72. مرتدوں اور دشمنوں سے توبہ کرانا
اللہ تعالیٰ کا قول کہ شرک بہت بڑاظلم ہے اور اگر تم نے شرک کیا تو تمہارا عمل ضائع ہوجائے گا اور تم گھاٹا پانے والوں میں سے ہوجاؤ گے۔
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو جریر بن عبدالحمید نے بیان کیا، انہوں نے اعمش سے، انہوں نے ابراہیم نخعی سے، انہوں نے علقمہ سے، انہوں نے عبداللہ بن مسعود (رض) سے، انہوں نے کہا کہ جب (سورۃ الانعام کی) یہ آیت الذين آمنوا ولم يلبسوا إيمانهم بظلم اتری جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے ایمان کو گناہ سے آلود نہیں کیا (یعنی ظلم سے) تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو بہت گراں گزری وہ کہنے لگے بھلا ہم میں سے کون ایسا ہے جس نے ایمان کے ساتھ کوئی ظلم (یعنی گناہ) نہ کیا ہو۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اس آیت میں ظلم سے گناہ مراد نہیں ہے (بلکہ شرک مراد ہے) کیا تم نے لقمان (علیہ السلام) کا قول نہیں سنا إن الشرک لظلم عظيم شرک بڑا ظلم ہے ۔
اللہ تعالیٰ کا قول کہ شرک بہت بڑاظلم ہے اور اگر تم نے شرک کیا تو تمہارا عمل ضائع ہوجائے گا اور تم گھاٹا پانے والوں میں سے ہوجاؤ گے۔
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے بشر بن مفضل نے، کہا ہم سے سعید بن ایاس جریری نے، (دوسری سند) امام بخاری (رح) نے کہا اور مجھ سے قیس بن حفص نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن ابراہیم نے، کہا ہم کو سعید جریری نے خبر دی، کہا ہم سے عبدالرحمٰن بن ابی بکرہ نے بیان کیا، انہوں نے اپنے والد (ابوبکرہ صحابی) سے، انہوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ بڑے سے بڑا گناہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا ہے اور ماں باپ کو ستانا (ان کی نافرمانی کرنا) اور جھوٹی گواہی دینا، جھوٹی گواہی دینا، تین بار یہی فرمایا یا یوں فرمایا اور جھوٹ بولنا برابر باربار آپ ﷺ یہی فرماتے رہے یہاں تک کہ ہم نے آرزو کی کہ کاش آپ خاموش ہوجاتے۔
اللہ تعالیٰ کا قول کہ شرک بہت بڑاظلم ہے اور اگر تم نے شرک کیا تو تمہارا عمل ضائع ہوجائے گا اور تم گھاٹا پانے والوں میں سے ہوجاؤ گے۔
ہم سے محمد بن حسین بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ کوفی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شیبان نحوی نے خبر دی، انہوں نے فراش بن یحییٰ سے، انہوں نے عامر شعبی سے، انہوں نے عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) سے، انہوں نے کہا کہ ایک گنوار (نام نامعلوم) نبی کریم ﷺ کے پاس آیا کہنے لگا : یا رسول اللہ ! بڑے بڑے گناہ کون سے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کے ساتھ شرک کرنا۔ اس نے پوچھا پھر کون سا گناہ ؟ آپ نے فرمایا ماں باپ کو ستانا۔ پوچھا : پھر کون سا گناہ ؟ آپ نے فرمایا غموس. قسم کھانا۔ عبداللہ بن عمرو (رض) نے کہا میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! غموس. قسم کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا جان بوجھ کر کسی مسلمان کا مال مار لینے کے لیے جھوٹی قسم کھانا۔
اللہ تعالیٰ کا قول کہ شرک بہت بڑاظلم ہے اور اگر تم نے شرک کیا تو تمہارا عمل ضائع ہوجائے گا اور تم گھاٹا پانے والوں میں سے ہوجاؤ گے۔
ہم سے خلاد بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے، انہوں نے منصور اور اعمش سے، انہوں نے ابو وائل سے، انہوں نے عبداللہ بن مسعود (رض) سے، انہوں نے کہا ایک شخص (نام نامعلوم) نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! ہم نے جو گناہ (اسلام لانے سے پہلے) جاہلیت کے زمانہ میں کیے ہیں کیا ان کا مواخذہ ہم سے ہوگا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا جو شخص اسلام کی حالت میں نیک اعمال کرتا رہا اس سے جاہلیت کے گناہوں کا مواخذہ نہ ہوگا (اللہ تعالیٰ معاف کر دے گا) اور جو شخص مسلمان ہو کر بھی برے کام کرتا رہا اس سے دونوں زمانوں کے گناہوں کا مواخذہ ہوگا۔
