12. سورج گرہن کا بیان
نماز گرہن کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، مالک بن انس، ہشام بن عروہ، عائشہ، ح، ابوبکر بن ابی شیبہ، عبداللہ بن نمیر، ہشام، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ کے زمانہ میں سورج گرہن ہوا تو رسول اللہ ﷺ نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہوگئے اور آپ ﷺ نے خوب لمبا قیام کیا پھر رکوع کیا تو خوب لمبا کیا پھر رکوع سے سر اٹھایا تو لمبا قیام کیا اور یہ پہلے قیام سے کم تھا پھر رکوع کیا تو خوب لمبا کیا لیکن پہلے رکوع سے کم، پھر آپ ﷺ نے سجدہ فرمایا اور کھڑے ہوگئے اور خوب لمبا قیام کیا اور وہ پہلے قیام سے کم تھا پھر رکوع لمبا کیا اور وہ پہلے رکوع سے کم تھا پھر آپ ﷺ نے سر اٹھایا اور قیام کو لمبا کیا اور وہ قیام پہلے سے کم تھا پھر لمبا رکوع کیا لیکن پہلے رکوع سے کم، پھر سجدہ کیا پھر نماز سے رسول اللہ ﷺ فارغ ہوئے تو آفتاب کھل چکا تھا آپ ﷺ نے لوگوں کو خطبہ دیا : سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں یہ کسی کے مرنے یا جینے کی وجہ سے بےنور نہیں ہوتے، جب تم گرہن دیکھو تو اللہ کی بڑائی بیان کرو اور اللہ سے دعا مانگو، نماز پڑھو اور صدقہ دو ، اے امت محمد ! اللہ سے بڑھ کر کوئی غیرت والا نہیں اس بات میں کہ اس کا بندہ یا بندی زنا کرے، اے امت محمد ! اللہ کی قسم اگر تم وہ جانتے جو میں جانتا ہوں تو تم زیادہ روتے اور کم ہنستے، خبردار رہو ! میں نے اللہ کے احکامات پہنچا دیئے ہیں۔ اور مالک کی روایت میں ہے کہ سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔
نماز گرہن کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، ابومعاویہ، حضرت ہشام بن عروہ (رض) نے اسی سند کے ساتھ حدیث نقل کی ہے اور اضافہ یہ ہے کہ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں پھر آپ ﷺ نے ہاتھ اٹھائے اور فرمایا اے اللہ کیا میں نے احکام پہنچا دیئے ہیں۔
نماز گرہن کے بیان میں
حرملہ بن یحیی، ابن وہب، یونس، ح، ابوطاہر، محمد بن سلمہ مرادی، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، عروہ بن زبیر، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں سورج گرہن ہوگیا تو رسول اللہ ﷺ مسجد کی طرف نکلے، آپ ﷺ کھڑے ہوئے، تکبیر کہی گئی اور لوگوں نے آپ ﷺ کے پیچھے صف بنالی، رسول اللہ ﷺ نے لمبی قرأت کی پھر تکبیر کہہ کر رکوع کیا تو طویل رکوع کیا پھر اپنے سر کو اٹھایا تو ( سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ ) فرمایا پھر کھڑے ہوئے اور لمبی قرأت کی اور یہ قرأت پہلی قرأت سے کم تھی پھر تکبیر کہہ کر رکوع کیا لمبا رکوع لیکن پہلے رکوع سے کم تھا پھر سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ کہا پھر سجدہ کیا لیکن ابوالطاہر نے ثم سجدہ ذکر نہیں کیا پھر دوسری رکعت میں اسی طرح کیا یہاں تک کہ چار رکوع اور چار سجدے پورے کئے۔ اور سورج روشن ہوگیا آپ ﷺ کے نماز سے فارغ ہونے سے پہلے، پھر آپ ﷺ نے کھڑے ہو کر لوگوں کو خطبہ دیا اور اللہ کی اس کی شان کے مطابق تعریف بیان کی پھر فرمایا کہ سورج اور چاند اللہ کی آیات میں سے دو آیات ہیں، کسی کی موت یا حیات کی وجہ سے بےنور نہیں ہوتے، جب تم ان کو اس طرح دیکھو تو نماز کی طرف جلدی کرو، آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ نماز ادا کرو یہاں تک کہ اللہ اس کو تم سے کھو لدے اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے اس جگہ ہر وہ چیز دیکھی ہے جس کا تم وعدے دیئے گئے ہو یہاں تک کہ میں نے اپنے آپ ﷺ کو دیکھا کہ میں نے جنت سے ایک گچھا لینے کا ارادہ کیا جب تم نے مجھے آگے بڑھتے ہوئے دیکھا مراوی کہتے ہیں کہ اقدم کی بجائے اتقدم کہا ہے اور میں نے جہنم کو دیکھا کہ اس کا ایک حصہ دوسرے کو توڑ رہا ہے جب تم نے مجھے پیچھے ہٹتے دیکھا اور اس میں عمرو بن لحی کو دیکھا اور یہ وہ ہے جس نے سب سے پہلے سانڈ بنا کر چھوڑے ابوطاہر کی حدیث ( فَافْزَعُوا الی الصَّلَاةِ ) پر ختم ہوگئی اور اس کے بعد اس نے ذکر نہیں کی۔
نماز گرہن کے بیان میں
محمد بن مہران رازی، ولید بن مسلم، اوزاعی، ابوعمر، ابن شہاب، زہری، عروہ، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں سورج گرہن ہوگیا تو آپ ﷺ نے پکارنے والے کو بھیجا کہ وہ کہے نماز کے لئے جمع ہوجاؤ، لوگ جمع ہوگئے اور آپ ﷺ آگے بڑھے تکبیر ہوئی اور آپ ﷺ نے دو رکعتوں کو چار رکوع اور چار سجدوں کے ساتھ پڑھایا۔
نماز گرہن کے بیان میں
محمد بن مہران رازی، ولید بن مسلم، عبدالرحمن بن نمیر، ابن شہاب، عروہ، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے صلوہ خسوف میں قرأت بالجہر کی، آپ ﷺ نے دو رکعتوں میں چار رکوع اور چار سجدے کئے۔
نماز گرہن کے بیان میں
زہری، کثیر، ابن عباس (رض) سے بھی یہی روایت ہے کہ آپ ﷺ نے دو رکعتوں میں چار رکوع اور چار سجدے کئے۔
نماز گرہن کے بیان میں
حاجب بن ولید، محمد بن حرب، محمد بن ولید زبیدی، زہری، کثیر بن عباس، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سورج گرہن کے دن نماز پڑھائی باقی حدیث گزر چکی۔
نماز گرہن کے بیان میں
اسحاق بن ابراہیم، محمد بن بکر، ابن جریج، عطاء، عبید بن عمیر، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ کے زمانہ میں سورج گرہن ہوگیا تو آپ ﷺ نے بہت زیادہ دیر تک قیام کیا پھر رکوع کیا پھر قیام کیا پھر رکوع کیا پھر قیام پھر رکوع آپ ﷺ فارغ ہوئے تو سورج روشن ہوچکا تھا آپ ﷺ جب رکوع کرتے تو اَللَّهُ أَکْبَرُ فرماتے اور جب سر اٹھاتے تو (سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ ) فرماتے پھر کھڑے ہوتے اور اللہ کی حمد وثناء بیان کی پھر فرمایا کہ سورج اور چاند کسی کی موت یا حیات کی وجہ سے بےنور نہیں ہوتے بلکہ یہ اللہ کی آیات میں سے ہیں اللہ ان کی وجہ سے ڈراتا ہے جب تم گرہن کو دیکھو تو اللہ کا ذکر کرو یہاں تک کہ وہ روشن ہوجائے۔
نماز گرہن کے بیان میں
ابوغسان مسمعی، محمد بن مثنی، ابن ہشام، قتادہ، عطاء بن ابی رباح، عبید بن عمیر، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے نماز میں چھ رکوع اور چار سجدے کئے۔
