17. حج کا بیان

【1】

اس بات کے بیان میں کہ حج یا عمرہ کا احرام باندھنے والے کے لئے کونسا لباس پہننا جائز ہے اور کونسا نا جائز ہے ؟

یحییٰ بن یحیی، مالک، نافع، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ احرام باندھنے والا کپڑوں میں سے کیا پہنے ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کرتا نہ پہنو اور نہ ہی عمامہ باندھو اور نہ ہی شلواریں اور نہ ہی موزے پہنو سوائے اس کے کہ جس کے پاس جوتی نہ ہو تو وہ موزے پہن لے اور ان کو اتنا کاٹ لے کہ ٹخنوں سے نیچے ہوجائیں اور ایسے کپڑے نہ پہنو کہ جس میں زعفران اور ورس ہو

【2】

اس بات کے بیان میں کہ حج یا عمرہ کا احرام باندھنے والے کے لئے کونسا لباس پہننا جائز ہے اور کونسا نا جائز ہے ؟

یحییٰ بن یحیی، عمرو ناقد، زہیر بن حرب، ابن عیینہ، یحیی، سفیان بن عیینہ، زہری، سالم، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے فرمایا کہ نبی ﷺ سے پوچھا گیا کہ احرام باندھنے والا کیا پہنے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا احرام والا نہ قمیض پہنے اور نہ عمامہ باندھے اور نہ ٹوپی اور نہ ہی شلوار اور نہ ہی کپڑا کہ جس کو ورس لگی ہو اور نہ ہی وہ کپڑا جسے زعفران لگی ہو اور نہ ہی موزے سوائے اس کے کہ اگر کوئی جوتے نہ پائے تو وہ موزے پہن لے مگر ٹخنوں کے نیچے سے کاٹ لے۔

【3】

اس بات کے بیان میں کہ حج یا عمرہ کا احرام باندھنے والے کے لئے کونسا لباس پہننا جائز ہے اور کونسا نا جائز ہے ؟

یحییٰ بن یحیی، مالک، عبداللہ بن دینار، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے احرام باندھنے والے کو زعفران یا ورس رنگے ہوئے کپڑے پہننے سے منع کیا اور فرمایا جو آدمی جو تیاں نہ پائے تو وہ موزے پہن لے اور ان موزوں کو ٹخنوں کے نیچے سے کاٹ لے۔

【4】

اس بات کے بیان میں کہ حج یا عمرہ کا احرام باندھنے والے کے لئے کونسا لباس پہننا جائز ہے اور کونسا نا جائز ہے ؟

یحییٰ بن یحیی، ابوربیع زہرانی، قتیبہ بن سعید، حماد، یحیی، حماد بن زید، عمرو، جابر بن زید، حضرب ابن عباس (رض) سے روایت ہے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو خطبہ دیتے ہوئے سنا آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ اس آدمی کے لئے شلوار ہے جو چادر نہ پائے اور جو آدمی جوتیاں نہ پائے وہ موزے پہن لے یعنی احرام والا آدمی

【5】

اس بات کے بیان میں کہ حج یا عمرہ کا احرام باندھنے والے کے لئے کونسا لباس پہننا جائز ہے اور کونسا نا جائز ہے ؟

محمد بن بشار، محمد یعنی ابن جعفر، ابوغسان رازی، بہز، شعبہ، عمرو بن دینار، حضرت عمرو بن دینار (رض) سے اس سند کے ساتھ روایت ہے کہ انہوں نے نبی ﷺ کو عرفات میں خطبہ دیتے ہوئے سنا اور پھر یہ حدیث ذکر فرمائی۔

【6】

اس بات کے بیان میں کہ حج یا عمرہ کا احرام باندھنے والے کے لئے کونسا لباس پہننا جائز ہے اور کونسا نا جائز ہے ؟

ابوبکر بن ابی شیبہ، سفیان بن عیینہ، یحییٰ بن یحیی، ہشیم، ابوکریب، وکیع، سفیان، علی بن خشرم، عیسیٰ بن یونس، ابن جریج، علی بن حجر، اسماعیل، ایوب، حضرت عمر بن دینار سے اس سند کے ساتھ روایت ہے اور ان راویوں میں سے کسی نے بھی عرفات کے خطبہ کا ذکر نہیں کیا سوائے اکیلے شعبہ کے۔

【7】

اس بات کے بیان میں کہ حج یا عمرہ کا احرام باندھنے والے کے لئے کونسا لباس پہننا جائز ہے اور کونسا نا جائز ہے ؟

احمد بن عبیداللہ بن یونس، زہیر، ابوزبیر، حضرت جابر (رض) سے روایت ہے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو آدمی جو تیاں نہ پائے تو وہ موزے پہن لے اور جو آدمی چادر نہ پائے تو وہ شلوار پہن لے۔

【8】

اس بات کے بیان میں کہ حج یا عمرہ کا احرام باندھنے والے کے لئے کونسا لباس پہننا جائز ہے اور کونسا نا جائز ہے ؟

شیبان بن فروخ، ہمام، عطاء بن ابی رباح، حضرت صفوان بن یعلی بن منبہ (رض) اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ جعرانہ کے مقام میں تھے کہ ایک آدمی آیا وہ خلوق لگا ہوا جبہ پہنے ہوئے تھا یا کچھ زردی کا نشان تھا اس نے عرض کیا اللہ کے رسول آپ ﷺ مجھے کیا حکم فرماتے ہیں کہ میں عمرہ میں کیا کروں ؟ اور نبی ﷺ پر اس وقت وحی نازل ہونا شروع ہوئی اور آپ کے چاروں طرف سے پردہ کیا گیا اور یعلی کہتے ہیں کہ میں چاہتا تھا کہ میں دیکھوں کہ نبی ﷺ پر وحی کس طرح نازل ہوتی ہے اور حضرت عمر (رض) نے بھی فرمایا کہ کیا تم چاہتے ہو کہ تم نبی ﷺ کی وحی نازل ہونے کی کیفیت دیکھو یہ فرما کر حضرت عمر (رض) نے کپڑے کا ایک کنارہ ہٹا دیا تو میں نے آپ ﷺ کی طرف دیکھا کہ آپ ﷺ خراٹے لے رہے ہیں راوی کہتا ہے کہ میر اگمان ہے کہ وہ آواز اونٹ کی طرح ہانپنے کی تھی جب وحی جاتی رہی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ عمرہ کے بارے میں پوچھنے والا کہاں ہے ؟ وہ حاضر ہوا تو آپ ﷺ نے اس سے فرمایا کہ خوشبو کے نشان دھو ڈالو اور جبہ اتار دو اور اپنے عمرہ کے اعمال کرو جو تم اپنے حج میں کرتے ہو۔

【9】

اس بات کے بیان میں کہ حج یا عمرہ کا احرام باندھنے والے کے لئے کونسا لباس پہننا جائز ہے اور کونسا نا جائز ہے ؟

ابن ابی عمر، سفیان، عمرو، عطاء، حضرت صفوان بن یعلی (رض) اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے فرمایا کہ ایک آدمی نبی ﷺ کی خدمت میں آیا اور آپ جعرانہ میں تھے اور میں بھی نبی ﷺ کے پاس تھا اور اس آدمی کے اوپر ایک جبہ تھا اور اس کو خوشبو لگی ہوئی تھی اس آدمی نے عرض کیا کہ میں نے عمرہ کا احرام باندھا ہے اور مجھ پر جبہ ہے اور اس پر خوشبو بھی لگی ہوئی ہے تو نبی ﷺ نے اس آدمی سے فرمایا کہ تو وہ کر جو تو اپنے حج میں کرتا تھا اس نے عرض کیا کہ میں کیا یہ کپڑے اتار دوں اور ان سے خوشبو دھو ڈالو ! تو نبی ﷺ نے اس سے فرمایا کہ جو تو اپنے حج میں کرتا تھا وہی اپنے عمر میں بھی کر۔

【10】

اس بات کے بیان میں کہ حج یا عمرہ کا احرام باندھنے والے کے لئے کونسا لباس پہننا جائز ہے اور کونسا نا جائز ہے ؟

زہیر بن حرب، اسماعیل بن ابراہیم، عبد بن حمید، محمد بن بکر، ابن جریج، علی بن خشرم، حضرت عیسیٰ بن جریج فرماتے ہیں کہ مجھے عطاء (رض) نے خبر دی کہ صفوان بن یعلی بن امیہ (رض) انہیں خبر دیتے ہیں کہ یعلی نے حضرت عمر (رض) سے کہا تھا کہ کاش کہ میں نبی ﷺ کو دیکھوں جس وقت کہ آپ ﷺ پر وحی کا نزول ہوتا ہے تو جب نبی ﷺ جعرانہ کے مقام میں تھے اور نبی ﷺ پر ایک کپڑے سے سایہ کردیا گیا تھا اور آپ ﷺ کے صحابہ (رض) میں سے بھی کچھ لوگ آپ ﷺ کے ساتھ تھے ان میں حضرت عمر (رض) بھی تھے کہ ایک آدمی آیا اور اس پر خوشبو سے آلودہ جبہ تھا تو اس نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! ایسے آدمی کے بارے میں آپ ﷺ کا کیا حکم ہے کہ جس نے عمرہ کا احرام باندھا ہو اور اس نے ایسا جبہ بھی پہنا ہوا ہو کہ خوشبو سے آلودہ ہو تو نبی ﷺ نے کچھ دیر اس کی طرف دیکھا پھر آپ ﷺ خاموش رہے تو پھر آپ ﷺ پر وحی آنا شروع ہوگئی حضرت عمر (رض) نے اپنے ہاتھ سے یعلی بن امیہ کی طرف اشارہ کیا یعلی فورا آگئے اور کپڑے میں سر ڈال کر دیکھا کہ نبی ﷺ کا چہرہ مبارک سرخ ہو رہا ہے اور آپ ﷺ زور زور سے سانس لے رہے ہیں کچھ دیر بعد جب وحی کی کیفیت جاتی رہی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ کہاں ہے جس نے مجھ سے عمرہ کے بارے میں پوچھا تھا ؟ تو اس آدمی کو تلاش کیا گیا اور وہ آپ ﷺ کے پاس آیا تو نبی ﷺ نے فرمایا کہ جو خوشبو تیرے ساتھ لگی ہے اسے تین مرتبہ دھو ڈال اور جبہ اتارے دے اور پھر اپنے عمرہ میں وہی اعمال کر جو تو اپنے حج میں کرتا ہے۔

【11】

اس بات کے بیان میں کہ حج یا عمرہ کا احرام باندھنے والے کے لئے کونسا لباس پہننا جائز ہے اور کونسا نا جائز ہے ؟

عقبہ بن مکرم، محمد بن رافع، ابن رافع، وہب بن جریر بن حازم، عطاء، حضرت صفوان بن یعلی بن امیہ (رض) اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی ﷺ کی خدمت میں آیا اور آپ جعرانہ کے مقام میں تھے اور اس آدمی نے عمرہ کا احرام باندھا ہوا تھا اور اس کی داڑھی اور اس کے سر کے بال ذرد آلود اور اس کے جسم پر ایک جبہ تھا اس نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! میں نے عمرہ کا احرام باندھا ہے اور جیسا کہ آپ ﷺ مجھے دیکھ رہے ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا اپنے جسم سے جبہ اتارے دے اور اپنے سر اور داڑھی کے بالوں سے زرد رنگ دھو ڈال اور جو تو اپنے حج میں کرتا تھا اپنے عمرہ میں بھی اسی طرح کر۔

【12】

اس بات کے بیان میں کہ حج یا عمرہ کا احرام باندھنے والے کے لئے کونسا لباس پہننا جائز ہے اور کونسا نا جائز ہے ؟

اسحاق بن منصور، ابوعلی، عبیداللہ بن عبدالمجید، رباح بن ابی معروف، عطاء، حضرت صفوان بن یعلی اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے کہ ایک آدمی خلوق خوشبو سے آلودہ جبہ پہنے ہوئے آیا اور اس نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ میں نے عمرہ کا احرام باندھا ہے تو میں کس طرح کروں ؟ آپ ﷺ خاموش رہے اور اسے کوئی جواب نہ دیا اور حضرت عمر کا معمول تھا کہ جب آپ ﷺ پر وحی نازل ہوتی تو خود ایک کپڑے سے آڑ کرلیتے تھے اور میں نے حضرت عمر سے پہلے ہی کہہ رکھا تھا کہ جب آپ ﷺ پر وحی نازل ہوتی ہے تو میں کپڑے میں سر ڈال کر دیکھنا چاہتا ہوں تو جب آپ پر وحی نازل ہونا شروع ہوئی تو معمول کے مطابق حضرت عمر (رض) نے آپ ﷺ کو کپڑے میں چھپالیا اور جب وحی کی کیفیت جاتی رہی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ عمرہ کے بارے میں مجھ سے پوچھنے والا کہاں ہے ؟ تو وہ آدمی کھڑا ہوگیا آپ ﷺ نے فرمایا کہ جبہ اتار دو اور تیرے ساتھ جو خوشبو کا نشان لگا ہے اسے دھو ڈال اور پھر اپنے عمرے میں وہی اعمال کر جو تو اپنے حج میں کرتا ہے۔

【13】

حج کی مواقیت حدود کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، خلف بن ہشام، ابوربیع، قتیبہ، حماد، یحیی، حمد بن زید، عمر بن دینار، طاؤس، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ منورہ والوں کے لئے ذوالحلیفہ میقات مقرر فرمایا اور شام والوں کے لئے جحفہ اور نجد والوں کے لئے قرن اور یمن والوں کے لئے یلملم کو میقات مقرر فرمایا آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ مواقیت ان لوگوں کے لئے بھی ہیں جو دوسرے علاقوں میں سے ان مواقیت کی حدود میں آئیں چاہے ان میں سے کسی کا ارادہ حج کا ہو یا عمرہ کا اور جو ان کے علاوہ اپنے علاقوں میں رہنے والوں میں سے ہوں تو وہ اپنی حدود سے احرام باندھیں گے یہاں تک کہ مکہ والے مکہ ہی سے احرام باندھیں گے۔

【14】

حج کی مواقیت حدود کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، یحییٰ بن ابی آدم، وہیب، عبداللہ بن طاو س، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ والوں کے لئے ذوالحلیفہ اور شام والوں کے لئے جحفہ اور نجد والوں کے لئے قرن المنازل اور یمن والوں کے لئے یلملم میقات مقرر فرمایا اور ان لوگوں کے لئے بھی ہیں جو حج اور عمر کے ارادے سے دوسرے علاقوں سے ان میقات والے علاقوں میں آئیں اور جو لوگ ان میقات والی جگہ کے اندر ہوں تو وہ اسی جگہ سے احرام باندھیں یہاں تک کہ مکہ والے مکہ مکرمہ ہی سے احرام باندھ لیں۔

【15】

حج کی مواقیت حدود کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، مالک، نافع، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مدینہ کے رہنے والے ذوالحلیفہ سے اور شام کے رہنے والے جحفہ سے اور نجد کے رہنے والے قرن سے احرام باندھیں حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ یمن کے رہنے والے یلملم کے مقام سے احرام باندھیں۔

【16】

حج کی مواقیت حدود کے بیان میں

حرملہ بن یحیی، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، حضرت سالم بن ابن عمر (رض) اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ مدینہ کے رہنے والوں کے لئے احرام باندھنے کی جگہ ذوالحلیفہ ہے اور شام کے رہنے والوں کے لئے احرام باندھنے کی جگہ مھیعہ یعنی جحفہ ہے اور نجد کے رہنے والوں کے لئے احرام باندھنے کی جگہ قرن ہے ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ لوگوں کا خیال ہے اور اس کو میں نے خود تو نہیں سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ یمن کے رہنے والوں کے لئے احرام باندھنے کی جگہ یلملم ہے۔

【17】

حج کی مواقیت حدود کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، یحییٰ بن ایوب، قتیبہ بن سعید، علی بن حجر، یحیی، اسماعیل بن جعفر، عبداللہ بن دینار، حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ کے رہنے والوں کو حکم فرمایا کہ ذوالحلیفہ سے احرام باندھیں اور شام کے رہنے والوں کو حکم فرمایا کہ جحفہ سے اور نجد والے قرن سے احرام باندھیں اور حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا کہ مجھے اس بات کی خبر دی گئی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یمن کے رہنے والے یلملم سے احرام باندھیں۔

【18】

حج کی مواقیت حدود کے بیان میں

اسحاق بن ابراہیم، روح بن عبادہ، ابن جریج، حضرت ابوزبیر (رض) خبر دیتے ہیں کہ حضرت جابربن عبداللہ (رض) سے احرام باندھنے کی جگہ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے سنا ہے پھر آخر تک فرمایا راوی ابوزبیر کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ حضرت جابر (رض) نے نبی ﷺ سے سنا ہے۔

【19】

حج کی مواقیت حدود کے بیان میں

زہیر بن حرب، ابن ابی عمر، سفیان، زہری، حضرت سالم (رض) اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مدینہ کے رہنے والے ذوالحلیفہ سے احرام باندھیں گے اور شام کے رہنے والے جحفہ سے احرام باندھیں گے اور نجد کے رہنے والے قرن سے احرام باندھیں گے حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا کہ مجھے ذکر کیا گیا ہے اور میں نے خود نہیں سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ یمن کے رہنے والے یلملم سے احرام باندھیں۔

【20】

حج کی مواقیت حدود کے بیان میں

محمد بن حاتم، عبد بن حمید، محمد بن بکر، ابن جریج، ابوزبیر، حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے حج یا عمرہ کا احرام باندھنے کی جگہوں یعنی میقات کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے نبی ﷺ سے سنا ہے آپ ﷺ نے فرمایا کہ مدینہ منورہ والوں کے لئے احرام باندھنے کی جگہ ذی الحلیفہ ہے اور دوسرا راستہ جحفہ ہے عراق والوں کے لئے احرام باندھنے کی جگہ ذات عرق ہے اور نجد والوں کے لئے احرام باندھنے کی جگہ قرن ہے جبکہ یمن کے رہنے والوں کے لئے احرام باندھنے کی جگہ یلملم ہے۔

【21】

تلیبہ پڑھنے اور اس کا طریقہ اور اس کے پڑھنے کے وقت کے بیان میں

یحییٰ بن یحییٰ تمیمی، مالک، نافع، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تلبیہ پڑھا (لَبَّيْکَ اللَّهُمَّ لَبَّيْکَ لَبَّيْکَ لَا شَرِيکَ لَکَ لَبَّيْکَ إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَکَ وَالْمُلْکَ لَا شَرِيکَ لَکَ ) میں حاضر ہوں اے اللہ ! میں حاضر ہوں، تیرا شریک نہیں ہے، میں حاضر ہوں، بیشک ساری تعریفیں اور نعمتیں اور بادشاہت تیرے ہی لئے ہے تیرا کوئی شریک نہیں اور حضرت ابن عمر (رض) تلبیہ کے ان کلمات میں یہ زیادہ کرتے تھے میں حاضر ہوں میں حاضر ہوں اور تیرے احکام کی فرمانبرداری کے لئے حاضر ہوں ساری بھلائیاں تیرے قبضہ وقدرت میں ہیں میں حاضر ہوں اور رغبت اور عمل تیری طرف ہے۔

【22】

تلیبہ پڑھنے اور اس کا طریقہ اور اس کے پڑھنے کے وقت کے بیان میں

محمد بن عباد، حاتم یعنی ابن اسماعیل، موسیٰ بن عقبہ، سالم بن عبداللہ بن عمر، نافع مولیٰ عبداللہ، حمزہ بن عبداللہ، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنی سواری پر سوار ہوئے اور جب وہ ذی الحلیفہ کی مسجد کے پاس کھڑی ہوگئی تو آپ ﷺ نے احرام باندھا اور فرمایا (تلبیہ کا ترجمہ) میں حاضر ہوں اے اللہ ! میں حاضر تیرا کوئی شریک نہیں ہے میں حاضر ہوں بیشک ساری تعریفیں اور نعمتیں اور بادشاہت تیرے ہی لئے ہیں تیرا کوئی شریک نہیں حضرت ابن عمر (رض) فرماتے تھے کہ یہ رسول اللہ ﷺ کا تلبیہ ہے حضرت نافع کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر (رض) تلبیہ کے ساتھ ان کلمات کا اضافہ کرتے تھے (لَبَّيْکَ لَبَّيْکَ وَسَعْدَيْکَ وَالْخَيْرُ بِيَدَيْکَ لَبَّيْکَ وَالرَّغْبَائُ إِلَيْکَ وَالْعَمَلُ )

【23】

تلیبہ پڑھنے اور اس کا طریقہ اور اس کے پڑھنے کے وقت کے بیان میں

محمد بن مثنی، یحییٰ یعنی ابن سعید، عبیداللہ، نافع، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس طرح تلبیہ سیکھا ہے پھر اسی طرح حدیث ذکر فرمائی۔

【24】

تلیبہ پڑھنے اور اس کا طریقہ اور اس کے پڑھنے کے وقت کے بیان میں

حرملہ بن یحیی، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، حضرت سالم بن عبداللہ بن عمر (رض) اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے خبر دیتے ہیں کہ میں نے سنا کہ رسول اللہ ﷺ اپنے بالوں کو جمائے ہوئے تلبیہ کہہ رہے تھے (لَبَّيْکَ اللَّهُمَّ لَبَّيْکَ لَبَّيْکَ لَا شَرِيکَ لَکَ لَبَّيْکَ إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَکَ وَالْمُلْکَ لَا شَرِيکَ لَکَ ) اور آپ ﷺ نے ان کلمات پر اضافہ نہیں فرمایا اور حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ذوالحلیفہ میں دو رکعتیں پڑھیں پھر جب اونٹنی آپ ﷺ کو لے کر ذوالحلیفہ کی مسجد کے پاس آکر سیدھی کھڑی ہوگئی تو آپ ﷺ نے تلبیہ کے یہ کلمات پڑھ کر احرام باندھا حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ان کلمات کے ساتھ تلبیہ پڑھتے تھے اور کہتے تھے (لَبَّيْکَ اللَّهُمَّ لَبَّيْکَ لَبَّيْکَ وَسَعْدَيْکَ وَالْخَيْرُ فِي يَدَيْکَ لَبَّيْکَ وَالرَّغْبَائُ إِلَيْکَ وَالْعَمَلُ )

【25】

تلیبہ پڑھنے اور اس کا طریقہ اور اس کے پڑھنے کے وقت کے بیان میں

عباس بن عبدالعظیم، نضر بن محمد یمامی، عکرمہ یعنی ابن عمار، ابوزمیل، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ مشرکین کہتے تھے لیبک لا شریک تو رسول اللہ ﷺ ارشاد فرماتے ہلاکت ہو تمہارے لئے اس سے آگے نہ کہو مگر مشرکین کہتے اے اللہ تو اس کا مالک ہے لیکن اس کے مملوک کا تو مالک نہیں ہے یہ کہتے اور بیت اللہ کا طواف کرتے۔

【26】

مدینہ والوں کے لئے ذی الحلیفہ کی مسجد سے احرام باندھنے کے حکم کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، مالک، موسیٰ بن عقبہ، حضرت سالم بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے والد سے سنا وہ فرماتے ہیں کہ یہ تمہارا بیداء ہے جس کے بارے میں تم رسول اللہ پر جھوٹ بولتے ہو رسول اللہ ﷺ نے تلبیہ نہیں پڑھا سوائے ذی الحلیفہ کی مسجد کے۔

【27】

مدینہ والوں کے لئے ذی الحلیفہ کی مسجد سے احرام باندھنے کے حکم کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، حاتم یعنی ابن اسماعیل، موسیٰ بن عقبہ، حضرت سالم سے روایت ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) سے جب کہا جاتا کہ احرام تو بیداء سے ہے تو آپ فرماتے کہ بیداء تو وہ ہے جس کے بارے میں تم رسول اللہ ﷺ پر جھوٹ بولتے ہو رسول اللہ ﷺ نے تلبیہ نہیں پڑھا سوائے اس درخت کے پاس جس جگہ آپ ﷺ کا اونٹ آپ ﷺ کو لے کر کھڑا ہوگیا۔

【28】

ایسے وقت احرام باند ھنے کی فضیلت کے بیان میں کہ جس وقت سواری مکہ مکرمہ کی طرف متوجہ ہو کر کھڑی ہوجائے۔

یحییٰ بن یحیی، مالک، سعید بن ابی سعید مقبری، حضرت عبید بن جریج (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت ابن عمر (رض) سے کہا اے ابوعبدالرحمن ! میں نے آپ کو چار ایسے کام کرتے ہوئے دیکھا کہ آپ کے ساتھیوں میں سے کسی اور کو ایسے کرتے ہوئے نہیں دیکھا حضرت عبداللہ نے فرمایا اے ابن جریج ! وہ کیا ہیں ؟ ابن جریج نے کہا کہ ایک یہ کہ میں نے آپ کو کعبہ اللہ کے دو رکن یمانیوں کے سوا اور کسی کو نے کو چھوتے ہوئے نہیں دیکھا دوسرا یہ کہ میں نے آپ کو بغیر بالوں والے چمڑے کی جوتیاں پہنے دیکھا اور تیسرا یہ کہ میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ زرد رنگ سے رنگتے ہیں اور چوتھا یہ کہ میں نے آپ کو دیکھا کہ جب مکہ میں تھے تو آپ نے آٹھ ذی الحجہ کو احرام باندھا جبکہ مکہ میں رہنے والے لوگ چاند دیکھتے ہی احرام باندھتے ہیں حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا کہ دو رکن یمانیوں کے چھونے کی وجہ یہ ہے کہ میں نے نبی ﷺ کو دو رکن یمانیوں کے علاوہ اور کسی رکن کو چھوتے ہوئے نہیں دیکھا اور بالوں کے بغیر چمڑے کی جوتی کی وجہ یہ ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ ایسے چمڑے کی جوتی پہنے ہوئے تھے کہ جس میں بال نہیں تھے اور اسی چمڑے میں وضو کرتے اس لئے میں پسند کرتا ہوں کہ ایسی جوتی پہنوں اور زرد رنگ کی وجہ یہ ہے کہ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ زرد رنگ کے ساتھ رنگا کرتے تھے اسی لئے میں بھی زرد رنگ کے رنگنے کو پسند کرتا ہوں اور باقی احرام باندھنے کا جو مسئلہ ہے وہ یہ ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو نہیں دیکھا کہ آپ احرام باندھتے ہوں یہاں تک کہ آپ کی سواری آپ کو لے کر ٹھہر جاتی تھی

【29】

ایسے وقت احرام باند ھنے کی فضیلت کے بیان میں کہ جس وقت سواری مکہ مکرمہ کی طرف متوجہ ہو کر کھڑی ہوجائے۔

ہارون بن سعید ایلی، ابن وہب، ابوصخر، ابن قسیط، حضرت عبید بن جریج (رض) سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر بن خطاب (رض) کے ساتھ بارہ مرتبہ حج اور عمرہ کیا تو میں نے عرض کیا اے ابوعبدالرحمن ! میں نے آپ سے چار خصلتیں دیکھی ہیں پھر آگے اسی طرح حدیث بیان کی سوائے ہلال کے واقعہ کے۔

【30】

ایسے وقت احرام باند ھنے کی فضیلت کے بیان میں کہ جس وقت سواری مکہ مکرمہ کی طرف متوجہ ہو کر کھڑی ہوجائے۔

ابوبکر بن ابی شیبہ، علی بن مسہر، عبیداللہ، نافع، حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے جب رکاب میں اپنا پاؤں رکھا اور سواری آپ ﷺ کو لے کر ذی الحلیفہ میں کھڑی ہوگئی تو آپ ﷺ نے احرام باندھا تلبیہ پڑھا

【31】

ایسے وقت احرام باند ھنے کی فضیلت کے بیان میں کہ جس وقت سواری مکہ مکرمہ کی طرف متوجہ ہو کر کھڑی ہوجائے۔

ہارون بن عبداللہ، حجاج بن محمد، ابن جریج، صالح بن کیسان، نافع، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے خبر دی کہ نبی ﷺ نے احرام باندھا جس وقت اونٹنی آپ ﷺ کو لے کر سیدھی کھڑی ہوگئی۔

【32】

ایسے وقت احرام باند ھنے کی فضیلت کے بیان میں کہ جس وقت سواری مکہ مکرمہ کی طرف متوجہ ہو کر کھڑی ہوجائے۔

حرملہ بن یحیی، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، سالم بن عبداللہ، حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ذی الحلیفہ میں اپنی سواری پر سوار دیکھا پھر جس وقت وہ سواری آپ ﷺ کو لے کر کھڑی ہوگئی تو آپ ﷺ نے احرام باندھا

【33】

ذی الحلیفہ کی مسجد میں نماز پڑھنے کے بیان میں

حرملہ بن یحیی، احمد بن عیسی، احمد، حرملہ، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، عبیداللہ بن عبداللہ بن عمر، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ذی الحلیفہ میں رات گزاری اور مناسک حج کی ابتداء یہیں سے کی اور اسی مسجد میں آپ ﷺ نے نماز پڑھی۔

【34】

احرام سے پہلے بدن میں خوشبو لگانے اور مشک کے استعمال کرنے اور اس بات کے بیان میں کہ خوشبو کا اثر باقی رہنے میں کوئی حرج نہیں

محمد بن عباد، سفیان، زہری، عروہ، سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے جس وقت احرام باندھا تو میں نے خوشبو لگائی اور بیت اللہ کے طواف سے پہلے جب آپ ﷺ حلال ہوئے احرام کھولا تو اس وقت بھی یہی خوشبو لگائی۔

【35】

احرام سے پہلے بدن میں خوشبو لگانے اور مشک کے استعمال کرنے اور اس بات کے بیان میں کہ خوشبو کا اثر باقی رہنے میں کوئی حرج نہیں

عبداللہ بن مسلمہ بن قعنب، افلح بن حمید، قاسم بن محمد، سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) نبی ﷺ کی زوجہ مطہرہ سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے جس وقت احرام باندھا تو میں نے احرام کی وجہ سے اپنے ہاتھ سے آپ ﷺ کو خوشبو لگائی اور جس وقت آپ ﷺ نے بیت اللہ کے طواف سے پہلے احرام کھولا تو اس وقت بھی خوشبو لگائی۔

【36】

احرام سے پہلے بدن میں خوشبو لگانے اور مشک کے استعمال کرنے اور اس بات کے بیان میں کہ خوشبو کا اثر باقی رہنے میں کوئی حرج نہیں

یحییٰ بن یحیی، مالک، عبدالرحمن بن قاسم، سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کو ان کے احرام کی وجہ سے اس سے پہلے کہ آپ ﷺ احرام باندھیں خوشبو لگایا کرتی تھی اور اس وقت جب آپ ﷺ طواف سے پہلے حلال ہوتے احرام کھولتے۔

【37】

احرام سے پہلے بدن میں خوشبو لگانے اور مشک کے استعمال کرنے اور اس بات کے بیان میں کہ خوشبو کا اثر باقی رہنے میں کوئی حرج نہیں

ابن نمیر، عبیداللہ بن عمر، قاسم، سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کو احرام کھولتے اور احرام باندھتے وقت خوشبو لگاتی تھی۔

【38】

احرام سے پہلے بدن میں خوشبو لگانے اور مشک کے استعمال کرنے اور اس بات کے بیان میں کہ خوشبو کا اثر باقی رہنے میں کوئی حرج نہیں

محمد بن حاتم، عبد بن حمید، ابن حاتم، محمد بن بکر، ابن جریج، عمر بن عبداللہ بن عروہ، قاسم، سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو حجہ الوداع کے موقع پر احرام کھولتے اور احرام باندھتے وقت میں نے اپنے ہاتھوں سے زریرہ خوشبو لگائی۔

【39】

احرام سے پہلے بدن میں خوشبو لگانے اور مشک کے استعمال کرنے اور اس بات کے بیان میں کہ خوشبو کا اثر باقی رہنے میں کوئی حرج نہیں

ابوبکر بن ابی شیبہ، زہیر بن حرب، ابن عیینہ، زہیر، سفیان، حضرت عثمان بن عروہ (رض) اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ (رض) سے پوچھا کہ آپ نے رسول اللہ ﷺ کو آپ ﷺ کے احرام کے وقت کونسی خوشبو لگائی تھی ؟ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا سب سے زیادہ پاکیزہ اور اچھی خوشبو۔

【40】

احرام سے پہلے بدن میں خوشبو لگانے اور مشک کے استعمال کرنے اور اس بات کے بیان میں کہ خوشبو کا اثر باقی رہنے میں کوئی حرج نہیں

ابوکریب، ابواسامہ، ہشام، عثمان بن عروہ، سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کو اس سے قبل کہ آپ ﷺ احرام باندھتے آپ کو جس قدر اچھی خوشبو لگا سکتی میں آپ کو خوشبو لگاتی پھر آپ ﷺ احرام باندھتے۔

【41】

احرام سے پہلے بدن میں خوشبو لگانے اور مشک کے استعمال کرنے اور اس بات کے بیان میں کہ خوشبو کا اثر باقی رہنے میں کوئی حرج نہیں

محمد بن رافع، ابن ابی فدیک، ضحاک، ابی رجال، سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو جس وقت کہ آپ ﷺ احرام باندھنے لگتے اور احرام کھولنے لگتے خوشبو لگاتی اور یہ کہ طواف افاضہ سے قبل جو خوشبو پاتی وہ آپ ﷺ کو لگاتی۔

【42】

احرام سے پہلے بدن میں خوشبو لگانے اور مشک کے استعمال کرنے اور اس بات کے بیان میں کہ خوشبو کا اثر باقی رہنے میں کوئی حرج نہیں

یحییٰ بن یحیی، سعید بن منصور، ابوربیع، خلف بن ہشام، قتیبہ بن سعید، یحیی، حماد بن زید، منصور، ابراہیم، اسود، سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ گویا کہ میں دیکھ رہی ہوں کہ رسول اللہ ﷺ کی مانگ میں خوشبو مہک رہی ہے اس حال میں کہ آپ ﷺ احرام باندھے ہوئے ہیں خلف راوی نے یہ نہیں کہا کہ آپ ﷺ احرام کی حالت میں تھے لیکن انہوں نے کہا کہ یہ خوشبو احرام کی وجہ سے تھی۔

【43】

احرام سے پہلے بدن میں خوشبو لگانے اور مشک کے استعمال کرنے اور اس بات کے بیان میں کہ خوشبو کا اثر باقی رہنے میں کوئی حرج نہیں

یحییٰ بن یحیی، ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب، یحیی، ابومعاویہ، اعمش، ابراہیم، اسود، سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ گویا کہ میں آپ ﷺ کو دیکھ رہی ہوں کہ رسول اللہ ﷺ کی مانگ میں خوشبو مہک رہی ہے اس حال میں کہ آپ ﷺ احرام باندھ رہے ہیں۔

【44】

احرام سے پہلے بدن میں خوشبو لگانے اور مشک کے استعمال کرنے اور اس بات کے بیان میں کہ خوشبو کا اثر باقی رہنے میں کوئی حرج نہیں

ابوبکر بن ابی شیبہ، زہیر بن حرب، ابوسعید اشج، وکیع، اعمش، ابی ضحی، مسروق، سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ گویا کہ میں آپ ﷺ کی طرف دیکھ رہی ہوں کہ رسول اللہ ﷺ کی مانگ میں خوشبو مہک رہی تھی اس حال میں کہ آپ ﷺ تلبیہ کہہ رہے تھے۔

【45】

احرام سے پہلے بدن میں خوشبو لگانے اور مشک کے استعمال کرنے اور اس بات کے بیان میں کہ خوشبو کا اثر باقی رہنے میں کوئی حرج نہیں

احمد بن یونس، زہیر، اعمش، ابراہیم، اسود، مسلم، مسروق، سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ گویا کہ میں دیکھ رہی ہوں آگے حدیث اسی طرح ہے

【46】

احرام سے پہلے بدن میں خوشبو لگانے اور مشک کے استعمال کرنے اور اس بات کے بیان میں کہ خوشبو کا اثر باقی رہنے میں کوئی حرج نہیں

محمد بن مثنی، ابن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، حکم، ابراہیم، اسود، سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت ہے آپ فرماتی ہیں کہ گویا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی مانگ میں خوشبو مہکتی ہوئی دیکھ رہی ہوں اس حال میں کہ آپ ﷺ احرام میں ہیں۔

【47】

احرام سے پہلے بدن میں خوشبو لگانے اور مشک کے استعمال کرنے اور اس بات کے بیان میں کہ خوشبو کا اثر باقی رہنے میں کوئی حرج نہیں

ابن نمیر، مالک بن مغول، عبدالرحمن بن اسود، سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کی مانگ میں خوشبو مہکتی ہوئی دیکھتی تھی اس حال میں کہ آپ ﷺ احرام میں تھے۔

【48】

احرام سے پہلے بدن میں خوشبو لگانے اور مشک کے استعمال کرنے اور اس بات کے بیان میں کہ خوشبو کا اثر باقی رہنے میں کوئی حرج نہیں

محمد بن حاتم، اسحاق بن منصور، سلولی، ابراہیم بن یوسف، ابن اسحاق بن ابی اسحاق سبیعی، ابی اسحاق، اسود، سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کا احرام باندھنے کا ارادہ ہوتا تھا تو میں اچھی سے اچھی خوشبو جو میں پاتی آپ ﷺ کو لگاتی پھر میں آپ ﷺ کے سر اور داڑھی مبارک میں تیل چمکتا ہوا دیکھتی۔

【49】

احرام سے پہلے بدن میں خوشبو لگانے اور مشک کے استعمال کرنے اور اس بات کے بیان میں کہ خوشبو کا اثر باقی رہنے میں کوئی حرج نہیں

قتیبہ بن سعید، عبدالواحد، حسن بن عبیداللہ، ابراہیم، اسود، سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں گویا کہ میں دیکھ رہی ہوں کہ رسول اللہ ﷺ کی مانگ میں مشک کی خوشبو مہک رہی ہے اس حال میں کہ آپ ﷺ احرام میں ہیں۔

【50】

احرام سے پہلے بدن میں خوشبو لگانے اور مشک کے استعمال کرنے اور اس بات کے بیان میں کہ خوشبو کا اثر باقی رہنے میں کوئی حرج نہیں

اسحاق بن ابراہیم، ضحاک بن مخلد، ابوعاصم، سفیان، حضرت حسن بن عبداللہ سے اس سند کے ساتھ اسی طرح روایت ہے۔

【51】

احرام سے پہلے بدن میں خوشبو لگانے اور مشک کے استعمال کرنے اور اس بات کے بیان میں کہ خوشبو کا اثر باقی رہنے میں کوئی حرج نہیں

احمد بن منیح، یعقوب دورقی، ہشیم، منصور، عبدالرحمن بن قاسم، سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ میں نبی ﷺ کو احرام باندھنے سے پہلے اور قربانی والے دن اور بیت اللہ کا طواف کرنے سے پہلے وہ خوشبو لگاتی تھی کہ جس میں مشک تھی۔

【52】

احرام سے پہلے بدن میں خوشبو لگانے اور مشک کے استعمال کرنے اور اس بات کے بیان میں کہ خوشبو کا اثر باقی رہنے میں کوئی حرج نہیں

سعید بن منصور، ابوکامل، ابی عوانہ، سعید، ابوعوانہ، حضرت ابراہیم بن محمد بن منتشر (رض) اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر (رض) سے ایک ایسے آدمی کے بارے میں پوچھا کہ وہ خوشبو لگاتا ہے پھر صبح کو احرام باندھتا حضرت عبداللہ (رض) نے فرمایا کہ میں اسے پسند نہیں کرتا کہ میں صبح کو اس حال میں احرام باندھوں کہ میرے جسم سے خوشبو پھوٹ رہی ہو اگر میں اپنے جسم پر تارکول کے دو قطرے مل لوں تو میں اس کو پسند کرتا ہوں ابراہیم بن محمد کہتے ہیں کہ میں حضرت عائشہ (رض) کی خدمت میں گیا اور میں نے ان کو خبر دی کہ حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں اس کو پسند نہیں کرتا کہ میں صبح کو احرام باندھوں اس حال میں کہ میرے جسم سے خوشبو مہک رہی ہو اگر میں اپنے جسم پر تارکول کے دو قطرے لگالوں تو یہ میرے لئے زیادہ پسندیدہ ہے تو حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو خوشبو لگائی پھر آپ اپنی ازواج مطہرات (رض) پر تشریف لاتے پھر صبح کو آپ ﷺ احرام باندھتے تو خوشبو پھوٹ رہی ہوتی

【53】

احرام سے پہلے بدن میں خوشبو لگانے اور مشک کے استعمال کرنے اور اس بات کے بیان میں کہ خوشبو کا اثر باقی رہنے میں کوئی حرج نہیں

یحییٰ بن حبیب حارثی، خالد یعنی ابن حارث، شعبہ، ابراہیم بن محمد بن منتشر، سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کو خوشبو لگاتی تھی پھر آپ ﷺ اپنی ازواج مطہرات (رض) پر تشریف لاتے پھر صبح کو آپ ﷺ احرام باندھتے تو خوشبو پھوٹ رہی ہوتی۔

【54】

احرام سے پہلے بدن میں خوشبو لگانے اور مشک کے استعمال کرنے اور اس بات کے بیان میں کہ خوشبو کا اثر باقی رہنے میں کوئی حرج نہیں

ابوکریب، وکیع، مسعر، سفیان، حضرت ابراہیم بن محمد بن منتشر اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں نے سنا کہ ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ تارکول کے دو قطروں کو مل کر صبح کروں اس بات سے کہ میں صبح کو احرام باندھوں اور میرے جسم سے خوشبو پھوٹ رہی ہو حضرت ابراہیم بن محمد کہتے ہیں کہ میں حضرت عائشہ (رض) کی خدمت میں گیا اور انہیں حضرت ابن عمر کے اس قول کی خبر دی تو حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو خوشبو لگائی پھر آپ ﷺ اپنی ازواج مطہرات (رض) میں مشغول ہوئے پھر آپ ﷺ نے صبح کو احرام باندھا۔

【55】

حج یا عمرہ یا ان دونوں کا احرام باندھنے والے پر خشکی کا شکار کرنے کی حرمت کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، مالک، ابن شہاب، عبیداللہ بن عبداللہ، ابن عباس، حضرت صعب بن جثامہ (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو ابوآ یا ودان[ ودان میں & د & مشدد ہے ] کے مقام پر ایک جنگلی گدھا ہدیہ پیش کیا تو رسول اللہ ﷺ نے اس گدھے کو اسی پر واپس لوٹا دیا حضرت صعب کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ نے مجھے دیکھا کہ میرے چہرے میں کچھ غم سا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے تجھے یہ گدھا واپس نہیں کیا سوائے اس کے کہ ہم احرام کی حالت میں ہیں۔

【56】

حج یا عمرہ یا ان دونوں کا احرام باندھنے والے پر خشکی کا شکار کرنے کی حرمت کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، محمد بن رمح، قتیبہ، لیث بن سعد، عبد بن حمید، عبدالرزاق، معمر، حسن حلوائی، یعقوب، صالح اس سند کے ساتھ حضرت زہری سے روایت ہے کہ حضرت صعب بن جثامہ نے خبر دی کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایک جنگلی گدھا بطور ہدیہ پیش کیا آگے حدیث اسی طرح ہے جیسے پچھلی گزری۔

【57】

حج یا عمرہ یا ان دونوں کا احرام باندھنے والے پر خشکی کا شکار کرنے کی حرمت کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، ابوبکر بن ابی شیبہ، عمرو ناقد، سفیان بن عیینہ، حضرت زہری سے اس سند کے ساتھ روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے آپ ﷺ کو جنگلی گدھے کا گوشت ہدیہ کے طور پر پیش کیا۔

【58】

حج یا عمرہ یا ان دونوں کا احرام باندھنے والے پر خشکی کا شکار کرنے کی حرمت کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب، ابومعاویہ، اعمش، حبیب بن ابی ثابت، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ حضرت صعب بن جثامہ نے نبی ﷺ کو جنگلی گدھے کا ہدیہ پیش کیا اس حال میں کہ آپ ﷺ احرام میں تھے تو آپ ﷺ نے اس کو انہی پر واپس کردیا اور فرمایا کہ اگر احرام میں نہ ہوتے تو ہم تجھ سے اس کو قبول کرلیتے۔

【59】

حج یا عمرہ یا ان دونوں کا احرام باندھنے والے پر خشکی کا شکار کرنے کی حرمت کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، معتمربن سلیمان، منصور، حکم، محمد بن مثنی، ابن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، حکم، عبیداللہ بن معاذ، حبیب، سعید بن جبیر، ابن عباس، حضرت حکم (رض) سے روایت ہے کہ حضرت صعب بن جثامہ نے نبی کریم ﷺ کو جنگلی گدھے کا ایک پاؤں ہدیہ کیا اور شعبہ کی روایت میں حضرت حکم سے ہے کہ انہوں نے آپ ﷺ کو جنگلی گدھے کا پچھلا دھڑ جس سے خون کے قطرے ٹپک رہے تھے ہدیہ دیا اور شعبہ کی ایک روایت پر حضرت حبیب سے ہے کہ انہوں نے نبی ﷺ کو جنگلی گدھے کا ایک حصہ ہدیہ دیا تو آپ ﷺ نے اسے واپس فرما دیا۔

【60】

حج یا عمرہ یا ان دونوں کا احرام باندھنے والے پر خشکی کا شکار کرنے کی حرمت کے بیان میں

زہیر بن حرب، یحییٰ بن سعید، ابن جریج، حسن بن مسلم، طاؤس، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے فرمایا کہ حضرت زید بن ارقم جب آئے تو ان سے حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ تو نے مجھے شکار کے اس گوشت کے بارے میں کیا خبر دی تھی کہ جو نبی ﷺ کو احرام کی حالت میں ہدیہ کیا گیا تھا۔ انہوں نے فرمایا کہ آپ کو شکار کے گوشت کا ایک عضو ہدیہ کیا گیا تو آپ ﷺ نے اسے واپس کردیا اور فرمایا کہ ہم اسے نہیں کھاتے کیونکہ ہم احرام میں ہیں۔

【61】

حج یا عمرہ یا ان دونوں کا احرام باندھنے والے پر خشکی کا شکار کرنے کی حرمت کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، سفیان، صالح بن کیسان، ابن ابی عمر، سفیان، صالح بن کیسان، محمد مولیٰ ابی قتادہ، حضرت ابوقتادہ (رض) فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے یہاں تک کہ جب ہم قاحہ کے مقام پر پہنچے تو ہم میں سے کچھ لوگ احرام میں تھے اور کچھ بغیر احرام کے تو اچانک میں نے دیکھا کہ میرے ساتھی کوئی چیز دیکھ رہے ہیں میں نے دیکھا کہ وہ ایک جنگلی گدھا تھا میں نے اپنے گھوڑے پر زین کس لی اور میں نے اپنا نیزہ لیا پھر میں سوار ہوگیا مجھ سے میرا چابک گرگیا تو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ مجھے میرا چابک اٹھا دو اور وہ ساتھی حالت احرام میں تھے تو وہ کہنے لگے اللہ کی قسم ! اس چیز پر ہم تمہاری مدد نہیں کرسکتے پھر میں اترا اور میں نے چابک رکھا اور پھر سوار ہوگیا تو میں نے اس جنگلی گدھے کو جا کر پکڑ لیا اور وہ ایک ٹیلے کے پیچھے تھا میں نے اسے نیزہ مارا اور اس کی کونچیں کاٹ دیں اور اسے اپنے ساتھیوں کے پاس لے آیا ان میں سے کچھ ساتھیوں نے کہا کہ تم اسے نہ کھاؤ نبی ﷺ ہمارے آگے تھے میں نے اپنے گھوڑے کو دوڑا کر آپ ﷺ کو پا لیا اور آپ ﷺ سے پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ حلال ہے تم اسے کھالو۔

【62】

حج یا عمرہ یا ان دونوں کا احرام باندھنے والے پر خشکی کا شکار کرنے کی حرمت کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، مالک، قتیبہ، مالک، ابی نضر، نافع مولیٰ ابی قتادہ، حضرت ابوقتادہ (رض) سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے یہاں تک کہ جب آپ ﷺ مکہ کے کسی راستے پر تھے تو حضرت ابوقتادہ (رض) اپنے احرام والے کچھ ساتھیوں کے ساتھ پیچھے رہ گئے اور خود ابوقتادہ احرام کے بغیر تھے تو حضرت ابوقتادہ (رض) نے ایک جنگلی گدھا دیکھا وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اور اپنے ساتھیوں سے سوال کیا کہ وہ ان کو ان کا چابک کوڑا اٹھا دیں انہوں نے انکار کردیا پھر حضرت ابوقتادہ (رض) نے ان سے کوڑا مانگا تو انہوں نے اس سے بھی انکار کردیا تو پھر انہوں نے خود نیزہ پکڑا اور پھر اپنے گھوڑے کو دوڑا کر اس گدھے کو پکڑ کر قتل کردیا نبی ﷺ کے کچھ صحابہ (رض) نے اس میں سے کھایا اور کچھ نے انکار کردیا پھر وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور انہوں نے اس بارے میں آپ ﷺ سے پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ ایک کھانا ہے جسے اللہ نے تمہیں کھلایا ہے۔

【63】

حج یا عمرہ یا ان دونوں کا احرام باندھنے والے پر خشکی کا شکار کرنے کی حرمت کے بیان میں

قتیبہ، مالک، زید بن اسلم، عطاء بن یسار، حضرت ابوقتادہ (رض) سے ابوالنضر کی حدیث کی طرح روایت ہے سوائے اس کے کہ زید بن اسلم کی حدیث مبارکہ میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کیا تمہارے پاس اس کے گوشت میں سے کچھ ہے ؟

【64】

حج یا عمرہ یا ان دونوں کا احرام باندھنے والے پر خشکی کا شکار کرنے کی حرمت کے بیان میں

صالح بن میسمار سلمی، معاذ بن ہشام، یحییٰ بن ابی کثیر، حضرت عبداللہ بن قتادہ (رض) فرماتے ہیں کہ میرے باپ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حدیبیہ کو چلے آپ ﷺ کے صحابہ کرام (رض) احرام کی حالت میں تھے اور وہ (میرے باپ) احرام کی حالت میں نہیں تھے اور رسول اللہ ﷺ سے بیان کیا گیا کہ دشمن غیقہ میں ہے تو رسول اللہ ﷺ چلے حضرت ابوقتادہ کہتے ہیں کہ میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ تھا اور وہ میری طرف دیکھ کر ہنس رہے تھے تو میں نے ایک جنگلی گدھے کو دیکھا اور میں نے اس پر حملہ کر کے اور اس پر نیزہ مار کر اسے روک لیا پھر میں نے اپنے ساتھیوں سے مدد مانگی تو انہوں نے میری مدد کرنے سے انکار کردیا پھر ہم نے اس کا گوشت کھایا اور ہمیں ڈر لگا کہ ہم رسول اللہ ﷺ سے کہیں علیحدہ نہ ہوجائیں میں رسول اللہ ﷺ کی تلاش میں نکلا کبھی گھوڑے کو بھگاتا اور کبھی آہستہ چلاتا آدھی رات کو بن غفار کے ایک آدمی سے ملاقات ہوئی تو میں نے اس سے پوچھا کہ تجھے رسول اللہ ﷺ کہاں ملے تھے ؟ اس نے کہا میں نے آپ کو تعہن کے مقام میں چھوڑا ہے اور آپ سقیا کے مقام میں آرام فرمائیں گے تو میں آپ ﷺ سے اسی جگہ جا کر ملا اور میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! آپ ﷺ کے صحابہ آپ ﷺ کو سلام عرض کرتے ہیں اور انہیں یہ ڈر ہے کہ کہیں وہ آپ ﷺ سے علیحدہ نہ ہوجائیں آپ ﷺ ان کا انتظار فرمائیں تو آپ ﷺ نے ان کا انتظار فرمایا پھر میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! میں نے شکار کیا ہے اور اس سے بچا ہوا میرے پاس کچھ گوشت ہے تو نبی ﷺ نے قوم کے لوگوں سے فرمایا کہ تم کھاؤ حالانکہ وہ سب احرام کی حالت میں تھے۔

【65】

حج یا عمرہ یا ان دونوں کا احرام باندھنے والے پر خشکی کا شکار کرنے کی حرمت کے بیان میں

ابوکامل حجدری، ابوعوانہ، عثمان بن عبداللہ بن موہب، حضرت عبداللہ بن ابی قتادہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ حج کرنے کے لئے نکلے اور ہم بھی آپ ﷺ کے ساتھ نکلے راوی کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے اپنے صحابہ (رض) میں سے کچھ کو ایک طرف پھیر دیا حضرت ابوقتادہ بھی انہیں میں تھے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم سمندر کے ساحل پر چلو یہاں تک کہ تم مجھ سے آکر ملنا راوی کہتے ہیں کہ سب لوگ سمندر کے ساحل پر چلے تو جب وہ رسول اللہ ﷺ کی طرف پھرے تو انہوں نے احرام باندھ لیا سوائے حضرت ابوقتادہ کے کہ انہوں نے احرام نہیں باندھا اسی دوران وہ چل رہے تھے کہ انہوں نے جنگلی گدھے دیکھے حضرت ابوقتادہ (رض) نے ان پر حملہ کر کے ایک گدھی کی کونچیں کاٹ دیں پھر وہ سب اترے اور انہوں نے اس گوشت سے کھایا حضرت ابوقتادہ (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ ہم نے گوشت تو کھالیا ہے حالانکہ ہم تو احرام میں ہیں حضرت ابوقتادہ کہتے ہیں کہ انہوں نے بچا ہوا گوشت ساتھ رکھ لیا اور جب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئے تو انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! ہم احرام کی حالت میں تھے اور ابوقتادہ احرام میں نہیں تھے ہم نے جنگلی گدھے دیکھے تو ابوقتادہ (رض) نے ان پر حملہ کردیا اور ان میں سے ایک گدھی کی کونچیں کاٹ دیں پھر ہم اترے اور ہم نے اس گوشت سے کھایا پھر ہم نے سوچا کہ ہم تو شکار کا گوشت کھا بیٹھے ہیں حالانکہ ہم تو احرام میں ہیں اور شکار کا بچا ہوا گوشت ہم نے ساتھ اٹھا لیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کیا تم میں سے کسی کا شکار کا ارادہ تھا یا شکار کی طرف کسی نے کسی چیز کے ساتھ اشارہ کیا ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا کہ نہیں آپ ﷺ نے فرمایا کہ شکار سے بچا ہوا گوشت بھی تم کھالو۔

【66】

حج یا عمرہ یا ان دونوں کا احرام باندھنے والے پر خشکی کا شکار کرنے کی حرمت کے بیان میں

محمد بن مثنی، محمد بن جعفر، شعبہ، قاسم بن زکریا، عبیداللہ، حضرت شیبان کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کیا تم میں سے کسی نے یہ حکم دیا تھا کہ ابوقتادہ (رض) جنگلی گدھوں پر حملہ کریں یا اس کی طرف کسی نے اشارہ کیا ؟ اور شعبہ کی روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا کہ کیا تم نے اشارہ کیا تھا یا کیا تم نے شکار میں مدد کی تھی یا تم نے شکار کیا تھا شعبہ کہتے ہیں کہ میں نہیں جانتا کہ آپ ﷺ نے أَعَنْتُمْ فرمایا یا أَصَدْتُمْ فرمایا۔

【67】

حج یا عمرہ یا ان دونوں کا احرام باندھنے والے پر خشکی کا شکار کرنے کی حرمت کے بیان میں

عبداللہ بن عبدالرحمن دارمی، یحییٰ بن حسان، معاویہ، ابن سلام، یحیی، حضرت عبداللہ بن ابی قتادہ (رض) فرماتے ہیں کہ ان کے باپ خبر دیتے ہیں کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوہ حدیبیہ میں تھے وہ کہتے ہیں کہ میرے علاوہ سب نے عمرہ کا احرام باندھ لیا وہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک جنگلی گدھے کا شکار کیا اور اسے اپنے احرام والے ساتھیوں کو کھلایا پھر میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آیا اور میں نے آپ ﷺ کو اس کی خبر دی کہ ہمارے پاس اس کا گوشت بچ گیا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا تم اسے کھاؤ حالانکہ وہ سارے احرام کی حالت میں تھے۔

【68】

حج یا عمرہ یا ان دونوں کا احرام باندھنے والے پر خشکی کا شکار کرنے کی حرمت کے بیان میں

احمد بن عبدہ ضبی، فضیل بن سلیمان نمیری، ابوحازم، حضرت عبداللہ بن ابی قتادہ (رض) اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ احرام کی حالت میں نکلے اور حضرت ابوقتادہ (رض) حلال تھے احرام کے بغیر اس کے بعد اسی طرح حدیث ہے اور اس میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیا تمہارے پاس اس میں سے کچھ ہے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہمارے پاس اس کا ایک پاؤں ہے تو رسول اللہ ﷺ نے وہ پاؤں ان سے لیا اور اسے کھالیا۔

【69】

حج یا عمرہ یا ان دونوں کا احرام باندھنے والے پر خشکی کا شکار کرنے کی حرمت کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوالاحوص، قتیبہ، اسحاق، جریر، عبدالعزیز بن رفیع، حضرت عبداللہ بن ابی قتادہ سے روایت ہے کہ حضرت ابوقتادہ (رض) احرام کی حالت میں نہیں تھے جبکہ باقی سب احرام میں تھے آگے حدیث اسی طرح ہے اور اس میں ہے کہ کیا تم میں سے کسی انسان نے اس شکار کی طرف اشارہ کیا تھا یا اسے کسی چیز سے حکم دیا تھا ؟ صحابہ کرام (رض) نے عرض کیا کہ نہیں اے اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا تو پھر تم اسے کھالو۔

【70】

حج یا عمرہ یا ان دونوں کا احرام باندھنے والے پر خشکی کا شکار کرنے کی حرمت کے بیان میں

زہیر بن حرب، یحییٰ بن سعید، ابن جریج، محمد بن منکدر، حضرت معاذ بن عبدالرحمن بن عثمان تیمی (رض) اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہم حضرت طلحہ بن عبداللہ (رض) کے ساتھ ساتھ تھے اور ہم احرام کی حالت میں تھے کہ ان کے لئے ایک پرندہ ہدیہ لایا گیا اور حضرت طلحہ سو رہے تھے تو ہم میں سے کچھ نے وہ کھالیا اور کچھ نے پرہیز کیا تو جب حضرت طلحہ جاگے تو انہوں نے ان کی موافقت کی جنہوں نے کھایا تھا اور فرمایا کہ ہم نے احرام کی حالت میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کھایا ہے۔

【71】

اس بات کے بیان میں کہ احرام اور غیر احرام والے کے لئے حرم اور غیر حرم میں جن جانوروں کا قتل مستحب ہے۔

ہارون بن سعید، احمد بن عیسی، ابن وہب، مخرمہ بن بکیر، عببد اللہ بن مقسم، قاسم بن محمد، سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) نبی ﷺ کی زوجہ مطہرہ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ چار جانور ایذاء دینے والے ہیں اور ان کو حرم اور غیرحرم میں قتل کیا جاسکتا ہے چیل، کوا، چوہا، کاٹنے والا کتا، راوی کہتے ہیں کہ میں نے قاسم سے کہا کہ سانپ کے بارے میں تیرا کیا خیال ہے ؟ انہوں نے کہا کہ اس کی ذلت کی وجہ سے اسے قتل کیا جائے گا۔

【72】

اس بات کے بیان میں کہ احرام اور غیر احرام والے کے لئے حرم اور غیر حرم میں جن جانوروں کا قتل مستحب ہے۔

ابوبکر بن ابی شیبہ، غندر، شعبہ، ابن مثنی، ابن بشار، محمد بن جعفر، قتادہ، سعید بن مسیب، سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا پانچ جانور ایذاء دینے والے ہیں انہیں حرم اور غیرحرم میں قتل کیا جاسکتا ہے سانپ سیاہ وسفید، کوا، چوہا، کاٹنے والا کتا اور چیل۔

【73】

اس بات کے بیان میں کہ احرام اور غیر احرام والے کے لئے حرم اور غیر حرم میں جن جانوروں کا قتل مستحب ہے۔

ابوربیع زہرانی، حماد، ابن زید، ہشام بن عروہ، سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا پانچ جانور ایذاء دینے والے ہیں جن کو حرم میں بھی قتل کیا جاسکتا ہے بچھو، چوہا، چیل، کوا اور کاٹنے والا کتا۔

