67. قسموں اور نذروں کا بیان

【1】

قسموں اور نذروں کا بیان، اللہ تعالیٰ کا قول کہ اللہ تعالیٰ تمہاری لغو قسموں پر تمہارا مواخذہ نہیں کرے گا بلکہ ان قسموں کا مواخذہ کرے گا جو تم قصد کرکے کھاؤ تو اس کا کفارہ دس مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے، اوسط درجہ کا جو تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو، یا ان کو کپڑا پہنانا، یا ایک غلام آزاد کرنا ہے جس شخص کو یہ میسر نہ ہو تو تین روزے رکھنا ہے یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جبکہ تم قسم کھاؤ اور اپنی قسموں کی حفاظت کرو، اسی طرح اللہ تعالیٰ تمہارے لئے اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے شاید کہ تم شکرگزار بن جاؤ

ہم سے ابوالحسن محمد بن مقاتل مروزی نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا ہم کو ہشام بن عروہ نے خبر دی، انہیں ان کے والد نے اور انہیں عائشہ (رض) نے کہ ابوبکر (رض) کبھی اپنی قسم نہیں توڑتے تھے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے قسم کا کفارہ اتارا۔ اس وقت انہوں نے کہا کہ اب اگر میں کوئی قسم کھاؤں گا اور اس کے سوا کوئی چیز بھلائی کی ہوگی تو میں وہی کام کروں گا جس میں بھلائی ہو اور اپنی قسم کا کفارہ دے دوں گا۔

【2】

قسموں اور نذروں کا بیان، اللہ تعالیٰ کا قول کہ اللہ تعالیٰ تمہاری لغو قسموں پر تمہارا مواخذہ نہیں کرے گا بلکہ ان قسموں کا مواخذہ کرے گا جو تم قصد کرکے کھاؤ تو اس کا کفارہ دس مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے، اوسط درجہ کا جو تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو، یا ان کو کپڑا پہنانا، یا ایک غلام آزاد کرنا ہے جس شخص کو یہ میسر نہ ہو تو تین روزے رکھنا ہے یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جبکہ تم قسم کھاؤ اور اپنی قسموں کی حفاظت کرو، اسی طرح اللہ تعالیٰ تمہارے لئے اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے شاید کہ تم شکرگزار بن جاؤ

ہم سے ابونعمان محمد بن فضل سدوسی نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن حازم نے بیان کیا، کہا ہم سے امام حسن بصری نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرحمٰن بن سمرہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اے عبدالرحمٰن بن سمرہ ! کبھی کسی حکومت کے عہدہ کی درخواست نہ کرنا کیونکہ اگر تمہیں یہ مانگنے کے بعد ملے گا تو اللہ پاک اپنی مدد تجھ سے اٹھا لے گا، تو جان، تیرا کام جانے اور اگر وہ عہدہ تمہیں بغیر مانگے مل گیا تو اس میں اللہ کی طرف سے تمہاری اعانت کی جائے گی اور جب تم کوئی قسم کھالو اور اس کے سوا کسی اور چیز میں بھلائی دیکھو تو اپنی قسم کا کفارہ دے دو اور وہ کام کرو جو بھلائی کا ہو۔

【3】

قسموں اور نذروں کا بیان، اللہ تعالیٰ کا قول کہ اللہ تعالیٰ تمہاری لغو قسموں پر تمہارا مواخذہ نہیں کرے گا بلکہ ان قسموں کا مواخذہ کرے گا جو تم قصد کرکے کھاؤ تو اس کا کفارہ دس مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے، اوسط درجہ کا جو تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو، یا ان کو کپڑا پہنانا، یا ایک غلام آزاد کرنا ہے جس شخص کو یہ میسر نہ ہو تو تین روزے رکھنا ہے یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جبکہ تم قسم کھاؤ اور اپنی قسموں کی حفاظت کرو، اسی طرح اللہ تعالیٰ تمہارے لئے اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے شاید کہ تم شکرگزار بن جاؤ

ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے غیلان بن جریر نے، ان سے ابوہریرہ (رض) نے، ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ میں اشعری قبیلہ کی ایک جماعت کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے سواری مانگی۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ واللہ، میں تمہارے لیے سواری کا کوئی انتظام نہیں کرسکتا اور نہ میرے پاس کوئی سواری کا جانور ہے۔ بیان کیا پھر جتنے دنوں اللہ نے چاہا ہم یونہی ٹھہرے رہے۔ اس کے بعد تین اچھی قسم کی اونٹنیاں لائی گئیں اور نبی کریم ﷺ نے انہیں ہمیں سواری کے لیے عنایت فرمایا۔ جب ہم روانہ ہوئے تو ہم نے کہا یا ہم میں سے بعض نے کہا، واللہ ! ہمیں اس میں برکت نہیں حاصل ہوگی۔ ہم نبی کریم ﷺ کی خدمت میں سواری مانگنے آئے تھے تو آپ نے قسم کھالی تھی کہ آپ ہمارے لیے سواری کا انتظام نہیں کرسکتے۔ اور اب آپ نے ہمیں سواری عنایت فرمائی ہے ہمیں نبی کریم ﷺ کے پاس جانا چاہیے اور آپ کو قسم یاد دلانی چاہیے۔ چناچہ ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں نے تمہاری سواری کا کوئی انتظام نہیں کیا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے یہ انتظام کیا ہے اور میں، واللہ ! کوئی بھی قسم اگر کھا لوں گا اور اس کے سوا کسی اور چیز میں بھلائی دیکھوں گا تو اپنی قسم کا کفارہ دے دوں گا۔ جس میں بھلائی ہوگی یا نبی کریم ﷺ نے یوں فرمایا کہ وہی کروں گا جس میں بھلائی ہوگی اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کر دوں گا۔

【4】

قسموں اور نذروں کا بیان، اللہ تعالیٰ کا قول کہ اللہ تعالیٰ تمہاری لغو قسموں پر تمہارا مواخذہ نہیں کرے گا بلکہ ان قسموں کا مواخذہ کرے گا جو تم قصد کرکے کھاؤ تو اس کا کفارہ دس مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے، اوسط درجہ کا جو تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو، یا ان کو کپڑا پہنانا، یا ایک غلام آزاد کرنا ہے جس شخص کو یہ میسر نہ ہو تو تین روزے رکھنا ہے یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جبکہ تم قسم کھاؤ اور اپنی قسموں کی حفاظت کرو، اسی طرح اللہ تعالیٰ تمہارے لئے اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے شاید کہ تم شکرگزار بن جاؤ

مجھ سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدالرزاق نے خبر دی، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، ان سے ہمام بن منبہ نے بیان کیا کہ یہ وہ حدیث ہے جو ہم سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کی کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہم آخری امت ہیں اور قیامت کے دن جنت میں سب سے پہلے داخل ہوں گے۔

【5】

قسموں اور نذروں کا بیان، اللہ تعالیٰ کا قول کہ اللہ تعالیٰ تمہاری لغو قسموں پر تمہارا مواخذہ نہیں کرے گا بلکہ ان قسموں کا مواخذہ کرے گا جو تم قصد کرکے کھاؤ تو اس کا کفارہ دس مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے، اوسط درجہ کا جو تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو، یا ان کو کپڑا پہنانا، یا ایک غلام آزاد کرنا ہے جس شخص کو یہ میسر نہ ہو تو تین روزے رکھنا ہے یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جبکہ تم قسم کھاؤ اور اپنی قسموں کی حفاظت کرو، اسی طرح اللہ تعالیٰ تمہارے لئے اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے شاید کہ تم شکرگزار بن جاؤ

پھر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ واللہ (بسا اوقات) اپنے گھر والوں کے معاملہ میں تمہارا اپنی قسموں پر اصرار کرتے رہنا اللہ کے نزدیک اس سے زیادہ گناہ کی بات ہوتی ہے کہ (قسم توڑ کر) اس کا وہ کفارہ ادا کردیا جائے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر فرض کیا ہے۔

【6】

قسموں اور نذروں کا بیان، اللہ تعالیٰ کا قول کہ اللہ تعالیٰ تمہاری لغو قسموں پر تمہارا مواخذہ نہیں کرے گا بلکہ ان قسموں کا مواخذہ کرے گا جو تم قصد کرکے کھاؤ تو اس کا کفارہ دس مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے، اوسط درجہ کا جو تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو، یا ان کو کپڑا پہنانا، یا ایک غلام آزاد کرنا ہے جس شخص کو یہ میسر نہ ہو تو تین روزے رکھنا ہے یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جبکہ تم قسم کھاؤ اور اپنی قسموں کی حفاظت کرو، اسی طرح اللہ تعالیٰ تمہارے لئے اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے شاید کہ تم شکرگزار بن جاؤ

مجھ سے اسحاق یعنی ابن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن صالح نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے معاویہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ نے، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وہ شخص جو اپنے گھر والوں کے معاملہ میں قسم پر اڑا رہتا ہے وہ اس سے بڑا گناہ کرتا ہے کہ اس قسم کا کفارہ ادا کر دے۔

【7】

نبی ﷺ کا وایم اللہ (یعنی قسم ہے اللہ کی) فرمانا

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن دینار نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک فوج بھیجی اور اس کا امیر اسامہ بن زید کو بنایا۔ بعض لوگوں نے ان کے امیر بنائے جانے پر اعتراض کیا تو نبی کریم ﷺ کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ اگر تم لوگ اس کے امیر بنائے جانے پر اعتراض کرتے ہو تو تم اس سے پہلے اس کے والد زید کے امیر بنائے جانے پر بھی اعتراض کرچکے ہو اور اللہ کی قسم ! وايم الله زید امیر بنائے جانے کے قابل تھے اور مجھے سب لوگوں سے زیادہ عزیز تھے اور یہ (اسامہ) ان کے بعد مجھے سب سے زیادہ عزیز تھے۔

【8】

نبی ﷺ کی قسم کس طرح کی تھی۔ حضرت سعد نے بیان کیا کہ آنحضرت ﷺ نے والذی نفسی بیدہ فرمایا اور ابوقتادہ نے بیان کیا کہ حضرت ابوبکر نے آنحضرت ﷺ کے پاس لا واللہ کہا، جہاں پر واللہ اور باللہ اور تااللہ کہا جاتا ہے۔

ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، ان سے موسیٰ بن عقبہ نے اور ان سے سالم نے اور ان سے ابن عمر (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کی قسم بس اتنی تھی کہ نہیں ! دلوں کے پھیرنے والے اللہ کی قسم۔

【9】

نبی ﷺ کی قسم کس طرح کی تھی۔ حضرت سعد نے بیان کیا کہ آنحضرت ﷺ نے والذی نفسی بیدہ فرمایا اور ابوقتادہ نے بیان کیا کہ حضرت ابوبکر نے آنحضرت ﷺ کے پاس لا واللہ کہا، جہاں پر واللہ اور باللہ اور تااللہ کہا جاتا ہے۔

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے عبدالملک نے، ان سے جابر بن سمرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جب قیصر ہلاک ہوجائے گا تو پھر اس کے بعد کوئی قیصر نہیں پیدا ہوگا اور جب کسریٰ ہلاک ہوجائے گا تو اس کے بعد کوئی کسریٰ نہیں پیدا ہوگا اور اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم ان کے خزانے اللہ کے راستے میں خرچ کرو گے۔

【10】

نبی ﷺ کی قسم کس طرح کی تھی۔ حضرت سعد نے بیان کیا کہ آنحضرت ﷺ نے والذی نفسی بیدہ فرمایا اور ابوقتادہ نے بیان کیا کہ حضرت ابوبکر نے آنحضرت ﷺ کے پاس لا واللہ کہا، جہاں پر واللہ اور باللہ اور تااللہ کہا جاتا ہے۔

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں سعید بن مسیب نے خبر دی اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب کسریٰ (بادشاہ ایران) ہلاک ہوجائے گا تو اس کے بعد کوئی کسریٰ نہیں پیدا ہوگا اور جب قیصر (بادشاہ روم) ہلاک ہوجائے گا تو اس کے بعد کوئی قیصر نہیں پیدا ہوگا اور اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم ان کے خزانے اللہ کے راستے میں خرچ کرو گے۔

【11】

نبی ﷺ کی قسم کس طرح کی تھی۔ حضرت سعد نے بیان کیا کہ آنحضرت ﷺ نے والذی نفسی بیدہ فرمایا اور ابوقتادہ نے بیان کیا کہ حضرت ابوبکر نے آنحضرت ﷺ کے پاس لا واللہ کہا، جہاں پر واللہ اور باللہ اور تااللہ کہا جاتا ہے۔

مجھ سے محمد بن سلام نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عبدہ نے خبر دی، انہیں ہشام بن عروہ نے، انہیں ان کے والد عروہ بن زبیر نے اور انہیں عائشہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اے مت محمد ! واللہ، اگر تم وہ جانتے جو میں جانتا ہوں تو زیادہ روتے اور کم ہنستے۔

【12】

نبی ﷺ کی قسم کس طرح کی تھی۔ حضرت سعد نے بیان کیا کہ آنحضرت ﷺ نے والذی نفسی بیدہ فرمایا اور ابوقتادہ نے بیان کیا کہ حضرت ابوبکر نے آنحضرت ﷺ کے پاس لا واللہ کہا، جہاں پر واللہ اور باللہ اور تااللہ کہا جاتا ہے۔

ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابن وہب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے حیوہ نے خبر دی، کہا کہ مجھ سے ابوعقیل زہرہ بن معبد نے بیان کیا، انہوں نے اپنے دادا عبداللہ بن ہشام سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھے اور آپ عمر بن خطاب (رض) کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے۔ عمر (رض) نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! آپ مجھے ہر چیز سے زیادہ عزیز ہیں، سوا میری اپنی جان کے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ نہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ (ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا) جب تک میں تمہیں تمہاری اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز نہ ہوجاؤں۔ عمر (رض) نے عرض کیا : پھر واللہ ! اب آپ مجھے میری اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہاں، عمر ! اب تیرا ایمان پورا ہوا۔

【13】

نبی ﷺ کی قسم کس طرح کی تھی۔ حضرت سعد نے بیان کیا کہ آنحضرت ﷺ نے والذی نفسی بیدہ فرمایا اور ابوقتادہ نے بیان کیا کہ حضرت ابوبکر نے آنحضرت ﷺ کے پاس لا واللہ کہا، جہاں پر واللہ اور باللہ اور تااللہ کہا جاتا ہے۔

ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عبیداللہ بن عتبہ بن مسعود (رض) نے، انہیں ابوہریرہ (رض) اور زید بن خالد (رض) نے خبر دی کہ دو آدمیوں نے رسول اللہ ﷺ کی مجلس میں اپنا جھگڑا پیش کیا۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ ہمارے درمیان آپ کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کردیں۔ دوسرے نے، جو زیادہ سمجھ دار تھا کہا کہ ٹھیک ہے، یا رسول اللہ ! ہمارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کر دیجئیے اور مجھے اجازت دیجئیے کہ اس معاملہ میں کچھ عرض کروں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ کہو۔ ان صاحب نے کہا کہ میرا لڑکا اس شخص کے یہاں عسيف تھا۔ عسيف ، الأجير کو کہتے ہیں۔ ( الأجير کے معنی مزدور کے ہیں) اور اس نے اس کی بیوی سے زنا کرلیا۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ اب میرے لڑکے کو سنگسار کیا جائے گا۔ اس لیے (اس سے نجات دلانے کے لیے) میں نے سو بکریوں اور ایک لونڈی کا انہیں فدیہ دے دیا پھر میں نے دوسرے علم والوں سے اس مسئلہ کو پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ میرے لڑکے کی سزا یہ ہے کہ اسے سو کوڑے لگائے جائیں اور ایک سال کے لیے شہر بدر کردیا جائے، سنگساری کی سزا صرف اس عورت کو ہوگی۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں تمہارا فیصلہ کتاب اللہ کے مطابق کروں گا۔ تمہاری بکریاں اور تمہاری لونڈی تمہیں واپس ہوگی اور پھر آپ نے اس کے لڑکے کو سو کوڑے لگوائے اور ایک سال کے لیے جلا وطن کردیا۔ پھر آپ نے انیس اسلمی سے فرمایا کہ مدعی کی بیوی کو لائے اور اگر وہ زنا کا اقرار کرے تو اسے سنگسار کر دے۔ اس عورت نے زنا کا اقرار کرلیا اور سنگسار کردی گئی۔

【14】

نبی ﷺ کی قسم کس طرح کی تھی۔ حضرت سعد نے بیان کیا کہ آنحضرت ﷺ نے والذی نفسی بیدہ فرمایا اور ابوقتادہ نے بیان کیا کہ حضرت ابوبکر نے آنحضرت ﷺ کے پاس لا واللہ کہا، جہاں پر واللہ اور باللہ اور تااللہ کہا جاتا ہے۔

مجھ سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے وہب نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے محمد بن ابی یعقوب نے، ان سے عبدالرحمٰن بن ابی بکرہ نے اور ان سے ان کے والد نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا بھلا بتلاؤ اسلم، غفار، مزینہ اور جہینہ کے قبائل اگر تمیم، عامر بن صعصعہ، غطفان اور اسد والوں سے بہتر ہوں تو یہ تمیم اور عامر اور غطفان اور اسد والے گھاٹے میں پڑے اور نقصان میں رہے یا نہیں۔ صحابہ نے عرض کیا : جی ہاں بیشک۔ نبی کریم ﷺ نے اس پر پھر فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے (وہ پہلے جن قبائل کا ذکر ہوا) ان (تمیم وغیرہ) سے بہتر ہیں۔

【15】

نبی ﷺ کی قسم کس طرح کی تھی۔ حضرت سعد نے بیان کیا کہ آنحضرت ﷺ نے والذی نفسی بیدہ فرمایا اور ابوقتادہ نے بیان کیا کہ حضرت ابوبکر نے آنحضرت ﷺ کے پاس لا واللہ کہا، جہاں پر واللہ اور باللہ اور تااللہ کہا جاتا ہے۔

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، کہا کہ مجھے عروہ ثقفی نے خبر دی، نہیں ابو حمید ساعدی (رض) نے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک عامل مقرر کیا۔ عامل اپنے کام پورے کر کے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! یہ مال آپ کا ہے اور یہ مال مجھے تحفہ دیا گیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پھر تم اپنے ماں باپ کے گھر ہی میں کیوں نہیں بیٹھے رہے اور پھر دیکھتے کہ تمہیں کوئی تحفہ دیتا ہے یا نہیں۔ اس کے بعد آپ ﷺ خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے، رات کی نماز کے بعد اور کلمہ شہادت اور اللہ تعالیٰ کی اس کی شان کے مطابق ثنا کے بعد فرمایا امابعد ! ایسے عامل کو کیا ہوگیا ہے کہ ہم اسے عامل بناتے ہیں۔ (جزیہ اور دوسرے ٹیکس وصول کرنے کے لیے) اور وہ پھر ہمارے پاس آ کر کہتا ہے کہ یہ تو آپ کا ٹیکس ہے اور مجھے تحفہ دیا گیا ہے۔ پھر وہ اپنے ماں باپ کے گھر کیوں نہیں بیٹھا اور دیکھتا کہ اسے تحفہ دیا جاتا ہے یا نہیں۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر تم میں سے کوئی بھی اس مال میں سے کچھ بھی خیانت کرے گا تو قیامت کے دن اسے اپنی گردن پر اٹھائے گا۔ اگر اونٹ کی اس نے خیانت کی ہوگی تو اس حال میں لے کر آئے گا کہ آواز نکل رہی ہوگی۔ اگر گائے کی خیانت کی ہوگی تو اس حال میں اسے لے کر آئے گا کہ گائے کی آواز آرہی ہوگی۔ اگر بکری کی خیانت کی ہوگی تو اس حال میں آئے گا کہ بکری کی آواز آرہی ہوگی۔ بس میں نے تم تک پہنچا دیا۔ ابوحمید (رض) نے بیان کیا کہ پھر نبی کریم ﷺ نے اپنا ہاتھ اتنی اوپر اٹھایا کہ ہم آپ کی بغلوں کی سفیدی دیکھنے لگے۔ ابوحمید (رض) نے بیان کیا کہ میرے ساتھ یہ حدیث زید بن ثابت (رض) نے بھی نبی کریم ﷺ سے سنی تھی، تم لوگ ان سے بھی پوچھ لو۔

【16】

نبی ﷺ کی قسم کس طرح کی تھی۔ حضرت سعد نے بیان کیا کہ آنحضرت ﷺ نے والذی نفسی بیدہ فرمایا اور ابوقتادہ نے بیان کیا کہ حضرت ابوبکر نے آنحضرت ﷺ کے پاس لا واللہ کہا، جہاں پر واللہ اور باللہ اور تااللہ کہا جاتا ہے۔

مجھ سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو ہشام بن یوسف نے خبر دی، انہیں معمر نے، انہیں ہمام بن منبہ نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم بھی آخرت کی وہ مشکلات جانتے جو میں جانتا ہوں تو تم زیادہ روتے اور کم ہنستے۔

【17】

نبی ﷺ کی قسم کس طرح کی تھی۔ حضرت سعد نے بیان کیا کہ آنحضرت ﷺ نے والذی نفسی بیدہ فرمایا اور ابوقتادہ نے بیان کیا کہ حضرت ابوبکر نے آنحضرت ﷺ کے پاس لا واللہ کہا، جہاں پر واللہ اور باللہ اور تااللہ کہا جاتا ہے۔

ہم سے عمر بن حفص نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد نے، کہا ہم سے اعمش نے، ان سے معرور نے، ان سے ابوذر (رض) نے بیان کیا کہ میں نبی کریم ﷺ تک پہنچا تو آپ کعبہ کے سایہ میں بیٹھے ہوئے فرما رہے تھے کعبہ کے رب کی قسم ! وہی سب سے زیادہ خسارے والے ہیں۔ کعبہ کے رب کی قسم ! وہی سب سے زیادہ خسارے والے ہیں۔ میں نے کہا کہ یا رسول اللہ ! میری حالت کیسی ہے، کیا مجھ میں (بھی) کوئی ایسی بات نظر آئی ہے ؟ میری حالت کیسی ہے ؟ پھر میں نبی کریم ﷺ کے پاس بیٹھ گیا اور نبی کریم ﷺ فرماتے جا رہے تھے، میں آپ کو خاموش نہیں کرا سکتا تھا اور اللہ کی مشیت کے مطابق مجھ پر عجیب بےقراری طاری ہوگئی۔ میں نے پھر عرض کی، میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، یا رسول اللہ ! وہ کون لوگ ہیں ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے پاس مال زیادہ ہے۔ لیکن اس سے وہ مستثنیٰ ہیں۔ جنہوں نے اس میں سے اس اس طرح (یعنی دائیں اور بائیں بےدریغ مستحقین پر) اللہ کی راہ میں خرچ کیا ہوگا۔

【18】

نبی ﷺ کی قسم کس طرح کی تھی۔ حضرت سعد نے بیان کیا کہ آنحضرت ﷺ نے والذی نفسی بیدہ فرمایا اور ابوقتادہ نے بیان کیا کہ حضرت ابوبکر نے آنحضرت ﷺ کے پاس لا واللہ کہا، جہاں پر واللہ اور باللہ اور تااللہ کہا جاتا ہے۔

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، کہا ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سلیمان (علیہ السلام) نے ایک دن کہا کہ آج میں رات میں اپنی نوے بیویوں کے پاس جاؤں گا اور ہر ایک کے یہاں ایک گھوڑ سوار بچہ پیدا ہوگا جو اللہ کے راستہ میں جہاد کرے گا۔ اس پر ان کے ساتھی نے کہا کہ انشاء اللہ ۔ لیکن سلیمان (علیہ السلام) نے انشاء اللہ نہیں کہا۔ چناچہ وہ اپنی تمام بیویوں کے پاس گئے لیکن ایک عورت کے سوا کسی کو حمل نہیں ہوا اور اس سے بھی ناقص بچہ پیدا ہوا اور اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے ! اگر انہوں نے انشاء اللہ کہہ دیا ہوتا تو (تمام بیویوں کے یہاں بچے پیدا ہوتے) اور سب گھوڑوں پر سوار ہو کر اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے ہوتے۔

【19】

نبی ﷺ کی قسم کس طرح کی تھی۔ حضرت سعد نے بیان کیا کہ آنحضرت ﷺ نے والذی نفسی بیدہ فرمایا اور ابوقتادہ نے بیان کیا کہ حضرت ابوبکر نے آنحضرت ﷺ کے پاس لا واللہ کہا، جہاں پر واللہ اور باللہ اور تااللہ کہا جاتا ہے۔

ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوالاحوص نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق نے، ان سے براء بن عازب (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ریشم کا ایک ٹکڑا ہدیہ کے طور پر آیا تو لوگ اسے دست بدست اپنے ہاتھوں میں لینے لگے اور اس کی خوبصورتی اور نرمی پر حیرت کرنے لگے۔ نبی کریم ﷺ نے اس پر فرمایا کہ تمہیں اس پر حیرت ہے ؟ صحابہ نے عرض کی جی ہاں، یا رسول اللہ ! نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، سعد (رض) کے رومال جنت میں اس سے بھی اچھے ہیں۔ شعبہ اور اسرائیل نے ابواسحاق سے الفاظ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کا ذکر نہیں کیا۔

【20】

نبی ﷺ کی قسم کس طرح کی تھی۔ حضرت سعد نے بیان کیا کہ آنحضرت ﷺ نے والذی نفسی بیدہ فرمایا اور ابوقتادہ نے بیان کیا کہ حضرت ابوبکر نے آنحضرت ﷺ کے پاس لا واللہ کہا، جہاں پر واللہ اور باللہ اور تااللہ کہا جاتا ہے۔

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے، انہوں نے یونس سے، انہوں نے ابن شہاب سے، کہا مجھ سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا کہ عائشہ (رض) نے کہا کہ ہند بنت عتبہ بن ربیعہ (معاویہ (رض) کی ماں) نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! ساری زمین پر جتنے ڈیرے والے ہیں (یعنی عرب لوگ جو اکثر ڈیروں اور خیموں میں رہا کرتے تھے) میں کسی کا ذلیل و خوار ہونا مجھ کو اتنا پسند نہیں تھا جتنا آپ کا۔ یحییٰ بن بکیر راوی کو شک ہے (کہ ڈیرے کا لفظ بہ صیغہ مفرد کہا یا بہ صیغہ جمع) اب کوئی ڈیرہ والا یا ڈیرے والے ان کو عزت اور آبرو حاصل ہونا مجھ کو آپ کے ڈیرے والوں سے زیادہ پسند نہیں ہے (یعنی اب میں آپ کی اور مسلمانوں کی سب سے زیادہ خیرخواہ ہوں) نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ابھی کیا ہے تو اور بھی زیادہ خیرخواہ بنے گی۔ قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں محمد ( ﷺ ) کی جان ہے۔ پھر ہند کہنے لگی یا رسول اللہ ! ابوسفیان تو ایک بخیل آدمی ہے مجھ پر گناہ تو نہیں ہوگا اگر میں اس کے مال میں سے (اپنے بال بچوں کو کھلاؤں) آپ ﷺ نے فرمایا نہیں اگر تو دستور کے موافق خرچ کرے۔

【21】

نبی ﷺ کی قسم کس طرح کی تھی۔ حضرت سعد نے بیان کیا کہ آنحضرت ﷺ نے والذی نفسی بیدہ فرمایا اور ابوقتادہ نے بیان کیا کہ حضرت ابوبکر نے آنحضرت ﷺ کے پاس لا واللہ کہا، جہاں پر واللہ اور باللہ اور تااللہ کہا جاتا ہے۔

مجھ سے احمد بن عثمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شریح بن مسلمہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابراہیم نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق نے، کہا کہ میں نے عمرو بن میمون سے سنا، کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ ایک موقع پر رسول اللہ ﷺ جب یمنی چمڑے کے خیمہ سے پشت لگائے ہوئے بیٹھے تھے تو آپ نے اپنے صحابہ سے فرمایا کیا تم اس پر خوش ہو کہ تم اہل جنت کے ایک چوتھائی رہو ؟ انہوں نے عرض کیا، کیوں نہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ تم اہل جنت کے ایک تہائی حصہ پاؤ۔ صحابہ نے عرض کیا کیوں نہیں۔ نبی کریم ﷺ نے اس پر فرمایا، پس اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! مجھے امید ہے کہ جنت میں آدھے تم ہی ہو گے۔

【22】

نبی ﷺ کی قسم کس طرح کی تھی۔ حضرت سعد نے بیان کیا کہ آنحضرت ﷺ نے والذی نفسی بیدہ فرمایا اور ابوقتادہ نے بیان کیا کہ حضرت ابوبکر نے آنحضرت ﷺ کے پاس لا واللہ کہا، جہاں پر واللہ اور باللہ اور تااللہ کہا جاتا ہے۔

ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے بیان کیا اور ان سے ابو سعید خدری (رض) نے بیان کیا کہ ایک صحابی نے سنا کہ ایک دوسرے صحابی سورة قل ھو اللہ باربار پڑھتے ہیں جب صبح ہوئی تو وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور نبی کریم ﷺ سے اس کا ذکر کیا، وہ صحابی اس سورت کو کم سمجھتے تھے لیکن نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یہ قرآن مجید کے ایک تہائی حصہ کے برابر ہے۔

