13. جنازوں کا بیان
مر نے والوں کو الا الہ الا اللہ کی تلقین کرنے کے بیان میں
ابوکامل جحدری، فضیل بن حسین، عثمان بن ابی شیبہ، عمارہ بن عزیہ، یحییٰ بن عمارہ، حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مر نے والوں کو ( لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ) کی تلقین کیا کرو۔
مر نے والوں کو الا الہ الا اللہ کی تلقین کرنے کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، عبدالعزیز در اور دی، ابوبکر بن ابی شیبہ، خالد بن مخلد، سلیمان بن بلال اس حدیث کی دوسری اسناد ذکر کی ہیں۔
مر نے والوں کو الا الہ الا اللہ کی تلقین کرنے کے بیان میں
عثمان، ابوبکر بن ابی شیبہ، عمرو ناقد، ابوخالد احمر، یزید بن کیسان، ابوحازم، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اپنے قریب المرگ لوگوں کو ( لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ) کی تلقین کیا کرو۔
مصیبت کے وقت کیا کہے ؟
یحییٰ بن ایوب، قتیبہ، ابن حجر، اسماعیل بن جعفر، سعد بن سعید، کثیربن افلح، ابن سفینہ، حضرت ام سلمہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر مسلمان پر کوئی مصیبت آئے اور وہ اللہ کے حکم کے مطابق ( إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ) پڑھ کر کہے اللَّهُمَّ أْجُرْنِي فِي مُصِيبَتِي وَأَخْلِفْ لِي خَيْرًا مِنْهَا اے اللہ مجھے میری مصیبت میں اجر دے اور میرے لئے اس کا نعم البدل عطا فرما تو اللہ اس کو اس سے بہتر عطا فرماتے ہیں، جب ابوسلمہ فوت ہوئے تو میں نے کہا ابوسلمہ سے افضل کون سا مسلمان ہوگا پہلا گھرا نہ تھا جس نے رسول اللہ ﷺ کی طرف ہجرت فرمائی پھر میں نے اسی قول کو پختہ یقین سے دہرایا تو اللہ نے میرے لئے ابوسلمہ کے بدلے رسول اللہ ﷺ عطا فرمائے، رسول اللہ ﷺ نے میرے پاس حاطب بن ابی بلتعہ کو اپنے لئے پیغام نکاح دینے کے لئے بھیجا تو میں نے کہا میری ایک لڑکی ہے اور میں غیرت مند ہوں تو آپ ﷺ نے فرمایا اس کی بیٹی کے لئے تو ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ اس سے بےنیاز کر دے اور ان کی شرمندگی کے لئے بھی دعا کرتا ہوں کہ اللہ اسے ختم کر دے
مصیبت کے وقت کیا کہے ؟
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابواسامہ، سعد بن سعید، عمر بن کثیربن افلح، ابن سفینہ، ام سلمہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب کسی مسلمان بندے کو کوئی مصیبت آتی ہے اور وہ (إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ اور اللَّهُمَّ أْجُرْنِي فِي مُصِيبَتِي وَأَخْلِفْ لِي خَيْرًا مِنْهَا) ، کہتا ہے تو اللہ اس کو اس کی مصیبت میں اجر دیتے ہیں اور اس کا نعم البدل عطا کرتے ہیں، جب ابوسلمہ کا انتقال ہوگیا تو میں نے رسول اللہ کے حکم کے مطابق کہا تو اللہ نے میرے لئے ابوسلمہ سے بہتر رسول اللہ ﷺ عطا فرمائے۔
مصیبت کے وقت کیا کہے ؟
محمد بن عبداللہ بن نمیر، سعد بن سعید، ابن کثیر، ابن سفینہ، حضرت ام سلمہ (رض) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے ویسی ہی حدیث سنی اس میں فرمایا جب ابوسلمہ فوت ہوگئے تو میں نے کہا صحابی رسول اللہ ﷺ ابوسلمہ سے بہتر کون ہوگا پھر اللہ نے میرے لئے عزم عطا فرمایا تو میں نے اس دعا کو پڑھ لیا فرماتی ہیں پھر میرا نکاح رسول اللہ ﷺ سے ہوگیا۔
مر یض اور میت والوں کے پاس کیا کہا جائے ؟
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب، ابومعاویہ، اعمش، شقیق، ام سلمہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم مریض یا میت کے پاس جاؤ تو اچھی بات کہو کیونکہ فرشتے تمہاری بات پر آمین کہیں گے جب ابوسلمہ فوت ہوئے تو نبی ﷺ تشریف لائے تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ابوسلمہ کا انتقال ہوگیا، آپ ﷺ نے فرمایا تو (اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَلَهُ وَأَعْقِبْنِي مِنْهُ عُقْبَی حَسَنَةً ) اے اللہ مجھے اور اس کو معاف فرما دے اور مجھے اس سے اچھا بدلہ عطا فرما کہہ میں نے کہا تو اللہ نے مجھے اس سے بہتر محمد ﷺ عطا فرما دیے۔
میت کی آنکھوں کو بند کرنے اور اس کے لئے دعا کرنے کے بیان میں
زہیر بن حرب، معاویہ بن عمرو، ابواسحاق فزاری، خالد حذاء، ابوقلابہ، قبیصہ بن ذویب، ام سلمہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ابوسلمہ کے پاس تشریف لائے تو ابوسلمہ کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں آپ ﷺ نے ان کو بند کردیا، پھر فرمایا جب روح قبض کی جاتی ہے تو نگاہ بھی اس کے پیچھے جاتی ہے، ان کے گھر کے لوگوں نے رونا شروع کردیا تو آپ ﷺ نے فرمایا اپنے آپ پر خیر ہی کی دعا کیا کرو بیشک فرشتے تمہاری بات پر آمین کہتے ہیں پھر فرمایا اے اللہ ابوسلمہ کو معاف فرما اور ہدایت یافتہ لوگوں میں اس کا درجہ بلند فرما اور باقی لوگوں میں سے اس کا جانشین مقرر فرمایا رب العالمین ہمیں اور اس کو بخش دے اور اس کی قبر میں اس کے لئے کشادگی فرما اور اس میں اس کے لئے روشنی فرما۔
میت کی آنکھوں کو بند کرنے اور اس کے لئے دعا کرنے کے بیان میں
محمد بن موسیٰ قطان واسطی، مثنی بن معاذ بن معاذ، عبیداللہ بن حسن، خالد حذاء اس حدیث کی دوسری سند مذکور ہے اس میں ہے اے اللہ جو بچے یہ چھوڑ کر جا رہے ہیں ان میں ان کا جانشین مقرر فرما اور فرمایا اے اللہ اس کے لئے اس کی قبر میں وسعت فرما افسح نہیں فرمایا آپ ﷺ نے ساتویں چیز کی بھی دعا کی جو میں بھول گیا۔
روح کا پیچھا کرتے ہوئے میت کے آنکھوں کا کھلا رہنے کا بیان
محمد بن رافع، عبدالرزاق، ابن جریج، علاء بن یعقوب، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا تم نہیں دیکھتے جب آدمی مرجاتا ہے تو اس کی آنکھیں کھلی رہتی ہیں صحابہ نے عرض کیا کیوں نہیں ! فرمایا وجہ یہ ہے کہ اس کی نگاہ جان کے پیچھے جاتی ہے۔
روح کا پیچھا کرتے ہوئے میت کے آنکھوں کا کھلا رہنے کا بیان
قتیبہ بن سعید، عبدالعزیز در اور دی، حضرت علا (رض) سے دوسری سند مذکور ہے۔
میت پر رونے کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابن نمیر، اسحاق بن ابراہیم، ابن عیینہ، سفیان، ابن ابی نجیح، عبید بن عمیر (رض) سے روایت ہے کہ ام سلمہ (رض) نے کہا جب ابوسلمہ فوت ہوگئے تو میں نے کہا، مسافر تھا اور مسافر زمین میں مرگیا ہے میں اس کے لئے ایسا روؤں گی کہ اس کے بارے میں باتیں کی جائیں گی، چناچہ میں نے اس پر رونے کی تیاری کرلی مدینہ کے اوپر کے ایک محلہ سے ایک عورت میری مدد کے لئے بھی آگئی رسول اللہ ﷺ سے اس کی ملاقات ہوگئی تو آپ ﷺ نے فرمایا کیا تو جس گھر سے اللہ نے شیطان نکال دیا ہے اس میں اس کو داخل کرنا چاہتی ہے آپ ﷺ نے دو دفعہ یہ فرمایا تو میں رونے سے رک گئی پس میں نہ روئی۔
میت پر رونے کے بیان میں
ابوکامل جحدری، ابن زید، عاصم احول، ابوعثمان نہدی، اسامہ بن زید (رض) سے روایت ہے کہ ہم نبی ﷺ کے پاس تھے کہ آپ ﷺ کی بیٹیوں میں سے کسی نے آپ ﷺ کو بلوایا اور آپ ﷺ کو خبر دی گئی کہ اس کا بچہ حالت موت میں ہے تو رسول اللہ ﷺ نے پیغام لانے والے سے فرمایا واپس جا اور اس کو خبر دے کہ جو اللہ لیتا ہے وہ اسی کا ہے اور جو عطا کرتا ہے وہ بھی اسی کے لئے ہے اور اس کے پاس ہر چیز مقرر مدت کے ساتھ ہے، اس کو صبر کا حکم دینا اور ثواب کی امید رکھے، پیام بر دوبارہ حاضر ہوا اور عرض کیا کہ آپ ﷺ کی بیٹی نے قسم دے کر عرض کیا کہ آپ ﷺ ضرور اس کے ہاں تشریف لائیں تو نبی ﷺ کھڑے ہوئے اور سعد بن عبادہ اور معاذ بن جبل (رض) بھی کھڑے ہوئے اور میں بھی ان کے ساتھ چلا پس بچہ آپ ﷺ کو پیش کیا گیا اور اس کا دم نکل رہا تھا گویا کہ پرانی مشک پانی ڈالنے سے بول رہی ہو، آپ ﷺ کی آنکھیں بھر آئیں تو آپ ﷺ سے سعد نے عرض کی، یا رسول اللہ ﷺ یہ کیا ہے ؟ فرمایا یہ نرم دلی ہے جس کو اللہ نے اپنے بندوں کے دلوں میں بنایا ہے اور اللہ اپنے بندوں میں سے مہربانی کرنے والوں پر رحم کرتا ہے۔
میت پر رونے کے بیان میں
محمد بن عبداللہ بن نمیر، ابن فضیل، ح، ابوبکر بن ابی شیبہ، ابومعاویہ، عاصم احول اسی حدیث کی دوسری سند ذکر کی گئی ہے فرق یہ ہے کہ پہلی حدیث زیادہ لمبی اور کامل ہے۔
میت پر رونے کے بیان میں
یونس بن عبدالاعلی صدفی، عمرو بن سواد عامری، عبداللہ بن وہب، عمرو بن حارث، سعید بن حارث انصاری، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ سعد بن عبادہ (رض) بیمار ہوگئے تو رسول اللہ ﷺ ان کی عیادت کے لئے آئے، آپ کے ساتھ عبدالرحمن بن عوف، سعد بن ابی وقاص، عبداللہ بن مسعود وغیرہم رضوان اللہ علیہم اجمعین تھے جب آپ ﷺ سعد کے پاس پہنچے تو ان کو بےہوشی کی حالت میں پایا، آپ ﷺ نے فرمایا کیا اس کو موت دے دی گئی ہے ؟ تو صحابہ نے عرض کیا نہیں یا رسول اللہ ﷺ ، رسول اللہ ﷺ رونے لگے جب لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کو روتے ہوئے دیکھا تو وہ بھی رو پڑے۔ آپ ﷺ نے فرمایا سنو بیشک اللہ رونے والی آنکھ اور غم والے دل پر عذاب نہیں کرتا لیکن اس کی وجہ سے عذاب دیا جائے گا یا رحم کیا جائے گا اور آپ ﷺ نے اپنی زبان کی طرف اشارہ کیا۔
بیمار کی عیادت کے بیان میں
محمد بن مثنی عنزی، محمد بن جہضم، ابن جعفر، ابن غزیہ، سعید بن حارث بن معلی، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے تھے آپ ﷺ کے پاس انصار میں سے ایک آدمی نے آکر آپ ﷺ کو سلام کیا پھر وہ انصاری چلا گیا تو اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا اے انصار کے بھائی ! میرے بھائی سعد بن عبادہ کا کیا حال ہے ؟ اس نے کہا اچھے ہیں، تو اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا تم میں سے کون اس کی عیادت کرنا چاہتا ہے ؟ پس آپ ﷺ کھڑے ہوئے اور ہم بھی آپ ﷺ کے ساتھ کھڑے ہوئے اور ہم کچھ اوپر دس آدمی تھے ہمارے پاس جوتے موزے ٹوپیاں اور قمیض نہ تھے، ہم اس کنکریلی زمین میں پیدل جا رہے تھے یہاں تک کہ ہم ان کے پاس پہنچے تو ان کی قوم ان کے پاس سے ہٹ گئی رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ جو آپ ﷺ کے ساتھ تھے اس کے قریب ہوگئے۔
