65. دل کو نرم کرنے والی باتوں کا بیان
دل کو نرم کرنے والی باتوں کا بیان، اور یہ کہ آخرت ہی کی زندگی زندگی ہے۔
ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عبداللہ بن سعید نے خبر دی، وہ ابوہند کے صاحب زادے ہیں، انہیں ان کے والد نے اور ان سے عبداللہ بن عباس (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا دو نعمتیں ایسی ہیں کہ اکثر لوگ ان کی قدر نہیں کرتے، صحت اور فراغت۔ عباس عنبری نے بیان کیا کہ ہم سے صفوان بن عیسیٰ نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن ابی ہند نے، ان سے ان کے والد نے کہ میں نے عبداللہ بن عباس (رض) سے سنا، انہوں نے نبی کریم ﷺ سے اسی حدیث کی طرح۔
دل کو نرم کرنے والیل باتوں کا بیان، اور یہ کہ آخرت ہی کی زندگی زندگی ہے۔
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے معاویہ بن قرہ نے اور ان سے انس (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اللهم لا عيش إلا عيش الآخره، فأصلح الأنصار والمهاجره اے اللہ ! آخرت کی زندگی کے سوا اور کوئی زندگی نہیں۔ پس تو انصار و مہاجرین میں صلاح کو باقی رکھ۔
دل کو نرم کرنے والیل باتوں کا بیان، اور یہ کہ آخرت ہی کی زندگی زندگی ہے۔
ہم سے احمد بن مقدام نے بیان کیا، کہا ہم سے فضیل بن سلیمان نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوحازم نے بیان کیا، ان سے سہل بن سعد ساعدی (رض) نے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوہ خندق کے موقع پر موجود تھے، نبی کریم ﷺ بھی خندق کھودتے جاتے تھے اور ہم مٹی کو اٹھاتے جاتے اور نبی کریم ﷺ ہمارے قریب سے گزرتے ہوئے فرماتے اللهم لا عيش إلا عيش الآخره، فاغفر للأنصار والمهاجره اے اللہ ! زندگی تو بس آخرت ہی کی زندگی ہے، پس تو انصار و مہاجرین کی مغفرت کر۔ اس روایت کی متابعت سہل بن سعد (رض) نے بھی نبی کریم ﷺ سے کی ہے۔
آخرت میں دنیا کی مثال ( کیسی ہے) اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ دینوی زندگی کھیل کود ہے، اور زینت ہے اور ایک دوسرے پر فخر کرنا اور مال و اولاد کی زیادتی طلب کرنا ہے، جیسے حالت ایک مینہ کی، جو خوش لگا کرتا ہے کسانوں کو اس کا سبزہ، پھر زور پر آتا ہے پھر دیکھے تو اس کو زرد ہوگیا، پھر ہوجاتا ہے روندا ہوا گھاس اور آخرت میں سخت عذاب ہے اور معافی بھی ہے اللہ سے اور رضا مندی اور دنیا کی زندگی تو یہی ہے پونچی دھوکے کی۔
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالعزیز بن ابی حازم نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے سہل (رض) نے بیان کیا کہ میں نے آپ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جنت میں ایک کوڑے جتنی جگہ دنیا اور اس میں جو کچھ ہے سب سے بہتر ہے اور اللہ کے راستے میں صبح کو یا شام کو تھوڑا سا چلنا بھی الدنيا وما فيها سے بہتر ہے۔
نبی ﷺ کا فرمانا کہ دنیا میں اس طرح رہو گویا مسافر یا راستہ طے کرنے والے ہو۔
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے محمد بن عبدالرحمٰن ابومنذر طفاوی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سلیمان اعمش نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے مجاہد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے میرا شانہ پکڑ کر فرمایا دنیا میں اس طرح ہوجا جیسے تو مسافر یا راستہ چلنے والا ہو۔ عبداللہ بن عمر (رض) فرمایا کرتے تھے شام ہوجائے تو صبح کے منتظر نہ رہو اور صبح کے وقت شام کے منتظر نہ رہو، اپنی صحت کو مرض سے پہلے غنیمت جانو اور زندگی کو موت سے پہلے۔
امید اور اس کی درازی کا بیان اور اللہ تعالیٰ کا قول، جس شخص کو جہنم سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کیا گیا تو وہ کامیاب رہا، اور دینوی زندگی صرف دھو کے کا سامان ہے، ان کو چھوڑ دو کہ کھائیں اور فائدہ حاصل کریں، اور ان کو درازی عمر کی امید ایمان سے روکتی ہے، عنقریب ان کو معلوم ہوجائے گا اور حضرت علی (رض) نے فرمایا کہ دنیا پیٹھ پھیر کر جانے والی ہے، اور آخرت آنے والی ہے، اور اور ان میں سے ہر ایک کے لئے فرزند ہیں تو وہ آخرت کے فرزند بنیں، دنیا کے فرزند نہ بنیں اس لئے کہ آج عمل کا دن ہے حساب کا نہیں، اور کل حساب کا دن ہوگا، عمل کا نہیں مزحزحہ، مباعدہ کے معنی میں ہے۔
ہم سے صدقہ بن فضل نے بیان کیا، کہا ہم کو یحییٰ قطان نے خبر دی، ان سے سفیان ثوری نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، ان سے منذر بن یعلیٰ نے، ان سے ربیع بن خثیم نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے چوکھٹا خط کھینچا۔ پھر اس کے درمیان ایک خط کھینچا جو چوکھٹے کے درمیان میں تھا۔ اس کے بعد درمیان والے خط کے اس حصے میں جو چوکھٹے کے درمیان میں تھا چھوٹے چھوٹے بہت سے خطوط کھینچے اور پھر فرمایا کہ یہ انسان ہے اور یہ اس کی موت ہے جو اسے گھیرے ہوئے ہے اور یہ جو (بیچ کا) خط باہر نکلا ہوا ہے وہ اس کی امید ہے اور چھوٹے چھوٹے خطوط اس کی دنیاوی مشکلات ہیں۔ پس انسان جب ایک (مشکل) سے بچ کر نکلتا ہے تو دوسری میں پھنس جاتا ہے اور دوسری سے نکلتا ہے تو تیسری میں پھنس جاتا ہے۔
امید اور اس کی درازی کا بیان اور اللہ تعالیٰ کا قول، کو شخص جہنم سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کیا گیا تو وہ کامیاب رہا، اور دینوی زندگی صرف دھو کے کا سامان ہے، ان کو چھوڑ دو کہ کھائیں اور فائدہ حاصل کریں، اور ان کو درازی عمر کی امید ایمان سے روکتی ہے، عنقریب ان کو معلوم ہوجائے گا اور حضرت علی (رض) نے فرمایا کہ دنیا پیٹھ پھیر کر جانے والی ہے، اور آخرت آنے والی ہے، اور ان میں سے ہر ایک کے لئے فرزند میں بھی آخر تکت فرزند بنو، دنیا کے فرزند نہ بنو، اس لئے کہ آج عمل کا دن ہے حساب کا نہیں، اور کل حساب کا دن ہوگا، عمل کا نہیں مزحزحہ مباعدہ کے معنی میں ہے۔
ہم سے مسلم بن ابراہیم فراہیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمام بن یحییٰ نے بیان کیا، ان سے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے اور ان سے انس (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے چند خطوط کھینچے اور فرمایا کہ یہ امید ہے اور یہ موت ہے، انسان اسی حالت (امیدوں تک پہنچنے کی) میں رہتا ہے کہ قریب والا خط (موت) اس تک پہنچ جاتا ہے۔
جس کی عمر ساٹھ سال ہوجائے تو اللہ عمر کے متعلق اس کے عذر کو قبول نہ کرے گا، کیونکہ اللہ نے فرمایا، کیا ہم نے تمہیں وہ عمر نہ دی، کہ جو اس میں نصیحت حاصل کرنا چاہتا، کرلیتا، اور تمہارے پاس ڈرانے والا بھی آیا۔
ہم سے عبدالسلام بن مطہر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عمر بن علی بن عطاء نے بیان کیا، ان سے معن بن محمد غفاری نے، ان سے سعید بن ابی سعید مقبری نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے اس آدمی کے عذر کے سلسلے میں حجت تمام کردی جس کی موت کو مؤخر کیا یہاں تک کہ وہ ساٹھ سال کی عمر کو پہنچ گیا۔ اس روایت کی متابعت ابوحازم اور ابن عجلان نے مقبری سے کی۔
جس کی عمر ساٹھ سال ہوجائے تو اللہ عمر کے متعلق اس کے عذر کو قبول نہ کرے گا، کیونکہ اللہ نے فرمایا، کیا ہم نے تمہیں وہ عمر نہ دی، کہ جو اس میں نصیحت حاصل کرنا چاہتا، کرلیتا، اور تمہارے پاس ڈرانے والا بھی آیا۔
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابوصفوان عبداللہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یونس نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا کہ ہم کو سعید بن مسیب نے خبر دی اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، نبی کریم ﷺ نے فرمایا بوڑھے انسان کا دل دو چیزوں کے بارے میں ہمیشہ جوان رہتا ہے، دنیا کی محبت اور زندگی کی لمبی امید۔ لیث نے بیان کیا کہ مجھ سے یونس نے بیان کیا اور یونس نے ابن شہاب سے بیان کیا کہ مجھے سعید اور ابوسلمہ نے خبر دی۔
جس کی عمر ساٹھ سال ہوجائے تو اللہ عمر کے متعلق اس کے عذر کو قبول نہ کرے گا، کیونکہ اللہ نے فرمایا، کیا ہم نے تمہیں وہ عمر نہ دی، کہ جو اس میں نصیحت حاصل کرنا چاہتا، کرلیتا، اور تمہارے پاس ڈرانے والا بھی آیا۔
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے بیان کیا اور ان سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا انسان کی عمر بڑھتی جاتی ہے اور اس کے ساتھ دو چیزیں اس کے اندر بڑھتی جاتی ہیں، مال کی محبت اور عمر کی درازی۔ اس کی روایت شعبہ نے قتادہ سے کی ہے۔
اس عمل کا بیان، جو صرف اللہ کی خوشنودی کے لئے کیا جائے، اس بات میں سعد (رض) کی روایت ہے۔
ہم سے معاذ بن اسد نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں معمر نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا کہ مجھے محمود بن ربیع انصاری نے خبر دی اور وہ کہتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ کی یہ بات خوب میرے ذہن میں محفوظ ہے۔ انہیں یاد ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ان کے ایک ڈول میں سے پانی لے کر مجھ پر کلی کردی تھی۔ انہوں نے بیان کیا کہ عتبان بن مالک انصاری (رض) سے میں نے سنا، پھر بنی سالم کے ایک صاحب سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ میرے یہاں تشریف لائے اور فرمایا کوئی بندہ جب قیامت کے دن اس حالت میں پیش ہوگا کہ اس نے کلمہ لا إله إلا الله کا اقرار کیا ہوگا اور اس سے اس کا مقصود اللہ کی خوشنودی حاصل کرنا ہوگی تو اللہ تعالیٰ دوزخ کی آگ کو اس پر حرم کر دے گا۔
اس عمل کا بیان، جو صرف اللہ کی خوشنودی کے لئے کیا جائے، اس بات میں سعد (رض) کی روایت ہے۔
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے یعقوب بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، ان سے عمرو بن ابی عمرو نے، ان سے سعید مقبری نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے اس مومن بندے کا جس کی، میں کوئی عزیز چیز دنیا سے اٹھا لوں اور وہ اس پر ثواب کی نیت سے صبر کرلے، تو اس کا بدلہ میرے یہاں جنت کے سوا اور کچھ نہیں۔
دنیا کی زینت سے بچنے، اور اس کی طرف رغبت کرنے کا بیان۔
ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے اسماعیل بن ابراہیم بن عقبہ نے بیان کیا، ان سے موسیٰ بن عقبہ نے کہا کہ ابن شہاب نے بیان کیا کہ مجھ سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا اور انہیں مسور بن مخرمہ (رض) نے خبر دی کہ عمرو بن عوف (رض) جو بنی عامر بن عدی کے حلیف تھے اور بدر کی لڑائی میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے، انہوں نے انہیں خبر دی کہ نبی کریم ﷺ نے ابوعبیدہ بن الجراح (رض) کو بحرین وہاں کا جزیہ لانے کے لیے بھیجا، نبی کریم ﷺ نے بحرین والوں سے صلح کرلی تھی اور ان پر علاء بن الحضرمی کو امیر مقرر کیا تھا۔ جب ابوعبیدہ (رض) بحرین سے جزیہ کا مال لے کر آئے تو انصار نے ان کے آنے کے متعلق سنا اور صبح کی نماز نبی کریم ﷺ کے ساتھ پڑھی اور جب نبی کریم ﷺ انہیں دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا میرا خیال ہے کہ ابوعبیدہ کے آنے کے متعلق تم نے سن لیا ہے اور یہ بھی کہ وہ کچھ لے کر آئے ہیں ؟ انصار نے عرض کیا : جی ہاں، یا رسول اللہ ! نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پھر تمہیں خوشخبری ہو تم اس کی امید رکھو جو تمہیں خوش کر دے گی، اللہ کی قسم ! فقر و محتاجی وہ چیز نہیں ہے جس سے میں تمہارے متعلق ڈرتا ہوں بلکہ میں تو اس سے ڈرتا ہوں کہ دنیا تم پر بھی اسی طرح کشادہ کردی جائے گی، جس طرح ان لوگوں پر کردی گئی تھی جو تم سے پہلے تھے اور تم بھی اس کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی اسی طرح کوشش کرو گے جس طرح وہ کرتے تھے اور تمہیں بھی اسی طرح غافل کر دے گی جس طرح ان کو غافل کیا تھا۔
دنیا کی زینت سے بچنے، اور اس کی طرف رغبت کرنے کا بیان۔
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے یزید بن ابی حبیب نے بیان کیا، ان سے ابوالخیر نے بیان کیا اور ان سے عقبہ بن عامر (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ باہر تشریف لائے اور جنگ احد کے شہیدوں کے لیے اس طرح نماز پڑھی جس طرح مردہ پر نماز پڑھی جاتی ہے۔ پھر آپ ﷺ ممبر پر تشریف لائے اور فرمایا آخرت میں میں تم سے آگے جاؤں گا اور میں تم پر گواہ ہوں گا، واللہ میں اپنے حوض کو اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں اور مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں یا (فرمایا کہ) زمین کی کنجیاں دی گئی ہیں اور اللہ کی قسم ! میں تمہارے متعلق اس سے نہیں ڈرتا کہ تم میرے بعد شرک کرو گے بلکہ مجھے تمہارے متعلق یہ خوف ہے کہ تم دنیا کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنے لگو گے۔
دنیا کی زینت سے بچنے، اور اس کی طرف رغبت کرنے کا بیان۔
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے زید بن اسلم نے، ان سے عطا بن یسار نے اور ان سے ابوسعید (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں تمہارے متعلق سب سے زیادہ اس سے خوف کھاتا ہوں کہ جب اللہ تعالیٰ زمین کی برکتیں تمہارے لیے نکال دے گا۔ پوچھا گیا زمین کی برکتیں کیا ہیں ؟ فرمایا کہ دنیا کی چمک دمک، اس پر ایک صحابی نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا کیا بھلائی سے برائی پیدا ہوسکتی ہے ؟ نبی کریم ﷺ اس پر خاموش ہوگئے اور ہم نے خیال کیا کہ شاید آپ پر وحی نازل ہو رہی ہے۔ اس کے بعد اپنی پیشانی کو صاف کرنے لگے اور دریافت فرمایا، پوچھنے والے کہاں ہیں ؟ پوچھنے والے نے کہا کہ حاضر ہوں۔ ابو سعید خدری (رض) نے کہا کہ جب اس سوال کا حل ہمارے سامنے آگیا تو ہم نے ان صاحب کی تعریف کی۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ بھلائی سے تو صرف بھلائی ہی پیدا ہوتی ہے لیکن یہ مال سرسبز اور خوشگوار (گھاس کی طرح) ہے اور جو چیز بھی ربیع کے موسم میں اگتی ہیں وہ حرص کے ساتھ کھانے والوں کو ہلاک کردیتی ہیں یا ہلاکت کے قریب پہنچا دیتی ہیں۔ سوائے اس جانور کے جو پیٹ بھر کے کھائے کہ جب اس نے کھالیا اور اس کی دونوں کوکھ بھر گئیں تو اس نے سورج کی طرف منہ کر کے جگالی کرلی اور پھر پاخانہ پیشاب کردیا اور اس کے بعد پھر لوٹ کے کھالیا اور یہ مال بھی بہت شیریں ہے جس نے اسے حق کے ساتھ لیا اور حق میں خرچ کیا تو وہ بہترین ذریعہ ہے اور جس نے اسے ناجائز طریقہ سے حاصل کیا تو وہ اس شخص جیسا ہے جو کھاتا ہے لیکن آسودہ نہیں ہوتا۔
دنیا کی زینت سے بچنے، اور اس کی طرف رغبت کرنے کا بیان۔
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابوحمزہ سے سنا، کہا کہ مجھ سے زہدم بن مضرب نے بیان کیا، کہا کہ میں نے عمران بن حصین (رض) سے سنا اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سب سے بہتر میرا زمانہ ہے، پھر ان لوگوں کا زمانہ ہے جو اس کے بعد ہوں گے۔ عمران نے بیان کیا کہ مجھے نہیں معلوم نبی کریم ﷺ نے ارشاد کو دو مرتبہ دہرایا یا تین مرتبہ۔ پھر اس کے بعد وہ لوگ ہوں گے کہ وہ گواہی دیں گے لیکن ان کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی، وہ خیانت کریں گے اور ان پر سے اعتماد جاتا رہے گا۔ وہ نذر مانیں گے لیکن پوری نہیں کریں گے اور ان میں مٹاپا پھیل جائے گا۔
دنیا کی زینت سے بچنے، اور اس کی طرف رغبت کرنے کا بیان۔
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوحمزہ نے، ان سے اعمش نے، ان سے ابراہیم نے، ان سے عبیدہ نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا سب سے بہتر میرا زمانہ ہے، اس کے بعد ان لوگوں کا جو اس کے بعد ہوں گے پھر جو ان کے بعد ہوں گے اور اس کے بعد ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو قسم سے پہلے گواہی دیں گے کبھی گواہی سے پہلے قسم کھائیں گے۔
دنیا کی زینت سے بچنے، اور اس کی طرف رغبت کرنے کا بیان۔
مجھ سے یحییٰ بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے وکیع نے بیان کیا، ان سے اسماعیل بن ابی خالد کوفی نے بیان کیا، ان سے قیس بن ابی حازم نے بیان کیا کہ میں نے خباب بن ارت (رض) سے سنا، اس دن ان کے پیٹ میں سات داغ لگائے گئے تھے۔ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے اگر ہمیں موت کی دعا کرنے سے منع نہ کیا ہوتا تو میں اپنی موت کی دعا کرتا۔ نبی کریم ﷺ کے صحابہ گزر گئے اور دنیا نے ان کے (اعمال خیر میں سے) کچھ نہیں گھٹایا اور ہم نے دنیا سے اتنا کچھ حاصل کیا کہ مٹی کے سوا اس کی کوئی جگہ نہیں۔
دنیا کی زینت سے بچنے، اور اس کی طرف رغبت کرنے کا بیان۔
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا، ان سے اسماعیل بن ابی خالد نے، ان سے قیس بن ابی حازم نے کہا کہ میں خباب بن ارت (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا، وہ اپنے مکان کی دیوار بنوا رہے تھے، انہوں نے کہا کہ ہمارے ساتھی جو گزر گئے دنیا نے ان کے نیک اعمال میں سے کچھ کمی نہیں کی لیکن ان کے بعد ہم کو اتنا پیسہ ملا کہ ہم اس کو کہاں خرچ کریں بس اس مٹی اور پانی یعنی عمارت میں ہم کو اسے خرچ کا موقع ملا ہے۔
دنیا کی زینت سے بچنے، اور اس کی طرف رغبت کرنے کا بیان۔
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، ان سے سفیان بن عیینہ نے، ان سے اعمش نے ان سے ابو وائل نے اور ان سے خباب بن ارت (رض) نے بیان کیا کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہجرت کی تھی اور اس کا قصہ بیان کیا۔
اللہ تعالیٰ کا قول کہ اے لوگو ! اللہ کا وعدہ سچا ہے تو تمہیں دنیا کی زند گی دھو کہ میں نہ ڈال دے، اور نہ تمہیں شیطان اللہ کی طرف سے غافل کردے، بے شک، شیطان تمہارا دشمن ہے تم اسے دشمن بناؤ، وہ صرف اپنی جماعت کو بلاتا ہے، تاکہ وہ دوزخ والوں میں سے ہوجائیں، سعیر کی جمع سعر ہے، مجاہد نے کہا غرور، سے شیطان مراد ہے۔
ہم سے سعد بن حفص نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شیبان بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، ان سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے محمد بن ابراہیم قرشی نے بیان کیا کہ مجھے معاذ بن عبدالرحمٰن نے خبر دی، انہیں حمران بن ابان نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ میں عثمان (رض) کے لیے وضو کا پانی لے کر آیا وہ چبوترے پر بیٹھے ہوئے تھے، پھر انہوں نے اچھی طرح وضو کیا۔ اس کے بعد کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو اسی جگہ وضو کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے اچھی طرح وضو کیا، پھر فرمایا کہ جس نے اس طرح وضو کیا اور پھر مسجد میں آ کر دو رکعت نماز پڑھی تو اس کے پچھلے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے اس پر یہ بھی فرمایا کہ اس پر مغرور نہ ہوجاؤ۔
نیک لوگوں کے گزر جانے کا بیان۔
مجھ سے یحییٰ بن حماد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے بیان بن بشر نے، ان سے قیس بن ابی حازم نے اور ان سے مرداس اسلمی (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا نیک لوگ یکے بعد دیگرے گزر جائیں گے اس کے بعد جَو کہ بھوسے یا کھجور کے کچرے کی طرح کچھ لوگ دنیا میں رہ جائیں گے جن کی اللہ پاک کو کچھ ذرا بھی پروا نہ ہوگی۔ امام بخاری (رح) نے کہا حفالة اور حثالة. دونوں کے ایک معنی ہیں۔
مال کے فتنے سے بچنے کا بیان، اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ تمہارا مال اور تمہاری اولاد تمہارے لئے فتنہ ہے
مجھ سے یحییٰ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو ابوبکر بن عیاش نے خبر دی، انہیں ابوحصین (عثمان بن عاصم) نے، انہیں ابوصالح ذکوان نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دینار و درہم کے بندے، عمدہ ریشمی چادروں کے بندے، سیاہ کملی کے بندے، تباہ ہوگئے کہ اگر انہیں دیا جائے تو وہ خوش ہوجاتے ہیں اور اگر نہ دیا جائے تو ناراض رہتے ہیں۔
مال کے فتنے سے بچنے کا بیان، اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ تمہارا مال اور تمہاری اولاد تمہارے لئے فتنہ ہے
ہم سے ابوعاصم نبیل نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے بیان کیا، ان سے عطاء بن ابی رباح نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابن عباس (رض) سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا، نبی کریم ﷺ نے فرمایا اگر انسان کے پاس مال کی دو وادیاں ہوں تو تیسری کا خواہشمند ہوگا اور انسان کا پیٹ مٹی کے سوا اور کوئی چیز نہیں بھر سکتی اور اللہ اس شخص کی توبہ قبول کرتا ہے جو (دل سے) سچی توبہ کرتا ہے۔
مال کے فتنے سے بچنے کا بیان، اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ تمہارا مال اور تمہاری اولاد تمہارے لئے فتنہ ہے