【74】

اس بات کے بیان میں کہ احرام اور غیر احرام والے کے لئے حرم اور غیر حرم میں جن جانوروں کا قتل مستحب ہے۔

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب، ابن نمیر، حضرت ہشام نے اس سند کے ساتھ اسی طرح بیان کیا ہے۔

【75】

اس بات کے بیان میں کہ احرام اور غیر احرام والے کے لئے حرم اور غیر حرم میں جن جانوروں کا قتل مستحب ہے۔

عبیداللہ بن عمر قواریری، یزید بن زریع، معمر، زہری، عروہ، سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا پانچ جانور ایذاء دینے والے ہیں جن کو حرم میں قتل کیا جاسکتا ہے چوہا اور بچھو اور چیل اور کوا اور کاٹنے والا کتا

【76】

اس بات کے بیان میں کہ احرام اور غیر احرام والے کے لئے حرم اور غیر حرم میں جن جانوروں کا قتل مستحب ہے۔

عبد بن حمید، عبدالرزاق، معمر، حضرت زہری (رض) سے اس سند کے ساتھ روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پانچ ایذاء دینے والے جانوروں کو حرم اور غیرحرم میں قتل کرنے کا حکم فرمایا پھر یزید بن زریع کی حدیث کی طرح ذکر فرمایا۔

【77】

اس بات کے بیان میں کہ احرام اور غیر احرام والے کے لئے حرم اور غیر حرم میں جن جانوروں کا قتل مستحب ہے۔

ابوطاہر، حرملہ، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، عروہ بن زبیر، سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تمام جانوروں میں سے پانچ جانور ایذاء دینے والے ہیں جن کو حرم میں بھی قتل کیا جاسکتا ہے کوا، چیل، کاٹنے والا کتا، بچھو اور چوہا۔

【78】

اس بات کے بیان میں کہ احرام اور غیر احرام والے کے لئے حرم اور غیر حرم میں جن جانوروں کا قتل مستحب ہے۔

زہیر بن حرب، ابن ابی عمر، ابن عیینہ، زہیر، سفیان بن عیینہ، زہری، حضرت سالم اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ پانچ جانور ایسے ہیں کہ ان کو حرم میں اور احرام کی حالت میں قتل کرنا کوئی گناہ نہیں چوہا اور بچھو اور کوا اور چیل اور کانٹے والا کتا۔

【79】

اس بات کے بیان میں کہ احرام اور غیر احرام والے کے لئے حرم اور غیر حرم میں جن جانوروں کا قتل مستحب ہے۔

حرملہ بن یحیی، ابن وہب، یونس، حضرت ابن شہاب (رض) سے روایت ہے کہ حضرت سالم بن عبداللہ نے مجھے خبر دی کہ حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ کی زوجہ مطہرہ حضرت حفصہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جانوروں میں سے پانچ جانور ایسے ہیں کہ جو کلی طور پر ایذاء دینے والے ہیں ان کے قتل کرنے والوں پر کوئی گناہ نہیں بچھو اور کوا اور چیل اور چوہا اور کاٹنے والا کتا۔

【80】

اس بات کے بیان میں کہ احرام اور غیر احرام والے کے لئے حرم اور غیر حرم میں جن جانوروں کا قتل مستحب ہے۔

احمد بن یونس، زہیر، حضرت زید بن جبیر (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت ابن عمر (رض) سے پوچھا کہ احرام والا کن جانوروں کو قتل کرسکتا ہے ؟ حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کی ازواج مطہرات میں سے کسی نے مجھے خبر دی کہ آپ ﷺ نے حکم فرمایا یا فرمایا کہ احرام والے کو حکم دیا گیا کہ وہ چوہے اور بچھو اور چیل اور کاٹنے والے کتے اور کوے کو قتل کر دے۔

【81】

اس بات کے بیان میں کہ احرام اور غیر احرام والے کے لئے حرم اور غیر حرم میں جن جانوروں کا قتل مستحب ہے۔

شیبان بن فروخ، ابوعوانہ، حضرت زید بن جبیر سے روایت ہے فرمایا کہ ایک آدمی نے حضرت ابن عمر (رض) سے پوچھا کہ احرام کی حالت میں کن جانوروں کو قتل کیا جاسکتا ہے ؟ حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے کی کسی زوجہ مطہرہ نے مجھ سے بیان کیا کہ آپ ﷺ کاٹنے والے کتے، چوہے اور بچھو اور کوا اور سانپ کے قتل کرنے کا حکم فرماتے تھے اور فرمایا کہ نماز میں بھی انہیں قتل کردیا جائے۔

【82】

اس بات کے بیان میں کہ احرام اور غیر احرام والے کے لئے حرم اور غیر حرم میں جن جانوروں کا قتل مستحب ہے۔

یحییٰ بن یحیی، مالک، نافع، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ پانچ جانور ایسے ہیں کہ جن کو قتل کرنے میں احرام والے پر کوئی گناہ نہیں کوا، چیل، بچھو، چوہا، کاٹنے ولا کتا۔

【83】

اس بات کے بیان میں کہ احرام اور غیر احرام والے کے لئے حرم اور غیر حرم میں جن جانوروں کا قتل مستحب ہے۔

ہارون بن عبداللہ، محمد بن بکر، ابن جریج، حضرت ابن جریج بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت نافع (رض) سے کہا کہ آپ نے احرام والے کے لئے جانوروں کے قتل کرنے کے بارے میں حضرت ابن عمر (رض) سے کیا سنا ؟ حضرت نافع (رض) نے مجھ سے فرمایا کہ حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ جانوروں میں سے پانچ ایسے جانور ہیں کہ ان کے قتل کرنے میں احرام والے پر کوئی گناہ نہیں کوا، چیل، بچھو، چوہا، کاٹنے والا کتا۔

【84】

اس بات کے بیان میں کہ احرام اور غیر احرام والے کے لئے حرم اور غیر حرم میں جن جانوروں کا قتل مستحب ہے۔

قتیبہ، ابن رمح، لیث بن سعد، شیبان بن فروخ، جریر یعنی ابن حازم، نافع، ابوبکر بن ابی شیبہ، علی بن مسہر، ابن نمیر، عبیداللہ، ابوکامل، حماد، ایوب، ابن مثنی، یزید بن ہارون، یحییٰ بن سعید، نافع، ابن عمران سندوں کے ساتھ حضرت نافع نے حضرت ابن عمر (رض) سے روایت کیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ سے سنا پھر اسی طرح آگے حدیث بیان کی۔

【85】

اس بات کے بیان میں کہ احرام اور غیر احرام والے کے لئے حرم اور غیر حرم میں جن جانوروں کا قتل مستحب ہے۔

فضل بن سہل، یزید بن ہارون، محمد بن اسحاق، نافع، عبیداللہ بن عبداللہ، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ پانچ جانور ایسے ہیں کہ جن کے قتل کرنے میں کوئی گناہ نہیں وہ جانور کہ جن کو حرم میں قتل کیا جائے پھر اسی طرح حدیث ذکر فرمائی۔

【86】

اس بات کے بیان میں کہ احرام اور غیر احرام والے کے لئے حرم اور غیر حرم میں جن جانوروں کا قتل مستحب ہے۔

یحییٰ بن یحیی، یحییٰ بن ایوب، قتیبہ، ابن حجر، یحییٰ ابن یحیی، اسماعیل بن جعفر، عبداللہ بن دینار، حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا پانچ جانور ایسے ہیں کہ جو ان کو احرام کی حالت میں قتل کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ان جانوروں میں بچھو، چوہا، کاٹنے والا کتا، کوا اور چیل ہیں۔

【87】

محرم کو جب کوئی تکلیف وغیرہ پیش آجائے تو سر منڈانے فدیہ اور اس کی مقدار کے بیان میں

عبیداللہ بن عمر قواریری، حماد یعنی ابن زید، ایوب، ابوربیع، حماد، ایوب، مجاہد، عبدالرحمن بن ابی لیلی، حضرت کعب بن عجرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ حدیبیہ والے سال میرے ہاں تشریف لائے اور میں ہانڈی کے نیچے آگ جلا رہا تھا اور میرے چہرے پر جوئیں گر رہیں تھیں آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیا تجھے جوئیں بہت تکلیف دے رہی ہیں ؟ میں نے عرض کیا کہ ہاں ! آپ ﷺ نے فرمایا کہ تو اپنا سر منڈا دے اور تین دنوں کے روزے رکھ لے یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلا دے یا ایک قربانی کر۔ ایوب راوی نے کہا کہ میں نہیں جانتا کہ آپ ﷺ نے ابتداء میں کس چیز کا ذکر فرمایا۔

【88】

محرم کو جب کوئی تکلیف وغیرہ پیش آجائے تو سر منڈانے فدیہ اور اس کی مقدار کے بیان میں

علی بن حجر سعدی، زہیر بن حرب، یعقوب بن ابراہیم، ابن علیہ، حضرت ایوب (رض) سے اس سند کے ساتھ مذکورہ حدیث مبارکہ کی طرح نقل کی گئی ہے

【89】

محرم کو جب کوئی تکلیف وغیرہ پیش آجائے تو سر منڈانے فدیہ اور اس کی مقدار کے بیان میں

محمد بن مثنی، ابن ابی عدی، ابن عون، مجاہد، عبدالرحمن بن ابی لیلی، حضرت کعب بن عجرہ (رض) سے روایت ہے فرمایا کہ میرے بارے میں یہ آیت نازل کی گئی تم میں سے جو آدمی بیمار ہو یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہو تو وہ فدیہ کے طور پر روزے رکھے یا صدقہ دے یا قربانی کرے حضرت کعب (رض) کہتے ہیں کہ میں آپ ﷺ کی خدمت میں آیا آپ ﷺ نے فرمایا قریب ہوجاؤ تو میں اور قریب ہوگیا آپ ﷺ نے فرمایا قریب ہوجاؤ تو میں قریب ہوگیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیا تجھے جوئیں بہت تکلیف دیتی ہیں ؟ ابن عون کہتے ہیں اور راوی کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ حضرت کعب (رض) نے عرض کیا جی ہاں حضرت کعب کہتے ہیں کہ پھر آپ ﷺ نے مجھے فدیہ کے طور پر روزوں کا یا صدقہ کرنے کا یا قربانی کرنے کا جو آسانی سے ہو سکے کرنے کا حکم فرمایا۔

【90】

محرم کو جب کوئی تکلیف وغیرہ پیش آجائے تو سر منڈانے فدیہ اور اس کی مقدار کے بیان میں

ابن نمیر، سییف، مجاہد، عبدالرحمن بن ابی لیلی، حضرت کعب بن عجرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ان پر کھڑے ہوئے اس حال میں کہ میرے سر سے جوئیں جھڑ رہی تھیں تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیا تجھے تکلیف دیتی ہیں ؟ میں نے عرض کیا کہ جی ہاں آپ ﷺ نے فرمایا کہ تو اپنا سر منڈالے حضرت کعب (رض) کہتے ہیں کہ یہ آیت میرے بارے میں نازل ہوئی تم میں سے جو کوئی بیمار ہو یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہو تو وہ فدیہ کے طور پر روزے رکھ لے یا صدقہ دے دے یا قربانی کرلے تو رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ تو تین دن کے روزے رکھ یا ایک ٹو کرا چھ مسکینوں کے درمیان صدقہ کر دے یا تو قربانی کر غرض یہ کہ جو تجھے آسانی ہو کرلے۔

【91】

محرم کو جب کوئی تکلیف وغیرہ پیش آجائے تو سر منڈانے فدیہ اور اس کی مقدار کے بیان میں

محمد بن ابی عمر، سفیان، ابن ابی نجیح، ایوب، حمید، عبدالکریم، مجاہد، حضرت کعب بن عجرہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ان کے پاس سے گزرے اور حال یہ کہ آپ حدیبیہ میں تھے اور ابھی تک آپ ﷺ مکہ مکرمہ میں داخل نہیں ہوئے تھے اور میں احرام کی حالت میں ہانڈی کے نیچے آگ جلا رہا تھا اور جوئیں میرے چہرے پر سے جھڑ رہی تھیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کیا تجھے جوئیں بہت تکلیف دے رہی ہیں ؟ حضرت کعب (رض) نے عرض کیا کہ جی یہاں آپ ﷺ نے فرمایا کہ اپنا سر منڈا دے اور چھ مسکینوں کے درمیان ایک فرق کا کھانا تقسیم کر اور فرق تین صاع کا ہوتا ہے یا تین دنوں کے روزے رکھ یا قربانی کر ابن ابی نجیح کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا یا ایک بکری ذبح کر۔

【92】

محرم کو جب کوئی تکلیف وغیرہ پیش آجائے تو سر منڈانے فدیہ اور اس کی مقدار کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، خالد بن عبداللہ، خالد، ابی قلابہ، عبدالرحمن بن ابی لیلی، حضرت کعب بن عجرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ حدیبیہ والے سال ان کے پاس سے گزرے اور فرمایا کہ کیا تجھے جوئیں بہت تکلیف دے رہی ہیں ؟ حضرت کعب نے عرض کیا کہ جی ہاں تو نبی ﷺ نے ان سے فرمایا کہ اپنے سر کو منڈا دو پھر ایک بکری ذبح کر کے قربانی کر یا تین دنوں کے روزے رکھ یا کھجوروں میں سے تین صاع چھ مسکینوں کو کھلا دے۔

【93】

محرم کو جب کوئی تکلیف وغیرہ پیش آجائے تو سر منڈانے فدیہ اور اس کی مقدار کے بیان میں

محمد بن مثنی، ابن بشار، ابن مثنی، محمد بن جعفر، شعبہ، عبدالرحمن بن اصبہانی، حضرت عبداللہ بن معقل سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں کعب کے پاس مسجد میں بیٹھا تھا تو میں نے ان سے اس آیت کے بارے میں پوچھا (فَفِدْيَةٌ مِّنْ صِيَامٍ اَوْ صَدَقَةٍ اَوْ نُسُكٍ ) 2 ۔ البقرۃ : 196) کعب (رض) نے فرمایا کہ یہ آیت میرے بارے میں نازل ہوئی تھی میرے سر میں تکلیف تھی تو مجھے رسول اللہ ﷺ کی طرف بلایا گیا حال یہ تھا کہ جوئیں میرے چہرے پر سے جھڑ رہی تھیں آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ تجھے بہت تکلیف پہنچ رہی ہے کیا تو ایک بکری لے سکتا ہے ؟ میں نے کہا نہیں تو یہ آیت نازل ہوئی (فَفِدْيَةٌ مِّنْ صِيَامٍ اَوْ صَدَقَةٍ اَوْ نُسُكٍ ) 2 ۔ البقرۃ : 196) کہ اس کا فدیہ روزے ہیں یا صدقہ یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلانا یا ہر مسکین کے لئے آدھا آدھا صاع کھانا کھلانا کعب فرماتے ہیں کہ یہ آیت خاص طور پر میرے بارے میں نازل ہوئی لیکن اس کا حکم تمہارے لئے بھی عام ہے۔

【94】

محرم کو جب کوئی تکلیف وغیرہ پیش آجائے تو سر منڈانے فدیہ اور اس کی مقدار کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، عبداللہ بن نمیر، زکریا بن ابی زائدہ، عبدالرحمن بن اصبہانی، عبداللہ بن معقل، حضرت کعب بن عجرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ وہ نبی ﷺ کے ساتھ احرام کی حالت میں نکلے تو ان کے سر اور داڑھی میں جوئیں پڑگئیں یہ بات نبی ﷺ تک پہنچی تو آپ ﷺ نے اس کی طرف پیغام بھیج کر اس کو بلا لیا اور ایک حجام کو بلوا کر اس کا سر منڈوادیا پھر آپ ﷺ نے فرمایا کیا تیرے پاس قربانی ہے ؟ حضرت کعب (رض) نے عرض کیا کہ میں اس کی قدرت نہیں رکھتا تو آپ ﷺ نے حضرت کعب کو حکم فرمایا کہ تین روزے رکھیں یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلائیں ہر دو مسکینوں کے لئے ایک صاع کا کھانا ہو تو اللہ تعالیٰ نے خاص ایسے وقت آیت نازل فرمائی (فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيْضًا اَوْ بِه اَذًى مِّنْ رَّاْسِه) 2 ۔ البقرۃ : 196) پھر اس آیت کا حکم مسلمانوں کے لئے عام ہوگیا۔

【95】

محرم کے پچھنے لگوانے کے جواز کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، زہیر بن حرب، اسحاق بن ابراہیم، اسحاق، سفیان بن عیینہ، عمرو، طاؤس، عطاء، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے احرام کی حالت میں پچھنے لگوائے۔

【96】

محرم کے پچھنے لگوانے کے جواز کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، معلی بن منصور، سلیمان بن بلال، علقمہ بن ابی علقمہ، عبدالرحمن اعرج، حضرت ابن بحینہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے احرام کی حالت میں مکہ کے راستے میں اپنے سر مبارک کے درمیانی حصہ میں پچھنے لگوائے۔

【97】

احرام والے کے لئے اپنی آنکھوں کا علان کروانے کے جواز کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، عمرو ناقد، زہیر بن حرب، ابن عیینہ، ابوبکر، سفیان بن عیینہ، ابوب بن موسی، نبیہ بن وہب سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم ابان بن عثمان (رض) کے ساتھ نکلے یہاں تک کہ جب ہم ملل کے مقام پر پہنچے تو عمر بن عبیداللہ کی آنکھوں میں تکلیف ہوئی اور جب روحاء کے مقام پر پہنچے تو شدید درد ہونے لگا تب انہوں نے ابان بن عثمان کی طرف اس مسئلہ کے بارے میں اپنا قاصد بھیجا چناچہ ابان نے ان کو جواب بھیجا کہ ایلوے کا لیپ لگالو کیونکہ عثمان (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی کی آنکھوں میں تکلیف پڑگئی اور وہ آدمی احرام کی حالت میں تھا تو نبی ﷺ نے اس کی آنکھوں پر ایلوے کا لیپ کرایا۔

【98】

احرام والے کے لئے اپنی آنکھوں کا علان کروانے کے جواز کے بیان میں

اسحاق بن ابراہیم حنظلی، عبدالصمد بن عبدالوارث، ایوب بن موسی، حضرت نبیہ بن وہب بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبیداللہ بن معمر کی آنکھیں دکھنے لگیں تو انہوں نے اپنی آنکھوں میں سرمہ لگوانا چاہا تو حضرت ابان بن عثمان نے ان کو منع فرما دیا اور انہیں حکم فرمایا کہ ایلوے کا لیپ لگا لو کیونکہ حضرت عثمان بن عفان نبی ﷺ سے روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے ایسے ہی کیا تھا۔

【99】

احرام والے کو اپنا سر اور بدن دھونے کے جواز کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، عمرو ناقد، زہیر بن حرب، قتیبہ بن سعید، سفیان بن عیینہ، زید ابن اسلم، قتیبہ بن سعید، مالک بن انس، حضرت ابراہیم بن عبداللہ بن حنین اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) اور حضرت مسور بن مخرمہ (رض) کے درمیان ابواء کے مقام پر اختلاف ہوگیا حضرت عبداللہ فرماتے تھے کہ احرام والا آدمی اپنا سر دھو سکتا ہے اور حضرت مسور فرماتے تھے کہ احرام والا آدمی اپنے سر کو نہیں دھو سکتا تو حضرت ابن عباس (رض) نے مجھے حضرت ابوایوب انصاری (رض) کی طرف اس مسئلہ کے بارے میں پوچھنے کے لئے بھیجا تو میں نے ان کو لکڑیوں کے درمیان ایک کپڑے سے پردہ کئے ہوئے غسل کرتے ہوئے پایا راوی کہتے ہیں کہ میں نے ان پر سلام کیا تو انہوں نے فرمایا کون ہے ؟ میں نے کہا کہ میں عبداللہ بن حنین ہوں مجھے حضرت ابن عباس (رض) نے آپ کی طرف اس لئے بھیجا ہے تاکہ میں آپ سے پوچھوں کہ کیا رسول اللہ ﷺ احرام کی حالت میں اپنا سر دھوتے تھے ؟ حضرت ایوب نے اپنے ہاتھ سے کپڑے کو نیچے کیا یہاں تک کہ آپ کا سر ظاہر ہوا پھر انہوں نے کسی پانی ڈالنے والے کو فرمایا کہ پانی ڈالو تو اس نے آپ کے سر پر پانی ڈالا پھر انہوں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے سر کو ہلایا پھر ہاتھوں کو سر پر پھیر کر آگے سے پیچھے کی طرف لائے اور پیچھے سے آگے کی طرف لائے پھر حضرت ابوایوب (رض) فرمانے لگے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے۔

【100】

احرام والے کو اپنا سر اور بدن دھونے کے جواز کے بیان میں

اسحاق بن ابراہیم، علی بن خشرم، عیسیٰ بن یونس، ابن جریج، حضرت زید بن اسلم سے اس سند کے ساتھ روایت ہے کہ حضرت ابوایوب (رض) نے اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے سر پر آگے اور پیچھے پھیرا تو حضرت مسور نے حضرت ابن عباس (رض) سے کہا کہ میں کبھی بھی آپ سے حجت نہیں کروں گا۔

【101】

محرم جب انتقال کر جائے تو کیا کیا جائے ؟

ابوبکر بن ابی شیبہ، سفیان بن عیینہ، عمرو، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ایک ایسے آدمی کے بارے میں کہ جو اپنے اونٹ سے گرا اور مرگیا فرمایا کہ اسے بیری کے پتوں کے پانی سے غسل دو اور اسے دو کپڑوں میں کفن دو اور اس کے سر کو نہ ڈھانپو کیونکہ اللہ عزوجل قیامت کے دن اسے تلبیہ پڑھتے ہوئے اٹھائے گا۔

【102】

محرم جب انتقال کر جائے تو کیا کیا جائے ؟

ابوربیع زہرانی، حماد، عمرو بن دینار، ایوب، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ ایک آدمی عرفات کے میدان میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کھڑا تھا اچانک وہ اپنی سواری پر سے گرپڑا اور اس کی گردن ٹوٹ گئی نبی ﷺ سے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اسے بیری کے پتوں کے پانی سے غسل دو اور دو کپڑوں میں اس کو کفن دو اور اس کو خوشبو نہ لگاؤ اور نہ ہی اس کا سر ڈھانپو کیونکہ اللہ قیامت کے دن اسے اس حال میں اٹھائے گا کہ یہ تلبیہ کہہ رہا ہوگا۔

【103】

محرم جب انتقال کر جائے تو کیا کیا جائے ؟

عمرو ناقد، اسماعیل بن ابراہیم، ایوب، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی کریم ﷺ کے ساتھ احرام کی حالت میں کھڑا تھا پھر آگے اسی طرح حدیث مبارکہ ذکر فرمائی۔

【104】

محرم جب انتقال کر جائے تو کیا کیا جائے ؟

علی بن خشرم، عیسیٰ یعنی ابن یونس، ابن جریج، عمرو بن دینار، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے فرمایا کہ ایک آدمی احرام باندھے ہوئے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ آیا اور وہ اپنے اونٹ سے گرپڑا تو اس کی گردن کی ہڈی ٹوٹ گئی اور وہ مرگیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اسے بیری کے پتوں کے پانی سے غسل دو اور اسے دو کپڑوں میں کفن دو اور اس کا سر نہ ڈھانپو کیونکہ یہ قیامت کے دن لبیک کہتا ہوا آئے گا۔

【105】

محرم جب انتقال کر جائے تو کیا کیا جائے ؟

عبد بن حمید، محمد بن بکر برسانی، ابن جریج، عمرو بن دینار، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے فرمایا کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے ساتھ احرام کی حالت میں آیا آگے حدیث اسی طرح ہے سوائے اس کے کہ اس میں ہے کہ وہ قیامت کے دن اس حال میں اٹھایا جائے گا کہ وہ تلبیہ پڑھ رہا ہوگا۔

【106】

محرم جب انتقال کر جائے تو کیا کیا جائے ؟

ابوکریب، وکیع، سفیان، عمرو بن دینار، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ ایک آدمی جو احرام کی حالت میں تھا اس کی سواری نے اس کی گردن توڑ دی اور وہ مرگیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اسے بیری کے پتوں کے پانی سے غسل دو اور اسے اس کے کپڑوں میں کفن دو اور اس کا چہرہ اور اس کا سر نہ ڈھانپو کیونکہ یہ قیامت کے دن لبیک لبیک پکارتا ہوا اٹھے گا۔

【107】

محرم جب انتقال کر جائے تو کیا کیا جائے ؟

محمد بن صباح، ہشیم، ابوبشر، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ ایک آدمی احرام کی حالت میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا وہ اپنی اونٹنی سے گرا اور مرگیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اسے بیری کے پتوں کے پانی میں غسل دو اور اسے ان ہی کپڑوں میں کفن دو اور اسے خوشبو نہ لگاؤ اور اس کا سر نہ ڈھانپو کیونکہ وہ قیامت کے دن بال جمے ہوئے ہونے کی حالت میں اٹھے گا۔

【108】

محرم جب انتقال کر جائے تو کیا کیا جائے ؟

ابوکامل، فضیل بن حسین حجدری، ابوعوانہ، ابی بشر، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ ایک آدمی جو احرام کی حالت میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا اس کے اونٹ نے اس کی گردن توڑ دی جس کی وجہ سے وہ مرگیا تو رسول اللہ ﷺ نے حکم فرمایا کہ اسے بیری کے پتوں کے پانی سے غسل دو اور اس کو خوشبو نہ لگاؤ اور اس کا سر بھی نہ ڈھانکو کیونکہ یہ قیامت کے دن بال جمے ہوئے ہونے کی حالت میں اٹھے گا۔

【109】

محرم جب انتقال کر جائے تو کیا کیا جائے ؟

محمد بن بشار، ابوبکر بن نافع، ابن نافع، غندر، شعبہ، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی احرام کی حالت میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا تو وہ اپنی اونٹنی سے گرپڑا اور اس کی گردن ٹوٹ گئی وہ مرگیا تو نبی ﷺ نے حکم فرمایا کہ اسے بیری کے پتوں کے پانی سے غسل دو اور اسے دو کپڑوں میں کفن دیا جائے اور اسے خوشبو نہ لگائی جائے اور اس کا سر باہر رہے شعبہ کہتے ہیں کہ اس کا سر اور اس کا چہرہ باہر رہے کیونکہ یہ قیامت کے دن تلبیہ کہتا ہوا اٹھے گا۔

【110】

محرم جب انتقال کر جائے تو کیا کیا جائے ؟

ہارون بن عبداللہ، اسود بن عامر، زہیر، ابی زبیر، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی جو کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا اس کی سواری نے اس آدمی کی گردن توڑ دی وہ مرگیا تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں حکم فرمایا کہ اسے بیری کے پتوں کے پانی سے غسل دو اور اس کا چہرہ کھلا رکھو راوی کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا اور اس کا سر کھلا رکھو کیونکہ یہ قیامت کے دن تلبیہ کہتا ہوا اٹھے گا۔

【111】

محرم جب انتقال کر جائے تو کیا کیا جائے ؟

عبد بن حمید، عبیداللہ بن موسی، اسرائیل، منصور، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے فرمایا کہ نبی ﷺ کے ساتھ ایک آدمی تھا اونٹنی نے اس کی گردن توڑ دی تو وہ مرگیا نبی ﷺ نے فرمایا اسے غسل دو اور اس کو خوشبو نہ لگاؤ اور نہ ہی اس کا چہرہ ڈھانپو کیونکہ یہ قیامت کے دن تلبیہ پڑھتا ہوا اٹھے گا۔

【112】

یہ شرط لگا کر احرام باندھنا کہ بیماری یا اور کسی عذر کی بنا پر احرام کھول دوں گا کے جواز کے بیان میں

ابوکریب، محمد بن علاء ہمدانی، ابواسامہ، ہشام، سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ حضرت ضباعہ بنت زبیر (رض) کے پاس تشریف لائے تو ان سے فرمایا کہ کیا تو نے حج کا ارادہ کیا ہے ؟ حضرت ضباعہ نے عرض کیا اللہ کی قسم ! مجھے درد کی تکلیف ہے تو آپ ﷺ نے حضرت ضباعہ (رض) سے فرمایا کہ تو حج کر اور یہ شرط لگا اور کہہ اے اللہ میرے حج کے احرام کا کھولنا اس جگہ ہوگا جس جگہ تو مجھے روک دے گا اور حضرت صباعہ (رض) حضرت مقداد (رض) کے نکاح میں تھیں

【113】

یہ شرط لگا کر احرام باندھنا کہ بیماری یا اور کسی عذر کی بنا پر احرام کھول دوں گا کے جواز کے بیان میں

عبد بن حمید، عبدالرزاق، معمر، زہری، عروہ، سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ نبی ﷺ حضرت ضباعہ بن زیبر بن عبدالمطلب کے پاس تشریف لائے تو حضرت ضباعہ (رض) نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! میں حج کرنا چاہتی ہوں اور حال یہ ہے کہ میں بیمار ہوں تو نبی ﷺ نے فرمایا کہ تو حج کر اور یہ شرط لگا کہ میرے حلال ہونے احرام کھولنے کی وہی جگہ ہے جہاں تو مجھے روک دے گا۔

【114】

یہ شرط لگا کر احرام باندھنا کہ بیماری یا اور کسی عذر کی بنا پر احرام کھول دوں گا کے جواز کے بیان میں

عبد بن حمید، عبدالرزاق، معمر، ہشام بن عروہ، سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) سے اسی حدیث کی طرح نقل کی گئی ہے۔

【115】

یہ شرط لگا کر احرام باندھنا کہ بیماری یا اور کسی عذر کی بنا پر احرام کھول دوں گا کے جواز کے بیان میں

محمد بن بشار، عبدالوہاب بن عبدالمجید، ابوعاصم، محمد بن بکر، ابن جریج، اسحاق بن ابراہیم، محمد بن بکر، ابن جریج، ابوزبیر، طاؤس، عکرمہ مولیٰ ابن عباس، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ ضباعہ بنت زبیر (رض) بن عبدالمطلب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ میں ایک عورت ہوں اور میں حج بھی کرنا چاہتی ہوں تو آپ ﷺ مجھے اس بارے میں کیا حکم دیتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تو حج کا احرام باندھ لے اور یہ شرط لگا لے کہ میرے احرام کھولنے کی وہی جگہ ہے جس جگہ پر تو مجھے روک دے حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ اس عورت نے حج پا لیا۔

【116】

یہ شرط لگا کر احرام باندھنا کہ بیماری یا اور کسی عذر کی بنا پر احرام کھول دوں گا کے جواز کے بیان میں

ہارون بن عبداللہ، ابوداود طیالسی، حبیب بن یزید، عمرو ہرم، سعید بن جبیر، عکرمہ، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ حضرت ضباعہ (رض) نے حج کا ارادہ کیا تو نبی ﷺ نے اسے شرط لگانے کا حکم فرمایا تو حضرت ضباعہ (رض) نے رسول اللہ ﷺ کے حکم سے ایسے ہی کیا۔

【117】

یہ شرط لگا کر احرام باندھنا کہ بیماری یا اور کسی عذر کی بنا پر احرام کھول دوں گا کے جواز کے بیان میں

اسحاق بن ابراہیم، ابوایوب غیلانی، احمد بن خراش، اسحاق، ابوعامر، عبدالملک بن عمرو، رباح، ابن ابی معروف، عطاء، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے حضرت ضباعہ (رض) سے فرمایا کہ تو حج کر اور یہ شرط لگا کہ میری احرام کھولنے کی وہی جگہ ہے جس جگہ تو مجھے روک دے اور اسحاق کی روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے حضرت ضباعہ (رض) کو اس کا حکم فرمایا تھا۔

【118】

حیض ونفاس والی عورتوں کے احرام اور احرام کے لئے غسل کے استح کے بیان میں

ہناد بن سری، زہیر بن حرب، عثمان بن ابی شیبہ، زہیر، عبدہ بن سلیمان، عبیداللہ بن عمر، عبدالرحمن بن قاسم، سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ حضرت اسماء بنت عمیس (رض) کو محمد بن ابی بکر کی پیدائش کی وجہ سے ایک درخت کے پاس ذوالحلیفہ میں نفاس شروع ہوگیا تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر (رض) کو حکم فرمایا کہ یہ اسماء غسل کریں اور احرام باندھ لیں۔

【119】

حیض ونفاس والی عورتوں کے احرام اور احرام کے لئے غسل کے استح کے بیان میں

ابوغسان، محمد بن عمرو، جریر بن عبدالحمید، یحییٰ بن سعید، جعفر بن محمد، حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ حضرت اسماء بنت عمیس (رض) کو جس وقت ذوالحلیفہ کے مقام پر نفاس شروع ہوگیا تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر (رض) کو حکم فرمایا کہ حضرت اسماء کو حکم دیں کہ وہ غسل کرے اور احرام باندھ لے۔

【120】

احرام کی اقسام کے بیان میں

یحییٰ بن یحییٰ تمیمی، مالک، ابن شہاب، عروہ، سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ ہم حجہ الوداع والے سال رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے تو ہم نے عمرہ کا احرام باندھا پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس آدمی کے پاس قربانی کا جانور ہے وہ حج اور عمرہ کا احرام باندھے اور پھر اس وقت تک احرام نہ کھولے جب تک کہ حج اور عمرہ دونوں سے حلال نہیں ہوجائے۔ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں مکہ آئی اس حال میں کہ میں حائضہ تھی نہ تو میں نے بیت اللہ کا طواف کیا اور نہ ہی میں نے صفا ومروہ کے درمیان سعی کی میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کی شکایت کی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تو اپنے سر کے بال چھوڑ دے حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے ایسے ہی کیا جب ہم نے حج کرلیا تو رسول اللہ ﷺ نے مجھے حضرت عبدالرحمن بن ابوبکر صدیق (رض) میرے بھائی کے ساتھ تنعیم کے مقام پر بھیجا تو میں نے عمرہ کیا آپ ﷺ نے فرمایا یہ تیرے عمرے کا بدل ہے جب لوگوں نے عمرہ کا احرام باندھا تھا انہوں نے بیت اللہ اور صفا ومروہ کا طواف کیا پھر وہ حلال ہوگئے پھر انہوں نے منیٰ سے واپس آنے کے بعد اپنے حج کے لئے ایک اور طواف کیا اور جن لوگوں نے حج اور عمرہ دونوں کا اکٹھا احرام باندھا تھا انہوں نے ایک ہی طواف کیا۔

【121】

احرام کی اقسام کے بیان میں

عبدالملک بن شعیب بن لیث، عقیل بن خالد، ابن شہاب، عروہ بن زبیر، سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) نبی ﷺ کی زوجہ مطہرہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حجہالوداع کے لئے نکلے تو ہم میں سے کسی نے عمرہ کا احرام باندھا اور کسی نے حج کا احرام باندھا جب ہم مکہ آئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس نے عمرہ کا احرام باندھا ہے اور قربانی ساتھ نہیں لایا تو وہ حلال ہوجائے احرام کھول دے اور قربانی کر اور جس نے عمرہ کا احرام باندھا ہے اور قربانی ساتھ لایا ہے تو وہ حلال نہ ہو احرام نہ کھولے جب تک کہ اپنی قربانی ذبح نہ کرلے اور جس نے صرف حج کا احرام باندھا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے حج کو پورا کرلے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں حائضہ ہوگئی اور حالت حیض میں رہی یہاں تک کہ عرفہ کا دن آگیا اور میں نے عمرہ کا احرام باندھا ہوا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے مجھے حکم فرمایا کہ میں اپنے سر کے بال کھول دوں اور کنگھی کرلوں اور میں حج کا احرام باندھ لوں اور عمرہ کو چھوڑ دوں حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے ایسے ہی کیا یہاں تک کہ جب میں حج سے فارغ ہوگئی تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر (رض) میرے بھائی کو میرے ساتھ بھیجا اور مجھے حکم فرمایا کہ میں مقام تنعیم سے عمرہ کروں اپنے اس عمرہ کے بدلہ میں جسے میں نے حائضہ ہونے کی وجہ سے چھوڑ دیا تھا اور اس عمرہ کا احرام کھولنے سے پہلے میں نے حج کا احرام باندھ لیا تھا۔

【122】

احرام کی اقسام کے بیان میں

عبد بن حمید، عبدالرزاق، معمر، زہری، عروہ، سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ ہم نبی ﷺ کے ساتھ حجہ الوداع والے سال نکلے تو میں نے عمرہ کا احرام باندھا اور میں قربانی کا جانور نہیں لائی تھی نبی ﷺ نے فرمایا کہ جس کے پاس قربانی کا جانور ہو تو وہ اپنے عمرہ کے ساتھ حج اور عمرہ دونوں سے فارغ ہوجائے عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں حائضہ ہوگئی تو جب عرفہ کی رات آئی تو میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! میں نے عمرہ کا احرام باندھا تھا تو اب میں اپنا حج کیسے کروں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اپنے سر کے بال کھول ڈال اور کنگھی کر اور عمرہ کی ادائیگی سے رک جا اور حج کا احرام باندھ لے حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ جب میں اپنے حج سے فارغ ہوگئی تو آپ ﷺ نے حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر (رض) کو حکم فرمایا تو انہوں نے مجھے تنعیم سے عمرہ کرایا اور یہ میرے اس عمرہ کی جگہ تھا جسے میں نے چھوڑ دیا تھا۔

【123】

احرام کی اقسام کے بیان میں

ابن ابی عمر، سفیان، زہری، عروہ، سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے جس کا ارادہ ہو کہ وہ حج کا احرام باندھے تو وہ حج کا احرام باندھ لے اور جس کا ارادہ ہو عمرہ کا احرام باندھ لے حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حج کا احرام باندھا اور لوگوں (صحابہ (رض) نے بھی آپ ﷺ کے ساتھ حج کا احرام باندھا اور کچھ لوگوں نے آپ ﷺ کے ساتھ عمرہ اور حج دونوں کا احرام باندھا اور کچھ لوگوں نے صرف عمرہ کا احرام باندھا اور میں ان لوگوں میں سے تھی کہ جنہوں نے عمرہ کا احرام باندھا تھا۔

【124】

احرام کی اقسام کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، عبدہ بن سلیمان، ہشام، سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حجہالوداع کے لئے ذی الحجہ کے چاند کے مطابق نکلے حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے جس کا ارادہ ہو کہ وہ عمرہ کا احرام باندھے تو وہ احرام باندھ لے اگر میں قربانی کا جانور ساتھ نہ لاتا تو میں بھی عمرہ کا احرام باندھتا حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ صحابہ میں سے کچھ نے عمرہ کا احرام باندھا اور ان میں سے کچھ نے حج کا احرام باندھا حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں ان میں سے تھی جنہوں نے عمرہ کا احرام باندھا تھا تو ہم نکلے یہاں تک کہ مکہ آگئے تو میں نے عرفہ کا دن اس حال میں پایا کہ میں حائضہ تھی اور میں اپنے عمرہ سے حلال نہیں ہوئی تھی تو میں نے اس کی شکایت رسول اللہ ﷺ سے کی آپ ﷺ نے فرمایا کہ تو اپنے عمرہ کو چھوڑ دے اور اپنے سر کے بال کھول ڈال اور کنگھی کر اور حج کا احرام باندھ لے حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے اسی طرح کیا تو جب کنکریوں کی رات ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے ہمارے حج کو پوار کردیا تو آپ ﷺ نے میرے ساتھ عبدالرحمن بن ابوبکر (رض) میرے بھائی کو بھیجا انہوں نے مجھے اپنے ساتھ سوار کیا اور تنعیم کی طرف نکلے تو میں نے عمرہ کا احرام باندھا تو اللہ تعالیٰ نے ہمارے حج اور عمرہ کو پورا فرما دیا اور اس میں نہ کوئی قربانی کا جانور تھا اور نہ ہی کوئی صدقہ اور نہ کوئی روزہ تھا۔

【125】

احرام کی اقسام کے بیان میں

ابوکریب، ابن نمیر، ہشام، سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ ہم ذی الحجہ کا چاند دیکھ کر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے ہم حج کرنے کے سوا کچھ نہیں چاہتے تھے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے جو پسند کرتا ہو کہ وہ عمرہ کا احرام باندھے تو وہ عمرہ کا احرام باندھ لے اور اس سے آگے حدیث اسی طرح ہے جس طرح گزری۔

【126】

احرام کی اقسام کے بیان میں

ابوکریب، وکیع، ہشام، سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ذی الحجہ کے چاند کے مطابق نکلے ہم میں سے کچھ نے صرف عمرہ کا احرام باندھا ہوا تھا اور کچھ نے حج اور عمرہ کا احرام باندھا ہوا تھا اس سے آگے حدیث اسی طرح سے ہے جس طرح گزری اس سلسلہ میں عروہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عائشہ (رض) کے حج اور ان کے عمرہ دونوں کو پورا فرما دیا ہشام نے کہا کہ اس میں قربانی واجب ہوئی نہ روزہ اور نہ صدقہ واجب ہوا۔

【127】

احرام کی اقسام کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، مالک، ابی اسود، محمد بن عبدالرحمن بن نوفل، عروہ، سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حجہ الوادع کے سال نکلے تو ہم میں سے کچھ نے عمرہ کا احرام باندھا اور کچھ نے حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھا ہوا تھا تو جنہوں نے عمرہ کا احرام باندھا ہوا تھا وہ تو حلال ہوگئے احرام کھول دیا اور جنہوں نے حج کا احرام باندھا تھا یا حج اور عمرہ دونوں کا اکٹھا احرام باندھا تھا تو وہ یوم النحر قربانی والے دن سے پہلے حلال نہیں ہوئے احرام نہیں کھولے۔

【128】

احرام کی اقسام کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، عمرو ناقد، زہیر بن حرب، ابن عیینہ، عمرو، سفیان بن عیینہ، عبدالرحمن بن قاسم، سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ ہم نبی ﷺ کے ساتھ نکلے اور ہمارا حج کے سوا کوئی ارادہ نہیں تھا یہاں تک کہ جب سرف کے مقام پر یا اس کے قریب پہنچے تو میں حائضہ ہوگئی نبی ﷺ میری طرف تشریف لائے اور میں رو رہی تھی تو آپ ﷺ نے فرمایا کیا تو حائضہ ہوگئی ہے ؟ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا ہاں آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ تو وہ چیز ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کی بیٹیوں پر لکھ دیا ہے تو تو حج کے مناسک ادا کر سوائے اس کے کہ تو بیت اللہ کا طواف نہ کر جب تک کہ تو غسل نہ کرلے حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی ازواج مطہرات کی طرف سے ایک گائے کی قربانی کی۔

【129】

احرام کی اقسام کے بیان میں

سلیمان بن عبیداللہ ابوایوب غیلانی ابوعامرعبدالملک بن عمرو عبدالعزیز بن ابی سلمہ ماجشون عبدالرحمن بن قاسم سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے ہم سوائے حج کے اور کوئی ذکر نہیں کر رہے تھے یہاں تک کہ جب ہم سرف کے مقام پر آئے تو میں حائضہ ہوگئی تو رسول اللہ ﷺ میری طرف تشریف لائے جبکہ میں رو رہی تھی تو آپ ﷺ نے فرمایا کیوں رو رہی ہو ؟ میں نے عرض کیا اللہ کی قسم ! کاش کہ میں اس سال نہ نکلتی آپ ﷺ نے فرمایا تجھے کیا ہوا ؟ شاید کہ تو حائضہ ہوگئی ہے ؟ میں نے عرض کی جی ہاں آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ تو وہ چیز ہے کہ جسے اللہ نے آدم (علیہ السلام) کی بیٹیوں کے لئے لکھ دیا ہے تم اسی طرح کرو جس طرح حاجی کرتے ہیں سوائے اس کے کہ بیت اللہ کا طواف نہ کرنا جب تک کہ تو پاک نہ ہوجائے حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ ہم مکہ میں آئے تو رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ (رض) سے فرمایا کہ تم اپنے احرام کو عمرہ کا احرام کر ڈالو تو پھر وہ لوگ تو حلال ہوگئے کہ جن کے پاس قربانی کے جانور تھے حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ نبی ﷺ ، حضرت ابوبکر (رض) عمر (رض) اور دیگر مالدار لوگوں کے پاس قربانی کے جانور تھے پھر جس وقت وہ چلے تو انہوں نے احرام باندھ لیا حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ جب یوم النحر کا دن ہوا تو میں پاک ہوگئی تو رسول اللہ ﷺ نے مجھے حکم فرمایا کہ میں طواف افاضہ کرلوں حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ پھر ہمیں گائے کا گوشت دیا گیا میں نے پوچھا کہ یہ کیا ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ یہ رسول اللہ ﷺ کی اپنی ازواج مطہرات (رض) کی طرف سے گائے کی قربانی کی تھی۔ تو جب محصب کی رات ہوئی تو میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول لوگ تو حج اور عمرہ کرکے واپس لوٹیں گے اور میں صرف حج کر کے واپس لوٹوں گی حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ آپ ﷺ نے حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر (رض) کو حکم فرمایا تو وہ مجھے اپنے اونٹ پر بٹھا کر اپنے ساتھ لے گئے حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ مجھے یاد ہے کہ میں ان دنوں ایک کم عمر لڑکی تھی مجھے اونگھ آجاتی تو پالان کی پچھلی لکڑی میرے چہرے کو لگتی تھی یہاں تک کہ ہم تنعیم کی طرف آگئے تو میں نے اس جگہ سے عمرہ کا احرام باندھا اور یہ عمرہ اس عمرہ کے بدلہ میں تھا جو لوگوں نے کیا تھا

【130】

احرام کی اقسام کے بیان میں

ابوایوب بن غیلانی، بہز، حماد، عبدالرحمن، سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ ہم نے حج کا تلبیہ پڑھا (حج کا احرام باندھا) یہاں تک کہ جب ہم سرف کے مقام پر آئے تو میں حائضہ ہوگئی تو رسول اللہ ﷺ میری طرف تشریف لائے جبکہ میں رو ہی تھی آگے حدیث پچھلی حدیث کی طرح ہے سوائے اس کے کہ حماد کی حدیث میں یہ نہیں ہے کہ نبی ﷺ اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر (رض) اور دوسرے صاحب ثروت صحابہ (رض) کے پاس قربانی کا جانور تھا اور نہ ہی حضرت عائشہ کا قول ہے کہ میں کم عمر لڑکی تھی اور اونگھنے لگتی تھی جس کی وجہ سے میرے چہرے پر کجاوے کی پچھلی لکڑی لگ جاتی تھی۔

【131】

احرام کی اقسام کے بیان میں

اسماعیل بن ابی اویس، مالک بن انس، یحییٰ بن یحیی، مالک، عبدالرحمن بن قاسم، سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حج افراد کیا ہے۔

【132】

احرام کی اقسام کے بیان میں

محمد بن عبداللہ بن نمیر، اسحاق بن سلیمان، افلح بن حمید، قاسم، سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ حج کے مہینوں میں ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج کا احرام باندھ کر نکلے جب ہم سرف کے مقام پر آئے تو آپ ﷺ اپنے صحابہ کی طرف آئے اور فرمایا کہ تم میں سے جس کے پاس قربانی کا جانور نہ ہو اور وہ پسند کرتا ہو کہ اپنے اس احرام کو عمرہ کے احرام میں بدل لے تو وہ ایسے کرلے اور جس کے پاس قربانی کا جانور نہ ہو تو وہ اس طرح نہ کرے تو ان میں سے کچھ نے اس پر عمل کیا اور کچھ نے چھوڑ دیا اور رسول اللہ ﷺ کے پاس قربانی کا جانور تھا اور آپ ﷺ کے صحابہ (رض) میں سے جو آدمی اس کی طاقت رکھتے تھے ان کے پاس بھی ہدی تھی رسول اللہ ﷺ میری طرف تشریف لائے اور میں رو رہی تھی آپ ﷺ نے فرمایا اے عائشہ ! تم کس وجہ سے رو رہی ہو میں نے عرض کیا کہ آپ ﷺ نے اپنے صحابہ کو جو فرمایا میں نے سن لیا اور میں نے عمرہ کے بارے میں سنا ہے آپ ﷺ نے فرمایا تجھے اس سے کیا غرض ؟ میں نے عرض کیا کہ میں نماز نہ پڑھ سکوں گی آپ ﷺ نے فرمایا کہ تجھے اس سے کوئی نقصان نہیں ہوگا تم اپنے حج میں رہو شاید کہ اللہ تمہیں عمرہ کی توفیق عطا فرما دے اور بات دراصل یہ ہے کہ تم حضرت آدم (علیہ السلام) کی بیٹیوں میں سے ہو اللہ نے تمہارے لئے بھی وہی مقدر کیا ہے جو دوسری عورتوں کے لئے مقدر کیا ہے۔ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں اپنے مناسک حج کی ادائیگی کے لئے نکلی یہاں تک کہ جب ہم منیٰ پہنچ گئے تو میں وہاں پاک ہوگئی پھر ہم نے بیت اللہ کا طواف کیا اور رسول اللہ ﷺ وادی محصب میں اترے تو حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر (رض) کو بلایا اور فرمایا کہ اپنی بہن کے ساتھ حرم سے نکلو تاکہ یہ عمرہ کا احرام باندھ لیں پھر بیت اللہ کا طواف کریں اور میں یہاں تم دونوں کا انتظار کر رہا ہوں۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ہم نکلے میں نے احرام باندھا پھر میں نے بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا ومروہ کا طواف (سعی) کی پھر ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس رات کے درمیانی حصہ میں آپ ﷺ کی جگہ میں آئے تو آپ ﷺ نے فرمایا کیا تم فارغ ہوگئی ہو ؟ میں نے عرض کیا ہاں پھر آپ ﷺ نے اپنے صحابہ (رض) کو یہاں سے کوچ کرنے کی اجارت عطا فرمائی تو آپ ﷺ نکلے اور جب بیت اللہ کے پاس سے گزرے تو آپ ﷺ نے صبح کی نماز سے پہلے بیت اللہ کا طواف کیا پھر آپ ﷺ مدینہ کی طرف نکلے۔

【133】

احرام کی اقسام کے بیان میں

یحییٰ بن ایوب، عباد بن عباد مہلبی، عبیداللہ بن عمر، قاسم بن محمد، ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ ہم میں سے کچھ نے حج افراد کا احرام باندھا اور کچھ نے حج قران کا اور کچھ نے حج تمتع کا احرام باندھا۔

【134】

احرام کی اقسام کے بیان میں

عبد بن حمید، محمد بن بکر، ابن جریج، عبیداللہ بن عمر، قاسم بن محمد، حضرت قاسم بن محمد (رض) نے فرمایا کہ حضرت عائشہ (رض) حج کا احرام باندھ کر آئی تھیں

【135】

احرام کی اقسام کے بیان میں

عبداللہ بن مسلمہ بن قعنب، سلیمان یعنی ابن بلال، یحییٰ ابن سعید، حضرت عمرۃ (رض) سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ (رض) کو فرماتے ہوئے سنا کہ ماہ ذی قعدہ سے ابھی پانچ دن باقی تھے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے اور ہمارا حج کے سوا اور کوئی ارادہ نہیں تھا یہاں تک کہ جب ہم مکہ کے قریب پہنچے تو رسول اللہ ﷺ نے حکم فرمایا کہ جس کے ساتھ قربانی کا جانور نہ ہو تو وہ بیت اللہ کا طواف اور صفا اور مروہ کے درمیان سعی کے بعد حلال ہوجائے احرام کھول دے حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ قربانی کے دن ہماری طرف گائے کا گوشت آیا تو میں نے پوچھا کہ یہ کیا ہے ؟ تو مجھے کہا گیا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ازواج مطہرات کی طرف سے گائے ذبح کی ہے یحییٰ کہتے ہیں کہ میں نے اس حدیث کو قاسم بن محمد سے ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ اللہ کی قسم تو نے یہ حدیث بالکل اسی طرح بیان کی ہے۔

【136】

احرام کی اقسام کے بیان میں

محمد بن مثنی، عبدالوہاب، حضرت یحییٰ بن سعید سے اس سند کی ساتھ اسی حدیث کی طرح نقل کی گئی۔

【137】

احرام کی اقسام کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابن علیہ، ابن عون، ابراہیم، اسود، ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! لوگ تو دو مناسک حج اور عمرہ کر کے واپس ہوں گے اور میں ایک ہی مناسک کر کے لوٹوں گی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تو انتظار کر اور جب تو پاک ہوجائے گی تو تنعیم کی طرف نکل اور وہاں سے احرام باندھ پھر ہم سے فلاں مقام کے پاس آکر مل جانا۔

【138】

احرام کی اقسام کے بیان میں

ابن مثنی، ابن ابی عدی، ابن عون، قاسم، ابراہیم، ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) عرض کرتی ہیں اے اللہ کے رسول ﷺ ! دوسرے لوگ تو دو عبادتیں کر کے واپس لوٹیں گے پھر اسی طرح حدیث ذکر کی۔

【139】

احرام کی اقسام کے بیان میں

زہیر بن حرب، اسحاق بن ابراہیم، جریر، منصور، ابراہیم، اسود، ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے اور حج کے علاوہ ہمارا اور کوئی ارادہ نہیں تھا تو جب ہم مکہ آگئے تو ہم نے بیت اللہ کا طواف کیا پھر رسول اللہ ﷺ نے حکم فرمایا کہ جو آدمی ہدی (قربانی کا جانور) لے کر نہ آیا ہو تو وہ حلال ہوجائے احرام کھول دے حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ جو لوگ ہدی ساتھ نہیں لائے تھے وہ تو حلال ہوگئے اور آپ ﷺ کی ازواج مطہرات (رض) بھی ہدی ساتھ نہیں لائی تھیں اس لئے انہوں نے بھی احرام کھول دئیے حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں حائضہ ہوگئی اور میں بیت اللہ کا طواف نہ کرسکی تو جب حصبہ کی رات ہوئی تو حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا اللہ کے رسول ﷺ لوگ تو عمرہ اور حج کر کے واپس لوٹیں گے اور میں صرف حج کے ساتھ واپس لوٹوں گی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اے عائشہ ! کیا جن راتوں میں ہم مکہ آئے تھے اس وقت تم نے طواف نہیں کیا تھا ؟ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا نہیں آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم اپنے بھائی کے ساتھ تنعیم کی طرف جاؤ اور وہاں سے عمرہ کا احرام باندھ کر عمرہ کرلو اور پھر فلاں فلاں جگہ ہم سے آکر مل جانا حضرت صفیہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں تمہیں روکنے والی ہوں آپ ﷺ نے (پیار سے) فرمایا زخمی اور سر منڈی کیا تو نے قربانی کے دن (یوم نحر) طواف نہیں کیا تھا ؟ حضرت صفیہ (رض) نے عرض کی جی ہاں آپ ﷺ نے فرمایا کوئی حرج نہیں اب چلو حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے میں اس حال میں ملی کہ آپ ﷺ مکہ سے بلندی پر چڑھ رہے تھے اور میں اتر رہی تھی یا میں بلندی پر چڑھ رہی تھی اور آپ ﷺ اتر رہے تھے۔

【140】

احرام کی اقسام کے بیان میں

سوید بن سعید، علی بن مسہر، اعمش، ابراہیم، اسود، سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تلبیہ پڑھتے ہوئے نکلے نہ ہم نے حج کا ذکر کیا اور نہ ہی عمرہ کا ذکر کیا۔

【141】

احرام کی اقسام کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، محمد بن مثنی، ابن بشار، غندر، ابن مثنی، محمد بن جعفر، شعبہ، حکم، علی بن حسین، ذکوان مولیٰ عائشہ، سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ذی الحجہ کے چار یا پانچ دن گزرے تھے کہ غصہ حالت میں میرے پاس تشریف لائے تو میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! آپ ﷺ کو کس نے ناراض کیا ہے ؟ اللہ اس کو دوزخ میں داخل کرے آپ ﷺ نے فرمایا کیا تم نہیں جانتیں کہ میں نے لوگوں کو ایک کام کے کرنے کا حکم دیا تھا جبکہ لوگ اس میں تردد کر رہے ہیں حکم راوی کہتے ہیں گویا کہ وہ لوگ تردد میں ہیں اور میں گمان کرتا ہوں کہ اگر مجھے میرے معاملہ کا پہلے علم ہوجاتا تو میں قربانی کا جانور ساتھ نہ لاتا یہاں تک کہ میں قربانی کا جانور خریدتا پھر میں حلال ہوتا جس طرح کہ وہ حلال ہوئے احرام کھولا۔

【142】

احرام کی اقسام کے بیان میں

عبیداللہ بن معاذ، شعبہ، حکم، علی بن حسین، ذکوان، سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ ذی الحجہ کے چار پانچ دن گزرے ہوں گے کہ نبی کریم ﷺ تشریف لائے حدیث اسی طرح سے ہے۔

【143】

احرام کی اقسام کے بیان میں

محمد بن حاتم، بہز، وہیب، عبیداللہ بن طاؤس، سیدہ عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے عمرہ کا احرام باندھا اور مکہ آگئیں اور ابھی بیت اللہ کا طواف نہیں کیا تھا کہ وہ حائضہ ہوگئیں تو پھر انہوں نے حج کا احرام باندھ کر حج کے تمام مناسک ادا کئے تو نبی ﷺ نے واپسی والے دن حضرت عائشہ (رض) سے فرمایا کہ تیرا طواف تیرے حج اور عمرہ کے لئے کافی ہوجائے گا تو حضرت عائشہ (رض) نے انکار کیا اس کو مناسب نہ سمجھا تو آپ ﷺ نے حضرت عائشہ (رض) کو حضرت عبدالرحمن (رض) کے ساتھ تنعیم کی طرف بھیجا پھر انہوں نے حج کے بعد عمرہ ادا کیا۔

【144】

احرام کی اقسام کے بیان میں

حسن بن علی حلوانی، زید بن حباب، ابراہیم بن نافع، عبداللہ بن ابی نجیح، مجاہد، سیدہ عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ وہ سرف کے مقام پر حائضہ ہوگئیں اور عرفہ کے دن حیض سے پاک ہوئیں تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے فرمایا کہ صفا اور مروہ کا طواف تیرے حج اور تیرے عمرہ کے طواف سے کفایت کر جائے گا۔

【145】

احرام کی اقسام کے بیان میں

یحییٰ بن حبیب حارثی، خالد بن حارث، قرہ، عبدالحمید بن جبیر بن شیبہ، صفیہ، بنت شیبہ، حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول کیا لوگ دو اجر لے کر واپس لوٹیں گے اور میں ایک اجر لے کر واپس لوٹوں گی تو آپ ﷺ نے حضرت عبدالرحمن بن ابی ابکر (رض) کو حکم فرمایا کہ وہ حضرت عائشہ (رض) کو تنعیم لے کر چلیں حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ انہوں نے مجھے اپنے پیچھے اپنے اونٹ پر بٹھا لیا حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں اپنے دو پٹے کو اپنی گردن سے ہٹاتی تو وہ سواری کے بہانے میرے پاؤں پر مارتے میں نے ان سے کہا کہ کیا تم کسی کو دیکھ رہے ہو ؟ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے عمرہ کا احرام باندھا پھر ہم واپس آئے یہاں تک کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس وادی حصبہ میں پہنچ گئے۔

【146】

احرام کی اقسام کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابن نمیر، سفیان، عمرو، عمرو بن اوس، حضرت عبدالرحمن بن ابی بکرہ (رض) فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے انہیں حکم فرمایا کہ وہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کو تنعیم سے عمرہ کروا لائیں

