28. نذر کا بیان
نذر کو پورا کرنے کے حکم کے بیان میں
یحییٰ بن یحییٰ تمیمی، محمد بن رمح ابن مہاجر، لیث، قتیبہ بن سعید، لیث ابن شہاب، عبیداللہ بن عبداللہ، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ حضرت سعد بن عبادہ (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے اس نذر کے بارے میں فتوی طلب کیا جو ان کی والدہ پر تھی اور وہ اسے پورا کرنے سے قبل فوت ہوگئی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اسے تو اس کی طرف سے ادا کر دے۔
نذر کو پورا کرنے کے حکم کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، مالک، ابوبکر بن ابی شیبہ، عمرو ناقد، اسحاق بن ابراہیم، ابن عیینہ، حرملہ بن یحیی، ابن وہب، یونس، اسحاق بن ابراہیم، عبد ابن حمید، عبدالرزاق، معمر، عثمان بن ابی شیبہ، عبدہ بن سلیمان، ہشام بن عروہ، بکر بن وائل، زہری اسی حدیث بالا کی دوسری اسناد ذکر کی ہیں۔ ان سب نے بھی اسی معنی کی حدیث ذکر کی ہے۔
نذر ماننے سے ممانعت کے بیان میں اور یہ کہ اس سے کوئی چیز نہیں رکتی
زہیر بن حرب، اسحاق بن ابراہیم، جریر، منصور، عبداللہ بن مرہ، حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ ایک دن رسول ﷺ ہمیں نذر سے منع فرمانے لگے اور فرمانے لگے کہ وہ کسی چیز کو نہیں ٹالتی۔ اس کے ذریعہ تو صرف بخیل ہی سے مال نکلوایا جاتا ہے۔
نذر ماننے سے ممانعت کے بیان میں اور یہ کہ اس سے کوئی چیز نہیں رکتی
محمد بن یحیی، یزید بن ابی حکیم، سفیان، عبداللہ بن دینار، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ نذر کسی چیز کو نہ آگے کرسکتی ہے نہ پیچھے۔ اس کے ذریعہ تو صرف بخیل سے مال نکلوایا جاتا ہے۔
نذر ماننے سے ممانعت کے بیان میں اور یہ کہ اس سے کوئی چیز نہیں رکتی
ابوبکر بن ابی شیبہ، غندر، شعبہ، محمد بن مثنی، ابن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، منصور، عبداللہ بن مرہ، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے نذر ماننے سے منع فرمایا اور فرمایا کہ وہ کوئی نہیں لاتی اس کے ذریعہ تو صرف بخیل ہی سے مال نکلوایا جاتا ہے۔
نذر ماننے سے ممانعت کے بیان میں اور یہ کہ اس سے کوئی چیز نہیں رکتی
محمد بن رافع، یحییٰ بن آدم، مفضل، محمد بن مثنی، ابن بشار، عبدالرحمن، سفیان، منصور، جریر اسی حدیث کی دوسری اسناد ذکر کی ہیں
نذر ماننے سے ممانعت کے بیان میں اور یہ کہ اس سے کوئی چیز نہیں رکتی
قتیبہ بن سعید، عبدالعزیز در اور دی، العلاء، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم نذر نہ مانو کیونکہ نذر سے تقدیر کو کچھ فائدہ نہیں۔ اس کے ذریعہ تو صرف بخیل ہی سے مال نکلوایا جاتا ہے
نذر ماننے سے ممانعت کے بیان میں اور یہ کہ اس سے کوئی چیز نہیں رکتی
محمد بن مثنی، ابن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، العلاء، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے نذر سے منع فرمایا اور فرمایا وہ تقدیر کو نہیں بدل سکتی۔ اس کے ذریعہ تو صرف بخیل سے مال نکلوایا جاتا ہے۔
نذر ماننے سے ممانعت کے بیان میں اور یہ کہ اس سے کوئی چیز نہیں رکتی
یحییٰ بن ایوب، قتیبہ ابن سعید، علی بن حجر، اسماعیل، ابن جعفر، عمرو، عبدالرحمن اعرج، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا نذر کوئی ایسی چیز ابن آدم کے قریب نہیں کرسکتی جسے اللہ نے اس کی تقدیر میں نہ کیا ہو لیکن نذر تو تقدیر ہی کی موافقت کرتی ہے اور یہ بخیل سے وہ چیز نکالنے کا ذریعہ ہے جسے وہ نکالنے کا ارادہ نہ رکھتا تھا۔