مجھ سے محمد بن سلام نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو مخلد نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم کو ابن جریج نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ میں نے عطاء سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے ابن عباس (رض) سے سنا، کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، نبی کریم ﷺ نے فرمایا اگر انسان کے پاس مال (بھیڑ بکری) کی پوری وادی ہو تو وہ چاہے گا کہ اسے ویسی ہی ایک اور مل جائے اور انسان کی آنکھ مٹی کے سوا اور کوئی چیز نہیں بھر سکتی اور جو اللہ سے توبہ کرتا ہے، وہ اس کی توبہ قبول کرتا ہے۔ ابن عباس (رض) نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں یہ قرآن میں سے ہے یا نہیں۔ بیان کیا کہ میں نے ابن زبیر (رض) کو یہ منبر پر کہتے سنا تھا۔
مال کے فتنے سے بچنے کا بیان، اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ تمہارا مال اور تمہاری اولاد تمہارے لئے فتنہ ہے
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالرحمٰن بن سلیمان بن غسیل نے بیان کیا، ان سے عباس بن سہل بن سعد نے بیان کیا انہوں نے کہا کہ میں نے عبداللہ بن زبیر (رض) کو مکہ مکرمہ میں منبر پر یہ کہتے سنا۔ انہوں نے اپنے خطبہ میں کہا کہ اے لوگو ! نبی کریم ﷺ فرماتے تھے کہ اگر انسان کو ایک وادی سونا بھر کے دے دیا جائے تو وہ دوسری کا خواہشمند رہے گا اگر دوسری دے دی جائے تو تیسری کا خواہشمند رہے گا اور انسان کا پیٹ مٹی کے سوا اور کوئی چیز نہیں بھر سکتی اور اللہ پاک اس کی توبہ قبول کرتا ہے جو توبہ کرے۔
مال کے فتنے سے بچنے کا بیان، اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ تمہارا مال اور تمہاری اولاد تمہارے لئے فتنہ ہے
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے صالح نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے کہ مجھے انس بن مالک (رض) نے خبر دی اور ان سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر انسان کے پاس سونے کی ایک وادی ہو تو وہ چاہے گا کہ دو ہوجائیں اور اس کا منہ قبر کی مٹی کے سوا اور کوئی چیز نہیں بھر سکتی اور اللہ اس کی توبہ قبول کرتا ہے جو توبہ کرے۔ اور ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، ان سے حماد بن سلمہ نے بیان کیا، ان سے ثابت نے اور ان سے انس (رض) نے اور ان سے ابی بن کعب (رض) نے کہ ہم اسے قرآن ہی میں سے سمجھتے تھے یہاں تک کہ آیت ألهاكم التکاثر نازل ہوئی۔
نبی ﷺ کا فرمانا، کہ یہ مال تروتازہ اور شیریں ہے، اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لوگوں کے لئے مرغوب چیزوں کی، یعنی عورتوں اور اولاد، اور سونے چاندی کے ڈھیروں اور نشان لگائے ہوئے گھوڑوں اور چوپایوں، کھیتوں کی محبت خوشنما کر کے دکھائی گئی ہے، یہ دنیا کی زند گانی کا سامان ہے، حضرت عمر (رض) نے کہا، اے اللہ جس چیز سے تو نے ہمیں زینت بخشی ہے، ہم اس سے خوش ہوتے ہیں اے اللہ ! میں تجھ سے دعا کرتا ہوں، کہ میں اس کو مناسب طور پر خرچ کروں۔
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے زہری سے سنا، وہ کہتے تھے کہ مجھے عروہ اور سعید بن مسیب نے خبر دی، انہیں حکیم بن حزام نے، کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے مانگا تو نبی کریم ﷺ نے مجھے عطا فرمایا۔ میں نے پھر مانگا اور نبی کریم ﷺ نے پھر عطا فرمایا۔ میں نے پھر مانگا اور نبی کریم ﷺ نے پھر عطا فرمایا۔ پھر فرمایا کہ یہ مال۔ اور بعض اوقات سفیان نے یوں بیان کیا کہ (حکیم (رض) نے بیان کیا) اے حکیم ! یہ مال سرسبز اور خوشگوار نظر آتا ہے پس جو شخص اسے نیک نیتی سے لے اس میں برکت ہوتی ہے اور جو لالچ کے ساتھ لیتا ہے تو اس کے مال میں برکت نہیں ہوتی بلکہ وہ اس شخص جیسا ہوجاتا ہے جو کھاتا جاتا ہے لیکن اس کا پیٹ نہیں بھرتا اور اوپر کا ہاتھ نیچے کے ہاتھ سے بہتر ہے۔
اپنا مال جو پہلے ( اپنی زندگی میں) خرچ کرچکا وہی اس کا ہے۔
مجھ سے عمر بن حفص نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابراہیم تیمی نے بیان کیا، ان سے حارث بن سوید نے کہ عبداللہ بن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تم میں کون ہے جسے اپنے مال سے زیادہ اپنے وارث کا مال پیارا ہو۔ صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! ہم میں کوئی ایسا نہیں جسے مال زیادہ پیارا نہ ہو۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا پھر اس کا مال وہ ہے جو اس نے (موت سے) پہلے (اللہ کے راستہ میں خرچ) کیا اور اس کے وارث کا مال وہ ہے جو وہ چھوڑ کر مرا۔
زیادہ مال والے کم نیکی والے ہوتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ جو شخص دنیوی زندگی اور اس کی زینت چاہتا ہے، تو ہم اس کے اعمال کا پوراپور ابدلہ اس دنیا میں ہی دے دیتے ہیں، اور اس میں ان لوگوں کو کچھ بھی کم نہیں دیا جائے گا، یہی لوگ ہیں، جن کے لئے آخرت میں صرف آگ ہے، اور جو کچھ ان لوگوں نے کیا وہ اکارت جائے گا، اور جو کچھ وہ لوگ کر رہے ہی، وہ سب باطل ہے۔
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے عبدالعزیز بن رفیع نے، ان سے زید بن وہب نے اور ان سے ابوذرغفاری (رض) نے بیان کیا کہ ایک روز میں باہر نکلا تو دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ تنہا چل رہے تھے اور آپ کے ساتھ کوئی بھی نہ تھا، ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ اس سے میں سمجھا کہ نبی کریم ﷺ اسے پسند نہیں فرمائیں گے کہ آپ کے ساتھ اس وقت کوئی رہے۔ اس لیے میں چاند کے سائے میں نبی کریم ﷺ کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ اس کے بعد آپ مڑے تو مجھے دیکھا اور دریافت فرمایا کون ہے ؟ میں نے عرض کیا : ابوذر ! اللہ مجھے آپ پر قربان کرے۔ آپ ﷺ نے فرمایا، ابوذر ! یہاں آؤ۔ بیان کیا کہ پھر میں تھوڑی دیر تک آپ کے ساتھ چلتا رہا۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو لوگ (دنیا میں) زیادہ مال و دولت جمع کئے ہوئے ہیں قیامت کے دن وہی خسارے میں ہوں گے۔ سوائے ان کے جنہیں اللہ تعالیٰ نے مال دیا ہو اور انہوں نے اسے دائیں بائیں، آگے پیچھے خرچ کیا ہو اور اسے بھلے کاموں میں لگایا ہو۔ (ابوذر (رض) نے) بیان کیا کہ پھر تھوڑی دیر تک میں آپ کے ساتھ چلتا رہا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہاں بیٹھ جاؤ۔ نبی کریم ﷺ نے مجھے ایک ہموار زمین پر بٹھا دیا جس کے چاروں طرف پتھر تھے اور فرمایا کہ یہاں اس وقت تک بیٹھے رہو جب تک میں تمہارے پاس لوٹ آؤں۔ پھر آپ پتھریلی زمین کی طرف چلے گئے اور نظروں سے اوجھل ہوگئے۔ آپ وہاں رہے اور دیر تک وہیں رہے۔ پھر میں نے آپ سے سنا، آپ یہ کہتے ہوئے تشریف لا رہے تھے چاہے چوری ہو، چاہے زنا ہو ابوذر کہتے ہیں کہ جب نبی کریم ﷺ تشریف لائے تو مجھ سے صبر نہیں ہوسکا اور میں نے عرض کیا : اے اللہ کے نبی ! اللہ آپ پر مجھے قربان کرے۔ اس پتھریلی زمین کے کنارے آپ کس سے باتیں کر رہے تھے۔ میں نے تو کسی دوسرے کو آپ سے بات کرتے نہیں دیکھا ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہ جبرائیل (علیہ السلام) تھے۔ پتھریلی زمین (حرہ) کے کنارے وہ مجھ سے ملے اور کہا کہ اپنی امت کو خوشخبری سنا دو کہ جو بھی اس حال میں مرے گا کہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراتا ہو تو وہ جنت میں جائے گا۔ میں نے عرض کیا : اے جبرائیل ! خواہ اس نے چوری کی ہو، زنا کیا ہو ؟ جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا ہاں، خواہ اس نے شراب ہی پی ہو۔ نضر نے بیان کیا کہ ہمیں شعبہ نے خبر دی (کہا) ہم سے حبیب بن ابی ثابت، اعمش اور عبدالعزیز بن رفیع نے بیان کیا، ان سے زید بن وہب نے اسی طرح بیان کیا۔ امام بخاری (رح) نے کہا ابوصالح نے جو اسی باب میں ابودرداء سے روایت کی ہے وہ منقطع ہے (ابوصالح نے ابودرداء سے نہیں سنا) اور صحیح نہیں ہے ہم نے یہ بیان کردیا تاکہ اس حدیث کا حال معلوم ہوجائے اور صحیح ابوذر کی حدیث ہے (جو اوپر مذکور ہوئی) کسی نے امام بخاری (رح) سے پوچھا عطاء بن یسار نے بھی تو یہ حدیث ابودرداء سے روایت کی ہے۔ انہوں نے کہا وہ بھی منقطع ہے اور صحیح نہیں ہے۔ آخر صحیح وہی ابوذر کی حدیث نکلی۔ امام بخاری (رح) نے کہا ابودرداء کی حدیث کو چھوڑو (وہ سند لینے کے لائق نہیں ہے کیونکہ وہ منقطع ہے) امام بخاری (رح) نے کہا کہ ابوذر کی حدیث کا مطلب یہ ہے کہ مرتے وقت آدمی لا إله إلا الله کہے اور توحید پر خاتمہ ہو (تو وہ ایک نہ ایک دن ضرور جنت میں جائے گا گو کتنا ہی گنہگار ہو) ۔ بعض نسخوں میں یہ ہے هذا اذا تاب وقال لا إله إلا الله عند الموت یعنی ابوذر کی حدیث اس شخص کے بارے میں ہے جو گناہ سے توبہ کرے اور مرتے وقت لا إله إلا الله کہے۔
نبی ﷺ کا فرمانا، کہ میں پسند نہیں کرتا کہ میرے پاس احد پہاڑے کے برابر سونا ہو۔
ہم سے حسن بن ربیع نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوالاحوص (سلام بن سلیم) نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے زید بن وہب نے کہ ابوذرغفاری (رض) نے کہا میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ مدینہ کے پتھریلے علاقہ میں چل رہا تھا کہ احد پہاڑ ہمارے سامنے آگیا۔ نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا : ابوذر ! میں نے عرض کیا، حاضر ہوں یا رسول اللہ ! آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے اس سے بالکل خوشی نہیں ہوگی کہ میرے پاس اس احد کے برابر سونا ہو اور اس پر تین دن اس طرح گذر جائیں کہ اس میں سے ایک دینار بھی باقی رہ جائے سوا اس تھوڑی سی رقم کے جو میں قرض کی ادائیگی کے لیے چھوڑ دوں بلکہ میں اسے اللہ کے بندوں میں اس طرح خرچ کروں اپنی دائیں طرف سے، بائیں طرف سے اور پیچھے سے۔ پھر نبی کریم ﷺ چلتے رہے، اس کے بعد فرمایا، زیادہ مال جمع رکھنے والے ہی قیامت کے دن مفلس ہوں گے سوا اس شخص کے جو اس مال کو اس اس طرح دائیں طرف سے، بائیں طرف سے اور پیچھے سے خرچ کرے اور ایسے لوگ کم ہیں۔ پھر مجھ سے فرمایا، یہیں ٹھہرے رہو، یہاں سے اس وقت تک نہ جانا جب تک میں آ نہ جاؤں۔ پھر نبی کریم ﷺ رات کی تاریکی میں چلے گئے اور نظروں سے اوجھل ہوگئے۔ اس کے بعد میں نے آواز سنی جو بلند تھی۔ مجھے ڈر لگا کہ کہیں نبی کریم ﷺ کو کوئی دشواری نہ پیش آگئی ہو۔ میں نے آپ کی خدمت میں پہنچنے کا ارادہ کیا لیکن آپ کا ارشاد یاد آیا کہ اپنی جگہ سے نہ ہٹنا، جب تک میں نہ آجاؤں۔ چناچہ جب تک نبی کریم ﷺ تشریف نہیں لائے میں وہاں سے نہیں ہٹا۔ پھر آپ آئے میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! میں نے ایک آواز سنی تھی، مجھے ڈر لگا لیکن پھر آپ کا ارشاد یاد آیا۔ نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا کیا تم نے سنا تھا ؟ میں نے عرض کیا، جی ہاں۔ فرمایا کہ وہ جبرائیل (علیہ السلام) تھے اور انہوں نے کہا کہ آپ کی امت کا جو شخص اس حال میں مرجائے کہ اس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہو تو جنت میں جائے گا۔ میں نے پوچھا خواہ اس نے زنا اور چوری بھی کی ہو ؟ انہوں نے کہا ہاں زنا اور چوری ہی کیوں نہ کی ہو۔
نبی ﷺ کا فرمانا، کہ میں پسند نہیں کرتا کہ میرے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو۔
مجھ سے احمد بن شبیب نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، ان سے یونس نے اور لیث بن سعد نے بیان کیا کہ مجھ سے یونس نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب زہری نے، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے کہ ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر بھی سونا ہو تو مجھے اس میں خوشی ہوگی کہ تین دن بھی مجھ پر اس حال میں نہ گزرنے پائیں کہ اس میں سے میرے پاس کچھ بھی باقی بچے۔ البتہ اگر کسی کا قرض دور کرنے کے لیے کچھ رکھ چھوڑوں تو یہ اور بات ہے۔
تونگری دل کی تونگری ہے (تونگری بدل است نہ بمال) اور اللہ تعالیٰ کا قول ایحسبون ان ما نمدھم بہ من مال وبنین۔۔۔۔ ھم لہا عملون تک ابن عیینہ نے کہا جو انہوں نے نہیں کیا ہے وہ اس کو ضرور کریں گے۔
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوبکر بن عیاش نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوحصین نے بیان کیا، ان سے ابوصالح ذکوان نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تونگری یہ نہیں ہے کہ سامان زیادہ ہو، بلکہ امیری یہ ہے کہ دل غنی ہو۔
فقر کی فضیلت کا بیان۔
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبدالعزیز بن ابی حازم نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے سہل بن سعد ساعدی (رض) نے بیان کیا کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے سامنے سے گزرا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دوسرے شخص ابوذرغفاری (رض) سے جو آپ کے قریب بیٹھے ہوئے تھے، پوچھا کہ اس شخص (گزرے والے) کے متعلق تم کیا کہتے ہو ؟ انہوں نے کہا کہ یہ معزز لوگوں میں سے ہے اور اللہ کی قسم ! یہ اس قابل ہے کہ اگر یہ پیغام نکاح بھیجے تو اس سے نکاح کردیا جائے۔ اگر یہ سفارش کرے تو ان کی سفارش قبول کرلی جائے۔ بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ یہ سن کر خاموش ہوگئے۔ اس کے بعد ایک دوسرے صاحب گزرے۔ نبی کریم ﷺ نے ان سے ان کے متعلق بھی پوچھا کہ ان کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے ؟ انہوں نے کہا، یا رسول اللہ ! یہ صاحب مسلمانوں کے غریب طبقہ سے ہیں اور یہ ایسے ہیں کہ اگر یہ نکاح کا پیغام بھیجیں تو ان کا نکاح نہ کیا جائے، اگر یہ کسی کی سفارش کریں تو ان کی سفارش قبول نہ کی جائے اور اگر کچھ کہیں تو ان کی بات نہ سنی جائے۔ نبی کریم ﷺ نے اس کے بعد فرمایا کہ اللہ کے نزدیک یہ پچھلا محتاج شخص اگلے مالدار شخص سے، گو ویسے آدمی زمین بھر کر ہوں، بہتر ہے۔
فقر کی فضیلت کا بیان۔
ہم سے عبداللہ بن زبیر حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے، کہا کہ میں نے ابو وائل سے سنا، کہا کہ ہم نے خباب بن ارت (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ہم نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے ہجرت کی۔ چناچہ ہمارا اجر اللہ کے ذمہ رہا۔ پس ہم میں سے کوئی تو گزر گیا اور اپنا اجر (اس دنیا میں) نہیں لیا۔ مصعب بن عمیر (رض) (انہی) میں سے تھے، وہ جنگ احد کے موقع پر شہید ہوگئے تھے اور ایک چادر چھوڑی تھی (اس چادر کا ان کو کفن دیا گیا تھا) اس چادر سے ہم اگر ان کا سر ڈھکتے تو ان کے پاؤں کھل جاتے اور پاؤں ڈھکتے تو سر کھل جاتا۔ چناچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم ان کا سر ڈھک دیں اور پاؤں پر اذخر گھاس ڈال دیں اور کوئی ہم میں سے ایسے ہوئے جن کے پھل خوب پکے اور وہ مزے سے چن چن کر کھا رہے ہیں۔
فقر کی فضیلت کا بیان۔
ہم سے ابو ولید نے بیان کیا، کہا ہم سے سلم بن زریر نے بیان کیا، کہا ہم سے ابورجاء عمران بن تمیم نے بیان کیا، ان سے عمران بن حصین (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا میں نے جنت میں جھانکا تو اس میں رہنے والے اکثر غریب لوگ تھے اور میں نے دوزخ میں جھانکا تو اس کی رہنے والیاں اکثر عورتیں تھیں۔ ابورجاء کے ساتھ اس حدیث کو ایوب سختیانی اور عوف اعرابی نے بھی روایت کیا ہے اور صخر بن جویریہ اور حماد بن نجیح دونوں اس حدیث کو ابورجاء سے، انہوں نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا۔
فقر کی فضیلت کا بیان۔
ہم سے ابومعمر عبداللہ بن محمد بن عمرو بن حجاج نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوارث بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے سعید بن ابی عروبہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے کبھی میز پر کھانا نہیں کھایا۔ یہاں تک کہ آپ ﷺ کی وفات ہوگئی اور نہ وفات تک آپ ﷺ نے کبھی باریک چپاتی تناول فرمائی۔
فقر کی فضیلت کا بیان۔
ہم سے ابوبکر عبداللہ بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کی وفات ہوئی تو میرے توشہ خانہ میں کوئی غلہ نہ تھا جو کسی جاندار کے کھانے کے قابل ہوتا، سوا تھوڑے سے جَو کے جو میرے توشہ خانہ میں تھے، میں ان میں ہی سے کھاتی رہی آخر اکتا کر جب بہت دن ہوگئے تو میں نے انہیں ناپا تو وہ ختم ہوگئے۔
نبی ﷺ اور آپ کے صحابہ کے زندگی گزارنے اور دنیا ( کی لذتوں) سے علیحدہ رہنے کا بیان۔
مجھ سے ابونعیم نے یہ حدیث آدھی کے قریب بیان کی اور آدھی دوسرے شخص نے، کہا ہم سے عمر بن ذر نے بیان کیا، کہا ہم سے مجاہد نے بیان کیا کہ ابوہریرہ (رض) کہا کرتے تھے کہ اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں میں (زمانہ نبوی میں) بھوک کے مارے زمین پر اپنے پیٹ کے بل لیٹ جاتا تھا اور کبھی میں بھوک کے مارے اپنے پیٹ پر پتھر باندھا کرتا تھا۔ ایک دن میں اس راستے پر بیٹھ گیا جس سے صحابہ نکلتے تھے۔ ابوبکر صدیق (رض) گزرے اور میں نے ان سے کتاب اللہ کی ایک آیت کے بارے میں پوچھا، میرے پوچھنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ وہ مجھے کچھ کھلا دیں مگر وہ چلے گئے اور کچھ نہیں کیا۔ پھر عمر (رض) میرے پاس سے گزرے، میں نے ان سے بھی قرآن مجید کی ایک آیت پوچھی اور پوچھنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ وہ مجھے کچھ کھلا دیں مگر وہ بھی گزر گئے اور کچھ نہیں کیا۔ اس کے بعد نبی کریم ﷺ گزرے اور آپ نے جب مجھے دیکھا تو آپ مسکرا دئیے اور جو میرے دل میں اور جو میرے چہرے پر تھا آپ نے پہچان لیا۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا، اباہر ! میں نے عرض کیا لبیک، یا رسول اللہ ! فرمایا میرے ساتھ آجاؤ اور آپ چلنے لگے۔ میں نبی کریم ﷺ کے پیچھے چل دیا۔ پھر نبی کریم ﷺ اندر گھر میں تشریف لے گئے۔ پھر میں نے اجازت چاہی اور مجھے اجازت ملی۔ جب آپ داخل ہوئے تو ایک پیالے میں دودھ ملا۔ دریافت فرمایا کہ یہ دودھ کہاں سے آیا ہے ؟ کہا فلاں یا فلانی نے نبی کریم ﷺ کے لیے تحفہ میں بھیجا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، اباہر ! میں نے عرض کیا لبیک، یا رسول اللہ ! فرمایا، اہل صفہ کے پاس جاؤ اور انہیں بھی میرے پاس بلا لاؤ۔ کہا کہ اہل صفہ اسلام کے مہمان ہیں، وہ نہ کسی کے گھر پناہ ڈھونڈھتے، نہ کسی کے مال میں اور نہ کسی کے پاس ! جب نبی کریم ﷺ کے پاس صدقہ آتا تو اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں کے پاس بھیج دیتے اور خود اس میں سے کچھ نہ رکھتے۔ البتہ جب آپ کے پاس تحفہ آتا تو انہیں بلوا بھیجتے اور خود بھی اس میں سے کچھ کھاتے اور انہیں بھی شریک کرتے۔ چناچہ مجھے یہ بات ناگوار گزری اور میں نے سوچا کہ یہ دودھ ہے ہی کتنا کہ سارے صفہ والوں میں تقسیم ہو، اس کا حقدار میں تھا کہ اسے پی کر کچھ قوت حاصل کرتا۔ جب صفہ والے آئیں گے تو نبی کریم ﷺ مجھ سے فرمائیں گے اور میں انہیں اسے دے دوں گا۔ مجھے تو شاید اس دودھ میں سے کچھ بھی نہیں ملے گا لیکن اللہ اور اس کے رسول کی حکم برداری کے سوا کوئی اور چارہ بھی نہیں تھا۔ چناچہ میں ان کے پاس آیا اور نبی کریم ﷺ کی دعوت پہنچائی، وہ آگئے اور اجازت چاہی۔ انہیں اجازت مل گئی پھر وہ گھر میں اپنی اپنی جگہ بیٹھ گئے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : اباہر ! میں نے عرض کیا لبیک، یا رسول اللہ ! فرمایا لو اور اسے ان سب حاضرین کو دے دو ۔ بیان کیا کہ پھر میں نے پیالہ پکڑ لیا اور ایک ایک کو دینے لگا۔ ایک شخص دودھ پی کر جب سیراب ہوجاتا تو مجھے پیالہ واپس کردیتا پھر دوسرے شخص کو دیتا وہ بھی سیراب ہو کر پیتا پھر پیالہ مجھ کو واپس کردیتا اور اسی طرح تیسرا پی کر پھر مجھے پیالہ واپس کردیتا۔ اس طرح میں نبی کریم ﷺ تک پہنچا لوگ پی کر سیراب ہوچکے تھے۔ آخر میں نبی کریم ﷺ نے پیالہ پکڑا اور اپنے ہاتھ پر رکھ کر آپ ﷺ نے میری طرف دیکھا اور مسکرا کر فرمایا، اباہر ! میں نے عرض کیا، لبیک، یا رسول اللہ ! فرمایا، اب میں اور تم باقی رہ گئے ہیں۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! آپ نے سچ فرمایا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا بیٹھ جاؤ اور پیو۔ میں بیٹھ گیا اور میں نے دودھ پیا اور نبی کریم ﷺ برابر فرماتے رہے کہ اور پیو آخر مجھے کہنا پڑا، نہیں اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، اب بالکل گنجائش نہیں ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، پھر مجھے دے دو ، میں نے پیالہ نبی کریم ﷺ کو دے دیا آپ ﷺ نے اللہ کی حمد بیان کی اور بسم اللہ پڑھ کر بچا ہوا خود پی گئے۔
نبی ﷺ اور آپ کے صحابہ کے زندگی گزارنے اور دنیا ( کی لذتوں) سے علیحدہ رہنے کا بیان۔
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا، ان سے اسماعیل بن ابی خالد نے، ان سے قیس نے بیان کیا، کہا کہ میں نے سعد بن ابی وقاص (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں سب سے پہلا عرب ہوں جس نے اللہ کے راستے میں تیر چلائے۔ ہم نے اس حال میں وقت گزارا ہے کہ جہاد کر رہے ہیں اور ہمارے پاس کھانے کی کوئی چیز حبلہ کے پتوں اور اس ببول کے سوا کھانے کے لیے نہیں تھی اور بکری کی مینگنیوں کی طرح ہم پاخانہ کیا کرتے تھے۔ اب یہ بنو اسد کے لوگ مجھ کو اسلام سکھلا کر درست کرنا چاہتے ہیں پھر تو میں بالکل بدنصیب ٹھہرا اور میرا سارا کیا کرایا اکارت گیا۔
