73. جبر کرنے کا بیان
اللہ تعالیٰ کا قول کہ مگر وہ جس پر جبر کیا گیا۔ اور اس کا قلب ایمان سے مطمئن ہے، لیکن وہ جس نے سینہ کفر کے لئے کھول دیا تو ان پر اللہ کی طرف سے غضب نازل ہوگا اور ان کے لئے بڑا عذاب ہے، اور فرمایا، تقاۃ کے معنی تقیہ ہیں (یعنی کافروں کے خوف سے ایمان کا چھپانا) اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ان الذین توفاھم الملاءکۃ ظالمی انفسھم قالوا فیم کنتم قالوا کنا مستضعفین فی الارض) الی قولہ واجعل لنا من لدنک نصیرا۔ پس اللہ تعالیٰ نے معذور قرار دیا ان کو جو اللہ تعالیٰ کے اوامر کے ترک سے رک نہیں سکتے اور جس شخص پر جبر کیا گیا وہ بھی کمزور ہی ہے کہ جو کچھ اسے حم دیا گیا اس کے کرنے سے رک نہیں سکتا اور حسن کا بیان ہے کہ تقیہ قیامت تک جاری ہے اور حضرت ابن عباس نے کہا کہ جس شخص پر چوروں نے زبردستی کی وہ اس کو طلاق دے دے، تو یہ کچھ بھی نہیں ہے اور حضرت ابن عمر وابن زبیر وشعبی اور حسن نے بھی یہی کہا ہے اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اعمال نیت پر موقوف ہیں۔
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے خالف بن یزید نے بیان کیا، ان سے سعید بن ابی ہلال بن اسامہ نے، انہیں ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے خبر دی اور انہیں ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نماز میں دعا کرتے تھے کہ اے اللہ عیاش بن ابی ربیعہ، سلمہ بن ہشام اور ولید بن الولید (رضی اللہ عنہم) کو نجات دے۔ اے اللہ بےبس مسلمانوں کو نجات دے۔ اے اللہ قبیلہ مضر کے لوگوں کو سختی کے ساتھ پیس ڈال اور ان پر ایسی قحط سالی بھیج جیسی یوسف (علیہ السلام) کے زمانہ میں آئی تھی۔
اس شخص کا یبان جو کفر پر مار کھانے اور قتل کئے جانے اور ذلت کو ترجیح دے۔
ہم سے محمد بن عبداللہ بن حوشب الطائفی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالوہاب ثقفی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ایوب نے بیان کیا، ان سے ابوقلابہ نے بیان کیا، اور ان سے انس (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تین خصوصیتیں ایسی ہیں کہ جس میں پائی جائیں گی وہ ایمان کی شیرینی پالے گا اول یہ کہ اللہ اور اس کے رسول اسے سب سے زیادہ عزیز ہوں۔ دوسرے یہ کہ وہ کسی شخص سے محبت صرف اللہ ہی کے لیے کرے تیسرے یہ کہ اسے کفر کی طرف لوٹ کر جانا اتنا ناگوار ہو جیسے آگ میں پھینک دیا جانا۔
اس شخص کا یبان جو کفر پر مار کھانے اور قتل کئے جانے اور ذلت کو ترجیح دے۔
ہم سے سعید بن سلیمان نے بیان کیا، کہا ہم سے عباد نے، ان سے اسماعیل نے، انہوں نے قیس سے سنا، انہوں نے سعید بن زید (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے اپنے آپ کو اس حال میں پایا کہ اسلام لانے کی وجہ سے (مکہ معظمہ میں) عمر (رض) نے مجھے باندھ دیا تھا اور اب جو کچھ تم نے عثمان (رض) کے ساتھ کیا ہے اس پر اگر احد پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے تو اسے ایسا ہی ہونا چاہیے۔
اس شخص کا یبان جو کفر پر مار کھانے اور قتل کئے جانے اور ذلت کو ترجیح دے۔
