33. گری پڑی چیز کا بیان
باندھنے کی ڈوری اور اس تھیلی کی پہچان اور گمشدہ بکریوں اور اونٹوں کے حکم کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، مالک، ربیعہ بن عبدالرحمن، یزید مولیٰ منبعث، حضرت زید بن خالد جہنی (رض) سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے آپ ﷺ سے لقطہ کے بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا اس کے باندھنے کی ڈوری اور اس تھیلی کی پہچان رکھ پھر ایک سال تک اس کا اعلان کر تو اگر اس کا مالک آجائے تو ٹھیک ورنہ اسے تو رکھ لے اس نے عرض کیا گمشدہ بکری کا کیا حکم ہے آپ ﷺ نے فرمایا وہ تیرے لئے یا تیرے بھائی کے لئے یا بھیڑئے کے لئے ہے اس نے عرض کیا گمشدہ اونٹ کے بارے میں کیا حکم ہے آپ ﷺ نے فرمایا تجھے اس سے کیا ہے اس کے ساتھ اس کی مشک ہے اور اس کا جوتا بھی اس کے ساتھ ہے وہ پانی کے گھاٹ پر جائے گا اور درختوں کے پتے کھائے گا یہاں تک کہ اس کا مالک اسے پکڑ لے گا۔
باندھنے کی ڈوری اور اس تھیلی کی پہچان اور گمشدہ بکریوں اور اونٹوں کے حکم کے بیان میں
یحییٰ بن ایوب، قتیبہ، ابن حجر، اسماعیل، ابن جعفر، ربیعہ بن ابی عبدالرحمن، یزید مولیٰ منبعث حضرت زید بن خالد جہنی (رض) سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے لقطہ کے بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا ایک سال تک اعلان کر پھر اس کے باندھنے کی ڈوری اور اس تھیلی کی پہچان کو یاد رکھ پھر اسے خرچ کرلے تو اگر اس کا مالک آجائے تو اسے اس کو لوٹا دے اس آدمی نے عرض کیا اے اللہ کے رسول گمشدہ بکری کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا اسے پکڑ لو کیونکہ وہ تیرے لئے ہے یا تیرے بھائی کے لئے ہے اس نے عرض کیا گمشدہ اونٹ کے بارے میں راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ غصہ میں آگئے یہاں تک کہ آپ ﷺ کے رخسار مبارک سرخ ہوگئے یا پھر آپ ﷺ کا چہرہ سرخ ہوگیا پھر آپ ﷺ نے فرمایا تجھے اس اونٹ سے کیا ہے اس اونٹ کے ساتھ اس کا جوتا ہے اور اس کا مشک ہے یہاں تک کہ اس کا مالک اسے پکڑ لے گا۔
باندھنے کی ڈوری اور اس تھیلی کی پہچان اور گمشدہ بکریوں اور اونٹوں کے حکم کے بیان میں
ابوالطاہر، عبداللہ بن وہب سفیان الثوری، مالک بن انس، و عمر بن حارث ربیعہ بن ابی عبدالرحمن ان سندوں سے بھی یہ حدیث اسی طرح منقول ہے سوائے اس کے کہ اس میں یہ زائد ہے ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور میں بھی اس کے ساتھ ساتھ تھا اس نے لقطہ (گری ہوئی گمشدہ چیز) کے بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا اور عمرو کی حدیث میں ہے کہ جب اس کا طلب کرنے والا نہ آئے تو تم اسے خرچ کر ڈالو۔
باندھنے کی ڈوری اور اس تھیلی کی پہچان اور گمشدہ بکریوں اور اونٹوں کے حکم کے بیان میں
