14. زکوۃ کا بیان

【1】

پانچ اوسق سے کم غلہ میں زکوة نہیں

عمرو بن محمد بن بکیر، ناقد، سفیان بن عیینہ، عمرو بن یحییٰ بن عمارہ، حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا پانچ وسق سے کم غلہ میں زکوٰۃ نہیں اور نہ ہی پانچ اونٹوں سے کم میں زکوٰۃ ہے اور نہ ہی پانچ اوقیہ سے کم میں زکوٰۃ ہے۔

【2】

پانچ اوسق سے کم غلہ میں زکوة نہیں

محمد رمح، ابن مہاجر، لیث، عمروناقد، عبداللہ بن ادریس، یحییٰ بن سعید، عمرو بن یحییٰ اسی حدیث کی دوسری اسناد ذکر کی ہیں۔

【3】

پانچ اوسق سے کم غلہ میں زکوة نہیں

محمد بن رافع، عبدالرزاق، ابن جریج، عمرو بن یحییٰ بن عمارہ، یحییٰ بن عمارہ، حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا اور نبی ﷺ نے اپنی ہتھیلی کی پانچ انگلیوں کے ساتھ اشارہ فرمایا باقی حدیث گزر چکی ہے۔

【4】

پانچ اوسق سے کم غلہ میں زکوة نہیں

ابوکامل فضیل بن حسین جحدری، بشر بن مفضل، عمارہ بن غزیہ، یحییٰ بن عمارہ، حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا پانچ اوسق میں زکوٰۃ نہیں ہے اور پانچ اونٹوں سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہے اور پانچ اوقیہ سے کم میں زکوٰۃ نہیں۔

【5】

پانچ اوسق سے کم غلہ میں زکوة نہیں

ابوبکر بن ابی شیبہ، عمرو ناقد، زہیر بن حرب، وکیع، سفیان، اسماعیل بن امیہ، محمد بن یحییٰ بن حبان، یحییٰ بن عمارہ، حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اوسق سے کم کھجور میں زکوٰۃ نہیں اور نہ غلہ میں۔

【6】

پانچ اوسق سے کم غلہ میں زکوة نہیں

اسحاق بن منصور، عبدالرحمن بن مہدی، سفیان، اسماعیل بن امیہ، محمد بن یحییٰ بن حبان، یحییٰ بن عمارہ، حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا غلہ میں اور کھجور میں زکوٰۃ اس وقت تک نہیں جب تک پانچ اوسق نہ ہوجائیں اور نہ پانچ اونٹوں سے کم میں زکوٰۃ ہے اور نہ پانچ اوقیہ سے کم میں زکوٰۃ ہے۔

【7】

پانچ اوسق سے کم غلہ میں زکوة نہیں

عبد بن حمید، یحییٰ بن آدم، سفیان ثوری، اسماعیل بن امیہ اسی حدیث کی دوسری سند ذکر کی ہے۔

【8】

پانچ اوسق سے کم غلہ میں زکوة نہیں

محمد بن رافع، عبدالرزاق، ثوری، معمر، اسماعیل بن امیہ اسی حدیث کی ایک اور سند ذکر کی ہے لیکن اس میں کھجور کی جگہ پھل کا لفظ ہے۔

【9】

پانچ اوسق سے کم غلہ میں زکوة نہیں

ہارون بن معروف، ہارون بن سعید ایلی، ابن وہب، عیاض بن عبداللہ، ابوزبیر، جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا چاندی کے پانچ اوقیہ سے کم میں زکوٰۃ نہیں اور اونٹوں میں پانچ اونٹوں سے کم پر زکوٰۃ نہیں اور کھجور کے پانچ اوسق سے کم میں زکوٰۃ نہیں۔

【10】

کن چیزوں میں عشر اور کن میں نصف عشر ہے ؟

ابوطاہر احمد بن عمرو بن عبداللہ بن عمرو بن سرح، ہارون بن سعید ایلی، عمرو بن سواد، ولید بن شجاع، ابن وہب، عبداللہ بن وہب، عمرو بن حارث، ابوزبیر، حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو زمین نہروں یا بارش سے سیراب ہوتی ہے اس میں دسواں حصہ زکوٰۃ ہے اور جو اونٹ لگا کر سینچی جائے اس میں بیسواں حصہ زکوٰۃ واجب ہے۔

【11】

مسلمان پر غلام اور گھوڑے کی زکوة نہیں ہے۔

یحییٰ بن یحییٰ تمیمی، مالک، عبداللہ بن دینار، سلیمان بن یسار، عراک بن مالک، حضرت ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مسلمان کے غلام اور اس کے گھوڑے پر زکوٰۃ نہیں ہے۔

【12】

مسلمان پر غلام اور گھوڑے کی زکوة نہیں ہے۔

عمروناقد، زہیر بن حرب، سفیان بن عیینہ، ایوب بن موسی، مکحول، سلیمان بن یسار، عراک بن مالک، حضرت ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا مسلمان پر اس کے غلام اور گھوڑے کی زکوٰۃ فرض نہیں ہے۔

【13】

مسلمان پر غلام اور گھوڑے کی زکوة نہیں ہے۔

یحییٰ بن یحیی، سلیمان بن بلال، قتیبہ، حماد بن زید، ابوبکر بن ابی شیبہ، حاتم بن اسماعیل، خثیم بن عراک بن مالک، ابوہریرہ اسی حدیث کی دوسری اسناد ذکر کی ہیں۔

【14】

مسلمان پر غلام اور گھوڑے کی زکوة نہیں ہے۔

ابوطاہر، ہارون بن سعید ایلی، احمد بن عیسی، ابن وہب، مخرمہ، عراک بن مالک، ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا غلام کی زکوٰۃ نہیں ہے ہاں صدقہ فطر واجب ہے (جو برائے تجارت ہو اس کا فطرانہ واجب ہے) ۔

【15】

زکوة پہلے ادا کرنے اور اسے روکنے کے بیان میں

زہیر بن حرب، علی بن حفص، ورقاء، ابوزناد، اعرج، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ حضرت عمر (رض) کو رسول اللہ ﷺ نے زکوٰۃ وصول کرنے کے لئے بھیجا انہوں نے (واپسی پر) عرض کیا کہ ابن جمیل، خالد بن ولید اور عباس چچا رسول اللہ ﷺ نے زکوٰۃ روک لی، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ابن جمیل تو اس کا بدلہ لے رہا ہے کہ وہ فقیر تھا اللہ نے اس کو غنی کردیا اور خالد پر تم ظلم کرتے ہو اس نے زرہیں اور ہتھیار تک اللہ کی راہ میں دے دیئے ہیں رہے حضرت عباس (رض) ان کی زکوٰۃ اس کا دوگنا میرے ذمہ ہے پھر فرمایا اے عمر کیا تم نہیں جانتے کہ چچا باپ کے برابر ہوتا ہے۔

【16】

صدقہ الفطر مسلمانوں پر کھجور اور جو سے ادا کرنے کے بیان میں

عبداللہ بن مسلمہ بن قعنب، قتیبہ بن سعید، مالک، یحییٰ بن یحیی، نافع، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صدقہ الفطر رمضان کے بعد لوگوں پر کھجور سے ایک صاع یا جو سے ایک صاع واجب کی ہے ہر مسلمان آزاد یا غلام مرد یا عورت پر۔

【17】

صدقہ الفطر مسلمانوں پر کھجور اور جو سے ادا کرنے کے بیان میں

ابن نمیر، ابوبکر بن ابی شیبہ، عبداللہ بن نمیر، ابواسامہ، عبیداللہ، نافع، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صدقہ الفطر کھجور یا جو سے ایک صاع ہر غلام آزاد چھوٹے بڑے پر واجب کیا ہے۔

【18】

صدقہ الفطر مسلمانوں پر کھجور اور جو سے ادا کرنے کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، یزید بن زریع، ایوب، نافع، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے رمضان کا صدقہ آزاد، غلام، مرد عورت پر کھجور یا جو سے ایک صاع واجب کیا ہے لوگوں نے اس کی قیمت کے اعتبار سے نصف صاع گندم مقرر کرلی۔

【19】

صدقہ الفطر مسلمانوں پر کھجور اور جو سے ادا کرنے کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، لیث، محمد بن رمح، نافع، عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صدقہ الفطر کھجور یا جو سے ایک صاع کا حکم دیا ابن عمر (رض) نے فرمایا لوگوں نے اس کی جگہ گندم کے دو مد مقرر کر لئے۔

【20】

صدقہ الفطر مسلمانوں پر کھجور اور جو سے ادا کرنے کے بیان میں

محمد بن رافع، ابن ابی فدیک، ضحاک، نافع، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں میں سے ہر نفس پر آزاد ہو یا غلام مرد ہو یا عورت چھوٹا ہو یا بڑا کھجور سے ایک صاع صدقہ الفطر واجب کیا ہے۔

【21】

صدقہ الفطر مسلمانوں پر کھجور اور جو سے ادا کرنے کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، مالک، زید بن اسلم، عیاض بن عبداللہ بن سعد بن ابی سرح، حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ ہم صدقہ الفطر ایک صاع کھانے یعنی گندم یا ایک صاع جَو یا ایک صاع کھجور یا ایک صاع پنیر یا ایک صاع کشمش نکالا کرتے تھے۔

【22】

صدقہ الفطر مسلمانوں پر کھجور اور جو سے ادا کرنے کے بیان میں

عبیداللہ بن مسلمہ بن قعنب، داود بن قیس، عیاض بن عبداللہ، حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان تھے تو ہم صدقہ الفطر ہر چھوٹے اور بڑے آزاد یا غلام کی طرف سے ایک صاع کھانے سے یا ایک صاع پنیر سے یا ایک صاع جَو سے یا ایک صاع کھجور سے یا ایک صاع کشمش سے نکالا کرتے تھے ہم ہمیشہ اسی طرح نکالتے رہے کہ ہمارے پاس حضرت معاویہ بن ابوسفیان حج یا عمرہ کرنے کے لئے آئے تو آپ نے منبر پر لوگوں سے گفتگو کی اور اس گفتگو میں یہ بھی کہا کہ میرے خیال میں ملک شام کے سرخ گیہوں کے دو مد ایک صاع کھجور کے برابر ہیں تو لوگوں نے اسی کو لے لیا یعنی اسی طرح عمل شروع کردیا ابوسعید فرماتے ہیں بہرحال میں ہمیشہ اسی طرح ادا کرتا رہا جس طرح ادا کرتا تھا جب تک میں زندہ رہا۔

【23】

صدقہ الفطر مسلمانوں پر کھجور اور جو سے ادا کرنے کے بیان میں

محمد بن رافع، عبدالرزاق، معمر، اسماعیل بن امیہ، عیاض بن عبداللہ بن سعد بن ابی سرح، حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں ہر چھوٹے اور بڑے آزاد اور غلام کی طرف سے تین قسموں سے ایک صاع صدقہ الفطر ادا کرتے تھے کھجور سے ایک صاع پنیر سے ایک صاع اور جو سے ایک صاع ہم ہمیشہ اسی طرح ادا کرتے رہے کہ معاویہ (رض) نے خیال کیا کہ گندم سے دو مد کھجور کے ایک صاع کے برابر ہیں بہر حال میں تو ہمیشہ اسی طرح ادا کرتا رہا۔

【24】

صدقہ الفطر مسلمانوں پر کھجور اور جو سے ادا کرنے کے بیان میں

محمد رافع، عبدالرزاق، ابن جریج، حارث بن عبدالرحمن بن ابوذباب، عیاض بن عبداللہ بن سعد بن ابی سرح، حضرت ابوسعید (رض) سے روایت ہے کہ ہم صدقہ الفطر تین قسم کی چیزوں سے ادا کرتے تھے پنیر کھجور اور جو۔

【25】

صدقہ الفطر مسلمانوں پر کھجور اور جو سے ادا کرنے کے بیان میں

عمروناقد، حاتم بن اسماعیل، ابن عجلان، عیاض بن عبداللہ بن ابی سرح، حضرت ابوسعید (رض) سے روایت ہے کہ جب معاویہ نے گندم کے نصف صاع کو کھجور کے ایک صاع کے برابر قرار دیا تو ابوسعید نے انکار کیا اور فرمایا میں تو اس میں نہیں نکالوں گا مگر میں تو جس سے رسول اللہ ﷺ کے دور میں نکالتا تھا اس میں نکالوں گا کھجور سے ایک صاع یا کشمش یا جو یا پنیر سے ایک صاع۔

【26】

نماز عید سے پہلے صدقہ الفطر ادا کرنے کے حکم کے بیان میں۔

یحییٰ بن یحیی، ابوخیثمہ، موسیٰ بن عقبہ، نافع، ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ صدقہ الفطر لوگوں کی نماز عید کی طرف نکلنے سے پہلے ادا کیا جائے۔

【27】

نماز عید سے پہلے صدقہ الفطر ادا کرنے کے حکم کے بیان میں۔

محمد بن رافع، ابن ابی فدیک، ضحاک، نافع، ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صدقہ الفطر لوگوں کے نماز کی طرف نکلنے سے پہلے نکالنے کا حکم دیا۔

【28】

زکوة روکنے کے گناہ کے بیان میں

سوید بن سعید، حفص بن میسرہ صنعانی، زید بن اسلم، ابوصالح ذکوان، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو سونے یا چاندی والا اس میں اس کا حق ادا نہیں کرتا اس کے لئے قیامت کے دن آگ کی چٹانیں بنائی جائیں گی اور ان کو جہنم کی آگ میں خوب گرم کیا جائے گا اور ان سے اس کے پہلو، پیشانی اور پشت کو داغا جائے گا، جب وہ ٹھنڈے ہوجائیں گے تو ان کو دوبارہ گرم کیا جائے گا اس دن برابر یہ عمل اس کے ساتھ ہوتا رہے گا جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہوگی یہاں تک کہ بندوں کا فیصلہ کردیا جائے تو اس کو جنت یا دوزخ کا راستہ دکھا دیا جائے گا، عرض کیا گیا یا رسول اللہ اونٹ والوں کا کیا حکم ہے ؟ فرمایا اونٹوں والا بھی جو ان میں سے ان کا حق ادا نہ کرے اور ان کے حق میں سے یہ بھی ہے کہ ان کو پانی پلانے کے دن ان کا دودھ نکال دے تو قیامت کے دن ایک ہموار زمین میں اس کو اوندھا لٹا دیا جائے گا اور وہ اونٹ نہایت فربہ ہو کر آئے گا کہ ان میں سے کوئی بچہ بھی باقی نہ رہے گا جو اس کو اپنے کھروں سے نہ روندے اور منہ سے نہ کاٹے جب اس پر سے سب سے پہلا گزر جائے گا تو دوسرا آجائے گا پچاس ہزار سال کی مقدار والے دن میں یہاں تک کہ بندوں کا فیصلہ ہوجائے پھر اس کو جنت یا دوزخ کا راستہ دکھایا جائے گا۔ عرض کیا گیا یا رسول اللہ ﷺ گائے اور بکری کا کیا حکم ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا گائے اور بکری والوں میں سے کوئی ایسا نہیں جو ان میں سے ان کا حق ادا نہیں کرتا مگر یہ کہ قیامت کے دن اس کو ہموار زمین پر اوندھا لٹایا جائے گا اور ان میں سے کوئی باقی نہ رہے گا جو اس کو اپنے پاؤں سے نہ روندے اور وہ ایسی ہوں گی کہ کوئی ان میں مڑے ہوئے سینگ والی نہ ہوگی اور نہ سینگ کے بغیر نہ سینگ ٹوٹی ہوئی، سب اس کو ماریں گی اپنے سینگوں سے جب پہلی اس پر سے گزر جائے گی تو دوسری آجائے گی یہی عذاب پچاس ہزار سال والے دن میں ہوتا رہے گا یہاں تک کہ لوگوں کا فیصلہ ہوجائے تو اس کو جنت یا دوزخ کی راہ دکھائی جائے گی۔ عرض کیا گیا یا رسول اللہ ﷺ گھوڑے کا کیا حکم ہے ؟ فرمایا گھوڑے کی تین اقسام ہیں، ایک مالک پر وبال ہے دوسرا مالک کے لئے پردہ ہے، تیسرا مالک کے لئے ثواب کا ذریعہ ہے، بہر حال جس کو آدمی نے دکھاوے کے لئے باندھ رکھا ہے فخر اور مسلمانوں کی دشمنی کے لئے تو یہ گھوڑا اس کے لئے بوجھ اور وبال ہے اور وہ جو اس کے لئے پردہ پوشی ہے وہ یہ ہے کہ جس کو آدمی نے اللہ کے راستہ میں وقف کر رکھا ہے پھر اس کی پشتوں اور گردنوں سے وابستہ اللہ کے حقوق بھی نہ بھولا ہو تو یہ گھوڑا مالک کے لئے عزت کا ذریعہ ہے اور باعث ثواب وہ گھوڑا ہے جس کو آدمی نے اللہ کے راستہ میں وقف کر رکھا ہو۔ اہل اسلام کے لئے سبزہ زار یا باغ میں تو یہ گھوڑے باغ یا سبزہ زار سے جو کچھ کھائیں گے تو ان کے کھانے کی تعداد کے موافق اس کے لئے نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور اس کی لید اور پیشاب کی مقدار کے لئے برابر نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور وہ اپنی لمبی رسی توڑ کر ایک یا دو ٹیلوں پر چڑھ جائے تو اس کے قدموں کے نشانات اور لید کے برابر نیکیاں اللہ لکھ دیتا ہے اور جب اس کا مالک اس کو کسی نہر سے لے کر گزرتا ہے اور پانی پلانے کا ارادہ نہ ہو تب بھی اللہ اس کے لئے پانی کے قطروں کے تعداد کے برابر نیکیاں لکھ دیتا ہے جو اس نے پیا، عرض کیا گیا یا رسول اللہ ﷺ گدھوں کا کیا حکم ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا گدھوں کے بارے میں سوائے ایک آیت کے کوئی احکام نازل نہیں ہوئے وہ آیت بےمثل اور جمع کرنے والی ہے (فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَه) 99 ۔ الزلزلۃ : 7) یعنی جس نے ذرہ کے برابر نیکی کی وہ اسے دیکھے گا اور جس نے ذرہ کے برابر بدی کی وہ بھی اسے دیکھے گا یعنی قیامت کے دن۔

【29】

زکوة روکنے کے گناہ کے بیان میں

یونس بن عبدالاعلی صدفی، عبداللہ بن وہب، ہشام بن سعد، زید بن اسلم اسی حدیث کی دوسری سند ذکر کی ہے کچھ الفاظ کا تغیر وتبدل ہے لیکن معنی و مفہوم وہی ہے۔

【30】

زکوة روکنے کے گناہ کے بیان میں

محمد بن عبدالملک اموی، عبدالعزیزبن مختار، سہیل بن ابوصالح، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا خزانہ والا جو زکوٰۃ ادا نہیں کرتا اس پر وہ خزانہ جہنم کی آگ میں گرم کیا جائے گا اور اس کو چٹانوں کی طرح بنا کر اس سے اس کے پہلو اور پیشانی کو داغا جائے گا یہاں تک اللہ اپنے بندوں کا فیصلہ کر دے اس دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے پھر اس کو جنت یا جہنم کی طرف راستہ دکھایا جائے گا اور کوئی اونٹوں والا ایسا نہیں جو ان کی زکوٰۃ نہیں دیتا مگر یہ کہ اس کو ایک ہموار زمین پر لٹایا جائے گا اور وہ اونٹ فربہ ہو کر آئیں گے جیسا کہ وہ اونٹ دنیا میں بہت فربہی کے وقت تھے وہ اس کو روندیں گے اس پر جب ان کا آخری گزر جائے گا تو پہلے والا واپس آکر دوبارہ روندے گا یہاں تک کہ اللہ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ اس دن میں کرے جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہوگی پھر اس کو جنت یا دوزخ کا راستہ دکھایا جائے گا اور کوئی بکریوں والا ایسا نہیں جو ان کی زکوٰۃ ادا نہ کرتا ہو مگر یہ کہ اس کو ہموار زمین پر لٹایا جائے گا اور وہ بہت فربہ ہو کر آئیں گے اور وہ سب اپنے کھروں کے ساتھ اس کو روندیں گی اور سینگوں سے ماریں گی اس وقت ان میں کوئی مُنڈی یا الٹے سینگوں والی نہ ہوگی جب اس پر ان میں سے آخری گزرے گی تو پہلی کو اس پر لوٹایا جائے گا یہاں تک کہ اللہ اپنے بندوں کا فیصلہ پچاس ہزار سال والے دن میں کرلیں پھر اس کو جنت یا دوزخ کا راستہ دکھایا جائے گا۔ سہیل کہتے ہیں مجھے معلوم نہیں کہ آپ ﷺ نے گائے کا ذکر کیا یا نہیں، صحابہ نے عرض کیا گھوڑوں کا کیا حکم ہے یا رسول اللہ ﷺ ؟ فرمایا گھوڑے کی پیشانی میں خیر ہے سہیل کہتے ہیں کہ مجھے خیر قیامت کے دن تک میں شک ہے آپ ﷺ نے فرمایا گھوڑے کی تین اقسام ہیں اور یہ آدمی کے لئے ثواب، پردہ اور بوجھ ہے پس وہ جو اس کے لئے ثواب ہے وہ اس شخص کے لئے ہے جس نے گھوڑے کو اللہ کے راستہ میں باندھا اور اللہ ہی کے لئے اسے تیار رکھا کوئی بھی چیز اس کے پیٹ میں غائب نہیں کی جاتی مگر اللہ اس کے لئے ثواب لکھتا ہے اور اگر اس کو کہیں چراگاہ میں چرایا اس نے اس میں جو کچھ بھی کھایا اللہ اس کے بدلہ اس کے لئے ثواب لکھتا ہے اور اگر کسی نہر سے اس کو پلایا تو اس کے مالک کے لئے ہر قطرہ کے بدلے ثواب ہے جو اس کے پیٹ میں غائب ہوتا ہے یہاں تک کہ آپ ﷺ نے اس کے پیشاب اور لید کا بھی ذکر فرمایا اور اگر وہ ایک یا دو ٹیلوں پر چڑھا تو ہر قدم پر جو وہ رکھے گا اس کے لئے ثواب لکھا جاتا ہے اور وہ گھوڑا جو اس کے لئے پردہ پوشی ہے وہ یہ ہے جس کو آدمی احسان اور زینت کے لئے باندھتا ہے اور اس کو اس کی سواری کا حق اور اس کے پیٹ کا حق اپنی تنگی آسانی میں نہ بھولا اور وہ گھوڑا جو اس پر بوجھ ہے وہ یہ ہے کہ جس کو فخر سرکشی اور لوگوں کو دکھانے کے لئے باندھا ہو یہ وہ ہے جو اس پر بوجھ ہے صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ گدھوں کا کیا حکم ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا اس کے بارے میں مجھ پر کوئی حکم نازل نہیں ہوا مگر یہ آیت جامع اور بےمثل ہے (فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَه) 99 ۔ الزلزلۃ : 7)

【31】

زکوة روکنے کے گناہ کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، عبدالعزیز در اور دی، سہیل ہی سے دوسری سند سے اسی حدیث کی طرح مذکور ہے۔

【32】

زکوة روکنے کے گناہ کے بیان میں

محمد بن عبداللہ بن بزیع، یزید بن زریع، روح بن قاسم، سہیل بن ابوصالح سے ایک اور سند کے ساتھ یہی حدیث ذکر فرمائی ہے لیکن اس میں عقصاء غضباء سے بدلا ہے اور اس میں پیشانی کا ذکر نہیں۔

【33】

زکوة روکنے کے گناہ کے بیان میں

ہارون بن سعید ایلی، ابن وہب، عمرو بن حارث، بکیر، ذکوان، ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جب آدمی نے اللہ کا حق یا زکوٰۃ اپنے اونٹوں کی ادا نہ کی۔ باقی حدیث سہیل کی طرح ہے

