10. عیدین کا بیان
نماز عیدین کے بیان میں
محمد بن رافع، عبد بن حمید، عبدالرزاق، ابن جریج، حسن بن مسلم، طاؤس، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ ابوبکر و عثمان (رض) کے ساتھ عیدالفطر کی نماز میں حاضر ہوا سب نے خطبہ سے پہلے نماز پڑھائی پھر خطبہ دیا اللہ کے نبی ﷺ منبر سے اترے گویا کہ میں اب ان کی طرف دیکھ رہا ہوں آپ ﷺ اپنے ہاتھ سے اشارہ فرما کر لوگوں کو بٹھا رہے تھے پھر ان کے درمیان سے گزرتے ہوئے عورتوں کے پاس تشریف لائے اور آپ ﷺ کے ساتھ حضرت بلال تھے اور آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت کی (يٰ اَيُّهَا النَّبِيُّ اِذَا جَا ءَكَ الْمُؤْمِنٰتُ يُبَايِعْنَكَ عَلٰ ي اَنْ لَّا يُشْرِكْنَ بِاللّٰهِ شَ يْ ً ا) 60 ۔ الممتحنہ : 12) جب اس آیت کی تلاوت سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ تم سب اس کا اقرار کرتی ہو ؟ ان میں سے ایک عورت کے علاوہ کسی نے جواب نہ دیا، اس نے کہا جی ہاں اے اللہ کے نبی ﷺ ! اور راوی نہیں جانتا کہ وہ اس وقت کون عورت تھی فرماتے ہیں پھر انہوں نے صدقہ دینا شروع کیا بلال (رض) نے اپنا کپڑا بچھا یا اور کہا لے آؤ میرے ماں باپ تم پر فدا ہوں پس انہوں نے اپنے چھلے اور انگوٹھیاں بلال (رض) کے کپڑے میں ڈالنا شروع کردیں۔
نماز عیدین کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابن ابی عمر، سفیان بن عیینہ، ایوب، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ نے خطبہ سے پہلے نماز پڑھائی بعد میں خطبہ دیا اور خیال کیا کہ آپ ﷺ نے عورتوں کو نہیں سنایا پھر آپ ﷺ عورتوں کے پاس تشریف لائے اور ان کو وعظ و نصیحت کی اور ان کو صدقہ کرنے کا حکم دیا اور بلال (رض) اپنا کپڑا بچھانے والے تھے اور عورتوں میں سے کسی نے انگوٹھی، کسی نے چھلا اور کسی نے کوئی اور چیز ڈالنا شروع کیا۔
نماز عیدین کے بیان میں
ابوربیع زہرانی، حماد، ح، یعقوب دورقی، اسماعیل بن ابراہیم، حضرت ایوب سے اسی حدیث کی سند ذکر کردی گئی ہے۔
نماز عیدین کے بیان میں
اسحاق بن ابراہیم، محمد بن رافع، عبدالرزاق، ابن جریج، عطاء، حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ عیدالفطر کے دن کھڑے ہوئے اور نماز سے ابتداء کی خطبہ سے پہلے پھر لوگوں کو خطبہ دیا جب آپ ﷺ فارغ ہوئے تو منبر سے اتر آئے اور عورتوں کے پاس تشریف لائے اور آپ ﷺ نے حضرت بلال کے ہاتھ پر سہارا لگائے ہوئے ان کو نصیحت کی اور حضرت بلال اپنا کپڑا پھیلانے والے تھے عورتیں اس میں صدقہ ڈالتی تھیں راوی کہتے ہیں میں نے عطاء سے عرض کیا کہ عیدالفطر کے دن کا صدقہ ؟ فرمایا نہیں یہ اور صدقہ تھا جو وہ اس وقت دیتی تھیں ایک عورت پہلے ڈالتی تھی اور پھر مزید ڈالتی تھیں اور دوسرے راوی کہتے ہیں کہ میں نے عطا سے پوچھا کیا اب بھی امام کے لئے فارغ ہونے کے بعد عورتوں کو نصیحت کرنے کے لئے جانے کا حق ہے ؟ فرمایا مجھے اپنی جان کی قسم یہ ان پر حق ہے اور ان کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ ایسا نہیں کرتے۔
نماز عیدین کے بیان میں