نماز خسوف میں عذاب قبر کے ذکر کے بیان میں
عبداللہ بن مسلمہ قعنبی، ابن بلال، یحییٰ بن عمرہ سے روایت ہے کہ ایک یہودیہ نے سیدہ عائشہ (رض) سے آکر کچھ مانگا تو انہوں نے کہا اللہ تجھے عذاب قبر سے پناہ دے، حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا : میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ ﷺ لوگوں کو کیا عذاب قبر ہوگا ؟ عمرہ کہتی ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس سے اللہ کی پناہ، پھر رسول اللہ ﷺ ایک صبح سواری پر سوار ہوئے تو سورج گرہن ہوگیا حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ آپ ﷺ اپنی سواری سے اتر کر اپنی نماز پڑھنے کی جگہ تشریف لائے، پس آپ ﷺ کھڑے ہوگئے اور لوگ آپ ﷺ کے پیچھے کھڑے ہوگئے، عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ آپ ﷺ نے قیام طویل کیا، پھر آپ ﷺ نے رکوع کیا، پھر کھڑے ہوئے، پھر پہلے قیام سے کم لمبا قیام کیا، پھر رکوع کیا تو طویل لیکن پہلے رکوع سے کم، پھر آپ ﷺ نے سر اٹھایا تو سورج گرہن نکل چکا تھا، آپ نے فرمایا میں تم کو دیکھتا ہوں کہ تم قبروں میں آزمائے جاؤ گے فتنہ دجال کی طرح، عمرہ کہتی ہیں میں نے حضرت عائشہ (رض) سے سنا وہ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے بعد سنا کہ آپ ﷺ عذاب دوزخ سے اور عذاب قبر سے پناہ مانگتے تھے۔
نماز خسوف میں عذاب قبر کے ذکر کے بیان میں
محمد بن مثنی، عبدالوہاب، ابن ابی عمر، سفیان، یحییٰ بن سعید اسی حدیث کی رو سے دوسری سند مذکور ہے۔
نماز کسوف کے وقت جنت دوزخ کے بارے میں نبی ﷺ کے سامنے کیا پیش کیا گیا۔
یعقوب بن ابراہیم دورقی، اسماعیل بن علیہ، ہشام دستوائی، ابوزبیر، جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں سورج گرہن ہوگیا، سخت گرمی کے دنوں میں آپ ﷺ نے اپنے اصحاب کے ساتھ نماز ادا کی تو قیام کو اتنا لمبا کیا کہ لوگ گرنا شروع ہوگئے پھر لمبا رکوع کیا پھر سر اٹھایا طویل دیر تک کھڑے رہے پھر طویل رکوع کیا پھر سر اٹھایا تو دیر تک کھڑے رہے پھر دو سجدے کئے پھر کھڑے ہوئے تو اسی طرح کیا یہ چار رکوع اور چار سجدے ہوئے، پھر فرمایا مجھ پر ہر وہ چیز پیش کی گئی جس میں تم کو داخل ہونا ہے مجھ پر جنت پیش کی گئی حتی کہ میں اگر اس میں سے خوشہ لینا چاہتا تو لے سکتا تھا، یا فرمایا کے میں نے اس میں سے کچھ لینا چاہا تو میرا ہاتھ قاصر رہا اور مجھ پر دو ذخ پیش کی گئی تو میں نے اس میں دیکھا کہ بنی اسرائیل میں سے ایک عورت کو ایک بلی کو باندھنے کی وجہ سے عذاب دیا جارہا تھا جو نہ تو اس کو کھلاتی تھی اور نہ چھوڑتی تھی کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑے کھالے اور میں نے ابوثمامہ عمرو بن مالک کو دیکھا کہ وہ دوزخ میں اپنی انتڑیاں گھسیٹتا پھرتا تھا، لوگ کہتے تھے کہ سورج اور چاند کسی بڑے کی موت کی وجہ سے بےنور ہوتے ہیں حالانکہ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں جن کو وہ تمہیں دکھاتا ہے جب وہ بےنور ہوجائیں تو نماز پڑھو یہاں تک کہ وہ روشن ہوجائیں۔
