48. تقدیر کا بیان
انسان کا اپنی ماں کے پیٹ میں تخلیق کی کیفیت اور اس کے رزق عمر عمل شقاوت وسعادت لکھے جانے کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابومعاویہ وکیع، محمد بن عبداللہ بن نمیر، ہمدانی ابومعاویہ وکیع، اعمش، زید بن وہب، حضرت عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ صادق و مصدوق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میں سے ہر ایک کا نطفہ اس کی ماں کے پیٹ میں چالیس دن جمع رہتا ہے پھر اسی میں جما (پھٹکی بنا ہؤا) ہوا خون اتنی مدت رہتا ہے پھر اتنی ہی مدت میں گوشت کا لوتھڑا بن جاتا ہے پھر فرشتہ بھیجا جاتا ہے جو اس میں روح پھونکتا ہے اور اسے چار کلمات لکھنے کا حکم دیا جاتا ہے اس کا رزق، عمر، عمل اور شقی یا سعید ہونا اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں بیشک تم میں سے کوئی اہل جنت کے عمل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور جنت کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو اس پر تقدیر کا لکھا ہوا غالب آجاتا ہے اور وہ اہل جہنم کا سا عمل کرلیتا ہے اور جہنم میں داخل ہوجاتا ہے اور تم میں سے کوئی اہل جہنم جیسے اعمال کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور جہنم کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو اس پر تقدیر کا لکھا ہوا غالب آجاتا ہے اور وہ اہل جنت والا عمل کرلیتا ہے اور جنت میں داخل ہوجاتا ہے۔
انسان کا اپنی ماں کے پیٹ میں تخلیق کی کیفیت اور اس کے رزق عمر عمل شقاوت وسعادت لکھے جانے کے بیان میں
عثمان بن ابی شیبہ اسحاق بن ابراہیم، جریر بن عبدالحمید اسحاق بن ابراہیم، عیسیٰ بن یونس، ابوسعید اشج وکیع، عبیداللہ بن معاذ ابی شعبہ بن حجاج اعمش، ان اسناد سے بھی یہ حدیث مروی ہے فرق یہ ہے کہ وکیع کی روایت میں ہے تم میں سے ہر ایک کی تخلیق اس کی ماں کے پیٹ میں چالیس راتیں ہوتی ہے شعبہ کی روایت میں چالیس دن یا چالیس رات ہے جریر اور عیسیٰ کی روایت میں چالیس دن مذکور ہیں۔
انسان کا اپنی ماں کے پیٹ میں تخلیق کی کیفیت اور اس کے رزق عمر عمل شقاوت وسعادت لکھے جانے کے بیان میں
محمد بن عبداللہ بن نمیر، زہیر بن حرب، ابن نمیر، سفیان بن عیینہ، عمر ابن دینار ابی طفیل حضرت حذیفہ بن اسید (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا چالیس یا پینتالیس رات تک نطفہ رحم میں ٹھہر جاتا ہے تو فرشتہ اس پر داخل ہو کر کہتا ہے اے رب یہ بدبخت ہے یا نیک بخت پھر انہیں لکھ دیا جاتا ہے پھر کہتا ہے اے رب یہ مذکر ہوگا یا مونث پر یہ دونوں باتوں کو لکھا جاتا ہے اور اس کے اعمال افعال موت اور اس کا رزق لکھا جاتا ہے پھر صحیفہ لپیٹ دیا جاتا ہے اس میں زیادتی کی جاتی ہے نہ کمی۔
انسان کا اپنی ماں کے پیٹ میں تخلیق کی کیفیت اور اس کے رزق عمر عمل شقاوت وسعادت لکھے جانے کے بیان میں
ابوطاہر احمد بن عمرو بن سرح ابن وہب، عمرو بن حارث، ابی زبیر مکی عامر بن واثلہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے رایت ہے کہ بدبخت وہی ہے جو اپنی ماں کے پیٹ میں ہی بدبخت ہو اور نیک بخت وہ ہے جو دوسروں سے نصیحت حاصل کرے پس اصحاب رسول اللہ ﷺ میں سے ایک آدمی آیا جسے حذیفہ بن اسید غفاری کہا جاتا تھا اور عامر بن واثلہ سے حضرت ابن مسعود کا یہ قول روایت کیا تو عامر نے کہا آدمی بغیر عمل کے بدبخت کیسے ہوسکتا ہے تو اس سے حذیفہ نے فرمایا کیا تو اس بات سے تعجب کرتا ہے ؟ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ نے فرمایا جب نطفہ پر بیالیس راتیں گزر جاتی ہیں تو اللہ اس کی طرف فرشتہ بھیجتے ہیں جو اس کی صورت بناتا ہے اور اس کے کان آنکھیں اور جلد گوشت اور ہڈیاں بناتا ہے پھر عرض کرتا ہے اے رب یہ مذکر ہے یا مؤنث پس تیرا رب جو چاہتا ہے فیصلہ کرتا ہے اور فرشتہ لکھ لیتا ہے فرشتہ پھر عرض کرتا ہے اے رب اس کی عمر تو تیرا رب جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے اور فرشتہ لکھ دیتا ہے وہ پھر عرض کرتا ہے اے رب اس کا رزق تو تیرا رب جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے اور فرشتہ لکھ لیتا ہے پھر فرشتہ وہ کتاب اپنے ہاتھ میں لے کر نکل جاتا ہے اور وہ نہ کوئی زیادتی کرتا ہے اور نہ کمی اس میں جو اسے حکم دیا جاتا ہے۔
انسان کا اپنی ماں کے پیٹ میں تخلیق کی کیفیت اور اس کے رزق عمر عمل شقاوت وسعادت لکھے جانے کے بیان میں
