27. وصیت کا بیان
تاحیات ہبہ کے بیان میں
ابوخیثمہ، زہیر بن حرب، محمد بن مثنی، یحیی، ابن سعید قطان، عبیداللہ، نافع، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اس مسلمان کے لئے مناسب نہیں جس کے پاس کوئی چیز ہو اور وہ اس میں وصیت کا ارادہ رکھتا ہو کہ وہ دو راتیں گزار دے سوائے اس کے کہ اس کی وصیت لکھی ہوئی اس کے پاس موجود نہ ہو۔
تاحیات ہبہ کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، عبدہ بن سلیمان، عبداللہ بن نمیر، ابن نمیر، حضرت عبیداللہ (رض) سے بھی دوسری سند کے ساتھ یہ حدیث مبارکہ مروی ہے اس میں یہ ہے کہ اس کے کوئی چیز ہو جس میں وصیت ہوسکتی ہو۔ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ وہ اس میں وصیت کرنے کا ارادہ رکھتا ہو۔
تاحیات ہبہ کے بیان میں
ابوکامل حجدری، حماد ابن زید، زہیر بن حرب، اسماعیل ابن علیہ، ایوب، ابوطاہر، ابن وہب، یونس، ہارون بن سعید ایلی، ابن وہب، اسامہ بن زید لیثی، محمد بن رافع، ابن ابی فدیک، ہشام ابن سعد، نافع، ابن عمران مختلف اسانید سے حضرت ابن عمر (رض) کی نبی کریم ﷺ سے یہ حدیث مروی ہے کہ اس کے پاس قبل وصیت کوئی چیز ہو۔ ایوب کی حدیث میں ہے کہ وصیت کرنے کا ارادہ رکھتا ہو یحییٰ عن عبیداللہ کی روایت کی طرح۔
تاحیات ہبہ کے بیان میں
ہارون بن معروف، ابن وہب، عمرو، ابن حارث، ابن شہاب، سالم، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا۔ آپ ﷺ نے فرمایا۔ کسی مسلمان مرد کے لئے مناسب نہیں ہے کہ اس کے پاس کوئی چیز قابل وصیت ہو اور وہ وصیت اپنے پاس لکھ کر رکھے بغیر تین راتیں گزار دے۔ عبداللہ بن عمر (رض) سے فرمایا جب سے میں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ حدیث سنی ہے مجھ پر ایک رات بھی نہیں گزری کہ جس میں میری وصیت میرے پاس موجود نہ ہو
تاحیات ہبہ کے بیان میں
ابوطاہر، حرملہ بن یحیی، ابن وہب، یونس، عبدالملک بن شعیب بن لیث، عقیل، ابن ابی عمر، عبد بن حمید، عبدالرزاق، معمر، حضرت زہری سے مختلف اسانید کے ساتھ یہ حدیث کی مروی ہے۔
تہائی مال کی وصیت کے بیان میں
یحییٰ بن یحییٰ تمیمی، ابراہیم بن سعد، ابن شہاب، عامر بن سعد، حضرت سعد (رض) سے روایت ہے کہ حجتہ الوداع کے موقعہ پر رسول اللہ ﷺ نے میری عیادت ایسے درد میں کی جس میں موت کے قریب ہوگیا تھا۔ عرض کیا اے اللہ کہ رسول ! آپ ﷺ جانتے ہیں کہ جیسا درد مجھے پہنچا ہے میں مالدار ہوں اور میرا، میری ایک بیٹی کہ سوا کوئی وارث نہیں۔ کیا میں اپنے مال سے دو تہائی خیرات کردوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں۔ میں نے عرض کیا کیا میں نصف خیرات کردوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں، بلکہ تہائی اور تہائی بہت ہے بیشک اگر تو اپنے وارثوں کو مالدار چھوڑے یہ اس سے بہتر ہے کہ تو انہیں تنگ دست لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے والا چھوڑے اور تو جو مال بھی خرچ کرتا ہے کہ اس سے اللہ کی رضا کا طالب ہوتا ہے تو اس پر تجھے اجر دیا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ لقمہ جو تو اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتا ہے۔ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! کیا میں اپنے ساتھیوں کے بعد پیچھے رہ جاؤں گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا تو ہرگز پیچھے نہ رہے گا اگر تو کوئی بھی عمل کرے گا جس سے اللہ کی رضا کا طالب ہوگا تو اس سے تیرا ایک درجہ بلند ہوگا اور بڑھے گا اور شاید تو پیچھے رہے یہاں تک کہ تیرے ذریعے لوگوں کو نفع دیا جائے گا اور دوسروں کو نقصان۔ اے اللہ ! میرے صحابہ (رض) کے لئے ان کی ہجرت کو پورا فرما دے اور ان کو اپنی ایڑھیوں پر واپس نہ لوٹا لیکن سعد بن خولہ نقصان اٹھانے والا ہے اور آپ ﷺ نے اس کے لئے افسوس کا اظہار فرمایا اس وجہ سے مکہ میں فوت ہوا۔
تہائی مال کی وصیت کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، ابوبکر بن ابی شیبہ، سفیان بن عیینہ، حرملہ، ابن وہب، یونس، اسحاق بن ابراہیم، عبد بن حمید، عبدالرزاق، معمر، حضرت زہری سے مختلف اسناد کے ساتھ یہ حدیث اسی طرح مروی ہے۔
تہائی مال کی وصیت کے بیان میں
اسحاق بن منصور، ابوداود، سفیان، سعد بن ابراہیم، عامربن سعد، حضرت سعد (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ میرے پاس میری عیادت کے لئے تشریف لائے۔ باقی حدیث زہری کی حدیث کی طرح ذکر کی ہے لیکن سعد بن خولہ (رض) کے بارے میں نبی کریم ﷺ کا قول ذکر نہیں کیا لیکن یہ فرمایا کہ حضرت سعد (رض) اس زمین میں مرنا ناپسند کرتے تھے جہاں سے انہوں نے ہجرت کی تھی۔
تہائی مال کی وصیت کے بیان میں
زہیر بن حرب، حسن بن موسی، زہیر، سماک بن حرب، مصعب بن سعد، حضرت سعد (رض) سے روایت ہے کہ میں بیمار ہوا تو میں نے نبی کریم ﷺ کے پاس پیغام بھیجا۔ میں نے عرض کیا مجھے آپ اپنے مال کے تقسیم کرنے کی اجازت دے دیں۔ جیسے میں چاہوں۔ آپ ﷺ نے انکار فرمایا۔ میں نے نصف کے لئے عرض کیا تو بھی آپ ﷺ نے انکار فرمایا میں نے تہائی کے لئے عرض کیا تو تہائی کے بعد آپ ﷺ خاموش رہے کہتے ہیں تو اس کے بعد ایک تہائی جائز ہوگیا۔
تہائی مال کی وصیت کے بیان میں
محمد بن مثنی، ابن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، سماک، حضرت سماک سے روایت ہے کہ اس سند کے ساتھ یہ حدیث اسی طرح مروی ہے لیکن انہوں نے اس کے بعد تہائی جائز ہوگیا کو ذکر نہیں کیا
تہائی مال کی وصیت کے بیان میں
قاسم بن زکریا، حسین بن علی، زائدہ، عبدالملک بن عمیر، مصعب بن سعد، حضرت سعد (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ میری عیادت کے لئے تشریف لائے تو میں نے عرض کیا میں اپنے پورے مال کی وصیت کر دوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں۔ میں نے آدھے کے لئے عرض کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا نہیں میں نے عرض کیا کیا تہائی کے لئے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں اور تہائی کے لئے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں اور تہائی بہت ہے۔
