66. تقدیر کا بیان

【1】

تقدیر کا بیان

ہم سے ابوالولید ہشام بن عبدالملک نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا مجھ کو سلیمان اعمش نے خبر دی، کہا کہ میں نے زید بن وہب سے سنا، ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ ہم کو رسول اللہ ﷺ نے بیان سنایا اور آپ سچوں کے سچے تھے اور آپ کی سچائی کی زبردست گواہی دی گئی۔ فرمایا کہ تم میں سے ہر شخص پہلے اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک نطفہ ہی رکھا جاتا ہے۔ پھر اتنی ہی مدت میں علقة یعنی خون کی پھٹکی (بستہ خون) بنتا ہے پھر اتنے ہی عرصہ میں مضغة (یعنی گوشت کا لوتھڑا) پھر چار ماہ بعد اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ بھیجتا ہے اور اس کے بارے میں (ماں کے پیٹ ہی میں) چار باتوں کے لکھنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ اس کی روزی کا، اس کی موت کا، اس کا کہ وہ بدبخت ہے یا نیک بخت۔ پس واللہ، تم میں سے ایک شخص دوزخ والوں کے سے کام کرتا رہتا ہے اور جب اس کے اور دوزخ کے درمیان صرف ایک بالشت کا فاصلہ یا ایک ہاتھ کا فاصلہ باقی رہ جاتا ہے تو اس کی تقدیر اس پر غالب آتی ہے اور وہ جنت والوں کے سے کام کرنے لگتا ہے اور جنت میں جاتا ہے۔ اسی طرح ایک شخص جنت والوں کے سے کام کرتا رہتا ہے اور جب اس کے اور جنت کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ باقی رہ جاتا ہے تو اس کی تقدیر اس پر غالب آتی ہے اور وہ دوزخ والوں کے کام کرنے لگتا ہے اور دوزخ میں جاتا ہے۔ امام بخاری (رح) کہتے ہیں کہ آدم بن ابی ایاس نے اپنی روایت میں یوں کہا کہ جب ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے۔

【2】

تقدیر کا بیان

ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ بن ابوبکر بن انس نے اور ان سے انس بن مالک (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے رحم مادر پر ایک فرشتہ مقرر کردیا ہے اور وہ کہتا رہتا ہے کہ اے رب ! یہ نطفة قرار پایا ہے۔ اے رب ! اب علقة یعنی جما ہوا خون بن گیا ہے۔ اے رب ! اب مضغة‏.‏ (گوشت کا لوتھڑا) بن گیا ہے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس کی پیدائش پوری کرے تو وہ پوچھتا ہے اے رب لڑکا ہے یا لڑکی ؟ نیک ہے یا برا ؟ اس کی روزی کیا ہوگی ؟ اس کی موت کب ہوگی ؟ اسی طرح یہ سب باتیں ماں کے پیٹ ہی میں لکھ دی جاتی ہیں، دنیا میں اسی کے مطابق ظاہر ہوتا ہے۔

【3】

قلم اللہ کے حکم سے خشک ہوچکا ہے۔ ( اور اللہ کا قول کہ اللہ نے اس کو گمراہ کردیا ہے باوجودیکہ وہ اس کو جانتا ہے) اور ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ مجھ سے نبی ﷺ نے فرمایا کہ قلم خشک ہوچکا ہے جس چیز کے ساتھ تم ملنے والے ہو ابن عباس نے کہا لھا سابقون کے معنی ہیں انکے لئے سعادت پہلے سے مقدر ہوچکی ہے۔

ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید رشک نے بیان کیا، انہوں نے مطرف بن عبداللہ بن شخیر سے سنا، وہ عمران بن حصین (رض) سے بیان کرتے تھے، انہوں نے کہا کہ ایک صاحب نے (یعنی خود انہوں نے) عرض کیا : یا رسول اللہ ! کیا جنت کے لوگ جہنمیوں میں سے پہچانے جا چکے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہاں انہوں نے کہا کہ پھر عمل کرنے والے کیوں عمل کریں ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہر شخص وہی عمل کرتا ہے جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے یا جس کے لیے اسے سہولت دی گئی ہے۔