مصیبت پر صبر کرنے کے بیان میں
محمد بن بشارعبدی، ابن جعفر، شعبہ، ثابت، حضرت انس (رض) بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : صبر صدمہ کی ابتداء کے وقت ہی افضل ہے۔
مصیبت پر صبر کرنے کے بیان میں
محمد بن مثنی، عثمان بن عمر، شعبہ، ثابت بنانی، انس بن مالک (رض) روایت ہے کہ اپنے بچے پر روتی عورت کے پاس رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو اس سے فرمایا اللہ سے ڈر اور صبر اختیار کر ! تو اس نے کہا تم کو میری مصیبت نہیں پہنچی، جب آپ ﷺ گئے تو اس عورت سے کہا گیا کہ وہ تو رسول اللہ ﷺ تھے تو اس عورت کو پریشانی ہوئی اور وہ آپ ﷺ کے دروازے پر پہنچی اور آپ ﷺ کے گھر پر کسی دربان کو نہ پایا تو اندر جا کر رسول اللہ ﷺ سے عرض کرنے لگی میں نے آپ ﷺ کو پہچانا نہیں تھا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ صبر صدمہ کی ابتداء میں ہی افضل ہے۔
مصیبت پر صبر کرنے کے بیان میں
یحییٰ بن حبیب حارثی، ابن حارث، ح، عقیہ بن مکرم عمی، عبدالملک بن عمرو، ح، احمد بن ابراہیم دورقی، عبدالصمد اسی حدیث کی دوسری اسناد ذکر کی ہیں لیکن عبدالصمد کی روایت میں ہے کہ نبی ﷺ کا گزر ایک قبر کے پاس بیٹھی ہوئی عورت کے پاس سے ہوا باقی حدیث اوپر والی حدیث کی طرح ہے۔
گھر والوں کے رونے کے وجہ سے میت کو عذاب دیئے جانے کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، محمد بن عبداللہ بن نمیر، ابن بشر، ابوبکر، محمد بن بشر عبدی، عبیداللہ بن عمر، نافع، عبداللہ سے روایت ہے کہ حضرت حفصہ حضرت عمر (رض) پر رونے لگیں تو حضرت عمر (رض) نے (بحالت نیم بےہوشی) فرمایا میری پیاری بیٹی رک جا ! کیا تو نہیں جانتی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میت کے اہل والوں کے رونے کی وجہ سے اس کو عذاب دیا جاتا ہے۔
گھر والوں کے رونے کے وجہ سے میت کو عذاب دیئے جانے کے بیان میں
محمد بن بشار، محمد بن جعفر، قتادہ، سعید بن مسیب، ابن عمر، حضرت عمر سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : میت کو اس کی قبر میں اس پر نوحہ کئے جانے کی وجہ سے عذاب کیا جاتا ہے۔
گھر والوں کے رونے کے وجہ سے میت کو عذاب دیئے جانے کے بیان میں
محمد بن مثنی، ابن ابی عدی، سعید، قتادہ، سعید بن مسیب، ابن عمر، حضرت عمر (رض) رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں، میت کو اس کی قبر میں اس پر نوحہ کئے جانے کی وجہ سے عذاب کیا جاتا ہے۔
گھر والوں کے رونے کے وجہ سے میت کو عذاب دیئے جانے کے بیان میں
علی بن حجرسعدی، علی بن مسہر، اعمش، ابوصالح، ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ جب حضرت عمر (رض) کو زخمی کیا گیا، آپ (رض) پر بےہوشی طاری ہوگئی تو لوگ آپ پر با آواز بلند چیخنے لگے، جب آپ (رض) کو ہوش آیا تو فرمایا : کیا تم نہیں جانتے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میت کو زندوں کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے۔
گھر والوں کے رونے کے وجہ سے میت کو عذاب دیئے جانے کے بیان میں
علی بن حجر، علی بن مسہر، شیبانی، ابوبردہ سے روایت کرتی ہیں کہ جب حضرت عمر (رض) زخمی ہوئے صہیب نے ہائے بھائی کہنا شروع کردیا تو حضرت عمر (رض) نے اس سے کہا اے صہیب کیا تو نہیں جانتا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میت کو زندوں کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے۔
گھر والوں کے رونے کے وجہ سے میت کو عذاب دیئے جانے کے بیان میں
علی بن حجر، شعیب بن صفوان، ابویحیی، عبدالملک بن عمیر، ابوبردہ، حضرت ابوموسی (رض) سے روایت ہے کہ حضرت عمر (رض) زخمی ہوگئے تو حضرت صہیب اپنے گھر سے حضرت عمر (رض) کے پاس آئے اور ان کے سامنے کھڑے ہو کر رونے لگے تو اس کو حضرت عمر (رض) نے فرمایا کس بات پر روتے ہو ؟ کیا تم مجھ پر رو رہے ہو ؟ تو اس نے کہا اے امیرالمؤمنین اللہ کی قسم آپ (رض) ہی پر روتا ہوں، تو آپ (رض) نے فرمایا اللہ کی قسم تو جانتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس پر رویا جائے اس کو عذاب دیا جاتا ہے فرماتے ہیں میں نے اس کا ذکر موسیٰ بن طلحہ سے کیا تو انہوں نے فرمایا کہ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں ( کہ جن لوگوں کے بارے میں یہ حدیث وارد ہوئی ہے) وہ یہودی تھے۔
گھر والوں کے رونے کے وجہ سے میت کو عذاب دیئے جانے کے بیان میں
عمرو ناقد، عفان بن مسلم، حماد بن سلمہ، ثابت، حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ جب حضرت عمر (رض) کو زخمی کیا گیا تو حضرت حفصہ (رض) نے آپ (رض) پر آواز سے رونا شروع کردیا، حضرت عمر (رض) نے فرمایا : اے حفصہ ! کیا تو نے رسول اللہ ﷺ سے نہیں سنا آپ ﷺ فرماتے تھے کہ جس پر آواز سے رویا جائے اسے عذاب دیا جاتا ہے اور آپ پر صہیب جب روئے تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا اے صہیب کیا تو نہیں جانتا کہ جس پر آواز سے رویا جائے اسے عذاب دیا جاتا ہے۔
گھر والوں کے رونے کے وجہ سے میت کو عذاب دیئے جانے کے بیان میں
داود بن رشید، اسماعیل بن علیہ، ایوب، عبداللہ بن ابی ملیکہ سے روایت ہے کہ میں حضرت ابن عمر (رض) کے پاس بیٹھا ہوا تھا اور ہم ام ابان بنت عثمان کے جنازہ کا انتظار کر رہے تھے اور آپ کے پاس عمرو بن عثمان بھی موجود تھے کہ ابن عباس (رض) تشریف لائے اور ان کو کوئی شخص لارہا تھا میرا گمان ہے کہ ان کو ابن عمر (رض) کی جگہ کی خبر دی گئی تو وہ آئے اور میرے پاس بیٹھ گئے اور میں ان دونوں کے درمیان تھا، اتنے میں گھر سے رونے کی آواز آئی تو ابن عمر (رض) نے حضرت عمرو (رض) سے فرمایا کہ وہ کھڑے ہو کر ان کو روکیں کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے میت کو اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے، حضرت عبداللہ نے اس کو مطلقا فرمایا یہود کی قید نہیں لگائی تو ابن عباس (رض) نے فرمایا ہم حضرت امیر المؤمنین عمر (رض) بن خطاب کے ساتھ تھے جب صحراء بیداء میں پہنچے تو ہم نے ایک شخص کو ایک درخت کے سایہ میں اترتے ہوئے دیکھا تو آپ نے مجھے فرمایا کہ جاؤ اور معلوم کرو کہ وہ آدمی کون ہے، میں گیا تو وہ حضرت صہیب تھے میں واپس آیا اور عرض کی جس شخص کو معلوم کرنے لئے آپ نے مجھے بھیجا وہ صہیب (رض) ہیں تو آپ نے فرمایا ان کو حکم دو کہ وہ ہمارے ساتھ مل جائیں، میں نے عرض کیا ان کے ساتھ ان کے اہل ہیں، آپ نے فرمایا اگرچہ اس کے ساتھ اس کے گھر والے ہیں ان کو ہمارے ساتھ ملنے کا حکم دو ، جب ہم مدینہ پہنچے تو کچھ دیر ہی نہ لگی کہ حضرت عمر (رض) زخمی ہوگئے، حضرت صہیب آئے اور ہائے بھائی ہائے بھائی کہنے لگے تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا : کیا تو نہیں جانتا تو نے نہیں سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میت کو اس کے بعض گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے فرمایا عبداللہ نے مطلق فرمایا ہے۔ مردہ کو عذاب دیا جاتا ہے حالانکہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا بعض کے رونے کی وجہ سے ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں میں اٹھا اور حضرت عائشہ کی خدمت میں حاضر ہو کر میں نے ابن عمر (رض) کی حدیث ان کو بیان کی تو حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا نہیں اللہ کی قسم رسول اللہ ﷺ نے یہ نہیں فرمایا مردہ کو اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے بلکہ آپ ﷺ نے فرمایا کافر پر اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب اور زیادہ ہوجاتا ہے اور اللہ ہی ہنساتے اور رلاتے ہیں کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا، ایوب کہتے ہیں ابن ابی ملیکہ نے فرمایا مجھے قاسم بن محمد نے بیان کیا جب حضرت عائشہ (رض) کو حضرت عمر (رض) اور حضرت ابن عمر (رض) کا قول پہنچا تو فرمایا تم مجھے ایسے آدمیوں کی روایت بیان کرتے ہو جو نہ جھوٹے ہیں اور نہ تکذیب کی جاسکتی ہے البتہ کبھی سننے میں غلطی ہوجاتی ہے۔
گھر والوں کے رونے کے وجہ سے میت کو عذاب دیئے جانے کے بیان میں
