71. خون بہا کا بیان
اللہ تعالیٰ کا قول کہ جس نے کسی مومن کو متعمدا قتل کیا تو اس کا بدلہ جہنم ہے
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابو وائل نے، ان سے عمرو بن شرجیل نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ ایک صاحب یعنی خود آپ نے کہا : یا رسول اللہ ! اللہ کے نزدیک کون سا گناہ سب سے بڑا ہے ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا یہ کہ تم اللہ کا کسی کو شریک ٹھہراؤ جبکہ اس نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ پوچھا : پھر کون سا ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پھر یہ کہ تم اپنے لڑکے کو اس ڈر سے مار ڈالو کہ وہ تمہارے ساتھ کھانا کھائے گا۔ پوچھا : پھر کون سا ؟ فرمایا پھر یہ کہ تم اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرو۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس کی تصدیق میں یہ آیت نازل کی والذين لا يدعون مع الله إلها آخر ولا يقتلون النفس التي حرم الله إلا بالحق ولا يزنون ومن يفعل ذلک يلق أثاما يضاعف له العذاب اور وہ لوگ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور نہ کسی ایسے انسان کی ناحق جان لیتے ہیں جسے اللہ نے حرام کیا اور نہ زنا کرتے ہیں اور جو کوئی ایسا کرے گا۔ آخر آیت تک۔
اللہ تعالیٰ کا قول کہ جس نے کسی مومن کو متعمدا قتل کیا تو اس کا بدلہ جہنم ہے
ہم سے علی بن جعد نے بیان کیا، کہا ہم سے اسحاق بن سعید بن عمرو بن سعد بن العاص (رض) نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابن عمر (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مومن اس وقت تک اپنے دین کے بارے میں برابر کشادہ رہتا ہے (اسے ہر وقت مغفرت کی امید رہتی ہے) جب تک ناحق خون نہ کرے جہاں ناحق کیا تو مغفرت کا دروازہ تنگ ہوجاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا قول کہ جس نے کسی مومن کو متعمدا قتل کیا تو اس کا بدلہ جہنم ہے
مجھ سے احمد بن یعقوب نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے اسحاق نے بیان کیا، انہوں نے کہا میں نے اپنے والد سے سنا، وہ عبداللہ بن عمر (رض) سے بیان کرتے تھے کہ ہلاکت کا بھنور جس میں گرنے کے بعد پھر نکلنے کی امید نہیں ہے وہ ناحق خون کرنا ہے، جس کو اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا قول کہ جس نے کسی مومن کو متعمدا قتل کیا تو اس کا بدلہ جہنم ہے
ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابو وائل نے اور ان سے عبداللہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سب سے پہلے (قیامت کے دن) لوگوں کے درمیان خون خرابے کے فیصلہ جات کئے جائیں گے۔
اللہ تعالیٰ کا قول کہ جس نے کسی مومن کو متعمدا قتل کیا تو اس کا بدلہ جہنم ہے
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن مبارک نے بیان کیا، کہا ہم کو یونس نے خبر دی، ان سے زہری نے، کہا مجھ سے عطاء بن یزید نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ بن عدی نے بیان کیا، ان سے بنی زہرہ کے حلیف مقداد بن عمرو الکندی (رض) نے بیان کیا وہ بدر کی لڑائی میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ شریک تھے کہ آپ نے پوچھا : یا رسول اللہ ! اگر جنگ کے دوران میری کسی کافر سے مڈبھیڑ ہوجائے اور ہم ایک دوسرے کو قتل کرنے کی کوشش کرنے لگیں پھر وہ میرے ہاتھ پر اپنی تلوار مار کر اسے کاٹ دے اور اس کے بعد کسی درخت کی آڑ لے کر کہے کہ میں اللہ پر ایمان لایا تو کیا میں اسے اس کے اس اقرار کے بعد قتل کرسکتا ہوں ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اسے قتل نہ کرنا۔ انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! اس نے تو میرا ہاتھ بھی کاٹ ڈالا اور یہ اقرار اس وقت کیا جب اسے یقین ہوگیا کہ اب میں اسے قتل ہی کر دوں گا ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اسے قتل نہ کرنا کیونکہ اگر تم نے اسے اسلام لانے کے بعد قتل کردیا تو وہ تمہارے مرتبہ میں ہوگا جو تمہارا اسے قتل کرنے سے پہلے تھا یعنی معصوم معلوم الدم اور تم اس کے مرتبہ میں ہو گے جو اس کا اس کلمہ کے اقرار سے پہلے تھا جو اس نے اب کیا ہے (یعنی ظالم مباح الدم) ۔ اور حبیب بن ابی عمرہ نے بیان کیا، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے مقداد (رض) سے فرمایا تھا کہ اگر کوئی مسلمان کافروں کے ساتھ رہتا ہو پھر وہ ڈر کے مارے اپنا ایمان چھپاتا ہو، اگر وہ اپنا ایمان ظاہر کر دے اور تو اس کو مار ڈالے یہ کیوں کر درست ہوگا خود تم بھی تو مکہ میں پہلے اپنا ایمان چھپاتے تھے۔
اللہ تعالیٰ کا قول ومن احیاھا کی تفسیر۔ ابن عباس نے کہا کہ جس کا سوائے حق کے قتل کرنا حرام ہے اس کو بچالیا تو اس سے تمام لوگ زندہ رہے
ہم سے قبیصہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے عبداللہ بن مرہ نے، ان سے مسروق نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو جان ناحق قتل کی جائے اس کے (گناہ کا) ایک حصہ آدم (علیہ السلام) کے پہلے بیٹے (قابیل پر) پڑتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا قول ومن احیاھا کی تفسیر۔ ابن عباس نے کہا کہ جس کا سوائے حق کے قتل کرنا حرام ہے اس کو بچالیا تو اس سے تمام لوگ زندہ رہے
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہیں واقد بن عبداللہ نے خبر دی، انہوں نے کہا مجھ کو میرے والد نے اور انہوں نے عبداللہ بن عمر (رض) سے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ تم میں سے بعض بعض کی گردن مارنے لگ جاؤ۔
اللہ تعالیٰ کا قول ومن احیاھا کی تفسیر۔ ابن عباس نے کہا کہ جس کا سوائے حق کے قتل کرنا حرام ہے اس کو بچالیا تو اس سے تمام لوگ زندہ رہے
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے علی بن مدرک نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے ابوزرعہ بن عمرو بن جریر سے سنا، ان سے جریر بن عبداللہ بجلی (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے حجۃ الوداع کے دن فرمایا لوگوں کو خاموش کرا دو ، (پھر فرمایا) تم میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ تم میں سے بعض بعض کی گردن مارنے لگے۔ اس حدیث کی روایت ابوبکر اور ابن عباس رضی اللہ عنہم نے نبی کریم ﷺ سے کی ہے۔