احمد بن عثمان نوفلی ابوعاصم، ابن جریج، ابوزبیر، ابوطفیل عبداللہ بن مسعود اس سند سے بھی یہ حدیث اسی طرح مروی ہے۔
انسان کا اپنی ماں کے پیٹ میں تخلیق کی کیفیت اور اس کے رزق عمر عمل شقاوت وسعادت لکھے جانے کے بیان میں
محمد بن احمد ابن ابی خلف یحییٰ بن ابی بکیر زہیر ابوخیثمہ عبداللہ بن عطاء، عکرمہ بن خالد ابوطفیل حضرت حذیفہ (رض) بن اسید غفاری سے روایت ہے کہ میں نے اپنے ان دونوں کانوں سے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ نطفہ رحم میں چالیس رات تک رہتا ہے پھر فرشتہ اس پر صورت بناتا ہے زہیر نے کہا میرا گمان ہے کہ انہوں نے کہا اس کی تخلیق کرتا ہے پھر عرض کرتا ہے اے رب یہ مذکر ہے یا مونث پس اللہ اسے مذکر یا مونث بنا دیتے ہیں پھر عرض کرتا ہے اے رب اس کے اعضاء پورے اور برابر ہوں یا ادھورے اور ناہموار پس اللہ اسے کامل الاعضاء یا ادھورے اعضاء والا بناتے ہیں پھر عرض کرتا ہے اے رب اس کا رزق کتنا ہے اس کی عمر کیا ہے اس کے اخلاق کیا ہیں پھر اللہ اسے شقی یا سعید بناتا ہے۔
انسان کا اپنی ماں کے پیٹ میں تخلیق کی کیفیت اور اس کے رزق عمر عمل شقاوت وسعادت لکھے جانے کے بیان میں
عبدالوارث بن عبدالصمد ابی ربیعہ بن کلثوم ابی کلثوم ابی طفیل حضرت حذیفہ بن اسید (رض) رسول اللہ ﷺ سے مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ ایک فرشتہ رحم پر مقرر شدہ ہے جب اللہ کسی چیز کے پیدا کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ فرشتہ اللہ کے حکم سے چالیس راتوں سے کچھ زیادہ گزرنے پر اسے بناتا ہے باقی حدیث اسی طرح ہے۔
انسان کا اپنی ماں کے پیٹ میں تخلیق کی کیفیت اور اس کے رزق عمر عمل شقاوت وسعادت لکھے جانے کے بیان میں
ابوکامل فضیل ابن حسین جحدری حماد بن زید عبیداللہ بن ابی بکر، رافع حضرت انس بن مالک (رض) سے مرفوع روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے رحم پر ایک فرشتہ مقرر کر رکھا ہے تو وہ عرض کرتا ہے یہ نطفہ ہے اے رب یہ جما ہوا خون ہے اے رب یہ لوتھڑا ہے پس جب اللہ اس کے پیدا کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو فرشتہ عرض کرتا ہے اے رب یہ نر ہے یا مادہ، شقی ہے یا سعید اس کا رزق کتنا ہے اور اس کی عمر کیا ہے پس اسی طرح اس کی ماں کے پیٹ ہی میں سب کچھ لکھ دیا جاتا ہے۔
انسان کا اپنی ماں کے پیٹ میں تخلیق کی کیفیت اور اس کے رزق عمر عمل شقاوت وسعادت لکھے جانے کے بیان میں
عثمان بن ابی شیبہ زہیر بن حرب، اسحاق بن ابراہیم، زہیر اسحاق جریر، منصور سعد ابن عیبدہ ابوعبدالرحمن حضرت علی (رض) سے روایت ہے کہ ہم ایک جنازہ کے ساتھ بقیع الغرقد میں تھے رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لا کر بیٹھ گئے اور ہم بھی آپ کے اردگرد بیٹھ گئے اور آپ کے پاس ایک چھڑی تھی پس آپ نے سر جھکایا اور اپنی چھڑی سے زمین کو کریدنا شروع کردیا پھر فرمایا تم میں سے کوئی جان (نفس) ایسا نہیں جس کا مکان جنت یا دوزخ میں اللہ نے نہ لکھ دیا ہو اور شقاوت وسعادت بھی لکھ دی جاتی ہے ایک آدمی نے عرض کیا اے اللہ کے رسول کیا ہم اپنی تقدیر پر ٹھہرے نہ رہیں اور عمل چھوڑ دیں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا جو اہل سعادت میں سے ہوگا وہ اہل سعادت کے عمل ہی کی طرف ہوجائے گا اور جو اہل شقاوت میں سے ہوگا وہ اہل شقاوت ہی کے عمل کی طرف جائے گا پھر آپ ﷺ نے فرمایا تم عمل کرو ہر چیز آسان کردی گئی ہے بہر حال اہل سعادت کے لئے اہل سعادت کے سے اعمال کرنا آسان کردیا ہے پھر آپ نے فرمایا ( مَنْ أَعْطَی وَاتَّقَی وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَی) تلاوت فرمائی جس نے صدقہ کیا اور تقوی اختیار کیا اور نیکی کی تصدیق کی تو ہم اس کے لئے نیکیوں کو آسان کردیں گے اور بخل کیا اور لاپرواہی کی اور نیکی کو جھٹلایا تو ہم اس کے لئے برائیوں کو آسان کردیں گے۔
انسان کا اپنی ماں کے پیٹ میں تخلیق کی کیفیت اور اس کے رزق عمر عمل شقاوت وسعادت لکھے جانے کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، ہناد بن شری ابوالاحوص منصور اس سند سے بھی یہ حدیث اسی طرح مروی ہے لیکن اس میں ہے کہ پھر رسول اللہ ﷺ نے تلاوت کی۔