【23】

نبی ﷺ کی قسم کس طرح کی تھی۔ حضرت سعد نے بیان کیا کہ آنحضرت ﷺ نے والذی نفسی بیدہ فرمایا اور ابوقتادہ نے بیان کیا کہ حضرت ابوبکر نے آنحضرت ﷺ کے پاس لا واللہ کہا، جہاں پر واللہ اور باللہ اور تااللہ کہا جاتا ہے۔

مجھ سے اسحاق نے بیان کیا، کہا ہم کو حبان نے خبر دی، کہا ہم سے ہمام نے بیان کیا، کہا ہم سے قتادہ نے بیان کیا، کہا ہم سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ انہوں نے نبی کریم کریم ﷺ سے سنا، آپ ﷺ فرما رہے تھے کہ رکوع اور سجدہ پورے طور پر ادا کیا کرو۔ اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں اپنی کمر کے پیچھے سے تم کو دیکھ لیتا ہوں جب رکوع اور سجدہ کرتے ہو۔

【24】

نبی ﷺ کی قسم کس طرح کی تھی۔ حضرت سعد نے بیان کیا کہ آنحضرت ﷺ نے والذی نفسی بیدہ فرمایا اور ابوقتادہ نے بیان کیا کہ حضرت ابوبکر نے آنحضرت ﷺ کے پاس لا واللہ کہا، جہاں پر واللہ اور باللہ اور تااللہ کہا جاتا ہے۔

ہم سے اسحاق نے بیان کیا، کہا ہم سے وہب بن جریر نے بیان کیا، کہا ہم کو شعبہ نے خبر دی ہشام بن زید سے اور انہیں انس بن مالک (رض) نے کہ انصاری خاتون نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں، ان کے ساتھ ان کے بچے بھی تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم لوگ بھی مجھے تمام لوگوں میں سب سے زیادہ عزیز ہو۔ یہ الفاظ نبی کریم ﷺ نے تین مرتبہ فرمائے۔

【25】

اپنے باپوں کی قسم نہ کھاؤ

ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، ان سے مالک نے، ان سے نافع نے، ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ عمر بن خطاب (رض) کے پاس آئے تو وہ سواروں کی ایک جماعت کے ساتھ چل رہے تھے اور اپنے باپ کی قسم کھا رہے تھے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ خبردار تحقیق اللہ تعالیٰ نے تمہیں باپ دادوں کی قسم کھانے سے منع کیا ہے، جسے قسم کھانی ہے اسے (بشرط صدق) چاہیے کہ اللہ ہی کی قسم کھائے ورنہ چپ رہے۔

【26】

اپنے باپوں کی قسم نہ کھاؤ

ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن وہب نے بیان کیا، ان سے یونس نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے سالم نے کہ ابن عمر (رض) نے کہا کہ میں نے عمر (رض) سے سنا کہ نبی کریم ﷺ نے مجھ سے فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں باپ دادوں کی قسم کھانے سے منع کیا ہے۔ عمر (رض) نے بیان کیا واللہ ! پھر میں نے ان کی نبی کریم ﷺ سے ممانعت سننے کے بعد کبھی قسم نہیں کھائی نہ اپنی طرف سے غیر اللہ کی قسم کھائی نہ کسی دوسرے کی زبان سے نقل کی۔ مجاہد نے کہا سورة الاحقاف میں جو أثرة من علم‏ ہے اس کا معنی یہ ہے کہ علم کی کوئی بات نقل کرتا ہو۔ یونس کے ساتھ اس حدیث کو عقیل اور محمد بن ولید زبیدی اور اسحاق بن یحییٰ کلبی نے بھی زہری سے روایت کیا اور سفیان بن عیینہ اور معمر نے اس کو زہری سے روایت کیا، انہوں نے سالم سے، انہوں نے ابن عمر (رض) سے، انہوں نے نبی کریم ﷺ سے کہ آپ نے عمر (رض) کو غیر اللہ کی قسم کھاتے سنا۔ روایت میں لفظ اثارة کی تفسیر اثرا کی مناسبت سے بیان کردی کیونکہ دونوں کا مادہ ایک ہی ہے۔

【27】

اپنے باپوں کی قسم نہ کھاؤ

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالعزیز بن مسلم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبداللہ بن دینار نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے عبداللہ بن عمر (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اپنے باپ دادوں کی قسم نہ کھاؤ۔

【28】

اپنے باپوں کی قسم نہ کھاؤ

ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوہاب نے، ان سے ایوب نے، ان سے ابوقلابہ اور قاسم تیمی نے اور ان سے زہدم نے بیان کیا کہ ان قبائل، جرم اور اشعر کے درمیان بھائی چارہ تھا۔ ہم ابوموسیٰ اشعری (رض) کی خدمت میں موجود تھے تو ان کے لیے کھانا لایا گیا۔ اس میں مرغی بھی تھی۔ ان کے پاس بنی تیم اللہ کا ایک سرخ رنگ کا آدمی بھی موجود تھا۔ غالباً وہ غلاموں میں سے تھا۔ ابوموسیٰ اشعری (رض) نے اسے کھانے پر بلایا تو اس نے کہا کہ میں نے مرغی کو گندگی کھاتے دیکھا تو مجھے گھن آئی اور پھر میں نے قسم کھالی کہ اب میں اس کا گوشت نہیں کھاؤں گا۔ ابوموسیٰ اشعری (رض) نے کہا کہ کھڑے ہوجاؤ تو میں تمہیں اس کے بارے میں ایک حدیث سناؤں۔ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس قبیلہ اشعر کے چند لوگوں کے ساتھ آیا اور ہم نے نبی کریم ﷺ سے سواری کا جانور مانگا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کی قسم میں تمہیں سواری نہیں دے سکتا اور نہ میرے پاس ایسا کوئی جانور ہے جو تمہیں سواری کے لیے دے سکوں، پھر نبی کریم ﷺ کے پاس کچھ مال غنیمت کے اونٹ آئے تو نبی کریم ﷺ نے پوچھا کہ اشعری لوگ کہاں ہیں پھر آپ نے ہم کو پانچ عمدہ قسم کے اونٹ دئیے جانے کا حکم فرمایا۔ جب ہم ان کو لے کر چلے تو ہم نے کہا یہ ہم نے کیا کیا رسول اللہ ﷺ تو قسم کھاچکے تھے کہ ہم کو سواری نہیں دیں گے اور درحقیقت آپ ﷺ کے پاس اس وقت سواری موجود بھی نہ تھی پھر آپ نے ہم کو سوار کرا دیا۔ ہم نے رسول اللہ ﷺ کو آپ کی قسم سے غافل کردیا۔ قسم اللہ کی ہم اس حرکت کے بعد کبھی فلاح نہیں پاسکیں گے۔ پس ہم آپ کی طرف لوٹ کر آئے اور آپ سے ہم نے تفصیل بالا کو عرض کیا کہ ہم آپ کے پاس آئے تھے تاکہ آپ ہم کو سواری پر سوار کرا دیں پس آپ نے قسم کھالی تھی کہ آپ ہم کو سوار نہیں کرائیں گے اور درحقیقت اس وقت آپ کے پاس سواری موجود بھی نہ تھی۔ آپ ﷺ نے یہ سب سن کر فرمایا کہ میں نے تم کو سوار نہیں کرایا بلکہ اللہ نے تم کو سوار کرا دیا۔ اللہ کی قسم جب میں کوئی قسم کھا لیتا ہوں بعد میں اس سے بہتر اور معاملہ دیکھتا ہوں تو میں وہی کرتا ہوں جو بہتر ہوتا ہے اور اس قسم کا کفارہ ادا کردیتا ہوں۔

【29】

کوئی شخص لات وعزی کے بتوں کی قسم نہ کھائے۔

مجھ سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ہشام بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم سے زہری نے بیان کیا، انہیں حمید بن عبدالرحمٰن نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جس نے قسم کھائی اور کہا کہ لات و عزیٰ کی قسم تو اسے پھر کلمہ لا إله إلا الله کہہ لینا چاہیے اور جو شخص اپنے ساتھی سے کہے کہ آؤ جوا کھیلیں تو اسے چاہیے کہ (اس کے کفارہ میں) صدقہ کرے۔

【30】

بغیر قسم کھلائے قسم کھانے کا بیان

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے نافع نے، ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے سونے کی ایک انگوٹھی بنوائی اور نبی کریم ﷺ اسے پہنتے تھے، اس کا نگینہ ہتھیلی کے حصے کی طرف رکھتے تھے۔ پھر لوگوں نے بھی ایسی انگوٹھیاں بنوا لیں اس کے بعد ایک دن نبی کریم ﷺ منبر پر بیٹھے اور اپنی انگوٹھی اتار دی اور فرمایا کہ میں اسے پہنتا تھا اور اس کا نگینہ اندر کی جانب رکھتا تھا، پھر آپ ﷺ نے اسے اتار کر پھینک دیا اور فرمایا کہ اللہ کی قسم میں اب اسے کبھی نہیں پہنوں گا۔ پس لوگوں نے بھی اپنی انگوٹھیاں اتار کر پھینک دیں۔

【31】

اس شخص کا بیان جو ملت اسلام کے سوا دوسرے مذہب کی قسم کھائے۔ اور نبی ﷺ نے فرمایا جو شخص لات و عزی کی قسم کھائے تو اسے لاالہ الااللہ کہنا چاہیے اور اس کو کفر کی طرف منسوب نہیں کیا گیا۔

ہم سے معلی بن اسعد نے بیان کیا، کہا ہم سے وہیب نے بیان کیا، انہوں نے ایوب سے روایت کیا، انہوں نے ابوقلابہ سے، انہوں نے ثابت بن ضحاک سے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو اسلام کے سوا کسی اور مذہب پر قسم کھائے پس وہ ایسا ہی ہے جیسی کہ اس نے قسم کھائی ہے اور جو شخص اپنے نفس کو کسی چیز سے ہلاک کرے وہ دوزخ میں اسی چیز سے عذاب دیا جاتا رہے گا اور مومن پر لعنت بھیجنا اس کو قتل کرنے کے برابر ہے اور جس نے کسی مومن پر کفر کا الزام لگایا پس وہ بھی اس کے قتل کرنے کے برابر ہے۔

【32】

باب

باب : یوں کہنا منع ہے کہ جو اللہ چاہے اور آپ چاہیں ( وہ ہوگا) اور کیا کوئی شخص یوں کہہ سکتا ہے کہ مجھ کو اللہ کا آسرا ہے پھر آپ کا ؟ اور عمرو بن عاصم نے کہا ہم سے ہمام بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے اسحاق بن عبداللہ نے، کہا ہم سے عبدالرحمٰن بن ابی عمرہ نے، ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا، انہوں نے نبی کریم ﷺ سے سنا، آپ ﷺ فرماتے تھے کہ بنی اسرائیل میں تین شخص تھے اللہ نے ان کو آزمانا چاہا (پھر سارا قصہ بیان کیا) فرشتے کو کوڑھی کے پاس بھیجا وہ اس سے کہنے لگا میری روزی کے سارے ذریعے کٹ گئے ہیں اب اللہ ہی کا آسرا ہے پھر تیرا (یا اب اللہ ہی کی مدد درکار ہے پھر تیری) پھر پوری حدیث کو ذکر کیا۔

【33】

اللہ تعالیٰ کا قول کہ ان لوگوں نے پکی پکی قسمیں کھائیں۔ اور ابن عباس نے بیان کیا حضرت ابوبکر نے عرض کیا کہ بخدا یارسول اللہ ﷺ آپ مجھے بتلادیں جو میں نے خواب کی تعبیر میں غلطی کی ہے، آپ نے فرمایا کہ قسم نہ دو۔

ہم سے قبیصہ بن عقبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے، انہوں نے اشعث بن ابی الشعثاء سے، انہوں نے معاویہ بن سوید بن مقرن سے، انہوں نے براء بن عازب سے، انہوں نے نبی کریم ﷺ سے (دوسری سند) امام بخاری (رح) نے کہا اور مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر محمد بن جعفر نے، کہا ہم سے شعبہ نے، انہوں نے اشعث سے، انہوں نے معاویہ بن سوید بن مقرن سے، انہوں نے براء (رض) سے، انہوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے قسم کھانے والے کو سچا کرنے کا حکم فرمایا۔

【34】

اللہ تعالیٰ کا قول کہ ان لوگوں نے پکی پکی قسمیں کھائیں۔ اور ابن عباس نے بیان کیا حضرت ابوبکر نے عرض کیا کہ بخدا یارسول اللہ ﷺ آپ مجھے بتلادیں جو میں نے خواب کی تعبیر میں غلطی کی ہے، آپ نے فرمایا کہ قسم نہ دو۔

ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے، کہا ہم کو عاصم الاحول نے خبر دی، کہا میں نے ابوعثمان سے سنا، وہ اسامہ سے نقل کرتے تھے کہ نبی کریم ﷺ کی ایک صاحبزادی (زینب) نے آپ کو بلا بھیجا اس وقت آپ کے پاس اسامہ بن زید اور سعد بن عبادہ اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہم بھی بیٹھے تھے۔ صاحبزادی صاحبہ نے کہلا بھیجا کہ ان کا بچہ مرنے کے قریب ہے آپ تشریف لائیے۔ آپ نے ان کے جواب میں یوں کہلا بھیجا میرا سلام کہو اور کہو سب اللہ کا مال ہے جو اس نے لے لیا اور جو اس نے عنایت فرمایا اور ہر چیز کا اس کے پاس وقت مقرر ہے، صبر کرو اور اللہ سے ثواب کی امید رکھو۔ صاحبزادی صاحبہ نے قسم دے کر پھر کہلا بھیجا کہ نہیں آپ ضرور تشریف لائیے۔ اس وقت آپ اٹھے، ہم لوگ بھی ساتھ اٹھے جب آپ صاحبزادی صاحبہ کے گھر پر پہنچے اور وہاں جا کر بیٹھے تو بچے کو اٹھا کر آپ کے پاس لائے۔ آپ نے اسے گود میں بٹھا لیا وہ دم توڑ رہا تھا۔ یہ حال پر ملال دیکھ کر آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ سعد بن عبادہ (رض) نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! یہ رونا کیسا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ رونا رحم کی وجہ سے ہے اور اللہ اپنے جس بندے کے دل میں چاہتا ہے رحم رکھتا ہے یا یہ ہے کہ اللہ اپنے ان ہی بندوں پر رحم کرے گا جو دوسروں پر رحم کرتے ہیں۔

【35】

اللہ تعالیٰ کا قول کہ ان لوگوں نے پکی پکی قسمیں کھائیں۔ اور ابن عباس نے بیان کیا حضرت ابوبکر نے عرض کیا کہ بخدا یارسول اللہ ﷺ آپ مجھے بتلادیں جو میں نے خواب کی تعبیر میں غلطی کی ہے، آپ نے فرمایا کہ قسم نہ دو۔

ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے امام مالک نے، انہوں نے ابن شہاب سے روایت کیا، انہوں نے سعید بن مسیب سے روایت کیا، انہوں نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس مسلمان کے تین بچے مرجائیں تو اس کو دوزخ کی آگ نہیں چھوئے گی مگر صرف قسم اتارنے کے لیے۔

【36】

اللہ تعالیٰ کا قول کہ ان لوگوں نے پکی پکی قسمیں کھائیں۔ اور ابن عباس نے بیان کیا حضرت ابوبکر نے عرض کیا کہ بخدا یارسول اللہ ﷺ آپ مجھے بتلادیں جو میں نے خواب کی تعبیر میں غلطی کی ہے، آپ نے فرمایا کہ قسم نہ دو۔

ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا مجھ سے غندر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے معبد بن خالد نے، کہا میں نے حارثہ بن وہب سے سنا، کہا میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا، آپ ﷺ فرماتے تھے کہ میں تم کو بتلاؤں بہشتی کون لوگ ہیں، ہر ایک غریب ناتواں جو اگر اللہ کے بھروسے پر قسم کھا بیٹھے تو اللہ اس کو سچا کرے (اس کی قسم پوری کر دے) اور دوزخی کون لوگ ہیں ہر ایک موٹا، لڑاکا، مغرور، فسادی۔

【37】

جب کوئی شخص کہے کہ میں اللہ کو گواہ کرتا ہوں یا میں نے اللہ کو گواہ کیا

ہم سے سعد بن حفص نے بیان کیا، کہا ہم سے شیبان نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے ابراہیم نے، ان سے عبیدہ نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ سے پوچھا گیا کہ کون لوگ اچھے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میرا زمانہ، پھر وہ لوگ جو اس سے قریب ہوں گے پھر وہ لوگ جو اس سے قریب ہوں گے۔ اس کے بعد ایک ایسی قوم پیدا ہوگی جس کی گواہی قسم سے پہلے زبان پر آ جایا کرے گی اور قسم گواہی سے پہلے۔ ابراہیم نے کہا کہ ہمارے اساتذہ جب ہم کم عمر تھے تو ہمیں قسم کھانے سے منع کیا کرتے تھے کہ ہم گواہی یا عہد میں قسم کھائیں۔

【38】

اللہ بزرگ وبرتر کا عہد کا بیان۔

مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے محمد بن ابی عدی نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، ان سے سلیمان و منصور نے بیان کیا، ان سے ابو وائل نے بیان کیا، اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جس نے جھوٹی قسم اس مقصد سے کھائی کہ کسی مسلمان کا مال اس کے ذریعہ ناجائز طریقے پر حاصل کرے تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ وہ اس پر غضب ناک ہوگا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس کی تصدیق نازل کی (قرآن مجید میں کہ) إن الذين يشترون بعهد الله‏ بلاشبہ وہ لوگ جو اللہ کے عہد کے ذریعہ خریدتے ہیں۔ سلیمان نے بیان کیا کہ پھر اشعث بن قیس (رض) وہاں سے گزرے اور پوچھا کہ عبداللہ تم سے کیا بیان کر رہے تھے۔ ہم نے ان سے بیان کیا تو اشعث (رض) نے کہا کہ یہ آیت میرے اور میرے ایک ساتھی کے بارے میں نازل ہوئی تھی، ایک کنویں کے سلسلے میں ہم دونوں کا جھگڑا تھا۔

【39】

اللہ کی عزت اور اس کی صفات اور کلمات کی قسم کھانے کا بیان۔ اور ابن عباس نے بیان کیا کہ نبی ﷺ فرماتے تھے، اعوذبعزتک،، تیری عزت کے ذریعے پناہ مانگتا ہوں اور ابوہریرہ (رض) نے نبی ﷺ سے نقل کیا ہے کہ ایک شخص جنت اور دوزخ کے درمیان باقی رہ جائے گا تو وہ عرض کرے گا کہ اے میرے پروردگار میرا چہرہ دوزخ کی طرف پھیر دے، قسم ہے تیری عزت کی اس کے علاوہ میں تجھ سے کچھ نہیں مانگوں گا، اور ابوسعید نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرمائے گا تیرے لئے یہ ہے اور اس جیسی دس ہیں اور ایوب نے کہا کہ قسم ہے تیری عزت کی مجھے تیری برکت سے بے نیازی نہیں ہے۔

ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شیبان نے بیان کیا، کہا ہم سے قتادہ نے بیان کیا، ان سے انس بن مالک (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جہنم برابر یہی کہتی رہے گی کہ کیا کچھ اور ہے کیا کچھ اور ہے ؟ آخر اللہ تبارک و تعالیٰ اپنا قدم اس میں رکھ دے گا تو وہ کہہ اٹھے گی بس بس میں بھر گئی، تیری عزت کی قسم ! اور اس کا بعض حصہ بعض کو کھانے لگے گا۔ اس روایت کو شعبہ نے قتادہ سے نقل کیا۔

【40】

کسی شخص کا لعمر اللہ کہنے کا بیان ابن عباس نے کہا لعمرک یعنی تیری زندگی کی قسم

ہم سے اویسی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم نے بیان کیا، ان سے صالح نے، ان سے ابن شہاب نے (دوسری سند) اور ہم سے حجاج نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن عمر نمیری نے بیان کیا، کہا ہم سے یونس نے بیان کیا، کہا کہ میں نے زہری سے سنا، کہا کہ میں نے عروہ بن زبیر، سعید بن مسیب، علقمہ بن وقاص اور عبیداللہ بن عبداللہ (رض) سے نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ صدیقہ (رض) کی بات کے متعلق سنا کہ جب تہمت لگانے والے نے ان پر تہمت لگائی تھی اور اللہ تعالیٰ نے ان کو اس سے بری قرار دیا تھا۔ اور ہر شخص نے مجھ سے پوری بات کا کوئی ایک حصہ ہی بیان کا۔ پھر نبی کریم ﷺ کھڑے ہوئے اور عبداللہ بن ابی کے بارے میں مدد چاہی۔ پھر اسید بن حضیر (رض) کھڑے ہوئے اور سعد بن عبادہ (رض) سے کہا کہ اللہ کی قسم ! ( لعمر الله ) ہم ضرور اسے قتل کردیں گے (مفصل حدیث پیچھے گزر چکی ہے) ۔

【41】

اللہ تعالیٰ کا قول کہ اللہ یمین لغو میں تمہارا مواخذہ نہیں کرے گا۔ لیکن تمہارا مواخذہ ان قسموں پر کرے گا جو تمہارے دل نے کیا ہے اللہ بخشنے والا برد بار ہے۔

مجھ سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، کہا کہ مجھے میرے والد نے خبر دی، انہیں عائشہ (رض) نے کہ آیت لا يؤاخذکم الله باللغو‏ اللہ تعالیٰ تم سے لغو قسموں کے بارے میں پکڑ نہیں کرے گا۔ راوی نے بیان کیا کہ ام المؤمنین (رض) نے کہا کہ یہ آیت لا،‏‏‏‏ والله بلى والله‏.‏ (بےساختہ جو قسمیں عادت بنا لی جاتی ہیں) کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔

【42】

جب کوئی شخص بھول کر قسم کے خلاف کرے۔ اللہ تعالیٰ کا قول کہ تم پر کوئی گناہ نہیں اس میں جو بھول کر کرو اور میرا اس پر مواخذہ نہ کرو جو میں بھول گیا۔

ہم سے خلاد بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے مسعر بن کدام نے بیان کیا، کہا ہم سے قتادہ نے بیان کیا، کہا ہم سے زرارہ بن اوفی نے بیان کیا، ان سے ابوہریرہ (رض) نے نبی کریم ﷺ سے کہ اللہ تعالیٰ نے میری امت کی ان غلطیوں کو معاف کیا ہے جن کا صرف دل میں وسوسہ گزرے یا دل میں اس کے کرنے کی خواہش پیدا ہو، مگر اس کے مطابق عمل نہ ہو اور نہ بات کی ہو۔

【43】

جب کوئی شخص بھول کر قسم کے خلاف کرے۔ اللہ تعالیٰ کا قول کہ تم پر کوئی گناہ نہیں اس میں جو بھول کر کرو اور میرا اس پر مواخذہ نہ کرو جو میں بھول گیا۔

ہم سے عثمان بن الہیثم نے بیان کیا یا ہم سے محمد بن یحییٰ ذہلی نے عثمان بن الہیثم سے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے کہا کہ میں نے ابن شہاب سے سنا، کہا کہ مجھ سے عیسیٰ بن طلحہ نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن عمرو بن العاص نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ (حجۃ الوداع میں) قربانی کے دن خطبہ دے رہے تھے کہ ایک صحابی کھڑے ہوئے اور عرض کیا، یا رسول اللہ ! میں فلاں فلاں ارکان کو فلاں فلاں ارکان سے پہلے خیال کرتا تھا (اس غلطی سے ان کو آگے پیچھے ادا کیا) اس کے بعد دوسرے صاحب کھڑے ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! میں فلاں فلاں ارکان حج کے متعلق یونہی خیال کرتا تھا ان کا اشارہ (حلق، رمی اور نحر) کی طرف تھا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یونہی کرلو (تقدیم و تاخیر کرنے میں) آج ان میں سے کسی کام میں کوئی حرج نہیں ہے۔ چناچہ اس دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جس مسئلہ میں بھی پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے یہی فرمایا کہ کرلو کوئی حرج نہیں۔

【44】

جب کوئی شخص بھول کر قسم کے خلاف کرے۔ اللہ تعالیٰ کا قول کہ تم پر کوئی گناہ نہیں اس میں جو بھول کر کرو اور میرا اس پر مواخذہ نہ کرو جو میں بھول گیا۔

ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابوبکر بن عیاش نے بیان کیا، ان سے عبدالعزیز بن رفیع نے بیان کیا، ان سے عطاء بن ابی رباح نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عباس (رض) نے بیان کیا کہ ایک صحابی نے نبی کریم ﷺ سے کہا، میں نے رمی کرنے سے پہلے طواف زیارت کرلیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ کوئی حرج نہیں۔ تیسرے نے کہا کہ میں نے رمی کرنے سے پہلے ہی ذبح کرلیا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کوئی حرج نہیں۔

【45】

جب کوئی شخص بھول کر قسم کے خلاف کرے۔ اللہ تعالیٰ کا قول کہ تم پر کوئی گناہ نہیں اس میں جو بھول کر کرو اور میرا اس پر مواخذہ نہ کرو جو میں بھول گیا۔

مجھ سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبیداللہ بن عمر نے بیان کیا، ان سے سعید بن ابی سعید نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ ایک صحابی مسجد نبوی میں نماز پڑھنے کے لیے آئے۔ نبی کریم ﷺ مسجد کے ایک کنارے تشریف رکھتے تھے۔ پھر وہ صحابی آئے اور سلام کیا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جا پھر نماز پڑھ، اس لیے کہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ وہ واپس گئے اور پھر نماز پڑھ کر آئے اور سلام کیا۔ نبی کریم ﷺ نے اس مرتبہ بھی ان سے یہی فرمایا کہ واپس جا اور نماز پڑھ کیونکہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ آخر تیسری مرتبہ میں وہ صحابی بولے کہ پھر مجھے نماز کا طریقہ سکھا دیجئیے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب تم نماز کے لیے کھڑے ہوا کرو تو پہلے پوری طرح وضو کرلیا کرو، پھر قبلہ رو ہو کر تکبیر کہو اور جو کچھ قرآن مجید میں تمہیں یاد ہے اور تم آسانی کے ساتھ پڑھ سکتے ہو اسے پڑھا کرو، پھر رکوع کرو اور سکون کے ساتھ رکوع کر چکو تو اپنا سر اٹھاؤ اور جب سیدھے کھڑے ہوجاؤ تو سجدہ کرو، جب سجدے کی حالت میں اچھی طرح ہوجاؤ تو سجدہ سے سر اٹھاؤ، یہاں تک کہ سیدھے ہوجاؤ اور اطمینان سے بیٹھ جاؤ، پھر سجدہ کرو اور جب اطمینان سے سجدہ کرلو تو سر اٹھاؤ یہاں تک کہ سیدھے کھڑے ہوجاؤ، یہ عمل تم اپنی پوری نماز میں کرو۔

【46】

جب کوئی شخص بھول کر قسم کے خلاف کرے۔ اللہ تعالیٰ کا قول کہ تم پر کوئی گناہ نہیں اس میں جو بھول کر کرو اور میرا اس پر مواخذہ نہ کرو جو میں بھول گیا۔

ہم سے فروہ بن ابی المغراء نے بیان کیا، کہا ہم سے علی بن مسہر نے، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ جب احد کی لڑائی میں مشرک شکست کھا گئے اور اپنی شکست ان میں مشہور ہوگئی تو ابلیس نے چیخ کر کہا (مسلمانوں سے) کہ اے للہ کے بندو ! پیچھے دشمن ہے چناچہ آگے کے لوگ پیچھے کی طرف پل پڑے اور پیچھے والے (مسلمانوں ہی سے) لڑ پڑے۔ اس حالت میں حذیفہ بن الیمان (رض) نے دیکھا کہ لوگ ان کے مسلمان والد کو بیخبر ی میں مار رہے ہیں تو انہوں نے مسلمانوں سے کہا کہ یہ تو میرے والد ہیں جو مسلمان ہیں، میرے والد ! عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ اللہ کی قسم لوگ پھر بھی باز نہیں آئے اور آخر انہیں قتل کر ہی ڈالا۔ حذیفہ (رض) نے کہا، اللہ تمہاری مغفرت کرے۔ عروہ نے بیان کیا کہ حذیفہ (رض) کو اپنے والد کی اس طرح شہادت کا آخر وقت تک رنج اور افسوس ہی رہا یہاں تک کہ وہ اللہ سے جا ملے۔

【47】

جب کوئی شخص بھول کر قسم کے خلاف کرے۔ اللہ تعالیٰ کا قول کہ تم پر کوئی گناہ نہیں اس میں جو بھول کر کرو اور میرا اس پر مواخذہ نہ کرو جو میں بھول گیا۔

مجھ سے یوسف بن موسیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے عوف اعرابی نے بیان کیا، ان سے خلاص بن عمرو اور محمد بن سیرین نے کہا کہ ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جس نے روزہ رکھا ہو اور بھول کر کھالیا ہو تو اسے اپنا روزہ پورا کرلینا چاہیے کیونکہ اسے اللہ نے کھلایا پلایا ہے۔

【48】

جب کوئی شخص بھول کر قسم کے خلاف کرے۔ اللہ تعالیٰ کا قول کہ تم پر کوئی گناہ نہیں اس میں جو بھول کر کرو اور میرا اس پر مواخذہ نہ کرو جو میں بھول گیا۔

ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے محمد بن عبدالرحمٰن بن ابی ذئب نے بیان کیا، ان سے زہری نے بیان کیا، ان سے اعرج نے اور ان سے عبداللہ بن بجینہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نماز پڑھائی اور پہلی دو رکعات کے بعد بیٹھنے سے پہلے ہی اٹھ گئے اور نماز پوری کرلی۔ جب نماز پڑھ چکے تو لوگوں نے نبی کریم ﷺ کے سلام کا انتظار کیا۔ پھر نبی کریم ﷺ نے تکبیر کہی اور سلام پھیرنے سے پہلے سجدہ کیا، پھر سجدہ سے سر اٹھایا اور دوبارہ تکبیر کہہ کر سجدہ کیا۔ پھر سجدہ سے سر اٹھایا اور سلام پھیرا۔

【49】

جب کوئی شخص بھول کر قسم کے خلاف کرے۔ اللہ تعالیٰ کا قول کہ تم پر کوئی گناہ نہیں اس میں جو بھول کر کرو اور میرا اس پر مواخذہ نہ کرو جو میں بھول گیا۔

مجھ سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے عبدالعزیز بن عبدالصمد سے سنا، کہا ہم سے منصور بن معتمر نے بیان کیا، ان سے ابراہیم نخعی نے، ان سے علقمہ نے اور ان سے ابن مسعود (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے انہیں ظہر کی نماز پڑھائی اور نماز میں کوئی چیز زیادہ یا کم کردی۔ منصور نے بیان کیا کہ مجھے معلوم نہیں ابراہیم کو شبہ ہوا تھا یا علقمہ کو۔ بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ یا رسول اللہ ! نماز میں کچھ کمی کردی گئی ہے یا آپ بھول گئے ہیں ؟ نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا، کیا بات ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ آپ نے اس اس طرح نماز پڑھائی ہے۔ بیان کیا کہ پھر نبی کریم ﷺ نے ان کے ساتھ دو سجدے (سہو کے) کئے اور فرمایا یہ دو سجدے اس شخص کے لیے ہیں جسے یقین نہ ہو کہ اس نے اپنی نماز میں کمی یا زیادہ کردی ہے اسے چاہیے کہ صحیح بات تک پہنچنے کے لیے ذہن پر زور ڈالے اور جو باقی رہ گیا ہو اسے پورا کرے پھر دو سجدے (سہو کے) کرلے۔

【50】

جب کوئی شخص بھول کر قسم کے خلاف کرے۔ اللہ تعالیٰ کا قول کہ تم پر کوئی گناہ نہیں اس میں جو بھول کر کرو اور میرا اس پر مواخذہ نہ کرو جو میں بھول گیا۔

ہم سے امام حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عمرو بن دینار نے بیان کیا، کہا مجھ کو سعید بن جبیر نے خبر دی، کہا کہ میں نے ابن عباس (رض) سے پوچھا تو انہوں نے بیان کیا کہ ہم سے ابی بن کعب (رض) نے بیان کیا، انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آیت لا تؤاخذني بما نسيت ولا ترهقني من أمري عسرا‏ کے متعلق کہ پہلی مرتبہ اعتراض موسیٰ (علیہ السلام) سے بھول کر ہوا تھا۔

【51】

جب کوئی شخص بھول کر قسم کے خلاف کرے۔ اللہ تعالیٰ کا قول کہ تم پر کوئی گناہ نہیں اس میں جو بھول کر کرو اور میرا اس پر مواخذہ نہ کرو جو میں بھول گیا۔

ابوعبداللہ (امام بخاری (رح)) نے کہا کہ محمد بن بشار نے مجھے لکھا کہ ہم سے معاذ بن معاذ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن عون نے بیان کیا، ان سے شعبی نے بیان کیا، کہ براء بن عازب (رض) نے بیان کیا، ان کے یہاں کچھ ان کے مہمان ٹھہرے ہوئے تھے تو انہوں نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ ان کے واپس آنے سے پہلے جانور ذبح کرلیں تاکہ ان کے مہمان کھائیں، چناچہ انہوں نے نماز عید الاضحی سے پہلے جانور ذبح کرلیا۔ پھر نبی کریم ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ ﷺ نے حکم دیا کہ نماز کے بعد دوبارہ ذبح کریں۔ براء (رض) نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میرے پاس ایک سال سے زیادہ دودھ والی بکری ہے جو دو بکریوں کے گوشت سے بڑھ کر ہے۔ ابن عوف شعبی کی حدیث کے اس مقام پر ٹھہر جاتے تھے اور محمد بن سیرین سے اسی حدیث کی طرح حدیث بیان کرتے تھے اور اس مقام پر رک کر کہتے تھے کہ مجھے معلوم نہیں، یہ رخصت دوسرے لوگوں کے لیے بھی ہے یا صرف براء (رض) کے لیے ہی تھی۔ اس کی روایت ایوب نے ابن سیرین سے کی ہے، ان سے انس (رض) نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے۔

【52】

جب کوئی شخص بھول کر قسم کے خلاف کرے۔ اللہ تعالیٰ کا قول کہ تم پر کوئی گناہ نہیں اس میں جو بھول کر کرو اور میرا اس پر مواخذہ نہ کرو جو میں بھول گیا۔

ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے، ان سے اسود بن قیس نے کہا کہ میں نے جندب (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں اس وقت تک موجود تھا جب رسول اللہ ﷺ نے عید کی نماز پڑھائی پھر خطبہ دیا اور فرمایا کہ جس نے نماز سے پہلے ذبح کرلیا ہو اسے چاہیے کہ اس کی جگہ دوسرا جانور ذبح کرے اور جس نے ابھی ذبح نہ کیا ہو اسے چاہیے کہ اللہ کا نام لے کر جانور ذبح کرے۔

【53】

یمین غموس کا بیان۔ اور اللہ کا قول کہ اپنی قسموں کو آپس میں مکرو خیانت نہ بناؤ کہ قدم ثابت ڈگمگا جائیں اور یہ سبب اس کے کہ تم نے اللہ کی راہ سے روکا برائی کو چکھو اور تمہارے لئے دردناک عذاب ہے۔ دخلاً کے معنی مکر و خیانت ہیں۔

ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو نضر نے خبر دی، کہا ہم کو شعبہ نے خبر دی، کہا ہم سے فراس نے بیان کیا، کہا کہ میں نے شعبی سے سنا، انہوں نے عبداللہ بن عمرو سے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کبیرہ گناہ اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی کی ناحق جان لینا اور يمين الغموس‏‏‏.‏ قصداً جھوٹی قسم کھانے کو کہتے ہیں۔

【54】

اللہ تعالیٰ کا قول کہ بے شک جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کے ذریعہ تھوڑی سی قیمت خریدتے ہیں یہی لوگ ہیں جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ نہ تو ان سے گفتگو فرمائے گا۔ اور نہ ان کی طرف قیامت کے دن دیکھے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہے اور اللہ بزرگ و برتر کا قول کہ اللہ کو اپنی قسموں کا سپر نہ بناؤ کہ تم نیکی کرتے ہو اور تقوی کرتے ہو اور لوگوں کے درمیان اصلاح کرتے ہو اور اللہ تعالیٰ سننے والا جاننے والا ہے اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ اللہ کے عہد کے زریعہ قیمت وصول نہ کرو بے شک جو کچھ اللہ کے نزدیک ہے وہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم جانتے ہو اور اپنے عہد کو پورا کرو جب کہ تم معاہدہ کرو اور اپنی قسموں کو ان کے مستحکم کرنے کے بعد نہ توڑو، حالانکہ تم نے اللہ کو اپنے اوپر کفیل بنایا ہے۔

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابو وائل نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے جھوٹی قسم اس طور سے کھائی کہ اس کے ذریعہ کسی مسلمان کا مال ناجائز طریقہ سے حاصل کرے تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ اس پر نہایت ہی غصہ ہوگا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس کی تصدیق وحی کے ذریعہ نازل کی إن الذين يشترون بعهد الله وأيمانهم ثمنا قليلا‏ کہ بلاشبہ وہ لوگ جو اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کے بدلے معمولی دنیا کی پونجی خریدتے ہیں آخر آیت تک۔ عبداللہ یہ حدیث بیان کرچکے تھے، اتنے میں اشعث بن قیس آئے اور پوچھا کہ ابوعبدالرحمٰن نے تم لوگوں سے کیا حدیث بیان کی ہے ؟ لوگوں نے کہا اس اس مضمون کی۔ انہوں نے کہا اجی یہ آیت تو میرے ہی بارے میں نازل ہوئی تھی میرے ایک چچازاد بھائی کی زمین میں میرا ایک کنواں تھا اس کے جھگڑے کے سلسلہ میں میں نبی کریم ﷺ کے پاس آیا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تم اپنے گواہ لاؤ ورنہ مدعاعلیہ سے قسم لی جائے گی۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! پھر وہ تو جھوٹی قسم کھالے گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جس نے جھوٹی قسم بدنیتی کے ساتھ اس لیے کھائی کہ اس کے ذریعہ کسی مسلمان کا مال ہڑپ کر جائے تو قیامت کے دن اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ وہ اللہ اس پر انتہائی غضب ناک ہوگا۔

【55】

اس چیز میں قسم کھانا جس کا مالک نہ ہو۔ اور گناہ کی قسم اور غصہ کی قسم کا بیان

مجھ سے محمد بن علاء نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے برید نے، ان سے ابوبردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ (رض) نے بیان کیا کہ میرے ساتھیوں نے مجھے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں سواری کے جانور مانگنے کے لیے بھیجا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کی قسم میں تمہارے لیے کوئی سواری کا جانور نہیں دے سکتا (کیونکہ موجود نہیں ہیں) جب میں آپ کے سامنے آیا تو آپ کچھ خفگی میں تھے۔ پھر جب دوبارہ آیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اپنے ساتھیوں کے پاس جا اور کہہ کہ اللہ تعالیٰ نے یا (یہ کہا کہ) رسول اللہ ﷺ نے تمہارے لیے سواری کا انتظام کردیا۔

【56】

اس چیز میں قسم کھانا جس کا مالک نہ ہو۔ اور گناہ کی قسم اور غصہ کی قسم کا بیان

ہم سے عبدالعزیز نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم نے بیان کیا، ان سے صالح نے، ان سے ابن شہاب نے (دوسری سند) اور ہم سے حجاج نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن عمر نمیری نے بیان کیا، کہا ہم سے یونس بن یزید ایلی نے بیان کیا، کہا کہ میں نے زہری سے سنا، کہا کہ میں نے عروہ بن زبیر، سعید بن المسیب، علقمہ بن وقاص اور عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ رضی اللہ عنہم سے سنا۔ نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ عائشہ (رض) پر بہتان کی بات کے متعلق، جب ان پر اتہام لگانے والوں نے اتہام لگایا تھا اور اللہ تعالیٰ نے ان کو اس اتہام سے بری قرار دیا تھا، ان سب لوگوں نے مجھ سے اس قصہ کا کوئی ایک ٹکڑا بیان کیا (اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ) پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی إن الذين جاء وا بالإفك‏ کہ بلاشبہ جن لوگوں نے جھوٹی تہمت لگائی ہے دس آیتوں تک۔ جو سب کی سب میری پاکی بیان کرنے کے لیے نازل ہوئی تھیں۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، مسطح (رض) کے ساتھ قرابت کی وجہ سے ان کا خرچ اپنے ذمہ لیے ہوئے تھے، کہا کہ اللہ کی قسم اب کبھی مسطح پر کوئی چیز ایک پیسہ خرچ نہیں کروں گا۔ اس کے بعد کہ اس نے عائشہ (رض) پر اس طرح کی جھوٹی تہمت لگائی ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی ولا يأتل أولو الفضل منکم والسعة أن يؤتوا أولي القربى‏ الخ۔ ابوبکر (رض) نے اس پر کہا، کیوں نہیں، اللہ کی قسم میں تو یہی پسند کرتا ہوں کہ اللہ میری مغفرت کر دے۔ چناچہ انہوں نے پھر مسطح کو وہ خرچ دینا شروع کردیا جو اس سے پہلے انہیں دیا کرتے تھے اور کہا کہ اللہ کی قسم میں اب خرچ دینے کو کبھی نہیں روکوں گا۔

【57】

اس چیز میں قسم کھانا جس کا مالک نہ ہو۔ اور گناہ کی قسم اور غصہ کی قسم کا بیان

ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوارث نے، کہا ہم سے ایوب نے بیان کیا، ان سے قاسم نے، ان سے زہدم نے بیان کیا کہ ہم ابوموسیٰ (رض) کے پاس تھے تو انہوں نے بیان کیا کہ میں قبیلہ اشعر کے چند ساتھیوں کے ساتھ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا جب میں آپ کے پاس آیا تو آپ غصہ تھے پھر ہم نے آپ سے سواری کا جانور مانگا تو آپ نے قسم کھالی کہ آپ ہمارے لیے اس کا انتظام نہیں کرسکتے۔ اس کے بعد فرمایا : واللہ، اللہ نے چاہا تو میں کبھی بھی اگر کوئی قسم کھا لوں گا اور اس کے سوا دوسری چیز میں بھلائی دیکھوں گا تو وہی کروں گا جس میں بھلائی ہوگی اور قسم توڑ دوں گا۔

【58】

جب کوئی شخص کہے کہ اللہ کی قسم میں آج کلام نہیں کروں گا۔، پھر اس نے نماز پڑھی یا قرات کی یا سبحان اللہ کہا یااللہ اکبر کہا یا الحمدللہ یا لاالہ الااللہ کہا تو وہ قسم کی اس نیت پر محمول ہوگی اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ سب سے بہتر کلام چار ہیں، سبحان اللہ، الحمدللہ، لاالہ الااللہ، اور اللہ اکبر، ابوسفیان نے کہا کہ نبی ﷺ نے ہرقل کولکھ بھیجا کہ اس کلمہ کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے اور مجاہد نے کہا کہ تقوی کا کلمہ لاالہ الااللہ ہے۔

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، انہیں سعید بن مسیب نے خبر دی، ان کے والد (مسیب رضی اللہ عنہ) نے بیان کیا کہ جب جناب ابوطالب کی موت کی وقت قریب ہوا تو رسول اللہ ﷺ ان کے پاس آئے اور کہا کہ آپ کہہ دیجئیے کہ لا الہٰ الا اللہ تو میں آپ کے لیے اللہ سے جھگڑ سکوں گا۔