محمد بن رافع، عبد بن حمید، عبدالرزاق، ابن جریج، حضرت عبداللہ بن ابی ملیکہ (رض) سے روایت ہے کہ حضرت عثمان بن عفان (رض) کی بیٹی مکہ میں فوت ہوگئی ہم ان کے جنازہ میں شرکت کے لئے آئے، حضرت ابن عمر (رض) اور حضرت ابن عباس (رض) بھی تشریف لائے اور میں ان دونوں کے درمیان بیٹھنے والا تھا یا فرمایا میں ان میں سے ایک کے پاس بیٹھا تھا کہ دوسرے تشریف لائے اور میرے پاس آکر بیٹھ گئے، حضرت ابن عمر (رض) نے اپنے سامنے بیٹھے عمرو بن عثمان سے کہا کیا تم ان رونے والوں کو منع نہیں کردیتے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مردہ کو اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے ابن عباس (رض) نے فرمایا حضرت عمر (رض) نے بعض گھر والوں کے رونے سے فرمایا تھا۔ پھر حدیث بیان کرتے ہوئے فرمایا میں حضرت عمر (رض) کے ساتھ مکہ سے لوٹا جب ہم مقام بیداء پہنچے تو ایک درخت کے سایہ میں کچھ سوار نظر آئے تو آپ نے فرمایا جاؤ اور دیکھو کہ یہ سوار کون ہیں میں گیا دیکھا تو وہ حضرت صہیب (رض) تھے میں نے آپ کو خبر دی تو آپ (رض) نے فرمایا : اس کو بلا لاؤ میں حضرت صہیب کے پاس لوٹا اور ان سے کہا چلو اور امیرالمؤمنین کے ساتھ مل جاؤ، جب حضرت کو زخمی کیا گیا تو حضرت صہیب روتے ہوئے داخل ہوئے ہائے بھائی ہائے ساتھی کہتے تھے تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا اے صہیب کیا تو مجھ پر روتا ہے ؟ حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مردہ کو اپنے بعض گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے، حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمر (رض) شہید ہوگئے تو میں نے اس کا حضرت عائشہ (رض) سے ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا اللہ حضرت عمر (رض) پر رحم فرمائے اللہ کی قسم رسول اللہ ﷺ نے ایسا نہیں فرمایا اللہ تعالیٰ مومن کے کسی کے رونے کی وجہ سے عذاب دیتے ہیں بلکہ آپ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کافر کے اہل و عیال کے رونے کی وجہ سے عذاب کو زیادہ کردیتے ہیں پھر حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا تمہارے لئے قرآن کافی ہے کوئی کسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا ابن عباس (رض) نے اس پر فرمایا اللہ ہی ہنساتا ہے اور رلاتا ہے ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ ابن عمر (رض) نے اس پر کوئی بات نہیں فرمائی یعنی یہ حدیث قبول کرلی۔
گھر والوں کے رونے کے وجہ سے میت کو عذاب دیئے جانے کے بیان میں
عبدالرحمن بن بشر، سفیان، عمرو، حضرت ابن ابی ملیکہ (رض) سے روایت ہے کہ وہ ام ابان بنت عثمان کے جنازہ میں تھے باقی حدیث گزر چکی ہے۔
گھر والوں کے رونے کے وجہ سے میت کو عذاب دیئے جانے کے بیان میں
حرملہ بن یحیی، عبداللہ بن وہب، عمرو بن محمد، سالم، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مردے کو زندوں کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے۔
گھر والوں کے رونے کے وجہ سے میت کو عذاب دیئے جانے کے بیان میں
خلف بن ہشام، ابوربیع زہرانی، حماد، ہشام بن عروہ، عروہ سے روایت ہے کہ سیدہ عائشہ (رض) کے پاس ابن عمر (رض) کا قول کہ مردے کو اس کے اہل و عیال کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے، ذکر کیا گیا تو انہوں نے فرمایا اللہ ابوعبدالرحمن پر رحم فرمائے کوئی بات سنی لیکن اس کو یاد نہ رکھ سکے اصل یہ ہے کہ ایک یہودی کا جنازہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے سے گزرا وہ اس پر رو رہے تھے تو آپ ﷺ نے فرمایا تم روتے ہو اور اس کو عذاب دیا جاتا ہے۔
گھر والوں کے رونے کے وجہ سے میت کو عذاب دیئے جانے کے بیان میں
ابوکریب، ابواسامہ، ہشام، حضرت عروہ (رض) سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ (رض) کے پاس ذکر کیا گیا کہ ابن عمر (رض) یہ حدیث نبی ﷺ سے مرفوعاً نقل کرتے ہیں کہ میت کو قبر میں اپنے اہل و عیال کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے تو سیدہ (رض) نے فرمایا وہ بھول گئے ہیں حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے تو یہ فرمایا کہ وہ اپنے گناہ اور خطاؤں کی وجہ سے عذاب پاتا ہے اور اس کے اہل پر جواب رو رہے ہیں، ان کو یہ قول اسی قول کی طرح ہے کہ رسول اللہ ﷺ بدر کے دن کنویں پر کھڑے ہوئے اور اس کنویں میں مشرکین کے بدری مقتول تھے تو آپ ﷺ نے ان کو فرمایا جو فرمایا کہ وہ سنتے ہیں جو میں کہتا ہوں، حالانکہ وہ بھول گئے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا البتہ وہ جانتے ہیں جو میں ان کو کہتا تھا وہ حق ہے پھر سیدہ (رض) نے آیت (اِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى) 27 ۔ النمل : 80) وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ ) 35 ۔ فاطر : 22) تو نہیں سنا سکتا جو مردہ ہیں اور جو قبروں میں ہیں آپ ﷺ ان کو سنانے والے نہیں ہیں اس میں اللہ تعالیٰ ان کے حال کی خبر دیتا ہے کہ وہ دوزخ میں اپنی جگہ پر پہنچ چکے ہیں۔
گھر والوں کے رونے کے وجہ سے میت کو عذاب دیئے جانے کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، وکیع، ہشام، عروہ اسی حدیث کی دوسری سند ذکر کی ہے۔
گھر والوں کے رونے کے وجہ سے میت کو عذاب دیئے جانے کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، مالک بن انس، عبداللہ بن ابوبکر، عمرہ بنت عبدالرحمن (رض) روایت ہے کہ سیدہ عائشہ (رض) کے پاس ذکر کیا گیا کہ ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ میت کو زندوں کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے تو سیدہ عائشہ (رض) نے فرمایا اللہ ابوعبدالرحمن کو معاف فرمائیں انہوں نے جھوٹ نہیں بولا بلکہ وہ بھول گئے یا خطا ہوگئی ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ ایک یہودیہ کے جنازے پر سے گزرے اس پر رویا جا رہا تھا تو آپ ﷺ نے فرمایا یہ لوگ تو اس پر رو رہے ہیں اور اس کو اس کی قبر میں عذاب دیا جا رہا ہے۔
گھر والوں کے رونے کے وجہ سے میت کو عذاب دیئے جانے کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، وکیع، سعید بن عبید طائی، محمد بن قیس، علی بن ربیعہ سے روایت ہے کہ کوفہ میں سب سے پہلے قزعہ بن کعب پر نوحہ کیا گیا تو حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) نے فرمایا میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے تھے جس پر نوحہ کیا گیا اس کو قیامت کے دن نوحہ کئے جانے کی وجہ سے عذاب دیا جائے گا۔
گھر والوں کے رونے کے وجہ سے میت کو عذاب دیئے جانے کے بیان میں
علی بن حجر سعدی، علی بن مسہر، محمد بن قیس اسدی، علی بن ربیعہ اسدی، مغیرہ بن شعبہ (رض) سے اسی حدیث کی دوسری سند ذکر کی ہے۔
گھر والوں کے رونے کے وجہ سے میت کو عذاب دیئے جانے کے بیان میں
ابن ابی عمر، مروان بن معاویہ فزاری، سعید بن عبید طائی، علی بن ربیعہ، مغیرہ بن شعبہ (رض) سے اسی حدیث کی ایک اور سند ذکر کی ہے۔
نوحہ کرنے کی سختی کے ساتھ ممانعت کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، عفان، ابان بن یزید، ح، اسحاق بن منصور، حبان بن ہلال، ابان، یحیی، زید، ابوسلام، حضرت ابومالک اشعری سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا چار باتیں میری امت میں زمانہ جاہلیت کی ایسی ہیں کہ وہ ان کو نہ چھوڑیں گے۔ اپنے حسب پر فخر اور نسب پر طعن کرنا، ستاروں سے پانی کا طلب کرنا اور نوحہ کرنا فرمایا نوحہ کرنے والی اگر اپنی موت سے پہلے توبہ نہ کرے تو قیامت کے دن اس حال میں اٹھے گی کہ اس پر گندھک کا کرتا اور زنگ کی چادر ہوگی۔
نوحہ کرنے کی سختی کے ساتھ ممانعت کے بیان میں
ابن مثنی، ابن ابی عمر، عبدالوہاب، یحییٰ بن سعید، عمرہ، سیدہ عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کے پاس زید بن حارثہ جعفر بن ابی طالب اور عبداللہ بن رواحہ کی شہادت کی خبر پہنچی تو آپ ﷺ پر غم کے آثار نمودار ہوئے فرماتی ہیں کہ میں دروازہ کی درزوں سے دیکھ رہی تھی کہ آپ ﷺ کے پاس ایک آدمی نے آکر عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ حضرت جعفر کی عورتیں رو رہی ہیں۔ آپ ﷺ نے اس کو حکم دیا کہ وہ جا کر ان کو منع کرے، وہ گیا اور آکر عرض کیا کہ انہوں نے نہیں مانا آپ ﷺ نے اس کو دوبارہ حکم دیا کہ وہ جا کر ان کو منع کرے وہ گیا واپس آکر عرض کرنے لگا اللہ کی قسم یا رسول اللہ ﷺ ، وہ ہم پر غالب آگئیں فرماتی ہیں میرا گمان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جاؤ اور ان کے منہ خاک سے بھر دو ، سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے کہا اللہ تیری ناک خاک آلود کرے اللہ کی قسم نہ تو تو رسول اللہ ﷺ کے حکم کی تکمیل کرتا ہے اور نہ رسول اللہ ﷺ کو اس تکلیف سے چھوڑتا ہے۔
نوحہ کرنے کی سختی کے ساتھ ممانعت کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، عبداللہ بن نمیر، ح، ابوطاہر، عبداللہ بن وہب، معاویہ بن صالح، احمد بن ابراہیم دورقی، عبدالصمد، ابن مسلم، یحییٰ بن سعید اس حدیث کی دوسری اسناد ذکر کی ہیں لیکن عبدالعزیز کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو تھکانے سے نہ چھوڑا۔
نوحہ کرنے کی سختی کے ساتھ ممانعت کے بیان میں
ابوربیع زہرانی، حماد، ایوب، محمد، حضرت ام عطیہ (رض) سے روایت ہے کہ ہم سے رسول اللہ ﷺ نے بیعت کے ساتھ اس بات پر بھی اقرار لیا کہ ہم نوحہ نہیں کریں گی لیکن ہم میں سے پانچ عورتوں کے علاوہ کسی نے اس عہد کو پورا نہ کیا میں، ام سلیم، ام علاء، ابی سبرہ کی بیٹی، معاذ کی بیوی، یا ابی سبرہ کی بیٹی اور معاذ کی بیوی۔
نوحہ کرنے کی سختی کے ساتھ ممانعت کے بیان میں
اسحاق بن ابراہیم، ہشام، حفصہ، حضرت ام عطیہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم سے بیعت میں نوحہ نہ کرنے پر بھی عہد لیا لیکن ہم میں سے پانچ عورتوں کے علاوہ کسی نے وعدہ وفا نہ کیا ان میں سے ام سلیم بھی ہیں۔
نوحہ کرنے کی سختی کے ساتھ ممانعت کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، زہیر بن حرب، اسحاق بن ابراہیم، ابومعاویہ، زہیر، محمد بن حازم، عاصم، حفصہ، حضرت ام عطیہ (رض) سے روایت ہے کہ جب آیت (يٰ اَيُّهَا النَّبِيُّ اِذَا جَا ءَكَ الْمُؤْمِنٰتُ يُبَايِعْنَكَ عَلٰ ي اَنْ لَّا يُشْرِكْنَ بِاللّٰهِ شَ يْ ً ا وَّلَا يَسْرِقْنَ وَلَا يَزْنِيْنَ وَلَا يَقْتُلْنَ اَوْلَادَهُنَّ وَلَا يَاْتِيْنَ بِبُهْتَانٍ يَّفْتَرِيْنَه بَيْنَ اَيْدِيْهِنَّ وَاَرْجُلِهِنَّ وَلَا يَعْصِيْنَكَ فِيْ مَعْرُوْفٍ فَبَايِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللّٰهَ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ) 60 ۔ الممتحنہ : 12) نازل ہوئی تو فرماتی ہیں ان میں نوحہ کرنے سے بھی منع کیا گیا ام عطیہ فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ فلاں قبیلہ والوں نے جاہلیت میں نوحہ پر میرا ساتھ دیا تھا تو کیا میرے لئے ان کا ساتھ دینا لازمی ہے تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہاں آل فلاں (تیرے لئے) مستثنٰی ہیں۔