انسان کا اپنی ماں کے پیٹ میں تخلیق کی کیفیت اور اس کے رزق عمر عمل شقاوت وسعادت لکھے جانے کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، زہیر بن حرب، ابوسعید اشج وکیع، ابن نمیر، ابی اعمش، ابوکریب ابومعاویہ اعمش، سعد بن عیبدہ ابوعبدالرحمن سلمی علی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن بیٹھے ہوئے تھے اور آپ ﷺ کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی جس سے آپ ﷺ زمین کرید رہے تھے آپ نے اپنا سر مبارک اٹھا کر فرمایا تم میں سے ہر ایک کا مقام جنت یا دوزخ میں معلوم ہے۔ صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول تو پھر ہم عمل کیوں کریں کیا ہم بھروسہ نہ کریں آپ ﷺ نے فرمایا نہیں بلکہ عمل کرو ہر آدمی کے لئے انہیں کاموں کو آسان کیا جاتا ہے جس کے لئے اس کی پیدائش کی گئی ہے پھر آپ ﷺ نے (فَأَمَّا مَنْ أَعْطَی وَاتَّقَی وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَی) تک تلاوت کی۔
انسان کا اپنی ماں کے پیٹ میں تخلیق کی کیفیت اور اس کے رزق عمر عمل شقاوت وسعادت لکھے جانے کے بیان میں
محمد بن مثنی، ابن بشار محمد بن جعفر، شعبہ، منصور اعمش، سعد بن عبیدہ حضرت علی (رض) کی نبی ﷺ سے یہی روایت ان اسناد سے بھی مروی ہے۔
انسان کا اپنی ماں کے پیٹ میں تخلیق کی کیفیت اور اس کے رزق عمر عمل شقاوت وسعادت لکھے جانے کے بیان میں
احمد بن یونس زہیر ابوزبیر، یحییٰ بن یحیی، ابوخیثمہ ابوزبیر، حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ سراقہ بن مالک بن جعشم (رض) نے آکر عرض کیا اے اللہ کے رسول آپ ہمارے لئے ہمارے دین کو واضح کریں۔ گویا کہ ہمیں ابھی پیدا کیا گیا ہے آج ہمارا عمل کس چیز کے مطابق ہے کیا ان سے متعلق ہے جنہیں لکھ کر قلم خشک ہوچکے ہیں اور تقدیر جاری ہوچکی ہے یا اس چیز سے متعلق ہیں جو ہمارے سامنے آتی ہے آپ ﷺ نے فرمایا نہیں بلکہ ان سے متعلق ہیں جنہیں لکھ کر قلم خشک ہوچکے ہیں اور تقدیر جاری ہوچکی ہے سراقہ نے عرض کیا پھر ہم عمل کیوں کریں ؟ زہیر نے کہا پھر ابوالزبیر نے کوئی کلمہ ادا کیا لیکن میں اسے سمجھ نہ سکا میں نے پوچھا آپ نے کیا فرمایا ؟ تو انہوں نے کہا آپ ﷺ نے فرمایا عمل کئے جاؤ ہر ایک کے لئے اس کا عمل آسان کردیا گیا ہے۔
انسان کا اپنی ماں کے پیٹ میں تخلیق کی کیفیت اور اس کے رزق عمر عمل شقاوت وسعادت لکھے جانے کے بیان میں
ابوطاہر ابن وہب، عمرو حارث ابی زبیر، حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے ان اسناد سے بھی نبی ﷺ سے اسی معنی کی حدیث روایت ہے اس میں یہ بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہر عمل کرنے والے کے لئے اس کا عمل آسان کردیا گیا ہے۔
انسان کا اپنی ماں کے پیٹ میں تخلیق کی کیفیت اور اس کے رزق عمر عمل شقاوت وسعادت لکھے جانے کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، حماد بن زید یزید ضبعی مطرف حضرت عمران بن حصین (رض) سے روایت ہے کہ عرض کیا گیا اے اللہ کے رسول کیا اہل جنت اہل جہنم معلوم ہوچکے ہیں تو آپ نے فرمایا ہاں۔ آپ ﷺ سے عرض کیا گیا پھر عمل کرنے والے عمل کس لئے کرتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا ہر آدمی جس عمل کے لئے پیدا کیا گیا اس کے لئے وہ عمل آسان کردیا گیا ہے۔
انسان کا اپنی ماں کے پیٹ میں تخلیق کی کیفیت اور اس کے رزق عمر عمل شقاوت وسعادت لکھے جانے کے بیان میں
شیبان بن فروخ عبدالوارث ابوبکر بن ابی شیبہ، زہیر بن حرب، اسحاق بن ابراہیم، ابن نمیر ابن علیہ، یحییٰ بن یحیی، جعفر بن سلیمان ابن مثنی محمد بن جعفر، شعبہ، یزید ان اسناد سے بھی یہ حدیث اسیطرح مروی ہے صرف عبدالوارث کی روایت میں یہ ہے کہ صحابی کہتے ہیں میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ ۔
انسان کا اپنی ماں کے پیٹ میں تخلیق کی کیفیت اور اس کے رزق عمر عمل شقاوت وسعادت لکھے جانے کے بیان میں
اسحاق بن ابراہیم، عثمان بن عمر عزرہ بن ثابت یحییٰ بن عقیل یحییٰ ابن یعمر حضرت ابوالاسود دیلی (رض) سے روایت ہے کہ مجھے عمران بن حصین نے کہا کیا تو جانتا ہے کہ آج لوگ عمل کیوں کرتے ہیں اور اس میں مشقت کیوں برداشت کرتے ہیں کیا یہ کوئی ایسی چیز ہے جس کا فیصلہ ہوچکا ہے اور تقدیر الٰہی اس پر جاری ہوچکی ہے یا وہ عمل ان کے سامنے آتے ہیں جنہیں ان کے نبی ﷺ کی لائی ہوئی شریعت نے دلائل ثابتہ سے واضح کردیا ہے تو میں نے کہا نہیں بلکہ ان کا عمل ان چیزوں سے متعلق ہے جن کا حکم ہوچکا ہے اور تقدیر ان میں جاری ہوچکی ہے تو عمران نے کہا کیا یہ ظلم نہیں ہے راوی کہتے ہیں کہ اس سے میں سخت گھبرا گیا اور میں نے کہا ہر چیز اللہ کی مخلوق اور اس کی ملکیت ہے پس اس سے اس کے فعل کی باز پرس نہیں کی جاسکتی اور لوگوں سے تو پوچھا