74. حیلوں کا بیان

【1】

حیلوں کے چھوڑنے کا بیان اور یہ کہ ہر شخص کے لئے وہی ہے جس کی وہ قسموں وغیرہ میں نیت کرے

ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن سعید انصاری نے، ان سے محمد بن ابراہیم تیمی نے، ان سے علقمہ بن وقاص لیثی نے بیان کیا کہ میں نے عمر بن خطاب (رض) سے خطبہ میں سنا انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا : اے لوگو ! اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر شخص کو وہی ملے گا جس کی وہ نیت کرے گا پس جس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہو اسے ہجرت (کا ثواب ملے گا) اور جس کی ہجرت کا مقصد دنیا ہوگی کہ جسے وہ حاصل کرلے یا کوئی عورت ہوگی جس سے وہ شادی کرلے تو اس کی ہجرت اسی کے لیے ہوگی جس کے لیے اس نے ہجرت کی ہے۔

【2】

نماز میں (حیلہ) کا بیان

مجھ سے اسحاق نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، ان سے معمر نے، ان سے ہمام نے، ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ تم میں سے کسی ایسے شخص کی نماز قبول نہیں کرتا جسے وضو کی ضرورت ہو یہاں تک کہ وہ وضو کرلے۔

【3】

زکوۃ میں (حیلہ) کا بیان اور یہ کہ صدقے کے خوف سے یکجا چیزوں کو متفرق نہ کیا جائے اور متفرق چیزوں کو یکجا نہ کیا جائے

ہم سے محمد بن عبداللہ الانصاری نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا، کہا ہم سے ثمامہ بن عبداللہ بن انس نے بیان کیا، اور ان سے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا کہ ابوبکر (رض) نے انہیں (زکوٰۃ) کا حکم نامہ لکھ کر بھیجا جو رسول اللہ ﷺ نے فرض قرار دیا تھا کہ متفرق صدقہ کو ایک جگہ جمع نہ کیا جائے اور نہ مجتمع صدقہ کو متفرق کیا جائے زکوٰۃ کے خوف سے۔

【4】

زکوۃ میں (حیلہ) کا بیان اور یہ کہ صدقے کے خوف سے یکجا چیزوں کو متفرق نہ کیا جائے اور متفرق چیزوں کو یکجا نہ کیا جائے

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا، ان سے ابوسہیل نافع نے، ان سے ان کے والد مالک بن ابی عامر نے، اور ان سے طلحہ بن عبیداللہ (رض) نے کہ ایک دیہاتی (ضمام بن ثعلبہ) رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں اس حال میں حاضر ہوا کہ اس کے سر کے بال پراگندہ تھے اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! مجھے بتائیے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر کتنی نمازیں فرض کی ہیں ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پانچ وقت کی نمازیں۔ سوا ان نمازوں کے جو تم نفلی پڑھو۔ اس نے کہا مجھے بتائیے کہ اللہ تعالیٰ نے کتنے روزے فرض کئے ہیں ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ رمضان کے مہینے کے روزے سوا ان کے جو تم نفلی رکھو۔ اس نے پوچھا مجھے بتائیے کہ اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کتنی فرض کی ہے ؟ بیان کیا کہ اس پر نبی کریم ﷺ نے زکوٰۃ کے مسائل بیان کئے۔ پھر اس دیہاتی نے کہا اس ذات کی قسم جس نے آپ کو یہ عزت بخشی ہے جو اللہ تعالیٰ نے مجھ پر فرض کیا ہے اس میں نہ میں کسی قسم کی زیادتی کروں گا اور نہ کمی۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر اس نے صحیح کہا ہے تو جنت میں جائے گا اور بعض لوگوں نے کہا کہ ایک سو بیس اونٹوں میں دو حصے تین تین برس کی دو اونٹنیاں جو چوتھے برس میں لگی ہوں زکوٰۃ میں لازم آتی ہیں پس مگر کسی نے ان اونٹوں کو عمداً تلف کر ڈالا (مثلاً ذبح کردیا) اور کوئی حیلہ کیا تو اس کے اوپر سے زکوٰۃ ساقط ہوگی۔

【5】

زکوۃ میں (حیلہ) کا بیان اور یہ کہ صدقے کے خوف سے یکجا چیزوں کو متفرق نہ کیا جائے اور متفرق چیزوں کو یکجا نہ کیا جائے