【34】

زکوة روکنے کے گناہ کے بیان میں

اسحاق بن ابراہیم، عبدالرزاق، محمد بن رافع، ابن جریج، ابوزبیر، حضرت جابر (رض) عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو اونٹ والا اس کا حق ادا نہ کرے تو وہ قیامت کے دن زیادہ ہو کر آئیں گے اور ان کے مالک کو ہموار زمین پر بٹھایا جائے گا اور وہ اس کو اپنے پیروں اور کھروں سے روندیں گے اور جو گائے والا اس کا حق ادا نہ کرے گا تو قیامت کے دن پہلے سے بہت زیادہ ہو کر آئیں گی اور ان کے مالک کو ہموار زمین پر بٹھایا جائے گا اور اس کو اپنے سینگوں سے زخمی اور اپنے کھروں سے روندیں گی اور جو بکریوں والا ان کا حق ادا نہیں کرتا تو وہ قیامت کے دن پہلے سے زیادہ ہو کر آئیں گی اور ان کا مالک ہموار زمین پر بٹھایا جائے گا اور وہ اس کو اپنے سینگوں سے زخمی اور کھروں سے روندیں گی ان میں کوئی بےسینگ یا ٹوٹے ہوئے سینگ والی نہ ہوگی اور جو خزانے والا اس کا حق ادا نہیں کرتا تو اس کا خزانہ قیامت کے دن لایا جائے گا گنجے اژدھے کی صورت میں منہ کھول کر اس کا پیچھا کرے گا جب وہ اس کے پاس آئے گا تو وہ اس سے بھاگے گا تو وہ خزانہ اس کو پکارے گا اپنا خزانہ لے جو تو نے چھپا رکھا تھا تو وہ کہے گا مجھے اس کی ضرورت نہیں جب وہ دیکھے گا کہ اس سے بچنے کی کوئی صورت نہیں تو وہ اس کے منہ میں اپنا ہاتھ ڈال دے گا وہ اسے اونٹ کے چبانے کی طرح چبا جائے گا ابوالزبیر نے کہا کہ میں نے عبید بن عمیر (رض) سے سنا وہ کہتے تھے ایک آدمی نے کہا یا رسول اللہ ﷺ اونٹوں کا کیا حق ہے فرمایا ان کے دودھ کو پانی پر نکال لینا (تاکہ فقیروں کو دودھ مل جائے) اس کا ڈول اور اس کے نر اور اس کے نطفے کو مانگے دے دینا اور اس کی سواری کو اللہ کی راہ میں دینا۔

【35】

زکوة روکنے کے گناہ کے بیان میں

محمد بن عبداللہ بن نمیر، عبدالملک، ابوزبیر، جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو اونٹوں اور گائیوں بکریوں والا ان کا حق ادا نہ کرے تو قیامت کے دن ایک ہموار زمین پر بٹھایا جائے گا اور کھروں والا جانور اس کو اپنے کھروں سے روندے گا اور سینگوں والا اس کو اپنے سینگوں سے زخمی کرے گا اس دن کوئی جانور بغیر سینگ اور ٹوٹے ہوئے سینگ والا نہ ہوگا ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ اس کا حق کیا ہے فرمایا اس کے نر کو چھوڑنا اور اس کے ڈول کسی کو بخش دینا پانی پر ان کا دوھ نکالنا اور اللہ کے راستے میں ان پر سواری کرانا اور کوئی مال والا جو اس کی زکوٰۃ ادا نہیں کرتا قیامت کے دن اس کا مال گنجے سانپ کی صورت میں تبدیل کیا جائے گا جو اپنے مالک کا پیچھا کرے گا جہاں وہ جائے گا وہ اس کے پیچھے بھاگے گا کہا جائے گا یہ تیرا وہ مال ہے جس پر تو بخل کیا کرتا تھا جب وہ دیکھے گا کہ اس سے بچنے کی کوئی صورت نہیں تو اپنا ہاتھ اس کے منہ میں ڈال دے گا تو وہ اس کے ہاتھ کو چبا ڈالے گا جیسا کہ نر اونٹ چبا لیتا ہے۔

【36】

زکوة وصول کرنے والوں کی راضی کرنے کے بیان میں

ابوکامل فضیل بن حسین جحدری، عبدالواحد بن زیاد، محمد بن ابواسماعیل، عبدالرحمن بن ہلال عبسی، جریر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ کچھ اعرابیوں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا ہم پر زکوٰۃ وصول کرنے والے زیادتی کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا زکوٰۃ وصول کرنے والوں کو خوش کردیا کرو جریر کہتے ہیں کہ جب سے میں نے رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد گرامی سنا ہے تو ہر زکوٰۃ وصول کرنے والا مجھ سے راضی ہو کر ہی گیا ہے۔

【37】

زکوة وصول کرنے والوں کی راضی کرنے کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، عبدالرحیم بن سلیمان، محمد بن بشار، یحییٰ بن سعید، اسحاق، ابواسامہ، محمد بن ابواسماعیل اس سند کے ساتھ بھی یہ حدیث اسی طرح نقل کی گئی ہے۔

【38】

زکوة ادا نہ کرنے پر سزا کی سختی کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، وکیع، اعمش، معرور بن سوید، حضرت ابوذر (رض) روایت ہے کہ میں نبی ﷺ کے پاس پہنچا اور آپ ﷺ کعبہ کے سایہ میں تشریف فرما تھے جب آپ ﷺ نے مجھے دیکھا تو فرمایا رب کعبہ کی قسم وہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں، میں آکر آپ ﷺ کے پاس بیٹھ گیا تو نہ ٹھہر سکا اور کھڑا ہوگیا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان ہوں وہ کون ہیں ؟ فرمایا وہ بہت مال والے ہیں سوائے اس کے جو اس اس طرح اپنے سامنے سے اپنے پیچھے سے اپنے دائیں اور بائیں سے اور ان میں سے کم لوگ وہ ہیں جو اونٹ اور گائے اور بکریوں والے ان کی زکوٰۃ ادا نہیں کرتے تو وہ قیامت کے دن بڑھ چڑھ کر فربہ ہو کر آئیں گی ان کو اپنے سینگوں سے زخمی کریں گی اور اپنے کھروں سے روندیں گی جب ان کا پچھلا گزر جائے گا تو اس پر ان کا پہلا لوٹ آئے گا یہاں تک کہ لوگوں کا فیصلہ کردیا جائے۔

【39】

زکوة ادا نہ کرنے پر سزا کی سختی کے بیان میں

ابوکریب، محمد بن علاء، ابومعاویہ، اعمش، معرور، ابوذر (رض) روایت ہے کہ میں نبی ﷺ کے پاس پہنچا اور آپ ﷺ کعبہ کے سایہ میں بیٹھنے والے تھے باقی حدیث گزر چکی ہے اس میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے جو آدمی زمین پر مرتا ہے اور اونٹ یا گائے یا بکری چھوڑتا ہے جن کی زکوٰۃ ادا نہ کرتا تھا۔

【40】

زکوة ادا نہ کرنے پر سزا کی سختی کے بیان میں

عبدالرحمن بن سلام جمحی، ابن مسلم، محمد بن زیاد، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا میرے لئے یہ بات باعث مسرت نہیں کہ میرے لئے احد پہاڑ کے برابر سونا ہو اور تیسری شب مجھ پر آجائے اور ان میں سے ایک دینار بھی میرے پاس باقی ہو سوائے اس دینار کے کہ اس کو میں اپنے قرض کی ادائیگی کے لئے بچا رکھوں۔

【41】

زکوة ادا نہ کرنے پر سزا کی سختی کے بیان میں

محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، محمد بن زیاد، ابوہریرہ اسی حدیث کی دوسری سند ذکر کی ہے۔

【42】

صدقہ کی ترغیب کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، یحییٰ بن یحیی، ابن نمیر، ابوکریب، ابومعاویہ، اعمش، زید بن وہب، حضرت ابوذر (رض) سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ عشاء کی نماز کے وقت مدینہ کی زمین حرہ میں چل رہا تھا اور ہم احد کو دیکھ رہے تھے تو مجھے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے ابوذر ! میں نے عرض کیا لبیک اے اللہ کے رسول ! میں یہ پسند نہیں کرتا کہ احد پہاڑ میرے پاس سونے کا ہو اور تیسری شب تک میرے پاس اس میں سے ایک دینار بھی بچ جائے سوائے اس دینار کے جس کو میں اپنے قرض کی ادائیگی کے لئے روک رکھوں بلکہ میں اللہ کے بندوں کو اس طرح بانٹوں اور آپ ﷺ نے اپنے سامنے ایک لپ بھر کر اشارہ کیا اور اسی طرح دائیں اور اسی طرح اپنے بائیں پھر ہم چلے آپ ﷺ نے فرمایا : اے ابوذر ! میں نے کہا لبیک اے اللہ کے رسول ! فرمایا کثرت مال والے ہی قلیل مال والے ہوں گے قیامت کے دن سوائے ان لوگوں کے جو اس طرح اور اس طرح دیتے ہیں جیسا کہ آپ ﷺ نے پہلی مرتبہ کیا پھر ہم چلے آپ ﷺ نے فرمایا : اے ابوذر ! تم یہاں ہی رہنا جب تک میں تمہارے پاس نہ آؤں آپ ﷺ چلے کہ مجھ سے چھپ گئے پھر میں نے کچھ گنگناہٹ اور آواز سنی تو میں نے کہا شاید رسول اللہ ﷺ کو کوئی امر پیش آگیا ہو میں نے آپ ﷺ کے پیچھے جانے کا ارادہ کیا تو مجھے آپ ﷺ کا حکم یاد آگیا کہ جب تک میں تمہارے پاس نہ آجاؤں تم اپنی جگہ پر ہی رہنا میں نے آپ ﷺ کا انتظار کیا جب آپ ﷺ تشریف لائے تو میں نے اس کا ذکر کیا جو میں نے سنا تو آپ ﷺ نے فرمایا جبرائیل (علیہ السلام) میرے پاس آئے فرمایا کہ آپ ﷺ کی امت میں سے جو فوت ہوا اس حال میں کہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرتا ہو تو جنت میں داخل ہوگا، ابوذر کہتے ہیں میں نے کہا اگر اس نے زنا کیا یا چوری کی فرمایا اگرچہ اس نے زنا یا چوری کی۔

【43】

صدقہ کی ترغیب کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، جریر، عبدالعزیز بن رفیع، زید بن وہب، ابوذر (رض) روایت ہے کہ میں ایک رات نکلا تو دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ اکیلے بغیر کسی ہمراہی انسان کے ٹہل رہے تھے میں نے گمان کیا آپ ﷺ اپنے ساتھ کسی کے چلنے کو ناپسند فرمائیں گے تو میں نے چاند کے سایہ میں چلنا شروع کردیا آپ ﷺ میری طرف متوجہ ہوئے مجھے دیکھ کر فرمایا کون ہے ؟ میں نے کہا ابوذر اللہ مجھے آپ ﷺ پر قربان کرے، فرمایا اے ابوذر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) میرے پاس آؤ میں آپ ﷺ کے ساتھ کچھ دیر چلا تو آپ ﷺ نے فرمایا مالدار لوگ ہی قیامت کے دن کم مال والے ہوں گے سوائے ان لوگوں کے جن کو اللہ نے مال عطا کیا اور پھونک سے اپنے دائیں بائیں یا سامنے اور پیچھے اڑا دے اور اس میں نیک اعمال کرے پھر میں آپ ﷺ کے ساتھ کچھ دیر چلا تو آپ ﷺ نے فرمایا یہاں بیٹھ جا اور آپ ﷺ نے مجھے ایک ہموار زمین پر بٹھا دیا جس کے اردگرد پتھر تھے آپ ﷺ نے فرمایا میرے آ نے تک یہاں بیٹھے رہو آپ ﷺ زمین حرہ میں ایک طرف چل دیئے یہاں تک کہ میں نے آپ ﷺ کو نہ دیکھا کافی دیر ٹھہر نے کے بعد میں نے آپ ﷺ سے آتے ہوئے سنا اگرچہ اس نے چوری اور اس نے زنا کیا آپ ﷺ جب تشریف لائے تو میں نے صبر کئے بغیر عرض کیا اے اللہ کے نبی ﷺ اللہ مجھے آپ ﷺ پر قربان کرے آپ ﷺ سے حرہ کی طرف کون گفتگو کر رہا تھا میں نے تو کسی کو نہیں دیکھا فرمایا وہ جبرائیل تھے جو حرہ میں میرے پاس آئے تو انہوں نے کہا اپنی امت کو خوشخبری دے دو جو اللہ کے ساتھ شرک کئے بغیر مرگیا جنت میں داخل ہوگا میں نے کہا اے جبرائیل اگرچہ اس نے چوری یا زنا کیا ہو کہا جی ہاں فرمایا میں نے کہا اگرچہ اس نے چوری اور زنا کیا اس نے کہا جی ہاں میں نے کہا اگرچہ اس نے چوری اور زنا کیا ہو اس نے کہا ہاں اگرچہ اس نے شراب پی۔

【44】

اموال جمع کرنے والوں پر عذاب کی سختی کے بیان میں

زہیر بن حرب، اسماعیل بن ابراہیم، جریری، ابوعلاء، حضرت احنف بن قیس (رض) سے روایت ہے کہ میں مدینہ آیا تو میں سرداران قریش کے ساتھ بیٹھا تھا کہ ایک آدمی موٹے کپڑے سخت جسم و چہرے والا آیا اور ان کے پاس کھڑا ہوا اور کہا بشارت دے دو مال جمع کرنے والوں کو گرم پتھر کی کہ ان کے لئے جہنم کی آگ میں گرم کیا جائے گا اور ان کے سینوں پر اس طرح رکھا جائے گا کہ شانہ کی نوک سے پار ہوجائے گا اور شانوں کی نوک پر رکھا جائے گا یہاں تک کہ پستان کے سر سے پار ہوجائے اور آدمی بےقرار ہوجائے گا تو لوگوں نے اپنے سر جھکا لئے میں نے کسی آدمی کو نہ دیکھا کہ جس نے اس کو کوئی جواب دیا ہو وہ پھرے اور میں نے ان کی پیروی کی یہاں تک کہ وہ ایک ستون کے پاس جا بیٹھے تو میں نے کہا میرا خیال ہے کہ ان لوگوں کو آپ کی بات ناگوار گزری ہے تو انہوں نے کہا یہ لوگ کوئی سمجھ بوجھ نہیں رکھتے میرے خلیل ابوالقاسم ﷺ نے مجھے بلایا میں گیا تو فرمایا کیا تم احد دیکھ رہے ہو تو میں نے اپنے اوپر پڑنے والی سورج کی شعاع کو دیکھا اور میں نے خیال کیا کہ آپ ﷺ مجھے اپنی کسی ضرورت کے لئے بھیجنا چاہتے ہیں میں نے عرض کیا جی ہاں میں اس کو دیکھتا ہوں تو آپ ﷺ نے فرمایا مجھے یہ بات پسند نہیں کہ میرے لئے اس کی مثل سونا ہو لیکن اگر ہو تو میں تین دینار کے علاوہ سب کا سب خرچ کر دوں اور یہ لوگ دنیا جمع کرتے ہیں اور سمجھ رکھتے میں نے کہا آپ کا اپنے قریشی بھائیوں کے ساتھ کیا حال ہے نہ آپ ان سے ملتے ہیں نہ ان کے پاس جاتے اور نہ ان سے کچھ مانگتے ہیں فرمایا اللہ کی قسم میں نہ ان سے دنیا مانگوں گا ورنہ دنیوی معاملہ کروں گا یہاں تک کہ میں اللہ اور اس کے رسول سے جاملوں۔

【45】

اموال جمع کرنے والوں پر عذاب کی سختی کے بیان میں

شیبان بن فروخ، ابوالاشہب، خلیدعصری، حضرت احنف بن قیس (رض) سے روایت ہے کہ میں قریش کی ایک جماعت میں تھا کہ حضرت ابوذر یہ کہتے ہوئے گزرے، خوشخبری دے دو مال جمع کرنے والوں کو ایسے داغوں سے جو ان کی پشت پر لگائے جائیں گے تو ان کی پیشانیوں سے نکل آئیں گے، پھر وہ علیحدہ ہو کر بیٹھ گئے، میں نے کہا یہ کون ہے ؟ انہوں نے کہا یہ ابوذر ہے میں ان کی طرف کھڑا ہوا اور کہا یہ کیا بات تھی جو میں نے آپ سے ابھی سنی، کہا میں نے وہی بات کہی جس کو میں نے ان کے نبی ﷺ سے سنا میں نے کہا آپ عطا و بخشش کے مال کے بارے میں کیا کہتے ہیں ؟ فرمایا اس کو لے لو کیوں کہ اس سے آج کل تمہیں مدد حاصل ہوگی اور اگر یہ تیرے دین کی قیمت ہو تو چھوڑ دو ۔

【46】

خرچ کرنے کی ترغیب اور خرچ کرنے والے کے لئے بشارت کے بیان میں

زہیر بن حرب، محمد بن عبداللہ بن نمیر، سفیان بن عیینہ، ابوزناد، اعرج حضرت ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ فرماتے ہیں اے بنی آدم تو خرچ کر میں تجھ پر خرچ کروں گا نیز فرمایا اللہ کا دایاں ہاتھ بھرا ہوا ہے اور رات دن کے برسنے سے اس میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔

【47】

خرچ کرنے کی ترغیب اور خرچ کرنے والے کے لئے بشارت کے بیان میں

محمد بن رافع، عبدالرزاق بن ہمام، معمر بن راشد، ہمام بن منبہ، وہب بن منبہ حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت میں ہے ایک روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ فرماتا ہے خرچ کر تجھ پر خرچ کیا جائے گا اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ کا دایاں ہاتھ بھرا ہوا ہے اور رات دن کی فیاضی سے اس میں کمی واقع نہیں ہوتی کیا تم نہیں دیکھتے کہ اس نے آسمان و زمین کے پیدا کرنے سے کتنی فیاضی کی ہے لیکن اس کے دائیں ہاتھ میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی اور فرمایا اللہ کا عرش پانی پر تھا اور اس کے دوسرے ہاتھ میں روکنے کی طاقت ہے جسے چاہتا ہے بلند کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے پست کرتا ہے۔

【48】

اہل وعیال اور غلام پر خرچ کرنے کی فضیلت اور انکے حق کو ضائع کرنے اور انکے نفقہ کو روک کر بیٹھ جانے کے گناہ کے بیان میں۔

ابوربیع زہرانی، قتیبہ بن سعید، حماد بن زید، ابوربیع، حماد بن ربیعہ، ایوب، ابوقلابہ، اسماء رحبی، حضرت ثوبان (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا افضل دینار جو آدمی خرچ کرتا ہے وہ ہے جو اپنے اہل و عیال پر خرچ کرتا ہے اور وہ دینار جس کو اللہ کے راستہ میں اپنے جانور پر خرچ کرتا ہے اور وہ دینار جو اپنے ساتھیوں پر اللہ کے راستے میں خرچ کرتا ہے۔ ابوقلابہ نے کہا عیال سے شروع کیا پھر ابوقلابہ نے کہا اس سے بڑھ کر کس آدمی کا ثواب ہے جو اپنے چھوٹے بچوں پر ان کی عزت وآبرو بچانے کے لئے خرچ کرتا ہے یا نفع دے اللہ ان کو اس کے سبب سے اور ان کو بےپرواہ کردیتا ہے۔

【49】

اہل وعیال اور غلام پر خرچ کرنے کی فضیلت اور انکے حق کو ضائع کرنے اور انکے نفقہ کو روک کر بیٹھ جانے کے گناہ کے بیان میں۔

ابوبکر بن ابی شیبہ، زہیر بن حرب، ابوکریب، وکیع، سفیان، مزاحم بن زفر، مجاہد، حضرت ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وہ دینار جس کو تو اللہ کے راستہ میں خرچ کرتا ہے اور وہ دینار جس کو تو غلام پر خرچ کرتا ہے اور وہ دینار جو تو نے مسکین پر خیرات کردیا اور وہ دینار جو تو نے اپنے اہل و عیال پر خرچ کیا ہے ان میں سب سے زیادہ ثواب اس دینار کا ہے جو تو اپنے اہل و عیال پر خرچ کرتا ہے۔

【50】

اہل وعیال اور غلام پر خرچ کرنے کی فضیلت اور انکے حق کو ضائع کرنے اور انکے نفقہ کو روک کر بیٹھ جانے کے گناہ کے بیان میں۔

سعید بن محمد جرمی، عبدالرحمن بن عبدالملک بن ابجر کنانی، طلحہ بن مصرف، حضرت خیثمہ سے روایت ہے کہ ہم ابن عمر (رض) کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ ﷺ کے پاس آپ کا خزانچی داخل ہوا تو ابن عمر نے کہا تو نے غلاموں کو ان کا حق دے دیا ؟ اس نے کہا نہیں فرمایا جاؤ ان کو انکا کھانا دے دو ، کہا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا آدمی کا یہی گناہ کافی ہے کہ اپنے مملوک کے حق کو روک کر بیٹھ جائے۔

【51】

خرچ کرنے میں اپنے آپ سے ابتداء کرے پھر اہل وعیال پھر رشتہ دار۔

قتیبہ بن سعید، لیث، محمد بن رمح، ابوزبیر، حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ بنی عذرہ میں سے ایک آدمی نے اپنا غلام اپنے مرنے کے بعد آزاد کیا یعنی اس نے یہ کہا کہ میرے مرنے کے بعد تو آزاد ہے اس بات کی اطلاع رسول اللہ ﷺ کو ہوئی تو آپ ﷺ نے فرمایا کیا تیرے پاس اس کے علاوہ مال ہے ؟ اس نے کہا نہیں آپ ﷺ نے فرمایا اس کو مجھ سے کون خریدے گا تو اس کو نعیم بن عبداللہ نے آٹھ سو درہم میں خرید لیا اور وہ دراہم رسول اللہ ﷺ کے پاس لائے گئے اور آپ ﷺ نے غلام کے مالک کو دے دیئے پھر فرمایا اپنی ذات سے ابتداء کر اور اس پر خرچ کرو اگر اس سے کچھ بچ جائے تو اپنے اہل کے لئے اگر تیرے اہل سے بچ جائے تو اپنے رشتہ داروں کے لئے اور اگر تیرے رشتہ داروں سے بھی کچھ بچ جائے تو اس اس طرح اور اپنے ہاتھوں سے آپ ﷺ اپنے دائیں اور بائیں اشارہ کرتے تھے۔

【52】

خرچ کرنے میں اپنے آپ سے ابتداء کرے پھر اہل وعیال پھر رشتہ دار۔

یعقوب بن ابراہیم دورقی، اسماعیل بن علیہ، ایوب، ابوزبیر، حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ انصار میں سے ایک آدمی ابومذکور نے اپنے غلام یعقوب کو اپنے بعد آزاد ہونے کا کہا باقی حدیث اوپر گزر چکی۔

【53】

رشتہ دار بیوی اولاد اور والدین اگرچہ مشرک ہوں ان پر خرچ کرنے کی فضیلت کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، مالک، اسحاق بن عبداللہ بن ابوطلحہ، حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ ابوطلحہ انصار میں سے سب سے زیادہ مالدار تھے اور ان کو اپنے مال میں سب سے زیادہ باغ بیرحاء محبوب تھا اور وہ مسجد نبوی کے سامنے تھا رسول اللہ ﷺ اس میں تشریف لے جاتے اور اس کا عمدہ پانی نوش فرماتے، انس کہتے ہیں جب آیت (لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ) 3 ۔ آل عمران : 92) نازل ہوئی تو ابوطلحہ نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے کھڑے ہو کر عرض کیا کہ اللہ اپنی کتاب میں فرماتا ہے تم نیکی کی حد کو اس وقت تک نہیں پہنچ سکتے جب تک تم اپنی پسندیدہ چیز خرچ نہ کرو اور مجھے میرے تمام اموال میں سب سے محبوب بیر حاء ہے یہ اللہ کے لئے خیرات ہے میں اس کے ثواب اور آخرت میں ذخیرہ ہونے کی امید کرتا ہوں یا رسول اللہ ﷺ ! آپ ﷺ اس کو جہاں چاہیں رکھیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بہت خوب یہ بہت نفع بخش مال ہے میں نے سنا جو تم نے کہا میں مناسب یہ سمجھتا ہوں کہ تم اس کو اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کردو تو ابوطلحہ نے اس باغ کو اپنے رشتہ داروں اور چچا کے بیٹوں میں تقسیم کردیا۔

【54】

رشتہ دار بیوی اولاد اور والدین اگرچہ مشرک ہوں ان پر خرچ کرنے کی فضیلت کے بیان میں

محمد بن حاتم، بہز، حماد بن سلمہ، ثابت، حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ جب یہ آیت (لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ) 3 ۔ آل عمران : 92) ہوئی تو ابوطلحہ نے کہا میں نے دیکھا کہ ہمارا پروردگار ہمارا مال ہم سے طلب فرماتا ہے تو رسول اللہ ﷺ کو گواہ کرتا ہوں کہ میں اپنی زمین بیر حاء والی اللہ کے لئے دیتا ہوں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اس کو اپنے رشتہ داروں کو دے دو تو انہوں نے اسے حسان بن ثابت اور ابی بن کعب میں تقسیم کردیا۔

【55】

رشتہ دار بیوی اولاد اور والدین اگرچہ مشرک ہوں ان پر خرچ کرنے کی فضیلت کے بیان میں