اللہ تعالیٰ کا قول ومن احیاھا کی تفسیر۔ ابن عباس نے کہا کہ جس کا سوائے حق کے قتل کرنا حرام ہے اس کو بچالیا تو اس سے تمام لوگ زندہ رہے
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، انہوں نے کہا، ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے فراس نے، ان سے شعبی نے اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کبیرہ گناہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، والدین کی نافرمانی کرنا یا فرمایا کہ ناحق دوسرے کا مال لینے کے لیے جھوٹی قسم کھانا ہیں۔ شک شعبہ کو تھا اور معاذ نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کبیرہ گناہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، کسی کا مال ناحق لینے کے لیے جھوٹی قسم کھانا اور والدین کی نافرمانی کرنا یا کہا کہ کسی کی جان لینا۔
اللہ تعالیٰ کا قول ومن احیاھا کی تفسیر۔ ابن عباس نے کہا کہ جس کا سوائے حق کے قتل کرنا حرام ہے اس کو بچالیا تو اس سے تمام لوگ زندہ رہے
ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالصمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبیداللہ بن ابی بکر (رض) نے بیان کیا، انہوں نے انس بن مالک (رض) سے سنا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا گناہ کبیرہ اور ہم سے عمرو نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابوبکر نے اور ان سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا سب سے بڑے گناہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، کسی کی ناحق جان لینا، والدین کی نافرمانی کرنا اور جھوٹ بولنا ہیں یا فرمایا کہ جھوٹی گواہی دینا۔
اللہ تعالیٰ کا قول ومن احیاھا کی تفسیر۔ ابن عباس نے کہا کہ جس کا سوائے حق کے قتل کرنا حرام ہے اس کو بچالیا تو اس سے تمام لوگ زندہ رہے
ہم سے عمرو بن زرارہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشیم نے بیان کیا، کہا ہم سے حصین نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوظبیان نے بیان کیا، کہا کہ میں نے اسامہ بن زید بن حارثہ (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے قبیلہ جہینہ کی ایک شاخ کی طرف (مہم پر) بھیجا۔ بیان کیا کہ پھر ہم نے ان لوگوں کو صبح کے وقت جا لیا اور انہیں شکست دے دی۔ راوی نے بیان کیا کہ میں اور قبیلہ انصار کے ایک صاحب قبیلہ جہینہ کے ایک شخص تک پہنچے اور جب ہم نے اسے گھیر لیا تو اس نے کہا لا إله إلا الله انصاری صحابی نے تو (یہ سنتے ہی) ہاتھ روک لیا لیکن میں نے اپنے نیزے سے اسے قتل کردیا۔ راوی نے بیان کیا کہ جب ہم واپس آئے تو اس واقعہ کی خبر نبی کریم ﷺ کو ملی۔ بیان کیا کہ پھر نبی کریم ﷺ نے مجھ سے فرمایا اسامہ ! کیا تم نے کلمہ لا إله إلا الله کا اقرار کرنے کے بعد اسے قتل کر ڈالا۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! اس نے صرف جان بچانے کے لیے اس کا اقرار کیا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے پھر فرمایا تم نے اسے لا إله إلا الله کا اقرار کرنے کے بعد قتل کر ڈالا۔ بیان کیا کہ نبی کریم اس جملہ کو اتنی دفعہ دہراتے رہے کہ میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوگئی کہ کاش میں اس سے پہلے مسلمان نہ ہوا ہوتا۔
اللہ تعالیٰ کا قول ومن احیاھا کی تفسیر۔ ابن عباس نے کہا کہ جس کا سوائے حق کے قتل کرنا حرام ہے اس کو بچالیا تو اس سے تمام لوگ زندہ رہے
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید نے بیان کیا، ان سے ابوالخیر نے، ان سے صنابحی نے اور ان سے عبادہ بن صامت (رض) نے بیان کیا کہ میں ان نقیبوں میں سے تھا جنہوں نے (منیٰ میں لیلۃ العقبہ کے موقع پر) رسول اللہ ﷺ سے بیعت کی تھی۔ ہم نے اس کی بیعت (عہد) کی تھی کہ ہم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے، ہم چوری نہیں کریں گے، زنا نہیں کریں گے، کسی کی ناحق جان نہیں لیں گے جو اللہ نے حرام کی ہے، ہم لوٹ مار نہیں کریں گے اور آپ ﷺ کی نافرمانی نہیں کریں گے اور یہ کہ اگر ہم نے اس پر عمل کیا تو ہمیں جنت ملے گی اور اگر ہم نے ان میں سے کسی طرح کا گناہ کیا تو اس کا فیصلہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے یہاں ہوگا۔
اللہ تعالیٰ کا قول ومن احیاھا کی تفسیر۔ ابن عباس نے کہا کہ جس کا سوائے حق کے قتل کرنا حرام ہے اس کو بچالیا تو اس سے تمام لوگ زندہ رہے
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے جویریہ نے بیان کیا، ان سے نافع نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جس نے ہم پر ہتھیار اٹھایا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ ابوموسیٰ (رض) نے بھی نبی کریم ﷺ سے یہ حدیث روایت کی ہے۔
باب
باب : اللہ تعالیٰ نے ( سورة البقرہ میں) فرمایا اے ایمان والو ! تم میں جو لوگ قتل کئے جائیں ان کا قصاص فرض کیا گیا ہے ، آزاد کے بدلہ میں آزاد اور غلام کے بدلہ میں غلام اور عورت کے بدلہ میں عورت ، ہاں جس کسی کو اس کے فریق کے مقابل کی طرف سے قصاص کا کوئی حصہ معاف کردیا جائے سو مطالبہ معقول اور نرم طریق پر کرنا چاہیے اور دیت کو اس فریق کے پاس خوبی سے پہنچا دینا چاہیے ، یہ تمہارے پروردگار کی طرف سے رعایت اور مہربانی ہے سو جو کوئی اس کے بعد بھی زیادتی کرے اس کے لیے آخرت میں درد ناک عذاب ہے
قاتل سے سوال کرنا یہاں تک کہ وہ اقرار کرلے۔ اور حدود میں اقرار کرنے کا بیان۔
ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمام بن یحییٰ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس بن مالک (رض) نے کہ ایک یہودی نے ایک لڑکی کا سر دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا پھر اس لڑکی سے پوچھا گیا کہ یہ کس نے کیا ہے ؟ فلاں نے، فلاں نے ؟ آخر جب اس یہودی کا نام لیا گیا (تو لڑکی نے سر کے اشارہ سے ہاں کہا) پھر یہودی کو نبی کریم ﷺ کے یہاں لایا گیا اور اس سے پوچھ گچھ کی جاتی رہی یہاں تک کہ اس نے جرم کا اقرار کرلیا چناچہ کا سر بھی پتھروں سے کچلا گیا۔
جب کوئی شخض کسی کو پتھر سے یا ڈنڈے سے قتل کرے