محمد بن عبداللہ بن نمیر، عبدالملک بن ابوسلیمان، عطاء، حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ عید کے دن نماز کے لئے حاضر ہوا تو آپ ﷺ نے اذان اور اقامت کے بغیر نماز پڑھائی خطبے سے پہلے پھر بلال (رض) پر ٹیک لگائے کھڑے ہوگئے، اللہ پر تقوی کا حکم دیا اور اس کی اطاعت کی ترغیب دی اور لوگوں کو وعظ و نصیحت کی پھر عورتوں کے پاس جا کر ان کو وعظ و نصیحت کی اور فرمایا کہ صدقہ کرو کیونکہ تم میں سے اکثر جہنم کا ایندھن ہیں، عورتوں کے درمیان سے ایک سرخی مائل سیاہ رخساروں والی عورت نے کھڑے ہو کر عرض کیا کیوں یا رسول اللہ ﷺ ؟ فرمایا : کیونکہ تم شکوہ زیادہ کرتی ہو اور شوہر کی ناشکری، حضرت جابر فرماتے ہیں وہ اپنے زیوروں کو صدقہ کرنا شروع ہوگئیں حضرت بلال (رض) کے کپڑے میں اپنی بالیاں اور انگوٹھیاں ڈالنے لگیں۔
نماز عیدین کے بیان میں
محمد بن رافع، عبدالرزاق، ابن جریج، عطاء، ابن عباس، جابر بن عبداللہ انصاری سے روایت ہے کہ عید الفطر اور عید الاضحی کے دن اذان نہ تھی راوی کہتا ہے کہ میں نے تھوڑی دیر بعد اس بارے میں سوال کیا تو حضرت عطاء نے فرمایا کہ مجھے حضرت جابر بن عبداللہ انصاری (رض) نے خبر دی کہ عید الفطر کے دن نماز کے لئے اذان نہیں دی جاتی تھی امام کے نکلنے کے وقت اور نہ بعد میں، نہ اقامت اور نہ اذان، نہ اور کچھ، اس دن اذان اور نہ اقامت ہوتی ہے۔
نماز عیدین کے بیان میں
محمد بن رافع، عبدالرزاق، ابن جریج، عطاء سے روایت ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) نے حضرت ابن زبیر کو جب ان کے لئے بیعت لی گئی تو پیغام بھیجا کہ عید الفطر کی نماز کے لئے اذان نہیں دی جاتی پس آپ اس کے لئے اذان نہ دلوائیں پس ابن زبیر نے اس کے لئے اذان نہ دلوائی اور اسی طرح یہ پیغام بھی بھیجا کہ خطبہ نماز کے بعد ہوتا ہے کہ اسی وجہ سے وہ یہی کرتے تھے پس ابن زبیر نے بھی خطبہ سے پہلے ہی نماز عید پڑھائی۔
نماز عیدین کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، حسن بن ربیع، قتیبہ بن سعید، ابوبکر بن ابی شیبہ، یحیی، ابوالاحوص، سماک، حضرت جابر بن سمرہ (رض) سے روایت ہے کہ میں نے نماز عیدین رسول اللہ کے ساتھ ایک یا دو مرتبہ سے زیادہ بغیر اذان اور اقامت ادا کی۔
نماز عیدین کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، عبدہ بن سلیمان، ابواسامہ، عبیداللہ، نافع، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر (رض) و عمر (رض) عیدین کی نماز خطبہ سے پہلے ادا کرتے تھے۔
نماز عیدین کے بیان میں
یحییٰ بن ایوب، قتیبہ، ابن حجر، اسماعیل بن جعفر، داود بن قیس، عیاض بن عبداللہ بن سعد، حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ عید الفطر و عید الاضحی کے دن تشریف لاتے تو نماز سے ابتداء فرماتے جب نماز ادا کرلیتے تو کھڑے ہوتے اور لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے اور صحابہ اپنی صفوں میں بیٹھے ہوتے پس اگر آپ ﷺ کو کسی لشکر کے روانہ کی ضرورت ہوتی تو ان سے اس کا ذکر فرماتے اور اگر اس کے علاوہ کوئی اور ضرورت ہوتی تو ان سے اس