیان، اور ابوموسیٰ (رض) نے بیان کیا، کہ میرے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا، تو آنحضرت ﷺ نے اس کیلئے برکت کی دعا فرمائی۔
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، کہا ہم سے سعید بن ابی ایوب نے بیان کیا، ان سے ابوعقیل (زہرہ بن معبد) نے کہ انہیں ان کے دادا عبداللہ بن ہشام (رض) ساتھ لے کر بازار سے نکلتے یا بازار جاتے اور کھانے کی کوئی چیز خریدتے، پھر اگر عبداللہ بن زبیر یا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کی ان سے ملاقات ہوجاتی تو وہ کہتے کہ ہمیں بھی اس میں شریک کیجئے کہ رسول اللہ ﷺ نے آپ کے لیے برکت کی دعا فرمائی تھی۔ بعض دفعہ تو ایک اونٹ کے بوجھ کا پورا غلہ نفع میں آجاتا اور وہ اسے گھر بھیج دیتے تھے۔
بچوں کیلئے برکت کی دعا کرنے اور ان کے سر پر ہاتھ پھیرنے کا بیان، اور ابوموسیٰ (رض) نے بیان کیا، کہ میرے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا، تو آنحضرت ﷺ نے اس کیلئے برکت کی دعا فرمائی۔
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے صالح بن کیسان نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، انہیں محمود بن ربیع (رض) نے خبر دی یہ محمود وہ بزرگ ہیں جن کے منہ میں رسول اللہ ﷺ نے جس وقت وہ بچے تھے، انہیں کے کنوئیں سے پانی لے کر کلی کرلی تھی۔
بچوں کیلئے برکت کی دعا کرنے اور ان کے سر پر ہاتھ پھیرنے کا بیان، اور ابوموسیٰ (رض) نے بیان کیا، کہ میرے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا، تو آنحضرت ﷺ نے اس کیلئے برکت کی دعا فرمائی۔
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا ہم کو ہشام بن عروہ نے خبر دی، انہیں ان کے والد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کے پاس بچوں کو لایا جاتا تو آپ ان کے لیے دعا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک بچہ لایا گیا اور اس نے آپ کے کپڑے پر پیشاب کردیا۔ پھر نبی کریم ﷺ نے پانی منگایا اور پیشاب کی جگہ پر اسے ڈالا کپڑے کو دھویا نہیں۔
بچوں کیلئے برکت کی دعا کرنے اور ان کے سر پر ہاتھ پھیرنے کا بیان، اور ابوموسیٰ (رض) نے بیان کیا، کہ میرے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا، تو آنحضرت ﷺ نے اس کیلئے برکت کی دعا فرمائی۔
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، کہا کہ مجھے عبداللہ بن ثعلبہ بن صعیر (رض) نے خبر دی اور رسول اللہ ﷺ نے ان کی آنکھ یا منہ پر ہاتھ پھیرا تھا۔ انہوں نے سعد بن ابی وقاص (رض) کو ایک رکعت وتر نماز پڑھتے دیکھا تھا۔
نبی ﷺ پر درود بھیجنے کا بیان
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ بن حجاج نے بیان کیا، کہا ہم سے حکم بن عتبہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ سے سنا، کہا کہ کعب بن عجرہ (رض) مجھ سے ملے اور کہا کہ میں تمہیں ایک تحفہ نہ دوں ؟ (یعنی ایک عمدہ حدیث نہ سناؤں) نبی کریم ﷺ ہم لوگوں میں تشریف لائے تو ہم نے کہا : یا رسول اللہ ! یہ تو ہمیں معلوم ہوگیا ہے کہ ہم آپ کو سلام کس طرح کریں، لیکن آپ پر درود ہم کس طرح بھیجیں ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اس طرح کہو اللهم صل على محمد، وعلى آل محمد، كما صليت على آل إبراهيم، إنک حميد مجيد، اللهم بارک على محمد، وعلى آل محمد، كما بارکت على آل إبراهيم، إنک حميد مجيد اے اللہ ! محمد ( ﷺ ) پر اپنی رحمت نازل کر اور آل محمد ﷺ پر، جیسا کہ تو نے ابراہیم پر رحمت نازل کی، بلاشبہ تو تعریف کیا ہوا اور پاک ہے۔ اے اللہ ! محمد پر اور آل محمد پر برکت نازل کر جیسا کہ تو نے ابراہیم اور آل ابراہیم پر برکت نازل کی، بلاشبہ تو تعریف کیا ہوا اور پاک ہے۔
نبی ﷺ پر درود بھیجنے کا بیان
ہم سے ابراہیم بن حمزہ زبیری نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابن ابی حازم اور دراوردی نے بیان کیا، ان سے یزید بن عبداللہ بن اسامہ نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن خباب نے بیان کیا اور ان سے ابو سعید خدری (رض) نے بیان کیا کہ ہم نے کہا : اے اللہ کے رسول ! آپ کو سلام اس طرح کیا جاتا ہے، لیکن آپ پر درود کس طرح بھیجا جاتا ہے ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اس طرح کہو اللهم صل على محمد عبدک ورسولک، كما صليت على إبراهيم، و بارک على محمد وعلى آل محمد، كما بارکت على إبراهيم وآل إبراهيم اے اللہ ! اپنی رحمت نازل کر محمد ( ﷺ ) پر جو تیرے بندے ہیں اور تیرے رسول ہیں جس طرح تو نے رحمت نازل کی ابراہیم پر اور برکت بھیج محمد ( ﷺ ) پر اور ان کی آل پر جس طرح برکت بھیجی تو نے ابراہم پر اور آل ابراہیم پر۔
کیا نبی ﷺ کے علاوہ دوسروں پر بھی درود بھیجا جاسکتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا قول وصل علیہم ان صلاتک سکن لھم۔ کا بیان
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے یبان کیا، ان سے عمرو بن مرہ نے اور ان سے ابن ابی اوفی (رض) نے بیان کیا جب رسول اللہ ﷺ کے پاس کوئی شخص اپنی زکوٰۃ لے کر آتا تو آپ فرماتے اللهم صل عليه اے اللہ ! اس پر اپنی رحمت نازل فرما۔ میرے والد بھی اپنی زکوٰۃ لے کر آئے تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا اللهم صل على آل أبي أوفى اے اللہ ! آل ابی اوفی پر اپنی رحمت نازل فرما۔
کیا نبی ﷺ کے علاوہ دوسروں پر بھی درود بھیجا جاسکتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا قول وصل علیہم ان صلاتک سکن لھم۔ کا بیان
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے، ان سے عبداللہ بن ابی بکر نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عمرو بن سلیم زرقی نے بیان کیا کہ ہم کو ابو حمید ساعدی (رض) نے خبر دی کہ صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! ہم آپ پر کس طرح درود بھیجیں ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اس طرح کہو اللهم صل على محمد وأزواجه وذريته، كما صليت على آل إبراهيم، و بارک على محمد وأزواجه وذريته، كما بارکت على آل إبراهيم، إنک حميد مجيد اے اللہ ! محمد اور آپ کی ازواج اور آپ کی اولاد پر اپنی رحمت نازل کر جیسا کہ تو نے ابراہیم اور آل ابراہیم پر رحمت نازل کی اور محمد اور ان کی ازواج اور ان کی اولاد پر برکت نازل کر، جیسا کہ تو نے ابراہیم اور آل ابراہیم پر برکت نازل کی۔ بلاشبہ تو تعریف کیا گیا شان و عظمت والا ہے۔
نبی ﷺ کا فرمانا یا اللہ جس کو میں نے تکلیف دی ہے تو اسے اس کے واسطے کفارہ اور رحمت بنا دے