تہائی مال کی وصیت کے بیان میں
محمد بن ابی عمرم کی، ثقفی، ایوب سختیانی، عمرو بن سعید، حمید بن عبدالرحمن حمیری، حضرت سعد (رض) کے تینوں بیٹوں نے اپنے باپ سے روایت نقل کی ہے نبی کریم ﷺ مکہ میں حضرت سعد (رض) کے پاس ان کی عیادت کے لئے تشریف لائے تو وہ رو نے لگے۔ آپ ﷺ نے فرمایا تجھے کس چیز نے رلا دیا تو عرض کیا میں ڈرتا ہو کہ میں اس زمین میں مرجاؤں جہاں سے میں نے ہجرت کی جیسا کہ سعد بن خولہ فوت ہوگئے تو نبی کریم ﷺ نے تین مرتبہ فرمایا اے اللہ ! سعد کو شفاء دے۔ سعد نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ﷺ میرے پاس بہت کثیر مال و دولت ہے اور میری وارث میری بیٹی ہے کیا میں اپنے سارے مال کی وصیت کر دوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں اس نے عرض کی دو تہائی کی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں اس نے عرض کی آدھے کی آپ ﷺ نے فرمایا نہیں اس نے عرض کی ایک تہائی کی آپ ﷺ نے فرمایا تہائی کی اور تہائی بہت ہے اور تیرے اپنے مال سے صدقہ کرنا بھی صدقہ ہے اور تیرا اہل و عیال پر خرچ کرنا بھی صدقہ ہے اور یہ کہ تو اپنے اہل و عیال کو خوشحالی میں چھوڑے تو یہ بہتر ہے اس سے کہ تو انہیں اس حال میں چھوڑے کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہوں اور آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کر کہ یہ ارشاد فرمایا۔
تہائی مال کی وصیت کے بیان میں
ابوربیع عتکی، حماد، ایوب، عمرو بن سعد، حمید بن عبدالرحمن حمیری، حضرت سعد (رض) کہ تین بیٹوں سے روایت ہے کہ حضرت سعد (رض) مکہ میں بیمار ہوئے تو رسول اللہ ﷺ ان کے پاس ان کی عیادت کے لئے تشریف لائے۔ باقی حدیث ثقفی کی حدیث کی طرح ہے۔
تہائی مال کی وصیت کے بیان میں
محمد بن مثنی، عبدالاعلی، ہشام، محمد، حمید بن عبدالرحمن، حضرت سعد بن مالک (رض) کہ بیٹوں نے ایک دوسرے کی طرح حدیث روایت کی ہے کہ حضرت سعد مکہ میں بیمار ہوگئے تو نبی کریم ﷺ ان کی تیمارداری کے لئے تشریف لائے۔ باقی حدیث حمید حمیری کی حدیث کی طرح ہے۔
تہائی مال کی وصیت کے بیان میں
ابراہیم بن موسیٰ رازی، عیسیٰ یعنی ابن یونس، ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب، وکیع، ابوکریب، ابن نمیر، ہشام، عروہ، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ کاش لوگ تہائی سے کم کر کے چوتھائی میں وصیت کریں کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ثلث کی اجازت دی اور ارشاد فرمایا ثلث (تہائی) بہت ہے وکیع کی حدیث میں ہے کہ بہت ہے اور کثیر ہے۔
میت کو صدقات کا ثواب پہنچنے کے بیان میں
یحییٰ بن ایوب، قتیبہ بن سعید، علی بن حجر، اسماعیل ابن جعفر، الاعلاء، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا کہ میرا باپ فوت ہوگیا ہے اور اس نے مال چھوڑا ہے لیکن وصیت نہیں کی تو اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کروں تو اس کے گناہ معاف کئے جائیں گے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں۔