کا ذکر فرماتے اور فرماتے صدقہ کرو، صدقہ کرو، صدقہ کرو اور عورتیں زیادہ صدقہ کرتیں پھر آپ ﷺ واپس آتے، اسی طرح ہوتا رہا یہاں تک کہ مروان بن حکم حکمران ہوا تو راوی کہتے ہیں کہ میں مروان کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے عید گاہ کی طرف آیا تو کثیر بن صلت نے مٹی اور اینٹوں سے منبر بنایا تو مروان نے مجھے سے ہاتھ چھڑوانا چاہا گویا کہ وہ مجھے منبر کی طرف کھینچ رہا تھا اور میں اس کو نماز کی طرف کھینچ رہا تھا جب میں نے اس کی یہ کیفیت دیکھی تو میں نے کہا نماز سے ابتداء کہاں گئی تو اس نے کہا اے ابوسعید جو تو جانتا ہے وہ بات اب چھوڑی جا چکی ہے، میں نے کہا ہرگز نہیں، اس ذات کی قسم جس کے قبصہ قدرت میں میری جان ہے تم میری معلومات سے زیادہ نہیں پیش کرسکتے میں نے تین بار یہی بات دہرائی پھر واپس آگیا۔
عیدین کے دن عورتوں کے عید گاہ کی طرف نکلنے کے ذکر اور مردوں سے علیحدہ خطبہ میں حاضر ہونے کی اباحت کے بیان میں
ابوربیع زہرانی، حماد، ایوب، محمد، ام عطیہ (رض) سے روایت ہے کہ ہمیں نبی کریم ﷺ نے حکم دیا کہ ہم کنواری، جوان اور پردے والیاں عیدین کی نماز کے لئے جائیں اور حائضہ عورتوں کو حکم دیا کہ وہ مسلمانوں کی عیدگاہ سے دور رہیں۔
عیدین کے دن عورتوں کے عید گاہ کی طرف نکلنے کے ذکر اور مردوں سے علیحدہ خطبہ میں حاضر ہونے کی اباحت کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، ابوخیثمہ، عاصم احول، حفصہ بنت سیرین سے روایت ہے کہ ہم کنواری اور جوان لڑکیوں کو عیدین کی نماز کے لئے جانے کا حکم دیا جاتا تھا اور حیض والی نکلتی تھیں لیکن لوگوں سے پیچھے رہتی تھیں اور لوگوں کے ساتھ تکبیر کہتی تھیں۔
عیدین کے دن عورتوں کے عید گاہ کی طرف نکلنے کے ذکر اور مردوں سے علیحدہ خطبہ میں حاضر ہونے کی اباحت کے بیان میں
عمرو ناقد، عیسیٰ بن یونس، ہشام، حفصہ بنت سیرین، حضرت ام عطیہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عیدا لفطر و عید الاضحی کے دن ہمیں اور پردہ نشین اور جوان عورتوں کو نکلنے کا حکم دیا، بہر حال حائضہ نماز سے علیحدہ رہ کر بھلائی اور مسلمانوں کی دعا میں حاضر ہوں، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! ہم میں سے جس کے پاس چادر نہ ہو تو ؟ آپ نے فرمایا چاہیے کہ اس کی بہن اپنی چادر اس کو پہنا دے۔
عید گاہ میں نماز عید سے پہلے اور بعد میں نماز نہ پڑھنے کے بیان میں
عبیداللہ بن معاذ عنبری، شعبہ، عدی، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ عید الاضحی اور عید الفطر کے دن تشریف لائے اور دو رکعتیں پڑھیں اور آپ ﷺ نے نہ ان سے پہلے نماز پڑھی اور نہ بعد میں پھر آپ ﷺ عورتوں کے پاس آئے اور آپ ﷺ کے ساتھ حضرت بلال تھے آپ ﷺ نے ان کو صدقہ کا حکم دیا تو عورتوں نے اپنی بالیاں اور ہار ڈالنے شروع کر دئیے۔
عید گاہ میں نماز عید سے پہلے اور بعد میں نماز نہ پڑھنے کے بیان میں
عمروناقد، ابن ادریس، ابوبکر بن نافع، محمد بن بشار، شعبہ اسی حدیث کی دوسری سند ذکر کردی ہے۔