ہم سے احمد بن صالح نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، کہا کہ مجھے یونس نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، کہا کہ مجھ کو سعید بن مسیب نے خبر دی اور انہیں ابوہریرہ (رض) نے کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ سے سنا، نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اے اللہ ! میں نے جس مومن کو بھی برا بھلا کہا ہو تو اس کے لیے اسے قیامت کے دن اپنی قربت کا ذریعہ بنا دے۔
فتنوں سے پناہ مانگنے کا بیان
ہم سے حفص بن عمر حوضی نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام دستوائی نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس (رض) نے کہ صحابہ نے رسول اللہ ﷺ سے سوالات کئے اور جب بہت زیادہ کئے تو نبی کریم ﷺ کو ناگواری ہوئی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ممبر پر تشریف لائے اور فرمایا کہ آج تم مجھ سے جو بات پوچھو گے میں بتاؤں گا۔ اس وقت میں نے دائیں بائیں دیکھا تو تمام صحابہ سر اپنے کپڑوں میں لپیٹے ہوئے رو رہے تھے، ایک صاحب جن کا اگر کسی سے جھگڑا ہوتا تو انہیں ان کے باپ کے سوا کسی اور کی طرف (طعنہ کے طور پر) منسوب کیا جاتا تھا۔ انہوں نے پوچھا : یا رسول اللہ ! میرے باپ کون ہیں ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ حذافہ۔ اس کے بعد عمر (رض) اٹھے اور عرض کیا ہم اللہ سے راضی ہیں کہ ہمارا رب ہے، اسلام سے کہ وہ دین ہے، محمد ﷺ سے کہ وہ سچے رسول ہیں، ہم فتنوں سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، آج کی طرح خیر و شر کے معاملہ میں میں نے کوئی دن نہیں دیکھا، میرے سامنے جنت اور دوزخ کی تصویر لائی گئی اور میں نے انہیں دیوار کے اوپر دیکھا۔ قتادہ اس حدیث کو بیان کرتے وقت (سورۃ المائدہ کی) اس آیت کا ذکر کیا کرتے تھے يا أيها الذين آمنوا لا تسألوا عن أشياء إن تبد لکم تسؤكم اے ایمان والو ! ایسی چیزوں کے متعلق نہ سوال کرو کہ اگر تمہارے سامنے ان کا جواب ظاہر ہوجائے تو تم کو برا لگے۔
لوگوں کے غلبہ سے پناہ مانگنے کا بیان
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا، ان سے عمرو بن ابی عمرو، مطلب بن عبداللہ بن حنطب کے غلام نے بیان کیا، انہوں نے انس بن مالک (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ابوطلحہ (رض) سے فرمایا کہ اپنے یہاں کے لڑکوں میں سے کوئی بچہ تلاش کرو جو میرا کام کردیا کرے۔ چناچہ ابوطلحہ (رض) مجھے اپنی سواری پر پیچھے بیٹھا کرلے گئے نبی کریم ﷺ جب بھی گھر ہوتے تو میں آپ کی خدمت کیا کرتا تھا۔ میں نے سنا کہ نبی کریم ﷺ یہ دعا اکثر پڑھا کرتے تھے اللهم إني أعوذ بک من الهم والحزن، والعجز والکسل، والبخل والجبن، وضلع الدين، وغلبة الرجال اے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں غم و الم سے، عاجزی و کمزوری سے اور بخل سے اور بزدلی سے اور قرض کے بوجھ سے اور انسانوں کے غلبہ سے۔ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت کرتا رہا۔ پھر ہم خیبر سے واپس آئے اور نبی کریم ﷺ ام المؤمنین صفیہ بنت حیی (رض) کے ساتھ واپس ہوئے۔ نبی کریم ﷺ نے انہیں اپنے لیے منتخب کیا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے ان کے لیے عبا یا چادر سے پردہ کیا اور انہیں اپنی سواری پر اپنے پیچھے بٹھایا۔ جب ہم مقام صہبا پہنچے تو آپ نے ایک چرمی دستر خوان پر کچھ مالیدہ تیار کرا کے رکھوایا پھر مجھے بھیجا اور میں کچھ صحابہ کو بلا لایا اور سب نے اسے کھایا، یہ آپ کی دعوت ولیمہ تھی۔ اس کے بعد آپ آگے بڑھے اور احد پہاڑ دکھائی دیا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔ آپ جب مدینہ منورہ پہنچے تو فرمایا اے اللہ ! میں اس شہر کے دونوں پہاڑوں کے درمیانی علاقہ کو اس طرح حرمت والا قرار دیتا ہوں جس طرح ابراہیم (علیہ السلام) نے مکہ کو حرمت والا قرار دیا تھا۔ اے اللہ ! یہاں والوں کے مد میں اور ان کے صاع میں برکت عطا فرما۔
عذاب قبر سے پناہ مانگنے کا بیان۔
ہم سے عبداللہ بن زبیر حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے، کہا ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ام خالد بنت خالد بن سعید (رض) سے سنا (موسیٰ نے) بیان کیا کہ میں نے کسی سے نہیں سنا کہ ان کی بیان کی ہوئی حدیث سے مختلف کسی نے نبی کریم ﷺ سے سنا ہو، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا کہ آپ قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگتے تھے۔
عذاب قبر سے پناہ مانگنے کا بیان۔
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالملک بن عمیر نے بیان کیا، ان سے مصعب بن سعد بن ابی وقاص نے کہ سعد (رض) پانچ باتوں کا حکم دیتے تھے اور انہیں نبی کریم ﷺ کے حوالہ سے ذکر کرتے تھے کہ نبی کریم ﷺ ان سے پناہ مانگنے کا حکم کرتے تھے کہ اللهم إني أعوذ بک من البخل، وأعوذ بک من الجبن، وأعوذ بك أن أرد إلى أرذل العمر، وأعوذ بک من فتنة الدنيا يعني فتنة الدجال وأعوذ بک من عذاب القبر اے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ بدترین بڑھاپا مجھ پر آجائے اور تجھ سے پناہ مانگتا ہوں دنیا کے فتنہ سے، اس سے مراد دجال کا فتنہ ہے اور تجھ سے پناہ مانگتا ہوں قبر کے عذاب سے۔
عذاب قبر سے پناہ مانگنے کا بیان۔
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے ابو وائل نے، ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ مدینہ کے یہودیوں کی دو بوڑھی عورتیں میرے پاس آئیں اور انہوں نے مجھ سے کہا کہ قبر والوں کو ان کی قبر میں عذاب ہوگا۔ لیکن میں نے انہیں جھٹلایا اور ان کی (بات کی) تصدیق نہیں کرسکی۔ پھر وہ دونوں عورتیں چلی گئیں اور نبی کریم ﷺ تشریف لائے تو میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! دو بوڑھی عورتیں تھیں، پھر میں آپ سے واقعہ کا ذکر کیا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ انہوں نے صحیح کہا، قبر والوں کو عذاب ہوگا اور ان کے عذاب کو تمام چوپائے سنیں گے۔ پھر میں نے دیکھا کہ نبی کریم ﷺ ہر نماز میں قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگنے لگے تھے۔
زندگی اور موت کے فتنوں سے پناہ مانگنے کا بیان۔
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے معتمر بن سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ میں نے اپنے والد سے سنا، بیان کیا کہ میں نے انس بن مالک (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کہا کرتے تھے اللهم إني أعوذ بک من العجز والکسل، والجبن والهرم، وأعوذ بک من عذاب القبر، وأعوذ بک من فتنة المحيا والممات اے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں عاجزی سے، سستی سے، بزدلی سے اور بہت زیادہ بڑھاپے سے اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں زندگی اور موت کی آزمائشوں سے۔
گناہ اور قرض سے پناہ مانگنے کا بیان۔