میت کو صدقات کا ثواب پہنچنے کے بیان میں
زہیر بن حرب، یحییٰ بن سعید، ہشام، سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا کہ میری ماں اچانک فوت ہوگئی ہے اور میرا اس کے بارے میں گمان ہے کہ اگر وہ بات کرتی تو صدقہ کرتی تو اگر میں اس کی طرف سے صدقہ دوں تو مجھے ثواب ملے گا ؟ آپ نے فرمایا جی ہاں۔
میت کو صدقات کا ثواب پہنچنے کے بیان میں
محمد بن عبداللہ بن نمیر، محمد بن بشر، ہشام، سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول ! ﷺ میری ماں کا اچانک انتقال ہوگیا ہے لیکن اس نے کوئی وصیت نہیں کی اور میرا اس کے بارے میں گمان ہے کہ اگر وہ بات کرتی تو صدقہ کرتی۔ اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا اس کے لئے ثواب ہوگا آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہاں۔
میت کو صدقات کا ثواب پہنچنے کے بیان میں
ابوکریب، ابواسامہ، حکم بن موسی، شعیب بن اسحاق، امیہ بن بسطام، یزید یعنی ابن زریع، روح، ابن قاسم، ابوبکر بن ابی شیبہ، جعفر بن عون، ہشام بن عروہ، یحییٰ بن سعید، شعیب، جعفر مختلف اسانید کے ساتھ یہ حدیث مروی ہے۔ معنی اور مفہوم ایک ہے۔
مر نے کے بعد کو انسان کو کس چیز کا ثواب ملتا رہتا ہے ؟
یحییٰ بن ایوب، قتیبہ، ابن حجر، اسماعیل بن جعفر، العلاء، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب انسان مرجاتا ہے تو تین اعمال کے علاوہ تمام اعمال منقطع ہوجاتے ہیں صدقہ جاریہ یا وہ علم جس سے نفع اٹھایا جائے یا نیک اولاد جو اس کے لئے دعا کرتی رہے۔
و قف کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، تمیمی، سلیم بن اخضر، ابن عون، نافع، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ حضرت عمر (رض) کو خبیر میں زمین ملی تو وہ نبی کریم ﷺ کے پاس اس کا مشورہ کرنے کے لئے حاضر ہوئے اور عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ مجھے خیبر میں ایسی زمین ملی ہے کہ اس جیسا مال مجھے کبھی نہیں ملا اور میرے نزدیک وہ سب سے محبوب چیز ہے۔ آپ ﷺ مجھے اس بارے میں کیا حکم فرماتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا اگر تم چاہو تو اصل زمین اپنے پاس روک رکھو اور اس کی پیداوار صدقہ کردو۔ تو حضرت عمر (رض) نے اسے اس شرط پر وقف کیا کہ اس کی ملکیت نہ فروخت کی جائے نہ خریدی جائے اور نہ میراث بنے اور نہ ہبہ کی جائے۔ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے اسے فقراء اور رشتہ داروں اور آزاد کرنے میں اور اللہ کے راستے میں اور مہمانوں میں صدقہ کردیا اور جو اس کا منتظم ہو وہ اس میں سے نیکی کے ساتھ کھائے یا اپنے دوستوں کو جمع کئے بغیر کھلائے راوی نے کہا میں نے یہ حدیث جب محمد بن سیرین کے سامنے بیان کی تو جب میں غیر متمول فیہ میں پہنچا تو محمد (رح) نے غَيْرَ مُتَأَثِّلٍ فرمایا ابن عون نے کہا مجھے اس نے خبر دی جس نے یہ کتاب پڑھی کہ اس میں غَيْرَ مُتَأَثِّلٍ مَالًا تھا
