34. جہاد کا بیان
جن کافروں کو پہلے اسلام دیا جا چکا ہو ایسے کافروں کو دوبارہ اسلام کی دعوت دیے بغیر ان سے جنگ کرنے کے جواز کے بیان میں
یحییٰ بن یحییٰ تمیمی، سلیم بن احضر، حضرت ابن عون (رض) سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت نافع (رض) کو لکھا اور ان سے قتال سے قبل کافروں کو اسلام کی دعوت دینے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے مجھے لکھا کہ یہ بات ابتداء اسلام میں تھی کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے بنی مصطلق پر حملہ کیا اس حال میں کہ وہ بیخبر تھے اور ان کے جانور پانی پی رہے تھے تو آپ ﷺ نے ان کے جنگجو مردوں کو قتل کیا اور باقیوں کو قید کرلیا اور اس دن حضرت جویریہ (رض) آپ ﷺ کو ملیں راوی کہتا ہے کہ میرا گمان ہے کہ حضرت جویریہ (رض) حارث کی بیٹی ہیں اور یہ حدیث مجھے ابن عمر (رض) نے بیان کی کیونکہ وہ اس لشکر میں تھے۔
جن کافروں کو پہلے اسلام دیا جا چکا ہو ایسے کافروں کو دوبارہ اسلام کی دعوت دیے بغیر ان سے جنگ کرنے کے جواز کے بیان میں
محمد بن مثنی، ابن ابی عدی، ابن عون سے ان سندوں کے ساتھ اسی طرح یہ حدیث منقول ہے اور اس میں ہے کہ حضرت جویریہ حارث کی بیٹی ہیں اور شک نہیں کیا۔
لشکر کا امیر بنانے اور اسے وصیت اور جہاد کے آداب وغیرہ کے احکام دینے کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، وکیع بن جراح، سفیان، اسحاق ابن ابراہیم، حضرت یحییٰ بن آدم (رض) سے روایت ہے کہ حضرت سفیان نے ہمیں یہ حدیث بیان کی اور کہا کہ یہ حدیث انہوں نے حضرت علقمہ بن مرثد نے ہمیں لکھوائی۔
لشکر کا امیر بنانے اور اسے وصیت اور جہاد کے آداب وغیرہ کے احکام دینے کے بیان میں
عبداللہ بن ہاشم، عبدالرحمن ابن مہدی، سفیان، علقمہ بن مرثد، حضرت سلیمان بن بریدہ (رض) اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی آدمی کو کسی لشکر یا سریہ کا امیر بناتے تو آپ ﷺ اسے خاص طور پر اللہ سے ڈرنے اور جو ان کے ساتھ ہوں ان کے ساتھ مسلمان (مجاہدین) کے ساتھ بھلائی کرنے کی وصیت فرماتے پھر آپ ﷺ نے فرمایا اللہ کا نام لے کر اللہ کے راستے میں جہاد کرو عہد شکنی نہ کرو اور مثلہ (یعنی کسی کے اعضاء کاٹ کر اس کی شکل نہ بگاڑی جائے) نہ کرو اور کسی بچے کو قتل نہ کرو اور جب تمہارا اپنے دشمن مشرکوں سے مقابلہ ہوجائے تو ان کو تین باتوں کی دعوت دینا وہ ان میں سے جس کو بھی قبول کرلیں تو ان کے ساتھ جنگ سے رک جانا پھر انہیں اسلام کی دعوت دو تو اگر وہ تیری دعوت اسلام کو قبول کرلیں تو ان سے جنگ نہ کرنا پھر ان کو دعوت دینا کہ اپنا شہر چھوڑ کر مہاجرین کے گھروں میں چلے جائیں اور ان کو خبر دیدیں کہ اگر وہ اس طرح کرلیں تو جو مہاجرین کو مل رہا ہے وہ انہیں بھی ملے گا اور ان کی وہ ذمہ داریاں ہوں گی جو مہاجرین پر ہیں اور اگر وہ اس سے انکار کردیں تو انہیں خبر دے دو کہ پھر ان پر دیہاتی مسلمانوں کا حکم ہوگا اور ان پر اللہ کے وہ احکام جاری ہوں گے جو کہ مومنوں پر جاری ہوتے ہیں اور انہیں جہاد کے بغیر مال غنیمت اور مال فئے میں سے کوئی حصہ نہیں ملے گا اور اگر وہ تمہاری دعوت قبول کرلیں تو تم بھی ان سے قبول کرو اور ان سے جنگ نہ کرو اور اگر وہ انکار کردیں تو اللہ کی مدد کے ساتھ ان سے قتال کرو اور جب تم کسی قلعہ کا محاصرہ کرلو اور وہ قلعہ والے اللہ اور رسول کو کسی بات پر ضامن بنانا چاہیں تو تم ان کے لئے نہ اللہ کے ضامن اور نہ ہی اللہ کے نبی ﷺ کو ضامن بنانا بلکہ تم اپنے آپ کو اور اپنے ساتھیوں کو ضامن بنانا کیونکہ تمہارے لئے اپنے اور اپنے ساتھیوں کے عہد سے پھرجانا اس بات سے آسان ہے کہ تم اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے عہد کو توڑو اور جب تم کسی قلعہ والوں کو محاصرہ کرلو اور وہ قلعہ والے یہ چاہتے ہوں کہ تم انہیں اللہ کے حکم کے مطابق قلعہ سے نکالو تو تم اللہ کے حکم کے مطابق نہ نکالو بلکہ انہیں اپنے حکم کے مطابق نکالو کیونکہ تم اس بات کو نہیں جانتے کہ تمہاری رائے اور اجتہاد اللہ کے حکم کے مطابق ہے یا نہیں۔
لشکر کا امیر بنانے اور اسے وصیت اور جہاد کے آداب وغیرہ کے احکام دینے کے بیان میں
حجاج بن شاعر، عبدالصمد بن عبدالوارث، شعبہ، علقمہ بن مرثد، حضرت سلیمان بن بریدہ (رض) اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی کو امیر بنا کر یا کوئی سریہ بھیجتے تو آپ ﷺ اسے وصیت فرماتے۔
لشکر کا امیر بنانے اور اسے وصیت اور جہاد کے آداب وغیرہ کے احکام دینے کے بیان میں
ابراہیم، محمد بن عبدالوہاب، حسین بن ولید حضرت شعبہ سے اسی طرح حدیث منقول ہے۔
آسانی والا معاملہ اختیار کرنے اور نفرت والا معاملہ ترک کرنے کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب، ابوبکر، ابواسامہ، برید بن عبداللہ، ابی بردہ، حضرت ابوموسی (رض) سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب اپنے صحابہ (رض) میں سے کسی کو کسی کام کے لئے بھیجتے تو آپ ﷺ فرماتے کہ لوگوں کو بشارت سناؤ اور متنفر نہ کرو اور لوگوں سے آسانی والا معاملہ کرو اور تنگی والا معاملہ نہ کرو۔
آسانی والا معاملہ اختیار کرنے اور نفرت والا معاملہ ترک کرنے کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، وکیع، شعبہ، حضرت سعید بن ابی بردہ (رض) اپنے باپ سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے ان کو اور حضرت معاذ (رض) کو یمن کی طرف بھیجا تو ان سے فرمایا کہ آسانی والا معاملہ کرنا اور تنگی والا معاملہ نہ کرنا اور ان کو بشارت سنانا اور متنفر نہ کرنا اور آپس میں ایک دوسرے کی اطاعت کرنا اور اختلاف نہ کرنا۔
آسانی والا معاملہ اختیار کرنے اور نفرت والا معاملہ ترک کرنے کے بیان میں
محمد بن عباد، سفیان، عمرو، اسحاق بن ابراہیم، ابن ابی خلف، زکریا بن عدی، عبیداللہ بن زید بن ابی انسیہ، سعید بن ابی بردہ، اپنے والد سے، جدہ اس سند کے ساتھ یہ حدیث بھی شعبہ کی حدیث کی طرح منقول ہے اور اس زید بن ابی انیس کی حدیث میں (وَتَطَاوَعَا وَلَا تَخْتَلِفَا) کے الفاظ ذکر نہیں کئے۔
آسانی والا معاملہ اختیار کرنے اور نفرت والا معاملہ ترک کرنے کے بیان میں
عبیداللہ بن معاذ عنبری، شعبہ، ابی التیاح، انس، ابوبکر بن ابی شیبہ، عبیداللہ بن سعید، محمد بن ولید، محمد بن جعفر، شعبہ، ابی التیاح، حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا لوگوں سے آسانی والا معاملہ کرنا اور ان کو تنگی میں نہ ڈالنا اور لوگوں کو سکون دینا اور ان کو متنفر نہ کرنا۔
آسانی والا معاملہ اختیار کرنے اور نفرت والا معاملہ ترک کرنے کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، محمد بن بشر، ابواسامہ، زہیر بن حرب، عبیداللہ بن سعید، یحیی، قطان، عبیداللہ، محمد بن عبداللہ بن نمیر عبیداللہ بن نافع، ابن عمر حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب اللہ اگلے اور پچھلے لوگوں کو قیامت کے دن جمع فرمائے گا تو ہر عہد شکن کے لئے ایک جھنڈا بلند کیا جائے گا اور اس سے کہا جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی عہد شکنی ہے۔
آسانی والا معاملہ اختیار کرنے اور نفرت والا معاملہ ترک کرنے کے بیان میں
ابوالربیع عتکی، حماد، ایوب، عبداللہ بن عبدالرحمن دارمی، عفان، صخر بن جویریہ، نافع، ابن عمر حضرت ابن عمر (رض) نے نبی ﷺ سے روایت کرتے ہوئے اسی حدیث کی طرح حدیث نقل فرمائی۔
آسانی والا معاملہ اختیار کرنے اور نفرت والا معاملہ ترک کرنے کے بیان میں
یحییٰ بن ایوب، قتیبہ، ابن حجر، اسماعیل بن جعفر، عبداللہ بن دینار، ابن عمر حضرت ابن عمر (رض) فرماتے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا قیامت کے دن عہد شکن کے لئے ایک جھنڈا گاڑا جائے گا اور اس سے کہا جائے گا کہ یہ فلاں کی عہد شکنی کی وجہ سے ہے۔
آسانی والا معاملہ اختیار کرنے اور نفرت والا معاملہ ترک کرنے کے بیان میں
حرملہ بن یحیی، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، حمزہ، سالم، ابنی عبداللہ، ابن عمر حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے سنا کہ رسول اللہ ﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ ہر عہد شکن کے لئے قیامت کے دن ایک جھنڈا ہوگا
آسانی والا معاملہ اختیار کرنے اور نفرت والا معاملہ ترک کرنے کے بیان میں
محمد بن مثنی، ابن بشار، ابن ابی عدی، بشر بن خالد، محمد ابن جعفر، شعبہ، سلیمن، ابی وائل، عبداللہ حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا ہر عہد شکن کے لئے قیامت کے دن ایک جھنڈا ہوگا اور کہا جائے گا کہ یہ فلاں کی عہد شکنی ہے۔
آسانی والا معاملہ اختیار کرنے اور نفرت والا معاملہ ترک کرنے کے بیان میں
اسحاق بن ابراہیم، نضر بن شیل، عبیداللہ بن سعید، عبدالرحمن، شعبہ، حضرت شعبہ (رض) سے ان سندوں سے روایت منقول ہے اور عبدالرحمن کی حدیث میں یہ الفاظ نہیں کہ کہا جائے گا کہ یہ فلاں کی عہد شکنی ہے۔
آسانی والا معاملہ اختیار کرنے اور نفرت والا معاملہ ترک کرنے کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، یحییٰ بن آدم، یزید بن عبدالعزیز، اعمش، شقیق، عبداللہ حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہر عہد شکن کے لئے قیامت کے دن ایک جھنڈا ہوگا جس کی وجہ سے وہ پہچانا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہ فلاں کی عہد شکنی ہے۔
آسانی والا معاملہ اختیار کرنے اور نفرت والا معاملہ ترک کرنے کے بیان میں
محمد بن مثنی، عبیداللہ بن سعید، عبدالرحمن بن مہدی، شعبہ، ثابت، حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہر عہد شکن کے لئے قیامت کے دن ایک جھنڈا ہوگا جس کی وجہ سے وہ پہچانا جائے گا۔
آسانی والا معاملہ اختیار کرنے اور نفرت والا معاملہ ترک کرنے کے بیان میں
محمد بن مثنی، عبیداللہ بن سعید، عبدالرحمن، شعبہ، خلید، ابی نضر، حضرت ابوسعید (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہر عہد شکن کے لئے قیامت کے دن اس کی سرین کے پاس ایک جھنڈا ہوگا۔
آسانی والا معاملہ اختیار کرنے اور نفرت والا معاملہ ترک کرنے کے بیان میں
زہیر بن حرب، عبدالصمد، عبدالوارث، مستمر بن ریان، ابونضرہ، حضرت ابوسعید (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہر عہد شکن کے لئے قیامت کے دن ایک جھنڈا ہوگا اور اسے اس کی عہد شکنی کے برابر بلند کیا جائے گا آگاہ رہو کہ امیر عامہ سے بڑھ کر کسی کی عہد شکنی نہیں ہے۔
جنگ میں دشمن کو دھوکہ دینے کے جواز کے بیان میں
علی بن حجر سعدی، عمرو بن ناقد، زہیر بن حرب، زہیر، سفیان، عمرو، حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جنگ ایک دھوکہ ہے۔
جنگ میں دشمن کو دھوکہ دینے کے جواز کے بیان میں
محمد بن عبدالرحمن بن سہم، عبداللہ بن مبارک، معمر، ہمام بن منبہ، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جنگ ایک دھوکہ ہے۔
دشمن سے ملنے کی تمنا کرنے کی ممانعت اور ملاقات (جنگ) کے وقت ثابت قدم رہنے کے حکم کے بیان میں
حسن بن علی حلوانی، عبد بن حمید، ابوعامر عقدی، مغیرہ بن عبدالرحمن حزامی، ابی زناد، اعرج، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا دشمن سے ملنے کی یعنی جنگ کی تمنا نہ کرو اور جب ان سے ملو یعنی جنگ کرو تو پھر صبر کرو (یعنی ثابت قدم رہو) ۔
دشمن سے ملنے کی تمنا کرنے کی ممانعت اور ملاقات (جنگ) کے وقت ثابت قدم رہنے کے حکم کے بیان میں
محمد بن رافع، عبدالرزاق، ابن جریج، موسیٰ بن عقبہ، ابونضر، حضرت عبداللہ بن اوفی (رض) نے حضرت عمر بن عبیداللہ (رض) کو لکھا جس وقت کہ وہ حروریہ مقام کی طرف گئے ان کو خبر دیتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا جن دنوں میں دشمن سے مقابلہ ہوا تو آپ ﷺ انتظار فرما رہے تھے یہاں تک کہ سورج ڈھل گیا پھر آپ ﷺ نے ان میں کھڑے ہو کر فرمایا اے لوگوں تم دشمن سے مقابلہ کی تمنا نہ کرو اور اللہ سے عافیت مانگو اور جب تمہارا دشمنوں سے مقابلہ ہو تو صبر کرو اور تم جان لو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے پھر نبی ﷺ کھڑے ہوئے اور فرمایا اے اللہ ! اے کتاب نازل کرنے والے ! اے بادلوں کو چلانے والے ! اور اے لشکروں کو شکت دینے والے ! ان کو شکت عطا فرما اور ہمیں ان پر غلبہ عطا فرما۔
دشمن سے ملاقات (جنگ) کے وقت نصرت کی دعا کرنے کے استح کے بیان میں
سعید بن منصور، خالد بن عبداللہ، اسماعیل بن ابی خالد، حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کافروں کی جماعتوں کے خلاف دعا فرمائی فرمایا اے اللہ ! اے کتاب نازل کرنے والے ! اے جلد حساب لینے والے ! کافروں کے گروہوں کو شکست عطا فرما اے اللہ ! انہیں شکست دے اور انہیں پھسلا دے۔
دشمن سے ملاقات (جنگ) کے وقت نصرت کی دعا کرنے کے استح کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، وکیع بن جراح، اسماعیل بن ابی خالد، حضرت ابی اوفیٰ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے دعا فرمائی آگے حدیث مبارکہ اسی طرح ہے اور اس میں اَللَّهُمَّ کا ذکر نہیں ہے۔
دشمن سے ملاقات (جنگ) کے وقت نصرت کی دعا کرنے کے استح کے بیان میں
اسحاق بن ابراہیم، ابن ابی عمر، ابن عیینہ، ابن ابی عمر، حضرت اسماعیل سے ان سندوں کے ساتھ اسی طرح روایت منقول ہے اور ابن عمر (رض) نے اپنی روایت میں یہ زائد کیا اے بادلوں کو جاری کرنے والے۔
دشمن سے ملاقات (جنگ) کے وقت نصرت کی دعا کرنے کے استح کے بیان میں
حجاج بن شاعر، عبدالصمد، حماد، ثابت، انس حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے احد کے دن فرمایا اے اللہ ! اگر تو چاہے تو زمین میں تیری عبادت نہیں کی جائے گی۔
دشمن سے ملاقات (جنگ) کے وقت نصرت کی دعا کرنے کے استح کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، محمد بن رمح، لیث، قتیبہ بن سعید، لیث، نافع، حضرت عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے کسی غزوہ میں ایک عورت مقتولہ پائی گئی تو رسول اللہ ﷺ نے عورتوں اور بچوں کے قتل کرنے کو ناپسند فرمایا۔
دشمن سے ملاقات (جنگ) کے وقت نصرت کی دعا کرنے کے استح کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، محمد بن بشر، ابواسامہ، عبیداللہ بن عمر، نافع، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ کسی غزوہ میں ایک عورت مقتولہ پائی گئی تو رسول اللہ ﷺ نے عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے سے منع فرمایا۔
شب خون میں بلا ارادہ عورتوں اور بچوں کے مارے جانے کے جواز کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، سعید بن منصور، عمرو ناقد، ابن عیینہ، یحیی، سفیان بن عیینہ، زہری، عبیداللہ، ابن عباس، حضرت صعب (رض) بن جثامہ (رض) سے روایت ہے کہ فرمایا کہ نبی ﷺ سے شب خون میں مشرکوں کے بچوں کے بارے میں پوچھا گیا کہ ان کا کیا حکم ہے تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا وہ بھی انہی میں سے ہیں۔
شب خون میں بلا ارادہ عورتوں اور بچوں کے مارے جانے کے جواز کے بیان میں
عبد بن حمید، عبدالرزاق، معمر، زہری، عبیداللہ بن عبداللہ بن عقبہ، ابن عباس، حضرت صعب (رض) بن جثامہ (رض) سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ ہمارے شب خون مارنے میں مشرکوں کے بچے بھی مارے جاتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا وہ انہی میں سے ہیں۔
شب خون میں بلا ارادہ عورتوں اور بچوں کے مارے جانے کے جواز کے بیان میں
محمد بن رافع، عبدالرزاق، ابن جریج، عمرو بن دینار، ابن شہاب، عبیدللہ بن عبداللہ بن عتبہ، ابن عباس، حضرت صعب بن جثامہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ سے پوچھا گیا کہ اگر فوج کا کوئی لشکر شب خون مارے اور ان کے ہاتھوں مشرکوں کے بچے بھی مارے جائیں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا وہ بھی اپنے باپ دادا میں سے ہیں۔
کافروں کے درختوں کو کاٹنے اور ان کو جلا ڈالنے کے جواز کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، محمد بن رمح، لیث، قتیبہ، لیث، نافع، حضرت عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بویرہ میں بنو نضیر کے درختوں کو جلا دیا اور کاٹ ڈالا قتیبہ اور ابن رمح کی حدیثوں میں یہ اضافہ ہے اللہ نے آیت نازل فرمائی تم نے جن درختوں کو کاٹا یا جن کو ان کی جڑوں پر کھڑا چھوڑ دیا تو یہ اللہ کی اجازت سے تھا تاکہ اللہ فاسقوں کو ذلیل کر دے (الحشر : ٥)
کافروں کے درختوں کو کاٹنے اور ان کو جلا ڈالنے کے جواز کے بیان میں
سعید بن منصور، ہناد بن سری، ابن مبارک، موسیٰ بن عقبہ، نافع، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بنو نضیر کے درختوں کو کاٹ دیا اور ان کو جلا ڈالا اور ان کے لئے حضرت حسان (رض) فرماتے ہیں بنی لوئی کے سرداروں کے ہاں بویرہ میں آگ لگا دینا معمولی بات ہے اور اس بارے میں آیت نازل ہوئی تم نے جن درختوں کو کاٹا جن کو تم نے ان کی جڑوں پر کھڑا چھوڑ دیا۔
کافروں کے درختوں کو کاٹنے اور ان کو جلا ڈالنے کے جواز کے بیان میں
سہل بن عثمان، عقبہ بن خالد سکونی، عبیداللہ بن نافع، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بنو نضیر کے درختوں کو جلوا ڈالا۔
خاص اس امت محمدیہ کے لئے غنیمت کا مال حلال ہونے کے بیان میں
ابوکریب، محمد بن علاء، ابن مبارک، معمر، محمد بن رافع، عبدالرزاق، معمر، ہمام بن منبہ، حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اللہ ﷺ کی احادیث میں سے ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ انبیاء (علیہم السلام) میں سے ایک نبی نے جہاد کیا اور اپنی قوم سے انہوں نے فرمایا جس آدمی نے ابھی شادی کی ہو اور اس نے ابھی تک شب زفاف نہ گزاری ہو اور وہ یہ چاہتا ہو کہ اپنی بیوی کے ساتھ رات گزارے تو وہ آدمی میرے ساتھ نہ چلے اور نہ ہی وہ آدمی میرے ساتھ چلے کہ جس نے مکان بنایا ہو اور ابھی تک اس کی چھت نہ ڈالی ہو اور میرے ساتھ وہ بھی نہ جائے جس نے بکریاں اور گابھن اونٹیاں خریدی ہوں اور وہ ان کے بچہ جننے کا انتظار میں ہو راوی کہتے ہیں کہ اس نبی ﷺ نے جہاد کیا وہ عصر کی نماز یا اس کے قریب وقت میں ایک گاؤں کے قریب آئے تو انہوں نے سورج سے کہا تو بھی مامور ہے اور میں بھی مامور ہوں اے اللہ اس سورج کو کچھ دیر مجھ پر روک دے پھر سورج کو ان پر روک دیا گیا یہاں تک کہ اللہ نے ان کو فتح عطا فرمائی پھر انہوں نے غنیمت کا مال جمع فرمایا پھر اس مال غنیمت کو کھانے کے لئے آگ آئی تو اس آگ نے اسے کھانے سے انکار کردیا یعنی نہ کھایا انہوں نے فرمایا کہ تم میں سے کسی نے اس کی خیانت کی ہے تو ہر قبیلہ کا ایک آدمی مجھ سے بیعت کرے پھر سب قبیلوں کے آدمیوں نے بیعت کی تو ایک شخص کا ہاتھ نبی کی ہاتھ کے ساتھ چپک گیا اللہ کے نبی ﷺ نے اس آدمی سے فرمایا اس مال میں خیانت کرنے والا آدمی تمہارے قبیلہ میں ہے تو اب پورا قبیلہ میرے ہاتھ پر بیعت کرے انہوں نے بیعت کی تو پھر دو یا تین آدمیوں کا ہاتھ ان کے ہاتھ سے چپک کیا تو اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا تم نے خیانت کی ہے پھر وہ گائے کے سر کے برابر سونا نکال کر لائے نبی نے فرمایا کہ تم اسے مال غنیمت میں اونچی جگہ میں رکھ دو تو آگ نے اسے قبول کیا اور کھالیا آپ (علیہ السلام) نے فرمایا ہم سے پہلے کسی کے لئے مال غنیمت حلال نہیں تھا اللہ تعالیٰ نے ہماری کمزوری اور عاجزی دیکھی تو ہماری لئے مال غنیمت کو حلال فرما دیا۔
غنیمت کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، ابوعوانہ، سماک، حضرت مصعب بن سعد (رض) اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میرے باپ نے خمس کے مال میں سے ایک تلوار لے لی اور اسے نبی ﷺ کے پاس لے کر آئے اور عرض کیا کہ یہ تلوار مجھے ہبہ فرما دیں تو آپ ﷺ نے انکار فرمایا تو اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی لوگ آپ ﷺ سے انفال کے بارے میں سوال کرتے ہیں آپ ﷺ فرما دیجئے کہ انفال اللہ اور رسول اللہ ﷺ کے لئے ہیں۔
غنیمت کے بیان میں
محمد بن مثنی، ابن بشار، ابن مثنی، محمد بن جعفر، شعبہ سماک بن حرب، حضرت مصعب (رض) بن سعد اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میرے بارے میں چار آیتیں نازل ہوئیں ایک دفعہ میں نے تلوار لی اور اسے لے کر نبی ﷺ کی خدمت میں آیا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول یہ تلوار مجھے عطا فرما دیں تو آپ ﷺ نے فرمایا اسے رکھ دو پھر جب میں کھڑا ہوا تو مجھے نبی ﷺ نے فرمایا یہ تلوار تم نے جہاں سے لی اسے وہیں رکھ دو تو میں کھڑا ہوا اور پھر عرض کیا اے اللہ کے رسول یہ تلوار مجھے عطا فرما دیں کیا میں اس آدمی کی طرح ہوجاؤں گا کہ جس کا اس کے بغیر گزارہ نہیں تو نبی ﷺ نے اس سے فرمایا جہاں سے تم نے یہ تلوار لی ہے اسے وہیں رکھ دو پھر یہ آیت نازل ہوئی کہ لوگ آپ ﷺ سے انفال کے بارے میں سوال کرتے ہیں آپ ﷺ فرما دیجئے کہ انفال اللہ اور رسول ﷺ کے لئے ہے۔
غنیمت کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، مالک، نافع، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے قبیلہ نجد کی طرف ایک لشکر بھیجا اور ان میں میں بھی تھا تو وہاں ہم نے غنیمت کے بہت سے اونٹ پائے تو ان سب کے حصہ میں بارہ بارہ یا گیارہ گیارہ اونٹ آئے اور ایک اونٹ زائد بھی ملا۔
غنیمت کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، لیث، ابن رمح، لیث، نافع، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قبیلہ نجد کی طرف ایک سریہ بھیجا اور ان میں حضرت ابن عمر (رض) بھی تھے تو ان کے حصہ میں بارہ اونٹ آئے اور اس کے علاوہ ایک اونٹ زیادہ ملا تو رسول اللہ ﷺ نے اس تقسیم میں کوئی تبدیلی نہیں فرمائی۔
غنیمت کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، علی بن مسہر، عبدالرحیم بن سلیمان، عبیداللہ بن عمر، نافع، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے قبیلہ نجد کی طرف ایک سریہ بھیجا تو میں بھی ان میں مل کر نکل گیا تو وہاں ہمیں بہت سے اونٹ اور بکریاں ملیں ہمارے حصہ میں بارہ بارہ اونٹ آئے اور رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایک ایک اونٹ زیادہ عطا فرمایا۔
غنیمت کے بیان میں
زہیر بن حرب، محمد بن مثنی، یحیی، قطاب، حضرت عبیداللہ سے اس سند کے ساتھ اسی طرح حدیث روایت کی گئی ہے۔
غنیمت کے بیان میں
ابوربیع، ابوکامل، ایوب، ابن مثنی، ابن ابی عدی، ابن عون، ابن عمر، ابن رافع، عبدالرزاق، ابن جریج، موسی، ہارون ایلی، ابن وہب، اسامہ، حضرت نافع سے ان سندوں کے ساتھ انہی حدیثوں کی طرح یہ حدیث نقل کی گئی ہے۔
غنیمت کے بیان میں