نماز کسوف کے وقت جنت دوزخ کے بارے میں نبی ﷺ کے سامنے کیا پیش کیا گیا۔
ابوغسان مسمعی، عبدالملک بن صباح، ہشام اسی حدیث کی دوسری سند ذکر کی گئی ہے لیکن اس میں یہ ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے دوزخ میں ایک سیاہ فام و دراز قد حمیری عورت کو دیکھا اور بنی اسرائیل میں سے تھی، نہیں فرمایا۔
نماز کسوف کے وقت جنت دوزخ کے بارے میں نبی ﷺ کے سامنے کیا پیش کیا گیا۔
ابوبکر بن ابی شیبہ، عبداللہ ابن نمیر، ح، عبدالملک، عطاء، حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ جس دن ابراہیم بن رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی اس دن سورج گرہن ہوا تو لوگوں نے کہا کہ یہ گرہن ابراہیم کی موت کی وجہ سے ہوا ہے تو نبی ﷺ کھڑے ہوئے اور لوگوں کو چھ رکوعات اور چار سجدات کے ساتھ (دو رکعت) پڑھائیں، شروع میں تکبیر کہی پھر خوب لمبی قرأت کی پھر اسی طرح رکوع کیا جس طرح قیام کیا پھر رکوع سے سر اٹھایا تو دوسری قرأت سے کم قرأت کی پھر کھڑے ہونے کی مقدار رکوع کیا پھر رکوع سے سر اٹھایا پھر سجود کے لئے جھکے تو دو سجدے کئے پھر کھڑے ہوئے تو اسی طرح ایک رکعت تین رکوعات کے ساتھ ادا کی اس طرح کہ اس میں ہر بعد والا رکوع اپنے سے پہلے والے رکوع سے کم ہوتا اور ہر رکوع سجدہ کے برابر تھا پھر آپ ﷺ پیچھے ہٹے اور آپ ﷺ سے پیچھے والی صفیں بھی پیچھے ہوئیں یہاں تک کہ ہم عورتوں کے قریب آگئے پھر آپ ﷺ آگے بڑھے اور صحابہ آپ ﷺ کے ساتھ آگے بڑھے یہاں تک کہ اپنی جگہ پر جا کھڑے ہوئے یہاں تک کہ آپ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے اور سورج کھل چکا تھا تو آپ ﷺ نے فرمایا : اے لوگو ! سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں اور یہ لوگوں میں سے کسی کی موت کی وجہ سے بےنور نہیں ہوتے، ابوبکر نے کہا کسی بشر کی موت کی وجہ سے جب تم اس میں کوئی چیز دیکھو تو نماز پڑھو یہاں تک کہ وہ روشن ہوجائے، ہر وہ چیز جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے میں نے اپنی اس نماز میں اسے دیکھا ہے، میرے پاس دوزخ لائی گئی یہ اس وقت تھا جب تم نے مجھے اس کی لپٹ کے خوف سے پیچھے ہوتے دیکھا یہاں تک کہ میں نے اس میں نو کیلی لکڑی والے کو دیکھا جو اپنی انتڑیوں کو آگ میں کھینچتا تھا یہ حاجیوں کے کپڑے وغیرہ آنکڑے میں ڈال کر چرایا کرتا تھا اگر کسی کو اطلاع ہوجاتی تو کہتا کہ وہ آنکڑے میں الجھ گئی ہے اور اگر اسے پتہ نہ چلتا تو وہ لے کر چلا جاتا اور یہاں تک کہ اس میں میں نے ایک بلی والی کو دیکھا جس نے اس کو باندھ دیا تھا اور نہ تو اس کو کھلاتی اور نہ چھوڑتی تھی کہ وہ زمین میں سے کیڑے مکوڑے کھالے یہاں تک کہ مرگئی، پھر میرے پاس جنت لائی گئی یہ اس وقت جب تم نے مجھے آگے بڑھتے ہوئے دیکھا یہاں تک کہ میں اپنی جگہ پر کھڑا ہوگیا اور میں نے اپنا ہاتھ دراز کر کے اس کا پھل لینا چاہا تاکہ تمہیں دکھاؤں پھر میرا ارادہ ہوا کہ ایسا نہ کروں ہر وہ چیز جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے میں نے اس کی اپنی اس نماز میں دیکھا ہے۔