【59】

جب کوئی شخص کہے کہ اللہ کی قسم میں آج کلام نہیں کروں گا۔، پھر اس نے نماز پڑھی یا قرات کی یا سبحان اللہ کہا یااللہ اکبر کہا یا الحمدللہ یا لاالہ الااللہ کہا تو وہ قسم کی اس نیت پر محمول ہوگی اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ سب سے بہتر کلام چار ہیں، سبحان اللہ، الحمدللہ، لاالہ الااللہ، اور اللہ اکبر، ابوسفیان نے کہا کہ نبی ﷺ نے ہرقل کولکھ بھیجا کہ اس کلمہ کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے اور مجاہد نے کہا کہ تقوی کا کلمہ لاالہ الااللہ ہے۔

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے محمد بن فضیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عمارہ بن قعقاع نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابوزرعہ نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دو کلمے جو زبان پر ہلکے ہیں لیکن ترازو پر (آخرت میں) بھاری ہیں اور اللہ رحمن کے یہاں پسندیدہ ہیں وہ یہ ہیں سبحان الله وبحمده،‏‏‏‏ سبحان الله العظيم‏‏‏.۔

【60】

جب کوئی شخص کہے کہ اللہ کی قسم میں آج کلام نہیں کروں گا۔، پھر اس نے نماز پڑھی یا قرات کی یا سبحان اللہ کہا یااللہ اکبر کہا یا الحمدللہ یا لاالہ الااللہ کہا تو وہ قسم کی اس نیت پر محمول ہوگی اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ سب سے بہتر کلام چار ہیں، سبحان اللہ، الحمدللہ، لاالہ الااللہ، اور اللہ اکبر، ابوسفیان نے کہا کہ نبی ﷺ نے ہرقل کولکھ بھیجا کہ اس کلمہ کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے اور مجاہد نے کہا کہ تقوی کا کلمہ لاالہ الااللہ ہے۔

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالواحد نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے شقیق نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اور میں نے (اسی پر قیاس کرتے ہوئے) دوسرا کلمہ کہا (کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ) جو شخص اس حال میں مرجائے گا کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا ہوگا تو وہ جہنم میں جائے گا۔ اور میں نے دوسری بات کہی کہ جو شخص اس حال میں مرجائے گا کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہوگا وہ جنت میں جائے گا۔

【61】

اس شخص کا بیان جوقسم کھائے کہ اپنی بیوی کے پاس ایک مہینہ تک نہ جائے گا۔ اور مہینہ انتیس دن کا ہو۔

ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا، ان سے حمید نے اور ان سے انس (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں کے ساتھ ایلاء کیا (یعنی قسم کھائی کہ آپ ان کے یہاں ایک مہینہ تک نہیں جائیں گے) اور نبی کریم ﷺ کے پاؤں میں موچ آگئی تھی۔ چناچہ نبی کریم ﷺ اپنے بالا خانہ میں انتیس دن تک قیام پذیر رہے پھر وہاں سے اترے، لوگوں نے کہا یا رسول اللہ ! آپ نے ایلاء ایک مہینے کے لیے کیا تھا ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہ مہینہ انتیس دن کا ہے۔

【62】

اگر کوئی شخص قسم کھائے کہ میں نبیذ نہیں پیؤں گا۔ اور اس نے طلا یا سکر یا عصیر پی لیا تو بعض (یعنی حنفیہ) کے قول کے مطابق اس کی قسم نہیں ٹوٹے گی اور یہ ان کے نزدیک نبیذ میں داخل نہیں۔

مجھ سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، انہوں نے عبدالعزیز بن ابی حازم سے سنا، کہا مجھ کو میرے والد نے خبر دی، انہیں سہل بن سعد (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ کے صحابی ابواسید (رض) نے نکاح کیا اور نبی کریم ﷺ کو اپنی شادی کے موقع پر بلایا۔ دلہن ہی ان کی میزبانی کا کام کر رہی تھیں، پھر سہل (رض) نے لوگوں سے پوچھا، تمہیں معلوم ہے، میں نے نبی کریم ﷺ کو کیا پلایا تھا۔ کہا کہ رات میں نبی کریم ﷺ کے لیے میں نے کھجور ایک بڑے پیالہ میں بھگو دی تھی اور صبح کے وقت اس کا پانی نبی کریم ﷺ کو پلایا تھا۔

【63】

اگر کوئی شخص قسم کھائے کہ میں نبیذ نہیں پیؤں گا۔ اور اس نے طلا یا سکر یا عصیر پی لیا تو بعض (یعنی حنفیہ) کے قول کے مطابق اس کی قسم نہیں ٹوٹے گی اور یہ ان کے نزدیک نبیذ میں داخل نہیں۔

ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا ہم کو اسماعیل بن ابی خالد نے خبر دی، انہیں شعبی نے، انہیں عکرمہ نے اور انہیں ابن عباس (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ کی بیوی صاحبہ سودہ (رض) نے بیان کیا کہ ان کی ایک بکری مرگئی تو اس کے چمڑے کو ہم نے دباغت دے دیا۔ پھر ہم اس کی مشک میں نبیذ بناتے رہے یہاں تک کہ وہ پرانی ہوگئی۔

【64】

اگر کوئی شخص قسم کھائے کہ سالن نہیں کھائے گا۔ پھر اس نے روٹی کے ساتھ چھوہارا یا سالن کے طور پر استعمال کی چیز کھائی

ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن عابس نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ آل محمد ﷺ کبھی پے در پے تین دن تک سالن کے ساتھ گیہوں کی روٹی نہیں کھا سکے یہاں تک کہ نبی کریم ﷺ سے جا ملے اور ابن کثیر نے بیان کیا کہ ہم کو سفیان نے خبر دی کہ ہم سے عبدالرحمٰن نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے یہی حدیث بیان کی۔

【65】

اگر کوئی شخص قسم کھائے کہ سالن نہیں کھائے گا۔ پھر اس نے روٹی کے ساتھ چھوہارا یا سالن کے طور پر استعمال کی چیز کھائی

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے بیان کیا، انہوں نے انس بن مالک (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ابوطلحہ (رض) نے (اپنی بیوی) ام سلیم (رض) سے کہا کہ میں سن کر آ رہا ہوں نبی کریم ﷺ کی آواز (فاقوں کی وجہ سے) کمزور پڑگئی ہے اور میں نے آواز سے آپ کے فاقہ کا اندازہ لگایا ہے۔ کیا تمہارے پاس کھانے کی کوئی چیز ہے ؟ انہوں نے کہا ہاں۔ چناچہ انہوں نے جَو کی چند روٹیاں نکالیں اور ایک اوڑھنی لے کر روٹی کو اس کے ایک کونے سے لپیٹ دیا اور اسے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں بھجوایا۔ میں لے کر گیا تو میں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف رکھتے ہیں اور آپ کے ساتھ کچھ لوگ ہیں، میں ان کے پاس جا کے کھڑا ہوگیا تو نبی کریم ﷺ نے پوچھا، کیا تمہیں ابوطلحہ نے بھیجا ہے، میں نے عرض کیا : جی ہاں۔ پھر نبی کریم ﷺ نے ان لوگوں سے کہا جو ساتھ تھے کہ اٹھو اور چلو، میں ان کے آگے آگے چل رہا تھا۔ آخر میں ابوطلحہ (رض) کے یہاں پہنچا اور ان کو اطلاع دی۔ ابوطلحہ نے کہا : ام سلیم ! رسول اللہ ﷺ تشریف لائے ہیں اور ہمارے پاس تو کوئی ایسا کھانا نہیں ہے جو سب کو پیش کیا جاسکے ؟ انہوں نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ پھر ابوطلحہ (رض) باہر نکلے اور نبی کریم ﷺ سے ملے، اس کے بعد نبی کریم ﷺ اور ابوطلحہ گھر کی طرف بڑھے اور اندر گئے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، ام سلیم ! جو کچھ تمہارے پاس ہے میرے پاس لاؤ۔ وہ یہی روٹیاں لائیں۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر نبی کریم ﷺ کے حکم سے ان روٹیوں کو چورا کردیا گیا اور ام سلیم (رض) نے اپنی ایک (گھی کی) کپی کو نچوڑا گیا یہی سالن تھا۔ اس کے بعد نبی کریم ﷺ نے جیسا کہ اللہ نے چاہا دعا پڑھی اور فرمایا کہ دس دس آدمیوں کو اندر بلاؤ انہیں بلایا گیا اور اس طرح سب لوگوں نے کھایا اور خوب سیر ہوگئے، حاضرین کی تعداد ستر یا اسی آدمیوں کی تھی۔

【66】

قسموں میں نیت کا بیان

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالوہاب نے بیان کیا، انہوں نے کہا میں نے یحییٰ بن سعید سے سنا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے محمد بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے علقمہ بن وقاص لیثی سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عمر بن خطاب (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا کہ بلاشبہ عمل کا دارومدار نیت پر ہے اور انسان کو وہی ملے گا جس کی وہ نیت کرے گا پس جس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہوگی تو واقعی وہ انہیں کے لیے ہوگی اور جس کی ہجرت دنیا حاصل کرنے کے لیے یا کسی عورت سے شادی کرنے کے لیے ہوگی تو اس کی ہجرت اسی کے لیے ہوگی جس کے لیے اس نے ہجرت کی۔

【67】

جب کوئی شخض اپنا مال نذر اور توبہ کے طور پر صدقہ کرے۔

ہم سے احمد بن صالح نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن وہب نے بیان کیا، کہا مجھ کو یونس نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، کہا مجھے عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن کعب بن مالک نے خبر دی، جب کعب (رض) نابینا ہوگئے تھے تو ان کی اولاد میں ایک یہی کہیں آنے جانے میں ان کے ساتھ رہتے تھے۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے کعب بن مالک (رض) سے ان کے واقعہ اور آیت على الثلاثة الذين خلفوا‏ کے سلسلہ میں سنا، انہوں نے اپنی حدیث کے آخر میں کہا کہ (میں نے نبی کریم ﷺ کے سامنے یہ پیش کش کی کہ) اپنی توبہ کی خوشی میں میں اپنا مال اللہ اور اس کے رسول کے دین کی خدمت میں صدقہ کر دوں۔ نبی کریم ﷺ نے اس پر فرمایا کہ اپنا کچھ مال اپنے پاس ہی رکھو، یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔

【68】

جب کوئی شخص کھانے کی چیز حرام کرلے اور اللہ کا قول کہ اے نبی تم کیوں اس چیز کو اپنی بیویوں کی رضاجوئی کے لئے حرام کرتے ہو جو اللہ نے تمہارے لئے حلال کی ہے اللہ تعالیٰ بخشنے والے مہربان ہیں اللہ نے تمہارے لئے اپنی قسموں کو کھولنا مقرر فرمایا ہے اور اللہ کا قول کہ پاک اشیاءکوحرام نہ کرو جو اللہ نے حلال کی۔

ہم سے حسن بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن جریج نے بیان کیا کہ عطاء کہتے تھے کہ انہوں نے عبید بن عمیر سے سنا، کہا میں نے عائشہ (رض) سے سنا، وہ کہتی تھیں کہ نبی کریم ﷺ (ام المؤمنین) زینب بنت جحش (رض) کے یہاں رکتے تھے اور شہد پیتے تھے۔ پھر میں نے اور (ام المؤمنین) حفصہ (رضی اللہ عنہا) نے عہد کیا کہ ہم میں سے جس کے پاس بھی نبی کریم ﷺ آئیں تو وہ کہے کہ نبی کریم ﷺ کے منہ سے مغافیر کی بو آتی ہے، آپ نے مغافیر تو نہیں کھائی ہے ؟ چناچہ نبی کریم ﷺ جب ایک کے یہاں تشریف لائے تو انہوں نے یہی بات آپ سے پوچھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ میں نے شہد پیا ہے زینب بنت جحش کے یہاں اور اب کبھی نہیں پیوں گا۔ (کیونکہ نبی کریم ﷺ کو یقین ہوگیا کہ واقعی اس میں مغافیر کی بو آتی ہے) اس پر یہ آیت نازل ہوئی يا أيها النبي لم تحرم ما أحل الله لك اے نبی ! آپ ایسی چیز کیوں حرام کرتے ہیں جو اللہ نے آپ کے لیے حلال کی ہے۔ إن تتوبا إلى الله میں عائشہ اور حفصہ (رض) کی طرف اشارہ ہے اور وإذ أسر النبي إلى بعض أزواجه حديثا سے اشارہ نبی کریم ﷺ کے اس ارشاد کی طرف ہے کہ نہیں میں نے شہد پیا ہے۔ اور مجھ سے ابراہیم بن موسیٰ نے ہشام سے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ اب کبھی میں شہد نہیں پیوں گا میں نے قسم کھالی ہے تم اس کی کسی کو خبر نہ کرنا (پھر آپ نے اس قسم کو توڑ دیا) ۔

【69】

نذر پوری کرنے کا بیان اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ وہ لوگ نذریں پوری کرتے ہیں۔

ہم سے یحییٰ بن صالح نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے فلیح بن سلیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سعید بن الحارث نے بیان کیا، انہوں نے عبداللہ بن عمر (رض) سے سنا، انہوں نے کہا، کیا لوگوں کو نذر سے منع نہیں کیا گیا ہے ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ نذر کسی چیز کو نہ آگے کرسکتی ہے نہ پیچھے، البتہ اس کے ذریعہ بخیل کا مال نکالا جاسکتا ہے۔

【70】

نذر پوری کرنے کا بیان اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ وہ لوگ نذریں پوری کرتے ہیں۔

ہم سے خلاد بن یحییٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے منصور نے، انہوں نے کہا ہم کو عبداللہ بن مرہ نے خبر دی، اور انہیں عبداللہ بن عمر (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے نذر سے منع فرمایا تھا اور فرمایا تھا کہ وہ کسی چیز کو واپس نہیں کرسکتی، البتہ اس کے ذریعہ بخیل کا مال نکالا جاسکتا ہے۔

【71】

نذر پوری کرنے کا بیان اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ وہ لوگ نذریں پوری کرتے ہیں۔

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، کہا ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے اعرج نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا نذر انسان کو کوئی ایسی چیز نہیں دیتی جو اس کے مقدر میں نہ ہو، البتہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ بخیل سے اس کا مال نکلواتا ہے اور اس طرح وہ چیزیں صدقہ کردیتا ہے جس کی اس سے پہلے اس کی امید نہیں کی جاسکتی تھی۔

【72】

اس شخص کا گناہ جو نذر پوری نہ کرے۔

ہم سے مسدد نے بیان کیا، ان سے یحییٰ نے، ان سے شعبہ نے بیان کیا، کہا مجھ سے ابوحمزہ نے بیان کیا، کہا ہم سے زہدم بن مضرب نے بیان کیا، کہا کہ میں نے عمران بن حصین سے سنا، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے تھے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تم میں سب سے بہتر میرا زمانہ ہے، اس کے بعد ان کا جو اس کے قریب ہوں گے۔ اس کے بعد وہ جو اس سے قریب ہوں گے۔ عمران نے بیان کیا کہ مجھے یاد نہیں نبی کریم ﷺ نے اپنے زمانہ کے بعد دو کا ذکر کیا تھا یا تین کا (فرمایا کہ) پھر ایک ایسی قوم آئے گی جو نذر مانے گی اور اسے پورا نہیں کرے گی، خیانت کرے گی اور ان پر اعتماد نہیں رہے گا۔ وہ گواہی دینے کے لیے تیار رہیں گے جب کہ ان سے گواہی کے لیے کہا بھی نہیں جائے گا اور ان میں مٹاپا عام ہوجائے گا۔

