79. کتاب اور سنت کو مضبوطی سے پکڑنے کا بیان
ہم سے عبداللہ بن زبیر حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے مسعر بن کدام اور ان کے علاوہ (سفیان ثوری) نے، ان سے قیس بن مسلم نے، ان سے طارق بن شہاب نے بیان کیا کہ ایک یہودی (کعب احبار اسلام لانے سے پہلے) نے عمر (رض) سے کہا : اے امیرالمؤمنین ! اگر ہمارے یہاں سورة المائدہ کی یہ آیت نازل ہوتی اليوم أکملت لکم دينكم وأتممت عليكم نعمتي ورضيت لکم الإسلام دينا کہ آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت کو پورا کردیا اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین کے پسند کرلیا۔ تو ہم اس دن کو عید (خوشی) کا دن بنا لیتے۔ عمر (رض) نے کہا کہ میں جانتا ہوں کہ یہ آیت کس دن نازل ہوئی تھی، عرفہ کے دن نازل ہوئی اور جمعہ کا دن تھا۔ امام بخاری نے کہا یہ روایت سفیان نے مسعر سے سنی، مسعر نے قیس سے سنا اور قیس نے طارق سے۔
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل بن خالد نے، ان سے ابن شہاب نے اور انہیں انس بن مالک (رض) نے خبر دی کہ انہوں نے عمر (رض) سے وہ خطبہ سنا جو انہوں نے وفات نبوی کے دوسرے دن پڑھا تھا، جس دن مسلمانوں نے ابوبکر (رض) سے بیعت کی تھی۔ عمر (رض) رسول اللہ ﷺ کے منبر پر چڑھے اور ابوبکر (رض) سے پہلے خطبہ پڑھا پھر کہا : امابعد ! اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے لیے وہ چیز (آخرت) پسند کی جو اس کے پاس تھی اس کے بجائے جو تمہارے پاس تھی یعنی دنیا اور یہ کتاب اللہ موجود ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے رسول کو دین و سیدھا راستہ بتلایا پس اسے تم تھامے رہو تو ہدایت یاب رہو گے۔ یعنی اس راستے پر رہو گے جو اللہ نے اپنے پیغمبر کو بتلایا تھا۔
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا، ان سے خالد حذاء نے، ان سے عکرمہ نے، ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے مجھے اپنے سینے سے لگایا اور فرمایا اے اللہ ! اسے قرآن کا علم سکھا۔
ہم سے عبداللہ بن صباح نے بیان کیا، کہا ہم سے معتمر بن سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ میں نے عوف اعرابی سے سنا ’ ان سے ابوالمنہال نے بیان کیا، انہوں نے ابوبرزہ (رض) سے سنا، انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اسلام اور محمد ﷺ کے ذریعہ غنی کردیا ہے یا بلند درجہ کردیا ہے۔
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن دینار نے کہ عبداللہ بن عمر (رض) نے عبدالملک بن مروان کو خط لکھا کہ وہ اس کی بیعت قبول کرتے ہیں اور یہ لکھا کہ میں تیرا حکم سنوں گا اور مانوں گا بشرطیکہ اللہ کی شریعت اور اس کے رسول کی سنت کے موافق ہو جہاں تک مجھ سے ممکن ہوگا۔
نبی ﷺ کا فرمانا کہ میں جوامع الکلم کے ساتھ بھیجا گیا ہوں۔
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے سعید بن مسیب نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا مجھے جوامع الکلم (مختصر الفاظ میں بہت سے معانی کو سمو دینا) کے ساتھ بھیجا گیا ہے اور میری مدد رعب کے ذریعہ کی گئی اور میں سویا ہوا تھا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے پاس زمین کے خزانوں کی کنجیاں رکھ دی گئیں۔ ابوہریرہ (رض) نے کہا کہ نبی کریم ﷺ تو چلے گئے اور تم مزے کر رہے ہو یا اسی جیسا کوئی کلمہ کہا۔
نبی ﷺ کا فرمانا کہ میں جوامع الکلم کے ساتھ بھیجا گیا ہوں۔
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے سعید بن ابی سعید نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا انبیاء میں سے کوئی نبی ایسا نہیں جن کو کچھ نشانیاں (یعنی معجزات) نہ دئیے گئے ہوں جن کے مطابق ان پر ایمان لایا گیا (آپ ﷺ نے فرمایا کہ) انسان ایمان لائے اور مجھے جو بڑا معجزہ دیا گیا وہ قرآن مجید ہے جو اللہ نے میری طرف بھیجا، پس میں امید کرتا ہوں کہ قیامت کے دن شمار میں تمام انبیاء سے زیادہ پیروی کرنے والے میرے ہوں گے۔
رسول اللہ ﷺ کی سنتوں کی پیروی کرنے کا بیان۔ اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ ہمیں متقین کا امام بنادے مجاہد نے کہا کہ ایسے امام کہ ہم اپنے سے پہلے والوں کی اقتداء کریں اور ہم سے بعد والے ہماری اقتداء کریں اور ابن عون نے کہا کہ تین باتیں ایسی ہیں جنہیں میں اپنے اور اپنے بھائیوں کے لئے پسند کرتا ہوں اس سنت کو سیکھیں اور اس کے متعلق پوچھیں اور قرآن کو سمجھیں اور اس کے متعلق لوگوں سے دریافت کریں اور لوگوں سے بجز نیک کام کے ملنا چھوڑ دیں۔
ہم سے عمرو بن عباس نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرحمٰن بن مہدی نے، کہا ہم سے سفیان ثوری نے، ان سے واصل نے، ان سے ابو وائل نے بیان کیا کہ اس مسجد (خانہ کعبہ) میں، میں شیبہ بن عثمان حجبی (جو کعبہ کے کلیدبردار تھے) کے پاس بیٹھا تو انہوں نے کہا کہ جہاں تم بیٹھے ہو، وہیں عمر (رض) بھی میرے پاس بیٹھے تھے اور انہوں نے کہا تھا کہ میرا ارادہ ہے کہ کعبہ میں کسی طرح کا سونا چاندی نہ چھوڑوں اور سب مسلمانوں میں تقسیم کر دوں جو نذر اللہ کعبہ میں جمع ہے۔ میں نے کہا کہ آپ ایسا نہیں کرسکتے۔ کہاں کیوں ؟ میں نے کہا کہ آپ کے دونوں ساتھیوں (رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر رضی اللہ عنہ) نے ایسا نہیں کیا تھا۔ اس پر انہوں نے کہا کہ وہ دونوں بزرگ ایسے ہی تھے جن کی اقتداء کرنی ہی چاہیے۔
رسول اللہ ﷺ کی سنتوں کی پیروی کرنے کا بیان۔ اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ ہمیں متقین کا امام بنادے مجاہد نے کہا کہ ایسے امام کہ ہم اپنے سے پہلے والوں کی اقتداء کریں اور ہم سے بعد والے ہماری اقتداء کریں اور ابن عون نے کہا کہ تین باتیں ایسی ہیں جنہیں میں اپنے اور اپنے بھائیوں کے لئے پسند کرتا ہوں اس سنت کو سیکھیں اور اس کے متعلق پوچھیں اور قرآن کو سمجھیں اور اس کے متعلق لوگوں سے دریافت کریں اور لوگوں سے بجز نیک کام کے ملنا چھوڑ دیں۔
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے اعمش سے پوچھا تو انہوں نے زید بن وہب سے بیان کیا کہ میں نے حذیفہ بن یمان (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ امانت داری آسمان سے بعض لوگوں کے دلوں کی جڑوں میں اتری، (یعنی ان کی فطرت میں داخل ہے) اور قرآن مجید نازل ہوا تو انہوں نے قرآن مجید کا مطلب سمجھا اور سنت کا علم حاصل کیا تو قرآن و حدیث دونوں سے اس ایمانداری کو جو فطرتی تھی پوری قوت مل گئی۔
رسول اللہ ﷺ کی سنتوں کی پیروی کرنے کا بیان۔ اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ ہمیں متقین کا امام بنادے مجاہد نے کہا کہ ایسے امام کہ ہم اپنے سے پہلے والوں کی اقتداء کریں اور ہم سے بعد والے ہماری اقتداء کریں اور ابن عون نے کہا کہ تین باتیں ایسی ہیں جنہیں میں اپنے اور اپنے بھائیوں کے لئے پسند کرتا ہوں اس سنت کو سیکھیں اور اس کے متعلق پوچھیں اور قرآن کو سمجھیں اور اس کے متعلق لوگوں سے دریافت کریں اور لوگوں سے بجز نیک کام کے ملنا چھوڑ دیں۔
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم کو عمرو بن مرہ نے خبر دی، کہا میں نے مرۃ الہمدانی سے سنا، بیان کیا کہ عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہا کہ سب سے اچھی بات کتاب اللہ اور سب سے اچھا طریقہ ﷺ کا طریقہ ہے اور سب سے بری نئی بات (بدعت) پیدا کرنا ہے (دین میں) اور بلاشبہ جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ آ کر رہے گی اور تم پروردگار سے بچ کر کہیں نہیں جاسکتے۔
رسول اللہ ﷺ کی سنتوں کی پیروی کرنے کا بیان۔ اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ ہمیں متقین کا امام بنادے مجاہد نے کہا کہ ایسے امام کہ ہم اپنے سے پہلے والوں کی اقتداء کریں اور ہم سے بعد والے ہماری اقتداء کریں اور ابن عون نے کہا کہ تین باتیں ایسی ہیں جنہیں میں اپنے اور اپنے بھائیوں کے لئے پسند کرتا ہوں اس سنت کو سیکھیں اور اس کے متعلق پوچھیں اور قرآن کو سمجھیں اور اس کے متعلق لوگوں سے دریافت کریں اور لوگوں سے بجز نیک کام کے ملنا چھوڑ دیں۔
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے عبیداللہ نے اور ان سے ابوہریرہ اور زید بن خالد (رض) نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم ﷺ کی خدمت میں موجود تھے آپ ﷺ نے فرمایا یقیناً میں تمہارے درمیان کتاب اللہ سے فیصلہ کروں گا۔
رسول اللہ ﷺ کی سنتوں کی پیروی کرنے کا بیان۔ اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ ہمیں متقین کا امام بنادے مجاہد نے کہا کہ ایسے امام کہ ہم اپنے سے پہلے والوں کی اقتداء کریں اور ہم سے بعد والے ہماری اقتداء کریں اور ابن عون نے کہا کہ تین باتیں ایسی ہیں جنہیں میں اپنے اور اپنے بھائیوں کے لئے پسند کرتا ہوں اس سنت کو سیکھیں اور اس کے متعلق پوچھیں اور قرآن کو سمجھیں اور اس کے متعلق لوگوں سے دریافت کریں اور لوگوں سے بجز نیک کام کے ملنا چھوڑ دیں۔
ہم سے محمد بن سنان نے بیان کیا، ان سے فلیح بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے ہلال بن علی نے بیان کیا، ان سے عطاء بن یسار نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ساری امت جنت میں جائے گی سوائے ان کے جنہوں نے انکار کیا۔ صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! انکار کون کرے گا ؟ فرمایا جو میری اطاعت کرے گا وہ جنت میں داخل ہوگا اور جو میری نافرمانی کرے گا اس نے انکار کیا۔
رسول اللہ ﷺ کی سنتوں کی پیروی کرنے کا بیان۔ اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ ہمیں متقین کا امام بنادے مجاہد نے کہا کہ ایسے امام کہ ہم اپنے سے پہلے والوں کی اقتداء کریں اور ہم سے بعد والے ہماری اقتداء کریں اور ابن عون نے کہا کہ تین باتیں ایسی ہیں جنہیں میں اپنے اور اپنے بھائیوں کے لئے پسند کرتا ہوں اس سنت کو سیکھیں اور اس کے متعلق پوچھیں اور قرآن کو سمجھیں اور اس کے متعلق لوگوں سے دریافت کریں اور لوگوں سے بجز نیک کام کے ملنا چھوڑ دیں۔
ہم سے محمد بن عبادہ نے بیان کیا، کہا ہم کو یزید بن ہارون نے خبر دی، کہا ہم سے سلیم بن حیان نے بیان کیا اور یزید بن ہارون نے ان کی تعریف کی، کہا ہم سے سعید بن میناء نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے جابر بن عبداللہ (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ فرشتے نبی کریم ﷺ کے پاس آئے (جبرائیل و میکائیل) اور آپ سوئے ہوئے تھے۔ ایک نے کہا کہ یہ سوئے ہوئے ہیں، دوسرے نے کہا کہ ان کی آنکھیں سو رہی ہیں لیکن ان کا دل بیدار ہے۔ انہوں نے کہا کہ تمہارے ان صاحب (نبی کریم ﷺ ) کی ایک مثال ہے پس ان کی مثال بیان کرو۔ تو ان میں سے ایک کہا کہ یہ سو رہے ہیں، دوسرے نے کہا کہ آنکھ سو رہی ہے اور دل بیدار ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی مثال اس شخص جیسی ہے جس نے ایک گھر بنایا اور وہاں کھانے کی دعوت کی اور بلانے والے کو بھیجا، پس جس نے بلانے والے کی دعوت قبول کرلی وہ گھر میں داخل ہوگیا اور دستر خوان سے کھایا اور جس نے بلانے والے کی دعوت قبول نہیں کی وہ گھر میں داخل نہیں ہوا اور دستر خوان سے کھانا نہیں کھایا، پھر انہوں نے کہا کہ اس کی ان کے لیے تفسیر کر دو تاکہ یہ سمجھ جائیں۔ بعض نے کہا کہ یہ تو سوئے ہوئے ہیں لیکن بعض نے کہا کہ آنکھیں گو سو رہی ہیں لیکن دل بیدار ہے۔ پھر انہوں نے کہا کہ گھر تو جنت ہے اور بلانے والے محمد ﷺ ہیں، پس جو ان کی اطاعت کرے گا وہ اللہ کی اطاعت کرے گا اور جو ان کی نافرمانی کرے گا وہ اللہ کی نافرمانی کرے گا اور محمد ﷺ اچھے اور برے لوگوں کے درمیانی فرق کرنے والے ہیں۔ محمد بن عبادہ کے ساتھ اس حدیث کو قتیبہ بن سعید نے بھی لیث سے روایت کیا، انہوں نے خالد بن یزید مصری سے، انہوں نے سعید بن ابی ہلال سے، انہوں نے جابر سے کہ نبی کریم ﷺ ہم پر بیدار ہوئے، پھر یہی حدیث نقل کی اسے ترمذی نے وصل کیا۔
رسول اللہ ﷺ کی سنتوں کی پیروی کرنے کا بیان۔ اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ ہمیں متقین کا امام بنادے مجاہد نے کہا کہ ایسے امام کہ ہم اپنے سے پہلے والوں کی اقتداء کریں اور ہم سے بعد والے ہماری اقتداء کریں اور ابن عون نے کہا کہ تین باتیں ایسی ہیں جنہیں میں اپنے اور اپنے بھائیوں کے لئے پسند کرتا ہوں اس سنت کو سیکھیں اور اس کے متعلق پوچھیں اور قرآن کو سمجھیں اور اس کے متعلق لوگوں سے دریافت کریں اور لوگوں سے بجز نیک کام کے ملنا چھوڑ دیں۔
ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابراہیمی نے، ان سے ہمام نے اور ان سے حذیفہ (رض) نے کہا کہ اے قرآن و حدیث پڑھنے والو ! تم اگر قرآن و حدیث پر نہ جمو گے، ادھر ادھر دائیں بائیں راستہ لو گے تو بھی گمراہ ہو گے بہت ہی بڑے گمراہ۔
رسول اللہ ﷺ کی سنتوں کی پیروی کرنے کا بیان۔ اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ ہمیں متقین کا امام بنادے مجاہد نے کہا کہ ایسے امام کہ ہم اپنے سے پہلے والوں کی اقتداء کریں اور ہم سے بعد والے ہماری اقتداء کریں اور ابن عون نے کہا کہ تین باتیں ایسی ہیں جنہیں میں اپنے اور اپنے بھائیوں کے لئے پسند کرتا ہوں اس سنت کو سیکھیں اور اس کے متعلق پوچھیں اور قرآن کو سمجھیں اور اس کے متعلق لوگوں سے دریافت کریں اور لوگوں سے بجز نیک کام کے ملنا چھوڑ دیں۔
ہم سے ابوکریب محمد بن علاء نے بیان کیا، کہا ہم سے اسامہ نے بیان کیا، ان سے برید نے، ان سے ان کے دادا ابوبردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا میری اور جس دعوت کے ساتھ مجھے اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے اس کی مثال ایک ایسے شخص جیسی ہے جو کسی قوم کے پاس آئے اور کہے : اے قوم ! میں نے ایک لشکر اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور میں ننگ دھڑنگ تم کو ڈرانے والا ہوں، پس بچاؤ کی صورت کرو تو اس قوم کے ایک گروہ نے بات مان لی اور رات کے شروع ہی میں نکل بھاگے اور حفاظت کی جگہ چلے گئے۔ اس لیے نجات پا گئے لیکن ان کی دوسری جماعت نے جھٹلایا اور اپنی جگہ ہی پر موجود رہے، پھر صبح سویرے ہی دشمن کے لشکر نے انہیں آلیا اور انہیں مارا اور ان کو برباد کردیا۔ تو یہ مثال ہے اس کی جو میری اطاعت کریں اور جو دعوت میں لایا ہوں اس کی پیروی کریں اور اس کی مثال ہے جو میری نافرمانی کریں اور جو حق میں لے کر آیا ہوں اسے جھٹلائیں۔
رسول اللہ ﷺ کی سنتوں کی پیروی کرنے کا بیان۔ اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ ہمیں متقین کا امام بنادے مجاہد نے کہا کہ ایسے امام کہ ہم اپنے سے پہلے والوں کی اقتداء کریں اور ہم سے بعد والے ہماری اقتداء کریں اور ابن عون نے کہا کہ تین باتیں ایسی ہیں جنہیں میں اپنے اور اپنے بھائیوں کے لئے پسند کرتا ہوں اس سنت کو سیکھیں اور اس کے متعلق پوچھیں اور قرآن کو سمجھیں اور اس کے متعلق لوگوں سے دریافت کریں اور لوگوں سے بجز نیک کام کے ملنا چھوڑ دیں۔