ہارون بن سعید ایلی، ابن وہب، عمرو، بکیر، کریب، حضرت میمونہ بنت حارث سے روایت ہے کہ اس نے رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ایک لونڈی آزاد کی اور میں نے اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا اگر تو اسے اپنے ماموں کو دے دیتی تو تیرے لئے بڑا ثواب ہوتا۔

【56】

رشتہ دار بیوی اولاد اور والدین اگرچہ مشرک ہوں ان پر خرچ کرنے کی فضیلت کے بیان میں

حسن بن ربیع، ابواحوص، اعمش، ابو وائل، عمرو بن حارث، زوجہ عبداللہ حضرت زینب سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے عورتوں کی جماعت صدقہ کرو اگرچہ تمہارے زیورات سے ہو فرماتی ہیں میں حضرت عبداللہ کے پاس لوٹی اور عرض کیا کہ آپ خالی ہاتھ والے آدمی ہیں اور رسول اللہ ﷺ نے ہمیں صدقہ کرنے کا حکم فرمایا ہے تم آپ ﷺ کے پاس جا کر پوچھ کر آؤ اگر میری طرف سے آپ کو دینا کافی ہوجائے تو بہتر ورنہ تمہارے علاوہ کسی اور کو دوں، تو عبداللہ (رض) نے مجھے فرمایا تم خود ہی جا کر آپ ﷺ سے پوچھ لو میں چلی جب آپ ﷺ کے دروازہ پر پہنچی تو انصاری عورتوں میں سے ایک عورت میری حاجت ہی لے کر موجود تھی اور اللہ کے رسول ﷺ پر عظمت و جلال چھایا ہوا تھا ہماری طرف حضرت بلال آئے تو ان سے ہم نے کہا تم رسول اللہ ﷺ کے پاس جاؤ اور آپ ﷺ کو خبر دو کہ دروازے پر موجود دو عورتیں آپ ﷺ سے سوال کرتی ہیں کہ ان کی طرف سے صدقہ ان کے خاوندوں پر کفایت کر جائے گا یا ان یتیموں پر صدقہ کردیں جو ان کی گود میں ہیں اور آپ ﷺ کو یہ نہ بتانا کہ ہم کون ہیں حضرت بلال (رض) رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے پوچھا کہ کون ہیں ؟ تو انہوں نے کہا زینب اور ایک عورت انصار سے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کون سی زینب ؟ عرض کیا عبداللہ کی بیوی تو اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ان کے لئے دو اجر وثواب ہیں ایک رشتہ داری کا ثواب اور دوسرا صدقہ و خیرات کا ثواب۔

【57】

رشتہ دار بیوی اولاد اور والدین اگرچہ مشرک ہوں ان پر خرچ کرنے کی فضیلت کے بیان میں

احمد بن یوسف ازدی، عمرو بن حفص بن غیاث، اعمش، شقیق، عمرو بن حارث، اسی حدیث کی دوسری سند ذکر کی ہے لیکن اس میں یہ ہے کہ حضرت زینب فرماتی ہیں میں مسجد میں تھی نبی ﷺ نے مجھے دیکھا تو فرمایا صدقہ کرو اگرچہ اپنے زیورات ہی سے ہو باقی حدیث گزر چکی۔

【58】

رشتہ دار بیوی اولاد اور والدین اگرچہ مشرک ہوں ان پر خرچ کرنے کی فضیلت کے بیان میں

ابوکریب محمد بن علاء، ابواسامہ، ہشام بن عروہ، زینب بنت ابوسلمہ حضرت ام سلمہ (رض) سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ مجھے ابوسلمہ کے بیٹوں پر خرچ کرنے سے ثواب ہوگا ؟ اور میں ان کو چھوڑنے والی نہیں ہوں کہ ادھر ادھر پریشان ہوجائیں کیونکہ وہ میرے بیٹے ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا ہاں تیرے لئے ان پر خرچ کرنے میں ثواب ہے۔

【59】

رشتہ دار بیوی اولاد اور والدین اگرچہ مشرک ہوں ان پر خرچ کرنے کی فضیلت کے بیان میں

سوید بن سعید، علی بن مسہر، اسحاق بن ابراہیم، عبد بن حمید، عبدالرزاق، معمر، ہشام بن عروہ اسی حدیث کی دوسری سند ذکر کی ہے۔

【60】

رشتہ دار بیوی اولاد اور والدین اگرچہ مشرک ہوں ان پر خرچ کرنے کی فضیلت کے بیان میں

عبیداللہ بن معاذ عنبری، شعبہ، عدی بن ثابت، عبداللہ بن یزید، ابومسعود بدری سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا جو اپنے اہل و عیال پر ثواب کی نیت سے خرچ کرتا ہے تو وہ اسی کے لئے صدقہ ہوگا۔

【61】

رشتہ دار بیوی اولاد اور والدین اگرچہ مشرک ہوں ان پر خرچ کرنے کی فضیلت کے بیان میں

محمد بن بشار، ابوبکر بن نافع، محمد بن جعفر، ابوکریب، وکیع، شعبہ اسی حدیث کی دوسری سند ذکر کی ہے۔

【62】

رشتہ دار بیوی اولاد اور والدین اگرچہ مشرک ہوں ان پر خرچ کرنے کی فضیلت کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، عبداللہ بن ادریس، ہشام بن عروہ، حضرت اسماء (رض) سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول میری والدہ حالت کفر میں میرے پاس آئیں کیا میں اس کے ساتھ صلہ رحمی کرسکتی ہوں ؟ فرمایا جی ہاں۔

【63】

رشتہ دار بیوی اولاد اور والدین اگرچہ مشرک ہوں ان پر خرچ کرنے کی فضیلت کے بیان میں

ابوکریب محمد بن علاء، ابواسامہ، ہشام، حضرت اسماء بنت ابوبکر (رض) سے روایت ہے کہ میری والدہ میرے پاس آئیں حالانکہ وہ مشرکہ تھی جب کہ آپ ﷺ نے قریش کے ساتھ معاہدہ کیا ہوا تھا تو میں نے رسول اللہ ﷺ سے فتوی طلب کیا میں نے عرض کیا کہ میری مشرکہ والدہ میرے پاس آئی ہے کیا میں اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کروں آپ ﷺ نے فرمایا اپنی والدہ کے ساتھ حسن سلوک کر۔

【64】

میت کی طرف سے ایصال ثواب کے بیان میں

محمد بن عبداللہ بن نمیر، محمد بن بشر، ہشام، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی ﷺ کے پاس آیا اور عرض کی یا رسول اللہ میری والدہ بغیر وصیت کے فوت ہوگئی ہے اور میرا گمان ہے اگر وہ بات کرتی تو وہ صدقہ کرتی اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کروں تو اس کو ثواب ہوجائے گا آپ ﷺ نے فرمایا ہاں۔

【65】

میت کی طرف سے ایصال ثواب کے بیان میں

زہیر بن حرب، یحییٰ بن سعید، ابوکریب، ابواسامہ، علی بن حجر، علی بن مسہر، حکم بن موسی، شعیب بن اسحاق، ہشام، ابواسامہ اسی حدیث کی دوسری اسناد ذکر کی ہیں۔

【66】

ہر قسم کی نیکی پر صدقہ کا نام واقع ہونے کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، ابوعوانہ، ابوبکر بن ابی شیبہ، عباد بن عوام، ابومالک اشجعی، ربعی بن حراش، حضرت حذیفہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا ہر نیکی صدقہ ہے۔

【67】

ہر قسم کی نیکی پر صدقہ کا نام واقع ہونے کے بیان میں

عبداللہ بن محمد بن اسماء ضبعی، مہدی بن میمون، واصل مولیٰ ابی عیینہ، یحییٰ بن عقیل، یحییٰ بن یعمر، ابواسود دیلی، حضرت ابوذر (رض) سے روایت ہے کہ اصحاب النبی ﷺ میں سے کچھ لوگوں نے نبی ﷺ سے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! مالدار سب ثواب لے گئے وہ نماز پڑھتے ہیں جیسا کہ ہم نماز پڑھتے ہیں وہ ہماری طرح روزہ رکھتے ہیں اور وہ اپنے زائد اموال سے صدقہ کرتے ہیں، آپ نے فرمایا کیا اللہ نے تمہارے لئے وہ چیز نہیں بنائی جس سے تم کو بھی صدقہ کا ثواب ہو ہر تسبیح ہر تکبیر صدقہ ہے ہر تعریفی کلمہ صدقہ ہے اور لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ کہنا صدقہ ہے اور نیکی کا حکم کرنا صدقہ ہے اور برائی سے منع کرنا صدقہ ہے تمہارے ہر ایک کی شرمگاہ میں صدقہ ہے، صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا اللہ کے رسول کیا ہم میں کوئی اپنی شہوت پوری کرے تو اس میں بھی اس کے لئے ثواب ہے فرمایا کیا تم دیکھتے نہیں اگر وہ اسے حرام جگہ استعمال کرتا تو وہ اس کے لئے گناہ کا باعث ہوتا اسی طرح اگر وہ اسے حلال جگہ صرف کرے گا تو اس پر اس کو ثواب حاصل ہوگا۔

【68】

ہر قسم کی نیکی پر صدقہ کا نام واقع ہونے کے بیان میں

حسن بن علی حلوانی، ابوتوبہ ربیع بن نافع، معاویہ بن سلام، زید، ابوسلام، عبداللہ بن فروخ، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بنی آدم میں سے ہر انسان کو تین سو ساٹھ جوڑوں سے پیدا کیا گیا ہے، جس نے اللہ کی بڑائی بیان کی اور اللہ کی تعریف کی اور تہلیل یعنی لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ کہا اور اللہ کی تسبیح یعنی سُبْحَانَ اللَّهِ کہا اور اَسْتَغْفَرَ اللَّهَ کہا اور لوگوں کے راستہ سے پتھریا کانٹے یا ہڈی کو ہٹا دیا اور نیکی کا حکم کیا اور برائی سے منع کیا تین سو ساٹھ جوڑوں کی تعداد کے برابر۔ اس دن چلتا ہے حالانکہ اس نے اپنی جان کو دوزخ سے دور کرلیا ہے ابوتوبہ کی روایت ہے کہ وہ شام کو سب گناہوں سے پاک و صاف ہوگا۔

【69】

ہر قسم کی نیکی پر صدقہ کا نام واقع ہونے کے بیان میں

عبداللہ بن عبدالرحمن دارمی، یحییٰ بن حسان، معاویہ، زیداوپر والی حدیث ہی کی دوسری سند ذکر کی ہے الفاظ کے تغیر وتبدل کی طرف اشارہ کیا معنی و مفہوم ایک ہی ہے۔

【70】

ہر قسم کی نیکی پر صدقہ کا نام واقع ہونے کے بیان میں

ابوبکر بن نافع عبدی، یحییٰ بن کثیر، علی بن مبارک، یحیی، زید بن سلام، ابوسلام، عبداللہ بن فروخ، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہر انسان کو پیدا کیا گیا ہے معاویہ عن زید کی حدیث کی طرح اور اس میں ہے کہ وہ اس دن شام کرتا ہے۔

【71】

ہر قسم کی نیکی پر صدقہ کا نام واقع ہونے کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابواسامہ، شعبہ، سعید بن ابی بردہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا ہر مسلمان پر صدقہ لازم ہے عرض کیا گیا اگر یہ نہ ہو سکے تو کیا حکم ہے ؟ فرمایا اپنے ہاتھوں سے کمائے اور اپنے آپ کو نفع پہنچائے اور صدقہ کرے، عرض کیا اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو کیا حکم ہے ؟ فرمایا ضرورت مند مصیبت زدہ کی مدد کرے، آپ سے عرض کیا گیا اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو آپ ﷺ نے فرمایا نیکی کا حکم کرے اور یہ بھی نہ کرسکے تو آپ ﷺ کیا حکم دیتے ہیں ؟ فرمایا برائی سے رک جائے اس کے لئے یہ بھی صدقہ ہے۔

【72】

ہر قسم کی نیکی پر صدقہ کا نام واقع ہونے کے بیان میں

محمد بن مثنی، عبدالرحمن بن مہدی، شعبہ اسی حدیث کی دوسری سند ذکر کی ہے۔

【73】

ہر قسم کی نیکی پر صدقہ کا نام واقع ہونے کے بیان میں

محمد بن رافع، عبدالرزاق بن ہمام، معمر، ہمام بن منبہ، حضرت ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہر دن جس میں سورج طلوع ہوتا ہے ہر آدمی کے ہر جوڑ پر صدقہ واجب ہوتا ہے فرمایا دو آدمیوں کے درمیان عدل کرنا صدقہ ہے آدمی کو اس کی سواری پر سوار کرنا یا اس کا سامان اٹھانا یا اس کے سامان کو سواری سے اتارنا صدقہ ہے اور پاکیزہ بات کرنا صدقہ ہے اور نماز کی طرف چل کر جانے میں ہر قدم صدقہ ہے اور راستہ سے تکلیف دہ چیز کا ہٹا دینا بھی صدقہ ہے۔

【74】

خرچ کرنے والے اور بخل کرنے والے کے بیان میں

قاسم بن زکریا، خالد بن مخلد، سلیمان بن بلال، معاویہ بن ابومزرد، سعید بن یسار، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہر دن جس میں بندے صبح کرتے ہیں دو فرشتے اترتے ہیں ان میں سے ایک کہتا ہے اے اللہ خرچ کرنے والوں کو اچھا بدلہ عطا فرما اور دوسرا کہتا ہے اے اللہ بخیل کو ہلاک کرنے والا مال عطا کر۔

【75】

صدقہ قبول کرنے والا نہ پانے سے پہلے پہلے صدقہ کرنے کی ترغیب کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شبیہ، ابن نمیر، وکیع، شعبہ، محمد بن مثنی، محمد بن جعفر، شعبہ، معبد بن خالد، حضرت حارثہ (رض) بن وہب (رض) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا صدقہ کرو کیونکہ عنقریب ایسا وقت آنے والا ہے کہ آدمی اپنا صدقہ لے کے چلے گا تو وہ جس کو دے گا وہ کہے گا اگر تو میرے پاس کل لے آتا تو اس کو قبول کرلیتا لیکن اس وقت مجھے اس کی حاجت ضرورت نہیں غرض اسے کوئی نہ ملے گا جو صدقہ قبول کرلے۔

【76】

صدقہ قبول کرنے والا نہ پانے سے پہلے پہلے صدقہ کرنے کی ترغیب کے بیان میں

عبداللہ بن براد اشعری، ابوکریب محمد بن علاء، ابواسامہ، بریدہ، حضرت ابوموسی سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا لوگوں پر ایک زمانہ ایسا ضرور آئے گا کہ آدمی سونے کا صدقہ لے کر پھرے گا پھر وہ کسی کو اس سے لینے والا نہ پائے گا اور ایک آدمی دیکھا جائے گا کہ چالیس عورتیں اس کے پیچھے ہوں گی اور اس سے پناہ لیں گی مردوں کی قلت اور عورتوں کی کثرت کی وجہ سے ابن براد کی روایت ہے کہ تو آدمی کو دیکھے گا۔

【77】

صدقہ قبول کرنے والا نہ پانے سے پہلے پہلے صدقہ کرنے کی ترغیب کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، یعقوب بن عبدالرحمن قاری، سہیل، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تک مال کی کثرت نہ ہوجائے گی اور بہہ نہ پڑے گا قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ آدمی اپنے مال کی زکوٰۃ لے کر نکلے گا اور وہ کسی کو نہ پائے گا جو اس سے صدقہ قبول کرلے یہاں تک کہ عرب کی زمین چراگاہوں اور نہروں کی طرف لوٹ آئے گی۔

【78】

صدقہ قبول کرنے والا نہ پانے سے پہلے پہلے صدقہ کرنے کی ترغیب کے بیان میں

ابوطاہر، ابن وہب، عمرو بن حارث، ابویونس، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک تمہارے پاس مال کی کثرت نہ ہوجائے اور وہ بڑھ نہ جائے یہاں تک کہ مال والا سوچے گا کہ اس سے صدقہ کون وصول کرے گا اور اس کی طرف آدمی صدقہ لینے کے لئے بلایا جائے گا تو وہ کہے گا کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔

【79】

صدقہ قبول کرنے والا نہ پانے سے پہلے پہلے صدقہ کرنے کی ترغیب کے بیان میں

واصل بن عبدالاعلی، ابوکریب، محمد بن یزید رفاعی، محمد بن فضیل، حازم، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا زمین اپنے کلیجے کے ٹکڑوں کی قے کر دے گی سونے اور چاندی کے ستونوں کی طرح۔ قاتل آکر کہے گا اسی کی وجہ سے میں نے قتل کیا تھا اور قطع رحمی کرنے والا کہے گا میں نے اسی کی وجہ سے قطع رحمی کی چوری کرنے والا آئے گا تو کہے گا اسی کی وجہ سے میرا ہاتھ کاٹا گیا پھر وہ سب اس کو چھوڑ دیں گے وہ اس میں سے کچھ بھی نہ لیں گے۔

【80】

حلال کمائی سے صدقہ کی قبولیت اور اس کے بڑھنے کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، لیث، سعید بن ابی سعید، سعید بن یسار، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ پاک مال ہی کو قبول کرتا ہے جو اپنے پاکیزہ مال سے صدقہ دیتا ہے تو اللہ اس کو اپنے دائیں ہاتھ میں لے لیتا ہے اگرچہ وہ ایک کھجور ہی ہو تو وہ اللہ کے ہاتھ میں بڑھتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ پہاڑ سے بھی بڑا ہوجاتا ہے جس طرح تم میں سے کوئی اپنے بچھڑے یا اونٹنی کے بچے کی پرورش کرتا ہے۔

【81】

حلال کمائی سے صدقہ کی قبولیت اور اس کے بڑھنے کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، یعقوب بن عبدالرحمن قاری، سہیل، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میں سے کوئی بھی اپنی پاکیزہ کمائی میں سے ایک کھجور بھی صدقہ کرتا ہے تو اللہ اس کو اپنے دائیں ہاتھ میں لیتا ہے اس کی پرورش کرتا ہے جیسا کہ تم میں کوئی اپنے بچھڑے یا اونٹنی کے بچے کی پرورش کرتا ہے یہاں تک کہ وہ پہاڑ یا اس سے بھی بڑا ہوجاتا ہے۔

【82】

حلال کمائی سے صدقہ کی قبولیت اور اس کے بڑھنے کے بیان میں

امیہ بن بسطام، یزید بن زریع، روح بن قاسم، احمد بن عثمان اودی، خالد بن مخلد، سلیمان بن بلال، سہیل اسی حدیث کی دوسری سند ذکر کی ہے لیکن اس میں ہے کہ پاک کمائی سے صدقہ دے اور یہ صدقہ اس کے حق کی جگہ میں دے۔

【83】

حلال کمائی سے صدقہ کی قبولیت اور اس کے بڑھنے کے بیان میں

ابوطاہر، عبداللہ بن وہب، ہشام بن سعد، زید بن اسلم، ابوصالح، ابوہریرہ (رض) نبی کریم ﷺ سے یہ حدیث مروی ہے۔

【84】

حلال کمائی سے صدقہ کی قبولیت اور اس کے بڑھنے کے بیان میں

ابوکریب محمد بن علاء، ابواسامہ، فضیل بن مرزوق، عدی بن ثابت، ابوحازم، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے لوگوں اللہ پاک ہے اور پاک ہی کو قبول کرتا ہے اور اللہ نے مومنین کو بھی وہی حکم دیا ہے جو اس نے رسولوں کو دیا اللہ نے فرمایا اے رسولو ! تم پاک چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو میں تمہارے عملوں کو جاننے والا ہوں اور فرمایا اے ایمان والو ہم نے جو تم کو پاکیزہ رزق دیا اس میں سے کھاؤ پھر ایسے آدمی کا ذکر فرمایا جو لمبے لمبے سفر کرتا ہے پریشان بال جسم گرد آلود اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف دراز کر کے کہتا ہے اے رب اے رب ! حالانکہ اس کا کھانا حرام اور اس کا پہننا حرام اور اس کا لباس حرام اور اس کی غذا حرام تو اس کی دعا کیسے قبول ہو۔

【85】

صدقہ کی ترغیب اگرچہ ایک کھجور یا عمدہ کلام ہی ہو وہ دوزخ سے آڑ ہے کے بیان میں

عون بن سلام کوفی، زہیر بن معاویہ جعفی، ابواسحاق، عبداللہ بن معقل، حضرت عدی (رض) بن حاتم سے روایت ہے کہ میں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ اگر تم میں سے کوئی ایک کھجور کا ٹکڑا دے کر بھی آگ سے بچنے کی طاقت رکھتا ہو تو کر گزرے۔

【86】

صدقہ کی ترغیب اگرچہ ایک کھجور یا عمدہ کلام ہی ہو وہ دوزخ سے آڑ ہے کے بیان میں

علی بن حجر سعدی، اسحاق بن ابراہیم، علی بن خشرم، ابن حجر، عیسیٰ بن یونس، اعمش، خیثمہ، حضرت عدی بن حاتم (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میں سے کوئی ایسا ہے جس کے ساتھ اللہ عنقریب گفتگو اس طرح کرے گا کہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی ترجمان نہ ہوگا آدمی اپنی دائیں طرف دیکھے گا تو اسے اپنے آگے بھیجے ہوئے اعمال نظر آئیں گے اپنے بائیں اپنے اعمال دیکھے گا اپنے آگے دوزخ دیکھے گا اپنے منہ کے سامنے آگ، تو آگ سے بچو اگرچہ کھجور کے ٹکڑے کے ساتھ ہی ہو یا کسی عمدہ گفتگو سے ہی۔

【87】

صدقہ کی ترغیب اگرچہ ایک کھجور یا عمدہ کلام ہی ہو وہ دوزخ سے آڑ ہے کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب، ابومعاویہ، اعمش، عمرو بن مرہ، خیثمہ، حضرت عدی بن حاتم (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دوزخ کا ذکر فرمایا پھر اس سے بہت زیادہ اعراض کیا پھر فرمایا دوزخ سے بچو پھر آپ ﷺ نے اعراض کیا اور زیادہ کیا یہاں تک کہ ہم نے گمان کیا گویا آپ ﷺ اس کی طرف دیکھ رہے ہیں پھر فرمایا دوزخ سے بچو اگرچہ کھجور کے ٹکڑے کے ساتھ ہی ہو پس جو یہ نہ پائے تو کلمہ طیبہ کے ساتھ ہی۔

【88】

صدقہ کی ترغیب اگرچہ ایک کھجور یا عمدہ کلام ہی ہو وہ دوزخ سے آڑ ہے کے بیان میں

محمد بن مثنی، ابن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، عمرو بن مرہ، خیثمہ، حضرت عدی بن حاتم (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دوزخ کا تذکرہ فرمایا اس سے پناہ مانگی اور تین مرتبہ اپنا چہرہ مبارک پھیرا پھر فرمایا دوزخ سے بچو اگرچہ کھجور کے ٹکڑے کے ذریعہ ہی ہو اگر تم یہ نہ پاؤ تو کلمہ طیبہ سے ہی سہی۔

【89】

صدقہ کی ترغیب اگرچہ ایک کھجور یا عمدہ کلام ہی ہو وہ دوزخ سے آڑ ہے کے بیان میں

محمد بن مثنی عنزی، محمد بن جعفر، شعبہ، عون بن ابی جحیفہ، منذر بن جریر، حضرت جریر سے روایت ہے کہ ہم دن کے شروع میں رسول اللہ ﷺ کے پاس تھے تو ایک قوم ننگے پاؤں ننگے بدن چمڑے کی عبائیں پہنے تلوراوں کو لٹکائے ہوئے حاضر ہوئی ان میں سے اکثر بلکہ سارے کے سارے قبیلہ مضر سے تھے تو رسول اللہ ﷺ کا چہرہ اقدس ان کے فاقہ کو دیکھ کر متغیر ہوگیا آپ ﷺ گھر تشریف لے گئے پھر تشریف لائے تو حضرت بلال (رض) کو حکم دیا تو انہوں نے اذان اور اقامت کہی۔ پھر آپ نے خطبہ دیا فرمایا اے لوگوں اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو پیدا کیا ایک جان سے آیت کی تلاوت کی (يٰ اَيُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيْرًا وَّنِسَا ءً وَاتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِيْ تَسَا ءَلُوْنَ بِه وَالْاَرْحَامَ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيْبًا) 4 ۔ النسآء : 1) تک اور وہ آیت جو سو رۃ حشر کی ہے (يٰ اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللّٰهَ اِنَّ اللّٰهَ خَبِيْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ ) 59 ۔ الحشر : 18) کی تلاوت کی اور فرمایا کہ آدمی اپنے دینار اور درہم اور اپنے کپڑے اور گندم کے صاع سے اور کھجور کے صاع سے صدقہ کرتا ہے۔ یہاں تک کہ آپ نے فرمایا اگرچہ کھجور کا ٹکڑا ہی ہو پھر انصار میں سے ایک آدمی تھیلی اتنی بھاری لے کر آیا کہ اس کا ہاتھ اٹھا نے سے عاجز ہو رہا تھا پھر لوگوں نے اس کی پیروی کی یہاں تک کی میں نے دو ڈھیر کپڑوں اور کھانے کے دیکھے اور رسول اللہ ﷺ کا چہرہ اقدس کندن کی طرح چمکتا ہوا نظر آ نے لگا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے اسلام میں کسی اچھے طریقہ کی ابتداء کی تو اس کے لئے اس کا اجر اور اس کے بعد عمل کرنے والوں کا ثواب ہوگا بغیر اس کے کہ ان کے ثواب میں کمی کی جائے اور جس اسلام میں کسی برے عمل کی ابتداء کی تو اس کے لئے اس کا گناہ ہے اور ان کا کچھ گناہ جنہوں نے اس کے بعد عمل کیا بغیر اس کے کہ ان کے گناہ میں کچھ کمی کی جائے۔