【147】

احرام کی اقسام کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، محمد بن رمح، لیث بن سعد، قتیبہ، ابوزبیر، حضرت جابر (رض) سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج افراد کا احرام باندھا اور حضرت عائشہ (رض) عمرہ کا احرام باندھ کر گئیں یہاں تک کہ جب ہم مقام سرف پر پہنچے تو حضرت عائشہ (رض) حیض میں مبتلا ہوگئیں تو جب ہم مکہ آگئے اور ہم نے کعبۃ اللہ کا طواف کیا اور صفا ومروہ کے درمیان سعی کی تو رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم فرمایا کہ ہم میں سے جس آدمی کے پاس قربانی کا جانور نہ ہو تو وہ حلال ہوجائے یعنی احرام کھول دے ہم نے عرض کیا کہ حلال ہونے کا کیا مطلب ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ سارا حلال ہوجائے تو ہم اپنی عورتوں سے ہمبستر ہوئے اور ہم نے خوشبو لگائی اور ہم نے سلے ہوئے کپڑے پہنے اور ہمارے اور عرفہ کے درمیان صرف چار راتیں باقی تھیں پھر ہم نے یوم ترویہ یعنی آٹھ ذی الحجہ کے حج کا احرام باندھ لیا پھر رسول اللہ ﷺ حضرت عائشہ (رض) کے پاس گئے تو ان کو روتا ہوا پایا تو آپ ﷺ نے فرمایا کیا ہوا ؟ حضرت عائشہ (رض) نے عرض کیا کہ میں حائضہ ہوگئی ہوں اور لوگ حلال ہوگئے اور میں حلال نہیں ہوئی اور نہ ہی میں نے بیت اللہ کا طواف کیا ہے اور لوگ اب حج کی طرف جا رہے ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ ایک ایسا امر ہے جسے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کی بیٹیوں کے لئے لکھ دیا ہے غسل کر پھر حج کا احرام باندھ تو حضرت عائشہ (رض) نے اسی طرح کیا اور تمام ٹھہرنے کی جگہوں پر ٹھہریں یہاں تک کہ جب وہ پاک ہوگئیں تو حضرت عائشہ (رض) نے کعبہ کا طواف کیا اور صفا ومروہ کی سعی کی پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم اپنے حج اور عمرہ سے حلال ہوگئی ہو۔ حضرت عائشہ (رض) نے عرض کی کہ میں اپنے جی میں یہ بات محسوس کرتی ہوں کہ میں نے حج سے پہلے بیت اللہ کا طواف نہیں کیا آپ ﷺ نے فرمایا اے عبدالرحمن عائشہ (رض) کو لے جاؤ اور ان کو تنعیم سے عمرہ کراؤ اور یہ وادی محصب کی رات کی بات ہے۔

【148】

احرام کی اقسام کے بیان میں

محمد بن حاتم، عبد بن حمید، ابن حاتم، عبد، محمد بن بکر، ابن جریج، ابوزبیر، حضرت جابر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے حضرت عائشہ (رض) کے پاس اس حال میں تشریف لے گئے کہ وہ رو رہی تھیں پھر اس سے آگے آخر تک اسی طرح حدیث ذکر فرمائی۔

【149】

احرام کی اقسام کے بیان میں

ابوغسان مسمعی، معاذ ابن ہشام، مطر، ابی زبیر، حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ (رض) نے نبی ﷺ کے ساتھ حج وعمرہ کا احرام باندھا پھر اس کے بعد لیث کی حدیث کی طرح حدیث بیان کی اور اس حدیث میں یہ زائد ہے راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نرم دل آدمی تھے حضرت عائشہ (رض) جب بھی آپ ﷺ سے کسی چیز کا مطالبہ کرتیں تو آپ ﷺ اسے پورا فرما دیتے آپ ﷺ نے حضرت عائشہ (رض) کو حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر (رض) کے ساتھ بھیجا تو انہوں نے آپ کو تنعیم سے احرام بندھوا کر عمرہ کرایا ایک روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ (رض) جب حج کرتیں تو اسی طرح کرتیں جس طرح انہوں نے نبی ﷺ کے ساتھ حج کیا۔

【150】

احرام کی اقسام کے بیان میں

احمد بن یونس، زہیر، ابوزبیر، حضرت جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج کا احرام باندھے ہوئے تھے جبکہ عورتیں اور بچے بھی ہمارے ساتھ تھے جب ہم مکہ آگئے تو ہم نے بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا ومروہ کے درمیان سعی کی تو رسول اللہ ﷺ نے ہمیں فرمایا کہ جس آدمی کے پاس ہدی قربانی کا جانور نہ ہو تو وہ حلال ہوجائے راوی کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا کہ حلال کیسے ہوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ کلی طور پر حلال ہوجاؤ راوی کہتے ہیں کہ پھر ہم نے اپنی عورتوں سے مقاربت کی اور سلے ہوئے کپڑے پہنے اور خوشبو لگائی پھر جب ترویہ کا دن ہوا تو ہم نے حج کا احرام باندھا اور ہمیں صفا مروہ کا پہلا طواف ہی کافی ہوگیا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم فرمایا کہ اونٹ اور گائے کی قربانی میں ہم میں سے سات آدمی شریک ہوجائیں یعنی سات آدمی مل کر ایک اونٹ یا ایک گائے کی قربانی کریں۔

【151】

احرام کی اقسام کے بیان میں

محمد بن حاتم، یحییٰ بن سعید، ابن جریج، ابوزبیر، حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے فرمایا کہ جب ہم حلال ہوگئے تو رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم فرمایا کہ ہم احرام باندھ کر منیٰ جائیں حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں جبکہ ہم نے ابطح کے مقام سے احرام باندھا۔

【152】

احرام کی اقسام کے بیان میں

محمد بن حاتم، یحییٰ بن سعید، ابن جریج، عبد بن حمید، محمد بن بکر، حضرت جابر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے طواف کیا اور نہ ہی آپ ﷺ نے صفا اور مروہ کے درمیان طواف (سعی) کیا مگر ایک ہی طواف کیا محمد بن بکر کی حدیث میں یہ زائد ہے کہ پہلے والا طواف کیا۔

【153】

احرام کی اقسام کے بیان میں

محمد بن حاتم، یحییٰ بن سعید قطان، ابن جریج، عطاء، حضرت جابر فرماتے ہیں کہ ذی الحجہ کی چار تاریخ کی صبح کو نبی ﷺ تشریف لائے اور ہمیں حکم فرمایا کہ ہم حلال ہوجائیں احرام کھول دیں عطاء کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم حلال ہوجاؤ اور اپنی بیویوں کے پاس جاؤ عطاء کہتے ہیں کہ یہ حکم ان پر ضروری نہ تھا لیکن ان کی بیویاں ان کے لئے حلال ہوگئی تھیں ہم نے کہا کہ اب عرفہ میں صرف پانچ دن رہ گئے ہیں اور آپ ﷺ نے ہمیں اپنی بیویوں سے مقاربت کا حکم فرمایا تو کیا ہم اس حال میں عرفہ میں آئیں گے کہ ہم سے مقاربت کے اثرات ظاہر ہو رہے ہوں گے عطاء کہتے ہیں کہ حضرت جابر (رض) یہ کہتے ہوئے اٹھے ہاتھوں کو ہلا رہے تھے راوی کہتے ہیں کہ نبی ﷺ کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ تم خوب جانتے ہو کہ میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں اور تم میں سے سب سے زیادہ سچا ہوں اور تم میں سے سب سے زیادہ نیک ہوں اور اگر میں نے ہدی نہ بھیجی ہوتی تو میں بھی حلال ہوجاتا جیسا کہ تم حلال ہوئے ہو۔ اور اگر میں اس معاملہ کی طرف پہلے متوجہ ہوجاتا جس طرف بعد میں متوجہ ہوا تو میں ہدی ہی نہ بھیجتا اب تم حلال ہوجاؤ تو ہم نے اطاعت کی عطاء کہتے ہیں کہ حضرت جابر (رض) نے فرمایا کہ حضرت علی صدقات وغیرہ وصول کر کے آئے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تو نے احرام باندھا تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی (رض) سے فرمایا کہ اپنی ہدی بھیج دو اور احرام کی حالت میں ٹھہرے رہو راوی کہتے ہیں کہ حضرت علی (رض) آپ ﷺ کے لئے ہدی لائے سراقہ بن مالک بن جعثم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! کیا یہ حکم صرف اس سال کے لئے ہے یا ہمیشہ کے لئے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہمیشہ کے لئے۔

【154】

احرام کی اقسام کے بیان میں

ابن نمیر، عبدالملک بن ابی سلیمان، عطاء، حضرت جابر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہم نے حج کا احرام باندھا تو جب ہم مکہ میں آگئے تو آپ ﷺ نے ہمیں حکم فرمایا کہ ہم حلال ہوجائیں اور اس احرام کو عمرہ کے احرام میں بدل لیں تو یہ بات ہم کو دشوار لگی اور ہم نے اپنے سینوں میں تنگی محسوس کی یہ بات نبی ﷺ تک پہنچ گئی ہم نہیں جانتے کہ آپ ﷺ تک یہ بات کیسے پہنچی ؟ آسمان سے یا لوگوں میں سے کسی نے آپ ﷺ تک یہ بات پہنچائی تو آپ ﷺ نے فرمایا اے لوگو ! تم حلال ہوجاؤ احرام کھول دو اور اگر میرے ساتھ ہدی نہ ہوتی تو میں بھی اسی طرح کرتا جس طرح کہ تم نے کیا راوی کہتے ہیں کہ پھر ہم نے احرام کھول دیا اور ہم نے اپنی بیویوں سے جماع کیا اور وہ سارے کام کئے جو ایک حلال کرتا ہے یہاں تک کہ جب ترویہ کا دن آیا یعنی ذی الحجہ کی آٹھ تاریخ ہوئی تو ہم نے مکہ سے پشت پھیری اور ہم نے حج کا احرام باندھا۔

【155】

احرام کی اقسام کے بیان میں

ابن نمیر، ابونعیم، حضرت موسیٰ بن نافع کہتے ہیں کہ میں عمرہ کے احرام سے تمتع کا احرام کر کے ذی الحجہ کی آٹھ یوم ترویہ سے چار دن پہلے مکہ آگیا تو لوگوں نے کہا کہ اب تمہارا حج مکہ والوں کے حج کی طرح ہوجائے گا میں عطاء بن ابی رباح کے پاس گیا اور ان سے اس بارے میں پوچھا تو عطاء نے کہا کہ مجھے حضرت جابر بن عبداللہ انصاری (رض) نے یہ حدیث بیان کی کہ انہوں نے جس سال رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج کیا تھا اسی سال آپ ﷺ کی ہدی آپ ﷺ کے ساتھ تھی اور کچھ صحابہ نے حج افراد کا احرام باندھا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم ایسے احرام سے حلال ہوجاؤ اور تم بیت اللہ کا طواف کرو اور صفا مروہ کے درمیان سعی کرو اور بال کٹواؤ اور حلال ہو کر رہو یہاں تک کہ جب ترویہ کا دن آٹھ ذی الحجہ ہوگا تو تم حج کا احرام باندھ لینا اور اپنے پہلے والے احرام کو تمتع کرلو لوگوں نے عرض کیا کہ ہم اسے تمتع کیسے کریں اور ہم نے تو حج کی نیت کی تھی آپ ﷺ نے فرمایا کہ جس کا میں تمہیں حکم دے رہا ہوں اور میں اپنے احرام سے اس وقت تک حلال نہیں ہوسکتا جب تک کہ ہدی اپنی جگہ نہ پہنچ جائے تب انہوں نے اسی طرح کرلیا۔

【156】

احرام کی اقسام کے بیان میں

محمد بن معمر بن ربعی قیسی، ابوہشام مغیرہ، ابن سلمہ مخزومی، ابی عوانہ، ابی بشر، عطاء بن ابی رباح، حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے فرمایا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج کا احرام باندھے ہوئے آئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ہم اس حج کے احرام کو عمرہ کا احرام کردیں اور ہم حلال ہوجائیں عمرہ کرکے احرام کھولتے ہیں راوی کہتے ہیں کہ آپ ﷺ کے ساتھ قربانی کا جانور تھا اس لئے آپ ﷺ اپنے اس حج کے احرام کو عمرہ کا احرام نہ کرسکے۔

【157】

حج اور عمرہ میں تمتع کے بیان میں

محمد بن مثنی، ابن بشار، ابن مثنی، محمد بن جعفر، شعبہ، قتادہ، حضرت ابونضرہ (رض) سے روایت ہے کہ فرمایا کہ حضرت ابن عباس (رض) ہمیں حج تمتع کرنے کا حکم فرماتے تھے اور حضرت ابن زیبر حج تمتع سے منع فرماتے تھے راوی کہتے ہیں کہ میں نے اس کا ذکر حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے کیا تو انہوں نے فرمایا کہ یہ حدیث تو میرے ہی ہاتھوں سے لوگوں میں پھیلی ہے ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج تمتع کیا ہے تو جب حضرت عمر (رض) کھڑے ہوئے خلیفہ بنے تو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول کے لئے جو چاہتا ہے جس طرح چاہتا ہے حلال کرتا ہے اور قرآن مجید نے اس کے احکام نازل فرمائے ہیں کہ تم حج اور عمرہ پورا کرو جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں حکم دیا ہے اور ان عورتوں سے نکاح کرو تو کوئی آدمی ایسا نہ لایا جائے جس نے ایک عورت سے مقررہ مدت تک نکاح کیا ہو (متعہ) ورنہ میں پتھروں کے ساتھ مار مار کر اس کو رجم کر دوں گا۔

【158】

حج اور عمرہ میں تمتع کے بیان میں

زہیر بن حرب، عفان، ہمام، قتادہ، حضرت قتادہ (رض) نے اس سند کے ساتھ یہ حدیث بیان کی ہے جس میں ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ تم اپنے حج کو اپنے عمرہ سے علیحدہ کرو کیونکہ اس سے تمہارا حج بھی پورا ہوجائے گا اور تمہارا عمرہ بھی پورا ہوگا۔

【159】

حج اور عمرہ میں تمتع کے بیان میں

خلف بن ہشام، ابوربیع، قتیبہ، حماد، حماد بن زید، ایوب، مجاہد، حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے فرمایا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ آئے اس حال میں کہ ہم حج کا تلبیہ پڑھ رہے تھے حج کا احرام باندھا ہوا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم فرمایا کہ ہم اس حج کے احرام کو عمرہ کا احرام کردیں۔

【160】

نبی ﷺ کے حج کی کیفیت کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، اسحاق بن ابراہیم، حاتم، ابوبکر، حاتم بن اسماعیل مدنی، حضرت جعفر بن محمد (رض) نے اپنے باپ سے روایت نقل کی ہے فرماتے ہیں کہ ہم حضرت جابر بن عبداللہ (رض) کے پاس گئے تو انہوں نے ہم لوگوں کے بارے میں پوچھا یہاں تک کہ میری طرف متوجہ ہوئے میرے بارے میں پوچھا تو میں نے عرض کیا کہ میں محمد بن علی بن حسین (رض) ہوں تو حضرت جابر (رض) نے اپنا ہاتھ میرے سر پر رکھا اور انہوں نے میری قمیص کا سب سے اوپر والا بٹن کھولا پھر نیچے والا بٹن کھولا پھر حضرت جابر (رض) نے اپنی ہتھیلی میرے سینے کے درمیان میں رکھی اور میں ان دنوں ایک نوجوان لڑکا تھا تو حضرت جابر (رض) نے فرمایا اے میرے بھتیجے خوش آمدید جو چاہے تو مجھ سے پوچھ تو میں نے حضرت جابر (رض) سے پوچھا اور حضرت جابر نابینا ہوچکے تھے اور نماز کا وقت بھی آگیا تو حضرت جابر (رض) ایک چادر اوڑھے ہوئے کھڑے ہوگئے جب بھی اپنی اس چادر کے دونوں کناروں کو اپنے کندھوں پر رکھتے تو چادر چھوٹی ہونے کی وجہ سے دو کنارے نیچے گرجاتے اور ان کے بائیں طرف ایک کھونٹی کے ساتھ ایک چادر لٹکی ہوئی تھی حضرت جابر (رض) نے ہمیں نماز پڑھائی پھر میں نے عرض کیا کہ مجھے رسول اللہ ﷺ کے حج کے بارے میں خبر دیں پھر انہوں نے اپنے ہاتھ سے نو کا اشارہ کیا اور فرمانے لگے کہ نبی ﷺ نو سال تک مدینہ میں رہے اور آپ ﷺ نے حج نہیں فرمایا پھر دسویں سال لوگوں میں اعلان کیا گیا کہ رسول اللہ ﷺ حج کرنے والے ہیں چناچہ مدینہ منورہ سے بہت لوگ آگئے اور وہ سارے کے سارے اس بات کے متلاشی تھے کہ آپ ﷺ کے ساتھ حج کے لئے جائیں تاکہ وہ آپ ﷺ کے اعمال حج کی طرح اعمال کریں۔ ہم آپ ﷺ کے ساتھ نکلے جب ہم ذوالحلیفہ آئے تو حضرت اسماء بنت عمیس (رض) کے ہاں محمد بن ابی بکر کی پیدائش ہوئی حضرت اسماء (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ میں اب کیا کروں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم غسل کرو اور ایک کپڑے کا لنگوٹ باندھ کر اپنا احرام باندھ لو تو رسول اللہ ﷺ نے مسجد میں نماز پڑھی پھر قصویٰ اونٹنی پر سوار ہوئے یہاں تک کہ جب آپ ﷺ کی اونٹنی بیداء کے مقام پر سیدھی کھڑی ہوگئی تو میں نے انتہائی نظر تک اپنے سامنے دیکھا تو مجھے سواری پر اور پیدل چلتے ہوئے لوگ نظر آئے اور میرے دائیں بائیں اور پیدل چلتے ہوئے لوگوں کا ہجوم تھا اور رسول اللہ ﷺ ہمارے ساتھ تھے اور آپ ﷺ پر قرآن نازل ہوتا تھا جس کی مراد آپ ﷺ ہی زیادہ جانتے تھے اور آپ ﷺ جو عمل کرتے تھے تو ہم بھی وہی عمل کرتے تھے اور آپ ﷺ نے توحید کے ساتھ تلبیہ کے کلمات پر اضافہ پڑھا ( لَبَّيْکَ اللَّهُمَّ لَبَّيْکَ لَبَّيْکَ لَا شَرِيکَ لَکَ لَبَّيْکَ إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَکَ وَالْمُلْکَ لَا شَرِيکَ لَکَ ) اور لوگوں نے بھی اسی طرح پڑھا اور رسول اللہ ﷺ نے ان تلبیہ کے کلمات پر اضافہ نہیں فرمایا اور رسول اللہ ﷺ یہی تلبیہ کے کلمات پڑھتے رہے حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ ہم نے صرف حج کی نیت کی تھی اور ہم عمرہ کو نہیں پہچانتے تھے یہاں تک کہ جب ہم بیت اللہ آئے تو آپ ﷺ نے حجر اسود کا استلام فرمایا اور طواف کے پہلے تین چکروں میں رمل کیا اور باقی چار چکروں میں عام چال چلے پھر آپ ﷺ مقام ابراہیم کی طرف آئے اور آپ ﷺ نے یہ آیت پڑھی (وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّی) 2 ۔ البقرۃ : 125) اور تم بناؤ مقام ابراہیم کو نماز پڑھنے کی جگہ، پھر آپ ﷺ نے مقام ابراہیم کو اپنے اور بیت اللہ کے درمیان کیا آپ ﷺ نے دو رکعت نماز پڑھائی اور ان دو رکعتوں میں آپ ﷺ نے ( قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ اور قُلْ يَا أَيُّهَا الْکَافِرُونَ ) پڑھی پھر آپ ﷺ حجر اسود کی طرف آئے اور اس کا استلام کیا پھر آپ ﷺ دروازہ سے صفا کی طرف نکلے تو جب آپ ﷺ صفا کے قریب ہوگئے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں وہاں سے شروع کروں گا جہاں سے اللہ نے شروع کیا ہے پھر آپ ﷺ نے صفا سے آغاز فرمایا اور صفا پر چڑھے آپ ﷺ نے بیت اللہ کو دیکھا اور قبلہ کی طرف رخ کیا اور اللہ کی توحید اور اس کی بڑائی بیان کی اور فرمایا اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اسی کی ملک ہے اور اسی کے لئے ساری تعریفیں ہیں اور وہ ہر چیز پر قادر ہے اللہ کے سوا کوئی مبعود نہیں وہ اکیلا ہے اس نے اپنا وعدہ پورا کیا اور اپنے بندے کی مدد کی اور اس نے اکیلے سارے لشکروں کو شکست دی پھر آپ ﷺ نے دعا کی اور تین مرتبہ اسی طرح فرمایا پھر آپ ﷺ مروہ کی طرف اترے یہاں تک کہ جب آپ ﷺ کے قدم مبارک بطن وادی میں پہنچے تو آپ ﷺ دوڑے یہاں تک کہ ہم بھی چڑھ گئے اور پھر آہستہ چلے یہاں تک کہ مروہ پر آگئے اور مروہ پر بھی اسی طرح کیا جس طرح کہ صفا پر کیا تھا یہاں تک کہ جب مروہ پر آخری چکر ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ لوگوں میں اس طرف پہلے متوجہ ہوجاتا جس طرف کہ بعد میں متوجہ ہوا ہوں تو میں ہدی نہ بھیجتا اور میں اس احرام کو عمرہ کا احرام کردیتا تو تم میں سے جس آدمی کے ساتھ ہدی نہ ہو تو وہ حلال ہوجائے اور اسے عمرہ کے احرام میں بدل لے تو سراقہ بن جعثم کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! کیا یہ حکم اس سال کے لئے ہے یا ہمیشہ کے لئے ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈالیں اور فرمایا کہ عمرہ حج میں داخل ہوگیا ہے دو مرتبہ نہیں بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اور حضرت علی (رض) یمن سے نبی ﷺ کا اونٹ لے کر آئے تو انہوں نے حضرت فاطمہ (رض) کو بھی انہیں میں پایا جو کہ حلال ہوگئے، احرام کھول دیا ہے اور حضرت فاطمہ (رض) نے رنگین کپڑے پہنے ہوئے ہیں اور سرمہ لگایا ہوا ہے تو حضرت علی (رض) نے ان پر اعتراض فرمایا تو حضرت فاطمہ (رض) نے فرمایا کہ مجھے میرے ابا نے اس کا حکم دیا راوی کہتے ہیں کہ حضرت علی (رض) عراق میں یہ کہہ رہے تھے کہ میں حضرت فاطمہ (رض) کے احرام کھولنے کی شکایت لے کر رسول اللہ ﷺ کی طرف گیا اور فاطمہ (رض) نے جو کچھ مجھے بتایا اس کی خبر میں نے رسول اللہ ﷺ کو دی اور اپنے اعتراض کرنے کا بھی ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ (حضرت) فاطمہ نے سچ کہا سچ کہا جس وقت تم نے حج کا ارادہ کیا تھا تو کیا کہا تھا ؟ حضرت علی (رض) نے کہا کہ میں نے کہا اے اللہ میں اس چیز کا احرام باندھتا ہوں کہ جس کے ساتھ رسول اللہ ﷺ نے احرام باندھا ہے آپ ﷺ نے فرمایا کہ میرے پاس تو ہدی ہے تو تم حلال نہ ہونا راوی کہتے ہیں کہ حضرت علی (رض) یمن سے جو اونٹ لے کر آئے تھے اور جو اونٹ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے سارے جمع کر کے سو اونٹ ہوگئے تھے راوی کہتے ہیں کہ پھر سب لوگ حلال ہوگئے اور انہوں نے بال کٹوالئے سوائے نبی ﷺ کے اور ان لوگوں کے جن کے ساتھ ہدی تھی تو جب ترویہ کا دن ہوا آٹھ ذی الحجہ تو انہوں نے منیٰ کی طرف جا کر حج کا احرام باندھا اور رسول اللہ ﷺ بھی سوار ہوئے اور آپ ﷺ نے منٰی میں ظہر، عصر، مغرب اور عشاء اور فجر کی نمازیں پڑھیں پھر آپ ﷺ کچھ دیر ٹھہرے یہاں تک کہ سورج طلوع ہوگیا اور آپ ﷺ نے بالوں سے بنے ہوئے ایک خیمہ کو نمرہ کے مقام پر لگانے کا حکم فرمایا پھر رسول اللہ ﷺ چلے اور قریش کو اس بات کا یقین تھا کہ آپ ﷺ مشعر حرام کے پاس ٹھہریں گے جس طرح کہ قریش جاہلیت کے زمانہ میں کرتے تھے پھر رسول اللہ ﷺ تیار ہوئے یہاں تک کہ آپ ﷺ عرفات کے میدان میں آگئے وہاں آپ ﷺ نے نمرہ کے مقام پر اپنا لگا ہوا خیمہ پایا آپ ﷺ اس خیمے میں ٹھہرے یہاں تک کہ سورج ڈھل گیا پھر آپ ﷺ نے اپنی اونٹنی قصوی کو تیار کرنے کا حکم فرمایا اور بطن وادی میں آکر لوگوں کو خطبہ ارشاد فرمایا اور فرمایا کہ تمہارا خون اور تمہارا مال ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہے جس طرح یہ آج کا دن یہ مہینہ اور یہ شہر حرام ہیں آگاہ رہو کہ جاہلیت کے زمانہ کے کاموں میں سے ہر چیز میرے قدموں کے نیچے پامال ہے اور جاہلیت کے زمانہ کے خون معاف کرتا ہوں اور وہ خون ابن ربیعہ بن حارث کا خون ہے جب کہ نبو سعد دودھ پیتا بچہ تھا جسے ہذیل نے بنو سعد سے جنگ کے دوران قتل کردیا تھا اور جاہلیت کے زمانہ کا سود بھی پامال کردیا گیا ہے اور میں اپنے سود میں سب سے پہلے اپنے چچا عباس بن عبدالمطلب کا سود معاف کرتا ہوں تم لوگ عورتوں کے حقوق ادا کرنے میں اللہ سے ڈرو کیونکہ اللہ کی امانت کے ساتھ انہیں حاصل کیا ہے اور تم نے اللہ کے حکم سے ان کی شرم گاہوں کو حلال سمجھا ہے اور تمہارے لئے ان پر یہ حق ہے کہ وہ تمہارے بستروں پر ایسے کسی آدمی کو نہ آئے دیں کہ جن کو تم ناپسند کرتے ہو اگر وہ اس طرح کریں تو تم انہیں مار سکتے ہو مگر ایسی مار کہ ان کو چوٹ نہ لگے اور ان عورتوں کا تم پر بھی حق ہے کہ تم انہیں حسب استطاعت کھانا پینا اور لباس دو اور میں تم میں ایک چیز چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ جس کے بعد تم کبھی گمراہ نہیں ہوگے اور تم لوگ اللہ کی کتاب قرآن مجید کو مضبوطی سے پکڑے رکھنا اور تم سے میرے بارے میں پوچھا جائے گا تو تم کیا کہو گے ؟ انہوں نے کہا کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ہمیں اللہ کے احکام کی تبلیغ کردی اور آپ ﷺ نے اپنا فرض ادا کردیا اور آپ ﷺ نے خیر خواہی کی یہ سن آپ ﷺ نے شہادت والی انگلی کو آسمان کی طرف بلند کرتے ہوئے اور لوگوں کی طرف منہ موڑتے ہوئے فرمایا اے اللہ ! گواہ رہنا، اے اللہ ! گواہ رہنا، گواہ رہنا، آپ ﷺ نے تین مرتبہ یہ کلمات کہے پھر اذان اور اقامت ہوئی اور آپ ﷺ نے ظہر کی نماز پڑھائی پھر اقامت ہوئی تو آپ ﷺ نے عصر کی نماز پڑھائی اور ان دونوں نمازوں کے درمیان اور کوئی نفل وسنن وغیرہ نہیں پڑھی پھر رسول اللہ ﷺ سوار ہو کر موقف میں آئے اور آپ ﷺ نے اپنی اونٹنی قصوی کا پیٹ پتھروں کی طرف کردیا جو کہ جبل رحمت کے دامن میں بچھے ہوئے تھے اور آپ ﷺ حبل المشاہ کو سامنے لے کر قبلہ کی طرف رخ کر کے کھڑے ہوگئے اور آپ ﷺ دیر تک کھڑے رہے یہاں تک کہ سورج غروب ہونے لگا اور کچھ زردی جاتی رہی یہاں تک کہ ٹکیہ غروب ہوگئی۔ اس وقت آپ ﷺ نے حضرت اسامہ (رض) کو اپنے پیچھے اونٹنی پر سوار کیا اور آپ ﷺ چل پڑے اور اونٹنی قصویٰ کی مہار اتنی کھنچی ہوئی تھی کہ اس کا سر کجاوے کے اگلے حصے سے لگ رہا تھا اور آپ ﷺ اپنے دائیں ہاتھ کے اشارے سے فرما رہے تھے اے لوگو آہستہ آہستہ چلو اور جب کوئی پہاڑ کا ٹیلہ آجاتا تو مہار ڈھیلی چھوڑ دیتے تھے تاکہ اونٹنی آسانی سے اوپر چڑھ سکے یہاں تک کہ مزدلفہ آگیا تو یہاں آپ ﷺ نے ایک اذان اور دو اق امتوں کے ساتھ مغرب اور عشاء کی نمازیں پڑھائیں اور ان دونوں نمازوں کے درمیان کوئی نفل وغیرہ نہیں پڑھے پھر رسول اللہ ﷺ آرام کرنے کے لئے لیٹ گئے یہاں تک کہ فجر طلوع ہوگئی اور جس وقت کہ صبح ظاہر ہوئی تو آپ ﷺ نے اذان اور اقامت کے ساتھ فجر کی نماز پڑھائی پھر آپ ﷺ قصویٰ اونٹنی پر سوار ہو کر مشعر حرام آئے اور قبلے کی طرف رخ کر کے دعا، تکبیر اور تہلیل و توحید میں مصروف رہے دیر تک وہاں کھڑے رہے جب خوب اجالا ہوگیا تو آپ ﷺ نے حضرت فضل بن عباس (رض) کو اپنے پیچھے سوار کیا اور طلوع آفتاب سے پہلے وہاں سے چل پڑے حضرت فضل بن عباس خوبصورت بالوں والے اور گورے رنگ والے ایک خوبصورت آدمی تھے رسول اللہ ﷺ جب انہیں ساتھ لے کر چلے تو کچھ عورتوں کی سواریاں بھی چلتی ہوئی انہیں ملیں تو فضل ان کی طرف دیکھنے لگے آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ مبارک فضل کے چہر پر رکھ کر ادھر سے چہرہ پھیر دیا فضل دوسری طرف بھی عورتوں کی سواریاں دیکھنے لگے آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ مبارک سے اس طرف سے بھی فضل کا چہرہ پھیر دیا یہاں تک کہ وادی محسر میں پہنچ گئے آپ ﷺ نے اونٹنی کو ذرا تیز چلایا اور اس درمیانی راستہ سے چلنا شروع کیا کہ جو جمرہ کبری کی طرف جانکلتا ہے یہاں تک کہ درخت کے پاس جو جمرہ ہے اس کے پاس پہنچ گئے اور اسے سات کنکریاں ماریں اور ہر کنکری پر اللہ اکبر فرمایا اور آپ ﷺ نے ہر کنکری وادی کے اندر سے شہادت والی انگلی کے اشارہ سے ماری جیسے چٹکی سے پکڑ کر کوئی چیز پھینکی جاتی ہے پھر آپ ﷺ قربان گاہ کی طرف آئے اور آپ ﷺ نے اپنے ہاتھوں سے تریسٹھ اونٹ قربان کئے (ذبح کئے) پھر حضرت علی (رض) کو برچھا عطا فرمایا اور انہوں نے باقی قربانیاں ذبح کیں آپ ﷺ نے اپنی قربانیوں میں حضرت علی (رض) کو شریک کرلیا تھا پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ قربانی کے ہر جانور میں سے ایک ایک بوٹی کٹوا کر ہانڈی میں پکوائی جائے پھر آپ ﷺ اور علی (رض) نے اس گوشت میں سے کچھ کھایا اور شوربہ بھی پیا پھر نبی ﷺ سوار ہو کر بیت اللہ کی طرف آئے اور آپ ﷺ نے طواف افاضہ فرمایا اور مکہ میں ظہر کی نماز پڑھ کر بنو عبدالمطلب کے پاس آئے جو کہ زم زم پر کھڑے ہو کر لوگوں کو پانی پلا رہے تھے آپ ﷺ نے فرمایا اے عبدالمطلب کے خاندان والو ! پانی زم زم سے کھینچتے رہو اگر مجھے یہ خوف نہ ہوتا کہ لوگ تمہارے اس پانی پلانے کی خدمت پر غالب آجائیں گے تو میں بھی تمہارے ساتھ مل کر پانی کھینچتا تو لوگوں نے آپ ﷺ کو ایک ڈول پانی کا دیا اور آپ ﷺ نے اس میں سے کچھ پیا۔

【161】

نبی ﷺ کے حج کی کیفیت کے بیان میں

عمر بن حفص بن غیاث، حضرت جعفر بن محمد (رح) بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا انہوں نے فرمایا کہ میں حضرت جابر بن عبداللہ (رض) کے پاس آیا اور میں نے آپ سے رسول اللہ ﷺ کے حج کے بارے میں پوچھا اور پھر انہوں نے حاتم بن اسماعیل کی حدیث کی طرح حدیث بیان کی (اس حدیث میں ہے) کہ عرب کا دستور تھا کہ ابوسیارہ گدھے کی ننگی پشت پر سوار ہو کر ان کو مزدلفہ واپس لاتا تھا تو جب رسول اللہ ﷺ مزدلفہ سے مشعر حرام کی طرف بڑھ گئے تو اہل قریش کو کوئی شک نہ رہا کہ آپ ﷺ مشعر حرام میں قیام فرمائیں گے اور اسی جگہ پر آپ ﷺ کا پڑاؤ ہوگا لیکن آپ ﷺ تو اس سے بھی آگے بڑھ گئے اور آپ ﷺ نے اس جگہ پر کوئی تو جہ نہ دی یہاں تک کہ آپ ﷺ عرفات کے میدان میں آگئے

【162】

اس بات کے بیان میں کہ عرجہ سارا ہی ٹھہرنے کی جگہ ہے۔

عمر بن حفص بن غیاث، جعفر، حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے یہاں قربانی کی اور منیٰ ساری کی ساری قربانی کی جگہ ہے تو تم جہاں اترو وہیں قربانی کرلو اور میں یہاں ٹھہرا اور یہ سارے کا سارا میدان عرفات ہے اور ٹھہرنے کی جگہ ہے اور میں یہیں ٹھہرا مزدلفہ اور یہ ساری کی ساری ٹھہرنے کی جگہ ہے۔

【163】

اس بات کے بیان میں کہ عرجہ سارا ہی ٹھہرنے کی جگہ ہے۔

اسحاق بن ابراہیم، یحییٰ بن آدم، سفیان، جعفر بن محمد، حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب مکہ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے حجر اسود کو استلام بوسہ کیا پھر اپنی دائیں طرف چلے اور طواف کے تین چکروں پر عمل کیا اور باقی چار چکروں میں معمول کے مطابق چل کر طواف کیا۔

【164】

وقوف اور اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کہ جہاں سے دوسرے لوگ لوٹتے ہیں وہان سے تم بھی لوٹو کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، ابومعاویہ، ہشام بن عروہ، سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ اہل قریش اور جو ان کے دین سے موافقت رکھتے تھے وہ مزدلفہ میں ٹھہرتے تھے اور انہوں نے اپنا نام حُمَس رکھا ہوا تھا اور دیگر تمام اہل عرب عرفات کے میدان میں ٹھہرتے تھے تو جب اسلام آیا تو اللہ نے اپنے نبی ﷺ کو حکم فرمایا کہ وہ عرفات کے میدان میں آئیں اور وہیں وقوف کریں پھر واپس اسی جگہ سے لوٹیں اللہ تعالیٰ نے اپنے فرمان (ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ ) میں یہی فرمایا کہ جہاں سے دوسرے لوگ لوٹتے ہیں تم بھی وہیں سے لوٹو۔

【165】

وقوف اور اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کہ جہاں سے دوسرے لوگ لوٹتے ہیں وہان سے تم بھی لوٹو کے بیان میں

ابوکریب، ابواسامہ، ہشام اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے فرمایا کہ سوائے اہل حُمسَ (قریش) کے اہل عرب بیت اللہ کا ننگا طواف کرتے تھے اور حمس قریش اور ان کی اولاد کو کہتے ہیں یہ لوگ ننگا طواف کرتے تھے سوائے ان لوگوں کے جن کو حمس کپڑا دیں مرد مردوں کو اور عورتیں عورتوں کو کپڑا دیتی تھیں اور حمس مزدلفہ سے آگے نہیں نکلتے تھے اور باقی سارے عرفات کے میدان میں پہنچتے تھے ہشام کہتے ہیں کہ میرے باپ نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ حمس وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں اللہ نے فرمایا (ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ ) پھر تم لوٹو اس جگہ سے جہاں سے دوسرے لوگ لوٹتے ہیں حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ یہ لوگ مزدلفہ ہی سے واپس لوٹ آتے تھے اور باقی لوگ عرفات کے میدان سے واپس لوٹتے تھے اور حمس مزدلفہ سے لوٹ کر کہتے تھے کہ ہم حرم کے علاوہ کسی اور جگہ سے نہیں لوٹتے پھر جب یہ آیت نازل ہوئی (ثُمَّ اَفِيْضُوْا مِنْ حَيْثُ اَفَاضَ النَّاسُ ) 2 ۔ البقرۃ : 199) تو وہ لوگ عرفات سے لوٹنے لگے۔

【166】

وقوف اور اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کہ جہاں سے دوسرے لوگ لوٹتے ہیں وہان سے تم بھی لوٹو کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، عمرو ناقد، ابن عیینہ، عمرو، سفیان بن عیینہ، عمرو، محمد بن جبیر، حضرت جبیر بن مطعم (رض) فرماتے ہیں کہ میرا ایک اونٹ گم ہوگیا تو اس کو تلاش کرنے کے لئے عرفہ کے دن گیا تو میں نے رسول اللہ ﷺ کو عرفات کے میدان میں وقوف کرتے ہوئے دیکھا تو میں نے کہا اللہ کی قسم ! یہ تو حمس ہیں ان کو کیا ہوا کہ یہ یہاں ہیں اور قریش حمس میں سے شمار کئے جاتے تھے۔

【167】

اپنے احرام کو دوسرے محرم کے احرام کے ساتھ معلق کرنے کے جواز کے بیان میں

محمد بن مثنی، ابن بشار، ابن مثنی، محمد بن جعفر، شعبہ، قیس بن مسلم، طارق بن شہاب، حضرت موسیٰ (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ ﷺ بطحا (مکہ) میں اونٹ بٹھائے ہوئے تھے تو آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا کیا تو نے حج (کی نعت) کرلی ہے ؟ میں نے عرض کیا جی ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تو نے احرام باندھ لیا ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ میں نے احرام کے ساتھ تلبیہ پڑھا ہے جس طرح کہ نبی ﷺ نے احرام باندھا ہے آپ ﷺ نے فرمایا تو نے بہت اچھا کیا اب بیت اللہ کا طواف اور صفا اور مروہ کی سعی کرو اور حلال ہوجاؤ یعنی احرام کھول دو حضرت ابوموسی (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا ومروہ کی سعی کی پھر میں قبیلہ نبی قیس کی ایک عورت کے پاس آیا اس نے میرے سر میں جوئیں دیکھیں پھر میں نے حج کا احرام باندھا اور میں لوگوں کو اسی کا فتوی دیتا تھا یہاں تک کہ حضرت عمر (رض) کی خلافت کا دور آیا تو ایک آدمی نے ان سے کہا اے ابوموسیٰ یا اے عبداللہ بن قیس اپنے بعض فتوے رہنے دو کیونکہ آپ کو معلوم نہیں کہ امیر المومنین (رض) نے آپ ﷺ کے بعد حج کے احکام میں کیا حکم بیان فرمایا ہے تو حضرت ابوموسیٰ فرمانے لگے اے لوگو ! جن کو ہم نے فتویٰ دیا ہے وہ غور کریں کیونکہ حضرت امیر المومنین (رض) تمہارے پاس تشریف لانے والے ہیں تم ان ہی کی اقتداء کرو راوی کہتے ہیں کہ جب حضرت عمر (رض) عنہ[ فقدم عمر رضي اللہ عنہ فذکرت ] تشریف لائے تو میں نے ان سے اسی چیز کا ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا کہ اگر ہم اللہ تعالیٰ کی کتاب کی پیروی کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی کتاب تو حج اور عمرہ دونوں کو پورا کرنے کا حکم دیتی ہے اور اگر ہم رسول اللہ ﷺ کی سنت کی پیروی کرتے ہیں تو رسول اللہ ﷺ تو اس وقت تک حلال نہیں ہوئے یعنی احرام نہیں کھولا جب تک کہ قربانی اپنی جگہ پر نہیں پہنچی۔

【168】

اپنے احرام کو دوسرے محرم کے احرام کے ساتھ معلق کرنے کے جواز کے بیان میں

عبیداللہ بن معاذ، حضرت شعبہ سے اس سند کے ساتھ اسی طرح یہ حدیث نقل کی گئی ہے۔

【169】

اپنے احرام کو دوسرے محرم کے احرام کے ساتھ معلق کرنے کے جواز کے بیان میں

محمد بن مثنی، عبدالرحمن ابن مہدی، سفیان، قیس، طارق بن شہاب، حضرت ابوموسیٰ (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے خدمت میں آیا اور آپ ﷺ بطحائے مکہ میں اونٹ بٹھائے ہوئے تھے تو آپ ﷺ نے فرمایا کیا تو نے احرام باندھ لیا ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ میں نے نبی ﷺ کے احرام کے موافق باندھا ہے آپ ﷺ نے فرمایا کیا تو ہدی ساتھ لایا ہے ؟ میں نے عرض کیا نہیں آپ ﷺ نے فرمایا تو پھر تو بیت اللہ کا طواف کر اور صفا اور مروہ کی سعی کر پھر حلال ہوجا احرام کھول دے تو میں نے بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا اور مروہ کی سعی کی پھر میں اپنی قوم کی ایک عورت کے پاس آیا تو اس نے میرے سر میں کنگھی کی اور میرا سر دھویا اور میں حضرت ابوبکر (رض) کے دور خلافت اور حضرت عمر (رض) کے دور خلافت میں اسی چیز کا فتوی دیا کرتا تھا۔ تو میں حج کے موسم میں کھڑا ہوا تو ایک آدمی میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ آپ نہیں جانتے کہ حضرت امیر المومنین (رض) نے حج کے احکام کے بارے میں کیا حکم فرمایا ہے میں نے کہا اے لوگو ! جن کو میں نے کسی چیز کے بارے میں فتوی دیا ہے وہ لوگ باز رہیں کیونکہ امیر المومنین (رض) تمہاری طرف آنے والے ہیں تم انہی کی اقتداء کرو پھر جب حضرت امیر المومنین (رض) تشریف لائے تو میں نے عرض کیا کہ آپ نے حج کے بارے میں کیا حکم نافذ فرمایا ہے حضرت امیر المومنین (رض) نے فرمایا کہ اگر ہم اللہ کی کتاب کی پیروی کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ حج اور عمرہ کو اللہ کے لئے پورا کرو اور اگر ہم اپنے نبی ﷺ کی سنت کی پیروی کرتے ہیں تو نبی ﷺ حلال نہیں ہوئے جب تک آپ ﷺ نے قربانی کو نحر نہیں فرما لیا۔

【170】

اپنے احرام کو دوسرے محرم کے احرام کے ساتھ معلق کرنے کے جواز کے بیان میں

اسحاق بن منصور، عبد بن حمید، جعفر بن عون، ابوعمیس، قیس بن مسلم، طارق بن شہاب، حضرت ابوموسی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے یمن کی طرف بھیجا اور میں اسی سال آیا جس سال آپ ﷺ نے حج کا ارادہ فرمایا تو رسول اللہ ﷺ نے مجھے فرمایا اے ابوموسی ! تو نے کیا کہا تھا ؟ آپ ﷺ نے اس وقت فرمایا جس وقت آپ ﷺ احرام باندھ رہے تھے حضرت ابوموسی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا تھا کہ میں نبی ﷺ کے احرام کے مطابق تلبیہ پڑھتا ہوں تو آپ ﷺ نے فرمایا کیا تو ہدی لایا ہے ؟ میں نے عرض کیا نہیں آپ ﷺ نے فرمایا پھر تو چل اور بیت اللہ کا طواف کر اور صفا اور مروہ کے درمیان سعی کر پھر حلال ہوجا یعنی احرام کھول دے پھر آکر شعبہ اور سفیان کی حدیث کی طرح حدیث بیان کی۔

【171】

اپنے احرام کو دوسرے محرم کے احرام کے ساتھ معلق کرنے کے جواز کے بیان میں

محمد بن مثنی، ابن بشار، ابن مثنی، محمد بن جعفر، شعبہ، حکم، عمارہ بن عمیر، ابراہیم بن ابی موسی، حضرت ابوموسی (رض) سے روایت ہے کہ وہ تمتع کا فتوی دیتے تھے تو ایک آدمی نے ان سے کہا کہ اپنے فتو وں کو رہنے دو کیونکہ آپ نہیں جانتے کہ حضرت امیر المومنین (رض) نے آپ ﷺ کے بعد حج کے بارے میں کیا حکم بیان فرمایا ہے یہاں تک کہ وہ حضرت امیر المومنین (رض) سے ملے اور اس سلسلے میں ان سے پوچھا تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ میں جانتا ہوں کہ نبی ﷺ اور آپ ﷺ کے اصحاب (رض) نے اسی طرح کیا ہے لیکن میں اس بات کو پسند سمجھتا ہوں کہ لوگ پیلو کے درختوں کے نیچے عورتوں سے شب باشی کریں پھر حج میں جائیں تو ان کے سر سے پانی کے قطرے ٹپک رہے ہوں۔

【172】

حج تمتع کے جواز کے بیان میں

محمد بن مثنی، ابن بشار، ابن مثنی، محمد بن جعفر، شعبہ، حضرت ابوقتادہ (رض) سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ حضرت عبداللہ بن شفیق (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان (رض) تمتع سے منع فرمایا کرتے تھے اور حضرت علی اس کا حکم فرمایا کرتے تھے۔ تو حضرت عثمان (رض) نے حضرت علی (رض) سے کوئی بات فرمائی تو پھر حضرت علی (رض) نے فرمایا کہ آپ کو معلوم ہے کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج تمتع کیا ہے حضرت عثمان (رض) نے فرمایا جی ہاں لیکن اس وقت ہم ڈرتے تھے۔

【173】

حج تمتع کے جواز کے بیان میں

یحییٰ بن حبیب حارثی، خالد ابن حارث، حضرت شعبہ (رض) سے اس سند کے ساتھ اسی طرح حدیث نقل کی گئی ہے۔

【174】

حج تمتع کے جواز کے بیان میں

محمد بن مثنی، محمد بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، عمرو بن مرہ، حضرت سعید بن مسیب (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ حضرت علی اور حضرت عثمان (رض) مقام عسفان میں اکٹھے ہوئے تو حضرت عثمان (رض) حج تمتع یا عمرہ سے حج کے دنوں میں منع فرماتے تھے تو حضرت علی (رض) نے فرمایا کہ آپ اس کام کے بارے میں کیا چاہتے ہیں جسے خود رسول اللہ ﷺ نے کیا ہے اور آپ اس سے روک رہے ہیں تو حضرت عثمان (رض) نے فرمایا کہ تم ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دو حضرت علی (رض) نے فرمایا کہ مجھے آپ کو چھوڑنے کی ہمت نہیں ہے پھر جب حضرت علی (رض) نے یہ حال دیکھا تو انہوں نے حج اور عمرہ کا اکٹھا احرام باندھا۔

【175】

حج تمتع کے جواز کے بیان میں

سعید بن منصور، ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب، ابومعاویہ، اعمش، ابراہیم تیمی، حضرت ابوذر (رض) سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ حج تمتع محمد ﷺ کے صحابہ کے لئے مخصوص تھا۔

【176】

حج تمتع کے جواز کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، عبدالرحمن بن مہدی، سفیان، عیاش عامری، ابراہیم تیمی، حضرت ابوذر (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان فرمایا حج میں تمتع کی ہمارے لئے رخصت تھی۔

【177】

حج تمتع کے جواز کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، جریر، فضیل، زبید، ابراہیم تیمی، حضرت ابراہیم تیمی (رض) اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حضرت ابوذر (رض) نے فرمایا کہ دو متعے کسی کے لئے درست نہیں صرف ہمارے لئے ہی مخصوص تھے یعنی عورتوں سے متعہ اور دوسرا متعہ حج

【178】

حج تمتع کے جواز کے بیان میں

قتیبہ، جریر، بیان، حضرت عبدالرحمن بن ابی شعثاء (رض) فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابراہیم نخعی (رض) اور حضرت ابراہیم تیمی (رض) کے پاس آیا اور میں نے عرض کیا کہ میں اس سال حج اور عمرہ اکٹھا کرنا چاہتا ہوں حضرت ابراہیم نخعی فرمانے لگے کہ تیرے والد تو اس طرح نہیں کرتے تھے حضرت ابراہیم تیمی (رض) اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ وہ حضرت ابوذر (رض) کے پاس سے ربذہ کے مقام میں گزرے تو انہوں نے حضرت ابوذر (رض) سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا کہ یہ ہمارے لئے مخصوص تھا نہ کہ تمہارے لئے۔

【179】

حج تمتع کے جواز کے بیان میں

سعید بن منصور، ابن ابی عمر، فراری، سعید، مروان بن معاویہ، سلیمان تیمی، حضرت غنیم بن قیس (رض) سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ میں نے حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے تمتع کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ ہم نے اس کو کیا ہے اور یہ یعنی حضرت معاویہ (رض) اس دن مکہ مکرمہ کے گھروں میں کفر کی حالت میں تھے

【180】

حج تمتع کے جواز کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، یحییٰ بن سعید، حضرت سلیمان یتمی (رض) سے اس سند کے ساتھ روایت ہے اور ایک روایت میں انہوں نے کہا یعنی حضرت معاویہ (رض)

【181】

حج تمتع کے جواز کے بیان میں

عمرو ناقد، ابواحمدزبیری، سفیان، محمد بن ابی خلف، روح بن عبادہ، شعبہ، حضرت سلیمان تیمی (رض) سے اس سند کے ساتھ ان دونوں حدیثوں کی طرح روایت ہے اور سفیان کی حدیث میں حج میں تمتع کے الفاظ ہیں۔

【182】

حج تمتع کے جواز کے بیان میں

زہیر بن حرب، اسماعیل بن ابراہیم، جریری، ابی العلاء، حضرت مطرف (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا حضرت عمران بن حصین (رض) نے مجھ سے فرمایا کہ میں تجھے آج ایک ایسی حدیث بیان کروں گا کہ آج کے بعد اس حدیث کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ تجھے نفع عطاء فرمائیں گے اور جان لے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے گھر والوں میں سے ایک جماعت کو ذی الحج کے عشرہ میں عمرہ کروایا تو کوئی آیت اس کو منسوخ کرنے والی نازل نہیں ہوئی اور نہ آپ ﷺ نے اس سے منع فرمایا یہاں تک کہ آپ اس (فانی دنیا) سے رخصت ہوگئے۔ اس کے بعد ہر آدمی جس طرح چاہے اپنی رائے سے بیان کرے۔

【183】

حج تمتع کے جواز کے بیان میں

اسحاق بن ابراہیم، محمد بن حاتم، وکیع، سفیان، حضرت جریری (رض) نے اس سند کے ساتھ روایت نقل کی ہے اور ابن حاتم (رض) نے اپنی روایت میں کہا کہ پھر ایک آدمی نے اپنی رائے سے جو چاہا کہہ دیا یعنی حضرت عمر (رض) ۔

【184】

حج تمتع کے جواز کے بیان میں

عبیداللہ بن معاذ، شعبہ، حمید بن ہلال، حضرت مطرف (رض) سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ مجھے عمران بن حصین (رض) نے فرمایا کہ میں تجھ سے ایک حدیث بیان کروں گا شاید کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ سے تجھے نفع دے وہ یہ کہ رسول اللہ ﷺ نے حج اور عمرہ دونوں کو ایک ساتھ اکٹھا کیا پھر ان سے منع بھی نہیں فرمایا یہاں تک کہ آپ ﷺ دنیا سے رحلت فرما گئے اور نہ ہی اس کی حرمت کے بارے میں قرآن نازل ہوا اور مجھ پر سلام کیا جاتا تھا جب تک کہ میں نے داغ نہیں لگوایا تو جب میں نے داغ لیا تو سلام چھوٹ گیا پھر میں نے داغ لینا چھوڑا تو مجھ پر پھر سلام کیا جانے لگا۔

【185】

حج تمتع کے جواز کے بیان میں

محمد بن مثنی، ابن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، حضرت حمید بن ہلال (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ میں نے حضرت مطرف (رض) سے سنا انہوں نے فرمایا کہ مجھے حضرت عمران بن حصین (رض) اور حضرت معاذ (رض) کی حدیث کی طرح فرمایا۔

【186】

حج تمتع کے جواز کے بیان میں

محمد بن مثنی، ابن بشار، ابن مثنی، محمد بن جعفر، شعبہ، قتادہ، حضرت مطرف (رض) سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ حضرت عمران بن حصین (رض) نے اپنی اس بیماری میں کہ جس میں وہ وفات پا گئے مجھے بلا بھیج کر فرمایا کہ میں تجھ سے کچھ احادیث بیان کروں گا شاید کہ میرے بعد اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ سے تجھے نفع عطا فرمائے تو اگر میں زندہ رہا تو تم ان احادیث کو میرے نام سے ظاہر نہ کرنا اور اگر میں وفات پا گیا تو اگر تو چاہے تو اسے بیان کردینا کیونکہ مجھ پر فرشتوں کی طرف سے سلام کیا گیا اور میں اچھی طرح سے جانتا ہوں کہ نبی ﷺ نے حج اور عمرہ دونوں کو ایک ساتھ اکٹھے ادا فرمایا پر اس کے بارے میں اللہ کی کتاب میں کوئی حکم بھی نازل نہیں ہوا اور نہ ہی نبی ﷺ نے اس سے منع فرمایا کوئی آدمی اس بارے میں اپنی رائے سے جو چاہے کہہ دے۔

【187】

حج تمتع کے جواز کے بیان میں

اسحاق بن ابراہیم، عیسیٰ بن یونس، سعیدابن ابی عروبہ، قتادہ، مطرف بن عبداللہ بن شخیر، حضرت عمران بن حصین (رض) سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ نے حج اور عمرہ دونوں ایک ساتھ اکٹھے ادا فرمائے پھر اس کے بارے میں قرآن بھی نازل نہیں ہوا اور نہ ہی رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں حج اور عمرہ کا اکٹھا ادا کرنے سے منع فرمایا تو ایک آدمی نے اس بارے میں اپنی رائے سے جو چاہا کہہ دیا۔

【188】

حج تمتع کے جواز کے بیان میں

محمد بن مثنی، عبدالصمد، ہمام، قتادہ، مطرف، حضرت عمران بن حصین (رض) سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج تمتع کیا اور اس بارے میں قرآن میں نازل نہیں ہوا تو ایک آدمی نے اس بارے میں اپنی رائے سے جو چاہا کہہ دیا۔

【189】

حج تمتع کے جواز کے بیان میں

حجاج بن شاعر، عبیداللہ بن عبدالمجید، اسماعیل بن مسلم، محمد بن واسع، مطرف بن عبداللہ بن شخیر، حضرت عمران بن حصین (رض) نے اس حدیث کے ساتھ روایت کیا ہے انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے حج تمتع فرمایا اور ہم نے بھی آپ ﷺ کے ساتھ حج تمتع کیا۔

【190】

حج تمتع کے جواز کے بیان میں

حامد بن عمر بکروای، محمد بن ابی بکر مقدمی، بشربن مفضل، عمران بن مسلم، حضرت ابورجاء (رض) سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ حضرت عمران بن حصین (رض) نے فرمایا کہ حج میں تمتع کی آیت اللہ کی کتاب قرآن مجید میں نازل ہوئی اور رسول اللہ ﷺ نے ہمیں اسے کرنے کا حکم فرمایا پھر کوئی آیت نازل نہیں ہوئی کہ جس آیت نے حج میں تمتع کی آیت کو منسوخ کردیا ہو اور نہ ہی رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا یہاں تک کہ آپ ﷺ اس دینا سے رحلت فرما گئے۔ اب اس کے بعد اس بارے میں ایک آدمی نے اپنی رائے سے جو چاہا کہہ دیا۔

【191】

حج تمتع کے جواز کے بیان میں

محمد بن حاتم، یحییٰ بن سعید، عمران، قصیر، ابورجاء، حضرت عمران بن حصین (رض) نے اسی حدیث کی طرح روایت کیا ہے سوائے اس کے کہ اس میں انہوں نے فرمایا (وَفَعَلْنَاهَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ) یعنی ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اس کو کیا اور اس حدیث میں أَمَرَنَا بِهَا یعنی ہمیں آپ ﷺ نے اس کا حکم فرمایا یہ نہیں فرمایا۔

【192】

حج تمتع کرنے والوں پر قربانی کے واجب ہونے اور اس بات کے بیان میں کہ قربانی کی استطاعت نہ ہونے کی صورت میں حج دنوں میں تین روزے اور اپنے گھر کی طرف لوٹ کر سات روزے رکھے۔

عبدالملک بن شعیب بن لیث، عقیل بن خالد، ابن شہاب، حضرت سالم بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے۔ کہ حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے حجہ الوداع میں عمرہ کے ساتھ حج ملا کر فرمایا اور قربانی کی اور قربانی کے جانور ذی الحلیفہ سے اپنے ساتھ لے گئے اور شروع میں رسول اللہ ﷺ نے عمرہ کا تلبیہ پڑھا پھر اس کے بعد حج کا تلبیہ پڑھا اور لوگوں نے بھی رسول اللہ ﷺ کے ساتھ عمرہ کے ساتھ حج کا تمتع کیا اور لوگوں میں سے کسی کے پاس اپنی قربانی نہیں تھی پھر جب رسول اللہ ﷺ مکہ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے لوگوں سے فرمایا کہ تم میں سے جس کے پاس قربانی ہو تو وہ ان کاموں میں سے کسی سے حلال نہ ہو جن سے احرام کی حالت میں دور رہا تھا جب تک کہ وہ حج سے فارغ نہ ہوجائے اور تم میں سے جس کے پاس قربانی نہ ہو وہ بیت اللہ اور صفا ومروہ کا طواف کر کے بال کٹوا لے اور حلال ہوجائے پھر حج کا تلبیہ پڑھے احرام باندھے اور اس کے بعد قربانی کرے اور اگر قربانی نہ پائے تو پھر وہ حج کے دنوں میں تین روزے رکھے جب اپنے گھر کی طرف واپس لوٹے تو سات روزے رکھے۔ الغرض جس وقت رسول اللہ ﷺ مکہ مکرمہ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے طواف کیا اور حجر اسود کو استلام کیا پھر طواف کے سات چکروں میں سے تین چکروں میں رمل فرمایا اور باقی چار چکروں میں اپنی حالت میں چلے پھر جب طواف سے فارغ ہوئے تو بیت اللہ میں مقام ابراہیم کے پاس دو رکعت پڑھیں پھر سلام پھیرا اور لوٹے اور صفا پر تشریف لائے اور صفا اور مروہ کے درمیان سات چکر لگائے پھر ان چیزوں میں سے کسی کو اپنے اوپر حلال نہیں فرمایا جن کو احرام کی وجہ سے اپنے اوپر حرام کیا تھا یہاں تک کہ اپنے حج سے فارغ ہوگئے اور قربانی کے دن اپنی قربانی ذبح کی اور پھر مکہ واپس لوٹ آئے اور طواف افاضہ کیا اور ان چیزوں کو جن کو احرام کیوجہ سے اپنے اوپر حرام کیا حلال کرلیا اور لوگوں میں سے جو لوگ اپنے ساتھ قربانی لائے تھے انہوں نے بھی اسی طرح کیا جس طرح رسول اللہ ﷺ نے کیا۔

【193】

حج تمتع کرنے والوں پر قربانی کے واجب ہونے اور اس بات کے بیان میں کہ قربانی کی استطاعت نہ ہونے کی صورت میں حج دنوں میں تین روزے اور اپنے گھر کی طرف لوٹ کر سات روزے رکھے۔

عبدالملک بن شعیب بن لیث، عقیل، ابن شہاب، حضرت عروہ بن زبیر (رض) سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ (رض) نبی ﷺ کی زوجہ مطہرہ خبر دیتی ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے آپ ﷺ کے تمتع بالحج اور آپ ﷺ کے ساتھ لوگوں کے تمتع بالحج کی روایت اسی طرح نقل فرمائی جس طرح کہ حضرت سالم بن عبداللہ (رض) نے حضرت عبداللہ (رض) سے اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کیا ہے۔