ہم سے معلی بن اسد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے وہیب نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، ان سے ان کے والد عروہ بن زبیر نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کہا کرتے تھے اللهم إني أعوذ بک من الکسل والهرم، والمأثم والمغرم، ومن فتنة القبر و عذاب القبر، ومن فتنة النار و عذاب النار، ومن شر فتنة الغنى، وأعوذ بک من فتنة الفقر، وأعوذ بک من فتنة المسيح الدجال، اللهم اغسل عني خطاياى بماء الثلج والبرد، ونق قلبي من الخطايا، كما نقيت الثوب الأبيض من الدنس، وباعد بيني وبين خطاياى كما باعدت بين المشرق والمغرب اے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں سستی سے، بہت زیادہ بڑھاپے سے، گناہ سے، قرض سے اور قبر کی آزمائش سے اور قبر کے عذاب سے اور دوزخ کی آزمائش سے اور دوزخ کے عذاب سے اور مالداری کی آزمائش سے اور تیری پناہ مانگتا ہوں محتاجی کی آزمائش سے اور تیری پناہ مانگتا ہوں مسیح دجال کی آزمائش سے۔ اے اللہ ! مجھ سے میرے گناہوں کو برف اور اولے کے پانی سے دھو دے اور میرے دل کو خطاؤں سے اس طرح پاک و صاف کر دے جس طرح تو نے سفید کپڑے کو میل سے پاک صاف کردیا اور مجھ میں اور میرے گناہوں میں اتنی دوری کر دے جتنی مشرق اور مغرب میں دوری ہے۔
بزدلی اور سسی سے پناہ مانگنے کا بیان۔
ہم سے خالد بن مخلد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سلیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے عمرو بن ابی عمرو نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے انس بن مالک (رض) سے سنا، کہا کہ نبی کریم ﷺ کہتے تھے اللهم إني أعوذ بک من الهم والحزن، والعجز والکسل، والجبن والبخل، وضلع الدين، وغلبة الرجال اے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں غم و الم سے، عاجزی سے، سستی سے، بزدلی سے، بخل، قرض چڑھ جانے اور لوگوں کے غلبہ سے۔
بخل سے پناہ مانگنے کا بیان، بخل ( با لضم) اور بخل (با لفتح) کے ایک ہی معنی ہیں، جیسے حزن اور حزن کے ایک ہی معنی ہیں۔
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے غندر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عبدالملک بن عمیر نے بیان کیا، ان سے مصعب بن سعد نے بیان کیا اور ان سے سعد بن ابی وقاص (رض) نے کہ وہ ان پانچ باتوں سے پناہ مانگنے کا حکم دیتے تھے اور انہیں نبی کریم ﷺ کے حوالہ سے بیان کرتے تھے کہ اللهم إني أعوذ بک من البخل، وأعوذ بک من الجبن، وأعوذ بك أن أرد إلى أرذل العمر، وأعوذ بک من فتنة الدنيا، وأعوذ بک من عذاب القبر اے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں بخل سے، میں تیری پناہ مانگتا ہوں بزدلی سے، میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ ناکارہ عمر میں پہنچا دیا جاؤں، میں تیری پناہ مانگتا ہوں دنیا کی آزمائش سے اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں قبر کے عذاب سے۔
ارذل عمر سے پناہ مانگنے کا بیان۔
ہم سے اس حدیث کو ابومعمر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالوارث بن سعید نے بیان کیا، ان سے عبدالعزیز بن صہیب نے بیان کیا اور ان سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ پناہ مانگتے تھے اور کہتے تھے کہ اللهم إني أعوذ بک من الکسل، وأعوذ بک من الجبن، وأعوذ بک من الهرم، وأعوذ بک من البخل اے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں سستی سے اور تیری پناہ مانگتا ہوں بزدلی سے اور تیری پناہ مانگتا ہوں ناکارہ بڑھاپے سے اور تیری پناہ مانگتا ہوں بخل سے۔
وبا اور تکلیف کو دعا دور کردیتی ہے۔
ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اللهم حبب إلينا المدينة، كما حببت إلينا مكة أو أشد، وانقل حماها إلى الجحفة، اللهم بارک لنا في مدنا وصاعنا اے اللہ ! ہمارے دل میں مدینہ کی ایسی ہی محبت پیدا کر دے جیسی تو نے مکہ کی محبت ہمارے دل میں پیدا کی ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ اور اس کے بخار کو جحفہ میں منتقل کر دے، اے اللہ ! ہمارے لیے ہمارے مد اور صاع میں برکت عطا فرما۔
وبا اور تکلیف کو دعا دور کردیتی ہے۔
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے، کہا ہم کو ابن شہاب نے خبر دی، انہیں عامر بن سعد نے اور ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ حجۃ الوداع کے موقع پر میری عیادت کے لیے تشریف لائے۔ میری اس بیماری نے مجھے موت سے قریب کردیا تھا۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! آپ خود مشاہدہ فرما رہے ہیں کہ بیماری نے مجھے کہاں پہنچا دیا ہے اور میرے پاس مال و دولت ہے اور سوا ایک لڑکی کے اس کا اور کوئی وارث نہیں، کیا میں اپنی دولت کا دو تہائی صدقہ کر دوں ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ نہیں۔ میں نے عرض کیا پھر آدھی کا کر دوں ؟ فرمایا کہ ایک تہائی بہت ہے اگر تم اپنے وارثوں کو مالدار چھوڑو تو یہ اس سے بہتر ہے کہ انہیں محتاج چھوڑو اور وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں اور یقین رکھو کہ تم جو کچھ بھی خرچ کرو گے اور اس سے مقصود اللہ کی خوشنودی ہوئی تمہیں تو اس پر ثواب ملے گا، یہاں تک کہ اگر تم اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ رکھو (تو اس پر بھی ثواب ملے گا) میں نے عرض کیا میں اپنے ساتھیوں سے پیچھے چھوڑ دیا جاؤں گا ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر تم پیچھے چھوڑ دئیے جاؤ اور پھر کوئی عمل کرو جس سے مقصود اللہ کی رضا ہو تو تمہارا مرتبہ بلند ہوگا اور امید ہے کہ تم ابھی زندہ رہو گے اور کچھ قومیں تم سے فائدہ اٹھائیں گی اور کچھ نقصان اٹھائیں گی۔ اے اللہ ! میرے صحابہ کی ہجرت کو کامیاب فرما اور انہیں الٹے پاؤں واپس نہ کر، البتہ افسوس سعد بن خولہ کا ہے۔ سعد نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ان پر افسوس کا اظہار اس وجہ سے کیا تھا کہ ان کا انتقال مکہ معظمہ میں ہوگیا تھا۔
بہت زیادہ عمر اور دنیا کی آزمائش اور آگ کی آزمائش سے پناہ مانگنے کا بیان۔
ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم کو حسین بن علی جعفی نے خبر دی، انہیں زائدہ بن قدامہ نے، انہیں عبدالملک بن عمیر نے، انہیں مصعب بن سعد نے اور ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ ان کلمات کے ذریعہ اللہ کی پناہ مانگو جن کے ذریعہ نبی کریم ﷺ پناہ مانگتے تھے اللهم إني أعوذ بک من الجبن، وأعوذ بک من البخل، وأعوذ بک من أن أرد إلى أرذل العمر، وأعوذ بک من فتنة الدنيا، و عذاب القبر اے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں بزدلی سے، تیری پناہ مانگتا ہوں بخل سے، اس سے کہ ناکارہ عمر کو پہنچوں، تیری پناہ مانگتا ہوں دنیا کی آزمائش سے اور قبر کے عذاب سے۔