【4】

اللہ تعالیٰ اس چیز کو جانتا ہے وہ کرنے والے تھے۔

ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر محمد بن جعفر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابوبشر نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے عبداللہ بن عباس (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ سے مشرکین کی اولاد کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کو خوب معلوم ہے کہ وہ (بڑے ہو کر) کیا عمل کرتے۔

【5】

اللہ تعالیٰ اس چیز کو جانتا ہے وہ کرنے والے تھے۔

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے یونس نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے عطا بن یزید نے خبر دی، انہوں نے ابوہریرہ (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ سے مشرکین کی اولاد کے متعلق پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ کیا عمل کرتے۔

【6】

اللہ تعالیٰ اس چیز کو جانتا ہے وہ کرنے والے تھے

مجھ سے اسحاق نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عبدالرزاق نے خبر دی، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں ہمام نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کوئی بچہ ایسا نہیں ہے جو فطرت پر نہ پیدا ہوتا ہو۔ لیکن اس کے والدین اسے یہودی یا نصرانی بنا دیتے ہیں جیسا کہ تمہارے جانوروں کے بچے پیدا ہوتے ہیں۔ کیا ان میں کوئی کان کٹا پیدا ہوتا ہے ؟ وہ تو تم ہی اس کا کان کاٹ دیتے ہو۔ صحابہ نے عرض کیا : پھر یا رسول اللہ ! اس بچے کے متعلق کیا خیال ہے جو بچپن ہی میں مرگیا ہو ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ (بڑا ہو کر) کیا عمل کرتا۔

【7】

اللہ تعالیٰ کا قول کہ اللہ کا حکم ایک قدر معین کے ساتھ ہے

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ابوالزناد نے، انہیں اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کوئی عورت اپنی کسی (دینی) بہن کی طلاق کا مطالبہ (شوہر سے) نہ کرے کہ اس کے گھر کو اپنے ہی لیے خاص کرلینا چاہے۔ بلکہ اسے نکاح (دوسری عورت کی موجودگی میں بھی) کرلینا چاہیے کیونکہ اسے اتنا ہی ملے گا جتنا اس کے مقدر میں ہوگا۔

【8】

اللہ تعالیٰ کا قول کہ اللہ کا حکم ایک قدر معین کے ساتھ ہے

ہم سے مالک بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے اسرائیل نے بیان کیا، ان سے عاصم نے، ان سے ابوعثمان نے اور ان سے اسامہ (رض) نے بیان کیا کہ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں موجود تھا کہ آپ ﷺ کی صاحبزادیوں میں سے ایک کا بلاوا آیا۔ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں سعد، ابی بن کعب اور معاذ رضی اللہ عنہم موجود تھے۔ بلانے والے نے آ کر کہا کہ ان کا بچہ (نبی کریم ﷺ کا نواسہ) نزع کی حالت میں ہے۔ نبی کریم ﷺ نے کہلا بھیجا کہ اللہ ہی کا ہے جو وہ لیتا ہے، اس لیے وہ صبر کریں اور اللہ سے اجر کی امید رکھیں۔

【9】

اللہ تعالیٰ کا قول کہ اللہ کا حکم ایک قدر معین کے ساتھ ہے

ہم سے حبان بن موسیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم کو یونس نے خبر دی، انہیں زہری نے کہا کہ ہم کو عبداللہ بن محیریز جمحی نے خبر دی، انہیں ابو سعید خدری (رض) نے کہ وہ نبی کریم ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ قبیلہ انصار کا ایک آدمی آیا اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! ہم لونڈیوں سے ہمبستری کرتے ہیں اور مال سے محبت کرتے ہیں۔ آپ کا عزل کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اچھا تم ایسا کرتے ہو، تمہارے لیے کچھ قباحت نہیں اگر تم ایسا نہ کرو، کیونکہ جس جان کی بھی پیدائش اللہ نے لکھ دی ہے وہ ضرور پیدا ہو کر رہے گی۔

