30. قسامت کا بیان
ثبوت قتل کے لئے قسمیں اٹھا نے کے بیان میں۔
قتیبہ بن سعید، لیث، یحیی، ابن سعید، بشیر بن یسار، سہل بن ابی حثمہ، یحیی، رافع بن خدیج، عبداللہ بن سہل بن زید، محیصہ ابن مسعود ابن زید، حضرت سہل بن ابی حثمہ سے روایت ہے اور یحییٰ نے کہا میں گمان کرتا ہوں کہ بشیر نے رافع بن خدیج (رض) کا بھی ذکر کیا وہ دونوں فرماتے ہیں یہاں تک کہ عبداللہ بن سہل بن زید اور محیصہ ابن مسعود بن زید نکلے یہاں تک کہ جب وہ دونوں خیبر پہنچے تو بعض وجوہات کی بناء پر ایک دوسرے سے جدا ہوگئے پھر حضرت محیصہ نے عبداللہ بن سہل کو مقتول پایا تو اسے دفن کردیا پھر محیصہ اور حویصہ بن مسعود اور عبدالرحمن بن سہل رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عبدالرحمن بن سہل نے سب سے پہلے بولنا شروع کیا تو رسول اللہ ﷺ نے اسے فرمایا جو عمر میں بڑا ہے اس کی عظمت کا خیال رکھو تو وہ خاموش ہوگیا اس کے ساتھیوں نے گفتگو کی اور اس نے بھی ان کے ساتھ گفتگو کی تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے عبداللہ بن سہل کے قتل کی جگہ کا ذکر کیا تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کیا تم اپنے قتل کو ثابت کرلو گے۔ انہوں نے عرض کیا کہ ہم کیسے قسمیں اٹھائیں حالانکہ ہم وہاں موجود نہ تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا پھر یہود پچاس قسموں کے ساتھ اپنی برأت ثابت کرلیں گے۔ انہوں نے عرض کیا کہ ہم کافر قوم کی قسموں کو کیسے قبول کرسکتے ہیں۔ جب یہ صورت حال رسول اللہ ﷺ نے دیکھی تو اپنے پاس سے اس کی دیت ادا کردی۔
ثبوت قتل کے لئے قسمیں اٹھا نے کے بیان میں۔
عبیداللہ بن عمر قواریری، حماد بن زید، یحییٰ بن سعید، بشیر بن یسار، سہل بن ابی حثمہ، رافع بن خدیج، محیصہ بن مسعود، عبداللہ بن سہل، حضرت سہل بن ابی حثمہ اور رافع بن خدیج (رض) سے روایت ہے کہ محیصہ بن مسعود (رض) اور عبداللہ بن سہل (رض) خبیر کی طرف چلے اور ایک باغ میں جدا ہوگئے تو عبداللہ بن سہل قتل کر دئیے گئے۔ یہود کو متہم کیا گیا تو اس کا بھائی عبدالرحمن اور اس کے چچا کے بیٹے حویصہ اور محیصہ نبی کریم ﷺ کے پاس حاضر ہوئے۔ عبدالرحمن نے اپنے بھائی کے معاملہ میں بات کرنا شروع کی اور وہ ان میں سب سے چھوٹا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بڑے کی عظمت کرو یا فرمایا چاہیے کہ سب سے بڑا (بات) شروع کرے۔ تو حویصہ و محیصہ نے اپنے ساتھی کے معاملہ میں گفتگو کی۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میں سے پچاس آدمی ان (یہودیوں) میں سے کسی آدمی پر قسم کھائیں تو وہ اپنے گلے کی رسی کے ساتھ حوالہ کردیا جائے گا (یعنی اسے بھی قصاصا قتل کیا جائے گا) ۔ تو انہوں نے عرض کیا یہ ایسا معاملہ ہے کہ ہم اس وقت موجود نہ تھے ہم کیسے قسم اٹھا سکتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا یہود اپنے میں سے پچاس آدمیوں کی قسموں کے ساتھ تم سے بری ہوجائیں گے۔ انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! ﷺ وہ تو کافر قوم ہیں۔ تو رسول اللہ ﷺ نے اپنے پاس سے اس کی دیت ادا کی۔ سہل نے کہا میں ایک دن اونٹوں کے باندھنے کی جگہ داخل ہوا تو ان اونٹوں میں سے ایک اونٹنی نے اپنے پاوں کے ساتھ مجھے مارا۔
ثبوت قتل کے لئے قسمیں اٹھا نے کے بیان میں۔
قواریری، بشر بن مفصل، یحییٰ بن سعید، بشیر بن یسار، حضرت سہل بن ابی حثمہ (رض) نے نبی کریم ﷺ سے اسی طرح حدیث روایت کی ہے اور اپنی حدیث میں انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کی دیت اپنے پاس سے ادا کردی اور اس میں نے یہ نہیں کہا کہ اونٹنی نے مجھے لات مار دی تھی۔
ثبوت قتل کے لئے قسمیں اٹھا نے کے بیان میں۔
عمرو ناقد، سفیان بن عیینہ، محمد بن مثنی، عبدالوہاب یعنی ثقفی، یحییٰ بن سعید، بشیر بن یسار، حضرت سہل بن ابی حثمہ (رض) سے ان کی حدیث کی مثل حدیث کی سند ذکر کی ہے۔
ثبوت قتل کے لئے قسمیں اٹھا نے کے بیان میں۔
عبداللہ بن مسلمہ، قعنب، سلیمان بن بلال، یحییٰ بن سعید، بشیر بن یسار، عبداللہ بن سہل بن زید، محیصہ بن مسعود بن زیدالانصاری، حضرت بشیر بن یسار (رض) سے روایت ہے کہ بنوحارثہ میں سے عبداللہ بن سہل زید اور محیصہ بن مسعود بن زید انصاری رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ایام صلح میں خیبر کی طرف نکلے اور وہاں کے رہنے والے یہود تھے۔ انہیں ان کی کسی حاجت نے الگ الگ کردیا تو عبداللہ بن سہل قتل کر دئیے گئے اور ایک حوض میں مقتول پائے گے۔ اس کے ساتھی نے اسے دفن کردیا۔ پھر مدینہ کی طرف آیا تو مقتول کا بھائی عبدالرحمن بن سہل محیصہ اور حویصہ چلے اور رسول اللہ ﷺ سے عبداللہ اور اس جگہ کا جہاں وہ قتل کیا گیا تھا کا حال ذکر کیا اور بشیر کا گمان ہے کہ وہ ان لوگوں سے روایت کرتا ہے جنہیں اس نے اصحاب رسول ﷺ میں سے پایا ہے کہ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا پچاس قسمیں کھاؤ اور اپنے قاتل یا مدعی علیہ پر خون ثابت کرو۔ انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! ﷺ ہم نہ اس وقت موجود تھے نہ ہم نے قاتل کو دیکھا۔ بشیر کا گمان ہے، آپ نے فرمایا پھر یہود تم سے پچاس قسموں کے ساتھ بری ہوئیں گے۔ انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! ﷺ ہم کافر قوم کی قسمیں کیسے قبول کرسکتے ہیں ؟ بشیر کا گمان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کی دیت اپنے پاس سے ادا کی۔