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے زہری نے، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے خبر دی، ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ جب نبی کریم ﷺ کی وفات ہوئی اور آپ کے بعد ابوبکر (رض) کو خلیفہ بنایا گیا اور عرب کے کئی قبائل پھرگئے۔ ابوبکر (رض) نے ان سے لڑنا چاہا تو عمر (رض) نے ابوبکر (رض) سے کہا کہ آپ لوگوں سے کس بنیاد پر جنگ کریں گے جب کہ نبی کریم ﷺ نے یہ فرمایا تھا کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے اس وقت تک جنگ کروں جب تک وہ کلمہ لا الہٰ الا اللہ کا اقرار نہ کرلیں پس جو شخص اقرار کرلے کہ لا الہٰ الا اللہ تو میری طرف سے اس کا مال اور اس کی جان محفوظ ہے۔ البتہ کسی حق کے بدل ہو تو وہ اور بات ہے (مثلاً کسی کا مال مار لے یا کسی کا خون کرے) اب اس کے باقی اعمال کا حساب اللہ کے حوالے ہے لیکن ابوبکر (رض) نے کہا کہ واللہ ! میں تو اس شخص سے جنگ کروں گا جس نے نماز اور زکوٰۃ میں فرق کیا ہے کیونکہ زکوٰۃ مال کا حق ہے، واللہ ! اگر وہ مجھے ایک رسی بھی دینے سے رکیں گے جو وہ رسول اللہ ﷺ کو دیتے تھے تو میں ان سے ان کے انکار پر بھی جنگ کروں گا۔ عمر (رض) نے کہا پھر جو میں نے غور کیا تو مجھے یقین ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ نے ابوبکر (رض) کے دل میں لڑائی کی تجویز ڈالی ہے تو میں نے جان لیا کہ وہ حق پر ہیں۔ ابوبکیر اور عبداللہ بن صالح نے لیث سے عناقا (کی بجائے عقلا ) کہا یعنی بکری کا بچہ اور یہی زیادہ صحیح ہے۔
رسول اللہ ﷺ کی سنتوں کی پیروی کرنے کا بیان۔ اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ ہمیں متقین کا امام بنادے مجاہد نے کہا کہ ایسے امام کہ ہم اپنے سے پہلے والوں کی اقتداء کریں اور ہم سے بعد والے ہماری اقتداء کریں اور ابن عون نے کہا کہ تین باتیں ایسی ہیں جنہیں میں اپنے اور اپنے بھائیوں کے لئے پسند کرتا ہوں اس سنت کو سیکھیں اور اس کے متعلق پوچھیں اور قرآن کو سمجھیں اور اس کے متعلق لوگوں سے دریافت کریں اور لوگوں سے بجز نیک کام کے ملنا چھوڑ دیں۔
مجھ سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا مجھ سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، ان سے یونس بن یزید ایلی نے ’ ان سے ابن شہاب نے، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے، ان سے عبداللہ بن عباس (رض) نے بیان کیا کہ عیینہ بن حذیفہ بن بدر مدینہ آئے اور اپنے بھتیجے الحر بن قیس بن حصن کے یہاں قیام کیا۔ الحر بن قیس ان لوگوں میں سے تھے جنہیں عمر (رض) اپنے قریب رکھتے تھے۔ قرآن مجید کے علماء عمر (رض) کے شریک مجلس و مشورہ رہتے تھے، خواہ وہ بوڑھے ہوں یا جوان۔ پھر عیینہ نے اپنے بھتیجے حر سے کہا : بھتیجے ! کیا امیرالمؤمنین کے یہاں کچھ رسوخ حاصل ہے کہ تم میرے لیے ان کے یہاں حاضری کی اجازت لے دو ؟ انہوں نے کہا کہ میں آپ کے لیے اجازت مانگوں گا۔ ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ پھر انہوں نے عیینہ کے لیے اجازت چاہی (اور آپ نے اجازت دی) پھر جب عیینہ مجلس میں پہنچے تو کہا کہ اے ابن خطاب، واللہ ! تم ہمیں بہت زیادہ نہیں دیتے اور نہ ہمارے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کرتے ہو۔ اس پر عمر (رض) غصہ ہوگئے، یہاں تک کہ آپ نے انہیں سزا دینے کا ارادہ کرلیا۔ اتنے میں الحر نے کہا : امیرالمؤمنین ! اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ سے فرمایا خذ العفو وأمر بالعرف وأعرض عن الجاهلين کہ معاف کرنے کا طریقہ اختیار کرو اور بھلائی کا حکم دو اور جاہلوں سے اعراض کرو۔ اور یہ شخص جاہلوں میں سے ہے۔ پس واللہ ! عمر (رض) کے سامنے جب یہ آیت انہوں نے تلاوت کی تو آپ ٹھنڈے ہوگئے اور عمر (رض) کی عادت تھی کہ اللہ کی کتاب پر فوراً عمل کرتے۔
رسول اللہ ﷺ کی سنتوں کی پیروی کرنے کا بیان۔ اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ ہمیں متقین کا امام بنادے مجاہد نے کہا کہ ایسے امام کہ ہم اپنے سے پہلے والوں کی اقتداء کریں اور ہم سے بعد والے ہماری اقتداء کریں اور ابن عون نے کہا کہ تین باتیں ایسی ہیں جنہیں میں اپنے اور اپنے بھائیوں کے لئے پسند کرتا ہوں اس سنت کو سیکھیں اور اس کے متعلق پوچھیں اور قرآن کو سمجھیں اور اس کے متعلق لوگوں سے دریافت کریں اور لوگوں سے بجز نیک کام کے ملنا چھوڑ دیں۔
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، ان سے مالک نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے فاطمہ بنت منذر نے، ان سے اسماء بنت ابی بکر (رض) نے بیان کیا کہ میں عائشہ (رض) کے یہاں گئی۔ جب سورج گرہن ہوا تھا اور لوگ نماز پڑھ رہے تھے عائشہ (رض) بھی کھڑی نماز پڑھ رہی تھیں۔ میں نے کہا لوگوں کو کیا ہوگیا ہے (کہ بےوقت نماز پڑھ رہے ہیں) تو انہوں نے ہاتھ سے آسمان کی طرف اشارہ کیا اور کہا : سبحان اللہ ! میں نے کہا کوئی نشانی ہے ؟ انہوں نے سر سے اشارہ کیا کہ ہاں۔ پھر جب رسول اللہ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو آپ ﷺ نے اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا کوئی چیز ایسی نہیں لیکن میں نے آج اس جگہ سے اسے دیکھ لیا، یہاں تک کہ جنت و دوزخ بھی اور مجھے وحی کی گئی ہے کہ تم لوگ قبروں میں بھی آزمائے جاؤ گے، دجال کے فتنے کے قریب قریب پس مومن یا مسلم مجھے یقین نہیں کہ اسماء (رض) نے ان میں سے کون سا لفظ کہا تھا تو وہ (قبر میں فرشتوں کے سوال پر کہے گا) محمد ﷺ ہمارے پاس روشن نشانات لے کر آئے اور ہم نے ان کی دعوت قبول کی اور ایمان لائے۔ اس سے کہا جائے گا کہ آرام سے سو رہو، ہمیں معلوم تھا کہ تم مومن ہو اور منافق یا شک میں مبتلا مجھے یقین نہیں کہ ان میں سے کون سا لفظ اسماء (رض) نے کہا تھا، تو وہ کہے گا (نبی کریم ﷺ کے متعلق سوال پر کہ) مجھے معلوم نہیں، میں نے لوگوں کو جو کہتے سنا وہی میں نے بھی بک دیا۔
رسول اللہ ﷺ کی سنتوں کی پیروی کرنے کا بیان۔ اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ ہمیں متقین کا امام بنادے مجاہد نے کہا کہ ایسے امام کہ ہم اپنے سے پہلے والوں کی اقتداء کریں اور ہم سے بعد والے ہماری اقتداء کریں اور ابن عون نے کہا کہ تین باتیں ایسی ہیں جنہیں میں اپنے اور اپنے بھائیوں کے لئے پسند کرتا ہوں اس سنت کو سیکھیں اور اس کے متعلق پوچھیں اور قرآن کو سمجھیں اور اس کے متعلق لوگوں سے دریافت کریں اور لوگوں سے بجز نیک کام کے ملنا چھوڑ دیں۔
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ابوالزناد نے، ان سے اعرج نے، ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جب تک میں تم سے یکسو رہوں تم بھی مجھے چھوڑ دو (اور سوالات وغیرہ نہ کرو) کیونکہ تم سے پہلے کی امتیں اپنے (غیر ضروری) سوال اور انبیاء کے سامنے اختلاف کی وجہ سے تباہ ہوگئیں۔ پس جب میں تمہیں کسی چیز سے روکوں تو تم بھی اس سے پرہیز کرو اور جب میں تمہیں کسی بات کا حکم دوں تو بجا لاؤ جس حد تک تم میں طاقت ہو۔
کثرت سوال اور بے فائدہ تکلف کی کراہت کا بیان۔ اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ کسی چیز کے متعلق زیادہ سوال نہ کرو۔ اگر ظاہر کردیا جائے تو تم کو برا معلوم ہو۔
ہم سے عبداللہ بن یزید المقری نے بیان کیا، کہا ہم سے سعید بن ابی ایوب نے بیان کیا، کہا مجھ سے عقیل بن خالد نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عامر بن سعد بن ابی وقاص نے، ان سے ان کے والد نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا سب سے بڑا مجرم وہ مسلمان ہے جس نے کسی ایسی چیز کے متعلق پوچھا جو حرام نہیں تھی اور اس کے سوال کی وجہ سے وہ حرام کردی گئی۔
کثرت سوال اور بے فائدہ تکلف کی کراہت کا بیان۔ اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ کسی چیز کے متعلق زیادہ سوال نہ کرو۔ اگر ظاہر کردیا جائے تو تم کو برا معلوم ہو۔
ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عفان بن مسلم نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم سے وہیب نے بیان کیا، کہا ہم سے موسیٰ ابن عقبہ نے بیان کیا، کہا میں نے ابوالنضر سے سنا، انہوں نے بسر بن سعید سے بیان کیا، ان سے زید بن ثابت (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے مسجد نبوی میں چٹائی سے گھیر کر ایک حجرہ بنا لیا اور رمضان کی راتوں میں اس کے اندر نماز پڑھنے لگے پھر اور لوگ بھی جمع ہوگئے تو ایک رات نبی کریم ﷺ کی آواز نہیں آئی۔ لوگوں نے سمجھا کہ نبی کریم ﷺ سو گئے ہیں۔ اس لیے ان میں سے بعض کھنگارنے لگے تاکہ آپ باہر تشریف لائیں، پھر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں تم لوگوں کے کام سے واقف ہوں، یہاں تک کہ مجھے ڈر ہوا کہ کہیں تم پر یہ نماز تراویح فرض نہ کردی جائے اور اگر فرض کردی جائے تو تم اسے قائم نہیں رکھ سکو گے۔ پس اے لوگو ! اپنے گھروں میں یہ نماز پڑھو کیونکہ فرض نماز کے سوا انسان کی سب سے افضل نماز اس کے گھر میں ہے۔
کثرت سوال اور بے فائدہ تکلف کی کراہت کا بیان۔ اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ کسی چیز کے متعلق زیادہ سوال نہ کرو۔ اگر ظاہر کردیا جائے تو تم کو برا معلوم ہو۔
ہم سے یوسف بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ حماد بن اسامہ نے بیان کیا، ان سے برید بن ابی بردہ نے، ان سے ابوبردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ سے کچھ چیزوں کے متعلق پوچھا گیا جنہیں آپ نے ناپسند کیا جب لوگوں نے بہت زیادہ پوچھنا شروع کردیا تو آپ ﷺ ناراض ہوئے اور فرمایا : پوچھو ! اس پر ایک صحابی کھڑا ہوا اور پوچھا : یا رسول اللہ ! میرے والد کون ہیں ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تمہارے والد حذافہ ہیں۔ پھر دوسرا صحابی کھڑا ہوا اور پوچھا میرے والد کون ہیں ؟ فرمایا کہ تمہارے والد شیبہ کے مولیٰ سالم ہیں۔ پھر جب عمر (رض) نے نبی کریم ﷺ کے چہرہ پر غصہ کے آثار محسوس کئے تو عرض کیا ہم اللہ عزوجل کی بارگاہ میں آپ کو غصہ دلانے سے توبہ کرتے ہیں۔
کثرت سوال اور بے فائدہ تکلف کی کراہت کا بیان۔ اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ کسی چیز کے متعلق زیادہ سوال نہ کرو۔ اگر ظاہر کردیا جائے تو تم کو برا معلوم ہو۔
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالملک بن عمیر کوفی نے بیان کیا، ان سے مغیرہ (رض) کے کاتب وراد نے بیان کیا کہ معاویہ (رض) نے مغیرہ (رض) کو لکھا کہ جو تم نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے وہ مجھے لکھئیے تو انہوں نے انہیں لکھا کہ نبی کریم ﷺ ہر نماز کے بعد کہتے تھے لا إله إلا الله، وحده لا شريك له، له الملک وله الحمد، وهو على كل شىء قدير، اللهم لا مانع لما أعطيت، ولا معطي لما منعت، ولا ينفع ذا الجد منک الجد تنہا اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اس کا کوئی شریک نہیں، ملک اسی کا ہے اور تمام تعریف اسی کے لیے ہیں اور وہ ہر چیز پر قادر ہے ! اے اللہ جو تو عطا کرے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جسے تو روکے اسے کوئی دینے والا نہیں اور کسی نصیبہ ور کا نصیبہ تیرے مقابلہ میں اسے نفع نہیں پہنچا سکے گا اور انہیں یہ بھی لکھا کہ نبی کریم ﷺ بےفائدہ بہت سوال کرنے سے منع کرتے تھے اور مال ضائع کرنے سے اور آپ ماؤں کی نافرمانی کرنے سے منع کرتے تھے اور لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے سے اور اپنا حق محفوظ رکھنے اور دوسروں کا حق نہ دینے سے اور بےضرورت مانگنے سے منع فرماتے تھے۔
کثرت سوال اور بے فائدہ تکلف کی کراہت کا بیان۔ اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ کسی چیز کے متعلق زیادہ سوال نہ کرو۔ اگر ظاہر کردیا جائے تو تم کو برا معلوم ہو۔
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا ، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ، ان سے ثابت نے اور ان سے انس (رض) نے بیان کیا کہ ہم عمر (رض) کے پاس تھے تو آپ نے فرمایا کہ ہمیں تکلف اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے۔
کثرت سوال اور بے فائدہ تکلف کی کراہت کا بیان۔ اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ کسی چیز کے متعلق زیادہ سوال نہ کرو۔ اگر ظاہر کردیا جائے تو تم کو برا معلوم ہو۔
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے (دوسری سند) امام بخاری (رح) نے کہا اور مجھ سے محمود نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہوں نے کہا مجھ کو انس بن مالک (رض) نے خبر دی کہ نبی کریم ﷺ سورج ڈھلنے کے بعد باہر تشریف لائے اور ظہر کی نماز پڑھی، پھر سلام پھیرنے کے بعد آپ منبر پر کھڑے ہوئے اور قیامت کا ذکر کیا اور آپ ﷺ نے ذکر کیا کہ اس سے پہلے بڑے بڑے واقعات ہوں گے اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے جو شخص کسی چیز کے متعلق سوال کرنا چاہے تو سوال کرے۔ آج مجھ سے جو سوال بھی کرو گے میں اس کا جواب دوں گا جب تک میں اپنی اس جگہ پر ہوں۔ انس (رض) نے بیان کیا کہ اس پر لوگ بہت زیادہ رونے لگے اور نبی کریم ﷺ باربار وہی فرماتے تھے کہ مجھ سے پوچھو۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر کوئی شخص کھڑا ہوا اور پوچھا، میری جگہ کہاں ہے۔ (جنت یا جہنم میں) یا رسول اللہ ! نبی کریم ﷺ نے بیان کیا کہ جہنم میں۔ پھر عبداللہ بن حذافہ (رض) کھڑے ہوئے اور کہا میرے والد کون ہیں یا رسول اللہ ؟ فرمایا کہ تمہارے والد حذافہ ہیں۔ بیان کیا کہ پھر آپ مسلسل کہتے رہے کہ مجھ سے پوچھو، مجھ سے پوچھو، آخر میں عمر (رض) نے اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر کہا : ہم اللہ سے رب کی حیثیت سے، اسلام سے دین کی حیثیت سے، محمد ﷺ سے رسول کی حیثیت سے راضی و خوش ہیں۔ عمر (رض) نے یہ کلمات کہے تو نبی کریم ﷺ خاموش ہوگئے، پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کی ہاتھ میں میری جان ہے، ابھی مجھ پر جنت اور دوزخ اس دیوار کی چوڑائی میں میرے سامنے کی گئی تھی (یعنی ان کی تصویریں) جب میں نماز پڑھ رہا تھا، آج کی طرح میں نے خیر و شر کو نہیں دیکھا۔
کثرت سوال اور بے فائدہ تکلف کی کراہت کا بیان۔ اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ کسی چیز کے متعلق زیادہ سوال نہ کرو۔ اگر ظاہر کردیا جائے تو تم کو برا معلوم ہو۔
ہم سے محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا، کہا ہم کو روح بن عبادہ نے خبر دی، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا مجھ کو موسیٰ بن انس نے خبر دی کہ میں نے انس بن مالک (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ایک صاحب نے کہا : یا نبی اللہ ! میرے والد کون ہیں ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تمہارے والد فلاں ہیں۔ اور یہ آیت نازل ہوئی يا أيها الذين آمنوا لا تسألوا عن أشياء اے لوگو ! ایسی چیزیں نہ پوچھو۔ الآیہ۔
کثرت سوال اور بے فائدہ تکلف کی کراہت کا بیان۔ اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ کسی چیز کے متعلق زیادہ سوال نہ کرو۔ اگر ظاہر کردیا جائے تو تم کو برا معلوم ہو۔