【10】

اللہ تعالیٰ کا قول کہ اللہ کا حکم ایک قدر معین کے ساتھ ہے

ہم سے موسیٰ بن مسعود نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، ان سے ابو وائل نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے ہمیں ایک خطبہ دیا اور قیامت تک کوئی (دینی) چیز ایسی نہیں چھوڑی جس کا بیان نہ کیا ہو، جسے یاد رکھنا تھا اس نے یاد رکھا اور جسے بھولنا تھا وہ بھول گیا، جب میں ان کی کوئی چیز دیکھتا ہوں جسے میں بھول چکا ہوں تو اس طرح اسے پہچان لیتا ہوں جس طرح وہ شخص جس کی کوئی چیز گم ہوگئی ہو کہ جب وہ اسے دیکھتا ہے تو فوراً پہچان لیتا ہے۔

【11】

اللہ تعالیٰ کا قول کہ اللہ کا حکم ایک قدر معین کے ساتھ ہے

ہم سے عبدان نے بیان کیا، ان سے ابوحمزہ نے، ان سے اعمش نے، ان سے سعد بن عبیدہ نے، ان سے ابوعبدالرحمٰن سلمی نے اور ان سے علی (رض) نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے اور نبی کریم ﷺ کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی جس سے آپ زمین کرید رہے تھے اور آپ ﷺ نے (اسی اثناء میں) فرمایا کہ تم میں سے ہر شخص کا جہنم کا یا جنت کا ٹھکانا لکھا جا چکا ہے، ایک مسلمان نے اس پر عرض کیا : یا رسول اللہ ! پھر کیوں نہ ہم اس پر بھروسہ کرلیں ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں عمل کرو کیونکہ ہر شخص (اپنی تقدیر کے مطابق) عمل کی آسانی پاتا ہے۔ پھر آپ ﷺ نے اس آیت کی تلاوت کی فأما من أعطى واتقى‏ الآیہ پس جس نے راہ للہ دیا اور تقویٰ اختیار کیا … الخ۔

【12】

عمل خاتمے پر موقوف ہے

ہم سے حبان بن موسیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں سعید بن مسیب نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ خیبر کی لڑائی میں موجود تھے، نبی کریم ﷺ نے ایک شخص کے بارے میں جو آپ کے ساتھ شریک جہاد تھا اور اسلام کا دعویدار تھا فرمایا کہ یہ جہنمی ہے۔ جب جنگ ہونے لگی تو اس شخص نے بہت جم کر لڑائی میں حصہ لیا اور بہت زیادہ زخمی ہوگیا پھر بھی وہ ثابت قدم رہا۔ نبی کریم ﷺ کے ایک صحابی نے آ کر عرض کیا : یا رسول اللہ ! اس شخص کے بارے میں آپ کو معلوم ہے جس کے بارے میں ابھی آپ نے فرمایا تھا کہ وہ جہنمی ہے وہ تو اللہ کے راستے میں بہت جم کر لڑا ہے اور بہت زیادہ زخمی ہوگیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے اب بھی یہی فرمایا کہ وہ جہنمی ہے۔ ممکن تھا کہ بعض مسلمان شبہ میں پڑجاتے لیکن اس عرصہ میں اس شخص نے زخموں کی تاب نہ لا کر اپنا ترکش کھولا اور اس میں سے ایک تیر نکال کر اپنے آپ کو ذبح کرلیا۔ پھر بہت سے مسلمان نبی کریم ﷺ کی خدمت میں دوڑتے ہوئے پہنچے اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! اللہ تعالیٰ نے آپ کی بات سچ کر دکھائی۔ اس شخص نے اپنے آپ کو ہلاک کر کے اپنی جان خود ہی ختم کر ڈالی۔ نبی کریم ﷺ نے اس موقع پر فرمایا کہ اے بلال ! اٹھو اور لوگوں میں اعلان کر دو کہ جنت میں صرف مومن ہی داخل ہوگا اور یہ کہ اللہ تعالیٰ اس دین کی خدمت و مدد بےدین آدمی سے بھی کراتا ہے۔