ثبوت قتل کے لئے قسمیں اٹھا نے کے بیان میں۔
یحییٰ بن یحیی، ہشیم، یحییٰ بن سعید، بشیر بن یسار، عبداللہ بن سہل بن زید، حضرت بشیر بن یسار (رض) سے روایت ہے کہ انصار میں سے بنی حارثہ کا ایک آدمی جسے عبداللہ بن سہل بن زید کہا جاتا ہے چلے۔ باقی حدیث لیث کی حدیث کی طرح گزر چکی۔ اس کے قول کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کی دیت اپنے پاس سے ادا کی۔ یحییٰ نے کہا مجھے بشیر بن سہل نے بیان کیا کہ مجھے سہل بن ابی حثمہ (رض) نے خبر دی کہ مجھے ان اونٹنیوں کے باڑے میں سے ایک اونٹنی نے لات مار دی تھی
ثبوت قتل کے لئے قسمیں اٹھا نے کے بیان میں۔
محمد بن عبداللہ بن نمیر، سعید بن عبید، بشیر بن یسار انصاری، حضرت سہل بن ابی حثمہ انصاری (رض) سے روایت ہے کہ ان میں سے آدمی خبیر کی طرف چلے اور اس میں وہ جدا جدا ہوگئے اور انہوں نے اپنے میں سے ایک کو مقتول پایا۔ باقی حدیث گزر چکی اور اس میں یہ کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ناپسند کیا اس بات کو کہ اس کا خون ضائع کیا جائے۔ پس آپ ﷺ نے اس کی دیت سو اونٹ صدقہ کے اونٹوں سے ادا کی۔
ثبوت قتل کے لئے قسمیں اٹھا نے کے بیان میں۔
اسحاق بن منصور، بشر بن عمر، ابولیلی بن عبداللہ بن عبدالرحمن بن سہل، حضرت سہل بن ابی حثمہ (رض) سے روایت ہے کہ اسے اس کی قوم کے بڑوں نے خبر دی کہ عبداللہ بن سہل (رض) اور محیصہ (رض) کسی تکلیف کی وجہ سے خبیر گئے۔ حضرت محیصہ (رض) نے آکر خبر دی کہ عبداللہ بن سہل قتل کردیئے گئے ہیں اور اسے کسی چشمہ یا کنوئیں میں پھینک دیا گیا وہ یہود کے پاس گئے اور کہا : اللہ کی قسم ! تم نے اسے قتل کیا ہے۔ انہوں نے کہا : اللہ کی قسم ! ہم نے اسے قتل نہیں کیا پھر محیصہ لوٹے یہاں تک کہ اپنی قوم کے پاس آئے اور ان سے اس کا ذکر کیا پھر وہ اور اس کے بڑے بھائی حویصہ اور عبدالرحمن بن سہل (آپ کے پاس) آئے پس محیصہ نے گفتگو کرنا شروع کی کیونکہ وہ خیبر میں تھے تو رسول اللہ ﷺ نے محیصہ سے فرمایا بڑے کا لحاظ رکھو۔ ارادہ کرتے تھے عمر کے بڑے ہونے کا تو حویصہ نے بات شروع کی پھر محیصہ نے گفتگو کی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ وہ یہود آپ کے بھائی کی دیت ادا کریں یا جنگ کے لئے تیار ہوجائیں تو انہوں نے جوابا لکھا کہ اللہ کی قسم ہم نے اسے قتل نہیں کیا رسول اللہ ﷺ نے حویصہ محیصہ اور عبدالرحمن (رض) کہا کیا تم قسم اٹھا کر اپنے بھائی کا خون ثابت کرتے ہو انہوں نے کہا نہیں آپ ﷺ نے فرمایا تو یہود تمہارے لئے قسمیں اٹھائیں گے۔ تو انہوں نے کہا کہ وہ مسلمان نہیں ہیں تو رسول اللہ ﷺ نے اس کی دیت اپنے پاس سے ادا کی اور ان کی طرف رسول اللہ ﷺ نے سو اونٹنیاں بھیجیں۔ یہاں تک کہ وہ ان کے پاس ان کے گھر میں پہنچا دی گیئں۔ تو سہل نے کہا کہ ان میں سے سرخ اونٹنی نے مجھے لات مار دی۔
ثبوت قتل کے لئے قسمیں اٹھا نے کے بیان میں۔
ابوطاہر، حرملہ بن یحیی، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمن اور زوجہ نبی ﷺ میمونہ (رض) کے آزاد کردہ غلام سلیمان بن یسار (رض) سے روایت ہے کہ انصار اصحاب رسول اللہ ﷺ میں سے ایک آدمی نے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے قسامت کو اسی طرح باقی رکھا جس طرح جاہلیت میں تھی۔
ثبوت قتل کے لئے قسمیں اٹھا نے کے بیان میں۔
محمد بن رافع، عبدالرزاق، ابن جریج، حضرت ابن شہاب (رض) سے بھی ان اسناد سے یہ حدیث روایت کی گئی ہے اور اضافہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے انصار کے درمیان قسامت کا فیصلہ کیا ایک مقتول کے بارے میں جس کے قتل کا انہوں نے یہود پر دعوی کیا تھا
ثبوت قتل کے لئے قسمیں اٹھا نے کے بیان میں۔
حسن بن علی حلوانی، یعقوب ابن ابراہیم بن سعد، صالح، ابن شہاب، حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمن اور سلیمان بن یسار (رض) نے انصار میں سے بعض لوگوں کے واسطہ سے یہی حدیث ابن جریج کی طرح نبی کریم ﷺ سے روایت کی ہے۔
لڑنے والوں اور دین سے پھر جانے والوں کے حکم کے بیان
یحییٰ بن یحییٰ تمیمی، ابوبکر بن ابی شیبہ، ہشیم، عبدالعزیز بن صہیب، حمید، حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ قبیلہ عرینہ کے کچھ لوگ مدینہ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہیں مدینہ کی آب و ہوا موافق نہ آئی تو آپ ﷺ نے انہیں کہا اگر تم چاہو تو صدقہ کے اونٹوں کی طرف نکل جاؤ اور ان کا دودھ اور پیشاب پیو۔ پس انہوں نے ایسا ہی کیا تو وہ تندرست ہوگئے۔ پھر وہ چرواہوں پر متوجہ ہوئے انہیں قتل کردیا اور اسلام سے پھرگئے اور رسول اللہ ﷺ کے اونٹ لے گئے۔ نبی کریم ﷺ کو یہ اطلاع پہنچی تو آپ نے (صحابہ (رض) کو) ان کے پیچھے بھیجا۔ پس انہیں حاضر خدمت کیا گیا تو آپ ﷺ نے ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیئے اور ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھر وائیں اور انہیں گرمی میں چھوڑ دیا یہاں تک کہ وہ مرگئے۔
