5. نماز کا بیان
اذان کی ابتداء کے بیان میں
اسحاق بن ابراہیم حنظلی، محمد بن بکر، محمد بن رافع، عبدالرزاق، ابن جریج، ہارون بن عبداللہ، حجاج بن محمد، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ مسلمان جب مدینہ آئے تو جمع ہوجاتے اور نماز ادا کرلیتے اور کوئی آدمی ان کو نماز کے لئے نہیں پکارتا تھا ایک دن انہوں نے اس بارے میں گفتگو کی ان میں سے بعض نے کہا نصاری کے ناقوس کی طرح ناقوس لے لو اور بعض نے کہا کہ یہودیوں کی طرح سینگ، عمر (رض) نے فرمایا کیا تم کسی آدمی کو مقرر نہیں کردیتے جو نماز کے لئے بلائے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بلال اٹھو اور لوگوں کو نماز کے لئے پکارو۔
اذان کے کلمات دو دو مرتبہ اور اقامت کے کلمات ایک کلمہ کے علاوہ ایک ایک بار کہنے کے حکم کے بیان میں
خلف بن ہشام، حماد بن زید، یحییٰ بن یحیی، اسماعیل بن علیہ، خالد حذاء، ابی قلابہ، حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ بلال (رض) کو حکم دیا گیا کہ اذان دو دو بار کہیں اور اقامت ایک ایک بار ایوب کی حدیث میں اقامت کے سوا کا لفظ ہے۔
اذان کے کلمات دو دو مرتبہ اور اقامت کے کلمات ایک کلمہ کے علاوہ ایک ایک بار کہنے کے حکم کے بیان میں
اسحاق بن ابراہیم، عبدالوہاب، ثقفی، حذاء ابوقلابہ، انس بن مالک (رض) روایت ہے کہ صحابہ (رض) نے لوگوں کو نماز کے وقت کی اطلاع دینے کے لئے مشورہ کیا کہ جس چیز سے نماز کے وقت کا علم ہوجائے بعض نے کہا کہ آگ روشن کردی جائے یا ناقوس بجایا جائے پس بلال کو حکم دیا گیا کہ وہ اذان کے کلمات دو دو مرتبہ اور اقامت کے کلمات ایک مرتبہ کہیں۔
اذان کے کلمات دو دو مرتبہ اور اقامت کے کلمات ایک کلمہ کے علاوہ ایک ایک بار کہنے کے حکم کے بیان میں
محمد بن حاتم، بہز، وہیب، حضرت خالد حذاء کی اسناد سے یہ حدیث اس طرح مروی ہے کہ جب لوگ زیادہ ہوگئے تو انہوں نے نماز کے وقت کی اطلاع دیئے جانے کے بارے میں مشورہ کیا باقی حدیث پہلی حدیث کی طرح ہے۔
اذان کے کلمات دو دو مرتبہ اور اقامت کے کلمات ایک کلمہ کے علاوہ ایک ایک بار کہنے کے حکم کے بیان میں
عبیداللہ بن عمر، عبدالوارث بن سعید، عبدالوہاب بن عبد الحمید، حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ بلال کو حکم دیا گیا کہ اذان کو دو دو مرتبہ اور اقامت کو ایک ایک مرتبہ کہیں۔
طریقہ اذان کے بیان میں
ابوغسان مسمعی، مالک بن عبدالواحد، اسحاق بن ابراہیم، حضرت ابومحذورہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ان کو یہ اذان سکھائی (اللَّهُ أَکْبَرُ اللَّهُ أَکْبَرُ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ ، ) پھر دوبارہ (أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ) دو مرتبہ اور، (أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ ) دو مرتبہ اور، ِ (حَيَّ عَلَی الصَّلَاةِ ) دو مرتبہ اور (حَيَّ عَلَی الْفَلَاحِ ) دو مرتبہ اور اسحاق نے (اللَّهُ أَکْبَرُ اللَّهُ أَکْبَرُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ) زیادہ کیا۔
ایک مسجد کے لئے دو موذن رکھنے کے استح کے بیان میں
ابن نمیر، عبیداللہ، قاسم، حضرت عبداللہ (رض) بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے دو مؤذن تھے حضرت بلال اور حضرت ابن ام مکتوم (رض) نابینا صحابی۔ ابن نمیر، عبیداللہ، قاسم، عائشہ سے بھی اسی طرح روایت منقول ہے۔
ایک مسجد کے لئے دو موذن رکھنے کے استح کے بیان میں
حضرت عائشہؓ سے بھی اسی ( سابقہ حدیث ) کے مانند حدیث بیان کی گئی ہے
نابینا آدمی کے ساتھ جب کوئی بینا آدمی ہو تو نابینا کی اذان کے جواز کے بیان میں
ابوکریب، محمد بن علاء ہمدانی، خالد ابن مخلد، محمد بن جعفر، ہشام، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ حضرت ابن ام مکتوم (رض) رسول اللہ ﷺ کے لئے اذان دیتے تھے حالانکہ وہ نابینا تھے۔ محمد بن سلمہ مرادی، عبداللہ بن وہب، یحییٰ بن عبداللہ، سعید بن عبدالرحمن، ہشام، حضرت عائشہ (رض) سے بھی اسی طرح یہ حدیث مبارکہ مروی ہے۔