مجھ سے اسحاق نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، کہا ہم سے معمر نے بیان کیا، ان سے ہمام نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن تم میں سے کسی کا خزانہ چتکبرا اژدھا بن کر آئے گا اس کا مالک اس سے بھاگے گا لیکن وہ اسے تلاش کر رہا ہوگا اور کہے گا کہ میں تمہارا خزانہ ہوں۔ فرمایا واللہ وہ مسلسل تلاش کرتا رہے گا یہاں تک کہ وہ شخص اپنا ہاتھ پھیلا دے گا اور اژدھا اسے لقمہ بنائے گا۔ اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جانوروں کے مالک جنہوں نے ان کا شرعی حق ادا نہیں کیا ہوگا قیامت کے دن ان پر وہ جانور غالب کر دئیے جائیں گے اور وہ اپنی کھروں سے اس کے چہرے کو نوچیں گے۔ اور بعض لوگوں نے یہ کہہ دیا کہ اگر ایک شخص کے پاس اونٹ ہیں اور اسے خطرہ ہے کہ زکوٰۃ اس پر واجب ہوجائے گی اور اس لیے وہ کسی دن زکوٰۃ سے بچنے کے لیے حیلہ کے طور پر اسی جیسے اونٹ یا بکری یا گائے یا دراہم کے بدلے میں بیچ دے تو اس پر کوئی زکوٰۃ نہیں اور پھر اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر وہ اپنے اونٹ کی زکوٰۃ سال پورے ہونے سے ایک دن یا ایک سال پہلے دیدے تو زکوٰۃ ادا ہوجاتی ہے۔

【6】

زکوۃ میں (حیلہ) کا بیان اور یہ کہ صدقے کے خوف سے یکجا چیزوں کو متفرق نہ کیا جائے اور متفرق چیزوں کو یکجا نہ کیا جائے

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عبیداللہ بن عتبہ نے، اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ سعد بن عبادہ انصاری (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے ایک نذر کے بارے میں سوال کیا جو ان کی والدہ پر تھی اور ان کی وفات نذر پوری کرنے سے پہلے ہی ہوگئی تھی۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تو ان کی طرف سے پوری کر۔ اس کے باوجود بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ جب اونٹ کی تعداد بیس ہوجائے تو اس میں چار بکریاں لازم ہیں۔ پس اگر سال پورا ہونے سے پہلے اونٹ کو ہبہ کر دے یا اسے بیچ دے۔ زکوٰۃ سے بچنے یا حیلہ کے طور پر تاکہ زکوٰۃ اس پر ختم ہوجائے تو اس پر کوئی چیز واجب نہیں ہوگی۔ یہی حال اس صورت میں ہے اگر اس نے ضائع کردیا اور پھر مرگیا تو اس کے مال پر کچھ واجب نہیں ہوگا۔

【7】

نکاح میں حیلہ کرنے کا بیان

ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے نافع نے بیان کیا، اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے شغار سے منع فرمایا۔ میں نے نافع سے پوچھا شغار کیا ہے ؟ انہوں نے کہا یہ کہ کوئی شخص بغیر مہر کسی کی لڑکی سے نکاح کرتا ہے یا اس سے بغیر مہر کے اپنی لڑکی کا نکاح کرتا ہے پس اس کے سوا کوئی مہر مقرر نہ ہو اور بعض لوگوں نے کہا اگر کسی نے حیلہ کر کے نکاح شغار کرلیا تو نکاح کا عقد درست ہوگا اور شرط لغو ہوگی (اور ہر ایک کو مہر مثل عورت کا ادا کرنا ہوگا) اور ہاں بعض لوگوں نے متعہ میں کہا ہے کہ وہاں نکاح بھی فاسد ہے اور شرط بھی باطل ہے اور بعض حنفیہ یہ کہتے ہیں کہ متعہ اور شغار دونوں جائز ہوں گے اور شرط باطل ہوگی۔

【8】

نکاح میں حیلہ کرنے کا بیان

ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ بن عمر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے زہری نے بیان کیا، ان سے حسن اور عبداللہ بن محمد بن علی نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے کہ علی (رض) سے کہا گیا کہ عبداللہ بن عباس (رض) عورتوں کے متعہ میں کوئی حرج نہیں سمجھتے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر کی لڑائی کے موقع پر متعہ سے اور پالتو گدھوں کے گوشت سے منع کردیا تھا اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر کسی نے حیلہ سے متعہ کرلیا تو نکاح فاسد ہے اور بعض لوگوں نے کہا کہ نکاح جائز ہوجائے گا اور میعاد کی شرط باطل ہوجائے گی۔