نذر ماننے سے ممانعت کے بیان میں اور یہ کہ اس سے کوئی چیز نہیں رکتی
قتیبہ بن سعید، یعقوب ابن عبدالرحمن قاری، عبدالعزیز در اور دی، عمرو بن ابی عمرو اسی حدیث کی دوسری سند ذکر کی ہے۔
اللہ کی نا فرمانی کی نذر پورا نہ کرے اور جس پر قادر نہ ہو اسے پورا نہ کرنے کا بیان
زہیر بن حرب، علی بن حجر سعدی، زہیر، اسماعیل بن ابراہیم، ایوب، ابی قلابہ، ابی المہلب، حضرت عمران بن حصین (رض) سے روایت ہے کہ ثقیف، بنوعقیل کے حلیف تھے ثقیف نے اصحاب رسول اللہ ﷺ میں سے دو آدمیوں کو قید کرلیا اور اصحاب رسول اللہ ﷺ نے بنی عقیل میں سے آدمی کو قید کرلیا اور اس کے ساتھ عضباء اونٹنی کو بھی گرفتار کیا۔ رسول اللہ ﷺ اس کے پاس تشریف لائے اس حال میں کہ بندھا ہوا تھا۔ اس نے کہا اے محمد ﷺ ! آپ ﷺ اس کے پاس آئے اور اس سے کہا کیا بات ہے ؟ تو اس نے عرض کیا آپ ﷺ نے مجھے کیوں پکڑا اور کس وجہ سے حاجیوں (کی اونٹنیوں) پر سبقت لے جانے والی (او نٹنی) کو گرفتار کیا ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا اس بڑے قصور کی وجہ سے میں نے تجھے تمہارے حلیف ثقیف کے بدلے گرفتار کیا ہے۔ پھر آپ اس سے لوٹے تو اس نے آپ ﷺ کو اے محمد ! اے محمد ! کہہ کر پکارا اور رسول اللہ ﷺ مہربان اور نرم دل تھے آپ اس کی طرف لوٹے تو پھر فرمایا کیا بات ہے تو اس نے کہا میں مسلمان ہوں آپ نے فرمایا کاش تو یہ بات اس وقت کہتا جب تو اپنے معاملہ کا مکمل طور پر مالک تھا تو تو پوری کامیابی حاصل کرچکا ہوتا یہ کہہ کر آپ ﷺ پھر لوٹے تو اس نے آپ ﷺ کو یا محمد ! یا محمد کہہ کر پکارا۔ آپ ﷺ اس کے پاس آئے اور فرمایا کیا بات ہے ؟ تو اس نے کہا میں بھوکا ہوں مجھے کھلائیے اور میں پیاسا ہو مجھے پلائے۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا یہ تیری حاجت و ضرورت ہے یعنی اسے کھلایا اور پلایا۔ پھر اسے ان دو آدمیوں کا فدیہ بنایا گیا۔ (جنہیں ثقیف نے گرفتار کیا تھا) راوی کہتا ہے کہ انصار میں سے ایک عورت اور عضباء (اونٹنی) گرفتار کرلی گئی اور وہ عورت بندھی ہوئی تھی اور قوم کے لوگ اپنے گھروں کے سامنے اپنے جانوروں کو آرام دے رہے تھے ایک دن وہ گرفتاری سے بھاگ نکلی اور اونٹوں کے پاس آئی جب وہ کسی اونٹ کے پاس جاتی وہ آواز نکالتا تو وہ اسے چھوڑ دیتی یہاں تک کہ وہ عضباء تک پہنچی تو اس نے آواز نہ کی اور وہ اونٹنی نہایت مسکین تھی تو وہ عورت اس کی پیٹھ پر بیٹھ گئی پھر اسے ڈانٹا تو چل دی۔ کافروں کو خبر ہوئی۔ وہ اس کی تلاش میں نکلے تو عضباء نے ان کو عاجز کردیا۔ راوی کہتا ہے اور اس نے اللہ کے لئے نذر مانی کہ اگر اس عضباء نے اسے نجات دلا دی تو وہ اس ناقہ کو قربان کر دے گی جب وہ مدینہ آئی اور لوگوں نے اسے دیکھا تو انہوں نے کہا یہ عضباء تو رسول اللہ ﷺ کی اونٹنی ہے۔ تو اس عورت نے کہا کہ اس (میں) نے نذر مانی ہے کہ اگر اللہ اسے اس اونٹنی کے ساتھ نجات دے تو اسے نحر کرے گی۔ صحابہ (رض) نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا اللہ پاک ہے اس عورت نے اس اونٹنی کو برا بدلہ دیا کہ اس نے اللہ کے لئے نذر مانی اگر اللہ اسے اس پر سوار ہونے کی صورت میں نجات دے تو وہ اسے نحر کرے گی۔ نافرمانی کے لئے مانی جانے والی نذر کا پورا کرنا ضر روی نہیں اور نہ ہی اس چیز کی نذر جس کا انسان مالک نہیں ہے اور ابن حجر کی روایت میں ہے اللہ کی نافرمانی میں نذر نہیں ہے۔