【194】

اس بات کے بیان میں کہ قارن اس وقت احرام کھولے جس وقت کہ مفرد بالحج احرام کھولتا ہے۔

یحییٰ بن یحیی، نافع، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ حضرت حفصہ (رض) نبی ﷺ کی زوجہ مطہرہ عرض کرتی ہیں اے اللہ کے رسول ﷺ کیا وجہ ہے کہ لوگ اپنے عمرہ سے حلال ہوگئے اور آپ ﷺ اپنے عمرہ سے حلال نہیں ہوئے آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے اپنے سر کے بالوں کو جمایا ہے اور اپنی قربانی کو قلادہ ڈالا ہے تو میں حلال نہیں ہوں گا جب تک کہ قربانی نہ کرلوں۔

【195】

اس بات کے بیان میں کہ قارن اس وقت احرام کھولے جس وقت کہ مفرد بالحج احرام کھولتا ہے۔

ابن نمیر، خالد بن مخلد، مالک، نافع، ابن عمر، حضرت حفصہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! آپ ﷺ کو کیا ہوا کہ آپ ﷺ حلال نہیں ہوئے باقی روایت اسی طرح سے ہے۔

【196】

اس بات کے بیان میں کہ قارن اس وقت احرام کھولے جس وقت کہ مفرد بالحج احرام کھولتا ہے۔

محمد بن مثنی، یحییٰ بن سعید، عبیداللہ، نافع، ابن عمر، حضرت حفصہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے نبی ﷺ سے عرض کیا کہ کیا بات ہے کہ لوگ اپنے عمرہ سے حلال ہوگئے اور آپ ﷺ اپنے عمرہ سے حلال نہیں ہوئے آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے اپنی قربانی کو قلادہ ڈالا ہے اور اپنے سر کے بال جمائے ہیں تو میں حلال نہیں ہوں گا جب تک کہ حج کا احرام نہ کھول دوں۔

【197】

اس بات کے بیان میں کہ قارن اس وقت احرام کھولے جس وقت کہ مفرد بالحج احرام کھولتا ہے۔

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابواسامہ، عبیداللہ، نافع، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ حضرت حفصہ (رض) نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ پھر آگے مالک کی حدیث کی طرح نقل کیا اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں حلال نہیں ہوں گا جب تک کہ قربانی نہ کرلوں۔

【198】

اس بات کے بیان میں کہ قارن اس وقت احرام کھولے جس وقت کہ مفرد بالحج احرام کھولتا ہے۔

ابن ابی عمر، ہشام بن سلیمان مخزومی، عبدالمجید، ابن جریج، نافع، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ مجھ سے حضرت حفصہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے حجہ الوداع کے سال اپنی ازواج مطہرات (رض) کو حکم فرمایا کہ وہ حلال ہوجائیں تو میں نے عرض کیا کہ آپ ﷺ کو کس چیز نے حلال ہونے سے روکا ہے آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے اپنے سر کے بالوں کو جمایا ہے اور اپنی قربانی کو قلادہ ڈال رکھا ہے تو میں حلال نہیں ہوں گا جب تک کہ میں اپنی قربانی ذبح نہ کرلوں۔

【199】

احصار کے وقت احرام کھولنے کے جوازقران اور قارن کے لئے ایک ہی طواف اور ایک ہی سعی کے جواز کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، مالک، نافع (رض) سے روایت ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) فتنہ کے دور میں عمرہ کی ادائیگی کے لئے نکلے اور فرمایا کہ اگر ہمیں بیت اللہ تک جانے سے روک دیا گیا جس طرح کہ ہم (قریش) نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کیا تھا وہ نکلے اور عمرہ کا احرام باندھا اور چلے یہاں تک کہ جب مقام حج اور عمرہ یبداء پر آئے تو اپنے ساتھیوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا حج اور عمرہ دونوں کا ایک ہی حکم ہے میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے عمرہ کے ساتھ حج کو واجب کرلیا ہے تو وہ نکلے یہاں تک کہ جب وہ بیت اللہ پر آئے تو اس کے سات چکر لگائے اور صفا اور مروہ کے درمیان بھی سات چکر لگائے اس پر کچھ زیادہ نہیں کیا اور اسی کو کافی خیال کیا اور قربانی کی۔

【200】

احصار کے وقت احرام کھولنے کے جوازقران اور قارن کے لئے ایک ہی طواف اور ایک ہی سعی کے جواز کے بیان میں

محمد بن مثنی، یحییٰ (قطان) ، عبیداللہ، نافع، عبداللہ بن عبداللہ، سالم بن عبداللہ، حضرت نافع (رض) نے بیان کیا کہ حضرت عبداللہ بن عبداللہ (رض) اور حضرت سالم بن عبداللہ (رض) نے حضرت عبداللہ (رض) سے کہا جس وقت کہ حجاج حضرت ابن زبیر (رض) سے قتال کے لئے آیا کہ آپ کا کوئی نقصان نہیں ہوگا اگر آپ اس سال حج نہ کریں کیونکہ ہمیں ڈر ہے کہ لوگوں کے درمیان قتال واقع نہ ہوجائے حضرت عبداللہ نے فرمایا کہ اگر میرے اور بیت اللہ کے درمیان یہ چیز حائل ہوئی تو میں بھی اسی طرح کروں گا جس طرح کہ رسول اللہ ﷺ نے کیا تھا اور میں آپ ﷺ کے ساتھ تھا جس وقت کہ کفار قریش آپ ﷺ اور بیت اللہ کے درمیان حائل ہوگئے تھے میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنے اوپر عمرہ واجب کرلیا ہے۔ چناچہ حضرت عبداللہ چلے جب ذوالحلیفہ آئے تو آپ نے عمرہ کا تلبیہ پڑھا۔ اس کے بعد فرمایا کہ اگر میرا راستہ چھوڑ دیا گیا تو میں اپنا عمرہ پورا کرلوں گا اور اگر میرے اور بیت اللہ کے درمیان رکاوٹ پیدا کردی گئی تو میں وہی کروں گا جس طرح کہ رسول اللہ ﷺ نے کیا تھا اور میں آپ کے ساتھ تھا۔ پھر یہ آیت تلاوت کی، (لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ) 33 ۔ الأحزاب : 21) ، پھر چلے یہاں تک کہ جب بیداء کے مقام پر آئے تو فرمایا کہ حج اور عمرہ دونوں کا ایک ہی حکم ہے اگر میرے اور عمرہ کے درمیان رکاوٹ ڈال دی گئی تو حج کے درمیان بھی رکاوٹ ڈال دی جائے گی۔ تو میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنے عمرہ کے ساتھ حج کو بھی واجب کرلیا ہے۔ تو آپ نکلے اور مقام قدید سے قربانی خریدی اور حج اور عمرہ دونوں کے لئے بیت اللہ کا ایک طواف کیا اور صفا اور مروہ کے درمیان سعی کی پھر ان سے حلال نہیں ہوئے یہاں تک کہ یوم النحر کے دن حج کے ساتھ دونوں سے حلال ہوئے۔

【201】

احصار کے وقت احرام کھولنے کے جوازقران اور قارن کے لئے ایک ہی طواف اور ایک ہی سعی کے جواز کے بیان میں

ابن نمیر، عبیداللہ، حضرت نافع (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر (رض) نے اس وقت حج کا ارادہ فرمایا جس وقت کہ حجاج حضرت ابن زبیر (رض) سے قتال کرنے کے لئے آیا اور اس سے آگے حدیث اسی طرح سے ہے جیسے گزری اور اس کے آخر میں ہے کہ جو حج اور عمرہ دونوں کو اکٹھا کرے گا اس کے لئے ایک طواف کافی ہے اور حلال نہ ہو یہاں تک کہ ان دونوں سے حلال نہ ہوجائے یعنی احرام نہ کھولے۔

【202】

احصار کے وقت احرام کھولنے کے جوازقران اور قارن کے لئے ایک ہی طواف اور ایک ہی سعی کے جواز کے بیان میں

محمد بن رمح، لیث، قتیبہ، حضرت نافع (رض) سے روایت ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) نے جس سال کہ حجاج نے حضرت ابن زبیر (رض) پر نزول کیا حج کا ارادہ کیا ان سے کہا گیا کہ لوگوں کے درمیان لڑائی جھگڑے کے امکانات ہیں اور ہمیں ڈر ہے کہ کہیں وہ آپ کو حج سے نہ روک دیں تو حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا کہ ( لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ) رسول اللہ ﷺ کے اسوہ حسنہ کی اتباع بہترین چیز ہے میں بھی اسی طرح کروں گا جس طرح کہ رسول اللہ ﷺ کیا کرتے تھے میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنے اوپر عمرہ کو واجب کرلیا ہے پھر حضرت ابن عمر (رض) نکلے یہاں تک کہ بیداء مقام پر آئے تو فرمایا کہ حج اور عمرہ کا ایک ہی حکم ہے تو میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنے اوپر عمرہ کے ساتھ حج بھی واجب کرلیا ہے اور مقام قدید سے ایک قربانی کا جانور خرید کر ساتھ رکھ لیا اور پھر چلے اور حج اور عمرہ دونوں کا اکٹھا تلبیہ پڑھتے تھے یہاں تک کہ مکہ مکرمہ آئے اور بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا ومروہ کے درمیان سعی کی اور اس پر کچھ زیادہ نہیں کیا اور نہ قربانی کی اور نہ سر منڈایا اور نہ ہی بال چھوٹے کروائے اور نہ ہی ان چیزوں میں سے کسی چیز سے حلال ہوئے جن کو احرام کی وجہ سے حرام کیا تھا یہاں تک کہ جب قربانی کا دن ہوا تو قربانی کی اور سر منڈایا اور حضرت ابن عمر (رض) نے وہی پہلے والے طواف کو حج اور عمرہ کے لئے کافی سمجھا اور حضرت ابن عمر نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے اسی طرح کیا ہے۔

【203】

احصار کے وقت احرام کھولنے کے جوازقران اور قارن کے لئے ایک ہی طواف اور ایک ہی سعی کے جواز کے بیان میں

ابوربیع زہرانی، ابوکامل، حماد، زہیر بن حرب، اسماعیل، ایوب، نافع، حضرت ابن عمر (رض) سے یہی واقعہ نقل کیا گیا ہے اور نبی کریم ﷺ کا ذکر نہیں کیا سوائے پہلی حدیث کے جس وقت ان سے کہا گیا کہ لوگ آپ کو بیت اللہ سے روک دیں گے انہوں نے فرمایا کہ میں وہی کروں گا جیسے رسول اللہ ﷺ نے کیا اور حدیث کے آخر میں یہ ذکر نہیں کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس طرح کیا ہے جس طرح کہ لیث نے اس سے ذکر کیا ہے۔

【204】

حج افراد اور قران کے بیان میں

یحییٰ بن ایوب، عبداللہ بن عون ہلالی، عباد ابن عباد مہلی، عبیداللہ بن عمر، نافع، ابن عمر، یحییٰ کی ایک روایت میں حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج افراد کا احرام باندھا اور ابن عون کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حج افراد کا احرام باندھا۔

【205】

حج افراد اور قران کے بیان میں

سریج بن یونس، ہشیم، حمید، بکر، حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ میں نے نبی ﷺ کو حج اور عمرہ کا اکٹھا تلبیہ پڑھتے ہوئے سنا ہے بکر کہتے ہیں کہ میں نے یہ حدیث حضرت ابن عمر (رض) سے بیان کی تو انہوں نے فرمایا کہ آپ ﷺ نے اکیلے حج کا تلبیہ پڑھا، بکر کہتے ہیں کہ میں پھر حضرت انس (رض) سے ملا اور میں نے ان کو حضرت ابن عمر (رض) کا قول بیان کا تو حضرت انس (رض) نے فرمایا کہ تم ہمیں بچہ سمجھتے ہو میں نے نبی ﷺ سے خود سنا آپ ﷺ نے فرمایا (لَبَّيْکَ عُمْرَةً وَحَجًّا) عمرہ اور حج دونوں کا تلبیہ پڑھا۔

【206】

حج افراد اور قران کے بیان میں

امیہ بن بسطام عیشی، یزید ابن زریع، حبیب بن شہید، بکربن عبداللہ، حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے دیکھا کہ نبی ﷺ نے حج اور عمرہ دونوں کو جمع کیا ہے حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر (رض) سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا ہم نے حج کا احرام باندھا تھا راوی کہتے ہیں کہ میں حضرت انس (رض) کی طرف لوٹا اور میں نے ان کو خبر دی کہ حضرت ابن عمر (رض) کیا کہتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ گویا ہم بچے تھے۔

【207】

حاجی کے لئے طواف قدوم اور اس کے بعد سعی کرنے کے استح کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، عبشر، اسماعیل بن ابی خالد، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابن عمر (رض) کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک آدمی آیا اور اس نے عرض کیا کہ کیا میرے لئے وقوف عرفہ سے پہلے بیت اللہ کا طواف کرنا درست ہے ؟ تو حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا کہ ہاں تو اس نے عرض کی کہ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ وقوف عرفہ نہ کرو حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے حج کیا اور بیت اللہ کا طواف کیا اس سے پہلے کہ آپ ﷺ عرفات تشریف لاتے وقوف کے لئے تو رسول اللہ ﷺ کے فرمان کا زیادہ حق ہے کہ اسے لیا جائے یا حضرت ابن عباس (رض) کے قول کا اگر تو سچا ہے تو بتا کہ کس پر عمل کیا جائے۔

【208】

حاجی کے لئے طواف قدوم اور اس کے بعد سعی کرنے کے استح کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، جریر، بیان، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے فرمایا کہ ایک آدمی نے حضرت ابن عمر (رض) سے سوال کیا کہ کیا میں بیت اللہ کا طواف کرلوں ؟ میں نے حج کا احرام باندھا ہوا ہے تو حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا کہ تجھے کس نے روکا ہے ؟ تو وہ آدمی کہنے لگا کہ میں نے فلاں کے بیٹے کو دیکھا کہ وہ اسے ناپسند سمجھتے ہیں آپ (رضی اللہ عنہ) تو ہمیں ان سے زیادہ محبوب ہیں ہم نے ان کو دیکھا کہ وہ دنیا کے فتنہ میں مبتلا ہوگئے ہیں حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا کہ ہم میں سے اور تم میں سے کون ایسا ہے کہ جسے دنیا کے فتنہ میں مبتلا نہ کردیا گیا ہو پھر حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ نے حج کا احرام باندھا اور بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا ومروہ کے درمیان سعی کی تو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی سنت کا فلاں آدمی کی سنت سے زیادہ حق ہے کہ اس کی پیروی کی جائے اگر تو سچا ہے تو بتا۔

【209】

اس بات کے بیان میں کہ عمرہ کا احرام باندھنے والا طواف کے ساتھ سعی کرنے سے پہلے حلال نہیں ہوسکتا اور نہ ہی حج کا احرام باندھنے والا طواف قدوم سے پہلے حلال ہوسکتا ہے یعنی احرام نہیں کھول سکتا۔

زہیر بن حرب، سفیان بن عیینہ، حضرت عمرو بن دینار سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ ہم نے حضرت ابن عمر (رض) سے ایک آدمی کے بارے میں پوچھا کہ وہ عمرہ کرنے کے لئے آیا اور اس نے بیت اللہ کا طواف کیا جبکہ صفا اور مروہ کے درمیان طواف سعی نہیں کیا وہ آدمی اپنی بیوی کے پاس آسکتا ہے ؟ تو حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور آپ ﷺ نے بیت اللہ کے سات چکر لگائے یعنی طواف کیا اور مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعتیں پڑھیں اور صفا ومروہ کے درمیان سات چکر لگائے یعنی سعی کی اور فرمایا کہ تمہارے لئے رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ بہترین نمونہ ہے۔

【210】

اس بات کے بیان میں کہ عمرہ کا احرام باندھنے والا طواف کے ساتھ سعی کرنے سے پہلے حلال نہیں ہوسکتا اور نہ ہی حج کا احرام باندھنے والا طواف قدوم سے پہلے حلال ہوسکتا ہے یعنی احرام نہیں کھول سکتا۔

یحییٰ بن یحیی، ابوربیع زہرانی، حماد بن زید، عبد بن حمید، محمد بن بکر، ابن جریج، عمر بن دینار، ابن عمر اس سند کے ساتھ حضرت ابن عمر (رض) نے نبی کریم ﷺ سے ابن عیینہ کی حدیث کی طرح روایت نقل کی۔

【211】

اس بات کے بیان میں کہ عمرہ کا احرام باندھنے والا طواف کے ساتھ سعی کرنے سے پہلے حلال نہیں ہوسکتا اور نہ ہی حج کا احرام باندھنے والا طواف قدوم سے پہلے حلال ہوسکتا ہے یعنی احرام نہیں کھول سکتا۔

ہارون بن سعید ایلی، ابن وہب، عمرو، ابن حارث، حضرت محمد بن عبدالرحمن (رض) سے روایت ہے کہ عراق والوں میں سے ایک آدمی نے ان سے کہا کہ حضرت عروہ بن زبیر (رض) سے اس آدمی کے بارے میں پوچھو کہ جو حج کا احرام باندھ لے اور جب وہ بیت اللہ کا طواف کرلے تو کیا وہ حلال ہوسکتا ہے یا نہیں ؟ تو اگر وہ تجھے کہیں کہ وہ حلال نہیں ہوسکتا تو ان سے کہنا کہ ایک آدمی تو اس طرح کہتا ہے یعنی حلال ہوسکتا ہے حضرت عروہ نے کہا کہ اس نے جو کہا برا کہا پھر وہ آدمی (عراق والا) مجھ سے ملا اور مجھ سے اس نے پوچھا تو میں نے اسے حضرت عروہ کا قول بیان کردیا اس آدمی نے کہا حضرت عروہ سے کہو کہ ایک آدمی خبر دیتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس طرح کیا ہے اور حضرت اسماء اور حضرت زبیر (رض) کی کیا شان ہے کہ انہوں نے بھی اس طرح کیا راوی محمد بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ پھر حضرت عروہ کے پاس آیا اور ان سے اس کا ذکر کیا تو حضرت عروہ (رض) نے فرمایا کہ وہ کون ہے ؟ میں نے کہا کہ میں نہیں جانتا انہوں نے فرمایا کہ وہ خود میرے پاس آکر کیوں نہیں پوچھتا میرے خیال میں وہ عراقی ہے میں نے کہا میں نہیں جانتا حضرت عروہ (رض) نے فرمایا اس آدمی نے جھوٹ بولا ہے البتہ رسول اللہ ﷺ نے جو حج کیا ہے حضرت عائشہ (رض) نے مجھے اس کی خبر دی کہ جس وقت آپ ﷺ پہلے مکہ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے وضو فرمایا پھر بیت اللہ کا طواف کیا حج کے علاوہ کچھ بھی نہیں کیا۔ پھر حضرت ابوبکر (رض) نے بھی سب سے پہلے بیت اللہ کا طواف کیا پھر حج کے علاوہ کچھ بھی نہیں کیا۔ پھر حضرت عمر (رض) نے بھی اسی طرح کیا پھر حضرت عثمان (رض) نے حج کیا میں نے ان کو دیکھا کہ انہوں نے سب سے پہلے بیت اللہ کو طواف کیا اور حج کے علاوہ کچھ نہیں کیا پھر حضرت معاویہ (رض) اور حضرت عبداللہ (رض) بن عمر (رض) نے بھی حج کیا پھر میں نے بھی حضرت زبیر بن عوام (رض) کے ساتھ حج کیا تو انہوں نے بھی سب سے پہلے بیت اللہ کا طواف کیا اور حج کے علاوہ کچھ نہیں کیا پھر میں نے دیکھا کہ مہاجرین اور انصار بھی اسی طرح کرتے ہیں اور وہ بھی حج کے علاوہ کچھ نہیں کرتے پھر میں نے سب سے آخر میں حضرت ابن عمر (رض) کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا اور عمرہ کے بعد حج کے احرام کو نہیں کھولا اور یہ حضرت ابن عمر (رض) تو عراق والوں کے پاس موجود ہی ہیں یہ ان سے کیوں نہیں پوچھتے اور جتنے اسلاف تھے سب کے سب مکہ میں آتے ہی بیت اللہ کے طواف سے ابتداء کرتے تھے پھر حلال نہیں ہوتے تھے احرام نہیں کھولتے تھے اور میں نے اپنی ماں اور خالہ کو بھی دیکھا کہ جس وقت وہ آئیں تو وہ بھی سب سے پہلے بیت اللہ کا طواف کرتی تھیں پھر حلال نہیں ہوتی تھیں میری ماں نے مجھے خبر دی کہ میں اور میری بہن حضرت عائشہ (رض) اور حضرت زبیر (رض) اور فلاں فلاں آدمی صرف عمرہ کرنے آئے تھے تو جب رکن کو چھو لیا تو وہ سب حلال ہوگئے اور اس نے تجھ سے جو ذکر کیا جھوٹ کیا

【212】

اس بات کے بیان میں کہ عمرہ کا احرام باندھنے والا طواف کے ساتھ سعی کرنے سے پہلے حلال نہیں ہوسکتا اور نہ ہی حج کا احرام باندھنے والا طواف قدوم سے پہلے حلال ہوسکتا ہے یعنی احرام نہیں کھول سکتا۔

اسحاق بن ابراہیم، محمد بن بکر، ابن جریج، زہیر بن حرب، روح بن عبادہ، منصور بن عبدالرحمن، حضرت اسماء بنت ابی بکر (رض) سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ ہم احرام باندھے ہوئے نکلے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس کے پاس قربانی کا جانور ہو وہ اپنے احرام پر قائم رہے اور جس کے پاس قربانی کا جانور نہ ہو تو وہ حلال ہوجائے اور میرے پاس قربانی کو جانور نہیں تھا تو میں حلال ہوگئی احرام کھول ڈالا اور حضرت زبیر (رض) کے پاس قربانی کا جانور تھا تو انہوں نے احرام نہیں کھولا حضرت اسماء فرماتی ہیں کہ میں نے اپنے کپڑے پہنے پھر میں نکلی اور حضرت زبیر (رض) کے پاس جا کر بیٹھ گئی تو انہوں نے فرمایا کہ مجھ سے کھڑی ہوجا کیونکہ میں احرام کی حالت میں ہوں حضرت اسماء (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے کہا کہ کیا تمہیں ڈر ہے کہ میں تجھ پر کود پڑوں گی۔

【213】

اس بات کے بیان میں کہ عمرہ کا احرام باندھنے والا طواف کے ساتھ سعی کرنے سے پہلے حلال نہیں ہوسکتا اور نہ ہی حج کا احرام باندھنے والا طواف قدوم سے پہلے حلال ہوسکتا ہے یعنی احرام نہیں کھول سکتا۔

عباس بن عبدالعظیم عنبری، ابوہشام مغیرہ، ابن سلمہ مخزومی، وہب، منصور بن عبدالرحمن، حضرت اسماء بنت ابی بکر (رض) سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ نے ساتھ حج کا احرام باندھے ہوئے آئے پھر ابن جریج کی حدیث کی طرح حدیث ذکر کی سوائے اس کے اس میں سے انہوں نے فرمایا کہ مجھ سے دور ہوجا میں نے کہا کہ مجھ سے ایسے ڈرتے ہو کہ میں تجھ پر کود پڑوں گی۔

【214】

اس بات کے بیان میں کہ عمرہ کا احرام باندھنے والا طواف کے ساتھ سعی کرنے سے پہلے حلال نہیں ہوسکتا اور نہ ہی حج کا احرام باندھنے والا طواف قدوم سے پہلے حلال ہوسکتا ہے یعنی احرام نہیں کھول سکتا۔

ہارون بن سعیدایلی، احمد بن عیسی، ابن وہب، عمرو، حضرت ابواسود (رض) سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ جو حضرت اسماء بنت ابوبکر (رض) کے مولیٰ ہیں وہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت اسماء (رض) سے سنا جب وہ حجون کے مقام سے گزریں تو فرماتیں کہ اللہ اپنے رسول ﷺ پر رحمت نازل فرمائے کہ ہم آپ ﷺ کے ساتھ یہاں اترے اور ہمارے پاس اس دن بوجھ تھوڑا تھا اور سواریاں کم تھیں اور زادراہ بھی تھوڑا تھا تو میں نے اور میری بہن حضرت عائشہ (رض) اور حضرت زبیر (رض) اور فلاں فلاں نے عمرہ کیا تو جب ہم نے بیت اللہ کا طواف کرلیا تو ہم حلال ہوگئے اور پھر شام کو ہم نے حج کو احرام باندھا، ہارون نے اپنی روایت میں حضرت اسماء کے مولیٰ ذکر کیا ہے اور عبداللہ کا نام ذکر نہیں کیا۔

【215】

اس بات کے بیان میں کہ عمرہ کا احرام باندھنے والا طواف کے ساتھ سعی کرنے سے پہلے حلال نہیں ہوسکتا اور نہ ہی حج کا احرام باندھنے والا طواف قدوم سے پہلے حلال ہوسکتا ہے یعنی احرام نہیں کھول سکتا۔

محمد بن حاتم، روح بن عبادہ، شعبہ، حضرت مسلم قری فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس (رض) سے حج تمتع کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے اس بارے میں رخصت دے دی جبکہ حضرت ابن زبیر (رض) اس سے منع فرماتے تھے حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ یہ حضرت ابن زبیر (رض) کی والدہ موجود ہیں جو بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سلسلہ میں رخصت دی ہے تو تم ان کی خدمت میں جاؤ اور ان سے پوچھو تب ہم ان کے پاس گئے تو وہ ایک موٹی اور نابینا عورت تھی ہمارے پوچھنے پر انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سلسلہ میں رخصت دی ہے۔

【216】

اس بات کے بیان میں کہ عمرہ کا احرام باندھنے والا طواف کے ساتھ سعی کرنے سے پہلے حلال نہیں ہوسکتا اور نہ ہی حج کا احرام باندھنے والا طواف قدوم سے پہلے حلال ہوسکتا ہے یعنی احرام نہیں کھول سکتا۔

ابن مثنی، عبدالرحمن، ابن بشار، محمد یعنی ابن جعفر، حضرت شعبہ (رض) سے اس سند کے ساتھ روایت نقل کی گئی ہے باقی عبدالرحمن نے اپنی حدیث مبارکہ میں متعہ کا لفظ کہا اور مُتْعَةُ الْحَجِّ کا لفظ نہیں کہا اور ابن جعفر کی روایت میں ہے کہ شعبہ نے کہا ہے کہ مسلم قری نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ (مُتْعَةُ الْحَجِّ أَوْ مُتْعَةُ النِّسَاءِ ) کہا۔

【217】

اس بات کے بیان میں کہ عمرہ کا احرام باندھنے والا طواف کے ساتھ سعی کرنے سے پہلے حلال نہیں ہوسکتا اور نہ ہی حج کا احرام باندھنے والا طواف قدوم سے پہلے حلال ہوسکتا ہے یعنی احرام نہیں کھول سکتا۔

عبیداللہ بن معاذ، شعبہ، حضرت مسلم قری (رض) بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) کو فرماتے ہوئے سنا کہ نبی ﷺ نے عمرہ کا احرام باندھا اور آپ ﷺ کے ساتھیوں نے حج کو احرام باندھا تو نہ نبی ﷺ حلال ہوئے اور نہ ہی آپ ﷺ کے صحابہ (رض) میں سے جو قربانی ساتھ لائے تھے وہ حلال ہوئے اور ان میں سے باقی صحابہ حلال ہوگئے اور حضرت طلحہ بن عبیداللہ (رض) انہی حضرات میں سے تھے جن کے ساتھ قربانی تھی اس لئے وہ حلال نہیں ہوئے احرام نہیں کھولا۔

【218】

اس بات کے بیان میں کہ عمرہ کا احرام باندھنے والا طواف کے ساتھ سعی کرنے سے پہلے حلال نہیں ہوسکتا اور نہ ہی حج کا احرام باندھنے والا طواف قدوم سے پہلے حلال ہوسکتا ہے یعنی احرام نہیں کھول سکتا۔

محمد بن بشار، محمد یعنی ابن جعفر، طلحہ بن عبیداللہ اس سند کے ساتھ یہ روایت بھی اس طرح نقل کی گئی ہے لیکن اس میں ہے کہ جن کے پاس قربانی نہیں تھی وہ حضرت طلحہ بن عبیداللہ (رض) اور ایک دوسرے آدمی تھے تو وہ دونوں حلال ہوگئے۔

【219】

حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے کے جواز کے بیان میں

محمد بن حاتم، بہز، وہیب، عبداللہ بن طاو س، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے فرماتے ہیں جاہلیت کے زمانہ میں لوگ یہ خیال کرتے تھے کہ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا زمین پر تمام گناہوں سے بڑا گناہ ہے اور وہ لوگ محرم کو صفر بناتے تھے اور وہ کہتے کہ جب اونٹنیوں کی پشتیں اچھی ہوجائیں اور راستہ سے حاجیوں کے پاؤں کے نشان مٹ جائیں اور صفر کا مہینہ ختم ہوجائے تو عمرہ کرنے والوں کے لئے عمرہ حلال ہوجاتا ہے نبی ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ (رض) ذی الحج کی چار تاریخ کی صبح حج کا احرام باندھے ہوئے آئے تو آپ ﷺ نے حکم فرمایا کہ اس احرام کو عمرہ کا احرام بنا ڈالو تو انہیں یہ گراں گزرا تو انہوں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ﷺ ! ہم کیسے حلال ہوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : تم سارے حلال ہوجاؤ۔

【220】

حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے کے جواز کے بیان میں

نصربن علی جہضمی، شعبہ، ایوب، ابی العالیہ البراء، حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حج کا احرام باندھا اور ذی الحجہ کی چار تاریخ کی رات گزرنے کے بعد مکہ تشریف لائے اور آپ ﷺ نے صبح کی نماز پڑھی اور فرمایا کہ جس نے صبح کی نماز پڑھ لی ہے تو جو چاہتا ہے کہ عمرہ کرے تو وہ عمرہ کرلے۔

【221】

حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے کے جواز کے بیان میں

ابراہیم بن دینار، روح، ابوداود مبارکی، ابوشہاب، محمد بن مثنی، یحییٰ بن کثیر، حضرت شعبہ سے اس سند کی روایت میں ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج کا احرام باندھ کر چلے اور ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے بطحاء میں پہنچ کے فجر کی نماز پڑھی۔

【222】

حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے کے جواز کے بیان میں

ہارون بن عبداللہ، محمد بن فضل سدوسی، وہیب، ایوب، ابی العالیہ البراء، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے فرمایا کہ نبی ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ کرام (رض) چار تاریخ کو حج کا تلبیہ پڑھتے ہوئے مکہ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے ان کو عمرہ میں بدلنے کا حکم فرمایا۔

【223】

حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے کے جواز کے بیان میں

عبد بن حمید، عبدالرزاق، معمر، ایوب، ابی العالیہ، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے صبح کی نماز ذی طوٰی میں پڑھی اور ذی الحجہ کی چار تاریخ کو مکہ تشریف لائے اور اپنے صحابہ (رض) کو حکم فرمایا کہ وہ لوگ اپنے احرام کو عمرہ کا احرام کرلیں سوائے اس کے کہ جس کے پاس قربانی کا جانور ہو۔

【224】

حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے کے جواز کے بیان میں

محمد بن مثنی، ابن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، عبیداللہ بن معاذ، شعبہ، حکم، مجاہد، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ یہ عمرہ ہے جس سے ہم نے نفع حاصل کیا ہے تو جس آدمی کے پاس قربانی کا جانور نہیں ہے تو وہ پوری طرح حلال ہوجائے احرام کھول دے کیونکہ عمرہ قیامت تک حج میں داخل ہوگیا ہے۔

【225】

حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے کے جواز کے بیان میں

محمد بن مثنی، ابن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، حضرت ابوجمرہ ضبعی فرماتے ہیں کہ میں نے تمتع کیا تو لوگوں نے مجھے اس سے منع کیا میں حضرت ابن عباس (رض) کی خدمت میں آیا اور ان سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے مجھے اس کا حکم فرمایا حضرت ابوجمرہ کہتے ہیں کہ پھر میں بیت اللہ کی طرف چلا اور میں سو گیا تو کوئی آنے والا میرے خواب میں آیا اور اس نے کہا کہ عمرہ قبول کرلیا گیا اور حج مبرور حضرت ابوجمرہ کہتے ہیں کہ میں حضرت ابن عباس (رض) کے پاس آیا اور اس خواب کے بارے میں انہیں خبر دی کہ میں نے دیکھا ہے تو حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ اَللَّهُ أَکْبَرُ ! اَللَّهُ أَکْبَرُ ! ابوالقاسم ﷺ کی یہی سنت ہے۔

【226】

احرام کے وقت قربانی کے اونٹ کو شعار کرنے اور اسے قلادہ ڈالنے کا بیان میں

محمد بن مثنی، ابن بشار، ابن ابی عدی، ابن مثنی، شعبہ، قتادہ، ابی حسان، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ذوالحلیفہ میں ظہر کی نماز پڑھی پھر آپ ﷺ نے اپنی اونٹنی کو منگوایا اور اس کے کوہان میں دائیں طرف شعار کیا جس سے خون بہا اور اس کے گلے میں دو جوتیوں کا ہار ڈالا پھر آپ ﷺ اپنی سواری پر سوار ہوئے جب آپ ﷺ بیداء کے مقام پر پہنچے تو آپ ﷺ نے حج کا احرام باندھا۔

【227】

احرام کے وقت قربانی کے اونٹ کو شعار کرنے اور اسے قلادہ ڈالنے کا بیان میں

محمد بن مثنی، معاذ بن ہشام، حضرت قتادہ (رض) سے ان سندوں میں اسی طرح روایت نقل کی گئی ہے سوائے اس کے کہ اس میں ہے کہ انہوں نے کہا نبی ﷺ جب ذوالحلیفہ آئے اور اس میں ظہر کی نماز کا نہیں کہا۔

【228】

اس بات کے بیان میں کہ ابن عباس (رض) سے لوگوں کا یہ کہنا کہ آپ کا یہ کیا فتوی ہے کہ جس میں لوگ مشغول ہیں۔

محمد بن مثنی، ابن بشار، ابن مثنی، محمد بن جعفر، شعبہ، حضرت قتادہ (رض) سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے ابوحسان سے سنا وہ فرماتے ہیں کہ بنی جہیم کے ایک آدمی نے حضرت ابن عباس (رض) سے کہا کہ آپ کے اس فتوٰی کہ جس نے بیت اللہ کا طواف کرلیا وہ حلال ہوگیا کی وجہ سے لوگوں میں کافی شور ہوگیا ہے تو حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ یہ تمہارے نبی ﷺ کی سنت ہے اگرچہ تمہیں ناگوار لگے۔

【229】

اس بات کے بیان میں کہ ابن عباس (رض) سے لوگوں کا یہ کہنا کہ آپ کا یہ کیا فتوی ہے کہ جس میں لوگ مشغول ہیں۔

احمد بن سعید دارمی، احمد بن اسحاق، ہمام بن یحیی، قتادہ، حضرت ابوحسان (رض) سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) سے کہا گیا کہ اس مسئلہ کی وجہ سے لوگوں میں کافی شور مچ گیا ہے کہ جس نے بیت اللہ کا طواف کرلیا وہ حلال ہوگیا اور وہ اسے عمرہ کا طواف کرلے تو حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ تمہارے نبی ﷺ کی یہ سنت ہے اگرچہ تمہیں ناگوار ہو۔

【230】

اس بات کے بیان میں کہ ابن عباس (رض) سے لوگوں کا یہ کہنا کہ آپ کا یہ کیا فتوی ہے کہ جس میں لوگ مشغول ہیں۔

اسحاق بن ابراہیم، محمد بن بکر، ابن جریج، حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ کوئی حج کرے یا نہ کرے بیت اللہ کا طواف کرنے سے حلال ہوجاتا ہے میں نے عطاء سے کہا کہ وہ کہاں سے یہ بات فرماتے ہیں انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان (ثُمَّ مَحِلُّهَا إِلَی الْبَيْتِ الْعَتِيقِ ) پھر قربانی ذبح کرنے کا محل بیت اللہ ہے راوی نے کہا کہ میں نے کہا کہ قربانی تو عرفات سے واپسی کے بعد ہوتی ہے تو انہوں نے کہا کہ حضرت ابن عباس (رض) یہی فرماتے تھے کہ عرفات کے بعد یا عرفات سے پہلے انہوں نے یہ مسئلہ نبی ﷺ کے اس حکم سے لیا جس وقت کہ نبی ﷺ نے حجۃ الوداع میں انہیں احرام کھولنے کا حکم فرمایا۔

【231】

عمرہ کرنے والوں کے لئے اپنے بالوں کے کٹوانے یا اپنے سر کو منڈانے کے جواز کے بیان میں

عمرو ناقد، سفیان بن عیینہ، ہشام بن حجیر، طاؤس، حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت معاویہ (رض) نے فرمایا کہ کیا تم جانتے ہو کہ میں نے مروہ کے پاس نبی ﷺ کے سر کے بال تیر کے پیکان سے کاٹے تھے تو میں نے ان سے کہا کہ میں تو یہ نہیں جانتا سوائے اس کے کہ آپ پر حجت ہے۔

【232】

عمرہ کرنے والوں کے لئے اپنے بالوں کے کٹوانے یا اپنے سر کو منڈانے کے جواز کے بیان میں

محمد بن حاتم، یحییٰ بن سعید، ابن جریج، حسن بن مسلم، طاؤس، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ حضرت معاویہ بن ابی سفیان (رض) نے انہیں خبر دی فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے بال مروہ پر تیر کے پیکان سے کاٹے یا کہا کہ میں نے آپ ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ مروہ پر تیر کے پیکان سے بال کٹوا رہے ہیں۔

【233】

حج میں تمتع اور قران کے جواز کے بیان میں

عبیداللہ بن عمر، قواریری، عبدالاعلی، داود، ابی نضرہ، حضرت ابوسعید (رض) سے روایت ہے فرمایا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے اور ہم چیخ چیخ کر حج کو تلبیہ کہہ رہے تھے تو جب ہم مکہ آگئے تو آپ ﷺ نے ہمیں حکم فرمایا کہ جن لوگوں نے قربانی کا جانور بھیج دیا ان کے علاوہ باقی لوگ اپنے احرام کو عمرہ کا احرام کردیں پھر جب ترویہ کا دن آٹھ ذی الحج ہوا تو ہم منیٰ کی طرف گئے اور ہم نے حج کا احرام باندھا۔

【234】

حج میں تمتع اور قران کے جواز کے بیان میں

حجاج بن شاعر، معلی بن اسد، وہیب بن خالد، داود، ابی نضرہ، حضرت جابر (رض) اور حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے دونوں فرماتے ہیں کہ ہم نبی ﷺ کے ساتھ گئے اس حال میں کہ ہم چیخ چیخ کر حج کو تلبیہ کہہ رہے تھے۔

【235】

حج میں تمتع اور قران کے جواز کے بیان میں

حامد بن عمر بکراوی، عبدالواحد، عاصم، حضرت ابونضرہ (رض) سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں حضرت جابر بن عبداللہ (رض) کے پاس تھا تو ایک آنے والے نے آکر عرض کیا کہ حضرت ابن عباس (رض) اور حضرت ابن زبیر (رض) متعوں کے بارے میں اختلاف کر رہے ہیں تو حضرت جابر (رض) نے فرمایا کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ دو مرتبہ تمتع کیا پھر رسول اللہ ﷺ نے ہمیں منع فرمایا پھر ہم نے دوبارہ نہیں کیا۔

【236】

نبی ﷺ کے احرام اور آپ ﷺ کی ہدی کے بیان میں

محمد بن حاتم، ابن مہدی، سلیم بن حبان، مروان اصغر، حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ حضرت علی (رض) یمن سے واپس آئے تو نبی ﷺ نے ان سے فرمایا کہ تو نے احرام باندھتے وقت کس کی نیت کی تھی ؟ حضرت علی (رض) نے عرض کی کہ میں نے نبی ﷺ کے احرام باندھنے کے ساتھ احرام باندھا یعنی جیسے آپ ﷺ کی نیت تھی ویسی ہی میری تھی آپ ﷺ نے فرمایا اگر میرے ساتھ قربانی کا جانور نہ ہوتا تو میں حلال ہوجاتا۔

【237】

نبی ﷺ کے احرام اور آپ ﷺ کی ہدی کے بیان میں

حجاج بن شاعر، عبدالصمد، عبداللہ بن ہاشم، بہز، سلیم بن حبان، اس سند کے ساتھ یہ روایت بھی اسی طرح نقل کی گئی ہے۔

【238】

نبی ﷺ کے احرام اور آپ ﷺ کی ہدی کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، ہشیم، یحییٰ بن ابی اسحاق، عبدالعزیز بن صہیب، حمید، حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو حج اور عمرہ دونوں کو اکٹھا احرام باندھتے ہوئے سنا آپ ﷺ فرما رہے تھے (لَبَّيْکَ عُمْرَةً وَحَجًّا لَبَّيْکَ عُمْرَةً وَحَجًّا)

【239】

نبی ﷺ کے احرام اور آپ ﷺ کی ہدی کے بیان میں

علی بن حجر، اسماعیل بن ابراہیم، یحییٰ ابن ابی اسحاق، حمید، طویل، حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ (لَبَّيْکَ عُمْرَةً وَحَجًّا) اور راوی حمید کہتے ہیں کہ حضرت انس (رض) نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ( لَبَّيْکَ بِعُمْرَةٍ وَحَجٍّ ) فرماتے ہوئے سنا۔

【240】

نبی ﷺ کے احرام اور آپ ﷺ کی ہدی کے بیان میں

سعید بن منصور، عمرو ناقد، زہیر بن حرب، ابن عیینہ، سفیان، زہری، حنظلہ اسلمی، حضرت ابوہریرہ (رض) نبی ﷺ سے روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے حضرت ابن مریم (علیہ السلام) (فَجِّ الرَّوْحَاءِ ) الرَّوْحَاءِ کی گھاٹی میں حج یا عمرہ دونوں کا تلبیہ پڑھیں گے۔

【241】

نبی ﷺ کے احرام اور آپ ﷺ کی ہدی کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، لیث، حضرت ابن شہاب (رض) سے اس سند کے ساتھ اسی طرح روایت ہے اور اس میں ہے کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ وقدرت میں محمد ﷺ کی جان ہے۔

【242】

نبی ﷺ کے احرام اور آپ ﷺ کی ہدی کے بیان میں

حرملہ بن یحیی، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، حنظلہ بن علی اسلمی، حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے آگے گزشتہ دونوں حدیثوں کی طرح نقل فرمایا۔

【243】

نبی ﷺ کے عمرہ کی تعداد کے بیان میں

ہداب بن خالد، ہمام، قتادہ، حضرت انس (رض) خبر دیتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے چار مرتبہ عمرہ کیا اور یہ سارے کے سارے عمرے ذی قعدہ میں کئے سوائے اس عمرہ کے جو آپ ﷺ نے حج کے ساتھ کیا ہے ایک عمرہ صلح حدیبیہ کے موقع پر ذی القعدہ میں کیا تھا اور دوسرا عمرہ آنے والے سال ذی القعدہ میں کیا اور تیسرا عمرہ جعرانہ سے کیا جہاں آپ ﷺ نے غزوہ حنین کا مال غنیمت ذی القعدہ میں تقسیم کیا اور چوتھا عمرہ آپ ﷺ نے اپنے حج کے ساتھ کیا ہے۔

【244】

نبی ﷺ کے عمرہ کی تعداد کے بیان میں

محمد بن مثنی، عبدالصمد، ہمام، حضرت قتادہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت انس (رض) سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ نے کتنے حج کئے حضرت انس (رض) نے فرمایا کہ ایک حج اور چار عمرے کئے پھر اسی طرح حدیث ذکر فرمائی۔

【245】

نبی ﷺ کے عمرہ کی تعداد کے بیان میں

زہیر بن حرب، حسن بن موسی، زہیر، حضرت ابواسحاق فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت زید بن ارقم (رض) سے پوچھا کہ آپ نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کتنے غزوات کئے ہیں ؟ حضرت زید (رض) نے فرمایا کہ سترہ غزوات میں شریک ہوا راوی کہتے ہیں کہ حضرت زید بن ارقم (رض) نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے انیس غزوات میں شرکت کی اور آپ ﷺ نے ہجرت کے بعد ایک حج کیا اور وہ حجہ الوداع ہے راوی ابواسحاق کہتے ہیں کہ مکہ میں آپ ﷺ نے رہتے ہوئے دوسرا حج بھی نہیں کیا۔

【246】

نبی ﷺ کے عمرہ کی تعداد کے بیان میں

ہ اورن بن عبداللہ، محمد بن بکر برسانی، ابن جریج، عطاء، حضرت عروہ بن زبیر (رض) فرماتے ہیں کہ میں اور حضرت ابن عمر (رض) دونوں حضرت عائشہ (رض) کے حجرہ کی طرف ٹیک لگائے ہوئے تھے اور ہم حضرت عائشہ (رض) کے مسواک کرنے کی آواز سن رہے تھے تو میں نے کہا اے ابوعبدالرحمن ! کیا نبی ﷺ نے رجب میں عمرہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ ہاں تو میں نے حضرت عائشہ (رض) سے عرض کیا اے میری اماں ! کیا آپ نہیں سن رہیں کہ ابوعبدالرحمن کیا کہہ رہے ہیں حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا کہ وہ کیا کہتے ہیں میں نے عرض کیا کہ وہ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے رجب میں عمرہ کیا ہے تو حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا کہ اللہ ابوعبدالرحمن کی مغفرت فرمائے میری عمر کی قسم کہ آپ ﷺ نے رجب میں عمرہ نہیں کیا اور آپ ﷺ نے جو عمرہ بھی کیا تو حضرت ابن عمر (رض) آپ ﷺ کے ساتھ تھے راوی کہتے تھے کہ حضرت ابن عمر (رض) سن رہے تھے تو انہوں نے نہ تو کہا نہیں اور نہ ہی کہا ہاں بلکہ وہ خاموش رہے۔

【247】

نبی ﷺ کے عمرہ کی تعداد کے بیان میں

اسحاق بن ابراہیم، جریر، منصور، حضرت مجاہد (رض) سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں اور حضرت عروہ بن زبیر (رض) مسجد میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ حضرت ابن عمر (رض) حضرت عائشہ (رض) کے حجرہ مبارک سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے اور لوگ مسجد میں چاشت کی نماز پڑھ رہے تھے تو ہم نے حضرت ابن عمر (رض) سے ان لوگوں کی نماز کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ یہ بدعت ہے پھر حضرت عروہ (رض) نے حضرت ابن عمر (رض) سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ نے کتنے عمرے کئے ہیں ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ چار عمرے کئے اور ان میں سے ایک عمرہ آپ ﷺ نے رجب میں کیا تو ہم نے ناپسند سمجھا کہ ہم ان کو جھٹلائیں اور ان کی تردید کریں پھر ہم نے حضرت عائشہ (رض) کے حجرہ میں مسواک کرنے کی آواز سنی تو حضرت عروہ کہنے لگے اے ام المومنین ! کیا آپ سن رہی ہیں کہ ابوعبدالرحمن کیا کہہ رہے ہیں ؟ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا کہ وہ کیا کہتے ہیں ؟ عروہ کہنے لگے کہ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے چار عمرے کئے ہیں اور ان میں سے ایک عمرہ رجب میں کیا ہے حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا اللہ ابوعبدالرحمن پر رحم فرمائے کہ رسول اللہ ﷺ نے کوئی عمرہ نہیں کیا سوائے اس کے کہ وہ ان کے ساتھ تھیں اور آپ ﷺ نے رجب میں کوئی عمرہ نہیں کیا۔

【248】

رمضان کے مہینے میں عمرہ کرنے کی فضیلت کے بیان میں

محمد بن حاتم بن میمون، یحییٰ بن سعید، ابن جریج، عطاء، حضرت ابن عباس (رض) بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے انصار کی ایک عورت سے فرمایا راوی نے کہا کہ حضرت ابن عباس (رض) نے اس عورت کا نام بھی لیا تھا میں اس کا نام بھول گیا ہوں فرمایا کہ تجھے ہمارے ساتھ حج کرنے سے کس نے منع کیا ہے ؟ وہ عورت کہنے لگی کہ ہمارے پانی لانے والے دو اونٹ تھے ایک اونٹ پر میرے لڑکے کا باپ یعنی میرا خاوند اور اس کا بیٹا حج کے لئے گیا ہوا ہے اور دوسرا اونٹ ہمارے لئے چھوڑ دیا تاکہ اس پر ہم پانی لائیں آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب رمضان کا مہینہ آئے گا تو عمرہ کرلینا کیونکہ رمضان کے مہینہ میں عمرہ کرنے کا اجر حج کے برابر ہے۔

【249】

رمضان کے مہینے میں عمرہ کرنے کی فضیلت کے بیان میں

احمد بن عبدہ ضبی، یزید یعنی ابن زریع، حبیب معلم، عطاء، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے انصار کی ایک عورت جسے ام سنان (رض) کہا جاتا ہے فرمایا کہ تجھے کس نے منع کیا کہ تو ہمارے ساتھ حج کرے وہ عرض کرنے لگی کہ ہمارے دو اونٹ تھے ان اونٹوں میں سے ایک پر میرا خاوند اور اس کا بیٹا حج کرنے کے لئے گیا ہوا ہے اور دوسرا اونٹ جس پر ہمارا غلام پانی لاتا ہے آپ ﷺ نے فرمایا کہ رمضان کے مہینے میں عمرہ کرنا حج کے برابر ہے یا آپ ﷺ نے فرمایا کہ میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے۔

【250】

مکہ مکرمہ میں بلندی والے حصہ سے داخل ہونے اور نچلے والے حصے سے نکلنے کے استح کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، عبداللہ بن نمیر، ابن نمیر، عبیداللہ، نافع، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ درخت والے راستے سے نکلتے تھے اور معرس والے راستہ سے داخل ہوتے تھے اور جب آپ ﷺ مکہ مکرمہ میں داخل ہوتے تو بلند گھاٹی سے داخل ہوتے اور جب مکہ مکرمہ سے نکلتے تو نچلے والی گھاٹی سے نکلتے تھے۔

【251】

مکہ مکرمہ میں بلندی والے حصہ سے داخل ہونے اور نچلے والے حصے سے نکلنے کے استح کے بیان میں

زہیر بن حرب، محمد بن مثنی، یحیی، قطان، حضرت عبیداللہ (رض) سے ان سندوں کے ساتھ اس طرح روایت منقول ہے۔

【252】

مکہ مکرمہ میں بلندی والے حصہ سے داخل ہونے اور نچلے والے حصے سے نکلنے کے استح کے بیان میں

محمد بن مثنی، ابن ابی عمر، ابن عیینہ، ابن مثنی، سفیان، ہشام بن عروہ، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ جب مکہ مکرمہ کی طرف تشریف لاتے تھے تو اس کی بلندی کی طرف سے داخل ہوتے تھے اور جب واپس نکلتے تو اس کے نچلے حصے کی طرف سے نکلتے تھے۔

【253】

مکہ مکرمہ میں بلندی والے حصہ سے داخل ہونے اور نچلے والے حصے سے نکلنے کے استح کے بیان میں

ابوکریب، ابواسامہ، ہشام، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ فتح مکہ والے سال مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو مکہ کی بلندی والے حصہ کداء کی طرف سے داخل ہوئے حضرت ہشام کہتے ہیں کہ میرا باپ ان دونوں طرف سے داخل ہوتا تھا مگر زیادہ تر کداء کی طرف سے داخل ہوتے تھے۔

【254】

مکہ مکرمہ میں جب داخلہ ہو تو ذی طوی میں رات گزارنے اور غسل کرنے اور دن کے وقت مکہ مکرمہ میں داخل ہونے کے استح میں

زہیر بن حرب، عبیداللہ بن سعید، یحیی، قطان، عبیداللہ، نافع، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ذی طوٰی میں رات گزاری یہاں تک کہ صبح ہوگئی پھر آپ ﷺ مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے راوی کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ (رض) بھی اسی طرح کیا کرتے تھے اور ابن سعید کی روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے رات گزاری یہاں تک کہ آپ ﷺ نے صبح کی نماز پڑھی یحییٰ نے کہا یہاں تک کہ صبح ہوگئی۔

【255】

مکہ مکرمہ میں جب داخلہ ہو تو ذی طوی میں رات گزارنے اور غسل کرنے اور دن کے وقت مکہ مکرمہ میں داخل ہونے کے استح میں

ابوربیع زہرانی، حماد، ایوب، حضرت نافع (رض) سے روایت ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) مکہ میں تشریف نہیں لاتے تھے سوائے اس کے کہ آپ ذی طویٰ میں رات گزارتے یہاں تک کہ صبح ہوجاتی پھر دن کے وقت مکہ مکرمہ میں داخل ہوتے اور ذکر فرماتے تھے کہ نبی ﷺ بھی اسی طرح کرتے تھے۔

【256】

مکہ مکرمہ میں جب داخلہ ہو تو ذی طوی میں رات گزارنے اور غسل کرنے اور دن کے وقت مکہ مکرمہ میں داخل ہونے کے استح میں

محمد بن اسحاق، انس یعنی ابن عیاض، موسیٰ ابن عقبہ، حضرت نافع (رض) سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ جس وقت بھی مکہ مکرمہ تشریف لاتے تو ذی طویٰ میں اترتے اور وہیں رات گزارتے یہاں تک کہ صبح کی نماز پڑھتے اور رسول اللہ ﷺ کی نماز پڑھنے کی جگہ ایک بلند ٹیلے پر ہوتی تھی نہ کہ اس مسجد میں جو کہ بعد میں بنائی گئی اور لیکن اس سے نیچے ایک بلند ٹیلے پر ہے۔

【257】

مکہ مکرمہ میں جب داخلہ ہو تو ذی طوی میں رات گزارنے اور غسل کرنے اور دن کے وقت مکہ مکرمہ میں داخل ہونے کے استح میں

محمد بن اسحاق، انس یعنی ابن عیاض، موسیٰ بن عقبہ، حضرت نافع (رض) سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ (رض) نے ان کو خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ اس لمبے پہاڑ کی دونوں چوٹیوں کے درمیان کعبہ کی طرف رخ کرتے اور اس مسجد کو جو وہاں بنائی گئی ہے اسے ٹیلے کے بائیں طرف کردیتے اور رسول اللہ ﷺ کی نماز پڑھنے کی جگہ اس سیاہ ٹیلے سے بھی نیچے ہے اس سیاہ ٹیلے سے دس ہاتھ چھوڑ کر یا تقریبا اتنا ہی پھر اس لمبے پہاڑ کی دونوں چوٹیوں کے سامنے جو آپ ﷺ کے اور کعبۃ اللہ کے درمیان ہے رخ کر کے نماز پڑھتے تھے اللہ آپ ﷺ پر کروڑوں درود وسلام نازل فرمائے۔ آمین

【258】

حج اور عمرہ کے پہلے طواف میں رمل کرنے کے استح کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، عبداللہ بن نمیر، ابن نمیر، عبیداللہ بن نافع، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب بھی بیت اللہ کا پہلا طواف کرتے تھے تو پہلے تین چکروں میں تیز تیز دوڑتے اور باقی چار چکروں میں عام چال چلتے اور جب صفا ومروہ کے درمیان طواف کرتے تو بطن المسیل[ سیلاب کی گا بٹی ] ( جہاں اب دو سبز نشان ہیں) کے درمیان دوڑ کر چلتے تھے۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر (رض) بھی اسی طرح کرتے تھے۔

【259】

حج اور عمرہ کے پہلے طواف میں رمل کرنے کے استح کے بیان میں

محمد بن عباد، حاتم یعنی ابن اسماعیل، موسیٰ بن عقبہ، نافع، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب بھی (بیت اللہ آنے کے بعد) حج اور عمرہ سب سے پہلا جو طواف کرتے تو آپ ﷺ بیت اللہ کے پہلے تین چکروں میں دوڑتے پھر باقی چار چکروں میں چل کر طواف کرتے پھر دو رکعت نماز پڑھتے اور پھر صفا مروہ کے درمیان طواف (سعی) کرتے۔

【260】

حج اور عمرہ کے پہلے طواف میں رمل کرنے کے استح کے بیان میں

ابوطاہر، حرملہ بن یحیی، حرملہ، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، سالم بن عبداللہ، حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا جب آپ ﷺ مکہ مکرمہ تشریف لاتے تو حجر اسود کا استلام فرماتے اور تشریف لانے کے بعد سب سے پہلے طواف کے سات چکروں میں سے تین چکروں میں تیز چلتے تھے۔

【261】

حج اور عمرہ کے پہلے طواف میں رمل کرنے کے استح کے بیان میں

ابن عمر بن ابان، ابن مبارک، عبیداللہ، نافع، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے حجر اسود سے حجر اسود تک پہلے تین چکروں میں رمل فرمایا اور باقی چار چکروں میں عام چال چلے۔

【262】

حج اور عمرہ کے پہلے طواف میں رمل کرنے کے استح کے بیان میں

ابوکامل حجدری، سلیم بن اخضر، عبیداللہ بن عمر، حضرت نافع (رض) سے روایت ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) نے حجر اسود سے حجر اسود تک رمل کیا اور فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ ایسے ہی کیا کرتے تھے۔

【263】

حج اور عمرہ کے پہلے طواف میں رمل کرنے کے استح کے بیان میں

عبداللہ بن مسلمہ بن قعنب، مالک، یحییٰ بن یحیی، جعفر بن محمد، حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ نے حجر اسود سے حجر اسود تک رمل فرمایا یہاں تک کہ اس تک تین چکر ہوگئے۔

【264】

حج اور عمرہ کے پہلے طواف میں رمل کرنے کے استح کے بیان میں

ابوطاہر، عبداللہ بن وہب، مالک، ابن جریج، جعفر بن محمد، حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حجر اسود سے حجر اسود تک پہلے تین چکروں میں رمل فرمایا۔

【265】

حج اور عمرہ کے پہلے طواف میں رمل کرنے کے استح کے بیان میں

ابوکامل فضیل بن حسین جحدری، عبدالواحد بن زیاد، جریری، حضرت ابوالطفیل (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس (رض) سے عرض کیا کہ بیت اللہ کا طواف پہلے کے تین چکروں میں رمل اور چار چکروں میں عام چال چلنے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے کیا یہ سنت ہے ؟ کیونکہ آپ کی قوم کے لوگ اسے سنت سمجھ رہے ہیں حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ وہ سچے ہیں اور جھوٹے بھی ہیں اور فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ مکہ تشریف لائے تو مشرکوں نے کہا کہ محمد ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ دبلے پتلے ہونے کی وجہ سے بیت اللہ کا طواف کرنے کی طاقت نہیں رکھتے اور انہوں نے کہا کہ مشرک آپ ﷺ سے حسد کرتے ہیں تو رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ کو حکم فرمایا کہ وہ طواف کے پہلے تین چکروں میں رمل کریں یعنی سینہ نکال کر کندھے ہلا ہلا کر تھوڑا تیز چلیں اور باقی چار چکروں میں عام چال چلیں راوی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس (رض) سے عرض کیا کہ آپ مجھے صفا مروہ کے درمیان سعی کرنے کے بارے میں خبر دیں کہ کیا سوار ہو کر کرنا سنت ہے ؟ کیونکہ آپ کی قوم کے لوگ اسے سنت سمجھ رہے ہیں حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ وہ سچے بھی ہیں اور جھوٹے بھی راوی کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ آپ کے اس قول کہ سچے بھی ہیں اور جھوٹے بھی ہیں کا کیا مطلب ہے ؟ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس بہت سے لوگوں کا ہجوم ہوگیا اور وہ کہنے لگے کہ یہ محمد ﷺ ہیں یہ محمد ﷺ ہیں یہاں تک کہ نوجوان عورتیں بھی اپنے گھروں سے باہر نکل آئیں اور رسول اللہ ﷺ اپنے سامنے سے لوگوں کو نہیں ہٹاتے تھے تو جب بہت زیادہ لوگ ہوگئے تو آپ ﷺ سوار ہو کر گئے اور پیدل چلنا اور دوڑنا یہ زیادہ بہتر ہے۔