ہم سے حسن بن صباح نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شبابہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ورقاء نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، انہوں نے انس بن مالک (رض) سے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا انسان برابر سوال کرتا رہے گا، یہاں تک کہ سوال کرے گا کہ یہ تو اللہ ہے، ہر چیز کا پیدا کرنے والا لیکن اللہ کو کس نے پیدا کیا۔
کثرت سوال اور بے فائدہ تکلف کی کراہت کا بیان۔ اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ کسی چیز کے متعلق زیادہ سوال نہ کرو۔ اگر ظاہر کردیا جائے تو تم کو برا معلوم ہو۔
ہم سے محمد بن عبید بن میمون نے بیان کیا، کہا ہم سے عیسیٰ بن یونس نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابراہیم نے، ان سے علقمہ نے، ان سے ابن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ مدینہ کے ایک کھیت میں تھا۔ نبی کریم ﷺ کھجور کی ایک شاخ پر ٹیک لگائے ہوئے تھے کہ یہودی ادھر سے گزرے تو ان میں سے بعض نے کہا کہ ان سے روح کے بارے میں پوچھو۔ لیکن دوسروں نے کہا کہ ان سے نہ پوچھو۔ کہیں ایسی بات نہ سنا دیں جو تمہیں ناپسند ہے۔ آخر آپ کے پاس وہ لوگ آئے اور کہا : ابوالقاسم ! روح کے بارے میں ہمیں بتائیے ؟ پھر نبی کریم ﷺ تھوڑی دیر کھڑے دیکھتے رہے میں سمجھ گیا کہ آپ پر وحی نازل ہو رہی ہے۔ میں تھوڑی دور ہٹ گیا، یہاں تک کہ وحی کا نزول پورا ہوگیا، پھر آپ نے یہ آیت ويسألونک عن الروح قل الروح من أمر ربي پڑھی اور آپ روح کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہئے کہ روح میرے رب کے حکم میں سے ہے۔
نبی ﷺ کے افعال کی اقتداء کرنے کا بیان
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن دینار نے اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے سونے کی ایک انگوٹھی بنوائی تو دوسرے لوگوں نے بھی سونے کی انگوٹھیاں بنوا لیں، پھر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں نے سونے کی ایک انگوٹھی بنوائی تھی، پھر آپ ﷺ نے پھینک دی اور فرمایا کہ میں اسے کبھی نہیں پہنوں گا اور لوگوں نے بھی اپنی انگوٹھیاں پھینک دیں۔
اس امر کا بیان کہ باہم جھگڑا اور اس میں تعمق اور دین میں غلو اور بدعت مکروہ ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اے اہل کتاب اپنے دین میں حد سے تجاوز نہ کرو اور اللہ پر حق کے سوا کچھ نہ کہو۔
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام نے، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تم صوم وصال (افطار و سحر کے بغیر کئی دن کے روزے) نہ رکھا کرو۔ صحابہ نے کہا کہ نبی کریم ﷺ تو صوم وصال رکھتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں تم جیسا نہیں ہوں۔ میں رات گزارتا ہوں اور میرا رب مجھے کھلاتا پلاتا ہے لیکن لوگ صوم وصال سے نہیں رکے۔ بیان کیا کہ پھر نبی کریم ﷺ نے ان کے ساتھ دو دن یا دو راتوں میں صوم وصال کیا، پھر لوگوں نے چاند دیکھ لیا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر چاند نہ نظر آتا تو میں اور وصال کرتا، نبی کریم ﷺ کا مقصد انہیں سرزنش کرنا تھا۔
اس امر کا بیان کہ باہم جھگڑا اور اس میں تعمق اور دین میں غلو اور بدعت مکروہ ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اے اہل کتاب اپنے دین میں حد سے تجاوز نہ کرو اور اللہ پر حق کے سوا کچھ نہ کہو۔
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد نے، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا مجھ سے ابراہیم تیمی نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، کہا کہ علی (رض) نے ہمیں اینٹ کے بنے ہوئے منبر کر کھڑا ہو کر خطبہ دیا۔ آپ تلوار لیے ہوئے تھے جس میں ایک صحیفہ لٹکا ہوا تھا۔ آپ نے فرمایا : واللہ ! ہمارے پاس کتاب اللہ کے سوا کوئی اور کتاب نہیں جسے پڑھا جائے اور سوا اس صحیفہ کے۔ پھر انہوں نے اسے کھولا تو اس میں دیت میں دئیے جانے والے اونٹوں کی عمروں کا بیان تھا۔ (کہ دیت میں اتنی اتنی عمر کے اونٹ دئیے جائیں) اور اس میں یہ بھی تھا کہ مدینہ طیبہ کی زمین عیر پہاڑی سے ثور پہاڑی تک حرم ہے۔ پس اس میں جو کوئی نئی بات (بدعت) نکالے گا اس پر اللہ کی لعنت ہے اور فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی۔ اللہ اس سے کسی فرض یا نفل عبادت کو قبول نہیں کرے گا اور اس میں یہ بھی تھا کہ مسلمانوں کی ذمہ داری (عہد یا امان) ایک ہے اس کا ذمہ دار ان میں سب سے ادنیٰ مسلمان بھی ہوسکتا ہے پس جس نے کسی مسلمان کا ذمہ توڑا، اس پر اللہ کی لعنت ہے اور فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی۔ اللہ اس کی نہ فرض عبادت قبول کرے گا اور نہ نفل عبادت اور اس میں یہ بھی تھا کہ جس نے کسی سے اپنی والیوں کی اجازت کے بغیر ولاء کا رشتہ قائم کیا اس پر اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے، اللہ نہ اس کی فرض نماز قبول کرے گا نہ نفل۔
اس امر کا بیان کہ باہم جھگڑا اور اس میں تعمق اور دین میں غلو اور بدعت مکروہ ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اے اہل کتاب اپنے دین میں حد سے تجاوز نہ کرو اور اللہ پر حق کے سوا کچھ نہ کہو۔
ہم سے عمر بن حفص نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے مسلم نے، ان سے مسروق نے، ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے کوئی کام کیا جس سے بعض لوگوں نے پرہیز کرنا اختیار کیا۔ جب نبی کریم ﷺ کو اس کی خبر پہنچی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ان لوگوں کا کیا حال ہوگا جو ایسی چیز سے پرہیز کرتے ہیں جو میں کرتا ہوں، واللہ ! میں ان سے زیادہ اللہ کے متعلق علم رکھتا ہوں اور ان سے زیادہ خشیت رکھتا ہوں۔
اس امر کا بیان کہ باہم جھگڑا اور اس میں تعمق اور دین میں غلو اور بدعت مکروہ ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اے اہل کتاب اپنے دین میں حد سے تجاوز نہ کرو اور اللہ پر حق کے سوا کچھ نہ کہو۔
ہم سے محمد بن مقاتل ابوالحسن مروزی نے بیان کیا، کہا ہم کو وکیع نے خبر نے دی، انہیں نافع بن عمر نے، ان سے ابن ابی ملکیہ نے بیان کیا کہ امت کے دو بہترین انسان قریب تھا کہ ہلاک ہوجاتے (یعنی ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما) جس وقت نبی کریم ﷺ کے پاس بنی تمیم کا وفد آیا تو ان میں سے ایک صاحب (عمر رضی اللہ عنہ) نے بنی مجاشع میں سے اقرع بن حابس حنظلی (رض) کو ان کا سردار بنائے جانے کا مشورہ دیا (تو انہوں نے یہ درخواست کی کہ کسی کو ہمارا سردار بنا دیجئیے) اور دوسرے صاحب (ابوبکر رضی اللہ عنہ) نے دوسرے (قعقاع بن سعید بن زرارہ) کو بنائے جانے کا مشورہ دیا۔ اس پر ابوبکر (رض) نے عمر (رض) سے کہا کہ آپ کا مقصد صرف میری مخالفت کرنا ہے۔ عمر (رض) نے کہا کہ میری نیت آپ کی مخالفت کرنا نہیں ہے اور نبی کریم ﷺ کی موجودگی میں دونوں بزرگوں کی آواز بلند ہوگئی۔ چناچہ یہ آیت نازل ہوئی يا أيها الذين آمنوا لا ترفعوا أصواتکم اے لوگوں ! جو ایمان لے آئے ہو اپنی آواز کو بلند نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد عظيم تک۔ ابن ابی ملکیہ نے بیان کیا کہ ابن زبیر (رض) کہتے تھے کہ عمر (رض) نے اس آیت کے اترنے کے بعد یہ طریقہ اختیار کیا اور ابن زبیر نے ابوبکر (رض) اپنے نانا کا ذکر کیا وہ جب نبی کریم ﷺ سے کچھ عرض کرتے تو اتنی آہستگی سے جیسے کوئی کان میں بات کرتا ہے حتیٰ کہ نبی کریم ﷺ کو بات سنائی نہ دیتی تو آپ دوبارہ پوچھتے کیا کہا۔
اس امر کا بیان کہ باہم جھگڑا اور اس میں تعمق اور دین میں غلو اور بدعت مکروہ ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اے اہل کتاب اپنے دین میں حد سے تجاوز نہ کرو اور اللہ پر حق کے سوا کچھ نہ کہو۔
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے بیان کیا اور ان سے ام المؤمنین عائشہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیماری میں فرمایا ابوبکر سے کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں عائشہ نے کہا کہ میں نے جواباً عرض کیا کہ ابوبکر (رض) اگر آپ ﷺ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو رونے کی شدت کی وجہ سے اپنی آواز لوگوں کو نہیں سنا سکیں گے اس لیے آپ عمر (رض) کو حکم دیجئیے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ابوبکر سے کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ میں نے حفصہ (رض) سے کہا کہ تم کہو کہ ابوبکر (رض) آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو شدت بکاء کی وجہ سے لوگوں کو سنا نہیں سکیں گے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم عمر (رض) کو نماز پڑھانے کا حکم دیں۔ حفصہ (رض) نے ایسا ہی کیا۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ بلاشبہ تم یوسف پیغمبر کی ساتھ والیاں ہو ؟ ابوبکر سے کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ بعد میں حفصہ (رض) نے عائشہ (رض) سے کہا کہ میں نے تم سے کبھی کچھ بھلائی نہیں دیکھی۔
اس امر کا بیان کہ باہم جھگڑا اور اس میں تعمق اور دین میں غلو اور بدعت مکروہ ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اے اہل کتاب اپنے دین میں حد سے تجاوز نہ کرو اور اللہ پر حق کے سوا کچھ نہ کہو۔
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن ابی ذئب نے کہا، ہم سے زہری نے، ان سے سہل بن سعد ساعدی (رض) نے بیان کیا کہ عویمر عجلانی، عاصم بن عدی کے پاس آیا اور کہا اس شخص کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ کسی دوسرے مرد کو پائے اور اسے قتل کر دے، کیا آپ لوگ مقتول کے بدلہ میں اسے قتل کردیں گے ؟ عاصم ! میرے لیے آپ، رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق پوچھ دیجئیے۔ چناچہ انہوں نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا لیکن آپ نے اس طرح کے سوال کو ناپسند کیا اور معیوب جانا۔ عاصم (رض) نے واپس آ کر انہیں بتایا کہ نبی کریم ﷺ نے اس طرح کے سوال کو ناپسند کیا ہے۔ اس پر عویمر (رض) بولے کہ واللہ ! میں خود نبی کریم ﷺ کے پاس جاؤں گا خیر عویمر آپ کے پاس آئے اور عاصم کے لوٹ جانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی آیت آپ ﷺ پر نازل کی۔ چناچہ نبی کریم ﷺ نے ان سے کہا کہ تمہارے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن نازل کیا ہے، پھر آپ نے دونوں (میاں بیوی) کو بلایا۔ دونوں آگے بڑھے اور لعان کیا۔ پھر عویمر نے کہا کہ یا رسول اللہ ! اگر میں اسے اب بھی اپنے پاس رکھتا ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میں جھوٹا ہوں چناچہ اس نے فوری اپنی بیوی کو جدا کردیا۔ نبی کریم ﷺ نے جدا کرنے کا حکم نہیں دیا تھا۔ پھر لعان کرنے والوں میں یہی طریقہ رائج ہوگیا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ دیکھتے رہو اس کا بچہ لال لال پست قد بامنی کی طرح کا پیدا ہو تو میں سمجھتا ہوں کہ وہ عویمر ہی کا بچہ ہے۔ عویمر نے عورت پر جھوٹا طوفان باندھا اور اور اگر سانولے رنگ کا بڑی آنکھ والا بڑے بڑے چوتڑ والا پیدا ہو، جب میں سمجھوں گا کہ عویمر سچا ہے پھر اس عورت کا بچہ اس مکروہ صورت کا یعنی جس مرد سے وہ بدنام ہوئی تھی، اسی صورت کا پیدا ہوا۔
اس امر کا بیان کہ باہم جھگڑا اور اس میں تعمق اور دین میں غلو اور بدعت مکروہ ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اے اہل کتاب اپنے دین میں حد سے تجاوز نہ کرو اور اللہ پر حق کے سوا کچھ نہ کہو۔
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، انہیں مالک بن اوس نضری نے خبر دی کہ محمد بن جبیر بن مطعم نے مجھ سے اس سلسلہ میں ذکر کیا تھا، پھر میں مالک کے پاس گیا اور ان سے اس حدیث کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں روانہ ہوا اور عمر (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اتنے میں ان کے دربان یرفاء آئے اور کہا کہ عثمان، عبدالرحمٰن، زبیر اور سعد رضی اللہ عنہم اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں، کیا انہیں اجازت دی جائے ؟ عمر (رض) نے کہا کہ ہاں۔ چناچہ سب لوگ اندر آگئے اور سلام کیا اور بیٹھ گئے، پھر یرفاء نے آ کر پوچھا کہ کیا علی اور عباس کو اجازت دی جائے ؟ ان حضرات کو بھی اندر بلایا۔ عباس (رض) نے کہا کہ امیرالمؤمنین ! میرے اور ظالم کے درمیان فیصلہ کر دیجئیے۔ آپس میں دونوں نے سخت کلامی کی۔ اس پر عثمان (رض) اور ان کے ساتھیوں کی جماعت نے کہا کہ امیرالمؤمنین ! ان کے درمیان فیصلہ کر دیجئیے تاکہ دونوں کو آرام حاصل ہو۔ عمر (رض) نے کہا کہ صبر کرو میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کی اجازت سے آسمان و زمین قائم ہیں۔ کیا آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ ہماری میراث تقسیم نہیں ہوتی، ہم جو کچھ چھوڑیں وہ صدقہ ہے۔ نبی کریم ﷺ نے اس سے خود اپنی ذات مراد لی تھی۔ جماعت نے کہا کہ ہاں، نبی کریم ﷺ نے یہ فرمایا تھا۔ پھر آپ علی اور عباس رضی اللہ عنہم کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ میں آپ لوگوں کو اللہ کی قسم دیتا ہوں۔ کیا آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ نبی کریم ﷺ نے یہ فرمایا ؟ انہوں نے بھی کہا کہ ہاں۔ عمر (رض) نے اس کے بعد کہا کہ پھر میں آپ لوگوں سے اس بارے میں گفتگو کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کا اس مال میں سے ایک حصہ مخصوص کیا تھا جو اس نے آپ کے سوا کسی کو نہیں دیا۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ما أفاء الله على رسوله منهم فما أوجفتم الآیہ۔ تو یہ مال خاص نبی کریم ﷺ کے لیے تھا، پھر واللہ ! نبی کریم ﷺ نے اسے اپنے لوگوں کو نظر انداز کر کے اپنے لیے جمع نہیں کیا اور نہ اسے اپنی ذاتی جائیداد بنایا۔ نبی کریم ﷺ نے اسے آپ لوگوں کو بھی دیا اور سب میں تقسیم کیا، یہاں تک اس میں سے یہ مال باقی رہ گیا تو نبی کریم ﷺ اس میں سے اپنے گھر والوں کا سالانہ خرچ دیتے تھے، پھر باقی اپنے قبضے میں لے لیتے تھے اور اسے بیت المال میں رکھ کر عام مسلمانوں کے ضروریات میں خرچ کرتے تھے۔ نبی کریم ﷺ نے زندگی بھر اس کے مطابق عمل کیا۔ میں آپ لوگوں کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا آپ کو اس کا علم ہے ؟ صحابہ نے کہا کہ ہاں پھر آپ نے علی اور عباس (رض) سے کہا، میں آپ دونوں حضرات کو بھی اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا آپ لوگوں کو اس کا علم ہے ؟ انہوں نے بھی کہا کہ ہاں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم ﷺ کو وفات دی اور ابوبکر (رض) نے نبی کریم ﷺ کے ولی ہونے کی حیثیت سے اس پر قبضہ کیا اور اس میں اسی طرح عمل کیا جیسا کہ نبی کریم ﷺ کرتے تھے۔ آپ دونوں حضرات بھی یہیں موجود تھے۔ آپ نے علی اور عباس (رض) کی طرف متوجہ ہو کر یہ بات کہی اور آپ لوگوں کا خیال تھا کہ ابوبکر (رض) اس معاملے میں خطاکار ہیں اور اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ اس معاملے میں سچے اور نیک اور سب سے زیادہ حق کی پیروی کرنے والے تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے ابوبکر (رض) کو وفات دی اور میں نے کہا کہ میں رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر ﷺ کا ولی ہوں اس طرح میں نے بھی اس جائیداد کو اپنے قبضے میں دو سال تک رکھا اور اس میں اسی کے مطابق عمل کرتا رہا جیسا کہ نبی کریم ﷺ اور ابوبکر صدیق (رض) نے کیا تھا، پھر آپ دونوں حضرات میرے پاس آئے اور آپ لوگوں کا معاملہ ایک ہی تھا، کوئی اختلاف نہیں تھا۔ آپ (عباس (رض) ! ) آئے اپنے بھائی کے لڑکے کی طرف سے اپنی میراث لینے اور یہ (علی رضی اللہ عنہ) اپنی بیوی کی طرف سے ان کے والد کی میراث کا مطالبہ کرنے آئے۔ میں نے تم سے کہا کہ یہ جائیداد تقسیم تو نہیں ہوسکتی لیکن تم لوگ چاہو تو میں اہتمام کے طور پر آپ کو یہ جائیداد دے دوں لیکن شرط یہ ہے کہ آپ لوگوں پر اللہ کا عہد اور اس کی میثاق ہے کہ اس کو اسی طرح خرچ کرو گے جس طرح رسول اللہ ﷺ نے کیا تھا اور جس طرح ابوبکر (رض) نے کیا تھا اور جس طرح میں نے اپنے زمانہ ولایت میں کیا اگر یہ منظور نہ ہو تو پھر مجھ سے اس معاملہ میں بات نہ کریں۔ آپ دونوں حضرات نے کہا کہ اس شرط کے ساتھ ہمارے حوالہ جائیداد کردیں۔ چناچہ میں نے اس شرط کے ساتھ آپ کے حوالہ جائیداد کردی تھی۔ میں آپ لوگوں کو اللہ کی قسم دیتا ہوں۔ کیا میں نے ان لوگوں کو اس شرط کے ساتھ جائیداد دی تھی۔ جماعت نے کہا کہ ہاں، پھر آپ نے علی اور عباس (رض) کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا میں آپ لوگوں کو اللہ کی قسم دیتا ہوں۔ کیا میں نے جائیداد آپ لوگوں کو اس شرط کے ساتھ حوالہ کی تھی ؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ پھر آپ نے کہا، کیا آپ لوگ مجھ سے اس کے سوا کوئی اور فیصلہ چاہتے ہیں۔ پس اس ذات کی قسم جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں، اس میں، اس کے سوا کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا یہاں تک کہ قیامت آجائے۔ اگر آپ لوگ اس کا انتظام نہیں کرسکتے تو پھر میرے حوالہ کر دو میں اس کا بھی انتظام کرلوں گا۔