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے اسماعیل نے، کہا ہم سے قیس نے بیان کیا، ان سے خباب بن الارت (رض) نے کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے اپنا حال زار بیان کیا۔ نبی کریم ﷺ اس وقت کعبہ کے سایہ میں اپنی چادر پر بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم نے عرض کیا کیوں نہیں آپ ہمارے لیے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تم سے پہلے بہت سے نبیوں اور ان پر ایمان لانے والوں کا حال یہ ہوا کہ ان میں سے کسی ایک کو پکڑ لیا جاتا اور گڑھا کھود کر اس میں انہیں ڈال دیا جاتا پھر آرا لایا جاتا اور ان کے سر پر رکھ کر دو ٹکڑے کر دئیے جاتے اور لوہے کے کنگھے ان کے گوشت اور ہڈیوں میں دھنسا دئیے جاتے لیکن یہ آزمائشیں بھی انہیں اپنے دین سے نہیں روک سکتی تھیں۔ اللہ کی قسم ! اس اسلام کا کام مکمل ہوگا اور ایک سوار صنعاء سے حضرموت تک اکیلا سفر کرے گا اور اسے اللہ کے سوا اور کسی کا خوف نہیں ہوگا اور بکریوں پر سوا بھیڑئیے کے خوف کے (اور کسی لوٹ وغیرہ کا کوئی ڈر نہ ہوگا) لیکن تم لوگ جلدی کرتے ہو۔
مجبور وغیرہ کا اپنے حقوق فروخت کرنے کا بیان
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے سعید مقبری نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ ہم مسجد میں تھے کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ یہودیوں کے پاس چلو۔ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ روانہ ہوئے اور جب ہم بیت المدراس کے پاس پہنچے تو نبی کریم ﷺ نے انہیں آواز دی اے قوم یہود ! اسلام لاؤ تم محفوظ ہوجاؤ گے۔ یہودیوں نے کہا : ابوالقاسم ! آپ نے پہنچا دیا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میرا بھی یہی مقصد ہے پھر آپ ﷺ نے دوبارہ یہی فرمایا اور یہودیوں نے کہا کہ ابوالقاسم آپ نے پہنچا دیا نبی کریم ﷺ نے تیسری مرتبہ یہی فرمایا۔ اور پھر فرمایا تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ زمین اللہ اور اس کے رسول کی ہے اور میں تمہیں جلا وطن کرتا ہوں۔ پس تم میں سے جس کے پاس مال ہو اسے چاہیے کہ جلا وطن ہونے سے پہلے اسے بیچ دے ورنہ جان لو کہ زمین اللہ اور اس کے رسول کی ہے۔
مجبور کا نکاح جائز نہیں اور تم اپنی لونڈیوں کو اگر وہ پاکدامن رہنا چاہیں اس لئے زنا پر مجبور نہ کرو کہ دنیاوی زندگی کا سامان تیار کرو اور جو شخص انہیں مجبور کرے تو اللہ تعالیٰ ان کے مجبور کیے جانے کے بعد بخشنے والا مہربان ہے
ہم سے یحییٰ بن قزعہ نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن القاسم نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے یزید بن حارثہ انصاری کے دو صاحبزادوں عبدالرحمٰن اور مجمع نے اور ان سے خنساء بنت خذام انصاریہ نے کہ ان کے والد نے ان کی شادی کردی ان کی ایک شادی اس سے پہلے ہوچکی تھی (اور اب بیوہ تھیں) اس نکاح کو انہوں نے ناپسند کیا اور نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر (اپنی ناپسندیدگی ظاہر کردی) تو نبی کریم ﷺ نے اس نکاح کو فسخ کردیا۔
مجبور کا نکاح جائز نہیں اور تم اپنی لونڈیوں کو اگر وہ پاکدامن رہنا چاہیں اس لئے زنا پر مجبور نہ کرو کہ دنیاوی زندگی کا سامان تیار کرو اور جو شخص انہیں مجبور کرے تو اللہ تعالیٰ ان کے مجبور کیے جانے کے بعد بخشنے والا مہربان ہے