عورتوں کے لئے جنازہ کے پیچھے جانے کی ممانعت کے بیان میں
یحییٰ بن ایوب، ابن علیہ، ایوب، محمد بن سیرین، حضرت ام عطیہ (رض) سے روایت ہے کہ ہمیں جنازوں کے ساتھ جانے سے روکا جاتا تھا لیکن اس کو ہم پر لازم نہ کیا گیا۔
عورتوں کے لئے جنازہ کے پیچھے جانے کی ممانعت کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابواسامہ، ح، اسحاق بن ابراہیم، عیسیٰ بن یونس، ہشام، حفصہ، حضرت ام عطیہ (رض) سے روایت ہے ہمیں جنازوں کے ساتھ جانے سے منع کیا گیا لیکن ہم پر اس میں سختی نہ کی گئی۔
میت کو غسل دینے کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، یزید بن زریع، ایوب، محمد بن سیرین، حضرت ام عطیہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور ہم آپ ﷺ کی بیٹی کو نہلا رہی تھیں تو آپ ﷺ نے فرمایا اس کو پانی اور بیری کے پتوں کے ساتھ تین یا پانچ بار نہلاؤ یا اس سے زیادہ بار، اگر تم مناسب سمجھو تو آخری بار پانی میں کچھ کافور بھی ملا لینا جب تم فارغ ہوجاؤ تو مجھے اطلاع دے دینا جب ہم فارغ ہوگئیں تو ہم نے آپ ﷺ کو اطلاع دی تو آپ ﷺ نے اپنا تہبند ہماری طرف پھینک دیا فرمایا کہ اس کو سارے کفن سے نیچے لپیٹ دو ۔
میت کو غسل دینے کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، یزید بن زریع، ایوب، محمد بن سیرین، حفصہ بنت سیرین، حضرت ام عطیہ (رض) سے روایت ہے کہ ہم نے کنگھی کر کے ان کے بالوں کی تین مینڈھیاں کیں۔
میت کو غسل دینے کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، مالک بن انس، ح، ابوربیع زہرانی، قتیبہ بن سعید، حماد، ح، یحییٰ بن ایوب، ابن علیہ، محمد، حضرت ام عطیہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کی بنات میں سے کسی ایک کا انتقال ہوگیا اور ابن علیہ کی حدیث میں ہے فرماتی ہیں رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور ہم آپ ﷺ کی بیٹی کو غسل دے رہی تھیں اور مالک کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہم پر داخل ہوئے جب آپ ﷺ کی بیٹی کا انتقال ہوا۔
میت کو غسل دینے کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، حماد، ایوب، حفصہ، حضرت ام عطیہ (رض) سے روایت ہے کہ اسی طرح مروی ہے سوائے اس کے کہ آپ ﷺ نے فرمایا تین یا پانچ یا سات یا اس سے زیادہ اگر تم مناسب سمجھو تو حضرت حفصہ نے ام عطیہ سے روایت کی ہے کہ ہم نے ان کے سر کے بالوں کی تین لڑیاں کردیں۔
میت کو غسل دینے کے بیان میں
یحییٰ بن ایوب، ابن علیہ، ایوب، حفصہ، حضرت ام عطیہ (رض) سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا اس کو طاق اعداد میں یعنی تین یا پانچ یا سات بار غسل دو ۔ ام عطیہ (رض) فرماتی ہیں ہم نے کنگھی کی اور تین لڑیاں بنادیں۔
میت کو غسل دینے کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، عمر وناقد، ابومعاویہ، محمد بن حازم، ابومعاویہ، عاصم احول، حفصہ بنت سیرین، حضرت ام عطیہ (رض) سے روایت ہے کہ حضرت زینب (رض) بنت رسول اللہ ﷺ فوت ہوگئیں تو ہمیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ان کو طاق یعنی تین یا پانچ مرتبہ غسل دینا اور پانچویں مرتبہ کافور یا کچھ کافور ملا لینا جب تم اس کو غسل دے لو تو مجھے خبر دے دو ہم نے آپ ﷺ کو خبر دی تو آپ ﷺ نے اپنا تہبند عطا کیا اور فرمایا اس کو ان کے کفن سے نیچے لپیٹ دو ۔
میت کو غسل دینے کے بیان میں
عمر وناقد، یزید بن ہارون، ہشام بن حسان، حفصہ بنت سیرین، حضرت ام عطیہ (رض) سے روایت ہے کہ ہمارے پاس رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور ہم آپ ﷺ کی بیٹیوں میں سے ایک کو غسل دے رہی تھیں آپ ﷺ نے فرمایا اس کو طاق مرتبہ یعنی پانچ یا اس سے زیادہ مرتبہ غسل دینا فرماتی ہیں کہ ہم نے اس کے بالوں کو تین حصوں میں تقسیم کر کے ان کی تین مینڈھیاں کردیں کنپٹیوں پر اور پیشانی پر۔
میت کو غسل دینے کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، ہشیم، خالد، حفصہ بنت سیرین، حضرت ام عطیہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب ہم سے اپنی بیٹی کو غسل دینے کا حکم دیا تو فرمایا دائیں طرف سے شروع کرو اور وضو کے اعضاء سے ابتداء کرو۔
میت کو غسل دینے کے بیان میں
یحییٰ بن ایوب، ابوبکر بن ابی شیبہ، عمرو ناقد، ابن علیہ، خالد، حفصہ، حضرت ام عطیہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں آپ ﷺ کی بیٹی کے غسل میں فرمایا کہ دائیں طرف اور وضو کے اعضاء سے شروع کرو۔
میت کو کفن دینے کے بیان میں
یحییٰ بن یحییٰ تمیمی، ابوبکر بن ابی شیبہ، محمد بن عبداللہ بن نمیر، ابوکریب، ابومعاویہ، اعمش، شقیق بن سلمہ، حضرت خباب بن ارت (رض) سے روایت ہے کہ ہم نے اللہ کی رضا طلب کرتے ہوئے اللہ کے رسول ﷺ کے ساتھ ہجرت کی، ہمارا ثواب اللہ پر ہے تو ہم میں سے بعض گزر گئے جنہوں نے اپنے ثواب میں سے کچھ بھی دنیا میں حاصل نہ کیا ان میں سے مصعب بن عمیر (رض) احد کے دن شہید کئے گئے ان کے کفن کے لئے ایک چھوٹی سی چادر کے سوا کوئی چیز نہ پائی گئی اس کو جب ہم ان کے سر پر ڈالتے تو ان کے پاؤں نکل جاتے اور جب ہم آپ کے پاؤں پر ڈالتے تو سر نکل جاتا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا چادر سر پر ڈال دو اور اس کے پاؤں پر اذخر گھاس ڈال دو اور ہم میں سے کچھ ایسے ہیں کہ اس کا پھل پک گیا اور وہ اس میں سے چن چن کر توڑ رہے ہیں۔
میت کو کفن دینے کے بیان میں
عثمان بن ابی شیبہ، جریر، ح، اسحاق بن ابراہیم، عیسیٰ بن یونس، ح، منجاب بن حارث تمیمی، علی بن مسہر، ح، اسحاق بن ابراہیم، ابن ابی عمر، ابن عیینہ، اعمش اسی حدیث کی دوسری اسناد ذکر کردی ہیں۔
میت کو کفن دینے کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب، ابومعاویہ، ہشام، عروہ، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو تین سفید سحولی کپڑوں میں کفن دیا گیا جو روئی کے تھے، اس میں قمیض تھی، نہ عمامہ اور رہا حلہ، اس میں ہم کو شبہ ہوگیا، حالانکہ وہ آپ ﷺ کے لئے خریدا گیا تھا تاکہ اس میں آپ ﷺ کو کفن دیں لیکن اس حلہ کو چھوڑ دیا گیا اور آپ ﷺ کو تین سفید سحولی کپڑوں میں کفن دیا گیا اور وہ حلہ عبداللہ بن ابی بکر نے لے لیا اور کہا کہ میں اس کو رکھوں گا تاکہ مجھے اسی میں کفن دیا جائے پھر کہنے لگے اگر اللہ کو اپنے نبی کے کفن میں یہ پسند ہوتا تو آپ کو اسی میں کفن دیا جاتا پھر اس کو بیچ دیا اور اس کی قیمت خیرات کردی۔
میت کو کفن دینے کے بیان میں
علی بن حجری سعدی، علی بن مسہر، ہشام بن عروہ، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو یمنی حلہ میں لپیٹا گیا جو حضرت عبداللہ بن ابوبکر (رض) کا تھا پھر وہ آپ ﷺ سے ہٹا لیا گیا اور آپ ﷺ کو تین سحولی یمنی کپڑوں میں کفن دیا گیا ان میں عمامہ اور قمیض نہ تھی حضرت عبداللہ (رض) نے وہ حلہ اٹھایا اور کہنے لگے مجھے اس میں کفن دیا جائے گا پھر فرمانے لگے کیا جس میں رسول اللہ ﷺ کو کفن نہیں دیا گیا مجھے اس کا کفن دیا جائے ؟ پھر اس کو خیرات کردیا۔
میت کو کفن دینے کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، حفص بن غیاث، ابن عیینہ، ابن ادریس، عبدہ، وکیع، ح، یحییٰ بن یحیی، عبدالعزیزبن محمد، ہشام اسی حدیث کی دوسری سند ذکر کردی ہے لیکن اس میں عبداللہ بن ابوبکر (رض) کا قصہ نہیں ہے۔
میت کو کفن دینے کے بیان میں
ابن ابی عمر، عبدالعزیز، یزید، محمد بن ابراہیم، حضرت ابوسلمہ (رض) سے روایت ہے کہ میں نے ام المؤمنین حضرت عائشہ (رض) سے پوچھا رسول اللہ ﷺ کو کتنے کپڑوں میں کفن دیا گیا تو انہوں نے ارشاد فرمایا تین سحولی کپڑوں میں۔
میت کو کپڑے کے ساتھ ڈھانپ دینے کے بیان میں
زہیر بن حرب، حسن حلوانی، عبد بن حمید، ابراہیم بن سعد، صالح، ابن شہاب، ابوسلمہ بن عبدالرحمن، حضرت عائشہ (رض) ام المومنین سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب وفات پائی تو آپ ﷺ کو ایک منقش یمنی کپڑے سے ڈھانپ دیا گیا۔
میت کو کپڑے کے ساتھ ڈھانپ دینے کے بیان میں
اسحاق بن ابراہیم، عبد بن حمید، عبدالرزاق، معمر، ح، عبداللہ بن عبدالرحمن دارمی، ابوالیمان، شعیب، زہری اسی حدیث کو حضرت زہری نے دوسری سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔
میت کو اچھے کپڑوں کا کفن دینے کا بیان میں
ہارون بن عبداللہ، حجاج بن شاعر، حجاج بن محمد، ابن جریج، ابوالزبیر، حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک دن نبی ﷺ نے خطبہ دیا تو اپنے صحابہ میں سے ایک آدمی کا ذکر کیا کہ ان کا انتقال ہوا اور ان کو کامل الستر کفن نہ دیا گیا اور رات کو دفن کردیا گیا تو نبی ﷺ نے رات کو بغیر نماز کے دفن کرنے پر ڈانٹا الاّ یہ کہ انسان لاچار ہوجائے اور نبی ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو کفن دے تو اچھا کفن دے۔
جنازہ جلدی لے جانے کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، زہیر بن حرب، ابن عیینہ، سفیان بن عیینہ، زہری، سعید، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا جنازہ کو جلدی لے چلو پس اگر وہ نیک ہے تو اس کو خیر کی طرف جلدی پہنچا اور اگر اس کے علاوہ بد ہے تو تم اس کو اپنی گردنوں سے اتار دو ۔
جنازہ جلدی لے جانے کے بیان میں
محمد بن رافع، عبد بن حمید، عبدالرزاق، معمر، یحییٰ بن حبیب، روح بن عبادہ، محمد بن ابی حفصہ، زہری، سعید، ابوہریرہ اسی حدیث کی دوسری اسناد ذکر کردی ہیں۔