احمد بن عثمان، ابن حکیم الاودی، خالد بن مخلد، سلیمان ابن بلال، ربیعہ ابن ابی عبدالرحمن، یزید مولیٰ منبعث حضرت زید بن جہنی (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آیا پھر آگے اسی طرح حدیث نقل کی سوائے اس کے اس میں ہے کہ آپ ﷺ کا چہرہ مبارک اور آپ ﷺ کی پیشانی سرخ ہوگئی اور آپ ﷺ غصہ میں آگئے اور آپ ﷺ کے اس فرمان کے بعد یہ بھی زائد ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا پھر ایک سال تک اعلان کرو اور اگر اس کا مالک نہ آئے تو پھر وہ چیز تیرے پاس امانت ہوگی۔
باندھنے کی ڈوری اور اس تھیلی کی پہچان اور گمشدہ بکریوں اور اونٹوں کے حکم کے بیان میں
عبداللہ بن مسلمہ بن قعنب، سلیمان ابن بلال، یحییٰ بن سعید، یزید مولیٰ منعبث حضرت زید بن خالد جہنی (رض) صحابی رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے سونے یا چاندی کے لقطہ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا اس تھیلی کے باندھنے کی ڈوری اور اس تھیلی کی پہچان کو یاد رکھو پھر ایک سال تک اس کا اعلان کرو پھر اگر کوئی اسے نہ پہچانے تو تو اس کو خرچ کر ڈال لیکن یہ تیرے پاس امانت ہوگی پھر اگر کسی زمانے کے کسی دن اس کا متلاشی آجائے تو تو اسے اس کو واپس کر دے اور اس آدمی نے آپ ﷺ سے گمشدہ اونٹ کے بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا تجھے اس اونٹ سے کیا غرض اسے چھوڑ کیونکہ اس کی جوتی اور اس کی مشک اس کے ساتھ ہے وہ پانی پر جائے گا اور درخت کے پتے کھائے گا یہاں تک کہ اس کا مالک اسے پالے گا اور پھر اس آدمی نے آپ ﷺ سے بکری کے بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا تو اسے پکڑ لے کیونکہ وہ بکری تیرے لئے یا تیرے بھائی کے لئے ہے یا بھیڑیے کے لئے ہے۔
باندھنے کی ڈوری اور اس تھیلی کی پہچان اور گمشدہ بکریوں اور اونٹوں کے حکم کے بیان میں
اسحاق بن منصور، حبان بن ہلال، حماد بن سلمہ، یحییٰ بن سعید، ربیعہ بن ابی عبدالرحمن، حضرت زید بن خالد جہنی (رض) سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی ﷺ سے گم شدہ اونٹ کے بارے میں پوچھا ربیعہ کی حدیث میں یہ زائد ہے کہ آپ ﷺ کے رخسار مبارک سرخ ہوگئے اور اس میں یہ بھی زائد ہے کہ اگر اس کا مالک آجائے تو اس کے تھیلے کو اور اس کے عدد کو پہچان لے (نشانی بتادے) تو وہ اسے دے دو ورنہ وہ تیرے لئے ہے۔
باندھنے کی ڈوری اور اس تھیلی کی پہچان اور گمشدہ بکریوں اور اونٹوں کے حکم کے بیان میں
ابوالطاہر احمد بن عمرو بن سرح، عبداللہ بن وہب، ضحاک بن عثمان بن ابی النضر، بسر بن سعید، حضرت زید بن خالد جہنی (رض) سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے لقطہ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا ایک سال تک اس کا اعلان کر پھر اگر وہ چیز نہ پہچانی جائے تو اس تھیلے اور اس کے باندھنے کی ڈوری کو یاد رکھ پھر اس کو کھالے اگر اس کا مالک آجائے تو اسے وہ چیز ادا کردو۔
باندھنے کی ڈوری اور اس تھیلی کی پہچان اور گمشدہ بکریوں اور اونٹوں کے حکم کے بیان میں
اسحاق بن منصور، ابوبکر الحنفی، حضرت ضحاک بن عثمان ان سندوں کے ساتھ بیان کرتے ہیں اور اس میں فرماتے ہیں کہ اگر وہ چیز پہچان لی جائے تو اسے ادا کر ورنہ اس تھیلے اور اس کے باندھنے کی ڈوری اور اس کے عدد کو یاد رکھو۔