【9】

خرید وفروخت میں حیلہ جوئی کی کراہت کا بیان اور زائد پانی سے اس لئے نہ روکا جائے کہ بچی ہوئی گھاس سے روک دے

ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہ ہم سے امام مالک نے، ان سے ابوالزناد نے، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بچا ہوا بےضرورت پانی اس لیے نہ روکا جائے کہ اس کی وجہ سے بچی ہوئی گھاس بھی بچی رہے (اس میں بھی حیلہ سازی سے روکا گیا ہے) ۔

【10】

تناجش کے مکروہ ہونے کا بیان

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے بیع نجش سے منع فرمایا۔

【11】

خرید وفروخت میں دھوکہ دہی کی ممانعت کا بیان اور ایوب نے کہا کہ لوگ اللہ کو دھوکہ دیتے ہیں جس طرح آدمی کو دھوکہ دیتے ہیں اگر وہ کام کو ظاہر کرکے کریں تو مجھ بہت آسان ہے

ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن دینار نے اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے کہ ایک صحابی نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا کہ وہ خریدو فروخت میں دھوکہ کھا جاتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب تم کچھ خریدا کرو تو کہہ دیا کرو کہ اس میں کوئی دھوکہ نہ ہونا چاہیے۔

【12】

اس یتیم لڑکی میں جو مرغوب ہو حیلہ جوئی اور اس کا مہر پورامقرر نہ کرنے کا یبان

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے کہ عروہ ان سے بیان کرتے تھے کہ عائشہ (رض) نے آیت وإن خفتم أن لا تقسطوا في اليتامى فانکحوا ما طاب لکم من النساء‏ اور اگر تمہیں خوف ہو کہ تم یتیموں کے بارے میں انصاف نہیں کرسکو گے تو پھر دوسری عورتوں سے نکاح کرو جو تمہیں پسند ہوں۔ آپ نے کہا کہ اس آیت میں ایسی یتیم لڑکی کا ذکر ہے جو اپنے ولی کی پرورش میں ہو اور ولی لڑکی کے مال اور اس کے حسن سے رغبت رکھتا ہو اور چاہتا ہو کہ عورتوں (کے مہر وغیرہ کے متعلق) جو سب سے معمولی طریقہ ہے اس کے مطابق اس سے نکاح کرے تو ایسے ولیوں کو ان لڑکیوں کے نکاح سے منع کیا گیا ہے۔ سوا اس صورت کے کہ ولی مہر کو پورا کرنے میں انصاف سے کام لے۔ پھر لوگوں نے نبی کریم ﷺ سے اس کے بعد مسئلہ پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی ويستفتونک في النساء‏ اور لوگ آپ سے عورتوں کے بارے میں مسئلہ پوچھتے ہیں۔ اور اس واقعہ کا ذکر کیا۔

【13】

اگر کوئی شخص کسی کی لونڈی غصب کرلے اور کہہ دے کہ وہ مرگئی اور اس فوت شدہ لونڈی کی قیمت کا فیصلہ حاکم کردے یا پھر اس لونڈی کا مالک اس کو پالے تو وہ اسی کی ہے اور قیمت واپس کردے گا اور وہ اس کی قیمت نہیں رہے گی، اور بعض لوگوں نے کہا کہ وہ لونڈی غصب کرنے والے کی ہے اس لئے کہ اس نے اس کی قیمت لے لی ہے اور اس میں اس شخص کے لئے حیلہ جوئی ہے جو کسی کی لونڈی کو پسند کرتا ہے اور اس کا مالک اس کو بیچنا نہیں چاہتا تو اس نے غصب کرلیا اور بہانہ کردیا کہ وہ مرگئی تاکہ اس کا مالک اس کی قیمت لے لے تو اس صورت میں غصب کرنے والے کے لئے دوسرے کی لونڈی جائز ہے، نبی ﷺ نے فرمایا کہ تمہارے مال تم پر حرام ہیں اور ہر غصب کرنے والے کے لئے قیامت کے دن ایک جھنڈا ہوگا۔

ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن دینار نے، اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا، کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہر دھوکہ دینے والے کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا ہوگا جس کے ذریعہ وہ پہچانا جائے گا۔