لڑنے والوں اور دین سے پھر جانے والوں کے حکم کے بیان
ابوجعفر، محمد بن صباح، ابوبکر بن ابی شیبہ، ابی بکر، ابن علیہ، حجاج بن ابی عثمان، ابورجاء مولیٰ ابی قلابہ، ابی قلابہ، حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ قبیلہ عکل کے آٹھ آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ ﷺ سے اسلام پر بیعت کی انہیں ( مدینہ کی) آب ہوا موافق نہ آئی اور ان کے جسم کمزور ہو گے انہوں نے اس بات کی شکایت نبی ﷺ سے کی تو آپ ﷺ نے فرمایا تم ہمارے چرواہوں کے ساتھ ہمارے اونٹوں میں کیوں نہیں نکل جاتے ان کا پیشاب اور دودھ پیو۔ انہوں نے اونٹوں کا پیشاب اور دودھ پیا تو تندرست ہوگئے۔ اس کے بعد انہوں نے چرواہے قتل کردیئے اور اونٹ لے کر چلے گئے۔ رسول اللہ ﷺ کو اس بات کی اطلاع ملی تو آپ ﷺ نے ان کے پیچھے لوگوں کو بھیجا۔ انہوں نے انہیں پا لیا۔ تو انہیں لایا گیا اور آپ ﷺ نے ان کے ہاتھ پاؤں کاٹنے کا حکم فرمایا اور ان کی آنکھوں میں سلائیاں ڈالی گئیں پھر انہیں دھوپ میں ڈال دیا گیا یہاں تک کہ وہ مرگئے۔
لڑنے والوں اور دین سے پھر جانے والوں کے حکم کے بیان
ہارون بن عبداللہ، سلیمان بن حرب، حماد بن زید، ایوب، ابی رجاء مولیٰ ابی قلابہ، حضرت انس مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس عکل یا عرینہ کے لوگ آئے تو انہیں مدینہ کی آب و ہوا موافق نہ آئی لہذا انہیں رسول اللہ ﷺ نے اونٹوں کے باڑے میں جانے کا حکم دیا اور انہیں ان کا پیشاب اور دودھ پینے کا حکم فرمایا۔ باقی حدیث گزر چکی اور فرمایا ان کی آنکھوں میں سلایاں ڈالی گئیں اور انہیں میدان حرہ میں ڈال دیا گیا۔ وہ پانی مانگتے تھے لیکن انہیں پانی نہ دیا گیا۔
لڑنے والوں اور دین سے پھر جانے والوں کے حکم کے بیان
محمد بن مثنی، معاذ بن معاذ، احمد بن عثمان نوفلی، ازہر سمان، ابن عون، ابورجاء مولیٰ ابی قلابہ، حضرت ابوقلابہ سے روایت ہے کہ میں حضرت عمر بن عبد العزیز (رح) کے پیچھے بیٹھنے والا تھا کہ انہوں نے لوگوں سے کہا کہ تم قسامت کے بارے میں کیا کہتے ہو ؟ تو حضرت عنبہ نے کہا ہمیں حضرت انس بن مالک (رض) نے اس طرح حدیث بیان کی تو میں نے کہا مجھے بھی حضرت انس (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کے پاس ایک قوم آئی۔ باقی حدیث ایوب و حجاج کی حدیث ہی کی طرح ہے۔ ابوقلابہ نے کہا جب میں بات کرچکا تو عنبہ نے کہا سُبْحَانَ اللَّهِ ابوعنبہ انہوں نے کہا نہیں ہمیں بھی انس بن مالک نے اسی طرح حدیث بیان کی۔ اے اہل شام تم ہمیشہ خیر و بھلائی میں رہو گے جب تک تم میں یہ (ابوقلابہ) یا اس جیسے آدمی موجود رہیں گے۔
لڑنے والوں اور دین سے پھر جانے والوں کے حکم کے بیان
حسن بن شعیب، مسکین، ابن بکیر، اوزاعی، عبداللہ بن عبدالرحمن دارمی، محمد بن یوسف اوزاعی، یحییٰ بن ابی کثیر، ابی قلابہ، حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس عکل میں سے آٹھ آدمی آئے۔ باقی حدیث انہی کی حدیث کی طرح ہے اور اضافہ یہ ہے کہ انہیں داغ نہ دیا گیا۔
لڑنے والوں اور دین سے پھر جانے والوں کے حکم کے بیان
ہارون بن عبداللہ، مالک بن اسماعیل، زہیر، سماک بن حرب، معاویہ بن قرہ، حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس قبیلہ عرینہ کے لوگ آئے۔ اسلام قبول کیا اور بیعت کی اور مدینہ میں موم یعنی برسام کی بیماری پھیل گئی۔ باقی حدیث انہی کی طرح بیان کی اضافہ یہ ہے کہ آپ ﷺ کے پاس انصاری نوجوانوں میں سے تقریبا بیس نوجوان موجود تھے جنہیں آپ ﷺ نے ان کی طرف بھیجا اور ان کے ساتھ کھوج لگانے والے کو بھی بھیجا جو ان کے قدموں کے نشان پہچانے۔
لڑنے والوں اور دین سے پھر جانے والوں کے حکم کے بیان
ہداب بن خالد، ہمام، قتادہ، حضرت انس (رض) سے اسی طرح روایت ہے اور ہمام کی حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ کے پاس عرینہ میں سے ایک جماعت آئی اور سعید کی حدیث میں عکل اور عرینہ سے آئے۔ باقی حدیث ان کی حدیث کی طرح ہے۔
لڑنے والوں اور دین سے پھر جانے والوں کے حکم کے بیان
فضل بن سہل اعرج، یحییٰ بن غیلان، یزید بن زریع، سلیمان تیمی، حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ان کی آنکھوں میں سلائی اس وجہ سے پھر وائی تھی کیونکہ انہوں نے بھی چرواہوں کی آنکھوں میں سلائیاں پھیریں تھیں۔
پتھر اور دھاری دار چیزو بھاری چیز سے قتل کرنے میں قصاص اور عورت کے بد لے میں مرد کو قتل کرنے کے ثبوت کے بیان میں
محمد بن مثنی، محمد بن بشار، ابن مثنی، محمد بن جعفر، شعبہ، ہشام بن زید، حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے کسی لڑکی کو اس کے زیورات کی وجہ سے پتھر کے ساتھ قتل کیا اسے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں لایا گیا اور اس میں کچھ جان باقی تھی۔ آپ ﷺ نے اسے کہا کیا تجھے فلاں نے قتل کیا ہے ؟ تو اس نے اپنے سر سے نہیں میں اشارہ کیا۔ پھر آپ ﷺ نے اسے دوسرے کا کہا تو اس نے اپنے سر سے اشارہ کیا کہ نہیں پھر اس سے تیسرے کا پوچھا تو اس نے کہا ہاں اور اپنے سر سے اشارہ کیا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے اسے دو پتھروں کے درمیان قتل کردیا۔