نماز کسوف کے وقت جنت دوزخ کے بارے میں نبی ﷺ کے سامنے کیا پیش کیا گیا۔
محمد بن علاء ہمدانی، ابن نمیر، ہشام، فاطمہ، حضرت اسماء (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں سورج گرہن ہوا، میں حضرت عائشہ (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئی تو وہ نماز پڑھ رہی تھیں تو میں نے کہا کہ لوگوں کا کیا حال ہے کہ نماز پڑھ رہے ہیں ؟ تو سیدہ نے اپنے سر سے آسمان کی طرف اشارہ کیا میں نے کہا کیا ایک نئی نشانی ہے انہوں نے فرمایا ہاں، رسول اللہ ﷺ نے قیام کو خوب لمبا کیا یہاں تک کہ مجھے غش آنے لگا تو میں نے اپنے برابر سے پانی مشک لے کر اپنے سر اور چہرے پر پانی ڈالنا شروع کردیا فرماتی ہیں جب رسول اللہ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو سورج روشن ہوچکا تھا رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو خطبہ دیا اللہ کی حمد وثناء کے بعد فرمایا کوئی چیز ایسی نہیں جس کو میں نے پہلے نہ دیکھا تھا مگر میں نے اس کو اپنی اسی جگہ سے کھڑے دیکھ لیا یہاں تک کہ جنت دوزخ اور میری طرف وحی کی گئی تم اپنی قبروں میں جانچے جاؤ گے فتنہ دجال کی طرح، اسماء کہتی ہیں کہ تم میں سے کسی کو کہا جائے گا کہ اس آدمی کے بارے میں تیرا کیا علم ہے تو مومن یا یقین والا کہے گا کہ وہ محمد ﷺ رسول اللہ ﷺ ہیں، ہمارے پاس کھلے معجزات اور ہدایت لے کر آئے ہم نے قبول کیا اور اطاعت کی، تین بار وہ یہی کہے گا تو اس سے کہا جائے گا سو جا تحقیق ہم جانتے ہیں کہ تو ایماندار ہے پس اچھا بھلا سوتا رہ، بہرحال منافق یا شک میں پڑنے والا کہے گا میں نہیں جانتا، اسماء کہتی ہیں کہ وہ کہے گا میں نہیں جانتا میں لوگوں سے کچھ کہتے ہوئے سنتا تھا تو میں نے بھی کہہ دیا۔
نماز کسوف کے وقت جنت دوزخ کے بارے میں نبی ﷺ کے سامنے کیا پیش کیا گیا۔
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب، ابواسامہ، ہشام، فاطمہ، اسماء اوپر والی حدیث کی سند ثانی ذکر کی ہے الفاظ کا تغیر وتبدل ہے لیکن مفہوم و معنی وہی ہے۔
نماز کسوف کے وقت جنت دوزخ کے بارے میں نبی ﷺ کے سامنے کیا پیش کیا گیا۔
یحییٰ بن یحیی، سفیان بن عیینہ، زہری، عروہ سے روایت ہے کہ کسوف شمس نہ کہو بلکہ خسوف شمس کہو۔
نماز کسوف کے وقت جنت دوزخ کے بارے میں نبی ﷺ کے سامنے کیا پیش کیا گیا۔
یحییٰ بن حبیب حارثی، خالد بن حارث، ابن جریج، منصور بن عبدالرحمن، صفیہ بنت شیبہ، حضرت اسماء بنت ابی بکر (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے سورج گرہن کے دن گھبراہٹ سے اپنے اوپر کسی کی چادر اوڑھ لی یہاں تک کہ آپ ﷺ آپ ﷺ کی چادر لا کر دے دی گئی، آپ ﷺ نماز پڑھانے کے لئے کھڑے ہوئے تو لمبا قیام کیا اگر کوئی انسان آتا تو وہ یہ جان نہ سکتا کہ نبی ﷺ نے رکوع کیا جیسے طویل قیام کے بعد آپ ﷺ سے رکوع بیان کیا گیا ہے۔
نماز کسوف کے وقت جنت دوزخ کے بارے میں نبی ﷺ کے سامنے کیا پیش کیا گیا۔
