35. امارت اور خلافت کا بیان
لوگ قریش کے تابع ہیں اور خلافت قریش میں ہونے کے بیان میں
عبداللہ بن مسلمہ بن قعنب، قتیبہ بن سعید، مغیر ہ، حزامی، زہیر بن حرب، عمرو، سفیان بن عیینہ، ابی زناد، اعرج، ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا لوگ اس معاملہ یعنی خلافت یا حکومت میں قریش کے تابع ہیں مسلمان قریشی مسلمانوں کے اور کافر قریشی کافروں کے تابع ہیں۔
لوگ قریش کے تابع ہیں اور خلافت قریش میں ہونے کے بیان میں
محمد بن رافع، عبدالرزاق، معمر، ہمام بن منبہ، ابوہریرہ (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے کئی احادیث ذکر کیں ان میں سے ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا لوگ اس معاملہ میں یعنی خلافت و حکومت میں قریش کے تابع ہیں مسلمان قریشی مسلمانوں کے تابع ہیں اور کافر قریشی کافروں کے تابع ہیں۔
لوگ قریش کے تابع ہیں اور خلافت قریش میں ہونے کے بیان میں
یحییٰ بن حبیب حارثی، روح، ابن جریج، ابوزبیر، حضرت جابر (رض) بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا لوگ بھلائی اور برائی میں قریش کی پیروی کرنے والے ہیں۔
لوگ قریش کے تابع ہیں اور خلافت قریش میں ہونے کے بیان میں
احمد بن عبداللہ بن یونس، عاصم بن محمد بن زید، حضرت عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ معاملہ یعنی خلافت وسرداری ہمیشہ قریش میں ہی رہے گی اگرچہ لوگوں میں دو افراد ہی باقی ہوں
لوگ قریش کے تابع ہیں اور خلافت قریش میں ہونے کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، جریر، حصین، جابر بن سمرہ، حضرت جابر بن سمرہ (رض) سے روایت ہے کہ میں اپنے والد کے ساتھ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے آپ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا یہ امر یعنی خلافت اس وقت تک ختم نہ ہوگی یہاں تک کہ ان میں بارہ خلفاء گزر جائیں پھر آپ نے آہستہ آواز سے گفتگو کی جو مجھ پر پوشیدہ رہی تو میں نے اپنے باپ سے پوچھا کہ آپ ﷺ نے کیا فرمایا تو انہوں نے کہا کہ آپ نے فرمایا وہ سب (خلفاء) قریش سے ہوں گے۔
لوگ قریش کے تابع ہیں اور خلافت قریش میں ہونے کے بیان میں
ابن ابی عمر، سفیان، عبدالملک بن عمیر، حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ میں نے نبی ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے تھے لوگوں کا معاملہ یعنی خلافت اس وقت تک باقی رہے گی جب تک ان میں بارہ خلفاء ان کے حاکم رہیں گے پھر نبی ﷺ نے کوئی ایسی بات فرمائی جو مجھ پر مخفی و پوشیدہ رہی تو میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ نے کیا فرمایا تو انہوں نے کہا کہ یہ سب خلفاء قریش میں سے ہوں گے۔
لوگ قریش کے تابع ہیں اور خلافت قریش میں ہونے کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، ابوعوانہ، سماک، حضرت جابر (رض) نبی ﷺ سے یہ حدیث روایت کرتے ہیں لیکن اس میں یہ نہیں کہ لوگوں کا معاملہ خلافت ہمیشہ جاری رہے گا۔
لوگ قریش کے تابع ہیں اور خلافت قریش میں ہونے کے بیان میں
ہداب بن خالد ازدی، حماد بن سلمہ، سماک بن حرب، حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ میں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ اسلام بارہ خلفاء کے پورے ہونے تک غالب رہے گا پھر آپ ﷺ نے ایسا کلمہ ارشاد فرمایا جسے میں نہ سمجھ سکا تو میں نے اپنے باپ سے کہا آپ ﷺ نے کیا فرمایا انہوں نے کہا سب خلفاء قریش سے ہوں گے۔
لوگ قریش کے تابع ہیں اور خلافت قریش میں ہونے کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابومعاویہ، داد، شعبی، حضرت جابر بن سمرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا اسلام کا معاملہ بارہ خلفاء کے پورا ہونے تک غالب رہے گا پھر آپ ﷺ نے ایسی بات فرمائی جسے میں سمجھ نہ سکا تو میں نے اپنے باپ سے کہا کہ آپ ﷺ نے کیا فرمایا تو انہوں نے کہا سب خلفاء قریشی خاندان سے ہوں گے۔
لوگ قریش کے تابع ہیں اور خلافت قریش میں ہونے کے بیان میں
نصر بن علی جہضمی، یزید بن زریع، ابن عون، احمد بن عثمان نوفلی، ازہر، ابن عون، شعبی، حضرت جابر بن سمرہ (رض) سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے کے لئے چلا اور میرے ساتھ میرے والد تھے تو میں نے آپ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا یہ دین ہمیشہ بارہ خلفاء کے پورا ہونے تک غالب وبلند رہے گا پھر آپ ﷺ نے کوئی کلمہ ارشاد فرمایا لیکن لوگوں نے مجھے سننے نہ دیا تو میں نے اپنے باپ سے پوچھا کہ آپ ﷺ نے کیا فرمایا تو انہوں نے کہا سب خلفاء قریش کے خاندان سے ہوں گے۔
لوگ قریش کے تابع ہیں اور خلافت قریش میں ہونے کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، ابوبکر بن ابی شیبہ، حاتم بن اسماعیل، مسمار، حضرت عامر بن سعد ابی وقاص (رض) سے روایت ہے کہ میں نے اپنے غلام نافع کی ذریعہ جابر بن سمرہ (رض) کو لکھا کہ آپ مجھے خبر دیں کسی ایسی حدیث کی جو آپ نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہو تو مجھے جوابا لکھا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے جمعہ کی شام کو جس دن ماعز اسلمی کو رجم کیا گیا سنا، دین ہمیشہ قائم و باقی رہے گا یہاں تک کہ قیامت قائم ہوجائے یا تم پر بارہ خلفاء حاکم ہوجائیں اور وہ سب کے سب قریش سے ہوں اور میں نے آپ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے تھے کہ مسلمانوں کی ایک چھوٹی سی جماعت کسری یا اولاد کسری کے سفید محل کو فتح کرے گی اور مزید میں نے آپ ﷺ سے سنا کہ قیامت کے قریب کذاب ظاہر ہوں گے پس تم ان سے بچتے رہنا اور مزید سنا کہ جب اللہ تم میں سے کسی کو کوئی بھلائی عطا کرے تو اپنے اوپر اور اپنے گھر والوں پر خرچ کرنے کی ابتدا کرو اور یہ بھی سنا کہ میں حوض پر آگے بڑھنے والا ہوں گا۔
لوگ قریش کے تابع ہیں اور خلافت قریش میں ہونے کے بیان میں
محمد بن رافع، ابن ابی فدیک، ابن ابی ذئب، مسمار، عامربن سعد، حضرت عامر (رض) سے روایت ہے کہ اس نے ابن سمرہ عدسی کی طرف پیغام بھیجا کہ آپ ﷺ ہمیں رسول اللہ ﷺ سے سنی ہوئی احادیث بیان کریں تو انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا پھر اوپر حاتم کی حدیث کی طرح حدیث ذکر کی۔
خلیفہ مقرر کرنے اور اس کو چھوڑنے کے بیان میں
ابوکریب، محمد بن علاء، ابواسامہ، ہشام، ابن عروہ، ابن عمر (رض) ، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ جب میرا باپ یعنی حضرت عمر (رض) کو زخمی کیا گیا تو میں اس وقت موجود تھا لوگوں نے ان کی تعریف کی اور کہنے لگے اللہ تعالیٰ آپ کو بہتر بدلہ عطا فرمائے تو حضرت عمر (رض) نے کہا اللہ کی رحمت کی امید کرنے والا ہوں اور اس سے ڈرنے والا ہوں لوگوں نے عرض کیا آپ خلیفہ مقرر فرما دیں تو آپ نے کہا کیا میں تمہارے معاملات کا بوجھ زندہ اور مرنے دونوں صورتوں میں برداشت کروں میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ اس معاملہ خلافت سے میرا حصہ برابر ہوجائے نہ یہ مجھ پر بوجھ ہو اور نہ میرے لئے نفع اگر میں خلیفہ مقرر کروں تو تحقیق ابوبکر (رض) مجھ سے بہتر و افضل تھے جنہوں نے خلیفہ نامزد کیا اور اگر میں تمہیں تمہارے حال پر چھوڑ دوں تو تمہیں اس حال میں مجھ سے بہتر و افضل اشرف رسول اللہ ﷺ نے چھوڑا تھا عبداللہ نے کہا جب آپ نے رسول اللہ ﷺ کا ذکر کیا تو میں جان گیا کہ آپ کسی کو خلیفہ نامزد نہیں فرمائیں گے۔
خلیفہ مقرر کرنے اور اس کو چھوڑنے کے بیان میں
اسحاق بن ابراہیم، ابن ابی عمر، محمد بن رافع، عبد بن حمید، اسحاق، عبدالرزاق، معمر، زہری، سالم، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ میں حضرت حفصہ (رض) کے پاس حاضر ہوا تو انہوں نے کہا کہ کیا تجھے معلوم ہے کہ تیرے باپ کسی کو خلیفہ مقرر نہیں فرما رہے میں نے کہا وہ اس طرح نہیں کریں گے حضرت حفصہ نے کہا وہ اسی طرح کرنے والے ہیں پس میں نے قسم اٹھالی کہ میں آپ سے اس بارے میں گفتگو کروں گا پھر میں خاموش رہا یہاں تک کہ میں نے صبح کی اس حال میں کہ آپ سے گفتگو نہ کی اور میں قسم اٹھانے کی وجہ سے اس طرح ہوگیا تھا کہ میں اپنے ہاتھ پر پہاڑ اٹھاتا ہوں یہاں تک کہ میں لوٹا اور حضرت عمر (رض) کے پاس حاضر ہوا تو انہوں نے مجھ سے لوگوں کے بارے میں پوچھا اور میں نے آپ کو بتایا پھر میں نے عرض کیا میں نے لوگوں کو بات کرتے ہوئے سنا تو میں نے قسم اٹھا لی کہ وہ بات میں آپ کے سامنے عرض کروں گا کہ انہوں نے گمان کرلیا ہے کہ آپ خلیفہ نامزد نہیں کرنے والے ہیں اور اگر آپ کے اونٹوں یا بکریوں کے لئے کوئی چرواہا ہو پھر وہ انہیں چھوڑ کر آپ کے پاس آجائے تو آپ یہی خیال کریں گے کہ اس نے ضائع کردیا ہے اور لوگوں کی نگہداشت اس سے زیادہ ضروری ہے تو حضرت عمر (رض) نے میری بات کی موافقت کی اور کچھ دیر تک سر جھکائے ہوئے سوچتے رہے پھر میری طرف سر اٹھا کر فرمایا بیشک اللہ تعالیٰ اپنے دین کی حفاظت فرمائے گا اور اگر میں کسی کو خلیفہ مقرر نہ کروں تو رسول اللہ ﷺ نے بھی کسی کو خلیفہ نامزد نہیں کیا تھا اور اگر میں خلیفہ مقرر کروں تو ابوبکر (رض) مقرر فرما چکے ہیں حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں اللہ کی قسم جب انہوں نے رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر (رض) کا ذکر کیا تو میں نے معلوم کرلیا کہ وہ ایسے نہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے طریقہ سے تجاوز کر جائیں اور وہ کسی کو خلیفہ مقرر نہیں فرمائیں گے۔
امارت کے طلب کرنے اور اس کی حرص کرنے سے روکنے کے بیان میں
شیبان بن فروخ، جریر بن حازم، حسن، حضرت عبدالرحمن بن سمرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے فرمایا اے عبدالرحمن ! امارت کا سوال مت کرنا کیونکہ اگر تجھے تیرے سوال کے بعد یہ عطا کردی گئی تو تم اس کے سپرد کردیئے جاؤ گے اور اگر یہ تجھے مانگے بغیر عطا کی گئی تو تیری اس معاملہ میں مدد کی جائے گی۔
امارت کے طلب کرنے اور اس کی حرص کرنے سے روکنے کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، خالد بن عبداللہ، یونس، علی بن حجر سعدی، ہشیم، یونس، منصور، حمید، ابواکامل جحدری، حماد بن زید، سماک بن عطیہ، یونس بن عبید، ہشام بن حسان، حسن، عبدالرحمن بن سمرہ، مختلف اسناد سے یہی حدیث حضرت عبدالرحمن بن سمرہ نے نبی ﷺ سے جریر کی حدیث ہی طرح روایت کی ہے۔
امارت کے طلب کرنے اور اس کی حرص کرنے سے روکنے کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، محمد بن علاء، ابواسامہ، برید بن عبداللہ، حضرت ابوموسی (رض) سے روایت ہے کہ میں اور دو آدمی میرے چچا کے بیٹوں میں سے نبی کریم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو ان دو آدمیوں میں سے ایک نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ جو اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو ملک عطا کئے ہیں ان میں سے کسی ملک کے معاملات ہمارے سپرد کردیں اور دوسرے نے بھی اسی طرح کہا آپ ﷺ نے فرمایا اللہ کی قسم ہم اس کام پر اس کو مامور نہیں کرتے جو اس کا سوال کرتا ہو یا اس کی حرص کرتا ہو۔
امارت کے طلب کرنے اور اس کی حرص کرنے سے روکنے کے بیان میں
عبیداللہ بن سعید، محمد بن حاتم، یحییٰ بن سعید قطان، قرہ بن خالد، حمید بن ہلال، ابوبردہ، حضرت ابوموسی (رض) سے روایت ہے کہ میں نبی ﷺ کی طرف آیا اور میرے ساتھ اشعریوں میں سے دو آدمی تھے ان میں سے ایک میری دائیں طرف اور دوسرا میری بائیں طرف اور ان دونوں نے آپ ﷺ سے کسی عہدے کا سوال کیا اور نبی ﷺ مسواک فرما رہے تھے تو آپ ﷺ نے فرمایا اے ابوموسی ! یا فرمایا اے عبداللہ بن قیس ! تم کیا کہتے ہو ؟ میں نے عرض کیا اس ذات کی قسم جس نے آپ ﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے کہ ان دونوں نے اپنے دل کی بات پر مجھے مطلع نہیں کیا تھا اور نہ میں جان سکا کہ یہ منصب وعہدہ طلب کریں گے ابوموسی (رض) کہتے ہیں کہ گویا میں دیکھتا ہوں آپ ﷺ مسواک کو جو ہونٹ کے نیچے گھس چکی ہے کہ ہم اسے کسی منصب وعہدہ پر عامل مقرر نہیں کریں گے جو اس کا ارادہ رکھنے والا ہوگا لیکن اے ابوموسی یا فرمایا اے عبداللہ بن قیس تو جا اور انہیں یمن بھیج دیا پھر ان کے پیچھے حضرت معاذ بن جبل کو بھیجا پس جب یہ ابوموسی کے پاس پہنچے تو انہوں نے کہا اترئے اور ان کے لئے ایک گدا بچھا دیا اور ان کے پاس اس وقت آدمی بندھا ہوا تھا حضرت معاذ (رض) نے پوچھا یہ کون ہے انہوں نے کہا یہ یہودی تھا پھر مسلمان ہوگیا پھر اپنے پرانے دین کی طرف لوٹ گیا اور یہودی ہوگیا حضرت معاذ (رض) نے کہا میں اس وقت تک نہ بیٹھوں گا جب تک اسے اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ کے مطابق قتل نہ کردیا جائے حضرت ابوموسی (رض) نے عرض کیا آپ تشریف رکھیں ہم اسے قتل کرتے ہیں حضرت معاذ (رض) نے تین مرتبہ فرمایا میں اس وقت تک نہ بیٹھوں گا جب تک اسے اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ کے مطابق قتل نہ کردیا جائے آپ نے حکم دیا اور اسے قتل کیا گیا پھر ان دونوں اصحاب میں رات کے قیام کے بارے میں مذاکرہ ہوا تو حضرت معاذ (رض) نے فرمایا میں سوتا بھی ہوں اور قیام بھی کرتا ہوں اور میں اپنی نیند میں بھی اسی اجر وثواب کی امید رکھتا ہوں جو اپنے قیام میں ثواب کی امید رکھتا ہوں۔
بلا ضرورت امارت کے طلب کرنے کی کراہت کے بیان میں
عبدالملک بن شعیب بن لیث، ابوشعیب، ابن لیث، لیث بن سعد، یزید بن ابی حبیب، بکر بن عمر، حارث بن یزید حضرمی، ابن حجیرہ، حضرت ابوذر (رض) سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول کیا آپ ﷺ مجھے عامل نہ بنائیں گے تو آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ مبارک میرے کندھے پر مار کر فرمایا اے ابوذر تو کمزور ہے اور یہ امارت امانت ہے اور یہ قیامت کے دن کی رسوائی اور شرمندگی ہے سوائے اس کے جس نے اس کے حقوق پورے کئے اور اس بارے میں جو اس کی ذمہ داری تھی اس کو ادا کیا۔
بلا ضرورت امارت کے طلب کرنے کی کراہت کے بیان میں
زہیر بن حرب، اسحاق بن ابراہیم، زہیر، عبداللہ بن یزید سعدی، ابن ابی ایوب، عبیداللہ بن ابی جعفر قرشی، سالم بن ابی سالم جیشانی، حضرت ابوذر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اے ابوذر (رض) میں تجھے ضعیف ونا تو اں خیال کرتا ہوں اور میں تیرے لئے وہی پسند کرتا ہوں جو اپنے لئے پسند کرتا ہوں تم دو آدمیوں پر بھی حاکم نہ بننا اور نہ مال یتیم کا والی بننا۔
حاکم عادل کی فضیلت اور ظالم حاکم کی سزا کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، زہیر بن حرب، ابن نمیر، سفیان بن عیینہ، عمرو، ابن دینار، ابن نمیر، ابوبکر، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا انصاف کرنے والے رحمن کے دائیں جانب اور اللہ کے نزدیک نور کے منبروں پر ہوں گے اور اللہ کے دونوں دائیں ہاتھ ہیں یہ وہ لوگ ہوں گے جو اپنی رعایا اور اہل و عیال میں عدل و انصاف کرتے ہوں گے۔
حاکم عادل کی فضیلت اور ظالم حاکم کی سزا کے بیان میں
ہارون بن سعید ایلی، ابن وہب، حرملہ، عبدالرحمن بن شماسہ، حضرت عائشہ (رض) ، حضرت عبدالرحمن بن شماسہ سے روایت ہے کہ میں سیدہ عائشہ (رض) کے پاس کچھ پوچھنے کے لئے حاضر ہوا تو سیدہ نے فرمایا تم کن لوگوں میں سے ہو میں نے عرض کیا اہل مصر میں سے ایک آدمی ہوں تو سیدہ نے فرمایا تمہارا ساتھی تمہارے ساتھ غزوہ میں کیسے پیش آتا ہے میں نے عرض کیا ہم نے اس میں کوئی ناگوار بات نہیں پائی اگر ہم میں سے کسی آدمی کا اونٹ مرجائے تو وہ اسے اونٹ عطا کرتا ہے اور غلام کے بدلے غلام عطا کرتا ہے اور جو خرچ کا محتاج ہو اسے خرچہ عطا کرتا ہے سیدہ نے فرمایا مجھے وہ معاملہ اس حدیث کے بیان کرنے سے نہیں روک سکتا جو اس نے میرے بھائی محمد بن ابوبکر سے کیا رسول اللہ ﷺ سے میں نے سنا کہ آپ ﷺ نے میرے اس گھر میں فرمایا اے اللہ میری اس امت میں سے جس کو ولایت دی جائے اور وہ ان پر سختی کرے تو تو اس پر سختی کر اور میری امت میں سے جس کو کسی معاملہ کو والی بنایا جائے وہ ان سے نرمی کرے تو تو بھی اس پر نرمی کر۔
حاکم عادل کی فضیلت اور ظالم حاکم کی سزا کے بیان میں
محمد بن حاتم، ابن مہدی، جریج، ابن حازم، حرملہ مصری، عبدالرحمن بن شماسہ، حضرت عائشہ (رض) کی نبی ﷺ سے اسی طرح کی حدیث دوسری سند سے نقل کی ہے۔
حاکم عادل کی فضیلت اور ظالم حاکم کی سزا کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، لیث، محمد بن رمح، نافع، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا آگاہ رہو تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور تم سب سے ان کی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا پس وہ امیر جو لوگوں کا ذمہ دار ہے اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا اور جو آدمی اپنے گھر والوں کا ذمہ دار ہے اس سے ان کے بارے میں سوال کیا جائے اور عورت اپنے خاوند کے گھر اور اس کی اولاد کی ذمہ دار ہے اس سے ان کے بارے میں پوچھا جائے گا اور غلام اپنے آقا کے مال کا ذمہ دار ہے اس سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا آگاہ رہو تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔
حاکم عادل کی فضیلت اور ظالم حاکم کی سزا کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، محمد بن بشر، ابن نمیر، ابن مثنی، خالد بن حارث، عبیداللہ بن سعید، یحییٰ قطان، عبیداللہ بن عمر، ابوربیع، ابوکامل، حماد بن زید، زہیر بن حرب، اسماعیل، ایوب، محمد بن رافع، ابن ابی فدیک، ضحاک بن عثمان، ہارن بن سعید ایلی، ابن وہب، اسامہ، نافع، ابن عمر، لیث، نافع، اسی حدیث کی مزید اسناد ذکر کی ہیں۔
حاکم عادل کی فضیلت اور ظالم حاکم کی سزا کے بیان میں
ابو اسحاق، حسن بن بشر، عبداللہ بن نمیر، عبیداللہ، نافع، ابن عمر، اس سند سے بھی یہ حدیث مبارکہ اسی طرح مروی ہے۔
حاکم عادل کی فضیلت اور ظالم حاکم کی سزا کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، یحییٰ بن ایوب، قتیبہ بن سعید، ابن حجر، اسماعیل بن جعفر، عبداللہ بن دینار، ابن عمر، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا آدمی اپنے باپ کے مال کا ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا۔
حاکم عادل کی فضیلت اور ظالم حاکم کی سزا کے بیان میں
احمد بن عبدالرحمن، ابن وہب، عبداللہ بن وہب، عمرو بن حارث، بکیر، بسر بن سعید، عبداللہ بن عمر، حضرت ابن عمر (رض) کی روایت نبی ﷺ سے اس طرح اس سند سے بھی مروی ہے۔
حاکم عادل کی فضیلت اور ظالم حاکم کی سزا کے بیان میں
شیبان بن فروخ، ابواشہب، حسن، عبیداللہ بن زیاد، معقل بن یسار مزنی، حضرت حسن (رض) سے مروی ہے کہ عبیداللہ بن زیاد حضرت معقل بن یسار مزنی (رض) کی مرض وفات میں عیادت کے لئے گئے تو حضرت معقل نے کہا میں تجھ سے ایسی حدیث بیان کرتا ہوں جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے اگر میں جانتا کہ میری زندگی باقی ہے تو میں بیان نہ کرتا میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ فرماتے تھے جس بندہ کو اللہ نے رعیت پر ذمہ دار بنایا ہو اور جس دن وہ مرے خیانت کرنے والا ہو اپنی رعایا کے ساتھ تو اللہ نے اس پر جنت حرام کردی ہے۔