مرتد مرد اور مرتد عورت کا حکم اور ان سے توبہ کرانے کا بیان۔ ابن عمر اور زہری اور ابراہیم نے کہا کہ مرتد عورت قتل کردی جائے گی اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کیونکر ہدایت کرے گا اس قوم کو جس نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا اور انہوں نے گواہی دی کہ رسول حق ہیں، اور ان کے پاس دلیلیں آچکی تھیں اور اللہ ظالم قوموں کو ہدایت نہیں دیتا، یہی لوگ ہیں جن کا بدلہ یہ ہے کہ ان پر اللہ کی اور فرشتوں کی اور لوگوں کی لعنت ہوگی، اس میں ہمیشہ رہیں گے ان کے عذاب میں تخفیف نہیں کی جائے گی اور نہ وہ مہلت دیئے جائیں گے، مگر وہ لوگ جنہوں نے اس کے بعد توبہ کرلی ہو، اور نیک کام کئے ہوں تو بے شک اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے، بے شک جنہوں نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا پھر کفر میں زیادہ ہوتے گئے تو ان کی توبہ کبھی قبول نہ کی جائے گی اور ایسے ہی لوگ گمراہ ہیں اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر تم اہل کتاب میں سے کسی گروہ کی اطاعت کرو گے تو وہ تمہیں تمہارے مومن ہونے کے بعد پھر کافر بنا دیں گے، اور فرمایا کہ بے شک جو ولگ ایمان لائے پھر کافر ہوگئے، پھر ایمان لائے پھر کافر ہوگئے، پھر کفر میں بڑھتے گئے تو اللہ تعالیٰ انہیں بخشنے والا نہیں ہے اور نہ انہیں سیدھا راستہ دکھائے گا، اور فرمایا تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھر گیا عنقریب اللہ تعالیٰ ایسی قوم کو لائے گا کہ اللہ ان سے محبت کرے گا اور وہ اللہ سے محبت کریں گے، ایمانداروں پر مہربان کافروں پر سخت ہوں گے لیکن جس نے کفر کے ساتھ سینے کو کھولا تو ان پر اللہ کی طرف سے غضب ہے اور ان کے لئے بڑا عذاب ہے اس لئے کہ انہوں نے دنیوی زندگی کو ٓخرت پر ترجیح دی، اور یہ کہ اللہ تعالیٰ کافر قوم کو ہدایت نہیں کرتا، یہی لوگ ہیں جن کے دلوں، کانوں اور آنکھوں پر مہر لگا دی گئی ہے اور وہی لوگ غافل ہیں، کوئی شک نہیں ہے کہ آخرت میں یہی لوگ خسارہ پانے والے ہیں، آخر آیت یعنی بے شک تیرا رب اس کے بعد بھی بخشنے والا اور مہربان ہے، تک، اور فرمایا کہ وہ لوگ تم سے ہمیشہ جنگ کرتے رہیں گے یہاں تک کہ وہ تمہیں تمہارے دین سے پھیر دیں، اگر ان کے بس میں ہو اور تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھر جائے اور وہ مرجائے اس حال میں کہ کافر ہو تو ایسے ہی ولگ ہیں جن کے اعمال دنیا اور آخرت میں ضائع ہوگئے اور وہی لوگ جہنم میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔
ہم سے ابوالنعمان محمد بن فضل سدوسی نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے، انہوں نے ایوب سختیانی سے، انہوں نے عکرمہ سے، انہوں نے کہا علی (رض) کے پاس کچھ بےدین لوگ لائے گئے۔ آپ نے ان کو جلوا دیا۔ یہ خبر ابن عباس (رض) کو پہنچی تو انہوں نے کہا اگر میں حاکم ہوتا تو ان کو کبھی نہ جلواتا (دوسری طرح سے سزا دیتا) کیونکہ نبی کریم ﷺ نے آگ میں جلانے سے منع فرمایا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ آگ اللہ کا عذاب ہے تم اللہ کے عذاب سے کسی کو مت عذاب دو میں ان کو قتل کروا ڈالتا کیونکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے جو شخص اپنا دین بدل ڈالے اسلام سے پھر جائے اس کو قتل کر ڈالو۔
مرتد مرد اور مرتد عورت کا حکم اور ان سے توبہ کرانے کا بیان۔ ابن عمر اور زہری اور ابراہیم نے کہا کہ مرتد عورت قتل کردی جائے گی اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کیونکر ہدایت کرے گا اس قوم کو جس نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا اور انہوں نے گواہی دی کہ رسول حق ہیں، اور ان کے پاس دلیلیں آچکی تھیں اور اللہ ظالم قوموں کو ہدایت نہیں دیتا، یہی لوگ ہیں جن کا بدلہ یہ ہے کہ ان پر اللہ کی اور فرشتوں کی اور لوگوں کی لعنت ہوگی، اس میں ہمیشہ رہیں گے ان کے عذاب میں تخفیف نہیں کی جائے گی اور نہ وہ مہلت دیئے جائیں گے، مگر وہ لوگ جنہوں نے اس کے بعد توبہ کرلی ہو، اور نیک کام کئے ہوں تو بے شک اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے، بے شک جنہوں نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا پھر کفر میں زیادہ ہوتے گئے تو ان کی توبہ کبھی قبول نہ کی جائے گی اور ایسے ہی لوگ گمراہ ہیں اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر تم اہل کتاب میں سے کسی گروہ کی اطاعت کرو گے تو وہ تمہیں تمہارے مومن ہونے کے بعد پھر کافر بنا دیں گے، اور فرمایا کہ بے شک جو ولگ ایمان لائے پھر کافر ہوگئے، پھر ایمان لائے پھر کافر ہوگئے، پھر کفر میں بڑھتے گئے تو اللہ تعالیٰ انہیں بخشنے والا نہیں ہے اور نہ انہیں سیدھا راستہ دکھائے گا، اور فرمایا تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھر گیا عنقریب اللہ تعالیٰ ایسی قوم کو لائے گا کہ اللہ ان سے محبت کرے گا اور وہ اللہ سے محبت کریں گے، ایمانداروں پر مہربان کافروں پر سخت ہوں گے لیکن جس نے کفر کے ساتھ سینے کو کھولا تو ان پر اللہ کی طرف سے غضب ہے اور ان کے لئے بڑا عذاب