نابینا آدمی کے ساتھ جب کوئی بینا آدمی ہو تو نابینا کی اذان کے جواز کے بیان میں
یحییٰ بن عبد اللہ اور سعید بن عبد الرحمن نے ہشام سے اسی سند کے ساتھ اس ( مذکورہ بالا روایت ) کے مانند حدیث بیان کی
دارالکفر میں جب اذان کی آواز سنے تو اس قوم پر حملہ کرنے سے روکنے کے بیان میں
زہیر بن حرب، یحییٰ بن سعید، حماد، سلمہ، ثابت، انس بن مالک (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ طلوع فجر کے وقت حملہ کرتے تھے اور کان لگا کر اذان سنتے اگر آپ ﷺ اذان سنتے تو حملہ کرنے سے رک جاتے ورنہ حملہ کردیتے آپ ﷺ نے ایک شخص کواللَّهُ أَکْبَرُاَللَّهُ أَکْبَرُ کہتے سنا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ مسلمان ہے پھر اس نے (أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ) کہا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وہ جہنم سے آزاد ہوگیا اس کے بعد جب لوگوں نے دیکھا تو وہ بکریوں کا چرواہا تھا۔
موذن کی اذن سننے والے کے لئے اسی طرح کہنے اور پھر نبی کریم ﷺ پر درود بھیج کر آپ ﷺ کے لئے وسیلہ کی دعا کرنے کے استح کے بیان میں۔
یحییٰ بن یحیی، مالک، ابن شہاب، عطاء بن یزید لیثی، ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم اذان سنو تو وہی کہو جو مؤذن کہتا ہے۔
موذن کی اذن سننے والے کے لئے اسی طرح کہنے اور پھر نبی کریم ﷺ پر درود بھیج کر آپ ﷺ کے لئے وسیلہ کی دعا کرنے کے استح کے بیان میں۔
محمد بن سلمہ مرادی، عبداللہ بن وہب، حیوۃ، سعید بن ابی ایوب، کعب بن علقمہ، عبدالرحمن بن جبیر، عبداللہ بن عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ جب تم مؤذن سے اذان سنو تو جیسے وہ کہتا ہے تم بھی کہو پھر مجھ پر درود بھیجو جو مجھ پر درود بھیجتا ہے اللہ اس پر دس دس رحمتیں نازل کرتا ہے پھر اللہ سے میرے لئے وسیلہ مانگو کیونکہ وہ جنت کا ایک درجہ ہے اللہ کے بندوں میں سے صرف ایک بندہ کو ملے گا اور مجھے امید ہے کہ وہ میں ہی ہوں گا جو اللہ سے میرے وسیلہ کی دعا کرے گا اس کے لئے میری شفاعت واجب ہوجائے گی۔
موذن کی اذن سننے والے کے لئے اسی طرح کہنے اور پھر نبی کریم ﷺ پر درود بھیج کر آپ ﷺ کے لئے وسیلہ کی دعا کرنے کے استح کے بیان میں۔
اسحاق بن منصور، ابوجعفر، محمد بن جہضم ثقفی، اسماعیل بن جعفر، عمارہ بن غزیہ، خبیب بن عبدالرحمن بن اساف، حفص بن عاصم بن عمر بن خطاب (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جب مؤذن (اللَّهُ أَکْبَرُ اللَّهُ أَکْبَرُ ) کہے تو تم میں سے کوئی ایک (اللَّهُ أَکْبَرُ اللَّهُ أَکْبَرُ ) کہے پھر مؤذن (أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ) کہے تو یہ بھی (أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ) کہے پھر مؤذن أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ ) کہے تو یہ بھی ( أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ ) کہے پھر وہ (حَيَّ عَلَی الصَّلَاةِ ) کہے تو یہ (لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ ) کہے پھر وہ (حَيَّ عَلَی الْفَلَاحِ ) کہے تو یہ (لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ ) کہے پھر وہ (اللَّهُ أَکْبَرُ اللَّهُ أَکْبَرُ ) کہے تو یہ بھی (اللَّهُ أَکْبَرُ اللَّهُ أَکْبَرُ ) کہے پھر وہ (لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ) کہے تو یہ بھی (لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ) خلوص دل سے کہے تو یہ جنت میں داخل ہوگا۔
موذن کی اذن سننے والے کے لئے اسی طرح کہنے اور پھر نبی کریم ﷺ پر درود بھیج کر آپ ﷺ کے لئے وسیلہ کی دعا کرنے کے استح کے بیان میں۔