جائے گا تو انہوں نے مجھے کہا اللہ تجھ پر رحم فرمائے میں نے آپ سے یہ سوال صرف آپ کی عقل کو جانچنے کے لئے ہی کیا تھا (ایک مرتبہ) قبیلہ مزنیہ کے دو آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا اے اللہ کے رسول آپ ﷺ اس بارے میں کیا فرماتے ہیں کہ لوگ آج عمل کس بات پر کرتے ہیں اور کس وجہ سے اس میں مشقت برادشت کرتے ہیں کیا یہ کوئی ایسی چیز ہے جس کے بارے میں حکم صادر ہوچکا ہے اور اس میں تقدیر جاری ہوچکی ہے یا ان کے نبی ﷺ جو احکام لے کرئے ہیں اور تبلیغ کی حجت ان پر قائم ہوچکی ہے اس کے مطابق عمل ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں بلکہ ان کا عمل اس چیز کے مطابق ہے جس کا فیصلہ ہوچکا ہے اور تقدیر اس میں جاری ہوچکی ہے اور اس کی تصدیق اللہ کی کتاب میں (وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا) موجود ہے اور قسم ہے انسان کی اور جس نے اس کو بنایا اور اسے اس کی بدی اور نیکی کا الہام فرمایا۔
انسان کا اپنی ماں کے پیٹ میں تخلیق کی کیفیت اور اس کے رزق عمر عمل شقاوت وسعادت لکھے جانے کے بیان میں
قتبیہ بن سعید عبدالعزیز بن محمد علاء، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا آدمی زمانہ طویل تک اہل جنت کے سے اعمال کرتا رہتا ہے پھر اس کا خاتمہ اہل جہنم کے اعمال پر ہوتا ہے اور بیشک آدمی مدت دراز تک اہل جہنم کے سے اعمال کرتا رہتا ہے پھر اس کے اعمال کا خاتمہ اہل جنت کے سے اعمال پر ہوتا ہے۔
انسان کا اپنی ماں کے پیٹ میں تخلیق کی کیفیت اور اس کے رزق عمر عمل شقاوت وسعادت لکھے جانے کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، یعقوب بن ابراہیم، قاری، ابی حازم حضرت سہل بن سعد ساعدی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا آدمی لوگوں کے ظاہر میں اہل جنت کے سے اعمال کرتا ہے حالانکہ وہ جہنم والوں میں سے ہوتا ہے اور آدمی لوگوں کے ظاہر میں اہل جہنم کے جیسے اعمال کرتا ہے حالانکہ وہ جنت والوں میں سے ہوتا ہے۔
حضرت آدم اور موسیٰ علیہما السلام کے درمیان مکاملہ کے بیان میں
محمد بن حاتم، ابراہیم بن دینار، ابن ابی عمر مکی، احمد بن عبدہ الضبی، ابن عیینہ، عا مر، طاؤس، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا حضرت آدم و موسیٰ علیہما السلام کے درمیان مکالمہ ہوا تو موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا اے آدم آپ ہمارے باپ ہیں آپ نے ہمیں نامراد کیا اور ہمیں جنت سے نکلوایا۔ تو ان سے حضرت آدم (علیہ السلام) نے فرمایا تم موسیٰ ہو اللہ نے آپ کو اپنے کلام کے لئے منتخب کیا اور آپ کے لئے اپنے دست خاص سے تحریر لکھی کیا آپ مجھے ایسی بات پر ملامت کر رہے ہیں جسے میرے پیدا کرنے سے چالیس سال پہلے ہی مجھ پر مقدر فرما دیا گیا تھا۔ نبی ﷺ نے فرمایا پس آدم موسیٰ پر غالب آگئے پس آدم موسیٰ پر غالب آگئے دوسری روایت میں ہے کہ ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا تیرے لئے تورات کو اپنے ہاتھ سے لکھا۔
حضرت آدم اور موسیٰ علیہما السلام کے درمیان مکاملہ کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، مالک بن انس، ابی زناد، اعرج، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا حضرت آدم (علیہ السلام) اور موسیٰ (علیہ السلام) کے درمیان مکالمہ ہوا تو حضرت آدم حضرت موسیٰ پر غالب آگئے اور ان سے موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا آپ وہ آدم ہیں جنہوں نے لوگوں کو راہ راست سے دور کیا اور انہیں جنت سے نکلوایا حضرت آدم (علیہ السلام) نے فرمایا آپ وہ ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا علم عطا کیا اور جسے لوگوں پر اپنی رسالت کے لئے مخصوص کیا موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا جی ہاں۔ حضرت آدم (علیہ السلام) نے فرمایا پس تم مجھے اس معاملہ پر ملامت کر رہے ہو جو میرے لئے میری پیدائش سے پہلے ہی مقدر کردیا گیا۔
حضرت آدم اور موسیٰ علیہما السلام کے درمیان مکاملہ کے بیان میں