سعید بن یحییٰ اموی، ابن جریج اسی حدیث کی دوسری سند ذکر کی ہے کہ آپ ﷺ نے طویل قیام کیا پھر رکوع کیا میں نے دیکھا کہ بعض عورتیں مجھ سے زیادہ عمر والی اور دوسری مجھ سے زیادہ بیمار بھی ہیں (مجھے بھی نماز میں ہمت ان کی وجہ سے ہوئی) ۔
نماز کسوف کے وقت جنت دوزخ کے بارے میں نبی ﷺ کے سامنے کیا پیش کیا گیا۔
احمد بن سعیددارمی، حبان، وہیب، منصور، حضرت اسماء بنت ابوبکر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں سورج گرہن ہوا تو آپ ﷺ گھبرا گئے کہ اپنی چادر بھول گئے، اس کے بعد آپ ﷺ کو آپ ﷺ کی چادر دی گئی، میں حاجت سے فارغ ہو کر مسجد میں داخل ہوئی تو میں نے رسول اللہ ﷺ کو قیام میں کھڑے دیکھا میں بھی آپ ﷺ کے ساتھ کھڑی ہوگئی، آپ ﷺ نے قیام خوب لمبا کیا یہاں تک کہ میں نے بیٹھنے کا ارادہ کیا تو میں ایک کمزور عورت کی طرف متوجہ ہوئی میں نے کہا یہ تو مجھ سے بھی زیادہ کمزور ہے تو میں کھڑی رہی، آپ ﷺ رکوع میں گئے تو رکوع کو خوب لمبا کیا پھر سر کو اٹھایا تو قیام کو لمبا کیا یہاں تک کہ اگر کوئی آدمی دیکھتا تو وہ یہ خیال کرتا کہ آپ ﷺ نے رکوع نہیں کیا۔
نماز کسوف کے وقت جنت دوزخ کے بارے میں نبی ﷺ کے سامنے کیا پیش کیا گیا۔
سوید بن سعید، حفص بن میسرہ، زید بن اسلم، عطاء بن یسار، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں سورج گرہن ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھی اور لوگوں نے بھی آپ ﷺ کے ساتھ نماز ادا کی، آپ ﷺ نے بہت لمبا قیام کیا سورت البقرہ پڑھنے کی مقدار، پھر رکوع کیا تو لمبا رکوع کیا پھر اٹھے تو لمبا قیام کیا لیکن رکوع سے کم پھر سجدہ کیا پھر قیام کیا تو پہلے قیام سے کم پھر رکوع کیا تو لمبا لیکن پہلے رکوع سے کم، پھر سر اٹھایا تو لمبا قیام لیکن پہلے قیام سے کم پھر لمبا رکوع کیا اور وہ پہلے رکوع سے کم تھا، پھر سجدہ کیا اور نماز سے فارغ ہوئے تو سورج روشن ہوچکا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا کہ سورج اور چاند اللہ کی آیات میں سے دو نشانیاں ہیں یہ کسی کی موت یا حیات سے بےنور نہیں ہوتے جب تم ایسا دیکھو تو اللہ کا ذکر کرو، صحابہ (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ہم نے آپ ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ نے اپنی اسی جگہ سے کوئی چیز حاصل کی پھر ہم نے آپ ﷺ کو بچتے ہوئے دیکھا، تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے جنت کو دیکھا اور میں نے اس سے خوشہ لینا چاہا اگر میں اسے حاصل کرلیتا تو تم بھی اس سے کھاتے دنیا کے باقی رہنے تک اور میں نے دوزخ کو دیکھا میں نے اس کو آج کی طرح کبھی نہیں دیکھا تھا اور میں نے اس میں اکثر بسنے والی عورتیں دیکھیں، صحابہ نے عرض کیا کیوں یا رسول اللہ ﷺ ؟ فرمایا ان کی ناشکری کی وجہ سے کہا گیا وہ اللہ کی ناشکری کیوں کرتی ہیں ؟ فرمایا شوہر کی ناشکری کرتی ہیں اور اس کے احسان کا انکار کرتی ہیں اگر تو ان میں سے کسی پر زندگی بھر احسان کرے پھر وہ تجھ سے کوئی ناگوار بات دیکھے تو کہتی ہیں میں نے تجھ سے کبھی کوئی بھلائی نہیں دیکھی۔