حاکم عادل کی فضیلت اور ظالم حاکم کی سزا کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، یزید بن زریع، یونس، حسن بن زیاد، معقل بن یسار، حضرت حسن (رض) سے روایت ہے کہ ابن زیاد معقل بن یسار (رض) کے پاس حاضر ہوا اور وہ تکلیف میں تھے باقی حدیث اسی طرح ہے اس میں یہ اضافہ ہے کہ ابن زیاد نے کہا آپ نے یہ حدیث آج سے پہلے کیوں نہ بیان کی ؟ معقل نے فرمایا میں نے تیرے لئے بیان نہ کی یا فرمایا میں تجھے یہ بیان نہ کرتا۔
حاکم عادل کی فضیلت اور ظالم حاکم کی سزا کے بیان میں
ابوغسان سمعی، اسحاق بن ابراہیم، محمد بن مثنی، اسحاق، معاذ بن ہشام، قتادہ، ابوملیح، عبیداللہ بن زیاد، حضرت ابوالملیح سے روایت ہے کہ عبیداللہ بن زیاد حضرت معقل بن یسار کی بیماری میں ان کے پاس آیا تو اس سے حضرت معقل نے فرمایا میں تجھے ایک حدیث بیان کرنے والا ہوں اور اگر میں مرض موت میں مبتلا نہ ہوتا تو میں یہ حدیث تجھے بیان نہ کرتا میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے تھے جس آدمی کو مسلمانوں کے کسی معاملہ کا حاکم بنایا جائے پھر وہ ان کی خیرخواہی اور بھلائی کے لئے جدوجہد نہ کرے تو وہ ان کے ساتھ جنت میں داخل نہ ہوگا۔
حاکم عادل کی فضیلت اور ظالم حاکم کی سزا کے بیان میں
عقبہ بن مکرم، یعقوب بن اسحاق، سوادہ بن ابی اسود، ابومعقل بن یسار، عبیداللہ بن زیاد، حضرت ابواسود سے روایت ہے کہ حضرت معقل بن یسار بیمار ہوئے تو ان کے پاس عبیداللہ بن زیادہ ان کی عیادت کے لئے آیا باقی حدیث حسن کی حدیث کی طرح ہے۔
حاکم عادل کی فضیلت اور ظالم حاکم کی سزا کے بیان میں
شیبان بن فروخ، جریر بن حازم، حسن، عائذ بن عمرو، حضرت حسن (رض) سے روایت ہے کہ اصحاب رسول میں سے حضرت عائذ بن عمرو (رض) عبیداللہ بن زیاد کے پاس گئے تو فرمایا اے بیٹے میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے تھے برے ذمہ داروں میں سے ظالم بادشاہ ہے تو اس بات سے پچنا کہ تو ان میں سے ہو تو ابن زیاد نے ان سے کہا تشریف رکھیں۔ تم تو اصحاب محمد کا تلچھٹ ہو، تو عائذ (رض) نے کہا : کیا اصحاب رسول ﷺ میں بھی تلچھٹ ہے بیشک تلچھٹ تو ان کے بعد یا ان کے غیر میں ہوگا۔
حاکم عادل کی فضیلت اور ظالم حاکم کی سزا کے بیان میں
زہیر بن حرب، اسماعیل بن ابراہیم، ابوحیان، ابی زرعہ، ابوہریرہ، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور مال غنیمت میں خیانت کا ذکر فرمایا اور اس کی مذمت بیان کی اور اس کو بڑا معاملہ قرار دیا پھر فرمایا میں تم میں سے کسی کو قیامت کے دن اس حال میں آتا ہوا نہ پاؤں کہ اس کی گردن پر اونٹ سوار ہوگا جو بڑبڑا رہا ہوگا اور وہ کہے گا اے اللہ کے رسول میری مدد کریں تو میں کہوں گا میں تیرے لئے کسی چیز کا مالک نہیں ہوں تحقیق ! میں تجھے پہنچا چکا میں تم میں کسی کو اس حال میں نہ پاؤں گا کہ وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کی گردن پر سوار گھوڑا ہنہناتا ہوگا وہ کہے گا اے اللہ کے رسول میری مدد کریں میں کہوں گا میں تیرے معاملہ میں کسی چیز کا مالک نہیں ہوں تحقیق میں تجھ تک پہنچا چکا ہوں میں تم سے کسی کو اس حال میں نہ پاؤں کہ وہ قیامت کے دن اس طرح آئے کہ اس کی گردن پر سوار بکری منمنا رہی ہو وہ کہے گا اے اللہ کے رسول میری مدد کریں میں کہوں گا کہ میں تیرے معاملہ میں کسی چیز کا مالک نہیں ہوں تحقیق میں تجھے پیغام حق پہنچا چکا ہوں میں تم سے کسی کو نہ پاؤں کہ وہ قیامت کے دن اس طرح آئے کہ اس کی گردن پر چیخنے والی کوئی جان ہو تو وہ کہے گا اے اللہ کے رسول میری مدد کریں میں کہوں گا میں تیرے معاملہ میں کسی چیز کا مالک نہیں ہوں تحقیق میں پیغام حق پہنچا چکا ہوں میں تم سے کسی کو نہ پاؤں کہ وہ قیامت کے دن اس طرح آئے کہ اس کی گردن پر لدے ہوئے کپڑے حرکت کر رہے ہوں تو وہ کہے گا اے اللہ کے رسول میری مدد کریں میں کہوں گا میں تیرے لئے کسی چیز کا مالک نہیں ہوں میں تجھے پیغام حق پہنچا چکا ہوں میں تم میں سے کسی کو اس حال میں نہ پاؤں کہ وہ قیامت کے دن آئے اور اس کی گردن پر سونا چاندی لدا ہوا ہوگا وہ کہے گا اے اللہ کے رسول میری مدد کریں میں کہوں گا میں تیرے لئے کسی چیز کا مالک نہیں ہوں میں تجھے اللہ کے احکام پہنچا چکا ہوں۔
حاکم عادل کی فضیلت اور ظالم حاکم کی سزا کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، عبدالرحیم بن سلیمان، ابوحیان، زہیر بن حرب، جریر، ابوحیان، عمارہ بن قعقاع، ابوزرعہ، ابوہریرہ، اسی حدیث کی مزید اسناد ذکر کی ہیں۔
حاکم عادل کی فضیلت اور ظالم حاکم کی سزا کے بیان میں
احمد بن سعید بن صخردارمی، سلیمان بن حرب، حماد بن زید، ایوب، یحییٰ بن سعید، ابوزرعہبن عمرو بن جریر، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مال غنیمت میں خیانت کرنے کا ذکر فرمایا تو اس کی سزا کی سختی کو بیان فرمایا باقی حدیث گزر چکی۔
حاکم عادل کی فضیلت اور ظالم حاکم کی سزا کے بیان میں
احمد بن حسن، ابن خراش، ابومعمر، عبدالوارث، ایوب، یحییٰ بن سعید بن حیان، ابوزرعہ، ابوہریرہ (رض) ، اسی حدیث کی ایک اور سند ذکر کی ہے۔
سرکاری ملازمین کے لئے تحائف وصول کرنے کی حرمت کے بیان
ابوبکر بن ابی شیبہ، عمرو ناقد، ابن ابی عمر، ابوبکر، سفیان بن عیینہ، زہری، عروہ، ابوحمید ساعدی، حضرت ابوحمید ساعدی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بنواسد میں سے ایک آدمی کو زکوٰۃ وصول کرنے کے لئے عامل مقرر فرمایا جسے ابن تبیہ کہا جاتا تھا جب وہ واپس آیا تو اس نے کہا یہ تمہارے لئے اور یہ میرے لئے ہے جو مجھے ہدیہ دیا گیا ہے رسول اللہ ﷺ منبر پر تشریف فرما ہوئے اللہ کی حمدوثنا بیان کی اور فرمایا عامل کا کیا حال ہے جسے میں نے بھیجا (صدقہ وصول کرنے کے لئے) وہ آکر کہتا ہے کہ یہ تمہارے لئے اور یہ مجھے ہدیہ دیا گیا ہے اس نے اپنے باپ یا ماں کے گھر میں بیٹھے ہوئے کا انتظار کیوں نہ کیا کہ اس کو ہدیہ دیا جاتا ہے یا نہیں اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں محمد ﷺ کی جان ہے تم میں سے جس نے بھی اس مال میں سے کوئی چیز لی تو وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے مال کو اپنی گردن پر اٹھاتا ہوگا اونٹ بڑبڑاتا ہوگا یا گائے ڈکار رہی ہوگی یا بکری منمناتی ہوگی پھر آپ ﷺ نے اپنے ہاتھوں کو اتنا بلند کیا کہ ہم نے آپ ﷺ کے بغلوں کی سفیدی دیکھی پھر دو مرتبہ فرمایا اے اللہ میں نے پیغام پہنچا دیا۔
سرکاری ملازمین کے لئے تحائف وصول کرنے کی حرمت کے بیان
اسحاق بن ابراہیم، عبد بن حمید، عبدالرزاق، معمر، زہری، عروہ، حضرت ابوحمید ساعدی (رض) سے روایت ہے کہ قبیلہ ازد کے ایک آدمی ابن تبیہ کو نبی کریم ﷺ نے زکوٰۃ وصول کرنے کے لئے عامل مقرر فرمایا اس نے مال لا کر نبی ﷺ کی خدمت میں پیش کیا اور کہا یہ تمہارا مال ہے اور یہ ہدیہ ہے جو مجھے دیا گیا تو اسے نبی ﷺ نے فرمایا تو اپنے باپ یا ماں کے گھر میں کیوں نہ بیٹھ گیا پھر ہم دیکھتے کہ تجھے ہدیہ دیا جاتا ہے یا نہیں پھر نبی ﷺ خطبہ کے لئے کھڑے ہوئے باقی حدیث گزر چکی۔
سرکاری ملازمین کے لئے تحائف وصول کرنے کی حرمت کے بیان
ابوکریب، محمد بن علاء، ابواسامہ، ہشام، ابوحمید ساعدی، حضرت ابوحمید ساعدی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قبیلہ ازد کے ایک آدمی جسے تبیہ کہا جاتا تھا کہ بنو سلیم کی زکوٰۃ وصول کرنے کے لئے عامل مقرر فرمایا جب وہ آیا تو اس نے مال کا حساب کیا اور کہا یہ تمہارا مال ہے اور یہ ہدیہ ہے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تو اپنے باپ یا ماں کے گھر میں کیوں نہ بیٹھ گیا یہاں تک کہ تیرے پاس تیرا ہدیہ لایا جاتا اگر تو سچا ہے پھر آپ ﷺ نے ہمیں خطبہ دیا پس اللہ کی حمد وثناء بیان فرمائی پھر فرمایا امابعد میں تم سے ایک آدمی کو کسی کام کے لئے عامل مقرر کرتا ہوں جس کا انتظام اللہ نے میرے سپرد کیا ہے وہ آتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ مال تمہارا ہے اور یہ مجھے ہدیہ دیا گیا وہ اپنے باپ یا ماں کے گھر میں کیوں نہ بیٹھ گیا یہاں تک کہ اس کے پاس اس کا ہدیہ لایا جائے اگر وہ سچا ہے اللہ کی قسم مال زکوٰۃ میں سے تم میں سے جو بھی بغیر حق کے کچھ بھی لیتا ہے تو قیامت کے دن اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ وہی مال اس پر لادا ہوا ہوگا پس تم میں سے اس شخص کو میں ضرور پہچان لوں گا کہ وہ اونٹ بڑبڑاتا ہوا یا گائے ڈکراتی ہوئی یا بکری منمناتی ہوئی اس کی گردن پر سوار ہوں گے پھر آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ بلند کئے یہاں تک کہ آپ ﷺ کی بغلوں کی سفیدی دیکھی گئی پھر فرمایا اے اللہ کیا میں نے پیغام حق پہنچا نہ دیا ہے جسے میری آنکھوں نے دیکھا اور کانوں نے سنا ہے۔
سرکاری ملازمین کے لئے تحائف وصول کرنے کی حرمت کے بیان
ابوکریب، عبدہ، ابن نمیر، ابومعاویہ، ابوبکر بن ابی شیبہ، عبدالرحیم بن سلیمان، ابن ابی عمر، سفیان، ہشام، عبدہ، ابن نمیر، حضرت عبدہ اور بن نمیر سے ہی روایت ہے کہ اسی طرح منقول ہے کہ جب وہ آدمی آیا اور اس نے حساب کیا اور ابن نمیر کی حدیث میں یہ ہے کہ تم جان لوگے اللہ کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے تم میں سے کوئی کچھ بھی نہیں لیتا سفیان کی حدیث میں یہ اضافہ ہے کہ میری آنکھوں نے دیکھا اور میرے کانوں نے سنا اور تم حضرت زید بن ثابت سے پوچھ لو کیونکہ وہ بھی میرے ساتھ موجود تھے۔
سرکاری ملازمین کے لئے تحائف وصول کرنے کی حرمت کے بیان
اسحاق بن ابراہیم، جریر، شیبانی، عبداللہ بن ذکوان، ابوزناد، عروہ بن زبیر، ابوحمید ساعدی، حضرت ابوحمید ساعدی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو صدقہ کی وصولی کے لئے عامل مقرر فرمایا وہ کثیر مال لے کر حاضر ہوا اور کہنے لگا یہ تمہارے لئے ہے اور یہ مجھے ہدیہ دیا گیا ہے پھر اسی طرح حدیث ذکر فرمائی عروہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوحمید ساعدی سے پوچھا کیا تم نے رسول اللہ ﷺ سے یہ حدیث سنی تو انہوں نے کہا آپ ﷺ کے منہ مبارک سے میرے کانوں نے سنا۔
سرکاری ملازمین کے لئے تحائف وصول کرنے کی حرمت کے بیان
ابوبکر بن ابی شیبہ، وکیع بن جراح، اسماعیل بن ابی خالد، قیس بن ابی حازم، عدی بن عمیرہ کندی، حضرت عدی بن عمیر کندی (رض) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ نے فرمایا تم میں سے جس آدمی کو ہم کسی پر عامل مقرر کریں اور اس نے ہم سے ایک سوئی یا اس سے بھی کسی کم چیز کو چھپالیا تو یہ خیانت ہوگی اور وہ قیامت کے دن اسے لے کر حاضر ہوگا تو آپ ﷺ کے سامنے ایک سیاہ رنگ کا آدمی انصار میں سے کھڑا ہوا گویا میں اسے ابھی دیکھ رہا ہوں تو اس نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! آپ ﷺ مجھ سے اپنا کام واپس لے لیں آپ ﷺ نے فرمایا تجھے کیا ہے اس نے عرض کیا میں نے آپ ﷺ کو اس اس طرح فرماتے ہوئے سنا ہے آپ ﷺ نے فرمایا میں اب بھی یہی کہتا ہوں کہ تم میں سے جس کو ہم کسی کا عامل مقرر کریں تو اسے چاہئے کہ وہ ہر کم اور زیادہ چیز لے کر آئے پس اس کے بعد اسے جو دیا جائے وہ لے لے اور جس چیز سے اسے منع کیا جائے اس سے رک جائے۔
سرکاری ملازمین کے لئے تحائف وصول کرنے کی حرمت کے بیان
محمد بن عبداللہ، ابن نمیر، محمد بن بشر، محمد بن رافع، ابواسامہ، اسی حدیث کی دوسری سند ذکر کی ہے۔
سرکاری ملازمین کے لئے تحائف وصول کرنے کی حرمت کے بیان
اسحاق بن ابراہیم حنظلی، فضل بن موسی، اسماعیل بن ابی خالد، قیس بن ابی حازم، عدی بن عمیرہ کندی سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا اس کے بعد وہی حدیث روایت کی۔
غیر معصیت میں حاکموں کی اطاعت کے وجوب اور گناہ کے امور میں اطاعت کرنے کی حرمت کے بیان میں
زہیر بن حرب، ہارون بن عبداللہ، حجاج بن محمد، ابن جریج، حضرت ابن جریج (رض) سے روایت ہے کہ قرآن مجید کی آیت (يٰ اَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْ ا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ ) 4 ۔ النساء : 59) حضرت عبداللہ بن حذافہ بن قیس بن عدی شعبی کے بارے میں نازل ہوئی جنہیں نبی ﷺ نے ایک سریہ میں بھیجا تھا ابن جریج نے یہ حدیث حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے۔
غیر معصیت میں حاکموں کی اطاعت کے وجوب اور گناہ کے امور میں اطاعت کرنے کی حرمت کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، مغیرہ بن عبدالرحمن حزامی، ابی زناد، اعرج، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جو امیر کی اطاعت کرتا ہے اس نے میری اطاعت کی اور جو امیر کی نافرمانی کرتا ہے اس نے میری نافرمانی کی۔
غیر معصیت میں حاکموں کی اطاعت کے وجوب اور گناہ کے امور میں اطاعت کرنے کی حرمت کے بیان میں
زہیر بن حرب، ابن عیینہ، ابی زناد، اسی حدیث کی دوسری سند ذکر کی ہے لیکن اس میں (وَمَنْ يَعْصِ الْأَمِيرَ فَقَدْ عَصَانِي) مذکور نہیں۔
غیر معصیت میں حاکموں کی اطاعت کے وجوب اور گناہ کے امور میں اطاعت کرنے کی حرمت کے بیان میں
حرملہ بن یحیی، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، ابوسلمہ بن عبدالرحمن، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے میرے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے میرے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔
غیر معصیت میں حاکموں کی اطاعت کے وجوب اور گناہ کے امور میں اطاعت کرنے کی حرمت کے بیان میں
محمد بن حاتم مکی بن ابراہیم، ابن جریج، زیاد، ابن شہاب، ابوسلمہ بن عبدالرحمن، حضرت ابوہریرہ (رض) سے بالکل اسی طرح حدیث مروی ہے۔
غیر معصیت میں حاکموں کی اطاعت کے وجوب اور گناہ کے امور میں اطاعت کرنے کی حرمت کے بیان میں
ابوکامل جحدری، ابوعوانہ، یعلی بن عطار، ابوعلقمہ، ابوہریرہ، حضرت ابوہریرہ (رض) نے نبی ﷺ سے وہی حدیث روایت کی ہے مختلف اسناد ذکر کردی ہیں۔
غیر معصیت میں حاکموں کی اطاعت کے وجوب اور گناہ کے امور میں اطاعت کرنے کی حرمت کے بیان میں
محمد بن رافع، عبدالرزاق، معمر، ہمام بن منبہ، ابوہریرہ، اسی حدیث کی اور سند ذکر کی ہے۔
غیر معصیت میں حاکموں کی اطاعت کے وجوب اور گناہ کے امور میں اطاعت کرنے کی حرمت کے بیان میں
ابوطاہر، ابن وہب، ابویونس، ابوہریرہ، حضرت ابوہریرہ (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے اسی طرح حدیث مبارکہ روایت کی ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا جس نے امیر کی اطاعت کی، میرے امیر نہیں فرمایا۔
غیر معصیت میں حاکموں کی اطاعت کے وجوب اور گناہ کے امور میں اطاعت کرنے کی حرمت کے بیان میں
سعید بن منصور، قتیبہ بن سعید، یعقوب بن عبدالرحمن، ابوحازم، ابوصالح، ابوہریرہ، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا تجھ پر تنگی اور فراخی میں، خوشی اور ناخوشی میں اور تجھ پر کسی کو ترجیح دی جائے (تیرا حق تلف کیا جائے) ہر صورت میں امیر کی بات کو سننا اور اطاعت کرنا لازم ہے۔
` غیر معصیت میں حاکموں کی اطاعت کے وجوب اور گناہ کے امور میں اطاعت کرنے کی حرمت کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، عبداللہ بن براد اشعری، ابوکریب، ابن ادریس، شعبہ، ابی عمران، عبداللہ بن صامت، حضرت ابوذر (رض) سے روایت ہے کہ میرے پیارے دوست ﷺ نے مجھے یہ وصیت فرمائی کہ میں سنوں اور اطاعت کروں اگرچہ امیر ہاتھ پاؤں کٹا ہوا غلام ہی کیوں نہ ہو۔
غیر معصیت میں حاکموں کی اطاعت کے وجوب اور گناہ کے امور میں اطاعت کرنے کی حرمت کے بیان میں
محمد بن بشار، محمد بن جعفر، اسحاق، نضر بن شمیل، شعبہ، ابی عمران، اسی حدیث کی دوسری سند ذکر کی ہے اس میں ہے کہ ہاتھ پاؤں کٹا ہوا حبشی غلام ہی امیر کیوں نہ ہو۔
غیر معصیت میں حاکموں کی اطاعت کے وجوب اور گناہ کے امور میں اطاعت کرنے کی حرمت کے بیان میں
عبیداللہ بن معاذ، شعبہ، ابوعمران، اسی حدیث کی ایک اور سند ذکر کی ہے اس میں ہے کہ خواہ اعضاء بریدہ غلام ہی امیر ہو۔
غیر معصیت میں حاکموں کی اطاعت کے وجوب اور گناہ کے امور میں اطاعت کرنے کی حرمت کے بیان میں
محمد بن مثنی، محمد بن جعفر، شعبہ، یحییٰ بن حصین حضرت یحییٰ بن حصین سے روایت ہے کہ میں نے اپنے دادا کو بیان کرتے ہوئے سنا کہ انہوں نے نبی ﷺ سے حجہ الوداع میں خطبہ دیتے ہوئے سنا آپ ﷺ فرما رہے تھے اگر تم پر کسی غلام کو عامل مقرر کیا جائے اور وہ تمہاری کتاب کے مطابق حکم دے تو اس کی بات سنو اور اطاعت کرو۔
غیر معصیت میں حاکموں کی اطاعت کے وجوب اور گناہ کے امور میں اطاعت کرنے کی حرمت کے بیان میں
ابن بشار، محمد بن جعفر، عبدالرحمن بن مہدی، شعبہ، اسی حدیث کی دوسری سند ذکر کی ہے لیکن اس میں ہے کہ وہ حبشی غلام ہو۔
غیر معصیت میں حاکموں کی اطاعت کے وجوب اور گناہ کے امور میں اطاعت کرنے کی حرمت کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ وکیع بن جراح، شعبہ، اسی حدیث کی ایک اور سند ذکر کی ہے اس میں اعضاء کٹے ہوئے حبشی غلام فرمایا ہے۔
غیر معصیت میں حاکموں کی اطاعت کے وجوب اور گناہ کے امور میں اطاعت کرنے کی حرمت کے بیان میں
عبدالرحمن بن بشر، شعبہ، اسی حدیث کی ایک اور سند ذکر کی ہے اس میں اعضاء کٹے ہوئے حبشی کا ذکر نہیں کیا اور اضافہ یہ ہے کہ میں نے یہ حدیث رسول اللہ ﷺ سے منیٰ یا عرفات میں سنی۔
غیر معصیت میں حاکموں کی اطاعت کے وجوب اور گناہ کے امور میں اطاعت کرنے کی حرمت کے بیان میں
سلمہ بن شبیب، حسن بن اعین، معقل بن زید، ابن ابی انیسہ، یحییٰ بن حصین، حضرت ام الحصین (رض) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حجہ الوداع میں حج کیا ہے رسول اللہ ﷺ نے لمبی گفتگو اور نصائح فرمائیں پھر میں نے آپ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا اگر تم پر اعضاء کٹے ہوئے (راوی کہتا ہے) میں نے گمان کیا کہ اس نے سیاہ بھی کہا غلام کو حاکم بنادیا جائے جو تمہیں اللہ کی کتاب کے ساتھ حکم دے تو اس کی بات سنو اور اطاعت کرو۔
غیر معصیت میں حاکموں کی اطاعت کے وجوب اور گناہ کے امور میں اطاعت کرنے کی حرمت کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، لیث، عبیداللہ بن نافع، ابن عمر، حضرت ابن عمر (رض) کی نبی ﷺ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا مسلمان مرد پر حاکم کی بات سننا اور اطاعت کرنا لازم ہے خواہ اسے پسند ہو یا ناپسند ہو سوائے اس کے کہ اسے کسی گناہ کا حکم دیا جائے پس اگر اسے معصیت و نافرمانی کا حکم دیا جائے تو نہ اس کی بات سننا لازم ہے اور نہ اطاعت۔
غیر معصیت میں حاکموں کی اطاعت کے وجوب اور گناہ کے امور میں اطاعت کرنے کی حرمت کے بیان میں
زہیر بن حرب، محمد بن مثنی، یحیی، قطان، ابن نمیر، اسی حدیث کی ایک اور سند ذکر کی ہے۔
غیر معصیت میں حاکموں کی اطاعت کے وجوب اور گناہ کے امور میں اطاعت کرنے کی حرمت کے بیان میں
محمد بن مثنی، ابن بشار، ابن مثنی، محمد بن جعفر، شعبہ زبید، سعد بن عبیدہ، ابوعبدالرحمن، حضرت علی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک لشکر روانہ فرمایا اور اس پر ایک آدمی کو امیر مقرر فرمایا اس نے آگ جلائی اور لوگوں سے کہا کہ اس میں داخل ہوجاؤ تو بعض لوگوں نے اس میں داخل ہونے کا ارادہ کیا اور دوسروں نے کہا ہم اسی سے تو بھاگتے ہیں رسول اللہ ﷺ سے اس کا ذکر ہوا تو آپ ﷺ نے ان لوگوں سے فرمایا جنہوں نے آگ میں داخل ہونے کا ارادہ کیا کہ اگر تم اس میں داخل ہوجاتے تو قیامت تک اسی میں ہی رہتے اور دوسروں کے لئے اچھی بات فرمائی اور فرمایا اللہ کی نافرمانی میں اطاعت نہیں ہے اطاعت تو نیکی میں ہوتی ہے۔
غیر معصیت میں حاکموں کی اطاعت کے وجوب اور گناہ کے امور میں اطاعت کرنے کی حرمت کے بیان میں