【13】

عمل خاتمے پر موقوف ہے

ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوغسان نے بیان کیا، کہا مجھ سے ابوحازم نے بیان کیا اور ان سے سہل بن سعد (رض) نے کہ ایک شخص جو مسلمانوں کی طرف سے بڑی بہادری سے لڑ رہا تھا اور اس غزوہ میں نبی کریم ﷺ بھی موجود تھے۔ نبی کریم ﷺ نے دیکھا اور فرمایا کہ جو کسی جہنمی شخص کو دیکھنا چاہتا ہے وہ اس شخص کو دیکھ لے چناچہ وہ شخص جب اسی طرح لڑنے میں مصروف تھا اور مشرکین کو اپنی بہادری کی وجہ سے سخت تر تکالیف میں مبتلا کر رہا تھا تو ایک مسلمان اس کے پیچھے پیچھے چلا، آخر وہ شخص زخمی ہوگیا اور جلدی سے مرجانا چاہا، اس لیے اس نے اپنی تلوار کی دھار اپنے سینے پر لگا لی اور تلوار اس کے شانوں کو پار کرتی ہوئی نکل گئی۔ اس کے بعد پیچھا کرنے والا شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں دوڑتا ہوا حاضر ہوا اور عرض کیا، میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ بات کیا ہے ؟ ان صاحب نے کہا کہ آپ نے فلاں شخص کے بارے میں فرمایا تھا کہ جو کسی جہنمی کو دیکھنا چاہتا ہے وہ اس شخص کو دیکھ لے حالانکہ وہ شخص مسلمانوں کی طرف سے بڑی بہادری سے لڑ رہا تھا۔ میں سمجھا کہ وہ اس حالت میں نہیں مرے گا۔ لیکن جب وہ زخمی ہوگیا تو جلدی سے مرجانے کی خواہش میں اس نے خودکشی کرلی۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ بندہ دوزخیوں کے سے کام کرتا رہتا ہے حالانکہ وہ جنتی ہوتا ہے (اسی طرح دوسرا بندہ) جنتیوں کے کام کرتا رہتا ہے حالانکہ وہ دوزخی ہوتا ہے، بلاشبہ عملوں کا اعتبار خاتمہ پر ہے۔

【14】

نذر کا بندے کو قدر کے حوالے کردینے کا بیان

ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے منصور بن معتمر نے، ان سے عبداللہ بن مرہ نے اور ان سے ابن عمر (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے نذر ماننے سے منع کیا تھا اور فرمایا تھا کہ نذر کسی چیز کو نہیں لوٹاتی، نذر صرف بخیل کے دل سے پیسہ نکالتی ہے۔

【15】

نذر کا بندے کو قدر کے حوالے کردینے کا بیان

ہم سے بشر بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں ہمام بن منبہ نے، انہیں ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ نذر (منت) انسان کو کوئی چیز نہیں دیتی جو میں (رب) نے اس کی تقدیر میں نہ لکھی ہو بلکہ وہ تقدیر دیتی ہے جو میں (رب) نے اس کے لیے مقرر کردی ہے، البتہ اس کے ذریعہ میں بخیل کا مال نکلوا لیتا ہوں۔