سریج بن یونس، عمرو ناقد، عبداللہ بن رجاء، یونس، زہری، حضرت سالم (رض) اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے خمس میں سے ہمارا جو حصہ بنتا تھا اس کے علاوہ بھی آپ ﷺ نے ہمیں عطا فرمایا تو مجھے شارف ملا اور شارف بڑی عمر کا اونٹ ہوتا ہے۔
غنیمت کے بیان میں
ہناد بن سری، ابن مبارک، حرملہ بن یحیی، ابن وہب، یونس ابن شہاب، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک سریہ کو غنیمت کا مال عطا فرمایا آگے ابن رجاء کی حدیث کی طرح حدیث مبارکہ منقول ہے۔
غنیمت کے بیان میں
عبدالملک بن شعیب بن لیث جدی، عقیل بن خالد، ابن شہاب، سالم، حضرت عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سرایہ میں جن کو بھیجتے ان میں سے کچھ کو ان کے مال غنیمت میں حصہ کے علاوہ کچھ خاص طور پر بھی عطا فرماتے اور خمس پورے لشکر کے لئے واجب تھا۔
مقتول کو سلب کرنے پر قاتل کے استحقاق کے بیان میں
یحییٰ بن یحییٰ تمیمی، ہشیم، یحییٰ بن سعید، عمر بن کثیر، افلح، حضرت ابومحمد انصاری (رض) سے روایت ہے کہ وہ حضرت ابوقتادہ کے ساتھ تھے انہوں نے کہا کہ حضرت ابوقتادہ نے فرمایا اور پھر حدیث بیان کی۔
مقتول کو سلب کرنے پر قاتل کے استحقاق کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، لیث، یحیی، عمر بن کثیر بن افلح، حضرت ابومحمد (رض) حضرت ابوقتادہ (رض) کے مولیٰ سے روایت ہے کہ حضرت ابوقتادہ نے فرمایا اور گزشتہ حدیث کی طرح حدیث بیان کی۔
مقتول کو سلب کرنے پر قاتل کے استحقاق کے بیان میں
ابوطاہر، عبداللہ بن وہب، مالک بن انس، یحییٰ بن سعید، عمر بن کثیر، ابن افلح، ابومحمد مولیٰ حضرت ابوقتادہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوہ حنین کے لئے نکلے تو جب ہمارا مقابلہ ہوا تو مسلمانوں کو کچھ شکست ہوئی حضرت قتادہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ مشرکوں میں سے ایک آدمی مسلمانوں میں سے ایک آدمی پر چڑھائی کئے ہوئے ہے میں اس کی طرف گھوما یہاں تک کہ اس کے پیچھے سے آکر اس کی شہ رگ پر تلوار ماری اور وہ میری طرف بڑھا اور اس نے مجھے پکڑ لیا اور اس نے مجھے اتنا دبایا کہ اس سے موت کا ذائقہ محسوس کرنے لگا لیکن اس نے مجھے فورا ہی چھوڑ دیا اور وہ خود مرگیا میں حضرت عمر بن خطاب (رض) سے مل گیا تو انہوں نے فرمایا لوگوں کو کیا ہوگیا ہے ؟ میں نے عرض کیا اللہ تعالیٰ کا حکم۔ پھر (کچھ دیر بعد) لوگ واپس لوٹ آئے اور رسول اللہ ﷺ بیٹھ گئے اور فرمایا کہ جو آدمی کسی کافر کو قتل کرے اور اس قتل پر اس کے پاس گواہ بھی موجود ہوں سامان اسی کا ہے حضرت قتادہ (رض) کہتے ہیں کہ میں کھڑا ہوا اور میں نے کہا کون ہے جو میری گواہی دے پھر میں بیٹھ گیا آپ ﷺ نے پھر اسی طرح فرمایا میں پھر کھڑا ہوگیا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے ابوقتادہ تجھے کیا ہوگیا ہے میں نے آپ ﷺ کی خدمت میں پورا واقعہ بیان کردیا لوگوں میں سے ایک آدمی کہنے لگا اے اللہ کے رسول ﷺ اس نے سچ کہا ہے اور مقتول کا سامان میرے پاس ہے اب آپ ﷺ اسے منا لیں کہ یہ اپنے حق سے دستبرار ہوجائے حضرت ابوبکر صدیق (رض) فرمانے لگے نہیں اللہ کی قسم ہرگز نہیں ایک اللہ کا شیر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے لڑے اور مقتول سے چھینا ہوا مال تجھے دے دے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ابوبکر سچ کہہ رہے ہیں تو ان کو دے دے اس نے وہ مال مجھے دے دیا میں نے زرہ بیچ کر اس کی قیمت سے بنی سلمہ کے محلہ میں ایک باغ خریدا اور میرا یہ پہلا مال تھا جو اسلام کی برکت سے مجھے ملا اور لیث کی حدیث میں ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا ہرگز نہیں آپ ﷺ یہ مال قریش کی ایک لومڑی کو نہیں دیں گے اور اللہ تعالیٰ کے شیروں میں سے ایک شیر کو نہیں چھوڑیں گے۔
مقتول کو سلب کرنے پر قاتل کے استحقاق کے بیان میں
یحییٰ بن یحییٰ تمیمی، یوسف بن ماجشون، صالح بن ابراہیم، حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) فرماتے ہیں کہ غزوہ بدر کے دن میں صف میں کھڑا تھا میں اپنے دائیں اور بائیں کیا دیکھتا ہوں کہ انصار کے دو نوجوان لڑکے کھڑے ہیں میں نے گمان کیا کہ کاش کہ میں طاقتور آدمیوں کے درمیان کھڑا ہوتا تو زیادہ بہتر تھا اسی دوران ان میں سے ایک لڑکے نے میری طرف اشارہ کر کے کہا اے چچا جان ! کیا آپ ابوجہل کو جانتے ہیں میں نے کہا ہاں اور اے بھیجتے تجھے اس سے کیا کام اس نے کہا کہ مجھے خبر ملی ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کو گالیاں دیتا ہے اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے اگر میں اس کو دیکھ لوں میرا جسم اس کے جسم سے علیحدہ نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ وہ مرجائے حضرت عبدالرحمن فرماتے ہیں کہ مجھے اس کی بات سے تعجب ہوا اسی دوران میں دوسرے لڑکے نے مجھے اشارہ کر کے اسی طرح کہا حضرت عبدالرحمن نے کہا کہ ابھی کچھ دیر ہی گزری تھی کہ میری نظر ابوجہل کی طرف پڑی وہ لوگوں میں گھوم رہا تھا میں نے ان لڑکوں سے کہا کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ یہ وہی ابوجہل ہے جس کے بارے میں تم مجھ سے پوچھ رہے تھے وہ فورا اس کی طرف جھپٹے اور تلواریں مار مار کر اسے قتل کر ڈالا پھر وہ دونوں لڑکے رسول اللہ ﷺ کی طرف لوٹے اور آپ ﷺ کو اس کی خبر دی تو آپ ﷺ نے فرمایا کیا تم دونوں نے اپنی اپنی تلوار سے اس کا خون صاف کردیا ہے انہوں نے کہا نہیں آپ ﷺ نے دونوں کی تلواروں کو دیکھا تو آپ ﷺ نے فرمایا تم دونوں نے ابوجہل کو قتل کیا ہے اور آپ ﷺ نے حضرت معاذ بن عمرو بن جموع کو ابوجہل سے چھینا ہوا مال ان دونوں لڑکوں معاذ بن عمرو بن جموع اور معاذ بن عفراء (رض) کو دینے کا حکم فرمایا۔
مقتول کو سلب کرنے پر قاتل کے استحقاق کے بیان میں
ابوطاہر، احمد بن عمرو بن سرح، عبداللہ بن وہب، معاویہ بن صالح، عبدالرحمن بن جبیر، حضرت عوف بن مالک (رض) سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ قبیلہ حمیر کے ایک آدمی نے دشمنوں کے ایک آدمی کو قتل کردیا اور جب اس نے اس کا سامان لینے کا ارادہ کیا تو حضرت خالد بن ولید (رض) نے اس سامان کو روک لیا وہ ان پر نگران تھے پھر وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئے اور آپ ﷺ کو اس کی خبر دی تو آپ ﷺ نے حضرت خالد سے فرمایا کہ تجھے کس نے اس کو سامان دینے سے منع کیا حضرت خالد نے عرض کیا اے اللہ کے رسول میں نے (اس سامان کو) بہت زیادہ سمجھا آپ ﷺ نے فرمایا کہ اسے سامان دے دو پھر حضرت خالد، حضرت عوف کے پاس سے گزرے تو انہوں نے حضرت خالد کی چادر کھینچی پھر فرمایا کیا میں نے جو رسول اللہ ﷺ سے ذکر کیا تھا وہی ہوا ہے نا ؟ رسول اللہ ﷺ نے یہ بات سن لی آپ ﷺ ناراض ہوگئے پھر آپ ﷺ نے فرمایا اے ابوخالد تو اسے نہ دے اے خالد تو اسے نہ دے کیا تم میرے نگرانوں کو چھوڑنے والے ہو کیونکہ تمہاری اور ان کی مثال ایسی ہے جیسے کسی آدمی نے اونٹ یا بکریاں چرانے کے لئے لیں پھر ان جانوروں کے پانی پینے کا وقت دیکھ کر ان کو حوض پر لایا اور انہوں نے پانی پینا شروع کردیا تو صاف صاف پانی انہوں نے پی لیا اور تلچھٹ چھوڑ دیا تو صاف یعنی عمدہ چیزیں تمہارے لئے ہیں اور بری چیز نگرانوں کے لئے ہیں۔
مقتول کو سلب کرنے پر قاتل کے استحقاق کے بیان میں
زہیر بن حرب، ولید بن مسلم، صفوان بن عمرو، عبدالرحمن بن جبیر بن نفیر، نفیر، عوف بن مالک اشجعی سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں ان لوگوں کے ساتھ نکلا کہ جو حضرت زید بن حارثہ کے ساتھ غزوہ موتہ میں نکلے اور یمن سے مجھے مدد ملی اور پھر اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ سے روایت کرتے ہوئے حدیث نقل کی اور اس حدیث میں ہے کہ حضرت عوف فرماتے ہیں کہ میں نے کہا اے خالد کیا تم جانتے ہو کہ رسول اللہ ﷺ نے قاتل کو مقتول کا سلب دلوایا ہے ؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں لیکن میں اسے زیادہ سمجھتا ہوں۔
مقتول کو سلب کرنے پر قاتل کے استحقاق کے بیان میں
زہیر بن حرب، عمر بن یونس حنفی، عکرمہ بن عمار، ایاس بن سلمہ، حضرت سلمہ بن اکوع (رض) فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ صبح کا ناشتہ کر رہے تھے کہ ایک آدمی سرخ اونٹ پر سوار ہو کر آیا پھر اس آدمی نے اس اونٹ کو بٹھایا پھر ایک تسمہ اس کی کمر میں سے نکالا اور اسے باندھ دیا پھر وہ آگے بڑھا اور ہمارے ساتھ کھانا کھانے لگا اور ادھر ادھر دیکھنے لگا اور ہم لوگ کمزور اور سواریوں سے خالی تھے اور کچھ ہم میں سے پیدل بھی تھے اتنے میں وہ جلدی سے نکلا اور اپنے اونٹ کے پاس آیا اور اس کا تسمہ کھولا پھر اس اونٹ کو بٹھایا اور اس پر بیٹھا اور اونٹ کو کھڑا کیا اور پھر اسے لے کے بھاگ پڑا ایک آدمی نے خاکی رنگ کی اونٹنی پر اس کا پیچھا کیا حضرت سلمہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں بھی جلدی میں نکلا میں اس اونٹنی کی سرین کے پاس ہوگیا پھر میں اور آگے بڑھا یہاں تک کہ میں اونٹ کی سرین کے بالکل پاس پہنچ گیا پھر میں اور آگے بڑھا یہاں تک کہ میں نے اس اونٹ کی نکیل پکڑ لی اور میں نے اسے بٹھایا اور جیسے ہی اس نے اپنا گھٹنا زمین پر ٹیکا میں نے اپنی تلوار کھینچ لی اور اس آدمی کے سر پر ماری وہ مرگیا پھر میں اونٹ اس کے کجاوے اور اسلحہ سمیت لے کر آیا تو رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کے ساتھ لوگوں نے میرا استقبال کیا اور فرمایا کس نے اس آدمی کو قتل کیا ہے تو سب نے عرض کیا حضرت سلمہ بن اکوع (رض) نے تو آپ ﷺ نے فرمایا اس کا سارا سامان حضرت سلمہ بن اکوع کا ہے۔
انعام دے کر مسلمان قیدیوں کو چھڑانے کے بیان میں
زہیر بن حرب، عمر بن یونس، عکرمہ بن عمار، ایاس بن سلمہ، حضرت ایاس (رض) بن سلمہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا کہ ہم نے قبیلہ خزارہ کے ساتھ حضرت ابوبکر (رض) کی سر براہی میں جہاد کیا حضرت ابوبکر (رض) کو رسول اللہ ﷺ نے ہم پر امیر بنایا تھا تو جب ہمارے اور پانی کے درمیان ایک گھڑی کا فاصلہ باقی رہ گیا تو حضرت ابوبکر (رض) نے ہمیں حکم فرمایا ہم رات کے آخری حصہ میں اتر پڑے اور پھر ہمیں ہر طرف سے حملہ کرنے کا حکم فرمایا پانی پر پہنچے پس وہاں جو قتل ہوگیا سو وہ قتل ہوگیا اور کچھ لوگ قید ہوئے اور میں ان لوگوں کے ایک حصہ میں دیکھ رہا تھا کہ جس میں کافروں کے بچے اور عورتیں تھیں مجھے ڈر لگا کہ کہیں وہ مجھ سے پہلے ہی پہاڑ تک نہ پہنچ جائیں تو میں نے ان کے اور پہاڑ کے درمیان ایک تیر پھینکا جب انہوں نے تیر دیکھا تو سب ٹھہر گئے میں ان سب کو گھیر کرلے آیا ان لوگوں میں قبیلہ فزارہ کی عورت تھی جو چمڑے کے کپڑے پہنے ہوئے تھی اور اس کے ساتھ عرب کی حسین ترین ایک لڑکی تھی میں ان سب کو لے کر حضرت ابوبکر (رض) کے پاس آگیا حضرت ابوبکر (رض) نے وہ لڑکی انعام کے طور پر مجھے عنایت فرما دی جب ہم مدینہ منورہ آگئے اور میں نے ابھی تک اس لڑکی کا کپڑا نہیں کھولا تھا کہ بازار میں رسول اللہ ﷺ نے میری ملاقات ہوگئی تو آپ ﷺ نے فرمایا اے سلمہ یہ لڑکی مجھے دے دو میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول اللہ کی قسم یہ لڑکی مجھے بڑی اچھی لگی ہے اور میں نے اس کا ابھی تک کپڑا نہیں کھولا پھر اگلے دن میری ملاقات رسول اللہ ﷺ سے بازار میں ہوگئی تو آپ نے فرمایا اے سلمہ وہ لڑکی مجھے دے دو تیرا باپ بہت اچھا تھا میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول وہ لڑکی آپ ﷺ کے لئے ہے اور اللہ کی قسم میں نے تو ابھی اس کا کپڑا تک نہیں کھولا پھر (اس کے بعد) رسول اللہ ﷺ نے وہ لڑکی مکہ والوں کو بھیج دی اور اس کے بدلہ میں بہت سے مسلمانوں کو چھڑایا جو کہ مکہ میں قید کردیئے گئے تھے۔
فئی کے حکم کے بیان میں
احمد بن حنبل، محمد بن رافع، عبدالرزاق، معمر، ہمام بن منبہ، حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا تم جس گاؤں میں بھی آؤ اور اس میں ٹھہرو تو اس میں تمہارا حصہ بھی ہوگا اور جس گاؤں کے لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کی تو اس کا خمس اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے لئے ہے پھر باقی تمہارے لئے ہے۔
فئی کے حکم کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، محمد بن عباد، ابوبکر بن ابی شیبہ، اسحاق بن ابراہیم، ابن ابی شیبہ، اسحاق، سفیان، عمرو، زہری، مالک بن اوس، حضرت عمر (رض) سے روایت ہے کہ بنو نضیر کے اموال ان اموال میں سے تھے کہ جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ ﷺ پر لوٹا دیا تھا مسلمانوں نے ان کو حاصل کرنے کے لئے نہ گھوڑے دوڑائے اور نہ ہی اونٹ اور یہ مال نبی ﷺ کے لئے مخصوص تھا آپ ﷺ اپنے گھر والوں کے لئے ایک سال کا خرچ اس میں سے نکال لیتے تھے اور جو باقی بچ جاتا تھا اسے اللہ کے راستے میں جہاد کی سواریوں اور ہتھیاروں کی تیاری وغیرہ میں خرچ کرتے تھے۔
فئی کے حکم کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، سفیان بن عیینہ، معمر، حضرت زہری (رض) سے اس سند کے ساتھ اسی طرح حدیث منقول ہے۔
فئی کے حکم کے بیان میں
عبداللہ بن محمد بن اسماء ضبعی، جویریہ، مالک، حضرت زہری (رض) سے روایت ہے کہ حضرت مالک بن اوس (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) بن خطاب نے مجھے پیغام بھیج کر بلوایا میں دن چڑھے آپ کی خدمت میں آگیا حضرت مالک فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ آپ گھر میں خالی تخت پر چمڑے کا تکیہ لگائے بیٹھے ہیں (فرمایا کہ اے مالک) تیری قوم کے کچھ آدمی جلدی جلدی میں آئے تھے میں نے ان کو کچھ سامان دینے کا حکم کردیا ہے اب تم وہ مال لے کر ان کے درمیان تقسیم کردو میں نے عرض کیا اے امیر المومنین ! آپ میرے علاوہ کسی اور کو اس کام پر مقرر فرما دیں آپ نے فرمایا اے مالک تم ہی لے لو اسی دوران (آپ کا غلام) یرفاء اندر آیا اور اس نے عرض کیا اے امیر المومنین ! حضرت عثمان، حضرت عبدالرحمن بن عوف، حضرت زبیر اور حضرت سعد رضوان اللہ علیھم اجمعین حاضر خدمت ہیں حضرت عمر (رض) نے فرمایا ان کے لئے اجازت ہے وہ اندر تشریف لائے پھر وہ غلام آیا اور عرض کیا کہ حضرت عباس (رض) اور حضرت علی (رض) تشریف لائے ہیں حضرت عمر (رض) نے فرمایا اچھا انہیں بھی اجازت دے دو حضرت عباس کہنے لگے اے امیر المومنین میرے اور اس جھوٹے گناہ گار دھوکے باز خائن کے درمیان فیصلہ کر دیجئے لوگوں نے کہا ہاں اے امیر المومنین ان کے درمیان فیصلہ کردیں اور ان کو ان سے راحت دلائیں حضرت مالک بن اوس کہنے لگے کہ میرا خیال ہے کہ ان دونوں حضرات یعنی عباس اور حضرت علی (رض) نے ان حضرت کو اسی لئے پہلے بھیجا ہے حضرت عمر (رض) نے فرمایا میں تمہیں اس ذات کی قسم دیتا ہوں کہ جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں کیا تم نہیں جانتے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ہم (پیغمبروں) کے مال میں سے ان کے وارثوں کو کچھ نہیں ملتا جو ہم چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے سب کہنے لگے کہ جی ہاں پھر حضرت عمر (رض) ، حضرت عباس (رض) اور حضرت علی (رض) کی طرف متوجہ ہو کر فرمانے لگے کہ میں تم دونوں کو قسم دیتا ہوں کہ جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں کیا تم دونوں جانتے ہو کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہم پیغمبروں کا کوئی وارث نہیں بنایا جاتا جو ہم چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا جی ہاں حضرت عمر (رض) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ سے ایک خاص بات کی تھی کہ جو آپ ﷺ کے علاوہ کسی سے نہیں کی حضرت عمر (رض) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو جو دیہات والوں کے مال سے عطا فرمایا وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا ہی حصہ ہے مجھے نہیں معلوم کہ اس سے پہلے کی آیت بھی انہوں نے پڑھی ہے یا نہیں پھر حضرت عمر (رض) نے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے تم لوگوں کے درمیان بنی نضیر کا مال تقسیم کردیا ہے اور اللہ کی قسم آپ ﷺ نے مال کو تم سے زیادہ نہیں سمجھا اور ایسے بھی نہیں کیا کہ وہ مال خود لے لیا ہو اور تم کو نہ دیا ہو یہاں تک کہ یہ مال باقی رہ گیا تو رسول اللہ ﷺ اس مال میں سے اپنے ایک سال کا خرچ نکال لیتے پھر جو باقی بچ جاتا وہ بیت المال میں جمع ہوجاتا پھر حضرت عمر (رض) نے فرمایا میں تم کو اس اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں کیا تم کو یہ معلوم ہے انہوں نے کہا جی ہاں پھر اسی طرح حضرت عباس (رض) اور حضرت علی (رض) کو قسم دی انہوں نے بھی اسی طرح جواب دیا لوگوں نے کہا کیا تم دونوں کو اس کا علم ہے انہوں نے کہا جی ہاں حضرت عمر (رض) نے فرمایا جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی تو حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا میں رسول اللہ ﷺ کا والی ہوں اور تم دونوں اپنی وراثت لینے آئے ہو حضرت عباس (رض) تو اپنے بھتیجے کا حصہ اور حضرت علی (رض) اپنی بیوی کا حصہ ان کے باپ کے مال سے مانگتے تھے حضرت ابوبکر (رض) نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہمارے مال کا کوئی وراث نہیں ہوتا جو کچھ ہم چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے اور تم ان کو جھوٹا، گناہ گار، دھوکے باز اور خائن سمجھتے ہو ؟ اور اللہ جانتا ہے کہ وہ سچے نیک اور ہدایت یافتہ تھے اور حق کے تابع تھے پھر حضرت ابوبکر (رض) کی وفات ہوئی اور میں رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر (رض) کا ولی بنا اور تم نے مجھے بھی جھوٹا، گناہ گار، دھوکے باز اور خائن خیال کیا اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ میں سچا، نیک، ہدایت یافتہ ہوں اور میں اس مال کا بھی والی ہوں اور پھر تم میرے پاس آئے تم بھی ایک ہو اور تمہارا معاملہ بھی ایک ہے تم نے کہا کہ یہ مال ہمارے حوالے کردیں میں نے کہا کہ میں اس شرط پر مال تمہارے حوالے کر دوں گا کہ اس مال میں تم وہی کچھ کرو گے جو رسول اللہ ﷺ کیا کرتے تھے اور تم نے یہ مال اسی شرط سے مجھ سے لیا پھر حضرت عمر (رض) نے ان سے فرمایا کیا ایسا ہی ہے ان دونوں حضرات نے کہا جی ہاں حضرت عمر (رض) نے فرمایا تم دونوں اپنے درمیان فیصلہ کرانے کے لئے میرے پاس آئے ہو اللہ کی قسم میں قیامت تک اس کے علاوہ اور کوئی فیصلہ نہیں کروں گا اگر تم سے اس کا انتظار نہیں ہوسکتا تو پھر یہ مال مجھے لوٹا دو ۔
فئی کے حکم کے بیان میں
اسحاق، محمد بن رافع، عبد بن حمید، ابن رافع، عبدالرزاق، معمر، زہری، حضرت مالک (رض) بن اوس (رض) بن حدثان سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے میری طرف پیغام بھیجا اور فرمایا کہ تمہاری قوم کے کچھ لوگ میرے پاس آئے اس سے آگے اسی طرح حدیث بیان کی سوائے اس کے کہ اس میں ہے آپ ﷺ ان مالوں میں سے اپنے گھر والوں کے لئے ایک سال کا خرچ نکال لیتے تھے معمر راوی کہتے ہیں کہ آپ ﷺ اپنے گھر والوں کے لئے ایک سال کی خوارک رکھتے تھے پھر جو مال بچتا اسے اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کے لئے رکھتے تھے
نبی ﷺ کا فرمان ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا جو ہم چھوڑیں وہ صدقہ ہے کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، مالک، ابن شہاب، عروہ، حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ جس وقت رسول اللہ ﷺ نے وفات پائی تو نبی ﷺ کی ازواج مطہرات نے ارادہ کیا کہ حضرت عثمان بن عفان (رض) کو حضرت ابوبکر (رض) کی طرف بھجیں اور ان سے نبی ﷺ کی میراث میں سے اپنا حصہ مانگیں حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ کیا رسول اللہ ﷺ نے یہ نہیں فرمایا ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا اور جو ہم چھوڑیں وہ صدقہ ہے۔
نبی ﷺ کا فرمان ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا جو ہم چھوڑیں وہ صدقہ ہے کے بیان میں
محمد بن رافع، حجین، لیث، عقیل، ابن شہاب، عروہ بن زبیر، حضرت حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ سیدہ فاطمہ (رض) رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی نے رسول اللہ ﷺ سے اپنی میراث کے بارے میں پوچھنے کے لئے پیغام بھیجا جو آپ ﷺ کو مدینہ اور فدک کے فئی اور خبیر کے خمس سے حصہ میں ملا تھا حضرت ابوبکر (رض) نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہم کسی کو وارث نہیں چھوڑتے اور ہم جو چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے البتہ آل محمد ﷺ اس مال سے کھاتے رہیں گے اور میں اللہ کی قسم رسول اللہ ﷺ کے صدقہ میں کسی چیز کی بھی تبدیلی نہیں کرسکتا اس صورت سے جس میں وہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں تھی اور میں اس میں وہی معاملہ کروں گا جو رسول اللہ ﷺ اس کے بارے میں فرمایا کرتے تھے حضرت ابوبکر (رض) نے اس میں سے کوئی بھی چیز حضرت فاطمہ کو دینے سے انکار کردیا حضرت فاطمہ (رض) کو حضرت ابوبکر (رض) سے اس وجہ سے ناراضگی ہوئی پس انہوں نے حضرت ابوبکر (رض) سے بولنا ترک کردیا اور ان سے بات نہ کی یہاں تک کہ وہ فوت ہوگئیں اور وہ رسول اللہ ﷺ کے بعد چھ ماہ تک زندہ رہیں جب وہ فوت ہوگئیں تو انہیں ان کے خاوند حضرت علی (رض) بن ابوطالب نے رات کو ہی دفن کردیا اور ابوبکر (رض) کو اس کی اطلاع نہ دی اور ان کا جنازہ حضرت علی (رض) نے پڑھایا اور حضرت علی (رض) کے لئے لوگوں کا فاطمہ کی زندگی میں کچھ میلان تھا جب وہ فوت ہوگئیں تو علی (رض) نے لوگوں کے رویہ میں کچھ تبدیلی محسوس کی تو انہوں نے ابوبکر (رض) کے ساتھ صلح اور بیعت کا راستہ ہموار کرنا چاہا کیونکہ علی (رض) نے ان مہینوں تک بیعت نہ کی تھی اور انہوں نے ابوبکر (رض) کی طرف پیغام بھیجا کہ ہمارے پاس آؤ اور تمہارے سوا کوئی اور نہ آئے عمر (رض) بن خطاب کے آنے کا ناپسند کرنے کی وجہ سے حضرت عمر (رض) نے حضرت ابوبکر (رض) سے کہا اللہ کی قسم آپ ان کے پاس اکیلے نہ جائیں حضرت ابوبکر (رض) نے کہا مجھے ان سے یہ امید نہیں کہ وہ میرے ساتھ کوئی ناروا سلوک کریں گے میں اللہ کی قسم ان کے پاس ضرور جاؤں گا پس حضرت ابوبکر (رض) ان کے پاس تشریف لے گئے تو علی بن ابوطالب (رضی اللہ عنہ) نے کلمہ شہادت پڑھا پھر کہا اے ابوبکر تحقیق ہم آپ کی فضیلت پہچان چکے ہیں جو اللہ نے آپ کو عطا کی ہے ہم اسے جانتے ہیں اور جو بھلائی آپ کو عطا کی گئی ہے ہم اس کی رغبت نہیں کرتے اللہ نے آپ ہی کے سپرد کی ہے لیکن آپ نے خود ہی یہ خلافت حاصل کرلی اور ہم اپنے لئے رسول اللہ ﷺ کی قرابت داری کی وجہ سے (خلافت) کا حق سمجھتے تھے پس اسی طرح وہ (حضرت علی (رض) حضرت ابوبکر (رض) سے گفتگو کرتے رہے یہاں تک کہ ابوبکر (رض) کی آنکھوں میں آنسو جاری ہوگئے (جب حضرت علی (رض) حضرت ابوبکر (رض) نے گفتگو کی تو کہا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے میرے نزدیک رسول اللہ ﷺ کی قرابت کے ساتھ حسن سلوک کرنا اپنی قرابت سے زیادہ محبوب ہے بہرحال ان اموال کا معاملہ جو میرے اور تمہارے درمیان واقعہ ہوا ہے اس میں بھی میں نے کسی کے حق کو ترک نہیں کیا اور میں نے رسول اللہ ﷺ کو جس معاملہ میں جس طرح کرتے دیکھا میں نے بھی اس معاملہ کو اسی طرح سر انجام دیا حضرت علی (رض) نے حضرت ابوبکر (رض) سے کہا آج سہ پہر کے وقت آپ سے بیعت کرنے کا وقت ہے حضرت ابوبکر نے ظہر کی نماز ادا کی منبر پر چڑھے اور کلمہ شہادت پڑھا اور حضرت علی (رض) کے معاملہ اور بیعت سے رہ جانے کا قصہ اور وہ عذر بیان کیا جو حضرت علی بن ابوطالب نے ان کے سامنے پیش کیا پھر علی (رض) نے استغفار کیا اور کلمہ شہادت پڑھا اور حضرت ابوبکر (رض) کے حق کی عظمت کا اقرار کیا اور بتایا کہ میں نے جو کچھ کیا وہ اس وجہ سے نہیں کیا کہ مجھے حضرت ابوبکر (رض) کی خلافت پر شک تھا اور نہ اس فضیلت سے انکار کی وجہ سے جو انہیں اللہ نے عطا کی ہے بلکہ ہم اس امر (خلافت) میں اپنا حصہ خیال کرتے تھے اور ہمارے مشورہ کے بغیر ہی حکومت بنا لی گئی جس کی وجہ سے ہمارے دلوں میں رنج پہنچا مسلمان یہ سن کو خوش ہوئے اور انہوں نے کہا آپ نے درست کیا ہے اور مسلمان پھر حضرت علی (رض) کے قریب ہونے لگے جب انہوں نے اس معروف راستہ کو اختیار کرلیا۔