ہے اس لئے کہ انہوں نے دنیوی زندگی کو ٓخرت پر ترجیح دی، اور یہ کہ اللہ تعالیٰ کافر قوم کو ہدایت نہیں کرتا، یہی لوگ ہیں جن کے دلوں، کانوں اور آنکھوں پر مہر لگا دی گئی ہے اور وہی لوگ غافل ہیں، کوئی شک نہیں ہے کہ آخرت میں یہی لوگ خسارہ پانے والے ہیں، آخر آیت یعنی بے شک تیرا رب اس کے بعد بھی بخشنے والا اور مہربان ہے، تک، اور فرمایا کہ وہ لوگ تم سے ہمیشہ جنگ کرتے رہیں گے یہاں تک کہ وہ تمہیں تمہارے دین سے پھیر دیں، اگر ان کے بس میں ہو اور تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھر جائے اور وہ مرجائے اس حال میں کہ کافر ہو تو ایسے ہی ولگ ہیں جن کے اعمال دنیا اور آخرت میں ضائع ہوگئے اور وہی لوگ جہنم میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے، انہوں نے قرۃ بن خالد سے، کہا مجھ سے حمید بن ہلال نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوبردہ (رض) نے، انہوں نے ابوموسیٰ اشعری سے، انہوں نے کہا میں نبی کریم ﷺ کے پاس آیا میرے ساتھ اشعر قبیلے کے دو شخص تھے (نام نامعلوم) ایک میرے داہنے طرف تھا، دوسرا بائیں طرف۔ اس وقت نبی کریم ﷺ مسواک کر رہے تھے۔ دونوں نے نبی کریم ﷺ سے عہدہ کی درخواست کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا، ابوموسیٰ یا عبداللہ بن قیس ! (راوی کو شک ہے) میں نے اسی وقت عرض کیا : یا رسول اللہ ! اس پروردگار کی قسم جس نے آپ کو سچا پیغمبر بنا کر بھیجا۔ انہوں نے اپنے دل کی بات مجھ سے نہیں کہی تھی اور مجھ کو معلوم نہیں تھا کہ یہ دونوں شخص عہدہ چاہتے ہیں۔ ابوموسیٰ کہتے ہیں جیسے میں اس وقت آپ کی مسواک کو دیکھ رہا ہوں وہ آپ کے ہونٹ کے نیچے اٹھی ہوئی تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو کوئی ہم سے عہدہ کی درخواست کرتا ہے ہم اس کو عہدہ نہیں دیتے۔ لیکن ابوموسیٰ یا عبداللہ بن قیس ! تو یمن کی حکومت پر جا (خیر ابوموسیٰ روانہ ہوئے) اس کے بعد آپ نے معاذ بن جبل (رض) کو بھی ان کے پیچھے روانہ کیا۔ جب معاذ (رض) یمن میں ابوموسیٰ (رض) کے پاس پہنچے تو ابوموسیٰ (رض) نے ان کے بیٹھنے کے لیے گدا بچھوایا اور کہنے لگے سواری سے اترو گدے پر بیٹھو۔ اس وقت ان کے پاس ایک شخص تھا (نام نامعلوم) جس کی مشکیں کسی ہوئی تھیں۔ معاذ (رض) نے ابوموسیٰ (رض) سے پوچھا یہ کون شخص ہے ؟ انہوں نے کہا یہ یہودی تھا پھر مسلمان ہوا اب پھر یہودی ہوگیا ہے اور ابوموسیٰ (رض) نے معاذ (رض) سے کہا اجی تم سواری پر سے اتر کر بیٹھو۔ انہوں نے کہا میں نہیں بیٹھتا جب تک اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے موافق یہ قتل نہ کیا جائے گا تین بار یہی کہا۔ آخر ابوموسیٰ (رض) نے حکم دیا وہ قتل کیا گیا۔ پھر معاذ (رض) بیٹھے۔ اب دونوں نے رات کی عبادت (تہجد گزاری) کا ذکر چھیڑا۔ معاذ (رض) نے کہا میں تو رات کو عبادت بھی کرتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور مجھے امید ہے کہ سونے میں بھی مجھ کو وہی ثواب ملے گا جو نماز پڑھنے اور عبادت کرنے میں۔
اس شخص کے قتل کرنے کا بیان جو فرائض کے قبول کرنے سے انکار کرے۔ اور جس کی نسبت ارتداد کی طرف جائے
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے، انہوں نے عقیل سے، انہوں نے ابن شہاب سے، انہوں نے کہا مجھ کو عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے خبر دی کہ ابوہریرہ (رض) نے کہا جب نبی کریم ﷺ کی وفات ہوگئی اور ابوبکر صدیق (رض) خلیفہ بنے اور عرب کے کچھ لوگ کافر بن گئے تو عمر (رض) نے ان سے کہا تم ان لوگوں سے کیسے لڑو گے نبی کریم ﷺ نے تو یہ فرمایا ہے مجھ کو لوگوں سے لڑنے کا اس وقت تک حکم ہوا جب تک وہ لا الہٰ الا اللہ نہ کہیں پھر جس نے لا الہٰ الا اللہ کہہ لیا اس نے اپنے مال اور اپنی جان کو مجھ سے بچا لیا البتہ کسی حق کے بدلہ اس کی جان یا مال کو نقصان پہنچایا جائے تو یہ اور بات ہے۔ اب اس کے دل میں کیا ہے اس کا حساب لینے والا اللہ ہے۔ ابوبکر صدیق (رض) نے کہا میں تو اللہ کی قسم اس شخص سے لڑوں گا جو نماز اور زکوٰۃ میں فرق کرے، اس لیے کہ زکوٰۃ مال کا حق ہے (جیسے نماز جسم کا حق ہے ) اللہ کی قسم ! اگر یہ لوگ مجھ کو ایک بکری کا بچہ نہ دیں گے جو نبی کریم ﷺ کو دیا کرتے تھے تو میں اس کے نہ دینے پر ان سے لڑوں گا۔ عمر (رض) نے کہا قسم اللہ کی اس کے بعد میں سمجھ گیا کہ ابوبکر (رض) کے دل میں جو لڑائی کا ارادہ ہوا ہے یہ اللہ نے ان کے دل میں ڈالا ہے اور میں پہچان گیا کہ ابوبکر (رض) کی رائے حق ہے۔
جب ذمی یا اس کے علاوہ کوئی شخص نبی ﷺ کو کنایۃ برابھلا کہے اور صراحۃ نہ کہے۔ جیسے السام علیک کہنا