محمد بن عبداللہ، ابن نمیر، زہیر بن حرب، ابوسعید اشج، وکیع، اعمش، سعد بن عبیدہ، ابوعبدالرحمن، حضرت علی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک لشکر کو بھیجا اور اس پر ایک انصاری کو امیر مقرر فرمایا اور انہیں حکم دیا کہ وہ اس کی بات سنیں اور اطاعت کریں انہوں نے امیر کو کسی بات کی وجہ سے ناراض کردیا تو امیر نے کہا میرے پاس لکڑیاں جمع کرو انہوں نے جمع کردیں پھر کہا آگ جلاؤ تو انہوں نے جلادی پھر کہا کیا تمہیں رسول اللہ ﷺ نے میرے حکم کو سننے اور اطاعت کرنے کا حکم نہیں دیا تھا انہوں نے کہا کیوں نہیں تو اس نے کہا آگ میں کود پڑو تو انہوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور کہا ہم آگ سے بھاگ کر ہی تو رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور اسی بات پر ڈٹ گئے اس کا غصہ ٹھنڈا ہوگیا اور آگ بجھا دی گئی جب وہ واپس ہوئے تو انہوں نے اس بات کا ذکر نبی ﷺ سے کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا اگر وہ اس میں داخل ہوجاتے تو اس سے نکل نہ سکتے اطاعت تو نیکی میں ہی ہوتی ہے۔
غیر معصیت میں حاکموں کی اطاعت کے وجوب اور گناہ کے امور میں اطاعت کرنے کی حرمت کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، وکیع، ابومعاویہ، اعمش، اسی حدیث کی دوسری سند ذکر کی ہے۔
غیر معصیت میں حاکموں کی اطاعت کے وجوب اور گناہ کے امور میں اطاعت کرنے کی حرمت کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، عبداللہ بن ادریس، یحییٰ بن سعید، عبیداللہ بن عمر، عبادہ بن ولید، حضرت عبادہ بن صامت (رض) سے روایت ہے کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے تنگی اور آسانی میں پسند و ناپسند میں اور اس بات پر کہ ہم پر کسی کو ترجیح دی جائے آپ ﷺ کی بات سننے اور اطاعت کرنے کی بیعت کی اور اس بات پر بیعت کی کہ ہم حکام سے حکومت کے معاملات میں جھگڑا نہ کریں گے اور اس بات پر بیعت کی کہ ہم جہاں بھی ہوں گے حق بات ہی کہیں گے اللہ کے معاملہ میں ملامت کرنے والے کی ملامت کا خوف نہ رکھیں گے۔
غیر معصیت میں حاکموں کی اطاعت کے وجوب اور گناہ کے امور میں اطاعت کرنے کی حرمت کے بیان میں
ابن نمیر، عبداللہ بن ادریس، ابن عجلان، عبیداللہ بن عمرو، یحییٰ بن سعید، عبادہ بن ولید، اس سند کے ساتھ یہ حدیث مبارکہ اسی طرح مروی ہے۔
غیر معصیت میں حاکموں کی اطاعت کے وجوب اور گناہ کے امور میں اطاعت کرنے کی حرمت کے بیان میں
ابن ابی عمر، عبدالعزیز دراوری، یزید ابن ہاد، عبادہ بن ولید بن عبادہ بن صامت، اس سند سے بھی یہ حدیث اسی طرح روایت کی گئی ہے۔
غیر معصیت میں حاکموں کی اطاعت کے وجوب اور گناہ کے امور میں اطاعت کرنے کی حرمت کے بیان میں
احمد بن عبدالرحمن، ابن وہب بن مسلم، عبداللہ بن وہب، عمرو بن حارث، بکیر، بسر بن سعید، جنادہ بن ابوامیہ، حضرت جنادہ بن امیہ (رض) سے روایت ہے کہ ہم عبادہ بن صامت کے پاس حاضر ہوئے اور وہ بیمار تھے ہم نے کہا اللہ آپ کو تندرست کرے ہم سے کوئی ایسی حدیث بیان کریں جو آپ نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہو اور اللہ اس کے ذریعہ نفع عطا فرمائے تو انہوں نے کہا ہمیں رسول اللہ ﷺ نے بلایا ہم نے آپ ﷺ سے بیعت کی اور جن امور کی آپ ﷺ سے ہم نے بیعت کی وہ یہ تھے ہم نے بات سننے اور اطاعت کرنے کی بیعت کی کہ اپنی خوشی اور ناخوشی میں تنگی اور آسانی میں اور ہم پر ترجیح دیئے جانے پر اور اس بات پر کہ ہم حکام سے جھگڑا نہ کریں گے سوائے اس کے کہ ہم واضح دیکھیں اور تمہارے پاس اس کے کفر ہونے پر اللہ کی طرف سے کوئی دلیل موجود ہو۔
امام کے مسلمانوں کے لئے ڈھال ہونے کے بیان میں
ابرہیم، مسلم، زہیر بن حرب، شبابہ، ابوزناد، اعرج، حضرت ابوہریرہ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا امام ڈھال ہے اس کے پیچھے سے لڑا جاتا ہے اور اس کے ذریعہ سے امان دی جاتی ہے پس اگر اللہ کے تقویٰ کا حکم کرے اور عدل و انصاف کرے اور اس کی وجہ سے اس کے لئے ثواب ہوگا اور اگر وہ اس کے علاوہ (برائی) کا حکم کرے تو یہ اس پر وبال ہوگا۔
پہلے خلیفہ کی بیعت کو پورا کرنے کے وجوب کے بیان میں
محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، ابوحازم، ابوہریرہ، حضرت ابوحازم (رح) سے روایت ہے کہ میں پانچ سال تک حضرت ابوہریرہ (رض) کے ساتھ رہا تو میں نے ان کو نبی ﷺ سے حدیث روایت کرتے ہوئے سنا کہ آپ ﷺ نے فرمایا بنی اسرائیل کی سیاست ان کے انبیاء کرتے تھے جب کوئی نبی وفات پا جاتا تو اس کا خلیفہ ونائب نبی ہوتا تھا اور میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے اور عنقریب میرے بعد خلفاء ہوں گے اور بہت ہوں گے۔ صحابہ (رض) نے عرض کیا آپ ﷺ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا جس کے ہاتھ پر پہلے بیعت کرلو اسے پورا کرو اور احکام کا حق ان کو ادا کرو بیشک اللہ ان سے ان کی رعایا کے بارے میں سوال کرنے والا ہے۔
پہلے خلیفہ کی بیعت کو پورا کرنے کے وجوب کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، عبداللہ بن برادہ اشعری، عبداللہ بن ادریس، حسن بن فرات، اسی حدیث کی دوسری سند ہے۔
پہلے خلیفہ کی بیعت کو پورا کرنے کے وجوب کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوالاحوص، وکیع، ابوسعید اشج، وکیع، ابوکریب، ابن نمیر، ابومعاویہ، اسحاق بن ابراہیم، علی بن خشرم، عیسیٰ بن یونس، اعمش، عثمان بن ابی شیبہ، جریر، اعمش، زید بن وہب، عبداللہ، اسی حدیث کی مزید اسناد ذکر کی ہیں حضرت عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا عنقریب میرے بعد حقوق تلف کئے جائیں گے اور ایسے امور پیش آئیں گے جنہیں تم ناپسند کرتے ہو صحابہ (رضی اللہ عنہم) نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ آپ ﷺ ہم میں سے انہیں حکم کیا دیتے ہیں جو یہ زمانہ پائے آپ ﷺ نے فرمایا تم پر کسی کا جو حق ہو وہ ادا کردو اور اپنے حقوق تم اللہ سے مانگتے رہنا۔
پہلے خلیفہ کی بیعت کو پورا کرنے کے وجوب کے بیان میں
زہیر بن حرب، اسحاق بن ابراہیم، اسحاق، زہیر، جریر، اعمش، زید بن وہب، حضرت عبدالرحمن بن عبد رب کعبہ (رح) سے روایت ہے کہ میں مسجد میں داخل ہوا تو عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) کعبہ کے سایہ میں بیٹھے ہوئے تھے اور لوگ ان کے ارد گرد جمع تھے میں ان کے پاس آیا اور ان کے پاس بیٹھ گیا تو عبداللہ نے کہا ہم ایک سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے ہم ایک جگہ رکے ہم میں سے بعض نے اپنا خیمہ لگانا شروع کردیا اور بعض تیراندازی کرنے لگے اور بعض وہ تھے جو جانوروں میں ٹھہرے رہے اتنے میں رسول اللہ ﷺ کے منادی نے آواز دی الصلوہ جامعہ (یعنی نماز کا وقت ہوگیا ہے) تو ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس جمع ہوگئے تو آپ ﷺ نے فرمایا میرے سے قبل کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس کے ذمے اپنے علم کے مطابق اپنی امت کی بھلائی کی طرف راہنمائی لازم نہ ہو اور برائی سے اپنے علم کے مطابق انہیں ڈرانا لازم نہ ہو اور بیشک تمہاری اس امت کی عافیت ابتدائی حصہ میں ہے اور اس کا آخر ایسی مصیبتوں اور امور میں مبتلا ہوگا جسے تم ناپسند کرتے ہو اور ایسا فتنہ آئے گا کہ مومن کہے گا یہ میری ہلاکت ہے پھر وہ ختم ہوجائے گا اور دوسرا ظاہر ہوگا تو مومن کہے گا یہی میری ہلاکت کا ذریعہ ہوگا جس کو یہ بات پسند ہو کہ اسے جہنم سے دور رکھا جائے اور جنت میں داخل کیا جائے تو چاہیے کہ اس کی موت اس حال میں آئے کہ وہ اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اور لوگوں کے ساتھ اس معاملہ سے پیش آئے جس کے دیئے جانے کو اپنے لئے پسند کرے اور جس نے امام کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر دل کے اخلاص سے بیعت کی تو چاہیے کہ اپنی طاقت کے مطابق اس کی اطاعت کرے اور اگر دوسرا شخص اس سے جھگڑا کرے تو دوسرے کی گردن مار دو راوی کہتا ہے پھر میں عبداللہ کے قریب ہوگیا اور ان سے کہا میں تجھے اللہ کی قسم دے کر کہتا ہوں کیا آپ نے یہ حدیث رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے تو عبداللہ نے اپنے کانوں اور دل کی طرف اپنے ہاتھ سے اشارہ کر کے فرمایا میرے کانوں نے آپ ﷺ سے سنا اور میرے دل نے اسے محفوظ رکھا تو میں نے ان سے کہا یہ آپ ﷺ کے چچا زاد بھائی معاویہ ہمیں اپنے اموال کو ناجائز طریقے پر کھانے اور اپنی جانوں کو قتل کرنے کا حکم دیتے ہیں اور اللہ کا ارشاد ہے اے ایمان والو اپنے اموال کو ناجائز طریقے سے نہ کھاؤ سوائے اس کے کہ ایسی تجارت ہو جو باہمی رضا مندی سے کی جائے اور نہ اپنی جانوں کو قتل کرو بیشک اللہ تم پر رحم فرمانے والا ہے راوی نے کہا عبداللہ تھوڑی دیر خاموش رہے پھر کہا اللہ کی اطاعت میں ان کی اطاعت کرو اور اللہ کی نافرمانی میں ان کی نافرمانی کرو۔
پہلے خلیفہ کی بیعت کو پورا کرنے کے وجوب کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابن نمیر، ابوسعید اشج، وکیع، ابوکریب، ابومعاویہ، یہ حدیث ان دو اسناد سے بھی اسی طرح روایت کی گئی ہے۔
پہلے خلیفہ کی بیعت کو پورا کرنے کے وجوب کے بیان میں
محمد بن رافع، ابومنذر، اسماعیل بن عمر، یونس بن ابواسحاق ہمدانی، عبداللہ بن ابی سفر، عامر، حضرت عبدالرحمن بن عبد رب کعبہ صاعدی (رح) سے روایت ہے کہ میں نے ایک جماعت کو کعبہ کے پاس دیکھا باقی حدیث اسی طرح بیان فرمائی۔
حاکموں کے ظلم پر صبر کرنے کے حکم کے بیان میں
محمد بن مثنی، محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، قتادہ، انس بن مالک، اسید بن حضیر، حضرت اسید بن حضیر (رض) سے روایت ہے کہ ایک انصاری نے رسول اللہ ﷺ سے خلوت میں عرض کیا کہ آپ ﷺ مجھے فلاں آدمی کی طرح عامل مقرر نہیں فرما دیتے تو آپ ﷺ نے فرمایا تم میرے بعد عنقریب اپنے پر ترجیح کو پاؤ تو صبر سے کام لینا یہاں تک کہ مجھ سے حوض پر ملاقات کرو۔
حاکموں کے ظلم پر صبر کرنے کے حکم کے بیان میں
یحییٰ بن حبیب حارثی، خالد ابن حارث، شعبہ بن حجاج، قتادہ، انس، حضرت اسید بن حضیر (رض) روایت کرتے ہیں کہ ایک انصاری نے رسول اللہ ﷺ سے خلوت میں عرض کیا باقی حدیث اسی طرح ہے۔
حاکموں کے ظلم پر صبر کرنے کے حکم کے بیان میں
عبیداللہ بن معاذ، ابوشعبہ، اس سند کے ساتھ بھی یہ حدیث اسی طرح مروی ہے لیکن اس میں خلوت رسول اللہ ﷺ کا ذکر نہیں۔
حاکموں کی اطاعت کے بیان میں اگرچہ وہ تمہارے حقوق نہ دیں
محمد بن مثنی، محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، سماک بن حرب، علقمہ بن وائل، حضرمی بن وائل حضرمی، حضرت علقمہ بن وائل (رض) اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت سلمی بن یزید جعفی (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا اے اللہ کے نبی ﷺ آپ ﷺ اس بارے میں کیا حکم فرماتے ہیں کہ اگر ہم پر ایسے حاکم مسلط ہوجائیں جو ہم سے اپنے حقوق تو مانگیں اور ہمارے حقوق کو روک لیں آپ ﷺ نے اس سے اعراض کیا اس نے آپ ﷺ سے پھر پوچھا آپ ﷺ نے پھر اعراض فرمایا پھر اس نے دوسری یا تیسری مرتبہ پوچھا تو اسے اشعث بن قیس نے کھینچ لیا اور کہا : اس کیا بات سنو اور اطاعت کرو کیونکہ ان پر ان کا بوجھ اور تمہارے اوپر تمہارا بوجھ ہے۔
حاکموں کی اطاعت کے بیان میں اگرچہ وہ تمہارے حقوق نہ دیں
ابوبکر بن ابی شیبہ، شبابہ، شعبہ، سماک، اس سند کے ساتھ یہ حدیث اسی طرح مروی ہے اس میں یہ ہے کہ اسے اشعث بن قیس نے کھینچا تو رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا ان کی بات سنو اور اطاعت کرو کیونکہ ان کو بوجھ ان پر اور تمہارا بوجھ تمہارے اوپر ہے۔
فتنوں کے ظہور کے وقت جماعت کے ساتھ رہنے کے حکم اور کفر کی طرف بلانے سے روکنے کے بیان میں
محمد بن مثنی عنزی، ولید بن مسلم، عبدالرحمن بن یزید بن جابر بسر بن عبیداللہ حضرمی، ابوادریس، حضرت حذیفہ بن یمان (رض) سے روایت ہے کہ صحابہ کرام (رض) تو رسول اللہ ﷺ سے خیر و بھلائی کے متعلق سوال کرتے تھے اور میں برائی کے بارے میں اس خوف کی وجہ سے کہ وہ مجھے پہنچ جائے سوال کرتا تھا میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ ہم جاہلیت اور شر میں تھے اللہ ہمارے پاس یہ بھلائی لائے تو کیا اس بھلائی کے بعد بھی کوئی شر ہوگا آپ ﷺ نے فرمایا ہاں میں نے عرض کیا کیا اس برائی کے بعد کوئی بھلائی بھی ہوگی آپ ﷺ نے فرمایا ہاں اور اس خیر میں کچھ کدورت ہوگی میں نے عرض کیا کیسی کدورت ہوگی آپ ﷺ نے فرمایا میری سنت کے علاوہ کو سنت سمجھیں گے اور میری ہدایت کے علاوہ کو ہدایت جان لیں گے تو ان کو پہچان لے گا اور نفرت کرے گا میں نے عرض کیا کیا اس خیر کے بعد کوئی برائی ہوگی آپ ﷺ نے فرمایا ہاں جہنم کے دروازوں پر کھڑے ہو کر جہنم کی طرف بلایا جائے گا جس نے ان کی دعوت کو قبول کرلیا وہ اسے جہنم میں ڈال دیں گے میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ آپ ﷺ ہمارے لئے ان کی صفت بیان فرما دیں آپ ﷺ نے فرمایا ہاں وہ ایسی قوم ہوگی جو ہمارے رنگ جیسی ہوگی اور ہماری زبان میں ہی گفتگو کرے گی میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ اگر یہ مجھے ملے تو آپ ﷺ کیا حکم فرماتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا مسلمانوں کی جماعت کو اور ان کے امام کو لازم کرلینا میں نے عرض کیا اگر مسلمانوں کی کوئی جماعت ہو نہ کوئی امام۔ آپ ﷺ نے فرمایا پھر ان تمام فرقوں سے علیحدہ ہوجانا اگرچہ تجھے موت کے آنے تک درخت کی جڑوں کو کاٹنا پڑے تو اسی حالت میں موت کے سپرد ہوجائے۔
فتنوں کے ظہور کے وقت جماعت کے ساتھ رہنے کے حکم اور کفر کی طرف بلانے سے روکنے کے بیان میں
محمد بن سہل بن عسکر تمیمی، یحییٰ بن حسان، عبداللہ بن عبدالرحمن دارمی، یحییٰ ابن حسان، معاویہ ابن سلام، زید بن سلام، ابوسلام، حضرت حذیفہ (رض) سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! ﷺ ہم شر میں مبتلا تھے اللہ ہمارے پاس اس بھلائی کو لایا جس میں ہم ہیں تو کیا اس بھلائی کے پیچھے بھی کوئی برائی ہے آپ ﷺ نے فرمایا جی ہاں میں نے عرض کیا کیا اس برائی کے پیچھے کوئی خیر بھی ہوگی آپ ﷺ نے فرمایا جی ہاں میں نے عرض کیا کیا اس خیر کے پیچھے کوئی برائی بھی ہوگی آپ ﷺ نے فرمایا جی ہاں میں نے عرض کیا کیا اس خیر کے پیچھے کوئی برائی ہوگی آپ ﷺ نے فرمایا میرے بعد ایسے مقتداء ہوں گے جو میری ہدایت سے راہنمائی حاصل نہ کریں گے اور نہ میری سنت کو اپنائیں گے اور عنقریب ان میں ایسے لوگ کھڑے ہوں گے کہ ان کے دل انسانی جسموں میں شیطان کے دل ہوں گے میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ میں کیسے کروں اگر اس زمانہ کو پاؤں آپ ﷺ نے فرمایا امیر کی بات سن اور اطاعت کر اگرچہ تیری پیٹھ پر مارا جائے یا تیرا مال غصب کرلیا جائے پھر بھی ان کی بات سن اور اطاعت کر۔
فتنوں کے ظہور کے وقت جماعت کے ساتھ رہنے کے حکم اور کفر کی طرف بلانے سے روکنے کے بیان میں
شیبان بن فروخ جریر، ابن حازم، غیلان، ابن جریر، ابی قیس بن ریاح، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا جو اطاعت سے نکل گیا اور جماعت سے علیحدہ ہوگیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا اور جس نے اندھی تقلید میں کسی کے جھنڈے کے نیچے جنگ کی کسی عصبیت کی بناء پر غصہ کرتے ہوئے عصبیت کی طرف بلایا یا عصبیت کی مدد کرتے ہوئے قتل کردیا گیا تو وہ جاہلیت کے طور پر قتل کیا گیا اور جس نے میری امت پر خروج کیا کہ اس کے نیک وبد سب کو قتل کیا کسی مومن کا لحاظ کیا اور نہ کسی سے کیا ہوا وعدہ پورا کیا تو وہ میرے دین پر نہیں اور نہ میرا اس سے کوئی تعلق ہے۔
فتنوں کے ظہور کے وقت جماعت کے ساتھ رہنے کے حکم اور کفر کی طرف بلانے سے روکنے کے بیان میں
عبیداللہ بن عمر قواریری، حماد بن زید، ایو ب، غیلان بن جریر، زیاد بن ریاح قیسی، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا باقی حدیث اسی طرح ہے اس حدیث میں ( لَا يَتَحَاشَ مِنْ مُؤْمِنِهَا) کے الفاظ ہیں۔
فتنوں کے ظہور کے وقت جماعت کے ساتھ رہنے کے حکم اور کفر کی طرف بلانے سے روکنے کے بیان میں
زہیر بن حرب، عبدالرحمن بن مہدی، مہدی بن میمون، غیلان بن جریر، زیاد بن ریاح، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص امیر کی اطاعت سے نکل گیا اور جماعت سے علیحدہ ہوگیا پھر مرگیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا جو شخص اندھی تقلید میں کسی کے جھنڈے تلے عصبیت پر غصہ کرتے ہوئے مارا گیا اور وہ جنگ کرتا ہو عصبیت کے لئے تو وہ میری امت میں سے نہیں ہے اور میری امت میں سے جس نے میری امت پر خروج کیا کہ اس کے نیک اور برے کو قتل کرے مومن کا لحاظ کرے نہ کسی ذمی کے ساتھ کئے ہوئے وعدے کو پورا کرے تو وہ میرے دین پر نہیں۔
فتنوں کے ظہور کے وقت جماعت کے ساتھ رہنے کے حکم اور کفر کی طرف بلانے سے روکنے کے بیان میں
محمد بن مثنی، ابن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، غیلان بن جریر، اس سند کے ساتھ بھی یہ حدیث مبارکہ اسی طرح مروی ہے بہرحال ابن مثنی نے اپنی روایت میں نبی ﷺ کا ذکر نہیں کیا اور بشار نے اپنی حدیث مبارکہ میں قال رسول اللہ ﷺ کہا ہے۔
فتنوں کے ظہور کے وقت جماعت کے ساتھ رہنے کے حکم اور کفر کی طرف بلانے سے روکنے کے بیان میں
حسن بن ربیع، حماد بن زید، جعد، ابوعثمان، ابورجاء، ابن عباس، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو آدمی اپنے امیر میں کوئی ایسی بات دیکھے جوا سے ناپسند ہو تو چاہئے کہ صبر کرے کیونکہ جو آدمی جماعت سے ایک بالشت بھر بھی جدا ہوا تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔
فتنوں کے ظہور کے وقت جماعت کے ساتھ رہنے کے حکم اور کفر کی طرف بلانے سے روکنے کے بیان میں
شیبان بن فروغ، حماد، عبدالورث، جعد، ابورجاء عطار دی، ابن عباس، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ فرمایا جسے اپنے امیر سے کوئی بات ناپسند ہو تو چاہئے کہ اس پر صبر کرے کیونکہ لوگوں میں سے جو بھی سلطان کی اطاعت سے ایک بالشت بھی نکلا اور اس پر اسی کی موت واقع ہوگئی تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔
فتنوں کے ظہور کے وقت جماعت کے ساتھ رہنے کے حکم اور کفر کی طرف بلانے سے روکنے کے بیان میں
ہریم بن عبداعلی، معتمر، ابومجلز، جندب بن عبداللہ بجلی، حضرت جندب بن عبداللہ بجلی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو کسی کی اندھی تقلید میں عصبیت کی طرف بلاتا ہو یا عصبیت کی مدد کرتا ہوا قتل کیا گیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔
فتنوں کے ظہور کے وقت جماعت کے ساتھ رہنے کے حکم اور کفر کی طرف بلانے سے روکنے کے بیان میں
عبیداللہ بن معاذ عنبری، ابن محمد بن زید، زید بن محمد، نافع، عبداللہ بن عمر، حضرت نافع (رض) سے روایت ہے کہ ابن عمر (رض) واقعہ حرہ کے وقت جو یزید بن معاویہ کے دور حکومت میں ہوا عبداللہ بن مطیع کے پاس آئے تو ابن مطیع نے کہا ابوعبدالرحمن کے لئے غالیچہ بچھاؤ تو ابن عمر (رض) نے کہا میں آپ کے پاس بیٹھنے کے لئے نہیں آیا میں تو آپ کے پاس اس لئے آیا ہوں کہ آپ کو ایسی حدیث بیان کروں جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی آپ ﷺ نے فرمایا جس نے اطاعت امیر سے ہاتھ نکال لیا تو وہ قیامت کے دن اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اس کے پاس کوئی دلیل نہ ہوگی اور جو اس حال میں مرا کہ اس کی گردن میں کسی کی بیعت نہ تھی وہ جاہلیت کی موت مرا۔