اس شخص کے گناہ کا بیان جس نے کسی بدعتی کو پناہ دی۔ حضرت علی نے اس کو نبی ﷺ سے روایت کیا ہے۔
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالواحد نے بیان کیا، کہا ہم سے عاصم نے بیان کیا، کہا کہ میں نے انس (رض) سے پوچھا : کیا رسول اللہ ﷺ نے مدینہ منورہ کو حرمت والا شہر قرار دیا ہے ؟ فرمایا کہ ہاں فلاں جگہ عیر سے فلاں جگہ (ثور) تک۔ اس علاقہ کا درخت نہیں کاٹا جائے گا جس نے اس حدود میں کوئی نئی بات پیدا کی، اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور تمام انسانوں کی لعنت ہے۔ عاصم نے بیان کیا کہ پھر مجھے موسیٰ بن انس نے خبر دی کہ انس (رض) نے یہ بھی بیان کیا تھا کہ یا کسی نے دین میں بدعت پیدا کرنے والے کو پناہ دی۔
رائے کی مذمت اور قیاس میں تکلف کی کراہت کا بیان۔ (اللہ تعالیٰ کا قول کہ) وہ بات نہ کہو جس کا تم کو علم نہ ہو۔
ہم سے سعید بن تلید نے بیان کیا، کہا مجھ سے عبداللہ بن وہب نے، کہا مجھ سے عبدالرحمٰن بن شریح اور ان کے علاوہ ابن لیعہ نے بیان کیا، ان سے ابوالاسود نے اور ان سے عروہ نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) نے ہمیں لے کر حج کیا تو میں نے انہیں یہ کہتے سنا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا، آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ علم کو، اس کے بعد کہ تمہیں دیا ہے ایک دم سے نہیں اٹھا لے گا بلکہ اسے اس طرح ختم کرے گا کہ علماء کو ان کے علم کے ساتھ اٹھا لے گا پھر کچھ جاہل لوگ باقی رہ جائیں گے، ان سے فتویٰ پوچھا جائے گا اور وہ فتویٰ اپنی رائے کے مطابق دیں گے۔ پس وہ لوگوں کو گمراہ کریں گے اور وہ خود بھی گمراہ ہوں گے۔ پھر میں نے یہ حدیث نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ عائشہ (رض) سے بیان کی۔ ان کے بعد عبداللہ بن عمر (رض) نے دوبارہ حج کیا تو ام المؤمنین نے مجھ سے کہا کہ بھانجے عبداللہ کے پاس جاؤ اور میرے لیے اس حدیث کو سن کر خوب مضبوط کرلو جو حدیث تم نے مجھ سے ان کے واسطہ سے بیان کی تھی۔ چناچہ میں ان کے پاس آیا اور میں نے ان سے پوچھا تو انہوں نے مجھ سے وہ حدیث بیان کی، اسی طرح جیسا کہ وہ پہلے مجھ سے بیان کرچکے تھے، پھر میں عائشہ (رض) کے پاس آیا اور انہیں اس کی خبر دی تو انہیں تعجب ہوا اور بولیں کہ واللہ عبداللہ بن عمرو نے خوب یاد رکھا۔
رائے کی مذمت اور قیاس میں تکلف کی کراہت کا بیان۔ (اللہ تعالیٰ کا قول کہ) وہ بات نہ کہو جس کا تم کو علم نہ ہو۔
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہم کو ابوحمزہ نے خبر دی، کہا میں نے اعمش سے سنا، کہا کہ میں نے ابو وائل سے پوچھا تم صفین کی لڑائی میں شریک تھے ؟ کہا کہ ہاں، پھر میں نے سہل بن حنیف کو کہتے سنا (دوسری سند) امام بخاری (رح) نے کہا اور ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابو وائل نے بیان کیا کہ سہل بن حنیف (رض) نے (جنگ صفین کے موقع پر) کہا کہ لوگوں ! اپنے دین کے مقابلہ میں اپنی رائے کو بےحقیقت سمجھو میں نے اپنے آپ کو ابوجندل (رض) کے واقعہ کے دن (صلح حدیبیہ کے موقع پر) دیکھا کہ اگر میرے اندر رسول اللہ ﷺ کے حکم سے ہٹنے کی طاقت ہوتی تو میں اس دن آپ سے انحراف کرتا (اور کفار قریش کے ساتھ ان شرائط کو قبول نہ کرتا) اور ہم نے جب کسی مہم پر اپنی تلواریں کاندھوں پر رکھیں (لڑائی شروع کی) تو ان تلواروں کی بدولت ہم کو ایک آسانی مل گئی جسے ہم پہچانتے تھے مگر اس مہم میں (یعنی جنگ صفین میں مشکل میں گرفتار ہیں دونوں طرف والے اپنے اپنے دلائل پیش کرتے ہیں) ابواعمش نے کہا کہ ابو وائل نے بتایا کہ میں صفین میں موجود تھا اور صفین کی لڑائی بھی کیا بری لڑائی تھی جس میں مسلمان آپس میں کٹ مرے۔
نبی ﷺ سے جب کسی ایسی چیز سے متعلق سوال کیا جاتا جس کے متعلق آپ پر وحی نازل نہیں ہوئی ہوتی تو فرماتے میں نہیں جانتا یا جواب نہ دیتے جب تک آپ پر وحی نازل نہ ہوتی اور اپنی رائے اور قیاس سے نہ فرماتے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا "بما اراک اللہ"کہ اللہ نے آپ کو دکھایا اور ابن مسعود کا بیان ہے کہ نبی ﷺ سے روح کے متعلق پوچھا گیا تو آپ خاموش رہے یہاں تک کہ آیت نازل ہوئی۔
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، کہا میں نے محمد بن المنکدر سے سنا، بیان کیا کہ میں نے جابر بن عبداللہ (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں بیمار پڑا تو رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر (رض) عیادت کے لیے تشریف لائے۔ یہ دونوں بزرگ پیدل چل کر آئے تھے، پھر نبی کریم ﷺ پہنچے تو مجھ پر بےہوشی طاری تھی۔ نبی کریم ﷺ نے وضو کیا اور وضو کا پانی مجھ پر چھڑکا، اس سے مجھے افاقہ ہوا تو میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! اور بعض اوقات سفیان نے یہ الفاظ بیان کئے کہ میں نے کہا : یا رسول اللہ ! میں اپنے مال کے بارے میں کس طرح فیصلہ کروں، میں اپنے مال کا کیا کروں ؟ بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے کوئی جواب نہیں دیا، یہاں تک کہ میراث کی آیت نازل ہوئی۔
نبی ﷺ کا اپنی امت کے مردوں اور عورتوں کو تعلیم رائے اور تمثیل سے نہیں کرتے تھے بلکہ اس سے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو سکھایا تھا۔
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن الاصبہانی نے، ان سے ابوصالح ذکوان نے اور ان سے ابوسعید (رض) نے کہ ایک خاتون نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہا : یا رسول اللہ ! آپ کی تمام احادیث مرد لے گئے، ہمارے لیے بھی آپ کوئی دن اپنی طرف سے مخصوص کردیں جس میں ہم آپ کے پاس آئیں اور آپ ہمیں وہ تعلیمات دیں جو اللہ نے آپ کو سکھائی ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ فلاں فلاں دن فلاں فلاں جگہ جمع ہوجاؤ۔ چناچہ عورتیں جمع ہوئیں اور نبی کریم ﷺ ان کے پاس آئے اور انہیں اس کی تعلیم دی جو اللہ نے آپ ﷺ کو سکھایا تھا۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا تم میں سے جو عورت بھی اپنی زندگی میں اپنے تین بچے آگے بھیج دے گی۔ (یعنی ان کی وفات ہوجائے گی) تو وہ اس کے لیے دوزخ سے رکاوٹ بن جائیں گے۔ اس پر ان میں سے ایک خاتون نے کہا : یا رسول اللہ ! دو ؟ انہوں نے اس کلمہ کو دو مرتب دہرایا، پھر نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہاں دو ، دو ، دو بھی یہی درجہ رکھتے ہیں۔
نبی ﷺ کا ارشاد کہ میری امت میں سے کچھ لوگ ہمیشہ حق پر غالب رہیں گے اور وہ جنگ کرتے ہوں گے یہ لوگ اہل علم ہیں
ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، ان سے اسماعیل نے، ان سے قیس نے، ان سے مغیرہ بن شعبہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ غالب رہے گا (اس میں علمی و دینی غلبہ بھی داخل ہے) یہاں تک کہ قیامت آجائے گی اور وہ غالب ہی رہیں گے۔
نبی ﷺ کا ارشاد کہ میری امت میں سے کچھ لوگ ہمیشہ حق پر غالب رہیں گے اور وہ جنگ کرتے ہوں گے یہ لوگ اہل علم ہیں
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، ان سے یونس نے، ان سے ابن شہاب نے انہیں حمید نے خبر دی، کہا کہ میں نے معاویہ بن ابی سفیان (رض) سے سنا، وہ خطبہ دے رہے تھے، انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ جس کے ساتھ خیر کا ارادہ کرتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا فرما دیتا ہے اور میں تو صرف تقسیم کرنے والا ہوں اور دیتا اللہ ہے اور اس امت کا معاملہ ہمیشہ درست رہے گا، یہاں تک کہ قیامت قائم ہوجائے یا (آپ ﷺ نے یوں فرمایا کہ) یہاں تک کہ اللہ کا حکم آپہنچے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمانا کہ یا تمہیں فرقے فرقے بنادے
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے بیان کیا کہ میں نے جابر بن عبداللہ (رض) سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ ﷺ پر یہ آیت نازل ہوئی قل هو القادر على أن يبعث عليكم عذابا من فوقکم کہ کہو کہ وہ اس پر قادر ہے کہ تم پر تمہارے اوپر سے عذاب بھیجے۔ تو نبی کریم ﷺ نے کہا کہ میں تیرے با عظمت و بزرگ منہ کی پناہ مانگتا ہوں۔ أو من تحت أرجلکم یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے (عذاب بھیجے) تو اس پر پھر نبی کریم ﷺ نے کہا کہ میں تیرے مبارک منہ کی پناہ مانگتا ہوں، پھر جب یہ آیت نازل ہوئی أو يلبسکم شيعا ويذيق بعضکم بأس بعض کہ یا تمہیں فرقوں میں تقسیم کر دے اور تم میں سے بعض کو بعض کا خوف چکھائے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ دونوں آسان و سہل ہیں۔
اس شخص کا بیان جو سائل کے سمجھنے کے لئے اصل معلوم کو اصل ظاہر سے تشبیہ دے جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے بیان کردیا ہے۔
ہم سے اصبغ بن الفرج نے بیان کیا، کہا مجھ سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، ان سے یونس بن یزید نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ ایک اعرابی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ میری بیوی کے یہاں لڑکا پیدا ہوا ہے جس کو میں اپنا نہیں سمجھتا۔ نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا کہ تمہارے پاس اونٹ ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ ہیں۔ دریافت کیا کہ ان کے رنگ کیسے ہیں ؟ کہا کہ سرخ ہیں۔ پوچھا کہ ان میں کوئی خاکی بھی ہے ؟ انہوں نے کہا جی ہاں ان میں خاکی بھی ہیں۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے پوچھا کہ پھر کس طرح تم سمجھتے ہو کہ اس رنگ کا پیدا ہوا ؟ انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ ! کسی رگ نے یہ رنگ کھینچ لیا ہوگا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ممکن ہے اس بچے کا رنگ بھی کسی رگ نے کھینچ لیا ہو ؟ اور نبی کریم ﷺ نے ان کو بچے کے انکار کرنے کی اجازت نہیں دی۔
اس شخص کا بیان جو سائل کے سمجھنے کے لئے اصل معلوم کو اصل ظاہر سے تشبیہ دے جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے بیان کردیا ہے۔
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے ابوبشر نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے کہ ایک خاتون رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں اور عرض کیا کہ میری والدہ نے حج کرنے کی نذر مانی تھی اور وہ (ادائیگی سے پہلے ہی) وفات پا گئیں۔ کیا میں ان کی طرف سے حج کرلوں ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہاں ان کی طرف سے حج کرلو۔ تمہارا کیا خیال ہے، اگر تمہاری والدہ پر قرض ہوتا تو تم اسے پورا کرتیں ؟ انہوں نے کہا : جی ہاں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پھر اس قرض کو بھی پورا کر جو اللہ تعالیٰ کا ہے کیونکہ اس قرض کا پورا کرنا زیادہ ضروری ہے۔
جو اللہ تعالیٰ نے نازل کیا ہے اس کے مطابق قاضیوں کے اجتہاد کا بیان اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جس نے اس کے مطابق فیصلہ نہیں کیا جو اللہ تعالیٰ نے نازل کیا ہے ایسے لوگ ظالم ہیں اور نبی ﷺ نے اس حکمت والے کی تعریف کی ہے جو حکمت سے فیصلہ کرے اور اس کی تعظیم کرے اور اپنی طرف سے کوئی تکلف نہ کرے اور خلفاء کے مشورہ اور ان کا اہل علم سے سوال کرنے کا بیان
ہم سے شہاب بن عباد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن حمید نے بیان کیا، ان سے اسماعیل بن ابی خالد نے، ان سے قیس بن ابی حازم نے، ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا رشک دو ہی آدمیوں پر ہوسکتا ہے، ایک وہ جیسے اللہ نے مال دیا اور اسے (مال کو) راہ حق میں لٹانے کی پوری طرح توفیق ملی ہوتی ہے اور دوسرا وہ جسے اللہ نے حکمت دی ہے اور اس کے ذریعہ فیصلہ کرتا ہے اور اس کی تعلیم دیتا ہے۔
جو اللہ تعالیٰ نے نازل کیا ہے اس کے مطابق قاضیوں کے اجتہاد کا بیان اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جس نے اس کے مطابق فیصلہ نہیں کیا جو اللہ تعالیٰ نے نازل کیا ہے ایسے لوگ ظالم ہیں اور نبی ﷺ نے اس حکمت والے کی تعریف کی ہے جو حکمت سے فیصلہ کرے اور اس کی تعظیم کرے اور اپنی طرف سے کوئی تکلف نہ کرے اور خلفاء کے مشورہ اور ان کا اہل علم سے سوال کرنے کا بیان
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم کو ابومعاویہ نے خبر دی، کہا ہم سے ہشام نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے مغیرہ بن شعبہ (رض) نے بیان کیا کہ عمر بن خطاب (رض) نے عورت کے املاص کے متعلق (صحابہ سے) پوچھا۔ یہ اس عورت کو کہتے ہیں جس کے پیٹ پر مار دیا گیا (جبکہ وہ حاملہ ہو) ہو اور اس کا ناتمام (ادھورا) بچہ گرگیا ہو۔ عمر (رض) نے پوچھا آپ لوگوں میں سے کسی نے نبی کریم ﷺ سے اس کے بارے میں کوئی حدیث سنی ہے ؟ میں نے کہا کہ میں نے سنی ہے۔ پوچھا کیا حدیث ہے ؟ میں نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا ہے کہ ایسی صورت میں ایک غلام یا باندی تاوان کے طور پر ہے۔ عمر (رض) نے کہا کہ تم اب چھوٹ نہیں سکتے یہاں تک کہ تم نے جو حدیث بیان کی ہے اس سلسلے میں نجات کا کوئی ذریعہ (یعنی کوئی شہادت کہ واقعی نبی کریم ﷺ نے یہ حدیث فرمائی تھی) لاؤ۔ پھر میں نکلا تو محمد بن مسلمہ (رض) مل گئے اور میں انہیں لایا اور انہوں نے میرے ساتھ گواہی دی کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ اس میں ایک غلام یا باندی کی تاوان ہے۔ ہشام بن عروہ کے ساتھ اس حدیث کو ابن ابی الزناد نے بھی اپنے باپ سے، انہوں نے عروہ سے، انہوں نے مغیرہ سے روایت کیا۔