بہت زیادہ عمر اور دنیا کی آزمائش اور آگ کی آزمائش سے پناہ مانگنے کا بیان۔
ہم سے یحییٰ بن موسیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے وکیع نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، ان سے ان کے والد عروہ بن زبیر نے بیان کیا اور ان سے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ دعا کیا کرتے تھے کہا اللهم إني أعوذ بک من الکسل والهرم والمغرم والمأثم، اللهم إني أعوذ بک من عذاب النار وفتنة النار و عذاب القبر، وشر فتنة الغنى، وشر فتنة الفقر، ومن شر فتنة المسيح الدجال، اللهم اغسل خطاياى بماء الثلج والبرد، ونق قلبي من الخطايا، كما ينقى الثوب الأبيض من الدنس، وباعد بيني وبين خطاياى كما باعدت بين المشرق والمغرب اے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں سستی سے، ناکارہ عمر سے، بڑھاپے سے، قرض سے اور گناہ سے۔ اے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں دوزخ کے عذاب سے، دوزخ کی آزمائش سے، قبر کے عذاب سے، مالداری کی بری آزمائش سے، محتاجی کی بری آزمائش سے اور مسیح دجال کی بری آزمائش سے۔ اے اللہ ! میرے گناہوں کو برف اور اولے کے پانی سے دھو دے اور میرے دل کو خطاؤں سے پاک کر دے، جس طرح سفید کپڑا میل سے صاف کردیا جاتا ہے اور میرے اور میرے گناہوں کے درمیان اتنا فاصلہ کر دے جتنا فاصلہ مشرق و مغرب میں ہے۔
مال داری کے فتنہ سے پناہ مانگنے کا بیان۔
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سلام بن ابی مطیع نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، ان سے ان کے والد عروہ بن زبیر نے اور ان سے ان کی خالہ (ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ پناہ مانگا کرتے تھے کہا اللهم إني أعوذ بک من فتنة النار ومن عذاب النار، وأعوذ بک من فتنة القبر، وأعوذ بک من عذاب القبر، وأعوذ بک من فتنة الغنى، وأعوذ بک من فتنة الفقر، وأعوذ بک من فتنة المسيح الدجال اے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں دوزخ کی آزمائش سے، دوزخ کے عذاب سے اور تیری پناہ مانگتا ہوں قبر کی آزمائش سے اور تیری پناہ مانگتا ہوں قبر کے عذاب سے اور تیری پناہ مانگتا ہوں مالداری کی آزمائش سے اور تیری پناہ مانگتا ہوں مسیح دجال کی آزمائش سے۔
فقر کے فتنہ سے پناہ مانگنے کے بیان۔
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو ابومعاویہ نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم کو ہشام بن عروہ نے خبر دی، انہیں ان کے والد عروہ بن زبیر نے اور ان سے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ یہ دعا کیا کرتے تھے اللهم إني أعوذ بک من فتنة النار و عذاب النار، وفتنة القبر و عذاب القبر، وشر فتنة الغنى وشر فتنة الفقر، اللهم إني أعوذ بک من شر فتنة المسيح الدجال، اللهم اغسل قلبي بماء الثلج والبرد، ونق قلبي من الخطايا كما نقيت الثوب الأبيض من الدنس، وباعد بيني وبين خطاياي، كما باعدت بين المشرق والمغرب، اللهم إني أعوذ بک من الکسل، والمأثم والمغرم اے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں دوزخ کے فتنہ سے اور دوزخ کے عذاب سے اور قبر کی آزمائش سے اور قبر کے عذاب سے اور مالداری کی بری آزمائش سے اور محتاجی کی بری آزمائش سے اور مسیح دجال کی بری آزمائش سے۔ اے اللہ ! میرے دل کو برف اور اولے کے پانی سے دھو دے اور میرے دل کو خطاؤں سے صاف کر دے جیسا کہ سفید کپڑے کو میل سے صاف کرتا ہے اور میرے اور میری خطاؤں کے درمیان اتنی دوری کر دے جتنی دوری مشرق و مغرب میں ہے۔ اے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں سستی سے، گناہ سے اور قرض سے۔
برکت کے ساتھ کثرت مال کی دعا کرنے کا بیان۔
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر (محمد بن جعفر) نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے قتادہ سے سنا، ان سے انس (رض) نے بیان کیا اور ان سے ام سلیم (رض) نے کہا کہ انہوں نے کہا : یا رسول اللہ ! انس آپ ﷺ کا خادم ہے اس کے لیے اللہ سے دعا کیجئے۔ نبی کریم ﷺ نے دعا فرمائی اللهم أكثر ماله، وولده، و بارک له فيما أعطيته اے اللہ ! اس کے مال و اولاد میں زیادتی کر اور جو کچھ تو اسے دے اس میں برکت عطا فرما۔ اور ہشام بن زید سے روایت ہے کہ انہوں نے انس بن مالک (رض) سے اسی طرح سنا۔
برکت کے ساتھ کثرت مال کی دعا کرنے کا بیان۔
ہم سے ابوزید سعید بن ربیع نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے، انہوں نے کہا میں نے انس (رض) سے سنا کہ ام سلیم (رض) نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! انس آپ کا خادم ہے اس کے لیے دعا فرمائیے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اللهم أكثر ماله وولده، و بارک له فيما أعطيته اے اللہ ! اس کے مال و اولاد میں زیادتی کر اور جو کچھ تو دے اس میں برکت عطا فرما۔
استخارہ کے وقت دعا کرنے کا بیان
ہم سے ابومصعب مطرف بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرحمٰن بن ابی الموال نے بیان کیا، ان سے محمد بن منکدر نے اور ان سے جابر (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں تمام معاملات میں استخارہ کی تعلیم دیتے تھے، قرآن کی سورت کی طرح (نبی کریم ﷺ نے فرمایا) جب تم میں سے کوئی شخص کسی (مباح) کام کا ارادہ کرے (ابھی پکا عزم نہ ہوا ہو) تو دو رکعات (نفل) پڑھے اس کے بعد یوں دعا کرے کہ اے اللہ ! میں بھلائی مانگتا ہوں (استخارہ) تیری بھلائی سے، تو علم والا ہے، مجھے علم نہیں اور تو تمام پوشیدہ باتوں کو جاننے والا ہے، اے اللہ ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے لیے بہتر ہے، میرے دین کے اعتبار سے، میری معاش اور میرے انجام کار کے اعتبار سے یا دعا میں یہ الفاظ کہے في عاجل أمري وآجله تو اسے میرے لیے مقدر کر دے اور اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے لیے برا ہے میرے دین کے لیے، میری زندگی کے لیے اور میرے انجام کار کے لیے یا یہ الفاظ فرمائے في عاجل أمري وآجله تو اسے مجھ سے پھیر دے اور مجھے اس سے پھیر دے اور میرے لیے بھلائی مقدر کر دے جہاں کہیں بھی وہ ہو اور پھر مجھے اس سے مطمئن کر دے (یہ دعا کرتے وقت) اپنی ضرورت کا بیان کردینا چاہیے۔
وضو کے وقت دعا کرنے کا بیان۔
ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا، کہا ہم سے اسامہ نے بیان کیا، ان سے برید بن عبداللہ نے، ان سے ابوبردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے پانی مانگا، پھر آپ ﷺ نے وضو کیا، پھر ہاتھ اٹھا کر یہ دعا کی اے اللہ ! عبید ابوعامر کی مغفرت فرما۔ میں نے اس وقت نبی کریم ﷺ کی بغل کی سفیدی دیکھی۔ پھر آپ ﷺ نے دعا کی اے اللہ ! قیامت کے دن اسے اپنی بہت سی انسانی مخلوق سے بلند مرتبہ عطا فرمائیو۔
باب