【14】

ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، ان سے ہشام نے، ان سے عروہ نے، ان سے زینت بنت ام سلمہ نے اور ان سے ام سلمہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا میں تمہارے ہی جیسا انسان ہوں اور بعض اوقات جب تم باہمی جھگڑا لاتے ہو تو ممکن ہے کہ تم میں سے بعض اپنے فریق مخالف کے مقابلہ میں اپنا مقدمہ پیش کرنے میں زیادہ چالاکی سے بولنے والا ہو اور اس طرح میں اس کے مطابق فیصلہ کر دوں جو میں تم سے سنتا ہوں۔ پس جس شخص کے لیے بھی اس کے بھائی کے حق میں سے، میں کسی چیز کا فیصلہ کر دوں تو وہ اسے نہ لے۔ کیونکہ اس طرح میں اسے جہنم کا ایک ٹکڑا دیتا ہوں۔

【15】

نکاح میں حیلہ کرنے کا بیان

ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کسی کنواری لڑکی کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت نہ لے لی جائے اور کسی بیوہ کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کا حکم نہ معلوم کرلیا جائے۔ پوچھا گیا : یا رسول اللہ ! اس (کنواری) کی اجازت کی کیا صورت ہے ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اس کی خاموشی اجازت ہے۔ اس کے باوجود بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر کنواری لڑکی سے اجازت نہ لی گئی اور نہ اس نے نکاح کیا۔ لیکن کسی شخص نے حیلہ کر کے دو جھوٹے گواہ کھڑے کر دئیے کہ اس نے لڑکی سے نکاح کیا ہے اس کی مرضی سے اور قاضی نے بھی اس کے نکاح کا فیصلہ کردیا۔ حالانکہ شوہر جانتا ہے کہ وہ جھوٹا ہے کہ گواہی جھوٹی تھی اس کے باوجود اس لڑکی سے صحبت کرنے میں اس کے لیے کوئی حرج نہیں ہے بلکہ یہ نکاح صحیح ہوگا۔

【16】

نکاح میں حیلہ کرنے کا بیان

ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید نے، ان سے قاسم نے کہ جعفر (رض) کی اولاد میں سے ایک خاتون کو اس کا خطرہ ہوا کہ ان کا ولی (جن کی وہ زیر پرورش تھیں) ان کا نکاح کر دے گا۔ حالانکہ وہ اس نکاح کو ناپسند کرتی تھیں۔ چناچہ انہوں نے قبیلہ انصار کے دو شیوخ عبدالرحمٰن اور مجمع کو جو جاریہ کے بیٹے تھے کہلا بھیجا انہوں نے تسلی دی کہ کوئی خوف نہ کریں۔ کیونکہ خنساء بنت خذام (رض) کا نکاح ان کے والد نے ان کی ناپسندیدگی کے باوجود کردیا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے اس نکاح کو رد کردیا تھا۔ سفیان نے بیان کیا کہ میں نے عبدالرحمٰن کو اپنے والد سے یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ خنساء (رض) آخر حدیث تک بیان کیا۔

【17】

نکاح میں حیلہ کرنے کا بیان

ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے شیبان نے بیان کیا، ان سے یحییٰ نے، ان سے ابوسلمہ نے، اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کسی بیوہ سے اس وقت تک شادی نہ کی جائے جب تک اس کا حکم نہ معلوم کرلیا جائے اور کسی کنواری سے اس وقت تک نکاح نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت نہ لے لی جائے۔ صحابہ نے پوچھا : اس کی اجازت کا کیا طریقہ ہے ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، یہ کہ وہ خاموش ہوجائے۔ پھر بھی بعض لوگ کہتے ہیں کہا اگر کسی شخص نے دو جھوٹے گواہوں کے ذریعہ حیلہ کیا (اور یہ جھوٹ گھڑا) کہ کسی بیوہ عورت سے اس نے اس کی اجازت سے نکاح کیا ہے اور قاضی نے بھی اس مرد سے اس کے نکاح کا فیصلہ کردیا جبکہ اس مرد کو خوب خبر ہے کہ اس نے اس عورت سے نکاح نہیں کیا ہے تو یہ نکاح جائز ہے اور اس کے لیے اس عورت کے ساتھ رہنا جائز ہوجائے گا۔

【18】

نکاح میں حیلہ کرنے کا بیان

ہم سے ابوعاصم ضحاک بن مخلد نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے، ان سے ابن ابی ملیکہ نے، ان سے ذکوان نے، اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کنواری لڑکی سے اجازت لی جائے گی۔ میں نے پوچھا کہ کنواری لڑکی شرمائے گی۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اس کی خاموشی ہی اجازت ہے۔ اور بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ کوئی شخص اگر کسی یتیم لڑکی یا کنواری لڑکی سے نکاح کا خواہشمند ہو۔ لیکن لڑکی راضی نہ ہو اس پر اس نے حیلہ کیا اور دو جھوٹے گواہوں کی گواہی اس کی دلائی کہ اس نے لڑکی سے شادی کرلی ہے پھر جب وہ لڑکی جوان ہوئی اور اس نکاح سے وہ بھی راضی ہوگئی اور قاضی نے اس جھوٹی شہادت کو قبول کرلیا حالانکہ وہ جانتا ہے کہ یہ سارا ہی جھوٹ اور فریب ہے تب بھی اس سے جماع کرنا جائز ہے۔