باندھنے کی ڈوری اور اس تھیلی کی پہچان اور گمشدہ بکریوں اور اونٹوں کے حکم کے بیان میں
محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، ابوبکر بن نافع، غندر، شعبہ، سلمہ بن کہیل، حضرت سوید (رض) بن غفلہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں اور حضرت زید بن صوحان (رض) اور سلمان بن ربیعہ (رض) جہاد کرنے کی غرض سے نکلے تو میں نے ایک چابک پڑا ہوا پایا تو میں نے اسے پکڑ لیا مجھ سے کہا کہ اسے چھوڑ دو میں نے کہا لیکن میں اس کا اعلان کروں گا تو اگر اس کا مالک آگیا تو ٹھیک ورنہ میں اس سے فائدہ اٹھاؤں گا حضرت سوید (رض) بن غفلہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے ساتھیوں کی بات کا انکار کردیا اور جب ہم جہاد سے واپس لوٹے تو میرے لئے فیصلہ کیا گیا کہ میں حج کروں اور پھر میں مدینہ آیا تو میری ملاقات حضرت ابی بن کعب (رض) سے ہوئی میں نے ان کو چابک اٹھانے کی خبر دی اور میں نے ان کو اپنے ساتھیوں کی بات سے آگاہ کیا تو حضرت ابی (رض) نے فرمایا رسول اللہ ﷺ کے زمانہ مبارک میں مجھے ایک تھیلی ملی تھی جس میں سو دینار تھے میں اسے لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آیا آپ ﷺ نے فرمایا ایک سال تک اس کا اعلان کرو تو جب اس کا پہچاننے والا کوئی نہ آیا تو میں پھر آپ ﷺ کے پاس آیا آپ ﷺ نے فرمایا ایک سال تک اس کا اعلان کرو تو جب میں نے اس کا پہچاننے والا کوئی نہ پایا تو آپ ﷺ نے فرمایا اس کی گنتی کر اور اس تھیلی اور اس باندھنے کی ڈوری کی پہچان کو یاد رکھو تو اگر اس کا مالک آگیا تو ٹھیک ورنہ تم اس سے فائدہ حاصل کرنا پھر میں نے اس سے فائدہ حاصل کیا پھر اس کے بعد مکہ میں میں حضرت ابی بن کعب (رض) سے ملا تو انہوں نے فرمایا میں نہیں جانتا کہ تین سال یا ایک سال تھا۔
باندھنے کی ڈوری اور اس تھیلی کی پہچان اور گمشدہ بکریوں اور اونٹوں کے حکم کے بیان میں
عبدالرحمن بن بشر، بہز، شعبہ، سلمہ بن کہیل، حضرت سوید بن غفلہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں حضرت زید بن صوحان اور حضرت سلمان بن ربیعہ (رض) کے ساتھ نکلا تو میں نے ایک چابک پایا باقی حدیث اسی طرح ہے شعبہ کہتے ہیں کہ دس سال کے بعد میں نے ان سے سنا وہ فرماتے تھے کہ ایک سال تک اس کا اعلان کرو۔
باندھنے کی ڈوری اور اس تھیلی کی پہچان اور گمشدہ بکریوں اور اونٹوں کے حکم کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، جریر، اعمش، ابوبکر ابن ابی شیبہ، وکیع، ابن نمیر، ابی جمیعا، سفیان، محمد بن حاتم، عبداللہ بن جعفر رقی، صاحب مسلم (رض) نے اسی حدیث کی مختلف سندیں بیان کی ہیں حماد بن سلمہ کی روایت ہے کہ دو سال یا تین سال تک اعلان کا ذکر ہے اور اس کے علاوہ باقی روایات میں تین سال تک اعلان کرنے کا ذکر ہے باقی حدیث مبارکہ اسی طرح سے ہے۔
حاجیوں کی گمشدہ چیزوں کا بیان
ابوالطاہر، یونس بن عبدالاعلی، عبداللہ بن وہب، عمرو بن حارث، بکیر بن عبداللہ بن اشج، یحییٰ بن عبدالرحمن بن حاطب، عبدالرحمن بن عثمان التیمی حضرت عبدالرحمن بن عثمانی تیمی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حاجیوں کی گمشدہ چیز اٹھانے سے منع فرمایا۔