ہم سے محمد نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن ادریس نے خبر دی، انہیں شعبہ نے، انہیں ہشام بن زید بن انس نے، ان سے ان کے دادا انس بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ مدینہ منورہ میں ایک لڑکی چاندی کے زیور پہنے باہر نکلی۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر اسے ایک یہودی نے پتھر سے مار دیا۔ جب اسے نبی کریم ﷺ کے پاس لایا گیا تو ابھی اس میں جان باقی تھی۔ نبی کریم ﷺ نے پوچھا تمہیں فلاں نے مارا ہے ؟ اس پر لڑکی نے اپنا سر (انکار کے لیے) اٹھایا، پھر نبی کریم ﷺ نے پوچھا تمہیں فلاں نے مارا ہے ؟ لڑکی نے اس پر بھی اٹھایا۔ تیسری مرتبہ نبی کریم ﷺ نے پوچھا، فلاں نے تمہیں مارا ہے ؟ اس پر لڑکی نے اپنا سر نیچے کی طرف جھکا لیا (اقرار کرتے ہوئے جھکا لیا) چناچہ نبی کریم ﷺ نے اس شخص کو بلایا تب آپ ﷺ نے دو پتھروں سے کچل کر اسے قتل کرایا۔
اللہ تعالیٰ کا قول کہ جان کے بدلے جان۔ اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت اور زخموں کے بھی بدلے ہیں پس جس نے صدقہ کیا تو وہ کفارہ ہے اور جس نے اس کے مطابق فیصلہ نہیں کیا جو اللہ تعالیٰ نے نازل کیا ہے تو ایسے لوگ ظالم ہیں۔
ہم سے عمر بن حفص نے بیان کیا، کہا ہم سے میرے والد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن مرہ نے بیان کیا، ان سے مسروق نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کسی مسلمان کا خون جو کلمہ لا الہٰ الا اللہ محمد رسول اللہ کا ماننے والا ہو حلال نہیں ہے البتہ تین صورتوں میں جائز ہے۔ جان کے بدلہ جان لینے والا، شادی شدہ ہو کر زنا کرنے والا اور اسلام سے نکل جانے والا (مرتد) جماعت کو چھوڑ دینے والا۔
پتھر سے مار ڈالنے کے قصاص کا بیان
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ہشام بن زید اور ان سے انس (رض) نے بیان کیا کہ ایک یہودی نے ایک لڑکی کو اس کے چاندی کے زیور کے لالچ میں مار ڈالا تھا۔ اس نے لڑکی کو پتھر سے مارا پھر لڑکی نبی کریم ﷺ کے پاس لائی گئی تو اس کے جسم میں جان باقی تھی۔ نبی کریم ﷺ نے پوچھا کیا تمہیں فلاں نے مارا ہے ؟ اس نے سر کے اشارہ سے انکار کیا۔ نبی کریم ﷺ نے دوبارہ پوچھا، کیا تمہیں فلاں نے مارا ہے ؟ اس مرتبہ بھی اس نے سر کے اشارے سے انکار کیا۔ نبی کریم ﷺ نے جب تیسری مرتبہ پوچھا تو اس نے سر کے اشارہ سے اقرار کیا۔ چناچہ نبی کریم ﷺ نے یہودی کو دو پتھروں میں کچل کر قتل کردیا۔
جس کا کوئی آدمی قتل کیا گیا تو اس کو دو امر یعنی قصاص یا دیت میں سے ایک کا اختیار ہے
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے شیبان نحوی نے، ان سے یحییٰ نے، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ قبیلہ خزاعہ کے لوگوں نے ایک آدمی کو قتل کردیا تھا۔ اور عبداللہ بن رجاء نے کہا، ان سے حرب بن شداد نے، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے، ان سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ فتح مکہ کے موقع پر قبیلہ خزاعہ نے بنی لیث کے ایک شخص (ابن اثوع) کو اپنے جاہلیت کے مقتول کے بدلہ میں قتل کردیا تھا۔ اس پر رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ سے ہاتھیوں کے (شاہ یمن ابرہہ کے) لشکر کو روک دیا تھا لیکن اس نے اپنے رسول اور مومنوں کو اس پر غلبہ دیا۔ ہاں یہ مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال نہیں ہوا تھا اور نہ میرے بعد کسی کے لیے حلال ہوگا اور میرے لیے بھی دن کو صرف ایک ساعت کے لیے۔ اب اس وقت سے اس کی حرمت پھر قائم ہوگئی۔ (سن لو) اس کا کانٹا نہ اکھاڑا جائے، اس کا درخت نہ تراشا جائے اور سوا اس کے جو اعلان کرنے کا ارادہ رکھتا ہے کوئی بھی یہاں کی گری ہوئی چیز نہ اٹھائے اور دیکھو جس کا کوئی عزیز قتل کردیا جائے تو اسے دو باتوں میں اختیار ہے یا اسے اس کا خون بہا دیا جائے یا قصاص دیا جائے۔ یہ وعظ سن کر اس پر ایک یمنی صاحب ابوشاہ نامی کھڑے ہوئے اور کہا : یا رسول اللہ ! اس وعظ کو میرے لیے لکھوا دیجئیے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا یہ وعظ ابوشاہ کے لیے لکھ دو ۔ اس کے بعد قریش کے ایک صاحب عباس (رض) کھڑے ہوئے اور کہا : یا رسول اللہ اذخر گھاس کی اجازت فرما دیجئیے کیونکہ ہم اسے اپنے گھروں میں اور اپنی قبروں میں بچھاتے ہیں۔ چناچہ نبی کریم ﷺ نے اذخر گھاس اکھاڑنے کی اجازت دے دی۔ اور اس روایت کی متابعت عبیداللہ نے شیبان کے واسطہ سے ہاتھیوں کے واقعہ کے ذکر کے سلسلہ میں کی۔ بعض نے ابونعیم کے حوالہ سے القتل. کا لفظ روایت کا ہے اور عبیداللہ نے بیان کیا کہ یا مقتول کے گھر والوں کو قصاص دیا جائے۔
جس کا کوئی آدمی قتل کیا گیا تو اس کو دو امر یعنی قصاص یا دیت میں سے ایک کا اختیار ہے
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے بیان کیا، ان سے مجاہد بن جبیر نے بیان کیا، اور ان سے عبداللہ بن عباس (رض) نے بیان کیا کہ بنی اسرائیل میں صرف قصاص کا رواج تھا، دیت کی صورت نہیں تھی۔ پھر اس امت کے لیے یہ حکم نازل ہوا كتب عليكم القصاص في القتلى الخ۔ ابن عباس نے کہا فمن عفي له من أخيه شىء سے یہی مراد ہے کہ مقتول کے وارث قتل عمد میں دیت پر راضی ہوجائیں اور فاتباع بالمعروف سے یہ مراد ہے کہ مقتول کے وارث دستور کے موافق قاتل سے دیت کا تقاضا کریں وآداء اليه باحسان سے یہ مراد ہے کہ قاتل اچھی طرح خوش دلی سے دیت ادا کرے۔
اس شخص کا بیان جو کسی کا خون ناحق کرنا چاہے
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں عبداللہ بن ابی حسین نے، ان سے نافع بن جبیر نے بیان کیا اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک لوگوں (مسلمانوں) میں سب سے زیادہ مبغوض تین طرح کے لوگ ہیں۔ حرم میں زیادتی کرنے والا، دوسرا جو اسلام میں جاہلیت کی رسموں پر چلنے کا خواہشمند ہو، تیسرے وہ شخص جو کسی آدمی کا ناحق خون کرنے کے لیے اس کے پیچھے لگے۔
باب
باب : اللہ تعالیٰ نے ( سورة نساء میں) فرمایا اور یہ کسی مومن کیلئے مناسب نہیں کہ وہ کسی مومن کو ناحق قتل کر دے ، بجز اس کے کہ غلطی سے ایسا ہوجائے اور جو کوئی کسی مومن کو غلطی سے قتل کر ڈالے تو ایک مسلمان غلام کا آزاد کرنا اس پر واجب ہے اور دیت بھی جو اس کے عزیزوں کے حوالہ کی جائے سوا اس کے کہ وہ لوگ خود ہی اسے معاف کردیں تو اگر وہ ایسی قوم میں ہو جو تمہاری دشمن ہے درآں حالیکہ وہ بذات خود مومن ہے تو ایک مسلمان غلام کا آزاد کرنا واجب ہے اور اگر ایسی قوم میں سے ہو کہ تمہارے اور ان کے درمیان معاہدہ ہے تو دیت واجب ہے جو اس کے عزیزوں کے حوالہ کی جائے اور ایک مسلم غلام کا آزاد کرنا بھی ، پھر جس کو یہ نہ میسر ہو اس پر دو مہینے کے لگاتار روزے رکھنا واجب ہے ، یہ توبہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اللہ بڑا علم والا ہے ، بڑا ہی حکمت والا ہے