【90】

صدقہ کی ترغیب اگرچہ ایک کھجور یا عمدہ کلام ہی ہو وہ دوزخ سے آڑ ہے کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابواسامہ، عبیداللہ بن معاذ، شعبہ، عون بن ابی جحیفہ، منذربن جریر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ہم صبح کے وقت رسول اللہ ﷺ کے پاس موجود تھے پھر آپ ﷺ نے ظہر کی نماز ادا کی اور خطبہ دیا۔ باقی حدیث گزر چکی ہے

【91】

صدقہ کی ترغیب اگرچہ ایک کھجور یا عمدہ کلام ہی ہو وہ دوزخ سے آڑ ہے کے بیان میں

عبیداللہ بن عمر قواریری، ابوکامل، محمد بن عبدالملک اموی، ابوعوانہ، عبدالملک بن عمیر، منذر بن جریر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نبی کریم ﷺ کے پاس بیٹھا تھا کہ چند لوگ ننگے چمڑے کی عبائیں پہنے ہوئے آئے باقی حدیث گزر چکی ہے اس میں یہ ہے کہ آپ ﷺ ظہر کی نماز پڑھ کر چھوٹے منبر پر تشریف لائے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی پھر فرمایا اما بعد اللہ نے اپنی کتاب میں نازل کیا ہے

【92】

صدقہ کی ترغیب اگرچہ ایک کھجور یا عمدہ کلام ہی ہو وہ دوزخ سے آڑ ہے کے بیان میں

زہیر بن حرب، جریر، اعمش، موسیٰ بن عبداللہ بن یزید، ابوضحی، عبدالرحمن بن ہلال عبسی، جریر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ چند دیہاتی لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے انہوں نے اون پہنی ہوئی تھی اور ان کا حال برا تھا آپ ﷺ نے ان کا برا حال دیکھا تو ان کے ضرورت مند ہونے کا خیال فرمایا باقی حدیث گزر چکی ہے۔

【93】

مزدور اپنی مزدوری سے صدقہ کے کریں اور کم صدقہ کرنے والے کرنے والے کی تنقیض کرنے سے رو کنے کے بیان میں

یحییٰ بن معین، غندر، شعبہ، بشر بن خالد، ابن جعفر، شعبہ، سلیمان، ابو وائل، حضرت ابومسعود (رض) سے روایت ہے کہ ہمیں صدقہ کا حکم دیا گیا حالانکہ ہم بوجھ اٹھا کر مزدوری کیا کرتے تھے اور صدقہ دیا ابوعقیل نے آدھا صاع اور کوئی دوسرا آدمی ان سے زیادہ لایا تو منافقین نے کہا بیشک اللہ اس صدقہ سے بےپرواہ ہے تو دوسرے نے تو صرف دکھاوے ہی کے لئے ایسا کیا ہے تو ( الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ ) نازل ہوئی جو لوگ طعنہ دیتے ہیں خوشی سے صدقہ کرنے والے مومنوں کو اور ان لوگوں کو جو اپنی مزدوری کے سوا کچھ نہیں پاتے ہیں اور بشر کی روایت میں مُطَّوِّعِينَ کا لفظ نہیں ہے

【94】

مزدور اپنی مزدوری سے صدقہ کے کریں اور کم صدقہ کرنے والے کرنے والے کی تنقیض کرنے سے رو کنے کے بیان میں

محمد بن بشار، سعید بن ربیع، اسحاق بن منصور، ابوداد، شعبہ، اسی حدیث کی دوسری سند ذکر کی ہے، سعید بن ربیع کی حدیث میں ہے کہ مزدوری پر اپنی پیٹھوں پر بوجھ اٹھاتے تھے۔

【95】

دو دھ والا جانور مفت دینے کی فضیلت کے بیان میں۔

زہیر بن حرب، سفیان بن عیینہ، ابوزناد، اعرج، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا آ گاہ رہو جو آدمی کسی گھر والوں کو ایسی اونٹنی دیتا ہے جو صبح بھی برتن بھرے اور شام کو بھی تو اس کا بہت بڑا ثواب ہے۔

【96】

دو دھ والا جانور مفت دینے کی فضیلت کے بیان میں۔

محمد بن احمد بن ابی خلف، زکریا بن عدی، عبداللہ بن زید، عدی بن ثابت، ابوحازم، حضرت ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے منع فرمایا کئی باتوں سے اور فرمایا جس نے دودھ دینے والی اونٹنی دی تو اونٹنی کا صبح کو دودھ دینا بھی اس کے لئے صدقہ ہوگا اور شام کو بھی اس کے لئے صدقہ ہوگا صبح کو صبح کے دودھ کے پینے کا اور شام کو شام کے دودھ پینے کا۔

【97】

سخی اور بخیل کی مثال کے بیان میں

عمرو ناقد، سفیان بن عیینہ، ابوزناد، اعرج، حضرت ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ خرچ کرنے والے اور صدقہ کرنے والے کی مثال اس آدمی کی سی ہے (اصل میں یہ ہونا چاہیے تھا کہ سخی اور بخیل کی مثال اس آدمی جیسی ہے) جس کے اوپر دو زرہیں یا دو کرتے ہوں اس کی چھاتیوں سے ہنسلی ( گلے) کی ہڈی تک، جب خرچ کرنے والا ارادہ کرے اور دوسرے راوی نے کہا جب صدقہ کرنے والا ارادہ کرے کہ وہ صدقہ کرے تو وہ زرہ کھل جائے یا لمبی ہوجائے اور اس کے سارے بدن پر پھیل جائے اور جب بخیل خرچ کرنے کا ارادہ کرے تو وہ زرہ اس پر تنگ ہوجائے اور اتنی سکڑ جائے کہ ہر کڑی اپنی جگہ پر کس جائے یہاں تک کہ اس کے قدموں کے نشان کو مٹا دے ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ وہ اس کو کشادہ کرنا چاہتا ہے لیکن وہ کشادہ نہیں ہوتی۔

【98】

سخی اور بخیل کی مثال کے بیان میں

سلیمان بن عبیداللہ، ابوایوب غیلانی، ابوعامر عقدی، ابراہیم بن نافع، حسن بن مسلم، طاؤس، حضرت ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بخیل اور صدقہ دینے والے کی مثال بیان فرمائی جیسا کہ دو آدمی ہوں ان پر لو ہے کی دو زر ہیں ہوں اور ان کے دونوں ہاتھ چھا تیوں کی طرف گلوں میں باندھ دئیے گئے ہوں صدقہ کرنے والا جب صدقہ کرنا چاہے تو وہ زرہ اس پر کشادہ ہوجائے یہاں تک کے ڈھانپ لے اس کے پوروں کو اور مٹا دے اس کے قدموں کے نشانات کو اور بخیل جب صدقہ کرنے کا ارادہ کرے۔ تو وہ زرہ تنگ ہوجائے اور اس کا ہر حلقہ اپنی جگہ پھنس جائے فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ نے اپنے گر یبان میں انگلیوں کو ڈال کر اشارہ فرمایا اگر تو دیکھتا کہ آپ ﷺ زرہ کشادہ کرنا چاہتے تھے لیکن وہ کشادہ نہیں ہو رہی تھی۔

【99】

سخی اور بخیل کی مثال کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، احمد بن اسحاق حضرمی، وہیب، عبداللہ بن طاؤس، حضرت ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بخیل اور صدقہ کرنے والے کی مثال ان دو آدمیوں جیسی ہے جن پر دو زرہیں لوہے کی ہوں جب صدقہ دینے والا صدقہ کرنے کا ارادہ کرے تو وہ اس پر کشادہ ہوجائے یہاں تک کہ اس کے قدموں کے نشانات کو مٹا دے اور جب بخیل صدقہ کا ارادہ کرے تو وہ اس پر تنگ ہوجائے اور اس کے ہاتھ اس کے گلے میں پھنس جائیں اور ہر حلقہ دوسرے حلقہ میں گھس جائے فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا وہ اس کو کشادہ کرنے کی کوشش کرے لیکن طاقت نہیں رکھتا۔

【100】

صدقہ اگرچہ فاسق و غیرہ کے ہاتھ پہنیچ جائے صدقہ دینے والے کو ثواب ملنے کے ثبوت کے بیان۔

سوید بن سعید، حفص بن میسرہ، موسیٰ بن عقبہ، ابوزناد، اعرج، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ایک آدمی نے کہا کہ آج رات ضرور صدقہ کروں گا۔ وہ صدقہ کا مال لے کر نکلا۔ تو اس نے وہ صدقہ کا مال کسی زانیہ کے ہاتھ پر رکھا صبح ہوئی تو لوگوں میں چرچا ہوا کہ رات کو زانیہ کو صدقہ دیا تو اس نے کہا اے اللہ ! تیرے ہی لئے زانیہ پر صدقہ دینے پر تعریف ہے، پھر اس نے صدقہ کا مال مالدار کے ہاتھ میں دے دیا لوگوں نے صبح کو باتیں کی کہ رات کو مالدار پر صدقہ دیا گیا۔ تو اس نے کہا اے اللہ مالدار پر صدقہ پہنچا دینے میں تیری ہی تعریف ہے اس نے مزید صدقہ دینے کا ارادہ کیا اور صدقہ دینے کے لئے نکلا تو چور کے ہاتھ میں دے دیا صبح کو لوگوں نے چہ میگوئیاں کیں کہ رات کو چور پر صدقہ کیا گیا تو اس نے کہا اے اللہ زانیہ مالدار اور چور تک صدقہ پہنچا دینے میں تیرے ہی لئے تعریف ہے اس کے پاس ایک شخص نے آ کر کہا کہ تیرے سب کے سب صدقات قبول کر لئے گئے زانیہ کو صدقہ اس لئے دلوایا گیا کہ شاید وہ آئندہ زنا سے باز رہے اور شاید کہ مالدار عبرت حاصل کرے اور اللہ نے جو اسے عطا کیا ہے اس میں سے خرچ کرے اور شاید کہ چور چوری کرنے سے باز آجائے۔

【101】

امانت دار خزا نچی اور اس عورت کے ثواب کا بیان جو اپنے شوہر کی صر یح اجازت یا عر فی اجازت سے صدقہ کرے

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوعامر اشعری، ابن نمیر، ابوکریب، ابواسامہ، ابوعامر، ابواسامہ، برید، ابوبردہ، حضرت ابوموسی (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا وہ امانت دار مسلمان خزانچی خیرات کرنے والوں میں سے ہے جو خوشی کے ساتھ پورا پورا اس آدمی کو دے دیتا ہے جس کو دینے کا حکم دیا گیا ہو جو جتنا خرچ کرنے کا حکم کیا گیا ہوا تنا ہی خرچ کرتا ہو اور جس کو دینے کا حکم دیا گیا ہو اس کو دے دیتا ہو۔

【102】

امانت دار خزانچی اور اس عورت کے ثواب کا بیان جو اپنے شوہر کی صریح اجازت یا عرفی اجازت سے صدقہ کرے۔

یحییٰ بن یحیی، زہیر بن حرب، اسحاق بن ابراہیم، جریر، یحیی، منصور، شقیق، مسروق، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جب عورت اپنے گھر سے بغیر فساد کے خرچ کرتی ہے تو اس کو خرچ کرنے کا ثواب ہوگا اور خزانچی کے لئے بھی اسی طرح ثواب ہوگا کسی کے ثواب میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی۔

【103】

امانت دار خزانچی اور اس عورت کے ثواب کا بیان جو اپنے شوہر کی صریح اجازت یا عرفی اجازت سے صدقہ کرے۔

ابن ابی عمر، فضیل بن عیاض، منصور اسی حدیث کی دوسری سند میں یہ ہے کہ اپنے خاوند کے کھانے سے صدقہ کرے۔

【104】

امانت دار خزانچی اور اس عورت کے ثواب کا بیان جو اپنے شوہر کی صریح اجازت یا عرفی اجازت سے صدقہ کرے۔

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابومعاویہ، اعمش، شقیق، مسروق، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا عورت جب اپنے خاوند کے گھر سے بغیر فساد خیرات کرے تو اس عورت کے لئے ثواب ہوگا اور اس کے خاوند کے لئے کمانے کی وجہ سے اس کی مثل اور عورت کے لئے اس خرچ کی وجہ سے اور خازن کے لئے بھی اس کے مثل ثواب ہوگا ان کے ثواب میں سے کچھ بھی کمی کئے بغیر۔

【105】

امانت دار خزانچی اور اس عورت کے ثواب کا بیان جو اپنے شوہر کی صریح اجازت یا عرفی اجازت سے صدقہ کرے

ابن نمیر، ابومعاویہ، اعمش اس حدیث کی دوسری سند ذکر کی ہے۔

【106】

آقا کے مال سے غلام کے خرچ کرنے کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابن نمیر، زہیر بن حرب، حفص بن غیاث، محمد بن زید، عمیر سے روایت ہے جو کہ ابواللحم کے آزاد کردہ غلام ہیں کہ میں غلام تھا میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کیا میں اپنے مالکوں کے مال سے کچھ صدقہ دوں ؟ فرمایا ہاں اور ثواب تم دونوں کے درمیان آدھا آ دھا۔

【107】

آقا کے مال سے غلام کے خرچ کرنے کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، حاتم بن اسماعیل، یزید بن ابی عبید، حضرت عمیر (رض) سے روایت ہے کہ جو ابواللحم کے آزاد کردہ غلام ہیں میرے آقا نے مجھے حکم دیا کہ میں گوشت کھاؤں میرے پاس ایک مسکین آیا تو میں نے اس میں سے اس کو کھلا دیا۔ میرے مالک کو اس کا علم ہوا تو اس نے مجھے مارا میں نے رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہو کر آپ ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ ﷺ نے اس کو بلایا اور فرمایا تو نے اس کو کیوں مارا تو اس نے کہا کہ یہ میرا کھانا میرے حکم کے بغیر عطا کرتا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا ثواب تم دونوں کو ہے۔

【108】

آقا کے مال سے غلام کے خرچ کرنے کے بیان میں

محمد بن رافع، عبدالرزاق، معمر، ہمام بن منبہ، حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کسی خاوند کی موجودگی میں کوئی عورت اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر روزہ (نفل) نہ رکھے اور اس کے گھر میں اس کی موجودگی میں کسی کو اس کی اجازت کے بغیر آ نے نہ دے اور اس کی کمائی میں سے اس کے حکم کے بغیر خرچ نہ کرے کیونکہ اس میں بھی اس کے خاوند کے لئے آدھا ثواب ہے۔

【109】

صدقہ کے ساتھ اور نیکی ملا نے والے کی فضیلت کے بیان میں

ابوطاہر، حرملہ بن یحییٰ تجیبی، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، حمید بن عبدالرحمن، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جس نے اپنے مال میں سے کسی چیز کا جوڑا اللہ کے راستہ میں خرچ کیا تو جنت میں پکارا جائے گا۔ اے اللہ کے بندے یہ بہتر ہے، پس جو نماز والوں میں سے ہوگا تو وہ باب نماز سے پکارا جائے گا اور جو اہل جہاد میں سے ہوگا وہ جہاد کے دروازہ سے پکارا جائے گا جو صدقہ والوں میں سے ہوگا وہ صدقہ کے دروازہ سے بلایا جائے گا اور جو روزہ والوں سے ہوگا وہ باب الریان (سیراب کرنے والا دروازہ) سے پکارا جائے گا حضرت ابوبکر صدیق نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ کیا کوئی ایک ان سب دروازوں میں سے پکارا جائے گا ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہاں ! اور میں امید کرتا ہوں کہ تو ان میں سے ہوگا۔

【110】

صدقہ کے ساتھ اور نیکی ملا نے والے کی فضیلت کے بیان میں

عمرو ناقد، حسن حلوانی، عبد بن حمید، ابن ابراہیم بن سعد، صالح، عبد بن حمید، عبدالرزاق، معمر، زہری، یونس حدیث مذکور کی دوسری اسناد ذکر ہیں۔

【111】

صدقہ کے ساتھ اور نیکی ملا نے والے کی فضیلت کے بیان میں

محمد بن رافع، محمد بن عبداللہ بن زبیر، شیبان، محمد بن حاتم، شبابہ، شیان بن عبدالرحمن، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جس نے اللہ کے راستہ میں کسی چیز کا جوڑا خرچ کیا تو اس کو جنت کا خزانچی بلائے گا ہر دروازہ کا خازن کہتا ہے اے فلاں ! ادھر آ ! حضرت ابوبکر (رض) نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ ! ایسے شخص پر تو کوئی مشکل نہ ہوگی۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا میں امید کرتا ہوں کہ تو انہی میں سے ہوگا۔

【112】

صدقہ کے ساتھ اور نیکی ملا نے والے کی فضیلت کے بیان میں

ابن ابی عمر، مروان فزاری، یزید بن کیسان، ابوحازم اشجعی، حضرت ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میں سے آج کس نے روزہ دار صبح کی ؟ ابوبکر (رض) نے عرض کیا میں نے، آپ ﷺ نے فرمایا تم میں سے کس نے آج مریض کی عیادت کی ؟ ابوبکر (رض) نے عرض کیا میں نے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ سب کام جب کسی ایک آدمی میں جمع ہوجاتے ہیں تو وہ ضرور جنت میں داخل ہوتا ہے۔

【113】

خرچ کرنے کی تر غیت اور گن گن کر رکھنے کی کرا ہت کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، حفص بن غیاث، ہشام، فاطمہ بنت منذر، اسماء بنت ابوبکر سے روایت ہے کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا خرچ کر یا فیاضی کر اور دینے کا شمار نہ کر ورنہ تجھ پر اللہ بھی شمار کرے گا۔

【114】

خرچ کرنے کی تر غیت اور گن گن کر رکھنے کی کرا ہت کے بیان میں

عمرو ناقد، زہیر بن حرب، اسحاق بن ابراہیم، ابومعاویہ، زہیر، محمد بن حازم، ہشام بن عروہ، عباد بن حمزہ، فاطمہ بنت منذر، حضرت اسماء (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سخاوت یا فیاضی یا خرچ کر اور شمار نہ کر پس شمار کرے گا اللہ تجھ پر اور جمع کر کے نہ رکھ ورنہ اللہ بھی تجھے دینا بند کر دے گا۔

【115】

خرچ کرنے کی تر غیت اور گن گن کر رکھنے کی کرا ہت کے بیان میں

ابن نمیر، محمد بن بشر، ہشام، عباد بن حمزہ، اسماء (رض) سے اسی حدیث کی دوسری سند ذکر کی ہے۔

【116】

خرچ کرنے کی تر غیت اور گن گن کر رکھنے کی کرا ہت کے بیان میں

محمد بن حاتم، ہارون بن عبداللہ، حجاج بن محمد، ابن جریج، ابن ابی ملیکہ، عباد بن عبداللہ بن زبیر، حضرت اسماء بنت ابی بکر (رض) سے روایت ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ کے پاس حاضر ہوئیں اور عرض کیا اے اللہ کے نبی ﷺ میرے پاس کوئی چیز نہیں سوائے اس کے جو حضرت زبیر (رض) مجھے دیں کیا مجھ پر کوئی گناہ ہے کہ اگر میں اس دئیے ہوئے میں سے کچھ صدقہ دوں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا جنتی تجھے طاقت ہو اتنا دو اور جمع کر کے نہ رکھو ورنہ اللہ بھی تم کو دینا بند کر دے گا۔

【117】

قلیل صدقہ کی تر غیت اور قلیل مال سے اس کی حقارت کی وجہ سے صدقہ کی ممانعت نہ ہونے کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، لیث بن سعد، قتیبہ بن سعید، لیث، سعید بن ابوسعید، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مسلمان عورتو ! تم میں کوئی اپنی ہمسائی کے گھر بکری کے پائے کا ایک کھر بھیجنے کو بھی حقیر نہ سمجھے۔ یعنی کچھ نہ کچھ ہدیہ بھیجتی رہے۔

【118】

صدقہ چھپا کردینے کی فضیلت کے بیان میں۔

زہیر بن حرب، محمد بن مثنی، یحییٰ قطان، زہیر، یحییٰ بن سعید، عبیداللہ، خبیب بن عبدالرحمن، حفص بن عاصم، حضرت ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا سات آدمی ایسے ہیں جن کو اللہ اپنے سایہ میں سایہ عطا کرے گا۔ جس دن اس کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا ایک عادل بادشاہ، دوسرا وہ جوان جس کی پرورش اللہ کی عبادت میں ہوئی ہو، تیسرا وہ آدمی جس کا دل مساجد میں اٹکا ہوا ہو، چوتھے وہ دو آدمی جن کی دوستی اللہ کے لئے ہو اسی پر جمع ہوں اور اسی پر جدا ہوں پانچواں وہ آدمی جس کو کوئی نسب و جمال والی عورت بلائے (برائی کی طرف) تو وہ کہے میں اللہ سے ڈرتا ہوں، چھٹا وہ آدمی جو صدقہ اس طرح چھپا کردیتا ہے کہ اس کے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کے دینے کی خبر نہ ہو۔ سا تو اں وہ آدمی جو خلوت میں اللہ کا ذکر کرے تو اس کی آنکھیں بہہ پڑیں۔

【119】

صدقہ چھپا کردینے کی فضیلت کے بیان میں۔

یحییٰ بن یحیی، مالک، حبیب بن عبدالرحمن، حفص بن عاصم، ابوسعید خدری، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ایک وہ آدمی ہے جس کا دل مسجد میں معلق ہو جب اس سے نکلے یہاں تک کہ اس کی طرف لوٹ آئے باقی وہی حدیث ہے جو گزر چکی۔

【120】

افضل صدقہ تندرستی اور خوشحالی میں صدقہ کرنا ہے۔

زہیر بن حرب، جریر، عمارہ بن قعقاع، ابوزرعہ، حضرت ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک آدمی آیا۔ اس نے کہا اے اللہ کے رسول ! کون سا صدقہ بڑا ہے ؟ فرمایا کہ تو صدقہ کرے اس حال میں کہ تو تندرست اور حریص ہو اور محتاج کا خوف کرتا ہو اور مالداری کا امیدوار ہو اور تو دیر نہ کر یہاں تک کہ سا نس گلے میں آجائے تو اس وقت کہے فلاں کو اتنا اور فلاں کے لئے اس طرح، آگاہ رہو کہ وہ تو فلاں کے لئے ہو ہی چکا۔

【121】

افضل صدقہ تندرستی اور خوشحالی میں صدقہ کرنا ہے۔

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابن نمیر، ابن فضیل، عمارہ، ابوزرعہ، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ ! کون سے صدقے کا ثواب بڑا ہے آپ ﷺ نے فرمایا سن تیرے باپ کی قسم تجھے معلوم ہونا چائے کہ اس صدقہ کا دینا افضل ہے جب تو تندرست ہو اور ایسی حالت میں ہو جس میں لوگ بخل کرتے ہیں اور تو فقر و فاقہ کا خوف کرے اور مال کے باقی رکھنے کا امیدوار ہو تو تاخیر نہ کر یہاں تک کہ سانس گلے میں آجائے اور تو کہے فلاں کے لئے اتنا اور فلاں کو اتنا دے دو حالانکہ وہ تو فلاں کا ہوچکا۔

【122】

افضل صدقہ تندرستی اور خوشحالی میں صدقہ کرنا ہے۔

ابوکامل جحدری، عبدالواحد، عمارہ بن قعقاع، اسی حدیث کی دوسری سند ذکر کی ہے لیکن اس میں ہے کہ کون سا صدقہ افضل ہے۔

