38. پینے کی چیزوں کا بیان

【1】

شراب کی حرمت اور اس بات کے بیان میں کہ شراب انگور اور کھجور سے تیار ہوتی ہے

یحییٰ بن یحییٰ تمیمی، حجاج بن محمد بن جریج، ابن شہاب، علی بن حسین ابن علی، حسین بن علی، حضرت علی بن ابی طالب (رض) سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں کہ غزوہ بدر کے مال غنیمت میں سے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مجھے ایک اونٹنی ملی اور رسول اللہ ﷺ نے مجھے ایک اور اونٹنی عطاء فرما دی میں نے ان دونوں اونٹنیوں کو انصار کے ایک آدمی کے دروازہ پر بٹھا دیا اور میں یہ چاہتا تھا کہ میں ان پر اذخر لاد کر لاؤں تاکہ میں اسے بیچوں اور میرے ساتھ بنی قینقاع کا ایک سنار بھی تھا الغرض میرا حضرت فاطمہ (رض) کے ولیمہ کی تیاری کا ارادہ تھا اور اسی گھر میں حضرت حمزہ بن عبدالمطلب (رض) شراب پی رہے تھے ان کے ساتھ ایک باندی تھی جو کہ شعر پڑھ رہی تھی اور کہہ رہی تھی اے حمزہ ان موٹی اونٹنیوں کو ذبح کرنے کے لئے اٹھو حضرت حمزہ یہ سن کر اپنی تلوار لے کر ان اونٹنیوں پر دوڑے اور ان کی کوہان کاٹ دی اور ان کی کھوکھوں کو پھاڑ ڈالا پھر ان کا کلیجہ نکال دیا میں نے ابن شہاب سے کہا کیا کوہان بھی لے گئے ؟ انہوں نے کہا ہاں کوہان بھی تو کاٹ لئے ابن شہاب کہتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے فرمایا جب میں نے یہ خطرناک منظر دیکھا تو میں اسی وقت اللہ کے نبی ﷺ کی خدمت میں آیا تو حضرت زید بن حارثہ بھی آپ ﷺ کے پاس تھے میں نے آپ کو اس سارے واقعہ کی خبر دی تو آپ ﷺ باہر نکلے اور حضرت زید بھی آپ ﷺ کے ساتھ تھے اور میں بھی آپ کے ساتھ چل پڑا آپ حضرت حمزہ کے پاس تشریف لے گئے اور ان پر ناراضگی کا اظہار فرمایا حضرت حمزہ نے آپ ﷺ کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا اور کہنے لگے کہ آپ لوگ تو میرے آباؤ اجداد کے غلام ہو، رسول اللہ ﷺ الٹے پاؤں واپس لوٹ پڑے یہاں تک کہ وہاں سے چلے آئے۔

【2】

شراب کی حرمت اور اس بات کے بیان میں کہ شراب انگور اور کھجور سے تیار ہوتی ہے

عبد بن حمید، عبدالرزاق، ابن جریج، ابن جریج سے اس سند کے ساتھ اسی طرح روایت نقل کی گئی ہے۔

【3】

شراب کی حرمت اور اس بات کے بیان میں کہ شراب انگور اور کھجور سے تیار ہوتی ہے

ابوبکر بن اسحاق، سعید بن کثیر بن عفیر، ابوعثمان مصری، عبداللہ بن وہب، یونس بن یزید، ابن شہاب، علی بن حسین بن علی، حسین بن علی، حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ غزوہ بدر کے دن مال غنیمت میں سے میرے حصہ میں ایک اونٹنی آئی تھی اور اسی دن رسول اللہ ﷺ نے خمس میں سے مجھے ایک اونٹنی عطا فرمائی تو جب میں نے ارادہ کیا کہ میں حضرت فاطمہ بنت رسول اللہ ﷺ سے خلوت کروں تو میں نے بنی قینقاع کے ایک سنار آدمی سے اپنے ساتھ چلنے کا وعدہ لے لیا تاکہ ہم اذخر گھاس لا کر سناروں کے ہاتھ فروخت کردیں اور پھر اس کی رقم سے میں اپنی شادی کا ولیمہ کروں تو اسی دوران میں اپنی اونٹنیوں کا سامان پالان کے تختے بوریاں اور رسیاں جمع کرنے لگا اور اس وقت میری دونوں اونٹنیاں انصاری آدمی کے گھر کے پاس بیٹھیں تھیں جب میں نے سامان اکٹھا کرلیا تو میں کیا دیکھتا ہوں کہ دونوں اونٹنیوں کے کوہان کٹے ہوئے ہیں اور ان کی کھوکھیں بھی کٹی ہوئی ہیں اور ان کے کلیجے نکلے ہوئے ہیں میں دیکھ کر اپنے آنسوؤں پر قابونہ کرسکا میں نے کہا کہ یہ کس نے کیا ہے ؟ لوگوں نے کہا حضرت حمزہ بن عبدالمطلب نے اور حضرت حمزہ چند شراب خور انصاریوں کے ساتھ اسی گھر میں موجود ہیں حضرت حمزہ اور ان کے ساتھیوں کو ایک گانے والی عورت نے ایک شعر سنایا تھا کہ سنو اے حمزہ ان موٹی موٹی اونٹنیوں کو ذبح کرنے کے لئے اٹھو حضرت حمزہ تلوار لے کر اٹھے اور ان اونٹینوں کے کوہان کو کاٹ دیا اور ان کو کھوکھیں کاٹ دیں اور ان کے کلیجے نکال دیئے حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ میں فوراً رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے کے لئے چل پڑا یہاں تک کہ میں آپ ﷺ کی خدمت میں آگیا حضرت زید بن حارث بھی آپ ﷺ کے پاس موجود تھے حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے دیکھتے ہی میرے چہرے کے آثار سے حالات معلوم کر لئے تھے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تجھے کیا ہوا ؟ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ اللہ کی قسم میں نے آج کے دن کی طرح کبھی کوئی دن نہیں دیکھا حمزہ نے میری اونٹینوں پر حملہ کر کے ان کے کوہان کاٹ لئے ہیں اور ان کی کھوکھیں پھاڑ ڈالی ہیں اور حمزہ اس وقت گھر میں موجود ہیں اور ان کے ساتھ کچھ اور شراب خور بھی ہیں حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی چادر منگوائی اور اسے اوڑھ کر پیدل ہی چل پڑے اور میں اور حضرت زید بن حارثہ بھی آپ ﷺ کے پیچھے پیچھے چل پڑے یہاں تک کہ آپ ﷺ اس دروازہ میں آئے جہاں حضرت حمزہ تھے آپ ﷺ اندر آنے کی اجازت مانگی تو انہوں نے آپ ﷺ کو اجازت دے دی تو دیکھا کہ وہ سب شراب پئے ہوئے ہیں رسول اللہ ﷺ نے حضرت حمزہ کو ان کے اس فعل پر ملامت کرنا شروع کی حمزہ کی آنکھیں سرخ ہوگئیں اور رسول اللہ ﷺ کی طرف دیکھا پھر آپ ﷺ کے گھٹنوں کی طرف دیکھا پھر نگاہ بلند کی تو آپ ﷺ کی ناف کی طرف دیکھا پھر نگاہ بلند کی تو آپ ﷺ کے چہرہ مبارک کی طرف دیکھا پھر حمزہ (رض) کہنے لگے کہ تم تو میرے باپ کے غلام ہو رسول اللہ ﷺ کو معلوم ہوا کہ حمزہ نشہ میں مبتلا ہیں پھر رسول اللہ ﷺ الٹے پاؤں باہر تشریف لائے اور ہم بھی آپ ﷺ کے ساتھ باہر نکل آئے۔

【4】

شراب کی حرمت اور اس بات کے بیان میں کہ شراب انگور اور کھجور سے تیار ہوتی ہے

محمد بن عبداللہ بن قہزاذ، عبداللہ بن عثمان، عبداللہ بن مبارک، یونس زہری، حضرت زہری سے اس سند کے ساتھ اسی حدیث کی طرح روایت نقل کی گئی ہے۔

【5】

شراب کی حرمت اور اس بات کے بیان میں کہ شراب انگور اور کھجور سے تیار ہوتی ہے

ابوربیع سلیمان بن داؤد عتکی، حماد ابن زید، ثابت، انس بن مالک، حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں کہ جس دن شراب حرام کی گئی اس دن میں حضرت ابوطلحہ کے گھر میں لوگوں کو شراب پلا رہا تھا وہ شراب خشک کشمش اور چھوہاروں کی بنی ہوئی تھی اسی دوران میں نے آواز سنی حضرت ابوطلحہ کہنے لگے کہ باہر نکل کر دیکھو میں باہر نکلا تو دیکھا کہ ایک منادی آواز لگا رہا ہے آگاہ رہو کہ شراب حرام کردی گئی ہے راوی کہتے ہیں کہ مدینہ منورہ کی تمام گلیوں میں یہ اعلان کردیا گیا حضرت ابوطلحہ نے مجھ سے کہا کہ باہر نکل کر اس شراب کو بہا دو تو میں نے باہر جا کر اس شراب کو بہا دیا لوگوں نے کہا یا لوگوں میں سے کسی نے کہا فلاں فلاں شہید کردیئے گئے اور ان کے پیٹوں میں تو شراب تھی راوی کہتے ہیں کہ میں نہیں جانتا کہ حضرت انس (رض) کی حدیث کا حصہ ہے یا نہیں تو پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کئے ان پر اس میں کوئی گناہ نہیں جو پہلے کھاچکے جبکہ آئندہ پرہیزگار ہوئے اور ایمان لائے اور نیک اعمال کئے۔

【6】

شراب کی حرمت اور اس بات کے بیان میں کہ شراب انگور اور کھجور سے تیار ہوتی ہے

یحییٰ بن ایوب، ابن علیہ، عبدالعزیز بن صہیب، انس بن مالک، حضرت انس بن مالک (رض) سے لوگوں نے فضیخ شراب کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا ہمارے لئے تمہاری اس فضیخ کے علاوہ اور کوئی شراب ہی نہیں تھی اور میں یہی فضیخ شراب حضرت ابوطلحہ (رض) اور حضرت ابوایوب اور رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام (رض) میں سے کچھ لوگوں کو اپنے گھر میں پلا رہا تھا کہ اچانک ایک آدمی آیا اور اس نے کہا کیا آپ کو یہ خبر پہنچی ہے ؟ ہم نے کہا نہیں اس نے کہا شراب حرام کردی گئی ہے تو حضرت ابوطلحہ نے کہا اے انس ان مشکوں کو بہا دو راوی کہتے ہیں کہ اس آدمی کی خبر کے بعد نہ ہی انہوں نے کبھی شراب پی اور نہ انہوں نے شراب کے بارے میں پوچھا۔

【7】

شراب کی حرمت اور اس بات کے بیان میں کہ شراب انگور اور کھجور سے تیار ہوتی ہے

یحییٰ بن ایوب، ابن علیہ، سلیمان تیمی، انس بن مالک، حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ میں کھڑے کھڑے اپنے چچازاد قبیلہ والوں کو فضیخ شراب پلا رہا تھا اور میں ان میں سے سب سے کم عمر تھا تو ایک آدمی آیا اور اس نے کہا شراب حرام کردی گئی ہے تو لوگوں نے کہا اے انس اس شراب کو بہادو تو میں نے وہ شراب بہا دی سلیمان تیمی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت انس (رض) سے پوچھا کہ وہ شراب کس چیز کی تھی حضرت انس (رض) نے فرمایا وہ شراب گدری اور پکی ہوئی کھجوروں کی بنی ہوئی تھی حضرت ابوبکر (رض) کہتے ہیں کہ اس دن ان کی شراب یہی تھی سلیمان کہتے ہیں کہ مجھ سے ایک آدمی نے حضرت انس (رض) سے روایت کرتے ہوئے بیان کیا کہ وہ بھی اسی طرح فرماتے تھے۔

【8】

شراب کی حرمت اور اس بات کے بیان میں کہ شراب انگور اور کھجور سے تیار ہوتی ہے

محمد بن عبدالاعلی، معتمر، انس، حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ میں کھڑا ہو کر اپنے قبیلے والوں کو (شراب) پلا رہا تھا (پھر آگے) ابن علیہ کی حدیث کی طرح حدیث بیان کی سوائے اس کے کہ اس حدیث میں ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر بن انس (رض) نے فرمایا اس دن ان کی یہی شراب تھی اور حضرت انس بھی اس وقت وہاں موجود تھے انہوں نے کوئی نکیر نہیں کی ابن عبدالاعلی کہتے ہیں کہ مجھ سے معتمر نے اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے بیان کیا کہ کچھ لوگ جو میرے ساتھ تھے انہوں نے خود حضرت انس (رض) سے سنا کہ وہ فرماتے ہیں کہ اس دن ان کی شراب یہی تھی۔

【9】

شراب کی حرمت اور اس بات کے بیان میں کہ شراب انگور اور کھجور سے تیار ہوتی ہے

یحییٰ بن ایوب، ابن علیہ، سعید بن ابی عروبہ، قتادہ، انس بن مالک، حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابوطلحہ حضرت ابودجانہ حضرت معاذ بن جبل (رض) اور انصار کی ایک جماعت کو شراب پلا رہا تھا تو آنے والا (ایک آدمی اندر) داخل ہوا اور اس نے کہا آج ایک نئی بات ہوگئی کہ شراب کی حرمت نازل ہوگئی ہے تو ہم نے اس شراب کو اسی دن بہا دیا اور وہ شراب گچی اور خشک کھجوروں کی بنی ہوئی تھی حضرت قتادہ کہتے ہیں کہ حضرت انس (رض) نے فرمایا کہ جب شراب حرام کردی گئی تھی تو عام طور پر ان دنوں میں ان کی شراب یہی تھی

【10】

شراب کی حرمت اور اس بات کے بیان میں کہ شراب انگور اور کھجور سے تیار ہوتی ہے

ابوغسان مسمعی، محمد بن مثنی، ابن بشار، معاذ بن ہشام، ابوقتادہ، انس بن مالک، حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابوطلحہ اور حضرت ابودجانہ (رض) اور سہیل بن بیضاء کو اس مشکیزے میں سے شراب پلا رہا تھا کہ جس میں گچی اور خشک کھجوروں کی بنی ہوئی شراب تھی آگے حدیث سعید کی حدیث کی طرح ہے۔

【11】

شراب کی حرمت اور اس بات کے بیان میں کہ شراب انگور اور کھجور سے تیار ہوتی ہے

ابوطاہر، احمد بن عمرو بن سرح، عبداللہ بن وہب، عمرو بن حارث، قتادہ بن دعامہ، انس بن مالک، حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا کہ خشک اور گچی کھجوروں کو پانی میں بھگویا جائے اور پھر اس کو پیا جائے اور ان لوگوں کی ان دنوں میں عام طور پر یہی شراب تھی جس دن کہ شراب کو حرام کیا گیا

【12】

شراب کی حرمت اور اس بات کے بیان میں کہ شراب انگور اور کھجور سے تیار ہوتی ہے

ابوطاہر، ابن وہب، مالک بن انس، اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ، انس بن مالک، حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوعبیدہ بن جراح اور حضرت ابوطلحہ اور حضرت ابی بن کعب (رضی اللہ عنہم) کو فضیخ اور خشک کھجوروں کی بنی ہوئی شراب پلا رہا تھا تو اسی دوران ایک آنے والے نے آکر کہا شراب حرام کردی گئی ہے تو حضرت ابوطلحہ نے کہا اے انس اٹھو اور اس گھڑے کو توڑ ڈالو تو میں نے پتھر کا ایک ٹکڑا اٹھایا اور اس گھڑے کو نیچے سے مارا تو وہ گھڑا ٹوٹ گیا۔

【13】

شراب کی حرمت اور اس بات کے بیان میں کہ شراب انگور اور کھجور سے تیار ہوتی ہے

محمد بن مثنی، ابوبکر حنفی، عبدالحمید بن جعفر، انس بن مالک، حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے وہ آیت نازل فرمائی جس آیت میں شراب کو حرام قرار دیا گیا تھا مدینہ منورہ میں سوائے کھجور کے اور کوئی شراب نہیں پی جاتی تھی۔

【14】

شراب کا سرکہ بنانے کی حرمت کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، عبدالرحمن بن مہدی، زہیر بن حرب، عبدالرحمن، سفیان سدی، یحییٰ بن عباد، انس، حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ سے شراب کا سرکہ بنانے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا نہیں۔

【15】

شراب کے دوا بنانے کی حرمت کے بیان میں

محمد بن مثنی، محمد بن بشار، ابن مثنی، محمد بن جعفر، شعبہ، سماک بن حرب، علقمہ بن وائل، وائل حضرمی، حضرت طارق بن سوید جعفی (رض) نے نبی ﷺ سے شراب کے بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے اس سے منع فرمایا یا آپ ﷺ نے اس کو ناپسند فرمایا کہ شراب کا کچھ بنایا جائے حضرت طارق نے عرض کیا کہ میں شراب کو دوا کے لئے بناتا ہوں تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا وہ دوا نہیں بلکہ بیماری ہے۔

【16】

اس بات کے بیان میں کہ کھجور اور انگور سے جو شراب بنائی جاتی ہے اسے بھی خمر کہا جاتا ہے۔

زہیر بن حرب، اسماعیل بن ابراہیم، حجاج بن ابی عثمان، یحییٰ بن ابی کثیر، ابوکثیر، ابوہریرہ، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا شراب ان دو درختوں یعنی کھجور اور انگور سے بنائی جاتی ہے۔

【17】

اس بات کے بیان میں کہ کھجور اور انگور سے جو شراب بنائی جاتی ہے اسے بھی خمر کہا جاتا ہے۔

محمد بن عبداللہ بن نمیر، اوزاعی، ابوکثیر، ابوہریرہ (رض) ، حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے سنا کہ رسول اللہ ﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ شراب ان دو درختوں یعنی کھجور اور انگور سے بنائی جاتی ہے۔

【18】

اس بات کے بیان میں کہ کھجور اور انگور سے جو شراب بنائی جاتی ہے اسے بھی خمر کہا جاتا ہے۔

زہیر بن حرب، ابوکریب، وکیع، اوزعی، عکرمہ بن عمار، عقبہ بن نوام، ابی کثیر، حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا شراب ان دو درختوں یعنی کھجور اور انگور سے بنائی جاتی ہے ابوکریب نے اپنی روایت میں الْکَرْمَةِ اور النَّخْلَةِ کو بغیر تا کے یعنی کرم اور نخل کہا ہے۔

【19】

کجھور اور کشمش کو ملا کر نبیذ بنانے کی کراہت کے بیان میں

شیبان بن فروخ، جریر بن حازم، عطاء بن ابی رباح، حضرت جابر بن عبداللہ انصاری (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے منع فرمایا کہ کشمش اور کھجور کو یا گچی گچی اور پکی کھجوروں کو ملا کر (پانی میں بھگویا جائے) ۔

【20】

کجھور اور کشمش کو ملا کر نبیذ بنانے کی کراہت کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، لیث، عطاء بن ابی رباح، حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے کھجور اور کشمش کو اکٹھا کر کے نبیذ بنانے سے منع فرمایا ہے اور اس چیز سے بھی منع فرمایا ہے کہ کچی اور پکی کھجوروں کو ملا کر اس کی نبیذ بنائی جائے۔

【21】

کجھور اور کشمش کو ملا کر نبیذ بنانے کی کراہت کے بیان میں

محمد بن حاتم، یحییٰ بن سعید، ابن جریج، اسحاق بن ابراہیم، محمد بن رافع، عبدالرزاق، ابن جریج، عطاء، حضرت جابر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا پکی اور کچی کھجوروں کو اور کشمش اور کھجوروں کو ملا کو نہ بھگوؤ۔

【22】

کجھور اور کشمش کو ملا کر نبیذ بنانے کی کراہت کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، لیث، محمد بن رمح، لیث، ابوزبیر مکی مولیٰ حکیم بن حزام، حضرت جابر بن عبداللہ انصاری (رض) رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے نے اس چیز سے منع فرمایا کہ کشمش اور کھجور کو ملا کر اس کی نبیذ بنائی جائے اور اس سے بھی منع فرمایا کہ کچی اور پکی کھجوروں کو ملا کر اس کی نبیذ بنائی جائے۔

【23】

کجھور اور کشمش کو ملا کر نبیذ بنانے کی کراہت کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، یزید بن زریع تیمی، ابی نضرہ، ابوسعید، حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے منع فرمایا کہ کھجور اور کشمش کو ملا کر بھگویا جائے اور اسی طرح کچی اور پکی کھجوروں کو ملا کر بھگونے سے بھی منع فرمایا ہے۔

【24】

کجھور اور کشمش کو ملا کر نبیذ بنانے کی کراہت کے بیان میں

یحییٰ بن ایوب، ابن علیہ، سعید بن یزید، ابومسلمہ، ابی نضرہ، ابوسعید، حضرت ابوسعید (رض) سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں منع فرمایا ہے کہ ہم کشمش اور کھجور کو ملا کر بھگوئیں اور اس سے بھی منع فرمایا ہے کہ ہم کچی اور پکی کھجور کو ملا کر بھگوئیں

【25】

کجھور اور کشمش کو ملا کر نبیذ بنانے کی کراہت کے بیان میں

نصر بن علی جہضمی، بشر ابن مفضل، ابومسلمہ، حضرت ابومسلمہ (رض) اس سند کے ساتھ اس حدیث کی طرح روایت نقل کرتے ہیں

【26】

کجھور اور کشمش کو ملا کر نبیذ بنانے کی کراہت کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، وکیع، اسماعیل بن مسلم عبدی، ابومتوکل ناجی، حضرت ابوسعید خدری (رض) روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا تم سے جو آدمی نبیذ (شراب) پئے تو اسے چاہئے کہ وہ اکیلی کشمش کی یا اکیلی کھجور کی یا اکیلی گچی کھجور شراب پئے۔

【27】

کجھور اور کشمش کو ملا کر نبیذ بنانے کی کراہت کے بیان میں

ابوبکر بن اسحاق، روح بن عبادہ، اسماعیل بن مسلم عبدی، حضرت اسماعیل بن مسلم عبدی (رض) اس سند کے ساتھ روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں منع فرمایا ہے کہ ہم کچی کھجوروں کو پکی اور خشک کھجوروں کے ساتھ یا کشمش کو پکی کھجوروں کے ساتھ یا کشمش کو کچی اور خشک کھجوروں کے ساتھ ملا کر بھگوئیں اور پھر آگے وکیع کی حدیث کی طرح ذکر کیا گیا ہے۔

【28】

کجھور اور کشمش کو ملا کر نبیذ بنانے کی کراہت کے بیان میں

یحییٰ بن ایوب، ابن علیہ، ہشام دستوائی، یحییٰ بن ابی کثیر، عبداللہ بن ابی قتادہ، حضرت عبداللہ بن ابی قتادہ (رض) اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم کچی اور پکی کھجوروں کو اور کشمش اور پکی کھجوروں کو ملا کر نہ بھگوؤ بلکہ ان میں سے ہر ایک کو علیحدہ علیحدہ بھگوؤ۔

【29】

کجھور اور کشمش کو ملا کر نبیذ بنانے کی کراہت کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، محمد بن بشر عبدی، حجاج بن ابی عثمان، یحییٰ بن ابی کثیر، حضرت یحییٰ بن ابی کثیر (رض) سے اس سند کے ساتھ اسی حدیث کی طرح حدیث نقل کی گئی ہے۔

【30】

کجھور اور کشمش کو ملا کر نبیذ بنانے کی کراہت کے بیان میں

محمد بن مثنی، عثمان بن عمر، علی ابن مبارک، یحیی، ابوسلمہ، حضرت ابوقتادہ (رض) سے روایت ہے کہ کھجوروں کو ملا کر نہ بھگوؤ اور نہ ہی پکی کھجوروں اور کشمش کو ملا کر بھگوؤ بلکہ تم ہر ایک کو علیحدہ علیحدہ بھگوؤ اور یحییٰ کا گمان ہے کہ وہ حضرت عبداللہ بن ابی قتادہ سے ملے تو انہوں نے نبی ﷺ سے روایت کرتے ہوئے اسی طرح بیان کیا۔