فتنوں کے ظہور کے وقت جماعت کے ساتھ رہنے کے حکم اور کفر کی طرف بلانے سے روکنے کے بیان میں
ابن نمیر، یحییٰ بن عبداللہ بن بکیر، لیث، عبیداللہ بن ابی جعفر، بکیر بن عبداللہ بن اشج، نافع، ابن عمر، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ وہ ابن مطیع کے پاس گئے اور نبی ﷺ کی حدیث مبارکہ اسی طرح بیان کی۔
فتنوں کے ظہور کے وقت جماعت کے ساتھ رہنے کے حکم اور کفر کی طرف بلانے سے روکنے کے بیان میں
عمرو بن علی، ابن مہدی، محمد بن عمرو بن جبلہ، بشر بن عمر، ہشام بن سعد، زید بن اسلم، ابن عمر، اس سند کے ساتھ بھی یہی حدیث حضرت ابن عمر (رض) کے واسطہ سے نبی ﷺ سے مروی ہے۔
مسلمانوں کی جماعت میں تفریق ڈالنے والے کے حکم کے بیان میں
ابوبکر بن نافع، محمد بن بشا ر، غندر، محمد بن جعفر، شعبہ، زیاد بن علاقہ حضرت عرفجہ (رض) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا عنقریب فتنے اور فساد ظاہر ہوں گے اور جو اس امت کی جماعت کے معاملات میں تفریق ڈالنے کا ارادہ کرے اسے تلوار کے ساتھ مار دو وہ شخص کوئی بھی ہو۔
مسلمانوں کی جماعت میں تفریق ڈالنے والے کے حکم کے بیان میں
احمد بن خراش، حبان، ابوعوانہ، قاسم بن زکریا، عبیداللہ بن موسی، شیبان، اسحاق بن ابراہیم، مصعب بن مقدام خثعمی، اسرائیل، حجاج، عارم بن فضل، حماد بن زید، عبداللہ بن مختار، ان چار اسناد سے بھی یہ حدیث مبارکہ اسی طرح مروی ہے لیکن انہوں نے فَاضرِبُوہ کی بجائے فَاقْتُلُوهُ کا لفظ ذکر کیا ہے۔
مسلمانوں کی جماعت میں تفریق ڈالنے والے کے حکم کے بیان میں
عثمان بن ابی شیبہ، یونس، ابویعفور عرفجہ، حضرت عرفجہ (رض) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے تھے تم اپنے معاملات میں کسی ایک آدمی پر متفق ہو پھر تمہارے پاس کوئی آدمی آئے اور تمہارے اتحاد کی لاٹھی کو توڑنے یا تمہاری جماعت میں تفریق ڈالنا چاہے تو اسے قتل کردو۔
جب دو خلفاء کی بیعت لی جائے تو کیا کرنا چاہئے
وہب بن بقیہ واسطی، خلاد بن عبداللہ، جریری، ابی نضرہ، حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب دو خلفاء کی بیعت کی جائے تو ان دونوں میں سے دوسرے کو قتل کردو۔
خلاف شرع امور میں حکام کے رد کرنے کے وجوب اور جب تک وہ نماز وغیر ادا کرتے ہوں ان سے جنگ نہ کرنے کے بیان میں
ہداب بن خالد ازدی، ہمام بن یحیی، قتادہ، حسن، ضبہ بن محصن، حضرت ام سلمہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا عنقریب ایسے امراء ہوں گے جن کے خلاف شریعت اعمال کو تم پہچان لوگے اور بعض اعمال نہ پہچان سکو گے پس جس نے اس کے اعمال بد کو پہچان لیا وہ بری ہوگیا جو نہ پہچان سکا وہ محفوظ رہا لیکن جو ان امور پر خوش ہوا اور تابعداری کی (وہ محفوظ نہ رہا) صحابہ (رض) نے عرض کیا ہم ان سے جنگ نہ کریں ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا نہیں جب تک وہ نماز ادا کرتے رہیں۔
خلاف شرع امور میں حکام کے رد کرنے کے وجوب اور جب تک وہ نماز وغیر ادا کرتے ہوں ان سے جنگ نہ کرنے کے بیان میں
ابوغسان، مسمعی و محمد بن بشار، معاذ، ابی غسان، معاذ، ابن ہشام دستوائی، ابوقتادہ، حسن، ضبہ بن محصن عنزی، حضرت ام سلمہ (رض) زوجہ نبی ﷺ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا تم پر ایسے حاکم مقرر کئے جائیں گے جن کے اعمال بد تم پہچان لوگے اور بعض اعمال بد سے ناواقف رہوگے جس نے اعمال بد کو ناپسند کیا وہ بری ہوگیا اور جو ناواقف رہا وہ محفوظ رہا لیکن جو ان امور بد پر خوش ہوا اور اتباع کی (بری نہیں ہوگا اور نہ محفوظ رہے گا) صحابہ (رض) نے عرض کیا اے اللہ کے رسول کیا ہم ان سے جنگ نہ کریں آپ ﷺ نے فرمایا نہیں جب تک وہ نماز ادا کرتے رہیں۔
خلاف شرع امور میں حکام کے رد کرنے کے وجوب اور جب تک وہ نماز وغیر ادا کرتے ہوں ان سے جنگ نہ کرنے کے بیان میں
ابوربیع عتکی، حماد بن زید، معلی بن زیاد، ہشام، حسن، ضبہ بن محصن، حضرت ام سلمہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا باقی حدیث اسی طرح ذکر کی لیکن اس حدیث مبارکہ میں یہ ہے کہ جس نے انکار کیا وہ بری ہوگیا اور جس نے ناپسند کیا وہ محفوظ رہا۔
خلاف شرع امور میں حکام کے رد کرنے کے وجوب اور جب تک وہ نماز وغیر ادا کرتے ہوں ان سے جنگ نہ کرنے کے بیان میں
حسن بن ربیع بجلی، ابن مبارک، ہشام، حسن ضبہ بن محصن، حضرت ام سلمہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا باقی حدیث اسی طرح ذکر کی لیکن اس حدیث میں ولٰکِنْ رَضِيَ وَتَابَعَ ) کے الفاظ مذکور نہیں ہیں۔
اچھے اور برے حاکموں کے بیان میں
اسحاق بن ابرہیم حنظلی، عیسیٰ بن یونس، اوزاعی، یزید بن یزید بن جابر، رزیق بن حبان، مسلم بن قرظہ، حضرت عوف بن مالک (رض) کی نبی ﷺ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا تمہارے حاکموں میں سے بہتر وہ ہیں جن سے تم محبت کرتے ہو اور وہ تم سے محبت کرتے ہیں اور وہ تمہارے لئے دعائے مغفرت کرتے ہیں اور تم ان کے لئے دعائے مغفرت کرتے ہو اور تمہارے حاکموں میں سے برے حاکم وہ ہیں جن سے تم دشمنی رکھتے ہو اور وہ تم سے بغض رکھتے ہوں اور تم انہیں لعنت کرو اور وہ تمہیں لعنت کریں عرض کیا گیا اے اللہ کے رسول ﷺ کیا ہم انہیں تلوار کے ساتھ قتل نہ کردیں آپ ﷺ نے فرمایا نہیں جب تک وہ تم میں نماز قائم کرتے رہیں اور جب تک اپنے حاکموں میں کوئی ایسی چیز دیکھو جسے تم ناپسند کرتے ہو تو اس کے اس عمل کو ناپسند کرو اور اطاعت و فرمانبرداری سے ہاتھ مت کھینچو۔
اچھے اور برے حاکموں کے بیان میں
داؤد بن رشید، ولید ابن مسلم، عبدالرحمن بن یزید بن جابر مولیٰ بنی فرارہ، رزیق بن حیان، حضرت عوف بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ نے فرمایا تمہارے بہترین حکمران وہ ہیں جنہیں تم پسند کرتے ہو اور وہ تمہیں پسند کرتے ہوں اور تم ان کے جنازے میں شرکت کرتے ہو اور وہ تمہارے جنازوں میں شرکت کریں اور تمہارے بدترین حکمرانوں میں سے وہ ہیں جن سے تم بغض رکھتے ہو اور وہ تم سے بغض رکھتے ہوں تم ان پر لعنت کرنے والے ہو اور وہ تم پر لعنت کرتے ہوں ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ کیا ہم اس وقت انہیں معزول نہ کردیں آپ ﷺ نے فرمایا نہیں جب تک وہ تمہارے درمیان نماز قائم کرتے رہیں آگاہ رہو جس شخص کو کسی پر حاکم بنایا گیا پر انہوں نے اس میں ایسی چیز دیکھی جو اللہ کی نافرمانی ہو تو وہ اللہ کی معصیت و نافرمانی والے عمل کو ناپسند کریں اور اس کی فرمانبرداری سے اپنا ہاتھ نہ کھینچیں ابن جابر نے کہا کہ میں نے رزیق سے کہا جب اس نے یہ مجھ سے بیان کیا، اے ابومقدام تم کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا تجھ سے یہ حدیث کسی نے بیان کی ہے یا تم نے خود اسے مسلم بن قزعہ سے سنا ہے جنہوں نے عوف سے سنا اور عوف نے رسول اللہ ﷺ سے سنا تو ابومقدام نے گھٹنوں کے بل گر کر قبلہ کی طرف رخ کرتے ہوئے کہا اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں میں نے اسے مسلم بن قرظہ سے سنا وہ فرماتے تھے میں نے عوف بن مالک سے سنا وہ فرماتے تھے میں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ حدیث سماعت کی۔
اچھے اور برے حاکموں کے بیان میں
اسحاق بن موسیٰ انصاری، ولید بن مسلم، ابن جابر، رزیق مولیٰ بنی فزارہ، اس سند کے ساتھ بھی یہ حدیث اسی طرح روایت کی گئی ہے۔
جنگ کرنے کے ارادہ کے وقت لشکر کے امیر کی بیعت کرنے کے استح اور شجرہ کے نیچے بیعت رضوان کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، لیث بن سعد، محمد بن رمح، لیث، ابی زبیر، جابر، حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ ہم صلح حدیبیہ کے دن چودہ سو تھے ہم نے آپ ﷺ سے بیعت کی اور حضرت عمر (رض) ایک درخت کے نیچے آپ ﷺ کا ہاتھ پکڑے بیٹھے تھے اور یہ درخت کیکر کا تھا اور ہم نے اس بات پر بیعت کی تھی کہ ہم فرار نہ ہوں اور موت پر بیعت نہیں کی تھی۔
جنگ کرنے کے ارادہ کے وقت لشکر کے امیر کی بیعت کرنے کے استح اور شجرہ کے نیچے بیعت رضوان کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابن عیینہ، ابن نمیر، سفیان، ابی زبیر، جابر، حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے موت پر بیعت نہیں کی تھی بلکہ ہم نے اس بات پر بیعت کی تھی کہ ہم بھاگیں گے نہیں۔
جنگ کرنے کے ارادہ کے وقت لشکر کے امیر کی بیعت کرنے کے استح اور شجرہ کے نیچے بیعت رضوان کے بیان میں
محمد بن حاتم، حجاج، ابن جریج، ابوزبیر، جابر، حضرت ابوزبیر (رض) سے روایت ہے کہ حضرت جابر (رض) سے پوچھا گیا کہ وہ صلح حدیبیہ کے دن کتنے تھے تو انہوں نے کہا ہم چودہ سو تھے ہم نے آپ ﷺ سے بیعت کی اور حضرت عمر (رض) ایک درخت کے نیچے جو کہ کیکر کا تھا آپ ﷺ کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے سوائے جد بن قیس انصاری کے وہ اونٹ کے پیٹ کے نیچے چھپ گیا۔
جنگ کرنے کے ارادہ کے وقت لشکر کے امیر کی بیعت کرنے کے استح اور شجرہ کے نیچے بیعت رضوان کے بیان میں
ابراہیم بن دینار، حجاج بن محمد اعور مولیٰ سلیمان بن مجالد، ابن جریج، ابوزبیر، جابر، حضرت ابوزبیر (رض) سے روایت ہے کہ حضرت جابر (رض) سے پوچھا گیا کہ نبی ﷺ نے ذوالحلیفہ میں بیعت کی تھی انہوں نے کہا نہیں بلکہ اس جگہ آپ ﷺ نے نماز ادا فرمائی تھی سوائے حدیبیہ کے درخت کے کسی جگہ کے درخت کے پاس بیعت نہیں لی ابوزبیر کہتے ہیں حضرت جابر (رض) نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے حدبیہ کے کنوئیں پر دعا فرمائی تھی۔
جنگ کرنے کے ارادہ کے وقت لشکر کے امیر کی بیعت کرنے کے استح اور شجرہ کے نیچے بیعت رضوان کے بیان میں
سعید بن عمرو اشعثی، سوید بن سعید اسحاق بن ابراہیم، احمد بن عبدہ، سعید، عمرو، جابر، حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ ہم حدیبیہ کے دن ایک ہزار چار سو کی تعداد میں تھے تو نبی ﷺ نے ہمیں ارشاد فرمایا آج کے دن تم اہل زمین میں سب سے افضل ہو حضرت جابر (رض) نے کہا اگر میری بینائی ہوتی تو میں تمہیں اس درخت کی جگہ دکھاتا۔
جنگ کرنے کے ارادہ کے وقت لشکر کے امیر کی بیعت کرنے کے استح اور شجرہ کے نیچے بیعت رضوان کے بیان میں
محمد بن مثنی، ابن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، عمرو بن مرہ، سالم بن ابی جعد، جابر بن عبداللہ، حضرت سالم بن ابی الجعد (رض) سے روایت ہے کہ میں نے حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے اصحاب شجرہ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا ہم ایک ہزار پانچ سو تھے اگر ہم ایک لاکھ ہوتے تو (بھی وہ پانی) ہمیں کافی ہوجاتا۔
جنگ کرنے کے ارادہ کے وقت لشکر کے امیر کی بیعت کرنے کے استح اور شجرہ کے نیچے بیعت رضوان کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابن نمیر، عبداللہ بن ادریس، رفاعہ بن ہیثم، خالد طحان، حصین سالم ابن ابی جعد، جابر، حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ ہم پندرہ سو تھے اگر ہم ایک لاکھ بھی ہوتے تو (وہ پانی) ہمیں کافی ہوجاتا۔
جنگ کرنے کے ارادہ کے وقت لشکر کے امیر کی بیعت کرنے کے استح اور شجرہ کے نیچے بیعت رضوان کے بیان میں
عثمان بن ابی شیبہ، اسحاق بن ابراہیم، اسحاق، عثمان، جریر، اعمش، حضرت سالم بن ابی جعد (رض) سے روایت ہے کہ میں نے حضرت جابر (رض) سے کہا تم اس دن کتنی تعداد میں تھے انہوں نے کہا ایک ہزار چار سو۔
جنگ کرنے کے ارادہ کے وقت لشکر کے امیر کی بیعت کرنے کے استح اور شجرہ کے نیچے بیعت رضوان کے بیان میں
عبیداللہ بن معاذ، شعبہ، عمرو بن مرہ، حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ (رض) سے روایت ہے کہ ہم اصحاب شجرہ ایک ہزار تین سو تھے اور قبیلہ اسلم کے لوگ مہاجرین کا آٹھواں حصہ تھے۔
جنگ کرنے کے ارادہ کے وقت لشکر کے امیر کی بیعت کرنے کے استح اور شجرہ کے نیچے بیعت رضوان کے بیان میں
ابن مثنی، ابوداؤد، اسحاق بن ابراہیم، نضر بن شمیل، شعبہ، اس سند کے ساتھ بھی یہ حدیث مبارکہ اسی طرح مروی ہے۔
جنگ کرنے کے ارادہ کے وقت لشکر کے امیر کی بیعت کرنے کے استح اور شجرہ کے نیچے بیعت رضوان کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، یزید بن زریع، خالد، حکم بن عبداللہ بن اعرج، حضرت معقل بن یسار (رض) سے روایت ہے کہ مجھے بیعت رضوان کا واقعہ یاد ہے کہ نبی ﷺ صحابہ (رض) سے بیعت لے رہے تھے اور اس درخت کی شاخوں میں سے ایک ٹہنی کو میں آپ ﷺ کے سر اقدس سے ہٹا رہا تھا ہم چودہ سو تھے ہم نے موت پر بیعت نہیں کی لیکن ہماری بیعت اس پر تھی کہ ہم فرار نہیں ہوں گے۔
جنگ کرنے کے ارادہ کے وقت لشکر کے امیر کی بیعت کرنے کے استح اور شجرہ کے نیچے بیعت رضوان کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، خالد بن عبداللہ، یونس، اس سند سے بھی یہ حدیث مبارکہ روایت کی گئی ہے۔
جنگ کرنے کے ارادہ کے وقت لشکر کے امیر کی بیعت کرنے کے استح اور شجرہ کے نیچے بیعت رضوان کے بیان میں
حامد بن عمرو، ابوعوانہ، طارق، حضرت سعید بن مسیب (رض) سے روایت ہے کہ میرے والد بھی ان صحابہ (رض) میں سے ہیں جنہوں نے رسول اللہ ﷺ سے درخت کے پاس بیعت کی تھی انہوں نے کہا ہم اگلے سال حج کے لئے گئے تو اس درخت کی جگہ ہم سے پوشیدہ ہوگئی پس اگر وہ جگہ تمہارے لئے ظاہر ہوجائے تو تم زیادہ جانتے ہو۔
جنگ کرنے کے ارادہ کے وقت لشکر کے امیر کی بیعت کرنے کے استح اور شجرہ کے نیچے بیعت رضوان کے بیان میں
محمد بن رافع، ابواحمد، نصر بن علی، ابواحمد، سفیان، طارق بن عبدالرحمن، سعید بن مسیب، حضرت سعید بن مسیب (رض) اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ بیعت شجرہ والے سال رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے یہ فرماتے ہیں کہ وہ اگلے سال اس درخت کو بھول گئے۔
جنگ کرنے کے ارادہ کے وقت لشکر کے امیر کی بیعت کرنے کے استح اور شجرہ کے نیچے بیعت رضوان کے بیان میں
حجاج بن شاعر، محمد بن رافع، شبابہ، شعبہ، قتادہ، حضرت سعید بن مسیب (رض) اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ ہم نے اس درخت کو دیکھا تھا پھر میں اس کے پاس آیا تو میں اسے پہچان نہ سکا۔
جنگ کرنے کے ارادہ کے وقت لشکر کے امیر کی بیعت کرنے کے استح اور شجرہ کے نیچے بیعت رضوان کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، حاتم بن اسماعیل، یزید ابن ابی عبید مولیٰ سلمہ بن اکوع، حضرت یزید بن ابی عبید (رض) مولیٰ سلمہ بن اکوع (رض) سے روایت ہے کہ میں نے سلمہ سے کہا تم نے رسول اللہ ﷺ سے حدیبیہ کے دن کس بات پر بیعت کی تھی انہوں نے کہا موت پر۔
جنگ کرنے کے ارادہ کے وقت لشکر کے امیر کی بیعت کرنے کے استح اور شجرہ کے نیچے بیعت رضوان کے بیان میں
اسحاق بن ابراہیم، حماد بن مسعدہ، یزید، سلمہ، اس سند سے بھی یہ حدیث مبارکہ اسی طرح مروی ہے۔
جنگ کرنے کے ارادہ کے وقت لشکر کے امیر کی بیعت کرنے کے استح اور شجرہ کے نیچے بیعت رضوان کے بیان میں
اسحاق بن ابراہیم، حماد بن مسعد ہ، یزید سلمہ، حضرت عبداللہ بن زید (رض) سے روایت ہے کہ اس کے پاس کوئی آنے والا آیا اور اس نے کہا کہ ابن حنظلہ لوگوں سے بیعت لے رہے ہیں عبداللہ نے کہا کس بات پر اس نے کہا موت پر فرمایا اس بات پر رسول اللہ ﷺ کے بعد میں کسی سے بیعت نہیں کروں گا۔
مہاجر کا اپنے وطن ہجرت کو دوبارہ وطن بنانے کی حرمت کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، حاتم بن اسماعیل، یزید ابن ابی عبید، حضرت سلمہ بن اکوع (رض) حجاج کے پاس گئے تو اس نے کہا اے ابن اکوع تم ایڑیوں کے بل لوٹ کر صحرا میں بھاگ گئے تھے انہوں نے کہا نہیں بلکہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے صحرا میں واپس جانے کی اجازت دے دی تھی۔
فتح مکہ کے بعد اسلام جہاد اور بھلائی پر بیعت کرنے اور فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں ہے کی تاویل کے بیان میں
محمد بن صباح، ابوجعفر، اسماعیل بن زکریا، عاصم، ابوعثمان نہدی، مجاشع بن مسعود سلمی، حضرت مجاشع بن مسعود (رض) سلمی سے روایت ہے کہ میں نبی ﷺ کی خدمت میں ہجرت پر بیعت کرنے کے لئے حاضر ہوا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا اہل ہجرت کی ہجرت تو گزر چکی ہے لیکن اسلام جہاد اور بھلائی پر بیعت کرسکتے ہو۔
فتح مکہ کے بعد اسلام جہاد اور بھلائی پر بیعت کرنے اور فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں ہے کی تاویل کے بیان میں
سوید بن سعید، علی بن مسہر، عاصم، ابی عثمان، مجاشع بن مسعود سلمی، حضرت مجاشع بن مسعود سلمی (رض) سے روایت ہے کہ میں اپنے بھائی ابومعبد کو لے کر فتح مکہ کے بعد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ اس سے ہجرت پر بیعت لیں آپ ﷺ نے فرمایا اہل ہجرت کی ہجرت گزر چکی ہے میں نے عرض کیا پھر اس سے کس بات پر بیعت لیں گے آپ ﷺ نے فرمایا اسلام جہاد اور بھلائی پر ابوعثمان نے کہا میں ابومعبد سے ملا تو اسے مجاشع کے اس قول کی خبر دی تو انہوں نے کہا مجاشع نے سچ کہا ہے۔
فتح مکہ کے بعد اسلام جہاد اور بھلائی پر بیعت کرنے اور فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں ہے کی تاویل کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، محمد بن فضیل، عاصم، اس سند سے بھی یہ حدیث اسی طرح مروی ہے لیکن اس میں راوی کہتا ہے کہ میں نے اس کے بھائی سے ملاقات کی تو اس نے کہا مجاشع نے سچ کہا ہے ابومعبد کا نام ذکر نہیں کیا۔
فتح مکہ کے بعد اسلام جہاد اور بھلائی پر بیعت کرنے اور فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں ہے کی تاویل کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، اسحاق بن ابراہیم، جریر، منصور، مجاہد، طاؤس، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فتح یعنی فتح مکہ کے دن فرمایا اب ہجرت نہیں لیکن جہاد اور نیت ہے اور جب تمہیں جہاد کے لئے بلایا جائے تو چلے آؤ۔
فتح مکہ کے بعد اسلام جہاد اور بھلائی پر بیعت کرنے اور فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں ہے کی تاویل کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب، وکیع، سفیان، اسحاق بن منصور، ابن رافع، یحییٰ بن آدم، مفضل، ابن مہلہل، عبد بن حمید، عبیداللہ بن موسی، اسرائیل، منصور، ان اسناد سے بھی یہ حدیث اسی طرح مروی ہے۔
فتح مکہ کے بعد اسلام جہاد اور بھلائی پر بیعت کرنے اور فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں ہے کی تاویل کے بیان میں
محمد بن عبداللہ بن نمیر، ابی عبداللہ بن حبیب بن ابی ثابت، عبداللہ بن عبدالرحمن بن ابی حسین، عطاء، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے ہجرت کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں ہے لیکن جہاد اور نیت اور جب تمہیں جہاد کے لئے بلایا جائے تو فورا نکل پڑو۔
فتح مکہ کے بعد اسلام جہاد اور بھلائی پر بیعت کرنے اور فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں ہے کی تاویل کے بیان میں
ابوبکر بن خلاد باہلی، ولید بن مسلم، عبدالرحمن بن عمرو اوزاعی، ابن شہاب، زہری، عطاء بن یزید لیثی، حضرت ابوسعیدخدری (رض) سے روایت ہے کہ ایک اعرابی نے رسول اللہ ﷺ سے ہجرت کے بارے میں سوال کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا ارے ہجرت کا معاملہ تو بہت سخت ہے کیا تیرے پاس اونٹ ہیں اس نے عرض کیا جی ہاں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کیا تو ان کی زکوٰۃ ادا کرتا ہے اس نے عرض کیا جی ہاں آپ ﷺ نے فرمایا تو سمندر پار عمل کرتا رہ بیشک اللہ تیرے اعمال میں سے کچھ بھی ضائع نہیں فرمائے گا۔