محمد بن رمح، لیث، حکیم بن عبداللہ بن قیس قریشی، قتیبہ بن سعید، لیث، حکیم بن عبداللہ، عامر بن سعد بن ابی وقاص سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مؤذن کی اذان سن کر جس نے یہ کہا (أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيکَ لَهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ رَضِيتُ بِاللَّهِ رَبًّا وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا) تو اس کے گناہ بخش دئیے جائیں گے بعض روایات میں (أَشْهَدُ ) کی بجائے (اَنَا أَشْهَدُ ) ہے معنی و مفہوم ایک ہی ہے۔ اسحاق بن منصور، ابوعامر، سفیان، طلحہ بن یحیی، عیسیٰ ابن طلحہ نے بھی حضرت معاویہ (رض) سے رسول اللہ ﷺ کی یہی حدیث روایت کی ہے۔
اذان کی فضیلت اور اذان سن کر شیطان کے بھاگنے کے بیان میں
محمد بن عبداللہ بن نمیر، عبدہ، طلحہ بن یحیی، معاویہ بن ابی سفیان، حضرت طلحہ بن یحییٰ (رض) نے اپنے چچا سے روایت کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ میں حضرت معاویہ بن ابی سفیان کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک مؤذن آیا جو آپ کی نماز کی طرف بلارہا تھا تو حضرت معاویہ (رض) نے کہا میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے آپ ﷺ فرماتے تھے مؤذن قیامت کے دن لمبی گردنوں والے ہوں گے۔
اذان کی فضیلت اور اذان سن کر شیطان کے بھاگنے کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب، ابومعاویہ، اعمش سے بھی یہی حدیث دوسری اسناد سے مروی ہے۔
اذان کی فضیلت اور اذان سن کر شیطان کے بھاگنے کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، عثمان بن ابی شیبہ، اسحاق بن ابراہیم، اسحاق، جریر، اعمش، ابی سفیان، جابر حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا شیطان جب اذان کی آواز سنتا ہے تو روحا مقام تک بھاگ جاتا ہے سلیمان کہتے ہیں کہ میں نے ابوسفیان سے روحا کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے کہا روحا مدینہ سے چھتیس میل دور ہے۔
اذان کی فضیلت اور اذان سن کر شیطان کے بھاگنے کے بیان میں
ابو معاویہ نے اعمش سے اسی سند کے ساتھ یہی روایت بیان کی
اذان کی فضیلت اور اذان سن کر شیطان کے بھاگنے کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، زہیر بن حرب، اسحاق بن ابراہیم، اسحاق جریر، اعمش، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا شیطان جب اذان کی آواز سنتا ہے تو گوز مارتا ہوا (ہوا خارج کرتا ہوا) بھاگتا ہے یہاں تک کہ اذان کی آواز نہ سنے جب اذان ختم ہوجاتی ہے تو واپس آجاتا ہے اور وسوسہ ڈالتا ہے جب اقامت سنتا ہے تو پھر چلا جاتا ہے یہاں تک کہ اقامت کی آواز نہیں سنتا جب یہ ختم ہوجاتی ہے تو واپس آکر وسوسہ ڈالتا ہے۔
اذان کی فضیلت اور اذان سن کر شیطان کے بھاگنے کے بیان میں
عبد بن حمید، بیان واسطی، خالد بن عبداللہ، سہیل، ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب مؤذن اذان پڑھتا ہے تو شیطان پیٹھ پھیر کر بھاگتا ہے اور اس کے لئے گوز ہوتا ہے۔
اذان کی فضیلت اور اذان سن کر شیطان کے بھاگنے کے بیان میں
امیہ بن بسطام، یزید بن زریع، روح، سہیل سے روایت ہے کہ مجھے میرے والد نے بنی حارثہ کی طرف بھیجا میرے ساتھ ایک لڑکا یا نوجوان تھا تو اس کو ایک پکارنے والے نے اس کا نام لے کر پکارا اور میرے ساتھی نے دیوار پر دیکھا تو کوئی چیز نہ تھی میں نے یہ بات اپنے باپ کو ذکر کی تو انہوں نے کہا اگر مجھے معلوم ہوتا کہ تمہارے ساتھ یہ واقعہ پیش آنے والا ہے تو میں تجھے نہ بھیجتا لیکن جب تو ایسی آواز سنے تو اذان دیا کرو میں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے سنا وہ نبی کریم ﷺ سے حدیث بیان کرتے تھے کہ آپ ﷺ نے فرمایا جب اذان دی جاتی ہے تو شیطان پیٹھ پھیرتا ہے اور اس کے لئے گوز ہوتا ہے۔