【31】

کجھور اور کشمش کو ملا کر نبیذ بنانے کی کراہت کے بیان میں

ابوبکر بن اسحاق، روح بن عبادہ، حسین، یحییٰ بن ابی کثیر، حضرت یحییٰ بن ابی کثیر سے ان دو سندوں کے ساتھ کچھ لفظی تبدیلی کے ساتھ اسی طرح حدیث نقل کی گئی ہے۔

【32】

کجھور اور کشمش کو ملا کر نبیذ بنانے کی کراہت کے بیان میں

ابوبکر بن اسحاق، عفان بن مسلم، ابان، عطاء، یحییٰ بن ابی کثیر عبداللہ بن ابوقتادہ، حضرت عبداللہ بن ابی قتادہ (رض) اپنے اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے نبی ﷺ نے پکی اور کچی کھجوروں کو ملا کر بھگونے سے اور کشمش اور پکی کھجوروں کو ملا کر بھگونے سے اور کچے انگوروں اور کھجوروں کو ملا کر بھگونے سے منع فرمایا ہے اور آپ ﷺ نے فرمایا تم ان میں سے ہر ایک کو علیحدہ علیحدہ بھگوؤ۔

【33】

کجھور اور کشمش کو ملا کر نبیذ بنانے کی کراہت کے بیان میں

ابوسلمہ بن عبدالرحمن، حضرت ابوقتادہ (رض) نے نبی ﷺ سے اسی حدیث کی طرح روایت کیا۔

【34】

کجھور اور کشمش کو ملا کر نبیذ بنانے کی کراہت کے بیان میں

زہیر بن حرب، ابوکریب، زہیر، وکیع، عکرمہ بن عمار، ابوکثیر حنفی، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کشمش اور پکی کھجوروں کو اور کچی اور پکی کھجوروں کو ملا کر بھگونے سے منع فرمایا ہے اور آپ ﷺ نے فرمایا ان میں سے ہر ایک کو علیحدہ علیحدہ بھگوؤ۔

【35】

کجھور اور کشمش کو ملا کر نبیذ بنانے کی کراہت کے بیان میں

زہیر بن حرب، ہاشم بن قاسم، عکرمہ بن عمار، یزید بن عبدالرحمن بن اذینۃ، ابوکثیر غبری، حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اسی طرح ارشاد فرمایا ہے۔

【36】

کجھور اور کشمش کو ملا کر نبیذ بنانے کی کراہت کے بیان میں

ابوبکر ابن ابی شیبہ، علی بن مسہر، شیبانی، حبیب، سعید بن جبیر، ابن عباس، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے منع فرمایا ہے کہ پکی کھجوروں اور کشمش کو ملا کر بھگویا جائے اور اسے بھی منع فرمایا کہ کچی اور پکی کھجوروں کو ملا کر بھگویا جائے اور آپ ﷺ نے جرش والوں کی طرف لکھا کہ آپ ﷺ کھجوروں اور کشمش کو ملا کر بھگونے سے منع فرماتے ہیں۔

【37】

کجھور اور کشمش کو ملا کر نبیذ بنانے کی کراہت کے بیان میں

وہب بن بقیہ، خالد طحان، شیبانی، حضرت شیبانی اس سند کے ساتھ روایت نقل کی گئی ہے اور صرف کھجور اور کشمش ذکر ہے کچی اور پکی کھجوروں کا ذکر نہیں ہے۔

【38】

کجھور اور کشمش کو ملا کر نبیذ بنانے کی کراہت کے بیان میں

محمد بن رافع، عبدالرزاق، ابن جریج، موسیٰ بن عقبہ، نافع، ابن عمر، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں کہ ہمیں کچی اور پکی کھجوروں کو ملا کر بھگونے سے منع کردیا گیا ہے اور اسی طرح کھجوروں اور کشمش کو ملا کر بھگونے سے بھی منع کردیا گیا۔

【39】

کجھور اور کشمش کو ملا کر نبیذ بنانے کی کراہت کے بیان میں

ابوبکر بن اسحاق، روح، ابن جریج، موسیٰ بن عقبہ، نافع، ابن عمر، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں کہ ہمیں کچی اور پکی کھجوروں کو ملا کر بھگونے سے منع کردیا گیا ہے اور اسی طرح کھجوروں اور کشمش کو ملا کر بھگونے سے بھی منع فرما دیا گیا ہے۔

【40】

روغن قیر ملے ہوئے برتن تونبے سبز گھڑے اور لکڑی کے برتن میں نبیذ بنانے کی ممانعت اور اس حکم کے منسوخ ہونے کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، لیث، ابن شہاب، انس بن مالک، حضرت انس (رض) بن مالک (رض) سے روایت ہے انہوں نے خبر دی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تون بے اور روغن قیر ملے ہوئے برتنوں کے بارے میں منع فرمایا ہے کہ ان میں نبیذ بنائی جائے۔

【41】

روغن قیر ملے ہوئے برتن تونبے سبز گھڑے اور لکڑی کے برتن میں نبیذ بنانے کی ممانعت اور اس حکم کے منسوخ ہونے کے بیان میں

عمرو ناقد، سفیان بن عیینہ، زہری، انس بن مالک، حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کدو کے تون بے اور روغن قیر ملے ہوئے برتنوں کے بارے میں منع فرمایا کہ ان میں نبیذ بنائی جائے

【42】

روغن قیر ملے ہوئے برتن تونبے سبز گھڑے اور لکڑی کے برتن میں نبیذ بنانے کی ممانعت اور اس حکم کے منسوخ ہونے کے بیان میں

ابوسلمہ، ابوہریرہ (رض) ، حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا تم کدو کے تون بے اور روغن قیر ملے ہوئے برتنوں میں نبیذ نہ بناؤ پھر حضرت ابوہریرہ (رض) نے یہ بھی فرمایا کہ تم سبز گھڑوں سے بچو۔

【43】

روغن قیر ملے ہوئے برتن تونبے سبز گھڑے اور لکڑی کے برتن میں نبیذ بنانے کی ممانعت اور اس حکم کے منسوخ ہونے کے بیان میں

محمد بن حاتم، بہز، وہیب، سہیل، ابوہریرہ (رض) ، حضرت ابوہریرہ (رض) نبی ﷺ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے روغن قیر ملے ہوئے سبز گھڑوں اور کھوکھلی لکڑی کے برتنوں سے منع فرمایا ہے حضرت ابوہریرہ (رض) سے پوچھا گیا کہ حنتم کیا ہے حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا سبز گھڑے۔

【44】

روغن قیر ملے ہوئے برتن تونبے سبز گھڑے اور لکڑی کے برتن میں نبیذ بنانے کی ممانعت اور اس حکم کے منسوخ ہونے کے بیان میں

نصر بن علی جہضمی، نوح بن قیس بن عون، محمد، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے قبیلہ عبدالقیس کے وفد سے فرمایا میں تمہیں کدو کے تونبے، سبز گھڑے لکڑی کے گٹھلے، روغن کئے ہوئے برتن اور کٹے ہوئے منہ والے مشکیزے سے روکتا ہوں اور تم صرف اپنے مشکیزوں میں پیا کرو اور اس کا منہ باندھ دیا کرو۔

【45】

روغن قیر ملے ہوئے برتن تونبے سبز گھڑے اور لکڑی کے برتن میں نبیذ بنانے کی ممانعت اور اس حکم کے منسوخ ہونے کے بیان میں

سعید بن عمرو اشعثی، عبثر، زہیر بن حرب، جریر، بشر بن خالد، محمد بن جعفر، شعبہ، اعمش، ابراہیم تیمی، حارث بن سوید، حضرت علی (رض) سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا کہ کدو کے تو بنے اور روغن قیر ملے ہوئے برتن میں نبیذ بنائی جائے یہ جریر کی حدیث میں ہے اور عبثر اور شعبہ کی حدیث میں ہے کہ نبی ﷺ نے کدو کے تون بے اور روغن قیر ملے ہوئے برتنوں سے منع فرمایا ہے۔

【46】

روغن قیر ملے ہوئے برتن تونبے سبز گھڑے اور لکڑی کے برتن میں نبیذ بنانے کی ممانعت اور اس حکم کے منسوخ ہونے کے بیان میں

زہیر بن حرب، اسحاق بن ابراہیم، جریر، زہیر، منصور، ابراہیم، حضرت ابراہیم سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت اسود (رض) سے کہا کیا آپ نے ام المومنین سے پوچھا ہے کہ کن برتنوں میں نبیذ بنانا ناپسندیدہ ہے انہوں نے کہا ہاں میں نے عرض کیا اے ام المومنین مجھے خبر دیجئے کہ رسول اللہ ﷺ نے کن برتنوں میں نبیذ بنانے سے منع فرمایا ہے ام المومنین حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا کہ آپ ﷺ نے ہم اہل بیت کو کدو کے تون بے اور روغن قیر ملے ہوئے برتنوں میں نبیذ بنانے سے منع فرمایا ہے حضرت اسود کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ آپ نے سبز گھڑے اور لکڑی کے گٹھیلے کا ذکر نہیں کیا تو سیدہ (رض) فرمانے لگیں کہ میں نے آپ (لوگوں) سے پیچھے وہی بیان کیا جو میں نے سنا ہے کیا میں آپ سے وہ بیان کروں جو میں نے نہیں سنا۔

【47】

روغن قیر ملے ہوئے برتن تونبے سبز گھڑے اور لکڑی کے برتن میں نبیذ بنانے کی ممانعت اور اس حکم کے منسوخ ہونے کے بیان میں

سعید بن عمرو اشعثی، عبثر، اعمش، ابرہیم، اسود، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے تون بے اور روغن قیر ملے ہوئے برتنوں کے استعمال سے منع فرمایا ہے۔

【48】

روغن قیر ملے ہوئے برتن تونبے سبز گھڑے اور لکڑی کے برتن میں نبیذ بنانے کی ممانعت اور اس حکم کے منسوخ ہونے کے بیان میں

محمد بن حاتم، یحییٰ قطان، سفیان، شعبہ، منصور، سلیمان، حماد، ابراہیم، اسود، حضرت عائشہ (رض) نے نبی ﷺ سے اسی حدیث کی طرح روایت نقل کی ہے۔

【49】

روغن قیر ملے ہوئے برتن تونبے سبز گھڑے اور لکڑی کے برتن میں نبیذ بنانے کی ممانعت اور اس حکم کے منسوخ ہونے کے بیان میں

شیبان بن فروخ، قاسم، ابن فضل، ثمامہ بن حزن قشیری، حضرت ثمامہ (رض) بن حزن قشیری فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ (رض) سے ملاقات کی اور ان سے نبیذ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ قبیلہ عبدالقیس کا ایک وفد نبی ﷺ کی خدمت میں آیا تھا تو آپ ﷺ نے ان کو منع فرمایا کہ کدو کے تون بے اور روغن قیر ملے ہوئے برتن اور لکڑی کے گٹھیلے اور سبز برتنوں میں نبیذ بنائی جائے (یعنی ان برتنوں کے استعمال سے آپ ﷺ نے منع فرمایا ہے) ۔

【50】

روغن قیر ملے ہوئے برتن تونبے سبز گھڑے اور لکڑی کے برتن میں نبیذ بنانے کی ممانعت اور اس حکم کے منسوخ ہونے کے بیان میں

یعقوب بن ابرہیم، ابن علیہ، اسحاق بن سوید، معاذہ، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کدو کے تون بے اور سبز گھڑے اور لکڑی کے گٹھیلے اور روغن قیر ملے ہوئے برتنوں کے استعمال سے منع فرمایا۔

【51】

روغن قیر ملے ہوئے برتن تونبے سبز گھڑے اور لکڑی کے برتن میں نبیذ بنانے کی ممانعت اور اس حکم کے منسوخ ہونے کے بیان میں

اسحاق بن ابراہیم، عبدالوہاب ثقفی، حضرت اسحاق بن سوید (رض) اس سند کے ساتھ روایت نقل کرتے ہیں اس میں سوائے الْمُزَفَّتِ کے الْمُقَيَّرَ کا لفظ کہا ہے۔

【52】

روغن قیر ملے ہوئے برتن تونبے سبز گھڑے اور لکڑی کے برتن میں نبیذ بنانے کی ممانعت اور اس حکم کے منسوخ ہونے کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، عباد بن عباد، ابی جمرہ، ابن عباس، خلف بن ہشام، حماد بن زید، ابی جمرہ، ابن عباس، حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ قبیلہ عبدقیس کا ایک وفد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آیا تو نبی ﷺ نے ان سے فرمایا کہ میں تمہیں کدو کے تون بےسبز گھڑے اور روغن ملے ہوئے برتنوں کے استعمال سے منع کرتا ہوں اور حماد کی حدیث میں الْمُقَيَّرَ کی جگہ الْمُزَفَّتِ کا لفظ ہے۔

【53】

روغن قیر ملے ہوئے برتن تونبے سبز گھڑے اور لکڑی کے برتن میں نبیذ بنانے کی ممانعت اور اس حکم کے منسوخ ہونے کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، علی بن مسہر، شیبانی، حبیب، سعید بن جبیر، ابن عباس، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کدو کے تون بےسبز گھڑے، روغن قیر ملے ہوئے برتن اور لکڑی کے گٹھیلے کے استعمال سے منع فرمایا ہے۔

【54】

روغن قیر ملے ہوئے برتن تونبے سبز گھڑے اور لکڑی کے برتن میں نبیذ بنانے کی ممانعت اور اس حکم کے منسوخ ہونے کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، محمد بن فضیل، حبیب بن ابی عمرو، سعید بن جبیر، ابن عباس، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے کدو کے تون بےسبز گھڑے اور روغن قیر ملے ہوئے برتن اور لکڑی کے گٹھیلے اور کچی اور پکی کھجوروں کو ملا کر بھگونے سے منع فرمایا ہے۔

【55】

روغن قیر ملے ہوئے برتن تونبے سبز گھڑے اور لکڑی کے برتن میں نبیذ بنانے کی ممانعت اور اس حکم کے منسوخ ہونے کے بیان میں

محمد بن مثنی، عبدالرحمن بن مہدی، شعبہ، یحیی، ابی عمربہرانی، ابن محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، یحییٰ بن ابی عمر، ابن عباس، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا کہ گھڑوں میں نبیذ بنائی جائے۔

【56】

روغن قیر ملے ہوئے برتن تونبے سبز گھڑے اور لکڑی کے برتن میں نبیذ بنانے کی ممانعت اور اس حکم کے منسوخ ہونے کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، یزید بن زریع تیمی، یحییٰ بن ایوب، ابن علیہ، سلیمان تیمی، ابونضرہ، ابوسعید، حضرت ابوسعید (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا کہ گھڑوں میں نبیذ بنائی جائے۔

【57】

روغن قیر ملے ہوئے برتن تونبے سبز گھڑے اور لکڑی کے برتن میں نبیذ بنانے کی ممانعت اور اس حکم کے منسوخ ہونے کے بیان میں

یحییٰ بن ایوب، ابن علیہ، سعید بن ابی عروبہ، قتادہ، ابی نضرہ، حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کدو کے تون بےسبز گھڑے روغن قیر ملے ہوئے برتن اور لکڑی کے گٹھیلے سے منع فرمایا ہے۔

【58】

روغن قیر ملے ہوئے برتن تونبے سبز گھڑے اور لکڑی کے برتن میں نبیذ بنانے کی ممانعت اور اس حکم کے منسوخ ہونے کے بیان میں

محمد بن مثنی، معاذ بن ہشام، قتادہ، حضرت قتادہ (رض) اس سند کے ساتھ روایت کیا ہے نبی ﷺ نے منع فرمایا ہے پھر مذکورہ حدیث کی طرح ذکر کیا۔

【59】

روغن قیر ملے ہوئے برتن تونبے سبز گھڑے اور لکڑی کے برتن میں نبیذ بنانے کی ممانعت اور اس حکم کے منسوخ ہونے کے بیان میں

نصر بن علی جہضمی، مثنی، ابن سعید، ابی متوکل، حضرت ابوسعید (رض) سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے سبز گھڑے اور کدو کے تون بے اور لکڑی کے گھٹیلے میں پینے سے منع فرمایا ہے۔

【60】

روغن قیر ملے ہوئے برتن تونبے سبز گھڑے اور لکڑی کے برتن میں نبیذ بنانے کی ممانعت اور اس حکم کے منسوخ ہونے کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، سریج بن یونس، ابوبکر، مروان بن معاویہ، منصور بن حیان، سعید بن جبیر، علی بن عمرو، ابن عباس، حضرت سعید بن جبیر (رض) سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابن عمر اور حضرت ابن عباس (رض) پر گواہی دیتا ہوں کہ ان دونوں حضرات نے گواہی دی کہ رسول اللہ ﷺ نے کدو کے تونبے، سبز گھڑے اور روغن قیر ملے ہوئے برتن اور لکڑی کے گٹھیلے کو استعمال سے منع فرمایا ہے۔

【61】

روغن قیر ملے ہوئے برتن تونبے سبز گھڑے اور لکڑی کے برتن میں نبیذ بنانے کی ممانعت اور اس حکم کے منسوخ ہونے کے بیان میں

شیبان بن فروخ، جریر، ابن حازم، یعلی بن حکیم، حضرت سعید بن جبیر (رض) سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر (رض) سے گھڑے کی نبیذ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے گھڑے کی نبیذ کو حرام قرار دیا ہے۔ (اس کے بعد) میں حضرت ابن عباس (رض) کے پاس آیا اور میں نے عرض کیا کہ آپ نے نہیں سنا کہ حضرت ابن عمر (رض) کیا فرماتے ہیں ؟ انہوں نے فرمایا کہ وہ کیا فرماتے ہیں ؟ میں نے عرض کیا وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے گھڑے کی نبیذ کو حرام قرار دیا ہے۔ تو انہوں نے فرمایا حضرت ابن عمر (رض) نے سچ فرمایا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے گھڑے کی نبیذ کو حرام قرار دیا ہے تو میں نے عرض کیا : گھڑے کی نبیذ کیا ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ جو چیز مٹی سے بنائی جائے۔ (مٹی سے بنا ہوا گھڑا)

【62】

روغن قیر ملے ہوئے برتن تونبے سبز گھڑے اور لکڑی کے برتن میں نبیذ بنانے کی ممانعت اور اس حکم کے منسوخ ہونے کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، مالک، نافع، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک جہاد کے موقع پر لوگوں کو خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا۔ حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ میں بھی آپ ﷺ کی طرف چل پڑا لیکن میرے آپ ﷺ تک پہنچے سے پہلے ہی آپ ﷺ خطبہ ختم کرچکے تھے میں نے پوچھا کہ آپ ﷺ نے کیا ارشاد فرمایا ہے لوگوں نے کہا کہ آپ ﷺ نے کدو کے تون بے اور روغن قیر ملے ہوئے برتن میں نبیذ بنانے سے منع فرمایا ہے۔

【63】

روغن قیر ملے ہوئے برتن تونبے سبز گھڑے اور لکڑی کے برتن میں نبیذ بنانے کی ممانعت اور اس حکم کے منسوخ ہونے کے بیان میں

قتیبہ، ابن رمح، لیث بن سعد، ابوربیع، ابوکامل، حماد زہری، ابن حرب، اسماعیل، ایوب، ابن نمیر، ابی عبیداللہ، ابن مثنی، ابن ابی عمر ثقفی، یحییٰ بن سعید، محمد ان ساری سندوں کے ساتھ حضرت ابن عمر (رض) سے مالک کی حدیث کی طرح روایت منقول ہے اور اس میں سوائے مالک اور اسامہ کے جہاد کا ذکر کسی نے نہیں کیا

【64】

روغن قیر ملے ہوئے برتن تونبے سبز گھڑے اور لکڑی کے برتن میں نبیذ بنانے کی ممانعت اور اس حکم کے منسوخ ہونے کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، حماد بن زید، ثابت، ابن عمر، حضرت زید بن ثابت فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر (رض) سے عرض کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے گھڑے کی نبیذ بنانے سے منع فرمایا ہے تو حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا لوگ یہی خیال کرتے ہیں پھر میں نے عرض کیا کیا رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا لوگ یہی خیال کرتے ہیں۔

【65】

روغن قیر ملے ہوئے برتن تونبے سبز گھڑے اور لکڑی کے برتن میں نبیذ بنانے کی ممانعت اور اس حکم کے منسوخ ہونے کے بیان میں

یحییٰ بن ایوب، ابن علیہ، سلیمان تیمی، طاؤس، ابن عمر، حضرت طاؤس سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے حضرت ابن عمر (رض) سے عرض کیا کہ کیا اللہ کے نبی ﷺ نے گھڑے کی نبیذ بنانے سے منع فرمایا ہے انہوں نے فرمایا ہاں پھر طاؤس کہنے لگے اللہ کی قسم میں نے یہ حضرت ابن عمر (رض) سے سنا ہے۔

【66】

روغن قیر ملے ہوئے برتن تونبے سبز گھڑے اور لکڑی کے برتن میں نبیذ بنانے کی ممانعت اور اس حکم کے منسوخ ہونے کے بیان میں

محمد بن رافع، عبدالرزاق، ابن جریج، ابن طاؤس، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ ایک آدمی ان کے پاس آیا اور اس نے کہا کیا نبی ﷺ نے گھڑے اور تون بے کی نبیذ بنانے سے منع فرمایا ہے حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا ہاں۔

【67】

روغن قیر ملے ہوئے برتن تونبے سبز گھڑے اور لکڑی کے برتن میں نبیذ بنانے کی ممانعت اور اس حکم کے منسوخ ہونے کے بیان میں

محمد بن حاتم، بہز، وہیب، عبداللہ بن طاؤس، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے گھڑے اور تون بے کے استعمال سے منع فرمایا (خاص گھڑا جو شراب کے لئے استعمال ہوتا ہے اس سے منع فرمایا)

【68】

روغن قیر ملے ہوئے برتن تونبے سبز گھڑے اور لکڑی کے برتن میں نبیذ بنانے کی ممانعت اور اس حکم کے منسوخ ہونے کے بیان میں

عمرو بن ناقد، سفیان بن عیینہ، ابراہیم بن میسر، طاؤس، حضرت طاؤس فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر (رض) کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک آدمی آیا اور اس نے کہا کیا رسول اللہ ﷺ نے گھڑے اور تون بے اور لکڑی کے برتنوں میں نبیذ سے منع فرمایا ہے حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا ہاں۔

【69】

روغن قیر ملے ہوئے برتن تونبے سبز گھڑے اور لکڑی کے برتن میں نبیذ بنانے کی ممانعت اور اس حکم کے منسوخ ہونے کے بیان میں

محمد بن مثنی، ابن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، محارب بن دثار، ابن عمر، حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سبز گھڑے، کدو کے تون بے اور لکڑی کے گٹھیلے کے برتنوں کو استعمال کرنے سے منع فرمایا ہے راوی محارب بن دثار کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر (رض) سے یہ بار بار سنا ہے۔

【70】

روغن قیر ملے ہوئے برتن تونبے سبز گھڑے اور لکڑی کے برتن میں نبیذ بنانے کی ممانعت اور اس حکم کے منسوخ ہونے کے بیان میں

سعید بن عمرو اشعثی، عبثر، شیبانی، محارب بن دثار، ابن عمر، حضرت ابن عمر (رض) نے نبی ﷺ سے اسی طرح حدیث روایت کی ہے اور اس میں روغن قیر ملے ہوئے برتن کا بھی ذکر کیا۔

【71】

روغن قیر ملے ہوئے برتن تونبے سبز گھڑے اور لکڑی کے برتن میں نبیذ بنانے کی ممانعت اور اس حکم کے منسوخ ہونے کے بیان میں

محمد بن مثنی، ابن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، عقبہ بن حریث، ابن عمر، حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے گھڑے اور تون بے اور لکڑی کے گٹھیلے کے برتنوں کو استعمال کرنے سے منع فرمایا ہے اور آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا تم مشکیزوں میں نبیذ بناؤ۔

【72】

روغن قیر ملے ہوئے برتن تونبے سبز گھڑے اور لکڑی کے برتن میں نبیذ بنانے کی ممانعت اور اس حکم کے منسوخ ہونے کے بیان میں