فتح مکہ کے بعد اسلام جہاد اور بھلائی پر بیعت کرنے اور فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں ہے کی تاویل کے بیان میں
عبداللہ بن عبدالرحمن دارمی، محمد بن یوسف اوزاعی، اس سند سے بھی یہ حدیث اسی طرح مروی ہے اس میں ہے کہ اللہ تیرے کسی عمل کو ضائع نہیں کرے گا اور مزید یہ ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کیا تم اونٹنیوں کے پانی کے دن ان کا دودھ دوہنے کی اجازت دیتے ہو تو اس نے کہا جی ہاں۔
عورتوں کی بیعت کے طریقہ کے بیان میں
ابوطاہر، احمد بن عمرو بن سرح، ابن وہب، یونس بن یزید، ابن شہاب، عروہ بن زبیر، حضرت عائشہ (رض) ، سیدہ عائشہ (رض) زوجہ نبی ﷺ سے روایت ہے کہ جب مومن عورتیں رسول اللہ ﷺ کے پاس ہجرت کرکے آتیں تو آپ ﷺ اللہ کے اس قول کی بناء پر ان کا امتحان لیتے (یَاَیُّھَا النَّبِیُ اِذَا جَاءَکَ المُومِنٰتُ ) اے نبی جب آپ کے پاس عورتیں اس بات پر بیعت کرنے کے لئے حاضر ہوں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں کریں گیں اور نہ چوری کریں گیں اور نہ زنا کریں گیں "۔ سیدہ عائشہ (رض) نے کہا کہ مومن عورتوں میں سے جو ان باتوں کا اقرار کرلیتی تو اس کا امتحان منعقد ہوجاتا اور جب وہ ان باتوں کا اقرار کرلیتیں تو رسول اللہ ﷺ ان سے فرماتے جاؤ تحقیق ! میں تمہیں بیعت کرچکا ہوں اللہ کی قسم رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ نے کسی عورت کے ہاتھ کو نہ چھوا ہاں آپ ﷺ ان سے گفتگو کے ذریعہ بیعت لیتے تھے عائشہ (رض) نے کہا اللہ کی قسم رسول اللہ ﷺ نے عورتوں سے اللہ کے حکم کے علاوہ کسی بات پر بیعت نہیں لی اور نہ رسول اللہ ﷺ کی ہتھیلی نے کسی عورت کی ہتھیلی کو کبھی مس کیا اور آپ ﷺ جب ان سے بیعت لیتے تو انہیں زبان سے فرما دیتے کہ میں نے تمہاری بیعت کرلی۔
عورتوں کی بیعت کے طریقہ کے بیان میں
ہارون بن سعید ایلی، ابوطاہر، ابن وہب، مالک، ابن شہاب، حضرت عروہ (رض) سے روایت ہے کہ سیدہ عائشہ (رض) نے اسے عورتوں کی بیعت کی کیفیت کی خبر دی کہا رسول اللہ ﷺ نے کبھی کسی عورت کو اپنے ہاتھ سے نہیں چھوا ہاں جس وقت آپ ﷺ بیعت لیتے اور عورت (زبانی) عہد کرلیتی تو آپ ﷺ (زبان سے) فرما دیتے جاؤ میں نے تجھے بیعت کرلیا۔
حسب طاقت احکام سننے اور اطاعت کرنے کی بیعت کرنے کے بیان میں
یحییٰ بن ایوب، قتیبہ، ابن حجر، اسماعیل ابن جعفر، عبداللہ بن دینار، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ سے احکام سننے اور اطاعت کرنے پر بیعت کرتے تھے اور آپ ﷺ ہمیں ارشاد فرماتے تھے جہاں تک تمہاری طاقت ہو۔
سن بلوغ کے بیان میں
محمد بن عبداللہ بن نمیر، ابی عبیداللہ، نافع، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ میں نے چودہ سال کی عمر میں اپنے آپ کو غزوہ احد کے دن جہاد کے لئے رسول اللہ ﷺ پر پیش کیا آپ ﷺ نے مجھے اجازت مرحمت نہ فرمائی پھر میں نے اپنے آپ کو پندرہ سال کی عمر میں خندق کے دن پیش کیا تو آپ ﷺ نے اجازت مرحمت فرما دی نافع نے کہا کہ عمر بن عبدا لعزیز کے پاس ان دنوں میں آیا جب وہ خلیفہ تھے اور انہیں یہ حدیث بیان کی تو انہوں نے کہا یہ چھوٹے اور بڑے کے درمیان حد ہے انہوں نے اپنے عاملوں کو لکھا کہ جو پندرہ سال کا ہو اس کا حصہ مقرر کریں اور جو اس سے کم عمر کا ہو اسے بچوں میں شمار کریں۔
سن بلوغ کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، عبداللہ بن ادریس، عبدالرحیم بن سلیمان، محمد بن مثنی، عبدالوہاب ثقفی، عبیداللہ، اس سند کے ساتھ بھی یہ حدیث اسی طرح مروی ہے لیکن اس میں الفاظ ہیں کہ ابن عمر (رض) فرماتے ہیں میں چودہ سال کا تھا تو آپ ﷺ نے مجھے چھوٹا تصور فرمایا۔
جب کفار کے ہاتھوں گرفتار ہونے کا ڈر ہو تو قرآن مجید ساتھ لے کر کفار کی زمین کی طرف سفر کرنے کی ممانعت کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، مالک، نافع، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دشمنوں کے ملک کی طرف قرآن مجید ساتھ لے کر سفر کرنے سے منع فرمایا۔
جب کفار کے ہاتھوں گرفتار ہونے کا ڈر ہو تو قرآن مجید ساتھ لے کر کفار کی زمین کی طرف سفر کرنے کی ممانعت کے بیان میں
قتیبہ، لیث، ابن رمح، لیث، نافع، حضرت عبداللہ (رض) بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ دشمنوں کے ملک کی طرف اس ڈر کی وجہ سے قرآن ساتھ لے کر سفر کرنے سے منع کرتے تھے کہ کہیں قرآن دشمنوں کے ہاتھ نہ لگ جائے۔
جب کفار کے ہاتھوں گرفتار ہونے کا ڈر ہو تو قرآن مجید ساتھ لے کر کفار کی زمین کی طرف سفر کرنے کی ممانعت کے بیان میں
ابوربیع عتکی، ابوکامل، حماد، ایوب، نافع، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قرآن مجید ساتھ لے کر سفر نہ کرو کیونکہ میں قرآن کے دشمنوں کے ہاتھ لگ جانے سے بےخوف نہیں ہوں راوی ایوب نے کہا اگر قرآن کو دشمنوں نے پا لیا تو اس کے ذریعہ تم سے مقابلہ کریں گے۔
جب کفار کے ہاتھوں گرفتار ہونے کا ڈر ہو تو قرآن مجید ساتھ لے کر کفار کی زمین کی طرف سفر کرنے کی ممانعت کے بیان میں
زہیر بن حرب، اسماعیل، ابن علیہ، ابن ابی عمر، سفیان ثقفی، ایوب ابن رافع، ابن ابی فدیک ضحاک ابن عثمان نافع، ابن عمر، ان اسناد سے بھی یہ حدیث اسی طرح مروی ہے ایک سند میں ہے کہ ابن عمر (رض) فرماتے ہیں نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا میں خوف کرتا ہوں اور دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ دشمن کے ہاتھ لگ جانے کے خوف سے۔
گھوڑوں کے مابین مقابلہ اور اس کی تیاری کے بیان میں
یحییٰ بن یحییٰ ، تمیمی، مالک، نافع، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پریڈ کے قابل گھوڑوں میں حفیاء سے ثنیہ الوداع تک مقابلہ کرایا اور غیر قابل گھوڑوں میں ثنیہ سے مسجد بنی زریق تک مقابلہ کرایا اور ابن عمر (رض) بھی ان میں سے تھے جنہوں نے اس گھڑ دوڑ میں حصہ لیا۔
گھوڑوں کے مابین مقابلہ اور اس کی تیاری کے بیان میں
یحییٰ بن یحییٰ ، محمد بن رمح، قتیبہ بن سعید، لیث، سعد، ح، خلف بن ہشام، ابوربیع، ابوکاملاں اسناد سے بھی یہ حدیث اسی طرح مروی ہے صرف ایک روایت میں ہے کہ حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں میں آگے بڑھ گیا اور گھوڑا مجھے لے کر مسجد میں جا پہنچا۔
گھوڑوں کی فضیلت اور ان کی پیشانیوں میں خیر کے باندھے ہونے کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، تمیمی، مالک، نافع، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا گھوڑوں کی پیشانیوں میں خیر و برکت قیامت تک رکھی گئی ہے۔
گھوڑوں کی فضیلت اور ان کی پیشانیوں میں خیر کے باندھے ہونے کے بیان میں
قتیبہ، ابن رمح، لیث بن سعد، ابوبکر بن ابی شیبہ، علی بن مسہر، عبداللہ بن نمیر، عبیداللہ بن سعید، یحیی، عبیداللہ، ہارون بن سعید ایلی، ابن وہب، اسامہ، نافع، ابن عمران اسناد سے بھی یہ حدیث اسی طرح مروی ہے۔
گھوڑوں کی فضیلت اور ان کی پیشانیوں میں خیر کے باندھے ہونے کے بیان میں
نصر بن علی جہضمی، صالح بن حاتم بن وردان، یزید جہضمی، یزید بن زریع، یونس بن عبید، عمرو بن سعید، ابوزرعہ، عمرو بن جریر، حضرت جریر (رض) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اپنی انگلیوں کے ساتھ گھوڑے کی پیشانی کو ملتے دیکھا اور آپ ﷺ فرما رہے تھے گھوڑوں کی پیشانیوں میں خیروبرکت یعنی ثواب اور غنیمت قیامت کے دن تک باندھ دی گئی ہے۔
گھوڑوں کی فضیلت اور ان کی پیشانیوں میں خیر کے باندھے ہونے کے بیان میں
زہیر بن حرب، اسماعیل بن ابراہیم، ابوبکر بن ابی شیبہ، وکیع، سفیان، یونس، ان دونوں اسناد سے بھی یہ حدیث مبارکہ اسی طرح مروی ہے۔
گھوڑوں کی فضیلت اور ان کی پیشانیوں میں خیر کے باندھے ہونے کے بیان میں
محمد بن عبداللہ بن نمیر، زکریا، عامر عروہ، بارقی، حضرت عروہ بارقی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا گھوڑ روں کی پیشانیوں میں خیر و برکت یعنی اجر اور غنیمت قیامت کے دن تک باندھ دیئے گئے ہیں۔
گھوڑوں کی فضیلت اور ان کی پیشانیوں میں خیر کے باندھے ہونے کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابن فضیل، ابن ادریس، حصین، شعبی، عروہ، بارقی، حضرت عروہ بارقی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا گھوڑوں کی پیشانیوں میں خیر و بھلائی مرکوز ہے آپ ﷺ سے عرض کیا گیا اے اللہ کے رسول ﷺ کس وجہ سے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن تک ثواب اور غنیمت۔
گھوڑوں کی فضیلت اور ان کی پیشانیوں میں خیر کے باندھے ہونے کے بیان میں
اسحاق بن ابراہیم، جریر، حصین، عروہ بن جعد، اس سند سے بھی یہ حدیث اسی طرح مروی ہے لیکن اس میں عروہ بن جعد مذکور ہے۔
گھوڑوں کی فضیلت اور ان کی پیشانیوں میں خیر کے باندھے ہونے کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، ہشام، ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوالاحوص، اسحاق بن ابراہیم، ابن ابی عمر، سفیان، شبیب بن غرقدہ، عروہ بارقی، ان اسناد سے بھی عروہ باقی کی یہی حدیث نبی ﷺ سے اسی طرح مروی ہے۔
گھوڑوں کی فضیلت اور ان کی پیشانیوں میں خیر کے باندھے ہونے کے بیان میں
عبیداللہ بن معاذ، محمد بن مثنی، ابن بشار، یحییٰ بن سعید، شعبہ، ابوتیاح، انس بن مالک، حضرت عروہ بن جعد (رض) سے اس سند سے بھی یہ حدیث اسی طرح مروی ہے لیکن اس حدیث میں اجر و غنیمت کا ذکر نہیں۔
گھوڑوں کی فضیلت اور ان کی پیشانیوں میں خیر کے باندھے ہونے کے بیان میں
عبیداللہ بن معاذ، محمد بن مثنی، ابن بشار، یحییٰ بن سعید، شعبہ، ابوتیاح، انس بن مالک، حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ برکت گھوڑوں کی پیشانیوں میں ہے۔
گھوڑوں کی فضیلت اور ان کی پیشانیوں میں خیر کے باندھے ہونے کے بیان میں
یحییٰ بن حبیب، ابن حارث، محمد بن ولید، محمد بن جعفر، شعبہ، ابوتیاح، اس سند کے ساتھ بھی حضرت انس (رض) سے یہ حدیث اسی طرح مروی ہے۔
گھوڑوں کی ناپسند یدہ صفات کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، ابوبکر بن ابی شیبہ زہیر بن حرب، ابوکریب یحییٰ وکیع سفیان سلم ابن عبدالرحمن ابی زرعہ، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ کو گھوڑوں میں سے شکال ناپسندیدہ تھے۔
گھوڑوں کی ناپسند یدہ صفات کے بیان میں
محمد بن نمیر، ابوعبدالرحمن بن بشر، عبدالرزاق، سفیان اس سند سے بھی یہ حدیث اسی طرح مروی ہے عبدالرزاق کی حدیث میں یہ اضافہ ہے کہ شکال یہ ہے کہ گھوڑے کے دائیں پاؤں اور بائیں ہاتھ میں سفیدی ہو یا دائیں ہاتھ اور بائیں پاؤں میں سفیدی ہو۔
گھوڑوں کی ناپسند یدہ صفات کے بیان میں
بن بشار محمد ابن جعفر محمد بن مثنی، وہب بن جریر، شعبہ، عبداللہ بن یزید نخعی، ابی زرعہ حضرت ابوہریرہ (رض) سے نبی ﷺ کی یہ حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
جہاد اور اللہ کے راستہ میں نکلنے کی فضلیت کے بیان میں
زہیر بن حرب، جریر، عمارہ ابن قعقاع، ابی زوعہ، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ اس کا ضامن ہوجاتا ہے جو اس کے راستہ میں نکلتا ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالٰی فرماتا ہے :" جو شخص صرف میرے راستہ میں جہاد اور مجھ پر ایمان اور میرے رسول کی تصدیق کرتے ہوئے نکلتا ہے تو اس کی مجھ پر ذمہ داری ہے کہ اس کو جنت میں داخل کروں گا یا اس کو اس کے اس گھر کی طرف اجر وثواب اور غنیمت۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے " جس کے قبضہ قدرت میں مجھ محمد کی جان ہے اللہ کے راستہ میں جو بھی زخم لگتا ہے وہ زخم لگنے کے وقت تھا اس کا رنگ خون کا رنگ ہوگا اور اس کی خوشبو مشک کی ہوگی اور اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میں محمد ﷺ کی جان ہے اگر مسلمانوں پر دشوار نہ ہوتا تو میں اللہ کے راستہ میں جنگ کرنے والے لشکر کا ساتھ کبھی نہ چھوڑتا لیکن میں اتنی وسعت نہیں پاتا کہ ان سب لشکر والوں کو سواریاں دوں اور نہ وہ اتنی وسعت پاتے ہیں اور ان پر مشکل ہوتا ہے کہ وہ مجھ سے پیچھے رہ جائیں اور اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں محمد ﷺ کی جان ہے مجھے یہ بات پسند ہے کہ میں اللہ کے راستہ میں جہاد کروں پھر مجھے قتل کیا جائے پھر جہاد کروں تو مجھے قتل کیا جائے پھر جہاد کروں تو مجھے قتل کیا جائے۔
جہاد اور اللہ کے راستہ میں نکلنے کی فضلیت کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب، ابن فضیل، عمارہ، اس سند سے بھی یہ حدیث مبارکہ اسی طرح مروی ہے۔
جہاد اور اللہ کے راستہ میں نکلنے کی فضلیت کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، مغیرہ بن عبدالرحمن حزامی، ابی زناد، اعرج، ابوہریرہ، حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم ﷺ سے روایت ہے کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا جو صرف اللہ کے راستہ میں جہاد کے لئے اس کے دین کی تصدیق کی خاطر اپنے گھر سے نکلتا ہے تو اللہ اس کے لئے اس بات کا ضامن ہوجاتا ہے کہ اسے جنت میں داخل کرے گا یا اسے اس کے گھر لوٹائے گا کہ اس کے ساتھ اجر وثواب یا مال غنیمت ہوگا۔
جہاد اور اللہ کے راستہ میں نکلنے کی فضلیت کے بیان میں
عمرو ناقد، زہیر بن حرب، سفیان بن عیینہ، ابی زناد، اعرج، حضرت ابوہریرہ (رض) نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا اللہ کے راستہ میں جو آدمی بھی زخمی ہوتا ہے تو اللہ جانتا ہے کہ کسے زخم دیا گیا ہے وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے زخم کا رنگ تو خون کی طرح ہوگا لیکن اس کی خوشبو مشک کی طرح ہوگی۔
جہاد اور اللہ کے راستہ میں نکلنے کی فضلیت کے بیان میں
محمد بن رافع، عبدالرزاق، معمر، ہمام بن منبہ، ابوہریرہ، حضرت ہمام بن منبہ (رض) سے روایت ہے کہ حضرت ابوہریرہ (رض) نے رسول اللہ ﷺ کی کئی احادیث ذکر کیں ان میں سے یہ حدیث بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہر وہ زخم جو کسی مسلمان کو اللہ کے راستے میں لگے پھر وہ قیامت کے دن اپنی اسی صورت پر ہوگا جس طرح وہ زخم لگائے جانے کے وقت تھا کہ اس سے خون نکل رہا ہوگا اس کا رنگ خون کا رنگ ہوگا اور خوشبو مشک کی خوشبو ہوگی اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد ﷺ کی جان ہے اگر مومنوں پر دشوار نہ ہوتا تو میں اللہ کے راستہ میں لڑنے والے کسی لشکر سے پیچھے نہ رہتا لیکن میں اتنی وسعت نہیں رکھتا کہ ان سب کو سواریاں عطا کرسکوں اور نہ وہ وسعت رکھتے ہیں کہ وہ میرے ساتھ جاسکیں اور ان کے دل میرے سے پیچھے رہ جانے سے خوش نہیں ہیں۔
جہاد اور اللہ کے راستہ میں نکلنے کی فضلیت کے بیان میں
ابن ابی عمر، سفیان، ابی زناد، اعرج، ابوہریرہ، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے تھے اگر مومنین پر مشکل نہ ہوتی تو میں کسی لشکر سے پیچھے نہ رہتا باقی حدیث ان اسناد سے اسی طرح روایت کی ہے اضافہ یہ ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے مجھے یہ بات پسند ہے کہ مجھے اللہ کے راستہ میں شہید کیا جائے پھر زندہ کیا جائے باقی حدیث ابوزرعہ کی ابوہریرہ (رض) کی حدیث کی طرح ہے۔
جہاد اور اللہ کے راستہ میں نکلنے کی فضلیت کے بیان میں
محمد بن مثنی، عبدالوہاب ثقفی، ابوبکر بن ابی شیبہ، ابومعاویہ، ابن ابی عمر، مروان بن معاویہ، یحییٰ بن سعید، ابوصالح، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اگر میری امت پر مشکل نہ ہوتا تو مجھے یہ بات پسند تھی کہ میں کسی بھی لشکر سے پیچھے نہ رہتا باقی حدیث گزر چکی ہے۔
جہاد اور اللہ کے راستہ میں نکلنے کی فضلیت کے بیان میں
زہیر بن حرب، جریر، سہیل، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ اس پر ضامن ہوتا ہے جو اس کے راستہ میں نکلا ہو آپ ﷺ کے قول میں اللہ کے راستہ میں کسی لڑنے والے لشکر سے کبھی پیچھے نہ رہتا تک۔
اللہ تعالیٰ کے راستہ میں شہادت کی فضلیت کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوخالد احمر، شعبہ، قتادہ، حمید، حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کوئی شخص ایسا نہیں جس کا اللہ کے ہاں اجر وثواب ہو اور وہ دنیا کی طرف لوٹنے کو بلکہ پسند کرتا ہو اور نہ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ دنیا اور جو کچھ اس میں ہے اس کا ہوجائے سوائے شہید کے کہ وہ تمنا کرتا ہے کہ وہ دنیا میں واپس جائے پھر قتل کیا جائے بوجہ اس کے جو اس نے شہادت کی فضیلت دیکھی۔
اللہ تعالیٰ کے راستہ میں شہادت کی فضلیت کے بیان میں
محمد بن مثنی، ابن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، قتادہ، حضرت انس بن مالک (رض) نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا کوئی ایسا نہیں جسے جنت میں داخل کردیا جائے وہ اس بات کی پسند کرتا ہو کہ اسے دنیا میں لوٹا دیا جائے اور اس کے لئے روئے زمین کی تمام چیزیں ہوں سوائے شہید کے کہ وہ تمنا کرتا ہے کہ اسے لوٹایا جائے پھر اسے دس مرتبہ قتل کیا جائے بوجہ اس کے جو اس نے عزت و کر امت دیکھی۔
اللہ تعالیٰ کے راستہ میں شہادت کی فضلیت کے بیان میں
سعید بن منصور، خالد بن عبداللہ واسطی، سہیل بن ابوصالح، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ سے عرض کیا گیا اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے کے برابر بھی کوئی عبادت ہے آپ ﷺ نے فرمایا تم اس عبادت کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے ابوہریرہ ﷺ کہتے ہیں کہ یہ سوال آپ ﷺ کے سامنے دو یا تین مرتبہ دہرایا گیا اور ہر مرتبہ کے جواب میں یہی فرمایا تم اس کی استطاعت نہیں رکھتے اور تیسری مرتبہ فرمایا اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والا جہاد سے واپسی تک اس شخص کی طرح جو روزہ ادار قیام کرنے والا اور اللہ کی آیات پر عمل کرنے والا ہو اور روزہ و نماز سے تھکنے والا نہ ہو۔
اللہ تعالیٰ کے راستہ میں شہادت کی فضلیت کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، ابوعوانہ، زہیر بن حرب، جریر، ابوبکر بن ابی شیبہ، ابومعاویہ، سہیل، ان دو اسناد سے بھی یہی حدیث مبارکہ اسی طرح مروی ہے۔
اللہ تعالیٰ کے راستہ میں شہادت کی فضلیت کے بیان میں
حسن بن علی حلوانی، ابوتوبہ، معاویہ، زید بن سلام، ابوسلام، حضرت نعمان بن بشیر (رض) سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کے منبر کے پاس تھا کہ ایک شخص نے کہا مجھے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ میں اسلام لانے کے بعد سوائے حاجیوں کو پانی پلانے کے کوئی عمل نہ کروں اور دوسرے نے کہا مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ میں اسلام لانے کے بعد مسجد حرام کو آباد کرنے کے علاوہ کوئی عمل نہ کروں تیسرے نے کہا اللہ کے راستہ میں جہاد اس سے افضل ہے جو تم نے کہا۔ حضرت عمر (رض) نے ان سب کو ڈاٹنا اور کہا کہ اپنی آوازوں کو رسول اللہ ﷺ کے منبر کے پاس بلند نہ کرو یہ جمعہ کا دن تھا لیکن جمعہ کی نماز ادا کرنے کے بعد آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر میں نے آپ ﷺ سے اس کا فتوی طلب کیا جس میں انہوں نے اختلاف کیا تو اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی کیا تم حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد حرام کو آباد کرنے کو اس شخص کے عمل کے برابر قرا دیتے ہو جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لایا ہو اور اس نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا ہو۔