اذان کی فضیلت اور اذان سن کر شیطان کے بھاگنے کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، مغیرہ، حزامی، ابوزناد، اعرج، ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جب نماز کے لئے اذان دی جاتی ہے تو شیطان گوز مارتا ہوا پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتا ہے یہاں تک کہ اذان سنائی نہ دے جب اذان پوری ہوجاتی ہے تو واپس آجاتا ہے اور جب نماز کے لئے اقامت کہی جاتی ہے تو بھاگ جاتا ہے اور جب اقامت پوری ہوجاتی ہے تو آجاتا ہے یہاں تک کہ لوگوں کے دلوں میں خیالات ڈالتا ہے اس کو کہتا ہے کہ فلاں بات یاد کر فلاں بات یاد کر حالانکہ اس کو وہ باتیں پہلے یاد ہی نہیں تھیں یہاں تک کہ آدمی بھول جاتا ہے اور وہ نہیں جانتا ہے اس نے کتنی نماز پڑھی ہے
اذان کی فضیلت اور اذان سن کر شیطان کے بھاگنے کے بیان میں
محمد بن رافع، عبدالرزاق، معمر، ہمام بن منبہ، ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اسی طرح جس طرح پہلی حدیث گزر چکی مگر اس میں ہے کہ آدمی کی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کس طرح نماز ادا کرے ؟
تکبیر تحریمہ کے ساتھ رکوع اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھانے کے استح اور جب سجدہ سے سر اٹھائے تو ایسا نہ کرنے کے بیان میں۔
یحییٰ بن یحییٰ تیمیی، سعید بن منصور، ابوبکر بن ابی شیبہ، عمرو ناقد، زہیر بن حرب، ابن نمیر، سفیان بن عیینہ، زہری سالم، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا جب نماز شروع کرتے تو اپنے ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتے اور رکوع کرنے سے پہلے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت اور اپنے دونوں ہاتھوں کو بلند نہ کرتے تھے دونوں سجدوں کے درمیان۔
تکبیر تحریمہ کے ساتھ رکوع اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھانے کے استح اور جب سجدہ سے سر اٹھائے تو ایسا نہ کرنے کے بیان میں۔
محمد بن رافع، عبدالرزاق، ابن جریج، ابن شہاب، سالم بن ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اس طرح اٹھاتے کہ وہ آپ ﷺ کے دونوں کندھوں کے برابر ہوتے پھر تکبیر کہتے جب رکوع کرتے تو اسی طرح کرتے جب رکوع سے اٹھتے تو اسی طرح کرتے اور جب سجدے سے سر اٹھاتے تو ایسا نہ کرتے۔
تکبیر تحریمہ کے ساتھ رکوع اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھانے کے استح اور جب سجدہ سے سر اٹھائے تو ایسا نہ کرنے کے بیان میں۔
محمد بن رافع، حجین ابن مثنی، لیث، عقیل، محمد بن عبداللہ بن قہزاذ، سلمہ بن سلیمان، حضرت ابن جریج سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو اپنے ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتے پھر تکبیر کہتے۔
تکبیر تحریمہ کے ساتھ رکوع اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھانے کے استح اور جب سجدہ سے سر اٹھائے تو ایسا نہ کرنے کے بیان میں۔
یحییٰ بن یحیی، خالد بن عبداللہ، ابوقلابہ سے روایت ہے انہوں نے حضرت مالک بن حویرث کو دیکھا جب نماز ادا کرتے تکبیر کہتے پھر اپنے ہاتھوں کو بلند کرتے اور رکوع میں جانے کا ارادہ کرتے تو رفع الیدین کرتے اور جب رکوع سے اٹھتے تو رفع الیدین کرتے اور انہوں نے حدیث بیان کی کہ اسی طرح رسول اللہ ﷺ بھی کرتے تھے۔
تکبیر تحریمہ کے ساتھ رکوع اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھانے کے استح اور جب سجدہ سے سر اٹھائے تو ایسا نہ کرنے کے بیان میں۔
ابوکامل جحدری، ابوعوانہ، قتادہ، نصر بن عاصم، مالک بن حویرث سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب تکبیر کہتے تو اپنے ہاتھوں کو اٹھاتے یہاں تک کہ وہ کانوں کے برابر ہوجاتے اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو (سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ ) ارشاد فرماتے اور اسی طرح یعنی رفع الیدین بھی کیا کرتے۔