【123】

اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر اور اوپر والا ہاتھ خرچ کرنے والا اور نیچے والا ہاتھ لینے والا ہے کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، مالک بن انس، نافع، عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے منبر پر صدقہ کرنے اور سوال سے بچنے کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے اور اوپر والا خرچ کرنے والا ہے اور نیچے والا ہاتھ مانگنے والا ہے۔

【124】

اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر اور اوپر والا ہاتھ خرچ کرنے والا اور نیچے والا ہاتھ لینے والا ہے کے بیان میں

محمد بن بشار، محمد بن حاتم، احمد بن عبدہ، یحییٰ قطان، یحیی، عمرو بن عثمان، موسیٰ بن طلحہ، حضرت حکیم بن حزام (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا افضل یا بہتر صدقہ وہ ہے اس کے بعد بھی دینے والا غنی رہے اور اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے اور صدقہ دینا اپنے عیال سے شروع کرے۔

【125】

اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر اور اوپر والا ہاتھ خرچ کرنے والا اور نیچے والا ہاتھ لینے والا ہے کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، عمرو ناقد، سفیان، زہری، عروہ، سعید، حضرت حکیم بن حزام (رض) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا آپ ﷺ نے مجھے عطا کیا پھر میں نے مانگا آپ ﷺ نے مجھے عطا کیا پھر میں نے مانگا آپ ﷺ نے مجھے عطا کیا پھر فرمایا یہ مال ہرا بھرا اور شیریں ہے جو اس کو پاکیزہ نفس سے لیتا ہے تو اس کے لئے اس میں برکت دی جاتی ہے اور جو اس کو نفس کی حرص و ہوس سے لیتا ہے تو اس کے لئے برکت نہیں دی جاتی اور وہ ایسے شخص کی طرح ہوجاتا ہے جو کھاتا ہے لیکن سیر نہیں ہوتا اور اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔

【126】

اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر اور اوپر والا ہاتھ خرچ کرنے والا اور نیچے والا ہاتھ لینے والا ہے کے بیان میں

نصر بن علی جہضمی، زہیر بن حرب، عبد بن حمید، عمر بن یونس، عکرمہ بن عمار، حضرت ابوامامہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے ابن آدم اپنی ضرورت سے زائد مال خرچ کردینا تیرے لئے بہتر ہے اگر تو اس کو روک لے گا تو تیرے لئے برا ہوگا اور دینے کی ابتداء اپنے اہل و عیال سے کر اور اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔

【127】

مانگنے سے ممانعت کے بیان میں۔

ابوبکر بن ابی شیبہ، زید بن حباب، معاویہ بن صالح، ربیعہ بن یزید دمشقی، عبداللہ بن عامریحصبی، حضرت معاویہ (رض) سے روایت ہے کہ احادیث سے بچو سوائے ان احادیث کے جو حضرت عمر (رض) کے زمانہ خلافت میں مروی تھیں۔ کیونکہ عمر (رض) لوگوں کو اللہ کے بارے میں خوف دیتے تھے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے تھے اللہ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا کرتا ہے اور میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے آپ ﷺ نے فرمایا میں خزانچی ہوں جس کو میں طیب نفس یعنی دلی خوشی سے کچھ عطا کروں تو اس میں اسے برکت ہوتی ہے اور جس کو میں اس کے مانگنے پر اور ستانے پر دوں اس کا حال اس شخص جیسا ہوتا ہے جو کھاتا ہے لیکن سیر نہیں ہوتا۔

【128】

مانگنے سے ممانعت کے بیان میں۔

محمد بن عبداللہ بن نمیر، سفیان، عمرو، وہب بن منبہ، ہمام، حضرت معاو یہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم مانگنے میں لپٹ کر نہ مانگو۔ اللہ کی قسم تم میں کوئی مجھ سے کوئی چیز مانگتا ہے تو اس کے مانگنے کی وجہ سے وہ چیز مجھ سے نکل جاتی ہے یعنی خرچ ہوجاتی ہے تو اس کو برا جانتا ہوں۔ اس کو میرے عطا کردہ مال میں برکت نصیب نہیں ہوتی۔

【129】

مانگنے سے ممانعت کے بیان میں۔

ابوعمرم کی، سفیان، عمرو بن دینار، وہب بن منبہ حضرت عمرو بن دینار سے روایت ہے کہ مجھ سے حضرت و ہب بن منبہ نے حدیث بیان کی اور میں ان کے گھر صنعاء میں داخل ہوا تو مجھے انہوں نے اپنے گھر میں اخروٹ کھلائے اور ان کے بھائی نے مجھے حضرت معاویہ (رض) کی حدیث بیان فرمائی جو گزر چکی ہے۔

【130】

مانگنے سے ممانعت کے بیان میں۔

حرملہ بن یحیی، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، حمید بن عبدالرحمن بن عوف، حضرت معاویہ بن ابوسفیان (رض) سے روایت ہے انہوں نے فرمایا میں نے اللہ کے رسول ﷺ سے سنا۔ آپ ﷺ نے فرمایا اللہ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتے ہیں اسے دین کی سمجھ عطا کرتے ہیں اور میں تقسیم کرنے والا ہوں اور اسے عطا کرتا ہوں۔

【131】

مسکین وہ ہے جو بقدر ضر ورت مال نہ رکھتا ہو اور نہ مسکین تصور کیا جاتا ہو کہ اسے صدقہ دیا جائے

قتیبہ بن سعید، مغیرہ حزامی، ابوزناد، اعرج، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مسکین وہ نہیں جو گھومتا رہتا ہے اور لوگوں کے اردگرد پھرتا رہتا ہے پھر ایک لقمہ یا دو لقمے اور ایک کھجور یا دو کھجوریں لے کر لوٹ جاتا ہے۔ صحابہ کرام (رض) نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول پھر مسکین کون ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا مسکین وہ ہے جو اتنا مالدار نہ ہو جس سے ضرورت زندگی پوری کرسکے اور نہ لوگ اسے مسکین تصور کرتے ہوں کہ اس کو صدقہ دیں اور نہ وہ لوگوں سے کچھ مانگتا ہو۔

【132】

مسکین وہ ہے جو بقدر ضر ورت مال نہ رکھتا ہو اور نہ مسکین تصور کیا جاتا ہو کہ اسے صدقہ دیا جائے

یحییٰ بن ایوب، قتیبہ بن سعید، ابن ایوب، اسماعیل، ابن جعفر، شریک، عطاء بن یسار، میمونہ، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مسکین وہ شخص نہیں ہے کہ جو ایک دو کھجوریں یا ایک دو لقموں کے ساتھ لوٹ جاتا ہے۔ مسکین تو وہ ہے جو سوال کرنے سے بچتا ہے۔ اگر چاہو تو تم یہ آیت پڑھو وہ لوگوں سے لپٹ کر نہیں مانگتے۔

【133】

مسکین وہ ہے جو بقدر ضر ورت مال نہ رکھتا ہو اور نہ مسکین تصور کیا جاتا ہو کہ اسے صدقہ دیا جائے

ابوبکر بن اسحاق، ابن ابی مریم، محمد بن جعفر، شریک، عطاء بن یسار، عبدالرحمن بن ابوعمرہ، ابوہریرہ، اوپر والی حدیث کی دوسری سند ذکر کی ہے۔

【134】

لوگوں سے مانگنے کی کرا ہت کا بیان

ابوبکر بن ابی شیبہ، عبدالاعلی بن عبدالاعلی، معمر، عبداللہ بن مسلم، زہری، حمزہ بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تم میں سے مانگنے والا ہمیشہ مانگتا رہے گا یہاں تک کہ اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اس کے چہرے پر گوشت کا ایک ٹکڑا بھی نہ ہوگا۔

【135】

لوگوں سے مانگنے کی کرا ہت کا بیان

عمرو ناقد، اسماعیل بن ابراہیم، معمر، زہری، اسی حدیث کی دوسری سند میں مزعہ (ٹکڑے) کا لفظ نہیں۔

【136】

لوگوں سے مانگنے کی کرا ہت کا بیان

ابوطاہر، عبداللہ بن وہب، لیث، عبیداللہ بن ابوجعفر، حمزہ بن عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہمیشہ آدمی لوگوں سے مانگتا رہے گا یہاں تک کہ قیامت کا دن آجائے اور اس کے چہرے پر گوشت کا ایک ٹکڑا بھی نہ ہوگا۔

【137】

لوگوں سے مانگنے کی کرا ہت کا بیان

ابوکریب، واصل بن عبدالاعلی، ابن فضیل، عمارہ بن قعقاع، ابوزرعہ، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو لوگوں سے صرف اپنا مال بڑ ھانے کی غرض سے مانگتا ہے تو یہ انگاروں کو مانگتا ہے خواہ کم لے یا زیادہ جمع کرلے۔

【138】

لوگوں سے مانگنے کی کرا ہت کا بیان

ہناد بن سری، ابوالاحوص، بیان ابوبشر، قیس بن ابی حازم، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا۔ آپ ﷺ فرماتے تھے تم میں کسی کا صبح کے وقت جا کر اپنی پیٹھ پر لکڑی کا گٹھا اٹھا کر لانا اور اس میں سے صدقہ کرنا اور لوگوں سے مستغنی ہوجانا اس سے بہتر ہے کہ لوگوں سے سوال کرتا پھرے وہ اسے دے یا نہ دے۔ بیشک اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے اور جن کا کھانا تیرے ذمہ ہے ان سے صدقہ شروع کر۔

【139】

لوگوں سے مانگنے کی کرا ہت کا بیان

محمد بن حاتم، یحییٰ بن سعید، اسماعیل، قیس بن ابی حازم، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اللہ کی قسم تم میں سے کوئی صبح اس حال میں کرے کہ اپنی پیٹھ پر لکڑی اٹھا کر لائے پھر ان کو بیچ دے باقی حدیث بیان ہوچکی ہے۔

【140】

لوگوں سے مانگنے کی کرا ہت کا بیان

ابوطاہر، یونس بن عبدالاعلی، ابن وہب، عمرو بن حارث، ابن شہاب، ابن عبید مولیٰ عبدالرحمن بن عوف، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر تم میں سے کوئی لکڑیوں کا گٹھا اپنی پیٹھ پر لادے پھر ان کو بیچ دے تو یہ اس کے لئے بہتر ہے اس سے کہ وہ لوگوں سے مانگے معلوم نہیں کہ وہ دیں یا نہ دیں۔

【141】

لوگوں سے مانگنے کی کرا ہت کا بیان

عبداللہ بن عبدالرحمن دارمی، سلمہ بن شبیب، سلمہ، مروان بن محمد دمشقی، سعید بن عبدالعزیز، ربیعہ بن یزید، ابوادریس خولانی، ابومسلم خولانی، حبیب امین، حضرت عوف بن مالک اشجعی (رض) سے روایت ہے کہ ہم نو یا آٹھ یا سات آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر تھے آپ ﷺ نے فرمایا کیا تم رسول اللہ ﷺ سے بیعت نہیں کرتے۔ حالانکہ ہم قریب ہی زمانہ میں بیعت کرچکے تھے تو ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ہم آپ ﷺ سے بیعت کرچکے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کیا تم رسول اللہ ﷺ سے بیعت نہیں کرتے ہم نے اپنے ہاتھ دراز کئے اور عرض کیا ہم آپ ﷺ سے بیعت کرچکے ہیں اب ہم کس بات پر بیعت کریں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم اللہ کی عبادت کرو گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو گے اور پانچوں نمازیں ادا کرو گے اور اللہ کی اطاعت کرو گے تو یہ بات آہستہ سے فرمائی کہ لوگوں سے کچھ نہ مانگو گے۔ تو میں نے ان میں سے بعض آدمیوں کو دیکھا کہ ان میں سے کسی کا اگر چابک (سواری سے) گر جاتا تو وہ کسی سے اٹھا کر دے دینے کی خواہش نہ کرتا تھا۔

【142】

مانگنا کس کے لے حلال ہے کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، قتیبہ بن سعید، حماد بن زید، یحیی، حماد بن زید، ہارون بن ریاب، کنا نہ بن نعیم عدوی، قبیصہ بن مخارق ہلالی (رض) سے روایت ہے کہ میں نے (کسی امر کے لئے) چندہ جمع کرنے کا بار اپنے اوپر ڈال لیا تھا۔ تو رسول اللہ ﷺ سے اس بارے میں پوچھنے کے لئے حاضر ہوا۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا ٹھہر جاؤ کہ ہمارے پاس صدقہ کا مال آجائے تو ہم تم کو دینے کا حکم دے دیں گے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا اے قبیصہ ! تین آدمیوں کے علاوہ کسی کے لئے مانگنا جائز نہیں۔ ایک وہ آدمی جس نے اپنے اوپر چندہ کا بوجھ ڈالا ہو تو اس کے لئے اتنی رقم پوری کرنے تک مانگنا جائز ہے پھر وہ رک جائے۔ دوسرا وہ آدمی جس کے مال کو کسی آفت نے ختم کردیا ہو تو اس کے لئے اپنے گزر بسر تک یا گزر اوقات کے قابل ہونے تک مانگنا جائز ہے تیسرا وہ آدمی ہے جس کے تین دن فاقہ میں گزر جائیں اور اس کی قوم میں سے تین کامل العقل آدمی اس بات کی گواہی دیں کہ فلاں آدمی کو فاقہ پہنچا ہے تو اس کے لئے گزر بسر کے قابل ہونے تک مانگنا جائز ہے اے قبیصہ ! ان تین کے علاوہ مانگنا حرام ہے اور مانگ کر کھانے والا حرام کھاتا ہے۔

【143】

بغیر سوال اور خوا ہش کے لینے کے جواز کے بیان میں

ہارون بن معروف، عبداللہ بن وہب، حرملہ بن یحیی، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، سالم بن عبداللہ بن عمر، حضرت عمر بن خطاب (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ مجھے کچھ عطا کیا کرتے تھے۔ تو میں عرض کرتا کہ آپ ﷺ مجھ سے زیادہ ضرورت مند کو عطا فرمائیں۔ حسب معمول آپ ﷺ نے ایک مرتبہ کچھ مال عطا فرمایا تو میں نے عرض کیا کہ جو مجھ سے زیادہ ضرورت مند ہو اسے عطا فرمائیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اسے لے لے اور تیرے پاس اگر بغیر لالچ کے اور بغیر مانگنے کے کچھ مال آجائے تو اس کو حاصل کرلیا کرو اور جو اس طرح نہ آئے اس کا دل میں خیال نہ کرو۔

【144】

بغیر سوال اور خوا ہش کے لینے کے جواز کے بیان میں

ابوطاہر، ابن وہب، عمرو بن حارث، ابن شہاب، سالم بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ عمر بن خطاب (رض) کو کچھ مال عطا کیا کرتے تھے۔ تو عمر نے آپ ﷺ سے عرض کیا اے اللہ کے رسول جو مجھ سے زیادہ فقیر ہو اس کو عطا کیا کریں۔ تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں فرمایا اسے لے لو اپنے پاس رکھو یا صدقہ کرو اور تیرے پاس جو مال اس طرح آئے کہ تو نہ خوا ہش کرنے والا ہو اور نہ مانگنے والا تو اسے لے لیا کرو اور جو اس طرح نہ آئے تو اپنے دل کو اس کی طرف ہی نہ لگاؤ۔ حضرت سالم کہتے ہیں اسی وجہ سے حضرت ابن عمر (رض) کسی سے کچھ نہ مانگتے تھے اور اگر کوئی آپ کو کچھ دے دیتا تو اسے لوٹاتے بھی نہ تھے۔

【145】

بغیر سوال اور خوا ہش کے لینے کے جواز کے بیان میں

ابوطاہر، ابن وہب، عمرو، ابن شہاب، سائب بن یزید، عبداللہ بن سعدی، عمر بن خطاب، اسی حدیث کی دوسری سند عمر بن خطاب (رض) سے ذکر فرمائی۔

【146】

بغیر سوال اور خوا ہش کے لینے کے جواز کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، لیث، بکیر، بسر بن سعید، ابن ساعدی مالکی (رض) سے روایت ہے کہ حضرت عمر (رض) نے مجھے صدقہ پر عامل مقرر فرمایا۔ جب میں اس سے فارغ ہوا اور رقم زکوٰۃ لا کر جمع کرا دی تو آپ (رض) نے میرے لئے کچھ اجرت کا حکم فرمایا۔ تو میں نے عرض کیا میں نے اللہ کی رضا کے لئے کام کیا اور میرا ثواب اللہ پر ہے تو آپ نے فرمایا جو تجھے دیا جائے وصول کرلے کیونکہ میں بھی رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں عامل مقرر ہوا تھا آپ ﷺ نے مجھے اجرت دی تھی۔ تو میں نے تیرے کہنے کی طرح عرض کیا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے مجھے فرمایا جو تجھے تیرے بغیر مانگے مل جائے تم اس کو کھاؤ اور صدقہ بھی کرو۔

【147】

بغیر سوال اور خوا ہش کے لینے کے جواز کے بیان میں

ہارون بن سعید ایلی، ابن وہب، عمرو بن حارث، بکیر بن اشج، بسر بن سعید، ابن سعدی، عمر بن خطاب، اسی حدیث کی دوسری سند ذکر کی ہے لیکن اس میں ابن ساعدی کے بجائے ابن سعدی ہے۔

【148】

دینا پر حرص کی کرا ہت کے بیان میں

زہیر بن حرب، سفیان بن عیینہ، ابوزناد، اعرج، حضرت ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا بوڑھے آدمی کا دل دو چیزوں کی محبت پر جوان رہتا ہے۔ زندگی اور مال کی محبت۔

【149】

دینا پر حرص کی کرا ہت کے بیان میں

ابوطاہر، حرملہ، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، سعید بن مسیب، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے بوڑھے آدمی کا دل زندگی کے لمبے ہونے اور مال کی محبت میں جوان رہتا ہے۔

【150】

دینا پر حرص کی کرا ہت کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، سعید بن منصور، قتیبہ بن سعید، ابوعوانہ، یحیی، قتادہ، حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ابن آدم بوڑھا ہوتا ہے اور اس میں دو چیزیں جوان رہتی ہیں مال اور عمر پر حرص۔

【151】

دینا پر حرص کی کرا ہت کے بیان میں

ابوغسان مسمعی، محمد بن مثنی، معاذ بن ہشام، قتادہ، انس (رض) اوپر والی حدیث اس سند کے ساتھ بھی مروی ہے۔

【152】

دینا پر حرص کی کرا ہت کے بیان میں

ابن مثنی، ابن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، قتادہ، انس بن مالک (رض) ، اسی حدیث کی ایک اور سند ذکر کی ہے۔

【153】

اگر ابن آ دم کے پاس جنگل کی دو وادیاں ہوں تو بھی وہ تیسری کا طلبگار ہوتا ہے۔

یحییٰ بن یحیی، سعید بن منصور، قتیبہ بن سعید، ابوعوانہ، قتادہ، حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اگر ابن آدم کے لئے دو وادیاں مال کی بھری ہوئی ہوں تب بھی وہ تیسری وادی کی تلاش کرے گا اور ابن آدم کا پیٹ سوائے مٹی کے کوئی نہیں بھر سکتا اور اللہ اسی پر رجوع فرماتے ہیں جو توبہ کرتا ہے۔

【154】

اگر ابن آ دم کے پاس جنگل کی دو وادیاں ہوں تو بھی وہ تیسری کا طلبگار ہوتا ہے۔

ابن مثنی، ابن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، قتادہ، حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے تھے اور میں نہیں جانتا یہ بات اتری تھی یا آپ ﷺ خود فرماتے تھے باقی حدیث ابوعوانہ کی طرح ہے۔

【155】

اگر ابن آ دم کے پاس جنگل کی دو وادیاں ہوں تو بھی وہ تیسری کا طلبگار ہوتا ہے۔

حرملہ بن یحیی، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر ابن آدم کے لئے سونے کی ایک وادی ہو تب بھی دوسری وادی کی خواہش کرے گا۔ اور اس کا منہ مٹی ہی بھرے گی اور اللہ تعالیٰ رجوع کرنے والے ہی پر رجوع فرماتے ہیں۔

【156】

اگر ابن آ دم کے پاس جنگل کی دو وادیاں ہوں تو بھی وہ تیسری کا طلبگار ہوتا ہے۔

زہیر بن حرب، ہارون بن عبداللہ، حجاج بن محمد، ابن جریج، عطاء، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے تھے اگر ابن آدم کے لئے وادی بھر مال ہو تو بھی وہ پسند کرے گا کہ اس کی مثل اور ہو اور ابن آدم کا جی سوائے مٹی کے کسی چیز سے نہیں بھرتا اور اللہ اسی پر رجوع فرماتے ہیں جو توبہ کرتا ہے ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ میں نہیں جانتا کہ یہ قرآن سے ہے یا نہیں اور زہیر کی روایت میں ابن عباس (رض) کا نام ذکر نہیں کیا گیا۔

【157】

اگر ابن آ دم کے پاس جنگل کی دو وادیاں ہوں تو بھی وہ تیسری کا طلبگار ہوتا ہے۔

سوید بن سعید، علی بن مسہر، حضرت ابوالاسود (رض) اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ابوموسی (رض) کو اہل بصرہ کے قراء کی طرف بھیجا گیا آپ ان کے پاس پہنچے تو تین سو فارسیوں نے قرآن پڑھا تو آپ نے فرمایا کہ تم اہل بصرہ کے سب لوگوں سے افضل ہو اور ان کے قاری ہو تو تم ان کو قرآن پڑھاؤ اور بہت مدت تک تم تلاوت قرآن پڑھاؤ اور بہت مدت تک تم تلاوت قرآن سے غافل نہ ہوا کرو ورنہ تمہارے دل اسی طرح سخت ہوجائیں گے جس طرح تم سے پہلے لوگوں کے ہوگئے تھے اور ہم ایک سورت پڑھتے تھے جو لمبائی میں اور سخت وعیدات میں سورت برأت کے برابر تھی پھر میں سوائے اس آیت کے سب بھول گیا (لَوْ کَانَ لِابْنِ آدَمَ ) کہ اگر ابن آدم کے لئے مال کے دو میدان ہوں تو بھی وہ تیسرا میدان طلب کرے گا اور ابن آدم کا پیٹ سوائے مٹی کے کوئی نہیں بھر سکتا اور ہم ایک سورت اور پڑھتے تھے جس کو ہم مسبحات میں سے ایک سورت کے برابر جانتے تھے میں اس کو بھول گیا سوائے اس کے کہ اس میں سے میں نے (يٰ اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ ) 61 ۔ الصف : 2) کو یاد رکھا ہے یعنی اے ایمان والوں وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں تو تمہاری گردنوں میں شہادت کے طور پر لکھ دی جاتی ہے قیامت کے دن تم سے اس کے متعلق پوچھا جائے گا۔

【158】

قناعت کی فضیلت اور ترغیب کے بیان میں

زہیر بن حرب، ابن نمیر، سفیان بن عیینہ، ابوزناد، اعرج، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا دولت مندی کثرت مال سے نہیں ہوتی بلکہ دولت مندی دل کے غنی ہونے کا نام ہے۔

【159】

دنیا کی زینت و کشادگی پر غرور کرنے کی ممانعت کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، لیث بن سعد، قتیبہ بن سعید، سعید بن ابوسعید مقبری، عیاض بن عبداللہ بن سعد، حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کھڑے ہو کر لوگوں کو خطبہ دیا اور فرمایا اللہ کی قسم میں تم پر اس سے زیادہ کسی چیز کی وجہ سے نہیں ڈرتا جو اللہ تمہارے لئے دنیا کی زینت کی چیز نکالتا ہے ایک صحابی نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! کیا بھلائی سے برائی بھی آسکتی ہے تو رسول اللہ ﷺ کچھ خاموش رہے۔ پھر فرمایا تو نے کیسے کہا تو اس نے کہا اے اللہ کے رسول میں نے عرض کیا کیا بھلائی سے بھی برائی آسکتی ہے۔ تو اسے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بھلائی کا نتیجہ تو بھلائی ہی ہوتا ہے لیکن موسم بہار میں اگنے والا سبزہ جانوروں کو ہلاک کردیتا ہے۔ یا ہلاکت کے قریب کردیتا ہے سوائے اس سبزہ کھانے والے جانور کے جو کھائے جب اس کی کو کھیں بھر جائیں تو وہ دھوپ میں چلا جائے اور جگالی یا پیشاب کرلے۔ پھر جگالی کرے اور اس میں اس کے لئے برکت دی جائے گی اور جو مال ناحق لے گا تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے اس کی جو کھاتا تو ہے لیکن سیر نہیں ہوتا۔