محمد بن مثنی، محارب بن جعفر، شعبہ، جبلہ، ابن عمر، حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حنتمہ کے استعمال سے منع فرمایا میں نے عرض کیا حنتمہ کیا ہے آپ ﷺ نے فرمایا سبز گھڑا۔ (وہ مخصوص گھڑا جس میں شراب بنائی جاتی ہے) ۔

【73】

روغن قیر ملے ہوئے برتن تونبے سبز گھڑے اور لکڑی کے برتن میں نبیذ بنانے کی ممانعت اور اس حکم کے منسوخ ہونے کے بیان میں

عبیداللہ بن معاذ، شعبہ، عمرو بن مرہ، ابن عمر (رض) ، حضرت زاذان (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر (رض) سے عرض کیا کہ مجھے شراب کے ان برتنوں کے بارے میں بیان فرمائیں کہ جن کے استعمال سے نبی ﷺ نے منع فرمایا اور اپنی لغت میں بیان کرو اور پھر مجھے میری زبان میں سمجھاؤ کیونکہ تمہاری زبان اور ہماری زبان علیحدہ علیحدہ ہے حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے حنتم سے منع فرمایا ہے اور حنتم وہ سبز گھڑا ہے اور دباء سے منع فرمایا اور وہ تونبا ہے اور مزفت سے منع فرمایا اور وہ کھجور کی لکڑی ہے اسے کرید کر برتن بنایا جاتا ہے اور آپ ﷺ نے مشکیزوں میں نبیذ بنانے کا حکم فرمایا۔

【74】

روغن قیر ملے ہوئے برتن تونبے سبز گھڑے اور لکڑی کے برتن میں نبیذ بنانے کی ممانعت اور اس حکم کے منسوخ ہونے کے بیان میں

محمد بن مثنی، ابن بشار، ابوداؤد، حضرت شعبہ (رض) سے اسی سند کے ساتھ روایت منقول ہے۔

【75】

روغن قیر ملے ہوئے برتن تونبے سبز گھڑے اور لکڑی کے برتن میں نبیذ بنانے کی ممانعت اور اس حکم کے منسوخ ہونے کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، یزید بن ہارون، عبدالخالق بن سلمہ، سعید بن مسیب، عبداللہ بن عمر، حضرت سعید بن مسیب (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر (رض) کو فرماتے ہوئے سنا اور وہ منبر کی طرف اشارہ کر رہے تھے کہ قبیلہ عبدقیس کے لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئے اور انہوں نے آپ ﷺ سے شراب کے برتنوں کے استعمال کے بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے انہیں تون بے اور لکڑی کے گٹھیلے اور سبز گھڑے کے استعمال سے منع فرمایا تو میں نے ان سے کہا اے ابومحمد اور مزفت سے بھی آپ ﷺ نے منع فرمایا اور ہمارا خیال تھا کہ وہ اس لفظ کو بھول گئے انہوں نے کہا میں نے اس دن تو حضرت ابن عمر (رض) سے یہ لفظ نہیں سنا لیکن وہ ناپسند سمجھتے تھے۔

【76】

روغن قیر ملے ہوئے برتن تونبے سبز گھڑے اور لکڑی کے برتن میں نبیذ بنانے کی ممانعت اور اس حکم کے منسوخ ہونے کے بیان میں

احمد بن یونس، زہیر، ابوزبیر، یحییٰ بن یحیی، ابوخیثمہ، ابوزبیر، جابر، ابن عمر، حضرت جابر اور حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے لکڑی کے گٹھیلے اور روغن قیر ملے ہوئے برتنوں اور کدو کے تون بے سے منع فرمایا ہے۔

【77】

روغن قیر ملے ہوئے برتن تونبے سبز گھڑے اور لکڑی کے برتن میں نبیذ بنانے کی ممانعت اور اس حکم کے منسوخ ہونے کے بیان میں

محمد بن رافع، عبدالرزاق، ابن جریج، ابوزبیر، ابن عمر، حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ گھڑے اور روغن ملے ہوئے برتن اور لکڑی کے گٹھیلے سے منع فرما رہے تھے۔

【78】

روغن قیر ملے ہوئے برتن تونبے سبز گھڑے اور لکڑی کے برتن میں نبیذ بنانے کی ممانعت اور اس حکم کے منسوخ ہونے کے بیان میں

ابوزبیر، جابر بن عبداللہ، حضرت ابوزبیر فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے سنا وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے گھڑے اور روغنی برتن اور لکڑی کے گٹھیلے سے منع فرمایا اور رسول اللہ ﷺ کو نبیذ بنانے کے لئے جب کوئی برتن نہیں ملتا تھا تو آپ ﷺ کے لئے پتھر کے بڑے بڑے برتن میں نبیذ بنایا جاتا تھا۔

【79】

روغن قیر ملے ہوئے برتن تونبے سبز گھڑے اور لکڑی کے برتن میں نبیذ بنانے کی ممانعت اور اس حکم کے منسوخ ہونے کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، ابوعوانہ، ابوزبیر، حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کے لئے پتھر کے بڑے پیالے میں نبیذ بنایا جاتا تھا۔

【80】

روغن قیر ملے ہوئے برتن تونبے سبز گھڑے اور لکڑی کے برتن میں نبیذ بنانے کی ممانعت اور اس حکم کے منسوخ ہونے کے بیان میں

احمد بن یونس، زہیر، ابوزبیر، یحییٰ بن یحیی، ابوخیثمہ، ابوزبیر، حضرت جابر (رض) سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے لئے مشکیزے میں نبیذ تیار کی جاتی تھی اور جب کبھی مشکیزہ نہ ملتا تو آپ ﷺ کے لئے پتھر کے پیالے میں نبیذ بنائی جاتی تھی لوگوں میں سے کسی نے کہا میں نے حضرت ابوزبیر سے سنا کہ وہ برتن پتھر کا تھا۔

【81】

روغن قیر ملے ہوئے برتن تونبے سبز گھڑے اور لکڑی کے برتن میں نبیذ بنانے کی ممانعت اور اس حکم کے منسوخ ہونے کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، محمد بن مثنی، محمد بن فضیل، ابوبکر، ابی سنان، ابن مثنی، ضرار بن مرہ، محارب، ابن بریدہ، محمد بن عبداللہ بن نمیر، محمد بن فضیل، ضرار بن مرہ، ابوسنان، محارب بن دثار، حضرت عبداللہ بن بریدہ (رض) اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا میں نے تمہیں سوائے مشکیزوں کے دوسرے برتنوں میں نبیذ بنانے سے منع کیا تھا تو اب سب برتنوں میں پیو لیکن نشہ والی چیز نہ پیو۔

【82】

روغن قیر ملے ہوئے برتن تونبے سبز گھڑے اور لکڑی کے برتن میں نبیذ بنانے کی ممانعت اور اس حکم کے منسوخ ہونے کے بیان میں

حجاج بن شاعر، ضحاک بن مخلد، سفیان، علقمہ، حضرت ابن بریدہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں تمہیں برتنوں میں پینے سے منع کرتا تھا مگر برتنوں میں (کوئی چیز پینے سے) حلال یا حرام نہیں ہوتی اور باقی ہر نشہ پیدا کرنے والی چیز حرام ہے۔

【83】

روغن قیر ملے ہوئے برتن تونبے سبز گھڑے اور لکڑی کے برتن میں نبیذ بنانے کی ممانعت اور اس حکم کے منسوخ ہونے کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، وکیع، معرف بن واصل، محارب بن دثار، حضرت ابن بریدہ (رض) اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا میں نے تمہیں چمڑے کے برتنوں میں پینے سے منع کیا تھا تو ہر ایک برتن میں پیو لیکن نشہ پیدا کرنے والی چیز ہرگز نہ پیو۔

【84】

روغن قیر ملے ہوئے برتن تونبے سبز گھڑے اور لکڑی کے برتن میں نبیذ بنانے کی ممانعت اور اس حکم کے منسوخ ہونے کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابن ابی عمر، سفیان، سلیمان احول، مجاہد، ابی عیاض، عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے برتنوں میں نبیذ بنانے سے منع فرما دیا تو صحابہ کرام (رض) نے عرض کیا کہ ہر آدمی کے پاس چمڑے کا مشکیزہ نہیں ہے تو آپ ﷺ نے ان کے لئے اس گھڑے کو جس میں روغن قیر ملا ہوا نہ ہو اس کی اجازت عطا فرمائی۔

【85】

اس بات کے بیان میں کہ ہر نشہ والی چیز خمر ہے اور ہر ایک خمر حرام ہے۔

یحییٰ بن یحیی، مالک، ابن شہاب، ابوسلمہ بن عبدالرحمن، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے شہد کی شراب کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا ہر وہ شراب کہ جو نشہ پیدا کرے وہ حرام ہے۔

【86】

اس بات کے بیان میں کہ ہر نشہ والی چیز خمر ہے اور ہر ایک خمر حرام ہے۔

حرملہ بن یحییٰ تجیبی ابن وہب، یونس، ابن شہاب، ابوسلمہ بن عبدالرحمن، حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے شہد کی شراب کے بارے میں پوچھا گیا تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے وہ شراب کہ جو نشہ پیدا کرے وہ حرام ہے۔

【87】

اس بات کے بیان میں کہ ہر نشہ والی چیز خمر ہے اور ہر ایک خمر حرام ہے۔

یحییٰ بن یحیی، سعید بن منصور، ابوبکر بن ابی شیبہ، عمرو ناقد، زہیر بن حرب، ابن عیینہ، حسن حلوانی، عبد بن حمید، یعقوب بن ابراہیم بن سعد، صالح، اسحاق بن ابراہیم، عبد بن حمید، عبدالرزاق، معمر، زہری، سفیان، صالح، حضرت زہری (رض) سے انہیں سندوں کے ساتھ روایت منقول ہے اور سفیان اور صالح کی حدیثوں میں شہد کی شراب کے بارے میں پوچھنے کا ذکر نہیں ہے اور صالح کی حدیث میں ہے کہ حضرت عائشہ (رض) نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ ہر نشہ پیدا کرنے والی چیز حرام ہے۔

【88】

اس بات کے بیان میں کہ ہر نشہ والی چیز خمر ہے اور ہر ایک خمر حرام ہے۔

قتیبہ بن سعید، اسحاق بن ابراہیم، وکیع، شعبہ، سعید بن ابوبردہ، ابوموسی، حضرت ابوموسی (رض) سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے مجھے اور حضرت معاذ بن جبل (رض) کو یمن کے علاقہ کی طرف بھیجا تو میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ ہمارے علاقے میں ایک شراب جو سے بنائی جاتی ہے جسے مزر کہا جاتا ہے اور ایک شراب شہد کی بنائی جاتی ہے جسے بتع کہا جاتا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا ہر نشہ والی چیز حرام ہے۔

【89】

اس بات کے بیان میں کہ ہر نشہ والی چیز خمر ہے اور ہر ایک خمر حرام ہے۔

محمد بن عباد، سفیان، عمرو سعید بن ابوبردہ، حضرت ابوموسی (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے مجھے اور حضرت معاذ (رض) کو علاقہ یمن کی طرف بھیجا تو ہم سے فرمایا ان لوگوں کو خوش رکھنا اور ان پر آسانی کرنا اور ان کو دین کی باتیں سکھانا اور ان کو نفرت نہ دلانا اور میرا خیال ہے کہ آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا تم دونوں اتفاق سے رہنا جب آپ ﷺ نے پشت پھیری تو حضرت ابوموسی (رض) واپس لوٹے اور عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ علاقہ یمن میں شہد سے ایک شراب پکائی جاتی ہے یہاں تک کہ وہ جم جاتی ہے اور مزر شراب جو سے بنائی جاتی ہے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شراب نماز سے بےہوش کر دے وہ حرام ہے۔

【90】

اس بات کے بیان میں کہ ہر نشہ والی چیز خمر ہے اور ہر ایک خمر حرام ہے۔

اسحاق بن ابرہیم، محمد بن احمد بن ابی خلف، زکریا، ابن عدی، عبیداللہ، ابن عمر زید بن ابی انیسہ، سعید بن ابوبردہ، حضرت ابوموسی (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے اور حضرت معاذ (رض) کو علاقہ یمن کی طرف بھیجا تو آپ ﷺ نے فرمایا لوگوں کو اسلام کی طرف بلانا اور ان کو خوش رکھنا اور ان کو نفرت نہ دلانا اور آسانی کرنا اور مشقت میں نہ ڈالنا حضرت ابوموسی (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ ہمیں دو شرابوں کے بارے میں فتوی جاری فرمائیں جو ہم یمن میں بنایا کرتے تھے ایک شراب تو بتع ہے اور وہ شہد سے تیار کی جاتی ہے یہاں تک کہ اس میں جھاگ پیدا ہوجائے اور وہ گاڑھی ہوجائے اور ایک شراب جو پانی میں بھگو کر بنائی جاتی ہے یہاں تک کہ وہ سخت ہوجائے اور رسول اللہ ﷺ کو جوامع الکلم اپنے کمال کے ساتھ عطا فرمائے گئے تھے۔ آپ ﷺ نے ہر اس نشہ والی چیز سے منع فرمایا کہ جو نماز سے غافل کر دے۔

【91】

اس بات کے بیان میں کہ ہر نشہ والی چیز خمر ہے اور ہر ایک خمر حرام ہے۔

قتیبہ بن سعید، عبدالعزیز در اور دی، عمارہ بن غزیہ، ابوزبیر، حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ چیستان سے ایک آدمی آیا اور چیستان ایک شہر ہے اس آدمی نے نبی ﷺ سے اس شراب کے بارے میں پوچھا کہ جو ان علاقوں میں پی جاتی تھی اور وہ شراب جو سے تیار ہوتی ہے اس شراب کو مزر کہا جاتا ہے تو نبی ﷺ نے فرمایا وہ شراب نشہ والی ہے ؟ اس نے عرض کیا جی ہاں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہر نشہ والی چیز حرام ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا اس آدمی کے لئے وعدہ ہے کہ جو آدمی نشہ والی چیز پیئے گا اسے اللہ تعالیٰ طینۃ الخبال پلائیں گے صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ طینۃ الخبال کیا چیز ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا دوزخیوں کا پسینہ ہے۔

【92】

اس بات کے بیان میں کہ ہر نشہ والی چیز خمر ہے اور ہر ایک خمر حرام ہے۔

ابوربیع عتکی، ابوکامل، حماد بن زید، ایوب، نافع، ابن عمر، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہر نشہ والی چیز خمر ہے اور ہر نشہ والی چیز حرام ہے اور جس آدمی نے دنیا میں شراب پی اور وہ اس حال میں مرگیا کہ وہ شراب میں مست تھا اور توبہ نہیں کی تو وہ آدمی آخرت میں شراب نہیں پیئے گا۔ (یعنی اس آدمی کو اللہ تعالیٰ جنت کی شراب طہور سے محروم رکھیں گے) ۔

【93】

اس بات کے بیان میں کہ ہر نشہ والی چیز خمر ہے اور ہر ایک خمر حرام ہے۔

اسحاق بن ابراہیم، ابوبکر بن اسحاق، روح، ابن عبادہ، ابن جریج، موسیٰ بن عقبہ، نافع، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہر نشہ والی چیز خمر ہے اور ہر نشہ لانے والی چیز حرام ہے۔

【94】

اس بات کے بیان میں کہ ہر نشہ والی چیز خمر ہے اور ہر ایک خمر حرام ہے۔

صالح بن مسمار سلیمی، معن، عبدالعزیز بن مطلب، موسیٰ بن عقبہ، حضرت موسیٰ بن عقبہ (رض) سے اس سند کے ساتھ گزشتہ حدیث کی طرح یہ حدیث مبارکہ منقول ہے۔

【95】

اس بات کے بیان میں کہ ہر نشہ والی چیز خمر ہے اور ہر ایک خمر حرام ہے۔

محمد بن مثنی، محمد بن حاتم، یحییٰ قطان، عبیداللہ، نافع، ابن عمر، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے نہیں سیکھا سوائے نبی ﷺ کے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہر نشہ والی چیز خمر ہے اور ہر خمر حرام ہے

【96】

شراب پینے کے سزا کے بیان میں جبکہ وہ شراب پینے سے توبہ نہ کرے۔

یحییٰ بن یحیی، مالک، نافع، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس آدمی نے دنیا میں شراب پی وہ آخرت میں (شراب طہور سے) محروم کردیا جائے گا۔

【97】

شراب پینے کے سزا کے بیان میں جبکہ وہ شراب پینے سے توبہ نہ کرے۔

عبداللہ بن مسلمہ بن قعنب، مالک، نافع، ابن عمر، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ فرمایا جس آدمی نے شراب پی اور اس نے توبہ نہ کی تو وہ آدمی آخرت میں (شراب طہور سے) محروم کردیا جائے گا اور وہ اسے نہیں پی سکے گا۔ امام مالک سے پوچھا گیا کہ کیا حضرت ابن عمر (رض) نے اس حدیث کو مرفوعاً روایت کیا ہے تو امام مالک (رض) نے فرمایا ہاں۔

【98】

شراب پینے کے سزا کے بیان میں جبکہ وہ شراب پینے سے توبہ نہ کرے۔

ابوبکر بن ابی شیبہ، عبداللہ بن نمیر، ابی عبیداللہ، نافع، ابن عمر، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس آدمی نے دنیا میں شراب پی تو وہ آخرت میں (شراب طہور) نہیں پی سکے گا سوائے اس کے کہ وہ توبہ کرلے۔

【99】

شراب پینے کے سزا کے بیان میں جبکہ وہ شراب پینے سے توبہ نہ کرے۔

ابن ابی عمر، ہشام ابن سلیمان مخزومی، ابن جریج، موسیٰ بن عقبہ، نافع، ابن عمر، حضرت ابن عمر (رض) سے نبی ﷺ سے عبیداللہ کی حدیث کی طرح حدیث نقل کی۔

【100】

اس نبیذ کے بیان میں کہ جس میں شدت نہ پیدا ہوئی ہو اور نہ ہی اس میں نشہ پیدا ہوا ہو تو وہ حلال ہے۔

عبیداللہ بن معاذ عنبری، ابی شعبہ، یحییٰ بن عبید، ابی عمر بہرانی، ابن عباس، حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے لئے رات کے شروع میں نبیذ پانی میں بھگو دی جاتی تھی چناچہ آپ ﷺ اس نبیذ کو اس دن صبح اور رات کو پی لیتے تھے پھر اگلے دن اور پھر تیسری رات کو اور پھر دن میں عصر تک اور اگر پھر بھی کچھ بچ جاتی اور اس میں نشہ کے آثار ہوتے تو آپ ﷺ خادم کو پلا دیتے یا آپ ﷺ اسے بہا دینے کا حکم فرماتے۔

【101】

اس نبیذ کے بیان میں کہ جس میں شدت نہ پیدا ہوئی ہو اور نہ ہی اس میں نشہ پیدا ہوا ہو تو وہ حلال ہے۔

محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، یحییٰ بہرانی، ابن عباس، حضرت یحییٰ بن بہرانی (رض) فرماتے ہیں کہ لوگوں نے حضرت ابن عباس (رض) کے سامنے نبیذ کا ذکر کیا تو حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا رسول اللہ ﷺ کے لئے مشکیزے میں نبیذ تیار کیا جاتا تھا شعبہ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ اس نبیذ کو سوموار کی رات کو پیتے تھے پھر آپ ﷺ اسے سوموار کے دن اور منگل کے دن عصر تک پیتے تھے پھر اگر اس میں سے کچھ بچ جاتا تو خادم کو پلا دیتے تھے یا اسے بہا دیتے۔

【102】

اس نبیذ کے بیان میں کہ جس میں شدت نہ پیدا ہوئی ہو اور نہ ہی اس میں نشہ پیدا ہوا ہو تو وہ حلال ہے۔

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب، اسحاق بن ابرہیم، ابوبکر، ابوکریب، اسحاق، ابومعاویہ، اعمش، ابی عمر، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے لئے کشمش پانی میں بھگوئی جاتی تھی۔ آپ ﷺ اسے اس دن پیتے پھر اگلے دن اور پھر تیسرے دن شام تک آپ ﷺ اسے پیتے تھے پھر آپ ﷺ اسی پینے کا یا بہانے کا حکم فرماتے۔

【103】

اس نبیذ کے بیان میں کہ جس میں شدت نہ پیدا ہوئی ہو اور نہ ہی اس میں نشہ پیدا ہوا ہو تو وہ حلال ہے۔

اسحاق بن ابراہیم، جریر، اعمش، یحیی، ابوعمر، ابن عباس، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے لئے کشمش مشکیزے میں بھگوئی جاتی تھی۔ آپ ﷺ اس دن اسے پیتے پھر اگلے دن اور پھر اس کے بعد اس سے اگلے دن جب شام ہوتی تو آپ ﷺ اسے پیتے اور پلاتے اور اگر کچھ بچ جاتی تو اسے بہا دیتے۔

【104】

اس نبیذ کے بیان میں کہ جس میں شدت نہ پیدا ہوئی ہو اور نہ ہی اس میں نشہ پیدا ہوا ہو تو وہ حلال ہے۔

محمد بن احمد، ابوخلف، زکریا بن عدی، عبیداللہ، زید، ابوعمر، نخعی، حضرت یحییٰ نخعی (رض) سے روایت ہے کہ لوگوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے شراب کی خریدو فروخت اور اس کی تجارت کے بارے میں پوچھا تو حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا شراب کی نہ خریدوفرخت درست ہے اور نہ ہی اس کی تجارت جائز ہے راوی کہتے ہیں کہ لوگوں نے پھر نبیذ کے بارے میں پوچھا تو حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا رسول اللہ ﷺ ایک سفر میں نکلے پھر جب آپ ﷺ واپس تشریف لائے تو آپ ﷺ کے صحابہ کرام (رض) میں سے کچھ لوگوں نے سبز گھڑوں، لکڑی کے گٹھیلے اور کدو کے تون بے میں نبیذ بنائی ہوئی تھی آپ ﷺ نے اس کے بارے میں حکم فرمایا کہ اسے بہا دیا جائے پھر آپ ﷺ نے ایک مشکیزے میں نبیذ بنانے کے بارے میں فرمایا تو مشکیزے میں کشمش اور پانی ڈالا گیا اور رات بھر اسے بھگوئے رکھا پھر صبح کو آپ ﷺ نے پیا اور پلایا پھر تیسرے دن کی صبح کو اس میں سے جو نبیذ بچ گئی اسے بہا دینے کا حکم فرمایا تو اسے بہا دیا گیا۔

【105】

اس نبیذ کے بیان میں کہ جس میں شدت نہ پیدا ہوئی ہو اور نہ ہی اس میں نشہ پیدا ہوا ہو تو وہ حلال ہے۔

شیبان بن فروخ، قاسم، ابن فضل حدانی، ثمامہ ابن حزن قشیری، حضرت ثمامہ بن حزن قشیری فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ (رض) سے ملاقات کی اور ان سے نبیذ کے بارے میں پوچھا تو حضرت عائشہ (رض) نے حبشہ کی ایک باندی کو بلوایا اور فرمایا اس باندی سے پوچھو کیونکہ یہ باندی رسول اللہ ﷺ کے لئے نبیذ بنایا کرتی تھی تو وہ حبشی باندی کہنے لگی کہ میں آپ ﷺ کے لئے رات کو مشکیزے میں نبیذ بھگوتی اور اس کا منہ باندھ کر اسے لٹکا دیا کرتی تھی تو جب صبح ہوتی تو آپ ﷺ اس میں سے پی لیتے تھے۔

【106】

اس نبیذ کے بیان میں کہ جس میں شدت نہ پیدا ہوئی ہو اور نہ ہی اس میں نشہ پیدا ہوا ہو تو وہ حلال ہے۔

محمد بن مثنی عنزی، عبدالوہاب ثقفی، یونس، حسن، حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ ہم رسول اللہ کے لئے ایک مشکیزے میں نبیذ بناتے تھے اور اس مشکیزے کے اوپر کے حصہ کو باندھ دیتے تھے اور اس مشکیزے میں سوارخ تھے صبح کو ہم نبیذ بھگوتے تو شام کو آپ ﷺ پی لیتے اور شام کو نبیذ بھگوتے تو صبح کو آپ ﷺ پی لیتے تھے۔

【107】

اس نبیذ کے بیان میں کہ جس میں شدت نہ پیدا ہوئی ہو اور نہ ہی اس میں نشہ پیدا ہوا ہو تو وہ حلال ہے۔