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے، ان سے ابن ابی ملیکہ نے، ان سے ابوعمرو نے جن کا نام ذکوان ہے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! کیا عورتوں سے ان کے نکاح کے سلسلہ میں اجازت لی جائے گی ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، ہاں۔ میں نے عرض کیا لیکن کنواری لڑکی سے اجازت لی جائے گی تو وہ شرم کی وجہ سے چپ سادھ لے گی۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اس کی خاموشی ہی اجازت ہے۔
جب کسی شخص کو مجبور کیا جائے کہ وہ کسی کو غلام دیدے یا فروخت کردے تو جائز نہیں۔ اور بعض نے کہا اگر خریدار اس میں نظر مانے تو ان کے خیال میں جائز ہے اسی طرح اگر مدبر کو کیا (توجائز ہے)
ہم سے ابونعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے اور ان سے جابر (رض) نے کہ ایک انصاری صحابی نے کسی غلام کو مدبر بنایا اور ان کے پاس اس کے سوا اور کوئی مال نہیں تھا۔ رسول اللہ ﷺ کو جب اس کی اطلاع ملی تو دریافت فرمایا۔ اسے مجھ سے کون خریدے گا چناچہ نعیم بن النحام (رض) نے آٹھ سو درہم میں خرید لیا۔ بیان کیا کہ پھر میں نے جابر (رض) سے سنا انہوں نے بیان کیا کہ وہ ایک قبطی غلام تھا اور پہلے ہی سال مرگیا۔
اکراہ سے کرہ اور کرہ کے ایک معنی میں آتا ہے
ہم سے حسین بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم سے اسباط بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے شیبانی سلیمان بن فیروز نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے، شیبانی نے کہا کہ مجھ سے عطاء ابوالحسن السوائی نے بیان کیا اور میرا یہی خیال ہے کہ انہوں نے یہ حدیث ابن عباس (رض) سے بیان کی۔ سورة المائدہ کی آیت يا أيها الذين آمنوا لا يحل لکم أن ترثوا النساء کرها بیان کیا کہ جب کوئی شخص (زمانہ جاہلیت میں) مرجاتا تو اس کے وارث اس کی عورت کے حقدار بنتے اگر ان میں سے کوئی چاہتا تو اس سے شادی کرلیتا اور چاہتا تو شادی نہ کرتا اس طرح مرنے والے کے وارث اس عورت پر عورت کے وارثوں سے زیادہ حق رکھتے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی (بیوہ عورت عدت گزارنے کے بعد مختار ہے وہ جس سے چاہے شادی کرے اس پر زبردستی کرنا ہرگز جائز نہیں ہے) ۔
None
حکومت کے غلاموں میں سے ایک نے حصہ خمس کی ایک باندی سے صحبت کر لی اور اس کے ساتھ زبردستی کر کے اس کی بکارت توڑ دی تو عمر رضی اللہ عنہ نے غلام پر حد جاری کرائی اور اسے شہر بدر بھی کر دیا لیکن باندی پر حد نہیں جاری کی۔ کیونکہ غلام نے اس کے ساتھ زبردستی کی تھی۔ زہری نے ایسی کنواری باندی کے متعلق کہا جس کے ساتھ کسی آزاد نے ہمبستری کر لی ہو کہ حاکم کنواری باندی میں اس کی وجہ سے اس شخص سے اتنے دام بھر لے جتنے بکارت جاتے رہنے کی وجہ سے اس کے دام کم ہو گئے ہیں اور اس کو کوڑے بھی لگائے اگر آزاد مرد ثیبہ لونڈی سے زنا کرے تب خریدے۔ اماموں نے یہ حکم نہیں دیا ہے کہ اس کو کچھ مالی تاوان دینا پڑے گا بلکہ صرف حد لگائی جائے گی۔