【160】

دنیا کی زینت و کشادگی پر غرور کرنے کی ممانعت کے بیان میں

ابوطاہر، عبداللہ بن وہب، مالک بن انس، زید بن اسلم، عطاء بن یسار، حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سب سے زیادہ مجھے تمہارے متعلق خوف اس بات کا ہے جو اللہ تمہارے لئے دنیا کی زینت سے نکالے گا۔ صحابہ (رض) نے عرض کیا اے اللہ کے رسول دنیا کی زینت کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا زمین کی برکات۔ صحابہ نے کہا اے اللہ کے رسول کیا خیر کا بدلہ برائی بھی ہوتا ہے فرمایا نہیں خیر کا نتیجہ خیر ہی ہوتا ہے ہاں یہ ہے کہ بہار میں اگنے و الا سبزہ مار دیتا ہے یا قریب المرگ کردیتا ہے۔ سوائے ان سبزہ خور جانوروں کے جو کھاتے ہیں یہاں تک کہ ان کی کو کھیں پھول جاتی ہیں پھر دھوپ میں آجاتے ہیں پھر جگالی اور پیشاب کرتے ہیں اور اگال نگل لیتے ہیں پھر دوبارہ لوٹتے ہیں تو کھاتے ہیں (یعنی انہیں کچھ نہیں ہوتا) بیشک ہر مال سبز و شاداب اور میٹھا ہے پس جو اس کو حق کے ساتھ وصول کرے اور اس کے حق ہی میں خرچ کرے تو یہ بہترین مددگار ہے اور جو اسے ناحق طریقہ سے حاصل کرے تو وہ اسی کی طرح ہے جو کھاتا ہے لیکن سیر نہیں ہوتا۔

【161】

دنیا کی زینت و کشادگی پر غرور کرنے کی ممانعت کے بیان میں

علی بن حجر، اسماعیل بن ابراہیم، ہشام دستوائی، یحییٰ بن ابی کثیر، ہلال بن ابی میمونہ، عطاء بن یسار، حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ منبر پر بیٹھے اور ہم آپ ﷺ کے ارد گرد بیٹھ گئے تو آپ ﷺ نے فرمایا میں تم پر اپنے بعد اس بات سے ڈرتا ہوں کہ اللہ تم پر دنیا کی زینت کھول دے اور دنیا کا نفع تو ایک صحابی (رض) نے عرض کیا اے اللہ کے رسول کیا خیر کا انجام شر ہوتا ہے تو رسول اللہ ﷺ اس کی بات پر خاموش ہوگئے تو اس سے کہا گیا تیری بات کا کیا حال ہے کہ تم نے ایسی بات کی جس سے رسول اللہ ﷺ خاموش ہوگئے اور تجھ سے گفتگو نہ کی اور ہم نے خیال کیا کہ آپ پر وحی نازل ہو رہی ہے پھر آپ ﷺ نے تھوڑی دیر بعد پسینہ پونچھ کر ارشاد فرمایا یہ سوال کرنے والا کیسا ہے گویا آپ ﷺ اس کی تعریف کر رہے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا بھلائی کا بدلہ برائی نہیں ہوتا لیکن موسم بہار کی پیداوار جانور کو مار ڈالتی ہے یا مرنے کے قریب کردیتی ہے سوائے اس سبزے کے جس کو اس نے کھایا یہاں تک کہ اس کی کو کھیں بھر گئیں وہ دھوپ میں چلا گیا پس جگالی کی اور پیشاب کیا اور معدہ کا اگال چبا کر کھایا یہ مال سرسبز و شاداب اور مٹیھا ہے اور اس مسلمان کا اچھا ساتھی ہے جو اس میں سے مسکین، یتیم، مسافر کو دیتا ہے یا جیسے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اور جس نے اس کو ناحق حاصل کیا اس کی مثال ایسے ہے جیسے کوئی کھاتا ہے لیکن سیر نہیں ہوتا اور وہ مال قیامت کے دن اس پر گواہ ہوگا۔

【162】

سوال سے بچنے اور صبر و قناعت کی فضیلت اور ان سب کی ترغیب کے بیان

قتیبہ بن سعید، مالک بن انس، ابن شہاب، عطاء بن یزید لیثی، حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے بعض انصاری صحابہ نے رسول اللہ ﷺ سے کچھ طلب فرمایا آپ ﷺ نے ان کو عطا فرمایا انہوں نے پھر مانگا تو آپ ﷺ نے ان کو عطا فرمایا یہاں تک کہ آپ ﷺ کے پاس موجود مال ختم ہوگیا۔ تو فرمایا میرے پاس جو کچھ ہوتا ہے اس کو ہرگز تم سے بچا کر نہ رکھوں گا۔ جو شخص سوال سے بچتا ہے اللہ اس کو بچاتا ہے اور جو استغناء اختیار کرتا ہے اللہ اسے غنی کردیتا ہے اور جو صبر کرتا ہے اللہ اسے صبر دے دیتا ہے جو کچھ تم میں سے کسی کو دیا جائے وہ بہتر ہے اور صبر سے بڑھ کر کوئی وسعت نہیں۔

【163】

سوال سے بچنے اور صبر و قناعت کی فضیلت اور ان سب کی ترغیب کے بیان

عبد بن حمید، عبدالرزاق، معمر، زہری، دوسری سند سے بھی یہی حدیث مروی ہے۔

【164】

کفایت شعاری اور قناعت پسندی کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوعبدالرحمن مقری، سعید بن ابوایوب، شرحبیل بن شریک، ابوعبدالرحمن حبلی، حضرت ابن عمرو بن العاص (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے اسلام قبول کیا اور اسے بقدر کفایت رزق عطا کیا گیا اور اللہ نے اپنے عطا کردہ مال پر قناعت عطا کردی تو وہ شحض کامیاب ہوا۔

【165】

کفایت شعاری اور قناعت پسندی کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، عمرو ناقد، ابوسعید اشج، وکیع، اعمش، زہیر بن حرب، محمد بن فضیل، عمارہ بن قعقاع، ابوزرعہ، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے اللہ آل محمد ﷺ کو بقدر ضرورت رزق عطا فرما۔

【166】

مولفتہ القلوب اور جسے اگر نہ دیا جائے تو اس کے ایمان کا خوف ہو اسے دینے اور جو اپنی جہالت کی وجہ سے سختی سے سوال کرے اور خوارج اور ان کے احکا مات کے بیان میں

عثمان بن ابی شیبہ، زہیر بن حرب، اسحاق بن ابراہیم حنظلی، اسحاق، جریر، اعمش، ابو وائل، سلمان بن ربیعہ، حضرت عمر بن خطاب سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مال تقیسم فرمایا تو میں نے عرض کیا اللہ کی قسم اے اللہ کے رسول ان لوگوں کے علاوہ دوسرے لوگ زیادہ مستحق و حقدار تھے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ان لوگوں نے مجھے اختیار دیا کہ یہ مجھ سے بےحیائی کے ساتھ مانگیں یا مجھے بخیل کہیں پس میں تو بخل کرنے والا نہیں ہوں۔

【167】

مولفتہ القلوب اور جسے اگر نہ دیا جائے تو اس کے ایمان کا خوف ہو اسے دینے اور جو اپنی جہالت کی وجہ سے سختی سے سوال کرے اور خوارج اور ان کے احکا مات کے بیان میں

عمرو ناقد، اسحاق بن سلیمان رازی، مالک، یونس بن عبدالاعلی، عبداللہ بن وہب، مالک، اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ، حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ چل رہا تھا اور آپ ﷺ پر موٹے کناروں والی نجرانی چادر تھی آپ ﷺ کو ایک دیہاتی ملا اس نے آپ ﷺ کو آپ ﷺ کی چادر کے ساتھ بہت شدت و سختی کے ساتھ کھنچا جس سے رسول اللہ ﷺ کی گردن مبارک پر چادر کی کناری کا نشان پڑگیا اور یہ کناری کا نشان اس کے سختی کے ساتھ کھینچے کی وجہ سے پڑا پھر اس نے کہا اے محمد ﷺ اللہ کے مال میں سے جو تیرے پاس ہے میرے لئے حکم کرو آپ ﷺ اس کی طرف دیکھ کر مسکرائے پھر اسے کچھ دینے کا حکم فرمایا۔

【168】

مولفتہ القلوب اور جسے اگر نہ دیا جائے تو اس کے ایمان کا خوف ہو اسے دینے اور جو اپنی جہالت کی وجہ سے سختی سے سوال کرے اور خوارج اور ان کے احکا مات کے بیان میں

زہیر بن حرب، عبدالصمد بن عبدالوارث، ہمام، عمر بن یونس، عکرمہ بن عمار، سلمہ بن شبیب، ابومغیرہ، ابواوزاعی، اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ، حضرت انس بن مالک (رض) نے نبی کریم ﷺ سے یہی حدیث روایت کی ہے اور عکرمہ بن عمار کی حدیث میں یہ زیادتی ہے پھر اس نے آپ کو اتنا کھینچا کہ آپ ﷺ کی چادر مبارک اس قدر پھٹ گئی کہ اس کا کنارہ رسول اللہ ﷺ کی گردن میں رہ گیا۔

【169】

مولفتہ القلوب اور جسے اگر نہ دیا جائے تو اس کے ایمان کا خوف ہو اسے دینے اور جو اپنی جہالت کی وجہ سے سختی سے سوال کرے اور خوارج اور ان کے احکا مات کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، لیث، ابن ابی ملیکہ، حضرت مسور بن مخرمہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ق بائیں تقسیم فرمائیں لیکن مخرمہ (رض) کو کچھ نہ عطا فرمایا تو مخرمہ نے کہا اے میرے بیٹو ! ہمیں رسول اللہ ﷺ کے پاس لے چلو میں ان کے ساتھ چلا (دروازہ پر) مخرمہ نے کہا جاؤ اور آپ ﷺ کو میرے پاس بلا لاؤ تو میں نے آپ ﷺ کو ان کے پاس بلایا۔ آپ اس کی طرف نکلے اور آپ پر ان میں سے ایک قبا تھی تو آپ نے فرمایا یہ میں نے تیرے لئے رکھ چھوڑی پھر مخرمہ نے چادر کی طرف دیکھا اور مسور کہتے ہیں مخرمہ خوش ہوگئے۔

【170】

مولفتہ القلوب اور جسے اگر نہ دیا جائے تو اس کے ایمان کا خوف ہو اسے دینے اور جو اپنی جہالت کی وجہ سے سختی سے سوال کرے اور خوارج اور ان کے احکا مات کے بیان میں

ابوخطاب، زیاد بن یحییٰ حسانی، حاتم بن وردان ابوصالح، ایوب سختیانی، عبداللہ بن ابی ملیکہ، حضرت مسور بن مخرمہ (رض) سے روایت ہے کہ کچھ ق بائیں رسول اللہ ﷺ کے پاس لائی گئیں تو مجھے میرے باپ مخرمہ نے کہا ہمیں آپ ﷺ کے پاس لے چلو۔ قریب ہے کہ آپ ﷺ اس میں سے کچھ ہمیں بھی عطا فرما دیں۔ میرے باپ نے کھڑے ہو کر بات کی پس نبی کریم ﷺ نے اس کی آواز پہچان لی اور آپ ﷺ نے ایک قباء لی اور آپ ﷺ ایک قباء لے کر نکلے اور آپ اس کی خوبصورتی دکھاتے ہوئے فرما رہے تھے کہ یہ میں نے آپ کے لئے رکھ چھوڑی تھی یہ میں نے تیرے لئے رکھ چھوڑی تھی۔

【171】

جس کے ایمان کا خوف ہو اسے عطا کرنے کے بیان میں

حسن بن علی حلوانی، عبد بن حمید، یعقوب بن ابراہیم بن سعد، صالح، ابن شہاب، عامر بن سعد، حضرت سعد (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بعض لوگوں عطا فرمایا اور انہی میں میں بیٹھا ہوا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے ان میں سے ایک آدمی کو چھوڑ دیا یعنی کچھ نہ دیا حالانکہ اس کو دینا میرے نزدیک ان سب سے اچھا تھا تو میں نے کھڑے ہو کر چپکے سے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی اے اللہ کے رسول آپ ﷺ نے فلاں کو کیوں نہ دیا حالانکہ میری نظر میں وہ مومن یا مسلمان ہے۔ پھر میں تھوڑی دیر خاموش رہا اس کے حالات کی واقفیت کی وجہ سے مجھ پر غلبہ ہوا تو میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول آپ ﷺ نے فلاں شخص کو کیوں نہ دیا اللہ کی قسم میں تو اس کو مومن یا مسلمان گمان کرتا ہوں۔ آپ ﷺ تھوڑی دیر خاموش رہے پھر اس کے حالات کی واقفیت مجھ پر غالب ہوئی تو میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول آپ ﷺ نے فلاں کو کیوں نہ دیا اللہ کی قسم میں تو اسے مومن یا مسلمان تصور کرتا ہوں آپ ﷺ نے فرمایا بعض آدمی مجھے محبوب ہوتے ہیں لیکن ان کو چھوڑ کر میں دوسروں کو صرف اس ڈر اور خوف کی وجہ سے دیتا ہو کہ اگر اسے نہ دوں تو یہ اوندھے منہ دوزخ میں جائے گا اور حلونی کی روایت میں حضرت سعد کے قول کا تکرار دو مرتبہ ہے۔

【172】

جس کے ایمان کا خوف ہو اسے عطا کرنے کے بیان میں

ابن ابی عمر، سفیان، زہیر بن حرب، یعقوب بن ابراہیم، ابن شہاب، اسحاق بن ابراہیم، عبد بن حمید، عبدالرزاق، معمر، زہری، اوپر والی حدیث اب اسناد سے بھی مروی ہے۔

【173】

جس کے ایمان کا خوف ہو اسے عطا کرنے کے بیان میں

حسن بن علی حلوانی، یعقوب، صالح، اسماعیل بن محمد بن سعد، محمد بن سعد سے روایت ہے کہ میں نے محمد بن سعد سے زہری کی حدیث ہی کی طرح بیان کرتے ہوئے سنا جو ہم نے اوپر ذکر کی محمد بن سعد کی حدیث میں یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنا ہاتھ میرے کندھے اور گردن کے درمیان مارا پھر ارشاد فرمایا اے سعد کیا تو لڑتا ہے اس بات پر کہ میں اس کو دوں۔

【174】

اسلام ثابت قدم رہنے کیلئے تالیف قلبی کے طور پر دینے اور مضبوط ایمان والے کو صبر کی تلقین کرنے کے بیان میں

حرملہ بن یحییٰ تجیبی، عبداللہ بن وہب، یونس، ابن شہاب، انس بن مالک (رض) روایت ہے انصار میں سے بعض لوگوں نے حنین کے دن عرض کیا جب اللہ نے اپنے رسول کو اموالِ ہوازن میں سے کچھ مال فے (یعنی بغیر جہاد) عطا فرمایا پس رسول اللہ ﷺ نے قریشیوں کو سو سو اونٹ دینے شروع فرمائے تو انہوں نے کہا کہ اللہ اپنے رسول سے درگزر فرمائے کہ آپ قریش کو دیتے ہیں اور ہمیں چھوڑ دیتے ہیں حالانکہ ہماری تلواریں ان کا خون بہاتی ہیں، انس (رض) کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ کے سامنے ان کی بات بیان کی گئی تو آپ نے انصار کو بلوایا کہ وہ چمڑے کے قبہ میں جمع ہوں جب وہ جمع ہوگئے تو رسول اللہ ﷺ نے ان کے پاس جا کر فرمایا مجھے تم سے کیا بات پہنچی ہے ؟ تو آپ سے انصار کے سمجھدار لوگوں نے کہا اے اللہ کے رسول ہم سے بعض نوعمر عام لوگوں نے یہ کہا ہے کہ اللہ اپنے رسول اللہ ﷺ سے درگزر فرمائے کہ آپ ہمیں چھوڑ کر قریش کو عطا کر رہے ہیں اور ہماری تلواریں ان کا خون بہاتی ہیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں ان لوگوں کو دیتا ہوں جن کے کفر کا زمانہ قریب ہی گزرا ہے تاکہ ان کو جمع کروں تاکہ تم اپنے گھروں کی طرف رسول اللہ ﷺ کے ساتھ لوٹو اللہ کی قسم جو چیز لے کر تم واپس لوٹو گے وہ بہتر ہے اس سے جو وہ لے کر لوٹیں گے تو انہوں نے عرض کیا کیوں نہیں اے اللہ کے رسول ہم خوش ہیں آپ ﷺ نے فرمایا تم اس کے رسول ﷺ سے ملاقات کرو گے اور میں حوض پر ہوں گا انصار نے عرض کیا ہم صبر کریں گے۔

【175】

اسلام ثابت قدم رہنے کیلئے تالیف قلبی کے طور پر دینے اور مضبوط ایمان والے کو صبر کی تلقین کرنے کے بیان میں

حسن حلوانی، عبد بن حمید، یعقوب بن ابراہیم بن سعد، صالح، ابن شہاب، حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے ہوازن کے اموال سے مال فئی عطا فرمایا باقی حدیث اسی جیسی ہے سوائے اس کے کہ انس (رض) کہتے ہیں ہم نے صبر نہ کیا۔

【176】

اسلام ثابت قدم رہنے کیلئے تالیف قلبی کے طور پر دینے اور مضبوط ایمان والے کو صبر کی تلقین کرنے کے بیان میں

زہیر بن حرب، یعقوب بن ابراہیم، ابن شہاب، انہوں نے اپنے چچا سے، حضرت انس بن مالک (رض) یہی حدیث اس سند سے بھی مذکور ہے مفہوم و معنی ایک ہی ہے۔

【177】

اسلام ثابت قدم رہنے کیلئے تالیف قلبی کے طور پر دینے اور مضبوط ایمان والے کو صبر کی تلقین کرنے کے بیان میں

محمد بن مثنی، ابن بشار، ابن مثنی، محمد بن جعفر، شعبہ، قتادہ، حضرت انس بن مالک (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے انصار کو جمع کیا اور فرمایا کیا تمہارے درمیان تمہارے علاوہ کوئی نہیں ؟ رسول اللہ ﷺ نے عرض کیا سوائے ہماری بہن کے لڑکے کے کوئی نہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قوم کی بہن کا بیٹا انہی میں سے ہوتا ہے پھر آپ ﷺ نے فرمایا قریش نے ابھی زمانہ جاہلیت اور مصیبت سے نجات پائی ہے اور میں نے ان کی دلجوئی اور تالیف قلبی کا ارادہ کیا کیا تم خوش نہیں کہ لوگ تو دنیا لے کر گھروں کو لوٹیں اور تم اپنے گھروں کی طرف رسول اللہ ﷺ کے ساتھ لوٹا اگر لوگ ایک وادی میں چلیں اور انصار ایک گھاٹی میں تو میں انصار کی گھاٹی میں چلوں گا۔

【178】

اسلام ثابت قدم رہنے کیلئے تالیف قلبی کے طور پر دینے اور مضبوط ایمان والے کو صبر کی تلقین کرنے کے بیان میں

محمد بن ولید، محمد بن جعفر، شعبہ، ابوتیاح، انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ جب مکہ فتح ہوا تو غنیمتیں قریش میں تقسیم کی گئیں تو انصار نے کہا یہ بھی عجیب بات ہے حالانکہ ہماری تلواروں سے خون ٹپک رہا ہے اور ہمارا مال غنیمت قریش پر لٹایا جا رہا ہے یہ بات رسول اللہ ﷺ کو پہنچی تو آپ نے ان کو جمع کر کے فرمایا مجھے تم سے کیا بات پہنچی ہے اور وہ جھوٹ نہ بولتے تھے آپ ﷺ نے فرمایا کیا تم اس بات سے راضی نہیں ہو کہ لوگ تو دنیا کے ساتھ لوٹیں گے اپنے گھروں کی طرف اور تم اپنے گھروں کو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ لوٹو گے اگر قریش ایک وادی یا گھاٹی میں چلیں اور انصار دوسری وادی یا گھاٹی میں چلیں تو میں انصار کی وادی اور انصار کی گھاٹی میں چلوں گا۔

【179】

اسلام ثابت قدم رہنے کیلئے تالیف قلبی کے طور پر دینے اور مضبوط ایمان والے کو صبر کی تلقین کرنے کے بیان میں

محمد بن مثنی، ابراہیم بن محمد بن عرعرہ، معاذ بن معاذ، ابن عون، ہشام بن زید بن انس، حضرت انس بن مالک (رض) روایت ہے کہ جب حنین کا دن تھا تو ہوازن اور غطفان وغیرہ اپنی اولاد اور اونٹوں سمیت مقابلہ کو آئے اور نبی کریم ﷺ کے ساتھ اس دن دس ہزار لوگ تھے اور آزاد کئے ہوئے بھی ساتھ تھے پس ان سب نے ایک مرتبہ پیٹھ پھیرلی یہاں تک کہ آپ ﷺ اکیلے رہ گئے۔ اس دن آپ ﷺ نے دو آوازیں دیں ان کے درمیان کوئی چیز نہیں کہی آپ نے اپنی دائیں طرف توجہ کی تو فرمایا اے انصار کی جماعت انہوں کہا لبیک اے اللہ کے رسول آپ ﷺ خوش ہوں ہم آپ ﷺ کے ساتھ ہیں پھر آپ ﷺ نے اپنی بائیں طرف متوجہ ہو کر فرمایا اے انصار کی جماعت انہوں نے عرض کیا لبیک اے اللہ رسول آپ ﷺ خوش ہوجائیں ہم آپ ﷺ کے ساتھ ہیں اور آپ ﷺ ایک سفید خچر پر سوار تھے آپ ﷺ اترے اور فرمایا اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ مشرکوں کو شکست ہوئی اور رسول اللہ ﷺ کو بہت غنیمتیں حاصل ہوئیں تو آپ ﷺ نے مہاجرین اور طلقاء مکہ میں تقسیم کیں اور انصار کو کچھ نہ دیا تو انصار نے کہا جب سختی ہوتی ہے تو ہمیں پکارا جاتا ہے اور غنیمت ہمارے غیر کو دی جاتی ہے آپ ﷺ کو یہ بات پہنچی تو آپ ﷺ نے ان کو ایک خیمہ میں جمع کر کے فرمایا اے انصار کی جماعت مجھے تم سے کیا بات پہنچی ہے تو وہ خاموش ہوگئے تو آپ ﷺ نے فرمایا اے جماعت انصار کیا تم خوش نہیں ہو کہ لوگ تو دنیا لے جائیں اور تم محمد ﷺ کو گھیرے ہوئے اپنے گھروں کو جاؤ انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول کیوں نہیں ہم خوش ہیں اور حضور ﷺ نے فرمایا اگر لوگ ایک وادی میں چلیں اور انصار ایک گھاٹی میں چلیں تو میں انصار کی گھاٹی کو اختیار کروں گا ہشام کہتے ہیں میں نے کہا اے ابوحمزہ (رضی اللہ عنہ) آپ اس وقت وہاں حاضر تھے تو انہوں نے فرمایا میں آپ ﷺ کو چھوڑ کر کہاں غائب ہوتا۔

【180】

اسلام ثابت قدم رہنے کیلئے تالیف قلبی کے طور پر دینے اور مضبوط ایمان والے کو صبر کی تلقین کرنے کے بیان میں

عبیداللہ بن معاذ، حامد بن عمر، محمد بن عبدالعلی، ابن معاذ، معتمر بن سلیمان، سمیط، حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے ہم نے مکہ فتح کرلیا پھر ہم نے جہاد کیا۔ مشرکین اچھی صف بندی کر کے آئے جو میں نے دیکھیں پہلے گھڑ سواروں نے صف باندھی پھر پیدل لڑنے والوں نے اس کے پیچھے عورتوں نے صف باندھی پھر بکریوں کی صف باندھی گئی پھر اونٹوں کی صف بندی کی گئی اور ہم بہت لوگ تھے اور ہماری تعداد چھ ہزار کو پہنچ چکی تھی اور ایک جانب کے سواروں پر حضرت خالد بن ولید (رض) سپہ سالار تھے پس ہمارے سوار ہماری پشتوں کے پیچھے پناہ گزیں ہونا شروع ہوئے اور زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ ہمارے گھوڑے ننگے ہوئے اور دیہاتی بھاگے اور وہ لوگ جن کو ہم جانتے ہیں تو رسول اللہ ﷺ نے پکارا اے مہاجرین ! اے مہاجرین پھر فرمایا اے انصار اے انصار حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ یہ حدیث میرے چچاؤں کی ہے ہم نے کہا لبیک اے اللہ کے رسول پھر آپ ﷺ آگے بڑھے پس اللہ کی قسم ہم پہنچنے بھی نہ پائے تھے کہ اللہ نے ان کو شکست دے دی پھر ہم نے ان کا چالیس روز محاصرہ کیا پھر ہم مکہ کی طرف لوٹے اور اترے اور رسول اللہ ﷺ نے ایک ایک کو سو سو اونٹ دینے شروع کردیئے پھر باقی حدیث اسی طرح ذکر فرمائی۔