【19】

عورت کا اپنے شوہر اور سوکنوں کے ساتھ حیلہ کرنے کی کراہت کا بیان اور اس چیز کا بیان جو نبی ﷺ پر اس کے متعلق نازل ہوئی

ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے، ان سے ہشام نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ حلوہ (یعنی میٹھی چیز) اور شہد پسند کرتے تھے اور عصر کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد اپنی ازواج سے (ان میں سے کسی کے حجرہ میں جانے کے لیے) اجازت لیتے تھے اور ان کے پاس جاتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ حفصہ (رض) کے گھر گئے اور ان کے یہاں اس سے زیادہ دیر تک ٹھہرے رہے جتنی دیر تک ٹھہرنے کا آپ کا معمول تھا۔ میں نے اس کے متعلق نبی کریم ﷺ سے پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ان کی قوم کی ایک خاتون نے شہد کی ایک کپی انہیں ہدیہ کی تھی اور انہوں نے نبی کریم ﷺ کو اس کا شربت پلایا تھا۔ میں نے اس پر کہا کہ اب میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ ایک حیلہ کروں گی چناچہ میں نے اس کا ذکر سودہ (رض) سے کیا اور کہا جب نبی کریم ﷺ آپ کے یہاں آئیں تو آپ کے قریب بھی آئیں گے اس وقت تم آپ سے کہنا یا رسول اللہ ! شاید آپ نے مغافیر کھایا ہے ؟ اس پر آپ جواب دیں گے کہ نہیں۔ تم کہنا کہ پھر یہ بو کس چیز کی ہے ؟ نبی کریم ﷺ کو یہ بات بہت ناگوار تھی کہ آپ کے جسم کے کسی حصہ سے بو آئے۔ چناچہ نبی کریم ﷺ اس کا جواب یہ دیں گے کہ حفصہ نے مجھے شہد کا شربت پلایا تھا۔ اس پر کہنا کہ شہد کی مکھیوں نے غرفط کا رس چوسا ہوگا اور میں بھی نبی کریم ﷺ سے یہی بات کہوں گی اور صفیہ تم بھی نبی کریم ﷺ سے یہ کہنا چناچہ جب نبی کریم ﷺ سودہ کے یہاں تشریف لے گئے تو ان کا بیان ہے کہ اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں کہ تمہارے خوف سے قریب تھا کہ میں اس وقت نبی کریم ﷺ سے یہ بات جلدی میں کہہ دیتی جبکہ آپ دروازے ہی پر تھے۔ آخر جب نبی کریم ﷺ قریب آئے تو میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! آپ نے مغافیر کھایا ہے ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ نہیں۔ میں نے کہا پھر بو کیسی ہے ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ حفصہ نے مجھے شہد کا شربت پلایا ہے میں نے کہا اس شہد کی مکھیوں نے غرفط کا رس چوسا ہوگا اور صفیہ (رض) کے پاس جب آپ تشریف لے گئے تو انہوں نے بھی یہی کہا۔ اس کے بعد جب حفصہ کے پاس آپ ﷺ گئے تو انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! وہ شہد میں پھر آپ کو پلاؤں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اس کی ضرورت نہیں۔ بیان کیا ہے کہ اس پر سودہ (رض) بولیں۔ سبحان اللہ یہ ہم نے کیا کیا گویا شہد آپ پر حرام کردیا، میں نے کہا چپ رہو۔

【20】

طاعون سے بھاگنے کے لئے حیلہ جوئی کی کراہت کا بیان

ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعبنی نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عبداللہ ابن عامر بن ربیعہ نے کہ عمر بن خطاب (رض) (سنہ 18 ھ ماہ ربیع الثانی میں) شام تشریف لے گئے۔ جب مقام سرغ پر پہنچے تو ان کو یہ خبر ملی کہ شام وبائی بیماری کی لپیٹ میں ہے۔ پھر عبدالرحمٰن بن عوف (رض) نے انہیں خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ جب تمہیں معلوم ہوجائے کہ کسی سر زمین میں وبا پھیلی ہوئی ہے تو اس میں داخل مت ہو، لیکن اگر کسی جگہ وبا پھوٹ پڑے اور تم وہیں موجود ہو تو وبا سے بھاگنے کے لیے تم وہاں سے نکلو بھی مت۔ چناچہ عمر (رض) مقام سرغ سے واپس آگئے۔ اور ابن شہاب سے روایت ہے، ان سے سالم بن عبداللہ نے کہ عمر (رض) عبدالرحمٰن بن عوف (رض) کی حدیث سن کر واپس ہوگئے تھے۔