اگر کوئی عورت زنا پر مجبور کی گئی تو اس پر حد نہیں ہے اس لئے کہ اللہ نے فرمایا کہ جس نے ان کو مجبور کیا تو اللہ تعالیٰ ان کے جبر کیے جانے کے بعد بخشنے والا مہربان ہے اور لیث نے کہا کہ مجھ سے نافع نے بیان کیا صفیہ بنت ابی عبید نے بیان کیا کہ امارت کے غلاموں میں سے ایک غلام نے خمس کی ایک لونڈی سے محبت کرلی اس پر زبردستی کی یہاں تک کہ اس کی بکارت زائل ہوگئی تو حضرت عمر نے اس کو حد لگائی اور اس کو شہر بدر کردیا اور اس لونڈی کو درے نہیں لگائے اس سبب کہ اس پر زبردستی کی گئی تھی اور زہری نے بیان کیا کہ اگر کنواری لونڈی سے آزاد مرد جماع کرے تو حاکم اس کنواری لونڈی کی قیمت کے اعتبار سے قیمت وصول کرے گا اس کو درے لگائے گا اور ثیبہ لونڈی کی صورت میں اماموں کے حکم میں تاوان نہیں ہے بلکہ اس پر حد ہے۔
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم سے شعیب نے بیان کیا، ان سے ابوالزناد نے، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ابراہیم (علیہ السلام) نے سارہ (علیہا السلام) کو ساتھ لے کر ہجرت کی تو ایک ایسی بستی میں پہنچے جس میں بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ یا ظالموں میں سے ایک ظالم رہتا تھا اس ظالم نے ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس یہ حکم بھیجا کہ سارہ (علیہا السلام) کو اس کے پاس بھیجیں آپ نے سارہ کو بھیج دیا وہ ظالم ان کے پاس آیا تو وہ (سارہ علیہا السلام) وضو کر کے نماز پڑھ رہی تھیں انہوں نے دعا کی کہ اے اللہ ! اگر میں تجھ پر اور تیرے رسول پر ایمان رکھتی ہوں تو تو مجھ پر کافر کو نہ مسلط کر پھر ایسا ہوا کہ وہ کم بخت بادشاہ اچانک خراٹے لینے اور گر کر پاؤں ہلانے لگا۔
کسی شخص کا اپنے ساتھی کے متعلق جب کہ اس کے قتل کئے جانے یا اس طرح کی کسی اور چیز کا خطرہ ہو۔ قسم کھانے کا بیان کہ وہ میرا بھائی ہے اور اسی طرح ہر وہ شخص جس پر زبردستی کی جائے اور خائف ہو اس لئے کہ وہ مظالم کو اس سے دفع کرتا ہے اور اس کی طرف سے جنگ کرتا ہے اور اس کو (بے سہارا) نہیں چھوڑتا، اگر مظلوم کی حمایت میں لڑے تو اس پر قصاص یا خون بہا نہیں ہے اگر اس سے کہا جائے کہ تجھے شراب پینا ہوگی یا مردار کھانا پڑے گا، تجھے اپنا غلام بیچنا پڑے گا، یا تجھے دین کا اقرار کرنا ہوگا، یا تجھے ہبہ کرنا ہوگا یا کوئی اور عقد قائم کرنے کے لئے کہا جائے، ورنہ تیرے باپ کو یا اسلامی بھائی کو ہم قتل کردیں گے تو اس کو اس کی اجازت ہے اس لئے کہ آنحضرت نے فرمایا ہے کہ مسلم مسلم کا بھائی ہے اور بعض لوگوں نے کہا کہ اگر اس سے کہا جائے کہ تجھے شراب پینی ہوگی، یا مردار کھانا پڑے گا ورنہ تیرے باپ یا بیٹے یا کسی قریبی رشتہ دار کو ہم قتل کردیں گے، اس کے لئے جائز نہیں اس لئے کہ وہ مجبور نہیں ہے، پھر اس قول کے خلاف ان کا یہ قول ہے کہ اس سے کہا جائے کہ ہم تیرے باپ یا بیٹے کو قتل کردیں گے ورنہ اس غلام کو بیچ دے یا دین کا اقرار کرلے یا ہبہ کردے، تو قیاس کے مطابق یہ اس کو لازم ہیں لیکن ہم بہتر سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بیع و ہبہ اور تمام عقود اس صورت میں باطل ہیں۔ انہوں نے قریبی رشتہ دار اور ان کے علاوہ لوگوں کے درمیان بغیر کتاب و سنت کے تفریق کی ہے، حالانکہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ حضرت ابراہیم نے اپنی بیوی کے متعلق کہا تھا کہ یہ میری بہن ہے اور یہ انہوں نے اللہ کے رشتہ کے لحاظ سے فرمایا تھا اور نخعی نے کہا کہ جب قسم لینے والا ظالم ہو تو قسم کھانے والے کی نیت اور اگر مظلوم ہو تو قسم دینے والے کی نیت کا اعتبار ہوگا۔