جب ایک بار قتل کا اقرار کرے تو اس کو قتل کردیا جائے گا۔
مجھ سے اسحاق نے بیان کیا، کہا ہم کو حبان بن ہلال نے خبر دی، کہا ہم سے ہمام بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے قتادہ نے بیان کیا اور ان سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ ایک یہودی نے ایک لڑکی کا سر دو پتھروں کے درمیان میں لے کر کچل دیا تھا۔ اس لڑکی سے پوچھا گیا کہ یہ تمہارے ساتھ کس نے کیا ؟ کیا فلاں نے کیا ہے ؟ کیا فلاں نے کیا ہے ؟ آخر جب اس یہودی کا نام لیا گیا تو اس نے اپنے سر کے اشارے سے (ہاں) کہا پھر یہودی لایا گیا اور اس نے اقرار کرلیا چناچہ نبی کریم ﷺ کے حکم سے اس کا بھی سر پتھر سے کچل دیا گیا۔ ہمام نے دو پتھروں کا ذکر کیا ہے۔
عورت کے عوض مرد کے قتل کئے جانے کا بیان
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، کہا ہم سے سعید نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس بن مالک (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک یہودی کو ایک لڑکی کے بدلہ میں قتل کرا دیا تھا، یہودی نے اس لڑکی کو چاندی کے زیورات کے لالچ میں قتل کردیا تھا۔
مرد عورت کے درمیان زخموں میں قصاص لینے کا بیان اور اہل علم نے کہا اور مرد عورت کے بدلے قتل کیا جائے اور حضرت عمر سے منقول ہے کہ عورت کا قصاص مرد سے ہر قتل عمد یا اس سے کم تر زخمی ہونے کی صورت میں لیا جائے گا عمر بن عبدالعزیز اور ابراہیم اور ابو زناد نے اپنے اصحاب سے یہی نقل کیا ہے اور ربیع کی بہن نے ایک آدمی کو زخمی کر ڈالا آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ قصاص لو۔
ہم سے عمر بن علی فلاس نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے موسیٰ بن ابی عائشہ نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کے منہ میں (مرض الوفات کے موقع پر) آپ کی مرضی کے خلاف ہم نے دوا ڈالی۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میرے حلق میں دوا نہ ڈالو لیکن ہم نے سمجھا کہ مریض ہونے کی وجہ سے دوا پینے سے نفرت کر رہے ہیں لیکن جب آپ کو ہوش ہوا تو فرمایا کہ تم جتنے لوگ گھر میں ہو سب کے حلق میں زبردستی دوا ڈالی جائے سوا عباس (رض) کے کہ وہ اس وقت موجود نہیں تھے۔
اس شخص کا بیان جو اپنا حق لے یا بادشاہ کی اطلاع کے بغیر قصاص لے
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، کہا ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے اعرج نے بیان کیا، انہوں نے ابوہریرہ (رض) سے سنا، بیان کیا کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہم آخری امت ہیں لیکن (قیامت کے دن) سب سے آگے رہنے والے ہیں۔
اس شخص کا بیان جو اپنا حق لے یا بادشاہ کی اطلاع کے بغیر قصاص لے
اور اسی اسناد کے ساتھ (روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا) اگر کوئی شخص تیرے گھر میں (کسی سوراخ یا جنگلے وغیرہ سے) تم سے اجازت لیے بغیر جھانک رہا ہو اور تم اسے کنکری مارو جس سے اس کی آنکھ پھوٹ جائے تو تم پر کوئی سزا نہیں ہے نہ گناہ ہوگا نہ دنیا کی کوئی سزا لاگو ہوگی۔
اس شخص کا بیان جو اپنا حق لے یا بادشاہ کی اطلاع کے بغیر قصاص لے
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے حمید نے کہ ایک صاحب نبی کریم ﷺ کے گھر میں جھانک رہے تھے تو نبی کریم ﷺ نے ان کی طرف تیر کا پھل بڑھایا تھا۔ میں نے پوچھا کہ یہ حدیث تم سے کس نے بیان کی ہے ؟ تو انہوں نے بیان کیا انس بن مالک (رض) نے۔
اگر کوئی شخص ہجوم میں مر جائے یا قتل ہوجائے۔
مجھ سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم کو ابواسامہ نے خبر دی، انہیں ہشام نے خبر دی، کہا ہم کو ہمارے والد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ احد کی لڑائی میں مشرکین کو پہلے شکست ہوگئی تھی لیکن ابلیس نے چلا کر کہا اے اللہ کے بندو ! پیچھے کی طرف والوں سے بچو ! چناچہ آگے کے لوگ پلٹ پڑے اور آگے والے پیچھے والوں سے (جو مسلمان ہی تھے) بھڑ گئے۔ اچانک حذیفہ (رض) نے دیکھا تو ان کے والد یمان (رض) تھے۔ حذیفہ (رض) نے کہا : اللہ کے بندو ! یہ تو میرے والد ہیں، میرے والد۔ بیان کیا کہ اللہ کی قسم مسلمان انہیں قتل کر کے ہی ہٹے۔ اس پر حذیفہ (رض) نے کہا اللہ تمہاری مغفرت کرے۔ عروہ نے بیان کیا کہ اس واقعہ کا صدمہ حذیفہ (رض) کو آخر وقت تک رہا۔
جب کوئی شخص اپنے کو غلطی سے قتل کردے تو اس کی دیت نہیں ہے۔
ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن ابی عبید نے، اور ان سے سلمہ (رض) نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ خیبر کی طرف نکلے۔ جماعت کے ایک صاحب نے کہا عامر ! ہمیں اپنی حدی سنائیے۔ انہوں نے حدی خوانی شروع کی تو نبی کریم ﷺ نے پوچھا کہ کون صاحب گا گا کر اونٹوں کو ہانک رہے ہیں ؟ لوگوں نے کہا کہ عامر ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، اللہ ان پر رحم کرے۔ صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! آپ نے ہمیں عامر سے فائدہ کیوں نہیں اٹھانے دیا۔ چناچہ عامر (رض) اسی رات کو اپنی ہی تلوار سے شہید ہوگئے۔ لوگوں نے کہا کہ ان کے اعمال برباد ہوگئے، انہوں نے خودکشی کرلی (کیونکہ ایک یہودی پر حملہ کرتے وقت خود اپنی تلوار سے زخمی ہوگئے تھے) جب میں واپس آیا اور میں نے دیکھا کہ لوگ آپس میں کہہ رہے ہیں کہ عامر کے اعمال برباد ہوگئے تو میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : اے اللہ کے نبی ! آپ پر میرے باپ اور ماں فدا ہوں، یہ لوگ کہتے ہیں کہ عامر کے سارے اعمال برباد ہوئے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص یہ کہتا ہے غلط کہتا ہے۔ عامر کو دوہرا اجر ملے گا وہ (اللہ کے راستہ میں) مشقت اٹھانے والے اور جہاد کرنے والے تھے اور کس قتل کا اجر اس سے بڑھ کر ہوگا ؟
جب کوئی کسی کو کاٹے اور اس کے دانت گر جائیں