【16】

گناہ سے بچنے کی طاقت اور عبادت کی قوت اللہ ہی سے ہے

مجھ سے ابوالحسن محمد بن مقاتل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم کو خالد حذاء نے خبر دی، انہیں ابوعثمان نہدی نے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری (رض) نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک غزوہ میں تھے اور جب بھی ہم کسی بلندی پر چڑھتے یا کسی نشیبی علاقہ میں اترتے تو تکبیر بلند آواز سے کہتے۔ بیان کیا کہ پھر نبی کریم ﷺ ہمارے قریب آئے اور فرمایا اے لوگو ! اپنے آپ پر رحم کرو، کیونکہ تم کسی بہرے یا غیر موجود کو نہیں پکارتے بلکہ تم اس ذات کو پکارتے ہو جو بہت زیادہ سننے والا بڑا دیکھنے والا ہے۔ پھر فرمایا : اے عبداللہ بن قیس ! (ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ) کیا میں تمہیں ایک کلمہ نہ سکھا دوں جو جنت کے خزانوں میں سے ہے۔ (وہ کلمہ ہے) لا حول ولا قوة إلا بالله یعنی طاقت و قوت اللہ کے سوا اور کسی کے پاس نہیں۔

【17】

معصوم وہ ہے جس کو اللہ بچائے۔ عاصم کے معنی ہیں روکنے والا اور مجاہد نے کہا سداعن الحق کے معنی کہ وہ گمراہی میں ادھر ادھر حیران ہونگے۔ وساہا کے معنی اس کو گمراہ کردیا۔

ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا ہم کو یونس نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، کہا مجھ سے ابوسلمہ نے بیان کیا، ان سے ابو سعید خدری (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جب بھی کوئی شخص حاکم ہوتا ہے تو اس کے صلاح کار اور مشیر دو طرح کے ہوتے ہیں ایک تو وہ جو اسے نیکی اور بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور اس پر ابھارتے رہتے ہیں اور دوسرے وہ جو اسے برائی کا حکم دیتے ہیں اور اس پر اسے ابھارتے رہتے ہیں اور معصوم وہ ہے جسے اللہ محفوظ رکھے۔

【18】

اللہ تعالیٰ کا قول کہ جس شہر کے ہلاک کرنے کا ہم نے ارادہ کیا اس پر حرام ہے کہ وہ لوٹ جائے۔ (نیز) جو لوگ تمہاری قوم میں سے ایمان لاچکے ہیں، ان کے سوا ان کوئی ایمان نہیں لائے گا (نیز) وہ صرف بدکار بچے ہی جنیں گے اور منصور بن نعمان نے بواسطہ عکرمہ، ابن عباس سے نقل کیا کہ حبشی زبان میں حرم کے معنی واجب ہونا ہے۔

مجھ سے محمود بن غیلان نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں ابن طاؤس نے، انہیں ان کے والد نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ یہ جو لمم کا لفظ قرآن میں آیا ہے تو میں لمم کے مشابہ اس بات سے زیادہ کوئی بات نہیں جانتا جو ابوہریرہ (رض) نے نبی کریم ﷺ سے بیان کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے زنا کا کوئی نہ کوئی حصہ لکھ دیا ہے جس سے اسے لامحالہ گزرنا ہے، پس آنکھ کا زنا (غیرمحرم کو) دیکھنا ہے، زبان کا زنا غیرمحرم سے گفتگو کرنا ہے، دل کا زنا خواہش اور شہوت ہے اور شرمگاہ اس کی تصدیق کردیتی ہے یا اسے جھٹلا دیتی ہے۔ اور شبابہ نے بیان کیا کہ ہم سے ورقاء نے بیان کیا، ان سے ابن طاؤس نے، ان سے ان کے والد نے، ان سے ابوہریرہ (رض) نے، انہوں نے نبی کریم ﷺ سے پھر اس حدیث کو نقل کیا۔

【19】

اللہ تعالیٰ کا قول کہ ہم نے جو خواب تجھ کو دکھلایا وہ صرف لوگوں کی آزمائش کے لئے تھا

ہم سے حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے آیت وما جعلنا الرؤيا التي أريناك إلا فتنة للناس‏ اور وہ رؤیا جو ہم نے تمہیں دکھایا ہے اسے ہم نے صرف لوگوں کے لیے آزمائش بنایا ہے۔ کے متعلق کہا کہ اس سے مراد آنکھ کا دیکھنا ہے جو رسول اللہ ﷺ کو اس معراج کی رات دکھایا گیا تھا۔ جب آپ کو بیت المقدس تک رات کو لے جایا گیا تھا، کہا کہ قرآن مجید میں الشجرة الملعونة سے مراد زقوم‏.‏ کا درخت ہے۔