【266】

حج اور عمرہ کے پہلے طواف میں رمل کرنے کے استح کے بیان میں

محمد بن مثنی، یزید، حضرت جریری اس سند کے ساتھ مذکورہ حدیث کی طرح بیان کرتے ہیں سوائے اس کے کہ اس میں انہوں نے کہا کہ مکہ کی قوم کے لوگ حسد کرنے والے تھے۔

【267】

حج اور عمرہ کے پہلے طواف میں رمل کرنے کے استح کے بیان میں

ابن ابی عمر، سفیان، ابن ابی حسین، حضرت ابوالطفیل (رض) سے روایت ہے فرمایا کہ میں نے حضرت ابن عباس (رض) سے عرض کیا کہ آپ کی قوم کے لوگ خیال کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بیت اللہ کے طواف میں رمل کیا اور صفا ومروہ کے درمیان سعی کی اور یہی سنت ہے حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ انہوں نے سچ بھی کہا اور جھوٹ بھی کہا۔

【268】

حج اور عمرہ کے پہلے طواف میں رمل کرنے کے استح کے بیان میں

محمد بن رافع، یحییٰ بن آدم، زہیر، عبدالملک بن سعید بن ابجر، حضرت ابوالطفیل (رض) سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس (رض) سے عرض کیا کہ میرا خیال ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ مجھ سے بیان کر کہ حضرت ابوالطفیل (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ میں نے آپ کو مروہ کے پاس اونٹنی پر دیکھا اور آپ ﷺ کے پاس بہت سے لوگ تھے راوی کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ وہ رسول اللہ ﷺ تھے کیونکہ وہ لوگ یعنی صحابہ (رض) نہ تو آپ ﷺ کو چھوڑتے تھے اور نہ ہی آپ ﷺ سے دور ہوتے تھے۔

【269】

طواف میں دویمانی رکنوں کے استلام کے استح کے بیان میں

ابوربیع زہرانی، حماد یعنی ابن زید، ایوب، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ (رض) مکہ تشریف لائے حال یہ کہ یثرب (مدینہ) کے بخار نے ان کو کمزور کردیا تھا تو مشرکوں نے کہا کہ کل تمہارے پاس ایسی قوم کے لوگ آئیں گے کہ جنہیں بخار نے کمزور کردیا ہے اور انہیں اس سے سخت تکلیف ملی ہے مشرک حجر کے قریب حطیم میں بیٹھے تھے نبی ﷺ نے اپنے صحابہ (رض) کو حکم فرمایا کہ تین چکروں میں رمل کریں اور دو رکنوں کے درمیان عام چال چلیں تاکہ مشرکوں کو ان کی طاقت دیکھائی جائے تو مشرکوں نے کہا یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کے بارے میں تمہارا یہ خیال تھا کہ یہ بخار کی وجہ سے کمزور ہوگئے ہیں یہ تو فلاں فلاں سے زیادہ طاقتور لگتے ہیں حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ان کے تھک جانے کی وجہ سے ان کو تمام چکروں میں رمل کرنے کا حکم نہیں فرمایا۔

【270】

طواف میں دویمانی رکنوں کے استلام کے استح کے بیان میں

عمر ناقد، ابن ابی عمر، احمد بن عبدہ، ابن عیینہ، ابن عبدہ، حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے بیت اللہ کے طواف میں رمل اس لئے کیا تاکہ مشرکوں کو اپنی طاقت دکھائیں۔

【271】

طواف میں دویمانی رکنوں کے استلام کے استح کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، لیث، قتیبہ، لیث، ابن شہاب، سالم بن عبداللہ، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دو یمانی رکنوں کے علاوہ بیت اللہ کی کسی چیز کو بوسہ دیتے ہوئے نہیں دیکھا۔

【272】

طواف میں دویمانی رکنوں کے استلام کے استح کے بیان میں

ابوطاہر، حرملہ، عبداللہ بن وہب، یونس، ابن شہاب، حضرت سالم اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ بیت اللہ کے رکنوں کا استلام نہیں کرتے تھے سوائے رکن اسود (حجر اسود) اور اس کے ساتھ والے اس رکن کے جو کہ بن جمح کے گھروں (جو اب موجود نہیں ہیں) کی طرف ہے۔

【273】

طواف میں دویمانی رکنوں کے استلام کے استح کے بیان میں

محمد بن مثنی، خالد بن حارث، عبیداللہ، نافع، حضرت عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ استلام نہیں کرتے تھے سوائے حجر اسود اور رکن یمانی کے۔

【274】

طواف میں دویمانی رکنوں کے استلام کے استح کے بیان میں

محمد بن مثنی، زہیر بن حرب، عبیداللہ بن سعید، یحیی، قطان، ابن مثنی، یحیی، عبیداللہ، نافع، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے فرمایا کہ میں نے ان دو رکنوں یمانی اور حجر اسود کا استلام نہیں چھوڑا جس وقت سے میں نے رسول اللہ ﷺ کو ان کو استلام کرتے دیکھا ہے سختی میں اور نہ ہی آسانی میں۔

【275】

طواف میں دویمانی رکنوں کے استلام کے استح کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابن نمیر، ابی خالد، حضرت نافع (رض) سے روایت ہے فرمایا کہ میں نے حضرت ابن عمر (رض) کو دیکھا کہ انہوں نے حجر اسود کا اپنے ہاتھ سے استلام کیا پھر انہوں نے اپنے ہاتھ کو بوسہ دیا اور فرمایا کہ میں نے اس کا استلام اور ہاتھ کو بوسہ دینا جس وقت سے میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس طرح کرتے ہوئے دیکھا میں نے اس طرح کرنا نہیں چھوڑا۔

【276】

طواف میں دویمانی رکنوں کے استلام کے استح کے بیان میں

ابوطاہر، ابن وہب، عمرو بن حارث، قتادہ بن دعامہ، ابوالطفیل، حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو استلام کرتے ہوئے نہیں دیکھا سوائے دو رکن یمانیوں کے۔

【277】

طواف میں حجر اسود کو بوسہ دینے کو استح کے بیان میں۔

حرملہ بن یحیی، ابن وہب، یونس، عمرو، ہارون بن سعید، ابن وہب، عمرو ابن شہاب، حضرت سالم سے روایت ہے کہ ان کے باپ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) بن خطاب نے حجر اسود کو بوسہ دیا پھر حجر اسود کر مخاطب کرکے فرمایا اللہ کی قسم ! میں خوب جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے اور اگر میں نے رسول اللہ ﷺ کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں بھی تجھے بوسہ نہ دیتا۔

【278】

طواف میں حجر اسود کو بوسہ دینے کو استح کے بیان میں۔

محمد بن ابی بکر مقدمی، حماد بن زید، ایوب، نافع، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ حضرت عمر (رض) نے حجر اسود کو بوسہ دیا اور فرمایا کہ میں تجھے بوسہ دے رہا ہوں اور میں یہ اچھی طرح جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے لیکن میں نے تو رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ وہ تجھے بوسہ دیتے ہیں۔

【279】

طواف میں حجر اسود کو بوسہ دینے کو استح کے بیان میں۔

خلف بن ہشام، مقدمی، ابوکامل، قتیبہ بن سعید، حماد، حماد بن زید، حضرت عبداللہ بن سرجس (رض) سے روایت ہے فرمایا کہ میں نے حضرت عمر (رض) کو دیکھا کہ وہ حجر اسود کو بوسہ دے رہے ہیں اور فرما رہے ہیں اللہ کی قسم ! اے حجر اسود میں تجھے بوسہ دے رہا ہوں اور میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے نہ تو نقصان دے سکتا ہے اور نہ ہی تو نفع دے سکتا ہے اور اگر میں نے رسول اللہ ﷺ کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے بوسہ نہ دیتا۔

【280】

طواف میں حجر اسود کو بوسہ دینے کو استح کے بیان میں۔

یحییٰ بن یحیی، ابوبکر بن ابی شیبہ، زہیر بن حرب، ابن نمیر، ابومعاویہ، یحیی، اعمش، ابراہیم، حضرت عابس بن ربیعہ (رض) سے روایت ہے فرمایا کہ میں نے حضرت عمر (رض) کو دیکھا کہ وہ حجر اسود کو بوسہ دے رہے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ اے حجر اسود ! میں تجھے بوسہ دے رہا ہوں اور میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے اور اگر میں نے رسول اللہ ﷺ کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے دیکھا نہ ہوتا تو میں تجھے بوسہ نہ دیتا۔

【281】

طواف میں حجر اسود کو بوسہ دینے کو استح کے بیان میں۔

ابوبکر بن ابی شیبہ، زہیر بن حرب، وکیع، ابوبکر، وکیع، سفیان، ابراہیم، عبدالاعلی، حضرت سوید (رض) بن غفلہ (رض) سے روایت ہے فرمایا کہ میں نے حضرت عمر (رض) کو دیکھا کہ انہوں نے حجر اسود کو بوسہ دیا اور اس سے چمٹ گئے اور فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ وہ تجھے بہت چاہتے تھے۔

【282】

طواف میں حجر اسود کو بوسہ دینے کو استح کے بیان میں۔

محمد بن مثنی، عبدالرحمن، حضرت سفیان (رض) سے اسی سند کے ساتھ اسی طرح روایت منقول ہے لیکن اس میں ہے کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ وہ حجر اسود کو بہت چاہتے تھے اور اس میں یہ ذکر نہیں کہ وہ حجر اسود سے چمٹ گئے ہوں۔

【283】

اونٹ وغیرہ پر سوار ہو کر بیت اللہ کا طواف اور چھڑی وغیرہ سے حجر اسود کو استلام کرنے کے جواز کے بیان میں

ابوطاہر، حرملہ بن یحیی، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حجہ الوداع میں اونٹ پر طواف کیا اور چھڑی کے ساتھ حجر اسود کا استلام کیا۔

【284】

اونٹ وغیرہ پر سوار ہو کر بیت اللہ کا طواف اور چھڑی وغیرہ سے حجر اسود کو استلام کرنے کے جواز کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، علی بن مسہر، ابن جریج، ابی زبیر، حضرت جابر (رض) سے روایت ہے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے حجہ الوداع میں بیت اللہ کا طواف اپنی سواری پر کیا اور اپنی چھڑی کے ساتھ حجر اسود کا استلام فرمایا اس وجہ سے تاکہ لوگ آپ ﷺ کو دیکھ لیں اور لوگ آپ ﷺ سے مسائل وغیرہ پوچھ سکیں اس لئے لوگوں نے آپ ﷺ کو گھیر رکھا تھا۔

【285】

اونٹ وغیرہ پر سوار ہو کر بیت اللہ کا طواف اور چھڑی وغیرہ سے حجر اسود کو استلام کرنے کے جواز کے بیان میں

علی بن خشرم، عیسیٰ بن یونس، ابن جریج، عبدہ بن حمید، محمد یعنی ابن بکر، ابن جریج، ابوزبیر، حضرت جابر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے حجہ الوداع میں اپنی سواری پر بیت اللہ کو طواف اور صفا ومروہ کے درمیان سعی کی یہ بلند ہونا اس وجہ سے تاکہ لوگ آپ ﷺ کو دیکھ سکیں اور آپ ﷺ سے مسائل وغیرہ پوچھ سکیں کیونکہ لوگوں نے آپ ﷺ کو گھیر رکھا تھا۔

【286】

اونٹ وغیرہ پر سوار ہو کر بیت اللہ کا طواف اور چھڑی وغیرہ سے حجر اسود کو استلام کرنے کے جواز کے بیان میں

حکم بن موسی، شعیب بن اسحاق، ہشام بن عروہ، عروہ، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ نبی ﷺ نے حجہ الوداع میں کعبۃ اللہ کے گرد اپنے اونٹ پر طواف کیا اور حجر اسود کا استلام کیا آپ ﷺ ناپسند فرماتے تھے کہ لوگوں کو اس سے ہٹایا جائے۔

【287】

اونٹ وغیرہ پر سوار ہو کر بیت اللہ کا طواف اور چھڑی وغیرہ سے حجر اسود کو استلام کرنے کے جواز کے بیان میں

محمد بن مثنی، سلیمان بن داود، معروف بن خربوذ، حضرت ابوالطفیل (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے دیکھا اور آپ ﷺ کے پاس ایک چھڑی تھی جس سے حجر اسود کا استلام کرتے اور پھر اس چھڑی کو بوسہ دیتے۔

【288】

اونٹ وغیرہ پر سوار ہو کر بیت اللہ کا طواف اور چھڑی وغیرہ سے حجر اسود کو استلام کرنے کے جواز کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، مالک، محمد بن عبدالرحمن ابن نوفل، عروہ، زینب بنت ابی سلمہ، حضرت ام سلمہ (رض) سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے شکایت کی کہ میں بیمار ہوں تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تو سوار ہو کر لوگوں کے پیچھے طواف کرلے حضرت ام سلمہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے جب طواف کیا تو اس وقت رسول اللہ ﷺ بیت اللہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے اور آپ ﷺ نماز میں (وَالطُّورِ وَکِتَابٍ مَسْطُورٍ ) پڑھ رہے تھے۔

【289】

اس بات کے بیان کہ صفا ومروہ کے درمیان سعی حج کا رکن ہے اسکے بغیر حج نہیں۔

یحییٰ بن یحیی، ابومعاویہ، حضرت ہشام بن عروہ (رض) اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ (رض) سے عرض کیا کہ میرا خیال ہے کہ کوئی آدمی اگر صفا ومروہ کے درمیان طواف سعی نہ کرے تو کوئی نقصان نہیں حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا کیوں میں نے عرض کیا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ صفا اور مروہ اللہ کے شعائر میں سے ہیں تو جو آدمی بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے تو کوئی حرج نہیں کہ صفاومروہ کے درمیان طواف سعی کرے حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ کسی آدمی کا حج اور نہ ہی عمرہ پورا ہوگا جب تک کہ وہ صفا مروہ کے درمیان طواف ( سعی) نہ کرے اور اگر اس طرح سے ہے جیسا کہ تو کہتا ہے تو اللہ اس طرح فرماتے ترجمہ کوئی حرج نہیں جو صفا ومروہ کے درمیان طواف (سعی) نہ کرے اور کیا تجھے معلوم ہے کہ اس کا شان نزول کیا ہے اس کا شان نزول یہ ہے کہ جاہلیت کے زمانہ میں سمندر کے ساحل پر انصار دو بتوں کے نام کا احرام باندھتے تھے ان بتوں کو اساف اور نائلہ کہا جاتا ہے پھر وہ آتے اور صفا ومروہ کے درمیان طواف سعی کرتے پھر حلق کراتے یعنی سر منڈاتے تو جب اسلام آیا تو انہوں نے ناپسند کیا کہ صفاومروہ کے درمیان طواف (سعی) کریں اس وجہ سے کہ جاہلیت کے زمانہ میں وہ اس طرح کرتے تھے حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آیت نازل فرمائی ترجمہ صفا مروہ اللہ تعالیٰ کے شعائر میں سے ہے آخر تک حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ پھر انہوں نے سعی کی۔

【290】

اس بات کے بیان کہ صفا ومروہ کے درمیان سعی حج کا رکن ہے اسکے بغیر حج نہیں۔

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابواسامہ، حضرت ہشام بن عروہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ (رض) سے عرض کیا کہ میرا خیال ہے کہ اگر میں صفا ومروہ کے درمیان طواف سعی نہ کروں تو مجھ پر کوئی گناہ نہیں حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا کیوں میں نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَا ى ِرِاللّٰهِ ) 2 ۔ البقرۃ : 158) کہ صفا مروہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں تو جو کوئی بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ ان دونوں کے درمیان طواف سعی کرے حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ جیسے تم کہتے ہو کہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہے کہ وہ صفا مروہ کے درمیان طواف سعی نہ کرے تو یہ آیت انصار کے کچھ لوگوں کے بارے میں نازل کی گئی کہ وہ جاہلیت کے زمانہ میں مناہ بت کے نام کا احرام باندھتے تھے تو صفا مروہ کے درمیان طواف کرنا ان کے لئے حلال نہیں تھا تو جب وہ نبی ﷺ کے ساتھ حج کے لئے آئے تو انہوں نے آپ ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی میری عمر کی قسم ! اللہ اس کا حج پورا نہیں کرے گا کہ جو صفا مروہ کے درمیان طواف سعی نہیں کرے گا۔

【291】

اس بات کے بیان کہ صفا ومروہ کے درمیان سعی حج کا رکن ہے اسکے بغیر حج نہیں۔

عمرو ناقد، ابن ابی عمر، ابن عیینہ، ابن ابی عمر، سفیان، زہری، حضرت عروہ بن زبیر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ (رض) سے عرض کیا میری یہ رائے ہے کہ اگر کوئی صفا ومروہ کے درمیان طواف نہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں اور میں بھی صفا مروہ کے درمیان طواف نہ کرنے کی پرواہ نہیں کرتا۔ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا کہ اے میرے بھانجے ! جو تو نے کہا برا کہا رسول اللہ ﷺ نے صفا ومروہ کے درمیان طواف کیا اور مسلمانوں نے بھی طواف (سعی) کیا اور یہی سنت ہے اور جو لوگ مُشَلَل میں منات (بت) کا احرام باندھتے تھے وہ لوگ صفامروہ کے درمیان طواف نہیں کرتے تھے تو جب اسلام آیا اور اس بارے میں ہم نے نبی ﷺ سے پوچھا تو اللہ نے آیت نازل فرمائی ترجمہ صفا مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے تو جو آدمی بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ ان کا طواف کرے اور اگر اس طرح ہوتا جیسا کہ تم کہتے ہو تو یہ آیت اس طرح آتی کہ ان پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ ان دونوں کا طواف نہ کریں زہری کہتے ہیں کہ اس نے حضرت ابوبکر بن عبدالرحمن بن حارث بن ہشام سے اس کا ذکر کیا تو وہ اس سے خوش ہوئے اور فرمایا کہ یہی دراصل علم ہے اور میں نے اہل علم میں سے بہت سے لوگوں سے سنا ہے وہ کہتے ہیں کہ عرب کے لوگ صفا مروہ کے درمیان طواف نہیں کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ان دو پتھروں کے درمیان ہمارا طواف کرنا جاہلیت کے زمانہ کے کاموں میں سے تھا اور دوسرے انصار لوگوں نے کہا کہ ہمیں صفا مروہ کے درمیان طواف کا حکم نہیں دیا تو اللہ تعالیٰ نے آیت نازل فرمائی کہ صفا مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے (البقرہ) حضرت ابوبکر بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میری رائے یہ ہے کہ یہ آیت ان سب لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی۔

【292】

اس بات کے بیان کہ صفا ومروہ کے درمیان سعی حج کا رکن ہے اسکے بغیر حج نہیں۔

محمد بن رافع، حجین بن مثنی، لیث، عقیل، ابن شہاب، حضرت عروہ بن زبیر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ (رض) سے پوچھا اور پھر آگے اسی طرح حدیث بیان کی اور اس حدیث میں ہے کہ جب انہوں نے اس بارے میں رسول اللہ ﷺ سے پوچھا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ ہم صفا اور مروہ کے درمیان طواف کرنے میں حرج خیال کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے آیت نازل فرمائی ترجمہ۔ صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے تو جو کوئی آدمی بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ صفا مروہ کے درمیان طواف کرے۔ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے صفا اور مروہ کے درمیان طواف کو مسنون قرار دیا ہے تو اب کسی کے لئے بھی جائز نہیں کہ وہ صفا اور مروہ کے درمیان طواف کو چھوڑ دے۔

【293】

اس بات کے بیان کہ صفا ومروہ کے درمیان سعی حج کا رکن ہے اسکے بغیر حج نہیں۔

حرملہ بن یحیی، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، حضرت عروہ (رض) سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ (رض) خبر دیتی ہیں کہ انصار کے لوگ اسلام لانے سے پہلے غسان اور مناہ (بتوں کے نام) کے لئے احرام باندھتے تھے تو وہ اس وجہ سے صفا مروہ کے درمیان طواف کرنے کا گناہ سمجھتے تھے اور یہ ان کے آباواجداد کا طریقہ تھا کہ جو مناہ کے لئے احرام باندھتا تو وہ صفا مروہ کے درمیان طواف نہیں کرتا تھا جس وقت وہ لوگ اسلام لے آئے تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس بارے میں پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں یہ آیت نازل فرمائی ترجمہ کہ صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے تو جو کوئی آدمی بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ صفا اور مروہ کے درمیان طواف کرے اور جو کوئی نفلی نیکی کرے گا تو اللہ قدر دان اور جاننے والا ہے۔

【294】

اس بات کے بیان کہ صفا ومروہ کے درمیان سعی حج کا رکن ہے اسکے بغیر حج نہیں۔

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابومعاویہ، عاصم، حضرت انس (رض) سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ انصار صفا اور مروہ کے درمیان طواف سعی کرنے کو مکروہ سمجھتے تھے یہاں تک کہ آیت نازل ہوئی ترجمہ کہ صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کے شعائر میں سے ہے تو جو آدمی بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں کہ صفا اور مروہ کے درمیان طواف سعی کرے۔

【295】

سعی مکرر نہ کرنے کے بیان میں

محمد بن حاتم، یحییٰ بن سعید، ابن جریج، ابوزبیر، حضرت جابر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ (رض) صفا اور مروہ کے درمیان طواف (سعی) نہیں کرتے تھے مگر ایک مرتبہ

【296】

سعی مکرر نہ کرنے کے بیان میں

عبد بن حمید، محمد بن بکر، ابن جریج سے اس سند کے ساتھ اس طرح روایت نقل کی گئی ہے اور اس میں ہے کہ سوائے ایک طواف کے اور وہ بھی پہلے طواف کے۔

【297】

حاجی کا قربانی کے دن جمرہ عقبہ کی رمی تک تلبیہ پڑھتے رہنے کے استح کے بیان میں

یحییٰ بن ایوب، قتیبہ بن سعید، ابن حجر، اسماعیل، یحییٰ بن یحیی، اسماعیل بن جعفر، محمد بن ابی حرملہ، کریب مولیٰ ابن عباس، حضرت اسامہ بن زید (رض) سے روایت ہے فرمایا کہ میں عرفات سے رسول اللہ ﷺ کے پیچھے سواری پر بیٹھا ہوا تھا تو جب رسول اللہ ﷺ مزدلفہ کے بائیں طرف ایک گھاٹی پر پہنچے تو آپ ﷺ نے اپنا اونٹ بٹھایا اور پھر آپ ﷺ نے پیشاب کیا پھر آپ ﷺ آئے اور میں نے آپ ﷺ کو وضو کروایا تو آپ ﷺ نے ہلکا مختصر وضو کیا پھر میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! نماز کا وقت ہوگیا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ نماز آگے ہے پھر رسول اللہ ﷺ سوار ہوئے یہاں تک کہ مزدلفہ آگیا تو آپ ﷺ نے نماز پڑھی پھر رسول اللہ ﷺ نے مزدلفہ کی صبح فضل (رض) کو اپنے پیچھے سواری پر بٹھایا۔

【298】

حاجی کا قربانی کے دن جمرہ عقبہ کی رمی تک تلبیہ پڑھتے رہنے کے استح کے بیان میں

راوی کریب کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے مجھے حضرت فضل کے بارے میں خبر دی کہ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ تلبیہ پڑھتے رہے یہاں تک کہ جمرہ تک پہنچ گئے۔ اسحاق بن ابراہیم، علی بن خشرم، عیسیٰ ابن یونس، ابن خشرم، عیسی، ابن جریج، عطاء، حضرت ابن عباس (رض) خبر دیتے ہیں کہ نبی ﷺ نے حضرت فضل (رض) کو مزدلفہ سے اپنے پیچھے سواری پر بٹھایا حضرت فضل خبر دیتے ہیں کہ نبی ﷺ تلبیہ پڑھتے رہے یہاں تک کہ جمرہ عقبہ تک کنکریاں مارنے کے لئے پہنچ گئے۔

【299】

حاجی کا قربانی کے دن جمرہ عقبہ کی رمی تک تلبیہ پڑھتے رہنے کے استح کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، لیث، ابن رمح، لیث، ابی زبیر، ابی معبد مولیٰ ابن عباس، حضرت فضل بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سواری پر پیچھے بیٹھے ہوئے تھے حضرت فضل کہتے ہیں کہ آپ ﷺ عرفہ کی شام اور اگلے دن یعنی مزدلفہ کی صبح لوگوں سے فرماتے کہ آہستہ چلو اور آپ ﷺ اپنی اونٹنی کو روکتے ہوئے جاتے یہاں تک کہ آپ ﷺ وادی محسر میں داخل ہوگئے اور محسر منٰی میں ہے آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم پر لازم ہے کہ جمرہ کو کنکریاں مارنے کے لئے کنکریاں اٹھا لاؤ حضرت فضل فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جمرہ کو کنکریاں مارنے تک تلبیہ پڑھتے رہے۔

【300】

حاجی کا قربانی کے دن جمرہ عقبہ کی رمی تک تلبیہ پڑھتے رہنے کے استح کے بیان میں

زہیر بن حرب، یحییٰ بن سعید، حضرت ابن جریج، ابوزبیر سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت ابوالزبیر (رض) نے اس سند کے ساتھ حدیث کی خبر دی سوائے اس کے اس حدیث میں یہ ذکر نہیں کہ رسول اللہ ﷺ جمرہ کو کنکریاں مارنے تک تلبیہ پڑھتے رہے اور اس حدیث میں یہ زیادہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے ہاتھ مبارک سے اشارہ فرماتے جس طرح کہ چٹکی سے پکڑ کر انسان کنکری مارتا ہے۔

【301】

حاجی کا قربانی کے دن جمرہ عقبہ کی رمی تک تلبیہ پڑھتے رہنے کے استح کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوالاحوص، حصین، کثیر بن مدرک، حضرت عبدالرحمن بن یزید (رض) سے روایت ہے فرمایا کہ حضرت عبداللہ اور ہم مزدلفہ میں تھے تو میں نے آپ ﷺ پر نازل کی گئی سورت البقرہ سنی آپ ﷺ اس مقام پر فرما رہے تھے لَبَّيْکَ اللَّهُمَّ لَبَّيْکَ

【302】

حاجی کا قربانی کے دن جمرہ عقبہ کی رمی تک تلبیہ پڑھتے رہنے کے استح کے بیان میں

سریج بن یونس، ہشیم، حصین، کثیر ابن مدرک اشجعی، حضرت عبدالرحمن بن یز ید (رض) سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ (رض) جس وقت مزدلفہ سے واپس ہوئے تو تلبیہ پڑھتے رہے تو لوگ کہنے لگے کہ کیا یہ دیہاتی آدمی ہیں ؟ حضرت عبداللہ (رض) نے فرمایا کہ کیا لوگ بھول گئے یا گمراہ ہوگئے ہیں ؟ میں نے اس ذات ﷺ سے سنا کہ جس پر سورت البقرہ نازل کی گئی ہے وہ اس جگہ فرما رہے تھے (لَبَّيْکَ اللَّهُمَّ لَبَّيْکَ )

【303】

حاجی کا قربانی کے دن جمرہ عقبہ کی رمی تک تلبیہ پڑھتے رہنے کے استح کے بیان میں

حسن حلوانی، یحییٰ بن آدم، سفیان، حضرت حصین سے اس سند کے ساتھ اسی طرح روایت منقول ہے۔

【304】

حاجی کا قربانی کے دن جمرہ عقبہ کی رمی تک تلبیہ پڑھتے رہنے کے استح کے بیان میں

یوسف بن حماد، زیاد یعنی بکانی، حصین، کثیر بن مدرک اشجعی، حضرت عبدالرحمن بن یزید (رض) اور حضرت اسود بن یزید (رض) سے روایت ہے کہ دونوں فرماتے ہیں کہ ہم نے حضرت عبدالرحمن بن مسعود (رض) سے سنا کہ وہ مزدلفہ میں فرما رہے تھے کہ میں نے اس ذات سے سنا کہ جس پر یہاں سورت البقرہ نازل کی گئی آپ ﷺ فرما رہے تھے لَبَّيْکَ اللَّهُمَّ لَبَّيْکَ پھر حضرت عبداللہ نے بھی تلبیہ پڑھا اور ہم نے بھی ان کے ساتھ تلبیہ پڑھا۔

【305】

عرفہ کے دن منی سے عرفات کی طرف جاتے ہوئے تکبیر اور تلبیہ پڑھنے کے بیان میں

احمد بن حنبل، محمد بن مثنی، عبداللہ بن نمیر، سعید بن یحییٰ اموی، یحییٰ بن سعید، عبداللہ بن ابی سلمہ، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے فرمایا کہ ہم اگلے دن صبح کو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ منیٰ سے عرفات کی طرف گئے تو ہم میں سے کوئی تلبیہ پڑھ رہا تھا اور ہم میں سے کوئی تکبیر پڑھ رہا تھا۔

【306】

عرفہ کے دن منی سے عرفات کی طرف جاتے ہوئے تکبیر اور تلبیہ پڑھنے کے بیان میں

محمد بن ابی حاتم، ہارون بن عبداللہ، یعقوب دورقی، یزید بن ہارون، عبدالعزیز بن ابی سلمہ، عمر بن حسین، عبداللہ بن ابی سلمہ، حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ ہم عرفہ کی صبح کو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے تو ہم میں سے کوئی تکبیر کہہ رہا تھا اور ہم میں سے کوئی لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ کہہ رہا تھا باقی ہم تکبیر کہہ رہے تھے راوی نے کہا کہ میں نے حضرت عبداللہ (رض) سے کہا واللہ بڑے تعجب کی بات ہے کہ تم نے ان سے کیوں نہ کہا کہ رسول اللہ کس طرح کرتے تھے۔

【307】

عرفہ کے دن منی سے عرفات کی طرف جاتے ہوئے تکبیر اور تلبیہ پڑھنے کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، مالک، حضرت محمد بن ابی بکر ثقفی (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت انس بن مالک (رض) سے پوچھا جب کہ وہ دونوں منیٰ سے عرفات کی طرف جا رہے تھے کہ تم اس دن یعنی عرفہ کے دن میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کیا کرتے تھے ؟ حضرت انس (رض) فرمانے لگے کہ کوئی تو ہم میں سے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ پڑھتا تھا اور کوئی بھی اس پر نکیر نہیں کرتا تھا اور کوئی ہم میں سے اَللَّهُ أَکْبَرُ کہتا تھا تو اس پر بھی کوئی نکیر نہیں کرتا تھا۔

【308】

عرفہ کے دن منی سے عرفات کی طرف جاتے ہوئے تکبیر اور تلبیہ پڑھنے کے بیان میں

سریج بن یونس، عبداللہ بن رجاء، حضرت موسیٰ بن عقبہ (رض) سے روایت ہے کہ مجھے حضرت محمد بن ابی بکر (رض) نے بیان کیا کہ میں نے حضرت انس بن مالک (رض) سے عرض کیا کہ آپ عرفہ کی صبح تلبیہ پڑھنے کے بارے میں کیا کہتے ہیں ؟ حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ میں اور آپ ﷺ کے صحابہ اس سفر میں نبی ﷺ کے ساتھ تھے تو ہم میں سے کوئی تکبیر کہہ رہا تھا اور ہم میں سے کوئی لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ کہہ رہا تھا اور ہم میں سے کوئی بھی اپنے کسی ساتھی کو منع نہیں کرتا تھا۔

【309】

عرفات سے مزدلفہ کی طرف واپسی اور اس رات مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کی نمازیں اکٹھی پڑھنے کے استح کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، مالک، موسیٰ بن عقبہ، کریب مولیٰ ابن عباس، حضرت اسامہ بن زید (رض) سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عرفہ سے واپس ہوئے یہاں تک کہ جب آپ ﷺ ایک گھاٹی میں اترے تو آپ ﷺ نے پیشاب فرمایا پھر وضو فرمایا اور وضو میں آپ ﷺ نے پانی زیادہ نہیں بہایا مختصر وضو کیا حضرت اسامہ کہتے ہیں کہ میں نے آپ ﷺ سے عرض کیا کہ نماز آپ ﷺ نے فرمایا کہ نماز تیرے آگے ہے یعنی کچھ آگے چل کر پڑھیں گے آپ ﷺ سوار ہوئے تو جب مزدلفہ آیا تو آپ ﷺ اترے اور وضو فرمایا اور پورا وضو فرمایا پھر نماز کی اقامت کہی گئی تو آپ ﷺ نے مغرب کی نماز پڑھائی پھر ہر انسان نے اپنے اونٹ کو ان جگہ میں بٹھا دیا پھر عشاء کی اقامت کہی گئی تو آپ ﷺ نے عشاء کی نماز پڑھائی اور مغرب اور عشاء کے درمیان آپ ﷺ نے کوئی نماز سنن ونوافل وغیرہ نہیں پڑھی۔

【310】

عرفات سے مزدلفہ کی طرف واپسی اور اس رات مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کی نمازیں اکٹھی پڑھنے کے استح کے بیان میں

محمد بن رمح، لیث، یحییٰ بن سعید، موسیٰ بن عقبہ مولیٰ زبیر، کریب مولیٰ ابن عباس، حضرت اسامہ بن زید (رض) سے روایت ہے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ عرفات کے بعد قضاء حاجت کے لئے کسی گھاٹی کی طرف گئے جب میں نے آپ ﷺ کو وضو کرایا تو میں نے عرض کیا کہ کیا آپ ﷺ نماز پڑھیں گے آپ ﷺ نے فرمایا کہ نماز تیرے آگے ہے یعنی کچھ آگے چل کر نماز پڑھیں۔

【311】

عرفات سے مزدلفہ کی طرف واپسی اور اس رات مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کی نمازیں اکٹھی پڑھنے کے استح کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ عبداللہ بن مبارک، ابوکریب، ابراہیم بن عقبہ کریب، حضرت اسامہ بن زید (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عرفات سے واپس ہوئے تو جب آپ ﷺ ایک گھاٹی کی طرف اترے تو آپ ﷺ نے پیشاب کیا اور حضرت اسامہ (رض) نے وضو کرانے کا نہیں کہا پھر آپ ﷺ نے پانی منگوایا اور آپ ﷺ نے مختصر وضو فرمایا حضرت اسامہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ نماز ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ نماز تیرے آگے ہے یعنی نماز کچھ آگے چل کر پڑھیں گے حضرت اسامہ (رض) کہتے ہیں کہ پھر آپ ﷺ چلے یہاں تک کہ جب آپ ﷺ مزدلفہ پہنچے تو آپ ﷺ نے مغرب اور عشاء کی نمازیں اکٹھی پڑھیں۔

【312】

عرفات سے مزدلفہ کی طرف واپسی اور اس رات مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کی نمازیں اکٹھی پڑھنے کے استح کے بیان میں

اسحاق بن ابرہیم، یحییٰ بن آدم، زہیر، ابوخیمثہ، ابراہیم بن عقبہ، کریب، اسامہ بن زید بیان کرتے ہیں کہ کریب نے مجھے خبر دی کہ انہوں نے حضرت اسامہ بن زید (رض) سے پوچھا کہ جس وقت تم عرفہ کی شام کو رسول اللہ ﷺ کے پیچھے سوار ہوئے تھے تو اس کے بعد آپ ﷺ نے کیا کیا تھا ؟ حضرت اسامہ (رض) فرماتے ہیں کہ ہم اس گھاٹی میں آئے جس میں لوگ مغرب کی نماز کے لئے اپنے اونٹوں کو بٹھاتے تھے رسول اللہ ﷺ نے بھی اپنی اونٹنی کو بٹھایا اور آپ ﷺ نے پیشاب کیا اور حضرت اسامہ (رض) نے وضو کرانے کا نہیں فرمایا پھر آپ ﷺ نے وضو کے لئے پانی منگوایا اور مختصر وضو کیا پھر میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول ! نماز ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا نماز تیرے آگے ہے یعنی کچھ آگے چل کر پڑھتے ہیں پھر ہم سوار ہوئے یہاں تک کہ ہم مزدلفہ آگئے تو مغرب کی اقامت ہوئی پھر لوگوں نے اونٹوں کو ان کی جگہوں پر بٹھا دیا اور پھر انہیں نہیں کھولا یہاں تک کہ عشاء کی نماز کی اقامت ہوئی اور آپ ﷺ نے نماز پڑھائی پھر لوگوں نے اپنے اونٹوں کو کھولا راوی کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا کہ آپ ﷺ نے حضرت فضل بن عباس (رض) کو اپنے پیچھے بٹھایا اور میں قریش کے پہلے چلے جانے والوں میں سے پیدل جانے والا تھا۔

【313】

عرفات سے مزدلفہ کی طرف واپسی اور اس رات مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کی نمازیں اکٹھی پڑھنے کے استح کے بیان میں

اسحاق بن ابراہیم وکیع، سفیان، محمد بن عقبہ، کریب، حضرت اسامہ بن زید (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب اس گھاٹی پر آئے جس جگہ امراء لوگ اترتے ہیں آپ ﷺ اترے اور آپ ﷺ نے پیشاب کیا اور پانی بہانے کا نہیں کہا پھر آپ ﷺ نے وضو کے لئے پانی منگوایا تو آپ ﷺ نے وضو فرمایا مختصر وضو حضرت اسامہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! نماز ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ نماز تیرے آگے ہے یعنی نماز کچھ آگے چل کر پڑھیں گے۔

【314】

عرفات سے مزدلفہ کی طرف واپسی اور اس رات مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کی نمازیں اکٹھی پڑھنے کے استح کے بیان میں

عبد بن حمید، عبدالرزاق، معمر، زہری، عطاء، سباع، حضرت اسامہ بن زید (رض) سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ عرفات سے واپس آئے تو جب آپ ﷺ گھاٹی کے پاس آئے تو آپ ﷺ نے اپنی سواری کو بٹھایا پھر آپ ﷺ قضاء حاجت کے لئے تشریف لے گئے اور جب آپ ﷺ لوٹے تو میں نے برتن میں پانی لے کر آپ ﷺ کو وضو کروایا پھر آپ ﷺ سوار ہوئے اور مزدلفہ آئے اور وہاں آپ ﷺ نے مغرب اور عشاء دونوں نمازوں کو اکٹھا پڑھا۔

【315】

عرفات سے مزدلفہ کی طرف واپسی اور اس رات مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کی نمازیں اکٹھی پڑھنے کے استح کے بیان میں

زہیر بن حرب، یزید بن ہارون، عبدالملک بن ابی سلیمان، عطاء، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ عرفہ سے واپس لوٹے تو حضرت اسامہ (رض) آپ ﷺ کی سواری پر آپ ﷺ کے پیچھے سوار تھے حضرت اسامہ (رض) فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ چلتے رہے یہاں تک کہ مزدلفہ آگئے۔

【316】

عرفات سے مزدلفہ کی طرف واپسی اور اس رات مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کی نمازیں اکٹھی پڑھنے کے استح کے بیان میں

ابوربیعم قتیبہ بن سعید، حماد بن زید، حضرت ہشام (رض) اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حضرت اسامہ (رض) سے سوال کیا گیا اور میں بھی وہاں موجود تھا یا فرمایا کہ میں نے حضرت اسامہ (رض) سے پوچھا کہ اسامہ (رض) عرفات سے واپسی پر رسول اللہ ﷺ کی سواری پر آپ ﷺ کے پیچھے سوار تھے کہ رسول اللہ ﷺ عرفات سے جس وقت واپس ہوئے تو کیسے چل رہے تھے ؟ حضرت اسامہ (رض) فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ آہستہ چل رہے تھے تو جب روشنی پاتے تو تیز رفتار ہوجاتے تھے۔

【317】

عرفات سے مزدلفہ کی طرف واپسی اور اس رات مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کی نمازیں اکٹھی پڑھنے کے استح کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، عبدہ بن سلیمان، عبداللہ بن نمیر، حمید بن عبدالرحمن، حضرت ہشام بن عروہ (رض) سے اس سند کے ساتھ اسی طرح روایت نقل کی گئی ہے۔

【318】

عرفات سے مزدلفہ کی طرف واپسی اور اس رات مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کی نمازیں اکٹھی پڑھنے کے استح کے بیان میں

یحییٰ بن یحییٰ سلیمان بن بلال، یحییٰ بن سعید، عدی بن ثابت عبداللہ بن یزید، حضرت ابوایوب خبر دیتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حجہالوداع کے موقع پر مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کی نماز پڑھی۔

【319】

عرفات سے مزدلفہ کی طرف واپسی اور اس رات مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کی نمازیں اکٹھی پڑھنے کے استح کے بیان میں

قتیبہ، ابن رمح، لیث بن سعد، حضرت یحییٰ بن سعید (رض) اس سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں ابن رمح اپنی روایت میں حضرت عبداللہ بن یزید خطمی کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ حضرت ابن زبیر (رض) کے زمانہ میں کوفہ کے امیر تھے۔

【320】

عرفات سے مزدلفہ کی طرف واپسی اور اس رات مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کی نمازیں اکٹھی پڑھنے کے استح کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، مالک ابن شہاب، سالم بن عبداللہ، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کی نمازیں اکٹھی پڑھیں۔

【321】

عرفات سے مزدلفہ کی طرف واپسی اور اس رات مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کی نمازیں اکٹھی پڑھنے کے استح کے بیان میں

حرملہ بن یحییٰ ابن وہب یونس، حضرت ابن شہاب (رض) سے روایت ہے کہ عبیداللہ بن ابن عمر (رض) انہیں خبر دیتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کی نمازوں کو اکٹھا پڑھا اور ان دونوں نمازوں کے درمیان کوئی سجدہ نہیں کیا یعنی کوئی سنن وغیرہ نہیں پڑھیں اور آپ ﷺ نے مغرب کی تین رکعتیں پڑھیں اور عشاء کی نماز کی دو رکعتیں تو حضرت عبداللہ (رض) بھی اسی طرح اکٹھی نمازیں پڑھتے تھے یہاں تک کہ اللہ سے جا ملے۔

【322】

عرفات سے مزدلفہ کی طرف واپسی اور اس رات مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کی نمازیں اکٹھی پڑھنے کے استح کے بیان میں

محمد بن مثنی، عبدالرحمن بن مہدی، شعبہ، حکم، سلمہ بن کہیل، حضرت سعید بن جبیر (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کی نمازیں ایک ہی اقامت کے ساتھ پڑھیں تو انہوں نے حضرت ابن عمر (رض) سے روایت کرتے ہوئے بیان کیا کہ انہوں نے بھی اسی طرح نمازیں پڑھیں اور حضرت ابن عمر نے بیان کیا کہ نبی ﷺ اسی طرح کرتے تھے۔

【323】

عرفات سے مزدلفہ کی طرف واپسی اور اس رات مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کی نمازیں اکٹھی پڑھنے کے استح کے بیان میں

زہیر بن حرب، وکیع، حضرت شعبہ اس سند کے ساتھ بیان کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ انہوں نے ایک ہی اقامت کے ساتھ نمازیں پڑھیں۔

【324】

عرفات سے مزدلفہ کی طرف واپسی اور اس رات مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کی نمازیں اکٹھی پڑھنے کے استح کے بیان میں

عبد بن حمید، عبدالرزاق، ثوری، سلمہ بن کہیل، سعید بن جبیر، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کے درمیان اکٹھی نمازیں پڑھیں مغرب کی تین اور عشاء کی دو رکعت نماز ایک ہی اقامت کے ساتھ پڑھیں۔

【325】

عرفات سے مزدلفہ کی طرف واپسی اور اس رات مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کی نمازیں اکٹھی پڑھنے کے استح کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، عبداللہ بن نمیر، اسماعیل بن ابی خالد، ابن اسحاق، حضرت سعید بن جبیر (رض) فرماتے ہیں کہ ہم حضرت ابن عمر (رض) کے ساتھ چلے یہاں تک کہ ہم مزدلفہ آگئے تو انہوں نے ہمیں مغرب اور عشاء کی نمازیں ایک ہی اقامت کے ساتھ پڑھائیں پھر وہ پھرے اور فرمایا کہ یہ نمازیں رسول اللہ ﷺ نے ہمیں اس مقام پر اسی طرح پڑھائیں۔

【326】

مزدلفہ میں نحر کے دن صبح کی نماز جلدی پڑھنے کے استح کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب، ابی معاویہ، اعمش، عمارہ عبدالرحمن، ابن یزید، حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو کوئی نماز پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا سوائے اس کے کہ اس نماز کو اپنے مقررہ وقت میں پڑھتے سوائے دو نمازوں کے مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کی نمازیں اور فجر اس دن اس نمازوں کے مقررہ وقت سے پہلے پڑھتے تھے۔

【327】

مزدلفہ میں نحر کے دن صبح کی نماز جلدی پڑھنے کے استح کے بیان میں

عثمان بن ابی شیبہ، اسحاق بن ابراہیم، جریر، حضرت اعمش (رض) سے اس سند کے ساتھ روایت ہے اور فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فجر کی نماز کے عام وقت سے پہلے غلس یعنی اندھیرے میں پڑھی۔

【328】

کمزور لوگ اور عورتوں وغیرہ کو مزدلفہ سے منی کی طرف رات کے حصہ میں روانہ ہونے کے استح کے بیان میں۔

عبداللہ بن مسلمہ بن قعنب، افلح، ابن حمید، قاسم، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں کہ حضرت سودہ (رض) نے مزدلفہ کی رات رسول اللہ ﷺ سے اجازت مانگی کہ وہ آپ ﷺ سے پہلے منیٰ چلی جائیں اور لوگوں کے ہجوم سے پہلے نکل جائیں کیونکہ وہ بھاری بدن کی عورت تھیں آپ ﷺ نے حضرت سودہ کو اجازت دے دی اور وہ آپ ﷺ سے پہلے نکل گئیں اور ہم رکے تھے یہاں تک کہ صبح ہوگئی پھر ہم آپ ﷺ کے ساتھ نکلے حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ اگر میں بھی رسول اللہ ﷺ سے اجازت لے لیتی جیسے حضرت سودہ (رض) نے آپ ﷺ سے اجازت لی تو آپ ﷺ کی اجازت سے جانا مجھے اس سے زیادہ پسند تھا کہ جس سے میں خوش ہو رہی تھی۔

【329】

کمزور لوگ اور عورتوں وغیرہ کو مزدلفہ سے منی کی طرف رات کے حصہ میں روانہ ہونے کے استح کے بیان میں۔

اسحاق بن ابراہیم، محمد بن مثنی، ثقفی ابن مثنی، عبدالوہاب، ایوب، عبدالرحمن بن قاسم، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ حضرت سودہ (رض) بھاری بدن کی عورت تھیں جس کی وجہ سے انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے مزدلفہ سے رات ہی کو واپس آنے کی اجازت مانگی تو آپ ﷺ نے انہیں اجازت عطا فرما دی حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ کاش میں بھی رسول اللہ ﷺ سے اجازت مانگتی جیسا کہ حضرت سودہ (رض) نے آپ ﷺ سے اجازت مانگی اور حضرت عائشہ (رض) مزدلفہ سے واپس نہیں آتی تھیں سوائے امام کے ساتھ۔

【330】

کمزور لوگ اور عورتوں وغیرہ کو مزدلفہ سے منی کی طرف رات کے حصہ میں روانہ ہونے کے استح کے بیان میں۔

ابن نمیر، عبیداللہ بن عمر، عبدالرحمن بن قاسم، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ فرماتی ہیں کہ میں چاہتی تھی کہ میں رسول اللہ ﷺ سے اجازت مانگوں جیسا کہ حضرت سودہ (رض) نے اجازت مانگی اور صبح کی نماز منیٰ میں پڑھی تھی اور لوگوں کے آنے سے پہلے جمرہ کو کنکریاں مار لیتی تھیں تو حضرت عائشہ (رض) سے کہا گیا کیا حضرت سودہ (رض) نے آپ ﷺ سے اجازت مانگی تھی ؟ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا کہ ہاں کیونکہ وہ ایک بھاری جسم کی عورت تھیں تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت سودہ (رض) کو اجازت عطا فرما دی۔

【331】

کمزور لوگ اور عورتوں وغیرہ کو مزدلفہ سے منی کی طرف رات کے حصہ میں روانہ ہونے کے استح کے بیان میں۔

ابوبکر بن ابی شیبہ، وکیع، زہیر بن حرب، عبدالرحمن، سفیان، حضرت عبدالرحمن بن قاسم (رض) سے اسی سند کے ساتھ اسی طرح روایت منقول ہے۔

【332】

کمزور لوگ اور عورتوں وغیرہ کو مزدلفہ سے منی کی طرف رات کے حصہ میں روانہ ہونے کے استح کے بیان میں۔

محمد بن ابی بکر مقدامی، یحیی، قطان، ابن جریر، حضرت عبداللہ (رض) ، حضرت اسماء کے غلام بیان کرتے ہیں کہ مجھے حضرت اسماء (رض) نے فرمایا حالانکہ وہ دار مزدلفہ کے پاس تھیں کیا چاند غروب ہوگیا ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں تو حضرت اسماء (رض) نے کچھ وقت نماز پڑھی پھر فرمایا اے میرے بیٹے ! کیا چاند غروب ہوگیا ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ جی ہاں حضرت اسماء (رض) نے فرمایا کہ چلو میرے ساتھ تو ہم چلے یہاں تک کہ حضرت اسماء نے جمرہ کو کنکریاں ماریں پھر انہوں نے اپنی جگہ میں نماز پڑھی میں نے عرض کیا کہ ہم نے بہت جلدی کی ہے حضرت اسماء نے فرمایا ہرگز نہیں اے میرے بیٹے کیونکہ نبی ﷺ نے عورتوں کے جلدی جانے کی اجازت دی ہے۔

【333】

کمزور لوگ اور عورتوں وغیرہ کو مزدلفہ سے منی کی طرف رات کے حصہ میں روانہ ہونے کے استح کے بیان میں۔

علی بن خشرم، عیسی، بن یونس، حضرت ابن جریج (رض) سے اس سند کے ساتھ روایت نقل کی گئی ہے اور ایک روایت میں حضرت اسماء (رض) نے فرمایا کہ نہیں اے میرے بیٹے ! اللہ کے نبی ﷺ نے اپنی زوجہ مطہرہ کو سفر کی اجازت دے دی تھی۔

【334】

کمزور لوگ اور عورتوں وغیرہ کو مزدلفہ سے منی کی طرف رات کے حصہ میں روانہ ہونے کے استح کے بیان میں۔

محمد بن حاتم، یحییٰ بن سعید، علی بن خشرم، عیسی، ابن جریج، عطاء، حضرت ابن شوال خبر دیتے ہیں کہ وہ ام حبیبہ (رض) کی خدمت میں آئے انہوں نے خبر دی کہ نبی ﷺ نے انہیں (حضرت ام حبیبہ (رض) رات کے وقت ہی مزدلفہ بھیج دیا تھا۔

【335】

کمزور لوگ اور عورتوں وغیرہ کو مزدلفہ سے منی کی طرف رات کے حصہ میں روانہ ہونے کے استح کے بیان میں۔

ابوبکر بن ابی شیبہ، سفیان بن عیینہ، عمرو بن دینار، عمرناقد، سفیان، عمرو بن دینار سالم بن شوال، حضرت ام حبیبہ (رض) سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ ہم نبی کریم ﷺ کے زمانہ مبارک میں مزدلفہ سے منیٰ کی طرف صبح اندھیرے میں ہی روانہ ہوجاتی تھیں۔

【336】

کمزور لوگ اور عورتوں وغیرہ کو مزدلفہ سے منی کی طرف رات کے حصہ میں روانہ ہونے کے استح کے بیان میں۔

یحییٰ بن یحیی، قتیبہ، بن سعید، حماد، یحیی، حماد بن زید، عبداللہ بن یزید، حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے بوجھل لوگوں میں بھیجا یا فرمایا کہ وہ کمزور لوگ جن کو رات کے وقت ہی مزدلفہ سے بھیج دیا تھا میں بھی انہی میں سے تھا۔

【337】

کمزور لوگ اور عورتوں وغیرہ کو مزدلفہ سے منی کی طرف رات کے حصہ میں روانہ ہونے کے استح کے بیان میں۔

ابوبکر بن ابی شیبہ، سفیان بن عیینہ، عبیداللہ بن ابی یزید، حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے گھر والوں کے جن کمزوروں کو پہلے بھیج دیا تھا میں بھی انہی میں سے تھا۔

【338】

کمزور لوگ اور عورتوں وغیرہ کو مزدلفہ سے منی کی طرف رات کے حصہ میں روانہ ہونے کے استح کے بیان میں۔

ابوبکر بن ابی شیبہ، سفیان بن عیینہ، عمرو عطاء، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے فرمایا کہ میں بھی ان لوگوں میں سے تھا کہ اپنے گھر کے جن ضعیف لوگوں کو رسول اللہ ﷺ نے پہلے بھیجا تھا۔

【339】

کمزور لوگ اور عورتوں وغیرہ کو مزدلفہ سے منی کی طرف رات کے حصہ میں روانہ ہونے کے استح کے بیان میں۔

عبد بن حمید، محمد بن بکر ابن جریج، عطاء ابن عباس، حضرت ابن جریج (رض) خبر دیتے ہیں کہ مجھے حضرت عطاء (رض) نے خبر دی کہ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ مجھے اللہ کے نبی ﷺ نے اپنا سامان دے کر مزدلفہ سے صبح سحری کے وقت بھیجا ابن جریج کہتے ہیں کہ میں نے عطاء سے کہا کہ کیا تجھے یہ بات پہنچی ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ مجھے آپ ﷺ نے رات کو بہت پہلے بھیج دیا تھا انہوں نے کہا کہ نہیں سوائے اس کے کہ وہ سحری کا وقت تھا ابن جریج کہتے ہیں کہ میں نے عطاء سے کہا کہ کیا حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا ہے کہ ہم نے فجر سے پہلے جمرہ کو کنکریاں ماریں اور فجر کی نماز کہاں پڑھی انہوں نے کہا کہ نہیں سوائے اس کے (یعنی صرف اتنی بات کہی) ۔

【340】

کمزور لوگ اور عورتوں وغیرہ کو مزدلفہ سے منی کی طرف رات کے حصہ میں روانہ ہونے کے استح کے بیان میں۔

ابوطاہر، حرملہ بن یحیی، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، سالم بن عبداللہ، عبداللہ بن عمر، حضرت ابن شہاب (رض) سے روایت ہے کہ حضرت سالم بن عبداللہ (رض) نے انہیں خبر دی کہ حضرت ابن عمر (رض) اپنے گھر والوں میں سے کمزرو لوگوں کو پہلے بھیج دیا کرتے تھے اور وہ رات ہی کو مزدلفہ میں مشعر الحرام کے پاس وقوف کرتے تھے اور اللہ کا ذکر کرتے جتنا چاہتے پھر وہ امام کے وقوف اور اس کے آنے سے پہلے ہی واپس ہوتے تھے اور ان میں سے کچھ لوگ فجر کی نماز کے وقت منیٰ میں پہنچتے اور کچھ اس کے بعد تو جب وہ پہنچ جاتے تو جمرہ کو کنکریاں مارتے اور حضرت ابن عمر (رض) فرماتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کمزوروں کے بارے میں رخصت دی ہے۔

【341】

وادی بطن سے جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارنے اور ہر ایک کنکری مارنے کے ساتھ تکبیر کہنے کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب، ابومعاویہ، اعمش، ابراہیم، عبدالرحمن، ابن یزید، حضرت عبدالرحمن بن یزید (رض) سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن بطن وادی یعنی وادی کا بطن یا وادی کی گھاٹی سے جمرہ عقبہ کو سات کنکریاں ماریں اور وہ ہر کنکری کے ساتھ اَللَّهُ أَکْبَرُ کہتے تھے راوی کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ (رض) سے کہا گیا کہ لوگ تو اس کے اوپر سے کنکریاں مارتے ہیں تو حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں یہ ان کا مقام ہے کہ جن پر سورت البقرہ نازل کی گئی۔

【342】

وادی بطن سے جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارنے اور ہر ایک کنکری مارنے کے ساتھ تکبیر کہنے کے بیان میں

منجاب بن حارث، تمیمی، ابن مسہر، حضرت اعمش سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حجاج بن یوسف سے سنا وہ منبر پر خطبہ دیتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ تم قرآن کو ایسے جمع کرو جیسا قرآن کو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے جمع کیا ہے وہ سورت کہ جس میں بقرہ کا ذکر کیا گیا اور وہ سورت کہ جس میں النساء کا ذکر کیا گیا اور وہ سورت کہ جس میں اٰل عمران کا ذکر کیا گیا ہے راوی کہتے ہیں کہ پھر میں ابراہیم سے ملا تو میں نے ان کو حجاج کے اس قول کی خبر دی تو انہوں نے حجاج کو برا بھلا کہا اور کہنے لگے کہ عبدالرحمن بن یزید نے مجھ سے بیان کیا کہ وہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کے ساتھ تھے تو وہ جمرہ عقبہ پر آئے اور اس کے بطن وادی یعنی وادی کا بطن یا وادی کی گھاٹی سے جمرہ عقبہ پر سات کنکریاں ماریں اور وہ ہر کنکری کے ساتھ اَللَّهُ أَکْبَرُ کہتے تھے راوی کہتے ہیں کہ میں نے کہا اے ابوعبدالرحمن ! لوگ تو اس کے اوپر سے کنکریاں مارتے ہیں تو انہوں نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم ہے کہ جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں یہی وہ مقام ہے (کنکریاں مارنے کی جگہ) جس پر سورت البقرہ نازل کی گئی۔

【343】

وادی بطن سے جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارنے اور ہر ایک کنکری مارنے کے ساتھ تکبیر کہنے کے بیان میں

یعقوب، ابن ابی زائدہ، ابن ابی عمر، سفیان، حضرت اعمش (رض) سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے سنا کہ حجاج کہتا ہے کہ تم نہ کہو سورت البقرہ اس کے بعد باقی حدیث اس طرح سے ہے۔

【344】

وادی بطن سے جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارنے اور ہر ایک کنکری مارنے کے ساتھ تکبیر کہنے کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، غندر، شعبہ، محمد بن مثنی، ابن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، حکم بن ابراہیم، حضرت عبدالرحمن بن یزید (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت عبداللہ کے ساتھ حج کیا راوی کہتے ہیں کہ انہوں نے سات کنکریوں کے ساتھ رمی جمار کی اور بیت اللہ کو اپنے بائیں طرف کیا اور منیٰ کو اپنے دائیں طرف کیا اور فرمایا کہ یہ اس ذات ﷺ کے رمی کرنے کا مقام ہے کہ جس پر سورت البقرہ نازل ہوئی۔

【345】

وادی بطن سے جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارنے اور ہر ایک کنکری مارنے کے ساتھ تکبیر کہنے کے بیان میں

عبیداللہ بن معاذ، شعبہ اس سند کے ساتھ یہ حدیث بھی اسی طرح نقل کی گئی ہے سوائے اس کے کہ اس میں ہے کہ جب وہ جمرہ عقبہ آئے۔

【346】

وادی بطن سے جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارنے اور ہر ایک کنکری مارنے کے ساتھ تکبیر کہنے کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابومحیاہ، یحییٰ بن یحیی، سلمہ بن کہیل، حضرت عبدالرحمن بن یزید (رض) سے روایت ہے فرمایا کہ حضرت عبداللہ (رض) سے کہا گیا کہ لوگ عقبہ کے اوپر سے جمرہ کو کنکریاں مارتے ہیں راوی کہتے ہیں۔ کہ حضرت عبداللہ (رض) نے وادی بطن سے کنکریاں ماریں پھر حضرت عبداللہ (رض) نے فرمایا کہ یہاں سے قسم ہے اس ذات کی جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں کہ یہی وہ جگہ ہے جن پر سورت البقرہ نازل کی گئی۔

【347】

قربانی کے دن جمرہ عقبہ کو سوار ہو کر کنکریاں مارنے کے استح اور نبی ﷺ کے اس فرمان کے بیان میں کہ تم مجھ سے حج کے احکام سیکھ لو

اسحاق بن ابراہیم، علی بن خشرم، عیسیٰ بن یونس، جریج، حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ نے یوم نحر کو یعنی قربانی کے دن اپنی سواری پر (جمرہ عقبہ) کو کنکریاں مار رہے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ تم مجھ سے حج کے احکام سیکھ لو کیونکہ میں نہیں جانتا شاید کہ اس حج کے بعد میں حج نہ کرسکوں۔