اسحاق بن موسیٰ ابن عبداللہ بن موسیٰ بن عبداللہ یزید انصاری انس ابن عیاض حارث بن ابی ذباب یزید ابن ہرمز عبدالرحمن اعرج حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا حضرت آدم اور موسیٰ کا اپنے رب کے پاس مکالمہ ہوا پس آدم موسیٰ پر غالب آگئے موسیٰ نے فرمایا آپ وہ آدم ہیں جنہیں اللہ نے اپنے ہاتھ سے پیدا فرمایا اور تم میں اپنی پسندیدہ روح پھونکی اور آپ کو اپنے فرشتوں سے سجدہ کرایا اور آپ کو اپنی جنت میں سکونت عطا کی پھر آپ نے لوگوں کو اپنی غلطی کی وجہ سے زمین کی طرف اتروا دیا آدم نے فرمایا آپ وہ موسیٰ ہیں جسے اللہ نے اپنی رسالت اور ہم کلامی کے لئے منتخب فرمایا اور آپ کو تختیاں عطا کیں جن میں ہر چیز کی وضاحت تھی اور آپ کو سرگوشی کے لئے قربت عطا کی تو اللہ کو میری پیدائش سے کتنا عرصہ پہلے پایا جس نے توارۃ کو لکھا موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا چالیس سال پہلے۔ آدم (علیہ السلام) نے فرمایا کیا تو نے اس میں (وَعَصَی آدَمُ رَبَّهُ فَغَوَی) یعنی آدم نے اپنے رب کی ظاہرا نافرمانی کی اور راہ راست سے دور ہوئے پایا موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا جی ہاں حضرت آدم (علیہ السلام) نے فرمایا کیا آپ مجھے ایسا عمل کرنے پر ملامت کرتے ہیں جسے اللہ نے میرے لئے مجھے پیدا کرنے سے چالیس سال پہلے ہی لکھ دیا تھا کہ میں وہ کام کروں گا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا پس آدم موسیٰ پر غالب آگئے۔
حضرت آدم اور موسیٰ علیہما السلام کے درمیان مکاملہ کے بیان میں
زہیر بن حرب، ابن حاتم یعقوب بن ابراہیم، ابن ابی عدی ابن شہاب حمید ابن عبدالرحمن حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا حضرت آدم و موسیٰ علیہما السلام کے درمیان مکالمہ ہوا تو آدم (علیہ السلام) سے موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا آپ وہ آدم ہیں جسے آپ کی اپنی خطا نے جنت سے نکلوایا تھا۔ تو ان سے آدم (علیہ السلام) نے فرمایا آپ وہی موسیٰ ہیں جنہیں اللہ نے اپنی رسالت اور ہم کلامی کے لئے مخصوص فرمایا۔ پھر آپ مجھے ایسے حکم پر ملامت کرتے ہیں جسے اللہ نے میرے پیدا کرنے سے پہلے ہی مجھ پر مقدر فرما دیا تھا تو آدم موسیٰ پر غالب آگئے۔
حضرت آدم اور موسیٰ علیہما السلام کے درمیان مکاملہ کے بیان میں
عمرو ناقد، ایوب بن نجار یمامی، یحییٰ بن ابی کثیر، ابوسلمہ، ابو ہریرہ۔ ابن رافع، عبدالرزاق، معمر، ہمام بن منبہ، ابوہریرہ (رض) ان اسناد سے بھی نبی ﷺ سے یہی حدیث روایت کی۔
حضرت آدم اور موسیٰ علیہما السلام کے درمیان مکاملہ کے بیان میں
محمد بن منہال، ضریر، یزید بن زریع، ہشام بن حسان، محمد بن سیرین، ابوہریرہ (رض) اس سند سے بھی رسول اللہ ﷺ سے یہی حدیث روایت کی ہے۔
حضرت آدم اور موسیٰ علیہما السلام کے درمیان مکاملہ کے بیان میں
ابوطاہر احمد عمرو بن عبداللہ بن عمرو بن سرح ابن وہب، ابوہانی خولانی ابوعبدالرحمن حبلی حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ نے آسمان و زمین کی تخلیق سے پچاس ہزار سال پہلے مخلوقات کی تقدیر لکھی اور اللہ کا عرش پانی پر تھا۔
حضرت آدم اور موسیٰ علیہما السلام کے درمیان مکاملہ کے بیان میں
ابن ابی عمر مقری حیوۃ محمد بن سہل تمیمی ابن ابی مریم نافع ابن یزید ابی ہانی اس سند سے بھی حدیث اسی طرح مروی ہے لیکن اس میں یہ مذکور نہیں کہ اللہ کا عرش پانی پر تھا۔
اللہ تعالیٰ کا مرضی کے مطابق دلوں کو پھیرنے کے بیان میں
زہیر بن حرب، ابن نمیر، مقری زہیر عبداللہ بن یزید مقری حیوۃ ابوہانی ابوعبدالرحمن حبلی حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے تھے تمام بنی آدم کے دل رحمن کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ایک دل کی طرح ہیں جسے چاہتا ہے اسے پھیر دیتا ہے پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (اللَّهُمَّ مُصَرِّفَ الْقُلُوبِ صَرِّفْ قُلُوبَنَا عَلَی طَاعَتِکَ ) اے اللہ دلوں کے پھیرنے والے ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت پر پھیر دے۔
ہر چیز کا تقدیر الہی کے ساتھ وابستہ ہونے کے بیان میں
عبدالاعلی بن حماد مالک بن انس، قتیبہ بن سعید مالک زیادہ بن سعید عمرو بن مسلم حضرت طاؤس سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ کے متعدد صحابہ سے ملاقات کی ہے وہ کہتے تھے ہر چیز تقدیر سے وابستہ ہے اور میں نے حضرت ابن عمر (رض) سے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہر چیز تقدیر سے وابستہ ہے یہاں تک کہ عجز اور قدرت یا قدرت اور عجز۔