پتھر اور دھاری دار چیز و بھاری چیز سے قتل کرنے میں قصاص اور عورت کے بدلے میں مرد کو قتل کرنے کے ثبوت کے بیان میں
یحییٰ بن حبیب الحارثی، خالد یعنی ابن حارث، ابوکریب، ابن ادریس، شعبہ اسی حدیث مبارکہ کی دوسری اسناد ذکر کی ہیں۔ ابن ادریس کی حدیث میں ہے اس کا سر دو پتھروں کے درمیاں کچلا۔
پتھر اور دھاری دار چیز و بھاری چیز سے قتل کرنے میں قصاص اور عورت کے بدلے میں مرد کو قتل کرنے کے ثبوت کے بیان میں
عبد بن حمید، عبدالرزاق، معمر، ایوب، ابی قلابہ، حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ یہود سے ایک آدمی نے انصار میں سے ایک لڑکی کو قتل کردیا اس کے کچھ زیورات کی وجہ سے پھر اسے کنوئیں میں ڈال دیا اور اس کا سر پتھروں سے کچل دیا وہ پکڑا گیا۔ اسے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لایا گیا تو آپ نے حکم دیا کہ اس کے مرنے تک اسے پتھر مارے جائیں پس وہ رجم کیا گیا یہاں تک کہ مرگیا۔
پتھر اور دھاری دار چیز و بھاری چیز سے قتل کرنے میں قصاص اور عورت کے بدلے میں مرد کو قتل کرنے کے ثبوت کے بیان میں
اسحاق بن منصور، محمد بن بکر، ابن جریج، معمر، حضرت ایوب سے بھی یہ حدیث اس سند سے روایت کی گئی ہے
پتھر اور دھاری دار چیز و بھاری چیز سے قتل کرنے میں قصاص اور عورت کے بدلے میں مرد کو قتل کرنے کے ثبوت کے بیان میں
ہداب بن خالد، ہمام، قتادہ، حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ ایک لڑکی ایسی حالت میں پائی گئی کہ اس کا سر دو پتھروں کے درمیان کچلا گیا تھا لوگوں نے اس سے پوچھا کہ تیرے ساتھ یہ کس نے کیا فلاں نے یا فلاں نے ؟ یہاں تک کہ انہوں نے ایک یہودی کا ذکر کیا تو اس نے اپنے سر سے اشارہ کیا اس یہودی کو گرفتار کیا گیا اس نے اقرار کرلیا۔ رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ اس کا سر پتھروں سے کچل دیا جائے۔
انسان کی جان یا اس کا کسی عضو پر حملہ کرنے والے کو جب وہ حملہ کرے اور اس کو دفع کرتے ہوئے حملہ آور کی جان یا اسکا کوئی عضو ضائع ہوجائے اور اس پر کوئی تاوان نہ ہونے کے بیان میں۔
محمد بن مثنی، ابن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، قتادہ، زرارہ، حضرت عمران بن حصین (رض) سے روایت ہے کہ یعلی بن منیہ یا ایک آدمی سے جھگڑا ہوا تو ان میں سے ایک نے دوسرے کے ہاتھ کو منہ میں ڈال کر دانتوں سے کاٹنا چاہا تو اس نے اپنے ہاتھ کو اس کے منہ سے کھینچا جس سے اس کے سامنے کا دانت اکھڑ گیا ابن مثنی نے کہا سامنے کے دونوں دانت۔ انہوں نے اپنا جھگڑا نبی کریم ﷺ کے سامنے پیش کیا تو آپ نے فرمایا کیا تم میں سے ایک اس طرح کاٹتا ہے جس طرح اونٹ کاٹتا ہے اس کے لئے دیت نہیں ہے۔
انسان کی جان یا اس کا کسی عضو پر حملہ کرنے والے کو جب وہ حملہ کرے اور اس کو دفع کرتے ہوئے حملہ آور کی جان یا اسکا کوئی عضو ضائع ہوجائے اور اس پر کوئی تاوان نہ ہونے کے بیان میں۔
محمد بن مثنی، ابن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، قتادہ، عطاء، ابن یعلی، حضرت یعلی (رض) نے نبی کریم ﷺ سے اسی طرح حدیث مبارکہ اس سند سے بھی روایت کی ہے
انسان کی جان یا اس کا کسی عضو پر حملہ کرنے والے کو جب وہ حملہ کرے اور اس کو دفع کرتے ہوئے حملہ آور کی جان یا اسکا کوئی عضو ضائع ہوجائے اور اس پر کوئی تاوان نہ ہونے کے بیان میں۔
ابوغسان مسمعی، معاذ یعنی ابن ہشام، ابی قتادہ، زرارہ بن اوفی، حضرت عمران بن حصین (رض) سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے دوسرے آدمی کی کلائی پر کاٹا۔ اس نے اپنے ہاتھ کو کھینچا تو کاٹنے والے کے سامنے کے دو دانت گرگئے۔ اس نے اسے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں پیش کیا تو آپ ﷺ نے (اس کے دعوی کو) باطل کردیا اور فرمایا کیا تو نے اس کا گوشت کھانے کا ارادہ کیا تھا۔
انسان کی جان یا اس کا کسی عضو پر حملہ کرنے والے کو جب وہ حملہ کرے اور اس کو دفع کرتے ہوئے حملہ آور کی جان یا اسکا کوئی عضو ضائع ہوجائے اور اس پر کوئی تاوان نہ ہونے کے بیان میں۔
ابوغسان مسمعی، معاذ بن ہشام، قتادہ، بدیل، عطاء بن ابی رباح، حضرت صفوان بن یعلی (رض) سے روایت ہے کہ یعلی بن مینہ کے مزدور کی کلائی کو ایک آدمی نے کاٹا۔ اس نے کلائی کو کھینچا تو اس کے سامنے والے دو دانت گرگئے۔ اس نے یہ معاملہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں پیش کیا تو آپ ﷺ نے اسے باطل کردیا اور فرمایا کیا تو نے اس کے ہاتھ کو اونٹ کی طرح کاٹنے کا ارادہ کیا۔
انسان کی جان یا اس کا کسی عضو پر حملہ کرنے والے کو جب وہ حملہ کرے اور اس کو دفع کرتے ہوئے حملہ آور کی جان یا اسکا کوئی عضو ضائع ہوجائے اور اس پر کوئی تاوان نہ ہونے کے بیان میں۔
احمد بن عثمان نوفلی، قریش بن انس، ابن عون، محمد بن سیرین، حضرت عمران بن حصین (رض) سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے دوسرے آدمی کا ہاتھ کاٹ دیا۔ اس نے اپنے ہاتھ کو کھینچا تو اس (دوسرے) کے سامنے کے دو دانت گرگئے۔ (جس کے دانت گرگئے تھے) اس نے رسول اللہ ﷺ سے فریاد کی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا تو چاہتا ہے کہ میں اسے حکم دوں کہ وہ اپنا ہاتھ تیرے منہ میں رکھے اور تو اسے اونٹ کے کاٹنے کی طرح کاٹے اچھا تم اپنا ہاتھ (اس کے منہ میں) رکھو یہاں تک کہ وہ اسے کاٹے پھر تو اسے کھینچ۔