عیدین کی نماز میں قرأت مسنونہ کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، مالک، ضمرہ، سعید مازنی، حضرت عبیداللہ (رض) بن عبداللہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے ابو واقد لیثی سے دریافت کیا کہ رسول اللہ ﷺ عیدالاضحی اور عیدالفطر میں کیا پڑھتے تھے تو انہوں نے عرض کیا کہ آپ ﷺ ان دونوں میں (ق وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ اور اقْتَرَبَتْ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ ) پڑھتے تھے۔
عیدین کی نماز میں قرأت مسنونہ کے بیان میں
اسحاق بن ابراہیم، ابوعامر عقدی، فلیح، ضمرہ سعید، عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ، حضرت ابو واقد لیثی سے روایت ہے کہ مجھ سے عمر بن خطاب (رض) نے پوچھا رسول اللہ ﷺ عید کے دن کیا پڑھا کرتے تھے میں نے کہا (ق وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ اور اِقْتَرَبَتْ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ ) پڑھتے تھے۔
ایام عید میں ایسا کھیل کھیلنے کی اجازت کے بیان میں کہ جس میں گناہ نہ ہو۔
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابواسامہ، ہشام، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) تشریف لائے اور میرے پاس دو انصاری لڑکیاں یوم بعاث کا واقعہ جو انصار نے نظم کیا تھا گا رہی تھیں اور وہ پیشہ ور گوین (گانے والیاں) نہ تھیں تو حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا کیا شیطان کی تان رسول اللہ ﷺ کے گھر میں ؟ اور یہ عید کا دن تھا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہر قوم کے لئے عید ہوتی ہے اور یہ ہماری خوشی کا دن ہے۔
ایام عید میں ایسا کھیل کھیلنے کی اجازت کے بیان میں کہ جس میں گناہ نہ ہو۔
یحییٰ بن یحیی، ابوکریب، ابومعاویہ، ہشام اسی حدیث کی دوسری سند نقل کی ہے اس میں یہ اضافہ ہے کہ وہ لڑکیاں دف بجا رہی تھیں۔
ایام عید میں ایسا کھیل کھیلنے کی اجازت کے بیان میں کہ جس میں گناہ نہ ہو۔
ہارون بن سعید ایلی، ابن وہب، عمرو، ابن شہاب، عروہ، عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) ان کے پاس تشریف لائے اور ان کے پاس ایام منیٰ میں دو لڑکیاں گا رہی تھیں اور دف بجاتی تھیں اور رسول اللہ ﷺ نے اپنے سر مبارک کو ڈھانپ رکھا تھا، ابوبکر (رض) نے ان دونوں کو جھڑکا تو رسول اللہ ﷺ نے اپنا کپڑا ہٹا کر فرمایا : اے ابوبکر ان کو چھوڑ دے یہ عید کے ایام ہیں اور فرماتی ہیں کہ مجھے یاد ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے چھپایا ہوا تھا اور میں حبشیوں کا کھیل دیکھ رہی تھی اور میں لڑکی تھی تم اندازہ لگاؤ جو کم سن لڑکی کھیل تماشے کی طلبگار ہو وہ کتنی دیر تک تماشا دیکھے گی۔
ایام عید میں ایسا کھیل کھیلنے کی اجازت کے بیان میں کہ جس میں گناہ نہ ہو۔
ابوطاہر، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، عروہ بن زبیر، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ میرے حجرے کے دروازہ پر کھڑے ہیں اور حبشی اپنے نیزوں کے ساتھ رسول اللہ کی مسجد میں کھیل رہے تھے اور آپ ﷺ نے مجھے اپنی چادر میں چھپالیا تاکہ میں ان کی کھیل کود دیکھوں، پھر آپ ﷺ میری وجہ سے کھڑے رہے یہاں تک کہ میں خود واپس چلی گئی تم اندازہ لگاؤ کہ کم سن کھیل کود پر حریص لڑکی کتنی دیر تک کھڑی رہ سکتی ہے ؟