تکبیر تحریمہ کے ساتھ رکوع اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھانے کے استح اور جب سجدہ سے سر اٹھائے تو ایسا نہ کرنے کے بیان میں۔
محمد بن مثنی، ابن ابی عدی، سعید، قتادہ سے دوسری سند سے یہ حدیث اسی طرح مروی ہے کہ حضرت مالک بن حویرث (رض) فرماتے ہیں کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا یہاں تک کہ آپ ﷺ اپنے دونوں ہاتھوں کو کانوں کی لو کے برابر اٹھاتے۔
نماز میں ہر جھکنے اور اٹھنے کے وقت تکبیر کہنے اور رکوع سے اٹھتے وقت سمع اللہ لمن حمدہ کہنے کے اثبات کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، مالک، ابن شہاب، ابی سلمہ بن عبدالرحمن (رض) روایت ہے کہ حضرت ابوہریرہ (رض) سے جب ان کو نماز پڑھاتے تو جب جھکتے یا اٹھتے تو تکبیر کہتے نماز سے فارغ ہو کر فرمایا اللہ کی قسم میں تم سب سے زیادہ نبی کریم ﷺ جیسی نماز پڑھتا ہوں۔
نماز میں ہر جھکنے اور اٹھنے کے وقت تکبیر کہنے اور رکوع سے اٹھتے وقت سمع اللہ لمن حمدہ کہنے کے اثبات کے بیان میں
محمد بن رافع، عبدالرزاق، ابن جریج، ابن شہاب، ابوبکر بن عبدالرحمن ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہوتے تو تکبیر کہتے پھر جب رکوع کرتے تو تکبیر کہتے پھر سمع اللہ لمن حمدہ کہتے جب رکوع سے اپنی پیٹھ اٹھاتے اور پھر کھڑے کھڑے (رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ ) کہتے پھر جب سجدہ کے لئے جھکتے تو تکبیر کہتے پھر جب سجدہ سے سر اٹھاتے تو تکبیر کہتے پھر پوری نماز میں اسی طرح کرتے یہاں تک کہ اس کو پورا کرلیتے اور جب دوسری رکعت سے کھڑے ہوتے تو تکبیر کہتے، بیٹھنے کے بعد، پھر حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا میں تم سب سے زیادہ رسول اللہ ﷺ کے مشابہ نماز ادا کرتا ہوں۔
نماز میں ہر جھکنے اور اٹھنے کے وقت تکبیر کہنے اور رکوع سے اٹھتے وقت سمع اللہ لمن حمدہ کہنے کے اثبات کے بیان میں
محمد بن رافع، حجین، لیث، عقیل، ابن شہاب، ابوبکر بن عبدالرحمن، حضرت ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو تکبیر کہتے باقی حدیث پہلی کی طرح ہے لیکن آخری جملہ میں حضرت ابوہریرہ (رض) کا قول " میں تم سب سے زیادہ رسول اللہ ﷺ کے مشابہ نماز ادا کرتا ہوں " ذکر نہیں کیا۔
نماز میں ہر جھکنے اور اٹھنے کے وقت تکبیر کہنے اور رکوع سے اٹھتے وقت سمع اللہ لمن حمدہ کہنے کے اثبات کے بیان میں
حرملہ بن یحیی، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، ابوسلمہ بن عبدالرحمن، حضرت ابوسلمہ (رض) سے روایت ہے کہ جب حضرت ابوہریرہ (رض) کو مروان نے مدینہ کا خلیفہ مقرر کیا جب آپ فرض نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو تکبیر کہتے باقی حدیث ابن جریج کی حدیث کی طرح ذکر کی اور ابوسلمہ کی حدیث میں ہے کہ آپ نے نماز سے فارغ ہو کر مسجد والوں سے مخاطب ہو کر فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے میں تم سب سے زیادہ رسول اللہ ﷺ کے مشابہ نماز ادا کرتا ہوں۔
نماز میں ہر جھکنے اور اٹھنے کے وقت تکبیر کہنے اور رکوع سے اٹھتے وقت سمع اللہ لمن حمدہ کہنے کے اثبات کے بیان میں
محمد بن مہران رازی، ولید بن مسلم، اوزاعی، یحییٰ بن ابی کثیر، ابوسلمہ سے روایت ہے کہ حضرت ابوہریرہ (رض) جب نماز میں جھکتے یا اٹھتے تو تکبیر کہتے ہم نے کہا اے ابوہریرہ (رض) یہ تکبیر کیسی ہے فرمایا یہ رسول اللہ ﷺ کی نماز ہے۔
نماز میں ہر جھکنے اور اٹھنے کے وقت تکبیر کہنے اور رکوع سے اٹھتے وقت سمع اللہ لمن حمدہ کہنے کے اثبات کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، یعقوب بن عبدالرحمن، سہیل، ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ وہ جب جھکتے یا اٹھتے تو تکبیر کہتے اور ارشاد فرماتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ بھی اسی طرح عمل کیا کرتے تھے۔