انسان کی جان یا اس کا کسی عضو پر حملہ کرنے والے کو جب وہ حملہ کرے اور اس کو دفع کرتے ہوئے حملہ آور کی جان یا اسکا کوئی عضو ضائع ہوجائے اور اس پر کوئی تاوان نہ ہونے کے بیان میں۔
شیبان بن فروخ، ہمام، عطاء، صفوان بن یعلی بن منیہ، حضرت یعلی بن منیہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ کے پاس ایک آدمی حاضر ہوا جس نے ایک آدمی کا ہاتھ کاٹا تھا۔ اس نے اپنا ہاتھ کھینچا تو اس کے سامنے والے دو دانت گرگئے یعنی جس نے کاٹا۔ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے اسے باطل قرار دیا اور فرمایا کیا تم اسے اونٹ کی طرح کاٹنے کا ارادہ رکھتے تھے۔
انسان کی جان یا اس کا کسی عضو پر حملہ کرنے والے کو جب وہ حملہ کرے اور اس کو دفع کرتے ہوئے حملہ آور کی جان یا اسکا کوئی عضو ضائع ہوجائے اور اس پر کوئی تاوان نہ ہونے کے بیان میں۔
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابواسامہ، ابن جریج، عطاء، حضرت صفوان بن یعلی بن امیہ کی اپنے باپ سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ غزوہ تبوک میں لڑائی کی اور یعلی کہتے تھے کہ یہی غزوہ ہے کہا کہ صفوان نے کہا یعلی کہتے تھے کہ میرا ایک مزدور تھا وہ کسی آدمی سے لڑ پڑا ان میں سے ایک نے دوسرے کے ہاتھ کو کاٹا تو کاٹنے والے کا ایک دانت سامنے والے دو دانتوں میں سے گرگیا وہ دونوں نبی کریم ﷺ کے پاس آئے تو آپ ﷺ نے اس کے دانت کو بیکار کردیا۔ (یعنی دیت نہیں دلائی)
انسان کی جان یا اس کا کسی عضو پر حملہ کرنے والے کو جب وہ حملہ کرے اور اس کو دفع کرتے ہوئے حملہ آور کی جان یا اسکا کوئی عضو ضائع ہوجائے اور اس پر کوئی تاوان نہ ہونے کے بیان میں۔
عمر بن زرارہ، اسماعیل بن ابراہیم، حضرت ابن جریج (رح) سے بھی ان اسناد کے ساتھ یہ حدیث اسی طرح مروی ہے۔
دانتوں یا اس کے برابر میں قصاص کے اثبات کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، عفان بن مسلم، حماد، ثابت، حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ ربیع کی بہن ام حارثہ نے کسی انسان کو زخمی کردیا۔ انہوں نے اس کا مقدمہ نبی کریم ﷺ کے پاس پیش کیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قصاص یعنی بدلہ لیا جائے گا ام ربیع نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ کیا فلاں سے بدلہ لیا جائے گا ؟ اللہ کی قسم ! اس سے بدلہ نہیں لیا جائے گا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا اللہ پاک ہے۔ اے ام ربیع بدلہ لینا اللہ کی کتاب (کا حکم) ہے۔ اس نے کہا اللہ کی قسم اس سے کبھی بدلہ نہ لیا جائے گا۔ راوی کہتے ہیں وہ مسلسل اسی طرح کہتی رہی۔ یہاں تک کہ ورثاء نے دیت قبول کرلی۔ تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا اللہ کے بندوں میں سے بعض ایسے ہوتے ہیں کہ اگر وہ اللہ پر قسم اٹھالیں تو اللہ ان کی قسم کو پورا فرما دیتا ہے۔
کس وجہ سے مسلمان کا خون جائز ہوجاتا ہے کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، حفص بن غیاث، ابومعاویہ، وکیع، اعمش، عبداللہ بن مرہ، مسروق، حضرت عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تین کے علاوہ کسی ایسے مسلمان مرد کا خون بہانا جائز نہیں جو گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں۔ ایک شادی شدہ زانی، دوسرا جان کے بدلے جان اور دین کو چھوڑنے والا اور جماعت میں تفریق ڈالنے والا۔
کس وجہ سے مسلمان کا خون جائز ہوجاتا ہے کے بیان میں
ابن نمیر، ابن ابی عمر، سفیان، اسحاق بن ابراہیم، علی بن خشرم، عیسیٰ بن یونس، اعمش اسی حدیث کی دوسری اسناد ذکر کی ہیں۔
کس وجہ سے مسلمان کا خون جائز ہوجاتا ہے کے بیان میں
احمد بن حنبل، محمد بن مثنی، عبدالرحمن بن مہدی، سفیان، اعمش، عبداللہ بن مرہ، مسروق، حضرت عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایا اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں جو مسلمان مرد گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں تو اس کا خون حلال نہیں سوائے تین آدمیوں کے ایک اسلام کو چھوڑنے والا جماعت میں تفریق ڈالنے والا دوسرا شادی شدہ زنا کرنے والا اور تیسرا جان کے بدلے جان حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے بھی اسی طرح یہ حدیث مروی ہے۔
کس وجہ سے مسلمان کا خون جائز ہوجاتا ہے کے بیان میں
حجاج بن شاعر، قاسم بن زکریا، عبیداللہ بن موسی، شیبان، اعمش اسی حدیث کی اور سند ذکر کی ہے لیکن اس میں نبی کریم ﷺ کا قول اس کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں مذکور نہیں ہے۔
قتل کی ابتداء کرنے والے کے گناہ کے بیان