جنازہ جلدی لے جانے کے بیان میں
ابوطاہر، حرملہ بن یحیی، ہارون بن سعید ایلی، ہارون، ابن وہب، یونس بن یزید، ابن شہاب، ابوامامہ بن سہل بن حنیف، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا جنازہ کو جلد لے چلو اگر وہ نیک تھا تو اس کو بھلائی کے قریب کردو اور اگر وہ اس کے علاوہ بدکار تھا تو اس شر کو اپنی گردنوں سے اتار دو گے۔
جنازہ پر نماز پڑھنے اور اس کے پیچھے چلنے والوں کی فضلیت کے بیان میں
ابوطاہر، حرملہ بن یحیی، ہارون بن سعید ایلی، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، عبدالرحمن بن ہرمز، اعرج، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو آدمی جنازہ میں حاضر ہوا یہاں تک کہ نماز جنازہ ادا کی تو اس کے لئے ایک قیراط ثواب ہے اور جو اس کے دفن تک موجود رہا اس کے لئے دو قیراط ثواب ہے عرض کیا گیا دو قیراط کیا ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا دو بڑے پہاڑوں کی مانند، حضرت ابن عمر (رض) نماز جنازہ پڑھا کر واپس آجاتے جب ان کو حدیث ابوہریرہ (رض) پہنچی تو فرمایا ہم نے بہت سے قیراط ضائع کردیے۔
جنازہ پر نماز پڑھنے اور اس کے پیچھے چلنے والوں کی فضلیت کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، عبدالاعلی، ابن رافع، عبد بن حمید، عبدالرزاق، معمر، زہری، سعید بن مسیب، حضرت ابوہریرہ (رض) نے نبی ﷺ سے دو بڑے پہاڑوں تک حدیث بیان کی اس کے بعد ذکر نہیں کیا عبدالاعلی کی حدیث میں فراغت اور عبدالرزاق کی حدیث میں لحد میں رکھنے کا ذکر ہے مطلب دونوں کا ایک ہے۔
جنازہ پر نماز پڑھنے اور اس کے پیچھے چلنے والوں کی فضلیت کے بیان میں
عبدالملک بن شعیب بن لیث، عقیل بن خالد، ابن شہاب، حضرت ابوہریرہ (رض) سے معمر کی حدیث مبارکہ کی طرح نبی ﷺ سے حدیث مبارکہ مروی ہے اور فرمایا جو جنازہ کے پیچھے چلا یہاں تک دفن کردیا گیا۔
جنازہ پر نماز پڑھنے اور اس کے پیچھے چلنے والوں کی فضلیت کے بیان میں
محمد بن حاتم، بہز، وہب، سہیل، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جس نے نماز جنازہ ادا کی اور اس کے پیچھے نہ چلا تو اس کے لئے ایک قیراط ہے اور اگر اس کے پیچھے گیا تو اس کے لئے دو قیراط ہیں عرض کیا گیا دو قیراط کیا ہیں ؟ فرمایا ان دونوں میں سے چھوٹا احد پہاڑ کے برابر ہے۔
جنازہ پر نماز پڑھنے اور اس کے پیچھے چلنے والوں کی فضلیت کے بیان میں
محمد بن حاتم، یحییٰ بن سعید، یزید بن کیسان، ابوحازم، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا جس نے جنازہ پر نماز ادا کی اس کے لئے ایک قیراط اور جو اس کے ساتھ قبر میں رکھنے تک رہا اس کے لئے دو قیراط ثواب ہوا، ابوحازم کہتے ہیں میں نے کہا اے ابوہریرہ (رض) قیراط کیا ؟ فرمایا احد کی مثل۔
جنازہ پر نماز پڑھنے اور اس کے پیچھے چلنے والوں کی فضلیت کے بیان میں
شیبان بن فروخ، جریر، ابن حازم، نافع، ابن عمر، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا جو جنازے کے ساتھ چلا اس کے لئے ثواب سے ایک قیراط مزید ہے تو ابن عمر (رض) نے فرمایا کہ ابوہریرہ (رض) نے ہم سے زیادہ بیان کیا ہے تو ابن عمر (رض) نے سیدہ عائشہ (رض) کے پاس کسی آدمی کو بھیجا اور اس نے سیدہ سے پوچھا تو انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) کی تصدیق کی تو حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا ہم نے بہت سے قیراطوں کا نقصان کیا۔
جنازہ پر نماز پڑھنے اور اس کے پیچھے چلنے والوں کی فضلیت کے بیان میں
محمد بن عبداللہ بن نمیر، عبداللہ بن یزید، حیوہ، ابوصخرہ، یزید بن عبداللہ بن قسیط، داود بن حضرت عامر بن سعد (رض) سے روایت ہے کہ وہ ابن عمر (رض) کے پاس بیٹھے تھے کہ صاحب المقصورہ حضرت خباب تشریف لائے اور کہا اے ابن عمر ( (رض) کیا آپ نے ابوہریرہ (رض) کی حدیث سنی ہے کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا جو جنازہ کے ساتھ اس کے گھر سے چلا اور جنازہ ادا کیا پھر اس کے پیچھے دفن تک چلا تو اس کے لئے ثواب کے دو قیراط ہوں گے اور ہر قیراط احد کی مثل اور جس نے جنازہ ادا کیا پھر واپس آگیا تو اس کے لئے احد کی مثل ثواب ہوگا ابن عمر (رض) نے خباب کو سیدہ عائشہ (رض) کے پاس بھیجا کہ ان سے حضرت ابوہریرہ (رض) کے اس قول کے بارے میں پوچھیں پھر واپس آکر ان کو خبر دیں کہ سیدہ (رض) نے کیا فرمایا اور ابن عمر (رض) ایک مٹھی مسجد کی کنکریاں لئے اپنے ہاتھ میں الٹ پلٹ رہے تھے کہ قاصد واپس آگئے کہا کہ عائشہ (رض) نے فرمایا ہے کہ ابوہریرہ (رض) نے سچ کہا ہے تو ابن عمر (رض) نے اپنے ہاتھ کی کنکریوں کو زمین پر مارا اور پھر فرمایا ہم نے بہت سے قیراطوں کا نقصان کیا۔
جنازہ پر نماز پڑھنے اور اس کے پیچھے چلنے والوں کی فضلیت کے بیان میں
محمد بن بشار، یحییٰ بن سعید، شعبہ، قتادہ، سالم بن ابوالجعد، معدان بن ابوطلحہ الیعمری، حضرت ثوبان مولیٰ رسول اللہ ﷺ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے نماز جنازہ ادا کی اس کے لئے ایک قیراط ہے اور اگر اس کے دفن میں بھی شریک ہوا تو اس کے لئے دو قیراط ہیں اور قیراط احد کی مثل ہے۔
جنازہ پر نماز پڑھنے اور اس کے پیچھے چلنے والوں کی فضلیت کے بیان میں
محمد بن بشار، معاذ بن ہشام، ابن المثنی، ابن ابی عدی، سعید، زہیر بن حرب، عفان، ابان، قتادہ، حضرت ہشام، حضرت سعد (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ سے قیراط کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ ﷺ نے احد کی مثل فرمایا۔
جس جنازہ میں سو آدمی نماز پڑھیں اس میں اس کے لئے سفارش کریں تو وہ قبول ہوتی ہے۔
حسن بن عیسیٰ ، مبارک، سلام بن ابومطیع، ایوب، ابوقلابہ، عبداللہ بن یزید، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کوئی میت ایسی نہیں جس کی نماز جنازہ مسلمانوں میں سے ایک جماعت ادا کرے جن کی تعداد سو ہوجائے اور سارے کے سارے اس کے لئے سفارش کریں اور ان کی سفارش اس کے حق میں قبول نہ کی جاتی ہو راوی کہتے ہیں میں نے یہ حدیث شعیب بن حجاب سے بیان کی تو انہوں نے فرمایا مجھے یہی حدیث انس بن مالک (رض) نے نبی کریم ﷺ سے بیان کی۔
جس آدمی کے جنازہ پر چالیس آدمی نماز پڑھیں اور اس کی سفارش کریں تو ان کی سفارش اس کے حق میں قبول ہوتی ہے۔
ہارون بن معروف، ہارون بن سعید ایلی، ولید بن شجاع سکونی، ولید، ابن وہب، ابوصخر، شریک بن عبداللہ بن ابونمر، حضرت کریب مولیٰ ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ ابن عباس (رض) کے ایک بیٹے کا مقام قدید یا عسفان میں انتقال ہوگیا تو آپ (رض) نے فرمایا کریب ! دیکھو اس کے لئے کتنے لوگ جمع ہوئے ہیں میں نکلا تو لوگ جمع ہوچکے تھے میں نے ان کو اس کی خبر دی تو انہوں نے کہا تمہارے اندازے میں وہ چالیس ہیں ؟ فرماتے ہیں جی ہاں ! ابن عباس (رض) نے فرمایا میت نکال لاؤ۔ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے تھے اگر کوئی مسلمان فوت ہوجائے اس کے جنازہ پر چالیس ایسے آدمی شریک ہوجائیں جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنے والے نہ ہوں تو اللہ ان کی سفارش اس میت کے حق میں قبول فرماتے ہیں۔
مردوں میں سے جس کی بھلائی کی تعریف اور برائی بیان کی جائے۔
یحییٰ بن ایوب، ابوبکر بن ابی شیبہ، زہیر بن حرب، علی بن حجر السّعدی، ابن علیہ، عبدالعزیزبن صہیب، حضرت انس بن مالک (رض) روایت ہے کہ جنازہ کے گزرنے پر لوگوں نے اس کا ذکر خیر کے ساتھ کیا تو نبی ﷺ نے فرمایا واجب ہوگئی واجب ہوگئی واجب ہوگئی اور دوسرا جنازہ گزرا تو اس کا ذکر برائی کے ساتھ کیا گیا تو اللہ کے نبی نے فرمایا واجب ہوگئی واجب ہوگئی واجب ہوگئی، حضرت عمر (رض) نے عرض کیا میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان ہوں ایک جنازہ گزرا اور اس کی نیکی کی تعریف کی گئی اور آپ ﷺ نے فرمایا واجب ہوگئی واجب ہوگئی واجب ہوگئی اور دوسرا جنازہ گزرا تو اس کا ذکر برائی کے ساتھ کیا گیا تو آپ نے فرمایا واجب ہوگئی واجب ہوگئی واجب ہوگئی ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس کا ذکر تم نے بھلائی کے ساتھ کیا اس کے لئے جنت واجب ہوگئی اور جس کا ذکر تم نے برائی کے ساتھ کیا اس کے لئے دوزخ واجب ہوگئی تم زمین پر اللہ کے گواہ ہو تم زمین پر اللہ کے گواہ ہو۔
مردوں میں سے جس کی بھلائی کی تعریف اور برائی بیان کی جائے۔
ابوالربیع الزہرانی، حماد بن زید، یحییٰ بن یحیی، جعفربن سلیمان، ثابت، حضرت انس (رض) سے یہی حدیث دوسری اسناد سے بھی ذکر کی گئی ہے دوسری اسناد مذکور ہیں۔
آرام پانے والے یا اس سے راحت حاصل کرنے والے کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، مالک بن انس، محمد بن عمرو بن حلحلہ، معبد بن کعب بن مالک، حضرت ابوقتادہ (رض) بن ربعی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو آپ ﷺ نے فرمایا آرام پانے والا ہے یا اس سے آرام پایا گیا ہے صحابہ (رض) نے عرض کیا مستریح و مستراح منہ سے کیا مراد ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا مومن آدمی دنیا کی مصیبتوں سے آرام پاتا ہے اور فاجر و بدکار آدمی سے بندے شہر درخت اور جانور آرام پاتے ہیں۔
آرام پانے والے یا اس سے راحت حاصل کرنے والے کے بیان میں
محمد بن المثنی، یحییٰ بن سعید، اسحاق بن ابراہیم، عبدالرزاق، عبداللہ بن سعید بن ابی ہند، محمد بن عمرو، ابن کعب بن مالک حضرت ابوقتادہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا دنیا کی تکالیف اور مصائب سے اللہ کی رحمت کی طرف راحت حاصل کی۔