【73】

طاعت میں نذر ماننے کا بیان۔ اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ جو تم نے خرچ کیا ہے یا جو تم نے نذر مانی ہے۔ اللہ اس کو جانتا ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں

ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے طلحہ بن عبدالملک نے، ان سے قاسم نے اور ان سے عائشہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جس نے اس کی نذر مانی ہو کہ اللہ کی اطاعت کرے گا تو اسے اطاعت کرنی چاہیے لیکن جس نے اللہ کی معصیت کی نذر مانی ہو اسے نہ کرنی چاہیے۔

【74】

جب کسی شخص نے جاہلیت کے زمانہ میں نذر مانی یا قسم کھائی کہ فلاں شخص سے گفتگو نہ کرے گا پھر وہ مسلمان ہوگیا۔

ہم سے ابوالحسن محمد بن مقاتل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم کو عبیداللہ بن عمرو نے خبر دی، انہیں نافع نے، انہیں ابن عمر (رض) نے کہ عمر (رض) نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! میں نے جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ مسجد الحرام میں ایک رات کا اعتکاف کروں گا ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اپنی نذر پوری کر۔

【75】

اس شخص کا بیان جو مرجائے اور اس کے ذمے نذر واجب ہو۔ اور ابن عمر نے ایک عورت کو جس کی ماں نے قباء میں نماز پڑھنے کی نذر مانی تھی کہا کہ اس کی طرف سے نماز پڑھ لے اور ابن عباس نے بھی اسی طرح کیا۔

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ نے خبر دی، انہیں ابن عباس (رض) نے خبر دی، انہیں سعد بن عبادہ (رض) نے خبر دی کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ سے ایک نذر کے بارے میں پوچھا جو ان کی والدہ کے ذمہ باقی تھی اور ان کی موت نذر پوری کرنے سے پہلے ہوگئی تھی۔ نبی کریم ﷺ نے انہیں فتویٰ دیا کہ نذر وہ اپنی ماں کی طرف سے پوری کردیں۔ چناچہ بعد میں یہی طریقہ مسنونہ قرار پایا۔

【76】

اس شخص کا بیان جو مرجائے اور اس کے ذمے نذر واجب ہو۔ اور ابن عمر نے ایک عورت کو جس کی ماں نے قباء میں نماز پڑھنے کی نذر مانی تھی کہا کہ اس کی طرف سے نماز پڑھ لے اور ابن عباس نے بھی اسی طرح کیا۔

ہم سے آدم نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابوبشر نے، کہا کہ میں نے سعید بن جبیر سے سنا، ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ ایک صاحب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئے اور عرض کیا کہ میری بہن نے نذر مانی تھی کہ حج کریں گی لیکن اب ان کا انتقال ہوچکا ہے ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر ان پر کوئی قرض ہوتا تو کیا تم اسے ادا کرتے ؟ انہوں نے عرض کی ضرور ادا کرتے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پھر اللہ کا قرض بھی ادا کرو کیونکہ وہ اس کا زیادہ مستحق ہے کہ اس کا قرض پورا ادا کیا جائے۔

【77】

معصیت اور اس چیز کی نذر ماننے کا بیان جس پر قدرت نہ ہو۔

ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے، ان سے طلحہ بن عبدالملک نے، ان سے قاسم نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جس نے اللہ کی اطاعت کی نذر مانی ہو اسے چاہیے کہ اطاعت کرے اور جس نے گناہ کرنے کی نذر مانی ہو پس وہ گناہ نہ کرے۔

【78】

معصیت اور اس چیز کی نذر ماننے کا بیان جس پر قدرت نہ ہو۔

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے حمید نے، ان سے ثابت نے اور ان سے انس (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس سے بےپروا ہے کہ یہ شخص اپنی جان کو عذاب میں ڈالے۔ نبی کریم ﷺ نے اسے دیکھا کہ وہ اپنے دو بیٹوں کے درمیان چل رہا تھا اور فزاری نے بیان کیا، ان سے حمید نے، ان سے ثابت نے بیان کیا اور ان سے انس (رض) نے۔

【79】

معصیت اور اس چیز کی نذر ماننے کا بیان جس پر قدرت نہ ہو۔

ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے، ان سے سلیمان احول نے، ان سے طاؤس نے، ان سے ابن عباس (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ کعبہ کا طواف لگام یا اس کے سوا کسی اور چیز کے ذریعہ کر رہا تھا تو نبی کریم ﷺ نے اسے کاٹ دیا۔

【80】

معصیت اور اس چیز کی نذر ماننے کا بیان جس پر قدرت نہ ہو۔

ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو ہشام نے خبر دی، انہیں ابن جریج نے خبر دی، کہا کہ مجھے سلیمان احول نے خبر دی، انہیں طاؤس نے خبر دی اور انہیں ابن عباس (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ گزرے تو کعبہ کا ایک شخص اس طرح طواف کر رہا تھا کہ دوسرا شخص اس کی ناک میں رسی باندھ کر اس کے آگے سے اس کی رہنمائی کر رہا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے وہ رسی اپنے ہاتھ سے کاٹ دی، پھر حکم دیا کہ ہاتھ سے اس کی رہنمائی کرے۔

【81】

معصیت اور اس چیز کی نذر ماننے کا بیان جس پر قدرت نہ ہو۔

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے وہیب نے، کہا ہم سے ایوب نے، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ خطبہ دے رہے تھے کہ ایک شخص کو کھڑے دیکھا۔ نبی کریم ﷺ نے اس کے متعلق پوچھا تو لوگوں نے بتایا کہ یہ ابواسرائیل نامی ہیں۔ انہوں نے نذر مانی ہے کہ کھڑے ہی رہیں گے، بیٹھیں گے نہیں، نہ کسی چیز کے سایہ میں بیٹھیں گے اور نہ کسی سے بات کریں گے اور روزہ رکھیں گے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ان سے کہو کہ بات کریں، سایہ کے نیچے بیٹھیں اٹھیں اور اپنا روزہ پورا کرلیں۔ عبدالوہاب نے بیان کیا کہ ہم سے ایوب نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے نبی کریم ﷺ نے۔

【82】

اس شخص کا بیان جو چند دنوں کے روزے رکھنے کی نذر مانے۔ اور ان میں یوم نحر یا یوم فطر آجائے

ہم سے محمد بن ابوبکر مقدمی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے فضیل بن سلیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے حکیم بن ابی حرہ اسلمی نے بیان کیا، انہوں نے عبداللہ بن عمر (رض) سے سنا، ان سے ایسے شخص کے متعلق پوچھا گیا جس نے نذر مانی ہو کہ کچھ مخصوص دنوں میں روزے رکھے گا۔ پھر اتفاق سے انہیں دنوں میں بقر عید یا عید کے دن پڑگئے ہوں ؟ عبداللہ بن عمر (رض) نے کہا کہ تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔ نبی کریم ﷺ بقر عید اور عید کے دن روزے نہیں رکھتے تھے اور نہ ان دنوں میں روزے کو جائز سمجھتے تھے۔

【83】

اس شخص کا بیان جو چند دنوں کے روزے رکھنے کی نذر مانے۔ اور ان میں یوم نحر یا یوم فطر آجائے

ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن ذریع نے بیان کیا، ان سے یونس نے، ان سے زیادہ بن جبیر نے بیان کیا کہ میں ابن عمر (رض) کے ساتھ تھا ایک شخص نے ان سے پوچھا کہ میں نے نذر مانی ہے کہ ہر منگل یا بدھ کے دن روزہ رکھوں گا۔ اتفاق سے اسی دن کی بقر عید پڑگئی ہے ؟ ابن عمر (رض) نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے نذر پوری کرنے کا حکم دیا ہے اور ہمیں بقر عید کے دن روزہ رکھنے کی ممانعت کی گئی ہے۔ اس شخص نے دوبارہ اپنا سوال دہرایا تو آپ نے پھر اس سے صرف اتنی ہی بات کہی اس پر کوئی زیادتی نہیں کی۔

【84】

کیاقسموں اور نذروں میں زمین بکریاں کھیتی اور اس داخل ہونگے۔، اور ابن عمر نے کہا کہ حضرت عمر نے آنحضرت صل اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ مجھے ایسی زمین ملی ہے جس سے نفیس مال مجھے کوئی بھی نہیں ملا، آپ نے فرمایا کہ اگر تو چاہے تو اصل مال کو روک رکھ اور اس کا نفع صدقہ کردے، ابوطلحہ نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ مجھ کو سب سے زیادہ محبوب مال بیرحاء ہے وہ باغ جس کارخ مسجد کی طرف ہے۔

ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ثور بن زید دیلی نے بیان کیا، ان سے ابن مطیع کے غلام ابوالغیث نے بیان کیا، ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ خیبر کی لڑائی کے لیے نکلے۔ اس لڑائی میں ہمیں سونا، چاندی غنیمت میں نہیں ملا تھا بلکہ دوسرے اموال، کپڑے اور سامان ملا تھا۔ پھر بنی خبیب کے ایک شخص رفاعہ بن زید نامی نے نبی کریم ﷺ کو ایک غلام ہدیہ میں دیا غلام کا نام مدعم تھا۔ پھر نبی کریم ﷺ وادی قریٰ کی طرف متوجہ ہوئے اور جب آپ وادی القریٰ میں پہنچ گئے تو مدعم کو جب کہ وہ نبی کریم ﷺ کا کجاوہ درست کر رہا تھا۔ ایک انجان تیر آ کر لگا اور اس کی موت ہوگئی۔ لوگوں نے کہا کہ جنت اسے مبارک ہو، لیکن نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہرگز نہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے وہ کمبل جو اس نے تقسیم سے پہلے خیبر کے مال غنیمت میں سے چرا لیا تھا، وہ اس پر آگ کا انگارہ بن کر بھڑ رہا ہے۔ جب لوگوں نے یہ بات سنی تو ایک شخص چپل کا تسمہ یا دو تسمے لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہ آگ کا تسمہ ہے یا دو تسمے آگ کے ہیں۔

【85】

اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ اس کا کفارہ دس مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے اور جب یہ آیت نازل ہوئی تو آنحضرت ﷺ نے حکم دیا کہ فدیہ روزے رکھنا، یا صدقہ دینا، یا قربانی ہے اور حضرت ابن عباس و عطاء، وعکرمہ سے منقول ہے کہ قرآن میں جہاں جہاں اَو اَو (یعنی یا۔ یا) کا لفظ آیا ہے وہاں انسان کو اختیار ہے اور آنحضرت ﷺ نے کعب کو فدیہ میں اختیار دیا۔

ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوشہاب عبداللہ بن نافع نے بیان کیا، ان سے ابن عون نے، ان سے مجاہد نے، ان سے عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ نے، ان سے کعب بن عجرہ (رض) نے بیان کیا کہ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ قریب ہوجا، میں قریب ہوا تو آپ ﷺ نے پوچھا کیا تمہارے سر کے کپڑے تکلیف دے رہے ہیں ؟ میں نے عرض کیا، جی ہاں، نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پھر روزے صدقہ یا قربانی کا فدیہ دیدے۔ اور مجھے ابن عون نے خبر دی، ان سے ایوب نے بیان کیا کہ روزے تین دن کے ہوں گے اور قربانی ایک بکری کی اور (کھانے کے لیے) چھ مسکین ہوں گے۔

【86】

اللہ تعالیٰ کا قول کہ اللہ نے تمہاری قسموں کا کھولنا مقرر کردیا ہے۔ ھاور اللہ تعالیٰ تمہارا کارساز ہے اور وہ جاننے والا حکمت والا ہے اور غنی اور فقیر پر کب کفارہ واجب ہے

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے زہری نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ان کی زبان سے سنا وہ حمید بن عبدالرحمٰن سے بیان کرتے تھے، ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا، میں تو تباہ ہوگیا۔ نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا کہ کیا بات ہے ؟ عرض کیا کہ میں نے رمضان میں اپنی بیوی سے ہمبستری کرلی۔ نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا کہ کیا تم ایک غلام آزاد کرسکتے ہو ؟ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ نبی کریم ﷺ نے پوچھا کیا دو مہینے متواتر روزے رکھ سکتا ہے۔ انہوں نے عرض کیا کہ نہیں۔ نبی کریم ﷺ نے پوچھا کیا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکتا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ بیٹھ جاؤ وہ صاحب بیٹھ گئے۔ پھر نبی کریم ﷺ کے پاس ایک ٹوکرا لایا گیا جس میں کھجوریں تھیں ( عرق ایک بڑا پیمانہ ہے) نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ لے جا اور اسے پورا صدقہ کر دے۔ انہوں نے پوچھا، کیا اپنے سے زیادہ محتاج پر (صدقہ کر دوں) ؟ اس پر نبی کریم ﷺ ہنس دئیے اور آپ کے سامنے کے دانت مبارک دکھائی دینے لگے اور پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ اپنے بچوں ہی کو کھلا دینا۔

【87】

اس شخص کا بیان جو کفارے میں کسی تنگدست کی مدد کرے۔

ہم سے محمد بن محبوب بصریٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا، کہا ہم سے معمر بن راشد نے، ان سے زہری نے، ان سے حمید بن عبدالرحمٰن بن عوف نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ ایک صاحب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی، میں تو تباہ ہوگیا۔ نبی کریم ﷺ نے پوچھا کیا بات ہے ؟ انہوں نے کہا کہ رمضان میں اپنی بیوی سے صحبت کرلی۔ نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا کہ کوئی غلام ہے ؟ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ دریافت فرمایا متواتر دو مہینے روزے رکھ سکتے ہو، انہوں نے کہا کہ نہیں۔ دریافت فرمایا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکتے ہو ؟ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر ایک انصاری صحابی عرق لے کر حاضر ہوئے، عرق ایک پیمانہ ہے، اس میں کھجوریں تھیں، نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اسے لے جا اور صدقہ کر دے۔ انہوں نے پوچھا : یا رسول اللہ ! کیا میں اپنے سے زیادہ ضرورت مند پر صدقہ کروں ؟ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے۔ ان دونوں میدانوں کے درمیان کوئی گھرانہ ہم سے زیادہ محتاج نہیں ہے پھر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جا اور اپنے گھر والوں ہی کو کھلا دے۔