ایام عید میں ایسا کھیل کھیلنے کی اجازت کے بیان میں کہ جس میں گناہ نہ ہو۔
ہارون بن سعید ایلی، یونس بن عبدالاعلی، ابن وہب، عمرو، محمد بن عبدالرحمن، عروہ، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور میرے پاس دو لڑکیاں میدان بعاث کے اشعار گا رہی تھیں، آپ ﷺ بستر پر لیٹ گئے اور اپنا چہرہ پھیرلیا، حضرت ابوبکر (رض) تشریف لائے تو انہوں نے ان کو جھڑک دیا اور فرمایا شیطان کا باجا رسول اللہ ﷺ کے پاس ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : چھوڑ دو ! جب ابوبکر غافل ہوئے تو میں نے ان کو آنکھ سے اشارہ کیا تو وہ چلی گئیں اور عید کا دن تھا اور حبشی ڈھالوں اور نیزوں سے کھیل رہے تھے پس میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا یا آپ ﷺ نے خود ہی فرمایا تم ان کو دیکھنا چاہتی ہو ؟ فرماتی ہیں جی ہاں، پس آپ ﷺ نے مجھے اپنے پیچھے کھڑا کیا اور میرا رخسار آپ ﷺ کے رخسار پر تھا اور آپ ﷺ فرما رہے تھے اے بنی ارفدہ ! کھیل میں مشغول رہو یہاں تک کہ میرا جی بھر گیا آپ ﷺ نے فرمایا کافی ہے تیرے لئے ؟ میں نے عرض کیا جی ہاں فرمایا چلی جاؤ۔
ایام عید میں ایسا کھیل کھیلنے کی اجازت کے بیان میں کہ جس میں گناہ نہ ہو۔
زہیر بن حرب، جریر، ہشام، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ حبشی عید کے دن مسجد میں آکر کھیلنے لگے تو نبی کریم ﷺ نے مجھے بلوایا میں نے اپنا سر آپ ﷺ کے شانہ مبارک پر رکھا اور میں نے ان کے کھیل کی طرف دیکھنا شروع کیا یہاں تک کہ خود ہی جب ان کو دیکھنے سے میرا جی بھر گیا تو واپس آگئی۔
ایام عید میں ایسا کھیل کھیلنے کی اجازت کے بیان میں کہ جس میں گناہ نہ ہو۔
یحییٰ بن یحیی، یحییٰ بن زکریا بن ابی زائدہ، ح، ابن نمیر، محمد بن بشر دوسری سند ذکر کی ہے لیکن اس میں مسجد کا ذکر نہیں۔
ایام عید میں ایسا کھیل کھیلنے کی اجازت کے بیان میں کہ جس میں گناہ نہ ہو۔
ابراہیم بن دینار، عقبہ بن مکرم، عبد بن حمید، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ میں نے کھیلنے والوں کا کھیل دیکھنے کا ارادہ کیا فرماتے ہیں کہ رسول اللہ کھڑے ہوگئے اور میں دروازے پر کھڑی ہو کر آپ ﷺ کے کندھوں اور کانوں کے درمیان سے ان کو مسجد میں کھیلتے ہوئے دیکھتی رہی، عطا کہتے ہیں کہ وہ فارسی یا حبشی تھے ابن عتیق نے مجھے بتایا کہ وہ حبشی تھے۔
ایام عید میں ایسا کھیل کھیلنے کی اجازت کے بیان میں کہ جس میں گناہ نہ ہو۔
محمد بن رافع، عبد بن حمید، عبدالرزاق، معمر، زہری، ابن مسیب، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ حبشی رسول اللہ ﷺ کے سامنے اپنے نیزوں سے کھیل رہے تھے کہ عمر بن خطاب (رض) حاضر ہوئے تو کنکریوں کی طرف جھکے تاکہ ان کے ساتھ ان کو ماریں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے عمر ! ان کو چھوڑ دے۔