جنازہ پر تکبیرات کہنے کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، مالک، ابن شہاب، سعید بن المسیب، حضرت ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو اطلاع دی جس دن نجاشی کا انتقال ہو آپ ﷺ ان کے لئے عیدگاہ کی طرف تشریف لے گئے اور چار تکبیریں کہیں۔ (نماز جنازہ ادا کی)
جنازہ پر تکبیرات کہنے کے بیان میں
عبدالملک بن شعیب بن اللیث، عقیل بن خالد، ابی شہاب، سعید بن المسیب اور ابوسلمہ بن عبدالرحمن، حضرت ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حبشہ کے بادشاہ نجاشی کی موت کی خبر اس کی موت کے دن دی تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا اپنے بھائی کے لئے معافی مانگو، ابن شہاب نے کہا مجھ سے سعید بن مسیب (رض) نے حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ کے ساتھ عیدگاہ میں صف باندھی نماز جنازہ پڑھی اور اس پر چار تکبیرات کہیں۔
جنازہ پر تکبیرات کہنے کے بیان میں
عمرو ناقد، حسن حلوانی، عبد بن حمید، یعقوب بن ابراہیم بن سعد، ابوصالح، ابن شہاب سے اسی حدیث کی دوسری سند مذکور ہے۔
جنازہ پر تکبیرات کہنے کے بیان میں
ابوبکر بن ابوشیبہ، یزید بن ہارون، سلیم بن حبان، سعید بن میناء، حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اصحمہ نجاشی کی نماز جنازہ پڑھی تو اس پر چار تکبیرات کہیں۔
جنازہ پر تکبیرات کہنے کے بیان میں
محمد بن حاتم، یحییٰ بن سعید، ابن جریج، عطاء، حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا آج کے دن اللہ کا نیک بندہ اصحمہ فوت ہوگیا آپ ﷺ کھڑے ہوئے ہماری امامت کی اور اس پر نماز پڑھی۔
جنازہ پر تکبیرات کہنے کے بیان میں
محمد بن عبید الغبری، حماد، ایوب، ابوالزبیر، جابر بن عبداللہ، یحییٰ بن ابوب، ابن علیہ، ایوب، ابوزبیر، حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تمہارا بھائی فوت ہوچکا ہے کھڑے ہوجاؤ اور اس پر نماز پڑھو ہم کھڑے ہوئے اور ہم نے دو صفیں بنائیں۔
جنازہ پر تکبیرات کہنے کے بیان میں
زہیربن حرب و علی بن حجر، اسماعیل، یحییٰ بن ایوب، ابن علیہ، ایوب، ابوقلابہ، ابوالمہلب، حضرت عمران بن حصین (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تمہارا بھائی یعنی نجاشی فوت ہوگیا کھڑے ہوجاؤ اور اس پر نماز جنازہ پڑھو۔
قبر پر نماز جنازہ کے بیان میں
حسن بن الربیع و محمد بن عبداللہ بن نمیر، عبداللہ بن ادریس، شیبانی، حضرت شعبی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قبر پر دفن کے بعد نماز جنازہ ادا کی اور اس پر چار تکبیرات کہیں ابن نمیر کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک نئی قبر پر پہنچے اور اس پر نماز جنازہ ادا کی اور صحابہ نے آپ ﷺ کے پیچھے نماز ادا کی اور آپ ﷺ نے چار تکبیرات کہیں۔
قبر پر نماز جنازہ کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، ہشیم، حسن ربیع، ابوکامل، عبدالواحد بن زیاد، اسحاق بن ابراہیم، جریر، محمد بن حاتم، وکیع، سفیان، عبیداللہ بن معاذ، محمد بن مثنی، محمد بن جعفر، شعبہ، شیبانی، شعبی، ابن عباس (رض) سے اس کی دوسری اسناد ذکر کی ہیں۔
قبر پر نماز جنازہ کے بیان میں
اسحاق بن ابراہیم و ہارون بن عبداللہ، وہب بن جریر، شعبہ، اسماعیل بن ابی خالد، ابوغسان المسمعی محمد بن عمرو الرازی، یحییٰ بن الضریس، ابراہیم بن طہمان، ابوحصین، الشعبی حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے قبر پر نماز جنازہ پڑھی اور چار تکبیرات کہیں۔
قبر پر نماز جنازہ کے بیان میں
ابراہیم بن محمد بن عرعرہ السامی، غندر، شعبہ، حبیب بن شہید، ثابت، حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے قبر پر نماز جنازہ پڑھی۔
قبر پر نماز جنازہ کے بیان میں
ابوالربیع الزہری و ابوکامل فضیل بن حسین الجحدری، حماد بن زید، ثابت البنانی، رافع، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک عورت مسجد کی خدمت کیا کرتی تھی یا ایک جوان، رسول اللہ ﷺ نے اسے گم پایا تو اس کے متعلق سوال کیا صحابہ نے عرض کیا کہ اس کا انتقال ہوگیا ہے آپ ﷺ نے فرمایا تم نے مجھے اطلاع کیوں نہ دی ؟ فرمایا گویا کہ انہوں نے اس کے معاملہ کو اہمیت نہ دی تو آپ ﷺ نے فرمایا مجھے اس کی قبر کی رہنمائی کرو آپ ﷺ کو بتایا گیا تو آپ ﷺ نے اس پر نماز پڑھی پھر فرمایا یہ قبریں ان پر اندھیرے سے بھرئی ہوئی تھیں بیشک اللہ ان کو میری نماز کی وجہ سے روشن کر دے گا۔
قبر پر نماز جنازہ کے بیان میں
ابوبکر بن ابوشیبہ و محمد بن المثنی و ابن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، ابوبکر، عمرو بن مرہ، حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلی سے روایت ہے کہ حضرت زید (رض) جنازوں پر چار تکبیرات کہتے تھے اور ایک دفعہ پانچ تکبیرات کہیں تو میں نے پوچھا تو انہوں نے فرمایا رسول اللہ ﷺ پانچ تکبیرات کہتے تھے (لیکن پانچ تکبیرات اب بالاجماع منسوخ ہیں) ۔
جنازہ کے لئے کھڑے ہوجانے کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، عمروناقد، زہیر بن حرب، ابن نمیر، سفیان، زہری، سالم حضرت عامر بن ربیعہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم جنازہ دیکھو تو اس کے لئے کھڑے ہوجاؤ یہاں تک کہ تم سے آگے چلا جائے یا رکھ دیا جائے۔
جنازہ کے لئے کھڑے ہوجانے کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، لیث، ابن رمح، لیث، حرملہ، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، یونس، قتیبہ بن سعید، لیث، ابن رمح، لیث، نافع، ابن عمر، اس حدیث کی دوسری اسناد ذکر کی ہیں حضرت عامر (رض) بن ربیعہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کوئی جنازہ دیکھے تو اگر اس کے ساتھ چلنے والا نہ ہو تو چاہیے کہ ٹھہر جائے یہاں تک کہ جنازہ آگے چلا جائے یا آگے جانے سے پہلے رکھ دیا جائے۔
جنازہ کے لئے کھڑے ہوجانے کے بیان میں
ابوکامل، حماد، یعقوب بن ابراہیم، اسماعیل، ایوب، ابن مثنی، یحییٰ بن سعید، عبیداللہ، ابن عدی، ابن عون، محمد بن رافع، عبدالرزاق، ابن جریح، نافع، لیث بن سعد، ابن جریح، اسی حدیث کی دوسری اسناد ذکر کی ہیں نبی ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی جنازہ دیکھے تو کھڑا ہوجائے یہاں تک کہ وہ آگے چلا جائے اگر اس کے ساتھ جانے کا ارادہ نہ ہو۔
جنازہ کے لئے کھڑے ہوجانے کے بیان میں
عثمان بن ابی شیبہ، جریر، ابوصالح، ابوسعید خدری، حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم جنازہ کے ساتھ جاؤ تو اس کو اتار کر رکھنے سے پہلے مت بیٹھو۔
جنازہ کے لئے کھڑے ہوجانے کے بیان میں
سریج بن یونس، علی بن حجر، اسماعیل ابن علیہ، ہشام دستوائی، محمد بن مثنی، معاذ، ابن ہشام، یحییٰ بن ابی کثیر، ابوسلمہ بن عبدالرحمن، حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جب تم جنازہ دیکھو تو کھڑے ہوجاؤ جو جنازہ کے ساتھ جائے وہ اس کو رکھنے سے پہلے نہ بیٹھے۔
جنازہ کے لئے کھڑے ہوجانے کے بیان میں
سریج بن یونس، علی بن حجر، اسماعیل ابن علیہ، ہشام دستوائی، یحییٰ بن ابی کثیر، عبیداللہ بن مقسم، حضرت جابر (رض) بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ آپ ﷺ کے پاس سے ایک جنازہ گزرا اس کی وجہ سے آپ ﷺ کھڑے ہوگئے ہم بھی آپ ﷺ کے ساتھ کھڑے ہوئے ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ تو یہودی کا جنازہ ہے تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا موت گھبراہٹ ہے جب تم جنازہ دیکھو تو کھڑے ہوجاؤ۔
جنازہ کے لئے کھڑے ہوجانے کے بیان میں
محمد بن رافع، عبدالرزاق، ابن جریج، ابوزبیر، حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ نبی ایک جنازہ کے لئے جو آپ ﷺ کے پاس سے گزرا تو آپ ﷺ کھڑے ہوگئے یہاں تک کہ وہ چھپ گیا۔
جنازہ کے لئے کھڑے ہوجانے کے بیان میں
محمد بن رافع، عبدالرزاق، ابن جریج، ابوزبیر، حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کے اصحاب (رض) ایک یہودی کے جنازہ کے لئے کھڑے ہوئے یہاں تک کہ وہ چھپ گیا۔
جنازہ کے لئے کھڑے ہوجانے کے بیان میں
ابوبکر بن ابوشیبہ، غندر، شعبہ، محمد بن مثنی، ابن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، عمرو بن مرہ، حضرت ابن ابی لیلی سے روایت ہے کہ قیس بن سعد اور سہل بن حنیف قادسیہ میں تھے کہ ان کے پاس سے ایک جنازہ گزرا وہ دونوں کھڑے ہوگئے تو ان سے کہا گیا کہ یہ اسی زمین والوں میں سے ہے یعنی کافر ہے تو ان دونوں نے کہا رسول اللہ ﷺ کے پاس سے ایک جنازہ گزرا آپ ﷺ کھڑے ہوئے تو آپ ﷺ سے کہا گیا کہ وہ یہودی ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا کیا (اس میں) روح نہ تھی۔
جنازہ کے لئے کھڑے ہوجانے کے بیان میں
قاسم بن زکریاء، عبیداللہ بن موسی، شیبان، اعمش، عمرو بن مرہ، دوسری سند ذکر کردی ہے اس میں ہے کہ اعمش اور عمرو بن مرہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے کہ ہمارے پاس سے جنازہ گزرا۔
جنازہ کو دیکھ کر کھڑے ہونے کے منسوخ ہونے کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، لیث، محمد بن رمح بن مہاجر، لیث، یحییٰ بن سعید، حضرت واقد بن عمرو بن سعد بن معاذ سے روایت ہے کہ مجھے نافع بن جبیر (رض) نے دیکھا اور ہم ایک جنازہ کے ساتھ کھڑے تھے اور حضرت نافع بیٹھے ہوئے جنازہ کے رکھے جانے کا انتظار کر رہے تھے انہوں نے مجھے کہا تجھے کس چیز نے کھڑا کیا تو میں نے کہا میں جنازہ رکھے جانے کو انتظار کر رہا ہوں اس حدیث کی وجہ سے جو ابوسعید بیان کرتے ہیں تو نافع نے کہا مجھے مسعود بن حکم نے علی بن ابی طالب (رض) سے روایت بیان کی کہ انہوں نے فرمایا رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے پھر بیٹھ گئے۔
جنازہ کو دیکھ کر کھڑے ہونے کے منسوخ ہونے کے بیان میں