و قف کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابن ابی زائدہ، اسحاق، ازہر السمان، محمد بن مثنی، ابن ابی عدی، ابن عون اسی حدیث کی دوسری اسناد ذکر کی ہیں جو کہ ازہر کی روایت کے مطابق غَيْرَ مُتَمَوِّلٍ فیہ تک ختم ہوگئی ہے اور ابن عدی سے روایت ہے کہ اس بارے میں سلیم نے ذکر کیا کہ میں نے یہ حدیث محمد بن سیرین سے آخر تک بیان کی۔
و قف کے بیان میں
اسحاق بن ابراہیم، ابوداود، عمر بن سعد، سفیان، ابن عون، نافع، ابن عمر، حضرت عمر (رض) سے روایت ہے کہ مجھے زمین خیبر سے زمین ملی تو رسول اللہ ﷺ کہ پاس آیا اور میں نے عرض کیا مجھے ایسی زمین ملی جیسا کوئی مال مجھے نہ پسند ہے اور نہ ہی میرے نزدیک عمدہ ہے باقی حدیث گزر چکی ہے۔
جس کے پاس و صیت کیلے کوئی چیز نہ ہو اس کا وصیت کو ترک کرنے کے کہ بیان میں
یحییٰ بن یحییٰ تمیمی، عبدالرحمن بن مہدی، مالک بن مغول، طلحہ بن مصرف سے روایت ہے کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفیٰ (رض) سے پوچھا کیا رسول اللہ ﷺ نے وصیت کی تھی تو انہوں نے کہا نہیں میں نے کہا تو پھر مسلمان پر وصیت کیوں فرض کی گئی ہے یا انہیں وصیت کا حکم کیوں دیا گیا ہے انہوں نے کہا کہ کہ آپ ﷺ نے اللہ کی کتاب پر عمل کرنے کی وصیت کی
جس کے پاس و صیت کیلے کوئی چیز نہ ہو اس کا وصیت کو ترک کرنے کے کہ بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، وکیع، ابن نمیر، مالک بن مغول، اسی حدیث کی دو اسناد ذکر کی ہیں۔ حضرت وکیع (رح) کی حدیث مبارکہ میں ہے کہ میں نے کہا لوگوں کو وصیت کا حکم کیوں دیا گیا اور ابن نمیر کی حدیث مبارکہ میں ہے کہ میں نے کہا مسلمان پر وصیت کیوں فرض کی گئی ہے ؟
جس کے پاس و صیت کیلے کوئی چیز نہ ہو اس کا وصیت کو ترک کرنے کے کہ بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، عبداللہ بن نمیر، ابومعاویہ، اعمش، محمد بن عبداللہ بن نمیر، ابومعاویہ، اعمش، ابی وائل، مسروق، سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دینار نہ چھوڑا نہ درہم۔ بکری نہ اونٹ اور نہ ہی کسی چیز کی وصیت کی۔
جس کے پاس و صیت کیلے کوئی چیز نہ ہو اس کا وصیت کو ترک کرنے کے کہ بیان میں
زہیربن حرب و عثمان بن ابی شیبہ و اسحاق بن ابراہیم، جریر، علی بن خشرم، عیسیٰ و ہو ابن یونس، اعمش سے بھی یہ حدیث ان اسناد سے مروی۔
جس کے پاس و صیت کیلے کوئی چیز نہ ہو اس کا وصیت کو ترک کرنے کے کہ بیان میں
یحییٰ بن یحیی، ابوبکر بن ابی شیبہ، اسماعیل بن علیۃ، ابن عون، ابراہیم، حضرت اسود بن یزید سے روایت ہے کہ لوگوں نے سیدہ عائشہ (رض) کے پاس ذکر کیا کہ حضرت علی (رض) وصی تھے۔ سیدہ عائشہ (رض) نے فرمایا آپ ﷺ نے انہیں کب وصی بنایا ؟ حالانکہ آپ ﷺ نے میرے سینے کے ساتھ ٹیک لگائی ہوئی تھی یا میری گود میں اور آپ ﷺ نے ایک طشت منگوایا پھر آپ ﷺ میری گود میں گرپڑے اور مجھے آپ ﷺ کے وصال کا علم بھی نہ ہوا تو آپ ﷺ نے سیدنا علی (رض) کے لئے کب وصیت کی۔
جس کے پاس و صیت کیلے کوئی چیز نہ ہو اس کا وصیت کو ترک کرنے کے کہ بیان میں