باب : کسی نشیب میں اترتے وقت کی دعا اس باب میں جابر (رض) کی حدیث ہے۔
سفر کا ارادہ کرنے کے وقت یا سفر سے واپسی کے قوت دعا پڑھنے کا بیان۔
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے نافع نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی غزوہ یا حج یا عمرہ سے واپس ہوتے تو زمین سے ہر بلند چیز پر چڑھتے وقت تین تکبیریں کہا کرتے تھے۔ پھر دعا کرتے لا إله إلا الله، وحده لا شريك له، له الملک وله الحمد، وهو على كل شيء قدير . آيبون تائبون عابدون، لربنا حامدون . صدق الله وعده . ونصر عبده، وهزم الأحزاب وحده اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اس کے لیے بادشاہی ہے اور اسی کے لیے تمام تعریفیں ہیں اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ لوٹتے ہیں ہم توبہ کرتے ہوئے اپنے رب کی عبادت کرتے ہوئے اور حمد بیان کرتے ہوئے۔ اللہ نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا، اپنے بندہ کی مدد کی اور تنہا تمام لشکر کو شکست دی۔
دولہا کے لئے دعا کرنے کا بیان۔
ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حماد بن زید (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے عبدالرحمٰن بن عوف (رض) پر زردی کا اثر دیکھا تو فرمایا یہ کیا ہے ؟ کہا کہ میں نے ایک عورت سے ایک گٹھلی کے برابر سونے پر شادی کی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تمہیں برکت عطا فرمائے، ولیمہ کر، چاہے ایک بکری کا ہی ہو۔
دولہا کے لئے دعا کرنے کا بیان۔
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے عمرو نے اور ان سے جابر (رض) نے بیان کیا کہ میرے والد شہید ہوئے تو انہوں نے سات یا نو لڑکیاں چھوڑی تھیں (راوی کو تعداد میں شبہ تھا) پھر میں نے ایک عورت سے شادی کی تو رسول اللہ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ جابر کیا تم نے شادی کرلی ہے ؟ میں نے کہا جی ہاں۔ فرمایا کنواری سے یا بیوہ سے ؟ میں نے کہا بیاہی سے۔ فرمایا، کسی لڑکی (کنواری ) سے کیوں نہ کی۔ تم اس کے ساتھ کھیلتے اور وہ تمہارے ساتھ کھیلتی یا (آپ ﷺ نے فرمایا کہ) تم اسے ہنساتے اور وہ تمہیں ہنساتی۔ میں نے عرض کی، میرے والد (عبداللہ) شہید ہوئے اور سات یا نو لڑکیاں چھوڑی ہیں۔ اس لیے میں نے پسند نہیں کیا کہ میں ان کے پاس انہی جیسی لڑکی لاؤں۔ چناچہ میں نے ایسی عورت سے شادی کی جو ان کی نگرانی کرسکے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تمہیں برکت عطا فرمائے۔ ابن عیینہ اور محمد بن مسلمہ نے عمرو سے روایت میں اللہ تمہیں برکت عطا فرمائے کے الفاظ نہیں کہے۔
جب اپنی بیوی کے پاس آئے تو کیا کہے۔
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے سالم نے، ان سے کریب نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے پاس آنے کا ارادہ کرے تو یہ دعا پڑھے باسم الله، اللهم جنبنا الشيطان، وجنب الشيطان ما رزقتنا اللہ کے نام سے، اے اللہ ! ہمیں شیطان سے دور رکھ اور جو کچھ تو ہمیں عطا فرمائے اسے بھی شیطان سے دور رکھ۔ تو اگر اس صحبت سے کوئی اولاد مقدر میں ہوگی تو شیطان اسے کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔
آنحضرت ﷺ کا ربنا آتنا فی الدنیا حسنۃ فرمانا۔۔
ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، ان سے عبدالعزیز نے بیان کیا اور ان سے انس (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کی اکثر یہ دعا ہوا کرتی تھی اللهم ربنا آتنا في الدنيا حسنة، وفي الآخرة حسنة، وقنا عذاب النار . اے اللہ ! ہمیں دنیا میں بھلائی ( حسنة ) عطا کر اور آخرت میں بھلائی عطا کر اور ہمیں دوزخ سے بچا۔
دنیا کے فتنہ سے پناہ مانگنے کا بیان۔
ہم سے فروہ بن ابی المغراء نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبیدہ بن حمید نے بیان کیا، ان سے عبدالملک بن عمیر نے بیان کیا، ان سے مصعب بن سعد بن ابی وقاص (رض) نے بیان کیا اور ان سے ان کے والد سعد بن ابی وقاص (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں یہ کلمات اس طرح سکھاتے تھے جیسے لکھنا سکھاتے تھے اللهم إني أعوذ بک من البخل، وأعوذ بک من الجبن، وأعوذ بك أن نرد إلى أرذل العمر، وأعوذ بک من فتنة الدنيا، و عذاب القبر. اے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں بخل سے اور تیری پناہ مانگتا ہوں دنیا کی آزمائش سے اور قبر کے عذاب سے۔
مکرر دعا کرنے کا بیان۔
ہم سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، کہا ہم سے انس بن عیاض نے بیان کیا، ان سے ہشام نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ پر جادو کیا گیا اور کیفیت یہ ہوئی کہ نبی کریم ﷺ سمجھنے لگے کہ فلاں کام آپ نے کرلیا ہے حالانکہ وہ کام آپ نے نہیں کیا تھا اور نبی کریم ﷺ نے اپنے رب سے دعا کی تھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں معلوم ہے، اللہ نے مجھے وہ وہ بات بتادی ہے جو میں نے اس سے پوچھی تھی۔ عائشہ (رض) نے پوچھا : یا رسول اللہ ! وہ خواب کیا ہے ؟ فرمایا میرے پاس دو مرد آئے اور ایک میرے سر کے پاس بیٹھ گیا اور دوسرا پاؤں کے پاس۔ پھر ایک نے اپنے دوسرے ساتھی سے کہا، ان صاحب کی بیماری کیا ہے ؟ دوسرے نے جواب دیا، ان پر جادو ہوا ہے۔ پہلے نے پوچھا کس نے جادو کیا ہے ؟ جواب دیا کہ لبید بن اعصم نے۔ پوچھا وہ جادو کس چیز میں ہے ؟ جواب دیا کہ کنگھی پر کھجور کے خوشہ میں۔ پوچھا وہ ہے کہاں ؟ کہا کہ ذروان میں اور ذروان بنی زریق کا ایک کنواں ہے۔ عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ پھر نبی کریم ﷺ اس کنویں پر تشریف لے گئے اور جب عائشہ (رض) کے پاس دوبارہ واپس آئے تو فرمایا واللہ ! اس کا پانی مہدی سے نچوڑے ہوئے پانی کی طرح تھا اور وہاں کے کھجور کے درخت شیطان کے سر کی طرح تھے۔ بیان کیا کہ پھر نبی کریم ﷺ تشریف لائے اور انہیں کنویں کے متعلق بتایا۔ میں نے کہا : یا رسول اللہ ! پھر آپ نے اسے نکالا کیوں نہیں ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے شفاء دے دی اور میں نے یہ پسند نہیں کیا کہ لوگوں میں ایک بری چیز پھیلاؤں۔ عیسیٰ بن یونس اور لیث نے ہشام سے اضافہ کیا کہ ان سے ان کے والد نے بیان کیا اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ پر جادو کیا گیا تو آپ برابر دعا کرتے رہے اور پھر پوری حدیث کو بیان کیا۔
مشرکین پر بدعا کرنے کا بیان۔ اور ابن مسعود نے کہا نبی ﷺ نے فرمایا اے اللہ تو ان کافروں کے خلاف یوسف (علیہ السلام) کے سات (قحط) کی طرح سات (قحط) کے ذریعے ہماری مدد فرما اور فرمایا یا اللہ ابوجہل پر لعنت فرما اور ابن عمر نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے نماز میں دعا فرمائی کہ یا اللہ فلاں فلاں پر لعنت کر یہاں تک کہ اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی۔