محمد بن مثنی، اسحاق بن ابرہیم، ابن ابوعمر، ابن مثنی، عبدالوہاب یحییٰ بن سعید، واقد بن عمرو بن سعد بن معاذ انصاری، نافع بن جبیر، حضرت مسعود (رض) بن حکم سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت علی (رض) کو جنازوں کے بارے میں فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ کھڑے ہوئے پھر بیٹھ گئے یہ حدیث اس لئے روایت کی کیونکہ نافع بن جبیر (رض) نے واقد بن عمرو کو دیکھا کہ وہ جنازہ کے رکھے جانے تک کھڑے رہے۔
جنازہ کو دیکھ کر کھڑے ہونے کے منسوخ ہونے کے بیان میں
ابوکریب، ابوزائدہ، یحییٰ بن سعید، اسی حدیث کی دوسری سند ذکر کی ہے۔
جنازہ کو دیکھ کر کھڑے ہونے کے منسوخ ہونے کے بیان میں
زہیر بن حرب، عبدالرحمن بن مہدی، شعبہ، محمد بن منکدر، مسعود بن حکم، حضرت علی (رض) سے روایت ہے کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کو کھڑے ہوئے دیکھا تو ہم بھی کھڑے ہوگئے آپ ﷺ بیٹھے تو ہم بھی بیٹھ گئے یعنی جنازے میں۔
جنازہ کو دیکھ کر کھڑے ہونے کے منسوخ ہونے کے بیان میں
محمد بن ابوبکر مقدمی، عبیداللہ بن سعید یحیی، قطا ن، شعبہ، اس حدیث کی دوسری سند ذکر کی ہے۔
جنازہ کو دیکھ کر کھڑے ہونے کے منسوخ ہونے کے بیان میں
ہارون بن سعید ایلی، وہب، معاویہ بن صالح، حبیب بن عبید، جبیر بن نفیر، حضرت عوف بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز جنازہ پڑھی تو میں نے آپ ﷺ کی دعاؤں میں سے یاد کیا آپ ﷺ فرماتے تھے (اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ وَارْحَمْهُ وَعَافِهِ وَاعْفُ عَنْهُ وَأَکْرِمْ نُزُلَهُ وَوَسِّعْ مُدْخَلَهُ وَاغْسِلْهُ بِالْمَائِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ وَنَقِّهِ مِنْ الْخَطَايَا کَمَا نَقَّيْتَ الثَّوْبَ الْأَبْيَضَ مِنْ الدَّنَسِ وَأَبْدِلْهُ دَارًا خَيْرًا مِنْ دَارِهِ وَأَهْلًا خَيْرًا مِنْ أَهْلِهِ وَزَوْجًا خَيْرًا مِنْ زَوْجِهِ وَأَدْخِلْهُ الْجَنَّةَ وَأَعِذْهُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ أَوْ مِنْ عَذَابِ النَّارِ ) یا اللہ اس کو بخش اور رحم کر اور اسے عافیت عطا فرما اور اسے معاف فرما اور اس کے اترنے کو مکرم بنادے اور اس کی قبر کو کشادہ فرما اور اسے پانی برف اور اولوں سے دھو دے اور اس کے گناہوں کو اس طرح صاف کر دے جیسا کہ سفید کپڑا میل کچیل سے صاف ہوجاتا ہے اور اسے کے گھر کے بدلے بہتر گھر عطا فرما اور گھر والوں سے بہتر گھر والے اور اس کی بیوی سے بہتر بیوی عطا فرما اور اسے جنت میں داخل فرما اور عذاب قبر سے بچا اور جہنم کے عذاب سے بچا یہاں تک کہ میں نے خواہش کی کہ یہ میت میری ہوتی۔
جنازہ کو دیکھ کر کھڑے ہونے کے منسوخ ہونے کے بیان میں
اسحاق بن ابراہیم، عبدالرحمن بن مہدی، معاویہ بن صالح، اسی حدیث کی دوسری سند ذکر کی ہے۔
جنازہ کو دیکھ کر کھڑے ہونے کے منسوخ ہونے کے بیان میں
نصربن علی جہضمی، اسحاق بن ابراہیم، عیسیٰ بن یونس، ابوحمزہ حمصی، ابوطاہر، ہارون بن سعید ایلی، طاہر، وہب، عمرو بن حارث، ابوحمزہ بن سلیم، عبدالرحمن بن جبیر بن نفیر، حضرت عوف بن مالک اشجعی (رض) سے روایت ہے کہ میں نے نبی ﷺ سے یہ سنا آپ ﷺ نے جنازہ پر پڑھا اور اس پر یہ دعا پڑھی (اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ وَارْحَمْهُ وَعَافِهِ وَاعْفُ عَنْهُ وَأَکْرِمْ نُزُلَهُ وَوَسِّعْ مُدْخَلَهُ وَاغْسِلْهُ بِالْمَائِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ وَنَقِّهِ مِنْ الْخَطَايَا کَمَا نَقَّيْتَ الثَّوْبَ الْأَبْيَضَ مِنْ الدَّنَسِ وَأَبْدِلْهُ دَارًا خَيْرًا مِنْ دَارِهِ وَأَهْلًا خَيْرًا مِنْ أَهْلِهِ وَزَوْجًا خَيْرًا مِنْ زَوْجِهِ وَأَدْخِلْهُ الْجَنَّةَ وَأَعِذْهُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ أَوْ مِنْ عَذَابِ النَّارِ ) عوف کہتے ہیں میں نے خواہش کی کہ کاش رسول اللہ کی اس دعا کے لئے میں ہی مردہ ہوتا اس میت کی جگہ۔
نماز جنازہ میں امام میت کے کس حصہ کے سامنے کھڑا ہو؟
یحییٰ بن یحییٰ تمیمی، عبدالوارث بن سعید، حسین بن ذکوان، عبداللہ بن بریدہ، حضرت سمرہ (رض) بن جندب سے روایت ہے کہ میں نے نبی ﷺ کے پیچھے نماز پڑھی اور آپ ﷺ نے یہ نماز جنازہ ام کعب کی پڑھی اور وہ نفاس والی تھی رسول اللہ نماز جنازہ کے لئے اس کے درمیان میں کھڑے ہوئے۔
نماز جنازہ میں امام میت کے کس حصہ کے سامنے کھڑا ہو؟
ابوبکر بن ابوشیبہ، ابن مبارک، یزید بن ہارون، علی بن حجر، فضل بن موسی، حسین، اسی حدیث کی دوسری اسناد ذکر کی ہیں لیکن اس میں ام کعب کا ذکر نہیں۔
نماز جنازہ میں امام میت کے کس حصہ کے سامنے کھڑا ہو؟
محمد بن مثنی، عقبہ بن مکرم عمی، ابوعدی، حسین، عبداللہ بن بریدہ، حضرت سمرہ (رض) بن جندب (رض) سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں نوعمر لڑکا تھا میں آپ ﷺ سے احادیث یاد کرتا تھا اور مجھے بولنے سے وہاں موجود مجھ سے زیادہ عمر والوں کے علاوہ کوئی چیز مانع نہ تھی اور میں نے رسول اللہ کے پیچھے ایک ایسی عورت کی نماز جنازہ پڑھی جو نفاس میں فوت ہوگئی تھی تو رسول اللہ ﷺ نماز جنازہ میں اس کے درمیان کھڑے ہوئے۔
نماز جنازہ ادا کرنے کے بعد سواری پر سوار ہو کر واپس آنے کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، ابوبکر بن ابی شیبہ، یحیی، ابوبکر، یحیی، وکیع، مالک بن مغول، سماک بن حرب، حضرت جابر بن سمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کے پاس ایک ننگی پیٹھ والا گھوڑا لایا گیا آپ ﷺ نے اس پر ابن دحداح (رض) کے جنازہ سے واپسی پر سوار ہوئے اور ہم آپ ﷺ کے اردگرد پیدل چلتے تھے۔
نماز جنازہ ادا کرنے کے بعد سواری پر سوار ہو کر واپس آنے کے بیان میں
محمد بن مثنی، محمد بن بشار، ابن مثنی، محمد بن جعفر، شعبہ، سماک بن حرب، حضرت جابر (رض) بن سمرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ابن دحداح پر نماز جنازہ ادا کی پھر آپ ﷺ کے پاس ننگی پیٹھ والا گھوڑا لایا گیا اس کو ایک آدمی نے پکڑا اور آپ ﷺ اس پر سوار ہوئے اس نے کودنا شروع کردیا ہم آپ ﷺ کے پیچھے دوڑتے ہوئے آرہے تھے قوم میں سے ایک آدمی نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا ابن دحداح کے لئے جنت میں کتنے خوشے لٹکنے والے ہیں۔
میت پر لحد میں اینٹیں لگانے کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، عبداللہ بن جعفر مسوری، اسماعیل بن محمد بن سعد، حضرت عامر بن سعد (رض) سے روایت ہے کہ سعد بن وقاص (رض) نے اپنے مرض وفات میں فرمایا میرے لئے قبر لحد بنانا اور اس پر کچھ کچی اینٹیں لگانا جیسے رسول اللہ ﷺ کے لئے قبر بنائی گئی تھی۔
قبر میں چادر ڈالنے کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، وکیع، ابوبکر بن ابوشیبہ، غندر، وکیع، شعبہ، محمد بن مثنی، یحییٰ بن سعید، شعبہ، ابوجمرہ، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی قبر میں سرخ چادر ڈال دی گئی تھی۔
قبر کو برابر کرنے کے حکم کے بیان میں
ابوطاہر احمد بن عمرو، ابن وہب، عمرو بن حارث، ہارون بن سعید ایلی، ابن وہب، علی ہمدانی، ہارون حضرت ثمامہ بن شفی سے روایت ہے کہ ہم فضالہ بن عبید کے ساتھ مقام رودس ملک روم میں تھے ہمارے ایک ساتھی کا انتقال ہوگیا تو حضرت فضالہ نے اس کی قبر کا حکم دیا جب وہ برابر کردی گئی پھر فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ قبروں کو ہموار کرنے کا حکم فرمایا کرتے تھے۔
قبر کو برابر کرنے کے حکم کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، ابوبکر بن ابوشیبہ، زہیر بن حرب، یحیی، وکیع، سفیان، حبیب بن ابوثابت ابو وائل، حضرت ابوہیاج اسدی سے روایت ہے۔ مجھے حضرت علی (رض) نے فرمایا کیا میں تجھے اس کام کے لئے نہ بھیجوں جس کام کے لئے مجھے رسول اللہ ﷺ نے بھیجا تھا کہ تو کسی صورت کو مٹائے بغیر نہ چھوڑ اور نہ کسی بلند قبر کو برابر کئے بغیر۔
قبر کو برابر کرنے کے حکم کے بیان میں
ابوبکر بن خلاد باہلی، یحییٰ قطان، سفیان، حبیب اسی حدیث کی دوسری سند ذکر کی ہے الفاظ کا فرق ہے۔
پختہ قبر بنانے اور اس پر عمارت تعمیر کرنے کی ممانعت کے بیان میں
ابوبکر بن ابوشیبہ، حفص بن عیاث، ابن جریح، ابوزبیر، حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قبروں کو پختہ بنانے اور ان پر بیٹھنے اور ان پر عمارت بنانے سے منع فرمایا ہے۔
پختہ قبر بنانے اور اس پر عمارت تعمیر کرنے کی ممانعت کے بیان میں
ہارون بن عبداللہ، حجاج بن محمد، محمد بن رافع، عبدالرزاق، ابن جریج، ابوزبیر، اس سند سے بھی حضرت جابر (رض) سے اسی طرح حدیث مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ سے سنا۔
پختہ قبر بنانے اور اس پر عمارت تعمیر کرنے کی ممانعت کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، اسماعیل بن علیہ، ایوب، ابوزبیر، حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قبروں کو چونے وغیرہ سے پختہ بنانے سے منع فرمایا۔
قبر پر بیٹھنے اور اس پر نماز پڑھنے کی ممانعت کے بیان میں
زہیر بن حرب، جریر، سہیل، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میں سے اگر کوئی انگارے پر بیٹھ جائے اس کے کپڑے جل جائیں اور اس کا اثر اس کی کھال تک پہنچے یہ اس کے لئے قبر پر بیٹھنے سے بہتر ہے۔
قبر پر بیٹھنے اور اس پر نماز پڑھنے کی ممانعت کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، عبد العزیز در اور دی، عمرو، ابواحمد زبیری، سفیان، اسی حدیث کی دوسری اسناد ذکر کی ہیں۔
قبر پر بیٹھنے اور اس پر نماز پڑھنے کی ممانعت کے بیان میں