ہر چیز کا تقدیر الہی کے ساتھ وابستہ ہونے کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب وکیع، سفیان، زیاد بن اسماعیل محمد بن عباد بن جعفر مخزومی حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ مشرکینِ قریش رسول اللہ ﷺ سے تقدیر کے بارے میں جھگڑا کرنے کے لئے آئے تو یہ آیت نازل ہوئی (يَوْمَ يُسْحَبُوْنَ فِي النَّارِ عَلٰي وُجُوْهِهِمْ ذُوْقُوْا مَسَّ سَقَرَ ) 54 ۔ القمر : 48) جس دن وہ جہنم میں اوندھے منہ گھسیٹے جائیں گے اور کہا جائے گا دوزخ کا عذاب چکھو بیشک ہم نے ہر چیز کو تقدیر کے ساتھ پیدا کیا ہے۔
ابن آدم پر زنا وغیرہ میں سے حصہ مقدر ہونے کے بیان میں
اسحاق بن ابراہیم، عبد بن حمید اسحاق عبدالرزاق، معمر، ابن طاؤس حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ میرے نزدیک بِاللَّمَمِ کی تفسیر میں حضرت ابوہریرہ (رض) کے اس قول سے بہتر کوئی بات نہیں ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا بیشک اللہ تعالیٰ نے ابن آدم پر زنا سے اس کا حصہ لکھ دیا جسے وہ ضرور حاصل کرے گا آنکھوں کا زنا دیکھنا ہے اور زبان کا زنا کہنا ہے اور دل تمنا اور خواہش کرتا ہے اور شرمگاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے۔
ابن آدم پر زنا وغیرہ میں سے حصہ مقدر ہونے کے بیان میں
اسحاق بن منصور ابوہشام مخزومی وہیب سہیل بن ابوصالح حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا ابن آدم پر اس کے زنا سے حصہ لکھ دیا گیا ہے وہ لا محالہ اسے ملے گا پس آنکھوں کا زنا دیکھنا ہے اور کانوں کا زنا سننا ہے اور زبان کا زنا گفتگو کرنا ہے اور ہاتھوں کا زنا پکڑنا ہے اور پاؤں کا زنا چلنا ہے اور دل کا گناہ خواہش اور تمنا کرنا ہے اور شرمگاہ اس کی تصدیق کرتی ہے یا تکذیب۔
ہر بچہ کے فطرت پر پیدا ہونے کے معنی اور کفار کے بچوں اور مسلمانوں کے بچوں کی موت کے حکم کے بیان میں
حاجب بن ولید محمد بن حرب زبیدی زہری، سعید بن مسیب حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہر پیدا ہونے والا بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے پس اس کے والدین اسے یہودی نصرانی اور مجوسی بنا دیتے ہیں جیسے کہ جانور کے پورے اعضاء والا جانور پیدا ہوتا ہے کیا تمہیں ان میں کوئی کٹے ہوئے عضو والا جانور معلوم ہوتا ہے پھر حضرت ابوہریرہ (رض) نے کہا اگر تم چاہو تو آیت (فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا) 30 ۔ الروم : 30) پڑھ لو یعنی اے لوگو اللہ کی بنائی ہوئی فطرت (دین اسلام ہے) کو لازم کرلو جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے اللہ کی مخلوق میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔
ہر بچہ کے فطرت پر پیدا ہونے کے معنی اور کفار کے بچوں اور مسلمانوں کے بچوں کی موت کے حکم کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شبیہ عبد بن حمید عبدالرزاق، معمر، زہری، ان اسناد سے بھی یہ حدیث مبارکہ اسی طرح مروی ہے البتہ ایک سند سے یہ الفاظ ہیں کہ جیسے جانور کے ہاں جانور پیدا ہوتا ہے اور کامل الاعضاء ہونے کو ذکر نہیں کیا۔
ہر بچہ کے فطرت پر پیدا ہونے کے معنی اور کفار کے بچوں اور مسلمانوں کے بچوں کی موت کے حکم کے بیان میں
ابوطاہر احمد بن عیسیٰ ابن وہب، یونس بن یزید ابن شہاب ابوسلمہ بن عبدالرحمن حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہر پیدا ہونے والا بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے پھر فرمایا یہ آیت پڑھو (فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا) 30 ۔ الروم : 30) اے لوگوں اپنے اوپر اللہ کی بنائی فطرت کو لازم کرلو جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے اللہ کی مخلوق میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی اور یہی دین قیم ہے۔
ہر بچہ کے فطرت پر پیدا ہونے کے معنی اور کفار کے بچوں اور مسلمانوں کے بچوں کی موت کے حکم کے بیان میں
زہیر بن حرب، جریر، اعمش، ابوصالح، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہر پیدا ہونے والا بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے والدین اسے یہودی نصرانی اور مشرک بنا دیتے ہیں ایک آدمی نے عرض کیا اے اللہ کے رسول اگر وہ اس سے پہلے ہی مرجائے تو آپ ﷺ کیا فرماتے ہیں ؟ فرمایا اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ کیا عمل کرنے والے ہوتے۔