نبی ﷺ کا فرمان ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا جو ہم چھوڑیں وہ صدقہ ہے کے بیان میں
اسحاق بن ابراہیم، محمد بن رافع، عبد بن حمید، ابن رافع، عبدالرزاق، معمر، زہری، عروہ، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ فاطمہ اور عباس (رض) دونوں حضرات ابوبکر (رض) کے پاس آئے اور انہوں نے ان سے رسول اللہ ﷺ کی میراث میں سے اپنے حصہ کا مطالبہ کیا اور وہ دونوں اس وقت فدک اور خبیر کے حصہ میں اپنے حصہ کا مطالبہ کر رہے تھے تو حضرت ابوبکر (رض) نے ان دونوں سے فرمایا میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا پھر مزکورہ حدیث کی طرح حدیث بیان کی اس حدیث میں یہ ہے کہ پھر حضرت علی (رض) کھڑے ہوئے اور انہوں نے حضرت ابوبکر (رض) کے حق پر ہونے کی عظمت اور ان کی فضیلت اور ان کی دین میں سبقت کا ذکر کیا پھر وہ حضرت ابوبکر (رض) کی طرف گئے اور ان کی بیعت کی پھر لوگ حضرت علی (رض) کی طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے کہ آپ نے صحیح اور اچھا کام کیا ہے تو لوگ علی (رض) کے قریب ہوگئے جس وقت کہ انہوں نے یہ نیک کام کیا۔
نبی ﷺ کا فرمان ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا جو ہم چھوڑیں وہ صدقہ ہے کے بیان میں
ابن نمیر، یعقوب بن ابراہیم، زہیر بن حرب، حسن بن علی حلوانی، یعقوب بن ابراہیم، صالح، ابن شہاب، عروہ بن زبیر، حضرت عائشہ (رض) نبی ﷺ کی زوجہ مطہرہ خبر دیتی ہیں کہ حضرت فاطمہ (رض) رسول اللہ ﷺ کی بیٹی نے رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر (رض) سے پوچھا کہ کیا رسول اللہ ﷺ کے ترکہ میں سے جو اللہ نے آپ ﷺ کو بطور فئی دیا تھا اس میراث کو آپ نے تقسیم کیا تو حضرت ابوبکر نے حضرت فاطمہ سے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ ہم (نبیوں اور رسولوں) کا کوئی وارث نہیں ہوتا ہم جو کچھ چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے راوی کہتا ہے کہ حضرت فاطمہ (رض) رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد چھ ماہ زندہ رہیں اور حضرت فاطمہ نے رسول اللہ ﷺ کے اس ترکہ میں سے جو آپ ﷺ نے خبیر فدک اور مدینہ کے صدقہ میں سے چھوڑا تھا اس میں سے اپنے حصہ کا حضرت ابوبکر (رض) سے سوال کرتی رہیں تو حضرت ابوبکر (رض) نے ان کو یہ دینے سے انکار کیا اور حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا کہ میں کوئی وہ عمل نہیں چھوڑوں گا کہ جو رسول اللہ ﷺ نے کیا تھا سوائے اس کے کہ میں اسی پر عمل کروں گا کیونکہ میں ڈرتا ہوں کہ اگر میں نے آپ ﷺ کے کئے ہوئے کسی عمل کو چھوڑا تو میں گمراہ ہوجاؤں گا اور جو مدینہ کے صدقات ہیں تو انہیں حضرت عمر (رض) نے حضرت علی (رض) اور حضرت عباس (رض) کو دیئے دیئے ہیں اور ان پر حضرت علی (رض) کا غلبہ ہے اور خبیر اور فدک کے مال کو حضرت عمر (رض) نے اپنے پاس رکھا اور فرمایا کہ یہ رسول اللہ ﷺ کے صدقات ہیں جن کو آپ ﷺ اپنے حقوق اور ملکی ضروریات میں خرچ کرتے تھے اور یہ اس کی تولیت (یعنی نگرانی) میں رہیں گے کہ جو مسلمانوں کا خلیفہ ہوگا تو آج تک ان کے ساتھ یہی معاملہ ہے۔
نبی ﷺ کا فرمان ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا جو ہم چھوڑیں وہ صدقہ ہے کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، مالک، ابی زناد، اعرج، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میری وراثت میں سے ایک دینار بھی کسی کو نہیں دے سکتے اور میری ازواج مطہرات اور میرے عامل کے اخراجات کے بعد میرے مال میں سے جو کچھ بچے گا تو وہ صدقہ ہوگا۔
نبی ﷺ کا فرمان ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا جو ہم چھوڑیں وہ صدقہ ہے کے بیان میں
محمد بن یحیی، ابن ابی عمر مکی، سفیان، ابوالزناد سے ان سندوں کے ساتھ اسی طرح روایت ہے۔
نبی ﷺ کا فرمان ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا جو ہم چھوڑیں وہ صدقہ ہے کے بیان میں
ابن ابی خلف زکریا، ابن عدی، ابن المبارک، یونس، زہری، اعرج، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا اور جو کچھ ہم چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔
حاضرین کے درمیان مال غنیمت کو تقسیم کرنے کے طریقہ کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، ابوکامل، فضیل بن حسین، سلیم، یحیی، سلیم بن اخضر، عبیداللہ بن عمر، نافع، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مال غنیمت میں سے گھوڑے کے لئے دو حصے اور آدمی کے لئے ایک حصہ تقسیم فرمایا۔
حاضرین کے درمیان مال غنیمت کو تقسیم کرنے کے طریقہ کے بیان میں
ابن نمیر، حضرت عبیداللہ (رض) نے اسی سند کے ساتھ اسی طرح روایت نقل کی ہے اور اس روایت میں " نفل " یعنی مال غنیمت کا ذکر نہیں۔
غزوئہ بدر میں فرشتوں کے ذریعہ امداد اور غنیمت کے مال کے مباح ہونے کے بیان میں
ہناد بن سری، ابن مبارک، عکرمہ بن عمار، سماک حنفی، ابن عباس، حضرت عمر بن خطاب (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے غزوہ بدر کے دن مشرکین کی طرف دیکھا تو وہ ایک ہزار تھے اور آپ ﷺ کے صحابہ تین سو انیس تھے اللہ کے نبی ﷺ نے قبلہ کی طرف منہ فرما کر اپنے ہاتھوں کو اٹھایا اور اپنے رب سے پکار پکار کر دعا مانگنا شروع کردی اے اللہ ! میرے لئے اپنے کئے ہوئے وعدہ کو پورا فرمایا اے اللہ ! اپنے وعدہ کے مطابق عطا فرما اے اللہ ! اگر اہل اسلام کی یہ جماعت ہلاک ہوگئی تو زمین پر تیری عبادت نہ کی جائے گی آپ ﷺ برابر اپنے رب سے ہاتھ دراز کئے قبلہ کی طرف منہ کر کے دعا مانگتے رہے یہاں تک کہ آپ ﷺ کی چادر مبارک آپ ﷺ کے شانہ سے گر پڑی پس حضرت ابوبکر (رض) آئے آپ ﷺ کی چادر کو اٹھایا اور اسے آپ ﷺ کے کندھے پر ڈالا پھر آپ ﷺ کے پیچھے سے آپ ﷺ سے لپٹ گئے اور عرض کیا اے اللہ کے نبی آپ کی اپنے رب سے دعا کافی ہوچکی عنقریب وہ آپ ﷺ سے اپنے کئے ہوئے وعدے کو پورا کرے گا اللہ رب العزت نے یہ آیت نازل فرمائی (اِذْ تَسْتَغِيْثُوْنَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ اَنِّىْ مُمِدُّكُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰ ى ِكَةِ مُرْدِفِيْنَ ) 8 ۔ الانفال : 9) جب تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے تو اس نے تمہاری دعا قبول کی کہ میں تمہاری مدد ایک ہزار لگاتار فرشتوں سے کروں گا پس اللہ نے آپ ﷺ کی فرشتوں کے ذریعہ امداد فرمائی حضرت ابوزمیل نے کہا حضرت ابن عباس (رض) نے یہ حدیث اس دن بیان کی جب مسلمانوں میں ایک آدمی مشرکین میں سے آدمی کے پیچھے دوڑ رہا تھا جو اس سے آگے تھا اچانک اس نے اوپر سے ایک کوڑے کی ضرب لگنے کی آواز سنی اور یہ بھی سنا کہ کوئی گھوڑ سوار یہ کہہ رہا ہے، اے حیزوم ! آگے بڑھ پس اس نے اپنے آگے مشرک کی طرف دیکھا کہ وہ چت گرا پڑا ہے جب اس کی طرف غور سے دیکھا تو اس کا ناک زخم زدہ تھا اور اس کا چہرہچہرہ پھٹ چکا تھا، کوڑے کی ضرب کی طرح اور اس کا پورا جسم بند ہوچکا تھا۔ پس اس پھٹ چکا تھا پس اس انصاری نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ ﷺ یہ واقعہ بیان کیا آپ ﷺ نے فرمایا تو نے سچ کہا یہ مدد تیسرے آسمان سے آئی تھی پس اس دن ستر آدمی مارے گئے اور ستر قید ہوئے ابوزمیل نے کہا کہ حضرت ابن عباس (رض) نے کہا جب قیدیوں کو گرفتار کرلیا تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر و عمر (رض) سے فرمایا تم ان قیدیوں کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہو حضرت ابوبکر نے عرض کیا اے اللہ کے نبی ﷺ وہ ہمارے چچا زاد اور خاندان کے لوگ ہیں میری رائے یہ ہے کہ آپ ﷺ ان سے فدیہ وصول کرلیں اس سے ہمیں کفار کے خلاف طاقت حاصل ہوجائے گی اور ہوسکتا ہے کہ اللہ انہیں اسلام لانے کی ہدایت عطا فرما دیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے ابن خطاب آپ کی کیا رائے ہے ؟ میں نے عرض کیا نہیں ! اللہ کی قسم اے اللہ کے رسول میری وہ رائے نہیں جو حضرت ابوبکر کی رائے ہے بلکہ میری رائے یہ ہے کہ آپ ﷺ انہیں ہمارے سپرد کردیں تاکہ ہم ان کی گردنیں اڑا دیں عقیل کو حضرت علی (رض) کے سپرد کریں، وہ اس کی گردن اڑائیں اور فلاں آدمی میرے سپرد کردیں۔ اپنے رشتہ داروں میں سے ایک کا نام لیا تاکہ میں اس کی گردن مار دوں کیونکہ یہ کفر کے پیشوا اور سردار ہیں پس رسول اللہ ﷺ حضرت ابوبکر (رض) کی رائے کی طرف مائل ہوئے اور میری رائے کی طرف مائل نہ ہوئے جب آئندہ روز میں آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر (رض) دونوں بیٹھے ہوئے تھے میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول مجھے بتائیں تو سہی کس چیز نے آپ ﷺ کو اور آپ ﷺ کے دوست کو رلا دیا پس اگر میں رو سکا تو میں بھی رؤں گا اور اگر مجھے رونا نہ آیا تو میں آپ ﷺ دونوں کے رونے کی وجہ سے رونے کی صورت ہی اختیار کرلوں گا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں اس وجہ سے رو رہا ہوں جو مجھے تمہارے ساتھیوں سے فدیہ لینے کی وجہ سے پیش آیا ہے تحقیق مجھ پر ان کا عذاب پیش کیا گیا جو اس درخت سے بھی زیادہ قریب تھا اللہ کے نبی ﷺ کے قربیی درخت سے بھی اور اللہ رب العزت نے یہ آیت نازل فرمائی (مَا کَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَکُونَ لَهُ ) " یہ بات نبی کی شان کے مناسب نہیں ہے کہ اس کے قبضے میں قیدی رہیں (کافروں کو قتل کر کے) زمین میں کثرت سے خون (نہ) بہائے "۔ سے اللہ عزوجل کے قول " پس کھاؤ جو مال غنیمت تمہیں ملا ہے (کہ وہ تمہارے لئے) حلال طیب (ہے) ۔ " پس اللہ نے صحابہ (رض) کے لئے غنیمت حلال کردی۔
قیدیوں کو باندھنے گرفتار کرنے اور ان پر احسان کرنے کے جواز کے بیان میں
قتبیہ بن سعید، لیث بن سعید بن ابوسعید، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک لشکر نجد کی طرف بھیجا تو وہ بنو حنیفہ کے ایک آدمی کو لائے جسے ثمامہ بن اثال اہل یمامہ کا سردار کہا جاتا تھا صحابہ نے اسے مسجد کے ستونوں میں سے ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا رسول اللہ ﷺ اس کے پاس تشریف لائے اور ارشاد فرمایا اے ثمامہ کیا خبر ہے ؟ اس نے عرض کیا اے محمد ﷺ خیر ہے اگر آپ ﷺ قتل کریں تو ایک خونی آدمی کو قتل کریں گے اور اگر آپ ﷺ احسان فرمائیں تو شکر گزار آدمی پر احسان کریں گے اور اگر مال کا ارادہ فرماتے ہیں تو مانگئے آپ ﷺ کو آپ ﷺ کی چاہت کے مطابق عطا کیا جائے گا آپ ﷺ اسے ویسے ہی چھوڑ کر تشریف لے گئے یہاں تک کہ اگلے دن آپ ﷺ نے فرمایا اے ثمامہ تیرا کیا حال ہے اس نے کہا میں نے آپ ﷺ سے عرض کیا تھا کہ اگر آپ ﷺ احسان کریں تو ایک شکر گزار پر احسان کریں گے اور اگر آپ ﷺ قتل کریں تو ایک خونی آدمی کو ہی قتل کریں گے اور اگر آپ ﷺ مال کا ارادہ رکھتے ہیں تو مانگئے آپ ﷺ کے مطالبہ کے مطابق آپ ﷺ کو عطا کیا جائے گا رسول اللہ ﷺ نے اسے اسی طرح چھوڑ دیا یہاں تک کہ اگلے روز آئے تو فرمایا اے ثمامہ تیرا کیا حال ہے اس نے کہا میری وہی بات ہے جو عرض کرچکا ہوں اگر آپ ﷺ احسان فرمائیں تو ایک شکر گزار پر احسان کریں گے اور اگر آپ ﷺ قتل کریں تو ایک طاقتور آدمی کو ہی قتل کریں گے اور آپ ﷺ مال کا ارادہ کرتے ہیں تو مانگئے آپ ﷺ کے مطالبہ کے مطابق آپ ﷺ کو دے دیا جائے گا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ثمامہ کو چھوڑ دو وہ مسجد کے قریب ہی ایک باغ کی طرف چلا غسل کیا پھر مسجد میں داخل ہوا اور کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد رسول ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں اے محمد ﷺ ! اللہ کی قسم زمین پر کوئی ایسا چہرہ نہ تھا جو مجھے آپ ﷺ کے چہرے سے زیادہ مبغوض ہو پس اب آپ ﷺ کا چہرہ اقدس مجھے تمام چہروں سے زیادہ محبوب ہوگیا ہے اور اللہ کی قسم آپ ﷺ کے شہر سے زیادہ ناپسندیدہ شہر میرے نزدیک کوئی نہ تھا پس آپ ﷺ کا شہر میرے نزدیک تمام شہروں سے زیادہ پسندیدہ ہوگیا ہے اور آپ ﷺ کے لشکر نے مجھے اس حال میں گرفتار کیا کہ میں عمرہ کا ارادہ رکھتا تھا آپ ﷺ کا کیا مشورہ ہے آپ ﷺ نے اسے بشارت دی اور حکم دیا کہ وہ عمرہ کرے جب وہ مکہ آیا تو اسے کسی کہنے والے نے کہا کیا تم صحابی یعنی بےدین ہوگئے اس نے کہا نہیں بلکہ میں رسول اللہ ﷺ پر ایمان لے آیا ہوں اللہ کی قسم تمہارے پاس یمامہ سے گندم کا ایک دانہ بھی نہ آئے گا یہاں تک کہ اس بارے میں رسول اللہ ﷺ اجازت مرحمت نہ فرما دیں۔
قیدیوں کو باندھنے گرفتار کرنے اور ان پر احسان کرنے کے جواز کے بیان میں
محمد بن مثنی، ابوبکر حنفی، عبدالحمید بن جعفر، سعید بن ابوسعید مقبری، حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے نجد کے علاقہ کی طرف گھڑ سواری کی ایک جماعت بھیجی تو وہ ایک آدمی کو لے کر آئے جسے ثمامہ بن اثال حنفی کہا جاتا تھا یہ یمامہ والوں کا سردار تھا باقی حدیث مذکورہ حدیث کی طرح ہے سوائے اس کے کہ اس میں ہے کہ اس نے کہا اگر تم مجھے قتل کرو گے تو تم ایک طاقتور آدمی کو قتل کرو گے۔
یہود کو حجاز مقدس سے جلا وطن کردینے کے بیان میں
قتبیہ بن سعید، لیث بن سعید بن ابوسعید، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ ہم مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا یہود کی طرف چلو پس ہم آپ ﷺ کے ساتھ نکلے یہاں تک کہ ہم ان کے پاس پہنچے رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے اور انہیں پکارا تو فرمایا اے یہود کی جماعت اسلام لے آؤ سلامت رہو گے انہوں نے کہا اے ابوالقاسم آپ ﷺ تبلیغ کرچکے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا میں یہی چاہتا ہوں۔ تیسری مرتبہ فرمایا جان رکھو زمین اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی ہے اور میں تمہیں اس زمین سے نکالنے کا ارادہ رکھتا ہوں پس تم میں سے جس کے پاس اپنا کوئی مال ہو تو چاہیے کہ وہ بیچ دے ورنہ جان لے زمین اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی ہے۔
یہود کو حجاز مقدس سے جلا وطن کردینے کے بیان میں
محمد بن رافع، اسحاق بن منصور، ابن رافع، اسحاق، عبدالرزاق، ابن جریج، موسیٰ بن عقبہ، نافع، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ بنو نضیر اور بنو قریظہ نے رسول اللہ ﷺ سے جنگ کی تو رسول اللہ ﷺ نے بنو نضیر کو تو جلا وطن کردیا اور بنو قریظہ پر احسان فرماتے ہوئے رہنے دیا یہاں تک کہ اس کے بعد بنو قریظہ نے بھی جنگ کی تو آپ ﷺ نے ان کے مردوں کو قتل کرا دیا اور ان کی عورتوں، اولاد اور اموال کو مسلمانوں کے درمیان تقسیم کردیا سوائے ان چند ایک کے جو رسول اللہ ﷺ سے آ ملے تو آپ ﷺ نے انہیں امن دیا اور وہ اسلام لے آئے اور رسول اللہ ﷺ نے مدینہ کے تمام یہودیوں کو جلا وطن کردیا یعنی بنو قینقاع جو حضرت عبداللہ بن سلام کی قوم اور بنو حارثہ کے یہود اور ہر اس یہودی کو جو مدینہ میں رہتا تھا۔
یہود کو حجاز مقدس سے جلا وطن کردینے کے بیان میں
ابوطاہر، عبداللہ بن وہب، حفص، میسرہ، موسی، حضرت موسیٰ نے ان سندوں کے ساتھ یہ حدیث بیان کی۔
یہود ونصاری کو جزیرہ العرب سے نکالنے کے بیان میں
زہیر بن حرب، ضحاک بن مخلد، ابن جریج، محمد بن رافع، عبدالرزاق، ابن جریج، ابولزبیر، حضرت جابر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے مجھے خبر دی انہوں نے سنا کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ یہود و نصاری کو جزیرہ عرب سے ضرور نکالوں گا یہاں تک کہ میں وہاں مسلمانوں کے علاوہ کسی کو نہیں چھوڑوں گا۔
یہود ونصاری کو جزیرہ العرب سے نکالنے کے بیان میں
زہیر بن حرب، روح بن عبادہ، سفیان ثوری، سلمہ بن شبیب، حسن بن اعین، معقل ابن عبیداللہ، حضرت ابوالزبیر (رض) سے اس سند کے ساتھ اسی طرح حدیث منقول ہے۔
عہد شکنی کرنے والے سے جنگ کرنے اور قلعہ والوں کو عادل بادشاہ کے حکم پر قلعہ سے نکالنے کے جواز کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، محمد بن مثنی، ابن بشار، ابوبکر، غندر، شعبہ، سعد بن ابراہیم ابوامامہ، سہل بن حنیف، حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ بنو قریظہ والوں نے حضرت سعد بن معاذ (رض) کے فیصلہ پر اتر آنے کی رضا مندی کا اظہار کیا رسول اللہ ﷺ نے حضرت سعد (رض) کی طرف پیغام بھیجا تو وہ گدھے پر حاضر ہوئے جب وہ مسجد کے قریب پہنچے تو رسول اللہ ﷺ نے انصار سے فرمایا اپنے سردار یا اپنے افضل ترین کی طرف اٹھو پھر فرمایا یہ لوگ تمہارے فیصلہ پر اترے ہیں سعد نے کہا ان میں سے لڑائی کرنے والے کو قتل کردیں اور ان کی اولاد کو قیدی بنالیں تو نبی ﷺ نے فرمایا تم نے اللہ کے حکم کے مطابق ہی فیصلہ کیا ہے اور کبھی فرمایا تم نے بادشاہ کے فیصلہ کے مطابق فیصلہ کیا ہے ابن مثنی نے بادشاہ کے حکم کے مطابق فیصلہ کرنے کو ذکر نہیں کیا۔
عہد شکنی کرنے والے سے جنگ کرنے اور قلعہ والوں کو عادل بادشاہ کے حکم پر قلعہ سے نکالنے کے جواز کے بیان میں
زہیر بن حرب، عبدالرحمن بن مہدی، شعبہ (رض) سے ان سندوں کے ساتھ روایت ہے اور انہوں نے اپنی حدیث میں کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم نے ان کے بارے میں اللہ کے حکم کے مطابق فیصلہ کیا ہے اور ایک مرتبہ فرمایا کہ تم نے بادشاہ کے حکم کے مطابق فیصلہ کیا ہے۔
عہد شکنی کرنے والے سے جنگ کرنے اور قلعہ والوں کو عادل بادشاہ کے حکم پر قلعہ سے نکالنے کے جواز کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شبیہ، محمد بن علاء ہمدانی، ابن نمیر، ہشام، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ حضرت سعد (رض) کو غزوہ خندق کے دن قریش کے ایک آدمی کا تیر لگا جسے ابن عرقہ کہا جاتا تھا اس کا وہ تیر بازو کی ایک رگ میں لگا رسول اللہ ﷺ نے مسجد میں اس کے لئے ایک خیمہ نصب کروا دیا تاکہ پاس ہی ان کی عیادت کرسکیں پس جب رسول اللہ ﷺ خندق سے واپس آئے اور ہتھیار اتارے غسل فرمایا تو جبرائیل (علیہ السلام) آپ ﷺ کے پاس اس حال میں آئے کہ وہ اپنے سر سے غبار جھاڑ رہے تھے اس نے کہا آپ ﷺ نے ہتھیار اتار دیئے ہیں، اللہ کی قسم آپ ﷺ اسے نہ اتارئیے بلکہ ان کی طرف نکلیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہاں، جبرائیل (علیہ السلام) نے بنو قریظہ کی طرف اشارہ کیا پس رسول اللہ ﷺ نے ان سے جنگ کی انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے حکم پر (قلعہ سے) اترنے پر رضا مندی ظاہر کی لیکن رسول اللہ ﷺ نے اس بارے میں فیصلہ کو سعد کی طرف بدل دیا تو انہوں نے کہا کہ میں ان کے بارے میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ ان میں سے لڑائی کرنے والے کو قتل کردیں اور عورتوں اور بچوں کو قیدی بنالیں اور ان کے مال کو تقسیم کرلیں۔
عہد شکنی کرنے والے سے جنگ کرنے اور قلعہ والوں کو عادل بادشاہ کے حکم پر قلعہ سے نکالنے کے جواز کے بیان میں
ابوکریب، ابن نمیر، حضرت ہشام (رض) کہتے ہیں کہ میرے باپ کہتے ہیں کہ مجھے خبر دی گئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم نے ان کے بارے میں اللہ کے حکم کے مطابق فیصلہ کیا ہے۔
عہد شکنی کرنے والے سے جنگ کرنے اور قلعہ والوں کو عادل بادشاہ کے حکم پر قلعہ سے نکالنے کے جواز کے بیان میں
ابوکریب، ابن نمیر، ہشام، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ حضرت سعد (رض) کا زخم اچھا ہونے کے بعد بھر چکا تھا انہوں نے یہ دعا کی اے اللہ ! تو جانتا ہے میرے نزدیک تیرے راستہ میں اس قوم سے جہاد کرنے سے جس نے تیرے رسول اللہ ﷺ کی تکذیب کی اور انہیں (وطن سے) نکال دیا اور کوئی چیز محبوب نہیں اے اللہ ! اگر قریش کے خلاف لڑائی کا کچھ حصہ باقی رہ گیا ہے تو تو مجھے باقی رکھ تاکہ میں ان کے ساتھ تیرے راستہ میں جہاد کروں اے اللہ ! میرا گمان ہے کہ اگر تو نے ہمارے اور ان کے درمیان جنگ ختم کردی ہے پس اگر تو نے ہمارے اور ان کے درمیان جنگ ختم کردی ہے تو اس کو کھول دے اور اسی میں میری موت واقع کر دے پس وہ زخم ان کی ہنسلی سے بہنا شروع ہوگیا اور مسجد میں ان کے ساتھ بنی غفار کا خیمہ تھا تو وہ اس خون کو اپنے خیمے میں جانے سے روک نہ سکے تو انہوں نے کہا اے خیمہ والو یہ کیا چیز ہے جو تمہارے طرف سے ہمارے پاس آرہی ہے پس اچانک دیکھا تو حضرت سعد (رض) کے زخم سے خون بہہ رہا تھا اور اسی وجہ سے وہ فوت ہوگئے۔
عہد شکنی کرنے والے سے جنگ کرنے اور قلعہ والوں کو عادل بادشاہ کے حکم پر قلعہ سے نکالنے کے جواز کے بیان میں
علی بن حسن بن سلیمان کوفی، عبدہ، حضرت ہشام (رض) سے اس سند کے ساتھ یہ روایت بھی اسی طرح ہے سوائے اس کے کہ اس روایت میں ہے کہ رات ہی سے زخم بہہ گیا اور مسلسل خون بہتا رہا یہاں تک کہ وہ انتقال کر گئے اور حدیث میں یہ زائد ہے کہ اس وقت شاعر نے کہا (جس کا ترجمہ یہ ہے) آگاہ رہو اے سعد ! سعد بن معاذ قریظہ اور نضیر نے یہ کیا کیا اے سعد بن معاذ تیری عمر کی قسم جس صبح کو انہوں نے مصیبتوں کو برداشت کیا وہ بڑی صبر والی ہے تم نے اپنی ہانڈی ایسی چھوڑی کہ اس میں کچھ نہیں ہے اور قوم کی ہانڈی گرم ہے اور ابل رہی ہے کریم ابوحباب نے کہا ٹھہرو اے قینیقاع اور نہ چلو حال یہ ہے کہ وہ اپنے شہر میں بہت بوجھل تھے جیسے کہ مطان پہاڑی کے پتھر بھاری ہیں۔