【348】

قربانی کے دن جمرہ عقبہ کو سوار ہو کر کنکریاں مارنے کے استح اور نبی ﷺ کے اس فرمان کے بیان میں کہ تم مجھ سے حج کے احکام سیکھ لو

سلمہ بن شبیب، حسن بن اعین، معقل، زید بن ابی انیسہ، حضرت یحییٰ بن حصین (رض) اپنی دادی حضرت ام الحصین (رض) سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ام الحصین (رض) سے سنا وہ فرماتی ہیں کہ میں نے حجہالوداع میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج کیا تو میں نے آپ ﷺ کو دیکھا جس وقت کہ آپ جمرہ عقبہ کو کنکریاں مار رہے ہیں اس حال میں کہ آپ ﷺ اپنی سواری پر سوار تھے حضرت بلال (رض) اور حضرت اسامہ (رض) آپ ﷺ کے ساتھ تھے ان دونوں میں سے ایک سواری کی مہار پکڑے جارہا تھا اور دوسرے نے رسول اللہ ﷺ کے سر پر اپنا کپڑا بلند کیا ہوا تھا تاکہ آپ ﷺ گرمی کی شدت سے بچ رہیں حضرت ام الحصین (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بہت سی باتیں ارشاد فرمائیں پھر میں نے سنا کہ آپ ﷺ فرما رہے ہیں کہ اگر ایک حبشی غلام بھی تم پر حاکم مقرر ہو حضرت ام الحصین (رض) فرماتی ہیں کہ وہ سیاہ فام اللہ کی کتاب سے تمہاری راہنمائی کرے تو اس سے سنو اور اس کی اطاعت کرو۔

【349】

قربانی کے دن جمرہ عقبہ کو سوار ہو کر کنکریاں مارنے کے استح اور نبی ﷺ کے اس فرمان کے بیان میں کہ تم مجھ سے حج کے احکام سیکھ لو

احمد بن حنبل، محمد بن سلمہ، ابی عبدالرحیم، زید بن انیسہ، یحییٰ بن حصین، حضرت ام الحصین (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے حجہ الوداع کے موقعے پر نبی ﷺ کے ساتھ حج کیا تو میں نے حضرت اسامہ (رض) اور حضرت بلال (رض) کو دیکھا کہ ان دونوں میں سے ایک نے نبی ﷺ کی اونٹنی کی لگام پکڑی ہوئی تھی اور دوسرے نے اپنا کپڑا بلند کیا ہوا تھا تاکہ آپ ﷺ گرمی سے محفوظ رہیں یہاں تک کہ آپ ﷺ نے جمرہ عقبہ کو کنکریاں ماریں۔

【350】

ٹھیکری کے بقدر کنکریاں مارنے کے استح کے بیان میں

محمد بن حاتم، عبد بن حمید، محمد بن بکر، ابن جریج، ابوزبیر، حضرت جابر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ نے ٹھیکری کے برابر جمرہ پر کنکریاں ماریں۔

【351】

کنکریوں مارنے کے مستحب وقت کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوخالد احمر، ابن ادریس، ابی جریج، حضرت جابر (رض) سے روایت ہے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے قربانی والے دن چاشت کے وقت جمرہ عقبہ پر کنکریاں ماریں اور بعد کے دنوں میں سورج کے ڈھلنے کے بعد کنکریاں ماریں۔

【352】

کنکریوں مارنے کے مستحب وقت کے بیان میں

علی بن خشرم، عیسیٰ بن یونس، ابن جریج، ابوزبیر، حضرت جابر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ اس طرح کنکریاں مارتے تھے۔

【353】

جمرات کو سات کنکریاں مارنے کے بیان میں

سلمہ بن شبیب، حسن بن اعین، معقل، ابن عبیداللہ، ابوزبیر، حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ڈھیلہ سے استنجاء طاق عدد اور جمرات کو کنکریاں بھی طاق اور صفا مروہ کے درمیان سعی بھی طاق عدد ہے اور طواف بھی طاق عدد ہے اور جب بھی تم میں سے کوئی استنجاء کرے تو اسے چاہیے کہ طاق عدد کرے۔

【354】

قصر سے حلق کی زیادہ فضلیت ہے اور قصر کے جواز کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، محمد بن رمح، لیث، قتیبہ، لیث، نافع، عبداللہ، حضرت نافع (رض) سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ (رض) نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے حلق کرایا (سر منڈایا) اور آپ ﷺ کے صحابہ (رض) میں سے ایک جماعت نے حلق کرایا اور کچھ نے قصر یعنی بال کٹوائے حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ حلق کرانے والوں پر رحم فرمائے ایک مرتبہ یا دو مرتبہ پھر آپ ﷺ نے فرمایا اور قصر یعنی بال کٹوانے والوں پر بھی۔

【355】

قصر سے حلق کی زیادہ فضلیت ہے اور قصر کے جواز کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، مالک، نافع، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے اللہ ! حلق کرانے والوں پر رحم فرما صحابہ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ اور قصر کرانے والوں پر ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اور قصر کرانے والوں پر بھی۔

【356】

قصر سے حلق کی زیادہ فضلیت ہے اور قصر کے جواز کے بیان میں

ابو اسحاق، ابراہیم، بن محمد بن سفیان، مسلم بن حجاج، ابن نمیر، عبیداللہ بن عمر، نافع، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ حلق کرانے والوں پر رحم فرمائے صحابہ (رض) نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ اور قصر کرانے والوں پر ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اور قصر کرانے والوں پر بھی۔

【357】

قصر سے حلق کی زیادہ فضلیت ہے اور قصر کے جواز کے بیان میں

ابن مثنی، عبدالوہاب، عبیداللہ اس سند کے ساتھ یہ حدیث بھی اس طرح ہے اس میں آپ ﷺ نے چوتھی مرتبہ فرمایا اور قصر کرانے والوں یعنی بال کٹوانے والوں پر بھی رحم فرما۔

【358】

قصر سے حلق کی زیادہ فضلیت ہے اور قصر کے جواز کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، زہیر بن حرب، ابن نمیر، ابوکریب، ابن فضیل، زہیر، عمار، ابوزرعہ، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اے اللہ ! حلق کرانے والوں کی مغفرت فرما صحابہ (رض) نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ ! اور قصر کرانے والے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اے اللہ ! حلق کرانے والوں کی مغفرت فرما صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول اور قصر کرانے والے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اور قصر کرانے والوں کی بھی مغفرت فرما۔

【359】

قصر سے حلق کی زیادہ فضلیت ہے اور قصر کے جواز کے بیان میں

امیہ بن بسطام، یزید بن زریع، روح، علاء، حضرت ابوہریرہ (رض) نے نبی ﷺ سے اس طرح حدیث مبارکہ نقل فرمائی۔

【360】

قصر سے حلق کی زیادہ فضلیت ہے اور قصر کے جواز کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، وکیع، ابوداؤد، شعبہ، حضرت یحییٰ بن حصین (رض) اپنی دادی سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے حجۃ الوداع میں حلق کرانے والوں کے بارے میں تین مرتبہ دعا فرمائی اور قصر یعنی بال کٹوانے والوں کے لئے ایک مرتبہ دعا فرمائی اور وکیع نے فی حجہالوداع نہیں کہا۔

【361】

قصر سے حلق کی زیادہ فضلیت ہے اور قصر کے جواز کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، یعقوب، ابن عبدالرحمن، حاتم، موسیٰ بن عقبہ، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حجہالوداع میں اپنے سر کا حلق کرایا یعنی منڈایا۔

【362】

قربانی کے دن کنکریاں مارنے پھر قربانی کرنے پھر حلق کرانے اور حلق وائیں جانب سے سر منڈا شروع کرنے کی سنت کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، حفص بن غیاث، ہشام، بن محمد بن سیرین، حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ منیٰ تشریف لائے تو پہلے جمرہ عقبہ پر آئے اور اسے کنکریاں ماریں پھر آپ ﷺ منٰی میں اپنی ٹھہرنے کی جگہ تشریف لائے اور قربانی کی پھر حجام سے فرمایا کہ استرہ پکڑ اور دائیں جانب کی طرف اشارہ فرمایا کہ دائیں طرف سے شروع کرو پھر بائیں طرف سے پھر آپ ﷺ نے وہ بال لوگوں کو عطاء فرمائے۔

【363】

قربانی کے دن کنکریاں مارنے پھر قربانی کرنے پھر حلق کرانے اور حلق وائیں جانب سے سر منڈا شروع کرنے کی سنت کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابن نمیر، ابوکریب، حفص، ابن غیاث، حضرت ہشام سے اس سند کے ساتھ روایت ہے اور اس روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے حجام سے فرمایا اور آپ ﷺ نے ہاتھ کے ساتھ دائیں جانب کی طرف سے شروع کرنے کا اشارہ فرمایا اور آپ ﷺ نے ان بالوں کو جو کہ آپ ﷺ کے قریب تھے ان میں تقسیم فرمایا آپ ﷺ نے پھر حجام کو بائیں جانب کی طرف اشارہ فرمایا تو اس نے وہ مونڈے تو آپ ﷺ نے وہ بال حضرت ام سلیم (رض) کو عطاء فرمائے اور ابوکریب کی روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے دائیں طرف سے شروع فرمایا اور ایک ایک اور دو دو بال لوگوں کے درمیان تقسیم فرمائے پھر آپ ﷺ نے بائیں طرف سے بھی اسی طرح کیا پھر آپ ﷺ نے فرمایا یہاں ابوطلحہ (رض) ہیں تو وہ بال ابوطلحہ (رض) کو عطاء فرما دئیے۔

【364】

قربانی کے دن کنکریاں مارنے پھر قربانی کرنے پھر حلق کرانے اور حلق وائیں جانب سے سر منڈا شروع کرنے کی سنت کے بیان میں

محمد بن مثنی، عبدالاعلی، ہشام، محمد، حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جمرہ عقبہ کو کنکریاں ماریں پھر آپ ﷺ اونٹوں کی طرف تشریف لے گئے اور ان کو قربان کیا اور حجام بیٹھے تھے اور آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ سے اپنے سر کے بارے میں فرمایا تو اس نے دائیں طرف سے بال مونڈ دئیے تو آپ ﷺ نے ان بالوں کو جو آپ ﷺ کے قریب تھے ان میں تقسیم فرما دیا پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ دوسری طرف سے مونڈ دے اور فرمایا کہ ابوطلحہ (رض) کہاں ہے تو آپ ﷺ نے یہ بال ان کو عطا فرما دئیے۔

【365】

قربانی کے دن کنکریاں مارنے پھر قربانی کرنے پھر حلق کرانے اور حلق وائیں جانب سے سر منڈا شروع کرنے کی سنت کے بیان میں

ابن ابی عمر، سفیان، ہشام بن حسان، ابن سیرین، حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے فرمایا کہ جب رسول اللہ ﷺ نے جمرہ کو کنکریاں ماریں اور قربانی ذبح کرلی تو آپ ﷺ نے اپنی دائیں جانب حجام کے سامنے کی تو اس نے وہ مونڈ دی پھر آپ ﷺ نے حضرت ابوطلحہ انصاری کو بلوایا اور انہیں یہ بال عطا فرمائے پھر آپ ﷺ نے اپنی بائیں جانب حجام کے سامنے کی اور اسے فرمایا کہ اسے مونڈ دے تو اس نے مونڈ دیئے تو آپ ﷺ نے یہ بال حضرت ابوطلحہ کو دے کر فرمایا کہ ان کو لوگوں کے درمیان تقسیم کردو۔

【366】

قربانی کے دن کنکریاں مارنے پھر قربانی کرنے پھر حلق کرانے اور حلق وائیں جانب سے سر منڈا شروع کرنے کی سنت کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، مالک، ابن شہاب، عیسیٰ بن طلحہ بن عبیداللہ، حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) سے روایت ہے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ حجہ الوداع میں منٰی میں ٹھہرے تاکہ لوگ آپ ﷺ سے مسائل وغیرہ پوچھ سکیں تو ایک آدمی آیا اور اس نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! میں نے قربانی کرنے سے پہلے حلق یعنی سر منڈا لیا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ کوئی حرج نہیں اب قربانی ذبح کرلو پھر ایک دوسرا آدمی آیا اور اس نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! میں نے کنکریاں مارنے سے پہلے قربانی کرلی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ کوئی حرج نہیں اب کنکریاں مار لو راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے جس عمل کو بھی آگے پیچھے کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے یہی فرمایا کہ کوئی حرج نہیں اب کرلو۔

【367】

قربانی کے دن کنکریاں مارنے پھر قربانی کرنے پھر حلق کرانے اور حلق وائیں جانب سے سر منڈا شروع کرنے کی سنت کے بیان میں

حرملہ بن یحیی، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، عیسی، ابن طلحہ، حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنی سواری پر ٹھہرے ہوئے تھے تو لوگوں نے آپ ﷺ سے پوچھنا شروع کردیا ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا اے اللہ کے رسول ! مجھے معلوم نہیں تھا کہ کنکریاں قربانی سے پہلے ماری جاتی ہیں اور میں نے کنکریاں مارنے سے پہلے قربانی کرلی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تو اب کنکریاں مار لو اور کوئی حرج نہیں حضرت عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک دوسرے آدمی نے آکر کہا کہ مجھے معلوم نہیں تھا کہ قربانی سر منڈانے سے پہلے کی جاتی ہے اور میں نے قربانی کرنے سے پہلے سر منڈا لیا ہے آپ ﷺ نے فرمایا قربانی اب کرلو اور کوئی حرج نہیں عبداللہ فرماتے ہیں اس دن آپ ﷺ سے کسی بھی کام کو آگے پیچھے بھول کر یا جہالت کی بناء پر کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے ان تمام کاموں کے بارے میں فرمایا کہ اب کرلو کوئی حرج نہیں۔

【368】

قربانی کے دن کنکریاں مارنے پھر قربانی کرنے پھر حلق کرانے اور حلق وائیں جانب سے سر منڈا شروع کرنے کی سنت کے بیان میں

حسن حلوانی، یعقوب ابی صالح، ابن شہاب، حضرت زہری (رض) سے آخر تک اسی طرح روایت نقل کی گئی ہے۔

【369】

قربانی کے دن کنکریاں مارنے پھر قربانی کرنے پھر حلق کرانے اور حلق وائیں جانب سے سر منڈا شروع کرنے کی سنت کے بیان میں

علی بن خشرم، عیسی، ابن جریج، ابن شہاب، عیسیٰ بن طلحہ، حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) بیان فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ ہمارے سامنے قربانی کے دن خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ ! میں جانتا نہیں تھا کہ فلاں فلاں عمل فلاں عمل سے پہلے ہے پھر ایک دوسرا آدمی آیا اور اس نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ میرا گمان ہے کہ فلاں عمل فلاں عمل سے پہلے ہے ان تینوں کو آپ ﷺ نے فرمایا اب کرلو کوئی حرج نہیں۔

【370】

قربانی کے دن کنکریاں مارنے پھر قربانی کرنے پھر حلق کرانے اور حلق وائیں جانب سے سر منڈا شروع کرنے کی سنت کے بیان میں

عبد بن حمید، محمد بن بکر، سعید بن یحیی، حضرت ابن جریج سے اس سند کے ساتھ روایت ہے باقی اس میں تین کا ذکر نہیں اور یحییٰ اموی کی روایت میں یہ ہے کہ میں نے قربانی کرنے سے پہلے حلق کرایا اور میں نے کنکریاں مارنے سے پہلے قربانی کرلی۔

【371】

قربانی کے دن کنکریاں مارنے پھر قربانی کرنے پھر حلق کرانے اور حلق وائیں جانب سے سر منڈا شروع کرنے کی سنت کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، زہیر بن حرب، ابن عیینہ، عیسیٰ بن طلحہ، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے فرمایا کہ ایک آدمی نبی ﷺ کے پاس آیا اور اس نے عرض کیا کہ میں نے قربانی ذبح کرنے سے پہلے حلق کرلیا ہے آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم اب قربانی کرلو اور کوئی حرج نہیں اسی طرح ایک اور آدمی نے آکر عرض کیا کہ میں نے کنکریاں مارنے سے پہلے قربانی کرلی ہے آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم اب کنکریاں مار لو اور کوئی حرج نہیں۔

【372】

قربانی کے دن کنکریاں مارنے پھر قربانی کرنے پھر حلق کرانے اور حلق وائیں جانب سے سر منڈا شروع کرنے کی سنت کے بیان میں

ابن ابی عمرو، عبد بن حمید، عبدالرزاق، معمر، حضرت زہری (رض) سے اس سند کے ساتھ روایت ہے اس میں ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو منیٰ میں دیکھا کہ آپ ﷺ اپنی اونٹنی پر سوار ہیں کہ آپ ﷺ کی خدمت میں ایک آدمی آیا آگے ابن عیینہ کی حدیث کی طرح ہے۔

【373】

قربانی کے دن کنکریاں مارنے پھر قربانی کرنے پھر حلق کرانے اور حلق وائیں جانب سے سر منڈا شروع کرنے کی سنت کے بیان میں

محمد بن عبداللہ بن قہزاد علی بن حسن، عبداللہ بن مبارک، محمد بن ابی حفصہ، عیسیٰ بن طلحہ، حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) سے روایت ہے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ ایک آدمی قربانی کے دن آیا اور آپ ﷺ جمرہ کے پاس کھڑے تھے تو اس آدمی نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ ! میں نے کنکریاں مارنے سے پہلے حلق کرلیا ہے آپ ﷺ نے فرمایا اب کنکریاں مار لو اور کوئی حرج نہیں اور ایک دوسرا آدمی آیا اور اس نے عرض کیا کہ میں نے کنکریاں مارنے سے پہلے قربانی ذبح کرلی ہے آپ ﷺ نے فرمایا کوئی حرج نہیں اب کنکریاں مار لو اسی طرح ایک تیسرا آدمی آیا اور اس نے عرض کیا کہ میں نے کنکریاں مارنے سے پہلے بیت اللہ کا طواف افاضہ کرلیا ہے آپ ﷺ نے فرمایا کوئی حرج نہیں اب کنکریاں مار لو راوی کہتے ہیں کہ اس دن میں نے نہیں دیکھا کہ آپ ﷺ سے کسی بھی عمل کے بارے میں پوچھا گیا ہو سوائے اس کے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ کوئی حرج نہیں اب کرلو۔

【374】

قربانی کے دن کنکریاں مارنے پھر قربانی کرنے پھر حلق کرانے اور حلق وائیں جانب سے سر منڈا شروع کرنے کی سنت کے بیان میں

محمد بن حاتم، بہز، وہیب، عبداللہ بن طاؤس، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ سے ذبح اور حلق کرانے اور کنکریاں مارنے کے بارے میں آگے پیچھے یعنی ترتیب کے بارے میں پوچھا گیا آپ ﷺ نے فرمایا کہ کوئی گناہ نہیں۔

【375】

قربانی والے دن طواف افاضہ کے استح میں

محمد بن رافع، عبدالرزاق، عبیداللہ بن عمر، نافع، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے قربانی والے دن طواف افاضہ کیا پھر آپ ﷺ لوٹے اور منٰی میں ظہر کی نماز پڑھی حضرت نافع کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر (رض) بھی قربانی والے دن طواف افاضہ کرتے تھے پھر لوٹتے اور منٰی میں ظہر کی نماز پڑھتے اور فرماتے کہ نبی ﷺ نے بھی اسی طرح کیا ہے۔

【376】

وادی محصب میں اتر نے کے استح کے بیان میں

زہیر بن حرب، اسحاق، حضرت عبدالعزیز بن رفیع (رض) سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت انس بن مالک (رض) سے پوچھا میں نے عرض کیا کہ مجھے خبر دیں کہ ترویہ کے دن رسول اللہ ﷺ نے ظہر کی نماز کہاں پڑھی ؟ حضرت انس (رض) نے فرمایا کہ منٰیٰ میں میں نے عرض کیا کہ روانگی والے دن عصر کی نماز آپ ﷺ نے کہاں پڑھی ؟ حضرت انس (رض) نے فرمایا کہ وادی ابطح میں پھر فرمایا کہ تو وہی کر جو تیرے حکمران تجھے کرنے کا حکم دیتے ہیں۔

【377】

وادی محصب میں اتر نے کے استح کے بیان میں

محمد بن مہران، عبدالرزاق، ایوب، نافع، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ اور حضرت ابوبکر (رض) اور حضرت عمر (رض) ابطح کی وادی میں اترا کرتے تھے۔

【378】

وادی محصب میں اتر نے کے استح کے بیان میں

محمد بن حاتم، ابن میمون، روح بن عبادہ، صخر بن جویریہ، نافع، ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) وادی محصب میں ٹھہرنے کو سنت خیال کرتے تھے اور وہ قربانی کے دن ظہر کی نماز وادی محصب میں پڑھا کرتے تھے حضرت نافع (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کے بعد آپ ﷺ کے خلفاء محصب کی وادی میں جاتے تھے۔

【379】

وادی محصب میں اتر نے کے استح کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب، عبداللہ بن نمیر، ہشام، عروہ، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ وادی محصب میں اترنا کوئی سنت نہیں ہے اور رسول اللہ ﷺ وہاں اس لئے ٹھہرے کہ مکہ جاتے وقت آپ ﷺ کے لئے اس جگہ سے نکلنا آسان تھا۔

【380】

وادی محصب میں اتر نے کے استح کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، حفص بن غیاث، ابوربیع، حماد، ابن زید، ابوکامل، یزید بن زریع، حضرت ہشام سے اس سند کے ساتھ اسی طرح یہ حدیث نقل کی گئی ہے۔

【381】

وادی محصب میں اتر نے کے استح کے بیان میں

عبد بن حمید، عبدالرزاق، معمر، سالم، ابوبکر، عمرو، ابن عمرو، حضرت سالم (رض) سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) اور حضرت عمر (رض) اور حضرت ابن عمر (رض) وادی ابطح میں اترے تھے زہری کہتے ہیں کہ مجھے عروہ نے حضرت عائشہ (رض) کے بارے میں خبر دی کہ وہ اس طرح نہیں کرتی تھیں اور فرماتی تھیں کہ رسول اللہ ﷺ اس جگہ صرف اس لئے اترے کہ وہ جگہ واپس روانگی کے لئے زیادہ بہتر تھی۔

【382】

وادی محصب میں اتر نے کے استح کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، اسحاق بن ابراہیم، ابن ابی عمرو، احمد، عبدہ، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے فرمایا کہ وادی محصب میں کچھ نہیں ہے کیونکہ وہ ایک منزل ہے جہاں رسول اللہ ﷺ ٹھہرے۔

【383】

وادی محصب میں اتر نے کے استح کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، ابوبکر بن ابی شیبہ، زہیر بن حرب، ابن عیینہ، زہیر، سفیان بن عیینہ، صالح بن کیسان، حضرت سلیمان بن یسار (رض) سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ حضرت ابورافع (رض) نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں وادی ابطح میں اترنے کا حکم نہیں فرمایا جس وقت کہ آپ ﷺ منٰی سے نکلے لیکن میں آیا اور میں نے اس جگہ میں خیمہ لگایا تو آپ ﷺ آئے اور وہاں اترے اور ایک روایت میں حضرت ابورافع کے بارے میں ہے کہ وہ نبی ﷺ کے سامان پر تھے۔

【384】

وادی محصب میں اتر نے کے استح کے بیان میں

حرملہ بن یحیی، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، ابی سلمہ بن عبدالرحمن بن عوف، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اگر اللہ نے چاہا تو کل ہم خیف بنی کنانہ میں ٹھہریں گے جس جگہ کافروں نے آپس میں کفر پر قسمیں کھائی تھیں۔

【385】

وادی محصب میں اتر نے کے استح کے بیان میں

زہیر بن حرب، ولید بن مسلم، ابوسلمہ، حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اور ہم منیٰ میں تھے کہ ہم کل خیف بنی کنانہ میں اترنے والے ہیں جس جگہ کافروں نے کفر پر قسمیں کھائیں تھیں اور یہ کہ قریش اور بنوکنانہ نے قسم کھائی کہ وہ بنوہاشم اور بنو مطلب کے ساتھ نہ نکاح کریں گے اور نہ ہی ان کے ساتھ خریدو فروخت کریں گے جب تک کہ وہ رسول اللہ ﷺ کو ان کے سپرد نہ کردیں یعنی وہ جگہ وادی محصب تھی۔

【386】

وادی محصب میں اتر نے کے استح کے بیان میں

زہیر بن حرب، شبابہ، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ فرمایا کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ جب اللہ نے ہمیں فتح عطا فرما دی تو اگر اللہ نے چاہا تو ہم خیف میں ٹھہریں گے جس جگہ کافروں نے کفر پر قسمیں کھائی تھیں۔

【387】

تشریق کے دنوں میں منی میں رات گزارنے کے وجوب کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابن نمیر، ابواسامہ، عبیداللہ نافع، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ حضرت عباس (رض) بن عبدالمطلب (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے اس بات کی اجازت مانگی کہ منیٰ کی راتوں میں زم زم پلانے کے لئے مکہ میں رات گزاریں تو آپ ﷺ نے انہیں اجازت دے دی۔

【388】

تشریق کے دنوں میں منی میں رات گزارنے کے وجوب کے بیان میں

اسحاق بن ابراہیم، عیسیٰ بن یونس، محمد بن حاتم، عبد بن حمید، محمد بن بکر، ابن جریج، حضرت عبیداللہ بن عمر (رض) سے اس سند کے ساتھ اسی طرح روایت نقل کی گئی ہے۔

【389】

حج کے دنوں میں پانی پلا نے کے فضیلت اور اس سے دینے کے استح کے بیان میں

محمد بن منہال ضریر، یزید بن زریع، حمید، بکر بن عبداللہ، حضرت بکر بن عبداللہ مزنی (رض) سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں کعبہ اللہ کے پاس حضرت ابن عباس (رض) کے ساتھ بیٹھا تھا کہ ایک دیہاتی آدمی آیا اور اس نے کہا کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ آپ ﷺ کے چچازاد تو شہد اور دودھ پلاتے ہیں اور آپ نبیذ (یعنی کھجوروں کا پانی) پلاتے ہیں ؟ کیا اس کی وجہ غربت یا بخل ؟ تو حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا اَلْحَمْدُ لِلَّهِ نہ تو ہم غریب ہیں اور نہ بخیل بات دراصل یہ ہے کہ نبی ﷺ اپنی سواری پر تشریف لائے اور حضرت اسامہ (رض) سواری پر آپ ﷺ کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے تو آپ ﷺ نے پانی طلب کیا تو ہم نے آپ ﷺ کی خدمت میں نبیذ کا برتن پیش کیا تو آپ ﷺ نے وہ پیا اور اس میں سے بچا ہوا حضرت اسامہ (رض) نے پیا اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم نے اچھا اور خوب کام کیا تو تم اسی طرح کرو۔ حضرت ابن عباس (رض) فرمانے لگے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں جو حکم دیا ہے ہم اس میں کوئی تبدیلی نہیں کرنا چاہتے۔

【390】

قربانی کے جانوروں کا گوشت اور ان کی کھال اور ان کی جھول صدقہ کرنے کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، ابوخیثمہ، عبدالکریم، مجاہد، عبدالرحمن، بن ابی لیلی، حضرت علی (رض) سے روایت ہے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے حکم فرمایا کہ میں قربانی کے اونٹ پر کھڑا رہوں اور یہ کہ میں ان کے گوشت اور ان کی کھال اور ان کی جھول کو صدقہ کر دوں اور ان میں سے قصاب کو اس کی مزدوری نہ دوں حضرت علی (رض) نے فرمایا کہ قصاب کو مزدوری ہم اپنے پاس سے دیں گے۔

【391】

قربانی کے جانوروں کا گوشت اور ان کی کھال اور ان کی جھول صدقہ کرنے کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، عمرو ناقد، زہیر بن حرب، ابن عیینہ، حضرت عبدالکریم الجزري سے اس سند کے ساتھ اسی طرح روایت نقل کی گئی۔

【392】

قربانی کے جانوروں کا گوشت اور ان کی کھال اور ان کی جھول صدقہ کرنے کے بیان میں

اسحاق بن ابراہیم، سفیان، اسحاق بن ابراہیم، معاذ، ابن ہشام، مجاہد، ابن ابی لیلی، علی اس سند کے ساتھ حضرت علی (رض) نے نبی کریم ﷺ سے اسی طرح حدیث نقل فرمائی لیکن ان دونوں حدیثوں میں قصاب کی اجرت کا ذکر نہیں کیا۔

【393】

قربانی کے جانوروں کا گوشت اور ان کی کھال اور ان کی جھول صدقہ کرنے کے بیان میں

محمد بن حاتم بن میمون، محمد بن مرزوق، عبد بن حمید، عبد، محمد بن بکر، ابن جریج، حسن بن مسلم، مجاہد، حضرت علی (رض) خبر دیتے ہیں کہ نبی ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ قربانی کے اونٹوں پر کھڑے رہیں اور ان کو یہ بھی حکم فرمایا کہ قربانی کے اونٹ کا گوشت اور اس کی کھال اور اس کے جھول مساکین میں تقسیم کردیں اور ان میں سے قصاب کو اجرت نہ دیں۔

【394】

قربانی کے جانوروں کا گوشت اور ان کی کھال اور ان کی جھول صدقہ کرنے کے بیان میں

محمد بن حاتم، محمد بن بکر، ابن جریج، عبدالکریم بن مالک، مجاہد، عبدالرحمن بن ابی لیلی سے اس سند کے ساتھ یہ روایت ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلی خبر دیتے ہیں کہ حضرت علی (رض) بن ابی طالب نے خبر دی ہے نبی ﷺ نے ان کو اسی طرح کرنے کا حکم فرمایا۔

【395】

قربانی کے جانوروں اونٹ اور گائے میں اشتراک کے جواز کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، مالک، یحییٰ بن یحیی، حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے فرمایا کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حدبییہ والے سال سات آدمیوں کی طرف سے ایک اونٹ نحر کیا اور سات آدمیوں کی طرف سے ایک گائے بھی ذبح کی۔

【396】

قربانی کے جانوروں اونٹ اور گائے میں اشتراک کے جواز کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، ابوحیثمہ، ابوزبیر، جابر، احمد بن یونس، حضرت جابر (رض) سے روایت ہے فرمایا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حجۃ الوداع کا احرام باندھے ہوئے تلبیہ کہتے ہوئے نکلے رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم فرمایا کہ ہم اونٹ اور گائے کی قربانیوں میں سات سات آدمی شریک ہوجائیں۔

【397】

قربانی کے جانوروں اونٹ اور گائے میں اشتراک کے جواز کے بیان میں

محمد بن حاتم، وکیع، عروہ بن ثابت، ابوزبیر، حضرت جابر (رض) بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج کیا تو ہم نے سات آدمیوں کی طرف سے اونٹ ذبح کیا اور سات آدمیوں کی طرف سے ہی گائے ذبح کی۔

【398】

قربانی کے جانوروں اونٹ اور گائے میں اشتراک کے جواز کے بیان میں

محمد بن حاتم، یحییٰ بن سعید، ابن جریج، ابوزبیر، حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے فرمایا کہ ہم نبی ﷺ کے ساتھ حج اور عمرے میں شریک تھے سات سات آدمی قربانی کے ایک اونٹ میں شریک ہوگئے تو ایک آدمی نے حضرت جابر (رض) سے عرض کیا جیسے قربانی کے اونٹ میں ہم شریک ہوسکتے ہیں بعد میں خریدے گئے جانوروں میں بھی شرکت درست ہے ؟ حضرت جابر (رض) نے فرمایا کہ پہلے والے اور بعد میں خریدے گئے اونٹوں کا ایک ہی حکم ہے حضرت جابر (رض) حدیبیہ میں حاضر تھے فرماتے ہیں کہ ہم نے اس طرح ستر اونٹ ذبح کئے اور ہر اونٹ میں سات سات آدمی شریک تھے۔

【399】

قربانی کے جانوروں اونٹ اور گائے میں اشتراک کے جواز کے بیان میں

محمد بن حاتم، محمد بن بکر، ابن جریج، ابوزبیر، حضرت جابر بن عبداللہ (رض) نبی ﷺ کے حج کے بارے میں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ہمیں حکم فرمایا کہ جب ہم حلال ہوں تو قربانی کریں اور ہم میں سے چند آدمی قربانی کے جانور اونٹ یا گائے میں اکٹھے ہوجائیں اور آپ ﷺ نے ان کو یہ حکم اس وقت فرمایا جس وقت کہ وہ اپنے حج سے حلال ہوں یعنی احرام کھولیں۔

【400】

قربانی کے جانوروں اونٹ اور گائے میں اشتراک کے جواز کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، ہشیم، عبد الملک، عطاء، حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج تمتع کیا کرتے تھے اور ہم ایک گائے ذبح کرتے تھے کہ جس میں سات حصہ دار شریک ہوتے تھے۔

【401】

قربانی کے جانوروں اونٹ اور گائے میں اشتراک کے جواز کے بیان میں

عثمان بن ابی شیبہ، یحییٰ بن زکریا، ابن ابی زائدہ، جریج، حضرت جابر (رض) سے روایت ہے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ (رض) کی طرف سے یوم النحر قربانی کے دن ایک گائے ذبح کی۔

【402】

قربانی کے جانوروں اونٹ اور گائے میں اشتراک کے جواز کے بیان میں

محمد بن حاتم، محمد بن بکر، ابن جریج، سعید بن یحیی، ابن جریج، حضرت جابر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی تمام ازواج مطہرات کی طرف سے اور ابوبکر (رض) کی حدیث میں ہے کہ حضرت عائشہ (رض) کی طرف سے اپنے حج میں ایک گائے نحر کی یعنی ذبح کی۔

【403】

کھڑے کھڑے اونٹ کے پاؤں باندھ کر اونٹ کو نحر کرنے کے استح کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، خالد بن عبداللہ، یونس، زیاد بن جبیر، ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) ایک آدمی کے پاس آئے کہ وہ قربانی کے اونٹ کو بٹھا کر نحر کر رہا ہے تو حضرت ابن عمر (رض) نے اس سے فرمایا کہ اسے کھڑا کر کے اس کے پاؤں باندھ کر اسے نحر کرو تمہارے نبی ﷺ کی یہی سنت ہے۔

【404】

بذات خود حرم نہ جانے والوں کے لئے قربانی کے جانور کے گلے میں قلادہ ڈال کر بھیجنے کے استح کے بیان میں

یحییٰ بن یحییٰ محمد بن رمح، لیث، قتیبہ، لیث، ابن شہاب، حضرت عروہ بن زبیر (رض) اور حضرت عمروہ بنت عبدالرحمن (رض) سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ سے قربانی کا جانور بھیجا تھا اور میں نے خود ہار بنا کر اس کے گلے میں ڈالا تھا پھر آپ ﷺ جانور کے بھیجنے کے بعد ان چیزوں میں سے کسی سے نہیں بچتے تھے کہ جن سے احرام والا بچتا تھا۔

【405】

بذات خود حرم نہ جانے والوں کے لئے قربانی کے جانور کے گلے میں قلادہ ڈال کر بھیجنے کے استح کے بیان میں

حرملہ بن یحیی، ابن وہب، یونس، حضرت ابن شہاب سے اس سند کے ساتھ اسی طرح روایت نقل کی گئی ہے۔

【406】

بذات خود حرم نہ جانے والوں کے لئے قربانی کے جانور کے گلے میں قلادہ ڈال کر بھیجنے کے استح کے بیان میں

سعید بن منصور، زہیر بن حرب، سفیان، عروہ، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے فرماتی ہیں گویا کہ میں دیکھ رہی ہوں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے قربانی کے جانور کے گلے میں ہار بنا کر ڈالا کرتی تھی۔

【407】

بذات خود حرم نہ جانے والوں کے لئے قربانی کے جانور کے گلے میں قلادہ ڈال کر بھیجنے کے استح کے بیان میں

سعید بن منصور، سفیان، عبدالرحمن بن قاسم، حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں اپنے ہاتھوں کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی قربانی کے جانور کے ہار بناتی تھی پھر آپ ﷺ نہ کسی چیز سے بچتے تھے اور نہ ہی کسی چیز کو ترک کرتے تھے۔

【408】

بذات خود حرم نہ جانے والوں کے لئے قربانی کے جانور کے گلے میں قلادہ ڈال کر بھیجنے کے استح کے بیان میں

عبداللہ بن مسلمہ بن قعنب، افلح، قاسم، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ اپنے ہاتھوں سے رسول اللہ ﷺ کے قربانی کے اونٹوں کے ہار بناتی تھی پھر آپ ﷺ ان کے کوہان چیر کر اور ان کے گلے میں ہار ڈالتے پھر آپ ﷺ اسے بیت اللہ کی طرف بھیجتے اور آپ ﷺ مدینہ میں ٹھہرتے تو آپ ﷺ پر کوئی چیز حرام نہیں ہوئی جو آپ ﷺ کے لئے حلال تھی۔

【409】

بذات خود حرم نہ جانے والوں کے لئے قربانی کے جانور کے گلے میں قلادہ ڈال کر بھیجنے کے استح کے بیان میں

علی بن حجر سعدی، یعقوب بن ابراہیم، ابن حجر، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ قربانی کا جانور بھیجا کرتے تھے اور میں اپنے ہاتھوں سے ہار بنا کر اس کے گلے میں ڈالا کرتی تھی پھر آپ ﷺ کسی چیز کو نہ چھوڑتے کہ جس کو حلال نہ چھوڑتا ہو۔

【410】

بذات خود حرم نہ جانے والوں کے لئے قربانی کے جانور کے گلے میں قلادہ ڈال کر بھیجنے کے استح کے بیان میں

محمد بن مثنی، حسین بن حسن، ابن عون، ام المومنین حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ میں یہ ہار اس اون سے بناتی تھی جو ہمارے پاس تھی اور رسول اللہ ﷺ صبح کو حلال ہی تھے تو جس طرح ایک حلال آدمی اپنی اہلیہ سے متمتع ہوتا ہے تو آپ ﷺ بھی اپنی زوجہ مطہرہ کے پاس آتے۔

【411】

بذات خود حرم نہ جانے والوں کے لئے قربانی کے جانور کے گلے میں قلادہ ڈال کر بھیجنے کے استح کے بیان میں

زہیر بن حرب، جریر، منصور، ابراہیم، اسود، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ میرا خیال ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کی قربانیوں کے جانوروں کے ہار بکریوں کی اون سے بنتی تھی آپ ﷺ ان کو بھیجتے تھے تو پھر بھی آپ ﷺ حلال ہی رہتے

【412】

بذات خود حرم نہ جانے والوں کے لئے قربانی کے جانور کے گلے میں قلادہ ڈال کر بھیجنے کے استح کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب، یحیی، ابومعاویہ، اعمش، ابراہیم، اسود، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی قربانیوں کے جانوروں کے ہار زیادہ تر میں ہی بناتی تھی پھر آپ ﷺ ان جانوروں کے گلوں میں ڈال کر انہیں بھیجتے پھر آپ ﷺ ٹھہرتے اور ان چیزوں میں سے کسی چیز سے نہیں بچتے تھے کہ جن سے احرام والا بچتا ہے۔

【413】

بذات خود حرم نہ جانے والوں کے لئے قربانی کے جانور کے گلے میں قلادہ ڈال کر بھیجنے کے استح کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب، یحیی، ابومعاویہ، ابراہیم، اسود، حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مرتبہ بیت اللہ کی طرف قربانی کے جانور بھیجے تو ان کی گردنوں میں ہار ڈالے تھے۔

【414】

بذات خود حرم نہ جانے والوں کے لئے قربانی کے جانور کے گلے میں قلادہ ڈال کر بھیجنے کے استح کے بیان میں

اسحاق بن منصور، عبدالصمد، محمد بن حجادہ، حکم، ابراہیم، اسود، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ ہم بکریوں کی گردنوں میں ہار ڈال کر انہیں بھیجا کرتے تھے اور رسول اللہ ﷺ حلال ہی رہتے تھے اور کسی چیز کو اپنے اوپر حرام نہیں کرتے تھے۔

【415】

بذات خود حرم نہ جانے والوں کے لئے قربانی کے جانور کے گلے میں قلادہ ڈال کر بھیجنے کے استح کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، مالک، عبداللہ بن ابی بکر، حضرت عمرہ بنت عبدالرحمن (رض) سے روایت ہے وہ خبر دیتی ہیں کہ ابن زیاد نے حضرت عائشہ (رض) کی طرف لکھا کہ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ جس آدمی نے قربانی کا جانور روانہ کردیا اس پر وہ سب کچھ حرام ہے کہ جو کچھ ایک حاجی پر احرام کی وجہ سے حرام ہوتا ہے جب تک کہ وہ قربانی کا جانور ذبح نہ ہوجائے تو میں نے بھی قربانی کا جانور بھیجا ہے تو آپ اس مسئلہ کے بارے میں اپنا حکم مجھے لکھ کر بھیجیں حضرت عمرہ کہتی ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا کہ حضرت ابن عباس کا فرمانا درست نہیں میں خود اپنے ہاتھوں سے رسول اللہ ﷺ کے قربانی کے جانوروں کے ہار بناتی تھی پھر آپ ﷺ ان کو میرے باپ کے ساتھ مکہ بھیج دیتے تھے تو رسول اللہ ﷺ پر کوئی چیز حرام نہیں جن کو اللہ نے آپ کے لئے حلال کیا ہو جب تک کہ قربانی کا جانور ذبح نہ کرلیا جاتا۔

【416】

بذات خود حرم نہ جانے والوں کے لئے قربانی کے جانور کے گلے میں قلادہ ڈال کر بھیجنے کے استح کے بیان میں

سعید بن منصور، ہشیم، اسماعیل بن ابی خالد، شعبی، حضرت مسروق (رض) سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ (رض) سے سنا کہ وہ پردہ کے پیچھے سے دستک دیتے ہوئے فرما رہی تھیں کہ رسول اللہ ﷺ کی قربانی کے جانوروں کے ہار میں خود اپنے ہاتھوں سے بنایا کرتی تھی پھر آپ ﷺ ان کو بھیجا کرتے اور آپ ﷺ حلال ہی رہتے تھے اور کسی چیز کو اپنے اوپر حرام نہیں کرتے تھے جب تک کہ آپ ﷺ کی قربانی کا جانور ذبح نہ ہوجاتا۔

【417】

بذات خود حرم نہ جانے والوں کے لئے قربانی کے جانور کے گلے میں قلادہ ڈال کر بھیجنے کے استح کے بیان میں

محمد بن مثنی، عبدالوہاب، داؤد، ابن نمیر، زکریا، شعبی، مسروق، عائشہ اس سند کے ساتھ حضرت عائشہ (رض) نے نبی کریم ﷺ سے اسی حدیث کی طرح حدیث نقل فرمائی۔

【418】

شدید مجبوری کی حالت میں قربانی کے اونٹ پر سوار ہونے کے جواز کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، مالک، ابی زناد، اعرج، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ قربانی کے اونٹ کو پیچھے سے ہانکتا ہوا لے کر جا رہا ہے آپ ﷺ نے اس سے فرمایا سوار ہوجا اس نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! یہ قربانی کا اونٹ ہے آپ ﷺ نے فرمایا سوار ہوجا اور آپ ﷺ نے دوسری یا تیسری مرتبہ فرمایا تجھ میں خرابی ہو سوار ہوجا

【419】

شدید مجبوری کی حالت میں قربانی کے اونٹ پر سوار ہونے کے جواز کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، مغیرہ بن عبدالرحمن، حضرت ابوالزناد سے اس سند کے ساتھ روایت نقل کی گئی ہے اس روایت میں ہے کہ ایک آدمی قربانی کے اونٹ کو ہانکتا ہوا لے کر جا رہا تھا اس حال میں کہ اس کے گلے میں ہار ڈالا ہوا تھا

【420】

شدید مجبوری کی حالت میں قربانی کے اونٹ پر سوار ہونے کے جواز کے بیان میں

محمد بن رافع، عبدالرزاق، معمر، ہمام بن منبہ، حضرت ابوہریرہ (رض) جناب محمد رسول اللہ ﷺ سے نقل کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی قربانی کے اونٹ کو پیچھے سے ہنکاتا ہوا لے کر جا رہا تھا اور اس کی گردن میں ہار ڈالا ہوا تھا رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا کہ تیرے لئے خرابی ہو سوار ہوجا اس نے عرض کی اے اللہ کے رسول ! یہ قربانی کا اونٹ ہے آپ ﷺ نے اس سے فرمایا تیرے لئے خرابی ہو سوار ہوجا تیرے لئے خرابی ہو سوار ہوجا۔

【421】

شدید مجبوری کی حالت میں قربانی کے اونٹ پر سوار ہونے کے جواز کے بیان میں

عمرو ناقد، سریج بن یونس، ہشیم، حمید، ثابت، حضرت انس (رض) سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا ایک ایسے آدمی کے پاس سے گزر ہوا کہ وہ قربانی کے اونٹ کو ہنکاتا ہوا لے کے جا رہا تھا آپ ﷺ نے اس سے فرمایا سوار ہوجا اس نے عرض کیا کہ یہ قربانی کا اونٹ ہے آپ ﷺ نے فرمایا سوار ہوجا اس نے عرض کیا کہ یہ قربانی کا اونٹ ہے آپ ﷺ نے اسے دو یا تین مرتبہ یہی فرمایا کہ سوار ہوجا۔

【422】

شدید مجبوری کی حالت میں قربانی کے اونٹ پر سوار ہونے کے جواز کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، وکیع، مسعر، بکیر بن اخنس، حضرت انس (رض) سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ کے پاس سے کوئی قربانی کا اونٹ یا قربانی کا جانور کے لے گزرا تو آپ ﷺ نے اس سے فرمایا سوار ہوجا اس نے عرض کیا کہ یہ قربانی کا اونٹ ہے یا کہا کہ یہ قربانی کا جانور ہے آپ ﷺ نے فرمایا اگرچہ قربانی کا جانور ہے سوار ہوجا۔

【423】

شدید مجبوری کی حالت میں قربانی کے اونٹ پر سوار ہونے کے جواز کے بیان میں

ابوکریب، ابن بشر، مسعر، بکیر، بن اخنس، حضرت انس (رض) سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ کوئی آدمی نبی ﷺ کے پاس سے قربانی کا اونٹ لے کر گزرا پھر آگے حدیث اسی طرح ذکر فرمائی۔

【424】

شدید مجبوری کی حالت میں قربانی کے اونٹ پر سوار ہونے کے جواز کے بیان میں

محمد بن حاتم، یحییٰ بن سعید، ابن جریج، ابوزبیر، حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے قربانی کے جانور کی سواریوں کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ دستور کے مطابق شدید مجبوری کی حالت میں جب تک دوسری سواری نہ پاؤ سوار ہوجاؤ۔

【425】

شدید مجبوری کی حالت میں قربانی کے اونٹ پر سوار ہونے کے جواز کے بیان میں

سلمہ بن شبیب، حسن بن اعین، معقل، حضرت ابوزبیر (رض) سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر (رض) سے قربانی کے جانور کی سواریوں کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا میں نے نبی ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے ہیں دستور کے مطابق شدید مجبوری کی حالت میں جب تک کہ دوسری سواری نہ ملے سوار ہوجاؤ۔

【426】

قربانی کا جانور چلتے چلتے جب راستے میں تھک جائے تو کیا کرے؟

یحییٰ بن یحیی، عبدالوارث بن سعید، ابی تیاح، حضرت موسیٰ بن سلمہ (رض) ہذلی (رض) فرماتے ہیں کہ میں اور سنان بن سلمہ عمرہ کی ادائیگی کے لئے چلے راوی کہتے ہیں کہ سنان کے ساتھ قربانی کا ایک اونٹ تھا جسے ہنکاتے ہوئے چلے جا رہے تھے راستے میں وہ اونٹ تھک کر ٹھہر گیا سنان کہنے لگے کہ اگر یہ اونٹ آگے نہ چلا تو میں کیا کروں گا ؟ مجبورا کہنے لگے کہ اگر میں شہر پہنچ گیا تو اس بارے میں ضرور مسئلہ پوچھوں گا راوی کہتے ہیں کہ جب دوپہر کا وقت ہوا اور بطحا میں اترے تو وہ حضرت ابن عباس (رض) کی طرف چلے تاکہ ان سے اس سلسلہ میں بیان کریں حضرت ابن عباس (رض) کے پاس جا کر ان سے قربانی کے اونٹ کا حال بیان کیا حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مرتبہ قربانی کے سولہ اونٹ ایک آدمی کے ساتھ بھیجے اور اونٹوں کی خدمت پر اسے لگا دیا سنان نے عرض کیا کہ کیا وہ آدمی گیا اور پھر واپس لوٹ آیا ؟ ابن عباس (رض) نے عرض کیا پھر وہ واپس لوٹ آیا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول ! اگر اونٹوں میں سے کوئی تھک جائے تو میں کیا کروں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اسے ذبح کرو پھر اس کے گلے میں جو جوتیاں ہیں ان کو خون میں رنگ کر کوہان کے ایک پہلو پر بھی خون کا نشان لگا دینا اور تم اور نہ ہی تمہارے ساتھیوں میں سے کوئی اس اونٹ کا گوشت کھائے۔

【427】

قربانی کا جانور چلتے چلتے جب راستے میں تھک جائے تو کیا کرے؟

یحییٰ بن یحیی، ابوبکر بن ابی شیبہ، علی بن حجر، اسماعیل بن علیہ، ابن تیاح، موسیٰ بن سلمہ، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کے ساتھ سولہ اونٹوں کو بھیجا پھر آگے اسی طرح حدیث ذکر فرمائی اور حدیث کا ابتدائی حصہ ذکر نہیں فرمایا۔

【428】

قربانی کا جانور چلتے چلتے جب راستے میں تھک جائے تو کیا کرے؟

ابوغسان، عبدالاعلی، سعید، قتادہ، سنان بن سلمہ، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ حضرت زویب، ابوقبیصہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کے ساتھ قربانی کے اونٹ بھیجا کرتے تھے پھر فرماتے کہ اگر ان اونٹوں میں سے کوئی ایک تھک جائے اور تجھے اس کے مرنے کا ڈر ہو تو اسے ذبح کردینا پھر اس کے گلے میں پڑی ہوئی جوتی کو اس کے خون میں ڈبو کر اس کے کوہان کے ایک پہلو پر مارنا مگر تیرے اور تیرے ساتھیوں میں سے کوئی بھی اس کا گوشت نہ کھائے۔

【429】

طواف وداع کے وجوب اور حائضہ عورت سے طواف معاف ہونے کے بیان میں

سعید بن منصور، زہیر بن حرب، سفیان، سلیمان، طاؤس، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے فرمایا کہ لوگ ہر ایک راستے سے واپس پھر جایا کرتے تھے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کوئی واپس نہ جائے جب تک کہ آخر میں بھی بیت اللہ کا طواف نہ کرلے زہیر کی روایت میں فی کا لفظ نہیں۔

【430】

طواف وداع کے وجوب اور حائضہ عورت سے طواف معاف ہونے کے بیان میں

سعید بن منصور، ابوبکر بن ابی شیبہ، سفیان، ابن طاؤس، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے فرمایا کہ لوگوں کو حکم دیا گیا کہ وہ آخر میں بیت اللہ کے پاس سے ہو کر جائیں سوائے اس کے کہ حیض والی عورت سے تخفیف ہوگئی ہے۔

【431】

طواف وداع کے وجوب اور حائضہ عورت سے طواف معاف ہونے کے بیان میں

محمد بن حاتم، یحییٰ بن سعید، ابن جریج، حسن بن مسلم، حضرت طاؤس (رض) سے روایت ہے فرمایا کہ میں حضرت ابن عباس (رض) کے پاس تھا کہ حضرت زید بن ثابت (رض) نے فرمایا کہ آپ فتویٰ دیتے ہیں کہ حیض والی عورت طواف وداع کرنے سے پہلے بیت اللہ سے واپس آسکتی ہے ؟ تو حضرت ابن عباس (رض) نے ان سے فرمایا کہ تم میرے اس فتویٰ کو نہیں مانتے تو فلاں انصاری عورت سے پوچھ لو کہ کیا رسول اللہ ﷺ نے اسے یہی حکم دیا تھا ؟ حضرت زید بن ثابت (رض) حضرت ابن عباس کی طرف مسکراتے ہوئے آئے اور فرمایا کہ آپ ہمیشہ سچ فرماتے ہیں۔

【432】

طواف وداع کے وجوب اور حائضہ عورت سے طواف معاف ہونے کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، لیث، محمد بن رمح، لیث، ابن شہاب، ابی سلمہ، عروہ، حضرت عائشہ (رض) اور حضرت عروہ (رض) سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ حضرت صفیہ بنت حیی (رض) طواف افاضہ کرنے کے بعد حائضہ ہوگئیں حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے ان کے حیض کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ وہ ہمیں روک رکھیں گی حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول وہ طواف افاضہ کرچکی تھیں طواف افاضہ کے بعد پھر حائضہ ہوئیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تو پھر چلیں۔

【433】

طواف وداع کے وجوب اور حائضہ عورت سے طواف معاف ہونے کے بیان میں

ابوطاہر، حرملہ بن یحیی، احمد بن عیسی، احمد، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، صفیہ بنت حیی اس سند کے ساتھ ابن شہاب (رض) سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ حضرت صفیہ (رض) بنت حیی نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ حجہالوداع میں پاکی کی حالت میں طواف افاضہ کرنے کے بعد حائضہ ہوگئیں باقی حدیث اسی طرح ذکر فرمائی۔

【434】

طواف وداع کے وجوب اور حائضہ عورت سے طواف معاف ہونے کے بیان میں

قتیبہ، ابن سعید، لیث، زہیر بن حرب، سفیان، محمد بن مثنی، عبدالوہاب، ایوب، سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے ذکر فرمایا کہ حضرت صفیہ (رض) حائضہ ہوگئیں ہیں آگے زہری کی حدیث کی طرف روایت نقل کی گئی ہے۔

【435】

طواف وداع کے وجوب اور حائضہ عورت سے طواف معاف ہونے کے بیان میں

عبداللہ بن مسلمہ بن قعنب، افلح، قاسم بن محمد، سیدہ عائشہ (رض) صدیقہ (رض) سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ ہمیں ڈر تھا کہ حضرت صفیہ (رض) طواف افاضہ سے پہلے حائضہ ہوجائیں گی حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا کیا صفیہ ہمیں روک رکھیں گی ؟ ہم نے عرض کیا کہ وہ طواف افاضہ کرچکی ہیں آپ ﷺ نے فرمایا کہ اب رکنا نہیں۔

【436】

طواف وداع کے وجوب اور حائضہ عورت سے طواف معاف ہونے کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، مالک، عبداللہ بن ابی بکر، عمرہ بنت عبدالرحمن، سیدہ عائشہ (رض) سے روایت ہے انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! حضرت صفیہ بنت حیی (رضی اللہ عنہا) حائضہ ہوگئیں ہیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا شاید کہ وہ ہمیں روک رکھیں گی۔ کیا حضرت صفیہ (رضی اللہ عنہا) نے سب کے ساتھ بیت اللہ کا طواف نہیں کیا ؟ انہوں نے عرض کیا ہاں ! آپ ﷺ نے فرمایا تو پھر نکلو۔

【437】

طواف وداع کے وجوب اور حائضہ عورت سے طواف معاف ہونے کے بیان میں

حکم بن موسی، یحییٰ بن حمزہ، اوزاعی، یحییٰ بن کثیر، سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت ہے انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا اے اللہ کے رسول حضرت صفیہ بنت حیی (رض) حائضہ ہوگئیں ہیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا شاید کہ وہ ہمیں روک رکھیں گی۔ آپ ﷺ سے عرض کیا گیا کہ اے اللہ کے رسول وہ تو قربانی والے دن کو طواف زیارت کرچکی ہیں آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر تمہارے ساتھ وہ چلیں۔

【438】

طواف وداع کے وجوب اور حائضہ عورت سے طواف معاف ہونے کے بیان میں

محمد بن مثنی، ابن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، عبیداللہ بن معاذ، شعبہ، حکم، ابراہیم، اسود، سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ جب نبی ﷺ نے ارادہ فرمایا کہ مکہ سے واپس چلیں تو دیکھا کہ دروازے پر حضرت صفیہ (رض) اد اس اور غمزدہ کھڑی ہیں حائضہ ہونے کی وجہ سے آپ ﷺ نے فرمایا تو تو ہمیں روک رکھے گی پھر حضرت صفیہ (رض) سے فرمایا کہ کیا تو نے قربانی کے دن طواف کرلیا تھا ؟ حضرت صفیہ (رض) نے عرض کیا کہ ہاں ! آپ ﷺ نے فرمایا تو پھر چلو۔

【439】

طواف وداع کے وجوب اور حائضہ عورت سے طواف معاف ہونے کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب، ابومعاویہ، اعمش، زہیر بن حرب، جریر، منصور، ابراہیم، سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) نے نبی ﷺ سے حکم کی حدیث کی طرح حدیث نقل کی ہے سوائے اس کے کہ اس میں دو لفظ " کیبہ " (اداس) اور " خزینہ " (غمزدہ) کا ذکر نہیں ہے۔

【440】

حاجی اور غیر حاجی کے لئے کعبة اللہ میں داخلے اور اس میں نماز پڑھنے کے استح کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، مالک، نافع، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کعبہ اللہ میں داخل ہوئے اور آپ ﷺ کے ساتھ حضرت اسامہ (رض) اور حضرت بلال (رض) اور حضرت عثمان بن طلحہ (رض) بھی تھے اور کعبہ کا دروازہ آپ ﷺ پر بند ہوگیا پھر آپ ﷺ دیر تک اندر رہے حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت بلال (رض) جس وقت باہر نکلے تو میں نے ان سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ نے اندر کیا کیا ؟ حضرت بلال (رض) نے فرمایا کہ آپ ﷺ نے دو ستونوں کو اپنے بائیں طرف اور ایک ستون کو اپنے دائیں طرف اور تین ستونوں کو اپنے پیچھے کیا اور بیت اللہ کے اس وقت چھ ستون تھے پھر آپ ﷺ نے نماز پڑھی۔

【441】

حاجی اور غیر حاجی کے لئے کعبة اللہ میں داخلے اور اس میں نماز پڑھنے کے استح کے بیان میں

ابوربیع، قتیبہ بن سعید، ابوکامل، حماد، بن زید، حماد، ایوب، نافع، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فتح مکہ کے دن تشریف لائے اور کعبہ کے صحن میں اترے آپ ﷺ نے حضرت عثمان بن طلحہ (رض) کو بلایا تو وہ چابی لے کر آئے اور دروازہ کھولا پھر نبی ﷺ اور حضرت بلال اور اسامہ (رض) اور عثمان (رض) کعبہ کے اندر داخل ہوئے اور دروازہ بند کرنے کا حکم دیا گیا پھر آپ ﷺ کعبہ میں کچھ دیر ٹھہرے رہے پھر دروازہ کھلا حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ میں جلدی میں سب لوگوں سے پہلے رسول اللہ ﷺ سے ملا جب آپ ﷺ باہر نکلے اور حضرت بلال آپ ﷺ کے پیچھے تھے تو میں نے حضرت بلال سے پوچھا کہ کیا آپ ﷺ نے کعبہ میں نماز پڑھی ہے ؟ حضرت بلال (رض) نے کہا کہ ہاں میں نے کہا کہاں ؟ حضرت بلال (رض) نے کہا کہ اپنے سامنے کے دو ستونوں کے درمیان حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ میں یہ بھول گیا کہ میں ان سے پوچھتا کہ کتنی رکعتیں پڑھی تھیں۔

【442】

حاجی اور غیر حاجی کے لئے کعبة اللہ میں داخلے اور اس میں نماز پڑھنے کے استح کے بیان میں