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے قتادہ نے بیان کیا کہ میں نے زرارہ بن ابی اوفی سے سنا، ان سے عمران بن حصین (رض) نے کہ ایک شخص نے ایک شخص کے ہاتھ میں دانت سے کاٹا تو اس نے اپنا ہاتھ کاٹنے والے کے منہ میں سے کھینچ لیا جس سے اس کے آگے کے دو دانت ٹوٹ گئے پھر دونوں اپنا جھگڑا نبی کریم ﷺ کے پاس لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اپنے ہی بھائی کو اس طرح دانت سے کاٹتے ہو جیسے اونٹ کاٹتا ہے تمہیں دیت نہیں ملے گی۔
جب کوئی کسی کو کاٹے اور اس کے دانت گر جائیں
ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے، ان سے عطاء نے، ان سے صفوان بن یعلیٰ نے اور ان سے ان کے والد نے کہ میں ایک غزوہ میں باہر تھا اور ایک شخص نے دانت سے کاٹ لیا تھا جس کی وجہ سے اس کے آگے کے دانت ٹوٹ گئے تھے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مقدمہ کو باطل قرار دے کر اس کی دیت نہیں دلائی۔
دانت کے بدلے دانت ہے
ہم سے محمد بن عبداللہ انصاری نے بیان کیا، کہا ہم سے حمید طویل نے بیان کیا، ان سے انس (رض) نے کہ نضرت کی بیٹی نے ایک لڑکی کو طمانچہ مارا تھا اور اس کے دانت ٹوٹ گئے تھے۔ لوگ نبی کریم ﷺ کے پاس مقدمہ لائے تو نبی کریم ﷺ نے قصاص کا حکم دیا۔
انگلیوں کی دیت کا بیان
ہم سے آدم نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا یہ اور یہ برابر یعنی چھنگلیا اور انگوٹھا دیت میں برابر ہیں۔
انگلیوں کی دیت کا بیان
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن ابی عدی نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے ان سے قتادہ نے، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے اسی طرح سنا۔
جب چند لوگ ایک شخص کو قتل کریں تو کیا ان سب سے بدلہ یا قصاص لیا جائے گا، اور مطرف نے شعبی سے نقل کیا کہ دو آدمیوں نے ایک شخص کے متعلق گواہی دی، کہ اس نے چوری کی ہے تو حضرت علی نے اس کا ہاتھ کٹوادیا، پھر وہ ایک دوسرے آدمی کو لے کر آئے اور کہا کہ ہم سے غلطی ہوئی (چور یہ ہے) حضرت علی نے ان دونوں کی شہادت باطل کی، اور ان سے پہلے کو دیت دلائی، اور کہا کہ اگر میں جانتا کہ تم نے قصدا ایسا کیا ہے تو میں تمہارے ہاتھ کٹوا دیتا اور مجھ سے ابن بشار نے بواسطہ یحییٰ، عبیداللہ، نافع، ابن عمر نقل کیا ہے کہ ایک لڑکا پوشیدہ طور پر قتل کیا گیا، تو حضرت عمر نے فرمایا کہ اگر اس میں تمام اہل صنعاء شریک ہوتے تو میں ان سب کو قتل کردیتا اور مغیرہ بن حکیم نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ چار آدمیوں نے ایک بچے کو قتل کردیا تو حضرت عمر نے اسی طرح فرمایا اور ابوبکر و ابن زبیر، وعلی، وسوید بن مقرن نے طمانچہ کا قصاص دلایا ہے اور حضرت عمر نے کوڑوں کا قصاص دلوایا ہے حضرت علی نے تین کوڑوں کا قصاص دلایا ہے۔ اور شریح نے کوڑوں اور نوچنے کا قصاص دلایا ہے۔
ہم سے مسدد نے بیان کیا، ہم سے یحییٰ نے، ان سے سفیان نے، ان سے موسیٰ بن ابی عائشہ نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ نے کہ عائشہ (رض) نے کہا، ہم نے نبی کریم ﷺ کے مرض میں آپ کے منہ میں زبردستی دوا ڈالی۔ حالانکہ نبی کریم ﷺ اشارہ کرتے رہے کہ دوا نہ ڈالی جائے لیکن ہم نے سمجھا کہ مریض کو دوا سے جو نفرت ہوتی ہے (اس کی وجہ سے نبی کریم ﷺ فرما رہے ہیں) پھر جب آپ کو افاقہ ہوا تو فرمایا۔ میں نے تمہیں نہیں کہا تھا کہ دوا نہ ڈالو۔ بیان کیا کہ ہم نے عرض کیا کہ آپ نے دوا سے ناگواری کی وجہ سے ایسا کیا ہوگا ؟ اس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے ہر ایک کے منہ میں دوا ڈالی جائے اور میں دیکھتا رہوں گا سوائے عباس کے کیونکہ وہ اس وقت وہاں موجود ہی نہ تھے۔
قسامہ کا بیان۔ اور اشعث بن قیس نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ تیرے دو گواہ ہونے چاہیے، یا اس سے قسم لوں گا اور ابن ابی ملیکہ نے کہا کہ اس کا قصاص حضرت معاویہ نے نہیں لیا، اور عمر بن عبدالعزیز نے عدی بن ارطاة کو جنہیں بصرہ کا حاکم بناکر بھیجا تھا ایک مقتول کے متعلق جوگھی بیچنے والوں کے گھر کے پاس پایا گیا تھا، لکھ کر بھیجا کہ اگر اس کے وارث گواہ پائیں تو خیر ورنہ کسی پر ظلم نہ کرنا اس لئے کہ اس کا فیصلہ قیامت تک نہ ہوسکے گا۔
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے سعید بن عبید نے بیان کیا، ان سے بشیر بن یسار نے، وہ کہتے تھے کہ قبیلہ انصار کے ایک صاحب سہل بن ابی حثمہ نے انہیں خبر دی کہ ان کی قوم کے کچھ لوگ خیبر گئے اور (اپنے اپنے کاموں کے لیے) مختلف جگہوں میں الگ الگ گئے پھر اپنے میں کے ایک شخص کو مقتول پایا۔ جنہیں وہ مقتول ملے تھے، ان سے ان لوگوں نے کہا کہ ہمارے ساتھی کو تم نے قتل کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نہ ہم نے قتل کیا اور نہ ہمیں قاتل کا پتہ معلوم ہے ؟ پھر یہ لوگ نبی کریم ﷺ کے پاس گئے اور کہا : یا رسول اللہ ! ہم خیبر گئے اور پھر ہم نے وہاں اپنے ایک ساتھی کو مقتول پایا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تم میں جو بڑا ہے وہ بات کرے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ قاتل کے خلاف گواہی لاؤ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس کوئی گواہی نہیں ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پھر یہ (یہودی) قسم کھائیں گے (اور ان کی قسم پر فیصلہ ہوگا) انہوں نے کہا کہ یہودیوں کی قسموں کا کوئی اعتبار نہیں۔ نبی کریم ﷺ نے اسے پسند نہیں فرمایا کہ مقتول کا خون رائیگاں جائے چناچہ آپ نے صدقہ کے اونٹوں میں سے سو اونٹ (خود ہی) دیت میں دیئے۔
قسامہ کا بیان۔ اور اشعث بن قیس نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ تیرے دو گواہ ہونے چاہیے، یا اس سے قسم لوں گا اور ابن ابی ملیکہ نے کہا کہ اس کا قصاص حضرت معاویہ نے نہیں لیا، اور عمر بن عبدالعزیز نے عدی بن ارطاة کو جنہیں بصرہ کا حاکم بناکر بھیجا تھا ایک مقتول کے متعلق جوگھی بیچنے والوں کے گھر کے پاس پایا گیا تھا، لکھ کر بھیجا کہ اگر اس کے وارث گواہ پائیں تو خیر ورنہ کسی پر ظلم نہ کرنا اس لئے کہ اس کا فیصلہ قیامت تک نہ ہوسکے گا۔