نبی ﷺ کا ارشاد کہ تم اپنے سے پہلی امتوں کے طریقوں کی پیروی کرنے لگوگے۔
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن ابی ذئب نے بیان کیا، ان سے مقبری نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک میری امت اس طرح پچھلی امتوں کے مطابق نہیں ہوجائے گی جیسے بالشت بالشت کے اور ہاتھ ہاتھ کے برابر ہوتا ہے۔ پوچھا گیا : یا رسول اللہ ! اگلی امتوں سے کون مراد ہیں، پارسی اور نصرانی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا پھر اور کون۔
نبی ﷺ کا ارشاد کہ تم اپنے سے پہلی امتوں کے طریقوں کی پیروی کرنے لگوگے۔
ہم سے محمد بن عبدالعزیز نے بیان کیا، کہا ہم سے یمن کے ابوعمر صنعانی بیان کیا، ان سے زید بن اسلم نے، ان سے عطاء بن یسار نے اور ان سے ابو سعید خدری (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تم اپنے سے پہلی امتوں کی ایک ایک بالشت اور ایک ایک گز میں اتباع کرو گے، یہاں تک کہ اگر وہ کسی گوہ کے سوراخ میں داخل ہوئے ہوں گے تو تم اس میں بھی ان کی اتباع کرو گے۔ ہم نے پوچھا : یا رسول اللہ ! کیا یہود و نصاریٰ مراد ہیں ؟ فرمایا پھر اور کون۔
اس شخص کے گناہ کا بیان جس نے گمراہی کی طرف بلایا یا کوئی برا طریقہ ایجاد کیا، اس لئے کہ اللہ کا قول ہے کہ اور ان کے گناہوں کا بوجھ اٹھائیں گے، جن کو گمراہ کرتے ہیں۔
ہم سے عبداللہ بن زبیر حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے، کہا ہم سے اعمش نے، ان سے عبداللہ بن مروہ نے، ان سے مسروق نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص بھی ظلم کے ساتھ قتل کیا جائے گا اس کے (گناہ کا) ایک حصہ آدم (علیہ السلام) کے پہلے بیٹے (قابیل) پر بھی پڑے گا۔ بعض اوقات سفیان نے اس طرح بیان کیا کہ اس کے خون کا کیونکہ اسی نے سب سے پہلے ناحق خون کی بری رسم قائم کی۔
نبی ﷺ کا اہل علم کو اتفاق پر رغبت دلانے کا بیان، اور اس امر کا بیان جس پر حرمین (مکہ اور مدینہ کے علماء) متفق ہوجائیں، اور جو آنحضرت ﷺ اور مہاجرین اور انصار (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کے متبرک مقامات ہیں اور آنحضرت ﷺ کے نماز پڑھنے کی جگہ اور منبر اور قبر کا بیان۔
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، انہوں نے محمد بن منکدر سے، انہوں نے جابر بن عبداللہ انصاری (رض) سے کہ ایک گنوار (قیس بن ابی حازم یا قیس بن حازم یا اور کوئی) نے نبی کریم ﷺ سے اسلام پر بیعت کی، پھر مدینہ میں اس کو تپ آنے لگی۔ وہ نبی کریم ﷺ کے پاس آیا۔ کہنے لگا : یا رسول اللہ ! میری بیعت توڑ دیجئے۔ نبی کریم ﷺ نے انکار کیا۔ وہ پھر آیا اور کہنے لگا : یا رسول اللہ ! میری بیعت فسخ کر دیجئیے۔ نبی کریم ﷺ نے پھر انکار کیا۔ اس کے بعد وہ مدینہ سے نکل کر اپنے جنگل کو چلا گیا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ مدینہ لوہار کی بھٹی کی طرح ہے جو اپنی میل کچیل کو دور کردیتی ہے اور کھرے پاکیزہ مال کو رکھ لیتی ہے۔
نبی ﷺ کا اہل علم کو اتفاق پر رغبت دلانے کا بیان، اور اس امر کا بیان جس پر حرمین (مکہ اور مدینہ کے علماء) متفق ہوجائیں، اور جو آنحضرت ﷺ اور مہاجرین اور انصار (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کے متبرک مقامات ہیں اور آنحضرت ﷺ کے نماز پڑھنے کی جگہ اور منبر اور قبر کا بیان۔
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا، کہا ہم سے معمر بن راشد نے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ نے، ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ میں عبدالرحمٰن بن عوف (رض) کو (قرآن مجید) پڑھایا کرتا تھا۔ جب وہ آخری حج آیا جو عمر (رض) نے کیا تھا تو عبدالرحمٰن نے منیٰ میں مجھ سے کہا کاش تم امیرالمؤمنین کو آج دیکھتے جب ان کے پاس ایک شخص آیا اور کہا کہ فلاں شخص کہتا ہے کہ اگر امیرالمؤمنین کا انتقال ہوجائے تو ہم فلاں سے بیعت کرلیں گے۔ یہ سن کر عمر (رض) نے کہا کہ میں آج سہ پہر کو کھڑے ہو کر لوگوں کو خطبہ سناؤں گا اور ان کو ڈراؤں کا جو (عام مسلمانوں کے حق کو) غصب کرنا چاہتے ہیں اور خود اپنی رائے سے امیر منتخب کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ آپ ایسا نہ کریں کیونکہ موسم حج میں ہر طرح کے ناواقف اور معمولی لوگ جمع ہوجاتے ہیں۔ یہ سب کثرت سے آپ کی مجلس میں جمع ہوجائیں گے اور مجھے ڈر ہے کہ وہ آپ کی بات کا صحیح مطلب نہ سمجھ کر کچھ اور معنیٰ نہ کرلیں اور اسے منہ در منہ اڑاتے پھریں۔ اس لیے ابھی توقف کیجئے۔ جب آپ مدینے پہنچیں جو دار الہجرت اور دار السنہ ہے تو وہاں آپ کے مخاطب رسول اللہ ﷺ کے صحابہ، مہاجرین و انصار خالص ایسے ہی لوگ ملیں گے وہ آپ کی بات کو یاد رکھیں گے اور اس کا مطلب بھی ٹھیک بیان کریں گے۔ اس پر امیرالمؤمنین نے کہا کہ واللہ ! میں مدینہ پہنچ کر جو پہلا خطبہ دوں گا اس میں اس کا بیان کروں گا۔ ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ پھر ہم مدینے آئے تو عمر (رض) جمعہ کے دن دوپہر ڈھلے برآمد ہوئے اور خطبہ سنایا۔ انہوں نے کہا : اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کو سچا رسول بنا کر بھیجا اور آپ پر قرآن اتارا، اس قرآن میں رجم کی آیت بھی تھی۔
نبی ﷺ کا اہل علم کو اتفاق پر رغبت دلانے کا بیان، اور اس امر کا بیان جس پر حرمین (مکہ اور مدینہ کے علماء) متفق ہوجائیں، اور جو آنحضرت ﷺ اور مہاجرین اور انصار (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کے متبرک مقامات ہیں اور آنحضرت ﷺ کے نماز پڑھنے کی جگہ اور منبر اور قبر کا بیان۔
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے، ان سے ایوب سختیانی نے، ان سے محمد بن سیرین نے بیان کیا کہ ہم ابوہریرہ (رض) کے پاس تھے اور ان کے جسم پر کتان کے دو کپڑے گیرو میں رنگے ہوئے تھے۔ انہوں نے ان ہی کپڑوں میں ناک صاف کی اور کہا واہ واہ دیکھو ابوہریرہ کتان کے کپڑوں میں ناک صاف کرتا ہے، اب ایسا مالدار ہوگیا حالانکہ میں نے اپنے آپ کو ایک زمانہ میں ایسا پایا ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کے منبر اور عائشہ (رض) کے حجرہ کے درمیان بیہوش ہو کر گڑ پڑتا تھا اور گزرنے والا میری گردن پر یہ سمجھ کر پاؤں رکھتا تھا کہ میں پاگل ہوگیا ہوں، حالانکہ مجھے جنون نہیں ہوتا تھا، بلکہ صرف بھوک کی وجہ سے میری یہ حالت ہوجاتی تھی۔
نبی ﷺ کا اہل علم کو اتفاق پر رغبت دلانے کا بیان، اور اس امر کا بیان جس پر حرمین (مکہ اور مدینہ کے علماء) متفق ہوجائیں، اور جو آنحضرت ﷺ اور مہاجرین اور انصار (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کے متبرک مقامات ہیں اور آنحضرت ﷺ کے نماز پڑھنے کی جگہ اور منبر اور قبر کا بیان۔
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی، ان سے عبدالرحمٰن بن عابس نے بیان کیا، کہا کہ ابن عباس (رض) سے پوچھا گیا کہ کیا آپ نبی کریم ﷺ کے ساتھ عید میں گئے ہیں ؟ کہا کہ ہاں میں اس وقت کم سن تھا۔ اگر نبی کریم ﷺ سے مجھ کو اتنا نزدیک کا رشتہ نہ ہوتا اور کم سن نہ ہوتا تو آپ کے ساتھ کبھی نہیں رہ سکتا تھا۔ نبی کریم ﷺ گھر سے نکل کر اس نشان کے پاس آئے جو کثیر بن صلت کے مکان کے پاس ہے اور وہاں آپ نے نماز عید پڑھائی پھر خطبہ دیا۔ انہوں نے اذان اور اقامت کا ذکر نہیں کیا، پھر آپ نے صدقہ دینے کا حکم دیا تو عورتیں اپنے کانوں اور گردنوں کی طرف ہاتھ بڑھانے لگیں زیوروں کا صدقہ دینے کے لیے، اس کے بعد نبی کریم ﷺ نے بلال (رض) کو حکم فرمایا، وہ آئے اور صدقہ میں ملی ہوئی چیزوں کو لے کر نبی کریم ﷺ کے پاس واپس گئے۔
نبی ﷺ کا اہل علم کو اتفاق پر رغبت دلانے کا بیان، اور اس امر کا بیان جس پر حرمین (مکہ اور مدینہ کے علماء) متفق ہوجائیں، اور جو آنحضرت ﷺ اور مہاجرین اور انصار (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کے متبرک مقامات ہیں اور آنحضرت ﷺ کے نماز پڑھنے کی جگہ اور منبر اور قبر کا بیان۔
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن دینار نے اور ان سے ابن عمر (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ قباء میں تشریف لاتے تھے، کبھی پیدل اور کبھی سواری پر۔
نبی ﷺ کا اہل علم کو اتفاق پر رغبت دلانے کا بیان، اور اس امر کا بیان جس پر حرمین (مکہ اور مدینہ کے علماء) متفق ہوجائیں، اور جو آنحضرت ﷺ اور مہاجرین اور انصار (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کے متبرک مقامات ہیں اور آنحضرت ﷺ کے نماز پڑھنے کی جگہ اور منبر اور قبر کا بیان۔
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے کہ انہوں نے عبداللہ بن زبیر (رض) سے کہا تھا کہ مجھے انتقال کے بعد میری سوکنوں کے ساتھ دفن کرنا۔ نبی کریم ﷺ کے ساتھ حجرہ میں دفن مت کرنا کیونکہ میں پسند نہیں کرتی کہ میری آپ کی اور بیویوں سے زیادہ پاکی بیان کی جائے۔
نبی ﷺ کا اہل علم کو اتفاق پر رغبت دلانے کا بیان، اور اس امر کا بیان جس پر حرمین (مکہ اور مدینہ کے علماء) متفق ہوجائیں، اور جو آنحضرت ﷺ اور مہاجرین اور انصار (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کے متبرک مقامات ہیں اور آنحضرت ﷺ کے نماز پڑھنے کی جگہ اور منبر اور قبر کا بیان۔
اور ہشام سے روایت ہے، ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ عمر (رض) نے عائشہ (رض) کے یہاں آدمی بھیجا کہ مجھے اجازت دیں کہ نبی کریم ﷺ کے ساتھ دفن کیا جاؤں۔ انہوں نے کہا کہ ہاں اللہ کی قسم ! میں ان کو اجازت دیتی ہوں۔ راوی نے بیان کیا کہ پہلے جب کوئی صحابی ان سے وہاں دفن ہونے کی اجازت مانگتے تو وہ کہلا دیتی تھیں کہ نہیں، اللہ کی قسم ! میں ان کے ساتھ کسی اور کو دفن نہیں ہونے دوں گی۔
نبی ﷺ کا اہل علم کو اتفاق پر رغبت دلانے کا بیان، اور اس امر کا بیان جس پر حرمین (مکہ اور مدینہ کے علماء) متفق ہوجائیں، اور جو آنحضرت ﷺ اور مہاجرین اور انصار (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کے متبرک مقامات ہیں اور آنحضرت ﷺ کے نماز پڑھنے کی جگہ اور منبر اور قبر کا بیان۔
ہم سے ایوب بن سلمان نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوبکر بن اویس نے بیان کیا، ان سے سلیمان بن بلال نے، ان سے صالح بن کیسان نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا کہ مجھے انس بن مالک (رض) نے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ عصر کی نماز پڑھ کر ان گاؤں میں جاتے جو مدینہ کی بلندی پر واقع ہیں وہاں پہنچ جاتے اور سورج بلند رہتا۔ عوالی مدینہ کا بھی یہی حکم ہے اور لیث نے بھی اس حدیث کو یونس سے روایت کیا، اس میں اتنا زیادہ ہے کہ یہ گاؤں مدینہ سے تین چار میل پر واقع ہیں۔
نبی ﷺ کا اہل علم کو اتفاق پر رغبت دلانے کا بیان، اور اس امر کا بیان جس پر حرمین (مکہ اور مدینہ کے علماء) متفق ہوجائیں، اور جو آنحضرت ﷺ اور مہاجرین اور انصار (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کے متبرک مقامات ہیں اور آنحضرت ﷺ کے نماز پڑھنے کی جگہ اور منبر اور قبر کا بیان۔
ہم سے عمرو بن زرارہ نے بیان کیا، کہا ہم سے قاسم بن مالک نے بیان کیا، ان سے جعید نے، انہوں نے سائب بن یزید سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کے زمانے میں صاع تمہارے وقت کی مد سے ایک مد اور ایک تہائی مد کا ہوتا تھا، پھر صاع کی مقدار بڑھ گئی یعنی عمر بن عبدالعزیز کے زمانہ میں وہ چار مد کا ہوگیا۔
نبی ﷺ کا اہل علم کو اتفاق پر رغبت دلانے کا بیان، اور اس امر کا بیان جس پر حرمین (مکہ اور مدینہ کے علماء) متفق ہوجائیں، اور جو آنحضرت ﷺ اور مہاجرین اور انصار (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کے متبرک مقامات ہیں اور آنحضرت ﷺ کے نماز پڑھنے کی جگہ اور منبر اور قبر کا بیان۔
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے، ان سے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے اور ان سے انس بن مالک (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے اللہ ! ان مدینہ والوں کے پیمانہ میں انہیں برکت دے اور ان کے صاع اور مد میں انہیں برکت دے۔ آپ ﷺ کی مراد اہل مدینہ (کے صاع و مد) سے تھی (مدنی صاع اور مد کو بھی تاریخی عظمت حاصل ہے) ۔
نبی ﷺ کا اہل علم کو اتفاق پر رغبت دلانے کا بیان، اور اس امر کا بیان جس پر حرمین (مکہ اور مدینہ کے علماء) متفق ہوجائیں، اور جو آنحضرت ﷺ اور مہاجرین اور انصار (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کے متبرک مقامات ہیں اور آنحضرت ﷺ کے نماز پڑھنے کی جگہ اور منبر اور قبر کا بیان۔
ہم سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوضمرہ نے بیان کیا، کہا ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ کے پاس یہودی ایک مرد اور ایک عورت کو لے کر آئے جنہوں نے زنا کیا تھا تو نبی کریم ﷺ نے ان کے لیے رجم کا حکم دیا اور انہیں مسجد کی ایک جگہ کے قریب رجم کیا گیا جہاں جنازے رکھے جاتے ہیں۔
نبی ﷺ کا اہل علم کو اتفاق پر رغبت دلانے کا بیان، اور اس امر کا بیان جس پر حرمین (مکہ اور مدینہ کے علماء) متفق ہوجائیں، اور جو آنحضرت ﷺ اور مہاجرین اور انصار (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کے متبرک مقامات ہیں اور آنحضرت ﷺ کے نماز پڑھنے کی جگہ اور منبر اور قبر کا بیان۔
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے مطلب کے مولیٰ عمرو نے اور ان سے انس بن مالک (رض) نے کہ احد پہاڑ رسول اللہ ﷺ کو (راستے میں) دکھائی دیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ وہ پہاڑ ہے جو ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہم اس سے محبت رکھتے ہیں۔ اے اللہ ! ابراہیم (علیہ السلام) نے مکہ کو حرمت والا قرار دیا تھا اور میں تیرے حکم سے اس کے دونوں پتھریلے کناروں کے درمیانی علاقہ کو حرمت والا قرار دیتا ہوں۔ اس روایت کی متابعت سہل (رض) نے نبی کریم ﷺ سے احد کے متعلق کی ہے۔
نبی ﷺ کا اہل علم کو اتفاق پر رغبت دلانے کا بیان، اور اس امر کا بیان جس پر حرمین (مکہ اور مدینہ کے علماء) متفق ہوجائیں، اور جو آنحضرت ﷺ اور مہاجرین اور انصار (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کے متبرک مقامات ہیں اور آنحضرت ﷺ کے نماز پڑھنے کی جگہ اور منبر اور قبر کا بیان۔
ہم سے ابن ابی مریم نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوغسان نے بیان کیا، کہا مجھ سے ابوحازم نے بیان کیا، ان سے سہل (رض) نے کہ مسجد نبوی کی قبلہ کی طرف دیوار اور منبر کے درمیان بکریوں کے گزرنے جتنا فاصلہ تھا۔