ابن ابی عمر، سفیان، ایوب، نافع، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ فتح مکہ کے سال حضرت اسامہ بن زید (رض) کی اونٹنی پر سوار تھے یہاں تک کہ آپ ﷺ نے اونٹنی کو کعبہ کے صحن میں بٹھایا پھر حضرت عثمان بن طلحہ کو بلایا اور ان سے فرمایا کہ مجھے چابی لا کردو وہ اپنی والدہ کی طرف چابی لینے کے لئے گئے تو انہوں نے انکار کیا تو حضرت عثمان (رض) کہنے لگے کہ مجھے چابی دے دو ورنہ میں اپنی تلوار میان سے نکال لوں گا حضرت عثمان کی والدہ نے ان کو چابی دے دی تو وہ اسے لے کر نبی ﷺ کی طرف آئے آپ ﷺ نے دروازہ کھولا پھر حماد بن زید کی حدیث کی طرح ذکر فرمایا۔

【443】

حاجی اور غیر حاجی کے لئے کعبة اللہ میں داخلے اور اس میں نماز پڑھنے کے استح کے بیان میں

زہیر بن حرب، یحییٰ قطان، ابوبکر بن ابی شیبہ، ابواسامہ، ابن نمیر، عبدہ، عبیداللہ، نافع، حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ بیت اللہ میں داخل ہوئے اور آپ ﷺ کے ساتھ حضرت اسامہ حضرت بلال اور حضرت عثمان (رض) بھی تھے پھر ان پر دروازہ بند ہوگیا پھر کافی دیر بعد دروازہ کھلا تو سب سے پہلے میں داخل ہوا تو میری ملاقات حضرت بلال سے ہوئی تو میں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے کہاں نماز پڑھی انہوں نے کہا کہ اپنے سامنے والے دو ستونوں کے درمیان تو میں حضرت بلال (رض) سے یہ پوچھنا بھول گیا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ نے کتنی رکعتیں پڑھی ہیں ؟

【444】

حاجی اور غیر حاجی کے لئے کعبة اللہ میں داخلے اور اس میں نماز پڑھنے کے استح کے بیان میں

حمید بن مسعدہ، خالد ابن حارث، عبداللہ بن عون، نافع، حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ میں کعبہ کی طرف پہنچا تو نبی ﷺ اور حضرت بلال اور اسامہ (رض) کعبہ میں داخل ہوگئے تھے اور ان پر حضرت عثمان (رض) نے دروازہ بند کردیا تھا آپ ﷺ کعبہ میں کچھ دیر ٹھہرے پھر دروازہ کھولا گیا تو نبی ﷺ باہر نکلے اور میں سیٹرھی سے اندر گیا اور بیت اللہ میں داخل ہوا اور میں نے پوچھا کہ نبی ﷺ نے کہاں نماز پڑھی ہے انہوں نے فرمایا کہ یہاں حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ میں یہ بھول گیا کہ میں ان سے پوچھتا کہ آپ ﷺ نے کتنی رکعت پڑھی ہیں ؟

【445】

حاجی اور غیر حاجی کے لئے کعبة اللہ میں داخلے اور اس میں نماز پڑھنے کے استح کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، لیث، ابن رمح، لیث، ابن شہاب، حضرت سالم (رض) اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ بیت اللہ میں داخل ہوئے اور حضرت اسامہ اور حضرت بلال اور حضرت عثمان (رض) بھی آپ کے ساتھ تھے اور دروازہ ان پر بند ہوگیا تو جب دروازہ کھولا گیا تو سب سے پہلے میں داخل ہوا اور میں حضرت بلال (رض) سے ملا اور ان سے پوچھا کہ کیا رسول اللہ ﷺ نے کعبہ میں نماز پڑھی ہے ؟ انہوں نے فرمایا کہ ہاں آپ ﷺ نے درمیانی ستونوں کے درمیان نماز پڑھی۔

【446】

حاجی اور غیر حاجی کے لئے کعبة اللہ میں داخلے اور اس میں نماز پڑھنے کے استح کے بیان میں

حرملہ بن یحیی، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، حضرت سالم بن عبداللہ (رض) اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ کعبہ میں داخل ہوئے اور حضرت اسامہ اور حضرت بلال (رض) اور حضرت عثمان (رض) بھی آپ ﷺ کے ساتھ تھے حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ وہ اندر داخل نہیں ہوسکے پھر ان پر دروازہ بند کردیا گیا حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت بلال (رض) یا عثمان بن طلحہ (رض) نے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ نے کعبہ کے وسط میں دو یمانی ستونوں کے درمیان نماز پڑھی۔

【447】

حاجی اور غیر حاجی کے لئے کعبة اللہ میں داخلے اور اس میں نماز پڑھنے کے استح کے بیان میں

اسحاق بن ابراہیم، عبد بن حمید، ابن بکر، عبد، محمد بن بکر، ابن جریج کہتے ہیں کہ میں نے عطاء سے کہا کہ کیا آپ نے حضرت ابن عباس کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ تم کو کعبہ میں طواف کا حکم دیا گیا ہے اور اس کے اندر داخل ہونے کا حکم نہیں دیا گیا عطاء کہتے ہیں کہ وہ کعبہ کے اندر داخل ہونے سے نہیں روکتے لیکن میں نے سنا کہ وہ کہتے ہیں کہ مجھے حضرت اسامہ (رض) بن زید نے خبر دی ہے کہ نبی ﷺ جب کعبہ میں داخل ہوئے تو آپ ﷺ نے اس کے تمام کونوں میں دعا مانگی اور اس میں نماز نہیں پڑھی یہاں تک کہ آپ ﷺ باہر تشریف لے آئے تو جب آپ ﷺ باہر تشریف لائے تو آپ ﷺ نے بیت اللہ کے سامنے دو رکعتیں پڑھیں اور آپ نے فرمایا یہ قبلہ ہے میں نے عرض کیا کہ اس کے کناروں کا کیا حکم ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ بیت اللہ کا ہر کنارہ قبلہ ہے۔

【448】

حاجی اور غیر حاجی کے لئے کعبة اللہ میں داخلے اور اس میں نماز پڑھنے کے استح کے بیان میں

شیبان بن فروخ، ہمام، عطاء، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ خانہ کعبہ میں داخل ہوئے اس میں چھ ستون تھے آپ ﷺ نے ہر ستون کے پاس کھڑے ہو کر دعا مانگی اور نماز نہیں پڑھی۔

【449】

حاجی اور غیر حاجی کے لئے کعبة اللہ میں داخلے اور اس میں نماز پڑھنے کے استح کے بیان میں

سریج بن یونس، ہشیم، اسماعیل بن ابی خالد، عبداللہ بن ابی اوفی، حضرت اسماعیل بن خالد (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے صحابی رسول اللہ ﷺ حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ (رض) سے عرض کیا کہ کیا نبی ﷺ اپنی عمر مبارک میں بیت اللہ میں داخل ہوئے ؟ انہوں نے فرمایا کہ نہیں۔

【450】

کعبہ کی عمارت توڑنا اور اس کی تعمیر کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، ابومعاویہ، ہشام بن عروہ، سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ اگر تمہاری قوم کے لوگوں نے نیا نیا کفر چھوڑ کر اسلام قبول نہ کیا ہوتا تو میں بیت اللہ کو توڑتا اور اسے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بنیادوں پر بناتا کیونکہ قریش نے جس وقت بیت اللہ کو بنایا تو اسے کم (چھوٹا) کردیا اور میں اس کے پیچھے بھی دروازہ بناتا۔

【451】

کعبہ کی عمارت توڑنا اور اس کی تعمیر کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب، ابن نمیر، حضرت ہشام (رض) سے اس سند کے ساتھ اسی طرح روایت نقل کی گئی ہے۔

【452】

کعبہ کی عمارت توڑنا اور اس کی تعمیر کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، مالک، ابن شہاب، سالم بن عبداللہ، عبداللہ بن محمد بن ابی بکر صدیق (رض) ، عبداللہ بن عمر، سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) نبی ﷺ کی زوجہ مطہرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہاری قوم نے جس وقت کعبہ بنایا تو اسے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بنیادوں سے چھوٹا کردیا حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! آپ ﷺ اسے دوبارہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بنیادوں پر کیوں نہیں بنا دیتے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اگر تمہاری قوم نے کفر کو نیا نیا چھوڑا نہ ہوتا تو میں کرتا، حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا کہ حضرت عائشہ (رض) نے یہ بات ضرور رسول اللہ ﷺ سے سنی ہوگی کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ جو دو کونے حجر (یعنی حطیم) سے ملے ہوئے ہیں رسول اللہ ﷺ نے اس کا استلام چھوڑ دیا ہے اس لئے کہ یہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بنیادوں پر پورا نہیں بنا ہوا۔

【453】

کعبہ کی عمارت توڑنا اور اس کی تعمیر کے بیان میں

ابوطاہر، عبداللہ بن وہب مخرمہ، ہارون، بن سعید، ابن وہب، مخرمہ بن بکیر، سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) نبی ﷺ کی زوجہ مطہرہ سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ اگر تیری قوم نے جاہلیت کو یا فرمایا کہ کفر کو نیا نیا چھوڑا نہ ہوتا تو میں کعبہ کا خزانہ اللہ کے راستے میں خرچ کردیتا اور میں اس کا دروازہ زمین کے ساتھ بناتا اور حطیم کو کعبہ میں ملا دیتا۔

【454】

کعبہ کی عمارت توڑنا اور اس کی تعمیر کے بیان میں

محمد بن حاتم، ابن مہدی، سلیم بن حبان، سعید، ابن میناء، حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) فرماتے ہیں کہ مجھے میری خالہ حضرت عائشہ (رض) نے بیان کیا فرماتی ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا اے عائشہ ! اگر تیری قوم کے لوگوں نے شرک نیا نیا چھوڑا نہ ہوتا تو میں کعبہ کو گرا کر اسے زمین سے ملا دیتا اور اس کے دو دروازے بناتا ایک دروازہ مشرق کی طرف اور ایک دروازہ مغرب کی طرف اور حطیم کی طرف سے چھ ہاتھ جگہ کعبہ میں اور زیادہ کردیتا کیونکہ قریش نے جب کعبہ دوبارہ بنایا تھا تو اسے چھوٹا کردیا تھا۔

【455】

کعبہ کی عمارت توڑنا اور اس کی تعمیر کے بیان میں

ہناد بن سری، ابن ابی زائدہ، ابن ابی سلیمان، حضرت عطاء سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ یزید بن معاویہ (رض) کے زمانہ میں جس وقت کہ شام والوں نے مکہ والوں سے جنگ کی اور بیت اللہ جل گیا اور اس کے نتیجے میں جو ہونا تھا وہ ہوگیا تو حضرت ابن زبیر (رض) نے بیت اللہ کو اسی حال میں چھوڑ دیا تاکہ حج کے موسم میں لوگ آئیں حضرت ابن زبیر (رض) چاہتے تھے کہ وہ ان لوگوں کو شام والوں کے خلاف ابھاریں اور انہیں برانگیختہ کریں جب وہ لوگ واپس ہونے لگے تو حضرت زبیر نے فرمایا اے لوگو ! مجھے کعبۃ اللہ کے بارے میں مشورہ دو میں اسے توڑ کر دوبارہ بناوں یا اس کی مرمت وغیرہ کروا دوں حضرت ابن عباس (رض) فرمانے لگے کہ میری یہ رائے ہے کہ اس کا جو حصہ خراب ہوگیا اس کو درست کروا لیا جائے باقی بیت اللہ کو اسی طرح رہنے دیا جائے جس طرح کہ لوگوں کے زمانہ میں تھا اور انہی پتھروں کو باقی رہنے دو کہ جن پر لوگ اسلام لائے اور جن پر نبی ﷺ کو مبعوث کیا گیا تو حضرت ابن زبیر (رض) فرمانے لگے کہ اگر تم میں سے کسی کا گھر جل جائے تو وہ خوش نہیں ہوگا جب تک کہ اسے نیا نہ بنالے تو اپنے رب کے گھر کو کیوں نہ بنایا جائے ؟ میں تین مرتبہ استخارہ کروں گا پھر اس کام پر پختہ عزم کروں گا جب انہوں نے تین مرتبہ استخارہ کرلیا تو انہوں نے اسے توڑنے کا ارادہ کیا تو لوگوں کو خطرہ پیدا ہوا کہ جو آدمی سب سے پہلے بیت اللہ کو توڑنے کے لئے اس پر چڑھے گا تو اس پر آسمان سے کوئی چیز بلا نازل نہ ہوجائے تو ایک آدمی اس پر چڑھا اور اس نے اس میں سے ایک پتھر گرایا تو جب لوگوں نے اس پر دیکھا کہ کوئی تکلیف نہیں پہنچی تو سب لوگوں نے اسے مل کو توڑ ڈالا یہاں تک کہ اسے زمین کے برابر کردیا حضرت ابن زبیر (رض) نے چند ستون کھڑے کر کے اس پر پردے ڈال دئیے یہاں تک کہ اس کی دیواریں بلند ہوگئیں اور حضرت ابن زبیر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ اگر لوگوں نے کفر کو نیا نیا چھوڑا نہ ہوتا اور میرے پاس اس کی تعمیر کا خرچہ بھی نہیں ہے اگر میں دوبارہ بناتا تو حطیم میں سے پانچ ہاتھ جگہ بیت اللہ میں داخل کردیتا اور اس میں ایک دروازہ ایسا بناتا کہ جس سے لوگ باہر نکلیں حضرت ابن زبیر (رض) فرماتے ہیں کہ آج میرے پاس اس کا خرچہ بھی موجود ہے اور مجھے لوگوں کا ڈر بھی نہیں ہے راوی کہتے ہیں کہ حضرت ابن زبیر نے حطیم میں سے پانچ ہاتھ جگہ بیت اللہ میں زیادہ کردی یہاں تک کہ اس جگہ سے اس کی بنیاد ظاہر ہوئی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) والی بنیاد جسے لوگوں نے دیکھا حضرت ابن زبیرنے اس بنیاد پر دیوار کی تعمیر شروع کرادی اس طرح بیت اللہ لمبائی میں اٹھارہ ہاتھ ہوگیا جب اس میں زیادتی کی تو اس کا طول کم معلوم ہونے لگا پھر اس کے طول میں دس ہاتھ زیادتی کی اور اس کے دو دروازے بنائے کہ ایک دروازہ سے داخل ہوں اور دوسرے دروازے سے باہر نکلا جائے تو جب حضرت زبیر (رض) شہید کر دئیے گئے تو حجاج نے جواباً عبدالملک بن مروان کو اس کی خبر دی اور لکھا کہ حضرت ابن زبیر (رض) نے کعبۃ اللہ کی جو تعمیر کی ہے وہ ان بنیادوں کے مطابق ہے جنہیں مکہ کے ب اعتماد لوگوں نے دیکھا ہے تو عبدالملک نے جوابًا حجاج کو لکھا کہ ہمیں حضرت ابن زبیر (رض) کے رد وبدل سے کوئی غرض نہیں انہوں نے طول میں جو اضافہ کیا ہے اور حطیم سے جو زائد جگہ بیت اللہ میں داخل کی ہے اسے واپس نکال دو اور اسے پہلی طرح دوبارہ بنادو اور جو دروازہ انہوں نے کھولا ہے اسے بھی بند کردو پھر حجاج نے بیت اللہ کو گرا کر دوبارہ پہلے کی طرح اسے بنادیا۔

【456】

کعبہ کی عمارت توڑنا اور اس کی تعمیر کے بیان میں

محمد بن حاتم، محمد بن بکر، ابن جریج، عبداللہ بن عبیداللہ بن عمیر ولید، بن عطاء حارث، ابن عبداللہ بن ابی ربیعہ، عبداللہ بن عبیداللہ، (رض) فرماتے ہیں کہ حارث بن عبداللہ عبدالملک بن مروان کے دور خلافت میں ان کے پاس وفد لے کر گئے تو عبدالملک کہنے لگے کہ میرا خیال ہے کہ ابوخبیب یعنی ابن زبیر (رض) حضرت عائشہ (رض) سے سنے بغیر روایت کرتے ہیں حارث کہنے لگے کہ نہیں بلکہ میں نے خود حضرت عائشہ (رض) سے یہ حدیث سنی ہے عبدالملک کہنے لگا کہ تم نے جو سنا ہے اسے بیان کرو وہ کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تیری قوم کے لوگوں نے بیت اللہ کی بنیادوں کو کم کو دیا ہے اور اگر تیری قوم کے لوگوں نے شرک کو نیا نیا نہ چھوڑا ہوتا تو جتنا انہوں نے اس میں سے چھوڑ دیا ہے میں اسے دوبارہ بنا دیتا تو اگر میرے بعد تیری قوم اسے دوبارہ بنانے کا ارادہ کرے تو آو میں تمہیں دکھاؤں کہ انہوں نے اس کی تعمیر میں سے کیا چھوڑا ہے پھر آپ ﷺ نے حضرت عائشہ (رض) کو وہ جگہ دکھائی جو کہ تقربیا سات ہاتھ تھی یہ عبداللہ بن عبید کی حدیث ہے اور اس پر ولید بن عطاء نے یہ اضافہ کیا ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ میں بیت اللہ میں دو دروازے زمین کے ساتھ بنا دیتا ایک مشرق کی طرف اور ایک مغرب کی طرف اور کیا تم جانتی ہو کہ تمہاری قوم کے لوگوں نے اس کے دروازے کو بلند کیوں کردیا تھا ؟ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ نہیں آپ ﷺ نے فرمایا کہ تکبر اور غرور کی وجہ سے کہ بیت اللہ میں کوئی داخل نہ ہو سوائے ان لوگوں کے کہ جن کے لئے یہ چاہیں تو جب کوئی آدمی بیت اللہ میں داخل ہونے کو ارادہ کرتا تو وہ اسے بلاتے اور جب وہ داخل ہونے کے قرین ہوتا تو وہ اسے دھکا دیتے اور وہ گرپڑتا عبدالملک نے حارث سے کہا کیا تم نے یہ حدیث حضرت عائشہ (رض) سے خود سنی ہے ؟ انہوں نے کہا کہ ہاں ! راوی کہتے ہیں کہ عبدالملک کچھ دیر اپنی لاٹھی سے زمین کریدتا رہا اور کہنے لگا کہ کاش کہ میں نے اس کی تعمیر کو اسی حال پر چھوڑ دیا ہوتا۔

【457】

کعبہ کی عمارت توڑنا اور اس کی تعمیر کے بیان میں

محمد بن عمرو بن حبلہ، ابوعاصم، عبد بن حمید، عبدالرزاق، حضرت ابن جریج سے اس سند کے ساتھ ابن بکر کی حدیث کی طرح روایت نقل کی گئی ہے۔

【458】

کعبہ کی عمارت توڑنا اور اس کی تعمیر کے بیان میں

محمد بن حاتم، عبداللہ بن بکر، حاتم بن ابی صغیرہ، ابوقزعہ سے روایت ہے کہ عبدالملک بن مروان بیت اللہ کے طواف کے دوران کہہ رہا تھا کہ اللہ ابن زبیر (رض) کو ہلاک کر دے وہ ام المومنین پر جھوٹ کہتا تھا اور کہتا ہے کہ میں نے ان سے سنا وہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے عائشہ ! اگر تیری قوم کے لوگوں نے نیانیا کفر چھوڑا نہ ہوتا تو میں بیت اللہ کو توڑ کر حطیم والے حصہ کو اس میں شامل کردیتا کیونکہ تیری قوم کے لوگوں نے بیت اللہ کی تعمیر کو کم کردیا ہے حارث بن عبداللہ کہتے ہیں اے امیرالمومنین ! آپ ایسے نہ کہیں کیونکہ میں نے ام المومنین (رض) سے یہ حدیث خود سنی ہے عبدالملک نے کہا کہ اگر میں یہ بات بیت اللہ کو گرانے سے پہلے سن لیتا تو میں حضرت ابن زبیر والی تعمیر کو قائم رہنے دیتا۔

【459】

کعبہ کی دیوار اور اس کے دروازے کے بیان میں

سعید بن منصور، ابواحوص، اشعث بن ابی شعثاء، اسود بن یزید، سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے حطیم کی دیوار کے بارے میں پوچھا کہ کیا وہ بیت اللہ میں شامل ہے یا نہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں میں نے عرض کیا کہ پھر اسے بیت اللہ میں داخل کیوں نہیں کیا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہاری قوم کے لوگوں کے پاس اس کا خرچہ کم ہوگیا تھا میں نے عرض کیا کہ اس کا دروازہ بلند کیوں ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہاری قوم کے لوگوں نے اس طرح کیا ہے تاکہ جسے چاہیں داخل کریں اور جسے چاہیں روک دیں اور اگر تمہاری قوم کے لوگوں نے نیا نیا کفر نہ چھوڑا ہوتا اور مجھے یہ ڈر نہ ہوتا کہ یہ انہیں ناگوار لگے گا تو میں حطیم کی دیواروں کو بیت اللہ میں داخل کردیتا اور اس کے دروازے کو زمین کے ساتھ ملا دیتا۔

【460】

کعبہ کی دیوار اور اس کے دروازے کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، عبیداللہ، ابن موسیٰ شیبان، اشعث بن ابی شعثاء، اسود بن یزید، سیدہ عائشہ (رض) سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے حطیم کے بارے میں پوچھا آگے حدیث اسی طرح ہے اور اس میں ہے کہ بیت اللہ کا دروازہ اتنا بلند کیوں ہے کہ سوائے سیڑھی کے اس کی طرف نہیں چڑھا جاسکتا فرمایا کہ ان کے دلوں میں نفرت پیدا ہونے کا ڈر ہے۔

【461】

عاجز اور بوڑھا وغیرہ یا میت کی طرف سے حج کرنے کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، مالک، ابن شہاب، سلیمان بن یسار، ابن عباس (رض) سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ حضرت فضل بن عباس (رض) رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سوار تھے کہ ایک عورت آئی جو قبیلہ خثعم سے تھی اس نے آپ ﷺ سے مسئلہ پوچھا تو حضرت فضل (رض) کی طرف دیکھنے لگی تو رسول اللہ ﷺ نے فضل (رض) کا چہرہ دوسری طرف پھیر دیا وہ عورت عرض کرتی ہے اے اللہ کے رسول ! اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر حج فرض کیا ہے میرا باپ تو بہت بوڑھا ہے وہ طاقت نہیں رکھتا کہ سواری پر بیٹھ سکے تو کیا میں اس کی طرف سے حج کرسکتی ہوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں اور یہ حجہ الوداع کا واقعہ ہے۔

【462】

عاجز اور بوڑھا وغیرہ یا میت کی طرف سے حج کرنے کے بیان میں

علی بن خشرم، عیسی، ابن جریج، حضرت فضل (رض) سے روایت ہے کہ قبیلہ خثعم کی ایک عورت عرض کرتی ہے اے اللہ کے رسول ﷺ ! میرا باپ بوڑھا ہے ان پر اللہ نے حج فرض کردیا ہے اور وہ اپنے اونٹ کی پشت پر بیٹھنے کی طاقت نہیں رکھتے تو نبی ﷺ نے فرمایا کہ تو ان کی طرف سے حج کرلے۔

【463】

بچے کے حج کے صحیح ہونے کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، زہیر بن حرب، ابن ابی عمر، ابن عیینہ، ابوبکر، سفیان بن عیینہ، ابراہیم بن عقبہ، کریب، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ سے روحاء کے مقام پر کچھ سواروں نے ملاقات کی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم کونسی قوم ہو ؟ وہ کہنے لگے مسلمان تو ان لوگوں نے کہا کہ آپ ﷺ کون ہیں آپ ﷺ نے فرمایا اللہ کا رسول ﷺ تو ان میں سے ایک عورت نے اپنے بچے کو اٹھا کر عرض کیا کہ کیا اس کا بھی حج ہوجائے گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اور تجھے بھی اجر ملے گا۔

【464】

بچے کے حج کے صحیح ہونے کے بیان میں

ابوکریب، محمد بن علاء، ابواسامہ، سفیان، محمد بن عقبہ، کریب، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے فرمایا کہ ایک عورت نے اپنے بچے کو اٹھا کر عرض کیا اے اللہ کے رسول ! کیا اس کا حج ہوجائے گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں اور تجھے بھی اس کا اجر ملے گا۔

【465】

بچے کے حج کے صحیح ہونے کے بیان میں

محمد بن مثنی، عبدالرحمن، بن سفیان، ابراہیم، بن عقبہ، حضرت کریب (رض) سے روایت ہے کہ ایک عورت نے بچے کو اٹھا کر عرض کیا اے اللہ کے رسول کیا اس کا حج ہوجائے گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں اور تجھے بھی اجر ملے گا۔

【466】

بچے کے حج کے صحیح ہونے کے بیان میں

محمد بن مثنی، عبدالرحمن، سفیان، محمد بن عقبہ، کریب، ابن عباس اس سند کے ساتھ حضرت ابن عباس (رض) سے اسی حدیث کی طرح روایت نقل کی گئی ہے۔

【467】

اس بات کے بیان میں کہ عمر میں ایک مرتبہ حج فرض کیا گیا ہے۔

زہیر بن حرب، یزید بن ہارون، ربیع بن مسلم، محمد بن زیاد، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا اے لوگو ! تم پر حج فرض کیا گیا ہے پس تم حج کرو تو ایک آدمی نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! کیا ہر سال حج فرض کیا گیا ہے تو آپ ﷺ خاموش رہے یہاں تک کہ اس نے آپ ﷺ نے تین مرتبہ عرض کیا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر میں کہتا ہاں تو ہر سال حج واجب ہوجاتا اور تم اس کی طاقت نہ رکھتے پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ جن باتوں کو میں چھوڑ دیا کروں تم ان کے بارے میں مجھ سے نہ پوچھا کرو کیونکہ تم سے پہلے لوگ کثرت سوال کی وجہ سے ہلاک ہوئے اور وہ اپنے نبیوں سے اختلاف کرتے تھے جب میں تمہیں کسی چیز کا حکم کروں تو حسب استطاعت تم اسے اپنا لو اور جب تمہیں کسی چیز سے روک دوں تو تم اسے چھوڑ دو ۔

【468】

عورت کو محرم کے ساتھ حج وغیرہ کا سفر کرنے کے بیان میں

زہیر بن حرب، محمد بن مثنی، یحیی، قطان، عبیداللہ، نافع، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کوئی عورت تین دن سفر نہ کرے سوائے اس کے کہ اس کے ساتھ محرم ہو یعنی محرم کے بغیر عورت کو سفر کرنے سے منع فرما دیا گیا۔

【469】

عورت کو محرم کے ساتھ حج وغیرہ کا سفر کرنے کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، عبداللہ بن نمیر، ابواسامہ، ابن نمیر، عبیداللہ نے اپنے باپ سے اس طرح روایت نقل کی ہے اس روایت میں بھی یہی ہے کہ عورت تین دن کا سفر محرم کے بغیر نہ کرے۔

【470】

عورت کو محرم کے ساتھ حج وغیرہ کا سفر کرنے کے بیان میں

محمد بن رافع، ابن ابی فدیک، ضحاک، نافع، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کسی عورت کے لئے جو کہ اللہ عزوجل پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو حلال نہیں کہ وہ تین راتوں کی مسافت سفر کرے مگر یہ کہ اس کے ساتھ محرم ہو۔

【471】

عورت کو محرم کے ساتھ حج وغیرہ کا سفر کرنے کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، عثمان بن ابی شیبہ، جریر، قتیبہ، جریر، عبدالملک، ابن عمیر، حضرت قزعہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوسعید خدری (رض) سے ایک حدیث سنی جو کہ مجھے بہت اچھی لگی چناچہ میں نے ان سے کہا کہ کیا یہ حدیث رسول اللہ ﷺ سے آپ نے خود سنی ہے ؟ انہوں نے کہا کہ میں رسول اللہ ﷺ پر پس پردہ وہ بات کیسے کہہ سکتا ہوں جس کو میں نے آپ ﷺ سے نہ سنا ہو راوی کہتے ہیں کہ میں نے ان سے سنا وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم سامان سفر نہ باندھو سوائے تین مسجدوں کی طرف میری یہ مسجد (مسجد نبوی) مسجد حرام، مسجد اقصی اور میں نے آپ ﷺ سے یہ بھی سنا ہے آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ کوئی عورت دو دن کا سفر نہ کرے سوائے اس کے کہ اس کا کوئی محرم یا اس کا خاوند اس کے ساتھ ہو۔

【472】

عورت کو محرم کے ساتھ حج وغیرہ کا سفر کرنے کے بیان میں

محمد بن مثنی، محمد بن جعفر، شعبہ، عبدالملک، بن عمیر، حضرت ابوسعید خدری (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے چار باتیں سنی ہیں جو مجھے بڑی اچھی لگیں ان میں سے ایک یہ کہ آپ ﷺ نے عورت کو دو دن کی مسافت کا سفر کرنے سے منع فرمایا ہے سوائے اس کے کہ اس کا خاوند یا اس کا محرم اس کے ساتھ ہو۔

【473】

عورت کو محرم کے ساتھ حج وغیرہ کا سفر کرنے کے بیان میں

عثمان بن ابی شیبہ، جریر، مغیرہ، ابراہیم، سہم بن منجاب، حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کوئی عورت تین دن کا سفر نہ کرے مگر یہ کہ محرم اس کے ساتھ ہو۔

【474】

عورت کو محرم کے ساتھ حج وغیرہ کا سفر کرنے کے بیان میں

ابوغسان، محمد بن بشار، معاذ بن ہشام، ابوغسان، حضرت ابوسعیدخدری (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کوئی عورت تین راتوں سے اوپر سفر نہ کرے مگر یہ کہ محرم اس کے ساتھ ہو۔

【475】

عورت کو محرم کے ساتھ حج وغیرہ کا سفر کرنے کے بیان میں

ابن مثنی، ابن ابی عدی، سعید، قتادہ اس سند کے ساتھ حضرت قتادہ (رض) سے روایت ہے کہ فرمایا کہ کوئی عورت تین دن سے زیادہ سفر نہ کرے مگر یہ کہ محرم اس کے ساتھ ہو۔

【476】

عورت کو محرم کے ساتھ حج وغیرہ کا سفر کرنے کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، لیث، سعید بن ابی سعید، حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کسی مسلمان عورت کے لئے ایک رات کی مسافت سفر کرنا بھی حلال نہیں سوائے اس کے کہ ایک آدمی اس کے ساتھ ہو اور وہ بھی محرم۔

【477】

عورت کو محرم کے ساتھ حج وغیرہ کا سفر کرنے کے بیان میں

زہیر بن حرب، یحییٰ بن سعید، ابی ذئب، سعید بن ابی سعید، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا کسی عورت کے لئے جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو حلال نہیں کہ وہ ایک دن کی مسافت سفر کرے سوائے اس کے کہ محرم اس کے ساتھ ہو۔

【478】

عورت کو محرم کے ساتھ حج وغیرہ کا سفر کرنے کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، مالک، سعید، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کسی عورت کے لئے جو کہ اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو حلال نہیں کہ وہ ایک دن اور ایک رات کی مسافت سفر کرے مگر یہ کہ محرم اس کے ساتھ ہو۔

【479】

عورت کو محرم کے ساتھ حج وغیرہ کا سفر کرنے کے بیان میں

ابوکامل، بشر، ابن مفضل، سہیل بن ابی صالح، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کسی عورت کے لئے جو کہ اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو حلال نہیں کہ وہ ایک دن اور ایک رات کی مسافت سفر کرے مگر یہ کہ محرم اس کے ساتھ ہو۔

【480】

عورت کو محرم کے ساتھ حج وغیرہ کا سفر کرنے کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب، ابی معاویہ، ابوکریب، ابومعاویہ، اعمش، ابوصالح، حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کسی عورت کے لئے جو کہ اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہوں حلال نہیں کہ وہ تین دن یا اس سے زیادہ سفر کرے مگر یہ کہ اس کا باپ یا اس کا بیٹا یا اس کا خاوند یا اس کا بھائی یا اس کا کوئی محرم اس کے ساتھ ہو۔

【481】

عورت کو محرم کے ساتھ حج وغیرہ کا سفر کرنے کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، زہیر بن حرب، سفیان، ابوبکر، سفیان بن عیینہ، عمرو بن دینار، ابی معبد، حضرت اعمش (رض) اس سند کے ساتھ اسی طرح روایت نقل کی گئی ہے۔

【482】

عورت کو محرم کے ساتھ حج وغیرہ کا سفر کرنے کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شبیہ، زہیر بن حرب، حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ سے سنا کہ آپ ﷺ خطبہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ کوئی آدمی کسی عورت کے ساتھ تنہائی میں نہ رہے سوائے اس کے کہ اس کا محرم اس کے ساتھ ہو اور نہ کوئی عورت سفر کرے سوائے اس کے کہ اس کا محرم اس کے ساتھ ہو۔ ایک آدمی کھڑا ہوا اس نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! میری بیوی حج کے لئے نکلی ہے اور میرا نام فلاں فلاں غزوہ میں لکھ دیا گیا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تو جا اور اپنی بیوی کے ساتھ حج کر۔

【483】

عورت کو محرم کے ساتھ حج وغیرہ کا سفر کرنے کے بیان میں

ابوربیع، حماد، عمرو، حضرت عمرو اس سند کے ساتھ اسی طرح روایت نقل کی گئی ہے۔

【484】

عورت کو محرم کے ساتھ حج وغیرہ کا سفر کرنے کے بیان میں

ابن ابی عمر، ہشام، ابن سلیمان، ابن جریج، حضرت ابن جریج سے اسی سند کے ساتھ اسی طرح روایت نقل کی گئی ہے اور یہ ذکر نہیں کیا کہ کوئی آدمی کسی عورت کے ساتھ تنہائی میں نہ رہے مگر یہ کہ اس کا محرم اس کے ساتھ ہو۔

【485】

سفر حج وغیرہ کے موقع پر ذکر کے نے کے استح کے بیان میں

ہارون بن عبداللہ، حجاج بن محمد، ابن جریج، ابوزبیر، حضرت ابن عمر (رض) خبر دیتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب بھی اپنے اونٹ پر سوار ہو کر کسی سفر کے لئے نکلتے تو تین مرتبہ اَللَّهُ أَکْبَرُ کہتے پھر فرماتے ( سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا کُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ وَإِنَّا إِلَی رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ ) (الزخرف) ترجمہ : پاک ہے وہ ذات کہ جس نے ہمارے لئے اسے مسخر فرما دیا اور ہم اسے مسخر کرنے والے نہ تھے اور ہم اپنے پروردگار کی طرف پلٹ کر جانے والے ہیں، (پھر یہ دعا مانگے) اے اللہ ! ہم اس سفر میں تجھ سے نیکی اور تقویٰ کا اور ان اعمال کا سوال کرتے ہیں کہ جن سے تو راضی ہوتا ہے اے اللہ ! ہمارے اس سفر کو ہم پر آسان فرما اور اس کی مسافت کو تہہ فرما دے، اے اللہ ! تو ہی اس سفر میں ہمارا رفیق ہے اور گھر والوں کا نگہبان ہے اے اللہ ! میں سفر کی تکلیفوں اور رنج وغم سے اور اپنے مال اور گھر والوں کے برے انجام سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور جب آپ ﷺ سفر سے واپس آتے تو یہی دعا پڑھتے اور ان میں ان کلمات کا اضافہ فرماتے ہم واپس آنے والے ہیں توبہ کرنے والے ہیں عبادت کرنے والے ہیں اور اپنے رب کی حمد کرنے والے ہیں۔

【486】

سفر حج وغیرہ کے موقع پر ذکر کے نے کے استح کے بیان میں

زہیر بن حرب، اسماعیل بن علیہ، عاصم، حضرت عبداللہ بن سرجس (رض) سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی سفر پر جاتے تھے تو سفر کی تکلیفوں اور بری چیزوں کے دیکھنے اور برے انجام اور آرام کے بعد تکلیف اور مظلوم کی بد دعا اور اہل اور مال میں برے انجام سے اللہ کی پناہ مانگتے تھے۔

【487】

سفر حج وغیرہ کے موقع پر ذکر کے نے کے استح کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، زہیر بن حرب، ابومعاویہ، حامد بن عمر، عبدالواحد، حضرت عاصم (رض) سے اس سند کے ساتھ اسی طرح روایت نقل کی گئی ہے صرف لفظی فرق ہے۔

【488】

اس بات کے بیان میں کہ جب حج وغیرہ کے سفر سے واپس لوٹا جائے تو کیا دعائیں پڑھے

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابواسامہ، عبیداللہ، نافع، ابن عمر، عبیداللہ بن سعید، یحیی، قطان، عبیداللہ، نافع، حضرت عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب بھی کسی لشکر یا جہاد یا حج یا عمرہ سے واپس لوٹتے تو کسی ٹیلے پر یا کسی ہموار میدان میں آتے تو تین مرتبہ اَللَّهُ أَکْبَرُ کہتے پھر فرماتے (لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيکَ لَهُ لَهُ الْمُلْکُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَی کُلِّ شَيْئٍ قَدِيرٌ آيِبُونَ تَائِبُونَ ) یعنی اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور کوئی شریک نہیں اسی کے لئے سلطنت اور اسی کے لئے تعریف ہے وہ سب کچھ کرسکتا ہے ہم لوٹنے والے رجوع کرنے والے سجدہ کرنے والے اپنے رب کی خاص حمد کرنے والے ہیں سچ کیا اپنے وعدہ کو اللہ نے اپنے بندے کی مدد کی اور اسی اکیلے نے تمام لشکروں کو شکست دی۔

【489】

اس بات کے بیان میں کہ جب حج وغیرہ کے سفر سے واپس لوٹا جائے تو کیا دعائیں پڑھے

زہیر بن حرب، اسماعیل، ابن علیۃ، ایوب، ابن ابی عمر، معن، مالک، ابن رافع، حضرت ابن عمر (رض) نے نبی ﷺ سے اسی طرح حدیث روایت کی ہے سوائے ایوب کی حدیث کے کہ اس میں دو مرتبہ تکبیر ہے۔

【490】

اس بات کے بیان میں کہ جب حج وغیرہ کے سفر سے واپس لوٹا جائے تو کیا دعائیں پڑھے

زہیر بن حرب، اسماعیل بن علیۃ، یحییٰ بن ابی اسحاق، حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ میں اور حضرت ابوطلحہ (رض) نبی ﷺ کے ساتھ واپس آرہے تھے اور حضرت صفیہ (رض) آپ ﷺ کے پیچھے آپ ﷺ کی اونٹنی پر سوار تھیں یہاں تک کہ جب ہم مدینہ کے قریب پہنچے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہم لوٹ کر آنے والے ہیں توبہ کرنے والے ہیں اور اپنے پروردگار کی عبادت کرنے والے ہیں حمد بیان کرنے والے ہیں یہاں تک کہ آپ ﷺ یہی کلمات فرماتے ہوئے مدینہ منورہ میں داخل ہوگئے۔

【491】

اس بات کے بیان میں کہ جب حج وغیرہ کے سفر سے واپس لوٹا جائے تو کیا دعائیں پڑھے

حمید بن مسعدہ بشر بن مفضل، یحییٰ بن ابی اسحاق، حضرت انس بن مالک (رض) نے نبی سے اسی حدیث کی طرح روایت نقل کی ہے۔

【492】

حج اور عمرہ وغیرہ کی غرض سے گزرنے والوں کے لئے ذی الخلیفہ میں نماز پڑھنے کے استح کے بیان میں

یحییٰ بن یحییٰ مالک، نافع، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ذی الحلیفہ کی وادی میں اپنا اونٹ بٹھایا اور اس کے ساتھ نماز پڑھی راوی نافع کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر (رض) بھی اسی طرح کیا کرتے تھے۔

【493】

حج اور عمرہ وغیرہ کی غرض سے گزرنے والوں کے لئے ذی الخلیفہ میں نماز پڑھنے کے استح کے بیان میں

محمد بن رمح بن مہاجر، لیث، قتیبہ، لیث، نافع، ابن عمر (رض) سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر (رض) ذی الخلیفہ کی وادی میں اپنا اونٹ بٹھاتے تھے جس طرح کہ رسول اللہ ﷺ اپنا اونٹ بٹھاتے تھے اور اس کے ساتھ نماز پڑھتے تھے۔

【494】

حج اور عمرہ وغیرہ کی غرض سے گزرنے والوں کے لئے ذی الخلیفہ میں نماز پڑھنے کے استح کے بیان میں

محمد بن اسحاق، انس یعنی ابوضمرہ، موسی، ابن عقبہ، نافع، ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ (رض) جب حج یا عمرہ سے واپسی پر ذی الحلیفہ کے وادی میں اپنا اونٹ بٹھاتے تھے اسی جگہ جس جگہ رسول اللہ ﷺ اپنا اونٹ بٹھاتے تھے۔

【495】

حج اور عمرہ وغیرہ کی غرض سے گزرنے والوں کے لئے ذی الخلیفہ میں نماز پڑھنے کے استح کے بیان میں

محمد بن عباد، حاتم، ابن اسماعیل، موسی، ابن عقبہ، حضرت سالم (رض) اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ذی الحلیفہ میں رات کے آخری حصہ میں پہنچے تو آپ ﷺ سے عرض کیا گیا کہ یہ بطحاء مبارکہ ہے۔

【496】

حج اور عمرہ وغیرہ کی غرض سے گزرنے والوں کے لئے ذی الخلیفہ میں نماز پڑھنے کے استح کے بیان میں

محمد بن بکار بن ریان، سریج بن یونس، اسماعیل، بن جعفر، موسیٰ بن عقبہ، حضرت سالم بن عبداللہ بن عمرہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ کے پاس ایک فرشتہ آیا اس حال میں کہ آپ ﷺ ذی الحلیفہ کی وادی میں رات کے آخری حصہ میں پہنچے ہوئے تھے آپ ﷺ سے کہا گیا کہ آپ ﷺ بطحاء مبارکہ میں ہیں موسیٰ راوی کہتے ہیں کہ سالم نے ہمارے ساتھ مسجد کے قریب اس جگہ اونٹ بٹھایا جس جگہ حضرت عبداللہ (رض) اونٹ بٹھاتے تھے اور اس جگہ کو تلاش کرتے تھے کہ جس جگہ رسول اللہ ﷺ رات کے آخری حصہ میں اترتے تھے اور وہ جگہ اس مسجد کی جگہ سے نیچی ہے جو کہ بطن وادی میں ہے اور وہ جگہ مسجد اور قبلہ کے درمیان میں ہے۔

【497】

اس بات کے بیان میں کہ مشرک نہ تو بیت اللہ کا حج کرے اور نہ ہی بیت اللہ کا کوئی برہنہ ہو کر طواف کرے اور حج اکبر کے دن کے بیان میں

ہارون بن سعید، ابن وہب، عمرو ابن شہاب، حمید بن عبدالرحمن، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے فرمایا کہ مجھے حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے بھیجا اس حج میں کہ جس پر حضرت ابوبکر (رض) کو رسول اللہ ﷺ نے امیر بنا کر بھیجا یہ کہ حجہ الوداع سے پہلے قربانی کے دن لوگوں کی ایک جماعت کے ساتھ یہ اعلان کرانے کے لئے کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے اور نہ ہی کوئی برہنہ (ننگا) بیت اللہ کا طواف کرے ابن شہاب کہتے ہیں کہ حمید بن عبدالرحمن حضرت ابوہریرہ (رض) کی حدیث کی وجہ سے کہتے تھے کہ قربانی کا دن ہی حج اکبر کا دن ہے۔

【498】

عرفہ کے دن کی فضیلت کے بیان میں

ہارون بن سعید، احمد بن عیسی، ابن وہب، مخرمہ بن بکیر، یونس بن یوسف، حضرت ابن مسیب (رض) سے روایت ہے فرمایا کہ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ عرفہ کے دن سے زیادہ کسی دن اپنے بندوں کو دوزخ سے آزاد نہیں کرتا اور اللہ اپنے بندوں کے قریب ہوتا ہے پھر فرشتوں کے سامنے اپنے بندوں پر فخر فرماتے ہوئے فرماتا ہے کہ یہ سارے بندے کس ارادہ سے آئے ہیں ؟

【499】

حج اور عمرہ کے فضیلت کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، مالک، ابی بکر بن عبدالرحمن، ابی صالح، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ایک عمرہ کے بعد دوسرا عمرہ درمیانی گناہوں کا کفارہ ہے اور حج مبرور یعنی نیکیوں والے حج کا بدلہ تو صرف جنت ہے۔

【500】

حج اور عمرہ کے فضیلت کے بیان میں

سعید بن منصور، ابوبکر بن ابی شیبہ، عمرو ناقد، زہیر بن حرب، سفیان، بن عیینہ، محمد بن عبدالملک، عبدالعزیز، بن مختار، سہیل، ابن نمیر، عبیداللہ، ابوکریب، وکیع، محمد بن مثنی، عبدالرحمن، سفیان، اس سند کے ساتھ حضرت ابوہریرہ (رض) سے مالک بن انس (رض) کی حدیث کی طرح نقل فرمایا۔

【501】

حج اور عمرہ کے فضیلت کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، زہیر بن حرب، یحیی، زہیر، جریر، منصور، حازم، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو آدمی بیت اللہ آئے اور پھر نہ تو وہ بےہودہ گفتگو کرے اور نہ ہی وہ گناہ کے کام کرے تو وہ بیت اللہ سے واپس اس حال میں لوٹے گا جیسا کہ وہ اپنی ماں کے پیٹ سے ابھی پیدا ہوا ہے۔

【502】

حج اور عمرہ کے فضیلت کے بیان میں

سعید بن منصور، ابی عوانہ، ابی احوص، ابوبکر بن ابی شبیہ، وکیع، مسعر، سفیان، ابن مثنی، حضرت منصور (رض) سے اس سند کے ساتھ اسی طرح روایت منقول ہے اور ان ساری حدیثوں میں ہے کہ جس آدمی نے حج کیا اور پھر نہ تو کوئی بیہودہ باتیں کیں اور نہ ہی کوئی گناہ کا کام کیا۔

【503】

حج اور عمرہ کے فضیلت کے بیان میں

سعید بن منصور، ہشیم، سیار، ابی حازم، ابوہریرہ اس سند کے ساتھ حضرت ابوہریرہ (رض) نے نبی کریم ﷺ سے اسی حدیث کی طرح روایت نقل فرمائی۔

【504】

حجاج کا مکہ میں اتر نے اور مکہ کے گھروں کی وراثت کے بیان میں

ابوطاہر، حرملہ بن یحیی، ابن وہب، یونس بن یزید، ابن شہاب، علی بن حسین، عمرو بن عثمان، حضرت اسامہ بن زید بن حارثہ سے روایت ہے انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! کیا آپ ﷺ مکہ میں اپنے گھر میں اتریں گے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کیا عقیل نے ہمارے لئے مکہ میں کوئی زمین یا کوئی گھر چھوڑا ہے ؟ عقیل اور طالب، ابوطالب کے وارث تھے اور حضرت جعفر (رض) اور حضرت علی (رض) کو ان کے ترکہ میں سے کچھ نہیں ملا تھا کیونکہ یہ دونوں مسلمان تھے اور عقیل اور طالب کافر تھے۔

【505】

حجاج کا مکہ میں اتر نے اور مکہ کے گھروں کی وراثت کے بیان میں

محمد بن مہران، ابن ابی عمر، عبد بن حمید، عبدالرزاق، ابن مہران، عبدالرزاق، معمر، زہری، علی بن حسین، عمر بن عثمان، حضرت اسامہ بن زید (رض) سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ ! کل ہم کہاں اتریں گے ؟ اور جس وقت کہ ہم اپنے حج کے سلسلہ میں مکہ کے قریب تھے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کیا ہمارے لئے عقیل نے کوئی گھر چھوڑا ہے ؟

【506】

حجاج کا مکہ میں اتر نے اور مکہ کے گھروں کی وراثت کے بیان میں

محمد بن حاتم، روح بن عبادہ، محمد بن ابی حفصہ، رمعہ، بن صالح، ابن شہاب، علی بن حسین، عمرو بن عثمان، حضرت اسامہ بن زید (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ ! اگر اللہ نے چاہا تو کل آپ ﷺ کہاں اتریں گے ؟ اور یہ فتح مکہ کا زمانہ تھا آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کیا عقیل نے ہمارے لئے کوئی گھر چھوڑا ہے ؟

【507】

مہاجر کے مکہ مکرمہ میں قیام کرنے کے بیان میں

عبداللہ بن مسلمہ بن قعنب، سلیمان یعنی ابن بلال، حضرت عبدالرحمن بن حمید (رض) سے روایت ہے انہوں نے حضرت عمر بن عبدالعزیز سے سنا وہ سائب بن یزید سے پوچھتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ کیا تو نے مکہ میں قیام کرنے کے بارے میں کچھ سنا ہے ؟ حضرت سائب کہنے لگے کہ میں نے حضرت علاء بن حضرمی (رض) سے سنا ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ سے سنا آپ ﷺ مہاجر کے لئے فرماتے ہیں کہ وہ منیٰ سے واپسی کے بعد مکہ میں تین دن تک قیام کرسکتا ہے گویا کہ آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ وہ اس سے زیادہ نہ کرے۔

【508】

مہاجر کے مکہ مکرمہ میں قیام کرنے کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، سفیان بن عیینہ، عبدالرحمن، ابن حمید، عمر بن عبدالعزیز، حضرت عبدالرحمن بن حمید (رض) سے روایت ہے فرمایا کہ میں نے حضرت عمر بن عبدالعزیز سے سنا وہ اپنے ہم نشینوں سے فرماتے ہیں کہ تم نے مکہ میں قیام کے بارے میں کیا سنا ہے ؟ حضرت سائب بن یزید (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت علاء یا فرمایا کہ حضرت علاء بن حضرمی (رض) سے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مہاجر مناسک حج کی ادائیگی کے بعد مکہ میں تین دن قیام کرسکتا ہے۔

【509】

مہاجر کے مکہ مکرمہ میں قیام کرنے کے بیان میں

حسن، عبد بن حمید، یعقوب، بن ابراہیم، ابن سعد، صالح، عبدالرحمن، بن حمید، عمر بن عبدالعزیز، حضرت علاء بن حضرمی (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ منٰی سے واپسی کے بعد مہاجر تین رات تک مکہ مکرمہ میں ٹھہر سکتا ہے۔

【510】

مہاجر کے مکہ مکرمہ میں قیام کرنے کے بیان میں

اسحاق بن ابراہیم، عبدالرزاق، حضرت علاء بن حضرمی (رض) خبر دیتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مناسک حج کی ادائیگی کے بعد مہاجر مکہ میں تین دن تک ٹھہر سکتا ہے۔

【511】

مہاجر کے مکہ مکرمہ میں قیام کرنے کے بیان میں

حجاج بن شاعر، ضحاک بن مخلد، حضرت ابن جریج (رض) سے اس سند کے ساتھ اسی طرح حدیث منقول ہے۔

【512】

مکہ مکرمہ میں شکار کی حرمت کا بیان

اسحاق بن ابراہیم، جریر، منصور، مجاہد، طاؤس، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے۔ فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے دن مکہ فتح ہوا تو فرمایا کہ ہجرت نہیں لیکن جہاد اور نیت ہے اور جب تمہیں (جہاد کے لئے) بلایا جائے تو جاؤ اور آپ ﷺ نے فتح مکہ کے دن مکہ فتح ہوا تو فرمایا کہ اس شہر کو اللہ نے آسمان و زمین کی پیدائش کے دن حرم قرار دیا تھا تو یہ اللہ کے حرم قرار دینے کی وجہ سے قیامت تک حرم رہے گا اور اس حرم میں میرے لئے بھی ایک دن میں تھوڑی دیر کے لئے قتال حلال ہوا تھا تو اب یہ اللہ کے حرم قرار دینے کی وجہ سے قیامت تک حرم رہے گا نہ اس کے کانٹے کاٹے جائیں اور نہ ہی اس کے شکار کو بھگایا جائے اور کوئی بھی یہاں گری پڑی چیز کو نہ اٹھائے سوائے اس کے کہ اسے اس کے مالک کو پہنچائی جائے اور نہ اس کی گھاس کاٹی جائے تو حضرت عباس (رض) نے عرض کیا اے اللہ کے رسول سوائے گھاس کے یعنی گھاس کو مستثنی قرار دے دیں کیونکہ یہ گھاس لوہاروں اور زرگروں (سنار) کے کام آتی ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا سوائے گھاس کے آپ ﷺ نے گھاس کو مستثنی فرما دیا کیونکہ یہ جلانے کے کام آتی ہے

【513】

مکہ مکرمہ میں شکار کی حرمت کا بیان

محمد بن رافع، یحییٰ بن آدم، مفضل، حضرت منصور (رض) سے اس سند کے ساتھ مذکورہ حدیث کی طرح روایت منقول ہے اور اس حدیث میں ( يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ ) کا ذکر نہیں اور اس کے علاوہ الفاظ کا رد وبدل ہے۔

【514】

مکہ مکرمہ میں شکار کی حرمت کا بیان

قتیبہ بن سعید، لیث، سعید بن ابی سعید، ابی شریح، عمرو بن سعید، حضرت ابوشریح عدوی (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت عمرو بن سعید (رض) سے کہا جس وقت کہ وہ مکہ کی طرف اپنی فوج بھیج رہے تھے اے امیر ! آپ مجھے اجازت دیں تو میں آپ کے سامنے وہ حدیث بیان کروں جسے یوم فتح کی صبح رسول اللہ ﷺ سے میرے کانوں نے سنا اور میرے دل نے اسے یاد رکھا اور میری آنکھوں نے دیکھا جس وقت کہ آپ ﷺ ارشاد فرما رہے تھے۔ آپ ﷺ نے اللہ کی حمدوثنا بیان فرمائی پھر فرمایا کہ مکہ کو اللہ نے حرم بنایا اور لوگوں نے اسے حرم نہیں بنایا تو ایسے آدمی کے لئے حلال نہیں جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو یہ کہ وہ مکہ میں خون بہائے اور نہ ہی وہ یہاں کے درخت کاٹے تو اگر کوئی اللہ اور رسول ﷺ کی جنگ کی وجہ سے حرم میں قتال جائز سمجھتا ہو تو تم اسے کہہ دو کہ اللہ نے رسول اللہ ﷺ کو اجازت دی تھی اور تمہارے لئے اجازت نہیں اور مجھے بھی صرف ایک دن کے کچھ وقت کے لئے اجازت ملی تھی اور آج پھر مکہ کی حرمت پہلے کی طرح لوٹ آئی ہے جس طرح کل تھی اور جو اس وقت یہاں موجود ہے وہ غائبین تک یہ بات پہنچا دے حضرت ابوشریح سے کہا گیا کہ عمرو نے تجھے کیا کہا تھا اس نے کہا کہ اے ابوشریح میں اس بارے میں تجھ سے زیادہ جانتا ہوں کہ حرم کسی نافرمان کو پناہ نہیں دیتا اور نہ ہی قتل اور چوری کر کے نکلنے والے کو بھاگنے دیتا ہے۔

【515】

مکہ مکرمہ میں شکار کی حرمت کا بیان

زہیر بن حرب، عبیداللہ بن سعید، ولید، زہیر، ولید بن مسلم، یحییٰ بن ابی کثیر، ابوسلمہ، ابن عبدالرحمن، حضرت ابوہریرہ (رض) بیان فرماتے ہیں کہ جب اللہ نے اپنے رسول (رض) پر مکہ کو فتح فرمایا تو آپ ﷺ لوگوں میں کھڑے ہوئے اور اللہ کی حمد وثنا بیان کی پھر فرمایا کہ اللہ نے مکہ سے ہاتھ والوں کو روکا تھا اور اللہ نے مکہ پر اپنے رسول ﷺ اور مومنوں کو غلبہ عطا فرمایا اور مجھ سے پہلے کسی کے لئے بھی مکہ حلال نہیں تھا اور میرے لئے بھی ایک دن کے کچھ وقت کے لئے حلال ہوا تھا اور اب میرے بعد بھی کسی کے لئے حلال نہیں ہوگا اس لئے یہاں سے شکار بھگایا نہ جائے اور نہ ہی یہاں کے کانٹے کاٹے جائیں اور نہ ہی یہاں کی گری ہوئی چیز کسی کے لئے حلال ہے سوائے اعلان کرنے والے کے یعنی گمشدہ چیز کو اٹھا کر اگر اس کا اعلان کرے اسے اس تک پہنچائے تو اس کے لئے حلال ہے اور جس آدمی کو کوئی قتل کر دے تو اس کے لواحقین کے لئے دو چیز میں سے ایک کا اختیار ہے یا اس کی دیت لے لے یا اسے قصاصاً قتل کر دے حضرت ابن عباس (رض) نے عرض کیا اے اللہ کے رسول گھاس کو مستثنی فرما دیں کیونکہ ہم اسے اپنی قبروں اور گھروں میں استعمال کرتے ہیں تو رسول اللہ ﷺ نے گھاس کو مستثنی فرما دیا (یعنی حرم کی حدود میں گھاس کاٹنے کی اجازت ہے) تو ابوشاہ کھڑا ہوا جو کہ یمن کا ایک آدمی تھا اس نے عرض کیا اے اللہ کے رسول مجھے یہ لکھوا دیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ابوشاہ کو لکھ دو ولید کہتے ہیں کہ میں نے اوزاعی سے کہا کہ ابوشاہ کے اس کہنے کا کیا مطلب ہے ؟ اے اللہ کے رسول مجھے لکھوا دیں انہوں نے کہا کہ وہ خطبہ کہ جو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا تھا۔

【516】

مکہ مکرمہ میں شکار کی حرمت کا بیان

اسحاق بن منصور، عبیداللہ بن موسی، شیبان، یحیی، ابوسلمہ، حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ بنو خزاعہ نے بنی لیث کا ایک آدمی قتل کیا ہوا تھا فتح مکہ کے دن بنی لیث نے اپنے مقتول کے بدلہ میں بنوخزاعہ کا ایک آدمی قتل کردیا تو اس کی خبر رسول اللہ ﷺ کو دی گئی تو آپ نے اپنی سواری پر سوار ہو کر خطبہ دیا اور فرمایا کہ اللہ نے مکہ سے ہاتھی والوں کو روکا تھا اور اللہ نے مکہ پر اپنے رسول اللہ ﷺ کو غلبہ عطا فرمایا تھا آگاہ رہو کہ مکہ مجھ سے پہلے بھی کسی کے لئے حلال نہیں تھا اور میرے بعد بھی کسی کے لئے حلال نہیں ہوگا اور میرے لئے بھی مکہ دن کے کچھ وقت کے لئے حلال ہوا تھا اور اب اس وقت کے لئے بھی حرام ہے مکہ کے کانٹے نہ کاٹے جائیں اور نہ مکہ کے درختوں کو کاٹا جائے اور نہ ہی یہاں کی گری ہوئی چیز کو اٹھایا جائے سوائے اعلان کرنے والے کے اعلان کے ذریعے اس کے مالک تک پہنچائے اور جس کا کوئی قتل کردیا جائے تو اسے دو چیزوں میں سے ایک کا اختیار ہے ایک یہ کہ یا تو اسے دیت دی جائے اور دوسرا یہ کہ یا پھر وہ قاتل سے قصاص لے گا راوی کہتے ہیں کہ پھر یمن کا ایک آدمی آیا جسے ابوشاہ کہا جاتا ہے اس نے عرض کیا اے اللہ کے رسول مجھے یہ خطبہ لکھوا دیں تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ابوشاہ کو لکھ دو تو قریش کے ایک آدمی نے عرض کیا اے اللہ کے رسول مکہ کی گھاس کو مستثنی فرما دیں کیونکہ گھاس کو ہم اپنے گھروں میں اور قبروں میں استعمال کرتے ہیں تو رسول اللہ ﷺ نے گھاس کو مستثنی فرما دیا۔

【517】

مکہ مکرمہ میں ضرورت کے بغیر اسلحہ اٹھانے کی ممانعت کے بیان میں

سلمہ بن شیب، ابن اعین، معقل، ابوزبیر، حضرت جابر (رض) سے روایت ہے فرمایا کہ میں نے نبی ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ تم میں سے کسی کے لئے حلال نہیں کہ مکہ مکرمہ میں اسلحہ اٹھائے۔

【518】

احرام کے بغیر مکہ مکرمہ میں داخل ہونے کے جواز کے بیان میں

عبداللہ بن مسلمہ، قعنبی، یحییٰ بن یحیی، قتیبہ بن سعید، قعنبی، مالک بن انس، حضرت یحییٰ فرماتے ہیں کہ میں نے امام مالک سے پوچھا کہ کیا آپ سے حضرت ابن شہاب نے حضرت انس (رض) بن مالک سے روایت کردہ یہ حدیث بیان کی ہے کہ نبی ﷺ فتح مکہ والے سال مکہ مکرمہ میں اس حال میں داخل ہوئے کہ آپ ﷺ کے سر پر خود تھا تو جب آپ ﷺ نے اسے اتارا تو ایک آدمی آیا اور اس نے عرض کیا کہ ابن خطل کعبہ کے پردے کو پکڑے ہوئے ہے تو آپ ﷺ نے کہا اسے قتل کردو مالک نے کہا ہاں مجھ سے ابن شہاب نے یہ حدیث بیان کی ہے۔