جہاد میں جلد جانے اور دو متعار
عبداللہ بن محمد، اسما ضبعی، جویریہ بن اسماء، نافع، حضرت عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں پکارا جس وقت کہ ہم غزوہ احزاب سے واپس لوٹے کہ بنوقریظہ میں پہنچنے سے پہلے کوئی ظہر کی نماز نہ پڑھے تو کچھ لوگوں نے وقت کو فوت ہونے کے ڈر سے بنو قریظہ میں پہنچنے سے پہلے نماز پڑھ لی اور دوسرے صحابہ (رض) نے کہا کہ ہم نماز نہیں پڑھیں گے سوائے اس جگہ کہ جہاں رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نماز پڑھنے کا حکم فرمایا اگرچہ نماز کا وقت فوت ہوجائے حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے دونوں فریقوں میں سے کسی کی ملامت نہیں کی۔
مہاجریں کا فتوحات سے غنی ہوجانے کے بعد انصار کے عطیات درخت پھل وغیرہ انہیں لوٹانے کے بیان میں
ابوطاہر، حرملہ، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ جب مہاجرین مکہ سے مدینہ آئے تھے تو ان کے قبضہ میں کوئی چیز نہیں تھی اور انصار زمین و جائیداد والے تھے تو انصار نے اس شرط پر زمینیں ان کے سپرد کردیں کہ وہ ہر سال پیداوار کا نصف انہیں دیا کریں گے اور ان کی جگہ محنت اور مزدوری کریں گے اور ام انس بن مالک جسے ام سلیم کہا جاتا ہے جو عبداللہ بن ابی طلحہ کی والدہ بھی تھیں اور (عبداللہ) حضرت انس کی ماں کی طرف بھائی تھے ام انس (رض) نے رسول اللہ ﷺ کو اپنے کھجور کے درخت دے دیئے تھے رسول اللہ ﷺ نے وہ درخت اپنی آزاد کردہ باندی ام ایمن جو اسامہ بن زید کی والدہ تھیں کو عطا کردیئے ابن شہاب نے کہا مجھے انس بن مالک نے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ جب اہل خیبر کے ساتھ جہاد سے فارغ ہوئے اور مدینہ لوٹے تو مہاجرین نے انصار کو ان کے عطایا واپس کردیئے جو ان کی طرف پھلوں کی شکل میں تھے اور رسول اللہ ﷺ نے بھی میری والدہ کو ان کے کھجور کے درخت واپس کردیئے اور ام ایمن کو رسول اللہ ﷺ نے ان کی جگہ اپنے باغ میں درخت عطا کردیئے ابن شہاب نے ام ایمن کے حالات میں کہا کہ وہ اسامہ بن زید کی والدہ ملک حبشہ کی رہنے والی حضرت عبداللہ بن عبدالمطلب کی باندی تھیں جب حضرت آمنہ نے رسول اللہ کو آپ ﷺ کے والد کی وفات کے بعد جنم دیا تو ام ایمن نے آپ ﷺ کی پرورش کی تھی یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ نے بڑے ہو کر انہیں آزاد کردیا پھر حضرت زید بن حارثہ سے ان کا نکاح کردیا پھر رسول اللہ ﷺ کے وصال کے پانچ ماہ بعد وفات پا گئیں۔
مہاجریں کا فتوحات سے غنی ہوجانے کے بعد انصار کے عطیات درخت پھل وغیرہ انہیں لوٹانے کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، حامد بن عمر بکراوی، محمد بن عبدالاعلی قیسی، ابن ابی شیبہ، معتمر بن سلیمان تیمی، حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ لوگ اپنی زمین میں سے باغات نبی کریم ﷺ کی خدمت میں پیش کرتے تھے یہاں تک کہ آپ ﷺ کو بنوقریظہ و بنو نضیر پر فتح دی گئی تو آپ ﷺ نے وہ درخت انہیں واپس کرنا شروع کر دئیے جنہوں نے آپ ﷺ کو دیئے تھے انس کہتے ہیں کہ مجھے میرے گھر والوں نے کہا کہ میں نبی اقدس ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ ﷺ سے اپنے اہل و عیال کے عطا کردہ درختوں کے بارے میں سوال کروں کہ وہ سارے یا ان میں سے کچھ آپ ﷺ واپس کردیں اور اللہ کے نبی ﷺ نے وہ درخت ام ایمن کو عطا کر رکھے تھے میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ ﷺ نے وہ درخت مجھے عطا کردیئے اور ام ایمن آئی اور انہوں نے میری گردن میں کپڑا ڈالنا شروع کردیا اور کہا اللہ کی قسم میں وہ درخت نہیں دوں گی جو مجھے دیئے گئے تھے اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا اے ام ایمن اسے چھوڑ دے اور تیرے لئے اتنے اتنے درخت ہیں انہوں نے کہا ہرگز نہیں اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپ ﷺ فرماتے تھے تیرے لئے اتنے اتنے یہاں تک کہ اسے ان درختوں سے دس گنا یا دس گنا کے قریب عطا کردیے۔
دارالحرب میں مال غنیمت کے کھانے کو جواز کے بیان میں
شیبان بن فروح، سلیمان، ابن مغیرہ، حمید بن ہلال، حضرت عبداللہ بن مغفل (رض) سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں کہ خیبر کے دن مجھے چربی کی ایک تھیلی ملی تو میں نے اسے سنبھال لیا اور میں نے کہا کہ میں آج کے دن اس میں سے کسی کو کچھ نہیں دوں گا حضرت عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے پیچھے کی طرف مڑ کر دیکھا تو رسول اللہ ﷺ مسکرا رہے تھے۔
دارالحرب میں مال غنیمت کے کھانے کو جواز کے بیان میں
محمد بن بشار عبدی، بہز بن اسد، شعبہ، حمید بن ہلال، حضرت عبداللہ بن مغفل (رض) فرماتے ہیں کہ خیبر کے دن ہماری طرف ایک تھیلی پھینکی گئی جس میں کھانا اور چربی تھی میں اسے اٹھانے کے لئے دوڑا حضرت عبداللہ کہتے ہیں کہ میں پیچھے کی طرف متوجہ ہوا تو رسول اللہ ﷺ تھے تو مجھے شرم محسوس ہوئی شعبہ نے ان سندوں کے ساتھ بیان کیا سوائے اس کے کہ اس روایت میں تھیلی میں چربی کا ذکر ہے اور طعام کا ذکر نہیں ہے۔
نبی کریم ﷺ کا ہرقل کی طرف اسلام کی دعوت کے لئے مکتوب کے بیان میں
اسحاق بن ابراہیم حنظلی، ابن ابی عمر، محمد بن رافع، عبداللہ بن حمید، ابن رافع، ابن ابی عمر، عبدالرزاق، معمر، زہری، عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ، ابوسفیان، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ حضرت ابوسفیان (رض) نے اسے روبرو خبر دی کہ میں اپنے اور رسول اللہ ﷺ کے درمیان مدت معاہدہ کے دوران شام کی طرف چلا ہم شام میں قیام پذیر تھے کہ اسی دوران شام کی طرف رسول اللہ ﷺ کا خط لایا گیا جسے حضرت دحیہ کلبی لائے تھے پس انہوں نے یہ بصریٰ کے گورنر کے سپرد کیا اور بصریٰ کے گورنر نے وہ خط ہرقل کو پیش کیا تو ہرقل نے کہا کیا یہاں کوئی آدمی اس کی قوم کا آیا ہوا ہے جس نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ نبی ہے لوگوں نے کہا جی ہاں چناچہ مجھے قریش کے چند آدمیوں کے ساتھ بلایا گیا ہم ہرقل کے پاس پہنچے تو اس نے ہمیں اپنے سامنے بٹھایا پھر کہا تم میں کون نسب کے اعتبار سے اس آدمی کے قریب ہے جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ نبی ہے ؟ ابوسفیان کہتے ہیں میں نے کہا میں ہوں تو اس نے مجھے اپنے سامنے اور میرے ساتھیوں کو میرے پیچھے بٹھا دیا پھر اپنے ترجمان کو بلایا پھر اس سے کہا ان سے کہو میں اس آدمی کے بارے میں پوچھنے والا ہوں جس کا گمان ہے کہ وہ نبی ہے پس اگر یہ مجھ سے جھوٹ بولے تو تم اس کی تکذیب کرنا ابوسفیان (رض) نے کہا اللہ کی قسم اگر مجھے اس بات کا خوف نہ ہوتا کہ یہ مجھے جھوٹا کہیں گے تو میں ضرور جھوٹ بولتا پھر ہرقل نے اپنے ترجمان سے کہا کہ اس سے پوچھو کہ اس کا خاندان تم میں کیسا ہے ؟ میں نے کہا وہ ہم میں نہایت شریف النسب ہے کیا اس کے آباؤ اجداد میں سے کوئی بادشاہ بھی تھا ؟ میں نے کہا نہیں ہرقل نے کہا کیا تم اسے اس بات کا دعوی کرنے سے پہلے جھوٹ سے متہم کرتے تھے ؟ میں نے کہا نہیں ہرقل نے کہا اس کی اتباع کرنے والے بڑے بڑے لوگ ہیں یا کمزور و غریب ؟ میں نے کہا بلکہ وہ کمزور لوگ ہیں۔ اس نے کہا وہ بڑھ رہے ہیں یا کم ہو رہے ہیں ؟ میں نے کہا : نہیں بلکہ وہ بڑھ رہے ہیں۔ اس نے کہا کیا ان میں سے کوئی اپنے دین سے اس کے دین میں داخل ہونے کے بعد آپ ﷺ سے ناراضگی کی وجہ سے پھر بھی گیا ہے ؟ میں نے کہا نہیں اس نے کہا کیا تم نے اس سے کوئی جنگ بھی کی ؟ میں نے کہا جی ہاں ہرقل نے کہا اس سے تمہاری جنگ کا نتیجہ کیا رہا ؟ میں نے کہا جنگ ہمارے اور ان کے درمیان ایک ڈول رہی کبھی انہوں نے ہم سے کھینچ اور کبھی ہم نے ان سے کھینچ لیا اس نے کہا کیا وہ معاہدہ کی خلاف ورزی بھی کرتا ہے ؟ میں نے کہا نہیں اور ہم اس سے ایک معاہدہ میں ہیں ہم نہیں جانتے وہ اس بارے میں کیا کرنے والے ہیں ابوسفیان کہنے لگے اللہ کی قسم اس نے مجھے اس ایک کلمہ کے سوا کوئی بات اپنی طرف سے شامل کرنے کی گنجائش ہی نہیں دی ہرقل نے کہا کیا اس سے پہلے کسی اور نے بھی اس کے خاندان سے اس بات کا دعوی کیا ہے ؟ میں نے کہا نہیں اس نے اپنے ترجمان سے کہا اس سے کہو میں نے تجھ سے اس کے خاندان کے بارے میں پوچھا اور تیرا گمان ہے کہ وہ تم میں سے اچھے خاندان والا ہے اور رسولوں کو اسی طرح اپنی قوم کے اچھے خاندانوں سے بھیجا جاتا ہے اور میں نے تجھ سے پوچھا کیا اس کے آباؤ اجداد میں کوئی بادشاہ گزرا ہے اور تیرا خیال ہے کہ نہیں تو میں کہتا ہوں اگر اس کے آباو اجداد میں کوئی بادشاہ ہوتا تو میں کہتا کہ وہ ایسا آدمی ہے جو اپنے آباؤ اجداد کی بادشاہت کا طالب ہے اور میں نے تجھ سے اس کی پیروی کرنے والوں کے بارے میں پوچھا کیا وہ ضعیف طبقہ کے لوگ ہیں یا بڑے آدمی ہیں تو نے کہا بلکہ وہ کمزور ہیں اور یہی لوگ رسولوں کے پیروگار ہوتے ہیں اور میں نے تجھ سے پوچھا کیا تم اسے اس دعوی سے قبل جھوٹ سے بھی متہم کرتے تھے اور تو نے کہا نہیں تو میں نے پہچان لیا جو لوگوں پر جھوٹ نہیں باندھتا وہ اللہ پر جھوٹ باندھنے کا ارتکاب کیسے کرسکتا ہے اور میں نے تجھ سے پوچھا کیا ان لوگوں میں سے کوئی دین میں داخل ہونے کے بعد ان سے ناراضگی کی وجہ سے پھر بھی گیا ہے تو نے کہا نہیں اور اسی طرح ایمان کی حلاوت ہوتی ہے جب دل اس سے لطف اندوز ہوجائیں اور میں نے تجھ سے پوچھا کیا وہ بڑھ رہے ہیں یا کم ہو رہے ہیں تو نے کہا کہ وہ بڑھ رہے ہیں تو حقیقت میں ایمان کے درجہ تکمیل تک پہنچنے میں یہی کیفیت ہوتی ہے میں نے تجھ سے پوچھا کیا تم نے اس سے کوئی جنگ بھی کی اور تو نے کہا ہم اس سے جنگ کرچکے ہیں اور جنگ تمہارے اور اس کے درمیان ڈول کی طرح ہے کبھی وہ تم پر غالب اور کبھی تم اس پر غالب رہے اور رسولوں کو اسی طرح مبتلا رکھا جاتا ہے پھر آخر انجام فتح انہی کی ہوتی ہے اور میں نے تجھ سے پوچھا کیا اس نے معاہدہ کی خلاف ورزی بھی کی ؟ تو نے کہا : نہیں اور رسل (علیہم السلام) اسی طرح عہد شکنی نہیں کرتے اور میں نے تجھ سے پوچھا کیا یہ دعوی اس سے پہلے بھی کسی نے کیا تو تم نے کہا نہیں تو میں کہتا ہوں اگر یہ دعوی اس سے پہلے کیا جاتا تو کہتا ہے یہ ایسا آدمی ہے جو اپنے سے پہلے کئے گئے دعوی کی تکمیل کر رہا ہے ابوسفیان نے کہا پھر ہرقل نے کہا وہ تمہیں کس بات کا حکم دیتے ہیں میں نے کہا وہ ہمیں نماز، زکوۃ، صلہ رحمی اور پاک دامنی کا حکم دیتے ہیں ہرقل نے کہا جو کچھ تم کہہ رہے ہو اگر یہ سچ ہے تو وہ واقعتا نبی ہے اس نے کہا میں جانتا تھا کہ اس کا ظہور تم میں سے ہوگا اور اگر مجھے معلوم ہوتا کہ میں ان تک پہنچ جاؤں گا تو میں ان کی ملاقات کو پسند کرتا اور اگر میں ان کے پاس ہوتا تو میں ان کے پاؤں مبارک دھوتا اور ان کی بادشاہت ضرور بالضرور میرے قدموں کے نیچے پہنچ جائے گی پھر اس نے رسول اللہ ﷺ کا خط مبارک منگوا کر پڑھا تو اس میں یہ تھا بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ اللہ کے رسول محمد ﷺ کی طرف سے (یہ خط) بادشاہ روم ہرقل کی طرف۔ اس پر سلامتی ہو جس نے ہدایت کا اتباع کیا۔ اما بعد میں تجھے اسلام کی دعوت دیتا ہوں اسلام قبول کرلو سلامت رہو گے اور اسلام قبول کرلے اللہ تجھے دوہرا ثواب عطا کرے گا اور اگر تم نے اعراض کیا تو رعایا کا گناہ بھی تجھ پر ہوگا اور اے اہل کتاب آؤ اس بات کی طرف جو تمہارے اور ہمارے درمیان برابر (مطفق) ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت کریں اور نہ اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک کریں گے اور نہ ہمارے بعض دوسرے بعض کو اللہ کے سوا رب بنائیں گے پس اگر وہ اعراض کریں تو تم کہہ دو گواہ ہوجاؤ کہ ہم مسلمان ہیں۔ جب خط کے پڑھنے سے فارغ ہوا تو اس کے سامنے چیخ و پکار ہونے لگی اور بکثرت آوازیں آنا شروع ہوگئیں اور اس نے ہمیں باہر لے جانے کا حکم دیا میں نے اپنے ساتھیوں سے اس وقت کہا جب کہ ہمیں نکالا گیا کہ اب تو ابن ابی کبشہ رسول اللہ ﷺ کی بات بہت بڑھ گئی ہے کہ اس سے تو شاہ روم بھی خوف کرتا ہے اور اسی وقت سے مجھے ہمیشہ یہ یقین رہا کہ رسول اللہ ﷺ عنقریب غالب ہوں گے حتی کہ رب العزت نے اپنی رحمت سے مجھے اسلام میں داخل کردیا۔
نبی کریم ﷺ کا ہرقل کی طرف اسلام کی دعوت کے لئے مکتوب کے بیان میں
حسن حلوانی، عبد بن حمید، یعقوب ابن ابراہیم، ابن سعد، ابوصالح، ابن شہاب سے ان سندوں کے ساتھ روایت ہے اور اس حدیث میں یہ زائد ہے کہ قیصر نے جب فارس کے لشکر کو شکست دی تو وہ حمص سے ایلیاء کی طرف چلا تاکہ وہ اس آزمائش میں کامیاب ہونے پر اللہ کا شکر ادا کرے۔
نبی ﷺ کے لکھے گئے کافر بادشاہوں کی طرف اور ان ہیں اسلام کی طرف بلانے کے بیان میں
یوسف بن حماد، عبدالاعلی، سعید بن قتادہ، حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے کسری اور قیصر کی طرف اور نجاشی اور ہر (کافر) حاکم کی طرف خط لکھے جن میں ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دی گئی اور نجاشی یہ وہ نہیں ہے کہ جس پر نبی ﷺ نے نماز جنازہ پڑھائی تھی۔
نبی ﷺ کے لکھے گئے کافر بادشاہوں کی طرف اور ان ہیں اسلام کی طرف بلانے کے بیان میں
محمد بن عبداللہ، عبدالوہاب بن عطاء، سعید، قتادہ، حضرت انس (رض) نے نبی ﷺ سے اسی حدیث کی طرح حدیث نقل کی اس حدیث میں یہ نہیں کہا کہ یہ نجاشی وہ نہیں ہے کہ جس پر نبی ﷺ نے نماز جنازہ پڑھائی۔
نبی ﷺ کے لکھے گئے کافر بادشاہوں کی طرف اور ان ہیں اسلام کی طرف بلانے کے بیان میں
نصر بن علی جہضمی، خالد بن قیس، قتادہ، انس، اسی طرح دوسری سند سے جو روایت ہے اس میں بھی یہ الفاظ مذکور نہیں کہ یہ نجاشی وہ نہیں کہ جس پر نبی ﷺ نے نماز جنازہ پڑھائی۔
غزوئہ حنین کے بیان میں
ابوطاہر، احمد بن عمرو بن سرح، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، حضرت کثیر بن عباس بن عبدالمطلب بیان کرتے ہیں کہ حضرت عباس (رض) فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حنین کے دن موجود تھا میں اور ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب ساتھ ساتھ رہے اور رسول اللہ ﷺ بالکل علیحدہ نہیں ہوئے اور رسول اللہ ﷺ سفید رنگ کے خچر پر سوار تھے وہ خچر آپ ﷺ کو فروہ بن نفاثہ جذامی نے ہدیہ کیا تھا تو جب مسلمانوں اور کافروں کا مقابلہ ہوا تو مسلمان پیٹھ پھیر کر بھاگے اور رسول اللہ ﷺ کافروں کی طرف اپنے خچر کو دوڑا رہے تھے حضرت عباس (رض) کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے خچر کی لگام کو پکڑ کر اسے تیز بھاگنے سے روک رہا تھا اور ابوسفیان رسول اللہ ﷺ کی رکاب پکڑے ہوئے تھے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے عباس اصحاب سمرہ کو بلاؤ۔ حضرت عباس بلند آواز آدمی تھے۔ (حضرت عباس (رض) کہتے ہیں کہ) میں نے اپنی پوری آواز سے پکارا کہ اصحاب سمرہ کہاں ہیں ؟ حضرت عباس (رض) کہتے ہیں اللہ کی قسم جس وقت انہوں نے یہ آواز سنی تو وہ اس طرح پلٹے جس طرح کہ گائے اپنے بچوں کی طرف پلٹتی ہے وہ لوگ يَا لَبَّيْکَ يَا لَبَّيْکَ کہتے ہوئے آئے اور انہوں نے کافروں سے جنگ شروع کردی اور انہوں نے انصار کو بھی بلایا اور کہنے لگے اے انصار کی جماعت پھر انہوں نے بنو حارث بن خزرج کو بلایا اور کہا اے بنو حارث بن خزرج ! اے بنو حارث بن خزرج ! تو رسول اللہ ﷺ اپنے خچر پر سوار ان کی طرف ان کی جنگ کا منظر دیکھ رہے تھے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس وقت تنور گرم ہے راوی کہتے ہیں کہ پھر رسول اللہ ﷺ نے چند کنکریاں اٹھائیں اور انہیں کافروں کے چہروں کی طرف پھینکا پھر فرمایا محمد ﷺ کے رب کی قسم یہ شکست کھا گئے حضرت عباس (رض) فرماتے ہیں کہ میں دیکھ رہا تھا کہ جنگ بڑی تیزی کے ساتھ جاری تھی میں اس طرح دیکھ رہا تھا کہ آپ ﷺ نے اچانک کنکریاں پھینکیں۔ حضرت عباس (رض) کہتے ہیں اللہ کی قسم میں نے دیکھا کہ ان کا زور ٹوٹ گیا اور وہ پشت پھیر کر بھاگنے لگے۔
غزوئہ حنین کے بیان میں
اسحاق بن ابراہیم، محمد بن رافع، عبد بن حمید، عبدالرزاق، معمر، حضرت زہری (رض) سے ان سندوں کے ساتھ اسی طرح یہ حدیث نقل کی گئی ہے سوائے اس کے کہ اس میں ہے فروہ بن نعامہ جذامی کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا رب کعبہ کی قسم یہ شکست کھا گئے رب کعبہ کی قسم یہ شکست کھا گئے اور حدیث میں یہ زائد ہے کہ یہاں تک کہ اللہ نے ان کو شکست دے دی اور گویا کہ میں نبی ﷺ کی طرف دیکھ رہا ہوں کہ آپ ﷺ ان کے پیچھے اپنے خچر کو بھگا رہے ہیں۔
غزوئہ حنین کے بیان میں
ابن ابی عمر، سفیان بن عیینہ، زہری، حضرت کثیر بن عباس (رض) اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے خبر دیتے ہیں کہ میں حنین کے دن نبی ﷺ کے ساتھ تھا پھر آگے مذکورہ حدیث کی طرح حدیث نقل کی۔
غزوئہ حنین کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، ابوخیثمہ، حضرت ابواسحاق (رض) سے روایت ہے کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت براء (رض) سے کہا اے ابوعمارہ کیا تم حنین کے دن بھاگ گئے تھے انہوں نے کہا نہیں اللہ کی قسم رسول اللہ ﷺ نے پیٹھ نہیں پھیری بلکہ آپ ﷺ کے صحابہ میں سے چند نوجوان جلد باز اور بغیر ہتھیار میدان میں نکل آئے اور انہوں نے ایسے تیراندازوں سے مقابلہ کیا جو ہوازن اور بنو نضیر کے ایسے نوجوان تھے جن کا تیر خطا نہ ہوتا تھا انہوں نے اس انداز میں تیراندازی کی کہ ان کا کوئی تیر خطا نہ گیا پھر یہ نوجوان رسول اللہ ﷺ کی طرف متوجہ ہوئے اور رسول اللہ اپنے سفید خچر پر سوار تھے اور ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب اس کی لگام تھامے ہوئے تھے آپ ﷺ اترے اور اللہ سے مدد طلب کی اور ارشاد فرمایا میں نبی ﷺ ہوں یہ جھوٹ نہیں ہے میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں پھر آپ ﷺ نے صف بندی کی۔
غزوئہ حنین کے بیان میں
احمد بن جناب مصیصی، عیسیٰ بن یونس، زکریا، حضرت ابواسحاق (رض) سے روایت ہے کہ حضرت براء کے پاس ایک آدمی نے آ کر کہا اے ابوعمارہ کیا تم غزوہ حنین کے دن بھاگ گئے تھے انہوں نے کہا میں نبی ﷺ کی اس بات پر گواہی دیتا ہوں کہ آپ ﷺ نے پیٹھ نہ پھیری بلکہ لوگوں میں سے چند کمزور اور نہتے نوجوان بنو ہوازن کے اس قبیلہ کی طرف بڑھے اور وہ تیر انداز قوم تھی پس انہوں نے تیروں کی اس طرح بوچھاڑ کردی جیسے ٹڈی دل ہو صحابہ (رض) منتشر ہوگئے تو یہ قوم رسول اللہ ﷺ کی طرف بڑھنے لگی اس وقت ابوسفیان بن حارث آپ ﷺ کے خچر کی لگام تھامے ہوئے تھے آپ ﷺ اترے دعا مانگی اور مدد طلب کی اور آپ ﷺ فرماتے تھے میں نبی ﷺ ہوں یہ جھوٹ نہیں ہے میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں اے اللہ اپنی مدد نازل فرما براء نے کہا ہم جنگ کی شدت میں اپنے آپ کو آپ ﷺ کی پناہ میں بچاتے تھے اور ہم میں سے بہادر آپ ﷺ کے ساتھ یعنی نبی ﷺ کے ساتھ رہتا۔
غزوئہ حنین کے بیان میں
محمد بن مثنی، ابن بشار، ابن مثنی، محمد بن جعفر، شعبہ، ابواسحاق سے روایت ہے کہ میں نے براء سے سنا اور ان سے قیس کے ایک آدمی نے پوچھا کیا تم غزوہ حنین کے دن رسول اللہ ﷺ کے پاس سے بھاگ گئے تھے براء (رض) نے کہا لیکن رسول اللہ ﷺ نہیں بھاگے اور ان دنوں ہوازن تیرانداز تھے جب ہم نے ان پر حملہ کیا تو وہ بھاگ گئے ہم مال غنیمت پر ٹوٹ پڑے اور انہوں نے تیروں سے ہمارا مقابلہ کیا اور میں نے رسول اللہ ﷺ کو اپنے سفید خچر پر سوار دیکھا اور ابوسفیان بن حارث اس کی لگام پکڑے ہوئے تھے اور آپ ﷺ فرما رہے تھے میں نبی ہوں یہ جھوٹ نہیں ہے میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔
غزوئہ حنین کے بیان میں
زہیر بن حرب، محمد بن مثنی، ابوبکر بن خلاد، یحییٰ بن سعید، سفیان، ابواسحاق حضرت براء (رض) سے روایت ہے کہ ان سے ایک آدمی نے کہا اے ابوعمارہ باقی حدیث مبارکہ اسی طرح ہے۔
غزوئہ حنین کے بیان میں
زہیر بن حرب، عمر بن یونس، عکرمہ بن عمار، ایاس بن سلمہ، حضرت ایاس بن سلمہ (رض) سے روایت ہے کہ مجھے میرے والد نے حدیث بیان کی کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوہ حنین میں شرکت کی جب ہمارا دشمن سے مقابلہ ہوا تو میں آگے بڑھ کر ایک گھاٹی پر چڑھ گیا سامنے سے دشمن کا ایک آدمی آیا میں نے اسے تیر مارا تو وہ مجھ سے چھپ گیا اور میں نہ جان سکا کہ اس نے کیا کیا ہے میں نے (دشمن) قوم کو دیکھا تو وہ دوسری گھاٹی سے چڑھ رہے تھے ان کا اور نبی ﷺ کا مقابلہ ہوا تو نبی ﷺ کے صحابہ (رض) نے پشت پھیری اور میں بھی شکست کھا کر لوٹا اور مجھ پر دو چادریں تھیں ایک کو میں نے باندھا ہوا تھا اور دوسری کو اوڑھا ہوا تھا میری تہ بند کھل گئی تو میں نے دونوں چادروں کو اکٹھا کرلیا اور میں رسول اللہ ﷺ کے پاس سے شکست خوردہ لوٹا اور آپ ﷺ اپنے شہباء خچر پر سوار تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ابن اکوع نے گھبرائے ہوئے دیکھا ہے۔ جب رسول اللہ ﷺ کو (دشمنوں نے) گھیر لیا تو آپ ﷺ خچر سے اترے پھر زمین سے ایک مٹھی مٹی کی بھری اور دشمن کے چہروں کی طرف پھینکتے ہوئے فرمایا چہرے برے ہوگئے اللہ نے ان میں سے ہر انسان کی آنکھوں کو اس مٹھی کی مٹی سے بھر دیا اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے پس اللہ رب العزت نے انہیں شکست سے دوچار کیا اور رسول اللہ ﷺ نے ان کا مال غنیمت مسلمانوں میں تقسیم کردیا۔
غزوئہ طائف کے بیان میں
س ابوبکر بن ابی شیبہ، زہیر بن حرب، ابن نمیر، سفیان، زہیر، سفیان بن عیینہ، عمرو، ابن عباس، شاعر اسعمی، حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے طائف والوں کا محاصرہ کیا لیکن کامیابی حاصل نہ ہوسکی تو فرمایا ہم انشاء اللہ لوٹ جائیں گے آپ ﷺ کے صحابہ (رضی اللہ عنہم) نے عرض کیا ہم بغیر فتح کے لوٹیں گے تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں فرمایا تم کل صبح جنگ کرنا چناچہ صبح ان پر حملہ کردیا اور زخمی ہوگئے تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا ہم کل صبح واپس چلے جائیں گے صحابہ (رضی اللہ عنہم) نے اس بات کو پسند کیا تو رسول اللہ ﷺ مسکرا دیے۔