نبی ﷺ اور آپ کے صحابہ کے زندگی گزارنے اور دنیا ( کی لذتوں) سے علیحدہ رہنے کا بیان۔
مجھ سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا مجھ سے جریر بن عبدالحمید نے، ان سے منصور نے، ان سے ابراہیم نے، ان سے اسود نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ محمد ﷺ کے گھر والوں کو مدینہ آنے کے بعد کبھی تین دن تک برابر گیہوں کی روٹی کھانے کے لیے نہیں ملی، یہاں تک کی نبی کریم ﷺ کی روح قبض ہوگئی۔
نبی ﷺ اور آپ کے صحابہ کے زندگی گزارنے اور دنیا ( کی لذتوں) سے علیحدہ رہنے کا بیان۔
مجھ سے اسحاق بن ابراہیم بن عبدالرحمٰن بغوی نے بیان کیا، کہا ہم سے اسحاق ازرق نے بیان کیا، ان سے مسعر بن کدام نے، ان سے ہلال نے، ان سے عروہ بن زبیر نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کے گھرانہ نے اگر کبھی ایک دن میں دو مرتبہ کھانا کھایا تو ضرور اس میں ایک وقت صرف کھجوریں ہوتی تھیں۔
نبی ﷺ اور آپ کے صحابہ کے زندگی گزارنے اور دنیا ( کی لذتوں) سے علیحدہ رہنے کا بیان۔
مجھ سے احمد بن رجاء نے بیان کیا، کہا ہم سے نضر نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے کہا کہ مجھے میرے والد نے خبر دی اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کا بستر چمڑے کا تھا اور اس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔
نبی ﷺ اور آپ کے صحابہ کے زندگی گزارنے اور دنیا ( کی لذتوں) سے علیحدہ رہنے کا بیان۔
ہم سے ہدبہ بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمام بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے قتادہ نے بیان کیا کہا کہ ہم انس بن مالک (رض) کی خدمت میں حاضر ہوتے، ان کا نان بائی وہیں موجود ہوتا (جو روٹیاں پکا پکا کردیتا جاتا) انس (رض) لوگوں سے کہتے کہ کھاؤ، میں نے کبھی نبی کریم ﷺ کو پتلی روٹی کھاتے نہیں دیکھا اور نہ نبی کریم ﷺ نے کبھی اپنی آنکھ سے سموچی بھنی ہوئی بکری دیکھی۔ یہاں تک کہ آپ کا انتقال ہوگیا۔
نبی ﷺ اور آپ کے صحابہ کے زندگی گزارنے اور دنیا ( کی لذتوں) سے علیحدہ رہنے کا بیان۔
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، کہا مجھ کو میرے والد نے خبر دی اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ ہمارے اوپر ایسا مہینہ بھی گزر جاتا تھا کہ چولھا نہیں جلتا تھا، صرف کھجور اور پانی ہوتا تھا، ہاں اگر کبھی کسی جگہ سے کچھ تھوڑا سا گوشت آجاتا تو اس کو بھی کھالیتے تھے۔
نبی ﷺ اور آپ کے صحابہ کے زندگی گزارنے اور دنیا ( کی لذتوں) سے علیحدہ رہنے کا بیان۔
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابن ابی حازم نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے بیان کیا، ان سے یزید بن رومان نے بیان کیا، ان سے عروہ بن زبیر نے اور ان سے ام المؤمنین عائشہ (رض) نے بیان کیا انہوں نے عروہ سے کہا، بیٹے ! ہم دو مہینوں میں تین چاند دیکھ لیتے ہیں اور رسول اللہ ﷺ (کی بیویوں) کے گھروں میں چولھا نہیں جلتا تھا۔ میں نے پوچھا پھر آپ لوگ زندہ کس چیز پر رہتی تھیں ؟ بتلایا کہ صرف دو کالی چیزوں پر، کھجور اور پانی۔ ہاں، نبی کریم ﷺ کے کچھ انصاری پڑوسی تھے جن کے یہاں دودہیل اونٹنیاں تھیں وہ اپنے گھروں سے نبی کریم ﷺ کے لیے دودھ بھیج دیتے اور آپ ہمیں وہی دودھ پلا دیتے تھے۔
نبی ﷺ اور آپ کے صحابہ کے زندگی گزارنے اور دنیا ( کی لذتوں) سے علیحدہ رہنے کا بیان۔
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے محمد بن فضیل نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے، ان سے عمارہ نے، ان سے ابوزرعہ نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے دعا کی اللهم ارزق آل محمد قوتا اے اللہ ! آل محمد کو اتنی روزی دے کہ وہ زندہ رہ سکیں۔
اعتدال اور عمل پر مداومت کا بیان۔
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد عثمان بن حبلہ نے خبر دی، انہیں شعبہ نے، ان سے اشعث نے بیان کیا کہ میں نے اپنے والد ابوالشعثاء سلیم بن اسود سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے مسروق سے سنا، کہا کہ میں نے عائشہ (رض) سے پوچھا، کون سی عبادت نبی کریم ﷺ کو زیادہ پسند تھی، فرمایا کہ جس پر ہمیشگی ہو سکے، کہا کہ میں نے پوچھا آپ رات کو تہجد کے لیے کب اٹھتے تھے ؟ بتلایا کہ جب مرغ کی آواز سن لیتے۔
اعتدال اور عمل پر مداومت کا بیان۔
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کو سب سے زیادہ پسندیدہ وہ عمل تھا جس کو آدمی ہمیشہ کرتا رہے۔
اعتدال اور عمل پر مداومت کا بیان۔
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن ابی ذئب نے بیان کیا، ان سے سعید مقبری نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم سے کسی شخص کو اس کا عمل نجات نہیں دلا سکے گا۔ صحابہ نے عرض کی اور آپ کو بھی نہیں یا رسول اللہ ؟ فرمایا اور مجھے بھی نہیں، سوا اس کے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنی رحمت کے سایہ میں لے لے۔ پس تم کو چاہیے کہ درستی کے ساتھ عمل کرو اور میانہ روی اختیار کرو۔ صبح اور شام، اسی طرح رات کو ذرا سا چل لیا کرو اور اعتدال کے ساتھ چلا کرو منزل مقصود کو پہنچ جاؤ گے۔
اعتدال اور عمل پر مداومت کا بیان۔
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان نے بیان کیا، ان سے موسیٰ بن عقبہ نے، ان سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے اور ان سے عائشہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا درمیانی چال اختیار کرو اور بلند پروازی نہ کرو اور عمل کرتے رہو، تم میں سے کسی کا عمل اسے جنت میں نہیں داخل کرسکے گا، میرے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل وہ ہے جس پر ہمیشگی کی جائے خواہ کم ہی کیوں نہ ہو۔
اعتدال اور عمل پر مداومت کا بیان۔
مجھ سے محمد بن عرعرہ نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے سعد بن ابراہیم نے، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ سے پوچھا گیا کون سا عمل اللہ کے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے ؟ فرمایا کہ جس پر ہمیشگی کی جائے، خواہ وہ تھوڑی ہی ہو اور فرمایا نیک کام کرنے میں اتنی ہی تکلیف اٹھاؤ جتنی طاقت ہے ( جو ہمیشہ نبھ سکے) ۔
اعتدال اور عمل پر مداومت کا بیان۔
مجھ سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے منصور نے بیان کیا، ان سے ابراہیم نخعی نے اور ان سے علقمہ نے بیان کیا کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے پوچھا : ام المؤمنین ! نبی کریم ﷺ کیونکر عبادت کیا کرتے تھے کیا آپ نے کچھ خاص دن خاص کر رکھے تھے ؟ بتلایا کہ نہیں نبی کریم ﷺ کے عمل میں ہمیشگی ہوتی تھی اور تم میں کون ہے جو ان عملوں کی طاقت رکھتا ہو جن کی نبی کریم ﷺ طاقت رکھتے تھے۔
اعتدال اور عمل پر مداومت کا بیان۔
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن زبرقان نے، کہا ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے، ان سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے، ان سے عائشہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا دیکھو جو نیک کام کرو ٹھیک طور سے کرو اور حد سے نہ بڑھ جاؤ بلکہ اس کے قریب رہو (میانہ روی اختیار کرو) اور خوش رہو اور یاد رکھو کہ کوئی بھی اپنے عمل کی وجہ سے جنت میں نہیں جائے گا۔ صحابہ نے عرض کیا : اور آپ بھی نہیں یا رسول اللہ ! فرمایا اور میں بھی نہیں۔ سوا اس کے کہ اللہ اپنی مغفرت و رحمت کے سایہ میں مجھے ڈھانک لے۔ مدینی نے بیان کیا کہ میرا خیال ہے کہ موسیٰ بن عقبہ نے یہ حدیث ابوسلمہ سے ابوالنصر کے واسطے سے سنی ہے، ابوسلمہ نے عائشہ (رض) سے۔ اور عفان بن مسلم نے بیان کیا کہ ہم سے وہیب نے بیان کیا، ان سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابوسلمہ (رض) سے سنا اور انہوں نے عائشہ (رض) سے اور انہوں نے نبی کریم ﷺ سے کہ آپ ﷺ نے فرمایا درستی کے ساتھ عمل کرو اور خوش رہو۔ اور مجاہد نے بیان کیا کہ سدادا سديدا ہر دو کے معنیٰ صدق کے ہیں۔
اعتدال اور عمل پر مداومت کا بیان۔
مجھ سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے محمد بن فلیح نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، ان سے بلال بن علی نے بیان کیا کہ میں نے انس بن مالک (رض) کو یہ کہتے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایک دن نماز پڑھائی، پھر منبر پر چڑھے اور اپنے ہاتھ سے مسجد کے قبلہ کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا کہ اس وقت جب میں نے تمہیں نماز پڑھائی تو مجھے اس دیوار کی طرف جنت اور دوزخ کی تصویر دکھائی گئی میں نے (ساری عمر میں) آج کی طرح نہ کوئی بہشت کی سی خوبصورت چیز دیکھی نہ دوزخ کی سی ڈراؤنی، میں نے آج کی طرح نہ کوئی بہشت جیسی خوبصورت چیز دیکھی نہ دوزخ جیسی ڈراونی چیز۔
خوف کے ساتھ امید کا بیان، سفیان کے کہا کہ قرآن کی اس آیت سے زیادہ کسی آیت سے ہمیں خوف نہیں ہوتا، (وہ آیت یہ ہے) لستم علی شییء حتی تقیموا التوراۃ والانجیل وما انزل الیکم من ربکم۔
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یعقوب بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، ان سے عمرو بن ابی عمرو نے بیان کیا، ان سے سعید بن ابی مقبری نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے رحمت کو جس دن بنایا تو اس کے سو حصے کئے اور اپنے پاس ان میں سے نناوے رکھے۔ اس کے بعد تمام مخلوق کے لیے صرف ایک حصہ رحمت کا بھیجا۔ پس اگر کافر کو وہ تمام رحم معلوم ہوجائے جو اللہ کے پاس ہے تو وہ جنت سے ناامید نہ ہو اور اگر مومن کو وہ تمام عذاب معلوم ہوجائیں جو اللہ کے پاس ہیں تو دوزخ سے کبھی بےخوف نہ ہو۔
محر مات الہیہ سے روکنے کا بیان (اللہ تعالیٰ کا قول کہ) صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بغیر حساب کے دیا جائے گا، اور حضرت عمر (رض) نے کہا، کہ ہم بہتر زندگی صبر میں پائی۔
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عطاء بن یزید لیثی نے خبر دی اور انہیں ابوسعید (رض) نے خبر دی کہ چند انصاری صحابہ نے رسول اللہ ﷺ سے مانگا اور جس نے بھی نبی کریم ﷺ سے مانگا نبی کریم ﷺ نے اسے دیا، یہاں تک کہ جو مال آپ کے پاس تھا وہ ختم ہوگیا۔ جب سب کچھ ختم ہوگیا جو نبی کریم ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھوں سے دیا تھا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو بھی اچھی چیز میرے پاس ہوگی میں اسے تم سے بچا کے نہیں رکھتا ہوں۔ بات یہ ہے کہ جو تم میں (سوال سے) بچتا رہے گا اللہ بھی اسے غیب سے دے گا اور جو شخص دل پر زور ڈال کر صبر کرے گا اللہ بھی اسے صبر دے گا اور جو بےپرواہ رہنا اختیار کرے گا اللہ بھی اسے بےپرواہ کر دے گا اور اللہ کی کوئی نعمت صبر سے بڑھ کر تم کو نہیں ملی۔
محر مات الہیہ سے روکنے کا بیان (اللہ تعالیٰ کا قول کہ) صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بغیر حساب کے دیا جائے گا، اور حضرت عمر (رض) نے کہا، کہ ہم بہتر زندگی صبر میں پائی۔
ہم سے خلاد بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے مسعر بن کدام نے بیان کیا، کہا ہم سے زیاد بن علاقہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے مغیرہ بن شعبہ (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ اتنی نماز پڑھتے کہ آپ کے قدموں میں ورم آجاتا یا کہا کہ آپ کے قدم پھول جاتے۔ نبی کریم ﷺ سے عرض کی جاتی کہ آپ تو بخشے ہوئے ہیں۔ نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔
جو شخص اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرے، تو اللہ تعالیٰ اس کو کافی ہے، ربیع بن خثیم نے کہا کہ (یہ) ہر اس مشکل میں (ہے) جو انسان کو پیش آئے۔
مجھ سے اسحاق نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے روح بن عبادہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے حصین بن عبداللہ سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں سعید بن جبیر کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا، انہوں نے ابن عباس (رض) سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میری امت کے ستر ہزار لوگ بےحساب جنت میں جائیں گے۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جو جھاڑ پھونک نہیں کراتے نہ شگون لیتے ہیں اور اپنے رب ہی پر بھروسہ رکھتے ہیں۔
قیل وقال کے مکروہ ہونے کا بیان۔
ہم سے علی بن مسلم نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشیم نے بیان کیا، کہا ہم کو ایک سے زیادہ کئی آدمیوں نے خبر دی جن میں مغیرہ بن مقسم اور فلاں نے (مجالد بن سعید، ان کی روایت کو ابن خزیمہ نے نکالا) اور ایک تیسرے صاحب داود بن ابی ہند بھی ہیں، انہیں شعبی نے، انہیں مغیرہ بن شعبہ (رض) کے کاتب وراد نے کہ معاویہ (رض) نے مغیرہ کو لکھا کہ کوئی حدیث جو آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو وہ مجھے لکھ بھیجو۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر مغیرہ (رض) نے انہیں لکھا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا ہے، آپ نماز سے فارغ ہونے کے بعد یہ دعا پڑھتے لا إله إلا الله، وحده لا شريك له، له الملک، وله الحمد، وهو على كل شىء قدير کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں جو تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، بادشاہت اسی کی ہے اور تمام تعریفیں اسی کے لیے ہیں اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ یہ تین مرتبہ پڑھتے۔ بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ بےفائدہ بات چیت کرنے، زیادہ سوال کرنے، مال ضائع کرنے، اپنی چیز بچا کر رکھنے اور دوسروں کی مانگتے رہنے، ماؤں کی نافرمانی کرنے اور لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے سے منع فرماتے تھے۔ اور ہشیم سے روایت ہے، انہیں عبدالملک ابن عمیر نے خبر دی، کہا کہ میں نے وراد سے سنا، وہ یہ حدیث مغیرہ (رض) سے بیان کرتے تھے اور وہ نبی کریم ﷺ سے۔
زبان کی حفاظت کرنے کا بیان، اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، وہ اچھی بات کہے، یا خاموش رہے ( اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ آدمی کوئی بات اپنے منہ سے نہیں نکالتا، جس کے لئے کوئی محافظ تیار نہ ہو)۔
ہم سے محمد بن ابوبکر مقدمی نے بیان کیا، کہا ہم سے عمر بن علی نے بیان کیا، انہوں نے ابوحازم سے سنا، انہوں نے سہل بن سعد (رض) سے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میرے لیے جو شخص دونوں جبڑوں کے درمیان کی چیز (زبان) اور دونوں ٹانگوں کے درمیان کی چیز (شرمگاہ) کی ذمہ داری دیدے میں اس کے لیے جنت کی ذمہ داری دیتا ہوں۔
زبان کی حفاظت کرنے کا بیان، اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، وہ اچھی بات کہے، یا خاموش رہے ( اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ آدمی کوئی بات اپنے منہ سے نہیں نکالتا، جس کے لئے کوئی محافظ تیار ہو)۔
مجھ سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابرہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اچھی بات کہے ورنہ خاموش رہے اور جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے اور جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی عزت کرے۔
زبان کی حفاظت کرنے کا بیان، اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، وہ اچھی بات کہے، یا خاموش رہے ( اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ آدمی کوئی بات اپنے منہ سے نہیں نکالتا، جس کے لئے کوئی محافظ تیار ہو)۔
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سعید مقبری نے بیان کیا، ان سے ابوشریح خزاعی نے بیان کیا انہوں نے کہا کہ میرے دونوں کانوں نے سنا ہے اور میرے دل نے یاد رکھا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے یہ فرمایا تھا مہمانی تین دن کی ہوتی ہے مگر جو لازمی ہے وہ تو پوری کرو۔ پوچھا گیا لازمی کتنی ہے ؟ فرمایا کہ ایک دن اور ایک رات اور جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اپنے مہمان کی خاطر کرے اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اچھی بات کہے ورنہ چپ رہے۔
زبان کی حفاظت کرنے کا بیان، اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، وہ اچھی بات کہے، یا خاموش رہے ( اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ آدمی کوئی بات اپنے منہ سے نہیں نکالتا، جس کے لئے کوئی محافظ تیار ہو)۔
مجھ سے ابرہیم بن حمزہ نے بیان کیا، کہا مجھ سے ابن ابی حازم نے بیان کیا، ان سے یزید بن عبداللہ نے، ان سے محمد بن ابراہیم نے، ان سے عیسیٰ بن طلحہ تیمی نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے، انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ ﷺ نے فرمایا بندہ ایک بات زبان سے نکالتا ہے اور اس کے متعلق سوچتا نہیں (کتنی کفر اور بےادبی کی بات ہے) جس کی وجہ سے وہ دوزخ کے گڑھے میں اتنی دور گرپڑتا ہے جتنا مغرب سے مشرق دور ہے۔
زبان کی حفاظت کرنے کا بیان، اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، وہ اچھی بات کہے، یا خاموش رہے ( اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ آدمی کوئی بات اپنے منہ سے نہیں نکالتا، جس کے لئے کوئی محافظ تیار ہو)۔
مجھ سے عبداللہ بن منیر نے بیان کیا، انہوں نے ابوالنضر سے سنا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالرحمٰن بن عبداللہ یعنی ابن دینار نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے، ان سے ابوصالح نے، ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا بندہ اللہ کی رضا مندی کے لیے ایک بات زبان سے نکالتا ہے اسے وہ کوئی اہمیت نہیں دیتا مگر اسی کی وجہ سے اللہ اس کے درجے بلند کردیتا ہے اور ایک دوسرا بندہ ایک ایسا کلمہ زبان سے نکالتا ہے جو اللہ کی ناراضگی کا باعث ہوتا ہے اسے وہ کوئی اہمیت نہیں دیتا لیکن اس کی وجہ سے وہ جہنم میں چلا جاتا ہے۔
اللہ کے ڈر سے رو نے کا بیان۔
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے خبیب بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، ان سے حفص بن عاصم نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا سات طرح کے لوگ وہ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ اپنے سایہ میں پناہ دے گا۔ (ان میں) ایک وہ شخص بھی ہے جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا تو اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔
اللہ سے ڈرنے کا بیان۔
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن عبدالحمید نے، ان سے منصور بن معتمر نے، ان سے ربعی بن حراش نے اور ان سے حذیفہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا پچھلی امتوں میں کا، ایک شخص جسے اپنے برے عملوں کا ڈر تھا۔ اس نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ جب میں مرجاؤں تو میری لاش ریزہ ریزہ کر کے گرم دن میں اٹھا کے دریا میں ڈال دینا۔ اس کے گھر والوں نے اس کے ساتھ ایسا ہی کیا پھر اللہ تعالیٰ نے اسے جمع کیا اور اس سے پوچھا کہ یہ جو تم نے کیا اس کی وجہ کیا ہے ؟ اس شخص نے کہا کہ پروردگار مجھے اس پر صرف تیرے خوف نے آمادہ کیا، چناچہ اللہ تعالیٰ نے اس کی مغفرت فرما دی۔
اللہ سے ڈرنے کا بیان۔
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے معتمر نے بیان کیا، کہا میں نے اپنے والد سے سنا، ان سے قتادہ نے بیان کیا، ان سے عقبہ بن عبدالغافر نے اور ان سے ابو سعید خدری (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے پچھلی امتوں کے ایک شخص کا ذکر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے مال و اولاد عطا فرمائی تھی۔ فرمایا کہ جب اس کی موت کا وقت آیا تو اس نے اپنے لڑکوں سے پوچھا، باپ کی حیثیت سے میں نے کیسا اپنے آپ کو ثابت کیا ؟ لڑکوں نے کہا کہ بہترین باپ۔ پھر اس شخص نے کہا کہ اس نے اللہ کے پاس کوئی نیکی نہیں جمع کی ہے۔ قتادہ نے لم يبتئر کی تفسیر لم يدخر کہ نہیں جمع کی، سے کی ہے۔ اور اس نے یہ بھی کہا کہ اگر اسے اللہ کے حضور میں پیش کیا گیا تو اللہ تعالیٰ اسے عذاب دے گا (اس نے اپنے لڑکوں سے کہا کہ) دیکھو، جب میں مرجاؤں تو میری لاش کو جلا دینا اور جب میں کوئلہ ہوجاؤں تو مجھے پیس دینا اور کسی تیز ہوا کے دن مجھے اس میں اڑا دینا۔ اس نے اپنے لڑکوں سے اس پر وعدہ لیا چناچہ لڑکوں نے اس کے ساتھ ایسا ہی کیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہوجا۔ چناچہ وہ ایک مرد کی شکل میں کھڑا نظر آیا۔ پھر فرمایا، میرے بندے ! یہ جو تو نے کرایا ہے اس پر تجھے کس چیز نے آمادہ کیا تھا ؟ اس نے کہا کہ تیرے خوف نے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا بدلہ یہ دیا کہ اس پر رحم فرمایا۔ میں نے یہ حدیث عثمان سے بیان کی تو انہوں نے بیان کیا کہ میں نے سلمان سے سنا۔ البتہ انہوں نے یہ لفظ بیان کیے کہ مجھے دریا میں بہا دینا یا جیسا کہ انہوں نے بیان کیا اور معاذ نے بیان کیا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے، انہوں نے عقبہ سے سنا، انہوں نے ابوسعید (رض) سے سنا اور انہوں نے نبی کریم ﷺ سے۔