نماز میں ہر جھکنے اور اٹھنے کے وقت تکبیر کہنے اور رکوع سے اٹھتے وقت سمع اللہ لمن حمدہ کہنے کے اثبات کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، خلف بن ہشام، حماد، یحیی، حماد بن زید، غیلان بن جریر، مطرف سے روایت ہے کہ میں اور عمران بن حصین نے حضرت علی (رض) بن ابی طالب کے پیچھے نماز ادا کی اور وہ جب سجدہ کرتے تو تکبیر کہتے جب سجدہ سے سر اٹھاتے تو تکبیر کہتے اور جب دو رکعتوں سے اٹھتے تو تکبیر کہتے جب ہم نماز سے فارغ ہوئے تو عمران نے میرا ہاتھ پکڑا اور فرمایا تحقیق انہوں نے ہم کو رسول اللہ ﷺ کی طرح نماز پڑھائی ہے یا کہا کہ انہوں نے مجھے رسول اللہ ﷺ کی نماز یاد کرا دی ہے۔
ہر رکعت میں سورت فاتحہ پڑھنے کے وجوب اور جب تک فاتحہ کا پڑھنا یا سیکھنا ممکن نہ ہو تو اس کو جو آسان ہو فاتحہ کے علاوہ پڑھ لینے کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، عمرو ناقد، اسحاق بن ابراہیم، سفیان، ابوبکر، سفیان بن عیینہ، زہری، محمود بن ربیع، عبادہ بن صامت (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا نماز کامل نہیں اس شخص کی جو فاتحۃ الکتاب نہ پڑھے۔
ہر رکعت میں سورت فاتحہ پڑھنے کے وجوب اور جب تک فاتحہ کا پڑھنا یا سیکھنا ممکن نہ ہو تو اس کو جو آسان ہو فاتحہ کے علاوہ پڑھ لینے کے بیان میں
ابوطاہر، ابن وہب، یونس، حرملہ بن یحیی، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، محمود بن ربیع، عبادہ بن صامت (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس کی نماز نہیں جس نے ام القرآن نہ پڑھی۔
ہر رکعت میں سورت فاتحہ پڑھنے کے وجوب اور جب تک فاتحہ کا پڑھنا یا سیکھنا ممکن نہ ہو تو اس کو جو آسان ہو فاتحہ کے علاوہ پڑھ لینے کے بیان میں
حسن بن علی حلوانی، یعقوب بن ابراہیم بن سعید، صالح ابن شہاب، حضرت عبادہ بن صامت (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے ام القرآن نہیں پڑھی اس کی نماز نہیں۔
ہر رکعت میں سورت فاتحہ پڑھنے کے وجوب اور جب تک فاتحہ کا پڑھنا یا سیکھنا ممکن نہ ہو تو اس کو جو آسان ہو فاتحہ کے علاوہ پڑھ لینے کے بیان میں
اسحاق بن ابراہیم، عبد بن حمید، عبدالرزاق، معمر، زہری دوسری سند کے ساتھ یہ حدیث مبارکہ روایت کی ہے۔
ہر رکعت میں سورت فاتحہ پڑھنے کے وجوب اور جب تک فاتحہ کا پڑھنا یا سیکھنا ممکن نہ ہو تو اس کو جو آسان ہو فاتحہ کے علاوہ پڑھ لینے کے بیان میں
اسحاق بن ابرہیم، سفیان بن عیینہ، علاء بن عبدالرحمن، ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جس نے نماز ادا کی اور اس میں ام القرآن نہ پڑھی تو اس کی نماز ناقص ہے آپ ﷺ نے تین مرتبہ یہی فرمایا اور ناتمام ہے، حضرت ابوہریرہ (رض) سے کہا گیا ہے ہم بعض اوقات امام کے پیچھے ہوتے ہیں تو آپ نے فرمایا فاتحہ کو دل میں پڑھو کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے تھے کہ اللہ عز وجل فرماتے ہیں کہ نماز یعنی سورت فاتحہ میرے اور میرے بندے کے درمیان دو حصوں میں تقسیم کردی گئی ہے اور میرے بندے کے لئے وہ ہے جو وہ مانگے جب بندہ اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میرے بندے نے میری حمد بیان کی اور جب وہ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے میرے بندے نے میری تعریف بیان کی اور جب وہ مَالِکِ يَوْمِ الدِّينِ کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی اور ایک بار فرماتا ہے میرے بندے نے اپنے سب کام میرے سپرد کر دئیے اور جب وہ إِيَّاکَ نَعْبُدُ وَإِيَّاکَ نَسْتَعِينُ کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے کہ یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اور بندے کے لئے وہ ہے جو اس نے مانگا ہے جب وہ (اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ) کہتا ہے تو اللہ عزوجل فرماتا ہے یہ میرے بندے کے لئے ہے اور میرے بندے کے لئے وہ ہے جو اس نے مانگا۔