【519】

احرام کے بغیر مکہ مکرمہ میں داخل ہونے کے جواز کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، قتیبہ بن سعید، قتیبہ، معاویہ بن عمار، ابوزبیر، حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے اور قتیبہ نے کہا کہ آپ ﷺ فتح مکہ کے دن اس حال میں داخل ہوئے کہ آپ ﷺ کے سر پر سیاہ عمامہ تھا اور آپ ﷺ احرام کے بغیر تھے۔

【520】

احرام کے بغیر مکہ مکرمہ میں داخل ہونے کے جواز کے بیان میں

علی بن حکیم، شریک، عمار، ابوزبیر، حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ فتح مکہ کے دن مکہ مکرمہ میں اس حال میں داخل ہوئے کہ آپ ﷺ کے سر پر سیاہ عمامہ تھا۔

【521】

احرام کے بغیر مکہ مکرمہ میں داخل ہونے کے جواز کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، اسحاق بن ابراہیم، وکیع، مساور الوراق، حضرت جعفر بن عمر بن حریث اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو اس حال میں خطبہ دیا کہ آپ ﷺ کے سر پر سیاہ عمامہ تھا۔

【522】

احرام کے بغیر مکہ مکرمہ میں داخل ہونے کے جواز کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، حسن حلوانی، ابواسامہ، مساور، حضرت جعفر بن عمر بن حریث (رض) اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ گویا کہ میں اب بھی رسول اللہ ﷺ کو اس حال میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ ﷺ کے سر پر سیاہ عمامہ ہے اور اس عمامہ کے دونوں کنارے آپ ﷺ کے دونوں کندھوں کے درمیان لٹکے ہوئے ہیں اور ابوبکر نے منبر کا لفظ نہیں کہا۔

【523】

مدینہ منورہ کی فضیلت اور اس میں نبی کریم (رض) کی برکت کی دعا اور اس کی حدود حرم کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، عبدالعزیز، ابن محمد، عمرو بن یحیی، عباد بن تمیم، عبداللہ بن زید بن عاصم (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے مکہ کو حرم قرار دیا اور مکہ میں رہنے والوں کے لئے دعا فرمائی تھی اور میں مدینہ کو حرم قرار دیتا ہوں جیسا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے مکہ کو حرم قرار دیا تھا اور میں مدینہ کے صاع اور اس کے مد میں اس سے دوگنی برکت کی دعا کرتا ہوں جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے مکہ والوں کے لئے کی تھی۔

【524】

مدینہ منورہ کی فضیلت اور اس میں نبی کریم (رض) کی برکت کی دعا اور اس کی حدود حرم کے بیان میں

ابوکامل، عبدالعزیز، ابن مختار، ابوبکر بن ابی شبیہ، حضرت عمر بن یحییٰ سے ان سندوں سے اس طرح روایت نقل کی گئی ہے ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں ان دعاؤں سے دوگنا دعائیں کرتا ہوں جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دعائیں مانگیں تھیں۔

【525】

مدینہ منورہ کی فضیلت اور اس میں نبی کریم (رض) کی برکت کی دعا اور اس کی حدود حرم کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، بکر، ابن مضر، ابن ہاد، ابی بکر بن محمد، عبداللہ بن عمرو بن عثمان، حضرت رافع بن خدیج (رض) سے روایت ہے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے مکہ کو حرم قرار دیا اور میں اس کے دونوں پتھریلے کناروں والی جگہ یعنی مدینہ کو حرم قرار دیتا ہوں۔

【526】

مدینہ منورہ کی فضیلت اور اس میں نبی کریم (رض) کی برکت کی دعا اور اس کی حدود حرم کے بیان میں

عبداللہ بن مسلمہ بن قعنب، سلیمان بن بلال عتبہ، بن مسلم، حضرت نافع بن جبیر (رض) سے روایت ہے کہ مروان بن حکم نے لوگوں کو خطبہ دیتے ہوئے مکہ اور مکہ کے رہنے والوں اور مکہ کی حرمت کا تذکرہ کیا تو رافع بن خدیج (رض) نے مروان کو پکارا اور فرمایا کہ میں تجھ سے کیا سن رہا ہوں کہ تو مکہ اور مکہ والوں کا اور مکہ کی حرمت کا ذکر کر رہا ہے اور تو مدینہ اور مدینہ کے رہنے والوں اور مدینہ کی حرمت کا ذکر نہیں کر رہا رسول اللہ ﷺ نے اس پتھریلے علاقے کے دونوں کناروں کے درمیانی حصہ کو حرم قرار دیا ہے اور یہ حکم نامہ ہمارے پاس خولانی چمڑے پر لکھا ہوا موجود ہے اگر تو چاہے تو میں اس سے پڑھ کر سناؤں راوی کہتے ہیں کہ مروان خاموش ہوگیا پھر کہا میں نے کچھ اسی طرح سنا ہے۔

【527】

مدینہ منورہ کی فضیلت اور اس میں نبی کریم (رض) کی برکت کی دعا اور اس کی حدود حرم کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شبیہ، عمرو، ابی احمد، ابوبکر، محمد بن عبداللہ، سفیان، ابوزبیر، حضرت جابر (رض) سے روایت ہے فرمایا کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے مکہ کو حرم قرار دیا اور میں مدینہ کو حرم قرار دیتا ہوں مدینہ کے دونوں طرف کے پتھریلے علاقے کے درمیانی حصہ میں سے نہ کوئی درخت کاٹا جاسکتا ہے اور نہ ہی کسی جانور کا شکار کیا جاسکتا ہے۔

【528】

مدینہ منورہ کی فضیلت اور اس میں نبی کریم (رض) کی برکت کی دعا اور اس کی حدود حرم کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، عبداللہ بن نمیر، عثمان بن حکیم، حضرت عامر بن سعد (رض) اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں مدینہ کے دونوں پتھریلے کناروں کے درمیانی حصہ کو حرم قرار دیتا ہوں نہ تو مدینہ کے خاردار درختوں کو کاٹا جائے گا اور نہ ہی مدینہ کے شکار کو قتل کیا جائے گا اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ مدینہ ان کے لئے بہتر ہے کاش کہ یہ جان لیں تو جو آدمی مدینہ سے اعراض کر کے یہاں رہنے کو چھوڑ دے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلہ میں یہاں ایسے آدمی کو جگہ عطا فرمائیں گے جو اس سے بہتر ہوگا اور جو آدمی بھی مدینہ کی بھوک پیاس اور محنت ومشقت پر صبر کرے گا تو میں قیامت کے دن اس کی سفارش کروں گا اس کے حق میں گواہی دوں گا۔

【529】

مدینہ منورہ کی فضیلت اور اس میں نبی کریم (رض) کی برکت کی دعا اور اس کی حدود حرم کے بیان میں

ابن ابی عمر مروان بن معاویہ، عثمان بن حکیم، حضرت عامر بن سعد بن ابی وقاص (رض) اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا پھر ابن نمیر کی حدیث کی طرح حدیث ذکر فرمائی اور اس حدیث میں یہ زائد ہے کہ کوئی آدمی مدینہ والوں کو کوئی تکلیف دنیے کا ارادہ نہ کرے ورنہ اللہ تعالیٰ اسے آگ میں اس طرح پگھلائے گا جیسا کہ سیسہ پگھلتا ہے یا فرمایا کہ جس طرح پانی میں نمک پگھل جاتا ہے مدینہ والوں کو تکلیف دینے والا آگ میں اسی طرح پگھلے گا۔

【530】

مدینہ منورہ کی فضیلت اور اس میں نبی کریم (رض) کی برکت کی دعا اور اس کی حدود حرم کے بیان میں

اسحاق بن ابراہیم، حمید، عقدی عبدالملک، بن عمرو، عبداللہ بن جعفر، اسماعیل بن محمد، حضرت عامر بن سعد (رض) سے روایت ہے کہ حضرت سعد (رض) اپنے مکان عقیق کی طرف گئے تو انہوں نے وہاں ایک غلام کو درخت کاٹتے ہوئے پایا یا اس درخت کے کانٹے کاٹتے ہوئے پایا یا اس درخت کے کانٹے توڑ رہا تھا تو حضرت سعد (رض) نے اس کا سامان چھین لیا تو جب حضرت سعد (رض) واپس آئے تو اس غلام کے گھر والوں نے آپ سے بات کی تاکہ وہ سامان اس غلام کو یا اس کے گھر والوں کو واپس کردیں تو حضرت سعد نے فرمایا کہ اللہ کی پناہ کہ میں وہ چیز واپس کر دوں جو رسول اللہ ﷺ نے مجھے دی ہے حضرت سعد (رض) نے ان کو سامان واپس کرنے سے انکار کردیا۔

【531】

مدینہ منورہ کی فضیلت اور اس میں نبی کریم (رض) کی برکت کی دعا اور اس کی حدود حرم کے بیان میں

یحییٰ بن ایوب بن سعید، قتیبہ ابن حجر، اسماعیل، ابن ایوب، ابن جعفر، عمرو بن ابی عمرو، مطلب بن عبداللہ بن حنظب، حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوطلحہ (رض) سے فرمایا کہ تم اپنے غلاموں میں سے کوئی غلام تلاش کرو تاکہ وہ میری خدمت کرے تو حضرت ابوطلحہ (رض) مجھے اپنی سواری پر اپنے پیچھے بٹھا کرلے آئے تو میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت کرتا تھا جب بھی آپ ﷺ اترتے اور راوی نے کہا کہ اس حدیث میں ہے کہ جب آپ ﷺ تشریف لا رہے تھے یہاں تک کہ جب آپ ﷺ کے سامنے احد پہاڑ ظاہر ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا اے اللہ ! میں ان دونوں پہاڑوں کے درمیانی حصہ کو حرم قرار دیتا ہوں جس طرح کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے مکہ کو حرم قرار دیا تھا اور آپ ﷺ نے دعا فرمائی اے اللہ مدینہ والوں کے لئے ان کے مد اور ان کے صاع میں برکت عطا فرما۔

【532】

مدینہ منورہ کی فضیلت اور اس میں نبی کریم (رض) کی برکت کی دعا اور اس کی حدود حرم کے بیان میں

سعید بن منصور، قتیبہ بن سعید، یعقوب، ابن عبدالرحمن، عمرو ابن ابی عمرو، حضرت انس (رض) بن مالک (رض) نے نبی ﷺ سے اسی حدیث کی طرح روایت نقل کی ہے۔

【533】

مدینہ منورہ کی فضیلت اور اس میں نبی کریم (رض) کی برکت کی دعا اور اس کی حدود حرم کے بیان میں

حامد بن عمر، عبدالواحد، عاصم، انس بن مالک، حضرت عاصم فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت انس بن مالک (رض) سے عرض کیا کہ کیا رسول اللہ ﷺ نے مدینہ کو حرم قرار دیا ہے ؟ حضرت انس (رض) نے فرمایا کہ ہاں فلاں جگہ سے فلاں جگہ تک تو جو آدمی مدینہ میں کوئی نیا کام یعنی کوئی جرم وغیرہ کرے گا حضرت عاصم کہتے ہیں کہ پھر حضرت انس (رض) نے مجھ سے فرمایا کہ یہ بہت سخت گناہ ہوگا کہ جو آدمی مدینہ میں کوئی نیا کام یعنی کوئی گناہ وغیرہ کرے گا تو اس پر اللہ کی لعنت اور فرشتوں کی لعنت اور تمام لوگوں کی لعنت بر سے گی قیامت کے دن اس آدمی سے نہ کوئی فرض اور نہ ہی کوئی نفل عبادت قبول کی جائے گی حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ یا کسی نے ایسے آدمی کو پناہ دی تو وہ بھی اسی سزا کی زد میں ہوگا۔

【534】

مدینہ منورہ کی فضیلت اور اس میں نبی کریم (رض) کی برکت کی دعا اور اس کی حدود حرم کے بیان میں

زہیر بن حرب، یزید بن ہارون، عاصم، انس، حضرت عاصم احول (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت انس (رض) سے پوچھا کہ کیا رسول اللہ ﷺ نے مدینہ کو حرم قرار دیا ہے ؟ انہوں نے فرمایا کہ ہاں ! مدینہ کی گھاس تک کاٹنا حرام ہے اور جو اس طرح کرے گا اس پر اللہ کی لعنت اور فرشتوں کی لعنت اور تمام لوگوں کی لعنت ہوگی۔

【535】

مدینہ منورہ کی فضیلت اور اس میں نبی کریم (رض) کی برکت کی دعا اور اس کی حدود حرم کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے اللہ ان کے لئے ان کے پیمانے میں برکت عطاء فرما اور ان کے لئے ان کے صاع میں اور ان کے لئے ان کے مد میں بھی برکت عطا فرما۔

【536】

مدینہ منورہ کی فضیلت اور اس میں نبی کریم (رض) کی برکت کی دعا اور اس کی حدود حرم کے بیان میں

زہیر بن حرب، ابراہیم بن محمد، وہب بن جریر، یونس، حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اے اللہ مدینہ میں اس سے دو گنا برکتیں فرما جتنی برکتیں مکہ میں تو نے نازل فرمائیں۔

【537】

مدینہ منورہ کی فضیلت اور اس میں نبی کریم (رض) کی برکت کی دعا اور اس کی حدود حرم کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ و زہیر بن حرب و ابوکریب، ابومعاویہ، اعمش، حضرت ابراہیم تیمی اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) بن ابی طالب نے ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا کہ جو آدمی یہ خیال کرتا ہے کہ ہمارے پاس وہ چیز جسے ہم پڑھتے ہیں سوائے اللہ کی کتاب اور اس صحیفے کے اس صحیفے کی طرف اشارہ فرمایا کہ جو آپ کی تلوار کی نیام کے ساتھ لٹکا ہوا تھا اس طرح کا خیال کرنے والا آدمی جھوٹا ہے اس صحیفے میں تو اونٹوں کی عمروں اور کچھ زخموں کی دیت کا ذکر ہے اور اس میں ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ عیر پہاڑ اور ثور پہاڑ تک کے درمیان مدینہ کو جو علاقہ ہے یہ حرم ہے تو جو آدمی اس حرم میں کوئی گناہ کرے گا یا کسی مجرم آدمی کو پناہ دے گا تو اس پر اللہ کی لعنت اور فرشتوں کی لعنت اور تمام لوگوں کی لعنت ہوگی اور قیامت کے دن اللہ اس سے نہ کوئی فرض اور نہ کوئی نفل قبول کریں گے اور پناہ دینا تمام مسلمانوں کو ایک ہی ہے ان میں سے ادنیٰ مسلمان کی پناہ دینے کو بھی اعتبار کیا جاتا ہے اور جس آدمی نے اپنی نسبت اپنے باپ کے علاوہ کی طرف کی یا جس غلام نے اپنے آپ کو اپنے مالک کے غیر کی طرف منسوب کیا اس پر اللہ کی لعنت اور فرشتوں اور تمام لوگوں کی بھی لعنت اللہ اس سے قیامت کے دن نہ کوئی اس کا فرض اور نہ کوئی اس کا نفل قبول کرے گا ابوبکر کی حدیث یہاں پوری ہوگئی ہے اور زبیر کی روایت اس قول تک تھی جہاں ادنیٰ مسلمانوں کی پناہ کا ذکر آتا ہے اور اس کے بعد کا بھی اس میں ذکر نہیں اور ان دونوں حدیثوں میں صحیفہ کا تلوار کی نیام میں لٹکے ہوئے ہونے کا بھی ذکر نہیں۔

【538】

مدینہ منورہ کی فضیلت اور اس میں نبی کریم (رض) کی برکت کی دعا اور اس کی حدود حرم کے بیان میں

علی بن حجر، سعد، علی بن مسہر، ابوسعید، وکیع، اعمش، ابوکریب، ابومعاویہ سے ان سندوں کے ساتھ ابوکریب کی حدیث کی طرح روایت نقل کی گئی ہے اور اس حدیث میں یہ زائد ہے کہ جو آدمی کسی مسلمان کی پناہ توڑے گا تو اس پر اللہ اور فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہوگی اور قیامت کے دن نہ اس سے اس کا کوئی فرض اور نہ ہی کوئی نفل قبول کیا جائے گا۔

【539】

مدینہ منورہ کی فضیلت اور اس میں نبی کریم (رض) کی برکت کی دعا اور اس کی حدود حرم کے بیان میں

عبیداللہ بن عمرو، محمد بن ابی بکر، عبدالرحمن بن مہدی، سفیان، حضرت اعمش (رض) سے ان سندوں کے ساتھ ابن مسہر اور وکیع کی حدیث کی طرح روایت نقل کی گئی ہے۔

【540】

مدینہ منورہ کی فضیلت اور اس میں نبی کریم (رض) کی برکت کی دعا اور اس کی حدود حرم کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، حسین، بن علی زائدہ، سلیمان، ابوصالح، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ مدینہ حرم ہے تو جو آدمی اس حرم میں کوئی نیا کام یعنی گناہ وغیرہ کرے گا یا ایسے کرنے والے کو پناہ دے گا تو اس پر اللہ اور فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہوگی اور قیامت کے دن نہ اس سے کوئی فرض اور نہ ہی کوئی نفل قبول کیا جائے گا۔

【541】

مدینہ منورہ کی فضیلت اور اس میں نبی کریم (رض) کی برکت کی دعا اور اس کی حدود حرم کے بیان میں

ابوبکر بن نضر بن ابونضر، عبیداللہ، سفیان، حضرت اعمش (رض) سے ان سندوں کے ساتھ اسی طرح حدیث نقل کی گئی ہے لیکن اس میں قیامت کے دن کا ذکر نہیں ہے اور اس میں یہ زائد ہے کہ تمام مسلمانوں کا ذمہ ایک ہی ہے اور ایک عام مسلمان کے پناہ دینے کا اعتبار کیا جاسکتا ہے تو جو آدمی کسی مسلمان کی پناہ کو توڑے گا اس پر اللہ اور فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہوگی قیامت کے دن اس سے کوئی نفل اور نہ کوئی فرض قبول کیا جائے گا۔

【542】

مدینہ منورہ کی فضیلت اور اس میں نبی کریم (رض) کی برکت کی دعا اور اس کی حدود حرم کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، مالک، ابن شہاب، سعید بن مسیب، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ اگر میں مدینہ میں ہر نیوں کو چرتا ہوا دیکھوں تو میں انہیں ہراساں نہیں کروں گا اس لئے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ دو پتھریلے کناروں کی درمیانی جگہ حرم ہے

【543】

مدینہ منورہ کی فضیلت اور اس میں نبی کریم (رض) کی برکت کی دعا اور اس کی حدود حرم کے بیان میں

اسحاق بن ابراہیم، محمد بن رافع، عبد بن حمید، اسحاق، عبدالرزاق، معمر، زہری، سعید بن مسیب، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ کے دو پتھریلے کناروں کے درمیانی حصہ کو حرم قرار دیا ہے حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ اگر میں مدینہ کے دو پتھریلے کناروں کے درمیانی حصہ میں ہر نیوں کو چرتا ہوا دیکھوں تو میں انہیں ہراساں نہیں کروں گا اور آپ ﷺ نے مدینہ کے اردگرد بارہ میل کو حرم قرار دیا ہے۔

【544】

مدینہ منورہ کی فضیلت اور اس میں نبی کریم (رض) کی برکت کی دعا اور اس کی حدود حرم کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، مالک بن انس، سہیل بن ابی صالح، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ جب لوگ شروع کا پھل دیکھتے تو وہ اسے نبی ﷺ کی طرف لے آتے تو رسول اللہ ﷺ اسے پکڑتے اور دعا فرماتے اے اللہ ہمارے لئے ہمارے پھلوں میں برکت عطا فرما اور ہمارے لئے ہمارے مدینہ میں برکت عطا فرما اور ہمارے لئے ہمارے صاع میں برکت عطا فرما اور ہمارے لئے ہمارے مد میں برکت عطا فرما اے اللہ ! ابراہیم (علیہ السلام) تیرے بندے اور تیرے خلیل اور تیرے نبی ہیں اور میں تیرا بندہ اور تیرا نبی ہوں اور انہوں نے مکہ کے لئے تجھ سے دعا کی تھی اور میں مدینہ کے لئے تجھ سے ان دعاؤں کا دو گنا کی دعا کرتا ہوں جو کہ تجھ سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے مکہ کے لئے کی تھیں پھر آپ ﷺ کسی چھوٹے بچے کو بلا کر اسے یہ پھل عطا فرماتے۔

【545】

مدینہ منورہ کی فضیلت اور اس میں نبی کریم (رض) کی برکت کی دعا اور اس کی حدود حرم کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، عبدالعزیز بن محمد، سہیل بن ابی صالح، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہلا پھل لایا جاتا تھا تو آپ ﷺ فرماتے اے اللہ ! ہمارے لئے ہمارے مدینہ میں اور ہمارے پھلوں میں اور ہمارے مد میں اور ہمارے صاع میں برکت در برکت عطا فرما پھر آپ ﷺ وہ پھل جو آپ ﷺ کے پاس موجود ہوتا لڑکوں میں سے سب سے چھوٹے کو عطا فرماتے۔

【546】

مدینہ میں رہنے والوں کو تکالیف پر صبر کرنے کی فضیلت کے بیان میں

حماد بن اسماعیل بن علیۃ، وہیب، یحییٰ بن ابی اسحاق، حضرت ابوسعید (رض) مولیٰ مہری سے روایت ہے جب مدینہ کے لوگ قحط سالی اور تنگی میں مبتلا ہوئے تو وہ حضرت ابوسعید خدری (رض) کے پاس آیا اور ان سے عرض کیا کہ میرے بچے بہت زیادہ ہیں اور تنگی میں مبتلا ہوں تو میں چاہتا ہوں کہ میں اپنے بچوں کو کسی خوشحال جگہ کی طرف لے جاؤں تو حضرت ابوسعید (رض) نے فرمایا کہ ایسا نہ کرنا اور مدینہ میں رہنا کیونکہ ہم ایک مرتبہ نبی ﷺ کے ساتھ نکلے تھے تو راوی کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ انہوں نے کہا کہ یہاں تک کہ عسفان کے مقام پر آئے تو آپ ﷺ نے اس مقام پر کچھ راتیں قیام فرمایا تو لوگ کہنے لگے اللہ کی قسم یہاں ہمارے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے اور پیچھے ہمارے بچوں کی نگرانی کرنے والا بھی کوئی نہیں ہے اور ہم ان کی طرف سے مطمئن نہیں ہیں تو یہ بات نبی ﷺ تک پہنچی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہاری یہ کس طرح کی باتیں مجھ تک پہنچی ہیں ؟ راوی کہتے ہے کہ میں نہیں جانتا کہ آپ ﷺ نے کس طرح فرمایا اور اس کے ساتھ آپ ﷺ نے حلف اٹھایا یا فرمایا کہ قسم ہے اس ذات کی کہ جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کہ اگر تم چاہتے ہو تو میں اپنی اونٹنی پر زین کسنے کا حکم کروں اور جب تک مدینہ نہ پہنچ جاؤں اس کی گرہ نہ کھولوں پھر آپ ﷺ نے فرمایا اے اللہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے مکہ کو حرم بنایا تھا اور میں مدینہ کو حرم بناتا ہوں مدینہ کے دونوں پہاڑوں کے درمیان کا حصہ حرم ہے اس حرم میں خون نہ بہایا جائے اور نہ اس میں جنگ کے لئے ہتھیار اٹھائے جائیں اور نہ ہی یہاں کے درختوں کے پتے توڑے جائیں سوائے جانوروں کے چارہ کے۔ اے اللہ ہمارے لئے ہمارے مدینہ میں برکت عطا فرما اے اللہ ہمارے صاع میں برکت عطا فرما اے اللہ ہمارے مد میں برکت عطا فرما اے اللہ ہمارے مدینہ میں برکت عطا فرما اے اللہ مدینہ میں مکہ کی بنسبت دو گنا برکت فرما اور قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے کہ مدینہ کی ہر گھاٹی اور درہ پر دو فرشتے مقرر ہیں اور تمہارے واپس آنے تک اس کی حفاظت کرتے ہیں پھر آپ ﷺ نے لوگوں سے فرمایا کہ اب نکلو پھر ہم چلے اور مدینہ کی طرف روانہ ہوئے قسم ہے اس ذات کی کہ جس کی ہم قسم کھاتے ہیں کہ ابھی ہم نے مدینہ میں داخل ہو کر سامان نہیں اتارا تھا کہ بنو عبداللہ بن غطفان نے ہم پر حملہ کردیا حالانکہ اس سے قبل ان میں کسی طرح کی کوئی بےچینی نہیں پائی جاتی تھی۔

【547】

مدینہ میں رہنے والوں کو تکالیف پر صبر کرنے کی فضیلت کے بیان میں

زہیر بن حرب، اسماعیل بن علیہ، علی بن مبارک، یحییٰ بن ابی کثیر، حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اے اللہ ہمارے لئے ہمارے مد میں اور ہمارے صاع میں برکت عطا فرما اور ایک برکت کے ساتھ دو برکتیں کر دے۔

【548】

مدینہ میں رہنے والوں کو تکالیف پر صبر کرنے کی فضیلت کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، عبیداللہ بن موسی، شیبان اسحاق بن منصور، عبدالصمد، حرب، حضرت یحییٰ بن ابی کثیر (رض) سے ان سندوں کے ساتھ اسی حدیث کی طرح حدیث نقل کی گئی ہے۔

【549】

مدینہ میں رہنے والوں کو تکالیف پر صبر کرنے کی فضیلت کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، لیث، سعید بن ابی سعید، حضرت ابوسعید مولیٰ مہری سے روایت ہے کہ وہ حرہ کی رات میں حضرت ابوسعید خدری (رض) کے پاس آئے اور ان سے مدینہ سے واپس چلے جانے کے بارے میں مشورہ طلب کیا اور شکایت کی کہ مدینہ میں مہنگائی بہت ہے اور ان کی عیال داری بال بچے زیادہ ہیں اور میں مدینہ کی مشقت اور اس کی تکلیفوں پر صبر نہیں کرسکتا تو حضرت ابوسعید (رض) نے اس سے کہا کہ تجھ پر افسوس ہے میں تجھے اس کا حکم (مشورہ) نہیں دوں گا کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ جو آدمی مدینہ کی تکلیفوں پر صبر کرے اور اسی حال میں اس کی موت آجائے تو میں اس کی سفارش کروں گا یا فرمایا کہ میں قیامت کے دن اس کے حق میں گواہی دوں گا جبکہ وہ مسلمان ہو۔

【550】

مدینہ میں رہنے والوں کو تکالیف پر صبر کرنے کی فضیلت کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، محمد بن عبداللہ ابن نمیر، ابوکریب، ابواسامہ، ابوبکر ابن انمیر، ابواسامہ، ولید بن کثیر، سعید بن عبدالرحمن، حضرت ابوسعید خدری (رض) فرماتے ہیں کہ انہوں نے سنا کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ میں نے مدینہ کے دونوں پتھریلے کناروں کے درمیانی حصہ کو حرم قرار دیا ہے جیسا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے مکہ کو حرم قرار دیا ہے راوی کہتے ہیں کہ پھر ابوسعید (رض) کسی کے ہاتھ میں مدینہ میں پرندہ دیکھ لیتے تو اس کے ہاتھ سے اس کو چھڑا لیتے اور آزاد کردیتے۔

【551】

مدینہ میں رہنے والوں کو تکالیف پر صبر کرنے کی فضیلت کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ولی بن مسہر، یسیر بن عمرو، حضرت سہل بن حنیف (رض) سے روایت ہے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہاتھ مبارک سے مدینہ کی طرف اشارہ فرمایا اور فرمایا کہ یہ حرم ہے اور امن کی جگہ ہے۔

【552】

مدینہ میں رہنے والوں کو تکالیف پر صبر کرنے کی فضیلت کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، عبدہ، ہشام، سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ ہم مدینہ آئے تو وہاں بخار کی وبا آئی ہوئی تھی تو حضرت ابوبکر اور حضرت بلال (رض) بیمار ہوگئے تو جب رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ (رض) کی بیماری دیکھی تو فرمایا اے اللہ جیسا کہ تو نے ہمارے لئے مکہ کو محبوب فرمایا مدینہ کو بھی ہمیں محبوب فرمایا اس سے بھی زیادہ محبوب فرما دے اور مدینہ کو صحت کی جگہ بنا دے اور ہمارے لئے مدینہ کے صاع میں اور ان کے مد میں برکت عطا فرما اور مدینہ کے بخار کو جحفہ کی طرف پھیر دے۔

【553】

مدینہ میں رہنے والوں کو تکالیف پر صبر کرنے کی فضیلت کے بیان میں

ابوکریب، ابواسامہ، ابن نمیر، ہشام، حضرت ہشام بن عروہ (رض) سے اس سند کے ساتھ اسی حدیث کی طرح روایت منقول ہے۔

【554】

مدینہ میں رہنے والوں کو تکالیف پر صبر کرنے کی فضیلت کے بیان میں

زہیر بن حرب، عثمان بن عمر، عیسیٰ ابن حفص بن عاصم، نافع، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ جو آدمی مدینہ کی تکلیفوں پر صبر کرے گا تو میں اس کے لئے سفارش کروں گا یا قیامت کے دن اس کے حق میں گواہی دوں گا۔

【555】

مدینہ میں رہنے والوں کو تکالیف پر صبر کرنے کی فضیلت کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، مالک، قطن بن وہب بن عویمربن اجدع، حضرت یحنس مولیٰ زبیر (رض) سے روایت ہے وہ خبر دیتے ہیں کہ میں فتنہ کے دور میں حضرت ابن عمر (رض) کے پاس بیٹھا تھا کہ ان کی آزاد کردہ باندی ان کے پاس آئی اور اس نے آپ کو سلام کیا اور عرض کرنے لگی کہ اے ابوعبدالرحمن ہم پر زمانے کی سختی ہے معاشی حالات کی تنگی جس کی وجہ سے میں نے یہاں سے نکلنے کا ارادہ کیا ہے تو حضرت عبداللہ (رض) نے اس عورت سے فرمایا کہ یہیں بیٹھی رہو کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ جو آدمی مدینہ کی تکلیفوں اور اس کی سختیوں پر صبر کرے گا تو میں اس کی سفارش کروں گا یا آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں قیامت کے دن اس کے حق میں گواہی دوں گا۔

【556】

مدینہ میں رہنے والوں کو تکالیف پر صبر کرنے کی فضیلت کے بیان میں

محمد بن رافع، ابن ابی فدیک، ضحاک، قطن، یحنس، مصعب، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ جو آدمی مدینہ کی تکلیفوں اور اس کی سختیوں پر صبر کرے گا تو میں قیامت کے دن اس کے حق میں گواہی دوں گا یا فرمایا کہ میں اس کے لئے سفارش کروں گا۔

【557】

مدینہ میں رہنے والوں کو تکالیف پر صبر کرنے کی فضیلت کے بیان میں

یحییٰ بن ایوب، قتیبہ، ابن حجر، اسماعیل، حعفر، علاء بن عبدا لرحمن، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میری اُمّت میں سے جو کوئی بھی مدینہ کی تکلیفوں اور اس کی سختیوں پر صبر کرے گا تو میں اس کے لئے قیامت کے دن سفارش کروں گا یا اس کے حق میں گواہی دوں گا۔

【558】

مدینہ میں رہنے والوں کو تکالیف پر صبر کرنے کی فضیلت کے بیان میں

ابن ابی عمر، سفیان، ابوہارون، موسیٰ بن ابی عیسی، ابوعبد اللہ، حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے اسی طرح فرمایا ہے۔

【559】

مدینہ میں رہنے والوں کو تکالیف پر صبر کرنے کی فضیلت کے بیان میں

یوسف بن عیسی، فضل بن موسیٰ ہشام، عروہ، صالح بن ابی صالح، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو آدمی بھی مدینہ کی تکلیفوں پر صبر کرے گا پھر آگے اسی طرح حدیث بیان کی۔

【560】

طاعون اور دجال سے مدینہ منورہ کا محفوظ رہنے کے بیان میں۔

یحییٰ بن یحیی، مالک، نعیم بن عبداللہ، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مدینہ کے راستوں پر فرشتے مقرر ہیں مدینہ میں نہ طاعون داخل ہوگا اور نہ ہی دجال۔

【561】

طاعون اور دجال سے مدینہ منورہ کا محفوظ رہنے کے بیان میں۔

یحییٰ بن ایوب، قتیبہ بن حجر، اسماعیل، ابن جعفر، علاء، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مسیح دجال مشرق کی طرف سے آئے گا اور مدینہ میں داخل ہونے کا ارادہ کرے گا یہاں تک کہ احد پہاڑ کے پچھلی طرف اترے گا پھر فرشتے اس کا منہ وہیں سے شام کی طرف پھیر دیں گے اور وہ وہیں ہلاک ہوجائے گا۔

【562】

مدینہ منورہ کا خبیث چیزوں سے پاک ہونے اور مدینہ کا نام طابہ اور طیبہ رکھے جانے کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، عبدالعزیز، علاء، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ آدمی اپنے چچازاد بھائیوں اور رشتہ داروں کو بلا کر کہیں گے کہ جس جگہ آسانی اور سہولت ہو اس جگہ کوچ کر چلو اور مدینہ ان کے لئے بہتر ہے کاش کہ وہ لوگ جان لیں قسم ہے اس ذات کی کہ جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اللہ وہاں سے کسی کو نہیں نکالے گا سوائے اس کے کہ جو وہاں سے اعراض کرے گا تو اللہ اس کی جگہ وہاں اسے آباد فرمائیں گے کہ جو اس سے بہتر ہوگا۔ آگاہ رہو کہ مدینہ ایک بھٹی طرح ہے جو خبیث چیز یعنی میل کچیل کو باہر نکال دیتا ہے اور قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ مدینہ اپنے میں سے برے لوگوں کو باہر نکال پھینکے گا جس طرح کہ لو ہار کی بھٹی لوہے کے میل کچیل کو باہر نکال دیتی ہے۔

【563】

مدینہ منورہ کا خبیث چیزوں سے پاک ہونے اور مدینہ کا نام طابہ اور طیبہ رکھے جانے کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، مالک بن انس، حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے اس بستی کی طرف ہجرت کا حکم دیا گیا ہے کہ جو ساری بستیوں کو کھا جاتی ہے لوگ اسے یثرب کہتے ہیں اور وہ مدینہ ہے وہ برے لوگوں کو اس طرح دور کرے گا جس طرح بھٹی لوہے کے میل کی چل کو دور کرتی ہے۔

【564】

مدینہ منورہ کا خبیث چیزوں سے پاک ہونے اور مدینہ کا نام طابہ اور طیبہ رکھے جانے کے بیان میں

عمرو ناقد، ابن ابی عمر، ابن مثنی، عبدالوہاب، حضرت یحییٰ بن سعید (رض) سے اس سند کے ساتھ اسی طرح روایت منقول ہے اور اس میں حدید کا ذکر نہیں کیا۔

【565】

مدینہ منورہ کا خبیث چیزوں سے پاک ہونے اور مدینہ کا نام طابہ اور طیبہ رکھے جانے کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، مالک، محمد، منکدر، حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی نے رسول اللہ ﷺ سے بیعت کی تو اس دیہاتی کو مدینہ میں شدید بخار ہوگیا تو نبی ﷺ کے پاس آیا اور اس نے عرض کیا اے محمد ﷺ میری بیعت واپس لوٹا دو تو رسول اللہ ﷺ نے انکار فرمایا وہ پھر آپ ﷺ کے پاس لوٹا تو رسول اللہ ﷺ نے انکار فرمایا وہ پھر آپ ﷺ کے پاس آیا اور اس نے عرض کیا کہ میری بیعت واپس لوٹا دو تو آپ ﷺ نے انکار فرمایا تو وہ دیہاتی مدینہ سے نکل گیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مدینہ بھٹی کی طرح ہے جو کہ اس میں آئے میل کچیل وغیرہ کو دور کرتا ہے اور اس کے پاک کو خالص اور صاف ستھرا بناتا ہے۔

【566】

مدینہ منورہ کا خبیث چیزوں سے پاک ہونے اور مدینہ کا نام طابہ اور طیبہ رکھے جانے کے بیان میں

عبیداللہ بن معاذ، شعبہ، عدی، ابن ثابت، عبداللہ بن یزید، حضرت زید بن ثابت (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ یہ طیبہ ہے یعنی مدینہ اور یہ مدینہ میل کچیل کو اس طرح دور کرتا ہے جیسے کہ چاندی کے میل کو آگ دور کرتی ہے۔

【567】

مدینہ منورہ کا خبیث چیزوں سے پاک ہونے اور مدینہ کا نام طابہ اور طیبہ رکھے جانے کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، ہناد بن سری، ابوبکر بن ابی شبیہ، ابواحوص، سماک، حضرت جابر بن سمرہ (رض) سے روایت ہے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ عزوجل نے مدینہ منورہ کا نام طابہ رکھا ہے۔

【568】

مدینہ والوں کو تکلیف پہچانے کی حرمت اور یہ کہ جو ان کو تکلیف دے گا اللہ اسے تکلیف میں ڈالے گا۔

محمد بن حاتم، ابراہیم، بن دینار، حجاج بن محمد، محمد بن رافع، عبدالرزاق، ابن جریج، عبداللہ بن عبدالرحمن بن یحنس ابی عبداللہ، حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ ابوالقاسم ﷺ نے فرمایا کہ جو آدمی اس شہر مدینہ والوں کو تکلیف دینے کا ارادہ کرے گا تو اللہ اسے ایسے پگھلا دے گا جیسے کہ پانی میں نمک پگھل جاتا ہے۔

【569】

مدینہ والوں کو تکلیف پہچانے کی حرمت اور یہ کہ جو ان کو تکلیف دے گا اللہ اسے تکلیف میں ڈالے گا۔

محمد بن حاتم، ابراہیم بن دینار، حجاج، ابن رافع، عبدارلزاق، ابن جریج، عمرو بن یحیی، عمارہ، حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو آدمی مدینہ والوں کو تکلیف دینے کا ارادہ کرے گا تو اللہ اسے ایسے پگھلا دیں گے جیسے کہ پانی میں نمک پگھل جاتا ہے ابن حاتم نے ابن یُحنَّس کی حدیث میں بسوء شَرَّا کا قول نقل کیا۔

【570】

مدینہ والوں کو تکلیف پہچانے کی حرمت اور یہ کہ جو ان کو تکلیف دے گا اللہ اسے تکلیف میں ڈالے گا۔

ابن ابی عمر، سفیان، ابی ہارون، موسی، ابن ابی عیسی، ابن ابی عمر، حضرت ابوہریرہ (رض) نے نبی ﷺ سے اسی طرح حدیث نقل فرمائی۔

【571】

مدینہ والوں کو تکلیف پہچانے کی حرمت اور یہ کہ جو ان کو تکلیف دے گا اللہ اسے تکلیف میں ڈالے گا۔

قتیبہ بن سعید، حاتم، ابن اسماعیل، عمر بن نبیہ، دینار، حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو آدمی مدینہ والوں کو تکلیف دینے کا ارادہ کرے گا تو اللہ اسے ایسے پگھلا دے گا جیسا کہ پانی میں نمک پگھل جاتا ہے۔

【572】

مدینہ والوں کو تکلیف پہچانے کی حرمت اور یہ کہ جو ان کو تکلیف دے گا اللہ اسے تکلیف میں ڈالے گا۔

قتبہ بن سعید، اسماعیل، ابن جعفر، عمر بن نبیہ، ابی عبداللہ، سعد بن مالک، حضرت سعد بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اسی طرح فرمایا۔

【573】

مدینہ والوں کو تکلیف پہچانے کی حرمت اور یہ کہ جو ان کو تکلیف دے گا اللہ اسے تکلیف میں ڈالے گا۔

ابوبکر بن ابی شیبہ، عبیداللہ بن موسی، اسامہ بن زید، ابی عبداللہ، حضرت ابوہریرہ (رض) اور حضرت سعد (رض) دونوں حضرات فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے دعا فرمائی اے اللہ ! مدینہ والوں کے لئے ان کے مد میں برکت عطا فرما آگے حدیث اسی طرح ہے جیسے گزری اور اس حدیث میں ہے کہ جو آدمی مدینہ والوں کو تکلیف دینے کا ارادہ کرے گا تو اللہ اسے ایسے پگھلا دے گا جیسا کہ پانی میں نمک پگھل جاتا ہے۔

【574】

فتوحات کے دور میں مدینہ میں لوگوں کو سکونت اختیار کرنے کی ترغیب کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، وکیع، ہشام بن عروہ، عبداللہ بن زبیر، حضرت سفیان بن ابی زہیر (رض) سے روایت ہے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب ملک شام فتح کیا جائے گا تو مدینہ سے ایک قوم اپنے گھر والوں کو لے کر اپنے اونٹوں کو ہنکاتے ہوئے نکلے گی اور مدینہ ان کے لئے بہتر ہے کاش کہ وہ لوگ جان لیں پھر یمن فتح کیا جائے گا تو پھر ایک قوم اپنے گھر والوں کو لے کر اپنے اونٹوں کو ہنکاتے ہوئے نکلے گی اور مدینہ ان کے لئے بہتر ہے کاش کہ وہ لوگ جان لیں پھر عراق فتح کیا جائے گا تو مدینہ سے ایک قوم اپنے گھر والوں کو اور اپنے اونٹوں کو ہنکاتے ہوئے نکلے گی اور مدینہ ان کے لئے بہتر ہے کاش کہ وہ لوگ جان لیں۔

【575】

فتوحات کے دور میں مدینہ میں لوگوں کو سکونت اختیار کرنے کی ترغیب کے بیان میں

محمد بن رافع، عبدالرزاق، ابن جریج، ہشام بن عروہ، عبداللہ بن زبیر، حضرت سفیان بن ابی زہیر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ یمن فتح کیا جائے گا تو ایک قوم اپنے گھر والوں اور اپنے خادموں کے لئے ہوئے اور اپنا سامان اٹھائے ہوئے اپنے اونٹوں کو ہنکاتے ہوئے چلی جائے گی اور مدینہ ان کے لئے بہتر ہے کاش کہ وہ لوگ جان لیں پھر شام فتح کیا جائے گا تو ایک قوم اپنے گھر والوں اور اپنے خادموں کو لئے ہوئے اپنے اونٹوں کو ہنکاتے ہوئے چلی جائے گی اور مدینہ ان کے لئے بہتر ہے کاش کہ وہ لوگ جان لیں پھر عراق فتح کیا جائے تو ایک قوم اپنے گھر والوں اور اپنے خادموں کو لئے ہوئے اپنے اونٹوں کو ہنکاتے ہوئے چلی جائے گی اور مدینہ ان کے لئے بہتر ہے کاش کہ وہ لوگ جان لیں۔

【576】

رسول اللہ ﷺ کا یہ خبر دینے کے بیان میں کہ لوگ مدینہ ہی کو بخیر ہونے کے باوجود چھوڑیں گے۔

زہیر بن حرب، ابوصفوان، عبداللہ بن عبدالملک، یونس بن یزید، حرملہ بن یحیی، ابن وہب یونس بن شہاب، سعید بن مسیب، حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ والوں کے لئے فرمایا کہ لوگ اسے خیر پر ہونے کے باوجود درندوں اور پرندوں کے لئے چھوڑ دیں گے صاحب مسلم فرماتے ہیں کہ ابوصفوان یتیم تھے اور وہاب بن جریج کی گود میں دس سال رہے۔

【577】

رسول اللہ ﷺ کا یہ خبر دینے کے بیان میں کہ لوگ مدینہ ہی کو بخیر ہونے کے باوجود چھوڑیں گے۔

عبدالملک بن شعیب بن لیث، عقیل بن خالد، ابن شہاب، سعید بن مسیب، حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ لوگ مدینہ کو خیر پر ہونے کے باوجود چھوڑ دیں گے اور درندے اور پرندے مدینہ میں رہیں گے پھر قبیلہ مزنیہ کے دو چرواہے مدینہ آنے کے ارادے سے اپنی بکریوں کو ہنکاتے ہوئے لائیں گے تو مدینہ میں وحشی جانوروں کو پائیں گے یہاں تک کہ جو وہ وداع پہاڑی کے پاس پہنچیں گے تو وہ اپنے چہروں کے بل گرپڑیں گے۔

【578】

آپ ﷺ کی قبر مبارک اور آپ ﷺ کے منبر کی درمیانی جگہ ریاض الجنہ اور آپ ﷺ کے منبر والی جگہ کی فضیلت کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، مالک بن انس، عبداللہ بن ابی بکر، عباد بن تمیم، حضرت عبداللہ بن زید مازنی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان کا جو حصہ ہے جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔

【579】

آپ ﷺ کی قبر مبارک اور آپ ﷺ کے مبنر کی درمیانی جگہ ریاض الجنہ اور آپ ﷺ کے مبنر والی جگہ کی فضیلت کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، عبدالعزیز، بن محمد، مدنی، یزید بن ہاد، ابوبکر، عباد بن تمیم، حضرت عبداللہ بن زید انصاری (رض) سے روایت ہے انہوں نے سنا کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ میرے منبر اور میرے گھر کے درمیان کا جو حصہ ہے وہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔

【580】

آپ ﷺ کی قبر مبارک اور آپ ﷺ کے مبنر کی درمیانی جگہ ریاض الجنہ اور آپ ﷺ کے مبنر والی جگہ کی فضیلت کے بیان میں

زہیر بن حرب، محمد بن مثنی، یحییٰ بن سعید، عبیداللہ، ابن نمیر، عبیداللہ بن حبیب بن عبدالرحمن بن حفص بن عاصم، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان کا جو حصہ ہے وہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اور میرا منبر میرے حوض پر ہے۔

【581】

احد پہاڑ کی فضیلت کے بیان میں

عبداللہ بن مسلمہ، سلیمان بن بلال، عمرو بن یحیی، عباس بن سہل ساعدی، حضرت ابوحمید (رض) سے روایت ہے فرمایا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوہ تبوک میں نکلے اور باقی حدیث اسی طرح ہے جیسے گزر چکی اور اس حدیث میں ہے کہ پھر جب ہم واپس ہوئے یہاں تک کہ ہم وادی قریٰ میں آئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں جلدی میں ہوں اور تم میں سے جو چاہے تو وہ میرے ساتھ جلد چلے اور جو ٹھہرنا چاہتا ہے تو وہ ٹھہر جائے تو ہم نکلے یہاں تک کہ جب ہم مدینہ کے قریب آئے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ طابہ ہے اور یہ احد ہے اور یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔

【582】

احد پہاڑ کی فضیلت کے بیان میں

عبیداللہ بن معاذ، قرہ بن خالد، قتادہ، حضرت انس بن مالک (رض) نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ احد پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں

【583】

احد پہاڑ کی فضیلت کے بیان میں

عبیداللہ بن عمر، عمارہ، قتادہ، حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے احد پہاڑ کی طرف دیکھا اور فرمایا کہ احد پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔

【584】

مکہ اور مدینہ کی مسجدوں میں نماز پڑھنے کی فضیلت کے بیان میں

عمرو ناقد، زہیر بن حرب، سفیان بن عیینہ، زہری، سعید بن مسیب، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ ان کو نبی ﷺ کی یہ بات پہنچی کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میری اس مسجد (مسجد نبوی) میں نماز پڑھنا مسجد حرام کے علاوہ باقی تمام مساجد کی بہ نسبت ایک ہزار نمازوں سے زیادہ فضیلت ہے۔

【585】

مکہ اور مدینہ کی مسجدوں میں نماز پڑھنے کی فضیلت کے بیان میں

محمد بن رافع، عبد بن حمید، عبد ابن رافع، عبدالرزاق، معمر، ابن مسیب، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میری اس مسجد میں ایک نماز پڑھنا مسجد حرام کے علاوہ باقی تمام مساجد میں ہزار نمازیں پڑھنے سے بہتر ہے۔

【586】

مکہ اور مدینہ کی مسجدوں میں نماز پڑھنے کی فضیلت کے بیان میں

اسحاق بن منصور، عیسیٰ بن منذر، محمد بن حرب، حضرت ابوسلمہ (رض) بن عبدالرحمن اور حضرت ابوعبداللہ اغر (حضرت ابوہریرہ (رض) کے ساتھیوں میں سے ہیں) سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے سنا وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی مسجد میں نماز پڑھنا مسجد حرام کے علاوہ باقی تمام مساجد میں ایک ہزار نمازیں پڑھنے سے زیادہ فضیلت رکھتا ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ تمام انبیاء (علیہم السلام) میں آخری نبی ﷺ ہیں اور آپ ﷺ کی مسجد آخری مسجد ہے۔ حضرت ابوسلمہ اور حضرت ابوعبداللہ کہتے ہیں کہ ہم اس میں کوئی شک نہیں کرتے کہ حضرت ابوہریرہ (رض) نے یہ بات رسول اللہ ﷺ کی حدیث کی حیثیت سے فرمائی تھی اور ہم اس حدیث کے بارے میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے یقینی طور پر معلوم نہ کرسکے یہاں کہ جب حضرت ابوہریرہ (رض) وفات پاگئے تو ہم اس کو یاد کرنے لگے اور افسوس کرنے لگے کہ اس حدیث کے بارے میں ہم حضرت ابوہریرہ (رض) سے بات نہیں کرسکے اگر ہم بات کرلیتے تو حضرت ابوہریرہ (رض) ہمیں رسول اللہ ﷺ سے یہ حدیث نقل کر کے سنا دیتے ہم اس سلسلہ میں یہ بات کر رہے تھے کہ حضرت عبداللہ بن ابراہیم بن قارظ ہمارے ساتھ آکر بیٹھ گئے تو ہم نے اس حدیث کے بارے میں ان سے ذکر کیا جو ہم نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے معلوم کرنی تھی تو حضرت عبداللہ بن ابراہیم بن قارظ نے ہم سے فرمایا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے سنا وہ فرماتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں انبیاء (علیہم السلام) میں آخری نبی ہوں اور میری مسجد مساجد میں آخری مسجد ہے۔

【587】

مکہ اور مدینہ کی مسجدوں میں نماز پڑھنے کی فضیلت کے بیان میں

محمد بن مثنی، ابن ابی عمر، عبدالوہاب، حضرت یحییٰ بن سعید (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے ابوصالح سے پوچھا کہ کیا تو نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے سنا ہے کہ حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اللہ ﷺ کی مسجد میں نماز پڑھنے کی فضیلت کا ذکر کرتے تھے ؟ تو انہوں نے کہا کہ نہیں لیکن حضرت عبداللہ بن ابراہیم بن قارظ نے مجھ خبر دی ہے کہ انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے سنا وہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میری اس مسجد میں نماز پڑھنا ہزار نمازیں پڑھنے سے بہتر ہے یا فرمایا کہ ایک نماز میری اس مسجد میں بہتر ہے ہزار نمازوں سے جو اور مسجدوں میں ادا ہوں سوائے مسجد حرام کے۔

【588】

مکہ اور مدینہ کی مسجدوں میں نماز پڑھنے کی فضیلت کے بیان میں

زہیر بن حرب، عبیداللہ بن سعید، محمد بن حاتم، یحیی، قطان، حضرت یحییٰ بن سعید (رض) سے اس سند کے ساتھ اسی طرح روایت ہے۔

【589】

مکہ اور مدینہ کی مسجدوں میں نماز پڑھنے کی فضیلت کے بیان میں

زہیر بن حرب، محمد بن مثنی، یحییٰ قطان، عبیداللہ، نافع، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میری اس مسجد میں نماز پڑھنا مسجد حرام کے علاوہ باقی تمام مسجدوں میں ایک ہزار نمازیں پڑھنے سے افضل ہے۔

【590】

مکہ اور مدینہ کی مسجدوں میں نماز پڑھنے کی فضیلت کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابن نمیر، ابواسامہ، ابن نمیر، محمد بن مثنی، عبدالوہاب، حضرت عبیداللہ سے اس سند کے ساتھ روایت منقول ہے۔

【591】

مکہ اور مدینہ کی مسجدوں میں نماز پڑھنے کی فضیلت کے بیان میں

ابراہیم بن موسی، ابن ابی زائدہ، موسی، نافع، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ اسی طرح فرماتے ہیں۔

【592】

مکہ اور مدینہ کی مسجدوں میں نماز پڑھنے کی فضیلت کے بیان میں

ابن ابی عمر، عبدالرزاق، معمر، ایوب، نافع، حضرت ابن عمر (رض) نبی کریم ﷺ سے اسی حدیث مبارکہ کی طرح روایت کرتے ہیں۔

【593】

مکہ اور مدینہ کی مسجدوں میں نماز پڑھنے کی فضیلت کے بیان میں

قتیبہ بن سعید و محمد بن رمح، لیث بن سعد، نافع، ابراہیم بن عبداللہ بن معبد، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ ایک عورت کو کچھ تکلیف ہوگئی تو وہ کہنے لگی کہ اگر مجھے اللہ نے شفا دے دی تو میں ضرور بیت المقدس میں جا کر نماز پڑھوں گی تو وہ ٹھیک ہوگئی پھر اس نے نکلنے کی تیاری شروع کردی تو حضرت میمونہ (رض) نبی ﷺ کی زوجہ مطہرہ کی خدمت میں آئی ان پر سلام کیا اور پھر انہیں اس کی خبر دی حضرت میمونہ (رض) نے فرمایا کہ بیٹھ جا اور جو تو نے کھانا بنایا ہے اسے کھا اور رسول اللہ ﷺ کی مسجد میں نماز پڑھ کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ اس مسجد نبوی میں نماز پڑھنا مسجد کعبہ کے علاوہ باقی تمام مسجدوں میں ایک ہزار نمازیں پڑھنے سے افضل ہے۔

【594】

تین مسجدوں کی فضیلت کے بیان میں

عمرو ناقد، زہیر بن حرب، ابن عیینہ، عمرو سفیان، سعید، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے انہیں نبی ﷺ کی یہ بات پہنچی فرمایا کہ کجاوے نہ باندھے جائیں یعنی سفر نہ کیا جائے سوائے تین مسجدوں کی طرف میری یہ مسجد (مسجد نبوی) مسجد حرام مسجد اقصیٰ

【595】

تین مسجدوں کی فضیلت کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، عبدالاعلی، معمر، حضرت زہری سے اس سند کے ساتھ روایت ہے سوائے اس کے کہ اس میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تین مسجدوں کی طرف سفر کیا جائے۔

【596】

تین مسجدوں کی فضیلت کے بیان میں

ہارون بن سعید، ابن وہب، عبدالحمید بن جعفر، عمران بن ابی انس، سلیمان، حضرت ابوہریرہ (رض) خبر دیتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ سفر کیا جائے تین مسجدوں کی طرف کعبہ کی مسجد اور میری مسجد (مسجد نبوی) اور مسجد ایلیا (مسجد اقصی) ۔

【597】

اس مسجد کے بیان میں جس کے بنیاد تقوی پر رکھی گئی

محمد بن حاتم، یحییٰ بن سعید، حمید، حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمن (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبدالرحمن بن ابی سعید خدری (رض) میرے پاس سے گزرے حضرت ابوسلمہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے ان سے عرض کیا کہ آپ نے اپنے باپ سے اس مسجد کے بارے میں کیا ذکر سنا ہے جس مسجد کی بنیاد تقوی پر رکھی گئی ہے۔ حضرت عبدالرحمن فرماتے ہیں کہ مجھ سے میرے باپ نے فرمایا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی ازواج مطہرات (رض) میں سے کسی زوجہ مطہرہ کے گھر میں گیا اور میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ان دو مسجدوں میں سے کونسی وہ مسجد ہے کہ جس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی ہے ؟ حضرت عبدالرحمن کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے کنکریوں کی ایک مٹھی لے کر اسے زمین پر مارا پھر فرمایا کہ تمہاری وہ مسجد یہ مسجد مدینہ ہے کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے آپ کے باپ سے اسی طرح ذکر کرتے ہوئے سنا ہے۔

【598】

اس مسجد کے بیان میں جس کے بنیاد تقوی پر رکھی گئی

ابوبکر بن ابی شیبہ، سعید بن عمرو، سعید، ابوبکر، حاتم بن اسماعیل، حمید بن ابی سلمہ، حضرت ابوسعید (رض) نے نبی ﷺ سے اسی طرح حدیث نقل کی۔

【599】

مسجد قباء کی فضیلت اور اس میں نماز پڑھنے کی اور اس کی زیارت کرنے کی فضیلت کے بیان میں

ابوجعفر، احمد بن منیع، اسماعیل بن ابراہیم، ایوب، نافع، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مسجد قبا کی زیارت کے لئے سواری پر اور پیدل چل کر بھی تشریف لے جاتے تھے۔

【600】

مسجد قباء کی فضیلت اور اس میں نماز پڑھنے کی اور اس کی زیارت کرنے کی فضیلت کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، عبداللہ بن نمیر، ابواسامہ، عبیداللہ، عبداللہ بن نمیر، ابواسامہ، عبیداللہ، ابن نمیر، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ مسجد قبا کبھی سواری پر اور کبھی پیدل چل کر بھی تشریف لے جاتے تھے اور اس میں دو رکعت نماز پڑھتے تھے ابوبکر نے اپنی روایت میں کہا کہ ابن نمیر کہتے ہیں کہ آپ ﷺ مسجد قبا میں دو رکعت نماز پڑھتے تھے۔

【601】

مسجد قباء کی فضیلت اور اس میں نماز پڑھنے کی اور اس کی زیارت کرنے کی فضیلت کے بیان میں

محمد بن مثنی، یحیی، عبیداللہ، نافع، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قباء سواری پر اور پیدل بھی جاتے تھے۔

【602】

مسجد قباء کی فضیلت اور اس میں نماز پڑھنے کی اور اس کی زیارت کرنے کی فضیلت کے بیان میں

ابومعن، زید بن یزید، ابن حارث، ابن عجلان، حضرت ابن عمر (رض) نے نبی ﷺ سے یحییٰ قطان کی حدیث کی طرح روایت کیا۔

【603】

مسجد قباء کی فضیلت اور اس میں نماز پڑھنے کی اور اس کی زیارت کرنے کی فضیلت کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، مالک، عبداللہ بن دینار، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ قباء سواری پر اور پیدل چل کر بھی تشریف لے جاتے تھے۔

【604】

مسجد قباء کی فضیلت اور اس میں نماز پڑھنے کی اور اس کی زیارت کرنے کی فضیلت کے بیان میں

یحییٰ بن ایوب، قتیبہ، ابن حجر، ابن ایوب، اسماعیل بن جعفر، عبداللہ بن دینار، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ قباء سواری پر اور پیدل چل کر بھی تشریف لے جاتے تھے۔

【605】

مسجد قباء کی فضیلت اور اس میں نماز پڑھنے کی اور اس کی زیارت کرنے کی فضیلت کے بیان میں

زہیر بن حرب، سفیان بن عیینہ، حضرت عبداللہ بن دینار (رض) سے روایت ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) ہر ہفتہ قباء تشریف لاتے تھے اور فرماتے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ ہر ہفتہ قباء تشریف لے جاتے تھے۔

【606】

مسجد قباء کی فضیلت اور اس میں نماز پڑھنے کی اور اس کی زیارت کرنے کی فضیلت کے بیان میں

ابن ابی عمر سفیان، عبداللہ بن دینار، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہر ہفتہ قباء کی مسجد میں تشریف لاتے آپ ﷺ سواری پر بھی تشریف لے جاتے تھے اور پیدل چل کر بھی تشریف لے جاتے تھے ابن دینار کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر (رض) بھی اسی طرح کرتے تھے۔

【607】

مسجد قباء کی فضیلت اور اس میں نماز پڑھنے کی اور اس کی زیارت کرنے کی فضیلت کے بیان میں

عبداللہ بن ہاشم، وکیع، سفیان، حضرت ابن دینار سے اس سند کے ساتھ روایت منقول ہے اور اس میں ہر ہفتہ کا ذکر نہیں ہے۔