ہم سے ابن سلام نے بیان کیا، کہا ہم کو وکیع نے خبر دی، انہیں ابن ابی خالد نے، کہا میں نے ابن ابی اوفی (رض) سے سنا، کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے احزاب کے لیے بددعا کی اللهم منزل الکتاب، سريع الحساب، اهزم الأحزاب، اهزمهم وزلزلهم اے اللہ ! کتاب کے نازل کرنے والے ! حساب جلدی لینے والے ! احزاب کو (مشرکین کی جماعتوں کو، غزوہ احزاب میں) شکست دے، انہیں شکست دیدے اور انہیں جھنجوڑ دے۔
مشرکین پر بدعا کرنے کا بیان۔ اور ابن مسعود نے کہا نبی ﷺ نے فرمایا اے اللہ تو ان کافروں کے خلاف یوسف (علیہ السلام) کے سات (قحط) کی طرح سات (قحط) کے ذریعے ہماری مدد فرما اور فرمایا یا اللہ ابوجہل پر لعنت فرما اور ابن عمر نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے نماز میں دعا فرمائی کہ یا اللہ فلاں فلاں پر لعنت کر یہاں تک کہ اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی۔
ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا، ان سے ہشام نے بیان کیا، ان سے یحییٰ نے، ان سے ابوسلمہ نے بیان کیا، اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ جب عشاء کی آخر رکعت میں (رکوع سے اٹھتے ہوئے) سمع الله لمن حمده کہتے تھے تو دعائے قنوت پڑھتے تھے اللهم أنج عياش بن أبي ربيعة، اللهم أنج الوليد بن الوليد، اللهم أنج سلمة بن هشام، اللهم أنج المستضعفين من المؤمنين، اللهم اشدد وطأتک على مضر، اللهم اجعلها سنين كسني يوسف اے اللہ ! عیاش بن ابی ربیعہ کو نجات دے، اے اللہ ! ولید بن ولید کو نجات دے، اے اللہ ! سلمہ بن ہشام کو نجات دے، اے اللہ ! کمزور ناتواں مومنوں کو نجات دے، اے اللہ ! اے اللہ ! قبیلہ مضر پر اپنی پکڑ کو سخت کر دے، اے اللہ ! وہاں ایسا قحط پیدا کر دے جیسا یوسف (علیہ السلام) کے زمانہ میں ہوا تھا۔
مشرکین پر بدعا کرنے کا بیان۔ اور ابن مسعود نے کہا نبی ﷺ نے فرمایا اے اللہ تو ان کافروں کے خلاف یوسف (علیہ السلام) کے سات (قحط) کی طرح سات (قحط) کے ذریعے ہماری مدد فرما اور فرمایا یااللہ ابوجہل پر لعنت فرما اور ابن عمر نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے نماز میں دعا فرمائی کہ یااللہ فلاں فلاں پر لعنت کر یہاں تک کہ اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی۔
ہم سے حسن بن ربیع نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوالاحوص نے بیان کیا، ان سے عاصم نے اور ان سے انس (رض) نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہم بھیجی، جس میں شریک لوگوں کو قراء (یعنی قرآن مجید کے قاری) کہا جاتا تھا۔ ان سب کو شہید کردیا گیا۔ میں نے نہیں دیکھا کہ نبی کریم ﷺ کو کبھی کسی چیز کا اتنا غم ہوا ہو جتنا آپ کو ان کی شہادت کا غم ہوا تھا۔ چناچہ نبی کریم ﷺ نے ایک مہینے تک فجر کی نماز میں ان کے لیے بددعا کی، آپ کہتے کہ عصیہ نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی۔
مشرکین پر بدعا کرنے کا بیان۔ اور ابن مسعود نے کہا نبی ﷺ نے فرمایا اے اللہ تو ان کافروں کے خلاف یوسف (علیہ السلام) کے سات (قحط) کی طرح سات (قحط) کے ذریعے ہماری مدد فرما اور فرمایا یااللہ ابوجہل پر لعنت فرما اور ابن عمر نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے نماز میں دعا فرمائی کہ یااللہ فلاں فلاں پر لعنت کر یہاں تک کہ اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی۔
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ہشام نے بیان کیا، انہیں معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں عروہ بن زبیر نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ یہود نبی کریم ﷺ کو سلام کرتے تو کہتے السام عليك. آپ کو موت آئے۔ عائشہ (رض) ان کا مقصد سمجھ گئیں اور جواب دیا کہ عليكم السام واللعنة. تمہیں موت آئے اور تم پر لعنت ہو۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ٹھہرو عائشہ ! اللہ تمام امور میں نرمی کو پسند کرتا ہے۔ عائشہ (رض) نے عرض کیا : اے اللہ کے نبی ! کیا آپ نے نہیں سنا یہ لوگ کیا کہتے ہیں ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تم نے نہیں سنا کہ میں انہیں کس طرح جواب دیتا ہوں۔ میں کہتا ہوں وعليكم۔
مشرکین پر بدعا کرنے کا بیان۔ اور ابن مسعود نے کہا نبی ﷺ نے فرمایا اے اللہ تو ان کافروں کے خلاف یوسف (علیہ السلام) کے سات (قحط) کی طرح سات (قحط) کے ذریعے ہماری مدد فرما اور فرمایا یااللہ ابوجہل پر لعنت فرما اور ابن عمر نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے نماز میں دعا فرمائی کہ یااللہ فلاں فلاں پر لعنت کر یہاں تک کہ اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی۔
ہم سے محمد بن مثنی ٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے انصاری نے بیان کیا، ان سے ہشام بن حسان نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن سیرین نے بیان کیا، ان سے عبیدہ نے بیان کیا، کہا ہم سے علی بن ابی طالب (رض) نے بیان کیا کہ غزوہ خندق کے موقع پر ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اللہ ان کی قبروں اور ان کے گھروں کو آگ سے بھر دے۔ انہوں نے ہمیں صلاة الوسطى (عصر کی نماز) نہیں پڑھنے دی جب تک کہ سورج غروب ہوگیا اور یہ عصر کی نماز تھی۔
مشرکین کے لئے بددعا کرنے کا بیان۔
ہم سے علی نے بیان کیا، ان سے سفیان نے کہا، ان سے ابوالزناد نے، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ طفیل بن عمرو (رض) رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! قبیلہ دوس نے نافرمانی اور سرکشی کی ہے، آپ ان کے لیے بددعا کیجئے۔ لوگوں نے سمجھا کہ نبی کریم ﷺ ان کے لیے بددعا ہی کریں گے لیکن نبی کریم ﷺ نے دعا کی کہ اے اللہ ! قبیلہ دوس کو ہدایت دے اور انہیں (میرے پاس) بھیج دے۔
نبی ﷺ کا فرمانا کہ یا اللہ مجھے معاف کر دے جو میں نے پہلے کیا ہے اور جو میں نے اخیر میں کیا ہے۔
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالملک بن صباح نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، ان سے ابواسحاق نے، ان سے ابن ابی موسیٰ نے، ان سے ان کے والد نے کہ نبی کریم ﷺ یہ دعا کرتے تھے رب اغفر لي خطيئتي وجهلي وإسرافي في أمري كله، وما أنت أعلم به مني، اللهم اغفر لي خطاياى وعمدي وجهلي وهزلي، وکل ذلک عندي، اللهم اغفر لي ما قدمت وما أخرت وما أسررت وما أعلنت، أنت المقدم، وأنت المؤخر، وأنت على كل شىء قدير میرے رب ! میری خطا، میری نادانی اور تمام معاملات میں میرے حد سے تجاوز کرنے میں میری مغفرت فرما اور وہ گناہ بھی جن کو تو مجھ سے زیادہ جاننے والا ہے۔ اے اللہ ! میری مغفرت کر، میری خطاؤں میں، میرے بالا ارادہ اور بلا ارادہ کاموں میں اور میرے ہنسی مزاح کے کاموں میں اور یہ سب میری ہی طرف سے ہیں۔ اے اللہ ! میری مغفرت کر ان کاموں میں جو میں کرچکا ہوں اور انہیں جو کروں گا اور جنہیں میں نے چھپایا اور جنہیں میں نے ظاہر کیا ہے، تو سب سے پہلے ہے اور تو ہی سب سے بعد میں ہے اور تو ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ اور عبیداللہ بن معاذ (جو امام بخاری (رح) کے شیخ ہیں) نے بیان کیا کہ ہم سے میرے والد نے بیان کیا کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق نے، ان سے ابوبردہ بن ابی موسیٰ نے اور ان سے ان کے والد نے اور ان سے نبی کریم ﷺ نے۔