علی بن حجرسعدی، ولید بن مسلم، ابن جابر، بسربن عبیداللہ، واثلہ، حضرت ابومرثد غنوی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قبور پر مت بیٹھو اور نہ ان کی طرف نماز پڑھو۔
قبر پر بیٹھنے اور اس پر نماز پڑھنے کی ممانعت کے بیان میں
حسن بن ربیع بحلی، ابن مبارک، عبدالرحمن بن یزید، بسر بن عبیداللہ، ابوادریس خولانی، واثلہ بن اسقع، حضرت ابومرثد غنوی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قبور کی طرف نماز ادا نہ کرو اور نہ ان پر بیٹھو۔
نماز جنازہ مسجد میں ادا کرنے کے بیان میں
علی بن حجر سعدی، اسحاق بن ابرہیم حنظلی، علی، اسحاق، عبدالعزیز بن محمد، عبدالواحد بن حمزہ حضرت عباد (رض) بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ سیدہ عائشہ (رض) نے حکم دیا کہ سعد بن ابی وقاص (رض) کا جنازہ مسجد میں لایا جائے تاکہ اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے لوگوں نے اس بات پر تعجب کیا تو سیدہ (رض) نے فرمایا تم لوگ کتنی جلدی بھول گئے کہ رسول اللہ ﷺ نے سہیل بن بیضاء (رض) کی نماز جنازہ مسجد میں ہی پڑھائی تھی۔
نماز جنازہ مسجد میں ادا کرنے کے بیان میں
محمد بن حاتم، بہز، وہیب، موسیٰ بن عقبہ، عبدالواحد، عباد بن عبداللہ بن زبیر، سیدہ عائشہ (رض) سے روایت ہے فرماتی ہیں جب سعد بن ابی وقاص (رض) کا انتقال ہوگیا تو نبی ﷺ کی بیویوں نے پیغام بھجوایا کہ ان کا جنازہ مسجد میں سے لے کر گزرو تاکہ وہ بھی نماز جنازہ ادا کرلیں لوگوں نے ایسا ہی کیا اور ان کے حجروں کے آگے جنازہ روک دیا تاکہ وہ اس پر نماز جنازہ ادا کرلیں پھر ان کو باب الجنائز سے نکالا گیا جو مقاعد کی طرف تھا پھر ازواج مطہرات کو یہ خبر پہنچی کہ لوگوں نے اس کو عیب جانا ہے اور لوگوں نے کہا ہے کہ جنازوں کو مسجد میں داخل نہیں کیا جاتا تھا یہ بات سیدہ عائشہ (رض) کو پہنچی تو انہوں نے کہا لوگ ناواقفیت کی بنا پر اس بات کو معیوب سمجھ رہے ہیں اور ہم پر جنازہ کے مسجد میں گزارنے کی وجہ سے عیب لگا رہے ہیں حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے سہیل بن بیضاء کا جنازہ مسجد کے اندر ہی پڑھا تھا۔
نماز جنازہ مسجد میں ادا کرنے کے بیان میں
ہارون بن عبداللہ، محمد بن رافع، ابوفدیک، ضحاک بن عثمان، ابونضر، حضرت ابوسلمہ (رض) بن عبدالرحمن (رض) روایت ہے کہ جب سعد بن ابی وقاص (رض) کا انتقال ہو تو سیدہ عائشہ (رض) نے فرمایا جنازہ مسجد میں لے آؤ تاکہ میں ان پر نماز جنازہ پڑھوں لوگوں نے اس بات پر تعجب کیا تو انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے بیضاء کے دو بیٹوں سہیل اور اس کے بھائی کا جنازہ مسجد میں پڑھا تھا۔
قبور میں داخل ہوتے وقت اہل قبور کے لئے کیا دعا پڑھی جائے۔
یحییٰ بن یحییٰ تمیمی، یحییٰ بن ایوب، قتیبہ بن سعید، اسماعیل بن جعفر، شریک، ابونمر، عطاء بن عسار، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ جب میری باری کی رات ہوتی تو رسول اللہ ﷺ رات کے آخیر حصہ میں بقیع قبرستان کی طرف تشریف لے جاتے اور فرماتے السلام علیکم دار قوم مومنین تمہارے اوپر سلام ہو اے مومنوں کے گھر والو تمہارے ساتھ کیا گیا وعدہ آچکا جو کل پاؤ گے یا ایک مدت کے بعد اور ہم اگر اللہ نے چاہا تو تم سے ملنے والے ہیں اور اللہ بقیع الغرقد والوں کی مغفرت فرما قتیبہ نے أَتَاکُمْ کا لفظ ذکر نہیں کیا۔
قبور میں داخل ہوتے وقت اہل قبور کے لئے کیا دعا پڑھی جائے۔
ہارون بن سعید ایلی، عبداللہ بن وہب، ابن جریج، عبداللہ بن کثیر بن مطلب، محمد بن قیس، حضرت محمد بن قیس (رض) بن مخرمہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک دن کہا کیا میں آپ ﷺ کو اپنی اور اپنی ماں کے ساتھ بیتی ہوئی بات نہ سناؤں ہم نے گمان کیا کہ وہ ماں سے اپنی جننے والی ماں مراد لے رہے ہیں ہم نے کہا کیوں نہیں فرمایا نبی ﷺ میرے پاس میری باری کی رات میں تھے کہ آپ ﷺ نے کروٹ لی اور اپنی چادر اوڑھ لی اور جوتے اتارے اور ان کو اپنے پاؤں کے پاس رکھ دیا اور اپنی چادر کا کنارہ اپنے بستر پر بچھایا اور لیٹ گئے اور آپ ﷺ اتنی ہی دیر ٹھہرے کہ آپ ﷺ نے گمان کرلیا کہ میں سو چکی ہوں آپ ﷺ نے آہستہ سے اپنی چادر لی اور آہستہ سے جوتا پہنا اور آہستہ سے دروازہ کھولا اور باہر نکلے پھر اس کو آہستہ سے بند کردیا میں نے اپنی چادر اپنے سر پر اوڑھی اور اپنا ازار پہنا اور آپ ﷺ کے پیچھے پیچھے چلی یہاں تک کہ آپ ﷺ بقیع میں پہنچے اور کھڑے ہوگئے اور کھڑے ہونے کو طویل کیا پھر آپ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھوں کو تین بار اٹھایا پھر آپ ﷺ واپس لوٹے اور میں بھی لوٹی آپ ﷺ تیز چلے تو میں بھی تیز چلنے لگی آپ ﷺ دوڑے تو میں بھی دوڑی آپ ﷺ پہنچے تو میں بھی پہنچی میں آپ ﷺ سے سبقت لے گئی اور داخل ہوتے ہی لیٹ گئی آپ ﷺ تشریف لائے تو فرمایا اے عائشہ تجھے کیا ہوگیا ہے کہ تمہارا سانس پھول رہا ہے میں نے کہا کچھ نہیں آپ ﷺ نے فرمایا تم بتادو رونہ مجھے باریک بین خبردار یعنی اللہ تعالیٰ خبر دے دے گا تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان پھر پورے قصہ کی خبر میں نے آپ ﷺ کو دے دی فرمایا میں اپنے آگے آگے جو سیاہ سی چیز دیکھ رہا تھا وہ تو تھی میں نے عرض کیا جی ہاں تو آپ ﷺ نے میرے سینے پر مارا جس کی مجھے تکلیف ہوئی پھر فرمایا تو نے خیال کیا کہ اللہ اور اس کا رسول تیرا حق داب لے گا فرماتی ہیں جب لوگ کوئی چیز چھپاتے ہیں اللہ تو اس کو خوب جانتا ہے آپ ﷺ نے فرمایا کہ جبرائیل میرے پاس آئے جب تو نے دیکھا تو مجھے پکارا اور تجھ سے چھپایا تو میں نے بھی تم سے چھپانے ہی کو پسند کیا اور وہ تمہارے پاس اس لئے نہیں آئے کہ تو نے اپنے کپڑے اتار دیئے تھے اور میں نے گمان کیا کہ تو سو چکی ہے اور میں نے تجھے بیدار کرنا پسند نہ کیا میں نے یہ خوف کیا کہ تم گھبرا جاؤ گی جبرائیل نے کہا آپ ﷺ کے رب نے آپ ﷺ کو حکم دیا ہے کہ آپ ﷺ بقیع تشریف لے جائیں اور ان کے لئے مغفرت مانگیں میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میں کیسے کہوں آپ ﷺ نے فرمایا (السَّلَامُ عَلَيْکُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ وَأَتَاکُمْ مَا تُوعَدُونَ غَدًا مُؤَجَّلُونَ وَإِنَّا إِنْ شَائَ اللَّهُ بِکُمْ لَاحِقُونَ ) کہو سلام ہے ایماندار گھر والوں پر اور مسلمانوں پر اللہ ہم سے آگے جانے والوں پر رحمت فرمائے اور پیچھے جانے والوں پر ہم انشاء اللہ تم سے ملنے والے ہیں۔
قبور میں داخل ہوتے وقت اہل قبور کے لئے کیا دعا پڑھی جائے۔
ابوبکر بن ابوشیبہ، زہیر بن حرب، محمد بن عبداللہ اسدی، سفیان، علقمہ بن مرثد، سلیمان بن بریدہ، حضرت بریدہ (رض) سے روایت ہے کہ ان کو رسول اللہ ﷺ یہ دعا سکھاتے تھے جب صحابہ قبر ستان کی طرف جاتے تھے پس ان میں سے کہنے والے کہتے ابوبکر کی روایت میں ( السَّلَامُ عَلَی أَهْلِ الدِّيَارِ ) اور زہیر کی روایت میں (أَهْلَ الدِّيَارِ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُسْلِمِينَ وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ لَلَاحِقُونَ أَسْأَلُ اللَّهَ لَنَا وَلَکُمْ الْعَافِيَةَ ) تم پر سلامتی ہو اے مومنوں اور مسلمانوں کے گھروں والے اور ہم تم سے إِنْ شَاءَ اللَّهُ ملنے والے ہیں ہم اپنے اور تمہارے لئے عافیت مانگتے ہیں۔
نبی کریم ﷺ کا اپنے رب عزوجل سے اپنی والدہ کی قبر کی زیارت کی اجازت مانگنے کے بیان میں
یحییٰ بن ایوب، محمد بن عباد، مروان بن معاویہ، یزید بن کیسان، ابوحازم، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں نے اپنے رب سے اپنی والدہ کے لئے استغفار کی اجازت طلب کی تو مجھے اجازت نہ دی گئی اور میں نے ان کی قبر (پر جانے) کی اجازت مانگی تو مجھے اجازت دے دی گئی۔
نبی کریم ﷺ کا اپنے رب عزوجل سے اپنی والدہ کی قبر کی زیارت کی اجازت مانگنے کے بیان میں
ابوبکر بن ابوشیبہ، زہیر بن حرب، محمد بن عبید، یزید بن کیسان، ابوحازم، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے اپنی والدہ کی قبر کی زیارت کی تو رو پڑے اور آپ ﷺ کے ارد گرد والے بھی رو پڑے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے اپنے رب سے ان کے لئے مغفرت مانگنے کی اجازت چاہی تو مجھے اجازت نہ دی گئی اور میں نے اللہ سے ان کی قبر کی زیارت کی اجازت طلب کی تو مجھے اجازت دے دی گئی پس قبور کی زیارت کیا کرو کیونکہ وہ تمہیں موت یاد کراتی ہیں۔
نبی کریم ﷺ کا اپنے رب عزوجل سے اپنی والدہ کی قبر کی زیارت کی اجازت مانگنے کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، محمد بن عبداللہ بن نمیر، محمد بن مثنی، محمد بن فضیل، ابوسنان، ضراربن مرہ، محارب بن دثار، ابن بریدہ، حضرت بریدہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں نے تمہیں زیارت قبور منع کیا تھا ان کی زیارت کرو اور میں نے تمہیں قربانیوں کا گوشت تین دنوں سے زیادہ روکنے سے منع فرمایا تھا پس جب تک چاہو رکھ سکتے ہو میں نے تم کو مشکیزہ کے علاوہ دوسرے برتنوں میں نبیذ پینے سے منع کیا تھا مگر اب تمام برتنوں سے پیو ہاں نشہ لانے والی چیزیں نہ پیا کرو۔
نبی کریم ﷺ کا اپنے رب عزوجل سے اپنی والدہ کی قبر کی زیارت کی اجازت مانگنے کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، ابوخیثمہ، زبید یامی، محارب بن دثار، ابن بریدہ، ابوخیثمہ اسی حدیث کی دوسری اسناد ذکر کی ہیں۔
خود کشی کرنے والے کی نماز جنازہ میں شرکت نہ کرنے کے بیان میں
عون بن سلام کوفی، زہیر، سماک، جابر بن سمرہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کے پاس ایسے آدمی کا جنازہ لایا گیا جس نے اپنے آپ کو چوڑے تیر سے مار ڈالا تھا تو آپ ﷺ نے اس پر نماز جنازہ نہ پڑھی۔