【181】

اسلام ثابت قدم رہنے کیلئے تالیف قلبی کے طور پر دینے اور مضبوط ایمان والے کو صبر کی تلقین کرنے کے بیان میں

محمد بن ابوعمر مکی، سفیان، عمر بن سعید بن مسروق، عبایہ بن رفاعہ، حضرت رافع بن خدیج سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ابوسفیان بن حرب اور صفوان بن امیہ اور عیینہ بن حصین اور اقرع بن حابس میں سے ہر ایک کو سو اونٹ عطا کئے اور عباس بن مرداس کو کچھ کم دئیے تو عباس بن مرد اس نے کہا۔ آپ میرے اور میرے گھوڑے عبید کا حصہ عیینہ اور اقرع کے درمیان مقرر کرتے ہیں حالانکہ بدر (دادا عیینہ) اور حابس (والد اقرع) مرد اس (والد عباس) سے کسی مجمع میں بڑھ نہ سکتے اور میں دونوں میں سے کسی سے کم نہ تھا اور آج جس کو نیچا کردیا گیا پھر اس کو سر بلندی حاصل نہ ہوگی تو رسول اللہ ﷺ نے اس کے سو اونٹ پورے کر دئیے۔

【182】

اسلام ثابت قدم رہنے کیلئے تالیف قلبی کے طور پر دینے اور مضبوط ایمان والے کو صبر کی تلقین کرنے کے بیان میں

احمد بن عبدہ ضبی، ابن عیینہ، عمر بن سعید بن مسروق، اسی حدیث کی دوسری سند میں یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حنین کی غنیمت تقسیم کی تو ابوسفیان بن حرب کو سو اونٹ دئیے اور علقمہ بن علاثہ کو سو اونٹ دئیے باقی حدیث گزر چکی ہے۔

【183】

اسلام ثابت قدم رہنے کیلئے تالیف قلبی کے طور پر دینے اور مضبوط ایمان والے کو صبر کی تلقین کرنے کے بیان میں

مخلد بن خالد شعیری، سفیان، عمر بن سعید، اسی حدیث کی ایک اور سند ذکر فرمائی ہے لیکن اس حدیث میں علقمہ بن علاثہ اور صفوان بن امیہ کا ذکر نہیں کیا اور نہ ہی اس حدیث میں شعر ہیں۔

【184】

اسلام ثابت قدم رہنے کیلئے تالیف قلبی کے طور پر دینے اور مضبوط ایمان والے کو صبر کی تلقین کرنے کے بیان میں

سریج بن یونس، اسماعیل بن جعفر، عمرو بن یحییٰ بن عمارہ، عباد بن تمیم، حضرت عبداللہ بن زید (رض) سے روایت ہے کہ جب حنین فتح ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے غنائم تقسیم کئے اور مؤلفۃ القلوب کو مال دیا تو آپ ﷺ کو یہ بات پہنچی کہ انصاریہ چاہتے ہیں کہ جو حصہ اوروں کو ملا ہے انہیں بھی ملے تو رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے اور ان کو خطبہ دیا اللہ کی حمد وثناء بیان کی پھر فرمایا اے جماعت انصار کیا میں نے تم کو گمراہ نہ پایا۔ پھر اللہ نے تم کو میرے ذریعہ غنی کردیا اور تم متفرق تھے تو اللہ نے میرے ذریعہ تمہیں جمع فرما دیا اور انصار کہتے تھے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا ہم پر بڑا احسان ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا تم مجھے جواب نہیں دیتے ؟ تو انہوں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول کا ہم پر بڑا احسان ہے فرمایا اگر تم چاہتے تو ایسا ایسا کہہ سکتے تھے اور معاملہ ایسا ایسا تھا اور اسی طرح آپ ﷺ نے کئی ساری چیزوں کو شمار کیا۔ عمرو کہتے ہیں کہ میں اس کو یاد نہ رکھ سکا آپ ﷺ نے فرمایا کیا تم پسند نہیں کرتے لوگ بکریاں اور اونٹ لے جائیں اور تم رسول اللہ ﷺ کو اپنے گھر لے جاؤ اور انصار اندرونی لباس کی مثل ہیں اور لوگ بالائی لباس کی مثل ہیں اگر لوگ ایک وادی اور گھاٹی میں چلیں تو میں انصار کی وادی اور گھاٹی میں چلوں۔ عنقریب میرے بعد تم کو اپنے نفوس پر دوسرے لوگوں کی ترجیح نظر آئے گی لیکن تم صبر کرنا یہاں تک کہ حوض پر مجھ سے ملاقات کرو۔

【185】

اسلام ثابت قدم رہنے کیلئے تالیف قلبی کے طور پر دینے اور مضبوط ایمان والے کو صبر کی تلقین کرنے کے بیان میں

زہیر بن حرب، عثمان بن ابی شیبہ، اسحاق بن ابراہیم، جریر، منصور، ابو وائل، حضرت عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ جنگ حنین کے دن رسول اللہ ﷺ نے بعض لوگوں کو ترجیح دی تو آپ ﷺ نے اقرع بن حابس کو سو اونٹ دئیے اور عیینہ کو بھی اسی کی مثل اور عیینہ کے کچھ سرداروں کو بھی اسی طرح عطا فرمایا اور تقسیم کے وقت ان لوگوں کو ترجیح دی تو ایک آدمی نے کہا اللہ کی قسم اس تقسیم میں انصاف نہیں کیا گیا اور نہ ہی اس میں اللہ کی رضا کا ارادہ کیا گیا۔ حضرت عبداللہ کہتے ہیں میں نے کہا اللہ قسم میں رسول اللہ ﷺ کو اس بات کی ضرور خبر دوں گا میں آپ ﷺ کے پاس آیا اور آپ ﷺ کو اس کی بات پہنچا دی جو اس نے کہا تو آپ ﷺ کا چہرہ متغیر ہوگیا یہاں تک کہ خون کی طرح ہوگیا پھر فرمایا جب اللہ اور اس کے رسول نے انصاف نہیں کیا تو اور کون ہے جو انصاف کرے گا پھر فرمایا اللہ تعالیٰ موسیٰ پر رحم فرمائے کہ ان کو اس سے بھی زیادہ تکلیف دی گئی تو انہوں نے صبر کیا میں نے دل میں کہا کہ آج کے بعد آپ ﷺ کو کسی بات کی خبر نہ دوں گا۔

【186】

اسلام ثابت قدم رہنے کیلئے تالیف قلبی کے طور پر دینے اور مضبوط ایمان والے کو صبر کی تلقین کرنے کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، حفص بن غیاث، اعمش، شقیق، عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مال غنیمت تقسیم کیا تو ایک آدمی نے کہا کہ اس تقسیم میں اللہ کی رضا کا ارادہ نہیں کیا گیا۔ عبداللہ کہتے ہیں میں نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور آپ کو چپکے سے اس کی خبر دی تو آپ اس بات سے سخت غصہ ہوئے اور آپ ﷺ کا چہرہ سرخ ہوگیا یہاں تک کہ میں نے خواہش کی کہ میں آپ ﷺ سے اس کا ذکر نہ کرتا۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ موسیٰ کو اس سے زیادہ اذیت دی گئی تو انہوں نے صبر کیا۔

【187】

خوارج کے ذکر اور ان کی خصوصیات کے بیان میں

محمد بن رمح بن مہاجر، لیث، یحییٰ بن سعید، ابوزبیر، حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ مقام جعرانہ پر ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور آپ حنین سے لوٹے اور حضرت بلال (رض) کے کپڑے میں چاندی تھی اور رسول اللہ ﷺ اس سے مٹھی بھر بھر کر لوگوں کو دے رہے تھے اس نے کہا اے محمد ﷺ ! انصاف کریں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا تیرے لئے ویل ہو کون ہے جو انصاف کرے جب میں خائب و خاسر ہوں گا تو حضرت عمر بن خطاب (رض) نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ مجھے اجازت دیں تو میں اس منافق کو قتل کر دوں تو آپ ﷺ نے کہا اللہ کی پناہ لوگ باتیں کریں گے کہ میں اپنے ساتھیوں کو قتل کرتا ہوں یہ اور اس کے ساتھی قرآن پڑھتے ہیں لیکن وہ ان کے گلوں سے تجاوز نہیں کرتا اور قرآن سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر نشانہ سے نکل جاتا ہے۔

【188】

خوارج کے ذکر اور ان کی خصوصیات کے بیان میں

محمد بن مثنی، عبدالوہاب ثقفی، یحییٰ بن سعید، ابوزبیر، حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ مال غنیمت تقسیم کیا کرتے تھے باقی حدیث گزر چکی ہے۔

【189】

خوارج کے ذکر اور ان کی خصوصیات کے بیان میں

ہناد بن سری، ابوالاحوص، سعید بن مسروق، عبدالرحمن بن ابی نعم، ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ حضرت علی نے یمن کا کچھ سونا مٹی میں ملا ہوا رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھیجا تو رسول اللہ ﷺ نے اسے چار آدمیوں اقرع بن حابس حنظلی، عیینہ بن بدر فزاری، علقمہ بن علاثہ عامری ایک بنی بن کلاب میں سے اور زید الخیر الطائی پھر ایک بنی نبہان میں سے، قریش اس بات پر ناراض ہوئے تو انہوں نے کہا کہ آپ نجد کے سرداروں کو دیتے اور چھوڑ دیتے ہیں ہم کو، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں نے ایسا ان کی تالیفِ قلبی کے لئے کیا پھر ایک آدمی گھنی ڈاڑھی اور پھولے ہوئے رخسار والے آنکھیں اندر گھسی ہوئی والے اور اونچی جبین والے مونڈے ہوئے سر والے نے آ کر کہا اے محمد ﷺ اللہ سے ڈرو تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر میں اللہ کی نافرمانی کروں تو کون ہے جو اللہ کی فرمانبرداری کرے یہ کیسے صحیح ہوسکتا ہے مجھے امین بنایا اہل زمین پر اور تم مجھے امانتدار نہیں سمجھتے وہ آدمی چلا گیا تو قوم میں سے ایک شخص نے اس کے قتل کی اجازت طلب کی جو کہ غالباً حضرت خالد بن ولید (رض) تھے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس آدمی کی نسل سے یہ قوم پیدا ہوگی جو قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے گلوں سے نیچے نہ اترے گا اہل اسلام کو قتل کریں اور بت پرستوں کو چھوڑیں گے وہ اسلام سے ایسے نکل جائیں جس طرح تیر نشانہ سے نکل جاتا ہے اگر میں ان کو پاتا تو انہیں قوم عاد کی طرح قتل کرتا۔

【190】

خوارج کے ذکر اور ان کی خصوصیات کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، عبدالواحد، عمار بن قعقاع، عبدالرحمن بن ابونعم، حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ حضرت علی (رض) نے یمن سے کچھ سونا سرخ رنگے ہوئے کپڑے میں بند کر کے رسول اللہ ﷺ کی طرف بھیجا اور اسے مٹی سے بھی جدا کیا گیا تھا۔ آپ ﷺ نے اسے چار آدمیوں عیینہ بن بدر، اقرع بن حابس، زید خیل اور چوتھے علقمہ بن علاثہ یا عامر بن طفیل کے درمیان تقسیم کیا۔ تو آپ ﷺ کے صحابہ (رض) میں سے ایک آدمی نے عرض کیا کہ ہم اس کے زیادہ حقدار تھے یہ بات نبی کریم ﷺ کو پہنچی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم مجھے امانتدار نہیں سمجھتے۔ حالانکہ میں آسمانوں کا امین ہوں میرے پاس آسمان کی خبریں صبح شام آتی ہیں تو ایک آدمی گھسی ہوئی آنکھوں والا بھرے ہوئے گا لوں والا ابھری ہوئی پیشانی والا مونڈے ہوئے سر والا گھنی داڑھی والا اٹھے ہوئے ازار بند والا کھڑا ہوا اور کہنے لگا اے اللہ کے رسول ! اللہ سے ڈرو تو آپ ﷺ نے فرمایا تیری خرابی ہو کیا میں زمین والوں سے زیادہ حقدار نہیں ہوں کہ اللہ سے ڈروں، پھر وہ آدمی چلا گیا تو خالد بن ولید (رض) نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ کیا میں اس کی گردن نہ مار ڈالوں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا نہیں شاید کہ یہ نماز پڑھتا ہو، خالد نے عرض کیا نماز پڑھنے والے کتنے ایسے ہیں جو زبان سے اقرار کرتے ہیں لیکن دل سے نہیں مانتے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مجھے لوگوں کے دلوں کو چیرنے اور ان کے پیٹ چاک کرنے کا حکم نہیں دیا گیا۔ پھر آپ ﷺ نے اس کو پشت موڑ کر جاتے ہوئے دیکھ کر فرمایا اس آدمی کی نسل سے ایک قوم پیدا ہوگی جو عمدہ انداز سے اللہ کی کتاب کی تلاوت کرے گی لیکن وہ ان کے گلوں سے تجاوز نہ کرے گی وہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے ابوسعید (رض) فرماتے ہیں کہ میرا گمان ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا اگر میں ان کو پالوں تو انہیں قوم ثمود کی طرح قتل کروں۔

【191】

خوارج کے ذکر اور ان کی خصوصیات کے بیان میں

عثمان بن ابی شیبہ، جریر، حضرت عما رہ بن قعقاع (رض) نے بھی یہ حدیث اسی سند سے ذکر کی ہے لیکن علقمہ بن علاثہ کہا ہے اور عامر بن طفیل ذکر نہیں کیا اور نَاتِئُ الْجَبْهَةِ کہا نَاشِزُ نہیں کہا اور اس میں یہ زیادہ ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) کھڑے ہوئے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ کیا میں اس کی گردن نہ مار دوں آپ ﷺ نے فرمایا نہیں اور فرمایا عنقریب اس آدمی کی نسل سے ایک قوم نکلے گی عمارہ کہتے میرا گمان ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا اگر میں ان کو پا لوں تو قوم ثمود کی طرح انہیں قتل کر دوں۔

【192】

خوارج کے ذکر اور ان کی خصوصیات کے بیان میں

ابن نمیر، ابن فضیل، حضرت عمارہ بن قعقاع (رض) سے اسی سند یہ روایت ہے کہ اسی طرح ہے کہ آپ ﷺ نے چار آدمیوں کے درمیان تقسیم کیا زید الخیر، اقرع بن حابس، عیینہ بن حصین علقمہ بن علاثہ یا عامر طفیل اور عبدالواحد کی روایت کی طرح نَاشِزُ الْجَبْهَةِ کہا اور فرمایا کہ اس کی نسل سے عنقریب ایک قوم نکلے گی اور اس میں آخری جملہ کہ اگر میں ان کو پالوں تو انہیں قوم ثمود کی طرح قتل کر دوں مذکور نہیں۔

【193】

خوارج کے ذکر اور ان کی خصوصیات کے بیان میں

محمد بن مثنی، عبدالوہاب، یحییٰ بن سعید، محمد بن ابراہیم، حضرت ابوسلمہ اور عطاء بن یسار (رض) سے روایت ہے کہ وہ دونوں حضرت ابوسعید خدری (رض) کے پاس آئے اور آپ سے پوچھا کہ آپ نے رسول اللہ ﷺ سے حروریہ کے بارے میں کچھ سنا تو انہوں نے فرمایا میں نہیں جانتا کہ حروریہ کون ہیں لیکن میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے تھے کہ اس امت میں ایک قوم نکلے گی یہ نہیں فرمایا کہ اس امت سے ہوگی وہ ایسی قوم ہوگی کہ تم اپنی نماز کو ان کی نماز سے حقیر جانو گے وہ قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلقوں یا گلوں سے نیچے نہ اترے گا وہ دین سے تیر کے نشانہ سے نکلے جانے کی طرح نکل جائیں گے تیرانداز اپنے تیر اس لکڑی اور اس کے پھل کو دیکھتا ہے اور اس کے کنارہ اخیر پر غور کرتا ہے جو اس کی چٹکیوں میں تھا کہ کہیں اس کی کسی چیز کو خون میں سے کوئی چیز لگ گئی ہے۔

【194】

خوارج کے ذکر اور ان کی خصوصیات کے بیان میں

ابوطاہر، عبداللہ بن وہب، یونس، ابن شہاب، ابوسلمہ بن عبدالرحمن، حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس تھے اور آپ مال غنیمت تقسیم فرما رہے تھے کہ آپ کے پاس ذوالخویصرہ جو بنی تمیم میں سے ایک ہے اس نے کہا اے اللہ کے رسول ! انصاف کر۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تیری خرابی ہو اگر میں انصاف نہ کروں تو کون ہے جو انصاف کرے گا اور تو بدنصیب اور نقصان اٹھانے والا ہوگیا اگر میں نے عدل نہ کیا تو عمر بن خطاب (رض) نے عرض کیا اے اللہ کے رسول مجھے اس کی گردن مارنے کی اجازت دے دیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اسے چھوڑ دو کیونکہ اس کے ساتھی ایسے ہوں گے کہ تمہارا ایک آدمی اپنی نماز کو ان کی نماز سے حقیر تصور کرے گا اور اپنے روزے کو ان کے روزے سے، قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے گلوں سے تجاوز نہ کرے گا۔ وہ اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جیسا کہ تیر نشانہ سے نکل جاتا ہے کہ تیر انداز اس کے بھالہ کو دیکھتا ہے تو اس میں کوئی چیز نہیں پاتا پھر اس کے کنارے کو دیکھتا ہے تو اس میں کوئی چیز نہیں پاتا۔ پھر اس کی لکڑی کو دیکھتا ہے تو کچھ نہیں پاتا حالانکہ تیر پیٹ کی گندگی اور خون سے نکل چکا ہوتا ہے ان کی نشانی یہ ہے کہ ان میں سے ایک آدمی ایسا سیاہ ہے کہ اس کا ایک شانہ عورت کے پستان یا گوشت کے لوتھڑے کی طرح ہوگا جو تھرتھراتا ہوگا۔ یہ اس وقت نکلیں گے جب لوگوں میں پھوٹ ہوگی ابوسعید کہتے ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے یہی رسول اللہ ﷺ سے سنا اور میں گواہی دیتا ہوں کہ علی بن ابی طالب (رض) نے ان سے جہاد کیا اور میں آپ کے ساتھ تھا تو آپ نے اس آدمی کو تلاش کرنے کا حکم دیا وہ ملا تو اسے علی (رض) کے پاس لایا گیا۔ یہاں تک کہ میں نے اسے ویسا ہی پایا جیسا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا۔

【195】

خوارج کے ذکر اور ان کی خصوصیات کے بیان میں

محمد بن مثنی، ابوعدی، سلیمان، ابونضرہ، حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک قوم کا ذکر فرمایا جو آپ کی امت سے ہوں گے وہ لوگ لوگوں کی پھوٹ کے وقت نکلیں گے ان کی نشانی سر منڈانا ہوگی وہ بدترین مخلوق ہیں یا بدترین مخلوق میں سے ہیں ان کو وہ لوگ قتل کریں گے جو دو گروہوں میں سے حق کے قریب ہوں گے پھر نبی کریم ﷺ نے ان کی مثال بیان فرمائی یا ایک بات فرمائی اس آدمی کی جو تیر پھینکتا ہے یا نشانہ تو وہ بھالہ میں نظر کرتا ہے لیکن اس میں کچھ اثر نہیں دیکھتا اور تیر کی لکڑی میں دیکھتا ہے اور کچھ نہیں دیکھتا اور اس کے اوپر کے حصہ میں دیکھتا ہے تو کچھ نہیں دیکھتا ہے ابوسعید (رض) نے فرمایا اے اہل عراق تم نے انہیں قتل کیا ہے۔

【196】

خوارج کے ذکر اور ان کی خصوصیات کے بیان میں

شیبان بن فروخ، قاسم بن فضل حدانی، ابونضرہ، حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مسلمانوں کے افتراق کے وقت ایک فرقہ مارقہ خروج کرے گا ان کو دو گروہوں میں سے اقرب الی الحق گروہ قتل کرے گا۔

【197】

خوارج کے ذکر اور ان کی خصوصیات کے بیان میں

ابوربیع زہرانی، قتیبہ بن سعید، ابوعوانہ، قتادہ، ابونضرہ، حضرت ابوسعید (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا میری امت میں دو گروہ ہوجائیں گے تو ان میں سے مارقہ فرقہ نکلے گا ان خوارج سے وہ جہاد کرے گا جو سب سے زیادہ حق کے قریب ہوگا۔

【198】

خوارج کے ذکر اور ان کی خصوصیات کے بیان میں

محمد بن مثنی، عبدالاعلی، داؤد بن نضرہ، حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا لوگوں کے اختلاف کی وجہ سے ان میں سے ایک فرقہ مارقہ نکلے گا اور دو گروہوں میں سے ان کو وہ قتل کرے گا جو حق کے زیادہ قریب ہوگا۔

【199】

خوارج کے ذکر اور ان کی خصوصیات کے بیان میں

عبیداللہ قواریری، محمد بن عبداللہ بن سفیان، حبیب بن ابی ثابت، ضحاک مشرقی، حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک حدیث میں ایسی قوم کا ذکر فرمایا جو اختلاف کے وقت نکلے گی ان کو دو گروہوں سے جو حق کے زیادہ قریب ہوگا وہ قتل کرے گا۔

【200】

خوارج کو قتل کرنے کی تو غیب کے بیان میں

محمد بن عبداللہ بن نمیر، عبداللہ بن سعید اشج، وکیع، اعمش، خیثمہ، حضرت سو ید بن غفلہ (رض) سے روایت ہے کہ حضرت علی (رض) نے فرمایا اگر میں تم سے رسول اللہ ﷺ کی وہ حدیث بیان کروں جو آپ ﷺ نے نہیں فرمائی تو مجھے آسمان سے گرپڑنا زیادہ محبوب ہے اس سے کہ میں وہ بات کہوں جو آپ ﷺ نے نہیں بیان فرمائی اور جب وہ بات بیان کروں جو میرے اور تمہارے درمیان ہے تو جان لو کہ جنگ دھوکہ بازی کا نام ہے میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے تھے عنقریب اخیر زمانہ میں ایک قوم نکلے گی نوعمر اور ان کے عقل والے بیوقوف ہونگے بات تو سب مخلوق سے اچھی کریں گے قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے گلوں سے نہ اترے گا دین سے وہ اسطرح نکل جائیں گے جیسا کہ تیر نشانہ سے نکل جاتا ہے جب تم ان سے ملو تو ان کو قتل کردینا کیونکہ ان کو قتل کرنے والے کو اللہ کے ہاں قیامت کے دن ثواب ہوگا۔

【201】

خوارج کو قتل کرنے کی تو غیب کے بیان میں

اسحاق بن ابراہیم، عیسیٰ بن یونس، محمد بن ابوبکر مقدمی، ابوبکر، نافع، عبدالرحمن بن مہدی، اعمش، اس سند کے ساتھ بھی اس سے قبل حدیث مبارکہ مروی ہے

【202】

خوارج کو قتل کرنے کی تو غیب کے بیان میں

عثمان بن ابی شیبہ، جریر، ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب، زہیر بن حرب، ابومعاویہ، اعمش، اسی حدیث کی ایک اور سند ذکر کی ہے لیکن اس میں یہ نہیں ہے کہ وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر نشانہ سے نکل جاتا ہے۔

【203】

خوارج کو قتل کرنے کی تو غیب کے بیان میں

محمد بن ابوبکر مقدمی، ابن ابی علیہ، حماد بن زید، قتیبہ بن سعید، حماد بن زید، ابوبکر بن ابوشیبہ، زہیر بن حرب، اسماعیل بن علیہ، ایوب، محمد، عبیدہ، علی (رض) سے روایت ہے کہ حضرت علی (رض) نے خوارج کا ذکر کیا تو فرمایا ان میں ایک آدمی ناقص ہاتھ والا یا گوشت کے لوتھڑے کی طرح ہاتھ والا یا عورت کے پستان جیسے ہاتھ والا ہوگا اور اگر تم فخر نہ کرو تو میں تم سے بیان کروں وہ وعدہ جو اللہ نے ان لوگوں کو قتل کرنے کا محمد ﷺ کی زبانی دیا میں نے عرض کیا آپ نے محمد ﷺ سے سنا ہے تو آپ (رض) نے فرمایا ہاں رب کعبہ کی قسم ہاں رب کعبہ کی قسم ہاں رب کعبہ کی قسم۔