ہر رکعت میں سورت فاتحہ پڑھنے کے وجوب اور جب تک فاتحہ کا پڑھنا یا سیکھنا ممکن نہ ہو تو اس کو جو آسان ہو فاتحہ کے علاوہ پڑھ لینے کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، مالک بن انس، علاء بن عبدالرحمن، ابوالساء ب مولیٰ ہشام بن زہرہ، حضرت ابوہریرہ (رض) یہی حدیث دوسری سند کے ساتھ بھی روایت کی گئی ہے۔
ہر رکعت میں سورت فاتحہ پڑھنے کے وجوب اور جب تک فاتحہ کا پڑھنا یا سیکھنا ممکن نہ ہو تو اس کو جو آسان ہو فاتحہ کے علاوہ پڑھ لینے کے بیان میں
محمد بن رافع، عبدالرزاق، ابن جریج، علاء بن عبدالرحمن بن یعقوب، سائب بن مولیٰ ہشام بن زہرہ، ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے نماز ادا کی اور اس میں ام القرآن یعنی سورت فاتحہ نہ پڑھی باقی حدیث سفیان ہی کی طرح ہے اور ان کی حدیث میں ہے کہ اللہ عزوجل فرماتے ہیں کہ میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان دو حصوں میں تقسیم کیا ہے اس کا نصف میرے لئے اور نصف میرے بندے کے لئے ہے۔
ہر رکعت میں سورت فاتحہ پڑھنے کے وجوب اور جب تک فاتحہ کا پڑھنا یا سیکھنا ممکن نہ ہو تو اس کو جو آسان ہو فاتحہ کے علاوہ پڑھ لینے کے بیان میں
احمد بن جعفر معقری، نضر بن محمد، ابواویس، علاء، ابوسائب، حضرت ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جس شخص نے نماز ادا کی اور اس میں ام القرآن نہیں پڑھی تو وہ نماز ناقص ہے آپ ﷺ نے اس بات کو تین بار ارشاد فرمایا۔
ہر رکعت میں سورت فاتحہ پڑھنے کے وجوب اور جب تک فاتحہ کا پڑھنا یا سیکھنا ممکن نہ ہو تو اس کو جو آسان ہو فاتحہ کے علاوہ پڑھ لینے کے بیان میں
محمد بن عبداللہ بن نمیر، ابواسامہ، حبیب بن شہید، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا نماز بغیر قرأت کے نہیں ہوتی حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں پس جس نماز میں رسول اللہ ﷺ نے بلند آواز سے قرأت کی ہم نے بھی تمہارے لئے اس نماز میں بلند آواز سے پڑھا اور جو آپ ﷺ نے آہستہ پڑھا ہم نے بھی تمہارے لئے آہستہ پڑھا۔
ہر رکعت میں سورت فاتحہ پڑھنے کے وجوب اور جب تک فاتحہ کا پڑھنا یا سیکھنا ممکن نہ ہو تو اس کو جو آسان ہو فاتحہ کے علاوہ پڑھ لینے کے بیان میں
عمرو ناقد، زہیر بن حرب، عمرو، اسماعیل بن ابراہیم، ابن جریج، عطاء، ابوہریرہ، حضرت عطاء (رض) سے روایت ہے کہ حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا ہر نماز میں قرأت ہوتی ہے رسول اللہ ﷺ نے جس نماز میں ہم کو سنایا ہم بھی اس نماز میں تم کو سناتے ہیں اور جس نماز میں آپ ﷺ نے ہم سے اخفاء کیا ہم بھی اس میں تمہارے لئے اخفا کرتے ہیں آپ کو ایک نے کہا اگر میں ام القرآن یعنی سورت فاتحہ پر زیادتی نہ کروں تو آپ کیا فرماتے ہیں ؟ تو فرمایا اگر تو اس پر زیادتی کرے تو تیرے لئے بہتر ہے اور اگر اس پر ختم کر دے تو تجھ سے کافی ہے۔
ہر رکعت میں سورت فاتحہ پڑھنے کے وجوب اور جب تک فاتحہ کا پڑھنا یا سیکھنا ممکن نہ ہو تو اس کو جو آسان ہو فاتحہ کے علاوہ پڑھ لینے کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، یزید بن زریع، حبیب عطاء سے روایت ہے کہ حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا ہر نماز میں تلاوت قرآن ہے اور جس نماز میں ہم کو نبی کریم ﷺ نے سنایا ہم بھی تم کو سناتے ہیں اور جس میں ہم سے پوشیدہ رکھا یعنی آہستہ تلاوت کی ہم بھی تم سے اخفا کرتے ہیں جس نے ام الکتاب پڑھی تو اس کے لئے کافی ہے جس نے زیادتی کی وہ افضل ہے۔
ہر رکعت میں سورت فاتحہ پڑھنے کے وجوب اور جب تک فاتحہ کا پڑھنا یا سیکھنا ممکن نہ ہو تو اس کو جو آسان ہو فاتحہ کے علاوہ پڑھ لینے کے بیان میں