ہم سے محمد بن مقاتل ابوالحسن مروزی نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا ہم کو شعبہ بن حجاج نے، انہوں نے ہشام بن زید بن انس سے، وہ کہتے تھے میں نے اپنے دادا انس بن مالک (رض) سے سنا، وہ کہتے تھے کہ ایک یہودی نبی کریم ﷺ کے پاس سے گزرا کہنے لگا السام عليك. یعنی تم مرو۔ نبی کریم ﷺ نے جواب میں صرف وعليك. کہا (تو بھی مرے گا) پھر آپ ﷺ نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا کہ تم کو معلوم ہوا، اس نے کیا کہا ؟ اس نے السام عليك. کہا۔ صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! (حکم ہو تو) اس کو مار ڈالیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا، نہیں۔ جب کتاب والے یہود اور نصاریٰ تم کو سلام کیا کریں تو تم بھی یہی کہا کرو وعليكم۔
جب ذمی یا اس کے علاوہ کوئی شخص نبی ﷺ کو کنایۃ برابھلا کہے اور صراحۃ نہ کہے۔ جیسے السام علیک کہنا
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، انہوں نے سفیان بن عیینہ سے، انہوں نے زہری سے، انہوں نے عروہ سے، انہوں نے عائشہ (رض) سے، انہوں نے کہا کہ یہود میں سے چند لوگوں نے نبی کریم ﷺ کے پاس آنے کی اجازت چاہی جب آئے تو کہنے لگے السام عليك. میں نے جواب میں یوں کہا عليكم السام واللعنة.۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اے عائشہ ! اللہ تعالیٰ نرمی کرتا ہے اور ہر کام میں نرمی کو پسند کرتا ہے۔ میں نے کہا : یا رسول اللہ ! کیا آپ نے ان کا کہنا نہیں سنا آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے بھی تو جواب دے دیا وعليكم۔
جب ذمی یا اس کے علاوہ کوئی شخص نبی ﷺ کو کنایۃ برابھلا کہے اور صراحۃ نہ کہے۔ جیسے السام علیک کہنا
ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے، انہوں نے سفیان بن عیینہ، اور امام مالک سے، ان دونوں نے کہا ہم سے عبداللہ بن دینار نے بیان کیا، کہا میں نے عبداللہ بن عمر (رض) سے سنا، وہ کہتے تھے نبی کریم ﷺ نے فرمایا یہودی لوگ جب تم مسلمانوں میں سے کسی کو سلام کرتے ہیں تو سام عليك. کہتے ہیں تم بھی جواب میں عليك کہا کرو۔
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد نے، کہا ہم سے اعمش نے، کہا مجھ سے شقیق ابن سلمہ نے کہ عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہا جیسے میں (اس وقت) نبی کریم ﷺ کو دیکھ رہا ہوں آپ ایک پیغمبر (نوح علیہ السلام) کی حکایت بیان کر رہے تھے ان کی قوم والوں نے ان کو اتنا مارا کہ لہولہان کردیا وہ اپنے منہ سے خون پونچھتے تھے اور یوں دعا کرتے جاتے رب اغفر لقومي، فإنهم لا يعلمون. پروردگار میری قوم والوں کو بخش دے وہ نادان ہیں۔
خوارج اور ملحدین کے قتل کرنے کا بیان جبکہ ان کے خلاف حجت قائم ہوجائے اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کہ وہ کسی قوم کو ہدایت دیئے جانے کے بعد گمراہ کردے یہاں تک وہ لوگوں کے لیے بیان کردے کہ جن چیزوں سے بچنا ہے اور ابن عمر ان لوگوں کو اللہ کی بدترین مخلوق خیال کرتے تھے اور کہا یہ لوگ ان آیتوں کو جو کفار کے حق میں نازل ہوئی ہیں ان کو مسلمانوں کے حق میں استعمال کرتے ہیں
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا ہم ہمارے سے والد نے، کہا ہم سے اعمش نے، کہا ہم سے خیثمہ بن عبدالرحمٰن نے، کہا ہم سے سوید بن غفلہ نے کہ علی (رض) نے کہا جب میں تم سے نبی کریم ﷺ کی کوئی حدیث بیان کروں تو قسم اللہ کی اگر میں آسمان سے نیچے گر پڑوں یہ مجھ کو اس سے اچھا لگتا ہے کہ میں نبی کریم ﷺ پر جھوٹ باندھوں ہاں جب مجھ میں تم میں آپس میں گفتگو ہو تو اس میں بنا کر بات کہنے میں کوئی قباحت نہیں کیونکہ (نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے) لڑائی تدبیر اور مکر کا نام ہے۔ دیکھو میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا ہے آپ ﷺ فرماتے تھے کہ اخیر زمانہ قریب ہے جب ایسے لوگ مسلمانوں میں نکلیں گے جو نوعمر بیوقوف ہوں گے (ان کی عقل میں فتور ہوگا) ظاہر میں تو ساری خلق کے کلاموں میں جو بہتر ہے (یعنی حدیث شریف) وہ پڑھیں گے مگر درحقیقت ایمان کا نور ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، وہ دین سے اس طرح باہر ہوجائیں گے جیسے تیر شکار کے جانور سے پار نکل جاتا ہے۔ (اس میں کچھ لگا نہیں رہتا) تم ان لوگوں کو جہاں پانا بےتامل قتل کرنا، ان کو جہاں پاؤ قتل کرنے میں قیامت کے دن ثواب ملے گا۔