【204】

خوارج کو قتل کرنے کی تو غیب کے بیان میں

محمد بن مثنی، ابوعدی، ابن عون، محمد بن عبیدہ، اسی حدیث مبارکہ کی دوسری سند ذکر کردی ہے۔

【205】

خوارج کو قتل کرنے کی تو غیب کے بیان میں

عبد بن حمید، عبدالرزاق بن ہمام، عبدالملک بن ابی سلیمان، سلمہ بن کہیل، زید بن وہب جہنی (رض) سے روایت ہے کہ وہ اس لشکر میں شریک تھا جو سیدنا علی (رض) کی معیت میں خوارج سے جنگ کے لئے چلا۔ تو حضرت علی (رض) نے فرمایا اے لوگو ! میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا کہ ایک قوم میری امت سے نکلے گی وہ قرآن اس طرح پڑھیں گے کہ تم ان کی قرأت سے مقابلہ نہ کرسکو گے اور نہ تمہاری نماز ان کی نماز کا مقابلہ کرسکے گی اور نہ تمہارے روزے ان کے روزوں جیسے ہوں گے وہ قرآن پڑھتے ہوئے گمان کریں گے کہ وہ ان کے لئے مفید ہے حالانکہ وہ ان کے خلاف ہوگا اور ان کی نماز ان کے حلق سے نیچے نہ اترے گی وہ اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر نشانہ سے نکل جاتا ہے ان سے قتال کرنے والے لشکر کو اگر یہ معلوم ہوجائے جو نبی کریم کی زبانی ان کے لئے فیصلہ کیا گیا ہے اسی عمل پر بھروسہ کرلیں اور نشانی یہ ہے کہ ان میں ایک آدمی کے بازو کی بانہہ نہ ہوگی اور اس کے بازو کی نوک عورت کے پستان کی طرح لوتھڑا ہوگی اس پر سفید بال ہونگے فرمایا تم معاویہ (رض) اور اہل شام سے مقابلہ کے لئے جاتے ہوئے ان کو چھوڑ جاتے ہو کہ یہ تمہارے پیچھے تمہاری اولادوں اور تمہارے اموال کو نقصان پہنچائیں۔ اللہ کی قسم میں امید کرتا ہوں کہ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے حرام خون بہایا اور ان کے مویشی وغیرہ لوٹ لئے تم اور لوگوں کو چھوڑو اور ان کی طرف اللہ کے نام پر چلو سلمہ بن کہیل کہتے ہیں پھر مجھے زید بن و ہب نے ایک منزل کے متعلق بیان کیا۔ یہاں تک کہ ہم ایک پل سے گزرے اور جب ہمارا خوارج سے مقابلہ ہوا تو عبداللہ بن و ہب راسبی انکا سردار تھا۔ اس نے اپنے لشکر سے کہا تیر پھینک دو اور اپنی تلواریں میانوں سے کھینچ لو میں خوف کرتا ہوں کہ تمہارے ساتھ وہی معاملہ نہ ہو جو تمہارے ساتھ حروراء کے دن ہوا تھا تو وہ لوٹے اور انہوں نے نیزوں کو دور پھینک دیا اور تلواروں کو میان سے نکالا۔ لوگوں نے ان سے نیزوں کے ساتھ مقابلہ کیا اور یہ ایک دوسرے پر قتل کئے گئے ہم میں صرف دو آدمی کام آئے علی (رض) نے فرمایا ان میں سے ناقص ہاتھ والے کو تلاش کرو تلاش کرنے پر نہ ملا تو علی (رض) خود کھڑے ہوئے یہاں تک کہ ان لوگوں پر آئے جو ایک دوسرے پر قتل ہوچکے تھے آپ نے فرمایا ان کو ہٹاؤ پھر اس کو زمین کے ساتھ ملا ہوا پایا آپ نے اَللَّهُ أَکْبَرُ کہہ کر فرمایا اللہ نے سچ فرمایا اور اس کے رسول ﷺ نے پہنچایا تو پھر عبیدہ سلمانی نے کھڑے ہو کر کہا اے امیرالمومنین اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں کہ آپ نے خود نبی ﷺ سے یہ حدیث سنی۔ تو علی (رض) نے فرمایا ہاں اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں مگر وہی یہاں تک عبیدہ نے تین بار قسم کا مطالبہ کیا اور آپ نے تین بار ہی اس کے لئے قسم کھائی۔

【206】

خوارج کو قتل کرنے کی تو غیب کے بیان میں

ابوطاہر، یونس بن عبدالاعلی، عبداللہ بن وہب، عمرو بن حارث، بکیربن اشج، بسربن سعید بن عبیداللہ بن ابی رافع سے روایت ہے کہ حروریہ کے خروج کے وقت وہ حضرت علی (رض) کے ساتھ تھا خوارج نے کہا اللہ کے سوا کسی کا حکم نہیں حضرت علی (رض) نے فرمایا کلمہ تو حق ہے لیکن اس سے باطل کا ارادہ کیا گیا ہے۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے کچھ لوگوں کا حال بیان کیا تھا میں ان میں ان لوگوں کی نشانیاں پہچان رہا ہوں یہ زبان سے تو حق کہتے ہیں مگر وہ زبان سے تجاوز نہیں کرتا اور حلق کی طرف اشارہ فرمایا۔ اللہ کی مخلوق میں سب سے زیادہ مبغوض اللہ کے ہاں یہی ہیں ان میں سے ایک سیاہ آدمی ہے اس کا ہاتھ بکری کے تھن یا پستان کے سر کی طرح ہے پھر جب ان کو حضرت علی (رض) نے قتل کیا تو فرمایا کہ دیکھو لوگوں نے دیکھا تو وہ نہ ملا پھر کہا دوبارہ جاؤ اللہ کی قسم میں نے جھوٹ بولا نہ مجھے جھوٹ کہا گیا دو یا تین مرتبہ یہی فرمایا پھر انہوں نے اس کو ایک کھنڈر میں پایا تو اس کو لائے یہاں تک کہ اسے حضرت علی (رض) کے سامنے رکھ دیا حضرت عبیداللہ کہتے ہیں میں اس جگہ موجود تھا جب انہوں نے یہ کام کیا اور حضرت علی (رض) نے ان کے حق میں یہ فرمایا یونس نے اپنی روایت میں یہ زیادہ کیا ہے کہ مجھے بکیر نے کہا مجھے ایک شخص نے ابن حنین سے روایت بیان کیا کہ اس نے کہا کہ میں نے اس اسود کو دیکھا۔

【207】

خوارج کے مخلوق میں سب سے زیادہ برے ہونے کے بیان میں

شیبان بن فروخ، سلیمان بن مغیرہ، حمید بن ہلال، عبداللہ بن صامت، حضرت ابوذر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا عنقریب میرے بعد میری امت سے ایسی قوم ہوگی جو قرآن پڑھے گی لیکن وہ اس کے حلق سے متجاوز نہ ہوگا اور وہ دین سے اس طرح نکل جائے گی جیسا تیر نشانہ سے نکل جاتا ہے پھر وہ دین میں نہ لوٹے گی وہ مخلوق میں سب سے زیادہ شریر اور بد کر دار ہوگی۔ آگے اس سند کی تحقیق فرمائی ہے جو ابن صامت نے کی۔

【208】

خوارج کے مخلوق میں سب سے زیادہ برے ہونے کے بیان میں

ابوبکر بن ابوشیبہ، علی بن مسہر، سیبانی، یسیربن دمرو، حضرت سہل بن حنیف (رض) سے روایت ہے کہ میں نے سنا نبی کریم ﷺ خوارج کا ذکر فرما رہے تھے اور آپ نے مشرقی کی طرف اشارہ فرمایا کہ ایک قوم ہے جو اپنی زبانوں سے قرآن پڑھتی ہے لیکن وہ ان کے گلوں سے تجاوز نہیں کرتا وہ دین سے اس طرح نکل جاتے ہیں جیسا کہ تیر نشانہ سے نکل جاتا ہے۔

【209】

خوارج کے مخلوق میں سب سے زیادہ برے ہونے کے بیان میں

ابوکامل، عبدالواحد، سلیمان شیبانی، دوسری سند ذکر کی ہے اس میں یہ ہے کہ اس سے اقوام نکلیں گی۔

【210】

خوارج کے مخلوق میں سب سے زیادہ برے ہونے کے بیان میں

ابوبکر بن ابشیبہ، اسحاق، یزید، یزید بن ہارون، عوام بن حوشب، ابواسحاق شیبانی، اسیربن عمرو، سہل بن حنیف (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا مشرق سے ایک قوم آئے گی ان کے سر منڈے ہوئے ہوں گے۔

【211】

رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کی ال بنو ہاشم اور عبد المطت و غیرہ کے لئے زکوة کی تحریم بیان میں

عبیداللہ بن معاذ عنبری، شعبہ، محمد بن زیاد، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ حضرت حسن بن علی (رض) نے صدقہ کی کھجوروں میں سے ایک کھجور لے لی اور اسے اپنے منہ میں ڈال لیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھو، تھو ! اس کو پھینک دو ۔ کیا تو نہیں جانتا کہ ہم صدقہ کا مال نہیں کھاتے۔

【212】

رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کی ال بنو ہاشم اور عبد المطت و غیرہ کے لئے زکوة کی تحریم بیان میں

یحییٰ بن یحیی، ابوبکر بن ابوشیبہ، زہیر بن حرب، وکیع، شعبہ، اسی حدیث کی دوسری سند ہے اس میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ہمارے لئے صدقہ حلال نہیں۔

【213】

رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کی ال بنو ہاشم اور عبد المطت و غیرہ کے لئے زکوة کی تحریم بیان میں

محمد بن بشار، محمد بن جعفر، ابن مثنی، ابوعدی، شعبہ، حضرت ابن معاذ (رض) سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ہم صدقہ نہیں کھاتے۔

【214】

رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کی ال بنو ہاشم اور عبد المطت و غیرہ کے لئے زکوة کی تحریم بیان میں

ہارون بن سعید ایلی، ابن وہب، عمرو، ابویونس، جو کہ مولیٰ ہیں حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا میں اپنے اہل کی طرف گیا تو میں نے بستر پر گری ہوئی ایک کھجور پائی میں نے اسے کھانے کے لئے اٹھایا پھر مجھے خوف ہوا کہ وہ صدقہ کی نہ ہو لہذا میں نے اسے پھینک دیا۔

【215】

رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کی ال بنو ہاشم اور عبد المطت و غیرہ کے لئے زکوة کی تحریم بیان میں

محمد بن رافع، عبدالرراق بن ہمام، معمر، ہمام بن منبہ، حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایات میں سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ کی قسم میں اپنے اہل کی طرف لوٹتا ہوں تو اپنے بستر پر ایک کھجور گری ہوئی پاتا ہوں یا اپنے گھر میں تو اس کو کھانے کے لئے اٹھاتا ہوں پھر میں ڈرتا ہوں کہ وہ صدقہ کی نہ ہو تو میں اسے پھینک دیتا ہوں۔

【216】

رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کی ال بنو ہاشم اور عبد المطت و غیرہ کے لئے زکوة کی تحریم بیان میں

یحییٰ بن یحیی، وکیع، سفیان، منصور، طلحہ بن مصرف، حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک کھجور پائی تو آپ ﷺ نے فرمایا اگر یہ صدقہ کی نہ ہوتی تو میں کھا لیتا۔

【217】

رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کی ال بنو ہاشم اور عبد المطت و غیرہ کے لئے زکوة کی تحریم بیان میں

ابوکریب، ابواسامہ، زائدہ، منصور، طلحہ بن مصرف، حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ راستہ میں پڑی ہوئی ایک کھجور کے پاس سے گزرے تو فرمایا اگر یہ صدقہ کی نہ ہوتی تو میں اسے کھا لیتا۔

【218】

رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کی ال بنو ہاشم اور عبد المطت و غیرہ کے لئے زکوة کی تحریم بیان میں

محمد بن مثنی، ابن بشار، معاذ بن ہشام، قتادہ، حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک کھجور پائی تو فرمایا اگر یہ صدقہ کی نہ ہوتی تو میں اسے کھا لیتا۔

【219】

نبی کریم ﷺ کی آل کیلئے صدقہ کا استعمال ترک کرنے کا بیان میں

عبداللہ بن محمد بن اسماء ضبعی، جویریہ، مالک، زہری، عبداللہ بن عبداللہ بن نوفل بن حارث، حضرت عبد المطلب بن ربیعہ بن حارث (رض) سے روایت ہے کہ ربیعہ بن حارث اور عباس بن عبدالمطلب جمع ہوئے تو انہوں نے فرمایا اللہ کی قسم اگر ہم دو نوجوانوں یعنی عباس بن عبدالمطلب اور فضل بن عباس (رض) کو رسول اللہ ﷺ کی طرف بھیجیں اور یہ دونوں جا کر آپ سے گفتگو کریں کہ آپ ﷺ انہیں عامل صدقات بنادیں اور دونوں اسی طرح وصول کر کے ادا کریں جس طرح دوسرے لوگ ادا کرتے ہیں اور انہیں بھی وہی مل جائے جو اور لوگوں کو ملتا ہے، یہ بات ان دونوں کے درمیان جاری تھی کہ علی بن ابی طالب (رض) تشریف لے آئے ان کے سامنے کھڑے ہوگئے تو انہیں نے اس کا علی (رض) سے ذکر کیا تو علی (رض) نے فرمایا تم ایسا نہ کرو اللہ کی قسم آپ ﷺ ایسا کرنے والے نہیں ہیں ربیعہ بن حارث نے ان کی بات سے اعراض کرتے ہوئے کہا اللہ کی قسم تم ہم پر حسد کرتے ہوئے کہہ رہے ہو اور اللہ کی قسم تمہیں رسول اللہ ﷺ کی دامادی کا شرف حاصل ہوا تو ہم نے اس پر آپ سے حسد نہیں کیا حضرت علی (رض) نے فرمایا اچھا ان دونوں کو بھیجو پس ہم دونوں چلے گئے اور علی (رض) لیٹ گئے۔ جب رسول اللہ ﷺ نے ظہر کی نماز ادا کی تو ہم حضور ﷺ سے پہلے حجرہ کے پاس جا کر کھڑے ہوگئے یہاں تک کہ آپ ﷺ تشریف لائے اور ہمارے کانوں سے پکڑا پھر فرمایا تمہارے دلوں میں جو بات ہے ظاہر کردو پھر آپ ﷺ گھر تشریف لے گئے اور ہم بھی داخل ہوئے اور آپ اس دن حضرت زینت بنت جحش (رض) کے پاس تھے ہم نے ایک دوسرے سے گفتگو کی پھر ہم میں سے ایک نے عرض کیا اے اللہ کے رسول آپ سب سے زیادہ صلہ رحمی اور سب سے زیادہ احسان کرنے والے ہیں اب ہم جوان ہوچکے ہیں ہم آپ کے پاس حاضر ہوئے ہیں تاکہ آپ ہمیں زکوٰۃ وصول کرنے کی خدمت پر مامور فرما دیں ہم بھی اسی طرح ادا کریں گے جیسے اور لوگ آپ کے پاس آ کر ادا کرتے ہیں اور ہم کو بھی کچھ مل جائے گا جیسے اور لوگوں کو ملتا ہے آپ کافی دیر تک خاموش رہے حتی کہ ہم نے ارادہ کیا ہم دوبارہ گفتگو کریں اور حضرت زینب پردہ کے پیچھے سے مزید گفتگو نہ کرنے کا اشارہ فرما رہی تھیں پھر آپ نے فرمایا کہ صدقہ آل محمد ﷺ کے لئے مناسب نہیں۔ کیونکہ یہ لوگوں کا میل کچیل ہوتا ہے میرے پاس محمیہ اور نوفل بن حارث بن عبدالمطب کو بلاؤ اور وہ خمس پر مامور تھے۔ جب وہ حاضر ہوئے تو آپ نے محمیہ سے کہا اس نوجوان فضل بن عباس سے اپنی بیٹی کا نکاح کردو تو اس نے نکاح کردیا اور نوفل بن حارث سے فرمایا کہ تم اپنی بیٹی کا نکاح اس نوجوان سے کردو تو انہوں نے مجھ سے نکاح کردیا اور محمیہ سے کہا کہ خمس سے ان دونوں کا اتنا اتنا مہر ادا کردو، زہری کہتے ہیں کہ میرے شیخ نے مہر کی رقم معین نہیں کی۔

【220】

نبی کریم ﷺ کی آل کیلئے صدقہ کا استعمال ترک کرنے کا بیان میں

ہارون بن معروف، ابن وہب، یونس بن یزید، ابن شہاب، عبداللہ بن حارث بن نوفل ہاشمی، عبدالمطلب بن ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب، عباس بن عبدالمطلب، عبدالمطلب بن ربیعہ، فضل بن عباس (رض) ، یہ حدیث بھی اسی طرح مروی ہے کچھ تبد یلی اس طرح ہے کہ عبداللہ بن حارث بن نوفل الہاشمی (رض) سے روایت ہے کہ ربیعہ بن حارث اور عباس بن عبد المطلب (رض) نے عبد المطلب بن ربیعہ اور فضل بن عباس سے کہا کہ تم دونوں رسول اللہ ﷺ کے پاس جاؤ باقی حدیث گزر چکی اس میں یہ ہے کہ حضرت علی نے اپنی چادر ڈالی اور لیٹ گئے اور فرمایا کہ میں بھی قوم میں صحیح رائے رکھنے والا ہوں اللہ کی قسم میں اس جگہ سے نہ ہٹوں گا یہاں تک کہ تمہارے دونوں بیٹے تمہارے پاس اس پیغام کا جواب لے کر واپس نہ آجائیں جو تم نے دے کر ان دونوں کو رسول اللہ ﷺ کی طرف بھیجا ہے اور حدیث میں فرمایا پھر آپ نے ہم سے یہ فرمایا یہ صدقات لوگوں کا میل کچیل ہی ہوتے ہیں اور یہ محمد ﷺ کے لئے حلال نہیں اور نہ آل محمد ﷺ کے لئے یہ بھی کہا پھر رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم محمیہ بن جزء کو میرے پاس بلا لاؤ اور وہ بنی اسد کے آدمی تھے رسول اللہ ﷺ نے انہیں مال خمس کا حاکم بنایا تھا۔

【221】

نبی کریم ﷺ کی آل کیلئے صدقہ کا استعمال ترک کرنے کا بیان میں

قتیبہ بن سعید، لیث، محمد بن رمح، لیث، ابن شہاب، عبید بن سباق، ام المومنین حضرت جویریہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اس کے پاس تشریف لائے تو فرمایا کچھ کھانا ہے تو انہوں نے عرض کیا نہیں اللہ کی قسم اے اللہ کے رسول ﷺ ہمارے پاس اس بکری کے گوشت کی ہڈی کے سوا کوئی کھانا نہیں جو میری آزاد کردہ باندی کو صدقہ میں ملی تھی تو آپ ﷺ نے فرمایا اس کو لے آؤ اس لئے کہ صدقہ تو اپنی جگہ پہنچ چکا ہے۔

【222】

نبی کریم ﷺ کی آل کیلئے صدقہ کا استعمال ترک کرنے کا بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، عمرو ناقد، اسحاق بن ابراہیم، ابن عیینہ، زہری، اسی حدیث کی ایک اور سند ذکر کی ہے۔

【223】

نبی کریم ﷺ کی آل کیلئے صدقہ کا استعمال ترک کرنے کا بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب، وکیع، محمد بن مثنی، ابن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، قتادہ، حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ حضرت بریرہ (رض) نے نبی کریم ﷺ کو گوشت ہدیہ دیا جو اس کو صدقہ دیا گیا تھا۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا یہ اس کے لئے صدقہ اور ہمارے لئے ہدیہ ہے۔

【224】

نبی کریم ﷺ کی آل کیلئے صدقہ کا استعمال ترک کرنے کا بیان میں

عبیداللہ بن معاذ، شعبہ، محمد بن مثنی، ابن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، حکم، ابراہیم، اسود، حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت ہے نبی کریم ﷺ کے پاس گائے کا گوشت لایا گیا اور آپ ﷺ سے کہا گیا یہ وہی ہے جو بریرہ (رض) پر صدقہ کیا گیا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا یہ اس کے لئے صدقہ اور ہمارے لئے ہدیہ ہے۔

【225】

نبی کریم ﷺ کی آل کیلئے صدقہ کا استعمال ترک کرنے کا بیان میں

زہیر بن حرب، ابوکریب، ابومعاویہ، ہشام بن عروہ، عبدالرحمن بن قاسم، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ حضرت بریرہ (رض) میں تین خصلتیں تھیں (ان میں ایک یہ ہے) کہ لوگ اس پر صدقہ کرتے تھے اور وہ ہمیں ہدیہ کردیتی تھی میں نے اس بات کا نبی کریم ﷺ سے ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا وہ اس پر صدقہ ہے اور تمہارے لئے ہدیہ ہے تم اس سے کھالیا کرو۔

【226】

نبی کریم ﷺ کی آل کیلئے صدقہ کا استعمال ترک کرنے کا بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، حسین بن علی، زائدہ، سماک، عبدالرحمن بن قاسم، عائشہ، محمد بن مثنی، محمد بن جعفر، عبدالرحمن بن قاسم، حضرت عائشہ (رض) سے اس سند کے ساتھ بھی اسی طرح مروی ہے۔

【227】

نبی کریم ﷺ کی آل کیلئے صدقہ کا استعمال ترک کرنے کا بیان میں

ابوطاہر، ابن وہب، مالک بن انس، ربیعہ، قاسم، حضرت عائشہ (رض) نے نبی کریم ﷺ سے اسی طرح حدیث روایت کی ہے لیکن اس میں یہ نہیں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا اور ہمارے لے اس کی طرف سے ہدیہ ہے۔

【228】

نبی کریم ﷺ کی آل کیلئے صدقہ کا استعمال ترک کرنے کا بیان میں

زہیر بن حرب، اسماعیل بن ابراہیم، خالد، حفصہ، حضرت ام عطیہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے میرے پاس صدقہ سے ایک بکری بھیجی تو میں نے اس میں سے کچھ سیدہ عائشہ (رض) کی طرف بھیج دیا جب رسول اللہ ﷺ سیدہ عائشہ (رض) کے پاس آئے تو آپ ﷺ نے فرمایا کیا تمہارے پاس کوئی چیز ہے تو انہوں نے عرض کیا نہیں سوائے اس کے جو نسیبہ نے اس کی طرف بھیجی تھی تو آپ نے فرمایا وہ اپنی جگہ پہنچ چکی ہے۔

【229】

نبی کریم ﷺ کا ہدیہ قبول کرنے اور صدقہ رد کردینے کر بیان میں

عبدالرحمن بن سلام جمحی، ربیع بن مسلم، محمد بن زیاد، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کے پاس کوئی کھانا لایا جاتا تو آپ ﷺ اس سے پوچھتے پس اگر ہدیہ کہا جاتا تو آپ ﷺ اس سے کھالیتے اور اگر صدقہ کہا جاتا تو آپ ﷺ اس میں سے نہ کھاتے۔

【230】

جو صدقہ لائے اس کے لے دعا کرنے کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، ابوبکر بن ابی شیبہ، عمرو ناقد، اسحاق بن ابراہیم، یحییٰ بن وکیع، شعبہ، عمرو بن مرہ، عبداللہ بن اوفی، عبیداللہ بن معاذ، شعبہ عمرو بن مرہ، حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ (رض) سے روایت ہے کہ جب آپ ﷺ کے پاس کوئی قوم اپنا صدقہ لے کر آتی تو آپ فرماتے اے اللہ ان پر رحمت فرما میرے والد ابواوفی سے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا اے اللہ رحمت فرما ابی اوفیٰ کی اولاد پر۔

【231】

جو صدقہ لائے اس کے لے دعا کرنے کے بیان میں

ابن نمیر، عبداللہ بن ادریس، حضرت شعبہ (رض) نے بھی اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی ہے لیکن اس میں صَلِّ عَلَيْهِمْ کے الفاظ ہیں۔

【232】

زکوة و صول کرنے والے کو راضی رکھنے کا بیان جب تک وہ حرام مال طلب نہ کرے۔

یحییٰ بن یحیی، ہشیم، ابوبکر بن ابی شیبہ، حفص بن غیاث، ابوخالد احمر، محمد بن مثنی عبدالوہاب، ابوعدی، عبدالاعلی، داؤد، زہیر بن حرب، اسماعیل بن ابراہیم، شعبی، حضرت جریر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جب زکوٰۃ وصول کرنے والا تمہارے پاس آئے تو چاہئے کہ وہ تم سے اس حال میں لوٹے کہ وہ تم سے راضی ہو۔