قتیبہ بن سعید، عبدالعزیز، ابن ابی حازم، حضرت سہل بن سعد (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابواسید ساعدی (رض) نے اپنی شادی میں رسول اللہ ﷺ کی دعوت کی حضرت ابواسید کی بیوی ہی اس دن کام کر رہی تھی اور دلہن بھی وہی تھی حضرت سہل کہنے لگے کہ تم جانتے ہو کہ اس نے رسول اللہ ﷺ کو کیا پلایا تھا رات کو اس نے ایک بڑے پیالہ میں کچھ کھجور ریں بھگو دی تھیں تو جب آپ ﷺ کھانے سے فارغ ہوئے تو اس نے وہی بھگوئی ہوئی کھجوریں آپ ﷺ کو پلا دیں۔

【108】

اس نبیذ کے بیان میں کہ جس میں شدت نہ پیدا ہوئی ہو اور نہ ہی اس میں نشہ پیدا ہوا ہو تو وہ حلال ہے۔

قتیبہ بن سعید، یعقوب ابن عبدلرحمن، ابی حازم، حضرت سہل (رض) فرماتے ہیں کہ ابو اسید ساعدی (رض) رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئے اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو دعوت دی اور پھر مذکورہ حدیث کی طرح حدیث ذکر کی لیکن اس میں یہ ذکر نہیں کہ جب آپ ﷺ کھانے سے فارغ ہوئے تو انہوں نے آپ ﷺ کو نبیذ پلایا۔

【109】

اس نبیذ کے بیان میں کہ جس میں شدت نہ پیدا ہوئی ہو اور نہ ہی اس میں نشہ پیدا ہوا ہو تو وہ حلال ہے۔

محمد بن سہل تمیمی، ابن ابی مریم، محمد ابوغسان، ابوحازم، سہل بن سعد، حضرت سہل بن سعد (رض) سے یہی حدیث منقول ہے اور اس میں پتھر کے پیالے کا ذکر ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کھانے سے فارغ ہوئے تو حضرت سہل نے بھگوئی ہوئی ان کھجوروں کو خاص طور پر صرف آپ ﷺ کو پلایا۔

【110】

اس نبیذ کے بیان میں کہ جس میں شدت نہ پیدا ہوئی ہو اور نہ ہی اس میں نشہ پیدا ہوا ہو تو وہ حلال ہے۔

محمد بن سہل تمیمی، ابوبکر بن اسحاق، ابوبکر، ابن ابی مریم، محمد بن مطرف، ابوغسان، ابوحازم، حضرت سہل بن سعد (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے عرب کی ایک عورت کا ذکر کیا گیا تو آپ ﷺ نے حضرت ابواسید (رض) کو حکم فرمایا کہ اس عورت کی طرف جاؤ۔

【111】

اس نبیذ کے بیان میں کہ جس میں شدت نہ پیدا ہوئی ہو اور نہ ہی اس میں نشہ پیدا ہوا ہو تو وہ حلال ہے۔

ابوبکر بن ابی شیبہ، زہیر بن حرب، عفان، حماد بن سلمہ، حضرت انس (رض) سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے اس پیالے سے رسول اللہ ﷺ کو پینے کی تمام چیزیں یعنی شہد اور نبیذ اور پانی اور دودھ پلایا ہے۔

【112】

دودھ پینے کے جواز میں

عبیداللہ بن معاذ غبری، ابوشعبہ، ابواسحاق، براء، ابوبکر صدیق، حضرت براء (رض) سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے فرمایا جب ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ کی طرف نکلے تو ہمارا ایک چرواہے کے پاس سے گزر ہوا اور رسول اللہ ﷺ کو پیاس لگی ہوئی تھی حضرت ابوبکر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے آپ ﷺ کے لئے تھوڑا سا دودھ دوہا اور آپ ﷺ کی خدمت میں لے کر حاضر ہوا تو آپ ﷺ نے پیا یہاں تک کہ میں خوش ہوگیا۔

【113】

دودھ پینے کے جواز میں

محمد بن مثنی، ابن بشار، ابن مثنی، محمد بن جعفر، شعبہ، ابواسحاق ہمدانی، حضرت براء فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ تشریف لائے تو سراقہ بن مالک جعشم آپ ﷺ کا تعاقب کرنے لگا حضرت براء فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کے لئے بد دعا فرمائی تو اس کا گھوڑا دھنس گیا سراقہ نے عرض کیا آپ ﷺ میرے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں میں آپ ﷺ کو کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا راوی کہتے ہیں کہ آپ نے اللہ سے دعا کی راوی کہتے ہیں کہ پھر رسول اللہ ﷺ کو پیاس لگی اور بکریوں کے ایک چرواہے کے پاس سے گزر ہوا حضرت ابوبکر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے ایک پیالہ لیا اور اس میں رسول اللہ کے لئے دودھ دوہا اور وہ دودھ لے کے میں آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ ﷺ نے وہ دودھ پیا یہاں تک کہ میں خوش ہوگیا۔

【114】

دودھ پینے کے جواز میں

محمد بن عباد، زہیر بن حرب، ابن عباد، ابوصفوان، یونس، زہری، ابن مسیب، ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ معراج کی رات بیت المقدس میں نبی ﷺ کی خدمت میں ایک شراب اور ایک دودھ کا پیالہ لایا گیا آپ ﷺ نے دونوں کی طرف دیکھا اور پھر دودھ کا پیالہ لے لیا حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے آپ ﷺ سے کہا تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں کہ جس نے آپ ﷺ کو فطرت کی ہدایت عطا فرمائی اگر آپ ﷺ شراب کا پیالہ لے لیتے تو آپ ﷺ کی امت گمراہ ہوجاتی۔

【115】

دودھ پینے کے جواز میں

سلمہ بن شبیب، حسن بن اعین، معقل، زہری، سعید بن مسیب، ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لائے گئے پھر مذکورہ حدیث کی طرح حدیث بیان کی اور اس میں بیت المقدس کا ذکر نہیں ہے۔

【116】

نبیذ اور برتنوں کو ڈھکنے کے بیان میں

زہیر بن حرب، محمد بن مثنی، عبد بن حمید، ابوعاصم، ابن مثنی، ضحاک، ابن جریج، ابوزبیر، جابر بن عبداللہ، حضرت ابوحمید ساعدی (رض) فرماتے ہیں میں کہ نبی ﷺ کی خدمت میں نقیع کے مقام سے ایک (شخص) دودھ کا پیالہ لے کر آیا وہ پیالہ ڈھکا ہوا نہیں تھا آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا اس پیالہ کو ڈھانکا کیوں نہیں اگرچہ لکڑی کی ایک آڑ ہی سے اس کو ڈھک دیتے حضرت ابوحمید فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے رات کو مشکیزوں کے منہ باندھنے کا اور رات کو دروازوں کو بند رکھنے کا حکم فرمایا۔

【117】

نبیذ اور برتنوں کو ڈھکنے کے بیان میں

ابراہیم بن دینار، روح بن عبادہ، ابن جریج، زکریا بن اسحاق، ابوزبیر، جابر بن عبداللہ، حضرت ابوحمید ساعدی (رض) فرماتے ہیں کہ وہ نبی ﷺ کی خدمت میں دودھ کا ایک پیالہ لائے اور پھر اسی طرح حدیث ذکر کی اور اس میں رات کا ذکر نہیں ہے۔

【118】

نبیذ اور برتنوں کو ڈھکنے کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب، ابومعاویہ، اعمش، ابوصالح، حضرت جابر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے آپ ﷺ نے پانی طلب فرمایا تو ایک آدمی نے عرض کیا اے اللہ کے رسول کیا ہم آپ ﷺ کو نبیذ پلائیں آپ نے فرمایا ہاں تو وہ آدمی دوڑتا ہوا نکلا اور ایک پیالہ لے کر آیا جس میں نبیذ تھی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم نے اسے ڈھانکا کیوں نہیں اگرچہ ایک لکڑی ہی اس پر رکھ دی جاتی راوی کہتے ہیں کہ پھر آپ نے وہ نبیذ پی لی۔

【119】

نبیذ اور برتنوں کو ڈھکنے کے بیان میں

عثمان بن ابی شیبہ، جریر، اعمش، ابوسفیان، ابوصالح، جابر بن عبداللہ، حضرت جابر فرماتے ہیں کہ ایک آدمی جسے ابوحمید کہا جاتا ہے وہ نقیع کے مقام سے دودھ کا ایک پیالہ لے کر آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے ابوحمید سے فرمایا کہ تم نے اسے ڈھکا کیوں نہیں کم ازکم اس کے عرض پر ایک لکڑی ہی رکھ دی جاتی۔

【120】

سوتے وقت برتنوں کو ڈھانکنے مشکیزوں کے منہ باندھنے دروازوں کو بند کرنے چراغ بجھانے بچوں اور جانوروں کو مغرب کے بعد باہر نہ نکالنے کے استح کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، لیث، محمد بن رمح، لیث، ابوزبیر، حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم اپنے برتنوں کو ڈھانک دیا کرو اور مشکیزوں کے منہ باندھ دیا کرو اور دروازہ بند کرلیا کرو اور چراغ بھجا دیا کرو کیونکہ شیطان مشکیزوں کو نہیں کھولتا اور دروازے کو بھی نہیں کھولتا اور ڈھکے ہوئے برتن کا ڈھکن بھی نہیں اتارتا اور اگر تم میں سے کسی کو ڈھکنے کے لئے کچھ نہ ملے تو صرف برتن پر اس کے عرض پر ایک لکڑی ہی رکھ دی جائے اور اللہ تعالیٰ کا نام بھی لے لے تو ایسے ہی کرنا چاہئے کیونکہ چوہا لوگوں کے گھر جلا دیتا ہے قتیبہ نے اپنی حدیث میں (وَأَغْلِقُوا الْبَابَ ) یعنی دروزہ بند کرنے کا ذکر نہیں کیا۔

【121】

سوتے وقت برتنوں کو ڈھانکنے مشکیزوں کے منہ باندھنے دروازوں کو بند کرنے چراغ بجھانے بچوں اور جانوروں کو مغرب کے بعد باہر نہ نکالنے کے استح کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، مالک، ابوزبیر، حضرت جابر نے نبی ﷺ سے یہ حدیث اسی طرح روایت کی ہے سوائے اس کے کہ اس میں ( وَأَکْفِئُوا الْإِنَائَ أَوْ خَمِّرُوا الْإِنَاءَ ) برتنوں کو ڈھانک دیا کرو کے الفاظ ہیں اس میں برتنوں پر لکڑی کے رکھنے کا ذکر نہیں ہے۔

【122】

سوتے وقت برتنوں کو ڈھانکنے مشکیزوں کے منہ باندھنے دروازوں کو بند کرنے چراغ بجھانے بچوں اور جانوروں کو مغرب کے بعد باہر نہ نکالنے کے استح کے بیان میں

احمد بن یونس، زہیر، ابوزبیر، جابر بن عبداللہ، حضرت جابر (رض) سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا تم اپنے دروازہ کو بند کرو اور پھر لیث کی حدیث نقل کی سوائے اس کے کہ اس میں خَمِّرُوا الْآنِيَةَ کا ذکر ہے اور راوی نے یہ بھی کہا ہے کہ اس میں یہ ہے کہ چوہا گھر والوں کے کپڑوں کو جلا دیتا ہے۔

【123】

سوتے وقت برتنوں کو ڈھانکنے مشکیزوں کے منہ باندھنے دروازوں کو بند کرنے چراغ بجھانے بچوں اور جانوروں کو مغرب کے بعد باہر نہ نکالنے کے استح کے بیان میں

محمد بن مثنی، عبدالرحمن، سفیان، ابوزبیر، جابر بن عبداللہ، حضرت جابر (رض) نبی ﷺ سے مذکورہ حدیث کی طرح روایت نقل کرتے ہیں اور اس حدیث میں ہے کہ چوہا گھر والوں کو جلا دیتا ہے۔

【124】

سوتے وقت برتنوں کو ڈھانکنے مشکیزوں کے منہ باندھنے دروازوں کو بند کرنے چراغ بجھانے بچوں اور جانوروں کو مغرب کے بعد باہر نہ نکالنے کے استح کے بیان میں

اسحاق بن منصور، روح بن عبادہ، ابن جریج، عطاء، حضرت جابر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب رات کا اندھیرا یا شام ہوجائے تو تم اپنے بچوں کو باہر نکلنے نہ دیا کرو کیونکہ شیطان اس وقت پھیلتے ہیں پھر جب رات کی ایک گھڑی (ایک حصہ) گزر جائے تو پھر انہیں چھوڑ سکتے ہو اور دروازوں کو بند کرلیا کرو اور اللہ کا نام لے لیا کرو (یعنی بسم اللہ توَکَّلتُ علی اللہ پڑھ لیا کرو) کیونکہ شیطان بند دروازے کو نہیں کھولتا اور مشکیزوں کے منہ اللہ کا نام لے کر باندھ دیا کرو اور اللہ کا نام لے کر اپنے برتنوں کو ڈھانک دیا کرو اگرچہ ان پر کسی چیز کی آڑ ہی رکھ دو اور تم اپنے چراغ بجھا دیا کرو۔

【125】

سوتے وقت برتنوں کو ڈھانکنے مشکیزوں کے منہ باندھنے دروازوں کو بند کرنے چراغ بجھانے بچوں اور جانوروں کو مغرب کے بعد باہر نہ نکالنے کے استح کے بیان میں

اسحاق بن منصور، روح بن عبادہ، ابن جریج، عمرو بن دینار، حضرت جابر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں اور پھر مذکورہ حدیث نقل کی گئی اور اس حدیث میں (اذْکُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَزَّوَجَلَّ ) یعنی تم اللہ کا نام لے لیا کرو کے الفاظ مذکور نہیں

【126】

سوتے وقت برتنوں کو ڈھانکنے مشکیزوں کے منہ باندھنے دروازوں کو بند کرنے چراغ بجھانے بچوں اور جانوروں کو مغرب کے بعد باہر نہ نکالنے کے استح کے بیان میں

احمد بن عثمان نوفلی، ابوعاصم، ابن جریج، عطاء، عمرو بن دینار، حضرت ابن جریج (رض) نے اس حدیث مبارکہ کو عطا اور عمرو بن دینار سے روح کی روایت کی طرح نقل کیا ہے۔

【127】

سوتے وقت برتنوں کو ڈھانکنے مشکیزوں کے منہ باندھنے دروازوں کو بند کرنے چراغ بجھانے بچوں اور جانوروں کو مغرب کے بعد باہر نہ نکالنے کے استح کے بیان میں

احمد بن یونس، زہیر، ابوزبیر، جابر، یحییٰ بن یحیی، ابوخیثمہ، ابوزبیر، جابر بن عبداللہ، حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب سورج غروب ہوجائے تو تم اپنے جانوروں اور بچوں کو نہ چھوڑو یہاں تک کہ شام کا اندھیرا جاتا رہے کیونکہ شیاطین سورج کے غروب ہوتے ہی چھوڑ دیئے جاتے ہیں یہاں تک کہ شام کا اندھیرا اور سیاہی ختم ہوجائے۔

【128】

سوتے وقت برتنوں کو ڈھانکنے مشکیزوں کے منہ باندھنے دروازوں کو بند کرنے چراغ بجھانے بچوں اور جانوروں کو مغرب کے بعد باہر نہ نکالنے کے استح کے بیان میں

محمد بن مثنی، عبدالرحمن سفیان، ابوزبیر، حضرت جابر (رض) نبی ﷺ سے زہیر کی حدیث کی طرح حدیث نقل کرتے ہیں

【129】

سوتے وقت برتنوں کو ڈھانکنے مشکیزوں کے منہ باندھنے دروازوں کو بند کرنے چراغ بجھانے بچوں اور جانوروں کو مغرب کے بعد باہر نہ نکالنے کے استح کے بیان میں

عمرو ناقد، ہاشم بن قاسم، لیث بن سعد، یزید بن عبداللہ بن اسامہ بن ہادلیثی، یحییٰ بن سعید، جعفر بن عبداللہ بن حکم، قعقاع بن حکیم، جابر بن عبداللہ، حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ تم اپنے برتنوں کو ڈھانک کے رکھو اور مشکیزوں کا منہ بند کرو کیونکہ سال میں ایک ایسی رات ہوتی ہے کہ جس میں وباء نازل ہوتی ہے اور پھر وہ وباء جو برتن یا مشکیزہ کھلا ہوا ہو اس میں داخل ہوجاتی ہے۔

【130】

سوتے وقت برتنوں کو ڈھانکنے مشکیزوں کے منہ باندھنے دروازوں کو بند کرنے چراغ بجھانے بچوں اور جانوروں کو مغرب کے بعد باہر نہ نکالنے کے استح کے بیان میں

نصر بن علی جہضمی، لیث بن سعد، حضرت لیث بن سعد (رض) سے اس سند کے ساتھ مذکورہ حدیث کی طرح حدیث نقل کی گئی ہے سوائے اس کے کہ اس حدیث میں ہے کہ انہوں نے فرمایا سال میں ایک ایسا دن آتا ہے کہ جس میں وبا نازل ہوتی ہے کہتے ہیں کہ ہماری طرف کے عجمی لوگ " کَانُونَ الْأَوَّل " میں اس سے بچتے رہو۔

【131】

سوتے وقت برتنوں کو ڈھانکنے مشکیزوں کے منہ باندھنے دروازوں کو بند کرنے چراغ بجھانے بچوں اور جانوروں کو مغرب کے بعد باہر نہ نکالنے کے استح کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، عمرو ناقد، زہیر بن حرب، سفیان بن عیینہ، زہری، سالم، حضرت سالم (رض) اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا تم اپنے گھروں میں آگ نہ چھوڑا کرو جس وقت کہ تم سو جاؤ۔

【132】

سوتے وقت برتنوں کو ڈھانکنے مشکیزوں کے منہ باندھنے دروازوں کو بند کرنے چراغ بجھانے بچوں اور جانوروں کو مغرب کے بعد باہر نہ نکالنے کے استح کے بیان میں

سعید بن عمرو اشعث، ابوبکر بن ابی شیبہ، محمد بن عبداللہ بن نمیر، ابوعامر اشعری، ابوکریب، ابوعامر، ابواسامہ، برید، ابوبردہ، حضرت ابوموسی (رض) سے روایت ہے کہ رات کو مدینہ منورہ کے ایک گھر میں اس گھر والے جل گئے جب رسول اللہ ﷺ کے سامنے یہ واقعہ بیان کیا گیا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا یہ آگ تمہاری دشمن ہے تو جب تم سونے لگو تو اسے بجھا دیا کرو۔

【133】

کھانے پینے کے آداب اور ان کے احکام کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب، ابومعاویہ، اعمش، خیثمہ، حضرت حذیفہ (رض) سے روایت ہے کہ جب ہم نبی ﷺ کے ساتھ کھانا کھاتے تھے تو ہم اپنے ہاتھوں کو (کھانے میں) اس وقت تک نہیں ڈالتے تھے جب تک کہ رسول اللہ ﷺ شروع نہ فرماتے اور اپنا ہاتھ مبارک نہ ڈالتے کہ ایک مرتبہ ہم آپ ﷺ سے ساتھ کھانا کھانے میں موجود تھے کہ اچانک ایک لڑکی آئی گویا کہ اسے کوئی ہانک رہا ہے وہ اپنا ہاتھ کھانے میں ڈالنے لگی تو رسول اللہ ﷺ نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا پھر ایک دیہاتی آدمی دوڑتا ہوا آیا تو رسول اللہ ﷺ نے اس دیہاتی کا بھی ہاتھ پکڑ لیا پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا شیطان اپنے لئے ایسے کھانے کو حلال کرلیتا ہے کہ جس پر اللہ کا نام نہ لیا جائے چناچہ شیطان اس لڑکی کو لایا تاکہ وہ اپنے لئے کھانا حلال کرے تو میں نے اس لڑکی کا ہاتھ پکڑ لیا پھر وہ شیطان اس دیہاتی آدمی کو لایا تاکہ وہ اس کے ذریعہ سے اپنا کھانا حلال کرلے تو میں نے اس کا ہاتھ بھی پکڑ لیا (پھر آپ ﷺ نے فرمایا) قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ شیطان کا ہاتھ اس لڑکی کے ہاتھ کے ساتھ میرے ہاتھ میں ہے۔

【134】

کھانے پینے کے آداب اور ان کے احکام کے بیان میں

اسحاق بن ابراہیم حنظلی، عیسیٰ بن یونس، اعمش، خیثمہ بن عبدالرحمن، ابی حذیفہ ارحبی، حضرت حذیفہ بن یمان (رض) سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ جب ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کسی کھانے کی دعوت میں جاتے تھے پھر آگے حدیث ابومعاویہ کی حدیث کی طرح ذکر کی اور اس حدیث میں لڑکی کے آنے سے پہلے دیہاتی آدمی کے آنے کا ذکر ہے اور حدیث کے آخر میں یہ زائد ہے کہ پھر اللہ کا نام لیا اور کھایا۔

【135】

کھانے پینے کے آداب اور ان کے احکام کے بیان میں

ابوبکر بن نافع، عبدالرحمن، سفیان، اعمش، حضرت اعمش (رض) سے اس سند کے ساتھ روایت نقل کی گئی ہے اور اس حدیث میں لڑکی کے آنے کو دیہاتی آدمی کے آنے سے پہلے ذکر کیا گیا ہے۔

【136】

کھانے پینے کے آداب اور ان کے احکام کے بیان میں

محمد بن مثنی عنزی، ضحاک، ابوعاصم، ابن جریج، ابوزبیر، حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ جب آدمی اپنے گھر داخل ہوتا ہے تو وہ اپنے گھر میں داخل ہوتے وقت اور کھانا کھانے کے وقت اللہ تعالیٰ کا نام لیتا ہے تو شیطان کہتا ہے کہ آج تمہارے لئے اس گھر میں رات گزارنے کی جگہ نہ ملی اور جب کھانا کھانے کا وقت اللہ کا نام نہ لے تو شیطان کہتا ہے کہ رات گزارنے کی جگہ اور شام کا کھانا مل گیا۔

【137】

کھانے پینے کے آداب اور ان کے احکام کے بیان میں

اسحاق بن منصور، روح بن عبادہ، ابن جریج، ابوزبیر، حضرت جابر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ انہوں نے نبی ﷺ سے سنا ابوعاصم کی روایت کی طرح آپ فرماتے ہیں کہ اور اس حدیث میں ہے کہ اگر وہ کھانا کھاتے وقت اللہ کا نام نہیں لیتا اور اپنے گھر میں داخل ہوتے وقت اللہ کا نام نہیں لیتا۔

【138】

کھانے پینے کے آداب اور ان کے احکام کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، لیث، محمد بن رمح، لیث، ابوزبیر، جابر بن عبداللہ، حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا تم بائیں ہاتھ سے مت کھاؤ کیونکہ شیطان بائیں ہاتھ سے کھاتا ہے۔

【139】

کھانے پینے کے آداب اور ان کے احکام کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، محمد بن عبداللہ بن نمیر، زہیر بن حرب، ابن ابی عمر، سفیان، زہری، ابوبکر بن عبیداللہ بن عبداللہ بن عمر، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی آدمی کھانا کھائے تو اسے چاہئے کہ وہ اپنے دائیں ہاتھ سے کھائے اور جب پیے تو اپنے دائیں ہاتھ سے پیے کیونکہ شیطان اپنے بائیں ہاتھ سے کھاتا ہے اور بائیں ہاتھ سے پیتا ہے۔

【140】

کھانے پینے کے آداب اور ان کے احکام کے بیان میں

قتیبہ، مالک بن انس، حضرت زہری سے سفیان کی سندوں کے ساتھ حدیث منقول ہے۔

【141】

کھانے پینے کے آداب اور ان کے احکام کے بیان میں

ابوطاہر، حرملہ، عبداللہ بن وہب، عمرو بن محمد، قاسم بن عبیداللہ بن عبداللہ بن عمر، سالم، حضرت سالم (رض) اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میں سے کوئی آدمی اپنے بائیں ہاتھ سے نہ کھائے اور نہ ہی ہرگز اپنے بائیں ہاتھ سے پیے کیونکہ شیطان اپنے بائیں ہاتھ سے کھاتا ہے اور بائیں ہاتھ سے پیتا ہے اور نافع کی روایت میں یہ زائد ہے کہ کوئی آدمی بائیں ہاتھ سے کوئی چیز نہ پکڑے اور نہ ہی بائیں ہاتھ سے کوئی چیز دے اور ابوطاہر کی روایت میں بجائے (أَحَدٌ مِنْکُمْ ) کے (أَحَدُکُمْ ) ہے۔