غزوئہ بدر کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، عفان، حماد بن سلمہ، ثابت، حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مشورہ فرمایا جب ابوسفیان کے آنے کی خبر آپ ﷺ کو پہنچی حضرت ابوبکر (رض) نے گفتگو کی تو اس سے اعراض کیا پھر عمر نے گفتگو کی تو اس سے اعراض کیا پھر حضرت سعد بن عبادہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا آپ ﷺ کی مراد ہم سے ہے اے اللہ کے رسول ﷺ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر آپ ﷺ ہمیں سمندر میں گھوڑے دوڑانے کا حکم دیں تو ہم انہیں ڈال دیں گے اگر آپ ﷺ ہمیں ان کے سینے برک الغماد سے ٹکرا دینے کا حکم دیں تو ہم کر گزریں گے پس رسول اللہ ﷺ نے صحابہ (رضی اللہ عنہم) کو بلایا اور چلے یہاں تک کہ مقام بدر پر جا کر اترے اور ان پر قریش کے پانی پلانے والے گزرے اور ان میں بنو حجاج کا سیاہ فام غلام بھی تھا صحابہ نے اسے پکڑ لیا اور رسول اللہ ﷺ کے صحابہ اس سے ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں پوچھنے لگے تو اس نے کہا مجھے ابوسفیان کے بارے میں معلوم نہیں لیکن ابوجہل، عتبہ، شیبہ، امیہ بن خلف یہ سامنے ہیں جب اس نے یہ کہا تو صحابہ نے اسے مارا تو اس نے کہا ہاں میں تمہیں ابوسفیان کی خبر دیتا ہوں کہ ابوسفیان یہ ہے صحابہ نے اسے چھوڑ دیا پھر پوچھا تو اس نے کہا مجھے ابوسفیان کے بارے میں معلوم نہیں بلکہ ابوجہل، عتبہ، شیبہ اور امیہ بن خلف یہاں لوگوں میں ہیں اس نے جب یہ کہا تو صحابہ (رض) نے اسے پھر مارا اور رسول اللہ ﷺ کھڑے نماز پڑھ رہے تھے جب نبی ﷺ نے یہ کیفیت دیکھی تو نماز سے فارغ ہونے کے بعد فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے جب یہ سچ کہتا ہے تو تم اسے مارتے ہو اور جب تم سے جھوٹ کہتا ہے تو چھوڑ دیتے ہو پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ فلاں (کافر) کی قتل گاہ ہے اور رسول اللہ ﷺ زمین پر اس، اس جگہ اپنا ہاتھ مبارک رکھتے تھے انس کہتے ہیں ان میں سے کوئی بھی (کافر) رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ رکھنے کی جگہ سے ادھر ادھر متجاوز نہ ہوا۔ (عین اسی جگہ جہنم رسید ہوا)
فتح مکہ کے بیان میں
شیبان بن فروخ، سلیمان بن مغیرہ، ثابت بنانی، عبداللہ بن رباح، ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رمضان المبارک میں کئی وفد حضرت معاویہ (رض) کے پاس پہنچے اور ہم ایک دوسرے کے لئے کھانا تیار کرتے تھے اور ابوہریرہ (رض) ہمیں اکثر اپنے ٹھکانے پر بلاتے تھے میں نے کہا کیا میں کھانا نہ پکاؤں اور پھر انہیں اپنے مکان پر آنے کی دعوت دوں تو میں نے کھانا تیار کرنے کا حکم دیا پھر شام کے وقت میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے ملا تو میں نے کہا آج رات میرے ہاں دعوت ہے انہوں نے کہا تم نے مجھ پر سبقت حاصل کرلی ہے میں نے کہا جی ہاں میں نے انہیں دعوت دی ہے حضرت ابوہریرہ (رض) نے کہا اے انصار کی جماعت کیا میں تمہیں تمہارے بارے میں حدیث کی خبر نہ دوں۔ پھر فتح مکہ کا ذکر کیا تو کہا رسول اللہ ﷺ (مدینہ سے) چل کر مکہ پہنچے اور دو اطراف میں سے ایک جانب آپ ﷺ نے زبیر کو اور دوسری جانب خالد کو بھیجا اور ابوعبیدہ کو بےزرہ لوگوں پر امیر بنا کر بھیجا۔ وہ وادی کے اندر سے گزرے اور رسول اللہ ﷺ الگ ایک فوجی دستہ میں رہ گئے۔ آپ ﷺ نے نظر اٹھا کر مجھے دیکھا تو فرمایا ابوہریرہ ! (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! میں حاضر ہوں آپ ﷺ نے فرمایا میرے پاس انصار کے علاوہ کوئی نہ آئے۔ دوسری روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا انصار کو میرے پاس (آنے کی) آواز دو ۔ پس وہ سب آپ ﷺ کے اردگرد جمع ہوگئے اور قریش نے بھی اپنے حماتیی اور متبعین کو اکٹھا کرلیا اور کہا : ہم ان کو آگے بھیج دیتے ہیں اگر انہیں کوئی فائدہ حاصل ہوا تو ہم بھی ان کے ساتھ شریک ہوجائیں گے اور اگر انہیں کچھ ہوگیا تو ہم سے جو کچھ مانگا جائے گا دے دیں گے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم قریش کے حمایتیوں اور متبعین کو دیکھ رہے ہو، تو اپنے ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر مار کر فرمایا اور تم مجھ سے کوہ صفا پر ملاقات کرنا ہم چل دیئے اور ہم میں سے جو کسی کو قتل کرنا چاہتا تو کردیتا اور ان میں سے کوئی بھی ہمارا مقابلہ نہ کرسکتا پس ابوسفیان نے آکر عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ قریش کی سرداری ختم ہوگئی آج کے بعد کوئی قریشی نہ رہے گا پھر آپ ﷺ نے فرمایا جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوجائے وہ امن میں رہے گا انصار نے ایک دوسرے سے کہا آپ ﷺ کو اپنے شہر کی محبت اور اپنے قرابت داروں کے ساتھ نرمی غالب آگئی ہے ابوہریرہ (رض) نے کہا آپ ﷺ پر وحی آئی اور جب آپ ﷺ پر وحی نازل ہوتی تھی تو کوئی بھی رسول اللہ کی طرف نظر اٹھا کر دیکھ نہ سکتا تھا یہاں تک کہ وحی ختم ہوجاتی پس جب وحی پوری ہوگئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے انصار کی جماعت انہوں نے کہا لبیک اے اللہ کے رسول ! آپ ﷺ نے فرمایا تم نے کہا ہے کہ اس شخص کو اپنے شہر کی محبت غالب آگئی ہے انہوں نے عرض کیا واقعہ تو یہی ہوا تھا آپ ﷺ نے فرمایا ہرگز نہیں میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں میں نے اللہ اور تمہاری طرف ہجرت کی ہے اب میری زندگی تمہاری زندگی کے ساتھ اور موت تمہاری موت کے ساتھ ہے پس (انصار) روتے ہوئے آپ ﷺ کی طرف بڑھے اور عرض کرنے لگے اللہ کی قسم ہم نے جو کچھ کہا وہ صرف اور صرف اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت کی حرص میں کہا تھا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بیشک اللہ اور اس کا رسول تمہاری تصدیق کرتے ہیں اور تمہارا عذر قبول کرتے ہیں پس لوگ ابوسفیان کے گھر کی طرف جانے لگے اور کچھ لوگوں نے اپنے دروازے بند کر لئے رسول اللہ ﷺ روانہ ہو کر حجر اسود تک پہنچے اور اسے بوسہ دیا پھر بیت اللہ کا طواف کیا کعبہ کے ایک کونے میں موجود ایک بت کے پاس آئے جس کی وہ پرستش کرتے تھے اور رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ مبارک میں ایک کمان تھی جس کا کونا آپ ﷺ پکڑے ہوئے تھے جب بت کے پاس آئے تو آپ ﷺ نے اس کی آنکھوں میں اس کمان کا کونا چبھونا شروع کردیا اور فرماتے تھے حق آگیا اور باطل چلا گیا جب آپ ﷺ اپنے طواف سے فارغ ہوئے تو کوہ صفا کی طرف آئے اور اس پر چڑھ کر بیت اللہ کی طرف نظر دوڑائی اور آپ نے ہاتھوں کو بلند کیا اور اللہ کی حمد وثناء شروع کردی اور پھر جو چاہا اللہ سے مانگتے رہے۔
فتح مکہ کے بیان میں
عبداللہ بن ہاشم، بہز، سلیمان بن مغیرہ اس سند بھی یہ حدیث مروی ہے اس میں مزید اضافہ یہ ہے کہ پھر آپ ﷺ نے اپنا ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر رکھ کر فرمایا انصار نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ ہم نے اسی طرح کہا آپ ﷺ نے فرمایا اس وقت میرا نام کیا ہوگا ہرگز نہیں میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ﷺ ہوں۔
فتح مکہ کے بیان میں
عبداللہ بن عبدالرحمن دارمی، یحییٰ بن حسان، حماد بن سلمہ، ثابت بن عبداللہ بن رباح، حضرت عبدالرحمن بن رباح (رض) سے روایت ہے کہ ہم حضرت معاویہ بن ابوسفیان کے پاس گئے اور ہم میں حضرت ابوہریرہ (رض) بھی تھے اور ہم میں سے ایک آدمی ایک دن اپنے ساتھیوں کے لئے کھانا پکاتا تھا میری باری تھی تو میں نے کہا اے ابوہریرہ ! (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) آج میری باری ہے۔ پس وہ (سب ساتھی) گھر آگئے لیکن کھانا ابھی تک تیار نہ ہوا تھا۔ تو میں نے کہا اے ابوہریرہ ! کاش آپ ہمیں کھانا تیار ہونے تک رسول اللہ ﷺ کی کوئی حدیث بیان کردیتے۔ تو انہوں نے کہا فتح مکہ کے دن ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے۔ آپ ﷺ نے خالد بن ولید کو دائیں طرف لشکر پر اور زبیر کو بائیں طرف کے لشکر پر اور ابوعبیدہ کو پیدل لشکر پر امیر مقرر کر کے وادی کے اندر روانہ فرمایا۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا اے ابوہریرہ میرے پاس انصار کو بلاؤ میں نے انہیں بلایا تو وہ دوڑتے ہوئے حاضر ہوئے آپ ﷺ نے فرمایا اے انصار کی جماعت کیا تم قریش کے کمینے لوگوں کو دیکھ رہے ہو ؟ انہوں نے عرض کیا جی ہاں آپ ﷺ نے فرمایا انہیں دیکھ لو جب کل تم ان سے مقابلہ کرو تو انہیں کھیتی کی طرح کاٹ دینا۔ آپ ﷺ نے اپنا دایاں ہاتھ بائیں پر رکھ کر اشارہ فرمایا اور فرمایا تمہارے ملنے کی جگہ صفا ہے اس دن ان کا جو شخص بھی انصار کو ملا اسے انصار نے سلا دیا اور رسول اللہ ﷺ کوہ صفا پر چڑھے اور انصار نے حاضر ہو کر صفا کو گھیر لیا۔ پس ابوسفیان نے حاضر ہو کر عرض کیا اے اللہ کے رسول قریش کی تمام جماعتیں ختم ہوگئیں آج کے بعد کوئی قریشی نہ ہوگا ابوسفیان نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے اعلان فرمایا جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوجائے اسے امن ہوگا اور جو ہتھیار ڈال دے وہ بھی مامون ہوگا اور جو اپنا دروازہ بند کرلے وہ بھی بحفاظت رہے گا۔ انصار نے کہا (آپ ﷺ ایسے آدمی ہیں جنہیں اپنے خاندان کے ساتھ نرمی اور اپنے وطن کی محبت پیدا ہوگئی ہے اور اللہ کے رسول پر وحی نازل ہوئی۔ آپ ﷺ نے فرمایا تم نے یہ کہا تھا کہ اس آدمی ﷺ کو اپنے خاندان کے ساتھ نرمی کرنے اور اپنے وطن کی محبت پیدا ہوگئی ہے۔ کیا تم جانتے ہو اس وقت میرا نام کیا ہوگا ؟ آپ ﷺ نے تین بار یہ فرمایا کہ میں محمد ﷺ ہوں، اللہ کا بندہ اور اس کا رسول۔ میں نے اللہ اور تمہاری طرف ہجرت کی ہے۔ میرا جینا تمہارے ساتھ اور میرا مرنا بھی تمہارے ساتھ ہوگا۔ انصار نے عرض کیا اللہ کی قسم ہم نے یہ بات صرف اور صرف اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ محبت کی حرص میں ہی کی تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا بیشک اللہ اور اس کا رسول تمہاری تصدیق کرتے ہیں اور تمہارا عذر قبول کرتے ہیں۔
کعبہ کے ارد گرد سے بتوں کو ہٹانے کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، عمرو ناقد، ابن ابی عمر، ابن ابی شیبہ، سفیان بن عیینہ، ابن ابی نجیح، مجاہد ابومعمر، حضرت عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ مکہ میں داخل ہوئے اور کعبہ کے ارد گرد تین سو ساٹھ بت رکھے ہوئے تھے آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ میں موجود لکڑی انہیں چبھونا شروع کردی اور فرما رہے تھے حق آگیا اور باطل چلا گیا بیشک باطل جانے ہی والا ہے حق آگیا اور باطل کسی چیز کو پیدا کرتا ہے اور نہ لوٹاتا ہے ابن ابی عمر (رض) نے فتح مکہ کے دن اضافہ کیا ہے۔
کعبہ کے ارد گرد سے بتوں کو ہٹانے کے بیان میں
حسن بن علی حلوانی، عبد بن حمید، عبدالرزاق، ثوری، ابن ابی نجیح، اس سند سے بھی یہ حدیث آپ ﷺ کے قول مبارک زَهُوقًا تک مروی ہے اور اس میں دوسری آیت مبارکہ مذکور نہیں اور انہوں نے نصب کی جگہ ضم کہا ہے۔
فتح کے بعد کسی قریشی کو باندھ کر قتل نہ کئے جانے کا بیان
ابوبکر بن ابی شیبہ، علی بن مسہر، وکیع، زکریا، شعبی، حضرت عبداللہ بن مطیع اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے دن فرمایا آج کے بعد قیامت تک کسی قریشی کو باندھ کر قتل نہ کیا جائے گا۔
فتح کے بعد کسی قریشی کو باندھ کر قتل نہ کئے جانے کا بیان
ابن نمیر، ابوزکریا، اس سند سے بھی یہ حدیث مروی ہے اضافہ یہ ہے کہ قریش کے عاصی نام والوں میں سے کوئی بھی مسلمان نہ ہوا سوائے مطیع کے اور اس کا نام بھی عاصی تھا اور رسول اللہ ﷺ نے اس کا نام مطیع رکھا۔
صلح حدیبیہ کے بیان میں
عبیداللہ بن معاذ عنبری، ابوشعبہ، ابواسحاق، حضرت براء بن عازب (رض) سے روایت ہے کہ علی بن ابی طالب (رض) نے صلح حدیبیہ کے دن نبی ﷺ اور مشرکین کے درمیان ہونے والا معاہدہ صلح لکھا تو اس میں یہ لکھا کہ وہ معاہدہ ہے جو محمد رسول اللہ ﷺ نے لکھا ہے تو مشرکین نے کہا آپ رسول اللہ ﷺ نہ لکھیں کیونکہ اگر ہم جانتے کہ آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں تو آپ ﷺ سے جنگ نہ کرتے۔ نبی ﷺ نے علی (رض) سے فرمایا اسے مٹا دو انہوں نے عرض کیا میں تو نہیں مٹاؤں گا پس نبی ﷺ نے خود اپنے ہاتھ مبارک سے مٹا دیا اس معاہدہ کی ایک شرط یہ تھی کہ مسلمان مکہ میں داخل ہوں تو صرف تین دن قیام کرسکیں گے اور مکہ میں اسلحہ کے بغیر آئیں گے ہاں اگر اسلحہ نیام میں ہو تو کوئی حرج نہیں۔
صلح حدیبیہ کے بیان میں
محمد بن مثنی، ابن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، ابواسحاق، حضرت براء بن عازب (رض) سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے حدیبیہ والوں سے مصالحت کی تو علی (رض) نے ان کے درمیان ہونے والے معاہدہ کو تحریر کیا اور محمد رسول اللہ ﷺ لکھا باقی حدیث معاذ کی طرح ہے۔
صلح حدیبیہ کے بیان میں
اسحاق بن ابراہیم حنظلی، احمد بن جناب مصیصی، عیسیٰ بن یونس، اسحاق، زکریا، ابواسحاق، حضرت براء بن عازب (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ کو بیت اللہ کے نزدیک گھیر لیا گیا تو اہل مکہ نے آپ ﷺ سے ان باتوں پر صلح کرلی کہ آپ ﷺ مکہ میں داخل ہو کر صرف تین دن قیام کریں گے اور مکہ میں تلواریں نیاموں میں ہوں اور اہل مکہ میں سے کسی کو بھی آپ ﷺ لے کر نہ جائیں گے اور جو مکہ میں ٹھہرنا چاہے اسے منع بھی نہ کریں گے جو آپ ﷺ کے ساتھ آئے ہوں آپ ﷺ نے حضرت علی (رض) سے فرمایا ان شرائط کو ہمارے درمیان تحریر کردو بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ یہ وہ شرائط ہیں جن کا فیصلہ محمد رسول اللہ ﷺ نے کیا ہے۔ آپ سے مشرکین نے کہا اگر ہم آپ ﷺ کو رسول اللہ جانتے ہوتے تو آپ ﷺ کی اتباع کرلیتے بلکہ محمد بن عبداللہ لکھو۔ آپ ﷺ نے علی (رض) کو اسے مٹانے کا حکم دیا تو حضرت علی (رض) نے عرض کیا نہیں اللہ کی قسم میں تو اسے نہ مٹاؤں گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس (لفظ) کی جگہ مجھے دکھاؤ۔ حضرت علی (رض) نے آپ ﷺ کو اس لفظ کی جگہ دکھائی تو آپ ﷺ نے خود اسے مٹا دیا اور ابن عبداللہ لکھ دیا گیا۔
صلح حدیبیہ کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، عفان، حماد بن سلمہ، ثابت، حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ جن قریشیوں نے نبی کریم ﷺ سے صلح کی ان میں سہیل بن عمرو بھی تھا نبی ﷺ نے حضرت علی (رض) سے فرمایا لکھو بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ سہیل نے کہا کہ بسم اللہ تو ہم نہیں جانتے بسم اللہ الرحمن الرحیم کیا ہے البتہ بِاسْمِکَ اللَّهُمَّ لکھو جسے ہم جانتے ہیں پھر آپ ﷺ نے فرمایا محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف سے۔ (کفار) نے کہا اگر ہم آپ ﷺ کو اللہ کا رسول جانتے تو آپ ﷺ کی پیروی کرتے بلکہ آپ ﷺ اپنا اور اپنے باپ کا نام لکھیں نبی ﷺ نے فرمایا محمد بن عبداللہ کی طرف سے لکھو انہوں نے نبی ﷺ سے یہ شرط باندھی کہ تم میں سے جو ہمارے پاس آجائے گا ہم اسے واپس نہ کریں گے اور اگر تمہارے پاس ہم میں سے کوئی آئے گا تو تم اسے ہمارے پاس واپس کردو گے۔ صحابہ (رض) نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! کیا ہم یہ بھی لکھ دیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں لیکن ہم میں سے جو ان کی طرف جائے گا اللہ اسے (اسلام سے) دور کر دے گا اور جو ان میں سے ہمارے پاس آئے گا اللہ عنقریب اس کے لئے کوئی راستہ اور کشائش پیدا فرما دیں گے۔
صلح حدیبیہ کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، عبداللہ بن نمیر، عبدالعزیز بن سیاہ، حبیب بن ابی ثابت حضرت ابو وائل سے روایت ہے کہ صفین کے دن حضرت سہل بن حنیف کھڑے ہوئے اور کہا اے لوگو ! اپنے آپ کو غلط تصور کرو تحقیق ! ہم حدیبیہ کے دن رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھے اگر ہم جنگ کرنا چاہتے تو ضرور کرتے اور یہ اس صلح کا واقعہ ہے جو رسول اللہ ﷺ اور مشرکین کے درمیان ہوئی حضرت عمر بن خطاب (رض) نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ کیا ہم حق پر اور وہ باطل پر نہیں ہیں آپ ﷺ نے فرمایا کیوں نہیں عمر (رض) نے عرض کیا کیا ہمارے شہداء جنت میں اور ان کے مقتول جہنم میں نہیں ہیں آپ ﷺ نے فرمایا کیوں نہیں عمر (رض) نے عرض کیا پھر ہم اپنے دین میں جھکاؤ اور ذلت کیوں قبول کریں اور حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ کا حکم نہیں دیا آپ ﷺ نے فرمایا : اے ابن خطاب میں اللہ کا رسول ہوں اللہ مجھے کبھی بھی ضائع نہیں فرمائے گا حضرت عمر (رض) سے صبر نہ ہوسکا اور غصہ ہی کی حالت میں حضرت ابوبکر (رض) کے پاس آئے اور کہا اے ابوبکر ! کیا ہم حق پر اور وہ باطل پر نہیں ہیں ؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں۔ کہنے لگے کیا ہمارے شہداء جنت میں اور ان کے مقتول جہنم میں نہیں ہیں ؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں، عمر (رضی اللہ عنہ) کہنے لگے پھر ہم کس وجہ سے اپنے دین میں کمزوری قبول کریں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ہمارا اور ان کے درمیان فیصلہ کا حکم نہیں دیا ابوبکر (رض) نے کہا اے ابن خطاب ! آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں اللہ انہیں کبھی بھی ضائع نہیں کرے گا۔ پس رسول اللہ ﷺ پر سورت فتح نازل ہوئی تو آپ ﷺ نے عمر (رض) کو بلوایا اور انہیں سے وہ آیات پڑھوائیں تو انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ کیا یہ فتح ہے آپ نے فرمایا جی ہاں حضرت عمر (رض) دلی طور پر خوش ہو کر لوٹ گئے۔
صلح حدیبیہ کے بیان میں
ابوکریب، محمد بن علاء، محمد بن عبداللہ بن نمیر، ابومعاویہ، اعمش، حضرت شقیق (رض) سے روایت ہے کہ میں نے حضرت سہل بن حنیف سے جنگ صفین میں سنا انہوں نے کہا اے لوگو ! اپنی رائے کو غلط سمجھو اللہ کی قسم ابوجندل کے دن (صلح حدیبیہ) کا واقعہ میرے سامنے ہے اگر مجھ میں رسول اللہ ﷺ کو اس امر سے لوٹا دینے کی طاقت ہوتی تو میں آپ ﷺ کو لوٹا دیتا اللہ کی قسم ہم نے اپنی تلواریں کسی کام کے لئے اپنے کندھوں پر کبھی نہیں رکھیں مگر یہ کہ ان تلواروں نے ہمارے کام کو ہمارے لئے آسان بنادیا البتہ یہ معاملہ (آسان) نہیں ہوتا۔
صلح حدیبیہ کے بیان میں
عثمان بن ابی شیبہ، اسحاق، جریر، ابوسعید اشج، وکیع، اعمش، یہی حدیث مبارکہ اس سند سے بھی مروی ہے اس میں اضافہ یہ ہے کہ کوئی دشوار کام بھی اس طرح نہیں ہوا۔
صلح حدیبیہ کے بیان میں
ابراہیم بن سعید جوہری، ابواسامہ، مالک بن مغول، ابی حصین حضرت ابو وائل (رض) سے روایت ہے کہ میں نے حضرت سہل بن حنیف سے جنگ میں سنا اپنی رائے کو اپنے دین کے معاملہ میں غلط تسلیم کرو تحقیق ! میں نے ابوجندل کے دن دیکھا اگر میں رسول اللہ ﷺ کے فیصلہ کو رد کرنے کی طاقت رکھتا تو ضرور رد کردیتا ہم اس کی ایک گرہ کھول نہیں پاتے کہ دوسری گرہ ہم پر خود بخود کھل جاتی ہے۔
صلح حدیبیہ کے بیان میں
نصر بن علی جہضمی، خلاد بن حارث، سعید بن ابی عروبہ، قتادہ، حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ جب (اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِيْنًا لِّيَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْ بِكَ وَمَا تَاَخَّرَ وَيُتِمَّ نِعْمَتَه عَلَيْكَ وَيَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُّسْتَ قِيْمًا۔ وَّيَنْصُرَكَ اللّٰهُ نَ صْرًا عَزِيْزًا۔ هُوَ الَّذِيْ اَنْزَلَ السَّكِيْنَةَ فِيْ قُلُوْبِ الْمُؤْمِنِيْنَ لِيَزْدَادُوْ ا اِيْمَانًا مَّعَ اِيْمَانِهِمْ وَلِلّٰهِ جُنُوْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَكَانَ اللّٰهُ عَلِ يْمًا حَكِ يْمًا۔ لِّيُدْخِلَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا وَيُكَفِّرَ عَنْهُمْ سَيِّاٰتِهِمْ وَكَانَ ذٰلِكَ عِنْدَ اللّٰهِ فَوْزًا عَظِيْمًا) 48 ۔ الفتح) تک نازل ہوئی تو آپ ﷺ واپس آرہے تھے اور صحابہ غم اور دکھ سے پریشان ہو رہے تھے اور تحقیق آپ ﷺ نے حدیبیہ میں ایک اونٹ ذبح کیا پھر ارشاد فرمایا مجھ پر ایک ایسی آیت نازل کی گئی ہے جو مجھے تمام دنیا سے زیادہ محبوب ہے۔
صلح حدیبیہ کے بیان میں
عاصم بن نضر تیمی، معتمر، ابوقتادہ، انس بن مالک، ابن مثنی، ابوداؤد، ہمام، عبد بن حمید، یونس، ابن محمد، شیبان، قتادہ، انس، ان اسناد سے بھی یہ حدیث مبارکہ اسی طرح مروی ہے۔
وعدوں کو پورا کرنے کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابواسامہ، ولید بن جمیع، ابوطفیل، حضرت حذیفہ بن یمان (رض) سے روایت ہے کہ مجھے جنگ بدر میں حاضر ہونے سے کسی بات نے نہیں روکا سوائے اس کے کہ میں اور میرا باپ حسیل باہر نکلے ہوئے تھے کہتے ہیں ہمیں کفار قریش نے گرفتار کرلیا انہوں نے کہا کہ تم محمد کے پاس جانا چاہتے ہو ہم نے کہا ہم آپ ﷺ کا ارادہ نہیں رکھتے بلکہ ہم تو مدینہ جانا چاہتے تھے تو انہوں نے ہم سے اللہ کا یہ وعدہ اور میثاق لیا کہ ہم مدینہ واپس چلے جائیں گے اور آپ کے ساتھ مل کر جنگ نہ کریں پھر ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ ﷺ کو اس واقعہ و وعدہ کی خبر دی تو آپ ﷺ نے فرمایا تم دونوں واپس چلے جاؤ ہم ان کے معاہدہ کو پورا کریں گے اور اللہ سے ان کے خلاف مدد مانگیں گے۔
غزوئہ خندق کے بیان میں
زہیر بن حرب، اسحاق بن ابراہیم، جریر، زہیر، جریر، اعمش، حضرت ابراہیم تیمی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ہم حضرت حذیفہ کے پاس تھے ایک آدمی نے کہا اگر میں رسول اللہ ﷺ کا زمانہ پا لیتا تو میں آپ ﷺ کے ساتھ جہاد کرتا اور بہت کوشش کرتا حضرت حذیفہ (رض) نے کہا تم ایسے کرتے تحقیق ! ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوہ احزاب کی رات سخت ہوا اور سردی دیکھ چکے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا تم میں سے کوئی آدمی ایسا نہیں جو اس قوم کی خبر میرے پاس لائے اللہ اسے قیامت کے دن میرا ساتھ نصیب فرمائے گا ہم خاموش رہے اور ہم میں سے کسی نے بھی آپ ﷺ کو جواب نہ دیا پھر فرمایا کیا تم میں سے کوئی ایسا آدمی نہیں جو قوم کی ہمارے پاس خبر لائے اللہ اسے قیامت کے دن میرا ساتھ نصیب فرمائے گا ہم خاموش رہے اور ہم میں سے کسی نے بھی آپ ﷺ کو جواب نہ دیا پھر آپ ﷺ نے فرمایا کیا تم میں کوئی ایسا آدمی نہیں جو ان کافروں کی ہمارے پاس خبر لائے اللہ اسے قیامت کے دن میرا ساتھ نصیب فرمائے گا ہم خاموش رہے اور ہم میں سے کسی نے بھی آپ ﷺ کو جواب نہ دیا تو آپ ﷺ نے فرمایا اے حذیفہ کھڑے ہوجاؤ اور ہمارے پاس قوم کی خبر لے آؤ جب آپ ﷺ نے میرا نام لے کر پکارا تو میرے لئے سوائے اٹھنے کے کوئی چارہ نہ تھا آپ ﷺ نے فرمایا جاؤ اور قوم کی میرے پاس خبر لے کر آؤ مگر انہیں میرے خلاف بھڑکانا نہیں جب میں آپ ﷺ سے پشت پھیر کر چلنے لگا تو مجھے یوں محسوس ہونے لگا گویا کہ میں حمام میں چل رہا ہوں یہاں تک کہ میں ان کے پاس پہنچ گیا میں نے ابوسفیان کو اپنی پیٹھ آگ سے سینکتے دیکھا پس میں نے فورا کمان کے درمیان میں تیر رکھا اور اسے مارنے کا ارادہ کیا تو مجھے رسول اللہ ﷺ کا قول یاد آگیا کہ انہیں میرے خلاف بھڑکانا نہیں اگر میں تیر مار دیتا تو صحیح نشانہ پر ہی لگتا میں واپس لوٹا اور میں حمام ہی کی طرح میں چل رہا تھا جب میں آپ ﷺ کے پاس پہنچا آپ ﷺ کو قوم کی خبر دے کر فارغ ہوا تو مجھے سردی محسوس ہونے لگی تو رسول اللہ ﷺ نے مجھے اپنی بقیہ چادر اوڑھا دی جسے آپ ﷺ اوڑھ کر نماز ادا کر رہے تھے اور میں صبح تک نیند کرتا رہا۔ پس جب صبح ہوگئی تو آپ ﷺ نے فرمایا اے بہت سونے والے اٹھ جا۔