گناہوں سے باز رہنے کا بیان۔
ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے برید بن عبداللہ بن ابی بردہ نے ان سے ابوبردہ نے، اور ان سے ابوموسیٰ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میری اور جو کچھ کلام اللہ نے میرے ساتھ بھیجا ہے اس کی مثال ایک ایسے شخص جیسی ہے جو اپنی قوم کے پاس آیا اور کہا کہ میں نے (تمہارے دشمن کا) لشکر اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور میں واضح ڈرانے والا ہوں۔ پس بھاگو، پس بھاگو (اپنی جان بچاؤ) اس پر ایک جماعت نے اس کی بات مان لی اور رات ہی رات اطمینان سے کسی محفوظ جگہ پر نکل گئے اور نجات پائی۔ لیکن دوسری جماعت نے اسے جھٹلایا اور دشمن کے لشکر نے صبح کے وقت اچانک انہیں آلیا اور تباہ کردیا۔
گناہوں سے باز رہنے کا بیان۔
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، کہا ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن نے بیان کیا، انہوں نے ابوہریرہ (رض) سے سنا اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ نے فرمایا کہ میری اور لوگوں کی مثال ایک ایسے شخص کی ہے جس نے آگ جلائی، جب اس کے چاروں طرف روشنی ہوگئی تو پروانے اور یہ کیڑے مکوڑے جو آگ پر گرتے ہیں اس میں گرنے لگے اور آگ جلانے والا انہیں اس میں سے نکالنے لگا لیکن وہ اس کے قابو میں نہیں آئے اور آگ میں گرتے رہے۔ اسی طرح میں تمہاری کمر کو پکڑ کر آگ سے تمہیں نکالتا ہوں اور تم ہو کہ اسی میں گرتے جاتے ہو۔
گناہوں سے باز رہنے کا بیان۔
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے زکریا نے بیان کیا، ان سے عامر نے بیان کیا، انہوں نے عبداللہ بن عمر (رض) سے سنا، کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا مسلمان وہ ہے جو مسلمانوں کو اپنی زبان اور ہاتھ سے (تکلیف پہنچنے سے) محفوظ رکھے اور مہاجر وہ ہے جو ان چیزوں سے رک جائے جس سے اللہ نے منع کیا ہے۔
آنحضرت ﷺ کا فرمانا کہ جو کچھ میں جانتا ہوں اگر تم جان لیتے تو تم بہت کم ہنستے اور بہت زیادہ روتے۔
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے سعید بن مسیب نے بیان کیا کہ ابوہریرہ (رض) بیان کیا کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر تمہیں وہ معلوم ہوجائے جو میں جانتا ہوں تو تم ہنستے کم اور روتے زیادہ۔
آنحضرت ﷺ کا فرمانا کہ جو کچھ میں جانتا ہوں اگر تم جان لیتے تو تم بہت کم ہنستے اور بہت زیادہ روتے۔
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے موسیٰ بن انس نے بیان کیا اور ان سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اگر تمہیں وہ معلوم ہوتا جو میں جانتا ہوں تو تم ہنستے کم اور روتے زیادہ۔
دوزخ شہو توں سے ڈھانکی گئی ہے۔
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ابوالزناد نے، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دوزخ خواہشات نفسانی سے ڈھک دی گئی ہے اور جنت مشکلات اور دشواریوں سے ڈھکی ہوئی ہے۔
جنت اور اسی طرح جہنم بھی تمہاری جوتوں کے تسمہ سے زیادہ قریب ہے۔
ہم سے موسیٰ بن مسعود نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے منصور اور اعمش نے بیان کیا، ان سے ابو وائل نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جنت تمہارے جوتے کے تسمے سے بھی زیادہ تمہارے قریب ہے اور اسی طرح دوزخ بھی۔
جنت اور اسی طرح جہنم بھی تمہاری جوتہوں کے تسمہ سے زیادہ قریب ہے۔
مجھ سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عبدالملک بن عمیر نے بیان کیا، ان سے ابوسلمہ نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا سب سے سچا شعر جسے شاعر نے کہا ہے یہ ہے ہاں اللہ کے سوا تمام چیزیں بےبنیاد ہیں۔
اس کی طرف نظر کرنا چاہئے جو ( مال ودولت میں) پست ہو اس کی طرف نظر نہ کرے جو (مال ودولت میں) بڑھا ہوا ہو۔
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ابوالزناد نے، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جب تم میں نے کوئی شخص کسی ایسے آدمی کو دیکھے جو مال اور شکل و صورت میں اس سے بڑھ کر ہے تو اسے ایسے شخص کا دھیان کرنا چاہیے جو اس سے کم درجہ کا ہے۔
نیکی یا برائی کا ارادہ کرنے کا بیان۔
ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے جعد ابوعثمان نے بیان کیا، ان سے ابورجاء عطاردی نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عباس (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا اللہ تعالیٰ نے نیکیاں اور برائیاں مقدر کردی ہیں اور پھر انہیں صاف صاف بیان کردیا ہے۔ پس جس نے کسی نیکی کا ارادہ کیا لیکن اس پر عمل نہ کرسکا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے ایک مکمل نیکی کا بدلہ لکھا ہے اور اگر اس نے ارادہ کے بعد اس پر عمل بھی کرلیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے اپنے یہاں دس گنا سے سات سو گنا تک نیکیاں لکھی ہیں اور اس سے بڑھ کر اور جس نے کسی برائی کا ارادہ کیا اور پھر اس پر عمل نہیں کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے اپنے یہاں نیکی لکھی ہے اور اگر اس نے ارادہ کے بعد اس پر عمل بھی کرلیا تو اپنے یہاں اس کے لیے ایک برائی لکھی ہے۔
گناہوں کو حقیر سمجھنے سے بچنے کا بیان۔
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے مہدی نے بیان کیا، ان سے غیلان نے، ان سے انس (رض) نے، انہوں نے کہا کہ تم ایسے ایسے عمل کرتے ہو جو تمہاری نظر میں بال سے زیادہ باریک ہیں (تم اسے حقیر سمجھتے ہو، بڑا گناہ نہیں سمجھتے) اور ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ان کاموں کو ہلاک کردینے والا سمجھتے تھے۔ امام بخاری (رح) نے کہا کہ حدیث میں جو لفظ موبقات ہے اس کا معنی ہلاک کرنے والے۔
اعمال خاتمے پر موقوف ہیں، اور خاتمے سے ڈرنے کا بیان۔
ہم سے علی بن عیاش نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابوغسان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابوحازم نے بیان کیا، ان سے سہل بن سعد ساعدی (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا جو مشرکین سے جنگ میں مصروف تھا، یہ شخص مسلمانوں کے صاحب مال و دولت لوگوں میں سے تھا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر کوئی چاہتا ہے کہ کسی جہنمی کو دیکھے تو وہ اس شخص کو دیکھے۔ اس پر ایک صحابی اس شخص کے پیچھے لگ گئے وہ شخص برابر لڑتا رہا اور آخر زخمی ہوگیا۔ پھر اس نے چاہا کہ جلدی مرجائے۔ پس اپنی تلوار ہی کی دھار اپنے سینے کے درمیان رکھ کر اس پر اپنے آپ کو ڈال دیا اور تلوار اس کے شانوں کو چیرتی ہوئی نکل گئی (اس طرح وہ خودکشی کر کے مرگیا) نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ بندہ لوگوں کی نظر میں اہل جنت کے کام کرتا رہتا ہے حالانکہ وہ جہنم میں سے ہوتا ہے۔ ایک دوسرا بندہ لوگوں کی نظر میں اہل جہنم کے کام کرتا رہتا ہے حالانکہ وہ جنتی ہوتا ہے اور اعمال کا اعتبار تو خاتمہ پر موقوف ہے۔
گوشہ نشینی برے ساتھیوں سے بچنے کا ذریعہ ہے۔
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا کہ مجھ سے عطاء بن یزید نے بیان کیا اور ان سے ابو سعید خدری (رض) نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ سوال کیا گیا : اے اللہ کے رسول ! محمد بن یوسف نے بیان کیا، ان سے اوزاعی نے بیان کیا، ان سے زہری نے بیان کیا، ان سے عطاء بن یزید لیثی نے بیان کیا اور ان سے ابو سعید خدری (رض) نے بیان کیا کہ ایک اعرابی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا : یا رسول اللہ ! کون شخص سب سے اچھا ہے ؟ فرمایا کہ وہ شخص جس نے اپنی جان اور مال کے ذریعہ جہاد کیا اور وہ شخص جو کسی پہاڑ کی کھوہ میں ٹھہرا ہوا اپنے رب کی عبادت کرتا ہے اور لوگوں کو اپنی برائی سے محفوظ رکھتا ہے۔ اس روایت کی متابعت زبیدی، سلیمان بن کثیر اور نعمان نے زہری سے کی۔ اور معمر نے زہری سے بیان کیا، ان سے عطاء یا عبیداللہ نے، ان سے ابو سعید خدری (رض) نے بیان کیا اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اور یونس و ابن مسافر اور یحییٰ بن سعید نے ابن شہاب (زہری) سے بیان کیا، ان سے عطاء نے اور ان سے نبی کریم ﷺ کے کسی صحابی نے اور ان سے نبی کریم ﷺ نے۔
گوشہ نشینی برے ساتھیوں سے بچنے کا ذریعہ ہے۔
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ماجشون نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن ابی صعصعہ نے، ان سے ان کے والد نے اور انہوں نے ابو سعید خدری (رض) سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا، آپ ﷺ نے فرمایا کہ لوگوں پر ایک ایسا دور آئے گا جب ایک مسلمان کا سب سے بہتر مال بھیڑیں ہوں گی وہ انہیں لے کر پہاڑ کی چوٹیوں اور بارش کی جگہوں پر چلا جائے گا، اس دن وہ اپنے دین کو لے کر فسادوں سے ڈر کر وہاں سے بھاگ جائے گا۔
امانت اٹھ جانے کا بیان۔
ہم سے محمد بن سنان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے فلیح بن سلیمان نے بیان کیا، کہا ہم سے ہلال بن علی نے بیان کیا، ان سے عطاء بن یسار نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب امانت ضائع کی جائے تو قیامت کا انتظار کرو۔ پوچھا : یا رسول اللہ ! امانت کس طرح ضائع کی جائے گی ؟ فرمایا جب کام نااہل لوگوں کے سپرد کر دئیے جائیں تو قیامت کا انتظار کرو۔
امانت اٹھ جانے کا بیان۔
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا ان سے زید بن وہب نے، کہا ہم سے حذیفہ (رض) نے بیان کیا کہ ہم سے رسول اللہ ﷺ نے دو حدیثیں ارشاد فرمائیں۔ ایک کا ظہور تو میں دیکھ چکا ہوں اور دوسری کا منتظر ہوں۔ نبی کریم ﷺ نے ہم سے فرمایا کہ امانت لوگوں کے دلوں کی گہرائیوں میں اترتی ہے۔ پھر قرآن شریف سے، پھر حدیث شریف سے اس کی مضبوطی ہوتی جاتی ہے اور نبی کریم ﷺ نے ہم سے اس کے اٹھ جانے کے متعلق ارشاد فرمایا کہ آدمی ایک نیند سوئے گا اور (اسی میں) امانت اس کے دل سے ختم ہوگی اور اس بےایمانی کا ہلکا نشان پڑجائے گا۔ پھر ایک اور نیند لے گا اب اس کا نشان چھالے کی طرح ہوجائے گا جیسے تو پاؤں پر ایک چنگاری لڑھکائے تو ظاہر میں ایک چھالا پھول آتا ہے اس کو پھولا دیکھتا ہے، پر اندر کچھ نہیں ہوتا۔ پھر حال یہ ہوجائے گا کہ صبح اٹھ کر لوگ خریدو فروخت کریں گے اور کوئی شخص امانت دار نہیں ہوگا، کہا جائے گا کہ بنی فلاں میں ایک امانت دار شخص ہے۔ کسی شخص کے متعلق کہا جائے گا کہ کتنا عقلمند ہے، کتنا بلند حوصلہ ہے اور کتنا بہادر ہے۔ حالانکہ اس کے دل میں رائی برابر بھی ایمان (امانت) نہیں ہوگا۔ (حذیفہ (رض) کہتے ہیں) میں نے ایک ایسا وقت بھی گزارا ہے کہ میں اس کی پروا نہیں کرتا تھا کہ کس سے خریدو فروخت کرتا ہوں۔ اگر وہ مسلمان ہوتا تو اس کو اسلام (بےایمانی سے) روکتا تھا۔ اگر وہ نصرانی ہوتا تو اس کا مددگار اسے روکتا تھا لیکن اب میں فلاں اور فلاں کے سوا کسی سے خریدو فروخت ہی نہیں کرتا۔
امانت اٹھ جانے کا بیان۔
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ کو سالم بن عبداللہ نے خبر دی اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ ﷺ نے فرمایا کہ لوگوں کی مثال اونٹوں کی سی ہے قریب ہے کہ تو ان میں سے ایک کو بھی سواری کے قابل نہ پائے۔
ریاء اور شہرت کا بیان۔
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، کہا مجھ سے سلمہ بن کہیل نے بیان کیا۔ (دوسری سند ) امام بخاری (رح) نے کہا کہ ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے سلمہ نے بیان کیا کہ میں نے جندب (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اور میں نے آپ کے سوا کسی کو یہ کہتے نہیں سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، چناچہ میں ان کے قریب پہنچا تو میں نے سنا کہ وہ کہہ رہے تھے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ (کسی نیک کام کے نتیجہ میں) جو شہرت کا طالب ہو اللہ تعالیٰ اس کی بدنیتی قیامت کے دن سب کو سنا دے گا۔ اسی طرح جو کوئی لوگوں کو دکھانے کے لیے نیک کام کرے گا اللہ بھی قیامت کے دن اس کو سب لوگوں کو دکھلا دے گا۔
اس شخص کا بیان جو اللہ کی اطاعت میں کوشش کرے۔
ہم سے ہدبہ بن خالد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ہمام بن حارث نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے قتادہ نے بیان کیا، ان سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا اور ان سے معاذ بن جبل (رض) نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی سواری پر آپ کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا۔ سوا کجاوہ کے آخری حصہ کے میرے اور نبی کریم ﷺ کے درمیان کوئی چیز حائل نہیں تھی۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، اے معاذ ! میں نے عرض کیا لبیک وسعدیک، یا رسول اللہ ! پھر تھوڑی دیر نبی کریم ﷺ چلتے رہے پھر فرمایا، اے معاذ ! میں نے عرض کیا لبیک وسعدیک یا رسول اللہ ! پھر تھوڑی دیر مزید نبی کریم ﷺ چلتے رہے۔ پھر فرمایا، اے معاذ ! میں نے عرض کیا لبیک وسعدیک یا رسول اللہ ! فرمایا، تمہیں معلوم ہے کہ اللہ کا اپنے بندوں پر کیا حق ہے ؟ میں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ فرمایا، اللہ کا بندوں پر یہ حق ہے کہ وہ اللہ ہی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ پھر نبی کریم ﷺ تھوڑی دیر چلتے رہے اور فرمایا، اے معاذ بن جبل ! میں نے عرض کیا لبیک وسعدیک یا رسول اللہ ! فرمایا، تمہیں معلوم ہے کہ جب بندے یہ کرلیں تو ان کا اللہ پر کیا حق ہے ؟ میں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ فرمایا کہ بندوں کا اللہ پر یہ حق ہے کہ وہ انہیں عذاب نہ دے۔
تواضع کا بیان۔
ہم سے مالک بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے زبیر بن معاویہ نے بیان کیا، کہا ہم سے حمید نے بیان کیا، ان سے انس (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ کی ایک اونٹنی تھی (دوسری سند) امام بخاری (رح) نے کہا اور مجھ سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم کو فزاری نے اور ابوخالد احمر نے خبر دی، انہیں حمید طویل نے اور ان سے انس (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کی ایک اونٹنی تھی جس کا نام عضباء تھا (کوئی جانور دوڑ میں) اس سے آگے نہیں بڑھ پاتا تھا۔ پھر ایک اعرابی اپنے اونٹ پر سوار ہو کر آیا اور وہ نبی کریم ﷺ کی اونٹنی سے آگے بڑھ گیا۔ مسلمانوں پر یہ معاملہ بڑا شاق گزرا اور کہنے لگے کہ افسوس عضباء پیچھے رہ گئی۔ نبی کریم ﷺ نے اس پر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر یہ لازم کرلیا ہے کہ جب دنیا میں وہ کسی چیز کو بڑھاتا ہے تو اسے وہ گھٹاتا بھی ہے۔
تواضع کا بیان۔
مجھ سے محمد بن عثمان نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد بن مخلد نے، کہا ہم سے سلیمان بن بلال نے، ان سے شریک بن عبداللہ بن ابی نمر نے، ان سے عطاء نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی اسے میری طرف سے اعلان جنگ ہے اور میرا بندہ جن جن عبادتوں سے میرا قرب حاصل کرتا ہے اور کوئی عبادت مجھ کو اس سے زیادہ پسند نہیں ہے جو میں نے اس پر فرض کی ہے (یعنی فرائض مجھ کو بہت پسند ہیں جیسے نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ ) اور میرا بندہ فرض ادا کرنے کے بعد نفل عبادتیں کر کے مجھ سے اتنا نزدیک ہوجاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں۔ پھر جب میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں اگر وہ کسی دشمن یا شیطان سے میری پناہ مانگتا ہے تو میں اسے محفوظ رکھتا ہوں اور میں جو کام کرنا چاہتا ہوں اس میں مجھے اتنا تردد نہیں ہوتا جتنا کہ مجھے اپنے مومن بندے کی جان نکالنے میں ہوتا ہے۔ وہ تو موت کو بوجہ تکلیف جسمانی کے پسند نہیں کرتا اور مجھ کو بھی اسے تکلیف دینا برا لگتا ہے۔
نبی ﷺ کا فرمانا کہ میں اور قیامت اس طرح بھیجے گئے ہیں جس طرح یہ دو انگلیاں، اور قیامت کا معاملہ بس آنکھ کے جھپکنے کی طرح بلکہ اس سے بھی جلد ہوگا، بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوغسان نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوحازم نے بیان کیا، ان سے سہل (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں اور قیامت اتنے نزدیک نزدیک بھیجے گئے ہیں اور نبی کریم ﷺ نے اپنی دو انگلیوں کے اشارہ سے (اس نزدیکی کو) بتایا پھر ان دونوں کو پھیلایا۔
نبی ﷺ کا فرمانا کہ میں اور قیامت اس طرح بھیجے گئے ہیں جس طرح یہ دو انگلیاں، اور قیامت کا معاملہ بس آنکھ کے جھپکنے کی طرح بلکہ اس سے بھی جلد ہوگا، بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔
مجھ سے عبداللہ بن محمد جعفی نے بیان کیا، کہا ہم سے وہب بن جریر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ اور ابوالتیاح نے اور ان سے انس (رض) کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا میں اور قیامت ان دونوں (انگلیوں) کی طرح (نزدیک نزدیک) بھیجے گئے ہیں۔
نبی ﷺ کا فرمانا کہ میں اور قیامت اس طرح بھیجے گئے ہیں جس طرح یہ دو انگلیاں، اور قیامت کا معاملہ بس آنکھ کے جھپکنے کی طرح بلکہ اس سے بھی جلد ہوگا، بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔
مجھ سے یحییٰ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو ابوبکر بن عیاش نے خبر دی، انہیں ابوحصین نے، انہیں ابوصالح نے، انہیں ابوہریرہ (رض) نے اور ان سے نبی کریم ﷺ نے فرمایا میں اور قیامت ان دو کی طرح بھیجے گئے ہیں۔ آپ کی مراد دو انگلیوں سے تھی۔ ابوبکر بن عیاش کے ساتھ اس حدیث کو اسرائیل نے بھی ابوحصین سے روایت کیا ہے۔
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، کہا ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک سورج مغرب سے نہ نکلے گا۔ جب سورج مغرب سے نکلے گا اور لوگ دیکھ لیں گے تو سب ایمان لے آئیں گے، یہی وہ وقت ہوگا جب کسی کو اس کا ایمان نفع نہیں دے گا جو اس سے پہلے ایمان نہ لایا ہوگا یا جس نے ایمان کے بعد عمل خیر نہ کیا ہو۔ پس قیامت آجائے گی اور دو آدمی کپڑا درمیان میں (خریدو فروخت کے لیے) پھیلائے ہوئے ہوں گے۔ ابھی خریدو فروخت بھی نہیں ہوئی ہوگی اور نہ انہوں نے اسے لپیٹا ہی ہوگا (کہ قیامت قائم ہوجائے گی) اور قیامت اس حال میں قائم ہوجائے گی کہ ایک شخص اپنی اونٹنی کا دودھ لے کر آ رہا ہوگا اور اسے پی بھی نہیں سکے گا اور قیامت اس حال میں قائم ہوجائے گی کہ ایک شخص اپنا حوض تیار کرا رہا ہوگا اور اس کا پانی بھی نہ پی پائے گا۔ قیامت اس حال میں قائم ہوجائے گی کہ ایک شخص اپنا لقمہ اپنے منہ کی طرف اٹھائے گا اور اسے کھانے بھی نہ پائے گا۔
جو شخص اللہ کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس سے ملنے کو پسند کرتا ہے۔
ہم سے حجاج نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمام نے، کہا ہم سے قتادہ نے ان سے انس (رض) نے اور ان سے عبادہ بن صامت (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص اللہ سے ملنے کو محبوب رکھتا ہے، اللہ بھی اس سے ملنے کو محبوب رکھتا ہے اور جو اللہ سے ملنے کو پسند نہیں کرتا ہے اللہ بھی اس سے ملنے کو پسند نہیں کرتا۔ اور عائشہ (رض) یا نبی کریم ﷺ کی بعض ازواج نے عرض کیا کہ مرنا تو ہم بھی نہیں پسند کرتے ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کے ملنے سے موت مراد نہیں ہے بلکہ بات یہ ہے کہ ایماندار آدمی کو جب موت آتی ہے تو اسے اللہ کی خوشنودی اور اس کے یہاں اس کی عزت کی خوشخبری دی جاتی ہے۔ اس وقت مومن کو کوئی چیز اس سے زیادہ عزیز نہیں ہوتی جو اس کے آگے (اللہ سے ملاقات اور اس کی رضا اور جنت کے حصول کے لیے) ہوتی ہے، اس لیے وہ اللہ سے ملاقات کا خواہشمند ہوجاتا ہے اور اللہ بھی اس کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اور جب کافر کی موت کا وقت قریب آتا ہے تو اسے اللہ کے عذاب اور اس کی سزا کی بشارت دی جاتی ہے، اس وقت کوئی چیز اس کے دل میں اس سے زیادہ ناگوار نہیں ہوتی جو اس کے آگے ہوتی ہے۔ وہ اللہ سے جا ملنے کو ناپسند کرنے لگتا ہے، پس اللہ بھی اس سے ملنے کو ناپسند کرتا ہے۔ ابودواؤد طیالسی اور عمرو بن مرزوق نے اس حدیث کو شعبہ سے مختصراً روایت کیا ہے اور سعید بن ابی عروبہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے، ان سے زرارہ بن ابی اوفی نے، ان سے سعد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا۔