【20】

آدم اور موسیٰ علہیم السلام کا اللہ تعالیٰ کے نزدیک گفتگو کرنے کا بیان

ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، کہا کہ ہم نے عمرو سے اس حدیث کو یاد کیا، ان سے طاؤس نے، انہوں نے ابوہریرہ (رض) سے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا آدم اور موسیٰ نے مباحثہ کیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے آدم (علیہ السلام) سے کہا : آدم ! آپ ہمارے باپ ہیں مگر آپ ہی نے ہمیں محروم کیا اور جنت سے نکالا۔ آدم (علیہ السلام) نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا موسیٰ آپ کو اللہ تعالیٰ نے ہم کلامی کے لیے برگزیدہ کیا اور اپنے ہاتھ سے آپ کے لیے تورات کو لکھا۔ کیا آپ مجھے ایک ایسے کام پر ملامت کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے مجھے پیدا کرنے سے چالیس سال پہلے میری تقدیر میں لکھ دیا تھا۔ آخر آدم (علیہ السلام) بحث میں موسیٰ (علیہ السلام) پر غالب آئے۔ تین مرتبہ نبی کریم ﷺ نے یہ جملہ فرمایا۔ سفیان نے اسی اسناد سے بیان کیا، کہا ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے اعرج نے، ان سے ابوہریرہ (رض) نے نبی کریم ﷺ سے پھر یہی حدیث نقل کی۔

【21】

جس کو اللہ دے اس کو کوئی روکنے والا نہیں

ہم سے محمد بن سنان نے بیان کیا، کہا ہم سے فلیح نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدہ بن ابی لبابہ نے بیان کیا، ان سے مغیرہ بن شعبہ کے غلام وردا نے بیان کیا کہ معاویہ (رض) نے مغیرہ بن شعبہ (رض) کو لکھا مجھے رسول اللہ ﷺ کی وہ دعا لکھ کر بھیجو جو تم نے نبی کریم ﷺ کو نماز کے بعد کرتے سنی ہے۔ چناچہ مغیرہ (رض) نے مجھ کو لکھوایا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا ہے نبی کریم ﷺ ہر فرض نماز کے بعد یہ دعا کیا کرتے تھے اللهم لا مانع لما أعطيت،‏‏‏‏ ولا معطي لما منعت،‏‏‏‏ ولا ينفع ذا الجد منک الجد اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اے اللہ ! جو تو دینا چاہے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جو تو روکنا چاہے اسے کوئی دینے والا نہیں اور تیرے سامنے دولت والے کی دولت کچھ کام نہیں دے سکتی۔ اور ابن جریج نے کہا کہ مجھ کو عبدہ نے خبر دی اور انہیں وردا نے خبر دی، پھر اس کے بعد میں معاویہ (رض) کے یہاں گیا تو میں نے دیکھا کہ وہ لوگوں کو اس دعا کے پڑھنے کا حکم دے رہے تھے۔

【22】

اس شخص کا بیان جو بدبختی کی پستی پر بری تقدیر سے اللہ کی پناہ مانگے۔ اور اللہ تعالیٰ کا قول آپ کہہ دیجئے کہ میں مخلوقات کے شر سے صبح کی روشنی کے رب کی پناہ مانگتا ہوں

ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے سمی نے بیان کیا، ان سے ابوصالح نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اللہ سے پناہ مانگا کرو آزمائش کی مشقت، بدبختی کی پستی، برے خاتمے اور دشمن کے ہنسنے سے۔

【23】

اللہ تعالیٰ انسان اور اس کے قلب کے درمیان حائل ہوتا ہے

ہم سے ابوالحسن محمد بن مقاتل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم کو موسیٰ بن عقبہ نے خبر دی، ان سے سالم نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ (رض) نے بیان کیا کہ اکثر نبی کریم ﷺ قسم کھایا کرتے تھے کہ نہیں ! دلوں کو پھیرنے والے کی قسم۔