غزوہ احد کے بیان میں
ہداب بن خالد ازدی، حماد بن سلمہ، علی بن زید، ثابت بنانی، حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ غزوہ احد کے دن رسول اللہ ﷺ سات انصاریوں اور قریش کے دو آدمیوں کے ہمراہ اکیلے رہ گئے جب آپ ﷺ کو گھیر لیا تو آپ ﷺ نے فرمایا جو انہیں ہم سے ہٹائے گا اس کے لئے جنت ہے یا وہ جنت میں میرا رفیق ہوگا تو انصار میں سے ایک آدمی آگے بڑھا اور جنگ کی یہاں تک کہ شہید ہوگیا پھر بھی کافروں نے آپ ﷺ کو گھیرے رکھا تو آپ ﷺ نے فرمایا جو انہیں ہم سے دور کرے گا اس کے لئے جنت ہوگی یا وہ جنت میں میرا رفیق ہوگا پس انصار میں سے ایک آدمی آگے بڑھ کر لڑا یہاں تک کہ وہ شہید ہوگیا یہ سلسلہ برابر اسی طرح چلتا رہا یہاں تک کہ ساتوں انصاری شہید ہوگئے تو رسول اللہ ﷺ نے اپنے (قریشی) ساتھیوں سے فرمایا ہم نے اپنے ساتھیوں سے انصاف نہیں کیا۔
غزوہ احد کے بیان میں
یحییٰ بن یحییٰ تمیمی، عبدالعزیز بن ابی حازم، حضرت عبدالعزیز بن ابوحازم (رض) کی اپنے باپ سے روایت ہے کہ سہل بن سعد (رض) سے رسول اللہ ﷺ کے غزوہ احد کے دن زخمی ہونے کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا رسول اللہ کا چہرہ اقدس زخمی کیا گیا اور آگے سے ایک دانت ٹوٹ گیا اور خود آپ ﷺ کے سر مبارک میں ٹوٹ گئی تھی فاطمہ (رضی اللہ عنہا) بنت رسول اللہ ﷺ خون دھوتی تھیں اور حضرت علی (رض) بن ابوطالب ڈھال میں پانی لا کر ڈال رہے تھے جب حضرت فاطمہ (رضی اللہ عنہا) نے دیکھا کہ پانی سے خون میں کمی نہیں بلکہ زیادتی ہو رہی ہے انہوں نے چٹائی کا ایک ٹکڑا لے کر جلایا یہاں تک کہ راکھ بن گئی پھر اسے زخم پر لگا دیا جس سے خون رک گیا۔
غزوہ احد کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، یعقوب، ابن عبدالرحمن قاری، حضرت ابوحازم سے روایت ہے کہ حضرت سہل بن سعد (رض) سے رسول اللہ ﷺ کے زخم کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا سنو اللہ کی قسم ! مجھے معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زخم کو کس نے دھویا اور کس نے پانی ڈالا اور کس چیز سے آپ ﷺ کے زخم کا علاج کیا گیا باقی حدیث اسی طرح ذکر کی اس میں اضافہ ہے کہ آپ ﷺ کا چہرہ اقدس زخمی کیا گیا اور هُشِمَتْ کی جگہ کُسِرَتْ بیان کیا۔
غزوہ احد کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، زہیر بن حرب، اسحاق بن ابراہیم، ابن ابی عمر، ابن عیینہ، عمرو بن سواد عامری، عبداللہ بن وہب، عمرو بن حارث، سعید بن ابی ہلال، محمد بن سہل تمیمی، ابن ابی مریم، محمد یعنی ابن مطرف، ابی حازم، سہل بن سعد، ان اسناد سے بھی یہ حدیث معمولی فرق سے اسی طرح روایت کی گئی ہے۔
غزوہ احد کے بیان میں
عبداللہ بن مسلمہ بن قعنب، حماد بن سلمہ، ثابت بن انس، حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ غزوہ احد کے دن رسول اللہ ﷺ کے سامنے کا دانت ٹوٹ گیا اور سر مبارک میں زخم ہوگیا اور آپ ﷺ اس زخم سے خون پونچھتے ہوئے فرما رہے تھے وہ قوم کیسے کامیابی حاصل کرسکتی ہے جو اپنے نبی ﷺ کو زخمی کرتی ہے اور انہوں نے اس کے سامنے کے دانت کو توڑا ہے اور وہ انہیں اللہ کی طرف دعوت دیتا ہے تو اللہ رب العزت نے ( لَيْسَ لَکَ مِنْ الْأَمْرِ شَيْئٌ) نازل فرمائی۔
غزوہ احد کے بیان میں
محمد بن عبداللہ بن نمیر، وکیع، اعمش، شقیق، حضرت عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ گویا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی طرف دیکھ رہا ہوں کہ آپ ﷺ انبیاء (علیہم السلام) میں سے کسی نبی کا قصہ بیان فرما رہے تھے کہ انہیں ان کی قوم نے مارا اور وہ اپنے چہرہ سے خون پونچھتے جا رہے تھے اور فرماتے تھے اے میرے پروردگار میری قوم کی بخشش فرمانا وہ جانتے نہیں۔
غزوہ احد کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، وکیع، محمد بن بشر، اعمش، اس سند سے بھی یہ حدیث مروی ہے اس میں یہ بھی ہے کہ آپ ﷺ اپنی پیشانی مبارک سے خون پونچھتے جاتے تھے۔
غزوہ احد کے بیان میں
محمد بن رافع، عبدالرزاق، معمر، ہمام بن منبہ، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ کی ناراضگی اس قوم پر زیادہ ہوگی جس نے اللہ کے رسول کے ساتھ یہ معاملہ کیا اور آپ ﷺ اس وقت اپنے دانت کی طرف اشارہ فرما رہے تھے اور رسول ﷺ نے فرمایا اس آدمی پر بھی اللہ کا غصہ زیادہ ہوگا جسے اللہ کا رسول اللہ رب العزت کے راستہ میں قتل کرے
نبی کریم ﷺ کی ان تکالیف کے بیان میں جو آپ ﷺ کو مشرکین اور منافقین کی طرف سے دی گئیں
ابن عمر بن محمد بن ابان جعفی، عبدالرحیم ابن سلیمان، زکریا، ابواسحاق، عمرو بن میمون، حضرت ابن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ بیت اللہ کے پاس نماز ادا کر رہے تھے ابوجہل اور اس کے ساتھی بیٹھے ہوئے تھے اور گزشتہ کل ایک اونٹنی کو ذبح کیا گیا تھا ابوجہل نے کہا تم میں سے کون ہے جو بنی فلاں کی اونٹنی کی اوجھڑی کو اٹھا لائے اور اسے محمد ﷺ کے دونوں کندھوں پر رکھ دے جب وہ سجدہ کریں پس قوم میں سے سب سے بدبخت اٹھا اور اوجھڑی کو اٹھا لایا اور جب نبی کریم ﷺ نے سجدہ فرمایا تو اس نے آپ ﷺ کے کندھوں کے درمیان رکھ دی پھر انہوں نے ہنسنا شروع کردیا اور اتنا ہنسے کہ ایک دوسرے پر گرنے لگے اور میں کھڑا دیکھ رہا تھا کاش میرے پاس اتنی طاقت ہوتی کہ میں اسے رسول اللہ ﷺ کی پشت مبارک سے دور کردیتا اور نبی ﷺ سجدہ میں تھے کہ اپنے سر مبارک کو اٹھا نہ سکتے تھے یہاں تک کہ ایک شخص نے جا کر حضرت فاطمہ (رض) کو اطلاع دی پس وہ آئیں اور کم سن تھیں انہوں نے (اوجھڑی کو) آپ ﷺ سے دور کیا پھر کافروں کی طرف متوجہ ہو کر انہیں برا بھلا کہا جب نبی کریم ﷺ نے اپنی نماز کو پورا کرلیا تو آپ ﷺ نے باآواز بلند ان کے لئے بد دعا کی اور آپ ﷺ کی عادت شریفہ تھی کہ جب آپ ﷺ دعا فرماتے تو تین مرتبہ کرتے پھر آپ ﷺ نے تین مرتبہ فرمایا اے اللہ قریش کی گرفت فرما جب انہوں نے آپ ﷺ کی آواز سنی تو ان کی ہنسی ختم ہوگئی اور آپ ﷺ کی دعا سے ڈرنے لگے پھر آپ ﷺ نے فرمایا اے اللہ ابوجہل بن ہشام اور عتبہ بن ربیعہ اور شیبہ بن ربیعہ اور ولید بن عقبہ اور امیہ بن خلف اور عقبہ بن ابی معیط پر گرفت فرما اور ساتویں کا ذکر کیا جسے میں یاد نہ رکھ سکا اس ذات کی قسم جس نے محمد ﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے تحقیق ! میں نے ان لوگوں کو جن کا آپ ﷺ نے نام لیا تھا بدر کے دن مردہ دیکھا پھر انہیں کنویں میں ڈال دیا گیا ابواسحاق نے کہا اس حدیث میں ولید بن عقبہ غلط ہے۔ (صحیح ولید بن عتبہ ہے) ۔
نبی کریم ﷺ کی ان تکالیف کے بیان میں جو آپ ﷺ کو مشرکین اور منافقین کی طرف سے دی گئیں
محمد بن مثنی، محمد بن بشار، ابن مثنی، محمد بن جعفر، شعبہ، ابواسحاق، عمرو بن میمون، حضرت عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سجدہ کرنے والے تھے اور قریش آپ ﷺ کے ارد گرد تھے کہ عقبہ بن ابی معیط اونٹنی کی اوجھڑی لے کر آیا اور اسے رسول اللہ ﷺ کی پیٹھ مبارک پر پھینک دیا جس سے آپ ﷺ سر مبارک نہ اٹھا سکتے تھے پس حضرت فاطمہ (رض) آئیں اور اسے (اوجھڑی) آپ ﷺ کی پشت مبارک سے اٹھایا اور ایسی بیہودہ حرکت کرنے والوں کے لئے بددعا کی آپ ﷺ نے فرمایا اے اللہ قریش کے سردار ابوجہل بن ہشام، عتبہ بن ربیعہ، عقبہ بن ابی معیط، شیبہ بن ربیعہ، امیہ بن خلف یا ابی بن خلف پر گرفت فرما عبداللہ کہتے ہیں تحقیق میں نے انہیں دیکھا کہ بدر کے دن قتل کئے گئے اور سوائے امیہ یا ابی کے سب کو کنوئیں میں ڈال دیا گیا (اس لئے) کہ اس کا جوڑ جوڑ ٹکڑے ٹکڑے ہوچکا تھا۔
نبی کریم ﷺ کی ان تکالیف کے بیان میں جو آپ ﷺ کو مشرکین اور منافقین کی طرف سے دی گئیں
ابوبکر بن ابی شیبہ، جعفر بن عون، سفیان، ابواسحاق، اس سند سے بھی یہ حدیث مروی ہے اضافہ یہ ہے کہ آپ ﷺ تین مرتبہ (دعا فرمانے) کو پسند فرماتے تھے فرمایا اے اللہ قریش پر گرفت فرما اے اللہ قریش پر گرفت فرما اے اللہ قریش پر گرفت فرما اور اس میں ولید بن عتبہ اور امیہ بن خلف کا بھی فرمایا اور شک مذکور نہیں ابواسحاق نے کہا سا تو اں میں بھول گیا ہوں۔
نبی کریم ﷺ کی ان تکالیف کے بیان میں جو آپ ﷺ کو مشرکین اور منافقین کی طرف سے دی گئیں
سلمہ بن شبیب، حسن بن اعین، زہیر، ابواسحاق، عمرو بن میمون، حضرت عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیت اللہ کی طرف رخ فرما کر قریش کے چھ آدمیوں کے لئے بد دعا کی جن میں ابوجہل، امیہ بن خلف، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ اور عقبہ بن ابی معیط تھے میں اللہ کی قسم اٹھا کر کہتا ہوں کہ میں نے انہیں مقام بدر پر مرے ہوئے دیکھا اور سورج نے ان کا حلیہ بدل دیا تھا اور یہ دن سخت گرمی کا دن تھا۔
نبی کریم ﷺ کی ان تکالیف کے بیان میں جو آپ ﷺ کو مشرکین اور منافقین کی طرف سے دی گئیں
ابوطاہر، احمد بن عمرو بن سرح، حرملہ بن یحیی، عمرو بن سواد عامری، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، عروہ بن زبیر، زوجہ نبی ﷺ سیدہ عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی ﷺ سے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! کیا آپ ﷺ پر کوئی دن احد کے دن سے بھی سخت آیا ہے آپ ﷺ نے فرمایا میں تیری قوم سے عقبہ کے دن کی سختی سے بھی زیادہ تکلیف اٹھا چکا ہوں جب میں نے اپنے آپ ﷺ کو عبد یا لیل بن عبد کلاں کے سامنے پیش کیا تو اس نے میری مرضی کے مطابق میری بات کا جواب نہ دیا میں اپنے رخ پر غم زدہ ہو کر چلا اور قرآن الثعالب پہنچ کر کچھ افاقہ ہوا میں نے اپنا سر اٹھایا تو میں نے ایک بادل دیکھا جو مجھ پر سایہ کئے ہوئے تھا پس اس میں سے جبرائیل نے مجھے آواز دی اس نے کہا اللہ رب العزت نے آپ کی قوم کی بات اور ان کا آپ ﷺ کو جواب دینا سن لیا اور آپ ﷺ کے پاس پہاڑوں پر مامور فرشتے کو بھیجا ہے تاکہ آپ ﷺ اسے ان کے بارے میں جو چاہیں حکم دیں پس مجھے پہاڑوں کے فرشتے نے آواز دی اور مجھے سلام کہا پھر کہا اے محمد ! ﷺ تحقیق ! اللہ نے آپ ﷺ کی قوم کی گفتگو سنی اور میں پہاڑوں پر مامور فرشتہ ہوں اور مجھے آپ ﷺ کے رب نے آپ ﷺ کی طرف بھیجا ہے تاکہ آپ ﷺ اپنے معاملہ میں جو چاہیں مجھے حکم دیں اگر آپ ﷺ چاہیں تو میں ان دو پہاڑوں کو ان پر بچھا دوں رسول اللہ ﷺ نے اسے فرمایا نہیں بلکہ میں امید کرتا ہوں کہ اللہ ان کی اولاد میں سے ایسی قوم کو پیدا کرے گا جو اکیلے اللہ کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں گے۔
نبی کریم ﷺ کی ان تکالیف کے بیان میں جو آپ ﷺ کو مشرکین اور منافقین کی طرف سے دی گئیں
یحییٰ بن یحیی، قتیبہ بن سعید، یحیی، ابوعوانہ، اسود بن قیس، حضرت جندب بن سفیان (رض) سے روایت ہے کہ ان جنگوں میں سے کسی جنگ میں رسول اللہ ﷺ کی انگلی مبارک خون آلود ہوگئی تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا تو تو ایک انگلی ہے جو خون آلود ہوگئی ہے اور تو نے جو شدت اٹھائی ہے وہ اللہ کی راہ میں اٹھائی ہے۔
نبی کریم ﷺ کی ان تکالیف کے بیان میں جو آپ ﷺ کو مشرکین اور منافقین کی طرف سے دی گئیں
ابوبکر بن ابی شیبہ، اسحاق بن ابراہیم، ابن عیینہ، اسود بن قیس، اس سند سے بھی حدیث روایت کی گئی ہے اس میں یہ بھی ہے کہ رسول اللہ ایک لشکر میں تھے اور آپ ﷺ کی انگلی مبارک زخمی ہوگئی تھی۔
نبی کریم ﷺ کی ان تکالیف کے بیان میں جو آپ ﷺ کو مشرکین اور منافقین کی طرف سے دی گئیں
اسحاق بن ابراہیم، سفیان، اسود بن قیس، حضرت جندب (رض) سے روایت ہے کہ ایک دفعہ جبرائیل (علیہ السلام) کو (وحی لانے میں) تاخیر ہوگئی (کچھ عرسہ کے لئے وحی منقطع ہوگئی) تو مشرکین نے کہا محمد ﷺ کو چھوڑ دیا گیا تو اللہ رب العزت نے یہ آیات نازل فرمائیں : " چاشت کے وقت کی قسم اور رات کے وقت کی قسم جب وہ پھیل جائے، آپ ﷺ کو آپ کے پروردگار نے نہ چھوڑا اور نہ ناراض ہوا ہے "۔
نبی کریم ﷺ کی ان تکالیف کے بیان میں جو آپ ﷺ کو مشرکین اور منافقین کی طرف سے دی گئیں
اسحاق بن ابراہیم، محمد بن رافع، اسحاق، یحییٰ بن آدم، زہیر، اسود بن قیس، حضرت جندب بن ابوسفیان سے روایت ہے کہ رسول اللہ بیمار ہوگئے اور دو یا تین راتیں اٹھ نہ سکے۔ ایک عورت آپ ﷺ کے پاس آئی اور اس نے کہا اے محمد ! میں امید کرتی ہوں کہ آپ ﷺ کے شیطان نے آپ ﷺ کو چھوڑ دیا ہے کیونکہ میں نے اسے دو یا تین راتوں سے آپ ﷺ کے پاس نہیں دیکھا تو اللہ رب العزت نے یہ آیات نازل فرمائیں " چاشت کے وقت کی قسم اور رات کی جب وہ چھا جائے آپ ﷺ کے پروردگار نے نہ آپ ﷺ کو چھوڑا اور نہ ناراض ہوا۔
نبی کریم ﷺ کی ان تکالیف کے بیان میں جو آپ ﷺ کو مشرکین اور منافقین کی طرف سے دی گئیں
ابوبکر بن ابی شیبہ، محمد بن مثنی، ابن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، اسحاق بن ابراہیم، سفیان، ان اسناد سے بھی یہ حدیث مبارکہ اسی طرح روایت کی گئی ہے۔
نبی ﷺ کا دعوت اسلام دینا اور اس پر منافقوں کی ایذاء رسانیوں پر صبر کرنے کا بیان
اسحاق بن ابراہیم حنظلی، محمد بن رافع، عبد بن حمید، ابن رافع، عبدالرزاق، معمر، زہری، عروہ، حضرت اسامہ بن زید (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ (ایک دن) گدھے پر سوار ہوئے جس پر پالان تھا اور آپ ﷺ کے نیچے فدک کی ایک چادر تھی اور آپ ﷺ نے اپنے پیچھے اسامہ کو سوار کرلیا اور آپ بنی حارث بن خزرج میں حضرت سعد بن عبادہ (رض) کی عیادت کے لئے جا رہے تھے تھے اور یہ واقعہ بدر سے پہلے کا ہے یہاں تک کہ ایسی مجلس کے پاس سے گزرے جہاں مسلمان، مشرکین، بت پرست اور یہود وغیرہ اکٹھے بیٹھے تھے ان میں عبداللہ بن ابی اور عبداللہ بن رواحہ بھی بیٹھے تھے جب مجلس پر جانور کے پاؤں کا غبار چھا گیا تو عبداللہ بن ابی نے اپنی ناک کو اپنی چادر سے ڈھانپ لیا پھر کہا ہم پر غبار نہ ڈالو پس نبی ﷺ نے ان کو سلام کیا پھر ٹھہر گئے اور (سواری سے) اتر کر انہیں اللہ کی طرف دعوت دی اور ان کے سامنے قرآن مجید کی تلاوت کی تو عبداللہ بن ابی نے کہا اے آدمی اس (کلام) سے بہتر کوئی کلام نہیں اگر جو کچھ تم کہہ رہے ہو سچ ہو تو بھی ہم کو ہماری مجلس میں تکلیف نہ دو اور اپنی سواری کی طرف لوٹ جاؤ اور ہم میں سے جو تیرے پاس آئے اسے یہ قصہ سنانا۔ عبداللہ بن رواحہ (رض) نے کہا آپ ﷺ ہماری مجلسوں میں تشریف لایا کریں ہمیں یہ بات پسند ہے پھر مسلمان مشرکین اور یہود ایک دوسرے کو گالیاں دینے لگے یہاں تک کہ ایک دوسرے پر حملہ کرنے کے لئے تیار ہوگئے مگر نبی ﷺ نے ان کا جوش ٹھنڈا کردیا پھر اپنی سواری پر سوار ہوگئے یہاں تک کہ حضرت سعد بن عبادہ (رض) کے پاس پہنچے تو فرمایا اے سعد ! کیا تم نے ابوحباب عبداللہ بن ابی کی بات سنی ہے ؟ اس نے اس اس طرح کہا ہے۔ انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول اسے معاف فرما دیں اور درگزر فرمائیں اللہ کی قسم اللہ نے جو کچھ آپ ﷺ کو عطا فرمایا وہ عطا فرما ہی دیا ہے اس آبادی والوں نے اس بات پر اتفاق کرلیا تھا کہ وہ اس کو تاج پہنچائیں اور بادشاہت کی پگڑی اس کے سر پر باندھیں لیکن اللہ نے ان کے فیصلے کو حق عطا کرنے کے ساتھ رد کردیا تو (ابو حباب) حسد میں مبتلا ہوگیا پس اس نے اس وجہ سے یہ معاملہ کیا پس نبی کریم ﷺ نے اسے معاف فرما دیا۔
نبی ﷺ کا دعوت اسلام دینا اور اس پر منافقوں کی ایذاء رسانیوں پر صبر کرنے کا بیان
محمد بن رافع، حجین، ابن مثنی، لیث، عقیل، حضرت ابن شہاب سے ان سندوں کے ساتھ اسی طرح حدیث منقول ہے اور اس میں یہ زائد ہے کہ ابھی تک عبداللہ اسلام نہیں لائے تھے۔
نبی ﷺ کا دعوت اسلام دینا اور اس پر منافقوں کی ایذاء رسانیوں پر صبر کرنے کا بیان
محمد بن عبدالاعلی قیسی، معتمر، حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ سے عرض کیا گیا کاش آپ ﷺ عبداللہ بن ابی کے پاس دعوت اسلام کے لئے تشریف لے جائیں آپ ﷺ اس کی طرف گدھے پر سوار ہو کر چلے اور مسلمان بھی چلے اور یہ شور والی زمین تھی جب نبی کریم ﷺ اس کے پاس پہنچے تو اس نے کہا مجھ سے دور رہو اللہ کی قسم تمہارے گدھے کی بدبو سے مجھے تکلیف ہوتی ہے انصار میں سے ایک آدمی نے کہا اللہ کی قسم رسول اللہ ﷺ کا گدھا تجھ سے زیادہ پاکیزہ ہے پس عبداللہ کی قوم میں ایک آدمی غصہ میں آگیا پھر دونوں طرف کے ساتھیوں کو غصہ آگیا اور انہوں نے چھڑیوں ہاتھوں اور جوتوں سے ایک دوسرے کو مارنا شروع کردیا راوی کہتا ہے ہمیں یہ حدیث پہنچی ہے کہ ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی اور اگر مومنین کی دو جماعتیں لڑ پڑیں تو ان دونوں کے درمیان صلح کرا دو ۔
ابو جہل کے قتل کے بیان میں
علی بن حضر سعدی، اسماعیل بن علیہ، سلیمان تیمی، حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہم میں سے کون ہے جو ابوجہل کو ختم کر کے دکھائے تو حضرت ابن مسعود گئے تو انہوں نے عفراء کے بیٹوں کو دیکھا کہ انہوں نے ابوجہل کو مار دیا ہے اور وہ ٹھنڈا ہونے والا ہے ابن مسعود نے اس کی داڑھی پکڑ کر فرمایا کیا تو ابوجہل ہے اس نے کہا کیا تم نے اتنے بڑے کسی اور آدمی کو بھی قتل کیا ہے ؟ یا اس نے کہا اس کی قوم نے قتل کیا ہے ؟ ابومجلز کہتے ہیں کہ ابوجہل کہنے لگا کاش کہ مجھے کسان کے علاوہ کسی اور نے قتل کیا ہوتا۔
ابو جہل کے قتل کے بیان میں
حامد بن عمر بکراوی، معتمر، حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کون جانتا ہے کہ ابوجہل کا کیا ہوا مجھے بتائے آگے حدیث اسی طرح روایت کی گئی ہے۔
سر کش یہودی کعب بن اشرف کے قتل کے بیان میں
اسحاق بن ابراہیم حنظلی، عبداللہ بن محمد بن عبدالرحمن بن مسور، زہری، ابن عیینہ، زہری، سفیان، عمر، حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کعب بن اشرف کو کون قتل کرے گا کیونکہ اس نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو تکلیف پہنچائی ہے محمد بن مسلمہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! کیا آپ ﷺ پسند کرتے ہیں کہ میں اسے قتل کروں آپ ﷺ نے فرمایا ہاں انہوں نے عرض کیا آپ ﷺ مجھے اجازت دیں کہ میں (مصلحتا) اسے جو کہوں آپ ﷺ نے فرمایا کہہ لے وہ اس (کعب بن اشرف) کے پاس آئے اور اس سے کہا اور اپنے اور حضور ﷺ کے درمیان ایک فرضی بیان کیا اور کہا یہ آدمی ہم سے صدقہ وصول کرتا ہے اور ہمیں مشقت میں ڈال رکھا ہے جب کعب نے سنا تو اس نے کہا اللہ کی قسم ابھی اور لوگ بھی اس سے تنگ ہوں گے ابن مسلمہ نے کہا اب تو ہم ان کی اتباع کرچکے ہیں اور ہم اسے اس کے معاملہ کا انجام دیکھے بغیر چھوڑنا پسند نہیں کرتے مزید کہا کہ میرا ارادہ ہے کہ تو مجھے کچھ دے دے کعب نے کہا تم میرے پاس رہن کیا چیز رکھو گے ابن مسلمہ نے کہا جو تم چاہو گے کعب نے کہا تم اپنی عورتیں میرے پاس رہن رکھ دو ابن مسلمہ نے کہا تو تو عرب کا خوبصورت آدمی ہے کیا ہم تیرے پاس اپنی عورتیں رہن رکھیں کعب نے کہا اچھا تم اپنی اولاد گروی رکھ دو ابن مسلمہ نے کہا ہمارے بیٹوں کو گالی دی جائے گی تو کہا جائے گا وہ دو وسق کھجور کے بدلے گروی رکھا گیا ہے البتہ ہم اسلحہ تیرے پاس گروی رکھ سکتے ہیں اس نے کہا ٹھیک ہے ابن مسلمہ نے اس سے وعدہ کیا کہ وہ اس کے پاس حارث ابی عبس بن جبر اور عباد بن بشر کو لے آئے گا پس یہ لوگ اس کے پاس گئے اور رات کے وقت اسے بلایا وہ ان کی طرف آنے لگا تو اسے اس کی بیوی نے کہا میں آواز سنتی ہوں گویا کہ وہ خون کی آواز ہے کعب نے کہا یہ محمد بن مسلمہ اور اس کا رضاعی بھائی اور ابونائلہ ہے اور معزز آدمی کو اگر رات کے وقت بھی نیزہ بازی کی طرف بلایا جائے تو اسے بھی قبول کرلیتا ہے محمد (رض) نے اپنے ساتھیوں سے کہہ دیا کہ جب وہ آئے گا میں اس کے سر کی طرف اپنے ہاتھ کو بڑھاؤں گا جب میں اسے قبضہ میں لے لوں تو تم حملہ کردینا پس جب نیچے اترا تو اس نے چادر اوڑھی ہوئی تھی ان حضرات نے کہا ہم آپ سے خوشبو کی مہک محسوس کر رہے ہیں اس نے کہا ہاں میری بیوی فلاں ہے جو عرب کی عورتوں میں سب سے زیادہ خوشبو کو پسند کرنے والی ہے ابن مسلمہ نے کہا کیا تو مجھے خوشبو سونگھنے کی اجازت دے گا اس نے کہا سونگھو پھر دوبارہ کہا کیا تو مجھے دوبارہ سونگھنے کی اجازت دے گا اس مرتبہ انہوں نے اس کے سر کو قابو میں لیا اور کہا حملہ کردو پس انہوں نے اسے قتل کردیا۔
غزوئہ خیبر کے بیان میں
زہیر بن حرب، اسماعیل، ابن علیہ، عبدالعزیز بن صہیب، حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر والوں سے جنگ کی پس ہم نے خیبر کے قریب پہنچ کر فجر کی نماز اندھیرے میں ادا کرلی اللہ کے نبی ﷺ اور ابوطلحہ (رض) سوار ہوگئے اور ابوطلحہ (رض) کے پیچھے میں سوار ہوگیا اللہ کے نبی ﷺ نے سواری خیبر کی گلیوں کی طرف دوڑائی اور میرا گھٹنا اللہ کے نبی ﷺ کی ران سے لگ جاتا تھا نبی کریم ﷺ کی ران سے چادر جدا ہوگئی تھی اور میں نے اللہ کے نبی ﷺ کی ران کی سفیدی دیکھی پس جب آپ ﷺ بستی میں پہنچے تو فرمایا اَللَّهُ أَکْبَرُ خیبر ویران ہوگیا کیونکہ ہم جب کسی قوم کے میدانوں میں اترتے ہیں تو ڈرائے ہوئے لوگوں کی صبح بری ہوجاتی ہے اس جملہ کو آپ ﷺ نے تین مرتبہ فرمایا اور اہل خیبر اس وقت اپنے اپنے کاموں کی طرف نکلے ہوئے تھے تو انہوں نے کہا محمد ﷺ آگئے اور بعض راویوں نے کہا کہ آپ ﷺ اور لشکر آگئے اور ہم نے اسے زبردستی فتح کرلیا۔
غزوئہ خیبر کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، عفان، حماد بن سلمہ، ثابت، حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ میں خیبر کے دن ابوطلحہ (رض) کے پیچھے سوار تھا اور میرا قدم رسول اللہ ﷺ کے قدم کو لگ رہا تھا پس ہم ان کے پاس اس وقت آئے جب سورج نکل چکا تھا اور انہوں نے اپنے جانوروں کو نکال لیا تھا اور خود درانیتاں اور ٹوکریاں اور درختوں پر چڑھنے کے لئے رسیاں لے کر باہر نکل رہے تھے انہوں نے کہا محمد ﷺ بمع لشکر آگئے ہیں اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا خیبر برباد ہوگیا کیونکہ جب ہم کسی قوم کے میدان میں اترتے ہیں تو ڈرائے ہوئے لوگوں کی صبح بری ہوجاتی ہے پس اللہ رب العزت نے انہیں شکست سے دوچار کیا۔
غزوہ خیبر کے بیان میں
اسحاق بن ابراہیم، اسحاق بن منصور، نضر بن شمیل، شعبہ، قتادہ، حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ خیبر تشریف لائے تو آپ ﷺ نے فرمایا جب ہم کسی قوم کے میدانوں میں اترتے ہیں تو وہ ان جن لوگوں کو (اللہ کے عذاب سے ڈرایا گیا ہے) ان کے لئے بہت برا ہوتا ہے۔