نبی ﷺ کا فرمانا کہ یا اللہ مجھے معاف کر دے جو میں نے پہلے کیا ہے اور جو میں نے اخیر میں کیا ہے۔
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبیداللہ بن عبدالمجید نے بیان کیا، کہا ہم سے اسرائیل نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق نے بیان کیا، ان سے ابوبکر بن ابی موسیٰ اور ابوبردہ نے میرا خیال ہے کہ ابوموسیٰ اشعری (رض) کے حوالہ سے کہ نبی کریم ﷺ یہ دعا کیا کرتے تھے اللهم اغفرلي خطيئتي وجهلي وإسرافي في أمري، وما أنت أعلم به مني، اللهم اغفر لي هزلي وجدي وخطاى وعمدي، وكل ذلک عندي. اے اللہ ! میری مغفرت فرما میری خطاؤں میں، میری نادانی میں اور میری کسی معاملہ میں زیادتی میں، ان باتوں میں جن کا تو مجھ سے زیادہ جاننے والا ہے۔ اے اللہ ! میری مغفرت کر میرے ہنسی مزاح اور سنجیدگی میں اور میرے ارادہ میں اور یہ سب کچھ میری ہی طرف سے ہیں۔
جمعہ کے دن (مقبول) ساعت میں دعا کرنے کا بیان۔
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن ابراہیم نے، انہیں ایوب نے خبر دی، انہیں محمد نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ ابوالقاسم ﷺ نے فرمایا کہ جمعہ کے دن ایک ایسی گھڑی آتی ہے جس میں اگر کوئی مسلمان اس حال میں پالے کہ وہ کھڑا نماز پڑھ رہا ہو تو جو بھلائی بھی وہ مانگے گا اللہ عنایت فرمائے گا اور آپ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ فرمایا اور ہم نے اس سے یہ سمجھا کہ نبی کریم ﷺ اس گھڑی کے مختصر ہونے کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔
نبی ﷺ کا فرمانا، کہ یہود کے متعلق ہماری دعا مقبول ہوتی ہے، اور ہمارے متعلق ان کی دعا مقبول نہیں ہوتی ہے۔
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالوہاب نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ایوب نے بیان کیا، ان سے ابن ابی ملیکہ نے اور ان سے عائشہ (رض) نے کہ یہود نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا السام عليك. نبی کریم ﷺ نے جواب دیا وعليكم. لیکن عائشہ (رض) نے کہا السام عليكم، ولعنکم الله وغضب عليكم. نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ٹھہر، عائشہ ! نرم خوئی اختیار کر اور سختی اور بدکلامی سے ہمیشہ پرہیز کر۔ انہوں نے کہا : کیا آپ نے نہیں سنا کہ یہودی کیا کہہ رہے تھے ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تم نے نہیں سنا کہ میں نے انہیں کیا جواب دیا، میں نے ان کی بات انہیں پر لوٹا دی اور میری ان کے بدلے میں دعا قبول کی گئی اور ان کی میرے بارے میں قبول نہیں کی گئی۔
آمین کہنے کا بیان
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا کہ زہری نے بیان کیا کہ ہم سے سعید بن مسیب نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جب پڑھنے والا آمین کہے تو تم بھی آمین کہو کیونکہ اس وقت ملائکہ بھی آمین کہتے ہیں اور جس کی آمین ملائکہ کی آمین کے ساتھ ہوتی ہے اس کے پچھلے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔
لا الہ الا اللہ کہنے کی فضیلت کا بیان۔
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے سمی نے، ان سے ابوصالح نے، ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے یہ کلمہ کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کے لیے بادشاہی ہے اور اسی کے لیے تعریفیں ہیں اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ دن میں سو دفعہ پڑھا اسے دس غلاموں کو آزاد کرنے کا ثواب ملے گا اور اس کے لیے سو نیکیاں لکھ دی جائیں گی اور اس کی سو برائیاں مٹا دی جائیں گی اور اس دن وہ شیطان کے شر سے محفوظ رہے گا شام تک کے لیے اور کوئی شخص اس دن اس سے بہتر کام کرنے والا نہیں سمجھا جائے گا، سوا اس کے جو اس سے زیادہ کرے۔
لا الہ الا اللہ کہنے کی فضیلت کا بیان۔
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالملک بن عمرو نے، کہا کہ ہم سے عمر بن ابی زائد نے، ان سے ابواسحاق سبیعی نے، ان سے عمرو بن میمون نے بیان کیا کہ جس نے یہ کلمہ دس مرتبہ پڑھ لیا وہ ایسا ہوگا جیسے اس نے ایک عربی غلام آزاد کیا۔ اسی سند سے عمر بن ابی زائدہ نے بیان کیا کہ ہم سے عبداللہ بن ابی السفر نے بیان کیا، ان سے شعبی نے، ان سے ربیع بن خثیم نے یہی مضمون تو میں نے ربیع بن خثیم سے پوچھا کہ تم نے کس سے یہ حدیث سنی ہے ؟ انہوں نے کہا کہ عمرو بن میمون اودی سے۔ پھر میں عمرو بن میمون کے پاس آیا اور ان سے دریافت کیا کہ تم نے یہ حدیث کس سے سنی ہے ؟ انہوں نے کہا کہ ابن ابی لیلیٰ سے۔ (پھر میں) ابن ابی لیلیٰ کے پاس آیا اور پوچھا کہ تم نے یہ حدیث کس سے سنی ہے ؟ انہوں نے کہا کہ ابوایوب انصاری (رض) سے، وہ یہ حدیث نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے تھے اور ابراہیم بن یوسف نے بیان کیا، ان سے ان کے والد یوسف بن اسحاق نے، ان سے ابواسحاق سبیعی نے، انہوں نے کہا کہ مجھ سے عمرو بن میمون اودی نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ نے اور ان سے ابوایوب انصاری (رض) نے نبی کریم ﷺ سے یہی حدیث نقل کی۔ اور موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا کہ ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا، ان سے داؤد بن ابی ہند نے، ، ان سے عامر شعبی نے، ان سے عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ نے اور ان سے ابوایوب (رض) نے، انہوں نے نبی کریم ﷺ سے۔ اور اسماعیل بن ابی خالد نے بیان کیا، ان سے شعبی نے، ان سے ربیع نے موقوفاً ان کا قول نقل کیا۔ اور آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالملک بن میسرہ نے بیان کیا، کہا میں نے ہلال بن یساف سے سنا، ان سے ربیع بن خثیم اور عمرو بن میمون دونوں نے اور ان سے ابن مسعود (رض) نے۔ اور اعمش اور حصین دونوں نے ہلال سے بیان کیا، ان سے ربیع بن خثیم نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے، یہی حدیث روایت کی۔ اور ابو محمد حضرمی نے ابوایوب (رض) سے، انہوں نبی کریم ﷺ سے مرفوعاً اسی حدیث کو روایت کیا۔
سبحان اللہ پڑھنے کی فضیلت کا بیان