نماز کسوف کے وقت جنت دوزخ کے بارے میں نبی ﷺ کے سامنے کیا پیش کیا گیا۔
محمد بن رافع، ابن عیسی، مالک، زید بن اسلم اسی حدیث کی دوسری سند مذکور ہے اس حدیث میں یہ ہے کہ ہم نے آپ ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ پیچھے ہٹے ہیں۔
آٹھ رکوع اور چار سجدوں کی نماز کا بیان
ابوبکر بن ابی شیبہ، اسماعیل بن علیہ، سفیان، حبیب بن ابی ثابت، طاؤس، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سورج گرہن کے وقت آٹھ رکوع اور سجدوں کے ساتھ نماز پڑھائی حضرت علی (رض) سے بھی اسی طرح مروی ہے۔
آٹھ رکوع اور چار سجدوں کی نماز کا بیان
محمد بن مثنی، ابوبکر بن خلاد، یحییٰ قطان، سفیان، خبیب، طاؤس، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے صلوہ کسوف میں قرأت کی، پھر رکوع کیا، پھر قرأت کی، پھر رکوع کیا، پھر قرأت کی، پھر رکوع کیا، پھر قرأت، پھر رکوع، پھر سجدہ فرماتے، دوسری رکعت بھی اسی طرح ادا فرمائی۔
نماز کسوف کے لئے پکارنے کا بیان
محمد بن رافع، ابونضر، شیبان نحوی، یحیی، ابوسلمہ، عبداللہ بن عمرو بن عاص، ح، عبداللہ بن عبدالرحمن دارمی، یحییٰ بن حسان، معاویہ بن سلام، یحییٰ بن ابی کثیر، ابوسلمہ بن عبدالرحمن، حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں سورج گرہن ہوا تو لوگوں کو نماز کے لئے جمع ہونے کے لئے پکارا گیا، رسول اللہ ﷺ نے ایک رکعت میں دو رکوع فرمائے، پھر کھڑے ہوئے اور ایک رکعت میں دو رکوع فرمائے، پھر سورج نکال دیا گیا، سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے کبھی اتنے لمبے رکوع یا سجدے نہ کئے تھے۔
نماز کسوف کے لئے پکارنے کا بیان
یحییٰ بن یحیی، ہشیم، اسماعیل، قیس بن ابی حازم، حضرت ابومسعود انصاری سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بیشک سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے اور یہ لوگوں میں سے کسی کی موت کی وجہ سے بےنور نہیں ہوتے جب تم اس سے کوئی چیز دیکھو تو نماز پڑھو اور اللہ سے دعا مانگو یہاں تک کہ وہ تم سے دور ہوجائے۔
نماز کسوف کے لئے پکارنے کا بیان
عبیداللہ بن معاذ عنبری، یحییٰ بن خبیب، معتمر، اسماعیل، قیس، حضرت ابومسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ سورج اور چاند لوگوں میں سے کسی کی موت کی وجہ سے بےنور نہیں ہوتے بلکہ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں جب تم اس کو دیکھو تو نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہوجاؤ۔
نماز کسوف کے لئے پکارنے کا بیان
ابوبکر بن ابی شیبہ، وکیع، ابواسامہ، ابن نمیر، ح، اسحاق بن ابراہیم، جریر، وکیع، ابن ابی عمر، سفیان، مروان، اسماعیل اسی حدیث کی دوسری اسناد ذکر کی ہیں لیکن ان میں یہ ہے کہ لوگوں نے کہا سورج گرہن ابراہیم کی موت کی وجہ سے ہوا ہے۔
نماز کسوف کے لئے پکارنے کا بیان