【142】

کھانے پینے کے آداب اور ان کے احکام کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، زید بن حباب، عکرمہ بن عمار، حضرت ایاس بن سلمہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ان کے باپ نے ان سے بیان کیا کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ کے پاس اپنے بائیں ہاتھ سے کھانا کھایا تو آپ ﷺ نے فرمایا اپنے دائیں ہاتھ سے کھا تو وہ آدمی کہنے لگا کہ میں ایسا نہیں کرسکتا آپ ﷺ نے فرمایا (اللہ کرے) تو اسے اٹھا ہی نہ سکے اس آدمی کو سوائے تکبر اور غرور کے اور کسی چیز نے اس طرح کرنے سے نہیں روکا راوی کہتے ہیں کہ وہ آدمی اپنے ہاتھ کو اپنے منہ تک نہ اٹھا سکا۔

【143】

کھانے پینے کے آداب اور ان کے احکام کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابن ابی عمر، سفیان، ابوبکر، سفیان بن عیینہ، ولید بن کثیر، وہب بن کیسان، عمر بن ابوسلمہ، حضرت وہب بن کیسان سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت عمر بن ابی سلمہ (رض) سے سنا وہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے زیر تربیت تھا اور میرا ہاتھ پیالے میں سب طرف گھوم رہا تھا تو آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا اے لڑکے ! اللہ کا نام لے اور اپنے دائیں ہاتھ سے کھا اور اپنے سامنے سے کھا۔

【144】

کھانے پینے کے آداب اور ان کے احکام کے بیان میں

حسن بن علی حلوانی، ابوبکر بن اسحاق، ابن ابی مریم، محمد بن جعفر، محمد بن عمرو بن حلحلہ، وہب بن کیسان، عمر بن ابوسلمہ، حضرت عمر بن ابی اسلمہ (رض) فرماتے ہیں کہ ایک دن میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کھانا کھایا تو میں نے پیالے کے اردگرد سے گوشت لینا شروع کردیا تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اپنے قریب سے کھاؤ۔

【145】

کھانے پینے کے آداب اور ان کے احکام کے بیان میں

عمرو بن ناقد، سفیان بن عیینہ، زہری، عبیداللہ، ابوسعید، حضرت ابوسعید (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے مشکیزوں کو منہ لگا کر پانی پینے سے منع فرمایا ہے۔

【146】

کھانے پینے کے آداب اور ان کے احکام کے بیان میں

حرملہ بن یحیی، ابن وہب، یونس ابن شہاب عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ، حضرت ابوسعید خدری (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مشکیزوں کو الٹ کر ان کے منہ سے منہ لگا کا پانی پینے سے منع فرمایا۔

【147】

کھانے پینے کے آداب اور ان کے احکام کے بیان میں

عبد بن حمید، عبدالرزاق، معمر، حضرت زہری سے اس سند کے ساتھ مذکورہ حدیث کی طرح روایت منقول ہے اور اس حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ان کا اختناث یہ ہے کہ مشکیزوں کے منہ کو لٹایا جائے پھر اس سے پیا جائے۔ (پھر آپ ﷺ نے اس سے منع فرمایا)

【148】

کھڑے ہو کر پانی پینے کی کراہت ہے بیان میں

ہداب بن خالد، ہمام، قتادہ، انس، حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے کھڑے ہو کر (پانی یا اور کوئی مشروب وغیرہ) پینے سے سختی سے ڈانٹا۔

【149】

کھڑے ہو کر پانی پینے کی کراہت ہے بیان میں

محمد بن مثنی، عبدالاعلی، سعید، قتادہ، انس، قتیبہ بن سعید، ابوبکر بن ابی شیبہ، وکیع، ہشام، قتادہ، حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے منع فرمایا کہ آدمی کھڑے ہو کر پانی پیے حضرت قتادہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے کھڑے ہو کر کھانا کھانے کے بارے میں عرض کیا تو آپ نے فرمایا یہ تو اور بھی زیادہ برا اور بدتر ہے۔

【150】

کھڑے ہو کر پانی پینے کی کراہت ہے بیان میں

قتیبہ بن سعید، ابوبکر بن ابی شیبہ، وکیع، ہشام، قتادہ، حضرت انس نبی ﷺ سے مذکورہ حدیث کی طرح نقل کرتے ہیں اور اس میں حضرت قتادہ (رض) کا قول نہیں کیا۔

【151】

کھڑے ہو کر پانی پینے کی کراہت ہے بیان میں

ہداب بن خلاد، ہمام، قتادہ، ابی عیسیٰ سواری، حضرت ابوسعید عنہ خدری (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے کھڑے ہو کر (پانی وغیرہ) پینے سے سختی سے ڈانٹا ہے۔

【152】

کھڑے ہو کر پانی پینے کی کراہت ہے بیان میں

زہیر بن حرب، محمد بن مثنی، ابن بشار، زہری، ابن مثنی، یحییٰ بن سعید، شعبہ، قتادہ، امام ابوعیسٰی سواری، حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کھڑے ہو کر (پانی وغیرہ) پینے سے منع فرمایا ہے۔

【153】

کھڑے ہو کر پانی پینے کی کراہت ہے بیان میں

عبدالجبار بن علاء، مروان فزاری، عمرو بن حمزہ، ابوغطفان، حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میں سے کوئی آدمی کھڑے ہو کر (پانی وغیرہ) نہ پیے اور جو آدمی بھول کر پی لے تو وہ اسے قے کر ڈالے۔

【154】

زمزم کھڑے ہو کر پینے کے بیان میں

ابوکامل جحدری، ابوعوانہ، عاصم، شعبی، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو زمزم کا پانی پلایا تو آپ ﷺ نے وہ زمزم کھڑے ہو کر پیا۔

【155】

زمزم کھڑے ہو کر پینے کے بیان میں

محمد بن عبداللہ بن نمیر، سفیان، عاصم، شعبی، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے زمزم کا پانی ایک ڈول سے کھڑے ہو کرپیا۔

【156】

زمزم کھڑے ہو کر پینے کے بیان میں

سریج بن یونس، ہشیم عاصم احول، یعقوب دورقی، اسماعیل بن سلام، ہشیم، عاصم احول، مغیرہ، شعبی، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے زمزم کا پانی کھڑے ہو کر پیا۔

【157】

زمزم کھڑے ہو کر پینے کے بیان میں

عبیداللہ بن معاذ، شعبہ، عاصم، شعبی، حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو زمزم کا پانی پلایا تو آپ ﷺ نے کھڑے ہو کر پیا اور آپ ﷺ نے بیت اللہ کے پاس پانی طلب فرمایا۔

【158】

زمزم کھڑے ہو کر پینے کے بیان میں

محمد بن بشار، محمد بن جعفر، محمد بن مثنی، وہب بن جریر، حضرت شعبہ (رض) سے ان سندوں کے ساتھ روایت نقل کی گئی ہے اور ان دونوں روایتوں میں ہے کہ میں ڈول لے کر آیا۔

【159】

پانی برتن میں سانس لینے کی کراہت اور برتن سے باہر تین مرتبہ سانس لے کر پانی پینے کے استح کے بیان میں

ابن ابی عمر ثقفی، ایوب بن یحییٰ بن ابی کثیر، عبداللہ بن ابوقتادہ، حضرت عبداللہ بن ابی قتادہ (رض) اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے برتن میں سانس لینے سے منع فرمایا ہے۔

【160】

پانی برتن میں سانس لینے کی کراہت اور برتن سے باہر تین مرتبہ سانس لے کر پانی پینے کے استح کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، ابوبکر بن ابی شیبہ، وکیع، عزرہ بن ثابت انصاری، ثمامہ بن عبداللہ بن انس، حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ (پانی پیتے ہوئے برتن سے منہ ہٹاکر) تین مرتبہ سانس لیا کرتے تھے۔

【161】

پانی برتن میں سانس لینے کی کراہت اور برتن سے باہر تین مرتبہ سانس لے کر پانی پینے کے استح کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، عبدالوارث بن سعید، شیبان بن فروخ، عبدالوارث، ابوعصام، حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ (پانی وغیرہ) پینے میں تین مرتبہ سانس لیا کرتے تھے اور آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ اس طرح کرنے سے سیر زیادہ ہوتی ہے اور پیاس بھی زیادہ بجھتی ہے اور پانی زیادہ ہضم ہوتا ہے حضرت انس فرماتے ہیں کہ میں بھی پینے میں تین مرتبہ سانس لیتا ہوں۔

【162】

پانی برتن میں سانس لینے کی کراہت اور برتن سے باہر تین مرتبہ سانس لے کر پانی پینے کے استح کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، ابوبکر بن ابی شیبہ، وکیع، ہشام دستوائی، ابوعصام، حضرت انس (رض) کی نبی ﷺ سے مذکورہ حدیث کی طرح منقول ہے اور اس میں برتن کا ذکر ہے۔

【163】

پانی یا دودھ ان جیسی کسی چیز کو شروع کرنے والے کے دائیں طرف سے تقسیم کرنے کے استح کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، مالک، ابن شہاب، انس بن مالک، حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ کی خدمت میں ایسا دودھ پیش کیا گیا کہ جس میں پانی ملایا ہوا تھا آپ ﷺ کے دائیں طرف ایک دیہاتی آدمی اور بائیں طرف حضرت ابوبکر (رض) بیٹھے تھے تو آپ ﷺ نے خود پی کر دیہاتی آدمی کو عطا فرمایا اور آپ ﷺ نے فرمایا دائیں طرف سے شروع کرنا چاہئے کہ اور پھر بائیں طرف سے۔

【164】

پانی یا دودھ ان جیسی کسی چیز کو شروع کرنے والے کے دائیں طرف سے تقسیم کرنے کے استح کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، عمرو ناقد، زہیر بن حرب، محمد بن عبداللہ بن نمیر، زہیر، سفیان بن عیینہ، زہیر، حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو میری عمر دس سال تھی اور جب آپ ﷺ کا وصال ہوا تو میری عمر بیس سال تھی اور میری ماں مجھے آپ ﷺ کی خدمت کرنے کی ترغیب دیتی تھی ایک مرتبہ آپ ﷺ ہمارے گھر تشریف لائے تو ہم نے آپ ﷺ کے لئے ایک پالی ہوئی بکری کا دودھ دوہا اور گھر کے کنوئیں کا پانی آپ ﷺ کی خدمت میں پیش کیا تو رسول اللہ ﷺ نے وہ پیا حضرت عمر (رض) نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ حضرت ابوبکر (رض) کو عطا فرمائیں اور حضرت ابوبکر (رض) آپ ﷺ کے بائیں طرف بیٹھے ہوئے تھے تو آپ ﷺ نے ایک دیہاتی آدمی کو جو آپ کے دائیں طرف بیٹھا تھا عطا فرمایا اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دائیں طرف سے شروع کرنا چاہیے اور پھر بائیں طرف سے شروع کرنا چاہے۔

【165】

پانی یا دودھ ان جیسی کسی چیز کو شروع کرنے والے کے دائیں طرف سے تقسیم کرنے کے استح کے بیان میں

یحییٰ بن ایوب، قتیبہ، ابن حجر، اسماعیل بن جعفر، عبداللہ بن عبدالرحمن بن معمر بن حزم ابی طوالہ انصاری، انس بن مالک، عبداللہ بن مسلمہ بن قعنب، سلیمان حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے گھر تشریف لائے تو آپ ﷺ نے پانی طلب فرمایا (انس (رض) فرماتے ہیں کہ ہم نے اپنی بکری کا دودھ دوہا اور اس میں اپنے اس کنوئیں کا پانی ملایا حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ پھر میں نے وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کیا تو رسول اللہ ﷺ نے پیا اور حضرت ابوبکر (رض) آپ ﷺ کے بائیں طرف تشریف فرما تھے اور حضرت عمر (رض) آپ ﷺ کے سامنے اور ایک دیہاتی آپ ﷺ کے دائیں طرف بیٹھا تھا تو جب رسول اللہ ﷺ پی کر فارغ ہوئے تو حضرت عمر (رض) نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ یہ حضرت ابوبکر (رض) ہیں (حضرت عمر (رض) اشارہ کے انداز میں عرض کر رہے تھے کہ حضرت ابوبکر (رض) کو پینے کے لئے دیا جائے) چناچہ رسول اللہ ﷺ نے اس دیہاتی آدمی کو عطا فرمایا اور حضرت ابوبکر (رض) اور حضرت عمر (رض) کو چھوڑ دیا اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (پہلے) دائیں طرف والے، دائیں طرف والے، دائیں طرف والے۔ حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ (اپنی دائیں طرف سے شروع کرنا) کہ یہی سنت ہے، یہی سنت ہے، یہی سنت ہے۔

【166】

پانی یا دودھ ان جیسی کسی چیز کو شروع کرنے والے کے دائیں طرف سے تقسیم کرنے کے استح کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، مالک بن انس، ابوحازم، سہل بن سعد ساعدی، حضرت سہل بن سعد ساعدی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پینے کی کوئی چیز لائی گئی تو آپ ﷺ نے وہ پی اور آپ کے دائیں طرف ایک لڑکا بیٹھا تھا اور آپ ﷺ کے بائیں طرف بزرگ حضرات بیٹھے تو آپ ﷺ نے اس لڑکے سے فرمایا کیا تو مجھے پہلے ان بزرگ حضرات کو پلانے کی اجازت دیتا ہے تو اس لڑکے نے عرض کیا نہیں اللہ کی قسم میرا وہ حصہ جو مجھے آپ ﷺ سے مل رہا ہے میں کسی کو نہیں دینا چاہتا رسول اللہ ﷺ نے پیالہ اس کے ہاتھ پر رکھ دیا۔

【167】

پانی یا دودھ ان جیسی کسی چیز کو شروع کرنے والے کے دائیں طرف سے تقسیم کرنے کے استح کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، عبدالعزیزبن ابی حازم، قتیبہ بن سعید، یعقوب ابن عبدالرحمن قاری، ابوحازم، سہل بن سعد، حضرت سہل بن سعد (رض) نبی ﷺ سے مذکورہ حدیث کی طرح نقل کرتے ہیں اور فتلہ کا لفظ دونوں روایتوں میں نہیں ہے لیکن یعقوب کی روایت میں ہے کہ ان کو دے دیا۔

【168】

کھانا کھانے کے بعد انگلیاں اور برتن چانٹے کے استح کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، عمرو ناقد، اسحاق بن ابراہیم، ابن ابوعمر، اسحاق، سفیان، عمرو بن عطاء، ابن عباس، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کوئی آدمی کھانا کھائے وہ اپنا ہاتھ صاف نہ کرے جب تک کہ اسے چاٹ نہ لے یا چٹا نہ دے۔

【169】

کھانا کھانے کے بعد انگلیاں اور برتن چانٹے کے استح کے بیان میں

ہارون بن عبداللہ، حجاج بن محمد، عبد بن حمید، ابوعاصم، ابن جریج، زہیر بن حرب، روح بن عبادہ، ابن جریج، عطاء، حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کوئی آدمی کھانا کھائے تو اپنا ہاتھ صاف نہ کرے جب تک کہ اسے چاٹ یا چٹا نہ دے۔

【170】

کھانا کھانے کے بعد انگلیاں اور برتن چانٹے کے استح کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، زہیر بن حرب، محمد بن حاتم، ابن مہدی، سفیان، سعد بن ابراہیم، حضرت ابن کعب بن مالک (رض) اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ کھانا کھانے کے بعد اپنی تینوں انگلیاں چاٹ رہے ہیں ابن حاتم نے تین کا ذکر نہیں کیا اور ابن ابی شیبہ نے اپنی روایت میں عن عبدالرحمن بن کعب عن ربیہ کے الفاظ ذکر کئے ہیں۔

【171】

کھانا کھانے کے بعد انگلیاں اور برتن چانٹے کے استح کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، ابومعاویہ، ہشام بن عروہ، عبدالرحمن بن سعد، ابن کعب، مالک، حضرت ابن کعب بن مالک (رض) اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ تین انگلیوں کے ساتھ کھاتے تھے اور اپنے ہاتھ مبارک صاف کرنے سے پہلے چاٹ لیتے تھے۔

【172】

کھانا کھانے کے بعد انگلیاں اور برتن چانٹے کے استح کے بیان میں

محمد بن عبداللہ بن نمیر، ہشام، عبدالرحمن بن سعد، عبدالرحمن بن کعب بن مالک، عبداللہ بن کعب، حضرت کعب بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ تین انگلیوں کے ساتھ کھانا کھاتے تھے اور جب آپ ﷺ کھانا کھا کر فارغ ہوجاتے تو ان انگلیوں کو چاٹ لیتے۔

【173】

کھانا کھانے کے بعد انگلیاں اور برتن چانٹے کے استح کے بیان میں

ابوکریب ابن نمیر، ہشام، عبدالرحمن بن سعد، عبدالرحمن بن کعب بن مالک، عبداللہ بن کعب، حضرت کعب بن مالک (رض) نے نبی ﷺ سے مذکورہ حدیث کی طرح حدیث نقل کی ہے۔

【174】

کھانا کھانے کے بعد انگلیاں اور برتن چانٹے کے استح کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، سفیان بن عیینہ، ابوزبیر، حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے انگلیاں چاٹنے اور پیالہ صاف کرنے کا حکم فرمایا اور آپ ﷺ نے فرمایا تم نہیں جانتے کہ برکت کس حصے میں ہے

【175】

کھانا کھانے کے بعد انگلیاں اور برتن چانٹے کے استح کے بیان میں

محمد بن عبداللہ بن نمیر، سفیان بن عیینہ، ابوزبیر، حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کسی آدمی کا لقمہ نیچے گرجائے تو اسے اٹھا کر گندگی وغیرہ صاف کر کے کھالے اور اس لقمے کو شیطان کے لئے نہ چھوڑے اور اپنا ہاتھ تولیہ رومال سے صاف نہ کرے جب تک کہ اپنی انگلیاں چاٹ نہ لے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ برکت کس کھانے میں ہے۔

【176】

کھانا کھانے کے بعد انگلیاں اور برتن چانٹے کے استح کے بیان میں

اسحاق بن ابراہیم، ابوداؤد حفری، محمد بن رافع، عبدالرزاق، سفیان سے اس سند کے ساتھ اسی طرح حدیث نقل کی گئی ہے اور ان دو روایتوں میں ہے کہ وہ اپنے ہاتھ کو تولیہ رومال سے صاف نہ کرے جب تک کہ اپنی انگلیاں چاٹ یا چٹا نہ دے۔

【177】

کھانا کھانے کے بعد انگلیاں اور برتن چانٹے کے استح کے بیان میں

عثمان بن ابی شیبہ، جریر، اعمش، ابوسفیان، حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ شیطان تم میں سے ہر ایک آدمی کے پاس اس کے ہر کام کے وقت موجود رہتا ہے یہاں تک کہ اس آدمی کے کھانا کھانے کے وقت بھی اس کے پاس موجود ہوتا ہے تو لہذا جب تم میں سے کسی سے لقمہ گرجائے تو اسے چاہیے کہ وہ اس سے گندگی وغیرہ جو اس لقمہ کے ساتھ لگ گئی ہو صاف کرے پھر اسے کھاجائے اور اس لقمہ کو شیطان کے لئے نہ چھوڑے اور جب کھانا کھا کر فارغ ہوجائے تو اپنی انگلیاں چاٹ لے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ برکت کھانے کے کس حصے میں ہے۔

【178】

کھانا کھانے کے بعد انگلیاں اور برتن چانٹے کے استح کے بیان میں

ابوکریب، اسحاق بن ابراہیم، ابومعاویہ، حضرت اعمش (رض) سے اس سند کے ساتھ روایت ہے کہ جب تم میں سے کسی آدمی سے لقمہ گرجائے آخر حدیث تک اور اس حدیث میں ابتدائی بات کہ شیطان تمہارے پاس موجود رہتا ہے ذکر نہیں کیا۔

【179】

کھانا کھانے کے بعد انگلیاں اور برتن چانٹے کے استح کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، محمد بن فضیل، اعمش، ابوصالح، ابوسفیان، حضرت جابر (رض) نبی ﷺ سے اسی طرح حدیث نقل کرتے ہیں اور اس میں لقمہ گرنے کا بھی ذکر ہے۔

【180】

کھانا کھانے کے بعد انگلیاں اور برتن چانٹے کے استح کے بیان میں

محمد بن حاتم، ابوبکر بن نافع عبدی، بہز، حماد بن سلمہ، حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ جب کھانا کھاتے تو اپنی تینوں انگلیاں چاٹتے تھے حضرت انس (رض) نے فرمایا آپ ﷺ فرماتے ہیں جب تم میں سے کسی آدمی کا کوئی لقمہ گرجائے تو اسے چاہئے کہ اسے صاف کرکے کھاجائے اور اس لقمہ کو شیطان کے لئے نہ چھوڑے اور آپ ﷺ نے ہمیں پیالہ صاف کرنے کا حکم فرمایا اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم نہیں جانتے برکت تمہارے کھانے کے کون سے حصہ میں ہے۔

【181】

کھانا کھانے کے بعد انگلیاں اور برتن چانٹے کے استح کے بیان میں

محمد بن حاتم، بہز، وہیب، سہیل، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی آدمی کھانا کھائے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنی انگلیاں چاٹ لے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ برکت کس انگلی میں ہے۔

【182】

کھانا کھانے کے بعد انگلیاں اور برتن چانٹے کے استح کے بیان میں

ابوبکر بن نافع، عبدالرحمن، ابن مہدی، حماد، حضرت حماد (رض) سے اس سند کے ساتھ اسی طرح حدیث منقول ہے سوائے اس کے کہ اس میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا تم میں ہر ایک آدمی پیالہ صاف کرلے اور آپ ﷺ نے فرمایا تمہارے کس کھانے میں برکت ہے یا تمہارے لئے برکت ہوتی ہے (یہ تم نہیں جانتے) ۔

【183】

اگر مہمان کے ساتھ پر کچھ اور آدمی بھی آجائیں تو میزبان کیا کرے۔

قتیبہ بن سعید، عثمان بن ابی شبیہ، جریر، اعمش، ابو وائل، حضرت ابومسعود انصاری سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں کہ انصار کا ایک آدمی تھا جسے ابوشعیب کہا جاتا ہے اس کا ایک غلام تھا جو گوشت بیچا کرتا تھا اس نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا تو اس نے آپ ﷺ کے چہرہ انور میں بھوک کے آثار پہچان لئے ابوشعیب نے اپنے غلام سے کہا کہ ہمارے لئے پانچ آدمیوں کا کھانا تیار کرو کیونکہ میں نبی ﷺ کی دعوت کرنا چاہتا ہوں اور آپ ﷺ پانچوں میں پانچویں ہیں راوی کہتے ہیں کہ اس غلام نے حکم کے مطابق کھانا تیار کردیا پھر وہ نبی ﷺ کو بلانے کے لئے آپ کی خدمت میں آیا آپ ﷺ پانچوں میں سے پانچویں تھے اور آپ کے ساتھ ایک اور آدمی پیچھے چل پڑا جب آپ ﷺ دروازہ پر پہنچے تو نبی ﷺ نے فرمایا اگر تو چاہے تو اسے اجازت دے دے ورنہ یہ واپس لوٹ جائے ابوشعیب نے عرض کیا نہیں اے اللہ کے رسول میں اس کو اجازت دیتا ہوں۔

【184】

اگر مہمان کے ساتھ پر کچھ اور آدمی بھی آجائیں تو میزبان کیا کرے۔

ابوبکر بن ابی شیبہ، اسحاق بن ابرہیم، ابومعاویہ، نصر بن علی جہضمی، ابوسعید اشج، ابواسامہ، عبیداللہ بن معاذ، ابوشعبہ، عبداللہ بن عبدالرحمن دارمی، ان سندوں کے ساتھ حضرت ابومسعود (رض) نے نبی ﷺ سے یہ حدیث جریر کی حدیث کی طرح نقل کی ہے۔