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوبشر اسماعیل بن ابراہیم الاسدی نے بیان کیا، کہا ہم سے حجاج بن ابی عثمان نے بیان کیا، ان سے آل ابوقلابہ کے غلام ابورجاء نے بیان کیا اس نے کہا کہ مجھ سے ابوقلابہ نے بیان کیا کہ عمر بن عبدالعزیز نے ایک دن دربار عام کیا اور سب کو اجازت دی۔ لوگ داخل ہوئے تو انہوں نے پوچھا : قسامہ کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے ؟ کسی نے کہا کہ قسامہ کے ذریعہ قصاص لینا حق ہے اور خلفاء نے اس کے ذریعہ قصاص لیا ہے۔ اس پر انہوں نے مجھ سے پوچھا : ابوقلابہ ! تمہاری کیا رائے ہے ؟ اور مجھے عوام کے ساتھ لا کھڑا کردیا۔ میں نے عرض کیا : یا امیرالمؤمنین ! آپ کے پاس عرب کے سردار اور شریف لوگ رہتے ہیں آپ کی کیا رائے ہوگی اگر ان میں سے پچاس آدمی کسی دمشقی کے شادی شدہ شخص کے بارے میں زنا کی گواہی دیں جبکہ ان لوگوں نے اس شخص کو دیکھا بھی نہ ہو کیا آپ ان کی گواہی پر اس شخص کو رجم کردیں گے۔ امیرالمؤمنین نے فرمایا کہ نہیں۔ پھر میں نے کہا کہ آپ کا کیا خیال ہے اگر انہیں (اشراف عرب) میں سے پچاس افراد حمص کے کسی شخص کے متعلق چوری کی گواہی دے دیں اس کو بغیر دیکھے تو کیا آپ اس کا ہاتھ کاٹ دیں گے ؟ فرمایا کہ نہیں۔ پھر میں نے کہا، پس اللہ کی قسم کہ رسول اللہ ﷺ نے کبھی کسی کو تین حالتوں کے سوا قتل نہیں کرایا۔ ایک وہ شخص جس نے کسی کو ظلماً قتل کیا ہو اور اس کے بدلے میں قتل کیا گیا ہو۔ دوسرا وہ شخص جس نے شادی کے بعد زنا کیا ہو۔ تیسرا وہ شخص جس نے اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کی ہو اور اسلام سے پھر گیا ہو۔ لوگوں نے اس پر کہا، کیا انس بن مالک (رض) نے یہ حدیث نہیں بیان کی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے چوری کے معاملہ میں ہاتھ پیر کاٹ دئیے تھے اور آنکھوں میں سلائی پھروائی تھی اور پھر انہیں دھوپ میں ڈلوا دیا تھا۔ میں نے کہا کہ میں آپ لوگوں کو انس بن مالک (رض) کی حدیث سناتا ہوں۔ مجھ سے انس (رض) نے بیان کیا کہ قبیلہ عکل کے آٹھ افراد نبی کریم ﷺ کے پاس آئے اور آپ سے اسلام پر بیعت کی، پھر مدینہ منورہ کی آب و ہوا انہیں ناموافق ہوئی اور وہ بیمار پڑگئے تو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی شکایت کی۔ نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا کہ پھر کیوں نہیں تم ہمارے چرواہے کے ساتھ اس کے اونٹوں میں چلے جاتے اور اونٹوں کا دودھ اور ان کا پیشاب پیتے۔ انہوں نے عرض کیا کیوں نہیں۔ چناچہ وہ نکل گئے اور اونٹوں کا دودھ اور پیشاب پیا اور صحت مند ہوگئے۔ پھر انہوں نے نبی کریم ﷺ کے چرواہے کو قتل کردیا اور اونٹ ہنکا لے گئے۔ اس کی اطلاع جب نبی کریم ﷺ کو پہنچی تو آپ نے ان کی تلاش میں آدمی بھیجے، پھر وہ پکڑے گئے اور لائے گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا اور ان کے بھی ہاتھ اور پاؤں کاٹ دئیے گئے اور ان کی آنکھوں میں سلائی پھیر دی گئی پھر انہیں دھوپ میں ڈلوا دیا اور آخر وہ مرگئے۔ میں نے کہا کہ ان کے عمل سے بڑھ کر اور کیا جرم ہوسکتا ہے اسلام سے پھرگئے اور قتل کیا اور چوری کی۔ عنبہ بن سعید نے کہا میں نے آج جیسی بات کبھی نہیں سنی تھی۔ میں نے کہا : عنبہ ! کیا تم میری حدیث رد کرتے ہو ؟ انہوں نے کہا کہ نہیں آپ نے یہ حدیث واقعہ کے مطابق بیان کردی ہے۔ واللہ ! اہل شام کے ساتھ اس وقت تک خیر و بھلائی رہے گی جب تک یہ شیخ (ابوقلابہ) ان میں موجود رہیں گے۔ میں نے کہا کہ اس قسامہ کے سلسلہ میں نبی کریم ﷺ کی ایک سنت ہے۔ انصار کے کچھ لوگ آپ کے پاس آئے اور نبی کریم ﷺ سے بات کی پھر ان میں سے ایک صاحب ان کے سامنے ہی نکلے (خیبر کے ارادہ سے) اور وہاں قتل کر دئیے گئے۔ اس کے بعد دوسرے صحابہ بھی گئے اور دیکھا کہ ان کے ساتھ خون میں تڑپ رہے ہیں۔ ان لوگوں نے واپس آ کر آپ ﷺ کو اس کی اطلاع دی اور کہا : یا رسول اللہ ! ہمارے ساتھ گفتگو کر رہے تھے اور اچانک وہ ہمیں (خیبر میں) خون میں تڑپتے ملے۔ پھر نبی کریم ﷺ نکلے اور پوچھا کہ تمہارا کس پر شبہ ہے کہ انہوں نے ان کو قتل کیا ہے۔ صحابہ نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہودیوں نے ہی قتل کیا ہے پھر آپ نے یہودیوں کو بلا بھیجا اور ان سے پوچھا کیا تم نے انہیں قتل کیا ہے ؟ انہوں نے انکار کردیا تو آپ نے فرمایا، کیا تم مان جاؤ گے اگر پچاس یہودی اس کی قسم لیں کہ انہوں نے مقتول کو قتل نہیں کیا ہے۔ صحابہ نے عرض کیا : یہ لوگ ذرا بھی پرواہ نہیں کریں گے کہ ہم سب کو قتل کرنے کے بعد پھر قسم کھا لیں (کہ قتل انہوں نے نہیں کیا ہے) نبی کریم ﷺ نے فرمایا تو پھر تم میں سے پچاس آدمی قسم کھا لیں اور خون بہا کے مستحق ہوجائیں۔ صحابہ نے عرض کیا : ہم بھی قسم کھانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ چناچہ نبی کریم ﷺ نے انہیں اپنے پاس سے خون بہا دیا (ابوقلابہ نے کہا کہ) میں نے کہا کہ زمانہ جاہلیت میں قبیلہ ہذیل کے لوگوں نے اپنے ایک آدمی کو اپنے میں سے نکال دیا تھا پھر وہ شخص بطحاء میں یمن کے ایک شخص کے گھر رات کو آیا۔ اتنے میں ان میں سے کوئی شخص بیدار ہوگیا اور اس نے اس پر تلوار سے حملہ کر کے قتل کردیا۔ اس کے بعد ہذیل کے لوگ آئے اور انہوں نے یمنی کو (جس نے قتل کیا تھا) پکڑا کہ عمر (رض) کے پاس لے گئے حج کے زمانہ میں اور کہا کہ اس نے ہمارے آدمی کو قتل کردیا ہے۔ یمنی نے کہا کہ انہوں نے اسے اپنی برادری سے نکال دیا تھا۔ عمر (رض) نے فرمایا کہ اب ہذیل کے پچاس آدمی اس کی قسم کھائیں کہ انہوں نے اسے نکالا نہیں تھا۔ بیان کیا کہ پھر ان میں سے انچاس آدمیوں نے قسم کھائی پھر انہیں کے قبیلہ کا ایک شخص شام سے آیا تو انہوں نے اس سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ قسم کھائے لیکن اس نے اپنی قسم کے بدلہ میں ایک ہزار درہم دے کر اپنا پیچھا قسم سے چھڑا لیا۔ ہذلیوں نے اس کی جگہ ایک دوسرے آدمی کو تیار کرلیا پھر وہ مقتول کے بھائی کے پاس گیا اور اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ سے ملایا۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر ہم پچاس جنہوں نے قسم کھائی تھی روانہ ہوئے۔ جب مقام نخلہ پر پہنچے تو بارش نے انہیں آیا۔ سب لوگ پہاڑ کے ایک غار میں گھس گئے اور غار ان پچاسوں کے اوپر گرپڑا۔ جنہوں نے قسم کھائی تھی اور سب کے سب مرگئے۔ البتہ دونوں ہاتھ ملانے والے بچ گئے۔ لیکن ان کے پیچھے سے ایک پتھر لڑھک کر گرا اور اس سے مقتول کے بھائی کی ٹانگ ٹوٹ گئی اس کے بعد وہ ایک سال اور زندہ رہا پھر مرگیا۔ میں نے کہا کہ عبدالملک بن مروان نے قسامہ پر ایک شخص سے قصاص لی تھی پھر اسے اپنے کئے ہوئے پر ندامت ہوئی اور اس نے ان پچاسوں کے متعلق جنہوں نے قسم کھائی تھی حکم دیا اور ان کے نام رجسٹر سے کاٹ دئیے گئے پھر انہوں نے شام بھیج دیا۔