ابوبکر بن ابی شیبہ، محمد بن عبداللہ بن نمیر، ابومعاویہ، اعمش، عبداللہ بن مرہ، مسروق، حضرت عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جب کوئی نفس ظلما قتل کیا جاتا ہے تو اس کے گناہ کا ایک حصہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے بیٹے پر بھی ڈالا جاتا ہے کیونکہ وہ پہلا ہے جس نے قتل کی ابتداء کی۔
قتل کی ابتداء کرنے والے کے گناہ کے بیان
عثمان بن ابی شیبہ، جریر، اسحاق بن ابراہیم، جریر، عیسیٰ بن یونس، ابن ابی عمر، سفیان، اعمش اسی حدیث کی اور اسناد ذکر کی ہیں لیکن ان میں قتل کی ابتداء کا ذکر ہے پہلے ہونے کو نہیں بیان کیا گیا۔
آخرت میں قتل کی سزا اور قیامت کے دن اس کا فیصلہ لوگوں کے درمیان سب سے پہلے کیے جانے کے بیان میں
عثمان بن ابی شیبہ، اسحاق بن ابراہیم، محمد بن عبداللہ بن نمیر، وکیع، اعمش، ابوبکر بن ابی شیبہ، عبدہ بن سلیمان، وکیع، اعمش، ابی وائل، حضرت عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا قیامت کے دن لوگوں کے درمیان سب سے پہلے خون کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔
آخرت میں قتل کی سزا اور قیامت کے دن اس کا فیصلہ لوگوں کے درمیان سب سے پہلے کیے جانے کے بیان میں
عبیداللہ بن معاذ، یحییٰ بن حبیب، خالد ابن حارث، بشربن خالد، محمد بن ابی عدی، شعبہ، اعمش، ابی وائل، عبداللہ اسی حدیث کی دوسری اسناد ذکر کی ہیں معنی و مفہوم وہی ہے۔
خون مال اور عزت کی شدت بیان میں۔
ابوبکر بن ابی شیبہ، یحییٰ بن حبیب حارثی، عبدالوہاب ثقفی، ایوب، ابن سیرین، ابن ابی بکرہ، حضرت ابوبکرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا زمانہ گھوم کر اپنی اسی حالت و صورت پر آگیا جیسا کہ اس دن تھا جس دن اللہ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا تھا سال میں بارہ ماہ ہیں جن میں چار ماہ محترم و معزز ہیں تین متواتر اور ملے ہوئے ہیں ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور مضر کا مہینہ رجب جو جمادی الثانی اور شعبان کے درمیان ہے پھر فرمایا یہ کونسا مہینہ ہے ؟ ہم نے عرض کی اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ ﷺ خاموش ہوگئے۔ یہاں تک کہ ہم نے گمان کیا آپ ﷺ اس کے نام کے علاوہ نام رکھنے والے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا کیا یہ ذی الحجہ نہیں ہے ؟ ہم نے عرض کیا کیوں نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا یہ کونسا شہر ہے ؟ ہم نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ راوی کہتے ہے کہ آپ ﷺ خاموش ہوگئے۔ یہاں تک کہ ہم نے گمان کیا کہ آپ ﷺ اس کے نام کے علاوہ نام رکھیں گے۔ پھر فرمایا کیا یہ بلدہ (مکہ) نہیں ہے ہم نے کہا کیوں نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا یہ کونسا دن ہے ہم نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ ﷺ خاموش ہوگئے یہاں تک کہ ہم نے خیال آپ ﷺ اس کے علاوہ نام رکھیں گے۔ پھر فرمایا کیا یہ قربانی کا دن نہیں ؟ ہم نے عرض کیا کیوں نہیں اے اللہ کے رسول۔ فرمایا بیشک تمہارے خون اور مال راوی محمد کہتے ہیں میرا گمان ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا اور تمہاری عزتیں تم پر اسی طرح حرام ہیں جیسا کہ اس دن کی حرمت اس تمہارے شہر میں اس مہینے میں ہے اور عنقریب تم اپنے رب سے ملو گے تو تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں سوال کرے گا۔ میرے بعد تم کافر یا گمراہ نہ ہوجانا کہ تم ایک دوسرے کی گردن مارنے لگ جاؤ۔ آ گاہ رہو چاہیے کہ موجود غائب تک پہنچا دے۔ ہوسکتا ہے جس کو یہ بات پہنچائی جائے وہ زیادہ حفاظت و یاد کرنے والا ہو جس سے اس نے سنا پھر فرمایا سنو کیا میں نے (پیغام حق) پہنچا دیا ؟ آ گے روایت کے الفاظ کا اختلاف ذکر کیا ہے کہ ابن حبیب نے کہا اور ابوبکر کی روایت میں (فَلَا تَرْجِعُوا بَعْدِي) کے الفاظ ہیں۔
خون مال اور عزت کی شدت بیان میں۔
نصر بن علی جہضمی، یزید بن زریع، عبداللہ بن عون، محمد بن سیرین، حضرت عبدالرحمن بن ابوبکر (رض) اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب (حجۃ الوداع) کا دن تھا تو آپ ﷺ اپنے اونٹ پر بیٹھے اور ایک آدمی نے اس کی لگام پکڑ لی اور آپ ﷺ نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ آج کونسا دن ہے ؟ صحابہ (رض) نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں یہاں تک کہ ہم نے گمان کیا کہ آپ ﷺ اس کے نام کے علاوہ نام رکھیں گے۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا کیا یہ نحر کا دن نہیں ؟ ہم نے عرض کیا کیوں نہیں اے اللہ کے رسول۔ آپ ﷺ نے فرمایا یہ کونسا مہینہ ہے ؟ ہم نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کیا یہ ذوالحجہ نہیں۔ ہم نے عرض کیا کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول۔ آپ ﷺ نے فرمایا یہ کون سا شہر ہے ؟ ہم نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول بہتر ہی جانتے ہیں راوی کہتے ہیں یہاں تک کہ ہم نے گمان کیا کہ آپ اس کے نام کے علاوہ کوئی اور نام رکھیں گے آپ ﷺ نے فرمایا کیا یہ شہر (مکہ) نہیں ہے ؟ ہم نے عرض کیا کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول۔ آپ ﷺ نے فرمایا بیشک تمہارے خون اور تمہارے امول اور تمہاری عزتیں تم پر اسی طرح حرام ہیں جس طرح تمہارا یہ دن اس مہینے اور اس شہر میں حرام ہے پس موجود لوگ غائب کو (یہ بات) پہنچا دیں۔ پھر آپ دو سرمئی مینڈھوں کی طرف متوجہ ہوئے اور انہیں ذبح کیا اور پھر آپ ﷺ بکریوں کے ایک ریوڑ کی طرف متوجہ ہوئے اور انہیں ہمارے درمیان تقسیم کردیا۔