اللہ تعالیٰ کے راستہ میں شہادت کی فضلیت کے بیان میں
عبداللہ بن عبدالرحمن دارمی، یحییٰ بن حسان، معاویہ، زید، حضرت نعمان بن بشیر (رض) سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کے منبر کے پاس تھا باقی حدیث گزر چکی ہے۔
اللہ عز وجل کے راستہ میں صبح یا شام کو نکلنے کی فضلیت کے بیان میں
عبداللہ بن مسلمہ بن قعنب، حماد بن سلمہ، ثابت، انس بن مالک، حضرت انس (رض) بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ کے راستہ میں ایک صبح یا شام نکلنا دنیا اور جو کچھ اس میں ہے سے بہتر ہے۔
اللہ عز وجل کے راستہ میں صبح یا شام کو نکلنے کی فضلیت کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، عبدالعزیز بن ابی حازم، حضرت سہل بن سعد ساعدی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وہ صبح جسے بندہ اللہ کے راستہ میں طلوع کرے دنیا اور جو کچھ اس میں ہے سے بہتر ہے۔
اللہ عز وجل کے راستہ میں صبح یا شام کو نکلنے کی فضلیت کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، زہیر بن حرب، وکیع، سفیان، ابی حازم، حضرت سہل بن سعد ساعدی (رض) نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ایک صبح یا شام اللہ کے راستہ میں جانا الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا سے افضل ہے۔
اللہ عز وجل کے راستہ میں صبح یا شام کو نکلنے کی فضلیت کے بیان میں
ابن ابی عمر، مروان بن معاویہ، یحییٰ بن سعید، ذکوان، ابوصالح، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر میری امت میں ایسے لوگ نہ ہوتے باقی حدیث گزر چکی ہے اور اس میں یہ اضافہ ہے اللہ کے راستہ میں شام یا صبح کرنا الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا سے افضل ہے۔
اللہ عز وجل کے راستہ میں صبح یا شام کو نکلنے کی فضلیت کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، اسحاق بن ابراہیم، زہیر بن حرب، ابوبکر اسحاق، مقری، عبداللہ بن یزید، سعید بن ابی ایوب، شرحبیل بن شریک معافری، ابوعبدالرحمن حبلی حضرت ابوایوب سے روایت ہے کہ اللہ کے راستہ میں صبح یا شام کرنا بہتر ہے ہر اس چیز سے جس پر سورج طلوع اور غروب ہوتا ہے۔
اللہ عز وجل کے راستہ میں صبح یا شام کو نکلنے کی فضلیت کے بیان میں
محمد بن عبداللہ بن قہزاذ، علی بن حسن، عبداللہ بن مبارک، سعید بن ایوب بن شریح، شرحبیل بن شریک، ابوعبدالرحمن حبلی، ابوایوب انصاری، اس سند سے بھی یہ حدیث بالکل من وعن مروی ہے۔
جنت میں مجاہد کے لئے اللہ تعالیٰ کے تیار کردہ درجات کے بیان میں
سعید بن منصور، عبداللہ بن وہب ابوہانی خولانی، ابوعبدالرحمن حبلی، حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے ابوسعید جو اللہ کے رب ہونے پر اسلام کے دین ہونے پر اور محمد ﷺ کے نبی ہونے پر راضی ہوا اس کے لئے جنت واجب ہوگئی ابوسعید نے اس بات پر تعجب کیا تو عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ ان کو دوبارہ شمار فرمائیں آپ نے ایسا (دوبارہ) کیا پھر فرمایا ایک اور بات بھی ہے کہ اس کی وجہ سے بندے کے جنت میں سو درجات بلند ہوتے ہیں اور ہر دو درجات کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا آسمان اور زمین کے درمیان ہے عرض کیا اے اللہ کے رسول وہ کیا ہے آپ ﷺ نے فرمایا اللہ کے راستہ میں جہاد اللہ کے راستہ میں جہاد۔
جسے اللہ کے راستہ میں قتل کیا جائے اس کے قرض کے سوا تمام گناہوں کے معاف ہونے کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، لیث، سعید بن ابوسعید، عبداللہ حضرت ابوقتادہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام (رض) کے درمیان کھڑے ہو کر ارشاد فرمایا اللہ کے راستہ میں جہاد اور اللہ پر ایمان لانا افضل الاعمال ہیں ایک آدمی نے کھڑا ہو کر عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ اگر میں اللہ کے راستہ میں قتل کیا جاؤں تو میرے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا اس بارے میں آپ ﷺ کیا فرماتے ہیں تو رسول اللہ ﷺ نے اسے فرمایا ہاں اگر تو اللہ کے راستہ میں قتل کیا جائے اور تو صبر کرنے والا (ثابت قدم) ، ثواب کی نیت رکھنے والا اور پیٹھ پھیرے بغیر دشمن کی طرف متوجہ رہنے والا ہو پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم نے کیا کہا تھا اس نے کہا میں نے کہا تھا کہ اگر میں اللہ کے راستہ میں قتل کیا جاؤں تو کیا میرے گناہ مجھ سے دور ہوجائیں گے تو نبی ﷺ نے فرمایا ہاں اس صورت میں کہ تو صبر کرنے والا ثواب کی نیت رکھنے والا اور پیٹھ پھیرے بغیر دشمن کی طرف متوجہ رہنے والا ہو تو سوائے قرض کے (سب گناہ معاف ہوجائیں گے) کیونکہ جبرائیل نے مجھے یہی کہا ہے۔
جسے اللہ کے راستہ میں قتل کیا جائے اس کے قرض کے سوا تمام گناہوں کے معاف ہونے کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، محمد بن مثنی، یزید بن ہارون، یحییٰ بن سعید، سعید بن ابوسعید مقبری، حضرت عبداللہ بن ابوقتادہ (رض) اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی مجھے بتائیں اگر میں اللہ کے راستہ میں قتل کیا جاؤں باقی حدیث مبارکہ گزر چکی ہے۔
جسے اللہ کے راستہ میں قتل کیا جائے اس کے قرض کے سوا تمام گناہوں کے معاف ہونے کے بیان میں
سعید بن منصور، سفیان، عمرو بن دینار، محمد بن قیس، محمد بن عجلان، محمد بن قیس، حضرت عبداللہ بن ابوقتادہ (رض) اپنے باپ کے واسطہ سے نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ ﷺ منبر پر تھے اس نے عرض کیا اگر مجھے میری تلوار سے مارا جائے تو آپ ﷺ کیا فرماتے ہیں باقی حدیث مبارکہ گزر چکی ہے۔
جسے اللہ کے راستہ میں قتل کیا جائے اس کے قرض کے سوا تمام گناہوں کے معاف ہونے کے بیان میں
زکریا بن یحییٰ بن صالح مصری، ابن فضالہ، ابن عباس قتبانی، عبداللہ بن یزید، ابی عبدالرحمن حبلی، حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے ارشاد فرمایا شہید سے سوائے قرض کے سب گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔
جسے اللہ کے راستہ میں قتل کیا جائے اس کے قرض کے سوا تمام گناہوں کے معاف ہونے کے بیان میں
زہیر بن حرب، عبداللہ بن یزید مقری، سعید بن ابی ایوب، عیاش بن عباس قتبانی، ابی عبدالرحمن حبلی، حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا اللہ کے راستہ میں قتل ہونا سوائے قرض کے سب گناہوں کو ختم کردیتا ہے۔
شہدا کی روحوں کے جنت میں ہونے اور شہدا کے زندہ ہونے اور اپنے رب سے رزق دیے جانے کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، ابوبکر بن ابی شیبہ، ابی معاویہ، اسحاق بن ابراہیم، جریر، عیسیٰ بن یونس، اعمش، محمد بن عبداللہ بن نمیر حضرت مسروق سے روایت ہے کہ ہم نے حضرت عبداللہ سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا جنہیں اللہ کے راستہ میں قتل کیا جائے انہیں مردہ گمان نہ کرو بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس سے رزق دیئے جاتے ہیں تو انہوں نے کہا ہم نے بھی رسول اللہ ﷺ سے اس بارے میں سوال کیا تھا تو آپ ﷺ نے فرمایا ان کی روحیں سبز پرندوں کے جوف میں ہوتی ہیں ان کے لئے ایسی قندیلیں ہیں جو عرش کے ساتھ لٹکی ہوئی ہیں اور وہ روحیں جنت میں پھرتی رہتی ہیں جہاں چاہیں پھر انہیں قندیلوں میں واپس آجاتی ہیں ان کا رب ان کی طرف مطلع ہو کر فرماتا ہے کیا تمہیں کسی چیز کی خواہش ہے وہ عرض کرتے ہیں ہم کس چیز کی خواہش کریں حالانکہ ہم جہاں چاہتے ہیں جنت میں پھرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان سے اس طرح تین مرتبہ فرماتا ہے جب وہ دیکھتے ہیں کہ انہیں کوئی چیز مانگے بغیر نہیں چھوڑا جائے گا تو وہ عرض کرتے ہیں اے رب ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہماری روحیں ہمارے جسموں میں لوٹا دیں یہاں تک کہ ہم تیرے راستہ میں دوسری مرتبہ قتل کئے جائیں جب اللہ دیکھتا ہے کہ انہیں اب کوئی ضرورت نہیں تو انہیں چھوڑ دیا جاتا ہے۔
جہاد کرنے اور پہرہ دینے کی فضلیت کے بیان میں
منصور بن ابی مزاحم، یحییٰ بن حمزہ، محمد بن ولید زبیدی، زہری، عطاء بن یزید لیثی، حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا لوگوں میں سے کونسا آدمی افضل ہے آپ ﷺ نے فرمایا وہ آدمی جو اللہ کے راستہ میں اپنی جان اور مال سے جہاد کرتا ہے اس نے عرض کیا پھر کون افضل ہے آپ ﷺ نے فرمایا وہ مومن جو پہاڑ کی گھاٹیوں میں سے کسی گھاٹی میں رہ کر اللہ کی عبادت کرتا ہو اور لوگوں کو اپنی برائی سے محفوظ رکھتا ہو۔
جہاد کرنے اور پہرہ دینے کی فضلیت کے بیان میں
عبد بن حمید، عبدالرزاق، معمر، زہری، عطاء بن یزید، لیثی، حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ لوگوں میں سے کون سب سے افضل ہے آپ ﷺ نے فرمایا وہ مومن جو اپنی جان اور اپنے مال میں سے اللہ کے راستہ میں جہاد کرتا ہو اس نے عرض کیا پھر کون آپ ﷺ نے فرمایا جو شخص یکسو ہو کر پہاڑ کی گھاٹیوں میں کسی گھاٹی میں اپنے رب کی عبادت کرتا ہو اور لوگوں کو اپنی برائی سے محفوظ رکھتا ہو۔
جہاد کرنے اور پہرہ دینے کی فضلیت کے بیان میں
عبداللہ بن عبدالرحمن دارمی، محمد بن یوسف اوزاعی، ابن شہاب، اس سند سے بھی یہ حدیث مروی ہے لیکن اس میں (رَجُلٌ فِي شِعْبٍ ) ہے ثم رجل نہیں کہا۔
جہاد کرنے اور پہرہ دینے کی فضلیت کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، تمیمی عبدالعزیز بن ابی حازم بعجہ، حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا لوگوں میں بہترین زندگی اس شخص کی ہے جو اپنے گھوڑے کی لگام تھامے اس کی پشت پر اللہ کے راستہ میں اڑا جا رہا ہو جب وہ دشمن کی آواز سنے یا خوف محسوس کرے تو اسی طرح اڑ جائے قتل اور موت کو تلاش کرتے ہوئے یا اس شخص کی زندگی بہتر ہے جو چند بکریاں لے کر پہاڑ کی ان چوٹیوں میں سے کسی چوٹی پر یا ان وادیوں میں سے کسی وادی میں رہتا ہو نماز قائم کرتا ہوں زکوٰۃ ادا کرتا ہو اور اپنے رب کی عبادت کرتا ہو یہاں تک کہ اسے اسی حال میں موت آجائے اور سوائے خیر کے لوگوں کے کسی معاملہ میں نہ پڑتا ہو۔
جہاد کرنے اور پہرہ دینے کی فضلیت کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، عبدالعزیزبن ابی حازم، یعقوب ابن عبدالرحمن قاری، ابوحازم، اس سند سے بھی یہ حدیث مبارکہ اسی طرح مروی ہے اور ایک روایت میں (مِنْ هَذِهِ الشِّعَابِ ) کے الفاظ مروی ہے۔
جہاد کرنے اور پہرہ دینے کی فضلیت کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، زہیر بن حرب، ابوکریب، وکیع، اسامہ بن زید، بعجہ بن عبداللہ جہنی، حضرت ابوہریرہ (رض) نبی ﷺ سے اسی طرح حدیث روایت کرتے ہیں لیکن اس میں ( فِي شِعْبٍ مِنْ الشِّعَابِ ) کے الفاظ ہیں۔
ان دو آدمیوں کے بیان میں جن میں سے ایک دوسرے کو قتل کرے لیکن دونوں جنت میں داخل ہوں گے
محمد بن ابی عمر مکی، سفیان، ابوزناد، اعرج، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ دو آدمیوں کی طرف دیکھ کر ہنستا ہے کہ ان میں سے ایک آدمی دوسرے کو قتل کرے اور دونوں جنت میں داخل ہوجائیں صحابہ (رض) نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ یہ کیسے ہوسکتا ہے آپ ﷺ نے فرمایا یہ آدمی اللہ کے راستہ میں جہاد کرتا ہوا شہید ہوجائے پھر اللہ تعالیٰ قاتل کی طرف رجوع کرے اور وہ اسلام قبول کرکے اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جہاد کرتا ہوا شہید ہوجائے (جیسے، حضرت حمزہ اور وحشی (رض) ۔
ان دو آدمیوں کے بیان میں جن میں سے ایک دوسرے کو قتل کرے لیکن دونوں جنت میں داخل ہوں گے
ابوبکر بن ابی شیبہ، زہیر بن حرب، ابوکریب، وکیع، سفیان، ابی زناد، اس سند سے بھی یہ حدیث اسی طرح مروی ہے۔
ان دو آدمیوں کے بیان میں جن میں سے ایک دوسرے کو قتل کرے لیکن دونوں جنت میں داخل ہوں گے
محمد بن رافع، عبدالرزاق، معمر، ہمام بن منبہ، حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی احادیث میں سے ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ دو آدمیوں کی وجہ سے ہنستا ہے کہ ان میں سے ایک دوسرے کو قتل کر دے اور دونوں جنت میں داخل ہوجائیں صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ یہ کیسے ممکن ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا یہ شہید کیا گیا اس لئے جنت میں داخل ہوگا پھر اللہ دوسرے پر رحمت فرمائے گا اور اسے اسلام کی ہدایت عطا فرمائے گا پھر وہ اللہ کے راستہ میں جہاد کرتا ہوا شہید کردیا جائے۔
جس نے کافر کو قتل کیا اسے جہنم سے روک دیے جانے کے بیان میں
یحییٰ بن ایوب، قتیبہ، علی بن حجر، اسماعیل یعنون ابن جعفر، علاء، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کافر اور اسے قتل کرنے والا مسلمان کبھی جہنم میں اکٹھے نہ ہوں گے۔
جس نے کافر کو قتل کیا اسے جہنم سے روک دیے جانے کے بیان میں
عبداللہ بن عون ہلالی، ابواسحاق فزاری، ابراہیم بن محمد، سہیل، ابوصالح، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دوزخ میں دو آدمیوں کا اجتماع اس طرح نہ ہوگا کہ ان میں سے ایک دوسرے کو کوئی نقصان پہنچا سکے عرض کیا گیا اے اللہ کے رسول ﷺ ! وہ کون لوگ ہوں گے ؟ فرمایا وہ مومن جس نے کافر کو قتل کیا پھر اعمال خیر پر کار بند رہا۔
اللہ کے راستہ میں صدقہ کرنے کی فضلیت کے بیان میں
اسحاق بن ابراہیم حنظلی، جریر، اعمش، ابوعمرو، حضرت ابومسعود انصاری سے روایت ہے کہ ایک آدمی ایک اونٹنی لے کر آیا جس کو مہار ڈالی ہوئی تھی عرض کیا یہ اس کے راستہ (صدقہ) میں ہے تو اسے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تیرے پاس قیامت کے دن اس کے بدلہ سات سو اونٹیناں ہوں گی جن کی مہار ڈالی ہوئی ہوگی۔
اللہ کے راستہ میں صدقہ کرنے کی فضلیت کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابواسامہ، زائدہ، بشر بن خالد بن جعفر، شعبہ، اعمش، اس سند سے بھی یہ حدیث روایت کی گئی ہے۔
اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والے کی سواری وغیرہ سے مدد کرنے کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب، ابن ابی عمر، ابومعاویہ، اعمش، ابوعمرو شیبانی، حضرت ابومسعود انصاری سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی ﷺ کے پاس آ کر عرض کیا، میری سواری ہلاک ہوگئی ہے آپ ﷺ مجھے سوار کردیں آپ ﷺ نے فرمایا میرے پاس تو کوئی سواری نہیں ہے ایک آدمی نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ میں اس کی اس آدمی کی طرف راہنمائی کرتا ہوں جو اسے سواری دے دے گا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس آدمی نے کسی کی نیکی پر راہنمائی کی تو اس کے لئے اس عمل کرنے والے کی مثل اجر وثواب ہوگا۔
اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والے کی سواری وغیرہ سے مدد کرنے کے بیان میں
اسحاق بن ابراہیم، عیسیٰ بن یونس، بشر بن خالد، محمد بن جعفر، شعبہ، محمد بن رافع، عبدالرزاق، سفیان، اعمش، ان دونوں اسناد سے بھی یہ حدیث مبارکہ روایت کی گئی ہے۔
اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والے کی سواری وغیرہ سے مدد کرنے کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، عفان، حماد بن سلمہ، ثابت، انس بن مالک، ابوبکر بن نافع، بہز، حماد بن سلمہ، ثابت، حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ بنی اسلام کے ایک نوجوان نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ میں جہاد کا ارادہ رکھتا ہوں لیکن میرے پاس سامان جہاد نہیں ہے آپ ﷺ نے فرمایا فلاں کے پاس جاؤ کیونکہ اس نے سامان جہاد تیار کیا تھا لیکن وہ بیمار ہوگیا ہے اس نے اس آدمی کے پاس جا کر کہا رسول اللہ ﷺ تجھے سلام کہتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ تم اپنا تیار شدہ سامان مجھے عطا کردو اس نے کہا اے فلانی اسے وہ سامان عطا کر دے جو میں نے تیار کیا تھا اور اس میں سے کسی چیز کو بھی نہ رکھنا اللہ کی قسم ! اس میں سے کوئی چیز بچا کر نہ رکھنا کیونکہ اس میں تیرے لئے برکت نہ ہوگی۔
اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والے کی سواری وغیرہ سے مدد کرنے کے بیان میں
سعید بن منصور، ابوطاہر، ابن وہب، سعید، عبداللہ بن وہب، عمرو بن حارث، بکیر بن اشج، بسر بن سعید، حضرت زید بن خالد جہنی (رض) رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا جس نے اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والے کو سامان تیار کرکے دیا تو اس نے بھی جہاد کیا اور جس نے اس مجاہد کے بعد اس کے اہل و عیال کے ساتھ بھلائی کی تو اس نے بھی جہاد کیا۔
اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والے کی سواری وغیرہ سے مدد کرنے کے بیان میں
ابوربیع زہرانی، یزید بن زریع، حسین معلم، یحییٰ بن ابی کثیر، ابوسلمہ بن عبدالرحمن، بسر بن سعید، زید بن خالد جہنی، حضرت زید بن خالد (رض) سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا جس نے کسی مجاہد کے لئے سامان تیار کیا تو اس نے جہاد کیا اور جو شخص مجاہد کے پیچھے اس کے اہل و عیال میں رہا تو اس نے بھی جہاد کیا۔
اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والے کی سواری وغیرہ سے مدد کرنے کے بیان میں
زہیر بن حرب، اسماعیل بن علیۃ، علی بن مبارک، یحییٰ بن ابی کثیر، ابوسعید مہری، ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک لشکر بنو لحیان کی طرف بھیجا (جو کہ ہذیل کا ایک قبیلہ ہے) تو فرمایا : ہر دو آدمیوں میں سے ایک آدمی جائے اور ثواب دونوں کے لئے برابر ہوگا۔
اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والے کی سواری وغیرہ سے مدد کرنے کے بیان میں
اسحاق بن منصور، عبدالصمد بن عبدالوارث، ابی حسین، یحیی، ابوسعید مہری، حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک لشکر بھیجا باقی حدیث اسی طرح ہے۔
اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والے کی سواری وغیرہ سے مدد کرنے کے بیان میں
اسحاق بن منصور، عبیداللہ ابن موسی، شیبان، یحیی، اس سند سے بھی یہ حدیث اسی طرح روایت کی گئی ہے۔
اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والے کی سواری وغیرہ سے مدد کرنے کے بیان میں
سعید بن منصور، عبداللہ بن وہب، عمرو بن حارث، یزید بن ابی حبیب، یزید بن ابوسعید مولیٰ مہری، حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بنو لحیان کی طرف ایک لشکر روانہ کیا تو فرمایا ہر دو آدمیوں میں سے ایک آدمی جائے پھر گھر پر رہنے والوں سے فرمایا تم میں سے جو شخص اللہ کے راستہ میں جانے والے کے اہل و عیال اور مال کی نگرانی کرے گا تو اس کے لئے جہاد میں جانے والے سے آدھا ثواب ہوگا۔
مجاہدین کی عورتوں کے عزت اور جو ان میں خیانت کرے اس کے گناہ کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، وکیع، سفیان، علقمہ ابن مرثد، سلیمان بن بریدہ (رض) ، حضرت بریدہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا مجاہدین کی عورتوں کی حرمت وعزت گھروں میں رہنے والوں کے لئے ایسی ہے جیسے ان کی ماؤں کی عزت ہے کوئی آدمی گھر میں رہنے والوں میں سے ایسا نہیں جو مجاہدین کے کسی آدمی کے گھر میں اس کے بعد نگرانی کرنے والا ہو پھر ان میں خیانت کا مرتکب ہو کہ اسے قیامت کے دن کھڑا نہ کیا جائے پھر وہ مجاہد اس کے اعمال میں سے جو چاہے گا لے لے گا اب تمہارا کیا خیال ہے (کہ وہ کونسی نیکی لے لے گا) ؟