【24】

اللہ تعالیٰ انسان اور اس کے قلب کے درمیان حائل ہوتا ہے

ہم سے علی بن حفص اور بشر بن محمد نے بیان کیا، ان دونوں نے کہا کہ عبداللہ نے ہمیں خبر دی، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں سالم نے اور ان سے ابن عمر (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے ابن صیاد سے فرمایا کہ میں نے تیرے لیے ایک بات دل میں چھپا رکھی ہے (بتا وہ کیا ہے ؟ ) اس نے کہا کہ دھواں نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ بدبخت ! اپنی حیثیت سے آگے نہ بڑھ۔ عمر (رض) نے عرض کیا : آپ مجھے اجازت دیں تو میں اس کی گردن مار دوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو ، اگر یہ وہی (دجال) ہوا تو تم اس پر قابو نہیں پاسکتے اور اگر یہ وہ نہ ہوا تو اسے قتل کرنے میں تمہارے لیے کوئی بھلائی نہیں۔

【25】

(آیت) آپ کہہ دیجیے ہمیں وہی پہنچے گا جو اللہ نے ہمارے لئے لکھ دیا ہے۔ کتب کے معنی ہیں فیصلہ کردیا، فاتنین کے معنی ہیں گمراہ ہونے والے (الامن صال الجحیم) کے معنی مگر جس کا جہنم میں داخل ہونا اللہ نے لکھ دیا، قدر فہدی کے معنی ہیں کہ بدبختی اور نیک بختی تقدیر میں لکھی جاچکی ہے اور وھدی الانعام لمراتعھا کے معنی ہیں جانور کو چراگاہ تک پہنچا دینا۔

مجھ سے اسحاق بن ابراہیم حنظلی نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ کو نضر نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم سے داؤد بن ابی الفرات نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن بریدہ نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن یعمر نے بیان کیا اور انہیں عائشہ (رض) نے خبر دی کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے طاعون کے متعلق پوچھا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہ عذاب تھا اور اللہ تعالیٰ جس پر چاہتا ہے اسے بھیجتا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اسے مومنوں کے لیے رحمت بنادیا، کوئی بھی بندہ اگر کسی ایسے شہر میں ہے جس میں طاعون کی وبا پھوٹی ہوئی ہے اور اس میں ٹھہرا ہے اور اس شہر سے بھاگا نہیں صبر کئے ہوئے ہے اور اس پر اجر کا امیدوار ہے اور یقین رکھتا ہے کہ اس تک صرف وہی چیز پہنچ سکتی ہے جو اللہ نے اس کی تقدیر میں لکھ دی ہے تو اسے شہید کے برابر ثواب ملے گا۔

【26】

اللہ تعالیٰ کا قول کہ) ہم ہدایت پانے والے نہ ہوتے اگر اللہ مجھے ہدایت نہ دیتا۔ اگر اللہ مجھے ہدایت نہ دیتا تو میں متقین میں سے ہوتا۔

ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو جریر نے خبر دی جو ابن حازم ہیں، انہیں ابواسحاق نے، ان سے براء بن عازب (رض) نے کہا کہ میں نے غزوہ خندق کے دن رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ ہمارے ساتھ مٹی اٹھا رہے تھے اور یہ کہتے جاتے تھے۔ واللہ، اگر اللہ نہ ہوتا تو ہم ہدایت نہ پاسکتے۔ نہ روزہ رکھ سکتے اور نہ نماز پڑھ سکتے۔ پس اے اللہ ! ہم پر سکینت نازل فرما۔ اور جب سامنا ہو تو ہمیں ثابت قدم رکھ۔ اور مشرکین نے ہم پر زیادتی کی ہے۔ جب وہ کسی فتنہ کا ارادہ کرتے ہیں تو ہم انکار کرتے ہیں۔