خون مال اور عزت کی شدت بیان میں۔
محمد بن مثنی، حماد بن مسعدہ، ابن عون، محمد، حضرت عبدالرحمن بن ابوبکرہ (رض) اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ اس دن (حجۃ الوداع) جب نبی کریم ﷺ اونٹ پر بیٹھے اور ایک آدمی آپ ﷺ کے اونٹ کی لگام پکٹرنے والا تھا۔ باقی حدیث یزید بن زریع کی طرح روایت کی۔
خون مال اور عزت کی شدت بیان میں۔
محمد بن حاتم بن میمون، یحییٰ بن سعید، قرہ بن خالد، محمد بن سیرین، عبدالرحمن بن ابی بکرہ اسی حدیث کی اور اسناد ذکر کی ہیں۔ حضرت ابوبکرہ (رض) سے روایت ہے کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے نحر کے دن ارشاد فرمایا تو فرمایا یہ دن کون سا ہے ؟ باقی حدیث گزر چکی لیکن اس حدیث میں تمہاری عزت کا لفظ ذکر نہیں کیا اور نہ یہ ذکر کیا کہ پھر آپ ﷺ مینڈھوں کی طرف متوجہ ہوئے اور جو اس کے بعد ہے اور اس حدیث میں یہ ہے کہ (تمہارا خون وغیرہ) اس دن کی حرمت کی طرح ہے۔ اس مہینے میں اور اس شہر میں تمہارے اپنے رب سے ملاقات کے دن تک۔ آگاہ رہو کیا میں نے پہنچا دیا ؟ صحابہ کرام (رض) نے عرض کیا جی ہاں۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا اے اللہ گواہ رہ۔
قتل کے اقرار کی صحت اور مقتول کے ولی کو حق قصاص اور اس سے معافی طلب کرنے کے استح کے بیان میں
عبیداللہ بن معاذ عنبری، ابویونس، سماک بن حرب، علقمہ ابن وائل، حضرت وائل (رض) سے روایت ہے کہ میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ بیٹھنے والا تھا آدمی آیا جو دوسرے آدمی کو تسمہ سے کھینچتا تھا اس نے کہا اے اللہ کے رسول ! ﷺ اس نے میرے بھائی کو قتل کیا ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا تو نے اسے قتل کیا ؟ مدعی نے کہا اگر اس نے اعتراف نہ کیا تو میں گواہی پیش کروں گا اس نے کہا جی ہاں میں نے اسے قتل کیا ہے آپ ﷺ نے کہا تو نے اسے کس وجہ سے قتل کیا ؟ اس نے کہا میں اور وہ دونوں درخت سے پتے جھاڑ رہے تھے کہ اس نے مجھے گالی دے کر غصہ دلایا میں نے کلہاڑی سے اس کے سر میں ضرب مار کر اسے قتل کردیا تو اسے نبی کریم ﷺ نے فرمایا کیا تیرے پاس کوئی چیز ہے جو تو اسے اپنی جان کے بدلہ میں ادا کرسکے ؟ اس نے عرض کیا کہ میرے پاس میری چادر اور کلہاڑی کے سوا کوئی چیز نہیں ہے آپ ﷺ نے فرمایا تیری قوم کے بارے میں تیرا کیا خیال ہے کہ وہ تجھے چھڑا لے گی اس نے عرض کیا میں اپنی قوم پر اس سے بھی زیادہ آسان ہوں یعنی میری کوئی وقعت نہیں آپ ﷺ نے وہ تسمہ اس یعنی وارث مقتول کی طرف پھینک دیا اور فرمایا کہ اپنے ساتھی کو لے جا وہ آدمی اسے لے کر چلا جب اس نے پیٹھ پھیری تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر اس نے اسے قتل کردیا تو یہ بھی اسی کی طرح ہوجائے گا وہ آدمی لوٹ آیا اور عرض کی اے اللہ کے رسول مجھے یہ بات پہنچی ہے آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ اگر وہ اسے قتل کرے گا تو اسی کی طرح ہوجائے گا حالانکہ میں نے اسے آپ ﷺ کے ہی حکم سے پکڑا ہے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا تو نہیں چاہتا کہ وہ تیرا اور تیرے ساتھی کا گناہ سمیٹ لے ؟ اس نے عرض کیا اے اللہ کے نبی ﷺ ایسا ہوگا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کیوں نہیں اس نے کہا اگر ایسا ہی ہے تو بہت اچھا یہ اسی طرح ہے راوی کہتے ہیں کہ اس نے اس کا تسمہ پھینک دیا اور اس کے راستہ کو کھول دیا یعنی آزاد کردیا۔
قتل کے اقرار کی صحت اور مقتول کے ولی کو حق قصاص اور اس سے معافی طلب کرنے کے استح کے بیان میں
محمد بن حاتم، سعید بن سلیمان، ہشیم، اسماعیل بن سالم، حضرت علقمہ بن وائل (رض) اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک آدمی لایا گیا جس نے ایک آدمی کو قتل کیا تھا اور مقتول کا وارث اسے کھینچ کر اس حالت میں لے چلا کہ اس کی گردن میں تسمہ تھا جس سے اسے گھسیٹتا تھا۔ جب اس نے پیٹھ پھیری تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قاتل اور مقتول دونوں جہنمی ہیں۔ پس ایک آدمی وراث مقتول کے پاس آیا اسے رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد بتایا تو اس نے قاتل کو چھوڑ دیا۔ اسماعیل بن سالم نے کہا میں نے حبیب بن ثابت (رح) سے اس کا ذکر کیا تو اس نے کہا کہ مجھے ابن اشوع نے یہ حدیث بیان کی نبی کریم ﷺ نے وارث مقتول سے معاف کرنے کا کہا تھا تو اس نے انکار کردیا۔
حمل کے بچے کی دیت اور قتل خطا اور شبہ عمد میں دیت کے وجوب کے بیان
یحییٰ بن یحیی، مالک، ابن شہاب، ابی سلمہ، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ بنی ہزیل کی دو عورتوں میں سے ایک عورت نے دوسری کو پھینکا (دھکا دیا) تو اس کا بچہ ضائع ہوگیا۔ نبی کریم ﷺ نے اس میں ایک غلام یا لونڈی بطور تاوان ادا کرنے کا فیصلہ فرمایا۔