نبی ﷺ کا اہل علم کو اتفاق پر رغبت دلانے کا بیان، اور اس امر کا بیان جس پر حرمین (مکہ اور مدینہ کے علماء) متفق ہوجائیں، اور جو آنحضرت ﷺ اور مہاجرین اور انصار (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کے متبرک مقامات ہیں اور آنحضرت ﷺ کے نماز پڑھنے کی جگہ اور منبر اور قبر کا بیان۔
ہم سے عمر بن علی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالرحمٰن بن مہدی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے مالک نے بیان کیا، ان سے خبیب بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، ان سے حفص بن عاصم نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے حجرہ اور میرے منبر کے درمیان کی زمین جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اور میرا یہ منبر میرے حوض پر ہوگا۔
نبی ﷺ کا اہل علم کو اتفاق پر رغبت دلانے کا بیان، اور اس امر کا بیان جس پر حرمین (مکہ اور مدینہ کے علماء) متفق ہوجائیں، اور جو آنحضرت ﷺ اور مہاجرین اور انصار (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کے متبرک مقامات ہیں اور آنحضرت ﷺ کے نماز پڑھنے کی جگہ اور منبر اور قبر کا بیان۔
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے جویریہ نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے گھوڑوں کی دوڑ کرائی اور وہ گھوڑے چھوڑے گئے جو گھوڑ دوڑ کیلئے تیار کئے گئے تھے تو ان کے دوڑنے کا میدان مقام حفیاء سے ثنیۃ الوداع تک تھا اور جو تیار نہیں کئے گئے تھے ان کے دوڑنے کا میدان ثنیۃ الوداع سے مسجد بنی زریق تک تھا اور عبداللہ (رض) بھی ان لوگوں میں تھے جنہوں نے مقابلے میں حصہ لیا تھا۔
نبی ﷺ کا اہل علم کو اتفاق پر رغبت دلانے کا بیان، اور اس امر کا بیان جس پر حرمین (مکہ اور مدینہ کے علماء) متفق ہوجائیں، اور جو آنحضرت ﷺ اور مہاجرین اور انصار (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کے متبرک مقامات ہیں اور آنحضرت ﷺ کے نماز پڑھنے کی جگہ اور منبر اور قبر کا بیان۔
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، ان سے لیث نے، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر (رض) نے (دوسری سند) اور مجھ سے اسحاق نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عیسیٰ اور ابن ادریس نے خبر دی اور ابن ابی غنیہ نے خبر دی، انہیں ابوحیان نے، انہیں شعبی نے اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ میں نے عمر (رض) کو نبی کریم ﷺ کے منبر پر (خطبہ دیتے) سنا۔
نبی ﷺ کا اہل علم کو اتفاق پر رغبت دلانے کا بیان، اور اس امر کا بیان جس پر حرمین (مکہ اور مدینہ کے علماء) متفق ہوجائیں، اور جو آنحضرت ﷺ اور مہاجرین اور انصار (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کے متبرک مقامات ہیں اور آنحضرت ﷺ کے نماز پڑھنے کی جگہ اور منبر اور قبر کا بیان۔
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں سائب بن یزید نے خبر دی، انہوں نے عثمان بن عفان (رض) سے سنا جو نبی کریم ﷺ کے منبر سے ہمیں خطاب کر رہے تھے۔
نبی ﷺ کا اہل علم کو اتفاق پر رغبت دلانے کا بیان، اور اس امر کا بیان جس پر حرمین (مکہ اور مدینہ کے علماء) متفق ہوجائیں، اور جو آنحضرت ﷺ اور مہاجرین اور انصار (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کے متبرک مقامات ہیں اور آنحضرت ﷺ کے نماز پڑھنے کی جگہ اور منبر اور قبر کا بیان۔
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالاعلیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن حسان نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے کہ عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ میرے اور رسول اللہ ﷺ کے لیے یہ لگن رکھی جاتی تھی اور ہم دونوں اس سے ایک ساتھ نہاتے تھے۔
نبی ﷺ کا اہل علم کو اتفاق پر رغبت دلانے کا بیان، اور اس امر کا بیان جس پر حرمین (مکہ اور مدینہ کے علماء) متفق ہوجائیں، اور جو آنحضرت ﷺ اور مہاجرین اور انصار (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کے متبرک مقامات ہیں اور آنحضرت ﷺ کے نماز پڑھنے کی جگہ اور منبر اور قبر کا بیان۔
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے عباد بن عباد نے بیان کیا، کہا ہم سے عاصم الاحوال نے بیان کیا اور ان سے انس (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے انصار اور قریش کے درمیان میرے اس گھر میں بھائی چارہ کرایا جو مدینہ منورہ میں ہے۔ اور آپ نے قبائل بنی سلیم کے لیے ایک مہینہ تک دعائے قنوت پڑھی جس میں ان کے لیے بددعا کی۔
نبی ﷺ کا اہل علم کو اتفاق پر رغبت دلانے کا بیان، اور اس امر کا بیان جس پر حرمین (مکہ اور مدینہ کے علماء) متفق ہوجائیں، اور جو آنحضرت ﷺ اور مہاجرین اور انصار (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کے متبرک مقامات ہیں اور آنحضرت ﷺ کے نماز پڑھنے کی جگہ اور منبر اور قبر کا بیان۔
ہم سے ابوکریب نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، کہا ہم سے برید نے بیان کیا، کہا کہ میں مدینہ منورہ آیا اور عبداللہ بن سلام (رض) سے میری ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ میرے ساتھ گھر چلو تو میں تمہیں اس پیالہ میں پلاؤں گا جس میں رسول اللہ ﷺ نے پیا تھا اور پھر ہم اس نماز پڑھنے کی جگہ نماز پڑھیں گے جہاں نبی کریم ﷺ نے نماز پڑھی تھی۔ چناچہ میں ان کے ساتھ گیا اور انہوں نے مجھے ستو پلایا اور کھجور کھلائی اور میں نے ان کے نماز پڑھنے کی جگہ نماز پڑھی۔
نبی ﷺ کا اہل علم کو اتفاق پر رغبت دلانے کا بیان، اور اس امر کا بیان جس پر حرمین (مکہ اور مدینہ کے علماء) متفق ہوجائیں، اور جو آنحضرت ﷺ اور مہاجرین اور انصار (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کے متبرک مقامات ہیں اور آنحضرت ﷺ کے نماز پڑھنے کی جگہ اور منبر اور قبر کا بیان۔
ہم سے سعید بن ربیع نے بیان کیا، کہا ہم سے علی بن مبارک نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن کثیر نے، ان سے عکرمہ نے بیان کیا، ان سے ابن عباس (رض) نے اور ان سے عمر (رض) نے بیان کیا کہ مجھ سے نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میرے پاس رات ایک میرے رب کی طرف سے آنے والا آیا۔ نبی کریم ﷺ اس وقت وادی عقیق میں تھے اور کہا کہ اس مبارک وادی میں نماز پڑھئیے اور کہئیے کہ عمرہ اور حج (کی نیت کرتا ہوں) اور ہارون بن اسماعیل نے بیان کیا کہ ہم سے علی نے بیان کیا (ان الفاظ کے ساتھ) عمرة في حجة.۔
نبی ﷺ کا اہل علم کو اتفاق پر رغبت دلانے کا بیان، اور اس امر کا بیان جس پر حرمین (مکہ اور مدینہ کے علماء) متفق ہوجائیں، اور جو آنحضرت ﷺ اور مہاجرین اور انصار (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کے متبرک مقامات ہیں اور آنحضرت ﷺ کے نماز پڑھنے کی جگہ اور منبر اور قبر کا بیان۔
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن دینار نے اور ان سے ابن عمر (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے اہل نجد کے لیے مقام قرن، حجفہ کو اہل شام کے لیے اور ذوالحلیفہ کو اہل مدینہ کے لیے میقات مقرر کیا۔ بیان کیا کہ میں نے یہ نبی کریم ﷺ سے سنا اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اہل یمن کے لیے یلملم (میقات) ہے اور عراق کا ذکر ہوا تو انہوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ کے زمانے میں عراق نہیں تھا۔
نبی ﷺ کا اہل علم کو اتفاق پر رغبت دلانے کا بیان، اور اس امر کا بیان جس پر حرمین (مکہ اور مدینہ کے علماء) متفق ہوجائیں، اور جو آنحضرت ﷺ اور مہاجرین اور انصار (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کے متبرک مقامات ہیں اور آنحضرت ﷺ کے نماز پڑھنے کی جگہ اور منبر اور قبر کا بیان۔
ہم سے عبدالرحمٰن بن مبارک نے بیان کیا، کہا ہم سے فضیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، ان سے سالم بن عبداللہ نے، ان سے ان کے والد عبداللہ بن عمر (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ کو جب کہ آپ مقام ذوالحلیفہ میں پڑاؤ کئے ہوئے تھے، خواب دکھایا گیا اور کہا گیا کہ آپ ایک مبارک وادی میں ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا قول کہ آپ کو اس امر میں کوئی دخل نہیں
ہم سے احمد بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا ہم کو معمر نے، انہیں زہری نے، انہیں سالم نے اور انہیں عبداللہ بن عمر (رض) نے انہوں نے نبی کریم ﷺ سے سنا، آپ ﷺ فجر کی نماز میں یہ دعا رکوع سے سر اٹھانے کے بعد پڑھتے تھے اللهم ربنا ولک الحمد اے اللہ ! ہمارے رب تیرے ہی لیے تمام تعریفیں ہیں۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا اے اللہ ! فلاں اور فلاں کو اپنی رحمت سے دور کر دے۔ اس پر اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل کی کہ آپ کو اس معاملہ میں کوئی اختیار نہیں ہے اللہ ! ان کی توبہ قبول کرلے یا انہیں عذاب دے کہ بلاشبہ وہ حد سے تجاوز کرنے والے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا قول کہ انسان سب سے زیادہ جھگڑالو ہے۔ اللہ تعالیٰ کا قول کہ اہل کتاب سے اس طرح جھگڑو جو بہتر ہے
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی (دوسری سند) امام بخاری (رح) نے کہا کہ اور مجھ سے محمد بن سلام بیکندی نے بیان کیا، کہا ہم کو عتاب بن بشیر نے خبر دی، انہیں اسحاق ابن ابی راشد نے، انہیں زہری نے، انہیں زین العابدین علی بن حسین (رض) نے خبر دی اور انہیں ان کے والد حسین بن علی (رض) نے خبر دی کہ علی بن ابی طالب (رض) نے بیان کیا کہ ان کے اور فاطمہ بنت رسول اللہ علیم السلام والصلٰوۃ کے گھر ایک رات نبی کریم ﷺ تشریف لائے اور فرمایا کہ تم لوگ تہجد کی نماز نہیں پڑھتے۔ علی (رض) نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! ہماری جانیں اللہ کے ہاتھ میں ہیں پس جب وہ ہمیں اٹھانا چاہے تو ہم کو اٹھا دے گا۔ جوں ہی میں نے نبی کریم ﷺ سے یہ کہا تو آپ پیٹھ موڑ کر واپس جانے لگے اور کوئی جواب نہیں دیا لیکن واپس جاتے ہوئے آپ اپنی ران پر ہاتھ مار رہے تھے اور کہہ رہے تھے وكان الإنسان أكثر شىء جدلا اور انسان بڑا ہی جھگڑالو ہے اگر کوئی تمہارے پاس رات میں آئے تو طارق کہلائے گا اور قرآن میں جو والطارق کا لفظ آیا ہے اس سے مراد ستارہ ہے اور ثاقب بمعنی چمکتا ہوا۔ عرب لوگ آگ جلانے والے سے کہتے ہیں ثقب نارک یعنی آگ روشن کر۔ اس سے لفظ ثاقب ہے۔
اللہ تعالیٰ کا قول کہ انسان سب سے زیادہ جھگڑالو ہے۔ اللہ تعالیٰ کا قول کہ اہل کتاب سے اس طرح جھگڑو جو بہتر ہے
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، ان سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے سعید مقبری نے، ان سے ان کے والد ابوسعید کیسان نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ ہم مسجد نبوی میں تھے کہ رسول اللہ ﷺ باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ یہودیوں کے پاس چلو۔ چناچہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ روانہ ہوئے۔ جب ہم ان کے مدرسہ تک پہنچے تو نبی کریم ﷺ نے کھڑے ہو کر انہیں آواز دی اور فرمایا، اے یہودیو ! اسلام لاؤ تو تم سلامت رہو گے۔ اس پر یہودیوں نے کہا کہ ابوالقاسم ! آپ نے اللہ کا حکم پہنچا دیا۔ راوی نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے دوبارہ ان سے فرمایا کہ یہی میرا مقصد ہے، اسلام لاؤ تو تم سلامت رہو گے۔ انہوں نے کہا ابوالقاسم ! آپ نے اللہ کا پیغام پہنچا دیا۔ پھر آپ ﷺ نے یہی بات تیسری بار کہی اور فرمایا، جان لو کہ ساری زمین اللہ اور اس کے رسول کی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ تمہیں اس جگہ سے باہر کر دوں۔ پس تم میں سے جو کوئی اپنی جائیداد کے بدلے میں کوئی قیمت پاتا ہو تو اسے بیچ لے ورنہ جان لو کہ زمین اللہ اور اس کے رسول کی ہے (تم کو یہ شہر چھوڑنا ہوگا) ۔
اللہ تعالیٰ کا قول کہ ہم نے اسی طرح تم کو بیچ کی امت بنایا۔ اور اس کا بیان کہ آنحضرت ﷺ نے جماعت کو لازم پکڑنے کا حکم فرمایا ہے اور جماعت سے مراد علم والے ہیں
ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوصالح (ذکوان) نے بیان کیا، ان سے ابو سعید خدری (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن نوح (علیہ السلام) کو لایا جائے گا اور ان سے پوچھا جائے گا، کیا تم نے اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا ؟ وہ عرض کریں گے کہ ہاں، اے رب ! پھر ان کی امت سے پوچھا جائے گا کہ کیا انہوں نے تمہیں اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا ؟ وہ کہیں گے کہ ہمارے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا۔ اللہ تعالیٰ نوح (علیہ السلام) سے پوچھے گا، تمہارے گواہ کون ہیں ؟ نوح (علیہ السلام) عرض کریں گے کہ محمد ﷺ اور ان کی امت پھر تمہیں لایا جائے گا اور تم لوگ ان کے حق میں شہادت دو گے، پھر رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت پڑھی وكذلک جعلناکم أمة وسطا اور اسی طرح ہم نے تمہیں درمیانی امت بنایا۔ کہا کہ وسط بمعنی عدل (میانہ رو) ہے، تاکہ تم لوگوں کے لیے گواہ بنو اور رسول تم پر گواہ بنے۔ اسحاق بن منصور سے جعفر بن عون نے روایت کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے ابوصالح نے، ان سے ابو سعید خدری (رض) نے اور ان سے نبی کریم ﷺ نے یہی حدیث بیان فرمائی۔
اگر کوئی عامل یا حاکم اجتہاد کرے اور علم نہ ہونے کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ کے حکم کے خلاف ہو تو اس کا حکم مردود ہے۔
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، ان سے ان کے بھائی ابوبکر نے بیان کیا، ان سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا، ان سے عبدالمجید بن سہیل بن عبدالرحمٰن بن عوف نے بیان کیا، انہوں نے سعید بن مسیب سے سنا، وہ ابو سعید خدری اور ابوہریرہ (رض) سے بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے بنی عدی الانصاری کے ایک صاحب سودا بن عزیہ کو خیبر کا عامل بنا کر بھیجا تو وہ عمدہ قسم کی کھجور وصول کر کے لائے۔ نبی کریم ﷺ نے پوچھا کیا خیبر کی تمام کھجوریں ایسی ہی ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ نہیں یا رسول اللہ ! اللہ کی قسم ! ہم ایسی ایک صاع کھجور دو صاع (خراب) کھجور کے بدلے خرید لیتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ایسا نہ کیا کرو بلکہ (جنس کو جنس کے بدلے) برابر برابر میں خریدو، یا یوں کرو کہ ردی کھجور نقدی بیچ ڈالو پھر یہ کھجور اس کے بدلے خرید لو، اسی طرح ہر چیز کو جو تول کر بکتی ہے اس کا حکم ان ہی چیزوں کا ہے جو ناپ کر بکتی ہیں۔
حاکم کے اجر کا بیان جبکہ وہ اجتہاد کرے اور اجتہاد میں غلطی یاصحت ہو