حاجیوں کی گمشدہ چیزوں کا بیان
ابوطاہر یونس بن عبدالاعلی، عبداللہ بن وہب، عمرو بن حارث، بکع ابن سوادہ ابی سالم جیستانی، زید بن خالد الجہنی حضرت زیدہ بن خالد جہنی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جس آدمی نے گمشدہ چیز کو اٹھایا تو وہ گمراہ ہے جب تک کہ اس گمشدہ چیز کا اعلان نہ کرے۔
جانور کے مالک کی اجازت کے بغیر اس کا دودھ دوہنے کی حرمت کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، مالک بن انس، نافع، ابن عمر حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کوئی آدمی کسی جانور کا دودھ اس کے مالک کی اجازت کے بغیر نہ دوہے (آپ ﷺ نے فرمایا) کیا تم سے کوئی پسند کرتا ہے کہ اس کی کوٹھڑی میں گھسا جائے اس کے خزانہ کو توڑا جائے اور اس کا کھانا (غلہ وغیرہ) نکال لیا جائے کیونکہ جانوروں کے تھنوں میں (ان کے مالکوں کے لئے) ان کا کھانا جمع کیا جاتا ہے تو کوئی آدمی کسی جانور کا دودھ (اس کے مالک) کی اجازت کے بغیر نہ دوہے۔
جانور کے مالک کی اجازت کے بغیر اس کا دودھ دوہنے کی حرمت کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، محمد بن رمح، لیث بن سعد، ابوبکر بن ابی شیبہ، علی بن مسہر، ابن نمیر عبیداللہ، ابوالربیع، ابوکامل، زہیر بن اس حدیث کی سات سندیں ذکر کی گئی ہیں لیث بن سعد کی حدیث کے علاوہ باقی روایتوں میں فَيُنْتَقَلَ کا لفظ مذکور ہے اور اس لیث بن سعد کی حدیث میں فَيُنْتَقَلَ طَعَامُهُ کے الفاظ مذکور ہیں۔
مہمان نوازی کے بیان میں
قتیبہ، سعید، لیث، سعید، ابی سعید، حضرت ابوشریح عدوی (رض) سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ میرے کانوں نے سنا اور میری آنکھوں نے دیکھا جس وقت کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو آدمی اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو تو اسے چاہئے کہ وہ اپنے مہمان کا اکرام کرے اور اس کی خاطر تواضع کرے۔ صحابہ کرام (رض) نے عرض کیا اے اللہ کے رسول مہمان کی خاطر تواضع کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ایک دن اور ایک رات اور تین دنوں تک اس کی مہمان نوازی کرے اس کے بعد وہ اس پر صدقہ ہے اور آپ ﷺ نے فرمایا جو آدمی اللہ پر آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہئے کہ وہ خیر کی بات کہے یا وہ خاموش رہے۔
مہمان نوازی کے بیان میں
ابوکریب، محمد بن علاء، وکیع، عبدالحمید بن جعفر، سعید بن ابی سعید مقبری، حضرت ابوشریں خزاعی (رض) نے فرمایا مہمان نوازی تین دنوں تک ہے اور اس کی خاطر تواضع ایک دن اور ایک رات تک اور کسی مسلمان کے لئے آدمی کے لئے حلال نہیں کہ وہ اپنے بھائی کے پاس اتنی دیر قیام کرے کہ وہ اسے گناہ گار کر دے صحابہ (رض) نے عرض کیا اے اللہ کے رسول وہ اسے کیسے گناہ گار کر دے گا آپ ﷺ نے فرمایا وہ آدمی اس کے پاس ٹھہرے کہ اس کے پاس اس کی مہمان نوازی کے لئے کچھ نہ بچے۔
مہمان نوازی کے بیان میں