【88】

کفارہ میں دس مسکینوں کو دیا جائے خواہ وہ نزدیک کے یا دور کے ہوں

ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے حمید بن عبدالرحمٰن نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ ایک صاحب نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میں تو تباہ ہوگیا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کیا بات ہے ؟ کہا کہ میں نے رمضان میں اپنی بیوی سے صحبت کرلی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تمہارے پاس کوئی غلام ہے جسے آزاد کرسکو ؟ انہوں نے کہا نہیں۔ دریافت فرمایا، کیا متواتر دو مہینے تم روزے رکھ سکتے ہو ؟ کہا کہ نہیں، دریافت فرمایا کیا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکتے ہو ؟ عرض کیا کہ اس کے لیے بھی میرے پاس کچھ نہیں ہے۔ اس کے بعد نبی کریم ﷺ کے پاس ایک ٹوکرا لایا گیا جس میں کھجوریں تھیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اسے لے جا اور صدقہ کر۔ انہوں نے پوچھا کہ اپنے سے زیادہ محتاج پر ؟ ان دونوں میدان کے درمیان ہم سے زیادہ محتاج کوئی نہیں ہے۔ آخر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اچھا اسے لے جا اور اپنے گھر والوں کو کھلا دے۔

【89】

کفارہ میں دس مسکینوں کو دیا جائے خواہ وہ نزدیک کے یا دور کے ہوں

ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے قاسم بن مالک مزنی نے بیان کیا، کہا ہم سے جعید بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، ان سے سائب بن یزید (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں ایک صاع تمہارے زمانہ کے مد سے ایک مد اور تہائی کے برابر ہوتا تھا۔ بعد میں عمر بن عبدالعزیز کے زمانہ میں اس میں زیادتی کی گئی۔

【90】

مدینہ میں صاع اور نبی ﷺ کے مد اور اس میں برکت اور اس امر کا بیان جو اہل مدینہ میں نسلا بعد نسل منتقل ہوتی آئی ہے۔۔

ہم سے منذر بن الولید الجارودی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوقتیبہ، سلم شعیری نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے، ان سے نافع نے بیان کیا کہ ابن عمر (رض) رمضان کا فطرانہ نبی کریم ﷺ ہی کے پہلے مد کے وزن سے دیتے تھے اور قسم کا کفارہ بھی نبی کریم ﷺ کے مد سے ہی دیتے تھے۔ ابوقتیبہ نے اسی سند سے بیان کیا کہ ہم سے امام مالک نے بیان کیا کہ ہمارا مد تمہارے مد سے بڑا ہے اور ہمارے نزدیک ترجیح صرف نبی کریم ﷺ ہی کے مد کو ہے۔ اور مجھ سے امام مالک نے بیان کیا کہ اگر ایسا کوئی حاکم آیا جو نبی کریم ﷺ کے مد سے چھوٹا مد مقرر کر دے تو تم کس حساب سے (صدقہ فطر وغیرہ) نکا لو گے ؟ میں نے عرض کیا کہ ایسی صورت میں ہم نبی کریم ﷺ ہی کے مد کے حساب سے فطرہ نکالا کریں گے ؟ انہوں نے کہا کہ کیا تم دیکھتے نہیں کہ معاملہ ہمیشہ نبی کریم ﷺ ہی کے مد کی طرف لوٹتا ہے۔

【91】

مدینہ میں صاع اور نبی ﷺ کے مد اور اس میں برکت اور اس امر کا بیان جو اہل مدینہ میں نسلا بعد نسل منتقل ہوتی آئی ہے۔۔

ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہمیں امام مالک نے خبر دی، انہیں اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے اور ان سے انس بن مالک (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے اللہ ! ان کے كيل پیمانے میں ان کے صاع اور ان کے مد میں برکت عطا فرما۔

【92】

اللہ تعالیٰ کا قول کہ یا ایک غلام کا آزاد کرنا ہے۔ اور یا اس امر کا بیان کہ کس قسم کا غلام آزاد کرنا بہتر ہے۔

ہم سے محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا، کہا ہم سے داؤد بن رشید نے بیان کیا، کہا ہم سے ولید بن مسلم نے بیان کیا، ان سے ابوغسان محمد بن مطرف نے، ان سے زید بن اسلم نے، ان سے زین العابدین علی بن حسین نے، ان سے سعید ابن مرجانہ نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جس نے کسی مسلمان غلام کو آزاد کیا تو اللہ تعالیٰ اس کے ایک ایک ٹکڑے کے بدلے آزاد کرنے والے کا ایک ایک ٹکڑا جہنم سے آزاد کرے گا۔ یہاں تک کہ غلام کی شرمگاہ کے بدلے آزاد کرنے والے کی شرمگاہ بھی دوزخ سے آزاد ہوجائے گی۔

【93】

کفارہ میں مکاتب اور ام ولد اور مدبر اور ولد الزنا کے آزاد کرنے کا بیان۔ اور طاؤس نے کہا کہ مدبر اور ام ولد بھی کافی ہوگا۔

ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم کو حماد بن زید نے خبر دی، انہیں عمرو بن دینار نے اور ان سے جابر (رض) نے کہ قبیلہ انصار کے ایک صاحب نے اپنے غلام کو مدبر بنا لیا اور ان کے پاس اس غلام کے سوا اور کوئی مال نہیں تھا۔ جب اس کی اطلاع نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی تو آپ نے دریافت فرمایا کہ مجھ سے اس غلام کو کون خریدتا ہے۔ نعیم بن نحام (رض) نے آٹھ سو درہم میں نبی کریم ﷺ سے اسے خرید لیا۔ میں نے جابر (رض) کو یہ کہتے سنا کہ وہ ایک قبطی غلام تھا اور پہلے سال مرگیا۔ نبی کریم ﷺ نے اسے نیلام فرما کر اس رقم سے اسے مکمل آزاد کرا دیا۔

【94】

جب کفارہ میں غلام آزاد کرے تو اس کی ولاء کس کے لئے ہوگی؟

ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کے، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے حکم بن عتبہ نے، ان سے ابراہیم نخعی نے، ان سے اسود بن یزید نے اور ان سے عائشہ (رض) نے کہ انہوں نے بریرہ (رض) کو (آزاد کرنے کے لیے) خریدنا چاہا، تو ان کے پہلے مالکوں نے اپنے لیے ولاء کی شرط لگائی۔ میں نے اس کا ذکر نبی کریم ﷺ سے کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ خرید لو، ولاء تو اسی سے ہوتی ہے جو آزاد کرتا ہے۔

【95】

قسم میں انشاء اللہ کہنے کا بیان۔

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے غیلان بن جریر نے، ان سے ابوبردہ بن ابی موسیٰ نے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری (رض) نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں قبیلہ اشعر کے چند لوگوں کے ساتھ حاضر ہوا اور آپ سے سواری کے لیے جانور مانگے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کی قسم میں تمہیں سواری کے جانور نہیں دے سکتا۔ پھر جب تک اللہ تعالیٰ نے چاہا ہم ٹھہرے رہے اور جب کچھ اونٹ آئے تو تین اونٹ ہمیں دئیے جانے کا حکم فرمایا۔ جب ہم انہیں لے کر چلے تو ہم میں سے بعض نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ہمیں اللہ اس میں برکت نہیں دے گا۔ ہم نبی کریم ﷺ کے پاس سواری کے جانور مانگنے آئے تھے تو آپ نے قسم کھالی تھی کہ ہمیں سواری کے جانور نہیں دے سکتے اور آپ نے عنایت فرمائے ہیں۔ ابوموسیٰ (رض) نے بیان کیا کہ پھر ہم نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے تمہارے لیے جانور کا انتظام نہیں کیا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے کیا ہے، اللہ کی قسم ! اگر اللہ نے چاہا تو جب بھی میں کوئی قسم کھا لوں گا اور پھر اس کے سوا اور چیز میں اچھائی ہوگی تو میں اپنی قسم کا کفارہ دے دوں گا اور وہی کام کروں گا جس میں اچھائی ہوگی۔

【96】

قسم میں انشاء اللہ کہنے کا بیان۔

ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، انہوں نے (اس روایت میں یہ ترتیب اسی طرح) بیان کی کہ میں قسم کا کفارہ ادا کر دوں گا اور وہ کام کروں گا جس میں اچھائی ہوگی یا (اس طرح نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ) میں کام وہ کروں گا جس میں اچھائی ہوگی اور کفارہ ادا کر دوں گا۔

【97】

قسم میں انشاء اللہ کہنے کا بیان۔

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے ہشام بن حجیر نے، ان سے طاؤس نے، انہوں نے ابوہریرہ (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ سلیمان (علیہ السلام) نے کہا تھا کہ آج رات میں اپنی نوے بیویوں کے پاس جاؤں گا اور ہر بیوی ایک بچہ جنے گی جو اللہ کے راستے میں جہاد کریں گے۔ ان کے ساتھی سفیان یعنی فرشتے نے ان سے کہا۔ اجی انشاء اللہ تو کہو لیکن آپ بھول گئے اور پھر تمام بیویوں کے پاس گئے لیکن ایک بیوی کے سوا جس کے یہاں ناتمام بچہ ہوا تھا کسی بیوی کے یہاں بھی بچہ نہیں ہوا۔ ابوہریرہ (رض) روایت کرتے ہوئے کہتے تھے کہ اگر انہوں نے انشاء اللہ کہہ دیا ہوتا تو ان کی قسم بےکار نہ جاتی اور اپنی ضرورت کو پالیتے اور ایک مرتبہ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے کہا کہ اگر انہوں نے استثناء کردیا ہوتا۔ اور ہم سے ابوالزناد نے اعرج سے ابوہریرہ (رض) کی حدیث کی طرح بیان کیا۔

【98】

قسم توڑنے سے پہلے اور اس کے بعد کفارہ دینے کا بیان

ہم سے علی بن حجر نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن ابراہیم نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے، ان سے قاسم تمیمی نے، ان سے زہدم جرمی نے بیان کیا کہ ہم ابوموسیٰ اشعری (رض) کے پاس تھے اور ہمارے قبیلہ اور اس قبیلہ جرم میں بھائی چارگی اور باہمی حسن معاملہ کی روش تھی۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر کھانا لایا گیا اور کھانے میں مرغی کا گوشت بھی تھا۔ راوی نے بیان کیا کہ حاضرین میں بنی تیم اللہ کا ایک شخص سرخ رنگ کا بھی تھا جیسے مولیٰ ہو۔ بیان کیا کہ وہ شخص کھانے پر نہیں آیا تو موسیٰ (رض) نے اس سے کہا کہ شریک ہوجاؤ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس کا گوشت کھاتے دیکھا ہے۔ اس شخص نے کہا کہ میں نے اسے گندگی کھاتے دیکھا تھا جب سے اس سے گھن آنے لگی اور اسی وقت میں نے قسم کھالی کہ کبھی اس کا گوشت نہیں کھاؤں گا۔ ابوموسیٰ نے کہا : قریب آؤ میں تمہیں اس کے متعلق بتاؤں گا۔ ہم رسول اللہ ﷺ کے یہاں اشعریوں کی ایک جماعت کے ساتھ آئے اور میں نے نبی کریم ﷺ سے سواری کا جانور مانگا۔ نبی کریم ﷺ اس وقت صدقہ کے اونٹوں میں سے تقسیم کر رہے تھے۔ ایوب نے بیان کیا کہ میرا خیال ہے کہ ابوموسیٰ (رض) نے کہا کہ نبی کریم ﷺ اس وقت غصہ تھے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کی قسم ! میں تمہیں سواری کے جانور نہیں دے سکتا اور نہ میرے پاس کوئی ایسی چیز ہے جو سواری کے لیے تمہیں دے سکوں۔ بیان کیا کہ پھر ہم واپس آگئے۔ پھر نبی کریم ﷺ کے پاس غنیمت کے اونٹ آئے، تو پوچھا گیا کہ اشعریوں کی جماعت کہاں ہے۔ ہم حاضر ہوئے تو نبی کریم ﷺ نے ہمیں پانچ عمدہ اونٹ دئیے جانے کا حکم دیا۔ بیان کیا کہ ہم وہاں سے روانہ ہوئے تو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ہم پہلے نبی کریم ﷺ کے پاس سواری کے لیے آئے تھے تو آپ نے قسم کھالی تھی کہ سواری کا انتظام نہیں کرسکتے۔ پھر ہمیں بلا بھیجا اور سواری کا جانور عنایت فرمائے۔ نبی کریم ﷺ اپنی قسم بھول گئے ہوں گے۔ واللہ ! اگر ہم نے نبی کریم ﷺ کو آپ کی قسم کے بارے میں غفلت میں رکھا تو ہم کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ چلو ہم سب آپ کے پاس واپس چلیں اور آپ کو آپ کی قسم یاد دلائیں۔ چناچہ ہم واپس آئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ہم پہلے آئے تھے اور آپ سے سواری کا جانور مانگا تھا تو آپ نے قسم کھالی تھی کہ آپ اس کا انتظام نہیں کرسکتے، ہم نے سمجھا کہ آپ اپنی قسم بھول گئے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جاؤ، تمہیں اللہ نے سواری دی ہے، واللہ اگر اللہ نے چاہا تو میں جب بھی کوئی قسم کھا لوں اور پھر دوسری چیز کو اس کے مقابل بہتر سمجھوں تو وہی کروں گا جو بہتر ہوگا اور اپنی قسم توڑ دوں گا۔ اس روایت کی متابعت حماد بن زید نے ایوب سے کی، ان سے ابوقلابہ اور قاسم بن عاصم کلیبی نے۔

【99】

قسم توڑنے سے پہلے اور اس کے بعد کفارہ دینے کا بیان

مجھ سے محمد بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عثمان بن عمر بن فارس نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عبداللہ ابن عون نے خبر دی، انہیں امام حسن بصری نے، ان سے عبدالرحمٰن بن سمرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کبھی تم حکومت کا عہدہ طلب نہ کرنا کیونکہ اگر بلا مانگے تمہیں یہ مل جائے گا تو اس میں تمہاری منجانب اللہ مدد کی جائے گی، لیکن اگر مانگنے پر ملا تو سارا بوجھ تمہیں پر ڈال دیا جائے گا اور اگر تم کوئی قسم کھالو اور اس کے سوا کوئی اور بات بہتر نظر آئے تو وہی کرو جو بہتر ہو اور قسم کا کفارہ ادا کر دو ۔ عثمان بن عمر کے ساتھ اس حدیث کو اشہل بن حاتم نے بھی عبداللہ بن عون سے روایت کیا، اس کو ابوعوانہ اور حاکم نے وصل کیا اور عبداللہ بن عون کے ساتھ اس حدیث کو یونس اور سماک بن عطیہ اور سماک بن حرب اور حمید اور قتادہ اور منصور اور ہشام اور ربیع نے بھی روایت کیا۔