ہر بچہ کے فطرت پر پیدا ہونے کے معنی اور کفار کے بچوں اور مسلمانوں کے بچوں کی موت کے حکم کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب، اعمش، ابن نمیر، ابی معاویہ، ان اسناد سے بھی یہ حدیث مروی ہے ابن نمیر کی روایت میں یہ ہے کہ ہر پیدا ہونے والا بچہ ملت (اسلامیہ) پر پیدا ہوتا ہے اور حضرت ابومعاویہ کی روایت میں یہ ہے کہ وہ اس ملت پر پیدا ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنی زبان سے اس کا اظہار کر دے ابوکریب کی روایت میں ہے کہ ہر پیدا ہونے والا اس فطرت پر پیدا ہوتا ہے یہاں تک کہ اس کی زبان چل سکے اور اس کے ضمیر کی ترجمانی کرسکے۔
ہر بچہ کے فطرت پر پیدا ہونے کے معنی اور کفار کے بچوں اور مسلمانوں کے بچوں کی موت کے حکم کے بیان میں
محمد بن رافع عبدالرزاق، معمر، ہمام بن منبہ، حضرت ابوہریرہ (رض) کی رسول اللہ ﷺ کی مروی احادیث میں سے ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو بھی پیدا کیا جاتا ہے اسے اس فطرت اسلام پر پیدا کیا جاتا ہے پھر اس کے والدین اسے یہودی یا نصرانی بناتے ہیں جیسے اونٹوں کے بچے پیدائش کے وقت تمہیں پورے اعضاء والے نظر آتے ہیں کیا تمہیں کٹے ہوئے اعضاء والا بھی ملتا ہے بلکہ تم خود ان کے کان وغیرہ کاٹ دیتے ہو صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول جو بچپن میں ہی فوت ہوجائے اس کے بارے میں آپ ﷺ کیا فرماتے ہیں آپ نے فرمایا اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ کیا عمل کرنے والے تھے۔
ہر بچہ کے فطرت پر پیدا ہونے کے معنی اور کفار کے بچوں اور مسلمانوں کے بچوں کی موت کے حکم کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، عبدالعزیز علاء، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہر انسان کو اس کی والدہ فطرت پر جنم دیتی ہے اور اس کے بعد اس کے والدین اسے یہودی نصرانی اور مجوسی بنا دیتے ہیں کہ اگر والدین مسلمان ہوں تو وہ مسلمان بن جاتا ہے ہر انسان کی پیدائش کے بعد اس کے دونوں پہلوؤں میں شیطان انگلی چبھو دیتا ہے سوائے مریم اور ان کے بیٹے کے۔
ہر بچہ کے فطرت پر پیدا ہونے کے معنی اور کفار کے بچوں اور مسلمانوں کے بچوں کی موت کے حکم کے بیان میں
ابوطاہر ابن وہب، ابن ابی ذہب یونس ابن شہاب عطاء بن یزید حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے مشرکیں کی اولاد کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا اللہ ہی بہتر جانتے ہیں کہ وہ کیا عمل کرنے والے تھے۔
ہر بچہ کے فطرت پر پیدا ہونے کے معنی اور کفار کے بچوں اور مسلمانوں کے بچوں کی موت کے حکم کے بیان میں
عبد بن حمید عبدالرزاق، معمر، عبداللہ بن عبدالرحمن بن بہزام ابوالیمان شعیب سلمہ بن شبیب حسن بن اعین معقل ابن عبیداللہ زہری، یونس ابن ابی ذئب ان اسناد سے بھی یہ حدیث اسی طرح مروی ہے لیکن اس میں ہے کہ آپ ﷺ سے مشرکین کی ذریت کے بارے میں پوچھا گیا۔
ہر بچہ کے فطرت پر پیدا ہونے کے معنی اور کفار کے بچوں اور مسلمانوں کے بچوں کی موت کے حکم کے بیان میں
ابن ابی عمر سفیان، ابی زناد اعرج حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے مشرکین کے ان بچوں کے بارے میں پوچھا گیا جو بچپن میں ہی فوت ہوجاتے ہیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ کیا عمل کرنے والے ہیں۔
ہر بچہ کے فطرت پر پیدا ہونے کے معنی اور کفار کے بچوں اور مسلمانوں کے بچوں کی موت کے حکم کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، ابوعوانہ، ابی بشر سعید بن جبیر حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے مشرکین کے بچوں کے بارے میں پوچھا گیا آپ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کو ان کے پیدا کرتے وقت بخوبی علم تھا کہ وہ کیا عمل کرنے والے ہیں۔
ہر بچہ کے فطرت پر پیدا ہونے کے معنی اور کفار کے بچوں اور مسلمانوں کے بچوں کی موت کے حکم کے بیان میں
عبداللہ بن مسملہ بن قعنب معتمر بن سلیمان رقبہ بن مسقلہ اسحاق سعید بن جبیر ابن عباس (رض) حضرت ابی بن کعب (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وہ بچہ جسے حضرت خضر نے مار ڈالا تھا وہ فطرةً ہی کافر تھا اگر وہ زندہ رہتا تو اپنے والدین کو سرکشی اور کفر میں مبتلا کردیتا۔
ہر بچہ کے فطرت پر پیدا ہونے کے معنی اور کفار کے بچوں اور مسلمانوں کے بچوں کی موت کے حکم کے بیان میں
زہیر بن حرب، جریر، علاء بن مسیب فضیل بن عمرو عائشہ بنت طلحہ سیدہ عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک بچہ فوت ہوگیا تو میں نے کہا اس کے لئے خوشی ہو وہ تو جنت کی چڑیوں میں سے ایک چڑیا ہے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا تو نہیں جانتی کہ اللہ نے جنت اور جہنم کو پیدا کیا اور اس کے لئے کچھ لوگوں کو پیدا کیا اور کچھ لوگوں کو اس کے لئے پیدا کیا۔