سعید بن منصور، قتیبہ بن سعید، ابوبکر بن ابی شیبہ، عمرو ناقد، سفیان، سلیمان، حضرت سعید بن جبیر (رض) سے روایت ہے کہ ابن عباس (رض) نے جمعرات کے دن فرمایا جمعرات کا دن کیا ہے ؟ پھر رو دئیے یہاں تک کہ آنسوؤں نے کنکریوں کو تر کردیا میں نے عرض کیا اے ابن عباس (رض) جمرات کا دن کیا ہے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کے درد میں شدت ہوئی تو آپ ﷺ نے فرمایا میرے پاس (قلم وغیرہ) لاؤ تاکہ میں تمہارے لئے ایسی کتاب لکھ دوں کہ تم میرے بعد گمراہ نہ ہو گے۔ لوگوں نے جھگڑا کیا حالانکہ نبی کریم ﷺ کے پاس جھگڑا مناسب نہ تھا اور صحابہ کرام (رض) نے عرض کیا آپ ﷺ کا کیا حال ہے کیا آپ ﷺ جدا ہو رہے ہیں ؟ پھر آپ ﷺ سے سمجھ لو۔ آپ ﷺ نے فرمایا مجھے چھوڑ دو اور جس امر میں میں مشغول ہوں وہ بہتر ہے میں تمہیں تین باتوں کی وصیت کرتا ہوں مشرکین کو جزیرہ عرب سے نکال دو اور وفود کو پورا پورا اسی طرح دو جس طرح میں انہیں پورا پورا ادا کرتا ہوں اور ابن عباس (رض) تیسری بات سے خاموش ہوگئے یا آپ نے فرمایا لیکن میں اسے بھول گیا۔
جس کے پاس و صیت کیلے کوئی چیز نہ ہو اس کا وصیت کو ترک کرنے کے کہ بیان میں
اسحاق بن ابراہیم، وکیع، مالک بن مغول، طلحہ بن مصرف، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے جمعرات کے دن کہا، جمعرات کا دن کیا ہے ؟ پھر ان کے آنسو جاری ہو گے۔ یہاں تک کہ میں نے آنسو ان کے رخساروں پر موتیوں کی لڑیوں کی طرح دیکھے اور کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میرے پاس ہڈی اور دوات یا تختی اور دوات لاؤ تاکہ میں تمہیں ایسی کتاب لکھ دوں کہ اس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہو گے۔ صحابہ (رض) نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ (دنیا) چھوڑ رہے ہیں۔
جس کے پاس وصیت کیلے کوئی چیز نہ ہو اس کا وصیت کو ترک کرنے کے کہ بیان میں
محمد بن رافع، عبد بن حمید، ابن رافع، عبدالرزاق، معمر، زہری، عبیداللہ بن عبداللہ، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کے وصال کا وقت آیا تو آپ ﷺ کے گھر میں کئی صحابہ تھے ان میں سے عمر بن خطاب (رض) بھی تھے نبی کریم ﷺ نے فرمایا آؤ میں تمہیں ایسی کتاب لکھ دوں کہ تم اس کے بعد گمراہ نہ ہوگے حضرت عمر (رض) نے عرض کیا کہ رسول اللہ ﷺ پر تکلیف کا غلبہ ہے اور تمہارے پاس قرآن ہے اور ہمارے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے تو اہل بیت میں اختلاف اور جھگڑا ہوا ان میں سے بعض وہ تھے جو کہتے تھے کہ نزدیک کرو تاکہ رسول اللہ ﷺ تمہارے لئے ایسی کتاب لکھ دیں کہ اس کہ بعد تم ہرگز گمراہ نہ ہوگئے اور ان میں سے بعض نے وہی کہا جو حضرت عمر (رض) نے کہا جب رسول اللہ ﷺ کے پاس بحث اور اختلاف زیادہ ہوگیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کھڑے ہوجاؤ عبیداللہ نے کہا کہ ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ پریشانیوں میں سب سے بڑی پریشانی کی بات جو رسول اللہ ﷺ اور اس کتاب کے لکھنے کے درمیان حائل ہوئی وہ بحث اور اختلاف تھا۔