【21】

طاعون سے بھاگنے کے لئے حیلہ جوئی کی کراہت کا بیان

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے شعیب نے بیان کیا ‘ ان سے زہری نے ‘ ان سے عامر بن سعد بن ابی وقاص نے کہ انہوں نے اسامہ بن زید (رض) سے سنا ‘ وہ سعد بن ابی وقاص (رض) سے حدیث نقل کر رہے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے طاعون کا ذکر کیا اور فرمایا کہ یہ ایک عذاب ہے جس کے ذریعہ بعض امتوں کو عذاب دیا گیا تھا اس کے بعد اس کا کچھ حصہ باقی رہ گیا ہے اور وہ کبھی چلا جاتا ہے اور کبھی واپس آجاتا ہے۔ پس جو شخص کسی سر زمین پر اس کے پھیلنے کے متعلق سنے تو وہاں نہ جائے لیکن اگر کوئی کسی جگہ ہو اور وہاں یہ وبا پھوٹ پڑے تو وہاں سے بھاگے بھی نہیں۔

【22】

ہبہ اور شفعہ میں حیلہ کرنے کا بیان اور بعض لوگوں نے کہا کہ اگر کوئی شخص ایک ہزار درہم یا اس سے زائدہ کسی کو ہبہ کردے اور وہ اس کے پاس برسوں تک رہ جائے پھر وہ حیلہ سے کام لے اور ہبہ کرنے والا اس کو واپس لے لے تو زکوٰۃ ان دونوں میں سے کسی پر واجب نہیں ان دونوں نے ہبہ میں آنحضرت ﷺ کی مخالفت کی اور زکوٰۃ کو ساقط کردیا۔

ہم سے ابونعیم نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا ‘ ان سے ایوب سختیانی نے ‘ ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اپنے ہبہ کو واپس لینے والا اس کتے کی طرح ہے جو اپنی قے کو خود چاٹ جاتا ہے ‘ ہمارے لیے بری مثال مناسب نہیں۔

【23】

ہبہ اور شفعہ میں حیلہ کرنے کا بیان اور بعض لوگوں نے کہا کہ اگر کوئی شخص ایک ہزار درہم یا اس سے زائدہ کسی کو ہبہ کردے اور وہ اس کے پاس برسوں تک رہ جائے پھر وہ حیلہ سے کام لے اور ہبہ کرنے والا اس کو واپس لے لے تو زکوٰۃ ان دونوں میں سے کسی پر واجب نہیں ان دونوں نے ہبہ میں آنحضرت ﷺ کی مخالفت کی اور زکوٰۃ کو ساقط کردیا۔

ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے ہشام بن یوسف نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم کو معمر نے خبر دی ‘ انہیں زہری نے ‘ انہیں ابوسلمہ نے اور ان سے جابر بن عبداللہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے شفعہ کا حکم ہر اس چیز میں دیا تھا جو تقسیم نہ ہوسکتی ہو۔ پس جب حد بندی ہوجائے اور راستے الگ الگ کر دئیے جائیں تو پھر شفعہ نہیں۔ اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ شفعہ کا حق پڑوسی کو بھی ہوتا ہے پھر خود ہی اپنی بات کو غلط قرار دیا اور کہا کہ اگر کسی نے کوئی گھر خریدا اور اسے خطرہ ہے کہ اس کا پڑوسی حق شفعہ کی بنا پر اس سے گھر لے لے گا تو اس نے اس کے سو حصے کر کے ایک حصہ اس میں سے پہلے خرید لیا اور باقی حصے بعد میں خریدے تو ایسی صورت میں پہلے حصے میں تو پڑوسی کو شفعہ کا حق ہوگا۔ گھر کے باقی حصوں میں اسے یہ حق نہیں ہوگا اور اس کے لیے جائز ہے کہ یہ حیلہ کرے۔