ہر بچہ کے فطرت پر پیدا ہونے کے معنی اور کفار کے بچوں اور مسلمانوں کے بچوں کی موت کے حکم کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، وکیع، طلحہ بن یحییٰ سیدہ عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو انصار کے ایک بچہ کا جنازہ پڑھانے کے لئے بلایا گیا تو میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول اس جنت کی چڑیوں میں سے چڑیا کے لئے خوشی ہو اس نے نہ کوئی گناہ کیا اور نہ ہی گناہ کرنے کے زمانے تک پہنچا آپ نے فرمایا اے عائشہ اس کے علاوہ بھی کچھ ہوگا بیشک اللہ تعالیٰ نے بعض لوگوں کو جنت کا اہل بنایا اور انہیں پیدا ہی جنت کے لئے کیا ہے اس حال میں کہ وہ اپنے آباؤ اجداد کی پشتوں میں تھے اور بعض کو جہنم کا اہل بنایا اور انہیں پیدا ہی جہنم کے لئے کیا ہے اس حال میں کہ وہ اپنے آباؤ اجداد کی پشتوں میں تھے۔
ہر بچہ کے فطرت پر پیدا ہونے کے معنی اور کفار کے بچوں اور مسلمانوں کے بچوں کی موت کے حکم کے بیان میں
محمد بن صباح اسماعیل بن زکریا، طلحہ بن یحییٰ سلیمان بن معبد حسین بن حفص اسحاق بن منصور محمد بن یوسف سفیان، ثوری طلحہ بن یحییٰ وکیع، ان اسناد سے بھی یہ حدیث اسی طرح مروی ہے۔
مقرر شدہ عمر اور رزق میں جس کا تقدیری فیصلہ ہوچکا ہے اس میں کمی یا زیادتی نہ ہونے کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب ابی بکر وکیع، مسعر علقمہ بن مرثد مغیرہ بن عبداللہ یشکری معرور بن سوید حضرت عبداللہ سے روایت ہے کہ زوجہ نبی ﷺ ام حبیبہ (رض) نے کہا اے اللہ مجھے اپنے خاوند رسول اللہ ﷺ اور والد ابوسفیان اور بھائی معاویہ سے متمتمع کرنا نبی ﷺ نے فرمایا تو نے اللہ سے مقرر شدہ اوقات و ایام اور تقسیم شدہ رزق کا سوال کیا ان میں سے کسی چیز کو وقت مقرر سے مقدم اور مؤخر نہیں کیا جاتا اور اگر تو اللہ سے سوال کرتی کہ وہ تجھے جہنم کے عذاب یا قبر کے عذاب سے پناہ دے تو وہ بہتر اور افضل ہوتا راوی نے کہا آپ ﷺ کے پاس بندروں اور خنزیروں کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا اللہ نے کسی مسخ شدہ قوم کی نسل نہیں چلائی اور تحقیق بندر اور سور پہلے ہی سے موجود تھے۔
مقرر شدہ عمر اور رزق میں جس کا تقدیری فیصلہ ہوچکا ہے اس میں کمی یا زیادتی نہ ہونے کے بیان میں
ابوکریب ابن بشر مسعد ابن بشر وکیع، ان اسناد سے بھی یہ حدیث مبارکہ اسی طرح مروی ہے اس روایت میں عذاب جہنم اور عذاب قبر کے الفاظ ہیں۔
مقرر شدہ عمر اور رزق میں جس کا تقدیری فیصلہ ہوچکا ہے اس میں کمی یا زیادتی نہ ہونے کے بیان میں
اسحاق بن ابراہیم حنظلی، حجاج بن شاعر، حجاج اسحاق حجاج عبدالرزاق، ثوری علقمہ ابن مرثد مغیرہ بن عبداللہ یشکری معرور بن سوید حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ حضرت ام حبیبہ نے کہا اے اللہ مجھے میرے خاوند رسول اللہ اور والد ابوسفیان اور بھائی معاویہ سے متمتع فرما رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا تو نے اللہ سے مقرر شدہ مدتوں اور چلائے ہوئے معین قدموں اور تقسیم کئے ہوئے رزق کا سوال کیا ہے ان میں سے کوئی بھی چیز مقرر وقت سے مقدم نہ ہوگی اور نہ ہی مؤخر ہوگی اگر تو اللہ سے جہنم کے عذاب سے اور قبر کے عذاب سے عافیت مانگتی تو یہ تیرے لئے بہتر ہوتا ایک آدمی نے عرض کیا اے اللہ کے رسول کیا بندر اور خنزیر ان مسخ شدہ میں سے ہیں تو نبی ﷺ نے فرمایا اللہ تبارک وتعالی نے کسی قوم کو ہلاک کرنے یا اسے عذاب دینے کے بعد اس کی نسل نہیں چلائی اور بندر اور سور اس سے پہلے ہی موجود تھے۔
مقرر شدہ عمر اور رزق میں جس کا تقدیری فیصلہ ہوچکا ہے اس میں کمی یا زیادتی نہ ہونے کے بیان میں
ابوداؤد سلیمان بن معبد حسین بن حفص سفیان، اس سند سے بھی یہ حدیث اسی طرح مروی ہے۔
تقدیر پر ایمان لانے اور تقین کرنے کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابن نمیر، عبداللہ بن ادریس ربیعہ بن عثمان محمد بن یحییٰ بن حبان اعرج حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا طاقتور مومن اللہ کے نزدیک کمزور مومن سے بہتر اور پسندیدہ ہے ہر بھلائی میں ایسی چیز کی حرص کرو جو تمہارے لئے نفع مند ہو اور اللہ سے مدد طلب کرتے رہو اور اس سے عاجز مت ہو اور اگر تم پر کوئی مصیبت واقع ہوجائے تو یہ نہ کہو کاش میں ایسا ایسا کرلیتا کیونکہ کاش کا لفظ شیطان کا دروازہ کھولتا ہے۔