مجاہدین کی عورتوں کے عزت اور جو ان میں خیانت کرے اس کے گناہ کے بیان میں
محمد بن رافع، یحییٰ بن آدم، مسعر، علقمہ ابن مرثد، ابن بریدہ، حضرت بریدہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا باقی حدیث اسی طرح ہے۔
مجاہدین کی عورتوں کے عزت اور جو ان میں خیانت کرے اس کے گناہ کے بیان میں
سعید بن منصور، سفیان، قعنب، علقمہ بن مرثد، اس سند سے بھی یہ اسی طرح ہے اس میں اضافہ ہے کہ مجاہد (رض) سے کہا جائے گا اس کی نیکیوں میں سے جو تم چاہو لے لو پھر رسول اللہ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا تمہارا کیا خیال ہے۔
معذوروں سے جہاد کی فرضیت کے ساقط ہونے کے بیان میں
محمد بن مثنی، محمد بن بشار، ابن مثنی، محمد بن جعفر، شعبہ، حضرت ابواسحاق (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت براء (رض) کو فرماتے ہوئے سنا وہ اس آیت مبارکہ (لَا يَسْتَوِي الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ غَيْرُ اُولِي الضَّرَرِ وَالْمُجٰهِدُوْنَ ) 4 ۔ النساء : 95) فی سبیل اللہ کے بارے میں ارشاد فرما رہے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت زید (رض) کو حکم دیا تو وہ ایک شانہ کی ہڈی لے آئے اور اس پر یہ آیت مبارکہ لکھ دی تو حضرت ابن ام مکتوم (رض) نے آپ ﷺ سے اپنے نابینا ہونے کی شکایت کی تو (لَا يَسْتَوِي الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ غَيْرُ اُولِي الضَّرَرِ وَالْمُجٰهِدُوْنَ ) 4 ۔ النساء : 95) آیت نازل ہوئی آگے اسی حدیث کی دوسری اسناد ذکر کی ہیں۔
معذوروں سے جہاد کی فرضیت کے ساقط ہونے کے بیان میں
ابوکریب، ابن بشار، مسعر، ابواسحاق، حضرت براء (رض) روایت ہے کہ جب آیت (لَا يَسْتَوِي الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ غَيْرُ اُولِي الضَّرَرِ وَالْمُجٰهِدُوْنَ ) 4 ۔ النساء : 95) نازل ہوئی تو آپ ﷺ سے ابن ام مکتوم نے کچھ گفتگو کی تو ( غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ ) نازل ہوئی
شہید کے لئے جنت کے ثبوت کے بیان میں
سعید بن عمرو اشعثی، سوید بن سعید، سفیان، عمرو، حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے عرض کیا اے اللہ کے رسول اگر میں قتل کردیا جاؤں تو میں کہاں ہوں گا آپ ﷺ نے فرمایا جنت میں تو اس نے اپنے ہاتھ میں موجود کھجور کو پھینکا پھر لڑنا شروع کیا یہاں تک کہ شہید کردیا گیا اور سوید کی روایت میں ہے کہ ایک آدمی نے نبی ﷺ سے احد کے دن یہ پوچھا تھا
شہید کے لئے جنت کے ثبوت کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابواسامہ، زکریا، ابواسحاق، حضرت براء (رض) سے روایت ہے کہ انصار کے قبیلہ بنونبیت کے آدمی نے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور بیشک آپ ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں پھر میدان میں بڑھا اور لڑنا شروع کردیا یہاں تک کہ شہید کردیا گیا تو نبی ﷺ نے فرمایا اس آدمی نے عمل کم کیا اور ثواب زیادہ دیا گیا۔
شہید کے لئے جنت کے ثبوت کے بیان میں
ابوبکر بن نضر بن ابی نضر، ہارون بن عبداللہ بن محمد بن رافع، عبد بن حمید، ہاشم بن قاسم، سلیمان بن مغیر ہ، ثابت، حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بسیہ کو جاسوس بنا کر بھیجا تاکہ وہ دیکھے کہ ابوسفیان کا قافلہ کیا کرتا ہے۔ پس جب وہ واپس آیا تو میرے اور رسول اللہ ﷺ کے سوا کوئی بھی گھر میں نہ تھا۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نہیں جانتا کہ حضرت انس (رض) نے آپ ﷺ کی ازواج میں سے بعض کا استثنی کیا تھا یا نہیں۔ پس اس نے آکر ساری بات آپ ﷺ سے بیان کی تو رسول اللہ ﷺ باہر تشریف لائے اور ارشاد فرمایا بیشک ہمیں ایک چیز کی ضرورت ہے پس جس کے پاس اپنی سواری ہو تو وہ ہمارے ساتھ سوار ہو کر چلے۔ پس لوگ مدینہ کی بلندی سے ہی آپ ﷺ سے اپنی سواریوں کو پیش کرنے کی اجازت طلب کرنے لگے تو آپ ﷺ نے فرمایا نہیں، صرف وہی ساتھ چلیں جن کے پاس سواریاں موجود ہوں۔ پس رسول اللہ ﷺ کے صحابہ (رض) چلے یہاں تک کہ مشرکین سے پہلے ہی مقام بدر پر پہنچ گئے جب مشرک آئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میں سے کوئی آدمی اس وقت تک پیش قدمی نہ کرے جب تک میں نہ آگے بڑھوں پس جب مشرکین قریب آگئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس جنت کی طرف بڑھو جس کی چوڑائی آسمان و زمین کے برابر ہے عمیر بن حمام انصاری نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! ﷺ جنت کی چوڑائی آسمان و زمین کی چوڑائی کے برابر ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں۔ اس نے کہا واہ واہ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تجھے اس کلمہ تحسین کہنے پر کس چیز نے ابھارا ہے، اس نے عرض کیا اے اللہ کے رسول میں نے کلمہ صرف جنت والوں میں ہونے کی امید میں کہا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا تو اہل جنت میں سے ہے تو عمیر نے اپنے تھیلے سے کچھ کھجوریں نکال کر انہیں کھانا شروع کیا پھر کہا اگر میں ان کھجوروں کے کھانے تک زندہ رہا تو یہ بہت لمبی زندگی ہوگی پھر انہوں نے اپنے پاس موجود کھجوروں کو پھینک دیا پھر کافروں سے لڑتے ہوئے شہید کردیئے گئے۔
شہید کے لئے جنت کے ثبوت کے بیان میں
یحییٰ بن یحییٰ تمیمی، قتیبہ بن سعید، جعفر بن سلیمان، ابوعمرجونی، ابوبکر، حضرت عبداللہ بن قیس (رض) سے روایت ہے کہ میں نے اپنے باپ سے دشمن کے مقابلہ کے وقت سنا وہ فرما رہے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بیشک جنت کے دروازے تلواروں کے سائے کے نیچے ہیں یہ سن کر ایک خستہ حال آدمی نے کھڑے ہو کر کہا اے ابوموسی ! کیا تم نے خود رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے انہوں نے کہا ہاں تو وہ آدمی اپنے ساتھیوں کے پاس لوٹا اور انہیں کہا میں تم کو سلام کرتا ہوں پھر اس نے اپنی تلوار کی میان کو توڑ کر پھینک دیا پھر اپنی تلوار لے کر دشمن کی طرف چلا اور لڑتے لڑتے شہید ہوگیا۔
شہید کے لئے جنت کے ثبوت کے بیان میں
محمد بن حاتم، عفان، حماد، ثابت، حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ کچھ لوگوں نے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا آپ ﷺ ہمارے ساتھ کچھ آدمی بھیج دیں جو ہمیں قرآن وسنت کی تعلیم دیں تو آپ ﷺ نے ان کے ساتھ انصار میں سے ستر آدمی بھیج دیئے جنہیں قراء کہا جاتا تھا اور ان میں میرے ماموں حضرت حرام (رض) بھی تھے قرآن پڑھتے تھے اور رات کو درس و تدریس اور تعلیم و تعلم میں مشغول رہتے تھے اور دن کے وقت پانی لا کر مسجد میں ڈالتے تھے اور جنگل سے لکڑیاں لا کر انہیں فروخت کردیتے اور اس سے اہل صفہ اور فقراء کے لئے کھانے کی چیزیں خریدتے تھے تو نبی ﷺ نے انہیں کفار کی طرف بھیج دیا اور انہیں منزل مقصور تک پہنچنے سے پہلے ہی کفار نے حملہ کرکے شہید کردیا تو انہوں نے کہا اے اللہ ہمارا یہ پیغام ہمارے پیغمبر ﷺ تک پہنچا دے کہ ہم تجھ سے ملاقات کرچکے ہیں اور ہم تجھ سے راضی ہیں اور تو ہم سے راضی ہوچکا ہے اسی دوران ایک آدمی نے آکر حضرت انس (رض) کے ماموں حضرت حرام (رض) کے پیچھے سے اس طرح نیزہ مارا کہ وہ آرپار ہوگیا تو حرام (رض) نے کہا رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا اس وقت رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ سے فرمایا بیشک تمہارے بھائیوں کو قتل کردیا گیا ہے اور بیشک انہوں نے یہ کہا ہے اے اللہ ہماری طرف سے یہ پیغام ہمارے پیغمبر ﷺ تک پہنچا دے کہ ہم تجھ سے ملاقات کرچکے ہیں اور ہم تجھ سے راضی ہوچکے ہیں اور تو ہم سے راضی ہوچکا ہے۔
شہید کے لئے جنت کے ثبوت کے بیان میں
محمد بن حاتم، بہز، سلیمان بن مغیرہ، ثابت، انس، حضرت ثابت (رض) سے روایت ہے کہ حضرت انس (رض) نے کہا میرے اس چچا نے کہا جن کے نام پر میرا نام رکھا گیا اور وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوہ بدر میں شریک نہ ہو سکے تھے جس کا انہیں بہت افسوس تھا کہ یہ وہ معرکہ تھا جس میں رسول اللہ ﷺ تو شریک تھے لیکن میں غیرحاضر تھا ہاں اگر اللہ نے مجھے اس کے بعد رسول اللہ ﷺ کے ہمراہی میں کوئی معرکہ دکھایا تو اللہ دیکھ لے گا کہ میں کیا کرتا ہوں تو وہ اس کے علاوہ کوئی کلمات کہنے سے ڈرے پس وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوہ احد میں شریک ہوئے تو حضرت انس (رض) نے حضرت سعد بن معاذ (رض) سے کہا اے ابوعمرو کہاں جا رہے ہو مجھے تو احد کی طرف سے جنت کی خوشبو آرہی ہے پھر وہ کفار سے لڑے یہاں تک کہ شہید ہوگئے اور ان کے جسم میں نیزوں اور تیروں کے اسی سے زیادہ زخم پائے گئے اور ان کی بہن میری پھوپھی ربیع بنت نضر نے کہا کہ میں اپنے بھائی کو صرف ان کے پوروں سے ہی پہچان سکی اس موقعہ پر یہ آیت نازل ہوئی مسلمانوں میں سے بعض وہ آدمی ہیں جنہوں نے اللہ سے کیا ہوا وعدہ سچا کر دکھایا ان میں سے بعض وہ ہیں جنہوں نے اپنی نذر کو پورا کیا اور بعض وہ ہیں جو انتظار کر رہے ہیں اور انہوں نے اپنے وعدہ میں کوئی رد وبدل نہ کیا صحابہ کرام گمان کرتے تھے کہ یہ آیت حضرت انس (رض) اور ان کے ساتھیوں کے متعلق نازل ہوئی تھی۔
جو شخص اللہ کے دین کی سر بلندی کے لئے جہاد کرتا ہے وہ اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والا ہے
محمد بن مثنی، ابن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، عمرو بن مرہ، حضرت ابوموسی (رض) سے روایت ہے کہ ایک اعرابی نے نبی ﷺ کی خدمت حاضر ہو کر عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ ایک آدمی غنیمت حاصل کرنے کے لئے لڑتا ہے دوسرا آدمی ناموری اور شہرت کے لئے لڑتا ہے تیسرا آدمی جو اپنی شجاعت دکھانے کے لئے لڑتا ہے ان میں سے کون ہے جو اللہ کے راستے میں لڑنے والا ہے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو اللہ کے دین کو بلند کرنے کے لئے لڑتا ہے وہی اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والا ہے۔
جو شخص اللہ کے دین کی سر بلندی کے لئے جہاد کرتا ہے وہ اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والا ہے
ابوبکر بن ابوشیبہ، ابن نمیر، اسحاق بن ابراہیم، محمد بن علاء، اسحاق، ابومعاویہ، اعمش، شقیق، حضرت ابوموسی اشعری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے اس آدمی کے بارے میں پوچھا گیا جو شجاعت کے لئے لڑتا ہے اور دوسرا تعصب کی بنا پر لڑتا ہے اور تیسرا ریاکاری کے لئے لڑتا ہے ان میں سے کون اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والا ہے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو اللہ کے دین اور کلمہ کی بلندی و عظمت کے لئے لڑتا ہے حقیقتا وہ اللہ کے راستہ میں لڑنے والا ہے۔
جو شخص اللہ کے دین کی سر بلندی کے لئے جہاد کرتا ہے وہ اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والا ہے
اسحاق بن ابراہیم، عیسیٰ بن یونس، اعمش، شقیق، حضرت ابوموسی (رض) سے روایت ہے کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ ہم میں سے ایک آدمی شجاعت دکھانے کے لئے لڑتا ہے پھر اسی طرح حدیث ذکر کی۔
جو شخص اللہ کے دین کی سر بلندی کے لئے جہاد کرتا ہے وہ اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والا ہے
اسحاق بن ابراہیم، جریر، منصور، ابو وائل، ابوموسی اشعری (رض) سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے اللہ کے راستہ میں جہاد و قتال کرنے کے بارے میں پوچھا تو عرض کیا ایک وہ آدمی ہے جو غصہ کی وجہ سے لڑتا ہے دوسرا تعصب کی بنا پر لڑتا ہے آپ ﷺ نے اس کی طرف سر اٹھایا اور سر مبارک اس وجہ سے اٹھایا کہ وہ کھڑا ہوا تھا اور ارشاد فرمایا جو شخص اللہ کے کلمہ کے بلندی کے لئے جہاد کرتا ہے وہی اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والا ہے۔
جو ریاکاری اور نمود نمائش کے لئے لڑتا ہے وہ جہنم کا مستحق ہوتا ہے۔
یحییٰ بن حبیب، حارث، خالد بن حارث، ابن جریج، یونس بن یوسف، سلیمان بن یسار رحمۃ اللہ علیہ، ابوہریرہ، حضرت سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ جب حضرت ابوہریرہ (رض) سے لوگ دور ہوگئے تو ان سے اہل شام میں سے ناتل نامی آدمی نے کہا اے شیخ آپ ہمیں ایسی حدیث بیان فرمائیں جو آپ نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہو تو انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ قیامت کے دن جس کا سب سے پہلے فیصلہ کیا جائے گا وہ شہید ہوگا اسے لایا جائے گا اور اسے اللہ کی نعمتیں جتوائی جائیں گی وہ انہیں پہچان لے گا تو اللہ فرمائے گا تو نے ان نعمتوں کے ہوتے ہوئے کیا عمل کیا وہ کہے گا میں نے تیرے راستہ میں جہاد کیا یہاں تک کہ شہید ہوگیا اللہ فرمائے گا تو نے جھوٹ کہا بلکہ تو تو اس لئے لڑتا رہا کہ تجھے بہادر کہا جائے تحقیق ! وہ کہا جا چکا پھر حکم دیا جائے گا کہ اسے منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دو یہاں تک کہ اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا اور دوسرا شخص جس نے علم حاصل کیا اور اسے لوگوں کو سکھایا اور قرآن کریم پڑھا اسے لایا جائے گا اور اسے اللہ کی نعمتیں جتوائی جائیں گی وہ انہیں پہچان لے گا تو اللہ فرمائے گا تو نے ان نعمتوں کے ہوتے ہوئے کیا عمل کیا وہ کہے گا میں نے علم حاصل کیا پھر اسے دوسروں کو سکھایا اور تیری رضا کے لئے قرآن مجید پڑھا اللہ فرمائے گا تو نے جھوٹ کہا تو نے علم اس لئے حاصل کیا کہ تجھے عالم کہا جائے اور قرآن اس کے لئے پڑھا کہ تجھے قاری کہا جائے سو یہ کہا جا چکا پھر حکم دیا جائے گا کہ اسے منہ کے بل گھسیٹا جائے یہاں تک کہ اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا اور تیسرا وہ شخص ہوگا جس پر اللہ نے وسعت کی تھی اور اسے ہر قسم کا مال عطا کیا تھا اسے بھی لایا جائے گا اور اسے اللہ کی نعمتیں جتوائی جائیں گی وہ انہیں پہچان لے گا اللہ فرمائے گا تو نے ان نعمتوں کے ہوتے ہوئے کیا عمل کیا وہ کہے گا میں نے تیرے راستہ میں جس میں خرچ کرنا تجھے پسند ہو تیری رضا حاصل کرنے کے لئے مال خرچ کیا اللہ فرمائے گا تو نے جھوٹ کہا بلکہ تو نے ایسا اس لئے کیا کہ تجھے سخی کہا جائے تحقیق ! وہ کہا جا چکا پھر حکم دیا جائے گا کہ اسے منہ کے بل گھسیٹا جائے یہاں تک کہ اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔
جو ریاکاری اور نمود نمائش کے لئے لڑتا ہے وہ جہنم کا مستحق ہوتا ہے۔
علی بن خشرم، حجاج بن محمد بن جریج، یونس بن یوسف، سلمان بن یسار، حضرت سلیمان بن یسار (رح) سے روایت ہے کہ ابوہریرہ (رض) سے جب لوگ جدا ہوگئے تو ان سے ناتل نامی شامی نے کہا باقی حدیث اسی طرح ہے۔
لڑنے والوں میں سے جسے غنیمت ملی اور جسے نہ ملی دونوں کے مقدار ثواب کے بیان میں
عبد بن حمید، عبداللہ بن یزید، ابوعبدالرحمن، حیوہ بن شریح، ابوہانی، حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو لشکر اللہ کے راستہ میں لڑنے کے لئے جائے پھر انہیں غنیمت مل جائے تو اسے آخرت کے ثواب میں سے دوتہائی اسی وقت مل جاتا ہے اور ایک تہائی باقی رہ جاتا ہے اور اگر انہیں غنیمت نہ ملے تو ان کے لئے ان کا ثواب پورا پورا باقی رہ جاتا ہے
لڑنے والوں میں سے جسے غنیمت ملی اور جسے نہ ملی دونوں کے مقدار ثواب کے بیان میں
محمد بن سہل تمیمی، ابن ابی مریم، نافع بن یزید، ابوہانی، ابوعبدالرحمن حبلی، حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس غزوہ یا لشکر کے لوگ جہاد کریں پھر وہ مال غنیمت حاصل کر کے سلامتی سے واپس آجائیں تو انہیں ثواب کا دو تہائی حصہ اسی وقت مل جاتا ہے اور جس غزوہ یا لشکر کے لوگ خالی واپس آئیں اور نقصان اٹھائیں تو ان کا اجر وثواب پورا پورا باقی رہ جاتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ کے قول اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے ان اعمال میں جہاد کے شامل ہونے کے بیان میں
عبداللہ بن مسلمہ بن قعنب، مالک، یحییٰ بن سعید، محمد بن ابرہیم، علقمہ بن وقاص، عمر بن خطاب، حضرت عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اعمال کا دارومدار نیت پر ہے ہر شخص کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی پس جس شخص نے ہجرت اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے لئے ہے اور جس کی ہجرت دنیا کے لئے ہوئی تو وہ اسے حاصل کرے گا یا عورت کی طرف ہوئی اس سے نکاح کرنے کے لئے ہوئی تو وہ اس سے نکاح کرلے گا پس اس کی ہجرت اسی طرف ہوگی جس طرف ہجرت کرنے کی اس نے نیت کی ہوگی۔
رسول اللہ ﷺ کے قول اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے ان اعمال میں جہاد کے شامل ہونے کے بیان میں
محمد بن رمح بن مہاجر، لیث، ابوربیع عتکی، حماد بن زید، محمد بن مثنی، عبدالوہاب ثقفی، اسحاق بن ابراہیم، ابوخالد احمر، سلیمان بن حیان، محمد بن عبداللہ بن نمیر، حفص بن غیاث، یزید بن ہارون، محمد بن علاء ہمدانی، ابن سفیان، یحییٰ بن سعید، سفیان، عمر بن خطاب (رض) ، ان مختلف اسناد سے بھی یہ حدیث اسی طرح مروی ہے لیکن بعض اسانید میں یہ ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے یہ حدیث منبر پر کھڑے ہو کر نبی ﷺ سے روایت کی۔
رسول اللہ ﷺ کے قول اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے ان اعمال میں جہاد کے شامل ہونے کے بیان میں
شیبان بن فروخ، حماد بن سلمہ، ثابت، حضرت انس (رض) بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے صدق دل سے شہادت طلب کی اسے شہادت کا رتبہ دے دیا جاتا ہے اگرچہ وہ شہید نہ بھی ہو۔
رسول اللہ ﷺ کے قول اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے ان اعمال میں جہاد کے شامل ہونے کے بیان میں
ابوطاہر، حرملہ بن یحیی، عبداللہ بن وہب، ابوشریح، سہل بن ابی امامہ، حضرت سہل بن حنیف (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا جس نے اللہ سے صدق دل سے شہادت مانگی تو اللہ اسے شہداء کے مرتبہ تک پہنچا دیں گے اگرچہ وہ اپنے بستر پر ہی مرجائے ابوالطاہر نے روایت میں بصدق کے لفظ کا ذکر نہیں کیا۔
جو شخص جہاد کی بغیر اور جہاد کی دلیں تمنا کئے بغیر مر گیا اس کی مذمت کے بیان میں
محمد بن عبدالرحمن بن سہم انطا کی، عبداللہ بن مبارک، وہیب مکی، عمر بن محمد بن منکدر، ابوصالح، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس کی موت واقع ہوگئی اور اس نے جہاد کیا اور نہ اس کے دل میں اس کی تمنا ہوئی تو وہ نفاق کے شعبہ پر مرا عبداللہ بن مبارک (رض) فرماتے ہیں کہ ہم اسے خیال کرتے ہیں کہ یہ حکم رسول اللہ ﷺ کے زمانہ مبارک کے ساتھ خاص تھا۔
جو شخص جہاد کی بغیر اور جہاد کی دلیں تمنا کئے بغیر مر گیا اس کی مذمت کے بیان میں
عثمان بن ابی شیبہ، جریر، اعمش، ابی سفیان، جابر، حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ ہم کسی غزوہ میں نبی ﷺ کے ساتھ تھے تو آپ ﷺ نے فرمایا مدینہ میں کچھ لوگ ہیں جنہیں بیماری نے روک رکھا ہے لیکن جس جگہ سے تم گزرتے ہو یا کسی وادی کو طے کرتے ہو تو وہ تمہارے ساتھ ہوتے ہیں۔