【185】

اگر مہمان کے ساتھ پر کچھ اور آدمی بھی آجائیں تو میزبان کیا کرے۔

محمد بن عمرو بن جبلہ بن ابی رواد، ابوجواب، عمار ابن رزیق، اعمش، ابوسفیان، جابر، سلمہ بن شبیب، حسن بن اعین، زہیر، اعمش، شقیق، ابومسعود، اعمش، ابوسفیان، جابر، حضرت جابر سے یہ حدیث اسی طرح نقل کی گئی ہے۔

【186】

اگر مہمان کے ساتھ پر کچھ اور آدمی بھی آجائیں تو میزبان کیا کرے۔

زہیر بن حرب، یزید بن ہارون، حماد بن سلمہ، ثابت بن انس، حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا ایک ہمسایہ تھا جو کہ فارسی تھا وہ شوربہ بہت عمدہ بناتا تھا اس نے رسول اللہ ﷺ کے لئے کھانا بنایا پھر وہ آپ ﷺ کو بلانے کے لئے آپ ﷺ کی خدمت میں آیا تو آپ ﷺ نے فرمایا (حضرت عائشہ (رض) کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) اور ان کی دعوت بھی ؟ تو اس نے کہا نہیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا نہیں (یعنی میں بھی دعوت میں نہیں آتا) وہ دوبارہ آپ ﷺ کو بلانے کے لئے حاضر ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اور ان کی دعوت بھی ؟ اس نے کہا نہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں بھی نہیں آتا پھر وہ تیسری مرتبہ آپ ﷺ کے بلانے کے لئے حاضر ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اور ان کی دعوت بھی ؟ تو تیسری مرتبہ اس نے کہا ہاں ان کی دعوت بھی پھر وہ دونوں (حضرت عائشہ (رض) اور رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے اور چلے یہاں تک کہ اس کے گھر میں آگئے۔

【187】

بااعتماد میزبان کے ہاں اپنے ساتھ کسی اور آدمی کو لے جانے کے جواز میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، خلف بن خلیفہ، یزید بن کیسان، ابوحازم، ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ ایک دن یا ایک رات رسول اللہ ﷺ باہر نکلے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر (رض) سے بھی ملاقات ہوگئی تو آپ ﷺ نے ان دونوں حضرات سے فرمایا اس وقت تمہارا اپنے گھروں سے نکلنے کا سبب کیا ہے ان دونوں حضرات نے عرض کیا بھوک اے اللہ کے رسول ﷺ آپ ﷺ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے میں بھی اسی وجہ سے نکلا ہوں جس وجہ سے تم دونوں نکلے ہوئے ہو اٹھو کھڑے ہوجاؤ دونوں حضرات کھڑے ہوگئے تو آپ ﷺ ایک انصاری کے گھر تشریف لائے کہ وہ انصاری اپنے گھر میں نہیں ہے انصاری کی بیوی نے دیکھا تو مرحبا اور خوش آمدید کہا تو رسول اللہ ﷺ نے اس انصاری کی بیوی سے فرمایا فلاں کہاں ہے اس نے عرض کیا وہ ہمارے لئے میٹھا پانی لینے گیا ہے اسی دروان انصاری بھی آگئے تو اس انصاری نے رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کے ساتھیوں کی طرف دیکھا اور پھر کہنے لگا اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ آج میرے مہمانوں سے زیادہ کسی کے مہمان معزز نہیں اور پھر چلے اور کھجوروں کا ایک خوشہ لے کر آئے جس میں کچی اور پکی اور خشک اور تازہ کھجوریں تھیں اور عرض کیا کہ ان میں سے کھائیں اور انہوں نے چھری پکڑی تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا دودھ والی بکری ذبح نہ کرنا پھر انہوں نے ایک بکری ذبح کی ان سب نے اس بکری کا گوشت کھایا اور کھجوریں کھائیں اور پانی پیا اور جب کھا پی کر سیراب ہوگئے تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر (رض) سے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے تم سے قیامت کے دن ان نعمتوں کے بارے میں ضرور پوچھا جائے گا تمہیں اپنے گھروں سے بھوک نکال کر لائی اور پھر تم واپس نہیں لوٹے یہاں تک کہ یہ نعمت تمہیں مل گئی۔

【188】

بااعتماد میزبان کے ہاں اپنے ساتھ کسی اور آدمی کو لے جانے کے جواز میں

اسحاق بن منصور، ابوہشام مغیرہ بن سلمہ، عبدالواحد بن زیاد، ابوحازم، ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ ہمارے درمیان میں حضرت ابوبکر (رض) تشریف فرما تھے اور ان کے ساتھ حضرت عمر (رض) تشریف فرما تھے کہ اسی دوران رسول اللہ ﷺ تشریف لائے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا تم یہاں کیوں بیٹھے ہو دونوں حضرات نے عرض کیا قسم ہے اس ذات کی کہ جس نے آپ ﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ہمیں اپنے گھروں سے بھوک نے نکالا ہے پھر خلف بن خلیفہ کی طرح حدیث ذکر کی۔

【189】

بااعتماد میزبان کے ہاں اپنے ساتھ کسی اور آدمی کو لے جانے کے جواز میں

حجاج بن شاعر، ضحاک، حنظلہ بن ابی سفیان، سعید بن میناء، حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ جب خندق کھودی گئی تو میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ کو بھوک لگی ہوئی ہے تو میں اپنی بیوی کی طرف آیا اور اس سے کہا کیا تیرے پاس کوئی چیز ہے کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ کو بہت سخت بھوک لگی ہوئی ہے تو میری بیوی نے ایک تھیلہ مجھے نکال کردیا جس میں ایک صاع جَو تھے اور ہمارا ایک بکری کا بچہ تھا جو کہ پلا ہوا تھا میں نے اسے ذبح کردیا اور میری بیوی نے آٹا پیسا میری بیوی بھی میرے فارغ ہونے کے ساتھ ہی فارغ ہوئی پھر میں نے بکری کا گوشت کاٹ کر ہانڈی میں ڈال دیا پھر میں رسول اللہ ﷺ کی طرف گیا کہنے لگی کہ مجھے رسول اللہ اور آپ ﷺ کے صحابہ کرام (رض) کے سامنے ذلیل و رسوا نہ کرنا حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ جب میں آپ ﷺ کی خدمت میں آیا تو میں نے سرگوشی کے انداز میں عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ ہم نے ایک بکری کا بچہ ذبح کیا ہے اور ہمارے پاس ایک صاع جَو تھے آپ ﷺ چند آدمیوں کو اپنے ساتھ لے کر ہماری طرف تشریف لائیں رسول اللہ ﷺ نے پکارا اور فرمایا اے خندق والو ! جابر نے تمہارے دعوت کی ہے لہذا تم سب چلو رسول اللہ ﷺ نے حضرت جابر (رض) سے فرمایا میرے آنے تک اپنی ہانڈی چولہے سے نہ اتارنا اور نہ ہی گندھے ہوئے آٹے کی روٹی پکانا۔ (حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ) میں وہاں سے آیا اور رسول اللہ ﷺ بھی تشریف لے آئے اور آپ ﷺ کے ساتھ سب لوگ بھی آگئے تھے حضرت جابر (رض) اپنی بیوی کے پاس آئے تو ان کی بیوی نے کہا تیری ہی رسوائی ہوگی (یعنی کھانا کم ہے اور آدمی ذیادہ آگئے ہیں) حضرت جابر (رض) نے کہا میں نے تو اسی طرح کہا تھا جس طرح تو نے مجھے کہا تھا پھر میں گندھا ہوا آٹا آپ ﷺ کے سامنے نکال کرلے آیا تو آپ ﷺ نے اس میں اپنا لعاب دہن ڈالا اور اس میں برکت کی دعا فرمائی پھر آپ ﷺ ہماری ہانڈیوں کی طرف تشریف لائے اور اس ہانڈی میں آپ ﷺ نے اپنا لعاب دہن ڈالا اور برکت کی دعا فرمائی پھر آپ ﷺ نے فرمایا ایک روٹیاں پکانے والی اور بلا لو جو تمہارے ساتھ مل کر روٹیاں پکائے اور ہانڈی میں سے سالن نہ نکالنا اور نہ ہی اسے چولہے سے اتارنا اور ایک ہزار کی تعداد میں صحابہ موجود تھے اللہ کی قسم ان سب نے کھانا کھایا یہاں تک کہ بچا کر چھوڑ دیا اور واپس اسی طرح تھا اور اس کی روٹیاں بھی اسی طرح پک رہی تھیں۔

【190】

بااعتماد میزبان کے ہاں اپنے ساتھ کسی اور آدمی کو لے جانے کے جواز میں

یحییٰ بن یحیی، مالک بن انس، اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ، انس بن مالک، حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت طلحہ (رض) نے ام سلیم (رض) کی والدہ سے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی آواز میں کچھ کمزوری محسوس کی ہے میں سمجھتا ہوں کہ آپ ﷺ کو بھوک لگی ہوئی ہے تو کیا تیرے پاس کوئی چیز ہے حضرت ام سلیم (رض) نے کہا ہاں پھر ام سلیم نے جو کی روٹیاں لیں اور چادر لے کر اس میں ان روٹیوں کو لپیٹا اور پھر ان کو میرے کپڑوں کے نیچے چھپا دیا اور کپڑے کا کچھ حصہ مجھے اوڑھا دیا پھر انہوں نے مجھے رسول اللہ ﷺ کی طرف بھیج دیا حضرت انس فرماتے ہیں کہ میں آپ ﷺ کی خدمت میں گیا تو میں نے رسول اللہ ﷺ کو مسجد میں تشریف فرما پایا اور آپ ﷺ کے پاس کچھ اور لوگ بھی تھے میں کھڑا رہا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا تجھے ابوطلحہ نے بھیجا ہے ؟ میں نے عرض کیا جی ہاں آپ ﷺ نے فرمایا کیا کھانے کے لئے ؟ میں نے عرض کیا جی ہاں تو رسول اللہ ﷺ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا اٹھو آپ ﷺ چلے اور میں ان سب سے آگے آگے چلا یہاں تک کہ میں نے حضرت ابوطلحہ کو آکر اس کی خبر دی تو حضرت ابوطلحہ کہنے لگے اے ام سلیم ! رسول اللہ ﷺ تو اپنے ساتھیوں کو لے کر آگئے ہیں اور ہمارے پاس تو ان سب کو کھلانے کے لئے کچھ نہیں ہے حضرت ام سلیم (رض) فرمانے لگیں کہ اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ بہتر جانتے ہیں پھر حضرت ابوطلحہ چلے یہاں تک کہ آگے بڑھ کر رسول اللہ ﷺ سے ملاقات کی اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ (ام سلیم (رض) کے گھر) تشریف لائے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے ام سلیم ! تیرے پاس جو کچھ بھی ہے وہ لے آ ام سلیم وہی روٹیاں لے کر آگئیں پھر رسول اللہ ﷺ کے حکم فرمانے پر ان روٹیوں کو ٹکڑے کیا گیا حضرت ام سلیم نے تھوڑا سا گھی جو ان کے پاس موجود تھا وہ ان روٹیوں پر نچوڑ دیا پھر رسول اللہ ﷺ نے جو اللہ تعالیٰ کو منظور تھا اس میں برکت کی دعا فرمائی پھر آپ ﷺ نے فرمایا دس آدمیوں کو بلاؤ دس کو بلایا گیا تو انہوں نے کھانا کھایا یہاں تک کہ وہ خوب سیر ہوگئے پھر وہ چلے گئے پھر آپ ﷺ نے فرمایا دس آدمیوں کو بلاؤ دس آدمیوں کو بلایا گیا یہاں تک کہ ان سب لوگوں نے کھانا کھایا اور خوب سیر ہوگئے اور سب آدمی تقریبا ستر یا اسی کی تعداد میں تھے۔

【191】

بااعتماد میزبان کے ہاں اپنے ساتھ کسی اور آدمی کو لے جانے کے جواز میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، عبداللہ بن نمیر، ابوسعد بن سعید، انس بن مالک، حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابوطلحہ نے مجھے رسول اللہ ﷺ کی طرف بھیجا تاکہ میں آپ ﷺ کو بلا کر لاؤں اور حضرت ابوطلحہ نے کھانا تیار کر کے رکھا تھا حضرت انس کہتے ہیں کہ میں آیا تو رسول اللہ ﷺ لوگوں کے پاس تشریف فرما تھے آپ ﷺ نے میری طرف دیکھا تو مجھے شرم آئی میں نے عرض کیا ابوطلحہ کی دعوت قبول فرمائیں آپ نے لوگوں سے فرمایا اٹھو چلو حضرت ابوطلحہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ میں نے تو آپ ﷺ کے لئے تھوڑا سا کھانا تیار کیا ہے حضرت ابوطلحہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کھانے کو چھوا اور اس میں برکت کی دعا فرمائی پھر آپ ﷺ نے فرمایا میرے ساتھیوں میں سے دس آدمیوں کو بلاؤ اور آپ ﷺ نے فرمایا کھاؤ اور آپ نے اپنی انگلیوں کے درمیان میں سے کچھ نکالا چناچہ ان دس آدمیوں نے کھانا کھایا یہاں تک کہ وہ سیر ہو کر چلے گئے پھر آپ ﷺ نے فرمایا دس آدمیوں کو بلاؤ آپ ﷺ اسی طرح دس دس آدمیوں کو بلاتے رہے اور دس دس آدمیوں کو کھلا کر بھیجتے رہے یہاں تک کہ ان میں سے کوئی بھی اب کھانا کھانے والا نہیں بچا اور وہ کھا کر سیر نہ ہوا ہو پھر آپ ﷺ نے بچا ہوا کھانا جمع فرمایا تو وہ کھانا انتا ہی تھا جتنا کہ کھانا شروع کرتے وقت تھا۔

【192】

بااعتماد میزبان کے ہاں اپنے ساتھ کسی اور آدمی کو لے جانے کے جواز میں

سعید بن یحییٰ اموی، ابوسعد بن سعید، حضرت انس (رض) بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابوطلحہ (رض) نے مجھے رسول اللہ ﷺ کی طرف بھیجا اور پھر ابن نمیر کی روایت کی طرح حدیث نقل کی اس کے لئے آخر میں کہ آپ ﷺ نے بچا ہوا کھانا جمع فرمایا پھر آپ ﷺ نے اس میں برکت کی دعا فرمائی راوی کہتے ہیں کہ وہ کھانا جتنا تھا پھر اتنا ہی ہوگیا پھر آپ ﷺ نے فرمایا یہ لے لو۔

【193】

بااعتماد میزبان کے ہاں اپنے ساتھ کسی اور آدمی کو لے جانے کے جواز میں

عمرو ناقد، عبداللہ بن جعفر رقی، عبیداللہ بن عمرو، عبدالملک بن عمیر، عبدالرحمن بن ابی لیلی، حضرت انس (رض) بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابوطلحہ (رض) نے حضرت ام سلیم (رض) کو حکم فرمایا کہ وہ نبی ﷺ کے لئے ایسا کھانا تیار کرے کہ جو خاص طور پر صرف آپ ﷺ کے لئے ہو اور انہوں نے مجھے آپ ﷺ کی طرف بھیجا (باقی حدیث مذکورہ حدیث کی طرح ہے اور اس میں صرف یہ زائد ہے) کہ نبی ﷺ نے اپنا دست مبارک اس کھانے میں رکھا اور اس پر اللہ تعالیٰ کا نام لیا پھر آپ ﷺ نے فرمایا دس آدمیوں کو اجازت دو حضرت ابوطلحہ نے ان کو اجازت دی وہ اندر آئے تو آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ کا نام لے کر کھاو انہوں نے کھانا کھایا یہاں تک کہ اسی طرح اسی آدمیوں نے کھایا پھر نبی ﷺ نے اس کے بعد کھانا کھایا اور گھر والوں نے کھانا کھایا اور پھر بھی بچ گیا۔

【194】

بااعتماد میزبان کے ہاں اپنے ساتھ کسی اور آدمی کو لے جانے کے جواز میں

عبد بن حمید، عبداللہ بن مسلمہ، عبدالعزیز بن محمد، عمرو بن یحیی، انس بن مالک، حضرت انس بن مالک (رض) سے یہی قصہ منقول ہے اور اس روایت میں ہے کہ حضرت ابوطلحہ (رض) دروازے پر کھڑے ہوئے گئے یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ تشریف لے آئے تو حضرت ابوطلحہ نے آپ ﷺ سے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ تھوڑا سا کھانا ہے آپ ﷺ نے فرمایا وہی لے آؤ کیونکہ اللہ اسی کھانے میں برکت ڈال دے گا۔

【195】

بااعتماد میزبان کے ہاں اپنے ساتھ کسی اور آدمی کو لے جانے کے جواز میں

عبد بن حمید، خالد بن مخلد بجلی، محمد بن موسی، عبداللہ بن عبداللہ بن ابی طلحہ، انس بن مالک (رض) کی نبی ﷺ سے یہی حدیث منقول ہے اس میں ہے کہ پھر رسول اللہ ﷺ نے کھانا کھایا اور گھر والوں نے بھی کھانا کھایا ( اور اس کے باوجود اتنا کھانا) جو بچ گیا وہ ہم نے اپنے ہمسایوں کو بھیج دیا۔

【196】

بااعتماد میزبان کے ہاں اپنے ساتھ کسی اور آدمی کو لے جانے کے جواز میں

حسن بن علی حلوانی، وہب بن جریر بن زید، عمرو بن عبداللہ بن ابی طلحہ، انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابوطلحہ (رض) نے رسول اللہ ﷺ کو مسجد میں لیٹے ہوئے دیکھا آپ ﷺ کا پیٹ پشت سے لگا ہوا تھا حضرت ابوطلحہ (رض) نے ام سلیم (رض) سے آکر فرمایا میں نے رسول اللہ ﷺ کو مسجد میں لیٹے ہوئے دیکھا ہے اور آپ ﷺ کا پیٹ پشت سے لگ رہا ہے میرا خیال ہے کہ آپ ﷺ کو بھوک لگی ہوئی ہے اور پھر مذکورہ حدیث کی طرح حدیث بیان کی اور اس میں ہے کہ پھر سب سے آخر میں رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوطلحہ، ام سلیم، انس بن مالک (رض) نے کھانا کھایا اور کھانا پھر بھی بچ گیا تو ہم نے اپنے ہمسایوں کو ہدیہ کے طور پر بھیج دیا۔

【197】

بااعتماد میزبان کے ہاں اپنے ساتھ کسی اور آدمی کو لے جانے کے جواز میں

حرملہ بن یحییٰ تجیبی، عبداللہ بن وہب، اسامہ، یعقوب بن عبداللہ بن ابی طلحہ انصاری، حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ میں ایک دن رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آیا تو میں نے آپ ﷺ کو صحابہ کرام (رض) کے ساتھ تشریف فرما پایا اور آپ ﷺ ان سے باتیں فرما رہے تھے اور آپ ﷺ کے پیٹ پر ایک پٹی بندھی ہوئی تھی میں نے بعض صحابہ (رض) سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے پیٹ پر پٹی کیوں باندھی ہوئی ہے تو وہ کہنے لگے کہ بھوک کی وجہ سے میں حضرت ابوطلحہ (رض) کی طرف گیا جو کہ حضرت ام سلیم (رض) بنت ملحان کے شوہر تھے میں نے ان سے عرض کیا اے ابا جان میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ نے اپنے پیٹ پر پٹی باندھی ہوئی ہے میں نے بعض صحابہ (رض) سے اس پٹی کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ آپ ﷺ نے اپنی بھوک کی وجہ سے ایسا کیا ہوا ہے حضرت ابوطلحہ (رض) میری والدہ کے پاس تشریف لائے اور ان سے فرمایا کیا تیرے پاس کوئی چیز ہے ام سلیم نے کہا جی ہاں میرے پاس چند ٹکڑے روٹی کے اور چند کھجوریں ہیں اگر رسول اللہ ﷺ اکیلے تشریف لے آئیں تو یہ کھانا آپ ﷺ کے پیٹ بھرنے کے لئے کافی ہوگا اور اگر اور کوئی بھی آپ ﷺ کے ساتھ آئے گا تو ان سے کم ہوجائے گا مذکورہ واقعہ کی طرح حدیث ذکر کی۔

【198】

بااعتماد میزبان کے ہاں اپنے ساتھ کسی اور آدمی کو لے جانے کے جواز میں

حجاج بن شاعر، یونس بن محمد، حرب بن میمون، نضر بن انس، حضرت انس بن مالک (رض) حضرت ابوطلحہ (رض) کے کھانے کے بارے میں مذکورہ حدیث مبارکہ کی طرح حدیث نقل کرتے ہیں۔

【199】

شوربہ کھانے کے جواز اور کدو کھانے کے استح کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، مالک بن انس، اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ، حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ درزی (کپڑے سینے والا) نے رسول اللہ ﷺ کی دعوت کی آپ ﷺ کے لئے کھانا تیار کیا حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اس کھانے کی دعوت میں میں بھی گیا تو رسول اللہ ﷺ کے سامنے جو کی روٹی اور شوربہ جس میں کدو پڑا ہوا تھا اور بھنا ہوا گوشت رکھا گیا حضرت انس کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ پیالے کے چاروں طرف کدو تلاش کر کے کھا رہے ہیں حضرت انس فرماتے ہیں کہ اسی دن سے مجھے کدو سے محبت ہوگئی۔

【200】

شوربہ کھانے کے جواز اور کدو کھانے کے استح کے بیان میں

محمد بن علاء، ابوکریب، ابواسامہ، سلیمان بن مغیرہ، ثابت، حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ کی دعوت کی میں بھی آپ ﷺ کے ساتھ چل پڑا آپ ﷺ کے سامنے شوربہ رکھا گیا جس میں کدو پڑا ہوا تھا رسول اللہ ﷺ اس کدو کو کھانے لگے آپ ﷺ کو کدو بہت پسند تھا حضرت انس کہتے ہیں کہ جب میں نے یہ دیکھا تو میں آپ ﷺ کے سامنے کدو کرنے لگا اور میں خود نہ کھاتا حضرت انس فرماتے ہیں کہ اس کے بعد میں کدو بہت پسند کرنے لگا۔

【201】

شوربہ کھانے کے جواز اور کدو کھانے کے استح کے بیان میں

حجاج بن شاعر، عبد بن حمید، عبدالرزاق، معمر، ثابت بنانی، عاصم، احول، حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ ایک درزی آدمی نے رسول اللہ ﷺ کی دعوت کی حضرت ثابت کہتے ہیں کہ میں نے حضرت انس (رض) سے سنا وہ فرماتے ہیں کہ (پھر اس کے بعد) جو کھانا بھی میرے لئے تیار کیا گیا اور جتنا مجھ سے ہوسکا تو میں نے اس میں کدو کو ضرور شامل کروایا۔

【202】

کھجور کھاتے وقت گٹھلیاں نکال کر رکھنے کے استح اور مہمان کا میزبان کے لئے دعا کرنا اور میزبان کا نیک مہمان سے دعا کروانے کے استح میں

محمد بن مثنی عنزی، محمد بن جعفر، شعبہ، یزید بن خمیر، عبداللہ بن بسر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ میرے والد کی طرف تشریف لائے تو ہم نے آپ ﷺ کی خدمت میں کھانا اور وطبہ (کھجوروں سے بنا ہوا ایک قسم کا کھانا) پیش کیا تو آپ ﷺ نے اس میں سے کھایا پھر خشک کھجوریں لائی گئیں تو آپ نے وہ بھی کھائیں اور کھجوروں کی گٹھلیاں اپنی دونوں انگلیوں یعنی شہادت والی انگلی اور درمیانی انگلی کے بیچ میں ڈالنے لگے شعبہ کہتے ہیں کہ میرا بھی یہی گمان ہے کہ اس حدیث میں ہے کہ اگر اللہ نے چاہا کہ گٹھلیاں دونوں انگلیوں کے درمیان ڈالنا پھر (آپ کے سامنے) پینے کی چیز لائی گئی تو آپ ﷺ نے اسے پیا پھر آپ ﷺ نے اسے دیا جو آپ ﷺ کے دائیں طرف بیٹھا تھا حضرت عبداللہ کہتے ہیں کہ پھر میرے والد نے آپ ﷺ کے جانور کی لگام پکڑی اور عرض کرنے لگے (اے اللہ کے رسول ﷺ ! ) ہمارے لئے دعا فرمائیں تو آپ ﷺ نے یہ دعا فرمائی اے اللہ ! ان کے رزق میں برکت عطا فرما اور ان کی مغفرت فرما اور ان پر رحم فرما۔