جو شخص کسی قوم کے گھر میں جھانکے اور وہ لوگ اس کی آنکھ پھوڑ دیں تو اس کی دیت نہیں
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ بن ابی بکر بن انس نے بیان کیا اور ان سے انس بن مالک (رض) نے کہ ایک آدمی نبی کریم ﷺ کے ایک حجرہ میں جھانکنے لگا تو نبی کریم ﷺ تیر کا پھل لے کر اٹھے اور چاہتے تھے کہ غفلت میں اس کو مار دیں۔
جو شخص کسی قوم کے گھر میں جھانکے اور وہ لوگ اس کی آنکھ پھوڑ دیں تو اس کی دیت نہیں
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا اور انہیں سہل بن سعد الساعدی (رض) نے خبر دی کہ ایک آدمی نبی کریم ﷺ کے دروازہ کے ایک سوراخ سے اندر جھانکنے لگا۔ اس وقت نبی کریم ﷺ کے پاس لوہے کا کنگھا تھا جس سے آپ سر جھاڑ رہے تھے۔ جب آپ نے اسے دیکھا تو فرمایا کہ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ تم میرا انتظار کر رہے ہو تو میں اسے تمہاری آنکھ میں چبھو دیتا۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ (گھر کے اندر آنے کا) اذن لینے کا حکم دیا گیا ہے وہ اسی لیے تو ہے کہ نظر نہ پڑے۔
جو شخص کسی قوم کے گھر میں جھانکے اور وہ لوگ اس کی آنکھ پھوڑ دیں تو اس کی دیت نہیں
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے ابوالزناد نے، ان سے اعرج نے، ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ ابوالقاسم ﷺ نے فرمایا اگر کوئی شخص تمہاری اجازت کے بغیر تمہیں (جب کہ تم گھر کے اندر ہو) جھانک کر دیکھے اور تم اسے کنکری مار دو جس سے اس کی آنکھ پھوٹ جائے تو تم پر کوئی گناہ نہیں ہے۔
عاقلہ کا بیان
ہم سے صدقہ بن الفضل نے بیان کیا، کہا ہم کو ابن عیینہ نے خبر دی، ان سے مطرف نے بیان کیا، کہا کہ میں نے شعبی سے سنا، کہا کہ میں نے ابوجحیفہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے علی (رض) سے پوچھا، کیا آپ کے پاس کوئی ایسی چیز بھی ہے جو قرآن مجید میں نہیں ہے اور ایک مرتبہ انہوں نے اس طرح بیان کیا کہ جو لوگوں کے پاس نہیں ہے۔ اس پر انہوں نے کہا کہ اس ذات کی قسم جس نے دانے سے کونپل کو پھاڑ کر نکالا ہے اور مخلوق کو پیدا کیا۔ ہمارے پاس قرآن مجید کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ سوا اس سمجھ کے جو کسی شخص کو اس کی کتاب میں دی جائے اور جو کچھ اس صحیفہ میں ہے۔ میں نے پوچھا صحیفہ میں کیا ہے ؟ فرمایا خون بہا (دیت) سے متعلق احکام اور قیدی کے چھڑانے کا حکم اور یہ کہ کوئی مسلمان کسی کافر کے بدلہ میں قتل نہیں کیا جائے گا۔
عورت کے جنین کا بیان
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی۔ (دوسری سند) امام بخاری (رح) نے کہا کہ اور ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ قبیلہ ہذیل کی دو عورتوں نے ایک دوسری کو (پتھر سے) مارا جس سے ایک کے پیٹ کا بچہ (جنین) گرگیا پھر اس (سلسلہ) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک غلام یا کنیز دینے کا فیصلہ کیا۔
عورت کے جنین کا بیان
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے وہیب نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے، ان سے مغیرہ بن شعبہ (رض) نے کہ عمر (رض) نے ان سے ایک عورت کے حمل گرا دینے کے خون بہا کے سلسلہ میں مشورہ کیا تو مغیرہ (رض) نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے غلام یا کنیز کا اس سلسلے میں فیصلہ کیا تھا۔ پھر محمد بن مسلمہ (رض) نے بھی گواہی دی کہ جب نبی کریم ﷺ نے اس کا فیصلہ کیا تھا تو وہ موجود تھے۔
عورت کے جنین کا بیان
ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، ان سے ہشام نے، ان سے ان کے والد نے کہ عمر (رض) نے لوگوں سے قسم دے کر پوچھا کہ کس نے نبی کریم ﷺ سے حمل گرنے کے سلسلے میں فیصلہ سنا ہے ؟ مغیرہ (رض) نے کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا ہے، آپ نے اس میں ایک غلام یا کنیز دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ عمر (رض) نے کہا کہ اس پر اپنا کوئی گواہ لاؤ۔ چناچہ محمد بن مسلمہ (رض) نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ نبی کریم ﷺ نے یہ فیصلہ کیا تھا۔ مجھ سے محمد بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن سابق نے بیان کیا، کہا ہم سے زائدہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے، انہوں نے مغیرہ بن شعبہ (رض) سے سنا، وہ عمر (رض) سے بیان کرتے تھے کہ امیرالمؤمنین نے ان سے عورت کے حمل گرا دینے کے (خون بہا کے سلسلے میں) ان سے اسی طرح مشورہ کیا تھا آخر تک۔
عورت کے جنین کا بیان اور یہ کہ دیت باپ پر اور باپ کے عصبہ پر ہے بیٹے پر نہیں۔
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے سعید بن مسیب نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے بنی لحیان کی ایک عورت کے جنین (کے گرنے) پر ایک غلام یا کنیز کا فیصلہ کیا تھا۔ پھر وہ عورت جس کے متعلق نبی کریم ﷺ نے دیت دینے کا فیصلہ کیا تھا اس کا انتقال ہوگیا تو رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ کیا کہ اس کی میراث اس کے لڑکوں اور اس کے شوہر کو ملے گی اور دیت اس کے ددھیال والوں کو دینی ہوگی۔
عورت کے جنین کا بیان اور یہ کہ دیت باپ پر اور باپ کے عصبہ پر ہے بیٹے پر نہیں۔
ہم سے احمد بن صالح نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن وہب نے بیان کیا، کہا ہم سے یونس نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے ابن المسیب اور ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ بنی ہذیل کی دو عورتیں آپس میں لڑیں اور ایک نے دوسری عورت پر پتھر پھینک مارا جس سے وہ عورت اپنے پیٹ کے بچے (جنین) سمیت مرگئی۔ پھر (مقتولہ کے رشتہ دار) مقدمہ رسول اللہ ﷺ کے دربار میں لے گئے۔ نبی کریم ﷺ نے فیصلہ کیا کہ پیٹ کے بچے کا خون بہا ایک غلام یا کنیز دینی ہوگی اور عورت کے خون بہا کو قاتل عورت کے عاقلہ (عورت کے باپ کی طرف سے رشتہ دار عصبہ) کے ذمہ واجب قرار دیا۔
اس شخص کا بیان جو غلام یا بچہ عاریتا طلب کرے اور ذکر کیا جاتا ہے کہ ام سلیم نے کتاب کے معلم کے پاس لکھ بھیجا کہ میرے پاس چند لڑکے بھیج دو جو اون صاف کریں اور کسی آزاد کو میرے پاس نہ بھیجنا۔