جو شخص جہاد کی بغیر اور جہاد کی دلیں تمنا کئے بغیر مر گیا اس کی مذمت کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، ابومعاویہ، ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوسعید اشج، وکیع، اسحاق بن ابراہیم، عیسیٰ بن یونس، اعمش، وکیع، اس سند سے بھی یہ حدیث اسی طرح روایت کی گئی ہے لیکن حضرت وکیع کی حدیث میں ہے کہ وہ اجر وثواب میں تمہارے شریک ہوتے ہیں۔
سمندر میں جہاد کرنے کی فضلیت کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، مالک، اسحاق، عبداللہ بن ابی طلحہ، حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ام حرام بنت ملحان کے پاس تشریف لے جاتے تھے اور وہ آپ ﷺ کو کھانا پیش کرتی تھیں اور ام حرام (رض) حضرت عبادہ (رض) بن صامت کے نکاح میں تھیں ایک دن رسول اللہ اس کے پاس تشریف لے گئے تو اس نے کھانا پیش کیا پھر آپ ﷺ کے سر مبارک میں مالش کرنے بیٹھ گئیں تو رسول اللہ ﷺ سو گئے پھر آپ ﷺ ہنستے ہوئے بیدار ہوئے وہ کہتی ہیں میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول آپ ﷺ کو کس بات نے ہنسایا ہے آپ ﷺ نے فرمایا میری امت میں سے کچھ لوگ مجھ پر سمندر میں بادشاہوں کے تختوں کی مثال سواریوں پر سوار ہو کر اللہ کے راستہ میں جہاد کرتے ہوئے دکھائے گئے یا کہا بادشاہوں کے تختوں پر سوار ہو کر۔ کہتی ہیں میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ ! اللہ سے دعا کریں کہ وہ مجھے ان میں سے کر دے تو آپ ﷺ نے اس کے لئے دعا کی پھر آپ ﷺ نے اپنا سر مبارک رکھا اور سو گئے پھر ہنستے ہوئے بیدار ہوئے۔ کہتی ہیں میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول آپ ﷺ کو کس بات نے ہنسایا ہے آپ ﷺ نے فرمایا میری امت کے کچھ لوگ مجھے اللہ کے راستہ میں جہاد کرتے ہوئے دکھائے گئے جیسا کہ پہلی دفعہ فرمایا تھا۔ کہتی ہیں میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ ! اللہ سے دعا کریں کہ وہ مجھے بھی ان میں سے کر دے آپ ﷺ نے فرمایا تو ان کے پہلے گروہ سے ہوگی پس ام حرام بنت ملحان حضرت معاویہ (رض) کے زمانہ میں سمندر میں سوار ہوگئیں جب وہ سمندر سے نکلیں تو اپنے جانور سے گر کر انتقال گئیں۔
سمندر میں جہاد کرنے کی فضلیت کے بیان میں
خلف بن ہشام، حماد بن زید، یحییٰ بن سعید، محمد بن یحییٰ بن حبان، حضرت انس (رض) کی خالہ حضرت ام حرام (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے تو ہمارے پاس قیلولہ فرمایا اور آپ ﷺ ہنستے ہوئے بیدار ہوئے تو میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان ہوں آپ ﷺ کو کس بات نے ہنسایا ہے آپ ﷺ نے فرمایا مجھے تیری امت میں سے ایک قوم دکھائی گئی جو بادشاہوں کے تختوں جیسے تختوں پر سمندر میں سواری کر رہے تھے میں نے عرض کیا اللہ سے دعا مانگیں کہ وہ مجھے بھی ان میں سے کر دے آپ ﷺ نے فرمایا تو انہیں میں سے ہے۔ کہتی ہیں آپ ﷺ پھر سو گئے اور اسی طرح بیدار ہوئے کہ آپ ﷺ ہنس رہے تھے میں نے آپ ﷺ سے پوچھا تو پہلی بات جیسی بات فرمائی میں نے عرض کیا آپ ﷺ اللہ سے دعا مانگیں کہ وہ مجھے بھی ان میں سے کر دے آپ نے فرمایا تو پہلے گروہ میں سے ہوگی پھر اس کے بعد ام حرام سے حضرت عبادہ بن صامت نے نکاح کرلیا پس جب انہوں نے سمندری جہاد شروع کیا تو ام حرام کو بھی اپنے ساتھ سوار کر کے لے گئے جب وہ آئیں اور ایک خچر ان کے قریب کیا گیا تو آپ اس پر سوار ہوگئیں تو اس نے انہیں گرا دیا اور اس سے ان کی گردن ٹوٹ گئی۔
سمندر میں جہاد کرنے کی فضلیت کے بیان میں
محمد بن رمح بن مہاجر، یحییٰ بن یحیی، لیث، یحییٰ بن سعید ابن حبان، حضرت انس (رض) کی خالہ حضرت ام حرام بنت ملحان (رض) سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ میرے قریب سو گئے پھر مسکراتے ہوئے بیدار ہوئے تو میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول آپ ﷺ کو کس بات نے ہنسایا آپ ﷺ نے فرمایا مجھے میری امت کے کچھ لوگ دکھائے گئے جو اس سبز سمندر کی پیٹھ پر سوار ہو رہے تھے باقی حدیث اسی طرح بیان کی۔
سمندر میں جہاد کرنے کی فضلیت کے بیان میں
یحییٰ بن ایوب، قتیبہ بن حجر، اسماعیل ابن جعفر، عبداللہ بن عبدالرحمن، حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ انس کی خالہ بنت ملحان (رض) کے پاس تشریف لائے اور ان کے پاس سر رکھ کر سو گئے باقی حدیث مبارکہ گزر چکی ہے۔
اللہ کے راستہ میں پہرہ دینے کی فضلیت کے بیان میں
عبداللہ بن عبدالرحمن بن بہرام دارمی، ابو ولید طیالسی، لیث، ابن سعد، ایوب بن موسی، مکحول، شرحبیل بن سمط، حضرت سلمان (رض) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ایک دن رات کی چوکیداری کا ثواب ایک ماہ کے روزوں اور قیام سے افضل ہے اور اگر وہ مرگیا تو اس کا وہ عمل جاری رہے گا جو وہ کر رہا تھا اور اس کا رزق بھی جاری کیا جائے گا اور اس کی قبر کو فتنوں سے محفوظ رکھا جائے گا۔
اللہ کے راستہ میں پہرہ دینے کی فضلیت کے بیان میں
ابوطاہر، ابن وہب، عبدالرحمن بن شریح، عبدالکریم بن حارث، ابوعبیدہ بن عقبہ، شرحبیل بن سمط، سلمان خیر، اس سے بھی یہ حدیث اسی طرح مروی ہے اس میں حضرت سلمان خیر کا نام مذکور ہے۔
شہدا کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، مالک، ابوصالح، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ایک آدمی کسی راستہ میں چل رہا تھا کہ اس نے راستہ پر کانٹوں والی ایک ٹہنی پڑی ہوئی پائی تو اسے راستہ سے ہٹا دیا تو اللہ نے اس کے اس عمل کو قبول کرتے ہوئے اسے معاف کردیا پھر آپ ﷺ نے فرمایا شہداء کی پانچ اقسام یہ ہیں طاعون میں مرنے والا، پیٹ کی بیماری میں مرنے والا، ڈوبنے والا، کسی چیز کے نیچے آ کر مرنے والا اور اللہ کے راستہ میں شہید ہونے والا۔
شہدا کے بیان میں
زہیر بن حرب، جریر، سہیل، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم اپنے میں سے شہید کسے شمار کرتے ہو صحابہ (رض) نے عرض کیا اے اللہ کے رسول جو اللہ کے راستہ میں قتل کیا جائے وہ شہید ہے آپ ﷺ نے فرمایا ایسی صورت میں تو میری امت کے شہید کم ہوں گے صحابہ (رض) نے عرض کیا پھر وہ کون ہوں گے آپ ﷺ نے فرمایا جو اللہ کے راستہ میں قتل کیا گیا وہ شہید ہے اور جو اللہ کے راستہ میں مرگیا وہ بھی شہید ہے اور جو طاعون میں مرا وہ بھی شہید ہے اور جو پیٹ کی بیماری میں مرگیا وہ بھی شہید ہے ابن مقسم نے اس حدیث میں یہ بھی کہا ڈوب کر مرجانے والا بھی شہید ہے۔
شہدا کے بیان میں
عبدالحمید بن بیان واسطی، خالد، سہیل، عبیداللہ بن مقسم، حضرت سہیل سے روایت ہے کہ عبیداللہ بن مقسم نے کہا میں تیرے بھائی کے بارے میں گواہی دیتا ہوں باقی حدیث اسی طرح ہے اس میں مزید اضافہ یہ ہے کہ جو ڈوب گیا وہ بھی شہید ہے۔
شہدا کے بیان میں
محمد بن حاتم، بہز، وہیب، سہیل، عبیداللہ بن مقسم، ابوصالح، اس سند سے بھی یہ حدیث روایت کی گئی ہے اضافہ یہ ہے کہ غرق ہونے والا بھی شہید ہے۔
شہدا کے بیان میں
حامد بن عمر بکراوی، عبدالوحد بن زیاد، عاصم، حضرت حفصہ بنت سیرین رحمۃ اللہ علیہا، انس بن مالک، حضرت حفصہ بنت سیرین سے روایت ہے کہ حضرت انس بن مالک (رض) نے مجھ سے کہا یحییٰ بن ابی عمرہ کی موت کا کیا سبب بنا میں نے کہا : طاعون، تو انہوں نے کہا رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا طاعون ہر مسلمان کے لئے شہادت ہے۔
شہدا کے بیان میں
ولید بن شجاع، علی بن مسہر، عاصم، اس سند سے بھی یہ حدیث مبارکہ اسی طرح مروی ہے۔
تیر اندازی کی فضلیت کے بیان میں
ہارون بن معروف، ابن وہب، عمرو بن حارث، علی، ثمامہ بن شفی، عقبہ بن عامر، حضرت عقبہ بن عامر (رض) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو منبر پر یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ( وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ ) کفار کے خلاف اپنی استطاعت کے مطابق قوت حاصل کرو سنو قوت تیر اندازی ہے سنو قوت تیراندازی ہے سنو قوت تیر اندازی ہے۔
تیر اندازی کی فضلیت کے بیان میں
ہارون بن معروف، ابن وہب، عمرو بن حارث، علی، عقبہ بن عامر، حضرت عقبہ بن عامر (رض) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے تھے عنقریب تم پر زمینوں کی فتوحات کھل جائیں گی اور تمہیں اللہ کافی ہوگیا پس تم میں سے کوئی شخص تیراندازی میں کمزوری نہ دکھائے۔
تیر اندازی کی فضلیت کے بیان میں
داؤد بن رشید، ولید، بکر بن مضر، عمرو بن حارث، علی ہمدانی، عقبہ بن عامر، اس سند سے بھی یہ حدیث اسی طرح مروی ہے۔
تیر اندازی کی فضلیت کے بیان میں
محمد بن رمح بن مہاجر، لیث، حارث بن یعقوب، عبدالرحمن بن شماسہ، حضرت عبدالرحمن بن شماسہ (رض) سے روایت ہے کہ فقیم لخمی نے حضرت عقبہ بن عامر (رض) سے عرض کیا کہ آپ ان دو نشانیوں کے درمیان آتے جاتے ہیں حالانکہ آپ بوڑھے ہیں اس وجہ سے آپ پر یہ دشوار ہوتا ہوگا تو عقبہ نے کہا اگر میں رسول اللہ ﷺ سے اس بارے میں حدیث نہ سنی ہوتی تو میں کبھی دشواری برداشت نہ کرتا حارث نے کہا میں نے ابن شماسہ سے کہا وہ حدیث کیا ہے انہوں نے کہا حضرت عقبہ فرماتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے تیراندازی سیکھی پھر اسے چھوڑ دیا وہ ہم میں سے نہیں ہے یا اس نے نافرمانی کی۔
رسول اللہ ﷺ کے فرمان میری امت کی ایک جماعت ہمیشہ حق پر قائم رہے گی اور انہیں کسی کی مخالفت کوئی نقصان نہیں پہنچائے گی۔
سعید بن منصور، ابوربیع عتکی، قتبیہ بن سعید، حماد ابن زید، ایوب، ابی قلابہ، اسماء، ثوبان، حضرت ثوبان (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میری امت میں سے ایک جماعت ہمیشہ حق بات پر غالب رہے گی جو انہیں رسوا کرنا چاہے گا وہ ان کو کوئی نقصان نہ کرسکے گا یہاں تک کہ اللہ کے حکم آجائے گا اور وہ اسی حال پر ہوں گے۔
رسول اللہ ﷺ کے فرمان میری امت کی ایک جماعت ہمیشہ حق پر قائم رہے گی اور انہیں کسی کی مخالفت کوئی نقصان نہیں پہنچائے گی۔
ابوبکر بن ابی شیبہ، وکیع، ابن نمیر، وکیع، عبدہ، اسماعیل بن ابی خالد ابن ابی عمرو، مروان، اسماعیل، قیس، مغیرہ، حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا میری امت میں سے ایک قوم ہمیشہ لوگوں پر غالب رہے گی یہاں تک کہ قیامت آجائے گی اور وہ غالب ہی ہوں گے۔
رسول اللہ ﷺ کے فرمان میری امت کی ایک جماعت ہمیشہ حق پر قائم رہے گی اور انہیں کسی کی مخالفت کوئی نقصان نہیں پہنچائے گی۔
محمد بن رافع، ابواسامہ، اسماعیل، قیس، مغیرہ بن شعبہ، اس سند سے بھی یہ حدیث مبارکہ اسی طرح مروی ہے۔
رسول اللہ ﷺ کے فرمان میری امت کی ایک جماعت ہمیشہ حق پر قائم رہے گی اور انہیں کسی کی مخالفت کوئی نقصان نہیں پہنچائے گی۔
محمد بن مثنی، محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، سماک بن حرب، جابر بن سمرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا یہ دین ہمیشہ قائم رہے گا اور اس کے قیام کے لئے مسلمانوں کی ایک جماعت روز قیامت تک جہاد کرتی رہے گی۔
رسول اللہ ﷺ کے فرمان میری امت کی ایک جماعت ہمیشہ حق پر قائم رہے گی اور انہیں کسی کی مخالفت کوئی نقصان نہیں پہنچائے گی۔
ہارون بن عبداللہ، حجاج بن شاعر، حجاج بن محمد، ابن جریج، ابوزبیر، حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا میری امت میں سے ایک جماعت ہمیشہ حق بات پر قیامت تک غالب رہے گی اور جہاد کرتی رہے گی۔
رسول اللہ ﷺ کے فرمان میری امت کی ایک جماعت ہمیشہ حق پر قائم رہے گی اور انہیں کسی کی مخالفت کوئی نقصان نہیں پہنچائے گی۔
منصور بن ابی مزاحم، یحییٰ بن حمزہ، عبدالرحمن بن یزید بن جابر، حضرت عمیر بن ہانی (رح) سے روایت ہے کہ میں نے حضرت معاویہ (رض) کو منبر پر یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ آپ ﷺ فرماتے تھے میری امت میں سے ایک جماعت ہمیشہ اللہ کے حکم کو قائم کرتی رہے گی جو ان کو رسواء کرنا چاہے گا یا مخالفت کرے گا تو ان کا کچھ بھی نقصان نہ کرسکے گا اور وہ لوگوں پر غالب رہیں گے۔
رسول اللہ ﷺ کے فرمان میری امت کی ایک جماعت ہمیشہ حق پر قائم رہے گی اور انہیں کسی کی مخالفت کوئی نقصان نہیں پہنچائے گی۔
اسحاق بن منصور، کثیر بن ہشام، جعفر ابن برقان، یزید بن اصم، معاویہ بن ابی سفیان، حضرت یزید بن اصم (رح) سے روایت ہے کہ میں نے حضرت معاویہ (رض) بن ابوسفیاں سے ایک حدیث سنی جسے انہوں نے نبی ﷺ سے یہ حدیث منبر پر روایت کرتے نہیں سنا نبی ﷺ نے فرمایا اللہ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے دین میں سمجھ عطا کرتا ہے اور مسلمانوں میں سے ایک جماعت ہمیشہ حق بات پر جہاد کرتی رہے گی اور اپنے مخالفین پر قیامت تک غالب رہے گی۔
رسول اللہ ﷺ کے فرمان میری امت کی ایک جماعت ہمیشہ حق پر قائم رہے گی اور انہیں کسی کی مخالفت کوئی نقصان نہیں پہنچائے گی۔
احمد بن عبدالرحمن، ابن وہب، عبداللہ بن وہب، عمرو بن حارث، یزید بن ابی حبیب، عبدالرحمن بن شماسہ مہری، مسلمہ، مخلد، عبداللہ بن عمرو بن عاص، عبداللہ، حضرت عبدالرحمن بن شماسہ مہری (رح) سے روایت ہے کہ میں مسلمہ بن مخلد کے پاس تھا اور ان کے پاس عبداللہ بن عمرو بن عاص تشریف فرما تھے تو عبداللہ نے کہا قیامت مخلوق میں ان برے لوگوں پر قائم ہوگی جو اہل جاہلیت سے زیادہ برے ہوں گے وہ اللہ سے جس چیز کا بھی سوال کریں گے تو ان کی دعا رد کردی جائے گی اسی دوران ان کے پاس حضرت عقبہ بن عامر بھی تشریف لے آئے تو مسلمہ نے کہا اے عقبہ سنو عبداللہ کیا کہتے ہیں تو عقبہ نے کہا وہ بہتر جاننے والے ہیں اور بہرحال میں نے تو رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا میری امت میں سے ایک جماعت ہمیشہ اللہ کے حکم کی خاطر لڑتی رہے گی اور اپنے دشمنوں پر غلبہ حاصل رکھے گی جو ان کی مخالفت کرے گا وہ انہیں کچھ نقصان نہ پہنچا سکے گا یہاں تک کہ اسی حالت میں قیامت واقع ہوجائے گی تو عبداللہ نے کہا اسی طرح ہی ہے پھر اللہ تعالیٰ مشک کی خوشبو کی طرح کی ہوا بھیجے گا اور اس کا چھونا ریشم کے چھونے کی طرح ہوگا تو یہ ہوا قبض کئے بغیر کسی ایسی روح کو نہ چھوڑے جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر ایمان ہوگا پھر بدترین لوگ باقی رہ جائیں گے جن پر قیامت قائم ہوگی۔
رسول اللہ ﷺ کے فرمان میری امت کی ایک جماعت ہمیشہ حق پر قائم رہے گی اور انہیں کسی کی مخالفت کوئی نقصان نہیں پہنچائے گی۔
یحییٰ بن یحیی، ہشیم، داؤد بن ابی ہند، ابی عثمان، سعد بن ابی وقاص، حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اہل غرب ہمیشہ حق پر غالب رہیں گے یہاں تک کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔
سفر میں جانوروں کی رعایت کرنے کے حکم اور راستہ میں اخیر شب کو پڑاؤ ڈالنے کی ممانعت کے بیان میں
زہیر بن حرب، جریر، سہیل، ابوہریرہ، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جب تم سبزہ والی زمین میں سفر کرو تو اونٹوں کو انکا حصہ دو اور جب تم خشک سالی میں سفر کرو تو جلدی جلدی چلو اور جب تم اخیر رات میں پڑاؤ ڈالو تو راستہ میں سے پرہیز کرو کیونکہ رات کے وقت وہ جگہ کیڑوں مکوڑوں کا ٹھکانہ ہوتی ہے۔
سفر میں جانوروں کی رعایت کرنے کے حکم اور راستہ میں اخیر شب کو پڑاؤ ڈالنے کی ممانعت کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، عبدالعزیز ابن محمد، سہیل، ابوہریرہ، حضرت ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم سبزہ والی زمین میں سفر کرو تو اونٹوں کو ان کا حصہ دو اور جب تم خشک سالی میں سفر کرو تو جلدی جلدی چلو اونٹوں کے کمزور ہوجانے کی وجہ سے اور جب تم رات کے اخیر میں پڑاؤ ڈالو تو راستہ سے ہٹ کر رکو کیونکہ وہ رات کے وقت جانوروں کے راستے اور کیڑوں مکوڑوں کے ٹھہرنے کی جگہ ہوتی ہے۔
سفر کا عذاب کا ٹکڑا ہونے اور اپنا کام پورا کرنے کے بعد اپنے اہل وعیال میں جلدی واپس آنے کے استح کے بیان میں
عبداللہ بن مسلمہ بن قعنب، اسماعیل بن ابی اویس، ابومصعب، زہری، منصور بن ابی مزاحم، قتیبہ بن سعید، مالک، یحییٰ بن یحییٰ تمیمی، ابوصالح، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا سفر عذاب کا ٹکڑا ہے وہ تمہیں سونے کھانے اور پینے سے روک دیتا ہے جب تم سے کوئی اپنا کام پورا کرلے تو اپنے اہل و عیال میں واپس آنے میں جلدی کرے۔
مسافر کے لئے رات کے وقت اپنے گھر آنے کی کراہت کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، یزید بن ہارون، ہمام، اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ، انس بن مالک، حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے گھر والوں کے پاس رات کے وقت تشریف نہ لاتے تھے بلکہ آپ ﷺ ان کے پاس صبح یا شام تشریف لاتے تھے۔
مسافر کے لئے رات کے وقت اپنے گھر آنے کی کراہت کے بیان میں
زہیر بن حرب، عبدالصمد بن عبدالورث، ہمام، اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ، انس بن مالک، اس سند سے بھی یہ حدیث اسی طرح روایت کی گئی ہے فرق صرف یہ ہے کہ پہلی روایت میں لَا يَطْرُقُ تھا اور اس میں لَا يَدْخُلُ ہے۔
مسافر کے لئے رات کے وقت اپنے گھر آنے کی کراہت کے بیان میں
اسمعیل بن سالم، ہشیم سیار، یحییٰ بن یحیی، ہشیم، سیار، شعبی، جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ ہم ایک غزوہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے جب ہم مدینہ پہنچے تو ہم نے شہر میں داخل ہونا شروع کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا ٹھہرجاؤ یہاں تک کہ ہم رات یعنی عشاء کے وقت داخل ہوں گے تاکہ بکھرے ہوئے بالوں والی عورت اپنے بالوں میں کنگھی کرلے اور جس عورت کا خاوند غائب رہا ہے وہ اپنی اصلاح کرلے۔
مسافر کے لئے رات کے وقت اپنے گھر آنے کی کراہت کے بیان میں
محمد بن مثنی، عبدالصمد، شعبہ، سیار، عامر، حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم میں کوئی رات کے وقت سفر سے واپس آئے تو اچانک اپنے گھر والوں کے پاس نہ جا پہنچے یہاں تک کہ غیر حاضر شوہر والی عورت اپنی اصلاح کرلے یعنی زیر ناف بال مونڈلے اور بکھرے ہوئے بالوں والی کنگھی کرلے۔
مسافر کے لئے رات کے وقت اپنے گھر آنے کی کراہت کے بیان میں
یحییٰ بن حبیب، روح بن عبادہ، شعبہ، سیار، اس سند سے بھی یہ حدیث اسی طرح روایت کی گئی ہے۔
مسافر کے لئے رات کے وقت اپنے گھر آنے کی کراہت کے بیان میں
محمد بن بشار، محمد ابن جعفر، شعبہ، عاصم، شعبی، جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس شخص کو جس کی گھر میں غیر حاضری لمبی ہوگئی ہو رات کے وقت گھر والوں کے پاس آنے سے منع فرمایا۔
مسافر کے لئے رات کے وقت اپنے گھر آنے کی کراہت کے بیان میں
یحییٰ بن حبیب، روح، شعبہ، اس سند سے بھی یہ حدیث اسی طرح مروی ہے۔
مسافر کے لئے رات کے وقت اپنے گھر آنے کی کراہت کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، وکیع، سفیان، محارب، حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس بات سے منع فرمایا کہ آدمی رات کے وقت گھر جا پہنچے اور ان کی خیانت کو تلاش کرے اور ان کے حالات سے واقفیت حاصل کرے۔
مسافر کے لئے رات کے وقت اپنے گھر آنے کی کراہت کے بیان میں
محمد بن مثنی، عبدالرحمن، سفیان، اس سند سے بھی یہ حدیث مروی ہے لیکن راوی حضرت سفیان نے کہا کہ یہ جملہ حدیث میں سے ہے یا نہیں یعنی ان کی خیانت کو تلاش کرے اور ان کے حالات سے واقفیت حاصل کرے۔
مسافر کے لئے رات کے وقت اپنے گھر آنے کی کراہت کے بیان میں
محمد بن مثنی، محمد بن جعفر، عبیداللہ بن معاذ، حضرت جابر (رض) نبی کریم ﷺ سے رات کے وقت گھر آنے کی کراہت روایت کرتے ہیں اور یہ جملہ ذکر نہیں کیا گھر کے حالات کا تجسس اور گھر والوں کی کمزوریوں پر مطلع ہو۔