غزوئہ خیبر کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، محمد بن عباد، حاتم بن اسماعیل، یزید بن ابی عبید مولیٰ حضرت سلمہ بن اکوع (رض) سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ خیبر کی طرف نکلے اور رات کے وقت سفر کیا قوم میں سے ایک آدمی نے عامر بن اکوع (رض) سے کہا آپ ﷺ ہمیں اپنے اشعار میں سے کچھ شعر نہ سنائیں گے اور عامر (رض) شاعر تھے عامر قوم کے ساتھ اترے اور یہ شعر کہے۔ اے اللہ اگر تو ہماری مدد نہ کرتا تو ہمیں ہدایت نہ ملتی نہ ہم زکوٰۃ ادا کرتے اور نہ نماز پڑھتے پس تو ہمیں معاف کر دے یہی ہماری طلب ہے اور ہم تجھ پر فدا ہوں اور ہمارے قدموں کو مضبوط کر دے اگر ہم دشمنوں سے مقابلہ کریں اور ہم پر تسلی نازل فرما جب ہم کو آواز دی جاتی ہے تو ہم پہنچ جاتے ہیں اور آواز دینے کے ساتھ ہی لوگ ہم پر بھروسہ کرلیتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ ہنکانے والا کون ہے صحابہ نے عرض کیا عامر ہے آپ ﷺ نے فرمایا اللہ اس پر رحم فرمائے قوم میں سے ایک آدمی نے عرض کیا اے اللہ کے رسول اس پر رحمت واجب ہوگئی کاش آپ ﷺ ہمیں بھی اس سے مستفید کرتے ہم خبیر میں پہنچے اور ان کا محاصرہ کرلیا یہاں تک کہ ہمیں سخت بھوک لگی پھر آپ ﷺ نے فرمایا بیشک اللہ نے خبیر تمہارے لئے فتح کردیا ہے جب لوگوں نے شام کی اس دن جس دن خبیر ان کے لئے فتح کیا گیا تو لوگوں نے بہت زیادہ آگ جلائی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ آگ کیسی ہے اور کس چیز پر تم جلا رہے ہو ؟ صحابہ نے عرض کیا گوشت، آپ ﷺ نے فرمایا کونسا گوشت صحابہ نے عرض کیا گھریلو گدھے کا گوشت۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اسے انڈیل دو اور ہانڈیوں کو توڑ ڈالو ایک صحابی نے عرض کیا کیا ہم اسے انڈیل دیں اور ہانڈیوں کو دھولیں آپ ﷺ نے فرمایا ایسا کرلو جب لوگوں نے صف بندی کی تو عامر کی تلوار چھوٹی تھی انہوں نے یہودی کی پنڈلی پر وہ تلوار ماری لیکن تلوار کی دھار واپس آ کر عامر کے زانوں پر لگی پس وہ اس سے فوت ہوگئے پس جب صحابہ واپس لوٹے تو حضرت سلمہ (رض) نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا جب رسول اللہ ﷺ نے مجھے خاموش دیکھا تو فرمایا تجھے کیا ہے ؟ میں نے عرض کیا میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان، لوگوں نے گمان کیا ہے کہ عامر کے تمام اعمال برباد ہوگئے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا کس نے یہ بات کہی ہے ؟ میں نے عرض کیا فلاں فلاں اور اسید بن حضیر انصاری نے آپ ﷺ نے فرمایا جس نے یہ بات کہی جھوٹ کہا ہے اس کے لئے دوہرا اجر ہے اور آپ ﷺ نے اپنی دونوں انگلیوں کو جمع کیا اور فرمایا کہ اس نے اس طرح جہاد کیا جس کی مثال عرب میں بہت کم ہے جو اس راستہ میں اسی طرح چلا ہو۔
غزوئہ خیبر کے بیان میں
ابوطاہر، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، عبدالرحمن، ابن وہب، ابن عبداللہ بن کعب بن مالک، سلمہ بن اکوع، حضرت سلمہ بن اکوع (رض) سے روایت ہے کہ غزوہ خبیر کے دن میرے بھائی نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ سخت جنگ کی پس اس کی اپنی تلوار لوٹ کر اس کو لگی جس سے وہ شہید ہوگئے تو اصحاب رسول اللہ ﷺ نے اس کے بارے میں گفتگو کی اور ایسے آدمی کی شہادت میں شک کیا جو اپنے اسلحہ سے وفات پا جائے اور اسی طرح اس کے بعض حالات میں شک کیا سلمہ نے کہا جب رسول اللہ ﷺ خبیر سے لوٹے تو میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! آپ ﷺ مجھے اجازت دیں کہ میں آپ ﷺ کو کچھ رجزیہ اشعار سناؤں تو رسول اللہ ﷺ نے اسے اجازت دے دی حضرت عمر (رض) بن خطاب نے کہا جو کچھ کہو سوچ سمجھ کر کہو تو میں نے یہ شعر کہا اللہ کی قسم اگر اللہ ہمیں ہدایت عطا نہ فرماتا تو ہم نہ زکوٰۃ ادا کرتے اور نہ نماز پڑھتے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تو نے سچ کہا اور ہم پر رحمت نازل فرما اور اگر ہم مقابلہ کریں تو ہمیں ثابت قدم رکھو اور مشرکین نے تحقیق ہم پر زیادتی کی ہوئی ہے جب میں اپنے اشعار پورے کرچکا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ان اشعار کا کہنے والا کون ہے ؟ میں نے عرض کیا انہیں میرے بھائی نے کہا ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس پر رحم فرمائے میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ بعض لوگ اس کی نماز جنارہ ادا کرنے میں ہچکچاتے رہے تھے اور کہتے تھے کہ یہ ایسا شخص ہے جو اپنے اسلحہ سے شہید ہوا ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وہ اللہ کی اطاعت اور جہاد میں کوشش کرتے ہوئے شہید ہوا ہے ابن شہاب نے کہا پھر میں نے سلمہ بن اکوع کے بیٹے سے پوچھا تو انہوں نے یہ حدیث اپنے باپ سے مجھے بیان کی اور اس میں یہ کہا جب میں نے عرض کیا کہ بعض لوگ اس کی نماز جنازہ ادا کرنے میں ہچکچا رہے تھے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا انہوں نے جھوٹ کہا ہے بلکہ وہ جہاد کرتے ہوئے مجاہد شہید ہوا ہے اور اس کے لئے دوہرا اجر وثواب ہوگا اور آپ ﷺ نے اپنی دونوں انگلیوں سے اشارہ فرمایا۔
غزوئہ احزاب کے بیان میں
محمد بن مثنی، ابن بشار، ابن مثنی، محمد بن جعفر، شعبہ، ابواسحاق، حضرت براء فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ احزاب کے دن ہمارے ساتھ مٹی اٹھا رہے تھے اور مٹی کی وجہ سے آپ ﷺ کی پیٹ کی سفیدی اٹی ہوئی تھی اور آپ ﷺ فرما رہے تھے۔
غزوئہ احزاب کے بیان میں
محمد بن مثنی، عبدالرحمن بن مہدی، شعبہ، ابواسحاق، اس سند کے ساتھ حضرت براء (رض) سے بھی اسی طرح روایت ہے۔
غزوئہ احزاب کے بیان میں
عبداللہ بن مسلمہ قعنبی، عبدالعزیز بن ابی حازم، حضرت سہل بن سعد (رض) سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور حال یہ کہ ہم خندق کھود رہے تھے اور کندھوں پر مٹی اٹھا رہے تھے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے اللہ زندگی تو صرف آخرت کی زندگی ہے پس تو مہاجرین اور انصار کی مغفرت فرما۔
غزوئہ احزاب کے بیان میں
محمد بن مثنی، ابن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، معاویہ، ابن قرہ، حضرت انس (رض) بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا : اے اللہ ! زندگی تو صرف آخرت کی زندگی ہے تو انصار اور مہاجرین کی مغفرت فرما
غزوئہ احزاب کے بیان میں
محمد بن مثنی، ابن بشار، ابن مثنی، محمد بن جعفر، شعبہ، قتادہ، حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اے اللہ زندگی تو صرف آخرت کی زندگی ہے پس تو انصار اور مہاجرین پر کرم فرما
غزوئہ احزاب کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، شیبان بن فروخ، یحیی، شیبان، عبدالوارث، ابوتیاح، حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ رجزیہ اشعار کہتے تھے اور رسول اللہ ﷺ بھی ان کے ساتھ رجزیہ اشعار کہتے تھے اور فرماتے تھے اے اللہ بھلائی تو صرف آخرت کی بھلائی ہے پس تو انصار اور مہاجرین کی مدد فرما اور شیبان کی حدیث میں فانصر کی جگہ فاغفر ہے۔
غزوئہ احزاب کے بیان میں
محمد بن حاتم، بہز، حماد بن سلمہ، ثابت، حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ محمد ﷺ کے صحابہ (رض) خندق کے دن کہہ رہے تھے جب تک ہماری زندگی باقی ہے ہم نے محمد ﷺ سے اسلام پر بیعت کی ہے اور نبی ﷺ فرماتے تھے اے اللہ بھلائی تو صرف آخرت کی بھلائی ہے پس تو انصار اور مہاجرین کی مغفرت فرما
غزوئہ احزاب کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، حاتم بن اسماعیل، یزید بن ابی عبید، حضرت سلمہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں پہلی اذان سے قبل باہر نکلا کہ ذی قرد میں رسول اللہ ﷺ کی اونٹنیاں چر رہیں تھیں حضرت سلمہ کہتے ہیں کہ مجھے عبدالرحمن بن عوف کا غلام ملا اور اس نے کہا رسول اللہ ﷺ کی اونٹنیوں کو پکڑ لیا گیا ہے تو میں نے اس غلام سے پوچھا کس نے پکڑی ہیں غلام نے کہا غطفان نے حضرت سلمہ فرماتے ہیں کہ میں نے چیخ چیخ کر تین مرتبہ یاصباحاہ کہا مدینہ کے دونوں کناروں تک میری آواز سنی گئی پھر میں سامنے کی طرف چلا یہاں تک کہ میں نے ذی قرد میں غطفان کے لوگوں کو پکڑ لیا وہ لوگ اونٹنیوں کو پانی پلا رہے تھے میں نے اپنے تیروں سے انہیں مارنا شروع کردیا اور میں تیر مارتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ میں اکوع کا بیٹا ہوں اور آج کا دن تو کمی لوگوں کی ہلاکت کا دن ہے۔ تو میں یہ رجز پڑھتا رہا یہاں تک کہ میں نے ان سے اونٹنیوں کو چھڑا لیا اور ان سے تین چادریں بھی لے لیں راوی کہتے ہیں نبی ﷺ اور صحابہ تشریف لے آئے تو میں نے عرض کیا اے اللہ کے نبی ﷺ میں نے اس قوم کے لوگوں کو پانی سے روک رکھا ہے حالانکہ یہ لوگ پیاسے ہیں آپ ﷺ ان کی طرف ابھی لوگ بھیجیں آپ ﷺ نے فرمایا اے ابن اکوع تم نے اپنی چیزیں تو لے لیں ہیں اب انہیں چھوڑ دو راوی کہتے ہیں کہ پھر ہم واپس لوٹے اور رسول اللہ ﷺ نے مجھے اپنی اونٹنی پر اپنے پیچھے سوار کیا یہاں تک کہ ہم مدینہ میں داخل ہوگئے۔
غزوئہ احزاب کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، ہاشم بن قاسم، اسحاق بن ابراہیم، ابوعامر عقدی، عکرمہ بن عمار، عبداللہ بن عبدالرحمن دارمی، ابوعلی حنفی، عبیداللہ بن عبدالمجید، عکرمہ، ابن عمار، ایاس بن سلمہ، حضرت سلمہ (رض) فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حدیبیہ کے مقام پر آئے اور ہم چودہ سو کی تعداد میں تھے اور ہمارے پاس پچاس بکریاں تھیں وہ سیراب نہیں ہو رہی تھیں راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کنوئیں کے کنارے بیٹھ گئے یا تو آپ ﷺ نے دعا فرمائی اور یا اس میں آپ ﷺ نے اپنا لعاب دہن ڈالا راوی کہتے ہیں کہ پھر اس کنوئیں میں جوش آگیا پھر ہم نے اپنے جانوروں کو بھی سیراب کیا اور خود ہم بھی سیراب ہوگئے پھر رسول اللہ ﷺ نے ہمیں درخت کی جڑ میں بیٹھ کر بیعت کے لئے بلایا راوی کہتے ہیں کہ لوگوں میں سے سب سے پہلے میں نے بیعت کی پھر اور لوگوں نے بیعت کی یہاں تک کہ جب آدھے لوگوں نے بیعت کرلی تو آپ ﷺ نے فرمایا ابوسلمہ بیعت کرو میں نے عرض کیا اللہ کے رسول میں تو سب سے پہلے بیعت کرچکا ہوں آپ ﷺ نے فرمایا پھر دوبارہ کرلو اور رسول اللہ ﷺ نے مجھے دیکھا کہ میرے پاس کوئی اسلحہ وغیرہ نہیں ہے تو رسول اللہ ﷺ نے مجھے ایک ڈھال عطا فرمائی (اس کے بعد) پھر بیعت کا سلسلہ شروع ہوگیا جب سب لوگوں نے بیعت کرلی تو آپ ﷺ نے فرمایا اے سلمہ کیا تو نے بیعت نہیں کی میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ لوگوں میں سب سے پہلے تو میں نے بیعت کی اور لوگوں کے درمیان میں بھی میں نے بیعت کی آپ ﷺ نے فرمایا پھر کرلو حضرت سلمہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے تیسری مرتبہ بیعت کی پھر آپ ﷺ نے مجھے فرمایا ! اے سلمہ (رض) وہ ڈھال کہاں ہے جو میں نے تجھے دی تھی میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ میرے چچا عامر کے پاس کوئی اسلحہ وغیرہ نہیں تھا وہ ڈھال میں نے ان کو دے دی حضرت سلمہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مسکرا پڑے اور فرمایا کہ تو بھی اس آدمی کی طرح ہے کہ جس نے سب سے پہلے دعا کی تھی اے اللہ مجھے وہ دوست عطا فرما جو مجھے میری جان سے زیادہ پیارا ہو پھر مشرکوں نے ہمیں صلح کا پیغام بھیجا یہاں تک کہ ہر ایک جانب کا آدمی دوسری جانب جانے لگا اور ہم نے صلح کرلی حضرت سلمہ کہتے ہیں کہ میں حضرت طلحہ بن عبیداللہ کی خدمت میں تھا اور میں ان کے گھوڑے کو پانی پلاتا تھا اور اسے چرایا کرتا اور ان کی خدمت کرتا اور کھانا بھی ان کے ساتھ ہی کھاتا کیونکہ میں اپنے گھر والوں اور اپنے مال و اسباب کو چھوڑ کر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف ہجرت کر آیا تھا پھر جب ہماری اور مکہ والوں کی صلح ہوگئی اور ایک دوسرے سے میل جول ہونے لگا تو میں ایک درخت کے پاس آیا اور اس کے نیچے سے کانٹے وغیرہ صاف کر کے اس کی جڑ میں لیٹ گیا اور اسی دوران مکہ کے مشرکوں میں سے چار آدمی آئے اور رسول اللہ ﷺ کو برا بھلا کہنے لگے مجھے ان مشرکوں پر بڑا غصہ آیا پھر میں دوسرے درخت کی طرف آگیا اور انہوں نے اپنا اسلحہ لٹکایا اور لیٹ گئے وہ لوگ اس حال میں تھے کہ اسی دوران وادی کے نشیب میں سے ایک پکارنے والے نے پکارا اے مہاجرین ابن زقیم شہید کر دئے گئے میں نے یہ سنتے ہی اپنی تلوار سیدھی کی اور پھر میں نے ان چاروں پر اس حال میں حملہ کیا کہ وہ سو رہے تھے اور ان کا اسلحہ میں نے پکڑ لیا اور ان کا ایک گٹھا بنا کر اپنے ہاتھ میں رکھا پھر میں نے کہا قسم ہے اس ذات کی کہ جس نے حضرت محمد ﷺ کے چہرہ اقدس کو عزت عطا فرمائی تم میں سے کوئی اپنا سر نہ اٹھائے ورنہ میں تمہارے اس حصہ میں ماروں گا کہ جس میں دونوں آنکھیں ہیں راوی کہتے ہیں کہ پھر میں ان کو کھینچتا ہوا رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لے کر حاضر ہوا اور میرے چچا حضرت عامر (رض) بھی قبیلہ عبلات کے آدمی کو جسے مکرز کہا جاتا ہے اس کے ساتھ مشرکوں کے ستر آدمیوں کو گھسیٹ کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لائے حضرت عامر (رض) جھول پوش گھوڑے پر سوار تھے رسول اللہ ﷺ نے ان کی طرف دیکھا اور پھر فرمایا ان کو چھوڑ دو کیونکہ جھگڑے کی ابتداء بھی انہی کی طرف سے ہوئی اور تکرار بھی انہی کی طرف سے، الغرض رسول اللہ ﷺ نے ان کو معاف فرما دیا اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی اور وہ اللہ کہ جس نے ان کے ہاتھوں کو تم سے روکا اور تمہارے ہاتھوں کو ان سے روکا مکہ کی وادی میں بعداس کے کہ تم کو ان پر فتح اور کامیابی دے دی تھی "۔ پھر ہم مدینہ منورہ کی طرف نکلے راستہ میں ہم ایک جگہ اترے جس جگہ ہمارے اور بنی لحیان کے مشر کون کے درمیان ایک پہاڑ حائل تھا رسول اللہ ﷺ نے اس آدمی کے لئے مغفرت کی دعا فرمائی جو آدمی اس پہاڑ پر چڑھ کر نبی ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ کے لئے پہرہ دے حضرت سلمہ فرماتے ہیں کہ میں اس پہاڑ پر دو یا تین مرتبہ چڑھا پھر ہم مدینہ منورہ پہنچ گئے رسول اللہ ﷺ نے اپنے اونٹ رباح کے ساتھ بھیج دیئے جو کہ رسول اللہ ﷺ کا غلام تھا میں بھی ان اونٹوں کے ساتھ حضرت ابوطلحہ کے گھوڑے پر سوار ہو کر نکلا جب صبح ہوئی تو عبدالرحمن فراری نے رسول اللہ ﷺ کے اونٹوں کو لوٹ لیا اور ان سب اونٹوں کو ہانک کرلے گیا اور اس نے آپ ﷺ کے چرواہے کو قتل کردیا حضرت سلمہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا اے رباح یہ گھوڑا پکڑ اور اسے حضرت طلحہ بن عبیداللہ کو پہنچا دے اور رسول اللہ کو خبر دے کہ مشرکوں نے آپ ﷺ کے اونٹوں کو لوٹ لیا ہے حضرت سلمہ کہتے ہیں کہ پھر میں ایک ٹیلے پھر کھڑا ہوا اور میں نے اپنا رخ مدینہ منورہ کی طرف کر کے بہت بلند آواز سے پکارا یا صباحاہ پھر میں ان لٹیروں کے پیچھے ان کو تیر مارتا ہوا اور رجز پڑھتے ہوئے نکلا میں اکوع کا بیٹا ہوں اور آج کا دن ان ذلیلوں کی بربادی کا دن ہے۔ میں ان میں سے ایک ایک آدمی سے ملتا اور اسے تیر مارتا یہاں تک کہ تیر ان کے کندھے سے نکل جاتا اور میں کہتا کہ یہ وار پکڑ، میں اکوع کا بیٹا ہوں اور آج کا دن ان ذلیلوں کی بربادی کا دن ہے۔ حضرت سلمہ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم میں ان کو لگاتار تیر مارتا رہا اور ان کو زخمی کرتا رہا تو جب ان میں سے کوئی سوار میری طرف لوٹتا تو میں درخت کے نیچے آ کر اس درخت کی جڑ میں بیٹھ جاتا پھر میں اس کو ایک تیر مارتا جس کی وجہ سے وہ زخمی ہوجاتا یہاں تک کہ وہ لوگ پہاڑ کے تنگ راستہ میں گھسے اور میں پہاڑ پر چڑھ گیا اور وہاں سے میں نے ان کو پتھر مارنے شروع کر دئے۔ حضرت سلمہ کہتے ہیں کہ میں لگاتار ان کا پیچھا کرتا رہا یہاں تک کہ کوئی اونٹ جو اللہ نے پیدا کیا ہو اور وہ رسول اللہ ﷺ کی سواری کا ہو ایسا نہیں ہوا کہ اسے میں نے اپنی پشت کے پیچھے نہ چھوڑ دیا ہو حضرت سلمہ کہتے ہیں پھر میں نے ان کے پیچھے تیر پھینکے یہاں تک کہ ان لوگوں نے ہلکا ہونے کی خاطر تیس چادریں اور تیس نیزوں سے زیادہ پھینک دیئے سوائے اس کے کہ وہ لوگ جو چیز بھی پھینکتے میں پتھروں سے میل کی طرح اس پر نشان ڈال دیتا کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ پہچان لیں یہاں تک کہ وہ ایک تنگ گھاٹی پر آگئے اور فلاں بن بدر فرازی بھی ان کے پاس آگیا سب لوگ دوپہر کا کھانا کھانے کے لئے بیٹھ گئے اور میں پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ کر بیٹھ گیا فرازی کہنے لگا کہ یہ کون سا آدمی ہمیں دیکھ رہا ہے لوگوں نے کہا اس آدمی نے ہمیں بڑا تنگ کر رکھا ہے اللہ کی قسم اندھیری رات سے ہمارے ساتھ ہے اور لگاتار ہمیں تیر مار رہا ہے یہاں تک کہ ہمارے پاس جو کچھ بھی تھا اس نے سب کچھ چھین لیا ہے فرازی کہنے لگا کہ تم میں سے چار آدمی اس کی طرف کھڑے ہوں اور اسے مار دیں حضرت سلمہ کہتے ہیں ان میں سے چار آدمی میری طرف پہاڑ پر چڑھے تو جب وہ اتنی دور تک پہنچ گئے جہاں میری بات سن سکیں حضرت سلمہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا کیا تم مجھے پہچانتے ہو انہوں نے کہا نہیں اور تم کون ہو میں نے جواب میں کہا میں سلمہ بن اکوع ہوں اور قسم ہے اس ذات کی جس نے حضرت محمد ﷺ کے چہرہ اقدس کو بزرگی عطا فرمائی ہے میں تم میں سے جسے چاہوں مار دوں اور تم میں سے کوئی مجھے نہیں مار سکتا۔ ان میں سے ایک آدمی کہنے لگا کہ ہاں لگتا تو ایسے ہی ہے پھر وہ سب وہاں سے لوٹ پڑے اور میں ابھی تک اپنی جگہ سے چلا ہی نہیں تھا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے سواروں کو دیکھ لیا جو کہ درختوں میں گھس گئے حضرت سلمہ کہتے ہیں کہ ان میں سب سے آگے حضرت اخرم اسدی (رض) تھے اور ان کے پیچھے حضرت ابوقتادہ (رض) تھے اور ان کے پیچھے حضرت مقداد بن اسور کندی تھے حضرت سلمہ کہتے ہیں کہ میں نے جا کر اخرم کے گھوڑے کی لگام پکڑی وہ لٹیرے بھاگ پڑے میں نے کہا اے اخرم ان سے ذرا بچ کے رہنا ایسا نہ ہو کہ وہ تمہیں مار ڈالیں جب تک کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ نہ آجائیں۔ اخرم کہنے لگے اے ابوسلمہ اگر تم اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو اور اس بات کا یقین رکھتے ہو کہ جنت حق ہے اور دوزخ حق ہے تو تم میرے اور میری شہادت کے درمیان رکاوٹ نہ ڈالو۔ حضرت سلمہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے ان کو چھوڑ دیا اور پھر اخرم کا مقابلہ عبدالرحمن فرازی سے ہوا۔ اخرم نے عبدالرحمن کے گھوڑے کو زخمی کردیا اور پھر عبدالرحمن نے اخرم کو برچھی مار کر شہید کردیا اور اخرم کے گھوڑے پر چڑھ کر بیٹھ گیا اسی دوران میں رسول اللہ ﷺ کے شہسوار حضرت ابوقتادہ آگئے (جب انہوں نے یہ منظر دیکھا) تو حضرت ابوقتادہ نے عبدالرحمن فرازی کو بھی برچھی مار کر قتل کردیا ( اور پھر فرمایا) قسم ہے اس ذات کی کہ جس نے حضرت محمد ﷺ کے چہرہ اقدس کو بزرگی عطا فرمائی ہے میں ان کے تعاقب میں لگا رہا اور میں اپنے پاؤں سے ایسے بھاگ رہا تھا کہ مجھے اپنے پیچھے حضرت محمد ﷺ کا کوئی صحابی بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا اور نہ ہی ان کا گرد و غبار یہاں تک کہ وہ لیٹرے سورج غروب ہونے سے پہلے ایک گھاٹی کی طرف آئے جس میں پانی تھا جس گھاٹی کو ذی قرد کہا جاتا تھا تاکہ وہ لوگ اسی گھاٹی سے پانی پئیں کیونکہ وہ پیاسے تھے حضرت سلمہ کہتے ہیں کہ انہوں نے مجھے دیکھا اور میں ان کے پیچھے دوڑتا ہوا چلا آ رہا تھا بالآخر میں نے ان کو پانی سے ہٹایا وہ اس سے ایک قطرہ بھی نہ پی سکے۔ حضرت سلمہ (رض) کہتے ہیں کہ اب وہ کسی اور گھاٹٰ کی طرف نکلے میں بھی ان کے پیچھے بھاگا اور ان میں سے ایک آدمی کو پا کر میں نے اس کے شانے کی ہڈی میں ایک تیر مارا، میں نے کہا پکڑ اس کو اور میں اکوع کا بیٹا ہوں اور آج کا دن کمینوں کی بربادی کا دن ہے۔ وہ کہنے لگا اس کی ماں اس پر روئے کیا یہ وہی اکوع تو نہیں جو صبح کو میرے ساتھ تھا میں نے کہا ہاں اے اپنی جان کے دشمن جو صبح کے وقت تیرے ساتھ تھا۔ حضرت سلمہ (رض) فرماتے ہیں کہ انہوں نے دو گھوڑے ایک گھاٹی پر چھوڑ دیئے تو میں ان دونوں گھوڑوں کو ہنکا کر رسول اللہ ﷺ کی طرف لے آیا حضرت سلمہ (رض) کہتے ہیں کہ وہاں عامر سے میری ملاقات ہوئی ان کے پاس ایک چھاگل تھا جس میں دودھ تھا اور ایک مشکیزے میں پانی تھا۔ پانی سے میں نے وضو کیا اور دودھ پی لیا پھر میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آیا اور آپ ﷺ اسی پانی والی جگہ پر تھے جہاں سے میں نے لیٹروں کو بھگا دیا تھا اور میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ نے وہ اور تمام چیزیں جو میں نے مشرکوں سے چھین لی تھیں اور سب نیزے اور چادریں لے لیں اور حضرت بلال نے ان اونٹوں میں جو میں نے لٹیروں سے چھینے تھے ایک اونٹ کو ذبح کیا اور اس کی کلیجی اور کوہان کو رسول اللہ ﷺ کے لئے بھونا۔ حضرت سلمہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ مجھے اجازت مرحمت فرمائیں تاکہ میں لشکر میں سے سو آدمیوں کا انتخاب کروں اور پھر میں ان لیٹروں کا مقابلہ کروں اور جب تک میں ان کو قتل نہ کر ڈالوں اس وقت تک نہ چھوڑوں کہ وہ جا کر اپنی قوم کو خبر دیں حضرت سلمہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہنس پڑے یہاں تک کہ آگ کی روشنی میں آپ ﷺ کی داڑھیں مبارک ظاہر ہوگئیں آپ ﷺ نے فرمایا اے سلمہ اب تو وہ غطفان کے علاقہ میں ہوں گے اسی دوران علاقہ غطفان سے ایک آدمی آیا اور وہ کہنے لگا کہ فلاں آدمی نے ان کے لئے ایک اونٹ ذبح کیا تھا اور ابھی اس اونٹ کی کھال ہی اتار پائے تھے کہ انہوں نے کچھ غبار دیکھا تو وہ کہنے لگے کہ لوگ آگئے وہ لوگ وہاں سے بھی بھاگ کھڑے ہوئے تو جب صبح ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ آج کے دن ہمارے بہترین سواروں میں سے بہتر سوار حضرت قتادہ ہیں اور پیادوں میں سب سے بہتر حضرت سلمہ ہیں، پھر رسول اللہ ﷺ نے مجھے دو حصے عطا فرمائے اور ایک سوار کا حصہ اور ایک پیادہ کا حصہ اور دونوں حصے اکٹھے مجھے ہی عطا فرمائے پھر رسول اللہ ﷺ نے غضباء اونٹنی پر مجھے اپنے پیچھے بٹھایا اور ہم سب مدینہ منورہ واپس آگئے دوران سفر انصار کا ایک آدمی جس سے دوڑنے میں کوئی آگے نہیں بڑھ سکتا تھا وہ کہنے لگا کیا کوئی مدینہ تک میرے ساتھ دوڑ لگانے والا ہے اور وہ بار بار یہی کہتا رہا۔ حضرت سلمہ (رض) کہتے ہیں جب میں نے اس کا چیلنچ سنا تو میں نے کہا کیا تجھے کسی بزرگ کی بزرگی کا لحاظ نہیں اور کیا تو کسی بزرگ سے ڈرتا نہیں اس انصاری شخص نے کہا نہیں، سوائے رسول اللہ ﷺ کے۔ حضرت سلمہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان مجھے اجازت عطا فرمائیں تاکہ میں اس آدمی سے دوڑ لگاؤں آپ ﷺ نے فرمایا اگر تو چاہتا ہے تو حضرت سلمہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے اس انصاری سے کہا کہ میں تیری طرف آتا ہوں اور میں نے اپنا پاؤں ٹیڑھا کیا پھر میں کود پڑا اور دوڑنے لگا اور پھر جب ایک یا دو چڑھائی باقی رہ گئی تو میں نے سانس لیا پھر میں اس کے پیچھے دوڑا پھر جب ایک یا دو چڑھائی باقی رہ گئی تو پھر میں نے سانس لیا پھر میں دوڑا یہاں تک کہ میں نے اس کے دونوں شانوں کے درمیان میں ایک گھونسا مارا اور میں نے کہا اللہ کی قسم میں آگے بڑھ گیا اور پھر اس سے پہلے مدینہ منورہ پہنچ گیا حضرت سلمہ (رض) کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم ابھی ہم مدینہ منورہ میں صرف تین راتیں ہی ٹھہرے تھے کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ خیبر کی طرف نکل پڑے حضرت سلمہ کہتے ہیں کہ میرے چچا حضرت عامر (رض) نے رجزیہ اشعار پڑھنے شروع کردیے۔ اللہ کی قسم اگر اللہ کی مدد نہ ہوتی تو ہمیں ہدایت نہ ملتی اور نہ ہم صدقہ کرتے اور نہ ہی ہم نماز پڑھتے اور ہم تیرے فضل سے مستغنی نہیں ہیں اور تو ہمیں ثابت قدم رکھ جب ہم دشمن سے ملیں اور اے اللہ ہم پر سکینت نازل فرما۔ جب یہ رجزیہ اشعار سنے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ کون ہے انہوں نے عرض کیا میں عامر ہوں آپ ﷺ نے فرمایا تیرا رب تیری مغفرت فرمائے۔ راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی انسان کے لئے خاص طور پر مغفرت کی دعا فرماتے تو وہ ضرور شہادت کا درجہ حاصل کرتا۔ حضرت سلمہ (رض) کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) بن خطاب جب اپنے اونٹ پر تھے کہ بلند آواز سے پکارا اے اللہ کے نبی آپ ﷺ نے ہمیں عامر سے کیوں نہ فائدہ حاصل کرنے دیا آپ ﷺ نے فرمایا جب ہم خیبر آئے تو ان کا بادشاہ مرحب اپنی تلوار لہراتا ہوا نکلا اور کہتا ہے، خیبر جانتا ہے کہ میں مرحب ہوں اسلحہ سے مسلح، بہادر تجربہ کار ہوں جس وقت جنگ کی آگ بھڑکنے لگتی ہے۔ حضرت سلمہ کہتے ہیں کہ یہ میرے چچا عامر اس کے مقابلے کے لئے نکلے اور انہوں نے بھی یہ رجزیہ اشعار پڑھے خیبر جانتا ہے کہ میں عامر ہوں اسلحہ سے مسلح اور بےخوف جنگ میں گھسنے والا ہوں۔ حضرت سلمہ کہتے ہیں کہ عامر اور مرحب دونوں کی ضربیں مختلف طور پر پڑنے لگیں مرحب کی تلوار عامر کی ڈھال پر لگی اور عامر (رض) نے نیچے سے مرحب کو تلوار ماری تو حضرت عامر کی اپنی تلوار خود اپنے ہی لگ گئی جس سے ان کہ شہ رگ کٹ گئی اور اسی نتیجہ میں وہ شہید ہوگئے۔ حضرت سلمہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نکلا تو میں نے نبی ﷺ کے چند صحابہ (رض) کو دیکھا وہ کہنے لگے حضرت عامر کا عمل ضائع ہوگیا انہوں نے اپنے آپ کو خود مار ڈالا ہے۔ حضرت سلمہ کہتے ہیں نبی ﷺ کی خدمت میں روتا ہوا آیا اور میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ عامر کا عمل ضائع ہوگیا ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ کس نے کہا ہے۔ میں نے عرض کیا آپ ﷺ کے صحابہ میں سے کچھ لوگوں نے کہا ہے آپ ﷺ نے فرمایا جس نے بھی کہا ہے جھوٹ کہا ہے بلکہ عامر کے لئے دگنا اجر ہے پھر آپ ﷺ نے مجھے حضرت علی (رض) کی طرف بھیجا ان کی آنکھ دکھ رہی تھی آپ ﷺ نے فرمایا میں جھنڈا ایسے آدمی کو دوں گا کہ جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہو یا اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت رکھتے ہوں حضرت سلمہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے علی کو پکڑ کر آپ ﷺ کی خدمت میں لے کر آیا کیونکہ علی (رض) کی آنکھیں دکھ رہی تھیں آپ ﷺ نے حضرت علی (رض) کی آنکھوں میں اپنا لعاب دہن لگایا تو ان کی آنکھیں اسی وقت ٹھیک ہوگئیں۔ آپ ﷺ نے ان کو جھنڈا عطا فرمایا اور مرحب یہ کہتا ہوا نکلا خیبر جانتا ہے کہ میں مرحب ہوں اسلحہ سے مسلح، بہادر تجربہ کار ہوں جب جنگ کی آگ بھڑکنے لگتی ہے۔ تو پھر حضرت علی (رض) نے بھی جواب میں کہا کہ میں وہ ہوں کہ میری ماں نے میرا نام حیدر رکھا ہے اس شیر کی طرح جو جنگلوں میں ڈراؤنی صورت ہوتا ہے۔ میں لوگوں کو ایک صاع کے بدلہ اس سے بڑا پیمانہ دیتا ہوں۔ حضرت سلمہ (رض) کہتے ہیں کہ پھر حضرت علی (رض) نے مرحب کے سر پر ایک ضرب لگائی تو وہ قتل ہوگیا پھر خیبر حضرت علی (رض) کے ہاتھوں پر فتح ہوگیا۔ ایک دوسری سند کے ساتھ حضرت عکرمہ بن عمار نے یہ حدیث اس حدیث سے بھی زیادہ لمبی نقل کی ہے دوسری سند کے ساتھ عکرمہ بن عمار سے اسی طرح روایت منقول ہے۔
غزوئہ احزاب کے بیان میں
عمرو بن محمد ناقد، یزید بن ہارون، حماد بن سلمہ، ثابت انس، حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ تنعیم کے پہاڑ سے مکہ والوں کے اسی آدمی جو کہ اسلحہ سے مسلح تھے رسول اللہ ﷺ پر اترے وہ لوگ نبی ﷺ اور آپ کے صحابہ (رض) کو غفلت میں رکھ کر آپ ﷺ پر حملہ کرنا چاہتے تھے آپ ﷺ نے ان لوگوں کو پکڑ کر پھر چھوڑ دیا تو اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ نازل فرمائی اور وہی ہے جس نے وادی مکہ میں ان کے ہاتھ تم سے اور تمہارے ہاتھ ان سے روک دیئے اس کے بعد کہ اس نے تمہیں ان پر غالب کردیا تھا۔
عورتوں کا مردوں کے ساتھ جہاد کرنے کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، یزید بن ہارون، حماد بن سلمہ، ثابت انس، حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ حضرت ام سلمہ (رض) نے غزوہ حنین کے دن ان کے پاس جو خنجر تھا وہ لیا۔ حضرت ابوطلحہ (ام سلیم کے ہاتھ میں خنجر) دیکھا تو عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ یہ ام سلیم ہیں جن کے پاس ایک خنجر ہے تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت ام سلیم (رض) سے فرمایا یہ خنجر کیسا ہے حضرت ام سلیم (رض) نے عرض کیا اگر مشرکوں میں سے کوئی مشرک میرے پاس آئے گا تو میں اس کے ذریعہ سے اس کا پیٹ پھاڑ ڈالوں گی یہ سن کر رسول اللہ ﷺ ہنس پڑے ام سلیم (رض) نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ ہمارے طلقاء میں سے وہ لوگ کہ جنہوں نے آپ ﷺ سے شکست کھائی ہے کیا میں ان کو قتل کردوں یعنی جو فتح مکہ کے موقع پر مکہ والوں میں سے مسلمان ہوئے ان کے شکست کھا جانے کے وجہ سے ام سلیم نے ان کو منافق سمجھا اس لئے ان کو قتل کرنے کا عرض کیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے ام سلیم بیشک اللہ کافی ہے اور اللہ نے ہم پر احسان کیا ہے۔
عورتوں کا مردوں کے ساتھ جہاد کرنے کے بیان میں
محمد بن حاتم، بہز، حماد بن سلمہ، اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ، انس بن مالک، اس سند کے ساتھ حضرت انس بن مالک (رض) نے ام سلیم (رض) کا یہ واقعہ نبی ﷺ سے روایت کیا ثابت کی حدیث کی طرح۔
عورتوں کا مردوں کے ساتھ جہاد کرنے کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، جعفر بن سلیمان، ثابت، انس، حضرت انس بن مالک (رض) سے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جہاد کرتے تو ام سلیم اور انصار کی کچھ عورتیں آپ ﷺ کے ساتھ ہوتیں وہ پانی پلاتیں اور زخمیوں کو دوا دیتیں۔
عورتوں کا مردوں کے ساتھ جہاد کرنے کے بیان میں
عبداللہ بن عبدالرحمن دار می، عبداللہ بن عمر، ابومعمر منقری، عبدالوارث، عبدالعزیز، ابن صہیب، انس، حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ غزوہ احد کے دن صحابہ (رض) میں سے بعض صحابہ (رض) شکست کھا کر نبی ﷺ کو چھوڑ کر بھاگ گئے اور ابوطلحہ (رض) نبی ﷺ کے سامنے ڈھال سے آپ ﷺ پر پردہ کئے ہوئے تھے اور ابوطلحہ بہت زبردست تیر انداز تھے اور اس دن انہوں نے دو یا تین کمانیں توڑیں تھیں اور جب کوئی آدمی آپ ﷺ کے پاس سے تیروں کا ترکش لئے گزرتا تو آپ ﷺ فرماتے انہیں ابوطلحہ کے لئے بکھیر دو اور اللہ کے نبی ﷺ گردن اٹھا اٹھا کر قوم کو دیکھ رہے تھے تو ابوطلحہ نے عرض کیا اے اللہ کے نبی ﷺ آپ ﷺ پر میرے ماں باپ قربان آپ ﷺ گردن نہ اٹھائیں کہیں دشمنوں کے تیروں میں سے کوئی آپ ﷺ کو نہ لگ جائے اور میرا سینہ آپ کے سینہ کے سامنے رہے انس (رض) کہتے ہیں تحقیق ! میں نے حضرت عائشہ (رض) بنت ابوبکر (رض) اور ام سلیم (رض) کو دیکھا کہ وہ اپنے دامن اٹھائے تھیں کہ میں نے ان کی پنڈلیوں کی پازیبوں کو دیکھا اور وہ دونوں اپنی پشتوں پر مشکیزے بھر کر لا رہی تھیں اور صحابہ (رض) کے منہ میں ڈال کر لوٹ آتیں پھر بھرتیں پھر آتیں اور صحابہ (رض) کے منہ میں ڈال دیتی تھیں اور اس دن ابوطلحہ (رض) کے ہاتھ سے دو یا تین مرتبہ نیند کی وجہ سے تلوار گرگئی تھی۔
جہاد کرنے والی عورتوں کو بطور عطیہ دینے اور غنیمت میں حصہ مقرر نہ کرنے کا حکم اور اہل حرب کے بچوں کو قتل کرنے کی ممانعت کے بیان میں
عبداللہ بن مسلمہ بن قعنب، سلیمان بن بلال، جعفر بن محمد، یزید بن ہرمز، حضرت یزید بن ہرمز (رض) سے روایت ہے کہ نجدہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے پانچ باتوں کے بارے میں پوچھنے کے لئے لکھا تو ابن عباس (رض) نے کہا اگر مجھے علم چھپانے کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں نہ لکھتا، ان کی طرف نجدہ نے لکھا کہ آپ مجھے خبر دیں کیا رسول اللہ ﷺ عورتوں کو جہاد میں شریک کرتے تھے اور کیا آپ ﷺ ان کے لئے حصہ مقرر فرماتے تھے اور کیا آپ بچوں کو قتل کرتے تھے اور یتیم کی یتیمی کب ختم ہوتی ہے اور مال غنیمت کا پانچواں حصہ کس کا حق ہے۔ ابن عباس (رض) نے اس کی طرف (جواباً ) تحریر فرمایا تو نے مجھ سے پوچھنے کے لئے لکھا، کیا رسول اللہ ﷺ عورتوں کو جہاد میں شریک کرتے تھے، رسول اللہ ﷺ عورتوں کو جہاد میں شریک کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ انہیں جہاد میں ساتھ لے جاتے تھے اور وہ زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں اور انہیں مال غنیمت میں سے کچھ عطا بھی کیا جاتا تھا بہرحال مال غنیمت میں سے ان کے لئے حصہ مقرر نہ کیا جاتا تھا اور رسول اللہ ﷺ بچوں کو قتل نہ کرتے تھے پس تو بھی بچوں کو قتل نہ کرنا اور تو نے مجھ سے پوچھنے کے لئے لکھا ہے کہ یتیم کی یتیمی کب ختم ہوجاتی ہے، تو میری عمر کی قسم بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی داڑھی نکل آتی ہے لیکن وہ اپنے لینے اور دینے میں کمزور ہوتے ہیں پس جب وہ باسلیقہ لوگوں کی طرح اپنا فائدہ حاصل کرنے کے قابل ہوجائیں تو اس کی مدت یتیمی ختم ہوجائے گی اور تو نے مجھ سے مال غنیمت میں پانچواں حصہ کے بارے میں پوچھنے کے لئے لکھا ہے کہ اس کا حقدار کون ہے ہم کہا کرتے تھے کہ وہ ہمارا حق ہے لیکن قوم نے ہمیں یہ حق دینے سے انکار کردیا۔
جہاد کرنے والی عورتوں کو بطور عطیہ دینے اور غنیمت میں حصہ مقرر نہ کرنے کا حکم اور اہل حرب کے بچوں کو قتل کرنے کی ممانعت کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، اسحاق بن ابراہیم، حاتم بن اسماعیل، جعفر بن محمد، یزید بن ہرمز، اس سند سے یہ حدیث مروی ہے حضرت یزید بن ہرمز سے ہے کہ نجدہ نے ابن عباس (رض) کی طرف لکھا اور اس نے چند باتوں کے بارے میں پوچھا باقی حدیث اسی طرح ہے اس میں یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ بچوں کو قتل نہ کیا کرتے تھے پس تو بھی بچوں کو قتل نہ کر سوائے اس کے کہ تجھے بھی وہ علم حاصل ہوجائے جو حضرت خضر (علیہ السلام) کو اس بچے کے بارے میں عطا ہوا تھا جسے انہوں نے قتل کردیا دوسری روایت میں یہ اضافہ بھی ہے کہ تو مومن کی تمیز کر کافر کو قتل کر دے اور جو مومن ہو اسے چھوڑ دے۔
جہاد کرنے والی عورتوں کو بطور عطیہ دینے اور غنیمت میں حصہ مقرر نہ کرنے کا حکم اور اہل حرب کے بچوں کو قتل کرنے کی ممانعت کے بیان میں
ابن ابی عمر، سفیان، اسماعیل بن امیہ، سعید مقبری، یزید بن ہرمز، حضرت یزید بن ہرمز (رض) سے روایت ہے کہ نجدہ بن عامر حروری نے حضرت ابن عباس (رض) سے غلام اور عورت کے بارے میں پوچھنے کے لئے لکھا کہ اگر وہ دونوں مال غنیمت کی تقسیم کے وقت موجود ہوں تو کیا انہیں حصہ دیا جائے گا اور بچوں کے قتل کے بارے میں اور یتیم کے بارے میں پوچھا کہ اس کی یتیمی کب ختم ہوتی ہے اور ذوی القربی کے بارے میں کہ وہ کون ہے تو ابن عباس (رض) نے یزید سے کہا اس کی طرف لکھو اگر مجھے یہ خیال نہ ہوتا کہ وہ حماقت میں واقع ہوجائے گا تو اس کا جواب نہ لکھتا لکھو تو نے عورت اور غلام کے بارے میں مجھ سے پوچھنے کے لئے لکھا کہ اگر وہ مال غنیمت کی تقسیم کے وقت موجود ہوں تو کیا انہیں بھی کچھ ملے گا ان کے لئے سوائے عطیہ کے کوئی حصہ نہیں ہے اور تو نے مجھ سے بچوں کے قتل کے بارے میں پوچھنے کے لئے لکھا تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں قتل نہیں کیا اور تو بھی انہیں قتل نہ کر سوائے اس کے کہ تجھے وہ علم ہوجائے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھی (حضرت خضر (علیہ السلام) کو اس بچے کے بارے میں علم ہوگیا تھا جنہیں انہوں نے قتل کیا اور تو نے مجھ سے یتیم کے بارے میں پوچھنے کے لئے لکھا کہ یتیم سے یتیمی کب ختم ہوتی ہے یتیم سے یتیمی کا نام اس کے بالغ ہونے تک ختم نہیں ہوتا اور سمجھ کے آثار کے نمودار ہونے تک اور تو نے مجھ سے ذوالقربی کے بارے میں پوچھنے کے لئے لکھا کہ وہ کون ہیں ہمارا خیال تھا کہ وہ ہم ہیں لیکن ہماری قوم نے ہمارے بارے میں اس بات کا انکار کردیا۔
جہاد کرنے والی عورتوں کو بطور عطیہ دینے اور غنیمت میں حصہ مقرر نہ کرنے کا حکم اور اہل حرب کے بچوں کو قتل کرنے کی ممانعت کے بیان میں
عبدالرحمن بن بشر عبدی، سفیان، اسماعیل بن امیہ، سعید بن ابوسعید، یزید بن ہرمز، یزید بن ہرمز سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ نجدہ نے حضرت ابن عباس کو لکھا اور پھر آگے اسی طرح حدیث بیان کی۔
جہاد کرنے والی عورتوں کو بطور عطیہ دینے اور غنیمت میں حصہ مقرر نہ کرنے کا حکم اور اہل حرب کے بچوں کو قتل کرنے کی ممانعت کے بیان میں
اسحاق بن ابراہیم، وہب، ابن جریر، ابن حازم، یزید بن ہرمز، حضرت یزید بن ہرمز سے روایت ہے کہ نجدہ بن عامر (رض) نے ابن عباس (رض) کی طرف لکھا اور اس میں حضرت ابن عباس (رض) کی خدمت میں حاضر تھا جب انہوں نے اس کے خط کو پڑھا اور اس کا جواب لکھا ابن عباس (رض) نے کہا اللہ کی قسم اگر مجھے یہ خیال نہ ہوتا کہ وہ بدبو یعنی کسی برے کام میں پڑجائے گا تو میں اس کی طرف جواب نہ لکھتا اور نہ اس کی آنکھیں خوش ہوتیں پس ابن عباس نے نجدہ کی طرف لکھا کہ تو نے ان ذوی القربی کے حصہ کے بارے میں پوچھا (جن کا اللہ نے ذکر فرمایا) کہ وہ کون ہیں ہم نے خیال کیا تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے قرابت داروں سے ہم لوگ ہی مراد ہیں لیکن ہماری قوم نے ہمارے اس خیال کو ماننے سے انکار کردیا اور تو نے یتیم کے بارے میں پوچھا ہے کہ اس کی مدت یتیمی کب ختم ہوتی ہے ؟ جب وہ نکاح کے قابل ہوجائے اور اس سے سمجھداری محسوس ہونے لگے تو اس کا مال اس کے حوالے کردیا جائے تو اس کی مدت یتیمی ختم ہوجاتی ہے اور تو نے پوچھا ہے کیا رسول اللہ ﷺ نے ان میں سے کسی کو بھی قتل نہیں کیا اور تو بھی ان میں سے کسی کو بھی قتل نہ کر سوائے اس کے کہ تجھے ان کے بارے میں وہی علم ہوجائے جو خضر (علیہ السلام) کو بچے کے بارے میں اس کے قتل کے وقت ہوا تھا اور تو نے عورت اور غلام کے بارے میں پوچھا کیا ان کا حصہ مقرر شدہ ہے جب وہ جنگ میں شریک ہوں تو ان کے لئے کوئی مقرر شدہ حصہ مال غنیمت میں سے نہیں سوائے اس کے کہ لوگوں کے مال غنیمت میں سے انہیں کچھ بطور ہدیہ وعطیہ دید یا جائے۔
جہاد کرنے والی عورتوں کو بطور عطیہ دینے اور غنیمت میں حصہ مقرر نہ کرنے کا حکم اور اہل حرب کے بچوں کو قتل کرنے کی ممانعت کے بیان میں
ابوکریب، ابواسامہ، زائدہ، سلیمان، اعمش، مختار بن صیفی، یزید بن ہرمز، یزید بن ہرمز سے روایت ہے کہ نجدہ نے حضرت ابن عباس (رض) کو لکھا اور پھر کچھ حدیث ذکر کی اور پورا قصہ ذکر نہیں کیا جیسا کہ دوسری حدیثوں میں ذکر کیا گیا۔
جہاد کرنے والی عورتوں کو بطور عطیہ دینے اور غنیمت میں حصہ مقرر نہ کرنے کا حکم اور اہل حرب کے بچوں کو قتل کرنے کی ممانعت کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، عبدالرحیم بن سلیمان، ہشام، حفصہ بنت سیرین، حضرت ام عطیہ انصاریہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سات غزوات میں گئی میں مجاہدین کے پیچھے والے خیموں میں رہتی تھی اور ان کے لئے کھانا بناتی اور زخمیوں کو دوا دیتی اور بیماروں کی عیادت کرتی تھی۔
جہاد کرنے والی عورتوں کو بطور عطیہ دینے اور غنیمت میں حصہ مقرر نہ کرنے کا حکم اور اہل حرب کے بچوں کو قتل کرنے کی ممانعت کے بیان میں
عمرو ناقد، یزید بن ہارون، ہشام بن حسان، حضرت ہشام بن حسان نے اس سند کے ساتھ اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
نبی ﷺ کے غزوات کی تعداد کے بیان میں
محمد بن مثنی، ابن بشار، ابن مثنی، محمد بن جعفر، شعبہ، ابواسحاق، عبداللہ بن یزید، حضرت ابواسحاق (رض) سے روایت ہے کہ عبداللہ بن یزید (رض) لوگوں کو استسقاء کی نماز پڑھانے نکلے تو انہوں نے دو رکعتیں پڑھائیں پھر بارش کی دعا مانگی راوی کہتے ہیں کہ اس دن میری ملاقات حضرت زید بن ارقم (رض) سے ہوئی اور میرے اور ان کے درمیان ایک آدمی کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا تو میں نے ان سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ نے کتنے غزوات میں شرکت کی انہوں نے کہا انیس غزوات میں آپ ﷺ شریک ہوئے تو میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کتنے غزوات میں ان کے ساتھ تھے تو انہوں نے کہا سترہ غزوات میں، میں نے پوچھا کہ آپ ﷺ کا سب سے پہلا غزوہ کونسا تھا انہوں نے کہا ذَاتُ الْعُسَيْرِ یا انہوں نے کہا ذَاتُ الْعُشَيْرِ ۔
نبی ﷺ کے غزوات کی تعداد کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، یحییٰ بن آدم، زہیر، ابواسحاق، زید بن ارقم، حضرت زید بن ارقم (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تیئس غزوات میں شرکت کی اور آپ ﷺ نے ہجرت کے بعد ایک حج کیا حجہ الوداع کے علاوہ آپ ﷺ نے اور کوئی حج نہیں کیا۔
نبی ﷺ کے غزوات کی تعداد کے بیان میں
زہیر بن حرب، روح بن عبادہ، زکریا، ابوزبیر، جابر بن عبداللہ، حضرت جابر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ انیس غزوات میں شریک تھا حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ میں بدر اور احد کے غزو وں میں شریک نہیں ہوا کیونکہ مجھے میرے باپ نے روک دیا تھا تو جب حضرت عبداللہ (رض) غزوہ احد میں شہید ہوگئے تو پھر میں کسی بھی غزوہ میں رسول اللہ ﷺ سے پیچھے نہیں رہا۔
نبی ﷺ کے غزوات کی تعداد کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، زید بن حباب، سعید بن محمد حرمی، ابوتمیلہ، حسین بن واقد، حضرت عبداللہ بن بریدہ (رض) اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ انیس غزوات میں شریک ہوئے آپ ﷺ نے ان انیس غزوات میں سے آٹھ غزوات میں قتال کیا ابوبکر نے مِنْهُنَّ کا لفظ نہیں کہا اور انہوں نے اپنی حدیث میں عن کی جگہ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ کہا۔
نبی ﷺ کے غزوات کی تعداد کے بیان میں
احمد بن حنبل، معتمر، ابن سلیمان، کہمس، ابن بریدہ، حضرت ابن بریرہ (رض) اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سولہ غزوات میں شرکت کی۔
نبی ﷺ کے غزوات کی تعداد کے بیان میں
محمد بن عباد، حاتم بن اسماعیل، یزید بن ابی عبید، حضرت سلمہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سات غزوات میں شریک ہوا اور جو لشکر آپ ﷺ بھیجتے ان میں میں نو مرتبہ نکلا ایک مرتبہ ہمارے سپہ سالار حضرت ابوبکر (رض) تھے اور ایک مرتبہ ہمارے سپہ سالار حضرت اسامہ بن زید (رض) تھے۔
نبی ﷺ کے غزوات کی تعداد کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، حاتم، اس سند کے ساتھ بھی یہ حدیث اسی طرح نقل کی گئی ہے سوائے اس کے کہ ان دونوں حدیثوں میں بھی غزوات کا ذکر ہے۔
غزوئہ ذات الرقاع کے بیان میں
ابوعامر، عبداللہ بن براد اشعری، محمد بن علاء ہمدانی، ابی عامر، ابواسامہ، برید، ابوبردہ، حضرت ابوموسی (رض) سے روایت ہے کہ ہم ایک غزوہ میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نکلے اور ہم چھ چھ آدمیوں کے حصہ میں ایک اونٹ تھا جس پر ہم باری باری سوار ہوتے تھے جس سے ہمارے پاؤں زخمی ہوگئے میرے پاؤں زخمی ہوگئے اور میرے (پاؤں کے) ناخن گرگئے اور ہم اپنے پاؤں پر چیتھڑے لپٹتے تھے جس کی وجہ سے اس غزوہ کا نام ذات الرقاع (چیتھڑوں والا) رکھ دیا گیا ابوبردہ نے کہا ابوموسی نے یہ حدیث بیان کی پھر اس کی روایت کو اس طرح ناپسند کیا گویا کہ وہ اپنے عمل میں سے کسی عمل کو ظاہر کرنے کو ناپسند کرتے ہوں۔ ابواسامہ نے کہا برید کے علاوہ باقی راویوں نے یہ اضافہ بھی کیا ہے کہ اللہ اس محنت کا اجر وثواب عطا کرے گا۔
جنگ میں کافر سے مدد طلب کرنے کی کراہت کے بیان میں
زہیر بن حرب، عبدالرحمن بن مہدی، مالک، ابوطاہر، سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ بدر کی طرف نکلے جب آپ ﷺ حرہ الوبرہ (مدینہ سے چار میل کے فاصلہ پر) پہنچے تو آپ ﷺ کو ایک آدمی ملا جس کی اجرت وبہادری کا تذکرہ کیا جاتا تھا رسول اللہ ﷺ کے صحابہ رضی للہ عنہم نے اسے دیکھا تو خوش ہوئے جب وہ آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا میں آپ ﷺ کے پاس اس لئے آیا ہوں تاکہ آپ ﷺ کے ساتھ دشمن سے لڑوں اور آپ ﷺ کے ساتھ مال غنیمت میں مجھے بھی کچھ حصہ دیا جائے رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا کیا تو اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان رکھتا ہے اس نے کہا نہیں آپ ﷺ نے فرمایا لوٹ جا میں مشرک سے ہرگز مدد نہیں مانگوں گا سیدہ (رض) فرماتی ہیں آپ ﷺ آگے چلے یہاں تک کہ ہم مقام شجرہ پہنچے تو وہی شخص پھر حاضر ہوا اور آپ ﷺ سے وہی بات کہی جو اس نے پہلی مرتبہ کہی تھی اور نبی ﷺ نے بھی اسے وہی فرمایا جو پہلی مرتبہ فرمایا تھا آپ ﷺ نے فرمایا لوٹ جا میں ہرگز کسی مشرک سے مدد طلب نہیں کروں گا وہ پھر لوٹ گیا اور پھر مقام بیداء پر آپ ﷺ سے ملا آپ ﷺ نے وہی بات کہی جو پہلی مرتبہ کہہ چکا تھا آپ ﷺ نے فرمایا کیا تو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہے اس نے عرض کیا جی ہاں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا چلو۔