【24】

ہبہ اور شفعہ میں حیلہ کرنے کا بیان اور بعض لوگوں نے کہا کہ اگر کوئی شخص ایک ہزار درہم یا اس سے زائدہ کسی کو ہبہ کردے اور وہ اس کے پاس برسوں تک رہ جائے پھر وہ حیلہ سے کام لے اور ہبہ کرنے والا اس کو واپس لے لے تو زکوٰۃ ان دونوں میں سے کسی پر واجب نہیں ان دونوں نے ہبہ میں آنحضرت ﷺ کی مخالفت کی اور زکوٰۃ کو ساقط کردیا۔

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ‘ ان سے ابراہیم بن میسرہ نے بیان کیا ‘ انہوں نے عمرو بن شرید سے سنا ‘ انہوں نے بیان کیا کہ مسور بن مخرمہ (رض) آئے اور انہوں نے میرے مونڈھے پر اپنا ہاتھ رکھا پھر میں ان کے ساتھ سعد بن ابی وقاص (رض) کے یہاں گیا تو ابورافع نے اس پر کہا کہ اس کا چار سو سے زیادہ میں نہیں دے سکتا اور وہ بھی قسطوں میں دوں گا۔ اس پر انہوں نے جواب دیا کہ مجھے تو اس کے پانچ سو نقد مل رہے تھے اور میں نے انکار کردیا۔ اگر میں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ نہ سنا ہوتا کہ پڑوسی زیادہ مستحق ہے تو میں اسے تمہیں نہ بیچتا۔ علی بن عبداللہ مدینی نے کہا میں نے سفیان بن عیینہ سے اس پر پوچھا کہ معمر نے اس طرح نہیں بیان کیا ہے۔ سفیان نے کہا کہ لیکن مجھ سے تو ابراہیم بن میسرہ نے یہ حدیث اسی طرح نقل کی۔ اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص چاہے کہ شفیع کو حق شفعہ نہ دے تو اسے حیلہ کرنے کی اجازت ہے اور حیلہ یہ ہے کہ جائیداد کا مالک خریدار کو وہ جائیداد ہبہ کر دے پھر خریدار یعنی موہوب لہ اس ہبہ کے معاوضہ میں مالک جائیداد کو ہزار درہم مثلاً ہبہ کر دے اس صورت میں شفیع کو شفعہ کا حق نہ رہے گا۔

【25】

ہبہ اور شفعہ میں حیلہ کرنے کا بیان اور بعض لوگوں نے کہا کہ اگر کوئی شخص ایک ہزار درہم یا اس سے زائدہ کسی کو ہبہ کردے اور وہ اس کے پاس برسوں تک رہ جائے پھر وہ حیلہ سے کام لے اور ہبہ کرنے والا اس کو واپس لے لے تو زکوٰۃ ان دونوں میں سے کسی پر واجب نہیں ان دونوں نے ہبہ میں آنحضرت ﷺ کی مخالفت کی اور زکوٰۃ کو ساقط کردیا۔

ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے ابراہیم بن میسرہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن شرید نے، ان سے ابورافع نے کہ سعد (رض) نے ان کے ایک گھر کی چار سو مثقال قیمت لگائی تو انہوں نے کہا کہ اگر میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ کہتے نہ سنا ہوتا کہ پڑوسی اپنے پڑوس کا زیادہ مستحق ہے تو میں اسے تمہیں نہ دیتا۔ اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر کسی نے کسی گھر کا حصہ خریدا اور چاہا کہ اس کا حق شفہ باطل کر دے تو اسے اس گھر کو اپنے چھوٹے بیٹے کو ہبہ کردینا چاہیے، اب نابالغ پر قسم بھی نہیں ہوگی۔