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، انہیں سالم نے خبر دی اور انہیں عبداللہ بن عمر (رض) نے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ اس پر ظلم کرے اور نہ اسے (کسی ظالم کے) سپرد کرے اور جو شخص اپنے کسی بھائی کی ضرورت پوری کرنے میں لگا ہوگا اللہ تعالیٰ اس کی ضرورت اور حاجت پوری کرے گا۔
کسی شخص کا اپنے ساتھی کے متعلق جب کہ اس کے قتل کئے جانے یا اس طرح کی کسی اور چیز کا خطرہ ہو۔ قسم کھانے کا بیان کہ وہ میرا بھائی ہے اور اسی طرح ہر وہ شخص جس پر زبردستی کی جائے اور خائف ہو اس لئے کہ وہ مظالم کو اس سے دفع کرتا ہے اور اس کی طرف سے جنگ کرتا ہے اور اس کو (بے سہارا) نہیں چھوڑتا، اگر مظلوم کی حمایت میں لڑے تو اس پر قصاص یا خون بہا نہیں ہے اگر اس سے کہا جائے کہ تجھے شراب پینا ہوگی یا مردار کھانا پڑے گا، تجھے اپنا غلام بیچنا پڑے گا، یا تجھے دین کا اقرار کرنا ہوگا، یا تجھے ہبہ کرنا ہوگا یا کوئی اور عقد قائم کرنے کے لئے کہا جائے، ورنہ تیرے باپ کو یا اسلامی بھائی کو ہم قتل کردیں گے تو اس کو اس کی اجازت ہے اس لئے کہ آنحضرت نے فرمایا ہے کہ مسلم مسلم کا بھائی ہے اور بعض لوگوں نے کہا کہ اگر اس سے کہا جائے کہ تجھے شراب پینی ہوگی، یا مردار کھانا پڑے گا ورنہ تیرے باپ یا بیٹے یا کسی قریبی رشتہ دار کو ہم قتل کردیں گے، اس کے لئے جائز نہیں اس لئے کہ وہ مجبور نہیں ہے، پھر اس قول کے خلاف ان کا یہ قول ہے کہ اس سے کہا جائے کہ ہم تیرے باپ یا بیٹے کو قتل کردیں گے ورنہ اس غلام کو بیچ دے یا دین کا اقرار کرلے یا ہبہ کردے، تو قیاس کے مطابق یہ اس کو لازم ہیں لیکن ہم بہتر سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بیع و ہبہ اور تمام عقود اس صورت میں باطل ہیں۔ انہوں نے قریبی رشتہ دار اور ان کے علاوہ لوگوں کے درمیان بغیر کتاب و سنت کے تفریق کی ہے، حالانکہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ حضرت ابراہیم نے اپنی بیوی کے متعلق کہا تھا کہ یہ میری بہن ہے اور یہ انہوں نے اللہ کے رشتہ کے لحاظ سے فرمایا تھا اور نخعی نے کہا کہ جب قسم لینے والا ظالم ہو تو قسم کھانے والے کی نیت اور اگر مظلوم ہو تو قسم دینے والے کی نیت کا اعتبار ہوگا۔
ہم سے محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سعید بن سلیمان واسطی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ہشیم نے بیان کیا، کہا ہم کو عبیداللہ بن ابی بکر بن انس نے خبر دی اور ان سے انس (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ ایک صحابی نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! جب وہ مظلوم ہو تو میں اس کی مدد کروں گا لیکن آپ کا کیا خیال ہے جب وہ ظالم ہوگا پھر میں اس کی مدد کیسے کروں ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اس وقت تم اسے ظلم سے روکنا کیونکہ یہی اس کی مدد ہے۔