خوارج اور ملحدین کے قتل کرنے کا بیان جبکہ ان کے خلاف حجت قائم ہوجائے اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کہ وہ کسی قوم کو ہدایت دیئے جانے کے بعد گمراہ کردے یہاں تک وہ لوگوں کے لیے بیان کردے کہ جن چیزوں سے بچنا ہے اور ابن عمر ان لوگوں کو اللہ کی بدترین مخلوق خیال کرتے تھے اور کہا یہ لوگ ان آیتوں کو جو کفار کے حق میں نازل ہوئی ہیں ان کو مسلمانوں کے حق میں استعمال کرتے ہیں
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالوہاب نے بیان کیا، کہا میں نے یحییٰ بن سعید انصاری سے سنا، کہا مجھ کو محمد بن ابراہیم تیمی نے خبر دی، انہوں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن اور عطاء بن یسار سے، وہ دونوں ابو سعید خدری (رض) کے پاس آئے اور ان سے پوچھا کیا تم نے حروریہ کے بارے میں کچھ نبی کریم ﷺ سے سنا ہے ؟ انہوں نے کہا حروریہ (دروریہ) تو میں جانتا نہیں مگر میں نے نبی کریم ﷺ سے یہ سنا ہے آپ ﷺ فرماتے تھے کہ اس امت میں اور یوں نہیں فرمایا اس امت میں سے کچھ لوگ ایسے پیدا ہوں گے کہ تم اپنی نماز کو ان کی نماز کے سامنے حقیر جانو گے اور قرآن کی تلاوت بھی کریں گے مگر قرآن ان کے حلقوں سے نیچے نہیں اترے گا۔ وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر جانور میں سے پار نکل جاتا ہے اور پھر تیر پھینکنے والا اپنے تیر کو دیکھتا ہے اس کے بعد جڑ میں (جو کمان سے لگی رہتی ہے) اس کو شک ہوتا ہے شاید اس میں خون لگا ہو مگر وہ بھی صاف۔
خوارج اور ملحدین کے قتل کرنے کا بیان جبکہ ان کے خلاف حجت قائم ہوجائے اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کہ وہ کسی قوم کو ہدایت دیئے جانے کے بعد گمراہ کردے یہاں تک وہ لوگوں کے لیے بیان کردے کہ جن چیزوں سے بچنا ہے اور ابن عمر ان لوگوں کو اللہ کی بدترین مخلوق خیال کرتے تھے اور کہا یہ لوگ ان آیتوں کو جو کفار کے حق میں نازل ہوئی ہیں ان کو مسلمانوں کے حق میں استعمال کرتے ہیں
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، کہا مجھ سے ابن وہب نے، کہا کہ مجھ سے عمر بن محمد بن زید بن عبداللہ بن عمر نے، کہا ان سے ان کے والد نے اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے اور انہوں نے حروریہ کا ذکر کیا اور کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ وہ اسلام سے اس طرح باہر ہوجائیں گے جس طرح تیر کمان سے باہر ہوجاتا ہے۔
اس شخص کا بیان جو تالیف قلوب کے لئے یا اس خیال سے کہ لوگ اس سے نفرت کرنے لگیں گے خوارج سے لڑنا چھوڑ دو
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف نے اور ان سے ابوسعید (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ تقسیم فرما رہے تھے کہ عبداللہ بن ذی الخویصرہ تمیمی آیا اور کہا : یا رسول اللہ ! انصاف کیجئے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ افسوس اگر میں انصاف نہیں کروں گا تو اور کون کرے گا۔ اس پر عمر بن الخطاب (رض) نے کہا کہ مجھے اجازت دیجئیے کہ میں اس کی گردن مار دوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں اس کے کچھ ایسے ساتھی ہوں گے کہ ان کی نماز اور روزے کے سامنے تم اپنی نماز اور روزے کو حقیر سمجھو گے لیکن وہ دین سے اس طرح باہر ہوجائیں گے جس طرح تیر جانور میں سے باہر نکل جاتا ہے۔ تیر کے پر کو دیکھا جائے لیکن اس پر کوئی نشان نہیں پھر اس پیکان کو دیکھا جائے اور وہاں بھی کوئی نشان نہیں پھر اس کے باڑ کو دیکھا جائے اور یہاں بھی کوئی نشان نہیں پھر اس کی لکڑی کو دیکھا جائے اور وہاں بھی کوئی نشان نہیں کیونکہ وہ (جانور کے جسم سے تیر چلایا گیا تھا) لید گوبر اور خون سب سے آگے (بےداغ) نکل گیا (اسی طرح وہ لوگ اسلام سے صاف نکل جائیں گے) ان کی نشانی ایک مرد ہوگا جس کا ایک ہاتھ عورت کی چھاتی کی طرح یا یوں فرمایا کہ گوشت کے تھل تھل کرتے لوتھڑے کی طرح ہوگا۔ یہ لوگ مسلمانوں میں پھوٹ کے زمانہ میں پیدا ہوں گے۔ ابو سعید خدری (رض) نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے یہ حدیث نبی کریم ﷺ سے سنی ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ علی (رض) نے نہروان میں ان سے جنگ کی تھی اور میں اس جنگ میں ان کے ساتھ تھا اور ان کے پاس ان لوگوں کے ایک شخص کو قیدی بنا کر لایا گیا تو اس میں وہی تمام چیزیں تھیں جو نبی کریم ﷺ نے بیان فرمائی تھیں۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی ومنهم من يلمزک في الصدقات کہ ان میں سے بعض وہ ہیں جو آپ کے صدقات کی تقسیم میں عیب پکڑتے ہیں۔
اس شخص کا بیان جو تالیف قلوب کے لئے یا اس خیال سے کہ لوگ اس سے نفرت کرنے لگیں گے خوارج سے لڑنا چھوڑ دو