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے سمی نے بیان کیا، ان سے ابوصالح نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے سبحان الله وبحمده. دن میں سو مرتبہ کہا، اس کے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں، خواہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں۔
سبحان اللہ پڑھنے کی فضیلت کا بیان۔
ہم سے زہیر بن حرب نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابن فضیل نے بیان کیا، ان سے عمارہ نے، ان سے ابوزرعہ نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا دو کلمے جو زبان پر ہلکے ہیں ترازو میں بہت بھاری اور رحمان کو عزیز ہیں سبحان الله العظيم، سبحان الله وبحمده۔
اللہ بزرگ وبرتر کے ذکر کی فضیلت کا بیان۔
ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے یزید بن عبداللہ نے، ان سے ابوبردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اس شخص کی مثال جو اپنے رب کو یاد کرتا ہے اور اس کی مثال جو اپنے رب کو یاد نہیں کرتا زندہ اور مردہ جیسی ہے۔
اللہ بزرگ وبرتر کے ذکر کی فضیلت کا بیان۔
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابوصالح نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ کے کچھ فرشتے ایسے ہیں جو راستوں میں پھرتے رہتے ہیں اور اللہ کی یاد کرنے والوں کو تلاش کرتے رہتے ہیں۔ پھر جہاں وہ کچھ ایسے لوگوں کو پالیتے ہیں کہ جو اللہ کا ذکر کرتے ہوتے ہیں تو ایک دوسرے کو آواز دیتے ہیں کہ آؤ ہمارا مطلب حاصل ہوگیا۔ پھر وہ پہلے آسمان تک اپنے پروں سے ان پر امنڈتے رہتے ہیں۔ پھر ختم پر اپنے رب کی طرف چلے جاتے ہیں۔ پھر ان کا رب ان سے پوچھتا ہے .... حالانکہ وہ اپنے بندوں کے متعلق خوب جانتا ہے .... کہ میرے بندے کیا کہتے تھے ؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ وہ تیری تسبیح پڑھتے تھے، تیری کبریائی بیان کرتے تھے، تیری حمد کرتے تھے اور تیری بڑائی کرتے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے کیا انہوں نے مجھے دیکھا ہے ؟ کہا کہ وہ جواب دیتے ہیں نہیں، واللہ ! انہوں نے تجھے نہیں دیکھا۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، پھر ان کا اس وقت کیا حال ہوتا جب وہ مجھے دیکھے ہوئے ہوتے ؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ اگر وہ تیرا دیدار کرلیتے تو تیری عبادت اور بھی بہت زیادہ کرتے، تیری بڑائی سب سے زیادہ بیان کرتے، تیری تسبیح سب سے زیادہ کرتے۔ پھر اللہ تعالیٰ دریافت کرتا ہے، پھر وہ مجھ سے کیا مانگتے ہیں ؟ فرشتے کہتے ہیں کہ وہ جنت مانگتے ہیں۔ بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ دریافت کرتا ہے کیا انہوں نے جنت دیکھی ہے ؟ فرشتے جواب دیتے ہیں نہیں، واللہ اے رب ! انہوں نے تیری جنت نہیں دیکھی۔ بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ دریافت کرتا ہے ان کا اس وقت کیا عالم ہوتا اگر انہوں نے جنت کو دیکھا ہوتا ؟ فرشتے جواب دیتے ہیں کہ اگر انہوں نے جنت کو دیکھا ہوتا تو وہ اس سے اور بھی زیادہ خواہشمند ہوتے، سب سے بڑھ کر اس کے طلب گار ہوتے۔ پھر اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے کہ وہ کس چیز سے پناہ مانگتے ہیں ؟ فرشتے جواب دیتے ہیں، دوزخ سے۔ اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے کیا انہوں نے جہنم دیکھا ہے ؟ وہ جواب دیتے ہیں نہیں، واللہ، انہوں نے جہنم کو دیکھا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، پھر اگر انہوں نے اسے دیکھا ہوتا تو ان کا کیا حال ہوتا ؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ اگر انہوں نے اسے دیکھا ہوتا تو اس سے بچنے میں وہ سب سے آگے ہوتے اور سب سے زیادہ اس سے خوف کھاتے۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے ان کی مغفرت کی۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اس پر ان میں سے ایک فرشتے نے کہا کہ ان میں فلاں بھی تھا جو ان ذاکرین میں سے نہیں تھا، بلکہ وہ کسی ضرورت سے آگیا تھا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ یہ (ذاکرین) وہ لوگ ہیں جن کی مجلس میں بیٹھنے والا بھی نامراد نہیں رہتا۔ اس حدیث کو شعبہ نے بھی اعمش سے روایت کیا لیکن اس کو مرفوع نہیں کیا۔ اور سہیل نے بھی اس کو اپنے والدین ابوصالح سے روایت کیا، انہوں نے ابوہریرہ (رض) سے، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔
لاحول ولاقوۃ الا باللہ کہنے کا بیان۔
ہم سے ابوالحسن محمد بن مقاتل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم کو سلیمان بن طرخان تیمی نے خبر دی، انہیں ابوعثمان نہدی نے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ ایک گھاٹی یا درے پر چڑھنے لگے۔ بیان کیا کہ جب ایک اور صحابی بھی اس پر چڑھ گئے تو انہوں نے بلند آواز سے لا إله إلا الله والله أكبر. کہا۔ راوی نے بیان کیا کہ اس وقت نبی کریم ﷺ اپنے خچر پر سوار تھے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تم لوگ کسی بہرے یا غائب کو نہیں پکارتے۔ پھر فرمایا، ابوموسیٰ یا تو یوں (فرمایا) اے عبداللہ بن قیس ! کیا میں تمہیں ایک کلمہ نہ بتادوں جو جنت کے خزانوں میں سے ہے۔ میں نے عرض کیا، ضرور ارشاد فرمائیں، فرمایا کہ لا حول ولا قوة إلا بالله۔
اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں۔
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم نے یہ حدیث ابوالزناد سے یاد کی، ان سے اعرج نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے روایتاً بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں، ایک کم سو، جو شخص بھی انہیں یاد کرلے گا جنت میں جائے گا۔ اللہ طاق ہے اور طاق کو پسند کرتا ہے۔
کچھ وقفہ سے وعظ کہنے کا بیان۔
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے شقیق نے بیان کیا، کہا کہ ہم عبداللہ بن مسعود (رض) کا انتظار کر رہے تھے کہ یزید بن معاویہ آئے۔ ہم نے کہا، تشریف رکھئے لیکن انہوں نے جواب دیا کہ نہیں، میں اندر جاؤں گا اور تمہارے ساتھ (عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ) کو باہر لاؤں گا۔ اگر وہ نہ آئے تو میں ہی تنہا آجاؤں گا اور تمہارے ساتھ بیٹھوں گا۔ پھر عبداللہ بن مسعود (رض) باہر تشریف لائے اور وہ یزید بن معاویہ کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے پھر ہمارے سامنے کھڑے ہوئے کہنے لگے میں جان گیا تھا کہ تم یہاں موجود ہو۔ پس میں جو نکلا تو اس وجہ سے کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا آپ مقررہ دنوں میں ہم کو وعظ فرمایا کرتے تھے، (فاصلہ دے کر) آپ کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ کہیں ہم اکتا نہ جائیں۔