ہم سے عبداللہ بن یزید مقری مکی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حیوہ بن شریح نے بیان کیا، انہوں نے مجھ سے یزید بن عبداللہ بن الہاد نے بیان کیا، ان سے محمد بن ابراہیم بن الحارث نے، ان سے بسر بن سعید نے، ان سے عمرو بن العاص کے مولیٰ ابو قیس نے، ان سے عمرو بن العاص (رض) نے انہوں نے رسول اللہ ﷺ نے سنا، آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب حاکم کوئی فیصلہ اپنے اجتہاد سے کرے اور فیصلہ صحیح ہو تو اسے دہرا ثواب ملتا ہے اور جب کسی فیصلہ میں اجتہاد کرے اور غلطی کر جائے تو اسے اکہرا ثواب ملتا ہے (اجتہاد کا) بیان کیا کہ پھر میں نے یہ حدیث ابوبکر بن عمرو بن حزم سے بیان کی تو انہوں نے بیان کیا کہ مجھ سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے اسی طرح بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا۔ اور عبدالعزیز بن المطلب نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن ابی بکر نے بیان کیا، ان سے ابوسلمہ (رض) نے بیان کیا اور ان سے نبی کریم ﷺ نے اسی طرح بیان فرمایا۔
اس شخص کے خلاف دلیل جو اس کا قائل ہے کہ نبی ﷺ کے تمام احکام ظاہر تھے (تمام صحابہ کو معلوم تھے) اور اس کا بیان کہ بعض صحابی آنحضرت ﷺ کے پاس سے غائب اور اسلام کے امور سے غائب اور بے خبر رہتے تھے
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے، ان سے عطاء بن ابی رباح نے، ان سے عبید بن عمیر نے بیان کیا کہ ابوموسیٰ اشعری (رض) نے عمر (رض) سے (ملنے کی) اجازت چاہی اور یہ دیکھ کر کہ عمر (رض) مشغول ہیں آپ جلدی سے واپس چلے گئے۔ پھر عمر (رض) نے کہا کہ کیا میں نے ابھی عبداللہ بن قیس (ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ) کی آواز نہیں سنی تھی ؟ انہیں بلا لو۔ چناچہ انہیں بلایا گیا تو عمر (رض) نے پوچھا کہ ایسا کیوں کیا ؟ (جلدی واپس ہوگئے) انہوں نے کہا کہ ہمیں حدیث میں اس کا حکم دیا گیا ہے۔ عمر (رض) نے کہا کہ اس حدیث پر کوئی گواہ لاؤ، ورنہ میں تمہارے ساتھ یہ (سختی) کروں گا۔ چناچہ ابوموسیٰ (رض) انصار کی ایک مجلس میں گئے انہوں نے کہا کہ اس کی گواہی ہم میں سب سے چھوٹا دے سکتا ہے۔ چناچہ ابوسعید خدری (رض) کھڑے ہوئے اور کہا کہ ہمیں دربار نبوی سے اس کا حکم دیا جاتا تھا۔ اس پر عمر (رض) نے کہا کہ نبی کریم ﷺ کا یہ حکم مجھے معلوم نہیں تھا، مجھے بازار کے کاموں خریدو فروخت نے اس حدیث سے غافل رکھا۔
اس شخص کے خلاف دلیل جو اس کا قائل ہے کہ نبی ﷺ کے تمام احکام ظاہر تھے (تمام صحابہ کو معلوم تھے) اور اس کا بیان کہ بعض صحابی آنحضرت ﷺ کے پاس سے غائب اور اسلام کے امور سے غائب اور بے خبر رہتے تھے
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے کہا، مجھ سے زہری نے، انہوں نے اعرج سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ مجھے ابوہریرہ (رض) نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ تم سمجھتے ہو کہ ابوہریرہ رسول اللہ ﷺ کی بات زیادہ حدیث بیان کرتے ہیں، اللہ کے حضور میں سب کو جانا ہے۔ بات یہ تھی کہ میں ایک مسکین شخص تھا اور پیٹ بھرنے کے بعد ہر وقت نبی کریم ﷺ کے ساتھ رہتا تھا لیکن مہاجرین کو بازار کے کاروبار مشغول رکھتے تھے اور انصار کو اپنے مالوں کی دیکھ بھال مصروف رکھتی تھی۔ میں ایک دن نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر تھا اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ کون اپنی چادر پھیلائے گا، یہاں تک کہ میں اپنی بات پوری کرلوں اور پھر وہ اپنی چادر سمیٹ لے اور اس کے بعد کبھی مجھ سے سنی ہوئی کوئی بات نہ بھولے۔ چناچہ میں نے اپنی چادر جو میرے جسم پر تھی، پھیلا دی اور اس ذات کی قسم جس نے نبی کریم ﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا تھا پھر کبھی میں آپ کی کوئی حدیث جو آپ سے سنی تھی، نہیں بھولا۔
اس شخص کا بیان جس نے خیال کیا کہ نبی ﷺ کا انکار نہ کرنا حجت ہے۔ اور آپ کے علاوہ کسی کا عدم انکار حجت نہیں ہے
ہم سے حماد بن حمید نے بیان کیا، کہا ہم سے عبیداللہ بن معاذ نے، کہا ہم سے ہمارے والد معاذ بن حسان نے بیان کیا، ان سے شعبہ بن حجاج نے بیان کیا، ان سے سعد بن ابراہیم نے، ان سے محمد بن المنکدر نے بیان کیا، ان سے سعد بن ابراہیم نے، ان سے محمد بن المنکدر نے بیان کیا کہ میں نے جابر بن عبداللہ (رض) کو دیکھا کہ وہ ابن صیاد کے واقعہ پر اللہ کی قسم کھاتے تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ اللہ کی قسم کھاتے ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ میں نے عمر (رض) کو نبی کریم ﷺ کے سامنے اللہ کی قسم کھاتے دیکھا اور نبی کریم ﷺ نے اس پر کوئی انکار نہیں فرمایا۔
ان احکام کا بیان جو دلائل کے ذریعے پہچانے جاتے ہیں۔ اور دلالت کے معنی اور اس کی تفسیر کیوں کر ہے اور نبی ﷺ نے گھوڑے وغیرہ کے احکام بیان فرمائے پھر آپ سے گدھوں کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے آیت"فمن یعمل مثقال ذرۃ خیرایرہ"(جس نے ذرہ برابر نیکی کی تو وہ اس کو دیکھے گا) پڑھ کر بتائی۔ اور نبی ﷺ سے گوہ کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ نہ میں اس کو کھاتا ہوں اور نہ اس کو حرام کہتا ہوں اور نبی ﷺ کے دستر خوان پر گوہ کھائی گئی اس سے حضرت ابن عباس نے یہ استدلال کیا کہ گوہ حرام ہے
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے زید بن اسلم نے، ان سے ابی صالح السمان نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا گھوڑے تین طرح کے لوگوں کے لیے ہیں۔ ایک شخص کے لیے ان کا رکھنا کار ثواب ہے، دوسرے کے لیے برابر برابر نہ عذاب نہ ثواب اور تیسرے کے لیے وبال جان ہیں۔ جس کے لیے وہ اجر ہیں یہ وہ شخص ہے جس نے اسے اللہ کے راستے کے لیے باندھ کر رکھا اور اس کی رسی چراہ گاہ میں دراز کردی تو وہ گھوڑا جتنی دور تک چراہ گاہ میں گھوم کر چرے گا وہ مالک کی نیکیوں میں ترقی کا ذریعہ ہوگا اور اگر گھوڑے نے اس دراز رسی کو بھی تڑوا لیا اور ایک یا دو دوڑ اس نے لگائی تو اس کے نشانات قدم اور اس کی لید بھی مالک کے لیے باعث اجر و ثواب ہوگی اور اگر گھوڑا کسی نہر سے گزرا اور اس نے نہر کا پانی پی لیا، مالک نے اسے پلانے کا کوئی ارادہ نہیں کیا تھا تب بھی مالک کے لیے یہ اجر کا باعث ہوگا اور ایسا گھوڑا اپنے مالک کے لیے ثواب ہوتا ہے اور دوسرا شخص برابر برابر والا ہوتا ہے جو گھوڑے کو اظہار بےنیازی یا اپنے بچاؤ کی غرض سے باندھتا ہے اور اس کی پشت اور گردن پر اللہ کے حق کو بھی نہیں بھولتا تو یہ گھوڑا اس کے لیے نہ عذاب ہے نہ ثواب اور تیسرا وہ شخص ہے جو گھوڑے کو فخر اور ریا کے لیے باندھتا ہے تو یہ اس کے لیے وبال جان ہے اور رسول اللہ ﷺ سے گدھوں کے متعلق پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ میں مجھ پر اس جامع اور نادر آیت کے سوا اور کچھ نہیں نازل فرمایا ہے فمن يعمل مثقال ذرة خيرا يره * ومن يعمل مثقال ذرة شرا يره پس جو کوئی ایک ذرہ برابر بھی بھلائی کرے گا وہ اسے دیکھے گا اور جو کوئی ایک ذرہ برابر بھی برائی کرے گا وہ اسے دیکھے گا۔
ان احکام کا بیان جو دلائل کے ذریعے پہچانے جاتے ہیں۔ اور دلالت کے معنی اور اس کی تفسیر کیوں کر ہے اور نبی ﷺ نے گھوڑے وغیرہ کے احکام بیان فرمائے پھر آپ سے گدھوں کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے آیت"فمن یعمل مثقال ذرۃ خیرایرہ"(جس نے ذرہ برابر نیکی کی تو وہ اس کو دیکھے گا) پڑھ کر بتائی۔ اور نبی ﷺ سے گوہ کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ نہ میں اس کو کھاتا ہوں اور نہ اس کو حرام کہتا ہوں اور نبی ﷺ کے دستر خوان پر گوہ کھائی گئی اس سے حضرت ابن عباس نے یہ استدلال کیا کہ گوہ حرام ہے
ہم سے یحییٰ بن جعفر بیکندی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے منصور بن صفیہ نے، ان سے کی والدہ نے اور ان سے عائشہ (رض) نے کہ ایک خاتون نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا (دوسری سند) امام بخاری (رح) نے کہا اور ہم سے محمد نے بیان کیا یعنی ابن عقبہ نے، کہا ہم سے فضیل بن سلیمان النمیری نے بیان کیا، کہا ہم سے منصور بن عبدالرحمٰن بن شیبہ نے بیان کیا، ان سے ان کی والدہ نے اور ان سے عائشہ (رض) نے کہ ایک عورت نے رسول اللہ ﷺ سے حیض کے متعلق پوچھا کہ اس سے غسل کس طرح کیا جائے ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ مشک لگا ہوا ایک کپڑا لے کر اس سے پاکی حاصل کر۔ اس عورت نے پوچھا : یا رسول اللہ ! میں اس سے پاکی کس طرح حاصل کروں گی ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اس سے پاکی حاصل کرو۔ انہوں نے پھر پوچھا کہ کس طرح پاکی حاصل کروں ؟ نبی کریم ﷺ نے پھر وہی جواب دیا کہ پاکی حاصل کرو۔ عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ میں نبی کریم ﷺ کا منشا سمجھ گئی اور اس عورت کو میں نے اپنی طرف کھینچ لیا اور انہیں طریقہ بتایا کہ پاکی سے آپ کا مطلب یہ ہے کہ اس کپڑے کو خون کے مقاموں پر پھیر تاکہ خون کی بدبو رفع ہوجائے۔
ان احکام کا بیان جو دلائل کے ذریعے پہچانے جاتے ہیں۔ اور دلالت کے معنی اور اس کی تفسیر کیوں کر ہے اور نبی ﷺ نے گھوڑے وغیرہ کے احکام بیان فرمائے پھر آپ سے گدھوں کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے آیت"فمن یعمل مثقال ذرۃ خیرایرہ"(جس نے ذرہ برابر نیکی کی تو وہ اس کو دیکھے گا) پڑھ کر بتائی۔ اور نبی ﷺ سے گوہ کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ نہ میں اس کو کھاتا ہوں اور نہ اس کو حرام کہتا ہوں اور نبی ﷺ کے دستر خوان پر گوہ کھائی گئی اس سے حضرت ابن عباس نے یہ استدلال کیا کہ گوہ حرام ہے
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے ابوبشر نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے کہ ام حفید بنت حارث بن حزن (رض) نے رسول اللہ ﷺ کو گھی اور پنیر اور بھنا ہوا سانڈا ہدیہ میں بھیجا نبی کریم ﷺ نے یہ چیزیں قبول فرما لیں اور آپ کے دستر خوان پر انہیں کھایا گیا لیکن نبی کریم ﷺ نے اس (سانڈے کو) ہاتھ نہیں لگایا، جیسے آپ کو پسند نہ ہو اور اگر وہ حرام ہوتا تو آپ کے دستر خوان پر نہ کھایا جاتا اور نہ آپ کھانے کے لیے کہتے۔
ان احکام کا بیان جو دلائل کے ذریعے پہچانے جاتے ہیں۔ اور دلالت کے معنی اور اس کی تفسیر کیوں کر ہے اور نبی ﷺ نے گھوڑے وغیرہ کے احکام بیان فرمائے پھر آپ سے گدھوں کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے آیت"فمن یعمل مثقال ذرۃ خیرایرہ"(جس نے ذرہ برابر نیکی کی تو وہ اس کو دیکھے گا) پڑھ کر بتائی۔ اور نبی ﷺ سے گوہ کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ نہ میں اس کو کھاتا ہوں اور نہ اس کو حرام کہتا ہوں اور نبی ﷺ کے دستر خوان پر گوہ کھائی گئی اس سے حضرت ابن عباس نے یہ استدلال کیا کہ گوہ حرام ہے
ہم سے احمد بن صالح نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، کہا مجھے یونس نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے کہا کہ مجھ کو عطاء بن ابی رباح نے خبر دی، انہیں جابر بن عبداللہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص کچی لہسن یا پیاز کھائے وہ ہم سے دور رہے یا (یہ فرمایا کہ) ہماری مسجد سے دور رہے اور اپنے گھر میں بیٹھا رہے (یہاں تک کہ وہ بو رفع ہوجائے) اور آپ کے پاس ایک طباق لایا گیا جس میں سبزیاں تھیں۔ نبی کریم ﷺ نے اس میں بو محسوس کی، پھر آپ کو اس میں رکھی ہوئی سبزیوں کے متعلق بتایا گیا تو آپ نے اپنے بعض صحابی کی طرف جو آپ کے ساتھ تھے اشارہ کر کے فرمایا کہ ان کے پاس لے جاؤ لیکن جب ان صحابی نے اسے دیکھا تو انہوں نے بھی اسے کھانا پسند نہیں کیا۔ نبی کریم ﷺ نے اس پر ان سے فرمایا کہ تم کھالو کیونکہ میں جس سے سرگوشی کرتا ہوں تم اس سے نہیں کرتے۔ (آپ کی مراد فرشتوں سے تھی) سعید بن کثیر بن عفیر نے جو امام بخاری (رح) کے شیخ ہیں، عبداللہ بن وہب سے اس حدیث میں یوں روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ کے پاس ہانڈی لائی گئی جس میں ترکاریاں تھیں اور لیث و ابوصفوان عبداللہ بن سعید اموی نے بھی اس حدیث کو یونس سے روایت کیا لیکن انہوں نے ہانڈی کا قصہ نہیں بیان کیا، اب میں نہیں جانتا کہ ہانڈی کا قصہ حدیث میں داخل ہے یا زہری نے بڑھا دیا ہے۔
ان احکام کا بیان جو دلائل کے ذریعے پہچانے جاتے ہیں۔ اور دلالت کے معنی اور اس کی تفسیر کیوں کر ہے اور نبی ﷺ نے گھوڑے وغیرہ کے احکام بیان فرمائے پھر آپ سے گدھوں کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے آیت"فمن یعمل مثقال ذرۃ خیرایرہ"(جس نے ذرہ برابر نیکی کی تو وہ اس کو دیکھے گا) پڑھ کر بتائی۔ اور نبی ﷺ سے گوہ کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ نہ میں اس کو کھاتا ہوں اور نہ اس کو حرام کہتا ہوں اور نبی ﷺ کے دستر خوان پر گوہ کھائی گئی اس سے حضرت ابن عباس نے یہ استدلال کیا کہ گوہ حرام ہے
مجھ سے عبیداللہ بن سعد بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے والد اور چچا نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا اور ان سے ان کے والد نے، انہیں محمد بن جبیر نے خبر دی اور انہیں ان کے والد جبیر بن مطعم (رض) نے خبر دی کہ ایک خاتون رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں تو نبی کریم ﷺ نے انہیں ایک حکم دیا۔ انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! اگر میں آپ کو نہ پاؤں تو پھر کیا کروں گی ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب مجھے نہ پانا تو ابوبکر (رض) کے پاس جانا۔ حمیدی نے ابراہیم بن سعد سے یہ اضافہ کیا کہ غالباً خاتون کی مراد وفات تھی۔ امام بخاری (رح) نے کہا کہ حمیدی نے اس روایت میں ابراہیم بن سعد سے اتنا بڑھایا ہے کہ آپ کو نہ پاؤں، اس سے مراد یہ ہے کہ آپ کی وفات ہوجائے۔
None
وہ مدینے میں قریش کی ایک جماعت سے حدیث بیان کر رہے تھے۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے کعب احبار کا ذکر کیا اور فرمایا جتنے لوگ اہل کتاب سے احادیث نقل کرتے ہیں ان سب میں کعب احبار بہت سچے تھے اور باوجود اس کے کبھی کبھی ان کی بات جھوٹ نکلتی تھی، یہ مطلب نہیں ہے کہ کعب احبار جھوٹ بولتے تھے۔
نبی ﷺ کا فرمانا کہ اہل کتاب سے کسی چیز کے متعلق نہ پوچھو۔ اور ابوالیمان نے بواسطہ شعیب زہری، حمید بن عبدالرحمن نقل کیا ہے حمید نے معاویہ کو قریش کے کچھ لوگوں سے جو مدینہ میں تھے روایت کرتے ہوئے سنا اور کعب احبار کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ یہ ان محدثین میں سب سے زیادہ سچے تھے جو اہل کتاب سے روایت کرتے تھے لیکن اس کے باوجود ہم ان کی روایت میں غلط بات پاتے تھے (اس لئے نہیں کہ وہ قصدا جھوٹ بولتے تھے بلکہ کتاب کی تحریف کے سبب سے ان میں غلط روایتیں شامل کردی گئی تھیں۔)
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عثمان بن عمر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو علی بن المبارک نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ بن ابی کثیر نے، انہیں ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ اہل کتاب توریت عبرانی زبان میں پڑھتے تھے اور اس کی تفسیر مسلمانوں کے لیے عربی میں کرتے تھے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اہل کتاب کی نہ تصدیق کرو اور نہ ان کی تکذیب کرو کیونکہ ہم ایمان لائے اللہ پر اور اس پر جو ہم پر نازل ہوا اور جو ہم سے پہلے تم پر نازل ہوا آخر آیت تک جو سورة البقرہ میں ہے۔