【26】

عامل کا حیلہ کرنا تاکہ اس کو ہدیہ بھیجاجائے

ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا ‘ ان سے ہشام نے ‘ ان سے ان کے والد عروہ نے اور ان سے ابوحمید الساعدی (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو بنی سلیم کے صدقات کی وصولی کے لیے عامل بنایا ان کا نام ابن اللتیبہ تھا پھر جب یہ عامل واپس آیا اور نبی کریم ﷺ نے ان کا حساب لیا ‘ اس نے سرکاری مال علیحدہ کیا اور کچھ مال کی نسبت کہنے لگا کہ یہ (مجھے) تحفہ میں ملا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے اس پر فرمایا کہ پھر کیوں نہ تم اپنے ماں باپ کے گھر بیٹھے رہے اگر تم سچے ہو تو وہیں یہ تحفہ تمہارے پاس آجاتا۔ اس کے بعد نبی کریم ﷺ نے ہمیں خطبہ دیا اور اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا، امابعد ! میں تم میں سے کسی ایک کو اس کام پر عامل بناتا ہوں جس کا اللہ نے مجھے والی بنایا ہے پھر وہ شخص آتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ تمہارا مال اور یہ تحفہ ہے جو مجھے دیا گیا تھا۔ اسے اپنے ماں باپ کے گھر بیٹھا رہنا چاہیے تھا تاکہ اس کا تحفہ وہیں پہنچ جاتا۔ اللہ کی قسم ! تم میں سے جو بھی حق کے سوا کوئی چیز لے گا وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اس چیز کو اٹھائے ہوئے ہوگا بلکہ میں تم میں ہر اس شخص کو پہچان لوں گا جو اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اونٹ اٹھائے ہوگا جو بلبلا رہا ہوگا یا گائے اٹھائے ہوگا جو اپنی آواز نکال رہی ہوگی یا بکری اٹھائے ہوگا جو اپنی آواز نکال رہی ہوگی۔ پھر آپ نے اپنا ہاتھ اٹھایا یہاں تک کہ آپ کے بغل کی سفیدی دکھائی دینے لگی اور فرمایا، اے اللہ کیا میں نے پہنچا دیا۔ یہ فرماتے ہوئے نبی کریم ﷺ کو میری آنکھوں نے دیکھا اور کانوں سے سنا۔

【27】

عامل کا حیلہ کرنا تاکہ اس کو ہدیہ بھیجاجائے

ہم سے ابونعیم نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا ‘ ان سے ابراہیم بن میسرہ نے ‘ ان سے عمرو بن شرید نے اور ان سے ابورافع (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا پڑوسی اپنے پڑوسی کا زیادہ حقدار ہے۔ اور بعض لوگوں نے کہا اگر کسی شخص نے ایک گھر بیس ہزار درہم کا خریدا (تو شفعہ کا حق ساقط کرنے کے لیے) یہ حیلہ کرنے میں کوئی قباحت نہیں کہ مالک مکان کو نو ہزار نو سو ننانوے درہم نقد ادا کرے اب بیس ہزار کے تکملہ میں جو باقی رہے یعنی دس ہزار اور ایک درہم اس کے بدل مالک مکان کو ایک دینار (اشرفی) دیدے۔ اس صورت میں اگر شفیع اس مکان کو لینا چاہے گا تو اس کو بیس ہزار درہم پر لینا ہوگا ورنہ وہ اس گھر کو نہیں لے سکتا۔ ایسی صورت میں اگر بیع کے بعد یہ گھر (بائع کے سوا) اور کسی کا نکلا تو خریدار بائع سے وہی قیمت واپس لے گا جو اس نے دی ہے یعنی نو ہزار نو سو ننانوے درہم اور ایک دینار (بیس ہزار درہم نہیں واپس سکتا) کیونکہ جب وہ گھر کسی اور کا نکلا تو اب وہ بیع صرف جو بائع اور مشتری کے بیچ میں ہوگئی تھی بالکل باطل ہوگئی (تو اصل دینار پھرنا لازم ہوگا نہ کہ اس کے ثمن (یعنی دس ہزار اور ایک درہم) اگر اس گھر میں کوئی عیب نکلا لیکن وہ بائع کے سوا کسی اور کی ملک نہیں نکلا تو خریدار اس گھر کو بائع کو واپس اور بیس ہزار درہم اس سے لے سکتا ہے۔ امام بخاری (رح) نے کہا تو ان لوگوں نے مسلمانوں کے آپس میں مکر و فریب کو جائز رکھا اور نبی کریم ﷺ نے تو فرمایا ہے کہ مسلمان کی بیع میں جو مسلمان کے ساتھ ہو نہ عیب ہونا چاہیے یعنی (بیماری) نہ خباثت نہ کوئی آفت۔

【28】

عامل کا حیلہ کرنا تاکہ اس کو ہدیہ بھیجاجائے

ہم سے مسدد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا ‘ ان سے سفیان نے ‘ ان سے ابراہیم بن میسرہ نے بیان کیا ‘ ان سے عمرو بن شرید نے کہ ابورافع (رض) نے سعد بن مالک (رض) کو ایک گھر چار سو مثقال میں بیچا اور کہا کہ اگر میں نے نبی کریم ﷺ سے یہ نہ سنا ہوتا کہ پڑوسی حق پڑوس کا زیادہ حقدار ہے تو میں آپ کو یہ گھر نہ دیتا (اور کسی کے ہاتھ بیچ ڈالتا) ۔