مجھ سے عمر بن زرارہ نے بیان کیا، کہا ہم کو اسماعیل بن ابراہیم نے خبر دی، انہیں عبدالعزیز نے اور ان سے انس (رض) نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لائے تو طلحہ (رض) میرا ہاتھ پکڑ کر نبی کریم ﷺ کے پاس لائے اور کہا : یا رسول اللہ ! انس سمجھ دار لڑکا ہے اور یہ آپ کی خدمت کرے گا۔ انس (رض) نے بیان کیا کہ پھر میں نے نبی کریم ﷺ کی خدمت سفر میں بھی کی اور گھر پر بھی۔ واللہ ! نبی کریم ﷺ نے کبھی مجھ سے کسی چیز کے متعلق جو میں نے کردیا ہو یہ نہیں فرمایا کہ یہ کام تم نے اس طرح کیوں کیا اور نہ کسی ایسی چیز کے متعلق جسے میں نے نہ کیا ہو آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ یہ کام تم نے اس طرح کیوں نہیں کیا۔
کان میں اور کنویں میں دب کر مرجانے والوں کا خون معاف ہے
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے سعید بن مسیب اور ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا چوپائے اگر کسی کو زخمی کردیں تو ان کا خون بہا نہیں، کنویں میں گرنے کا کوئی خون بہا نہیں، کان میں دبنے کا کوئی خون بہا نہیں اور دفینہ میں پانچواں حصہ ہے۔
چوپاؤں کا خون کرنا معاف ہے اور ابن سیرین نے کہا کہ صحابہ کے جانور کے لات مارنے کا تاوان نہیں دلاتے تھے اور لگام پھرنے کا تاوان دلاتے تھے اور حماد نے کہا کہ جانور کے لات مارنے کا تاوان نہ دلوایاجائے مگر اس صورت میں کہ کوئی آدمی اس کو گدگدائے، شریح نے کہا کہ سوار اس وقت تک ہر جانہ نہ دے گا کہ وہ اس کو گدگداتا رہے اور اس کو لات مار دے اور حکم اور حماد نے کہا کہ جب کرایہ لینے والا جانور کو ہانکے اور اس پر کوئی عورت بیٹھی ہوئی ہو وہ گرپڑے تو اس پر کچھ نہیں اور شعبی نے کہا کہ اگر جانور کو ہنکایا اور اسے تھکا دیا تو وہ اس کے صدمہ کا ذمہ دار ہے جو پہنچے اور اگر اس کے پیچھے چھوڑا ہوا آرہا ہے تو وہ ذمہ دار نہیں۔
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے، انہوں نے محمد بن زیاد سے، انہوں نے ابوہریرہ (رض) سے، انہوں نے نبی کریم ﷺ سے، آپ ﷺ نے فرمایا بےزبان جانور کسی کو زخمی کرے تو اس کی دیت کچھ نہیں ہے، اسی طرح کان میں کام کرنے سے کوئی نقصان پہنچے، اسی طرح کنویں میں کام کرنے سے اور جو کافروں کا مال دفن کیا ہوا ملے اس میں پانچواں حصہ سرکار میں لیا جائے گا۔
اس شخص کا گناہ جو کسی ذمی کو بغیر گناہ کے قتل کردے
ہم سے قیس بن حفص نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے، کہا ہم سے حسن بن عمرو فقیمی نے، کہا ہم سے مجاہد نے، انہوں نے عبداللہ بن عمرو (رض) سے، انہوں نے نبی کریم ﷺ سے، آپ ﷺ نے فرمایا جو شخص ایسی جان کو مار ڈاے جس سے عہد کرچکا ہو (اس کی امان دے چکا ہو) جیسے ذمی، کافر کو تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہ سونگھے گا (چہ جائے کہ اس میں داخل ہو) حالانکہ بہشت کی خوشبو چالیس برس کی راہ سے معلوم ہوتی ہے۔
مسلمان کافر کے عوض قتل نہ کیا جائے
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا ہم سے زہیر بن معاویہ نے، کہا ہم سے مطرف بن طریف نے، ان سے عامر شعبی نے بیان کیا۔ ابوجحیفہ سے روایت کر کے، کہا میں نے علی (رض) سے کہا۔ (دوسری سند) امام بخاری (رح) نے کہا اور ہم سے صدقہ بن فضل نے، کہا ہم کو سفیان بن عیینہ نے خبر دی، کہا ہم سے مطرف بن طریف نے بیان کیا، کہا میں نے عامر شعبی سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ میں نے ابوجحیفہ سے سنا، انہوں نے کہا میں نے علی (رض) سے پوچھا کیا آپ کے پاس اور بھی کچھ آیتیں یا سورتیں ہیں جو اس قرآن میں نہیں ہیں (یعنی مشہور مصحف میں) اور کبھی سفیان بن عیینہ نے یوں کہا کہ جو عام لوگوں کے پاس نہیں ہیں۔ علی (رض) نے کہا قسم اس اللہ کی جس نے دانہ چیر کر اگایا اور جان کو پیدا کیا ہمارے پاس اس قرآن کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ البتہ ایک سمجھ ہے جو اللہ تعالیٰ اپنی کتاب کی جس کو چاہتا ہے عنایت فرماتا ہے اور وہ جو اس ورق پہ لکھا ہوا ہے۔ ابوجحیفہ نے کہا اس ورق پہ کیا لکھا ہے ؟ انہوں نے کہا دیت اور قیدی چھڑانے کے احکام اور یہ مسئلہ کہ مسلمان کافر کے بدلے قتل نہ کیا جائے۔
اس امر کا بیان کہ مسلمان یہودی کو غصہ کی حالت میں طمانچہ مارے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) نے اس کو آنحضرت ﷺ سے روایت کیا ہے۔
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے، انہوں نے عمرو بن یحییٰ سے، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے ابو سعید خدری (رض) سے، انہوں نے نبی کریم ﷺ سے آپ ﷺ نے فرمایا دیکھو اور پیغمبروں سے مجھ کو فضیلت مت دو ۔
اس امر کا بیان کہ مسلمان یہودی کو غصہ کی حالت میں طمانچہ مارے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) نے اس کو آنحضرت ﷺ سے روایت کیا ہے۔
ہم سے محمد بن یوسف بیکندی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے، انہوں نے عمرو بن یحییٰ مازنی سے انہوں نے اپنے والد (یحییٰ بن عمارہ) سے، انہوں نے ابو سعید خدری (رض) سے، انہوں نے کہا یہود میں سے ایک شخص نبی کریم ﷺ کے پاس آیا، اس کو کسی نے طمانچہ لگایا تھا۔ کہنے لگا : اے محمد ! ( ﷺ ) تمہارے اصحاب میں سے ایک انصاری شخص نے مجھ کو طمانچہ مارا۔ آپ نے لوگوں سے فرمایا اس کو بلاؤ تو انہوں نے بلایا (وہ حاضر ہوا) آپ نے پوچھا تو نے اس کے منہ پر طمانچہ کیوں مارا۔ وہ کہنے لگا : یا رسول اللہ ! ایسا ہوا کہ میں یہودیوں کے پاس سے گزرا، میں نے سنا یہ یہودی یوں قسم کھا رہا تھا قسم اس پروردگار کی جس نے موسیٰ (علیہ السلام) کو سارے آدمیوں میں سے چن لیا۔ میں نے کہا کیا محمد ﷺ سے بھی وہ افضل ہیں ؟ اور اس وقت مجھے غصہ آگیا۔ میں نے ایک طمانچہ لگا دیا (غصے میں یہ خطا مجھ سے ہوگئی) آپ ﷺ نے فرمایا (دیکھو خیال رکھو) اور پیغمبروں پر مجھ کو فضیلت نہ دو قیامت کے دن ایسا ہوگا سب لوگ (ہیبت خداوندی سے) بیہوش ہوجائیں گے پھر میں سب سے پہلے ہوش میں آؤں گا۔ کیا دیکھوں گا موسیٰ (علیہ السلام) (مجھ سے بھی پہلے) عرش کا ایک کونا تھامے کھڑے ہیں۔ اب یہ میں نہیں جانتا کہ وہ مجھ سے پہلے ہوش میں آجائیں گے یا کوہ طور پر جو (دنیا میں) بیہوش ہوچکے تھے اس کے بدل وہ آخرت میں بیہوش ہی نہ ہوں گے۔