جو شخص اللہ کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس سے ملنے کو پسند کرتا ہے۔
مجھ سے محمد بن علاء نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے، ان سے یزید بن عبداللہ نے، ان سے ابوبردہ نے، ان سے ابوموسیٰ اشعری (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص اللہ سے ملنے کو پسند کرتا ہے اللہ بھی اس سے ملنے کو پسند کرتا ہے اور جو شخص اللہ سے ملنے کو ناپسند کرتا ہے اللہ بھی اس سے ملنے کو ناپسند کرتا ہے۔
جو شخص اللہ کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس سے ملنے کو پسند کرتا ہے۔
مجھ سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل بن خالد نے، ان سے ابن شہاب نے، کہا مجھ کو سعید بن مسیب اور عروہ بن زبیر نے چند علم والوں کے سامنے خبر دی کہ نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے جب آپ خاصے تندرست تھے فرمایا تھا کسی نبی کی اس وقت تک روح قبض نہیں کی جاتی جب تک جنت میں اس کے رہنے کی جگہ اسے دکھا نہ دی جاتی ہو اور پھر اسے (دنیا یا آخرت کے لیے) اختیار دیا جاتا ہے۔ پھر جب نبی کریم ﷺ بیمار ہوئے اور نبی کریم ﷺ کا سر مبارک میری ران پر تھا تو آپ پر تھوڑی دیر کے لیے غشی چھا گئی، پھر جب آپ کو ہوش آیا تو آپ چھت کی طرف ٹکٹکی لگا کر دیکھنے لگے۔ پھر فرمایا اللهم الرفيق الأعلى میں نے کہا کہ اب نبی کریم ﷺ ہمیں ترجیح نہیں دے سکتے اور میں سمجھ گئی کہ یہ وہی حدیث ہے جو آپ نے ایک مرتبہ ارشاد فرمائی تھی۔ راوی نے بیان کیا کہ یہ نبی کریم ﷺ کا آخری کلمہ تھا جو آپ نے اپنی زبان مبارک سے ادا فرمایا یعنی یہ ارشاد کہ اللهم الرفيق الأعلى یعنی یا اللہ ! مجھ کو بلند رفیقوں کا ساتھ پسند ہے۔
سکرات موت کا بیان۔
ہم سے محمد بن عبید بن میمون نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عیسیٰ بن یونس نے بیان کیا، ان سے عمر بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ کو ابن ابی ملیکہ نے خبر دی، انہیں عائشہ (رض) کے غلام ابوعمرو ذکوان نے خبر دی کہ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ (رض) کہا کرتی تھیں کہ رسول اللہ ﷺ (کی وفات کے وقت) آپ کے سامنے ایک بڑا پانی کا پیالہ رکھا ہوا تھا جس میں پانی تھا۔ یہ عمر کو شبہ ہوا کہ ہانڈی کا کو نڈا تھا۔ نبی کریم ﷺ اپنا ہاتھ اس برتن میں ڈالتے اور پھر اس ہاتھ کو اپنے چہرہ پر ملتے اور فرماتے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، بلاشبہ موت میں تکلیف ہوتی ہے، پھر آپ اپنا ہاتھ اٹھا کر فرمانے لگے في الرفيق الأعلى یہاں تک کہ آپ کی روح مبارک قبض ہوگئی اور آپ کا ہاتھ جھک گیا۔
سکرات موت کا بیان۔
مجھ سے صدقہ نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدہ نے خبر دی، انہیں ہشام نے، انہیں ان کے والد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ چند بدوی جو ننگے پاؤں رسول اللہ ﷺ کے پاس آتے تھے اور آپ سے دریافت کرتے تھے کہ قیامت کب آئے گی ؟ نبی کریم ﷺ ان میں سے کم عمر والے کو دیکھ کر فرمانے لگے کہ اگر یہ بچہ زندہ رہا تو اس کے بڑھاپے سے پہلے تم پر تمہاری قیامت آجائے گی۔ ہشام نے کہا کہ نبی کریم ﷺ کی مراد (قیامت سے) ان کی موت تھی۔
سکرات موت کا بیان۔
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے محمد بن عمرو حلحلہ نے، ان سے سعد بن کعب بن مالک نے، ان سے ابوقتادہ بن ربعی انصاری (رض) نے، وہ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ کے قریب سے لوگ ایک جنازہ لے کر گزرے تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ مستريح یا مستراح ہے یعنی اسے آرام مل گیا، یا اس سے آرام مل گیا۔ صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! المستریح او المستراح منہ کا کیا مطلب ہے ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ مومن بندہ دنیا کی مشقتوں اور تکلیفوں سے اللہ کی رحمت میں نجات پا جاتا ہے وہ مستريح ہے اور مستراح منہ وہ ہے کہ فاجر بندہ سے اللہ کے بندے، شہر، درخت اور چوپائے سب آرام پا جاتے ہیں۔
سکرات موت کا بیان۔
مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے عبدربہ بن سعید نے، ان سے محمد بن عمر نے بیان کیا، ان سے طلحہ بن کعب نے بیان کیا، ان سے ابوقتادہ نے اور ان سے نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہ مرنے والا یا تو آرام پانے والا ہے یا دوسرے بندوں کو آرام دینے والا ہے۔
سکرات موت کا بیان۔
ہم سے حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن ابی بکر بن عمرو بن حزم نے بیان کیا، انہوں نے انس بن مالک (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میت کے ساتھ تین چیزیں چلتی ہیں دو تو واپس آجاتی ہیں صرف ایک کام اس کے ساتھ رہ جاتا ہے، اس کے ساتھ اس کے گھر والے اس کا مال اور اس کا عمل چلتا ہے اس کے گھر والے اور مال تو واپس آجاتا ہے اور اس کا عمل اس کے ساتھ باقی رہ جاتا ہے۔
سکرات موت کا بیان۔
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی مرتا ہے تو صبح و شام (جب تک وہ برزخ میں ہے) اس کے رہنے کی جگہ اسے ہر روز دکھائی جاتی ہے یا دوزخ ہو یا جنت اور کہا جاتا ہے کہ یہ تیرے رہنے کی جگہ ہے یہاں تک کہ تو اٹھایا جائے (یعنی قیامت کے دن تک) ۔
سکرات موت کا بیان۔
ہم سے علی بن جعد نے بیان کیا، کہا ہم کو شعبہ بن حجاج نے خبر دی، انہیں اعمش نے، انہیں مجاہد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو لوگ مرگئے ان کو برا نہ کہو کیونکہ جو کچھ انہوں نے آگے بھیجا تھا اس کے پاس وہ خود پہنچ چکے ہیں، انہوں نے برے بھلے جو بھی عمل کئے تھے ویسا بدلہ پا لیا۔
صور پھونکنے کا بیان، مجاہد نے کہا کہ صور بوق کی طرح ایک چیز ہے زجرۃ کے معنی چیخ کے ہیں اور ابن عباس (رض) نے کہا کہ ناقور سے مراد صور ہے راجفۃ سے مراد پہلی پھونک ہے اور رادفۃ سے مراد دوسری پھونک ہے۔
مجھ سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے اور عبدالرحمٰن الاعرج نے بیان کیا، ان دونوں نے بیان کیا کہ ابوہریرہ (رض) نے فرمایا کہ دو آدمیوں نے آپس میں گالی گلوچ کی۔ جن میں سے ایک مسلمان تھا اور دوسرا یہودی تھا۔ مسلمان نے کہا کہ اس پروردگار کی قسم جس نے محمد ﷺ کو تمام جہان پر برگزیدہ کیا۔ یہودی نے کہا کہ اس پروردگار کی قسم جس نے موسیٰ (علیہ السلام) کو تمام جہان پر برگزیدہ کیا۔ راوی نے بیان کیا کہ مسلمان یہودی کی بات سن کر خفا ہوگیا اور اس کے منہ پر ایک طمانچہ رسید کیا۔ وہ یہودی رسول اللہ ﷺ کے پاس گیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنا اور مسلمان کا سارا واقعہ بیان کیا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا دیکھو موسیٰ (علیہ السلام) پر مجھ کو فضیلت مت دو کیونکہ قیامت کے دن ایسا ہوگا کہ صور پھونکتے ہی تمام لوگ بیہوش ہوجائیں گے اور میں سب سے پہلا شخص ہوں گا جسے ہوش آئے گا۔ میں کیا دیکھوں گا کہ موسیٰ (علیہ السلام) عرش الٰہی کا کونا تھامے ہوئے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کی موسیٰ (علیہ السلام) بھی ان لوگوں میں ہوں گے جو بیہوش ہوئے تھے اور پھر مجھ سے پہلے ہی ہوش میں آگئے تھے یا ان میں سے ہوں گے جنہیں اللہ تعالیٰ نے اس سے مستثنیٰ کردیا۔
صور پھونکنے کا بیان، مجاہد نے کہا کہ صور بوق کی طرح ایک چیز ہے زجرۃ کے معنی چیخ کے ہیں اور ابن عباس (رض) نے کہا کہ ناقور سے مراد صور ہے راجفۃ سے مراد پہلی پھونک ہے اور رادفۃ سے مراد دوسری پھونک ہے۔
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، کہا ہم سے ابوالزناد نے، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ بےہوشی کے وقت تمام لوگ بیہوش ہوجائیں گے اور سب سے پہلے اٹھنے والا میں ہوں گا۔ اس وقت موسیٰ (علیہ السلام) عرش الٰہی کا کونا تھامے ہوں گے۔ اب میں نہیں جانتا کہ وہ بیہوش بھی ہوں گے یا نہیں۔ اس حدیث کو ابو سعید خدری (رض) نے بھی نبی کریم ﷺ سے روایت کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ زمین کو اپنی مٹھی میں لے لے گا، نافع نے اس کو ابن عمر (رض) سے، انہوں نے آنحضرت ﷺ سے روایت کیا۔
ہم سے مقاتل مروزی نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا ہم کو یونس بن یزید ایلی نے خبر دی، انہیں زہری نے، کہا مجھ سے سعید بن مسیب نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ زمین کو اپنی مٹھی میں لے لے گا اور آسمانوں کو اپنے دائیں ہاتھ میں لپیٹ لے گا، پھر فرمائے گا کہ اب میں ہوں بادشاہ، آج زمین کے بادشاہ کہاں گئے ؟
اللہ تعالیٰ زمین کو اپنی مٹھی میں لے لے گا، نافع نے اس کو ابن عمر (رض) سے، انہوں نے آنحضرت ﷺ سے روایت کیا۔
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے خالد بن یزید نے، ان سے سعید بن ابی ہلال نے، ان سے زید بن اسلم نے، ان سے عطاء بن یسار نے اور ان سے ابو سعید خدری (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن ساری زمین ایک روٹی کی طرح ہوجائے گی جسے اللہ تعالیٰ اہل جنت کی میزبانی کے لیے اپنے ہاتھ سے الٹے پلٹے گا جس طرح تم دستر خوان پر روٹی لہراتے پھراتے ہو۔ پھر ایک یہودی آیا اور بولا : ابوالقاسم ! تم پر رحمن برکت نازل کرے کیا میں تمہیں قیامت کے دن اہل جنت کی سب سے پہلی ضیافت کے بارے میں خبر نہ دوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا، کیوں نہیں۔ تو اس نے (بھی یہی) کہا کہ ساری زمین ایک روٹی کی طرح ہوجائے گی جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا۔ پھر نبی کریم ﷺ نے ہماری طرف دیکھا اور مسکرائے جس سے آپ کے آگے کے دانت دکھائی دینے لگے۔ پھر (اس نے) خود ہی پوچھا کیا میں تمہیں اس کے سالن کے متعلق خبر نہ دوں ؟ (پھر خود ہی) بولا کہ ان کا سالن بالام ونون. ہوگا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا کہ یہ کیا چیز ہے ؟ اس نے کہا کہ بیل اور مچھلی جس کی کلیجی کے ساتھ زائد چربی کے حصے کو ستر ہزار آدمی کھائیں گے۔
اللہ تعالیٰ زمین کو اپنی مٹھی میں لے لے گا، نافع نے اس کو ابن عمر (رض) سے، انہوں نے آنحضرت ﷺ سے روایت کیا۔
ہم سے سعید بن ابومریم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو محمد بن جعفر نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابوحازم سلمہ بن دینار نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے سہل بن سعد الساعدی (رض) سے سنا کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا، نبی کریم ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن لوگوں کا حشر سفید و سرخی آمیز زمین پر ہوگا جیسے میدہ کی روٹی صاف و سفید ہوتی ہے۔ اس زمین پر کسی (چیز) کا کوئی نشان نہ ہوگا۔
حشر کی کیفیت کا بیان۔
ہم سے معلیٰ بن اسد نے بیان کیا، کہا ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن طاؤس نے، ان سے ان کے والد طاؤس نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا لوگوں کا حشر تین فرقوں میں ہوگا (ایک فرقہ والے) لوگ رغبت کرنے نیز ڈرنے والے ہوں گے۔ (دوسرا فرقہ ایسے لوگوں کا ہوگا کہ) ایک اونٹ پر دو آدمی سوار ہوں گے کسی اونٹ پر تین ہوں گے، کسی اونٹ پر چار ہوں گے اور کسی پر دس ہوں گے۔ اور باقی لوگوں کو آگ جمع کرے گی (اہل شرک کا یہ تیسرا فرقہ ہوگا) جب وہ قیلولہ کریں گے تو آگ بھی ان کے ساتھ ٹھہری ہوگی جب وہ رات گزاریں گے تو آگ بھی ان کے ساتھ وہاں ٹھہری ہوگی جب وہ صبح کریں گے تو آگ بھی صبح کے وقت وہاں موجود ہوگی اور جب وہ شام کریں گے تو آگ بھی شام کے وقت ان کے ساتھ موجود ہوگی۔
حشر کی کیفیت کا بیان۔
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے یونس بن محمد بغدادی نے بیان کیا، کہا ہم سے شیبان نحوی نے بیان کیا، کہا ان سے قتادہ نے، کہا ہم سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ ایک صحابی نے کہا، اے اللہ کے نبی ! قیامت میں کافروں کو ان کے چہرے کے بل کس طرح حشر کیا جائے گا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ وہ ذات جس نے انہیں دنیا میں دو پاؤں پر چلایا اسے اس پر قدرت نہیں ہے کہ قیامت کے دن انہیں چہرے کے بل چلا دے۔ قتادہ (رض) نے کہا کہ ضرور ہے، ہمارے رب کی عزت کی قسم، بیشک وہ منہ کے بل چلا سکتا ہے۔
حشر کی کیفیت کا بیان۔
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا کہ عمرو بن دینار نے کہا کہ میں نے سعید بن جبیر سے سنا، انہوں نے ابن عباس (رض) سے سنا اور انہوں نے نبی کریم ﷺ سے سنا، آپ ﷺ نے فرمایا تم اللہ سے قیامت کے دن ننگے پاؤں، ننگے بدن اور پیدل چل کر بن ختنہ ملو گے۔ سفیان نے کہا کہ یہ حدیث ان (نو یا دس حدیثوں) میں سے ہے جن کے متعلق ہم سمجھتے ہیں کہ ابن عباس (رض) نے خود ان کو نبی کریم ﷺ سے سنا۔
حشر کی کیفیت کا بیان۔
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے بیان کیا، ان سے سعید بن جبیر نے، ان سے عبداللہ بن عباس (رض) نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا کہ آپ منبر پر خطبہ میں فرما رہے تھے کہ تم اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملو گے کہ ننگے پاؤں، ننگے جسم اور بغیر ختنہ ہو گے۔
حشر کی کیفیت کا بیان۔
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے مغیرہ بن نعمان نے بیان کیا، ان سے سعید بن جبیر نے، ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ ہمیں خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا تم لوگ قیامت کے دن اس حال میں جمع کئے جاؤ گے کہ ننگے پاؤں اور ننگے جسم ہو گے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا كما بدأنا أول خلق نعيده کہ جس طرح ہم نے شروع میں پیدا کیا تھا اسی طرح لوٹا دیں گے۔ اور تمام مخلوقات میں سب سے پہلے جسے کپڑا پہنایا جائے گا وہ ابراہیم (علیہ السلام) ہوں گے اور میری امت کے بہت سے لوگ لائے جائیں گے جن کے اعمال نامے بائیں ہاتھ میں ہوں گے۔ میں اس پر کہوں گا : اے میرے رب ! یہ تو میرے ساتھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا تمہیں معلوم نہیں کہ انہوں نے تمہارے بعد کیا کیا نئی نئی بدعات نکالی تھیں۔ اس وقت میں بھی وہی کہوں گا جو نیک بندے (عیسیٰ علیہ السلام) نے کہا وكنت عليهم شهيدا ما دمت فيهم کہ یا اللہ ! میں جب تک ان میں موجود رہا اس وقت تک میں ان پر گواہ تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے بیان کیا کہ فرشتے (مجھ سے) کہیں گے کہ یہ لوگ ہمیشہ اپنی ایڑیوں کے بل پھرتے ہی رہے (مرتد ہوتے رہے) ۔
حشر کی کیفیت کا بیان۔
ہم سے قیس بن حفص نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد بن حارث نے بیان کیا، کہا ہم سے حاتم بن ابی صغیرہ نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن ابی ملکیہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے قاسم بن محمد بن ابی بکر نے بیان کیا اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم ننگے پاؤں، ننگے جسم، بلا ختنہ کے اٹھائے جاؤ گے۔ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ اس پر میں نے پوچھا : یا رسول اللہ ! تو کیا مرد عورتیں ایک دوسرے کو دیکھتے ہوں گے ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اس وقت معاملہ اس سے کہیں زیادہ سخت ہوگا، اس کا خیال بھی کوئی نہیں کرسکے گا۔
حشر کی کیفیت کا بیان۔
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق نے بیان کیا، ان سے عمرو بن میمون نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ ایک خیمہ میں تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کیا تم اس پر راضی ہو کہ اہل جنت کا ایک چوتھائی رہو ؟ ہم نے کہا کہ جی ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کیا تم اس پر راضی ہو کہ اہل جنت کا تم ایک تہائی رہو ؟ ہم نے کہا جی ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کیا تم اس پر راضی ہو کہ اہل جنت کا تم نصف رہو ؟ ہم نے کہا جی ہاں۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ( ﷺ ) کی جان ہے، مجھے امید ہے کہ تم لوگ (امت مسلمہ) اہل جنت کا حصہ ہو گے اور ایسا اس لیے ہوگا کہ جنت میں فرمانبردار نفس کے علاوہ اور کوئی داخل نہ ہوگا اور تم لوگ شرک کرنے والوں کے درمیان (تعداد میں) اس طرح ہو گے جیسے سیاہ بیل کے جسم پر سفید بال ہوتے ہیں یا جیسے سرخ کے جسم پر ایک سیاہ بال ہو۔
حشر کی کیفیت کا بیان۔
ہم سے اسماعیل بن اویس نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے بھائی نے بیان کیا، ان سے سلیمان نے، ان سے ثور نے، ان سے ابوالغیث نے، ان سے ابوہریرہ (رض) نے اور ان سے نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن سب سے پہلے آدم (علیہ السلام) کو پکارا جائے گا۔ پھر ان کی نسل ان کو دیکھے گی تو کہا جائے گا کہ یہ تمہارے بزرگ دادا آدم ہیں۔ (پکارنے پر) وہ کہیں گے کہ لبیک وسعدیک۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اپنی نسل میں سے دوزخ کا حصہ نکال لو۔ آدم (علیہ السلام) عرض کریں گے اے پروردگار ! کتنوں کو نکالوں ؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا فیصد (ننانوے فیصد دوزخی ایک جنتی) ۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! جب ہم میں سو میں ننانوے نکال دئیے جائیں تو پھر باقی کیا رہ جائیں گے ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تمام امتوں میں میری امت اتنی ہی تعداد میں ہوگی جیسے سیاہ بیل کے جسم پر سفید بال ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا قول کہ بے شک قیامت کا زلزلہ ایک بڑی چیز ہے ( اللہ تعالیٰ کا قول کہ) آنے والی آگئی ( اور) قریب آگئی قیامت
مجھ سے یوسف بن موسیٰ قطان نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابوصالح نے اور ان سے ابو سعید خدری (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا، اے آدم ! آدم (علیہ السلام) کہیں گے حاضر ہوں فرماں بردار ہوں اور ہر بھلائی تیرے ہاتھ میں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا جو لوگ جہنم میں ڈالے جائیں گے انہیں نکال لو۔ آدم (علیہ السلام) پوچھیں گے جہنم میں ڈالے جانے والے لوگ کتنے ہیں ؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ ہر ایک ہزار میں سے نو سو ننانوے۔ یہی وہ وقت ہوگا جب بچے غم سے بوڑھے ہوجائیں گے اور حاملہ عورتیں اپنا حمل گرا دیں گی اور تم لوگوں کو نشہ کی حالت میں دیکھو گے، حالانکہ وہ واقعی نشہ کی حالت میں نہ ہوں گے بلکہ اللہ کا عذاب سخت ہوگا۔ صحابہ کو یہ بات بہت سخت معلوم ہوئی تو انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! پھر ہم میں سے وہ (خوش نصیب) شخص کون ہوگا ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تمہیں خوشخبری ہو، ایک ہزار یاجوج ماجوج کی قوم سے ہوں گے۔ اور تم میں سے وہ ایک جنتی ہوگا پھر آپ ﷺ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، مجھے امید ہے کہ تم لوگ اہل جنت کا ایک تہائی حصہ ہو گے۔ راوی نے بیان کیا کہ ہم نے اس پر اللہ کی حمد بیان کی اور اس کی تکبیر کہی۔ پھر نبی کریم ﷺ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے مجھے امید ہے کہ آدھا حصہ اہل جنت کا تم لوگ ہو گے۔ تمہاری مثال دوسری امتوں کے مقابلہ میں ایسی ہے جیسے کسی سیاہ بیل کے جسم پر سفید بالوں کی (معمولی تعداد) ہوتی ہے یا وہ سفید داغ جو گدھے کے آگے کے پاؤں پر ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا قول، کہ وہ لوگ یقین نہیں کرتے ہیں کہ وہ لوگ بڑے دن میں اٹھائے جائیں گے جس دن لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے اور ابن عباس (رض) نے کہا وتقطعت بھم الاس ( کافروں کے تمام اس منقطع ہوجائیں گے) اور کہا کہ میل جول صرف دنیا تک ہے۔
ہم سے اسماعیل بن ابان نے بیان کیا، کہا ہم سے عیسیٰ بن یونس نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن عون نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے يوم يقوم الناس لرب العالمين کی تفسیر میں فرمایا کہ تم میں سے ہر کوئی سارے جہانوں کے پروردگار کے آگے کھڑا ہوگا اس حال میں کہ اس کا پسینہ کانوں کی لو تک پہنچا ہوا ہوگا۔
اللہ تعالیٰ کا قول، کہ وہ لوگ یقین نہیں کرتے ہیں کہ وہ لوگ بڑے دن میں اٹھائے جائیں گے جس دن لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے اور ابن عباس (رض) نے کہا وتقطعت بھم الاس ( کافروں کے تمام اس منقطع ہوجائیں گے) اور کہا کہ میل جول صرف دنیا تک ہے۔