【203】

کھجور کھاتے وقت گٹھلیاں نکال کر رکھنے کے استح اور مہمان کا میزبان کے لئے دعا کرنا اور میزبان کا نیک مہمان سے دعا کروانے کے استح میں

محمد بن بشار، ابن ابی عدی، محمد بن مثنی، یحییٰ بن حماد، حضرت شعبہ (رض) سے اس سند کے ساتھ روایت منقول ہے لیکن اس میں گٹھلیاں رکھنے کے بارے میں شک کا ذکر نہیں کیا۔

【204】

کھجور کے ساتھ ککڑی کھانے کے بیان میں

یحییٰ بن یحییٰ تمیمی، عبداللہ بن عون ہلالی، یحییٰ ابن عون، ابراہیم بن سعد، عبداللہ بن جعفر، حضرت عبداللہ بن معجز (رض) سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ کھجوروں کے ساتھ ککڑی کھا رہے تھے۔

【205】

کھانے کے لئے عاجزی اختیار کرنے کے استح اور کھانا کھانے کے لئے بیٹھنے کے طریقہ کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوسعید اشج، حفص، ابوبکر، حفص بن غیاث، مصعب بن سلیم، حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ کو اقعاء کے طریقہ پر (یعنی دونوں پنڈلیوں کھڑی کر کے سرین زمین پر لگائے ہوئے) کھجوریں کھاتے ہوئے دیکھا ہے۔

【206】

کھانے کے لئے عاجزی اختیار کرنے کے استح اور کھانا کھانے کے لئے بیٹھنے کے طریقہ کے بیان میں

زہیر بن حرب، ابن ابی عمر، سفیان بن عیینہ، مصعب بن سلیم، حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں کھجوریں لائی گئیں تو نبی ﷺ ان کھجوروں کو تقسیم فرمانے لگے اور آپ ﷺ اس طرح بیٹھے ہوئے تھے جس طرح کہ کوئی جلدی میں بیٹھتا ہے اور آپ ﷺ اس میں سے کھا بھی رہے تھے۔

【207】

اجتماعی کھانے میں دو دو کھجوریں یا دو دو کھانے کے لقمے کھانے کی ممانعت میں۔

محمد بن مثنی، محمد بن جعفر، شعبہ، جبلہ بن سحیم، ابن زبیر، حضرت جبلہ بن سحیم (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابن زبیر (رض) ہمیں کھجوریں کھلاتے تھے جبکہ لوگ ان دنوں میں قحط سالی میں مبتلا تھے اور ہم کھا رہے تھے تو حضرت ابن عمر (رض) ہمارے پاس سے گزرے اور ہم کھا رہے تھے تو وہ فرمانے لگے کہ تم اس طرح دو دو کھجوریں ملا کر نہ کھاؤ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اس طرح ملا کر کھانے سے منع فرمایا سوائے اس کے کہ اپنے ساتھی سے اجازت لے لو حضرت شعبہ کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ یہ کلمہ یعنی اپنے بھائی سے اجازت طلب کرنا یہ حضرت ابن عمر (رض) کا قول ہے۔

【208】

اجتماعی کھانے میں دو دو کھجوریں یا دو دو کھانے کے لقمے کھانے کی ممانعت میں۔

عبیداللہ بن معاذ، محمد بن بشار، عبدالرحمن بن مہدی، حضرت شعبہ (رض) سے اس سند کے ساتھ روایت منقول ہے اور ان دونوں روایتوں میں شعبہ کے قول کا ذکر نہیں کیا گیا اور نہ ہی ان دونوں میں لوگوں کی قحط سالی میں مبتلا ہونے کا ذکر ہے۔

【209】

اجتماعی کھانے میں دو دو کھجوریں یا دو دو کھانے کے لقمے کھانے کی ممانعت میں۔

زہیر بن حرب، محمد بن مثنی، عبدالرحمن، سفیان، جبلہ بن سحیم، حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا کہ کوئی آدمی دو دو کھجوریں ملا کر کھائے جب تک کہ وہ اپنے ساتھیوں سے اجازت نہ لے لے۔

【210】

کھجور اور کوئی غلہ وغیرہ اپنے بال بچوں کے لئے جمع کر کے رکھنے کے بیان میں

عبداللہ بن عبدالرحمن دارمی، یحییٰ بن حسان، سلیمان بن بلال، ہشام بن عروہ، عروہ، حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اے عائشہ ! وہ گھر والے بھوکے نہیں ہوتے کہ جن کے پاس کھجوریں ہوں۔

【211】

مدینہ منورہ میں کھجوروں کی فضلیت کے بیان میں

عبداللہ بن مسلمہ بن قعنب، یعقوب بن محمد بن طحلاء، ابورجال محمد بن عبدالرحمن، حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اے عائشہ ! جس گھر میں کھجوریں نہ ہوں اس گھر والے بھوکے ہیں اے عائشہ ! جس گھر میں کھجور نہیں اس گھر والے بھوکے ہیں آپ ﷺ نے گویا دو یا تین مرتبہ یہی فرمایا۔

【212】

مدینہ منورہ میں کھجوروں کی فضلیت کے بیان میں

عبداللہ بن مسلمہ بن قعنب، سلیمان بن بلال، عبداللہ بن عبدالرحمن، عامر بن سعد بن ابی وقاص، حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو آدمی صبح کے وقت مدینہ منورہ کے دونوں پتھریلے کناروں کے درمیان سات کھجوریں کھائے گا تو شام تک اسے کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا۔

【213】

مدینہ منورہ میں کھجوروں کی فضلیت کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابواسامہ، ہاشم بن ہاشم، عامر بن سعد بن ابی وقاص (رض) ، حضرت سعد (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے تھے کہ جو آدمی صبح کے وقت مدینہ منورہ کی سات عدد کھجوریں کھائے گا تو اس آدمی کو اس دن نہ کوئی زہر نقصان پہنچائے گا اور نہ ہی کوئی جادو۔

【214】

مدینہ منورہ میں کھجوروں کی فضلیت کے بیان میں

ابن ابی عمر، مروان بن معاویہ فزاری، اسحاق بن ابراہیم، ابو بدر شجاع بن ولید، ہاشم بن ہاشم (رض) سے اس سند کے ساتھ نبی ﷺ سے مذکورہ حدیث کی طرح روایت منقول ہے اور انہوں نے ان دونوں روایتوں میں سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کا ذکر نہیں ہے۔

【215】

مدینہ منورہ میں کھجوروں کی فضلیت کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، یحییٰ بن ایوب، ابن حجر، اسماعیل ابن جعفر، شریک ابن ابی نمیر، عبداللہ بن ابی عتیق، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا عجوہ عالیہ ہے شفاء ہے یا صبح کے وقت عجوہ کھجور کا استعمال کرنا تریاق ہے عالیہ مدینہ منورہ کے بالائی حصہ کی عجوہ قسم کی کھجور کو کہا جاتا ہے۔

【216】

کھبنی کی فضلیت اور اس کے ذریعہ سے آنکھ کا علاج کروانے کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، جریر، اسحاق بن ابراہیم، جریر، عمر بن عبید، عبدالملک بن عمیر، عمرو بن حریث، سعید بن زید بن عمرو بن نفیل، حضرت سعید بن زید بن عمرو بن نفیل (رض) سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ کھنبی کھجور کی ایک قسم ہے اور اس کا پانی آنکھ کے لئے شفا ہے۔

【217】

کھبنی کی فضلیت اور اس کے ذریعہ سے آنکھ کا علاج کروانے کے بیان میں

محمد بن مثنی، محمد بن جعفر، شعبہ، عبدالملک بن عمیر، عمرو بن حریث، حضرت سعید بن زید (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ فرماتے ہیں کہ کھنبی کھجور کی ایک قسم ہے اور اس کا پانی آنکھ کے لئے شفاء کا باعث ہے

【218】

کھبنی کی فضلیت اور اس کے ذریعہ سے آنکھ کا علاج کروانے کے بیان میں

محمد بن مثنی، محمد بن جعفر، شعبہ، حکم بن عیینہ، حسن عرنی، عمرو بن حریث، حضرت سعید بن زید (رض) نبی ﷺ سے مذکورہ حدیث کی طرح روایت کرتے ہیں کہ شعبہ کہتے ہیں کہ حکم نے جب مجھ سے یہ حدیث بیان کی تو میں نے عبدالملک کی حدیث کی طرح اس کا منکر نہیں سمجھا۔

【219】

کھبنی کی فضلیت اور اس کے ذریعہ سے آنکھ کا علاج کروانے کے بیان میں

سعید بن عمرو اشعثی، عبثر، مطرف، حکم، حسن، عمرو بن حریث، سعید بن زید بن عمر بن نفیل، حضرت سعید بن زید بن عمرو بن نفیل (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : کھنبی اس من میں سے ہے جو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر نازل فرمایا تھا اور اس کا پانی آنکھ کے لئے شفاء ہے۔

【220】

کھبنی کی فضلیت اور اس کے ذریعہ سے آنکھ کا علاج کروانے کے بیان میں

اسحاق بن ابراہیم، جریر، مطرف، حکم، ابن عیینہ، حسن عرنی، عمرو بن حریث، حضرت سعید بن زید (رض) نبی ﷺ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ کھنبی اس قسم سے ہے کہ جو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر نازل فرمایا تھا اور اس کا پانی آنکھوں کے لئے شفا ہے۔

【221】

کھبنی کی فضلیت اور اس کے ذریعہ سے آنکھ کا علاج کروانے کے بیان میں

ابن ابی عمر، سفیان، عبدالملک بن عمیر، عمرو بن حریث، حضرت سعید بن زید (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کھنبی اس من وسلوی میں سے ہے کہ جو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر نازل فرمایا تھا اور اس کا پانی آنکھ کے لئے شفا ہے۔

【222】

کھبنی کی فضلیت اور اس کے ذریعہ سے آنکھ کا علاج کروانے کے بیان میں

یحییٰ بن حبیب حارثی، حماد بن زید، محمد بن شبیب، شہر بن حوشب، عبدالملک بن عمیر، عبدالملک، عمرو بن حریث، سعید بن زید، حضرت سعید (رض) زید (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کھنبی من کی ایک قسم ہے اور اس کا پانی آنکھ کے لئے شفاء ہے۔

【223】

پیلو کے سیاہ پھل کی فضلیت کے بیان میں

ابوطاہر، عبداللہ بن وہب، یونس ابن شہاب ابوسلمہ بن عبدالرحمن، حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ ہم نبی ﷺ کے ساتھ ظہران کے مقام سے گزرے تو ہم پیلو چننے لگے تو نبی ﷺ نے فرمایا تم اس پیلو میں سے سیاہ تلاش کرو ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول آپ ﷺ نے بکریاں چرائی ہیں آپ ﷺ نے فرمایا ہاں اور کوئی نبی ایسا نہیں گزرا کہ جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں۔

【224】

سرکہ کی فضلیت اور اسے بطور سالن استعمال کرنے کے بیان میں

عبداللہ بن عبدالرحمن دارمی، یحییٰ بن حسان، سلیمان بن بلال ہشام بن عروہ حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا بہترین سالن سرکہ کا ہے۔

【225】

سرکہ کی فضلیت اور اسے بطور سالن استعمال کرنے کے بیان میں

موسیٰ بن قریش بن نافع تمیمی یحییٰ بن صالح وحاظی حضرت سلیمان بن بلال (رض) سے اس سند کے ساتھ روایت منقول ہے اور صرف لفظی فرق ہے۔

【226】

سرکہ کی فضلیت اور اسے بطور سالن استعمال کرنے کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، ابوعوانہ، ابی بشر ابوسفیان، حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے اپنے گھر والوں سے سالن طلب فرمایا تو انہوں نے عرض کیا ہمارے پاس سوائے سرکہ کے اور کچھ نہیں ہے تو آپ ﷺ نے سرکہ منگوایا اور اس سے آپ ﷺ نے روٹی کھانی شروع کردی پھر فرماتے ہیں بہترین سالن سرکہ ہے بہترین سالن سرکہ ہے۔

【227】

سرکہ کی فضلیت اور اسے بطور سالن استعمال کرنے کے بیان میں

یعقوب بن ابراہیم دورقی، اسماعیل بن علیہ، مثنی بن سعید، طلحہ بن نافع، حضرت جابر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر کی طرف تشریف لے گئے تو آپ ﷺ کی خدمت میں روٹی کے چند ٹکڑے پیش کئے گئے آپ ﷺ نے فرمایا کیا کوئی سالن ہے گھر والوں نے عرض کیا نہیں صرف کچھ سرکہ ہے آپ ﷺ نے فرمایا سرکہ بہترین سالن ہے حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ جس وقت سے میں نے نبی ﷺ سے سنا مجھے سرکہ سے محبت ہوگئی اور حضرت ابوطلحہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے بھی حضرت جابر (رض) سے جس وقت سے یہ حدیث سنی ہے مجھے بھی سرکہ سے محبت ہوگئی۔

【228】

سرکہ کی فضلیت اور اسے بطور سالن استعمال کرنے کے بیان میں

نصر بن علی جہضمی، مثنی بن سعید، طلحہ بن نافع، حضرت جابر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر کی طرف تشریف لے گئے اور پھر آگے ابن علیہ کی طرح حدیث نقل کی گئی ہے مگر اس میں بعد کا حصہ یعنی حضرت جابر (رض) اور حضرت ابوطلحہ (رض) کے قول کا ذکر نہیں کیا گیا۔

【229】

سرکہ کی فضلیت اور اسے بطور سالن استعمال کرنے کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، یزید بن ہارون، حجاج بن ابی زینب، ابوسفیان طلحہ بن نافع، جابر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں اپنے گھر میں بیٹھا ہوا تھا کہ رسول اللہ ﷺ میرے پاس سے گزرے تو آپ ﷺ نے میری طرف اشارہ کیا تو میں آپ ﷺ کی طرف اٹھ کھڑا ہوا آپ ﷺ نے میرا ہاتھ پکڑا پھر ہم چل پڑے یہاں تک کہ آپ ﷺ اپنی ازواج مطہرات کے کسی جحرہ کی طرف تشریف لے آئے آپ ﷺ اندر تشریف لے گئے پھر آپ ﷺ نے مجھے بھی اجازت عطا فرمائی میں اندر داخل ہوا تو نبی ﷺ کی زوجہ مطہرہ نے پردہ کیا ہوا تھا آپ ﷺ نے فرمایا کیا کھانے کی کوئی چیز ہے گھر والوں نے کہا : ہاں ! پھر (اس کے بعد) تین روٹیاں چھال کے دسترخوان پر رکھ کر آپ ﷺ کے سامنے لائی گئیں تو رسول اللہ ﷺ نے ایک روٹی اپنے سامنے رکھی اور پھر دوسری روٹی لے کر میرے سامنے رکھ دی، پھر آپ ﷺ نے تیسری روٹی پکڑ کر توڑی اور آدھی روٹی اپنے سامنے اور آدھی روٹی میرے سامنے رکھی پھر آپ ﷺ نے فرمایا کیا کوئی سالن ہے ؟ گھر والوں نے کہا سرکہ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا سرکہ ہی لے آؤ سرکہ تو بہترین سالن ہے۔

【230】

لہسن کھانے کے جواز میں

محمد بن مثنی، ابن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، سماک بن حرب، جابر بن سمرہ، حضرت ابوایوب انصاری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں جو کھانا بھی لایا جاتا تھا آپ ﷺ اس میں سے کھاتے اور اس میں سے جو کھانا بچ جاتا وہ مجھے بھیج دیتے ایک دن آپ ﷺ نے مجھے کھانا بھیجا آپ ﷺ نے اس میں سے نہیں کھایا کیونکہ اس میں لہسن تھا میں نے آپ ﷺ سے پوچھا کیا لہسن حرام ہے آپ ﷺ نے فرمایا حرام نہیں لیکن اس کی بو کی وجہ سے میں اسے ناپسند سمجھتا ہوں حضرت ابوایوب (رض) نے عرض کیا کہ مجھے بھی وہ چیز ناپسند ہے جو آپ ﷺ کو ناپسند ہے۔

【231】

لہسن کھانے کے جواز میں

محمد بن مثنی، یحییٰ بن سعید، شعبہ، حضرت شعبہ (رض) نے اسی سند کے ساتھ روایت نقل کی ہے۔

【232】

لہسن کھانے کے جواز میں

حجاج بن شاعر، احمد بن سعید بن صخر، ابونعمان، ثابت، حجاج بن یزیدابوزید احول، عاصم، عبداللہ بن حارث، افلح مولیٰ ابوایوب، حضرت ابوایوب (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ان کے پاس تشریف لائے تو نبی ﷺ حضرت ابوایوب (رض) کے گھر کی نچلی منزل میں ٹھہرے اور حضرت ابوایوب (رض) اوپر والی منزل میں۔ حضرت ابوایوب (رض) کہتے ہیں کہ میں ایک رات بیدار ہوا اور کہنے لگا کہ ہم تو رسول اللہ ﷺ کے سر کے اوپر چلتے ہیں (جو کہ ادب کے خلاف ہے) تو ہم رات کو ہٹ کر ایک کونے کی طرف ہوگئے اور پھر نبی ﷺ سے عرض کیا (کہ آپ ﷺ گھر کے اوپر والے حصے میں قیام فرمائیں) نبی ﷺ نے فرمایا نیچے والے گھر میں زیادہ آسانی ہے۔ حضرت ابوایوب (رض) نے عرض کیا کہ میں تو اس چھت پر نہیں رہ سکتا کہ جس چھت کے نیچے آپ ﷺ ہوں۔ تو نبی ﷺ (حضرت ابو ایوب (رض) کی یہ عرض سن کر) اوپر والے حصے میں تشریف لے گئے اور حضرت ابوایوب (رض) نیچے والے گھر میں آگئے۔ حضرت ابو ایوب (رض) نبی ﷺ کے لئے کھانا تیار کرتے تھے تو جب وہ (بچا ہوا کھانا) واپس آتا اور حضرت ابوایوب (رض) کے سامنے رکھا جاتا تو حضرت ابوایوب (رض) اس جگہ کے بارے میں پوچھتے جس جگہ آپ ﷺ نے انگلیاں ڈال کر کھانا کھایا اور پھر اس جگہ سے حضرت ابوایوب (رض) خود کھاتے (ایک دن) حضرت ابوایوب (رض) نے آپ ﷺ کے لئے کھانا تیار کیا جس میں لہسن تھا تو جب یہ کھانا لوٹ کر واپس حضرت ابوایوب (رض) کی طرف لایا گیا تو انہوں نے معمول کے مطابق آپ ﷺ کی انگلیوں کے بارے میں پوچھا تو آپ (رضی اللہ عنہ) سے کہا گیا کہ آپ ﷺ نے کھانا نہیں کھایا (یہ سنتے ہی) حضرت ابوایوب (رض) گھبرا گئے اور آپ ﷺ کی طرف اوپر چڑھ کر عرض کیا : کیا یہ حرام ہے ؟ تو نبی ﷺ نے فرمایا : حرام تو نہیں ہے لیکن مجھے یہ ناپسند ہے۔ حضرت ابوایوب (رض) نے عرض کیا مجھے بھی وہ چیز ناپسند ہے جو آپ ﷺ کو ناپسند ہے۔ حضرت ابوایوب (رض) فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ (کے پاس حضرت جبرائیل علیہ السلام) وحی لے کر آتے تھے۔

【233】

مہمان کا اکرام اور ایثار کی فضیلت کے بیان میں

زہیر بن حرب، جریر بن عبدالحمید، فضیل بن غزوان، ابی حازم اشجعی، ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک آدمی آیا اور اس نے عرض کیا کہ میں فاقہ سے ہوں آپ ﷺ نے اپنی ازواج مطہرات (رض) میں سے کسی کی طرف ایک آدمی بھیجا تو زوجہ مطہرہ نے عرض کیا اس ذات کی قسم جس نے آپ ﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میرے پاس سوائے پانی کے اور کچھ نہیں ہے پھر آپ ﷺ نے اسے دوسری زوجہ مطہرہ کی طرف بھیجا تو انہوں نے بھی اسی طرح کہا یہاں تک کہ آپ ﷺ کی سب ازواج مطہرات نے یہی کہا کہ اس ذات کی قسم جس نے آپ ﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میرے پاس سوائے پانی کے اور کچھ نہیں ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا جو آدمی آج رات اس مہمان کی مہمان نوازی کرے گا اللہ تعالیٰ اس پر رحم فرمائے گا انصار میں سے ایک آدمی نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ میں حاضر ہوں پھر وہ انصاری آدمی اس مہمان کو لے کر اپنے گھر کی طرف چلے اور اپنی بیوی سے کہا کیا تیرے پاس کچھ ہے وہ کہنے لگی کہ سوائے میرے بچوں کے کھانے کے میرے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہے انصاری نے کہا ان بچوں کو کسی چیز سے بہلا دو اور جب مہمان اندر آجائے تو چراغ بجھا دینا اور اس پر یہ ظاہر کرنا گویا کہ ہم بھی کھانا کھا رہے ہیں راوی کہتے ہیں کہ مہمان کے ساتھ سب گھر والے بیٹھ گئے اور کھانا صرف مہمان نے ہی کھایا پھر جب صبح ہوئی اور وہ دونوں نبی ﷺ کی خدمت میں آئے تو آپ ﷺ نے فرمایا تم نے آج رات اپنے مہمان کے ساتھ جو سلوک کیا ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے تعجب کیا ہے۔

【234】

مہمان کا اکرام اور ایثار کی فضیلت کے بیان میں

ابوکریب، محمد بن علاء، وکیع، فضیل بن غزوان، ابوحازم، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک انصاری آدمی کے پاس ایک مہمان آیا تو اس انصاری کے پاس اپنے اور اپنے بچوں کے علاوہ کوئی چیز نہیں تھی انصاری نے اپنی بیوی سے کہا بچوں کو سلا دے اور چراغ کو بجھا دے اور جو کچھ تیرے پاس ہے وہ مہمان کے سامنے رکھ دے راوی کہتے ہیں یہ آیت کریمہ نازل ہوئی (وَيُؤْثِرُوْنَ عَلٰ ي اَنْفُسِهِمْ ) 59 ۔ الحشر : 9) یعنی وہ (صحابہ) اپنی جانوں پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ ان پر فاقہ ہے۔

【235】

مہمان کا اکرام اور ایثار کی فضیلت کے بیان میں

ابوکریب، ابن فضیل، ابی حازم، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک آدمی آیا تو آپ ﷺ کے پاس اس کی مہمان نوازی کے لئے کچھ نہیں تھا آپ ﷺ نے فرمایا کیا کوئی آدمی ہے جو اس آدمی کی مہمان نوازی کرتا اللہ اس پر رحم فرمائے ایک انصاری آدمی کھڑا ہوا جسے حضرت ابوطلحہ (رضی اللہ عنہ) کہا جاتا تھا پھر وہ اس مہمان کو اپنے گھر کی طرف لے چلے آگے روایت جویریہ کی حدیث کی طرح ہے اور اس میں آیت کریمہ کے نزول کا بھی ذکر ہے جیسا کہ وکیع نے اپنی روایت میں اسے ذکر کیا۔