محمد بن مثنی، ابوبکر حنفی، عبدالحمید بن جعفر، سعید مقبری حضرت ابوشریح خزاعی (رض) فرماتے ہیں کہ میرے کانوں نے سنا اور میری آنکھوں نے دیکھا اور میرے دل نے یاد رکھا جس وقت کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا پھر لیث کی حدیث کی طرح ذکر کیا اور اس میں ذکر ہے کہ تم میں سے کسی کے لئے حلال نہیں کہ وہ اپنے بھائی کے پاس اتنی دیر ٹھہرے یہاں تک کہ اسے گناہ گار کرے جیسا کہ وکیع کی حدیث میں ہے۔
مہمان نوازی کے بیان میں
قتبیہ بن سعید، لیث، محمد بن رمح، لیث، یزید بن ابی حبیب، ابی خیر، حضرت عقبہ بن عامر (رض) سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! ﷺ بیشک آپ ﷺ ہمیں بھیجتے ہیں تو ہم ایک ایسی قوم کے پاس جا کر اترتے ہیں جو کہ ہماری مہمان نوازی نہیں کرتے تو اس کے بارے میں آپ ﷺ کا کیا حکم ہے ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر تم کسی ایسی قوم کے پاس اترو تو اگر وہ تمہاری (اس طرح خدمت کریں) جس طرح کہ ایک مسلمان کی ضیافت کی جاتی ہے تو تم اسے قبول کرلو اور اگر وہ اس طرح نہ کریں تو پھر ان سے ضیافت کا اس قدر حق لے لو جتنا کہ ان پر ایک مہمان کا حق ہوتا ہے۔
بچا ہوا مال مسلمانوں کی خیر خواہی میں لگانے کے استح کے بیان میں
شیبان بن فروح، ابوالاشہب، ابی نضرہ، ابی سعید خدری حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے تو ایک شخص اپنی سواری پر آیا اور دائیں بائیں گھورنے لگا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس کے پاس زائد سواری ہو تو وہ اسے دے دے اور جس کے پاس بچا ہوا زادراہ ہو تو وہ اس آدمی کو دے دے کہ جس کے پاس زادراہ نہ ہو پھر آپ ﷺ نے مال کی قسموں کو ذکر فرمایا یہاں تک کہ ہم نے خیال کیا کہ ہم میں سے کسی کو اپنے زائد مال میں حق نہیں ہے۔
جب کمی ہو تو سب کے زاد راہ آپس میں ملانے اور آپس میں مواسات کرنے کے استح کے بیان میں
احمد بن یوسف ازدی، نضر، ابن محمد یمامی، عکرمہ، ابن عمار، حضرت ایاس بن سلمہ (رض) اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک غزوہ میں نکلے تو ہمیں وہاں بہت مشقت ہوئی یہاں تک کہ ہم نے اپنی کچھ سواریوں کو ذبح کرنے کا ارادہ کرلیا تو اللہ کے نبی ﷺ نے حکم فرمایا کہ ہم اپنے اپنے زادراہ کو اکٹھا کریں پھر ہم نے اس کے لئے چمڑے کا ایک دستر خوان بچھایا جس پر سب لوگوں کے زادراہ کو اکٹھا کیا گیا راوی نے کہا کہ میں نے اس چمڑے کے ٹکڑے کو دیکھنے کے لئے آگے بڑھا کہ وہ کتنا بڑا ہے تو وہ تقریبا ایک بکری کے بیٹھنے کی جگہ کے برابر تھا اور ہم چودہ سو کی تعداد میں تھے راوی کہتے ہیں کہ ہم نے کھایا یہاں تک کہ ہم سب سیر ہوگئے پھر ہم نے اپنے کھانے کے تھیلوں کو بھر لیا تو اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا کیا وضو کا پانی ہے تو ایک آدمی لوٹے میں تھوڑا سا پانی لے کر آیا آپ ﷺ نے اس میں سے پانی ایک پیالے میں ڈالا تو ہم سب نے اس سے وضو کیا اور چودہ سو افراد نے خوب پانی بہایا راوی کہتے ہیں کہ پھر اس کے بعد آٹھ آدمی آئے تو وہ کہنے لگے کیا وضو کا پانی ہے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ہم وضو سے فارغ ہوچکے ہیں۔