مجھ سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا، ان سے ثور بن زید نے بیان کیا، ان سے ابوالغیث نے اور انہوں نے ابوہریرہ (رض) سے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن لوگ پسینے میں شرابور ہوجائیں گے اور حالت یہ ہوجائے گی کہ تم میں سے ہر کسی کا پسینہ زمین پر ستر ہاتھ تک پھیل جائے گا اور منہ تک پہنچ کر کانوں کو چھونے لگے گا۔
قیامت میں قصاص لئے جانے کا بیان اور اس کا نام حاقہ ہے اس لئے کہ اس دن تمام کاموں کا بدلہ دیا جائے گا حقہ اور حاقہ اور قارعہ اور غاشیہ اور صاخہ کے ایک ہی معنی ہیں، اور تغابن کے معنی ہیں، اہل جنت کا دوزخ والوں کو فراموش کردینا۔
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا مجھ سے شقیق نے بیان کیا، کہا میں نے عبداللہ بن مسعود (رض) سے سنا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا سب سے پہلے جس چیز کا فیصلہ لوگوں کے درمیان ہوگا وہ ناحق خون کے بدلہ کا ہوگا۔
قیامت میں قصاص لئے جانے کا بیان اور اس کا نام حاقہ ہے اس لئے کہ اس دن تمام کاموں کا بدلہ دیا جائے گا حقہ اور حاقہ اور قارعہ اور غاشیہ اور کے ایک ہی معنی ہیں، اور تغابن کے معنی ہیں، اہل جنت کا دوزخ والوں کو فراموش کردینا۔
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے سعید مقبری نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے اپنے کسی بھائی پر ظلم کیا ہو تو اسے چاہیے کہ اس سے (اس دنیا میں) معاف کرا لے۔ اس لیے کہ آخرت میں روپے پیسے نہیں ہوں گے۔ اس سے پہلے (معاف کرا لے) کہ اس کے بھائی کے لیے اس کی نیکیوں میں سے حق دلایا جائے گا اور اگر اس کے پاس نیکیاں نہ ہوں گی تو اس (مظلوم) بھائی کی برائیاں اس پر ڈال دی جائیں گی۔
قیامت میں قصاص لئے جانے کا بیان اور اس کا نام حاقہ ہے اس لئے کہ اس دن تمام کاموں کا بدلہ دیا جائے گا حقہ اور حاقہ اور قارعہ اور غاشیہ اور کے ایک ہی معنی ہیں، اور تغابن کے معنی ہیں، اہل جنت کا دوزخ والوں کو فراموش کردینا۔
ہم سے صلت بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا اس آیت کے بارے میں ونزعنا ما في صدورهم من غل کہا کہ ہم سے سعید نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے بیان کیا، ان سے ابوالمتوکل ناجی نے اور ان سے ابو سعید خدری (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مومنین جہنم سے چھٹکارا پاجائیں گے لیکن دوزخ و جنت کے درمیان ایک پل پر انہیں روک لیا جائے گا اور پھر ایک کے دوسرے پر ان مظالم کا بدلہ لیا جائے گا جو دنیا میں ان کے درمیان آپس میں ہوئے تھے اور جب کانٹ چھانٹ کرلی جائے گی اور صفائی ہوجائے گی تب انہیں جنت میں داخل ہونے کی اجازت ملے گی۔ پس اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ( ﷺ ) کی جان ہے ! جنتیوں میں سے ہر کوئی جنت میں اپنے گھر کو دنیا کے اپنے گھر کے مقابلہ میں زیادہ بہتر طریقے پر پہچان لے گا۔
جس کے حساب میں پوچھ گچھ کی گئی تو اس عذاب ہوگا۔
مجھ سے عمرو بن علی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے عثمان بن اسود نے، انہوں نے کہا میں نے ابن ابی ملیکہ سے سنا، کہا کہ میں نے عائشہ (رض) سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے ایسا ہی سنا۔ اور اس روایت کا متابعت ابن جریج، محمد بن سلیم، ایوب اور صالح بن رستم نے ابن ابی ملیکہ سے کی ہے، انہوں نے عائشہ (رض) سے اور انہوں نے نبی کریم ﷺ سے۔
جس کے حساب میں پوچھ گچھ کی گئی تو اس عذاب ہوگا۔
مجھ سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم سے روح بن عبادہ نے بیان کیا، کہا ہم سے حاتم بن ابوصغیرہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن ابی ملیکہ نے بیان کیا، کہا مجھ سے قاسم بن محمد نے بیان کیا اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص سے بھی قیامت کے دن حساب لیا گیا پس وہ ہلاک ہوا۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! کیا اللہ تعالیٰ نے خود نہیں فرمایا ہے فأما من أوتي کتابه بيمينه * فسوف يحاسب حسابا يسيرا کہ پس جس کا نامہ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا گیا تو عنقریب اس سے ایک آسان حساب لیا جائے گا۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہ تو صرف پیشی ہوگی۔ (اللہ رب العزت کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ) قیامت کے دن جس کے بھی حساب میں کھود کرید کی گئی اس کو عذاب یقینی ہوگا۔
جس کے حساب میں پوچھ گچھ کی گئی تو اس عذاب ہوگا۔
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے معاذ بن ہشام نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے، ان سے انس (رض) نے اور ان سے نبی کریم ﷺ نے (دوسری سند) اور مجھ سے محمد بن معمر نے بیان کیا، کہا ہم سے روح بن عبادہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سعید نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے، کہا ہم سے انس بن مالک (رض) نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ قیامت کے دن کافر کو لایا جائے گا اور اس سے پوچھا جائے گا کہ تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر زمین بھر کر تمہارے پاس سونا ہو تو کیا سب کو (اپنی نجات کے لیے) فدیہ میں دے دو گے ؟ وہ کہے گا کہ ہاں، تو اس وقت اس سے کہا جائے گا کہ تم سے اس سے بہت آسان چیز کا (دنیا میں) مطالبہ کیا گیا تھا۔
جس کے حساب میں پوچھ گچھ کی گئی تو اس عذاب ہوگا۔
مجھ سے عمر بن حفص نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے اعمش نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے خیثمہ نے بیان کیا، ان سے عدی بن حاتم (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تم میں ہر ہر فرد سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس طرح کلام کرے گا کہ اللہ کے اور بندے کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہوگا۔ پھر وہ دیکھے گا تو اس کے آگے کوئی چیز نظر نہیں آئے گی۔ پھر وہ اپنے سامنے دیکھے گا اور اس کے سامنے آگ ہوگی۔ پس تم میں سے جو شخص بھی چاہے کہ وہ آگ سے بچے تو وہ اللہ کی راہ میں خیر خیرات کرتا رہے، خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے کے ذریعہ ہی ممکن ہو۔ عدی بن حاتم (رض) سے ایک اور روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جہنم سے بچو، پھر آپ نے چہرہ پھیرلیا، پھر فرمایا کہ جہنم سے بچو اور پھر اس کے بعد چہرہ مبارک پھیرلیا، پھر فرمایا جہنم سے بچو۔ تین مرتبہ آپ ﷺ نے ایسا ہی کیا۔ ہم نے اس سے یہ خیال کیا کہ آپ جہنم دیکھ رہے ہیں۔ پھر فرمایا کہ جہنم سے بچو خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے ہی کے ذریعہ ہو سکے اور جسے یہ بھی نہ ملے تو اسے (لوگوں میں) کسی اچھی بات کہنے کے ذریعہ سے ہی (جہنم سے) بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
جنت میں ستر ہزار ( آدمی) بغیر حساب کے داخل ہوں گے۔
ہم سے عمران بن میسرہ نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن فضیل نے، کہا ہم سے حصین بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا (دوسری سند) اور مجھ سے اسید بن زید نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشیم نے بیان کیا کہ میں سعید بن جبیر کی خدمت میں موجود تھا اس وقت انہوں نے بیان کیا کہ مجھ سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا میرے سامنے امتیں پیش کی گئیں کسی نبی کے ساتھ پوری امت گزری، کسی نبی کے ساتھ چند آدمی گزرے، کسی نبی کے ساتھ دس آدمی گزرے، کسی نبی کے ساتھ پانچ آدمی گزرے اور کوئی نبی تنہا گزرا۔ پھر میں نے دیکھا تو انسانوں کی ایک بہت بڑی جماعت دور سے نظر آئی۔ میں نے جبرائیل سے پوچھا کیا یہ میری امت ہے ؟ انہوں نے کہا نہیں بلکہ افق کی طرف دیکھو۔ میں نے دیکھا تو ایک بہت زبردست جماعت دکھائی دی۔ فرمایا کہ یہ ہے آپ کی امت اور یہ جو آگے آگے ستر ہزار کی تعداد ہے ان لوگوں سے حساب نہ لیا جائے گا اور نہ ان پر عذاب ہوگا۔ میں نے پوچھا : ایسا کیوں ہوگا ؟ انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ داغ نہیں لگواتے تھے۔ دم جھاڑ نہیں کرواتے تھے، شگون نہیں لیتے تھے، اپنے رب پر بھروسہ کرتے تھے۔ پھر نبی کریم ﷺ کی طرف عکاشہ بن محصن (رض) اٹھ کر بڑھے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی ان لوگوں میں کر دے۔ نبی کریم ﷺ نے دعا فرمائی کہ اے اللہ ! انہیں بھی ان میں سے کر دے۔ اس کے بعد ایک اور صحابی کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ میرے لیے بھی دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی ان میں سے کر دے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ عکاشہ اس میں تم سے آگے بڑھ گئے۔
جنت میں ستر ہزار ( آدمی) بغیر حساب کے داخل ہوں گے۔
ہم سے معاذ بن اسد مروزی نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا ہم کو یونس بن یزید نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے سعید بن مسیب نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میری امت کی ایک جماعت جنت میں داخل ہوگی جس کی تعداد ستر ہزار ہوگی۔ ان کے چہرے اس طرح روشن ہوں گے جیسے چودہویں رات کا چاند روشن ہوتا ہے۔ ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ اس پر عکاشہ بن محصن اسدی (رض) کھڑے ہوئے، اپنی دھاری دار کملی جو ان کے جسم پر تھی، اٹھاتے ہوئے عرض کیا : یا رسول اللہ ! اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ مجھے بھی ان میں سے کر دے۔ نبی کریم ﷺ نے دعا کی کہ اے اللہ ! انہیں بھی ان میں سے کر دے۔ اس کے بعد ایک اور صحابی کھڑے ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! دعا کیجئے کہ اللہ مجھے بھی ان میں سے کر دے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عکاشہ تم پر سبقت لے گئے۔
جنت میں ستر ہزار ( آدمی) بغیر حساب کے داخل ہوں گے۔
ہم سے سعید بن ابومریم نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوغسان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوحازم نے بیان کیا، ان سے سہل بن سعد ساعدی (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جنت میں میری امت کے ستر ہزار یا سات لاکھ (راوی کو ان میں سے کسی ایک تعداد میں شک تھا) آدمی اس طرح داخل ہوں گے کہ بعض بعض کو پکڑے ہوئے ہوں گے اور اس طرح ان میں کے اگلے پچھلے سب جنت میں داخل ہوجائیں گے اور ان کے چہرے چودھویں رات کے چاند کی طرح روشن ہوں گے۔
جنت میں ستر ہزار ( آدمی) بغیر حساب کے داخل ہوں گے۔
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا، ان سے صالح نے، کہا ہم سے نافع نے بیان کیا اور ان سے ابن عمر (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جب اہل جنت جنت میں اور اہل جہنم جہنم میں داخل ہوجائیں گے تو ایک آواز دینے والا ان کے درمیان کھڑا ہو کر پکارے گا کہ اے جہنم والو ! اب تمہیں موت نہیں آئے گی اور اے جنت والو ! تمہیں بھی موت نہیں آئے گی بلکہ ہمیشہ یہیں رہنا ہوگا۔
جنت میں ستر ہزار ( آدمی) بغیر حساب کے داخل ہوں گے۔
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، کہا ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے اعرج نے، ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اہل جنت سے کہا جائے گا کہ اے اہل جنت ! ہمیشہ (تمہیں یہیں) رہنا ہے، تمہیں موت نہیں آئے گی اور اہل دوزخ سے کہا جائے گا کہ اے دوزخ والو ! ہمیشہ (تم کو یہیں) رہنا ہے، تم کو موت نہیں آئے گی۔
جنت اور دوزخ کی صفت کا بیان، ابوسعید نے کہا آنحضرت ﷺ نے فرمایا جنتی سب سے پہلے کھانا جو کھائیں گے وہ مچھلی کی کلیجی ہوگی۔ عدن کے معنی ہیں ہمیشہ رہنا، عدنت بارض کے معنی ہیں مکین نے اس زمین میں قیام کیا، مقعد صدق میں، معدن اسی سے ماخوذہے، یعنی سچائی پیدا ہونے کی جگہ۔
ہم سے عثمان بن ہثیم نے بیان کیا، کہا ہم سے عوف بن ابی جمیلہ نے بیان کیا، ان سے ابورجاء عمران عطاردی نے، ان سے عمران بن حصین (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے بیان کیا کہ میں نے جنت میں جھانک کر دیکھا تو وہاں رہنے والے اکثر غریب لوگ تھے اور میں نے جہنم میں جھانک کر دیکھا (شب معراج میں) تو وہاں عورتیں تھیں۔
جنت اور دوزخ کی صفت کا بیان، ابوسعید نے کہا آنحضرت ﷺ نے فرمایا جنتی سب سے پہلے کھانا جو کھائیں گے وہ مچھلی کی کلیجی ہوگی۔ عدن کے معنی ہیں ہمیشہ رہنا، عدنت بارض کے معنی ہیں مکین نے اس زمین میں قیام کیا، مقعد صدق میں، معدن اسی سے ماخوذہے، یعنی سچائی پیدا ہونے کی جگہ۔
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان تیمی نے بیان کیا، انہیں ابوعثمان نہدی نے، انہیں اسامہ بن زید (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا میں جنت کے دروازے پر کھڑا ہوا تو وہاں اکثر داخل ہونے والے محتاج لوگ تھے اور محنت مزدوری کرنے والے تھے اور مالدار لوگ ایک طرف روکے گئے ہیں، ان کا حساب لینے کے لیے باقی ہے اور جو لوگ دوزخی تھے وہ تو دوزخ کے لیے بھیج دئیے گئے اور میں نے جہنم کے دروازے پر کھڑے ہو کر دیکھا تو اس میں اکثر داخل ہونے والی عورتیں تھیں۔
جنت اور دوزخ کی صفت کا بیان، ابوسعید نے کہا آنحضرت ﷺ نے فرمایا جنتی سب سے پہلے کھانا جو کھائیں گے وہ مچھلی کی کلیجی ہوگی۔ عدن کے معنی ہیں ہمیشہ رہنا، عدنت بارض کے معنی ہیں مکین نے اس زمین میں قیام کیا، مقعد صدق میں، معدن اسی سے ماخوذہے، یعنی سچائی پیدا ہونے کی جگہ۔
ہم سے معاذ بن اسد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم کو عمر بن محمد بن زید نے خبر دی، انہیں ان کے والد نے، ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب اہل جنت جنت میں چلے جائیں گے اور اہل دوزخ دوزخ میں چلے جائیں گے تو موت کو لایا جائے گا اور اسے جنت اور دوزخ کے درمیان رکھ کر ذبح کردیا جائے گا۔ پھر ایک آواز دینے والا آواز دے گا کہ اے جنت والو ! تمہیں اب موت نہیں آئے گی اور اے دوزخ والو ! تمہیں بھی اب موت نہیں آئے گی۔ اس بات سے جنتی اور زیادہ خوش ہوجائیں گے اور جہنمی اور زیادہ غمگین ہوجائیں گے۔
جنت اور دوزخ کی صفت کا بیان، ابوسعید نے کہا آنحضرت ﷺ نے فرمایا جنتی سب سے پہلے کھانا جو کھائیں گے وہ مچھلی کی کلیجی ہوگی۔ عدن کے معنی ہیں ہمیشہ رہنا، عدنت بارض کے معنی ہیں مکین نے اس زمین میں قیام کیا، مقعد صدق میں، معدن اسی سے ماخوذہے، یعنی سچائی پیدا ہونے کی جگہ۔
ہم سے معاذ بن اسد نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا ہم کو امام مالک بن انس نے خبر دی، انہیں زید بن اسلم نے، انہیں عطاء بن یسار نے اور ان سے ابو سعید خدری (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اہل جنت سے فرمائے گا کہ اے جنت والو ! جنتی جواب دیں گے ہم حاضر ہیں اے ہمارے پروردگار ! تیری سعادت حاصل کرنے کے لیے۔ اللہ تعالیٰ پوچھے گا کیا اب تم لوگ خوش ہوئے ؟ وہ کہیں گے اب بھی بھلا ہم راضی نہ ہوں گے کیونکہ اب تو، تو نے ہمیں وہ سب کچھ دے دیا جو اپنی مخلوق کے کسی آدمی کو نہیں دیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں تمہیں اس سے بھی بہتر چیز دوں گا۔ جنتی کہیں گے اے رب ! اس سے بہتر اور کیا چیز ہوگی ؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اب میں تمہارے لیے اپنی رضا مندی کو ہمیشہ کے لیے دائمی کر دوں گا یعنی اس کے بعد کبھی تم پر ناراض نہیں ہوں گا۔
جنت اور دوزخ کی صفت کا بیان، ابوسعید نے کہا آنحضرت ﷺ نے فرمایا جنتی سب سے پہلے کھانا جو کھائیں گے وہ مچھلی کی کلیجی ہوگی۔ عدن کے معنی ہیں ہمیشہ رہنا، عدنت بارض کے معنی ہیں مکین نے اس زمین میں قیام کیا، مقعد صدق میں، معدن اسی سے ماخوذہے، یعنی سچائی پیدا ہونے کی جگہ۔
مجھ سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم سے معاویہ بن عمرو نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسحاق ابراہیم بن محمد نے بیان کیا، ان سے حمید طویل نے بیان کیا، کہا کہ میں نے انس (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ حارثہ بن سراقہ (رض) بدر کی لڑائی میں شہید ہوگئے۔ وہ اس وقت نوعمر تھے تو ان کی والدہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آئیں اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! آپ کو معلوم ہے کہ حارثہ سے مجھے کتنی محبت تھی، (آپ مجھے بتائیں) اگر وہ جنت میں ہے تو میں صبر کرلوں گی اور صبر پر ثواب کی امیدوار رہوں گی اور اگر کوئی اور بات ہے تو آپ دیکھیں گے کہ میں اس کے لیے کیا کرتی ہوں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ افسوس کیا تم پاگل ہوگئی ہو ؟ جنت ایک ہی نہیں ہے، بہت سی جنتیں ہیں اور وہ (حارثہ) جنت الفردوس میں ہے۔
جنت اور دوزخ کی صفت کا بیان، ابوسعید نے کہا آنحضرت ﷺ نے فرمایا جنتی سب سے پہلے کھانا جو کھائیں گے وہ مچھلی کی کلیجی ہوگی۔ عدن کے معنی ہیں ہمیشہ رہنا، عدنت بارض کے معنی ہیں مکین نے اس زمین میں قیام کیا، مقعد صدق میں، معدن اسی سے ماخوذہے، یعنی سچائی پیدا ہونے کی جگہ۔
ہم سے معاذ بن اسد نے بیان کیا، کہا ہم کو فصل بن موسیٰ نے خبر دی، کہا ہم کو فصیل نے خبر دی، انہیں حازم نے، انہیں ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کافر کے دونوں شانوں کے درمیان تیز چلنے والے کے لیے تین دن کی مسافت کا فاصلہ ہوگا۔ اور اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو مغیرہ بن سلمہ نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم سے وہیب نے بیان کیا، ان سے ابوحازم نے بیان کیا، ان سے سہل بن سعد (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جنت میں ایک درخت ہے جس کے سایہ میں سوار سو سال تک چلنے کے بعد بھی اسے طے نہیں کرسکے گا۔ ابوحازم نے بیان کیا کہ پھر میں نے یہ حدیث نعمان بن ابی عیاش سے بیان کی تو انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابوسعید (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جنت میں ایک درخت ہوگا جس کے سایہ میں عمدہ اور تیز رفتار گھوڑے پر سوار شخص سو سال تک چلتا رہے گا اور پھر بھی اسے طے نہ کرسکے گا۔
None
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جنت میں ایک درخت ہو گا جس کے سایہ میں عمدہ اور تیز رفتار گھوڑے پر سوار شخص سو سال تک چلتا رہے گا اور پھر بھی اسے طے نہ کر سکے گا۔“
جنت اور دوزخ کی صفت کا بیان، ابوسعید نے کہا آنحضرت ﷺ نے فرمایا جنتی سب سے پہلے کھانا جو کھائیں گے وہ مچھلی کی کلیجی ہوگی۔ عدن کے معنی ہیں ہمیشہ رہنا، عدنت بارض کے معنی ہیں مکین نے اس زمین میں قیام کیا، مقعد صدق میں، معدن اسی سے ماخوذہے، یعنی سچائی پیدا ہونے کی جگہ۔
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن ابی حازم نے بیان کیا، ان سے ابوحازم بن دینار نے، ان سے سہل بن سعد ساعدی (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میری امت میں ستر ہزار یا سات لاکھ آدمی جنت میں جائیں گے۔ راوی کو شک ہوا کہ سہل سے کون سی تعداد بیان ہوئی تھی، (وہ جنت میں اس طرح داخل ہوں گے کہ) وہ ایک دوسرے کو تھامے ہوئے ہوں گے۔ ان کا پہلا ابھی اندر داخل نہ ہونے پائے گا کہ جب تک آخری بھی داخل نہ ہوجائے۔ ان کے چہرے چودھویں رات کے چاند کی طرح روشن ہوں گے۔
جنت اور دوزخ کی صفت کا بیان، ابوسعید نے کہا آنحضرت ﷺ نے فرمایا جنتی سب سے پہلے کھانا جو کھائیں گے وہ مچھلی کی کلیجی ہوگی۔ عدن کے معنی ہیں ہمیشہ رہنا، عدنت بارض کے معنی ہیں مکین نے اس زمین میں قیام کیا، مقعد صدق میں، معدن اسی سے ماخوذہے، یعنی سچائی پیدا ہونے کی جگہ۔
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن ابی حازم نے بیان کیا، ان سے ان کے والد حازم نے بیان کیا، ان سے سہل بن سعد (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جنت والے (اپنے اوپر کے درجوں کے) بالاخانوں کو اس طرح دیکھیں گے جیسے تم آسمان میں ستاروں کو دیکھتے ہو۔ راوی (عبدالعزیز) نے بیان کیا کہ پھر میں نے یہ حدیث نعمان بن ابی عیاش سے بیان کی تو انہوں نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے ابو سعید خدری (رض) کو یہ حدیث بیان کرتے سنا اور اس میں وہ اس لفظ کا اضافہ کرتے تھے کہ جیسے تم مشرقی اور مغربی کناروں میں ڈوبتے ستاروں کو دیکھتے ہو۔
جنت اور دوزخ کی صفت کا بیان، ابوسعید نے کہا آنحضرت ﷺ نے فرمایا جنتی سب سے پہلے کھانا جو کھائیں گے وہ مچھلی کی کلیجی ہوگی۔ عدن کے معنی ہیں ہمیشہ رہنا، عدنت بارض کے معنی ہیں مکین نے اس زمین میں قیام کیا، مقعد صدق میں، معدن اسی سے ماخوذہے، یعنی سچائی پیدا ہونے کی جگہ۔