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالواحد بن زیادہ نے، کہا ہم سے سلمان شیبانی نے، کہا ہم سے یسیر بن عمرو نے بیان کیا کہ میں نے سہل بن حنیف (بدری صحابی) (رض) سے پوچھا کیا تم نے نبی کریم ﷺ کو خوارج کے سلسلے میں کچھ فرماتے ہوئے سنا ہے، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے اور آپ نے عراق کی طرف ہاتھ سے اشارہ فرمایا تھا کہ ادھر سے ایک جماعت نکلے گی یہ لوگ قرآن مجید پڑھیں گے لیکن قرآن مجید ان کے حلقوں سے نیچے نہیں اترے گا۔ وہ اسلام سے اس طرح باہر ہوجائیں گے جیسے تیر شکار کے جانور سے باہر نکل جاتا ہے۔
نبی ﷺ کا ارشاد کہ قیامت اس وقت تک نہ قائم ہوگی جب تک کہ دو جماعتوں میں جنگ نہ ہوگی۔ اور ان دونوں کا دعوی ایک ہوگا
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک دو ایسے گروہ آپس میں جنگ نہ کریں جن کا دعویٰ ایک ہی ہو۔
None
میں نے ہشام بن حکیم کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں سورۃ الفرقان پڑھتے سنا جب غور سے سنا تو وہ بہت سی ایسی قراتوں کے ساتھ پڑھ رہے تھے جن سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نہیں پڑھایا تھا۔ قریب تھا کہ نماز ہی میں، میں ان پر حملہ کر دیتا لیکن میں نے انتظار کیا اور جب انہوں نے سلام پھیرا تو ان کی چادر سے یا ( انہوں نے یہ کہا کہ ) اپنی چادر سے میں نے ان کی گردن میں پھندا ڈال دیا اور ان سے پوچھا کہ اس طرح تمہیں کس نے پڑھایا ہے؟ انہوں نے کہا کہ مجھے اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھایا ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ جھوٹ بولتے ہو، واللہ یہ سورت مجھے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھائی ہے جو میں نے تمہیں ابھی پڑھتے سنا ہے۔ چنانچہ میں انہیں کھینچتا ہوا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے اسے سورۃ الفرقان اور طرح پر پڑھتے سنا ہے جس طرح آپ نے مجھے نہیں پڑھائی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بھی سورۃ الفرقان پڑھائی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عمر! انہیں چھوڑ دو۔ ہشام سورت پڑھو۔ انہوں نے اسی طرح پڑھ کر سنایا جس طرح میں نے انہیں پڑھتے سنا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ اسی طرح نازل ہوئی تھی پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عمر! اب تم پڑھو۔ میں نے پڑھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسی طرح نازل ہوئی تھی پھر فرمایا یہ قرآن سات قراتوں میں نازل ہوا ہے پس تمہیں جس طرح آسانی ہو پڑھو۔
تاویل کرنے والوں کے متعلق جو روایتیں منقول ہیں، ابو عبداللہ (بخاری) نے کہا کہ لیث بواسطہ یونس، ابن شہاب، عروہ بن زبیر، مسعود بن مخزومہ و عبدالرحمن بن عبدالقاری سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے بیان کیا کہ حضرت عمر بن خطاب کو بیان کرتے ہوئے سنا کہ میں نے شام بن حکیم کو رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں سورۃ فرقان پڑھتے ہوئے سنا میں نے ان کو بہت سے حرفوں کو اس طرح پڑھتے ہوئے سنا کہ اس طرح رسول اللہ ﷺ نے ہم کو نہیں پڑھایا تھا، میں قریب تھا کہ ان پر نمازی ہی کی حالت میں حملہ کردوں لیکن میں نے انتظار کیا یہاں تک انہوں نے سلام پھیرا، پھر میں نے اپنی یا ان کی چادر ان کے گلے میں ڈالی اور میں نے کہا کہ تجھے یہ سورت کس نے سکھائی ہے، انہوں نے کہا کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے یہ سورت پڑھائی ہے، میں نے ان سے کہا تم جھوٹے ہو، خدا کی قسم مجھے آخرت ﷺ نے یہ سورت پڑھائی ہے جو تمہیں پڑھتے ہوئے میں نے سنا ہے۔ چنانچہ میں ان کو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لے گیا اور میں نے کہا یا رسول اللہ، میں نے ان کو سورت فرقان ان حرفوں کے ساتھ پڑھتے ہوئے سنا ہے جو آپ نے مجھے نہیں پڑھائی۔ حالانکہ آپ مجھے سورت فرقان پڑھا چکے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ عرم اس کو چھوڑ دو اور اے ہشام تم پڑھو، تو انہوں نے اسی طور پڑھا جس طرح یہ پڑھتے ہوئے میں نے ان کو سنا تھا، آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ یہ سورت اسی طرح نازل ہوئی ہے، پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے عمر اب تم پڑھو، میں نے پڑھا، تو آپ نے فرمایا کہ اسی طرح نازل ہوئی ہے، پھر فرمایا کہ قرآن سات طریقوں سے نازل ہوا ہے اس لئے جو آسان ہو اس میں سے پڑھو۔
ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم کو وکیع نے خبر دی (دوسری سند) امام بخاری (رح) نے کہا، ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے وکیع نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے، ان سے ابراہیم نے، ان سے علقمہ نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی الذين آمنوا ولم يلبسوا إيمانهم بظلم وہ لوگ جو ایمان لے آئے اور اپنے ایمان کے ساتھ ظلم کو نہیں ملایا تو صحابہ کو یہ معاملہ بہت مشکل نظر آیا اور انہوں نے کہا ہم میں کون ہوگا جو ظلم نہ کرتا ہو۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اس کا مطلب وہ نہیں ہے جو تم سمجھتے ہو بلکہ اس کا مطلب لقمان (علیہ السلام) کے اس ارشاد میں ہے جو انہوں نے اپنے لڑکے سے کہا تھا يا بنى لا تشرک بالله إن الشرک لظلم عظيم کہ اے بیٹے ! اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا، بلاشبہ شرک کرنا بہت بڑا ظلم ہے۔
تاویل کرنے والوں کے متعلق جو روایتیں منقول ہیں، ابو عبداللہ (بخاری) نے کہا کہ لیث بواسطہ یونس، ابن شہاب، عروہ بن زبیر، مسعود بن مخزومہ و عبدالرحمن بن عبدالقاری سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے بیان کیا کہ حضرت عمر بن خطاب کو بیان کرتے ہوئے سنا کہ میں نے شام بن حکیم کو رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں سورۃ فرقان پڑھتے ہوئے سنا میں نے ان کو بہت سے حرفوں کو اس طرح پڑھتے ہوئے سنا کہ اس طرح رسول اللہ ﷺ نے ہم کو نہیں پڑھایا تھا، میں قریب تھا کہ ان پر نمازی ہی کی حالت میں حملہ کردوں لیکن میں نے انتظار کیا یہاں تک انہوں نے سلام پھیرا، پھر میں نے اپنی یا ان کی چادر ان کے گلے میں ڈالی اور میں نے کہا کہ تجھے یہ سورت کس نے سکھائی ہے، انہوں نے کہا کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے یہ سورت پڑھائی ہے، میں نے ان سے کہا تم جھوٹے ہو، خدا کی قسم مجھے آخرت ﷺ نے یہ سورت پڑھائی ہے جو تمہیں پڑھتے ہوئے میں نے سنا ہے۔ چنانچہ میں ان کو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لے گیا اور میں نے کہا یا رسول اللہ، میں نے ان کو سورت فرقان ان حرفوں کے ساتھ پڑھتے ہوئے سنا ہے جو آپ نے مجھے نہیں پڑھائی۔ حالانکہ آپ مجھے سورت فرقان پڑھا چکے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ عرم اس کو چھوڑ دو اور اے ہشام تم پڑھو، تو انہوں نے اسی طور پڑھا جس طرح یہ پڑھتے ہوئے میں نے ان کو سنا تھا، آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ یہ سورت اسی طرح نازل ہوئی ہے، پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے عمر اب تم پڑھو، میں نے پڑھا، تو آپ نے فرمایا کہ اسی طرح نازل ہوئی ہے، پھر فرمایا کہ قرآن سات طریقوں سے نازل ہوا ہے اس لئے جو آسان ہو اس میں سے پڑھو۔
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں محمود بن الربیع نے خبر دی، کہا کہ میں نے عتبان بن مالک (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ صبح کے وقت نبی کریم ﷺ میرے یہاں تشریف لائے پھر ایک صاحب نے پوچھا کہ مالک بن الدخشن کہاں ہیں ؟ ہمارے قبیلہ کے ایک شخص نے جواب دیا کہ وہ منافق ہے، اللہ اور اس کے رسول سے اسے محبت نہیں ہے۔ نبی کریم ﷺ نے اس پر فرمایا کہ کیا تم ایسا نہیں سمجھتے کہ وہ کلمہ لا الہٰ الا اللہ کا اقرار کرتا ہے اور اس کا مقصد اس سے اللہ کی رضا ہے۔ اس صحابی نے کہا کہ ہاں یہ تو ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پھر جو بندہ بھی قیامت کے دن اس کلمہ کو لے کر آئے گا، اللہ تعالیٰ اس پر جہنم کو حرام کر دے گا۔
تاویل کرنے والوں کے متعلق جو روایتیں منقول ہیں، ابو عبداللہ (بخاری) نے کہا کہ لیث بواسطہ یونس، ابن شہاب، عروہ بن زبیر، مسعود بن مخزومہ و عبدالرحمن بن عبدالقاری سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے بیان کیا کہ حضرت عمر بن خطاب کو بیان کرتے ہوئے سنا کہ میں نے شام بن حکیم کو رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں سورۃ فرقان پڑھتے ہوئے سنا میں نے ان کو بہت سے حرفوں کو اس طرح پڑھتے ہوئے سنا کہ اس طرح رسول اللہ ﷺ نے ہم کو نہیں پڑھایا تھا، میں قریب تھا کہ ان پر نمازی ہی کی حالت میں حملہ کردوں لیکن میں نے انتظار کیا یہاں تک انہوں نے سلام پھیرا، پھر میں نے اپنی یا ان کی چادر ان کے گلے میں ڈالی اور میں نے کہا کہ تجھے یہ سورت کس نے سکھائی ہے، انہوں نے کہا کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے یہ سورت پڑھائی ہے، میں نے ان سے کہا تم جھوٹے ہو، خدا کی قسم مجھے آخرت ﷺ نے یہ سورت پڑھائی ہے جو تمہیں پڑھتے ہوئے میں نے سنا ہے۔ چنانچہ میں ان کو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لے گیا اور میں نے کہا یا رسول اللہ، میں نے ان کو سورت فرقان ان حرفوں کے ساتھ پڑھتے ہوئے سنا ہے جو آپ نے مجھے نہیں پڑھائی۔ حالانکہ آپ مجھے سورت فرقان پڑھا چکے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ عرم اس کو چھوڑ دو اور اے ہشام تم پڑھو، تو انہوں نے اسی طور پڑھا جس طرح یہ پڑھتے ہوئے میں نے ان کو سنا تھا، آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ یہ سورت اسی طرح نازل ہوئی ہے، پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے عمر اب تم پڑھو، میں نے پڑھا، تو آپ نے فرمایا کہ اسی طرح نازل ہوئی ہے، پھر فرمایا کہ قرآن سات طریقوں سے نازل ہوا ہے اس لئے جو آسان ہو اس میں سے پڑھو۔
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ وضاح شکری نے بیان کیا، ان سے حصین بن عبدالرحمٰن سلمی نے، ان سے فلاں شخص (سعید بن عبیدہ) نے کہ ابوعبدالرحمٰن اور حبان بن عطیہ کا آپس میں اختلاف ہوا۔ ابوعبدالرحمٰن نے حبان سے کہا کہ آپ کو معلوم ہے کہ آپ کے ساتھی خون بہانے میں کس قدر جری ہوگئے ہیں۔ ان کا اشارہ علی (رض) کی طرف تھا اس پر حبان نے کہا انہوں نے کیا کیا ہے، تیرا باپ نہیں۔ ابوعبدالرحمٰن نے کہا کہ علی (رض) کہتے تھے کہ مجھے، زبیر اور ابومرثد رضی اللہ عنہم کو رسول اللہ ﷺ نے بھیجا اور ہم سب گھوڑوں پر سوار تھے نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جاؤ اور جب روضہ خاخ پر پہنچو (جو مدینہ سے بارہ میل کے فاصلہ پر ایک جگہ ہے) ابوسلمہ نے بیان کیا کہ ابوعوانہ نے خاخ کے بدلے حاج کہا ہے۔ تو وہاں تمہیں ایک عورت (سارہ نامی) ملے گی اور اس کے پاس حاطب بن ابی بلتعہ کا ایک خط ہے جو مشرکین مکہ کو لکھا گیا ہے تم وہ خط میرے پاس لاؤ۔ چناچہ ہم اپنے گھوڑوں پر دوڑے اور ہم نے اسے وہیں پکڑا جہاں نبی کریم ﷺ نے بتایا تھا۔ وہ عورت اپنے اونٹ پر سوار جا رہی تھی حاطب بن ابی بلتعہ (رض) نے اہل مکہ کو نبی کریم ﷺ کی مکہ کو آنے کی خبر دی تھی۔ ہم نے اس عورت سے کہا کہ تمہارے پاس وہ خط کہاں ہے اس نے کہا کہ میرے پاس تو کوئی خط نہیں ہے ہم نے اس کا اونٹ بٹھا دیا اور اس کے کجاوہ کی تلاشی لی لیکن اس میں کوئی خط نہیں ملا۔ میرے ساتھی نے کہا کہ اس کے پاس کوئی خط نہیں معلوم ہوتا۔ راوی نے بیان کیا کہ ہمیں یقین ہے کہ نبی کریم ﷺ نے غلط بات نہیں فرمائی پھر علی (رض) نے قسم کھائی کہ اس ذات کی قسم جس کی قسم کھائی جاتی ہے خط نکال دے ورنہ میں تجھے ننگی کروں گا اب وہ عورت اپنے نیفے کی طرف جھکی اس نے ایک چادر کمر پر باندھ رکھی تھی اور خط نکالا۔ اس کے بعد یہ لوگ خط نبی کریم ﷺ کے پاس لائے۔ عمر (رض) نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! اس نے اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں کے ساتھ خیانت کی ہے، مجھے اجازت دیجئیے کہ میں اس کی گردن مار دوں۔ لیکن نبی کریم ﷺ نے فرمایا، حاطب ! تم نے ایسا کیوں کیا ؟ حاطب (رض) نے کہا : یا رسول اللہ ! بھلا کیا مجھ سے یہ ممکن ہے کہ میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ رکھوں میرا مطلب اس خط کے لکھنے سے صرف یہ تھا کہ میرا ایک احسان مکہ والوں پر ہوجائے جس کی وجہ سے میں اپنی جائیداد اور بال بچوں کو (ان کے ہاتھ سے) بچا لوں۔ بات یہ ہے کہ آپ کے اصحاب میں کوئی ایسا نہیں جس کے مکہ میں ان کی قوم میں کے ایسے لوگ نہ ہوں جس کی وجہ سے اللہ ان کے بچوں اور جائیداد پر کوئی آفت نہیں آنے دیتا۔ مگر میرا وہاں کوئی نہیں ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ حاطب نے سچ کہا ہے۔ بھلائی کے سوا ان کے بارے میں اور کچھ نہ کہو۔ بیان کیا کہ عمر (رض) نے دوبارہ کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ اس نے اللہ اور اس کے رسول اور مومنوں کے ساتھ خیانت کی ہے۔ مجھے اجازت دیجئیے کہ میں اس کی گردن مار دوں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کیا یہ جنگ بدر میں شریک ہونے والوں میں سے نہیں ہیں ؟ تمہیں کیا معلوم اللہ تعالیٰ ان کے اعمال سے واقف تھا اور پھر فرمایا کہ جو چاہو کرو میں نے جنت تمہارے لیے لکھ دی ہے اس پر عمر (رض) کی آنکھوں میں (خوشی سے) آنسو بھر آئے اور عرض کیا : اللہ اور اس کے رسول ہی کو حقیقت کا زیادہ علم ہے۔ ابوعبداللہ (امام بخاری (رح)) نے کہا کہ خاخ زیادہ صحیح ہے لیکن ابوعوانہ نے حاج ہی بیان کیا ہے اور لفظ حاج بدلا ہوا ہے یہ ایک جگہ کا نام ہے اور ہشیم نے خاخ بیان کیا ہے۔