نبی ﷺ کا فرمانا کہ اہل کتاب سے کسی چیز کے متعلق نہ پوچھو۔ اور ابوالیمان نے بواسطہ شعیب زہری، حمید بن عبدالرحمن نقل کیا ہے حمید نے معاویہ کو قریش کے کچھ لوگوں سے جو مدینہ میں تھے روایت کرتے ہوئے سنا اور کعب احبار کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ یہ ان محدثین میں سب سے زیادہ سچے تھے جو اہل کتاب سے روایت کرتے تھے لیکن اس کے باوجود ہم ان کی روایت میں غلط بات پاتے تھے (اس لئے نہیں کہ وہ قصدا جھوٹ بولتے تھے بلکہ کتاب کی تحریف کے سبب سے ان میں غلط روایتیں شامل کردی گئی تھیں۔)
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو ابن شہاب نے خبر دی، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے اور ان سے عبداللہ بن عباس (رض) نے بیان کیا کہ تم اہل کتاب سے کسی چیز کے بارے میں کیوں پوچھتے ہو جب کہ تمہاری کتاب جو رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوئی وہ تازہ بھی ہے اور محفوظ بھی اور تمہیں اس نے بتا بھی دیا کہ اہل کتاب نے اپنا دین بدل ڈالا اور اللہ کی کتاب میں تبدیلی کردی اور اسے اپنے ہاتھ سے از خود بنا کر لکھا اور کہا کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے تاکہ اس کے ذریعہ دنیا کا تھوڑا سا مال کما لیں۔ تمہارے پاس (قرآن و حدیث کا) جو علم ہے وہ تمہیں ان سے پوچھنے سے منع کرتا ہے۔ واللہ ! میں تو نہیں دیکھتا کہ اہل کتاب میں سے کوئی تم سے اس کے بارے میں پوچھتا ہو جو تم پر نازل کیا گیا ہو۔
جھگڑا کے مکروہ ہونے کا بیان
ہم سے اسحاق نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عبدالرحمٰن بن مہدی نے خبر دی، انہیں سلام بن ابی مطیع نے، انہیں ابوعمران الجونی نے، ان سے جندب بن عبداللہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تمہارے دل ملے رہیں قرآن پڑھو اور جب تم میں اختلاف ہوجائے تو اس سے دور ہوجاؤ۔
جھگڑا کے مکروہ ہونے کا بیان
ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عبدالصمد بن عبدالوارث نے خبر دی، کہا ہم سے ہمام بن یحییٰ بصریٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعمران جونی نے اور ان سے جندب بن عبداللہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تک تمہارے دلوں میں اتحاد و اتفاق ہو قرآن پڑھو اور جب اختلاف ہوجائے تو اس سے دور ہوجاؤ۔ اور یزید بن ہارون واسطی نے ہارون اعور سے بیان کیا، ان سے ابوعمران نے بیان کیا، ان سے جندب (رض) نے نبی کریم ﷺ سے بیان کیا۔
جھگڑا کے مکروہ ہونے کا بیان
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو ہشام نے خبر دی، انہیں معمر نے، انہیں زہری نے، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ جب نبی کریم ﷺ کی وفات کا وقت قریب آیا تو گھر میں بہت سے صحابہ موجود تھے، جن میں عمر بن خطاب (رض) بھی تھے اس وقت آپ ﷺ نے فرمایا کہ آؤ میں تمہارے لیے ایک ایسا مکتوب لکھ دوں کہ اس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہو۔ عمر (رض) نے کہا کہ اس وقت آپ ﷺ نے فرمایا کہ آؤ میں تمہارے لیے ایک ایسا مکتوب لکھ دوں کہ اس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہو۔ عمر (رض) نے کہا نبی کریم ﷺ تکلیف میں مبتلا ہیں، تمہارے پاس اللہ کی کتاب ہے اور یہی ہمارے لیے کافی ہے۔ گھر کے لوگوں میں بھی اختلاف ہوگیا اور آپس میں بحث کرنے لگے۔ ان میں سے بعض نے کہا کہ نبی کریم ﷺ کے قریب (لکھنے کا سامان) کر دو ۔ وہ تمہارے لیے ایسی چیز لکھ دیں گے کہ اس کے بعد تم گمراہ نہیں ہو گے اور بعض نے وہی بات کہی جو عمر (رض) کہہ چکے تھے۔ جب نبی کریم ﷺ کے پاس لوگ اختلاف و بحث زیادہ کرنے لگے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ میرے پاس سے ہٹ جاؤ۔ عبیداللہ (رض) نے بیان کیا کہ ابن عباس (رض) کہا کرتے تھے کہ سب سے بھاری مصیبت تو وہ تھے جو رسول اللہ ﷺ اور اس نوشت لکھوانے کے درمیان حائل ہوئے، یعنی جھگڑا اور شور۔
اس امر کا بیان کہ نبی ﷺ کا منع فرمانا تحریم کا سبب ہے بجز اس کے جس کا مباح ہونا معلوم ہو۔ اور یہی حال آپ کے امر کا بھی ہے جیسے لوگوں کو جبکہ وہ حج سے فارغ ہوگئے آپ کا یہ فرمانا کہ اپنی بیویوں کے پاس جاؤ، جابر نے کہا آپ نے صحبت کو ان لوگوں پر فرض نہیں کیا بلکہ ان لوگوں کے لئے حلال کردیا اور ام عطیہ نے کہا کہ ہم عورتوں کو جنازے کے پیچھے جانے سے منع کیا گیا لیکن حرام نہیں کیا گیا۔
ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے بیان کیا، ان سے عطاء نے بیان کیا، ان سے جابر (رض) نے (دوسری سند) امام ابوعبداللہ بخاری (رح) نے کہا کہ محمد بن بکر برقی نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عطاء نے خبر دی، انہوں نے جابر (رض) سے سنا، اس وقت اور لوگ بھی ان کے ساتھ تھے، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ خالص حج کا احرام باندھا اس کے ساتھ عمرہ کا نہیں باندھا۔ عطاء نے بیان کیا کہ جابر (رض) نے کہا کہ پھر نبی کریم ﷺ 4 ذی الحجہ کی صبح کو آئے اور جب ہم بھی حاضر ہوئے تو آپ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم حلال ہوجائیں اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ حلال ہوجاؤ اور اپنی بیویوں کے پاس جاؤ۔ عطاء نے بیان کیا اور ان سے جابر (رض) نے کہ ان پر یہ ضروری نہیں قرار دیا بلکہ صرف حلال کیا، پھر نبی کریم ﷺ کو معلوم ہوا کہ ہم میں یہ بات ہو رہی ہے کہ عرفہ پہنچنے میں صرف پانچ دن رہ گئے ہیں اور پھر بھی نبی کریم ﷺ نے ہمیں اپنی عورتوں کے پاس جانے کا حکم دیا ہے، کیا ہم عرفات اس حالت میں جائیں کہ مذی یا منی ہمارے ذکر سے ٹپک رہی ہو۔ عطاء نے کہا کہ جابر (رض) نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ اس طرح مذی ٹپک رہی ہو، اس کو ہلایا۔ پھر نبی کریم ﷺ کھڑے ہوئے اور فرمایا، تمہیں معلوم ہے کہ میں تم میں اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے والا ہوں، تم میں سب سے زیادہ سچا ہوں اور سب سے زیادہ نیک ہوں اور اگر میرے پاس ہدی (قربانی کا جانور) نہ ہوتا تو میں بھی حلال ہوجاتا، پس تم بھی حلال ہوجاؤ۔ اگر مجھے وہ بات پہلے سے معلوم ہوجاتی جو بعد میں معلوم ہوئی تو میں قربانی کا جانور ساتھ نہ لاتا۔ چناچہ ہم حلال ہوگئے اور ہم نے نبی کریم ﷺ کی بات سنی اور آپ کی اطاعت کی۔
اس امر کا بیان کہ نبی ﷺ کا منع فرمانا تحریم کا سبب ہے بجز اس کے جس کا مباح ہونا معلوم ہو۔ اور یہی حال آپ کے امر کا بھی ہے جیسے لوگوں کو جبکہ وہ حج سے فارغ ہوگئے آپ کا یہ فرمانا کہ اپنی بیویوں کے پاس جاؤ، جابر نے کہا آپ نے صحبت کو ان لوگوں پر فرض نہیں کیا بلکہ ان لوگوں کے لئے حلال کردیا اور ام عطیہ نے کہا کہ ہم عورتوں کو جنازے کے پیچھے جانے سے منع کیا گیا لیکن حرام نہیں کیا گیا۔
ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوارث بن سعید نے بیان کیا، ان سے حسین بن ذکوان معلم نے، ان سے عبیداللہ بن بریدہ نے، کہا مجھ سے عبداللہ بن مغفل مزنی نے بیان کیا اور ان سے نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ مغرب کی نماز سے پہلے بھی نماز پڑھو اور تیسری مرتبہ میں فرمایا کہ جس کا جی چاہے کیونکہ آپ ﷺ پسند نہیں کرتے تھے کہ اسے لوگ لازمی سنت بنالیں۔
اللہ تعالیٰ کا قول کہ ان کے معاملات آپس کے مشورے سے طے پاتے ہیں، اور ہر کام میں ان لوگوں سے مشورہ لو، اور اس امر کا بیان کہ مشورہ عزم سے پہلے ہے اور اصل حال ظاہر ہونے سے پہلے ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب آپ عزم کرلیں تو اللہ پر بھروسہ کریں، جب رسول اللہ ﷺ عزم کرلیں تو کسی بشر کو یہ حق نہیں کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے خلاف کرے اور نبی ﷺ نے جنگ کے دن اپنے صحابہ سے مدینہ میں ٹھہر کر جنگ کرنے اور نکل کر جنگ کرنے کے متعلق مشورہ کیا، لوگوں نے نکل کر ہی جنگ کرنے کو مناسب خیال کیا، جب آپ نے اپنی زرہ پہن لی اور ارادہ کرلیا تو لوگوں نے کہا کہ مدینہ میں ٹھہرنا ہی مناسب ہے، لیکن آپ نے عزم کرلینے کے بعد ان کی طرف توجہ نہ کی اور فرمایا کہ کسی نبی کے لئے مناسب نہیں کہ وہ زرہ پہن کر اتار دے جب تک کہ اللہ تعالیٰ حکم نہ دیں اور آپ نے علی اور اسامہ (رض) سے عائشہ (رض) پر تہمت لگائے اجنے کے سلسلہ میں مشورہ کیا اور ان کی باتیں آپ نے سنیں یہاں تک کہ قرآن نازل ہوا تو آپ نے تہمت لگانے والوں کو کوڑے لگوائے اور ان کے اختلاف کی طرف متوجہ نہ ہوئے، بلکہ وہی فیصلہ کیا جس کا اللہ نے آپ کو حکم دیا اور نبی ﷺ کے بعد ائمہ (خلفاء) ایماندار اہل علم سے مباح امور میں مشورہ لیتے تھے تاکہ ان میں جو آسان ہو اسے اختیار کریں اور اگر کتاب یا سنت اس کو واضح کردیتی تو نبی ﷺ کی اقتداء کرتے ہوئے دوسروں کی طرف متوجہ نہ ہوتے، اور حضرت ابوبکر (رض) نے ان لوگوں سے جہاد کا ارادہ کیا جنہوں نے زکوٰۃ روک دی تھی، تو عمر (رض) نے کہا کہ آپ کیونکر جہاد کریں گے جب کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جہاد کروں یہاں تک کہ وہ لا الہ الا اللہ کہہ دیں، جب وہ لوگ لا الہ الا اللہ کہہ دیں تو ان لوگوں نے ہم سے اپنا خون اور اپنا مال محفوظ کرلیا، سوائے حق اسلام کے، تو حضرت ابوبکر (رض) نے کہا خدا کی قسم میں اس سے جہاد کروں گا جس نے اس چیز کے درمیان تفریق کی جس کو رسول اللہ ﷺ نے جمع کیا ہے، پھر عمر (رض) بھی ان کے ہم خیال ہوگئے، ابوبکر مشورہ کی طرف متوجہ نہیں ہوئے اس لئے کہ ان کے پاس ان لوگوں کے متعلق جنہوں نے نماز اور زکوٰۃ میں فرق کیا اور دین اور اس کے احکام کو بدلنا چاہا رسول اللہ ﷺ کا حکم موجود تھا، آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جس نے اپنا دین بدل ڈالا تو اس کو قتل کردو اور قراء خواہ وہ بوڑھے تھے یا جوان، حضرت عمر (رض) کے مشیر تھے اور اللہ بزرگ و برتر کی کتاب (کے حکم) کے نزدیک وہ لوگ رک جانے والے تھے۔
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے، ان سے صالح بن کیسان نے، ان سے ابن شہاب نے، کہا کہ مجھ سے عروہ بن مسیب اور علقمہ بن وقاص اور عبیداللہ بن عبداللہ نے بیان کیا اور ان سے عائشہ (رض) نے کہ جب تہمت لگانے والوں نے ان پر تہمت لگائی تھی اور رسول اللہ ﷺ نے علی بن ابی طالب، اسامہ بن زید (رض) کو بلایا کیونکہ اس معاملہ میں وحی اس وقت تک نہیں آئی تھی اور نبی کریم ﷺ اپنی اہل خانہ کو جدا کرنے کے سلسلہ میں ان سے مشورہ لینا چاہتے تھے تو اسامہ (رض) نے وہی مشورہ دیا جو انہیں معلوم تھا یعنی نبی کریم ﷺ کی اہل خانہ کی برات کا لیکن علی (رض) نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر کوئی پابندی تو عائد نہیں کی ہے اور اس کے سوا اور بہت سی عورتیں ہیں، باندی سے آپ دریافت فرما لیں، وہ آپ سے صحیح بات بتادے گی۔ چناچہ نبی کریم ﷺ نے پوچھا کہ کیا تم نے کوئی ایسی بات دیکھی ہے جس سے شبہ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اس کے سوا اور کچھ نہیں دیکھا کہ وہ کم عمر لڑکی ہیں، آٹا گوندھ کر بھی سو جاتی ہیں اور پڑوس کی بکری آ کر اسے کھا جاتی ہے، اس کے بعد نبی کریم ﷺ منبر پر کھڑے ہوئے اور فرمایا، اے مسلمانو ! میرے معاملے میں اس سے کون نمٹے گا جس کی اذیتیں اب میرے اہل خانہ تک پہنچ گئی ہیں۔ اللہ کی قسم ! میں نے ان کے بارے میں بھلائی کے سوا اور کچھ نہیں جانا ہے۔ پھر آپ ﷺ نے عائشہ (رض) کی پاک دامنی کا قصہ بیان کیا اور ابواسامہ نے ہشام بن عروہ سے بیان کیا۔
اللہ تعالیٰ کا قول کہ ان کے معاملات آپس کے مشورے سے طے پاتے ہیں، اور ہر کام میں ان لوگوں سے مشورہ لو، اور اس امر کا بیان کہ مشورہ عزم سے پہلے ہے اور اصل حال ظاہر ہونے سے پہلے ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب آپ عزم کرلیں تو اللہ پر بھروسہ کریں، جب رسول اللہ ﷺ عزم کرلیں تو کسی بشر کو یہ حق نہیں کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے خلاف کرے اور نبی ﷺ نے جنگ کے دن اپنے صحابہ سے مدینہ میں ٹھہر کر جنگ کرنے اور نکل کر جنگ کرنے کے متعلق مشورہ کیا، لوگوں نے نکل کر ہی جنگ کرنے کو مناسب خیال کیا، جب آپ نے اپنی زرہ پہن لی اور ارادہ کرلیا تو لوگوں نے کہا کہ مدینہ میں ٹھہرنا ہی مناسب ہے، لیکن آپ نے عزم کرلینے کے بعد ان کی طرف توجہ نہ کی اور فرمایا کہ کسی نبی کے لئے مناسب نہیں کہ وہ زرہ پہن کر اتار دے جب تک کہ اللہ تعالیٰ حکم نہ دیں اور آپ نے علی اور اسامہ (رض) سے عائشہ (رض) پر تہمت لگائے اجنے کے سلسلہ میں مشورہ کیا اور ان کی باتیں آپ نے سنیں یہاں تک کہ قرآن نازل ہوا تو آپ نے تہمت لگانے والوں کو کوڑے لگوائے اور ان کے اختلاف کی طرف متوجہ نہ ہوئے، بلکہ وہی فیصلہ کیا جس کا اللہ نے آپ کو حکم دیا اور نبی ﷺ کے بعد ائمہ (خلفاء) ایماندار اہل علم سے مباح امور میں مشورہ لیتے تھے تاکہ ان میں جو آسان ہو اسے اختیار کریں اور اگر کتاب یا سنت اس کو واضح کردیتی تو نبی ﷺ کی اقتداء کرتے ہوئے دوسروں کی طرف متوجہ نہ ہوتے، اور حضرت ابوبکر (رض) نے ان لوگوں سے جہاد کا ارادہ کیا جنہوں نے زکوٰۃ روک دی تھی، تو عمر (رض) نے کہا کہ آپ کیونکر جہاد کریں گے جب کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جہاد کروں یہاں تک کہ وہ لا الہ الا اللہ کہہ دیں، جب وہ لوگ لا الہ الا اللہ کہہ دیں تو ان لوگوں نے ہم سے اپنا خون اور اپنا مال محفوظ کرلیا، سوائے حق اسلام کے، تو حضرت ابوبکر (رض) نے کہا خدا کی قسم میں اس سے جہاد کروں گا جس نے اس چیز کے درمیان تفریق کی جس کو رسول اللہ ﷺ نے جمع کیا ہے، پھر عمر (رض) بھی ان کے ہم خیال ہوگئے، ابوبکر مشورہ کی طرف متوجہ نہیں ہوئے اس لئے کہ ان کے پاس ان لوگوں کے متعلق جنہوں نے نماز اور زکوٰۃ میں فرق کیا اور دین اور اس کے احکام کو بدلنا چاہا رسول اللہ ﷺ کا حکم موجود تھا، آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جس نے اپنا دین بدل ڈالا تو اس کو قتل کردو اور قراء خواہ وہ بوڑھے تھے یا جوان، حضرت عمر (رض) کے مشیر تھے اور اللہ بزرگ و برتر کی کتاب (کے حکم) کے نزدیک وہ لوگ رک جانے والے تھے۔
ہم سے محمد بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن زکریا نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے عروہ اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو خطاب کیا اور اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا تم مجھے ان لوگوں کے بارے میں مشورہ دیتے ہو جو میرے اہل خانہ کو بدنام کرتے ہیں حالانکہ ان کے بارے میں مجھے کوئی بری بات کبھی نہیں معلوم ہوئی۔ عروہ سے روایت ہے، انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ عائشہ (رض) کو جب اس واقعہ کا علم ہوا (کہ کچھ لوگ انہیں بدنام کر رہے ہیں) تو انہوں نے نبی کریم ﷺ سے کہا : یا رسول اللہ ! کیا مجھے آپ اپنے والد کے گھر جانے کی اجازت دیں گے ؟ نبی کریم ﷺ نے انہیں اجازت دی اور ان کے ساتھ غلام کو بھیجا۔ انصار میں سے ایک صاحب ابوایوب (رض) نے کہا سبحانک ما يكون لنا أن نتکلم بهذا، سبحانک هذا بهتان عظيم. تیری ذات پاک ہے، اے اللہ ! ہمارے لیے مناسب نہیں کہ ہم اس طرح کی باتیں کریں تیری ذات پاک ہے، یہ تو بہت بڑا بہتان ہے۔