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر محمد بن جعفر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابوعمران جونی نے بیان کیا، کہا میں نے انس بن مالک (رض) سے سنا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن دوزخ کے سب سے کم عذاب پانے والے سے پوچھے گا اگر تمہیں روئے زمین کی ساری چیزیں میسر ہوں تو کیا تم ان کو فدیہ میں (اس عذاب سے نجات پانے کے لیے) دے دو گے، وہ کہے گا کہ ہاں، اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں نے تم سے اس سے بھی سہل چیز کا اس وقت مطالبہ کیا تھا جب تم آدم (علیہ السلام) کی پیٹھ میں تھے کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا لیکن تم نے (توحید کا) انکار کیا اور نہ مانا آخر شرک ہی کیا۔
جنت اور دوزخ کی صفت کا بیان، ابوسعید نے کہا آنحضرت ﷺ نے فرمایا جنتی سب سے پہلے کھانا جو کھائیں گے وہ مچھلی کی کلیجی ہوگی۔ عدن کے معنی ہیں ہمیشہ رہنا، عدنت بارض کے معنی ہیں مکین نے اس زمین میں قیام کیا، مقعد صدق میں، معدن اسی سے ماخوذہے، یعنی سچائی پیدا ہونے کی جگہ۔
ہم سے ابوالنعمان محمد بن فضل سدوسی نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے اور ان سے جابر بن عبداللہ انصاری (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کچھ لوگ دوزخ سے شفاعت کے ذریعہ نکلیں گے گویا کہ ثعارير ہوں۔ حماد کہتے ہیں کہ میں نے عمرو بن دینار سے پوچھا کہ ثعارير کیا چیز ہے ؟ انہوں نے کہا کہ اس سے مراد چھوٹی ککڑیاں ہیں اور ہوا یہ تھا کہ آخر عمر میں عمرو بن دینار کے دانت گرگئے تھے۔ حماد کہتے ہیں کہ میں نے عمرو بن دینار سے کہا : اے ابومحمد ! (یہ عمرو بن دینار کی کنیت ہے) کیا آپ نے جابر بن عبداللہ (رض) سے یہ سنا ہے ؟ انہوں نے بیان کیا کہ ہاں میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا، آپ ﷺ نے فرمایا کہ جہنم سے شفاعت کے ذریعہ لوگ نکلیں گے ؟ انہوں نے کہا ہاں بیشک سنا ہے۔
جنت اور دوزخ کی صفت کا بیان، ابوسعید نے کہا آنحضرت ﷺ نے فرمایا جنتی سب سے پہلے کھانا جو کھائیں گے وہ مچھلی کی کلیجی ہوگی۔ عدن کے معنی ہیں ہمیشہ رہنا، عدنت بارض کے معنی ہیں مکین نے اس زمین میں قیام کیا، مقعد صدق میں، معدن اسی سے ماخوذہے، یعنی سچائی پیدا ہونے کی جگہ۔
ہم سے ہدبہ بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمام بن یحییٰ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے، کہا ہم سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ایک جماعت جہنم سے نکلے گی اس کے بعد کہ جہنم کی آگ نے ان کو جلا ڈالا ہوگا اور پھر وہ جنت میں داخل ہوں گے۔ اہل جنت ان کو جهنميين کے نام سے یاد کریں گے۔
جنت اور دوزخ کی صفت کا بیان، ابوسعید نے کہا آنحضرت ﷺ نے فرمایا جنتی سب سے پہلے کھانا جو کھائیں گے وہ مچھلی کی کلیجی ہوگی۔ عدن کے معنی ہیں ہمیشہ رہنا، عدنت بارض کے معنی ہیں مکین نے اس زمین میں قیام کیا، مقعد صدق میں، معدن اسی سے ماخوذہے، یعنی سچائی پیدا ہونے کی جگہ۔
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے وہیب نے بیان کیا، کہا ہم سے عمرو بن یحییٰ نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابو سعید خدری (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب اہل جنت جنت میں اور اہل جہنم جہنم میں داخل ہو چکیں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان ہو تو اسے دوزخ سے نکال لو۔ اس وقت ایسے لوگ نکالے جائیں گے اور وہ اس وقت جل کر کوئلے کی طرح ہوگئے ہوں گے۔ اس کے بعد انہیں نہر حیاۃ (زندگی بخش دریا) میں ڈالا جائے گا۔ اس وقت وہ اس طرح تروتازہ اور شگفتہ ہوجائیں گے جس طرح سیلاب کی جگہ پر کوڑے کرکٹ کا دانہ (اسی رات یا دن میں) اگ آتا ہے یا راوی نے کہا ( حميل السيل کے بجائے) حمية السيل کہا ہے۔ یعنی جہاں سیلاب کا زور ہو اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ کیا تم نے دیکھا نہیں کہ اس دانہ سے زرد رنگ کا لپٹا ہوا بارونق پودا اگتا ہے۔
جنت اور دوزخ کی صفت کا بیان، ابوسعید نے کہا آنحضرت ﷺ نے فرمایا جنتی سب سے پہلے کھانا جو کھائیں گے وہ مچھلی کی کلیجی ہوگی۔ عدن کے معنی ہیں ہمیشہ رہنا، عدنت بارض کے معنی ہیں مکین نے اس زمین میں قیام کیا، مقعد صدق میں، معدن اسی سے ماخوذہے، یعنی سچائی پیدا ہونے کی جگہ۔
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابواسحاق سبیعی سے سنا، کہا کہ میں نے نعمان بن بشیر (رض) سے سنا، کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا، آپ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن عذاب کے اعتبار سے سب سے کم وہ شخص ہوگا جس کے دونوں قدموں کے نیچے آگے کا انگارہ رکھا جائے گا اور اس کی وجہ سے اس کا دماغ کھول رہا ہوگا۔
جنت اور دوزخ کی صفت کا بیان، ابوسعید نے کہا آنحضرت ﷺ نے فرمایا جنتی سب سے پہلے کھانا جو کھائیں گے وہ مچھلی کی کلیجی ہوگی۔ عدن کے معنی ہیں ہمیشہ رہنا، عدنت بارض کے معنی ہیں مکین نے اس زمین میں قیام کیا، مقعد صدق میں، معدن اسی سے ماخوذہے، یعنی سچائی پیدا ہونے کی جگہ۔
ہم سے عبداللہ بن رجاء نے بیان کیا، کہا ہم سے اسرائیل نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق نے، ان سے نعمان بن بشیر (رض) نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا، نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن دوزخیوں میں عذاب کے اعتبار سے سب سے ہلکا عذاب پانے والا وہ شخص ہوگا جس کے دونوں پیروں کے نیچے دو انگارے رکھ دئیے جائیں گے جن کی وجہ سے اس کا دماغ کھول رہا ہوگا جس طرح ہانڈی اور کیتلی جوش کھاتی ہے۔
جنت اور دوزخ کی صفت کا بیان، ابوسعید نے کہا آنحضرت ﷺ نے فرمایا جنتی سب سے پہلے کھانا جو کھائیں گے وہ مچھلی کی کلیجی ہوگی۔ عدن کے معنی ہیں ہمیشہ رہنا، عدنت بارض کے معنی ہیں مکین نے اس زمین میں قیام کیا، مقعد صدق میں، معدن اسی سے ماخوذہے، یعنی سچائی پیدا ہونے کی جگہ۔
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن مرہ نے، ان سے خیثمہ بن عبدالرحمٰن نے اور ان سے عدی بن حاتم (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے جہنم کا ذکر کیا اور روئے مبارک پھیرلیا اور اس سے پناہ مانگی۔ پھر جہنم کا ذکر کیا اور روئے مبارک پھیرلیا اور اس سے پناہ مانگی۔ اس کے بعد فرمایا کہ دوزخ سے بچو صدقہ دے کر خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے ہی کے ذریعہ ہو سکے، جسے یہ بھی نہ ملے اسے چاہیے کہ اچھی بات کہہ کر۔
جنت اور دوزخ کی صفت کا بیان، ابوسعید نے کہا آنحضرت ﷺ نے فرمایا جنتی سب سے پہلے کھانا جو کھائیں گے وہ مچھلی کی کلیجی ہوگی۔ عدن کے معنی ہیں ہمیشہ رہنا، عدنت بارض کے معنی ہیں مکین نے اس زمین میں قیام کیا، مقعد صدق میں، معدن اسی سے ماخوذہے، یعنی سچائی پیدا ہونے کی جگہ۔
ہم سے ابراہیم بن حمزہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابن ابی حازم اور دراوردی نے بیان کیا، ان سے یزید بن عبداللہ بن ہاد نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن خباب نے بیان کیا اور ان سے ابو سعید خدری (رض) نے بیان کیا کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ سے سنا، نبی کریم ﷺ کے سامنے آپ کے چچا ابوطالب کا ذکر کیا گیا تھا، تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ممکن ہے قیامت کے دن میری شفاعت ان کے کام آجائے اور انہیں جہنم میں ٹخنوں تک رکھا جائے جس سے ان کا بھیجا کھولتا رہے گا۔
جنت اور دوزخ کی صفت کا بیان، ابوسعید نے کہا آنحضرت ﷺ نے فرمایا جنتی سب سے پہلے کھانا جو کھائیں گے وہ مچھلی کی کلیجی ہوگی۔ عدن کے معنی ہیں ہمیشہ رہنا، عدنت بارض کے معنی ہیں مکین نے اس زمین میں قیام کیا، مقعد صدق میں، معدن اسی سے ماخوذہے، یعنی سچائی پیدا ہونے کی جگہ۔
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن لوگوں کو جمع کرے گا۔ اس وقت لوگ کہیں گے کہ اگر ہم اپنے رب کے حضور میں کسی کی شفاعت لے جائیں تو نفع بخش ثابت ہوسکتی ہے۔ ممکن ہے ہم اپنی اس حالت سے نجات پاجائیں۔ چناچہ لوگ آدم (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے اور عرض کریں گے آپ ہی وہ بزرگ نبی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے بنایا اور آپ کے اندر اپنی چھپائی ہوئی روح پھونکی اور فرشتوں کو حکم دیا تو انہوں نے آپ کو سجدہ کیا، آپ ہمارے رب کے حضور میں ہماری شفاعت کریں۔ وہ کہیں گے کہ میں تو اس لائق نہیں ہوں، پھر وہ اپنی لغزش یاد کریں گے اور کہیں گے کہ نوح کے پاس جاؤ، وہ سب سے پہلے رسول ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے بھیجا۔ لوگ نوح (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے لیکن وہ بھی یہی جواب دیں گے کہ میں اس لائق نہیں ہوں۔ وہ اپنی لغزش کا ذکر کریں گے اور کہیں کہ تم ابراہیم کے پاس جاؤ جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنا خلیل بنایا تھا۔ لوگ ان کے پاس آئیں گے لیکن یہ بھی یہی کہیں گے کہ میں اس لائق نہیں ہوں، اپنی خطا کا ذکر کریں گے اور کہیں گے کہ تم لوگ موسیٰ کے پاس جاؤ جن سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا تھا۔ لوگ موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جائیں گے لیکن وہ بھی یہی جواب دیں گے کہ میں اس لائق نہیں ہوں، اپنی خطا کا ذکر کریں گے اور کہیں گے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جاؤ۔ لوگ عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جائیں گے، لیکن یہ بھی کہیں گے کہ میں اس لائق نہیں ہوں، محمد ﷺ کے پاس جاؤ کیونکہ ان کے تمام اگلے پچھلے گناہ معاف کر دئیے گئے ہیں۔ چناچہ لوگ میرے پاس آئیں گے۔ اس وقت میں اپنے رب سے (شفاعت کی) اجازت چاہوں گا اور سجدہ میں گر جاؤں گا۔ اللہ تعالیٰ جتنی دیر تک چاہے گا مجھے سجدہ میں رہنے دے گا۔ پھر کہا جائے گا کہ اپنا سر اٹھا لو، مانگو دیا جائے گا، کہو سنا جائے گا، شفاعت کرو، شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں اپنے رب کی اس وقت ایسی حمد بیان کروں گا کہ جو اللہ تعالیٰ مجھے سکھائے گا۔ پھر شفاعت کروں گا اور میرے لیے حد مقرر کردی جائے گی اور میں لوگوں کو جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کر دوں گا اور اسی طرح سجدہ میں گر جاؤں گا، تیسری یا چوتھی مرتبہ جہنم میں صرف وہی لوگ باقی رہ جائیں گے جنہیں قرآن نے روکا ہے (یعنی جن کے جہنم میں ہمیشہ رہنے کا ذکر قرآن میں صراحت کے ساتھ ہے) قتادہ (رح) اس موقع پر کہا کرتے کہ اس سے وہ لوگ مراد ہیں جن پر جہنم میں ہمیشہ رہنا واجب ہوگیا ہے۔
جنت اور دوزخ کی صفت کا بیان، ابوسعید نے کہا آنحضرت ﷺ نے فرمایا جنتی سب سے پہلے کھانا جو کھائیں گے وہ مچھلی کی کلیجی ہوگی۔ عدن کے معنی ہیں ہمیشہ رہنا، عدنت بارض کے معنی ہیں مکین نے اس زمین میں قیام کیا، مقعد صدق میں، معدن اسی سے ماخوذہے، یعنی سچائی پیدا ہونے کی جگہ۔
ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے حسن بن ذکوان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابوحازم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عمران بن حصین (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ایک جماعت جہنم سے محمد ( ﷺ ) کی شفاعت کی وجہ سے نکلے گی اور جنت میں داخل ہوگی جن کو جهنميين. کے نام سے پکارا جائے گا۔
جنت اور دوزخ کی صفت کا بیان، ابوسعید نے کہا آنحضرت ﷺ نے فرمایا جنتی سب سے پہلے کھانا جو کھائیں گے وہ مچھلی کی کلیجی ہوگی۔ عدن کے معنی ہیں ہمیشہ رہنا، عدنت بارض کے معنی ہیں مکین نے اس زمین میں قیام کیا، مقعد صدق میں، معدن اسی سے ماخوذہے، یعنی سچائی پیدا ہونے کی جگہ۔
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا، ان سے حمید نے اور ان سے انس (رض) نے کہ حارثہ بن سراقہ بن حارث (رض) کی والدہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ حارثہ بدر کی لڑائی میں ایک نامعلوم تیر لگ جانے کی وجہ سے شہید ہوگئے تھے اور انہوں نے کہا : یا رسول اللہ ! آپ کو معلوم ہے کہ حارثہ سے مجھے کتنی محبت تھی، اگر وہ جنت میں ہے تو اس پر میں نہیں روؤں گی، ورنہ آپ دیکھیں گے کہ میں کیا کرتی ہوں۔ نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا کہ بیوقوف ہوئی ہو، کیا کوئی جنت ایک ہی ہے، جنتیں تو بہت سی ہیں اور حارثہ فردوس اعلیٰ (جنت کے اونچے درجے) میں ہے۔
جنت اور دوزخ کی صفت کا بیان، ابوسعید نے کہا آنحضرت ﷺ نے فرمایا جنتی سب سے پہلے کھانا جو کھائیں گے وہ مچھلی کی کلیجی ہوگی۔ عدن کے معنی ہیں ہمیشہ رہنا، عدنت بارض کے معنی ہیں مکین نے اس زمین میں قیام کیا، مقعد صدق میں، معدن اسی سے ماخوذہے، یعنی سچائی پیدا ہونے کی جگہ۔
اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کے راستے میں جہاد کے لیے ایک صبح یا ایک شام سفر کرنا دنیا اور جو کچھ اس میں ہے، سے بڑھ کر ہے اور جنت میں تمہاری ایک کمان کے برابر جگہ یا ایک قدم کے فاصلے کے برابر جگہ دنیا اور جو کچھ اس میں ہے، سے بہتر ہے اور اگر جنت کی عورتوں میں سے کوئی عورت روئے زمین کی طرف جھانک کر دیکھ لے تو آسمان سے لے کر زمین تک منور کر دے اور ان تمام کو خوشبو سے بھر دے اور اس کا دوپٹہ دنيا وما فيها) . سے بڑھ کر ہے۔
جنت اور دوزخ کی صفت کا بیان، ابوسعید نے کہا آنحضرت ﷺ نے فرمایا جنتی سب سے پہلے کھانا جو کھائیں گے وہ مچھلی کی کلیجی ہوگی۔ عدن کے معنی ہیں ہمیشہ رہنا، عدنت بارض کے معنی ہیں مکین نے اس زمین میں قیام کیا، مقعد صدق میں، معدن اسی سے ماخوذہے، یعنی سچائی پیدا ہونے کی جگہ۔
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، کہا ہم سے ابوالزناد نے، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جنت میں جو بھی داخل ہوگا اسے اس کا جہنم کا ٹھکانا بھی دکھایا جائے گا کہ اگر نافرمانی کی ہوتی (تو وہاں اسے جگہ ملتی) تاکہ وہ اور زیادہ شکر کرے اور جو بھی جہنم میں داخل ہوگا اسے اس کا جنت کا ٹھکانا بھی دکھایا جائے گا کہ اگر اچھے عمل کئے ہوتے (تو وہاں جگہ ملتی) تاکہ اس کے لیے حسرت و افسوس کا باعث ہو۔
جنت اور دوزخ کی صفت کا بیان، ابوسعید نے کہا آنحضرت ﷺ نے فرمایا جنتی سب سے پہلے کھانا جو کھائیں گے وہ مچھلی کی کلیجی ہوگی۔ عدن کے معنی ہیں ہمیشہ رہنا، عدنت بارض کے معنی ہیں مکین نے اس زمین میں قیام کیا، مقعد صدق میں، معدن اسی سے ماخوذہے، یعنی سچائی پیدا ہونے کی جگہ۔
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا، ان سے عمرو نے بیان کیا، ان سے سعید بن ابی سعید مقبری نے بیان کیا، ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا : یا رسول اللہ ! قیامت کے دن آپ کی شفاعت کی سعادت سب سے زیادہ کون حاصل کرے گا ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اے ابوہریرہ ! میرا بھی خیال تھا کہ یہ حدیث تم سے پہلے اور کوئی مجھ سے نہیں پوچھے گا، کیونکہ حدیث کے لینے کے لیے میں تمہاری بہت زیادہ حرص دیکھا کرتا ہوں۔ قیامت کے دن میری شفاعت کی سعادت سب سے زیادہ اسے حاصل ہوگی جس نے کلمہ لا إله إلا الله خلوص دل سے کہا۔
جنت اور دوزخ کی صفت کا بیان، ابوسعید نے کہا آنحضرت ﷺ نے فرمایا جنتی سب سے پہلے کھانا جو کھائیں گے وہ مچھلی کی کلیجی ہوگی۔ عدن کے معنی ہیں ہمیشہ رہنا، عدنت بارض کے معنی ہیں مکین نے اس زمین میں قیام کیا، مقعد صدق میں، معدن اسی سے ماخوذہے، یعنی سچائی پیدا ہونے کی جگہ۔
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے ابراہیم نخعی نے، ان سے عبیدہ سلمانی نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں خوب جانتا ہوں کہ اہل جہنم میں سے کون سب سے آخر میں وہاں سے نکلے گا اور اہل جنت میں کون سب سے آخر میں اس میں داخل ہوگا۔ ایک شخص جہنم سے گھٹنوں کے بل گھسٹتے ہوئے نکلے گا اور اللہ تعالیٰ اس سے کہے گا کہ جاؤ اور جنت میں داخل ہوجاؤ، وہ جنت کے پاس آئے گا لیکن اسے ایسا معلوم ہوگا کہ جنت بھری ہوئی ہے۔ چناچہ وہ واپس آئے گا اور عرض کرے گا : اے میرے رب ! میں نے جنت کو بھرا ہوا پایا، اللہ تعالیٰ پھر اس سے کہے گا کہ جاؤ اور جنت میں داخل ہوجاؤ۔ وہ پھر آئے گا لیکن اسے ایسا معلوم ہوگا کہ جنت بھری ہوئی ہے وہ واپس لوٹے گا اور عرض کرے گا کہ اے میرے رب ! میں نے جنت کو بھرا ہوا پایا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا جاؤ اور جنت میں داخل ہوجاؤ تمہیں دنیا اور اس سے دس گنا دیا جاتا ہے یا (اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ) تمہیں دنیا کے دس گنا دیا جاتا ہے۔ وہ شخص کہے گا تو میرا مذاق بناتا ہے حالانکہ تو شہنشاہ ہے۔ میں نے دیکھا کہ اس بات پر رسول اللہ ﷺ ہنس دئیے اور آپ کے آگے کے دندان مبارک ظاہر ہوگئے اور کہا جاتا ہے کہ وہ جنت کا سب سے کم درجے والا شخص ہوگا۔
جنت اور دوزخ کی صفت کا بیان، ابوسعید نے کہا آنحضرت ﷺ نے فرمایا جنتی سب سے پہلے کھانا جو کھائیں گے وہ مچھلی کی کلیجی ہوگی۔ عدن کے معنی ہیں ہمیشہ رہنا، عدنت بارض کے معنی ہیں مکین نے اس زمین میں قیام کیا، مقعد صدق میں، معدن اسی سے ماخوذہے، یعنی سچائی پیدا ہونے کی جگہ۔
ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے عبدالملک نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن حارث بن نوفل نے بیان کیا اور ان سے عباس (رض) نے بیان کیا کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا : کیا آپ نے ابوطالب کو کوئی نفع پہنچایا ؟
صراط جہنم کا پل ہے
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، کہا مجھ کو سعید اور عطا بن یزید نے خبر دی اور انہیں ابوہریرہ (رض) نے اور انہیں نبی کریم ﷺ نے (دوسری سند) اور مجھ سے محمود بن غیلان نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق بن ہمام نے، کہا ہم کو معمر نے، انہیں زہری نے، انہیں عطا بن یزید لیثی نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ کچھ لوگوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! کیا قیامت کے دن ہم اپنے رب کو دیکھ سکیں گے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ کیا سورج کو دیکھنے میں تمہیں کوئی دشواری ہوتی ہے جبکہ اس پر کوئی بادل (ابر) وغیرہ نہ ہو ؟ صحابہ نے عرض کیا : نہیں یا رسول اللہ ! نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ کیا جب کوئی بادل نہ ہو تو تمہیں چودہویں رات کے چاند کو دیکھنے میں کوئی دشواری ہوتی ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا : نہیں یا رسول اللہ ! آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر تم اللہ تعالیٰ کو اسی طرح قیامت کے دن دیکھو گے۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو جمع کرے گا اور کہے گا کہ تم میں سے جو شخص جس چیز کی پوجا پاٹ کیا کرتا تھا وہ اسی کے پیچھے لگ جائے، چناچہ جو لوگ سورج کی پرستش کیا کرتے تھے وہ اس کے پیچھے لگ جائیں گے اور جو لوگ چاند کی پوجا کرتے تھے وہ ان کے پیچھے ہو لیں گے۔ جو لوگ بتوں کی پرستش کرتے تھے وہ ان کے پیچھے لگ جائیں گے اور آخر میں یہ امت باقی رہ جائے گی اور اس میں منافقین کی جماعت بھی ہوگی، اس وقت اللہ تعالیٰ ان کے سامنے اس صورت میں آئے گا جس کو وہ پہچانتے نہ ہوں گے اور کہے گا کہ میں تمہارا رب ہوں۔ لوگ کہیں گے تجھ سے اللہ کی پناہ۔ ہم اپنی جگہ پر اس وقت تک رہیں گے جب تک کہ ہمارا پروردگار ہمارے سامنے نہ آئے۔ جب ہمارا رب ہمارے پاس آئے گا تو ہم اسے پہچان لیں گے (کیونکہ وہ حشر میں ایک بار اس کو پہلے دیکھ چکے ہوں گے) پھر حق تعالیٰ اس صورت میں آئے گا جس کو وہ پہچانتے ہوں گے اور ان سے کہا جائے گا (آؤ میرے ساتھ ہو لو) میں تمہارا رب ہوں ! لوگ کہیں گے کہ تو ہمارا رب ہے، پھر اسی کے پیچھے ہوجائیں گے اور جہنم پر پل بنادیا جائے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں سب سے پہلا شخص ہوں گا جو اس پل کو پار کروں گا اور اس دن رسولوں کی دعا یہ ہوگی کہ اے اللہ ! مجھ کو سلامت رکھیو۔ اے اللہ ! مجھ کو سلامت رکھیو اور وہاں سعدان کے کانٹوں کی طرح آنکڑے ہوں گے۔ تم نے سعدان کے کانٹے دیکھے ہیں ؟ صحابہ کرام نے عرض کیا جی ہاں دیکھے ہیں یا رسول اللہ ! آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ پھر سعدان کے کانٹوں کی طرح ہوں گے البتہ اس کی لمبائی چوڑائی اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔ وہ لوگوں کو ان کے اعمال کے مطابق اچک لیں گے اور اس طرح ان میں سے بعض تو اپنے عمل کی وجہ سے ہلاک ہوجائیں گے اور بعض کا عمل رائی کے دانے کے برابر ہوگا، پھر وہ نجات پا جائے گا۔ آخر جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلے سے فارغ ہوجائے گا اور جہنم سے انہیں نکالنا چاہے گا جنہیں نکالنے کی اس کی مشیت ہوگی۔ یعنی وہ جنہوں نے کلمہ لا إله إلا الله کی گواہی دی ہوگی اور اللہ تعالیٰ فرشتوں کو حکم دے گا کہ وہ ایسے لوگوں کو جہنم سے نکالیں۔ فرشتے انہیں سجدوں کے نشانات سے پہچان لیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آگ پر حرام کردیا ہے کہ وہ ابن آدم کے جسم میں سجدوں کے نشان کو کھائے۔ چناچہ فرشتے ان لوگوں کو نکالیں گے۔ یہ جل کر کوئلے ہوچکے ہوں گے پھر ان پر پانی چھڑکا جائے گا جسے ماء الحياة زندگی بخشنے والا پانی کہتے ہیں۔ اس وقت وہ اس طرح تروتازہ ہوجائیں گے جیسے سیلاب کے بعد زرخیز زمین میں دانہ اگ آتا ہے۔ ایک ایسا شخص باقی رہ جائے گا جس کا چہرہ جہنم کی طرف ہوگا اور وہ کہے گا اے میرے رب ! اس کی بدبوں نے مجھے پریشان کردیا ہے اور اس کی لپٹ نے مجھے جھلسا دیا ہے اور اس کی تیزی نے مجھے جلا ڈالا ہے، ذرا میرا منہ آگ کی طرف سے دوسری طرف پھیر دے۔ وہ اسی طرح اللہ سے دعا کرتا رہے گا۔ آخر اللہ تعالیٰ فرمائے گا اگر میں تیرا یہ مطالبہ پورا کر دوں تو کہیں تو کوئی دوسری چیز مانگنی شروع نہ کر دے۔ وہ شخص عرض کرے گا نہیں، تیری عزت کی قسم ! میں اس کے سوا کوئی دوسری چیز نہیں مانگوں گا۔ چناچہ اس کا چہرہ جہنم کی طرف سے دوسری طرف پھیر دیا جائے گا۔ اب اس کے بعد وہ کہے گا۔ اے میرے رب ! مجھے جنت کے دروازے کے قریب کر دیجئیے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا تو نے ابھی یقین نہیں دلایا تھا کہ اس کے سوا اور کوئی چیز نہیں مانگے گا۔ افسوس ! اے ابن آدم ! تو بہت زیادہ وعدہ خلاف ہے۔ پھر وہ برابر اسی طرح دعا کرتا رہے گا تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اگر میں تیری یہ دعا قبول کرلوں تو تو پھر اس کے علاوہ کچھ اور چیز مانگنے لگے گا۔ وہ شخص کہے گا نہیں، تیری عزت کی قسم ! میں اس کے سوا اور کوئی چیز تجھ سے نہیں مانگوں گا اور وہ اللہ سے عہد و پیمان کرے گا کہ اس کے سوا اب کوئی اور چیز نہیں مانگے گا۔ چناچہ اللہ تعالیٰ اسے جنت کے دروازے کے قریب کر دے گا۔ جب وہ جنت کے اندر کی نعمتوں کو دیکھے گا تو جتنی دیر تک اللہ تعالیٰ چاہے گا وہ شخص خاموش رہے گا، پھر کہے گا اے میرے رب ! مجھے جنت میں داخل کر دے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ کیا تو نے یہ یقین نہیں دلایا تھا کہ اب تو اس کے سوا کوئی چیز نہیں مانگے گا۔ اے ابن آدم ! افسوس، تو کتنا وعدہ خلاف ہے۔ وہ شخص عرض کرے گا اے میرے رب ! مجھے اپنی مخلوق کا سب سے بدبخت بندہ نہ بنا۔ وہ برابر دعا کرتا رہے گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ہنس دے گا۔ جب اللہ ہنس دے گا تو اس شخص کو جنت میں داخل ہونے کی اجازت مل جائے گی۔ جب وہ اندر چلا جائے گا تو اس سے کہا جائے گا کہ فلاں چیز کی خواہش کر چناچہ وہ اس کی خواہش کرے گا۔ پھر اس سے کہا جائے گا کہ فلاں چیز کی خواہش کرو، چناچہ وہ پھر خواہش کرے گا یہاں تک کہ اس کی خواہشات ختم ہوجائیں گی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کہا جائے گا کہ تیری یہ ساری خواہشات پوری کی جاتی ہیں اور اتنی ہی زیادہ نعمتیں اور دی جاتی ہیں۔ ابوہریرہ (رض) نے اسی سند سے کہا کہ یہ شخص جنت میں سب سے آخر میں داخل ہونے والا ہوگا۔ عطاء نے بیان کیا کہ ابو سعید خدری (رض) بھی اس وقت ابوہریرہ (رض) کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے اور انہوں نے ان کی کسی بات پر اعتراض نہیں کیا لیکن جب ابوہریرہ (رض) حدیث کے اس ٹکڑے تک پہنچے کہ تمہاری یہ ساری خواہشات پوری کی جاتی ہیں اور اتنی ہی اور زیادہ نعمتیں دی جاتی ہیں تو ابو سعید خدری (رض) نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا تھا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تمہاری یہ ساری خواہشات پوری کی جاتی ہیں اور اس سے دس گنا اور زیادہ نعمتیں دی جاتی ہیں۔ اور ابوہریرہ (رض) نے کہا کہ نہیں میں نے یوں ہی سنا ہے، یہ سب چیزیں اور اتنی ہی اور۔
حوض کوثر کا بیان۔ اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ بیشک ہم نے تجھ کو کوثر عطا کیا ہے اور عبداللہ بن زید نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا صبر کرو یہاں تک تم مجھ سے حوض پر ملو۔
مجھ سے یحییٰ بن حماد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے سلیمان نے، ان سے شقیق نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے اور ان سے نبی کریم ﷺ نے کہ میں تم سے پہلے ہی حوض پر موجود رہوں گا۔
حوض کوثر کا بیان۔ اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ بیشک ہم نے تجھ کو کوثر عطا کیا ہے اور عبداللہ بن زید نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا صبر کرو یہاں تک تم مجھ سے حوض پر ملو۔
( دوسری سند) اور مجھ سے عمرو بن علی نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن جعفر نے، کہا ہم سے شعبہ نے، ان سے مغیرہ نے، کہا کہ میں نے ابو وائل سے سنا اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں اپنے حوض پر تم سے پہلے ہی موجود رہوں گا اور تم میں سے کچھ لوگ میرے سامنے لائے جائیں گے پھر انہیں میرے سامنے سے ہٹا دیا جائے گا تو میں کہوں گا کہ اے میرے رب ! یہ میرے ساتھی ہیں لیکن مجھ سے کہا جائے گا کہ آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد دین میں کیا کیا نئی چیزیں ایجاد کرلی تھیں۔ اس روایت کی متابعت عاصم نے ابو وائل سے کی، ان سے حذیفہ (رض) نے اور ان سے نبی کریم ﷺ نے بیان فرمایا۔
حوض کوثر کا بیان۔ اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ بیشک ہم نے تجھ کو کوثر عطا کیا ہے اور عبداللہ بن زید نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا صبر کرو یہاں تک تم مجھ سے حوض پر ملو۔
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ نے، ان سے نافع نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تمہارے سامنے ہی میرا حوض ہوگا وہ اتنا بڑا ہے جتنا جرباء اور اذرحاء کے درمیان فاصلہ ہے۔
حوض کوثر کا بیان۔ اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ بیشک ہم نے تجھ کو کوثر عطا کیا ہے اور عبداللہ بن زید نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا صبر کرو یہاں تک تم مجھ سے حوض پر ملو۔
مجھ سے عمرو بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ہشیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو ابوبشر اور عطاء بن سائب نے خبر دی، انہیں سعید بن جبیر نے اور ان سے عبداللہ بن عباس (رض) نے بیان کیا کہ کوثر سے مراد بہت زیادہ بھلائی (خیر کثیر) ہے جو اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو دی ہے۔ ابوبشر نے بیان کیا کہ میں نے سعید بن جبیر سے کہا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ کوثر جنت میں ایک نہر ہے تو انہوں نے کہا کہ جو نہر جنت میں ہے وہ بھی اس خیر (بھلائی ) کا ایک حصہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دی ہے۔
حوض کوثر کا بیان۔ اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ بیشک ہم نے تجھ کو کوثر عطا کیا ہے اور عبداللہ بن زید نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا صبر کرو یہاں تک تم مجھ سے حوض پر ملو۔
ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابن وہب نے بیان کیا، ان سے یونس نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، اور ان سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا میرے حوض کی لمبائی اتنی ہوگی جتنی ایلہ اور یمن اور شہر صنعاء کے درمیان کی لمبائی ہے۔ اور وہاں اتنی بڑی تعداد میں پیالے ہوں گے جتنی آسمان کے ستاروں کی تعداد ہے۔
حوض کوثر کا بیان۔ اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ بیشک ہم نے تجھ کو کوثر عطا کیا ہے اور عبداللہ بن زید نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا صبر کرو یہاں تک تم مجھ سے حوض پر ملو۔
ہم سے سعید بن مریم نے بیان کیا، کہا ہم کو نافع بن عمر نے خبر دی، ان سے ابن ابی ملیکہ نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن عمرو (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا میرا حوض ایک مہینے کی مسافت کے برابر ہوگا۔ اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور اس کی خوشبو مشک سے زیادہ اچھی ہوگی اور اس کے کوزے آسمان کے ستاروں کی تعداد کے برابر ہوں گے۔ جو شخص اس میں سے ایک مرتبہ پی لے گا وہ پھر کبھی بھی (میدان محشر میں) پیاسا نہ ہوگا۔
حوض کوثر کا بیان۔ اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ بیشک ہم نے تجھ کو کوثر عطا کیا ہے اور عبداللہ بن زید نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا صبر کرو یہاں تک تم مجھ سے حوض پر ملو۔
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمام نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے، ان سے انس (رض) نے اور ان سے نبی کریم ﷺ نے (دوسری سند) اور ہم سے ہدبہ بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمام نے بیان کیا، کہا ہم سے قتادہ نے بیان کیا، کہا ہم سے انس بن مالک نے بیان کیا اور ان سے نبی کریم ﷺ نے بیان کیا کہ میں جنت میں چل رہا تھا کہ میں ایک نہر پر پہنچا اس کے دونوں کناروں پر خولدار موتیوں کے گنبد بنے ہوئے تھے۔ میں نے پوچھا : جبرائیل ! یہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا یہ کوثر ہے جو آپ کے رب نے آپ کو دیا ہے۔ میں نے دیکھا کہ اس کی خوشبو یا مٹی تیز مشک جیسی تھی۔ راوی ہدبہ کو شک تھا۔
حوض کوثر کا بیان۔ اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ بیشک ہم نے تجھ کو کوثر عطا کیا ہے اور عبداللہ بن زید نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا صبر کرو یہاں تک تم مجھ سے حوض پر ملو۔
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز نے بیان کیا، ان سے انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا میرے کچھ ساتھی حوض پر میرے سامنے لائے جائیں گے اور میں انہیں پہچان لوں گا لیکن پھر وہ میرے سامنے سے ہٹا دئیے جائیں گے۔ میں اس پر کہوں گا کہ یہ تو میرے ساتھی ہیں۔ لیکن مجھ سے کہا جائے گا کہ آپ کو معلوم نہیں کہ انہوں نے آپ کے بعد کیا کیا نئی چیزیں ایجاد کرلی تھیں۔
حوض کوثر کا بیان۔ اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ بیشک ہم نے تجھ کو کوثر عطا کیا ہے اور عبداللہ بن زید نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا صبر کرو یہاں تک تم مجھ سے حوض پر ملو۔
ہم سے سعید بن ابومریم نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن مطرف نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوحازم نے، ان سے سہل بن سعد (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا میں اپنے حوض کوثر پر تم سے پہلے موجود رہوں گا۔ جو شخص بھی میری طرف سے گزرے گا وہ اس کا پانی پئے گا اور جو اس کا پانی پئے گا وہ پھر کبھی پیاسا نہیں ہوگا اور وہاں کچھ ایسے لوگ بھی آئیں گے جنہیں میں پہچانوں گا اور وہ مجھے پہچانیں گے لیکن پھر انہیں میرے سامنے سے ہٹا دیا جائے گا۔ ابوحازم نے بیان کیا کہ یہ حدیث مجھ سے نعمان بن ابی عیاش نے سنی اور کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے ابو سعید خدری (رض) سے یہ حدیث اسی طرح سنی تھی اور وہ اس حدیث میں کچھ زیادتی کے ساتھ بیان کرتے تھے۔ (یعنی یہ کہ نبی کریم ﷺ فرمائیں گے کہ) میں کہوں گا کہ یہ تو مجھ میں سے ہیں) نبی کریم ﷺ سے کہا جائے گا کہ آپ کو نہیں معلوم کہ انہوں نے آپ کے بعد دین میں کیا کیا نئی چیزیں ایجاد کرلی تھیں۔ اس پر میں کہوں گا کہ دور ہو وہ شخص جس نے میرے بعد دین میں تبدیلی کرلی تھی۔ ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ سحقا بمعنی بعدا ہے، سحيق یعنی بعيد ، أسحقه یعنی أبعده.۔ احمد بن شبیب بن سعید حبطی نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے بیان کیا، ان سے یونس نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے سعید بن مسیب نے، ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ وہ بیان کرتے تھے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن میرے صحابہ میں سے ایک جماعت مجھ پر پیش کی جائے گی۔ پھر وہ حوض سے دور کر دئیے جائیں گے۔ میں عرض کروں گا : اے میرے رب ! یہ تو میرے صحابہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تمہیں معلوم نہیں کہ انہوں نے تمہارے بعد کیا کیا نئی چیزیں گھڑ لی تھیں ؟ یہ لوگ (دین سے) الٹے قدموں واپس لوٹ گئے تھے۔ (دوسری سند) شعیب بن ابی حمزہ نے بیان کیا، ان سے زہری نے کہ ابوہریرہ (رض) نبی کریم ﷺ کے حوالے سے فيجلون (بجائے فيحلؤون ) کے بیان کرتے تھے۔ اور عقیل فيحلؤون بیان کرتے تھے اور زبیدی نے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے محمد بن علی نے، ان سے عبیداللہ بن ابی رافع نے، ان سے ابوہریرہ (رض) نے نبی کریم ﷺ سے۔
None
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”قیامت کے دن میرے صحابہ میں سے ایک جماعت مجھ پر پیش کی جائے گی۔ پھر وہ حوض سے دور کر دئیے جائیں گے۔ میں عرض کروں گا: اے میرے رب! یہ تو میرے صحابہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تمہیں معلوم نہیں کہ انہوں نے تمہارے بعد کیا کیا نئی چیزیں گھڑ لی تھیں؟ یہ لوگ ( دین سے ) الٹے قدموں واپس لوٹ گئے تھے۔“ ( دوسری سند ) شعیب بن ابی حمزہ نے بیان کیا، ان سے زہری نے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے «فيجلون» ( بجائے «فيحلؤون» ) کے بیان کرتے تھے۔ اور عقیل «فيحلؤون» بیان کرتے تھے اور زبیدی نے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے محمد بن علی نے، ان سے عبیداللہ بن ابی رافع نے، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔
حوض کوثر کا بیان۔ اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ بیشک ہم نے تجھ کو کوثر عطا کیا ہے اور عبداللہ بن زید نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا صبر کرو یہاں تک تم مجھ سے حوض پر ملو۔
ہم سے احمد بن صالح نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابن وہب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے یونس نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں ابن مسیب نے، وہ نبی کریم ﷺ کے صحابہ سے روایت کرتے تھے کہ آپ ﷺ نے فرمایا حوض پر میرے صحابہ کی ایک جماعت آئے گی۔ پھر انہیں اس سے دور کردیا جائے گا۔ میں عرض کروں گا میرے رب ! یہ تو میرے صحابہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تمہیں معلوم نہیں کہ انہوں نے تمہارے بعد کیا کیا نئی چیزیں ایجاد کرلی تھیں، یہ الٹے پاؤں (اسلام سے) واپس لوٹ گئے تھے۔
حوض کوثر کا بیان۔ اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ بیشک ہم نے تجھ کو کوثر عطا کیا ہے اور عبداللہ بن زید نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا صبر کرو یہاں تک تم مجھ سے حوض پر ملو۔
ہم سے ابراہیم بن المنذر حزامی نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن فلیح نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد نے، کہا کہ مجھ سے ہلال نے، ان سے عطاء بن یسار نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا میں (حوض پر) کھڑا ہوں گا کہ ایک جماعت میرے سامنے آئے گی اور جب میں انہیں پہچان لوں گا تو ایک شخص (فرشتہ) میرے اور ان کے درمیان سے نکلے گا اور ان سے کہے گا کہ ادھر آؤ۔ میں کہوں گا کہ کدھر ؟ وہ کہے گا کہ واللہ جہنم کی طرف۔ میں کہوں گا کہ ان کے حالات کیا ہیں ؟ وہ کہے گا کہ یہ لوگ آپ کے بعد الٹے پاؤں (دین سے) واپس لوٹ گئے تھے۔ پھر ایک اور گروہ میرے سامنے آئے گا اور جب میں انہیں بھی پہچان لوں گا تو ایک شخص (فرشتہ) میرے اور ان کے درمیان میں سے نکلے گا اور ان سے کہے گا کہ ادھر آؤ۔ میں پوچھوں گا کہ کہاں ؟ تو وہ کہے گا، اللہ کی قسم ! جہنم کی طرف۔ میں کہوں گا کہ ان کے حالات کیا ہیں ؟ فرشتہ کہے گا کہ یہ لوگ آپ کے بعد الٹے پاؤں واپس لوٹ گئے تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان گروہوں میں سے ایک آدمی بھی نہیں بچے گا۔ ان سب کو دوزخ میں لے جائیں گے۔
حوض کوثر کا بیان۔ اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ بیشک ہم نے تجھ کو کوثر عطا کیا ہے اور عبداللہ بن زید نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا صبر کرو یہاں تک تم مجھ سے حوض پر ملو۔
مجھ سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے انس بن عیاض نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ نے بیان کیا، ان سے خبیب بن عبدالرحمٰن نے، ان سے حفص بن عاصم نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان کی جگہ کا جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اور میرا منبر میرے حوض پر ہے۔
حوض کوثر کا بیان۔ اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ بیشک ہم نے تجھ کو کوثر عطا کیا ہے اور عبداللہ بن زید نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا صبر کرو یہاں تک تم مجھ سے حوض پر ملو۔
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا مجھ کو میرے والد نے خبر دی، انہیں شعبہ نے، ان سے عبدالملک نے بیان کیا، کہا کہ میں نے جندب (رض) سے سنا، کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا، نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں حوض پر تم سے پہلے موجود ہوں گا۔
حوض کوثر کا بیان۔ اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ بیشک ہم نے تجھ کو کوثر عطا کیا ہے اور عبداللہ بن زید نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا صبر کرو یہاں تک تم مجھ سے حوض پر ملو۔
ہم سے عمرو بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے یزید نے، ان سے ابوالخیر مرثد بن عبداللہ نے اور ان سے عقبہ بن عامر (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ باہر تشریف لائے اور شہداء احد کے لیے اس طرح دعا کی جس طرح میت کے لیے جنازہ میں دعا کی جاتی ہے۔ پھر آپ ﷺ منبر پر تشریف لائے اور فرمایا لوگو ! میں تم سے آگے جاؤں گا اور تم پر گواہ رہوں گا اور میں واللہ اپنے حوض کی طرف اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں اور مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں یا فرمایا کہ زمین کی کنجیاں دی گئی ہیں۔ اللہ کی قسم ! میں تمہارے بارے میں اس بات سے نہیں ڈرتا کہ تم میرے بعد شرک کرو گے، البتہ اس سے ڈرتا ہوں کہ تم دنیا کے لالچ میں پڑ کر ایک دوسرے سے حسد کرنے لگو گے۔
حوض کوثر کا بیان۔ اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ بیشک ہم نے تجھ کو کوثر عطا کیا ہے اور عبداللہ بن زید نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا صبر کرو یہاں تک تم مجھ سے حوض پر ملو۔
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے حرمی بن عمارہ نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے معبد بن خالد نے بیان کیا، انہیں نے حارثہ بن وہب (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا، نبی کریم ﷺ نے حوض کا ذکر کیا اور فرمایا کہ (وہ اتنا بڑا ہے) جتنی مدینہ اور صنعاء کے درمیان دوری ہے۔ اور ابن ابوعدی محمد بن ابراہیم نے بھی شعبہ سے روایت کیا، ان سے معبد بن خالد نے اور ان سے حارثہ (رض) نے کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد سنا، اس میں اتنا زیادہ ہے کہ آپ کا حوض اتنا لمبا ہوگا جتنی صنعاء اور مدینہ کے درمیان دوری ہے۔ اس پر مستورد نے کہا : کیا آپ نے برتنوں والی روایت نہیں سنی ؟ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ مستورد نے کہا کہ کہ اس میں برتن (پینے کے) اس طرح نظر آئیں گے جس طرح آسمان میں ستارے نظر آتے ہیں۔
حوض کوثر کا بیان۔ اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ بیشک ہم نے تجھ کو کوثر عطا کیا ہے اور عبداللہ بن زید نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا صبر کرو یہاں تک تم مجھ سے حوض پر ملو۔
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، ان سے نافع بن عمر نے، کہا کہ مجھ سے ابن ابی ملیکہ نے بیان کیا، ان سے اسماء بنت ابی بکر (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا میں حوض پر موجود رہوں گا اور دیکھوں گا کہ تم میں سے کون میرے پاس آتا ہے۔ پھر کچھ لوگوں کو مجھ سے الگ کردیا جائے گا۔ میں عرض کروں گا کہ اے میرے رب ! یہ تو میرے ہی آدمی ہیں اور میری امت کے لوگ ہیں۔ مجھ سے کہا جائے گا کہ تمہیں معلوم بھی ہے انہوں نے تمہارے بعد کیا کام کئے تھے ؟ واللہ یہ مسلسل الٹے پاؤں لوٹتے رہے۔ (دین اسلام سے پھرگئے) ابن ابی ملیکہ (جو کہ یہ حدیث اسماء سے روایت فرماتے ہیں) کہا کرتے تھے کہ اے اللہ ! ہم اس بات سے تیری پناہ مانگتے ہیں کہ ہم الٹے پاؤں (دین سے) لوٹ جائیں یا اپنے دین کے بارے میں فتنہ میں ڈال دئیے جائیں۔ ابوعبداللہ امام بخاری (رح) نے کہا کہ سورة مومنون میں جو اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے أعقابکم تنکصون اس کا معنی بھی یہی ہے کہ تم دین سے اپنی ایڑیوں کے بل الٹے پھرگئے تھے یعنی اسلام سے مرتد ہوگئے تھے۔