اللہ کی نا فرمانی کی نذر پورا نہ کرے اور جس پر قادر نہ ہو اسے پورا نہ کرنے کا بیان
ابوربیع عتکی، حماد ابن زید، اسحاق بن ابراہیم، ابن ابی عمر، عبدالوہاب ثقفی، ایوب، اسی حدیث کی دو اسناد مزید ذکر کی ہیں اور حضرت حماد کی حدیث میں ہے کہ عضباء بنی عقیل میں سے ایک آدمی کی تھی اور حاجیوں کی آگے رہنے والی اونٹنیوں میں سے تھی اور مزید ان کی حدیث میں یہ بھی ہے کہ وہ عورت ایسی اونٹنی پر آئی جو مسکین تھی اور (اس کے گلے میں) گھنٹی ڈالی ہوئی تھی ثقفی کی حدیث میں ہے کہ وہ اونٹنی سکھائی ہوئی تھی۔
کعبہ کی طرف پیدل چل کر جانے کی نذر کے بیان میں
یحییٰ بن یحییٰ تمیمی، یزید بن زریع، حمید، ثابت، حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک بوڑھے کو اپنے دو بیٹوں کے درمیان ٹیک لگائے (چلتے) ہوئے دیکھا تو فرمایا اس کا کیا حال ہے ؟ صحابہ (رض) نے عرض کیا کہ اس نے پیدل چلنے کی نذر مانی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا اللہ اس کے نفس کو عذاب دینے سے بےپرواہ ہے اور اسے سوار ہونے کا حکم دیا
کعبہ کی طرف پیدل چل کر جانے کی نذر کے بیان میں
یحییٰ بن ایوب، قتیبہ، ابن حجر، اسماعیل، ابن جعفر، عمرو، عبدالرحمن اعرج، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک بوڑھے کو اپنے بیٹوں پر ٹیک لگا کر چلتے ہوئے پایا تو ارشاد فرمایا اسے کیا ہوا ؟ تو اس کے بیٹوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ اس پر ایک نذر تھی۔ تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا اے بوڑھے ! سوار ہوجا کیونکہ اللہ تعالیٰ تجھ سے اور تیری نذر سے بےپرواہ ہے
کعبہ کی طرف پیدل چل کر جانے کی نذر کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، عبدالعزیز در اور دی، حضرت عمر بن ابی عمرو سے بھی ان اسناد سے یہ حدیث اسی طرح مروی ہے۔
کعبہ کی طرف پیدل چل کر جانے کی نذر کے بیان میں
زکریا بن یحییٰ ابن صالح مصری، مفضل ابن فضالہ، عبداللہ بن عیاش، یزید بن ابی حبیب، حضرت عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ میری بہن نے بیت اللہ کی طرف ننگے پاؤں چل کر جانے کی نذر مانی مجھے حکم دیا کہ میں اس کے لئے رسول اللہ ﷺ سے فتوی طلب کروں تو آپ ﷺ نے فرمایا چاہیے کہ وہ پیدل چلے اور سوار بھی ہو۔
کعبہ کی طرف پیدل چل کر جانے کی نذر کے بیان میں
محمد بن رافع، عبدالرزاق، ابن جریج، سعید بن ابی ایوب، یزید بن ابی حبیب، حضرت عقبہ بن عامر جہنی (رض) سے روایت ہے کہ میری بہن نے نذر مانی باقی حدیث مفضل کی حدیث ہی کی طرح ذکر کی اور حدیث میں ننگے پاؤں کا ذکر نہیں کیا اور یہ اضافہ بھی کیا کہ ابوالخیر عقبہ سے جدا نہیں ہوئے تھے
کعبہ کی طرف پیدل چل کر جانے کی نذر کے بیان میں
محمد بن حاتم، ابن ابی خلف، روح بن عبادہ، ابن جریج، یحییٰ بن ایوب، حضرت یزید بن حبیب نے اس اسناد کے ساتھ عبدالرزاق کی حدیث نقل کی ہے
نذر کے کفارہ کا بیان
ہارون بن سعید ایلی، یونس بن عبدالاعلی، احمد بن عیسی، یونس، ابن وہب، عمر بن حارث، کعب بن علقمہ، عبدالرحمن ابن شماسہ، ابی الخیر، حضرت عقبہ بن عامر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا نذر کا کفارہ وہی ہے جو قسم کا کفارہ ہے