حمل کے بچے کی دیت اور قتل خطا اور شبہ عمد میں دیت کے وجوب کے بیان
قتیبہ بن سعید، لیث، ابن شہاب، ابن مسیب، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی لحیان کی ایک عورت کے حمل کے بچے میں جو مردہ ضائع ہوگیا تھا رسول اللہ ﷺ نے ایک غلام یا لونڈی ادا کرنے کا فیصلہ فرمایا پھر وہ عورت جس کے خلاف غلام ادا کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا فوت ہوگئی تو رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ فرمایا کہ اس کی وراثت اس کی اولاد اور خاوند کے لئے ہوگی اور دیت اس کے خاندان پر ہوگی۔
حمل کے بچے کی دیت اور قتل خطا اور شبہ عمد میں دیت کے وجوب کے بیان
ابوطاہر، ابن وہب، حرملہ ابن یحیی، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، ابن مسیب، سلمہ بن عبدالرحمن، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ ہذیل کی دو عورتیں لڑ پڑیں ان میں سے ایک نے دوسری کی طرف پتھر پھینکا تو وہ اور جو اس کے پیٹ میں تھا ہلاک ہوگئے انہوں (لواحقین) نے اپنا مقدمہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کیا تو رسول اللہ ﷺ نے پیٹ کے بچے کی دیت میں غلام یا لونڈی کا فیصلہ کیا اور عورت کی دیت کا فیصلہ مارنے والی عورت کے خاندان پر دینے کا کیا اور اس کے بیٹے کو اس کا وارث بنایا اور جو ان کے ساتھ ہوں۔ حمل بن نابغہ الہذلی نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! ﷺ میں اس کا تاوان کیسے ادا کروں ؟ جس نے نہ پیا اور نہ کھایا نہ بولا اور نہ چلایا پس اس طرح کے بچے کی دیت کو ٹالا جاتا ہے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ اپنی قافیہ بندی والی گفتگو کی وجہ سے کاہنوں کا بھائی ہے
حمل کے بچے کی دیت اور قتل خطا اور شبہ عمد میں دیت کے وجوب کے بیان
عبد بن حمید، عبدالرزاق، معمر، زہری، ابی سلمہ، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ دو عورتیں لڑ پڑیں۔ باقی حدیث گزر گی لیکن اس حدیث میں یہ ذکر نہیں کہ آپ ﷺ نے اس کے بیٹے اور جو ان کے ساتھ ہوں کو وارث بنایا اور کہا کہنے والے نے ہم دیت کیسے ادا کریں اور حمل بن مالک کا نام نہیں لیا۔
حمل کے بچے کی دیت اور قتل خطا اور شبہ عمد میں دیت کے وجوب کے بیان
اسحاق بن ابراہیم حنظلی، جریر، منصور، ابراہیم، عبید بن نضیلہ خزاعی، حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک عورت نے اپنی سوکن کو خیمہ کی لکڑی سے مارا اس حال میں کہ وہ حاملہ تھی۔ اس نے اسے ہلاک کردیا اور ان میں سے ایک لحیانیہ تھی تو رسول اللہ ﷺ نے مقتولہ کی دیت قاتلہ کے وارثوں پر رکھی اور ایک غلام پیٹ کے بچے کی وجہ سے قاتلہ کے رشتہ داروں میں سے ایک آدمی نے عرض کیا کیا ہم اس کی دیت ادا کریں جس نے نہ کھایا اور نہ پیا اور نہ چیخاچلا۔ پس ایسے بچہ کی دیت نہیں دی جاتی۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا یہ دیہاتیوں کی طرح مسجع (بناوٹی) گفتگو کرتا ہے اور ان پر دیت لازم کردی۔
حمل کے بچے کی دیت اور قتل خطا اور شبہ عمد میں دیت کے وجوب کے بیان
محمد بن رافع، یحییٰ بن آدم، مفضل، منصور، ابراہیم، عبید ابن نضیلہ، حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک عورت نے اپنی سوکن کو خیمہ کی لکڑی کے ساتھ ہلاک کردیا تو اس مقدمہ میں رسول اللہ کی خدمت میں لایا گیا تو آپ ﷺ نے (قاتلہ) کے خاندان پر دیت کا فیصلہ کیا۔ وہ حاملہ تھی تو آپ ﷺ نے پیٹ کے بچے کا بدلہ ایک غلام ادا کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے بعض رشتہ داروں نے کہا کیا ہم اس کی دیت ادا کریں جس نہ کھایا اور پیا اور چیخا نہ چلایا اور اس طرح کی دیت نہیں دی جاتی۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا یہ دیہاتوں کی طرح مسجع گفتگو ہے
حمل کے بچے کی دیت اور قتل خطا اور شبہ عمد میں دیت کے وجوب کے بیان
محمد بن حاتم، محمد بن بشار، عبدالرحمن بن مہدی، سفیان، منصور، جریر، مفضل اسی حدیث کی دوسری اسند ذکر کی ہے۔
حمل کے بچے کی دیت اور قتل خطا اور شبہ عمد میں دیت کے وجوب کے بیان
ابوبکر بن ابی شیبہ، محمد بن مثنی، ابن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، حضرت منصور (رض) نے بھی ان اسناد سے یہ حدیث اسی طرح روایت کی ہے۔ اس میں یہ بھی ہے کہ وہ گرائی گئی اور یہ بات نبی ﷺ تک پہنچائی تو آپ ﷺ نے اس میں ایک غلام کا فیصلہ کیا اور اسے عورت کے رشتہ داروں کے ذمہ لازم کیا اور اس حدیث میں عورت کی دیت کا ذکر نہیں۔
حمل کے بچے کی دیت اور قتل خطا اور شبہ عمد میں دیت کے وجوب کے بیان
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب، اسحاق بن ابراہیم، ابی بکر، اسحاق، وکیع، ہشام بن عروہ، حضرت مسور بن مخرمہ (رض) سے روایت ہے کہ حضرت عمر خطاب (رض) نے لوگوں سے عورت کے پیٹ کے بارے میں مشورہ طلب کیا تو مخیرہ بن شعبہ نے کہا میں نبی کریم ﷺ کے پاس حاضر تھا۔ آپ ﷺ نے اس میں ایک غلام یا باندی کا فیصلہ کیا۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا جو تیرے ساتھ اس بات کی گواہی دیتا ہے اسے میرے پاس لے آؤ۔ تو محمد بن مسلمہ (رض) نے ان کی گواہی دی۔