ابوعامر اشعری، عبداللہ بن براد، محمد بن علاء، ابواسامہ، برید، ابوبردہ، حضرت ابوموسی (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں سورج گرہن ہوا تو آپ ﷺ گھبرائے ہوئے کھڑے ہوئے یہ خوف کرتے ہوئے کہ قیامت برپا ہوگئی، یہاں تک کہ مسجد آئے اور لمبے قیام اور رکوع اور سجود کے ساتھ نماز پڑھنے کھڑے ہوگئے، میں نے آپ ﷺ کو کسی نماز میں ایسا کرتے ہوئے نہیں دیکھا، پھر فرمایا یہ نشانیاں ہیں جن کو اللہ بھیجتا ہے یہ کسی کی موت یا حیات کی وجہ سے نہیں ہوتیں لیکن اللہ اس کو اپنے بندوں کو ڈرانے کے واسطے بھیجتا ہے جب تم اس میں سے کوئی چیز دیکھو تو اللہ کے ذکر اور اس سے دعا اور استغفار کی طرف جلدی کرو۔
نماز کسوف کے لئے پکارنے کا بیان
عبیداللہ بن عمر قواریری، بشر بن مفضل، جریری بن علاء، حیان بن عمیر، عبدالرحمن بن سمرہ سے روایت ہے کہ میں تیر پھینک رہا تھا رسول اللہ کی زندگی میں جب سورج گرہن ہوا تو میں نے ان کو پھینک دیا اور میں نے کہا کہ دیکھوں آج سورج گرہن میں رسول اللہ کون سا نیا عمل کرتے ہیں، میں آپ ﷺ تک پہنچا اور آپ ﷺ ہاتھ اٹھائے دعا مانگ رہے تھے اور تکبیر، تہلیل اور تحمید میں مصروف رہے یہاں تک کہ سورج گرہن سے نکل گیا تو آپ ﷺ نے دو سورتیں اور دو رکعتیں پڑھیں۔
نماز کسوف کے لئے پکارنے کا بیان
ابوبکر بن ابی شیبہ، عبدالاعلی بن عبدالاعلی، جریری، حیان بن عمیر، عبدالرحمن بن سمرہ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ کی حیات میں مدینہ میں تیر اندازی کر رہا تھا کہ سورج گرہن ہوگیا تو میں نے تیر پھینکے اور دل میں کہا اللہ کی قسم میں سورج گرہن میں رسول اللہ ﷺ کا عمل دیکھوں گا فرماتے ہیں میں آپ ﷺ کے پاس آیا اور آپ ﷺ نماز کے لئے کھڑے ہونے والے تھے، ہاتھ بلند کئے اللہ کی تسبیح، تحمید، تہلیل، تکبیر اور دعا میں مصروف تھے یہاں تک کہ سورج کھل گیا جب سورج صاف ہوگیا تو آپ ﷺ نے دو سورتیں پڑھیں اور دو رکعتیں ادا کیں۔
نماز کسوف کے لئے پکارنے کا بیان
محمد بن مثنی، سالم بن نوح رمح، جریری، حیان بن عمیر، حضرت عبدالرحمن بن سمرہ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ کے زمانہ میں تیر اندازی کر رہا تھا کہ سورج گرہن ہوگیا پھر باقی حدیث اس پہلے والی حدیث کی طرح ذکر فرمائی۔
نماز کسوف کے لئے پکارنے کا بیان
ہارون بن سعید ایلی، ابن وہب، عمر بن حارث، عبدالرحمن بن قاسم، قاسم بن محمد بن ابوبکر صدیق، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سورج اور چاند کسی کی موت یا حیات کی وجہ سے گرہن نہیں ہوتے بلکہ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں جب تم ان کو دیکھو تو نماز پڑھو۔
نماز کسوف کے لئے پکارنے کا بیان
ابوبکر بن ابی شیبہ، محمد بن عبداللہ بن نمیر، ابن مقدام، زائدہ، زیاد بن علاقہ، حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں جس دن ابراہیم (رض) فوت ہوئے، سورج گرہن ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں یہ کسی کی موت یا حیات کی وجہ سے بےنور نہیں ہوتے جب تم ان کو دیکھو تو اللہ سے دعا مانگو اور نماز ادا کرو یہاں تک کہ گرہن کھل جائے۔