【236】

مہمان کا اکرام اور ایثار کی فضیلت کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، شبابہ بن سوار، سلیمان بن مغیرہ، ثابت، عبدالرحمن بن ابی لیلی، حضرت مقداد (رض) سے روایت ہے کہ میں اور میرے دو ساتھی آئے اور تکلیف کی وجہ سے ہماری قوت سماعت اور قوت بصارت چلی گئی تھی ہم نے اپنے آپ کو رسول اللہ ﷺ کے صحابہ (رضی اللہ عنہم) پر پیش کیا تو اس میں سے کسی نے بھی ہمیں قبول نہیں کیا پھر ہم نبی ﷺ کی خدمت میں آئے آپ ﷺ ہمیں اپنے گھر کی طرف لے گئے تین بکریاں تھیں نبی ﷺ نے فرمایا ان بکریوں کا دودھ نکالو پھر ہم ان کا دودھ نکالتے تھے اور ہم میں سے ہر ایک آدمی اپنے حصے کا دودھ پیتا اور ہم نبی ﷺ کا حصہ اٹھا کر رکھ دیتے راوی کہتے ہیں کہ آپ ﷺ رات کے وقت تشریف لاتے سلام کرتے کہ سونے والا بیدار نہ ہوتا اور جاگنے والا سن لیتا پھر آپ ﷺ مسجد میں تشریف لاتے اور نماز پڑھتے پھر آپ اپنے دودھ کے پاس آئے اور اسے پیتے ایک رات شیطان آیا جبکہ میں اپنے حصے کا دودھ پی چکا تھا شیطان کہنے لگا کہ محمد ﷺ انصار کے پاس آتے ہیں اور آپ ﷺ کو تحفے دتیے ہیں اور آپ ﷺ کو جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے وہ مل جاتی ہے آپ ﷺ کو اس ایک گھونٹ دودھ کی کیا ضرورت ہوگی پھر میں آیا اور میں نے وہ دودھ پی لیا جب وہ دودھ میرے پیٹ میں چلا گیا اور مجھے اس بات کا یقین ہوگیا کہ اب آپ ﷺ کو دودھ ملنے کا کوئی راستہ نہیں ہے تو شیطان نے مجھے ندامت دلائی اور کہنے لگا تیری خرابی ہو تو نے یہ کیا کیا تو نے محمد ﷺ کے حصے کا دودھ بھی پی لیا آپ آئیں گے اور وہ دودھ نہیں پائیں گے تو تجھے بددعا دیں گے تو تو ہلاک ہوجائے گا اور تیری دنیا وآخرت برباد ہوجائے گی میرے پاس ایک چادر تھی جب میں اسے اپنے پاؤں پر ڈالتا تو میرا سر کھل جاتا اور جب میں اسے اپنے سر پر ڈالتا تو میرے پاؤں کھل جاتے اور مجھے نیند بھی نہیں آرہی تھی جبکہ میرے دونوں ساتھی سو رہے تھے انہوں نے وہ کام نہیں کیا جو میں نے کیا تھا بالآخر نبی ﷺ تشریف لائے اور نماز پڑھی پھر آپ ﷺ اپنے دودھ کی طرف آئے برتن کھولا تو اس میں آپ ﷺ نے کچھ نہ پایا تو آپ نے اپنا سر مبارک آسمان کی طرف اٹھایا میں نے دل میں کہا اب آپ ﷺ میرے لئے بددعا فرمائیں گے پھر میں ہلاک ہوجاؤں گا تو آپ ﷺ نے فرمایا اے اللہ ! تو اسے کھلا جو مجھے کھلائے اور تو اسے پلا جو مجھے پلائے (میں نے یہ سن کر) اپنی چادر مضبوط کر کے باندھ لی پھر میں چھری پکڑ کر بکریوں کی طرف چل پڑا کہ ان بکریوں میں سے جو موٹی بکری ہو اسے رسول اللہ ﷺ کے لئے ذبح کر ڈالوں میں نے دیکھا کہ اس میں ایک تھن دودھ سے بھرا پڑا ہے بلکہ سب بکریوں کے تھن دودھ سے بھرے پڑے تھے پھر میں نے اس گھر کے برتنوں میں سے وہ برتن لیا کہ جس میں دودھ نہیں دوہا جاتا تھا پھر میں نے اس برتن میں دودھ نکالا یہاں تک کہ دودھ کی جھاگ اوپر تک آگئی پھر میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا آپ ﷺ نے فرمایا کیا تم نے رات کو اپنے حصہ کا دودھ پی لیا تھا میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! آپ ﷺ دودھ پئیں آپ نے وہ دودھ پیا پھر آپ ﷺ نے مجھے دیا پھر جب مجھے معلوم ہوگیا کہ آپ ﷺ سیر ہوگئے ہیں اور آپ ﷺ کی دعا میں نے لے لی ہے تو میں ہنس پڑا یہاں تک کہ مارے خوشی کے میں زمین پر لوٹ پوٹ ہونے لگا نبی ﷺ نے فرمایا اے مقداد یہ تیری ایک بری عادت ہے میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! میرے ساتھ تو اس طرح کا معاملہ ہوا ہے اور میں نے اس طرح کرلیا ہے تو نبی ﷺ نے فرمایا اس وقت کا دودھ سوائے اللہ کی رحمت کے اور کچھ نہ تھا تو نے مجھے پہلے ہی کیوں نہ بتادیا تاکہ ہم اپنے ساتھیوں کو بھی جگا دیتے وہ بھی اس میں سے دودھ پی لیتے میں نے عرض کیا اس ذات کی قسم جس نے آپ ﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے جب آپ ﷺ نے یہ دودھ پی لیا ہے اور میں نے بھی یہ دودھ پی لیا ہے تو اب مجھے اور کوئی پرواہ نہیں (یعنی میں نے اللہ کی رحمت حاصل کرلی ہے تو اب مجھے کیا پرواہ (بوجہ خوشی) کہ لوگوں میں سے کوئی اور بھی یہ رحمت حاصل کرے یا نہ کرے) ۔

【237】

مہمان کا اکرام اور ایثار کی فضیلت کے بیان میں

اسحاق بن ابراہیم، نضر بن شمیل، سلیمان بن مغیرہ، حضرت سلیمان بن مغیرہ (رض) سے اس سند کے ساتھ روایت نقل کی گئی ہے۔

【238】

مہمان کا اکرام اور ایثار کی فضیلت کے بیان میں

عبیداللہ بن معاذ عنبری، حامد بن عمر بکراوی، محمد بن عبدالاعلی، معتمر بن سلیمان، معتمر، ابوعثمان، حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر (رض) سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ ہم نبی ﷺ کے ساتھ ایک سو تیس آدمی تھے نبی ﷺ نے فرمایا کیا تم میں سے کسی کے پاس کھانے کی کوئی چیز ہے ہمارے ساتھ ایک آدمی تھا اس کے پاس ایک صاع یا اس کے بقدر کھانا (آٹا) تھا اس آٹے کو گوندھا گیا پھر اس کے بعد پراگندہ بالوں والا لمبے قد کا ایک مشرک آدمی اپنی بکریوں کو چراتا ہوا آیا نبی ﷺ نے اس چرواہے سے فرمایا کیا تم بیچو گے یا ایسے ہی دے دو گے ؟ یا آپ ﷺ نے فرمایا یا ہبہ کردو گے ؟ اس نے کہا نہیں بلکہ میں بیچوں گا پھر آپ ﷺ نے اس سے ایک بکری خریدی اور اس کا گوشت تیار کیا گیا اور رسول اللہ ﷺ نے اس کی کلیجی بھوننے کا حکم فرمایا روای کہتے ہیں اللہ کی قسم ایک سو تیس آدمیوں میں سے کوئی آدمی بھی ایسا نہیں بچا کہ جسے رسول اللہ ﷺ نے کلیجی کا ٹکڑا کاٹ کر نہ دیا ہو جو آدمی اس وقت موجود تھا اسے اسی وقت دے دیا اور جو موجود نہیں تھا اس کے لئے حصہ رکھ دیا راوی کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے دو پیالوں میں (گوشت) نکالا پھر ہم سب نے اس میں سے کھایا اور خوب سیر ہوگئے اور پیالوں میں (پھر بھی) بچ گیا تو میں نے اسے اونٹ پر رکھ دیا یا جیسا کہ راوی نے کہا۔

【239】

مہمان کا اکرام اور ایثار کی فضیلت کے بیان میں

عبیداللہ بن معاذ عنبری، حامد بن عمر بکراوی، محمد بن عبدالاعلی قیسی، معتمر، معتمربن سلیمان، ابوعثمان، حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر (رض) بیان کرتے ہیں کہ صفہ والے لوگ محتاج تھے اور رسول اللہ ﷺ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ جس آدمی کے پاس دو آدمیوں کا کھانا (موجود) ہو تو وہ تین (صفہ کے ساتھیوں کو کھانا کھلانے کے لئے) لے جائے اور جس آدمی کے پاس چار آدمیوں کا کھانا ہو تو وہ پانچواں یا چھٹے کو بھی (کھانا کھلانے کے لئے ساتھ) لے جائے یا جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا حضرت ابوبکر (رض) تین کو لئے آئے اور اللہ کے نبی ﷺ دس ساتھیوں کو لے گئے اور حضرت ابوبکر (رض) تین ساتھیوں کو ساتھ لائے تھے راوی کہتے ہیں کہ وہ میں اور میرے ماں باپ تھے کہ میں نہیں جانتا کہ شاید کہ انہوں نے اپنے بیوی کو بھی کہا ہو اور ایک خادم جو میرے اور حضرت ابوبکر (رض) دونوں کے گھر میں تھا راوی حضرت عبدالرحمن کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر (رض) نے شام کا کھانا نبی ﷺ کے ساتھ کھایا پھر وہیں ٹھہرے رہے یہاں تک کہ عشاء کی نماز ادا کی گئی ( اور پھر نماز سے فارغ ہو کر) واپس آگئے پھر ٹھہرے یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ سو گئے الغرض رات کا کچھ حصہ گزرنے کے بعد جتنا اللہ تعالیٰ کو منظور تھا حضرت ابوبکر (رض) (اپنے گھر آئے) کو ان کی بیوی نے کہا کہ آپ ﷺ اپنے مہمانوں کو چھوڑ کر کہاں چلے گئے تھے حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا کیا تم نے مہمانوں کو کھانا نہیں کھلایا وہ کہنے لگیں کہ آپ کے آنے تک مہمانوں نے کھانا کھانے سے انکار کردیا ان کے سامنے کھانا پیش کیا گیا مگر انہوں نے پھر بھی نہیں کھایا حضرت عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میں بھاگ کر (ڈر کی وجہ سے) چھپ گیا حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا او جاہل اور انہوں نے مجھے برا بھلا کہا اور فرمایا مہمانوں کے ساتھ کھانا کھاؤ اور پھر حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا اللہ کی قسم ! میں تو یہ کھانا نہیں کھاؤں گا حضرت عبدالرحمن کہتے ہیں اللہ کی قسم ہم کھانے کا جو لقمہ بھی اٹھاتے تھے اس کے نیچے سے اتنا ہی کھانا اور زیادہ ہوجاتا تھا یہاں تک کہ ہم خوب سیر ہوگئے اور جتنا کھانا پہلے تھا اس سے بھی زیادہ ہوگیا حضرت ابوبکر (رض) نے وہ کھانا دیکھا تو وہ کھانا اتنا ہی تھا یا اس سے بھی زیادہ ہوگیا حضرت ابوبکر (رض) نے اپنی بیوی سے فرمایا اے بنی خراس کی بہن یہ کیا ماجرا ہے ؟ حضرت ابوبکر (رض) کی بیوی نے کہا میری آنکھوں کی ٹھنڈک کی قسم کھانا تو پہلے سے بھی تین گنا زیادہ ہوگیا ہے پھر حضرت ابوبکر (رض) نے اس کھانے میں سے کھایا اور فرمایا کہ میں نے جو (غصہ کی حالت میں) قسم کھائی تھی وہ صرف شیطانی فعل تھا پھر ایک لقمہ اس کھانے میں سے کھایا پھر اس کھانے کو اٹھا کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لے گئے وہ کھانا صبح تک آپ ﷺ کے پاس رہا حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا کہ (اس زمانے میں) ہمارے اور ایک قوم کے درمیان صلح کا معاہدہ تھا اور معاہدہ کی مدت ختم ہوچکی تھی تو آپ ﷺ بارہ افراد مقرر فرما دیئے اور ہر افسر کے ساتھ ایک خاص جماعت تھی اللہ جانتا ہے کہ اس جماعت کی کتنی تعداد تھی اور آپ نے وہ کھانا ان کے پاس بھیج دیا اور پھر ان سب نے خوب سیر ہو کر کھانا کھایا۔

【240】

مہمان کا اکرام اور ایثار کی فضیلت کے بیان میں

محمد بن مثنی، سالم بن نوح عطار جریری، ابوعثمان، عبدالرحمن بن ابوبکر، حضرت عبدالرحمن بن ابی ابکر (رض) فرماتے ہیں کہ ہمارے پاس کچھ مہمان آئے اور میرے والد رات کے وقت رسول اللہ ﷺ کے ساتھ باتیں کیا کرتے تھے۔ حضرت عبدالرحمن (رض) کہتے ہیں کہ وہ یہ کہتے ہوئے چلے گئے کہ اے عبدالرحمن ! مہمانوں کی خبرگیری کرنا۔ راوی کہتے ہیں کہ جب شام ہوئی تو ہم مہمانوں کے سامنے کھانا لے کر آئے تو انہوں نے کھانے سے انکار کردیا اور کہنے لگے کہ جب تک گھر والے ہمارے ساتھ کھانا نہیں کھائیں گے اس وقت تک ہم کھانا نہیں کھائیں گے۔ میں نے کہا میرے والد سخت مزاج آدمی ہیں اگر تم کھانا نہیں کھاؤں گے تو مجھے خطرہ ہے کہ کہیں مجھے ان سے کوئی تکلیف نہ اٹھانی پڑجائے (لیکن اس کے باوجود) مہمانوں نے کھانا کھانے سے انکار کردیا تو جب حضرت ابوبکر (رض) آئے تو انہوں نے سب سے پہلے مہمانوں ہی کے بارے میں پوچھا اور فرمایا کیا تم اپنے مہمانوں سے فارغ ہوگئے ہو ؟ راوی کہتے ہیں انہوں نے عرض کیا نہیں اللہ کی قسم ! ابھی ہم فارغ نہیں ہوئے حضرت عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میں ایک طرف ہوگیا (یعنی چھپ گیا) انہوں نے (آواز دے کر) کہا اے عبدالرحمن میں اس طرف سے ہٹ گیا (یعنی چھپ گیا) پھر انہوں نے فرمایا او نالائق ! میں تجھے قسم دیتا ہوں کہ اگر تو میری آواز سن رہا ہے تو آجا۔ حضرت عبدالرحمن کہتے ہیں کہ پھر میں آگیا اور میں نے عرض کیا اللہ کی قسم ! میرا کوئی گناہ نہیں یہ آپ کے مہمان موجود ہیں آپ ان سے (خود) پوچھ لیں میں نے ان کے سامنے کھانا لا کر رکھ دیا تھا انہوں نے آپ کے بغیر کھانا کھانے سے انکار کردیا تھا حضرت ابوبکر نے ان مہمانوں سے فرمایا تمہیں کیا ہوا کہ تم نے ہمارا کھانا قبول نہیں کیا۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر (رض) (یہ کہہ کر) فرمانے لگے اللہ کی قسم ! میں آج رات کھانا نہیں کھاؤں گا۔ مہمانوں نے کہا اللہ کی قسم ! ہم بھی اس وقت تک کھانا نہیں کھائیں گے جب تک کہ آپ کھانا نہیں کھائیں گے۔ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا میں نے آج کی رات کی طرح بدترین رات کبھی نہیں دیکھی تم پر افسوس ہے کہ تم لوگ ہماری مہمان نوازی کیوں نہیں قبول کرتے۔ (پھر کچھ دیر بعد) حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا میرا قسم کھانا شیطانی فعل تھا چلو لاؤ کھانا لاؤ۔ چناچہ کھانا لایا گیا آپ نے اللہ کا نام لے کر (یعنی بسم اللہ پڑھ کر) کھانا کھایا اور مہمانوں نے بھی کھانا کھایا پھر جب صبح ہوئی تو حضرت ابوبکر (رض) نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا اے اللہ کے رسول ! مہمانوں کی قسم پوری ہوگئی اور میری جھوٹی اور یہ کہ سارے واقعہ کی آپ ﷺ کو خبر دی تو آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں بلکہ تمہاری قسم تو سب سے زیادہ پوری ہوئی ہے اور تم سب سے زیادہ سچے ہو۔ حضرت عبدالرحمن کہتے ہیں کہ مجھے یہ بات نہیں پہنچی کہ انہوں نے (قسم کا کفارہ ادا کیا تھا یا نہیں) ۔

【241】

کم کھانا ہونے کے باوجود مہمان نو ازی کی فضلیت کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، مالک، ابوزناد، اعرج سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دو آدمیوں کا کھانا تین آدمیوں کے لئے کافی ہوجاتا ہے اور تین آدمیوں کا کھانا چار آدمیوں کے لئے کافی ہوجاتا ہے۔

【242】

کم کھانا ہونے کے باوجود مہمان نو ازی کی فضلیت کے بیان میں

اسحاق بن ابراہیم، روح بن عبادہ، یحییٰ بن حبیب، ابن جریج، ابوزبیر، حضرت جابر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ ایک آدمی کا کھانا دو کو کافی ہوجاتا ہے اور دو آدمیوں کا کھانا چار دمیوں کو کافی ہوجاتا ہے اور چار آدمیوں کا کھانا آٹھ آدمیوں کے لئے کافی ہوجاتا ہے اور اسحاق کی روایت میں قال رسول اللہ ﷺ کے الفاظ ہیں لفظ سَمِعْتُ انہوں نے نہیں ذکر کیا۔

【243】

کم کھانا ہونے کے باوجود مہمان نو ازی کی فضلیت کے بیان میں

ابن نمیر، ابی سفیان، محمد بن مثنی، عبدالرحمن، سفیان، ابوزبیر، جابر، حضرت جابر (رض) نے نبی ﷺ سے ابن جریج کی حدیث کی طرح روایت نقل کی ہے۔

【244】

کم کھانا ہونے کے باوجود مہمان نو ازی کی فضلیت کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب، اسحاق بن ابراہیم، ابوبکر ابومعاویہ اعمش، ابوسفیان، جابر، حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ایک آدمی کا کھانا دو آدمیوں کے لئے کافی ہوجاتا ہے اور دو آدمیوں کا کھانا چار آدمیوں کے لئے کافی ہوجاتا ہے۔

【245】

کم کھانا ہونے کے باوجود مہمان نو ازی کی فضلیت کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، عثمان بن ابوشیبہ جریر، اعمش، ابوسفیان، حضرت جابر (رض) نبی ﷺ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا ایک آدمی کا کھانا دو آدمیوں کے لئے کافی ہوجاتا ہے اور دو آدمیوں کا کھانا چار آدمیوں کے لئے کافی ہوجاتا ہے اور چار آدمیوں کا کھانا آٹھ آدمیوں کے لئے کافی ہوجاتا ہے۔

【246】

اس بات کے بیان میں کہ مومن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر سات آنتوں میں کھاتا ہے۔

زہیر بن حرب، محمد بن مثنی، عبیداللہ بن سعید، یحیی، قطان، عبیداللہ، نافع، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کافر سات آنتوں میں کھاتا ہے اور مومن ایک آنت میں کھاتا ہے۔

【247】

اس بات کے بیان میں کہ مومن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر سات آنتوں میں کھاتا ہے۔

محمد بن عبداللہ بن نمیر، ابوبکر بن ابوشیبہ، ابواسامہ، ابن نمیر، عبیداللہ محمد بن رافع، عبد بن حمید، عبدالرزاق، معمر، ایوب، نافع، ابن عمر، ان ساری سندوں کے ساتھ حضرت ابن عمر (رض) نے نبی ﷺ سے مذکورہ حدیث کی طرح روایت نقل کی ہے۔

【248】

اس بات کے بیان میں کہ مومن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر سات آنتوں میں کھاتا ہے۔

ابوبکر بن خلاد باہلی، محمد بن جعفر، شعبہ، واقد بن محمد بن زید، حضرت نافع (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر (رض) نے ایک مسکین آدمی کو دیکھا کہ اس مسکین کے سامنے کھانا رکھا جاتا رہا اور وہ کھاتا جاتا رہا راوی کہتے ہیں کہ وہ بہت زیادہ کھا گیا تو پھر حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا یہ مسکین آدمی میرے پاس نہ آئے کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے ہیں مومن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر سات آنتوں میں کھاتا ہے۔

【249】

اس بات کے بیان میں کہ مومن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر سات آنتوں میں کھاتا ہے۔

محمد بن مثنی، عبدالرحمن، سفیان، ابوزبیر، جابر، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا مومن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر سات آنتوں میں کھاتا ہے۔

【250】

اس بات کے بیان میں کہ مومن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر سات آنتوں میں کھاتا ہے۔

ابن نمیر، ابوسفیان، ابوزبیر، جابر، حضرت جابر (رض) نے نبی ﷺ سے مذکورہ حدیث کی طرح روایت نقل کی ہے اور ابن عمر (رض) کا ذکر نہیں کیا۔

【251】

اس بات کے بیان میں کہ مومن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر سات آنتوں میں کھاتا ہے۔

ابوکریب محمد بن علاء، ابواسامہ، برید، حضرت ابوموسی (رض) نے نبی ﷺ سے روایت کیا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا مومن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر سات آنتوں میں کھاتا ہے۔

【252】

اس بات کے بیان میں کہ مومن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر سات آنتوں میں کھاتا ہے۔

قتیبہ بن سعید، عبدالعزیز بن محمد بن علاء، حضرت ابوہریرہ (رض) نے نبی ﷺ سے مذکورہ حدیثوں کی طرح روایت نقل کی ہے۔

【253】

اس بات کے بیان میں کہ مومن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر سات آنتوں میں کھاتا ہے۔

محمد بن رافع، اسحاق بن عیسی، مالک، سہیل بن ابوصالح، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کی مہمان نوازی کی اس حال میں کہ وہ مہمان کافر تھا تو رسول اللہ ﷺ نے اس کافر مہمان کے لئے ایک بکری کے دوہنے کا حکم فرمایا دودھ دوہا گیا تو وہ کافر مہمان اس بکری کا دودھ پی گیا پھر دوسری بکری کا دودھ دوہا گیا تو وہ بھی پی گیا پھر تیسری بکری کا دودھ دوہا گیا تو وہ بھی پی گیا یہاں تک کہ وہ سات بکریوں کا دودھ پی گیا پھر اگلے دن صبح ہوئی تو وہ مسلمان ہوگیا پھر رسول اللہ ﷺ نے اس نو مسلم کے لئے ایک بکری کا دودھ دوہنے کا حکم فرمایا تو وہ دودھ پی گیا آپ ﷺ نے دوسری بکر کا دودھ دوہنے کا حکم فرمایا تو وہ پورا دودھ نہ پی سکا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مومن ایک آنت میں پیتا ہے اور کافر سات آنتوں میں پیتا ہے۔

【254】

کسی کھانے میں عیب نہ نکالنے کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، زہیر بن حرب، اسحاق بن ابراہیم، زہیر، جریر، اعمش، ابوحازم، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کبھی بھی کسی کھانے میں عیب نہیں نکالا جب آپ ﷺ کی طبعیت چاہتی تو اسے کھالیتے اور اگر اسے ناپسند کرتے تو چھوڑ دیتے۔

【255】

کسی کھانے میں عیب نہ نکالنے کے بیان میں

احمد بن یونس، زہیر، سلیمان، حضرت اعمش (رض) سے اس سند کے ساتھ مذکورہ حدیث کی طرح نقل کی گئی ہے۔

【256】

کسی کھانے میں عیب نہ نکالنے کے بیان میں

عبد بن حمید، عبدالرزاق، عبدالملک بن عمرو، عمرو بن سعد، ابوداؤد حفر، سفیان، حضرت اعمش (رض) سے اس سند کے ساتھ مذکورہ حدیث طرح نقل کی گئی ہے۔

【257】

کسی کھانے میں عیب نہ نکالنے کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب، محمد بن مثنی، عمرو ناقد، ابوکریب، ابومعاویہ، اعمش، ابویحیی، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو کبھی نہیں دیکھا کہ آپ نے کبھی کسی کھانے میں کوئی عیب نکالا ہو آپ ﷺ کی طبعیب چاہتی تو کھالیتے اور اگر آپ ﷺ کی طبعیت نہیں چاہتی تو آپ ﷺ خاموش رہتے۔

【258】

کسی کھانے میں عیب نہ نکالنے کے بیان میں

ابوکریب، محمد بن مثنی، ابومعاویہ، اعمش، ابوحازم، حضرت ابوہریرہ (رض) نے نبی ﷺ سے مذکورہ حدیث کی طرح روایت نقل کی ہے۔