محمد بن مثنی، یحییٰ بن سعید، عبیداللہ، سعید بن ابی سعید، ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ مسجد میں داخل ہوئے ایک آدمی مسجد میں آیا اور نماز ادا کی پھر حاضر ہوا اور رسول اللہ ﷺ کو سلام کیا آپ ﷺ نے اس کے سلام کا جواب دیا اور فرمایا واپس جا اور نماز ادا کر تو نے نماز نہیں پڑھی وہ آدمی گیا اس نے اسی طرح نماز پڑھی جیسے پہلے پڑھی تھی پھر نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور آپ کو سلام کیا آپ نے و علیک السلام کہا اور فرمایا کہ واپس جا نماز ادا کر تو نے نماز نہیں پڑھی یہاں تک کہ تین بار اسی طرح ہوا تو اس آدمی نے عرض کیا اس ذات کی قسم جس نے آپ ﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں اس سے زیادہ اچھی نماز ادا نہیں کرسکتا مجھے سکھا دیں آپ ﷺ نے فرمایا جب تو نماز کے لئے کھڑا ہو تو تکبیر کہہ پھر قرآن میں سے جو تجھے آسانی سے یاد ہو پڑھ پھر اطمینان سے سجدہ کر اور اطمینان سے سیدھا کھڑا ہو پھر اطمینان سے سجدہ کر اور اطمینان سے سیدھا ہو کر بیٹھ جا پھر اسی طرح اپنی تمام نماز میں کیا کرو۔
ہر رکعت میں سورت فاتحہ پڑھنے کے وجوب اور جب تک فاتحہ کا پڑھنا یا سیکھنا ممکن نہ ہو تو اس کو جو آسان ہو فاتحہ کے علاوہ پڑھ لینے کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابواسامہ، عبداللہ بن نمیر، عبیداللہ، سعید ابن ابی سعید، ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا اور نماز ادا کی اور رسول اللہ ﷺ ایک گوشہ میں تشریف فرما تھے باقی حدیث گزر چکی ہے اس میں یہ اضافہ ہے کہ جب تو نماز کے لئے کھڑا ہو تو اچھی طرح پورا وضو کر پھر قبلہ کی طرف منہ کر اور تکبیر کہہ۔
مقتدی کے لئے اپنے امام کے پیچھے بلند آواز سے قرأت کرنے سے روکنے کے بیان میں
سعید بن منصور، قتیبہ بن سعید، ابوعوانہ، سعید، ابوعوانہ، قتادہ، زرارہ، حضرت عمران بن حصین (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم کو ظہر اور عصر کی نماز پڑھائی آپ ﷺ نے فرمایا تم میں کون تھا جس نے میرے پیچھے ( سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلَی) پڑھی ایک شخص نے عرض کیا میں نے اس کو پڑھنے میں خیر اور بھلائی کے علاوہ کوئی ارادہ نہیں کیا آپ ﷺ نے فرمایا میں نے جانا کہ تم میں سے کوئی مجھ سے قرأت میں الجھ رہا ہے۔
مقتدی کے لئے اپنے امام کے پیچھے بلند آواز سے قرأت کرنے سے روکنے کے بیان میں
محمد بن مثنی، ابن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، قتادہ، حضرت عمران بن حصین (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ظہر کی نماز پڑھائی ایک آدمی نے آپ ﷺ کے پیچھے (سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلَی) پڑھی جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کس نے پڑھا یا فرمایا کون پڑھنے والا تھا ؟ ایک آدمی نے عرض کی میں، تو آپ ﷺ نے فرمایا تحقیق میں نے گمان کیا کہ تم میں سے کوئی میری قرأت میں الجھن ڈال رہا ہے۔
مقتدی کے لئے اپنے امام کے پیچھے بلند آواز سے قرأت کرنے سے روکنے کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، اسماعیل بن علیہ، محمد بن مثنی، ابن ابی عدی، ابوعروبہ، حضرت قتادہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ظہر کی نماز پڑھائی اور فرمایا تحقیق میں نے معلوم کیا کہ تم میں سے کوئی مجھے قرأت میں الجھا رہا ہے۔
بسم اللہ کو بلند آواز سے پڑھنے والوں کی دلیل کے بیان میں۔
محمد بن مثنی، ابن بشار، غندر، ابن مثنی، محمد بن جعفر، شعبہ، قتادہ، حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر و عمر و عثمان (رض) کے ساتھ نماز ادا کی ہے اور میں نے ان میں کسی کو (بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ) پڑھتے ہوئے نہیں سنا۔
بسم اللہ کو بلند آواز سے پڑھنے والوں کی دلیل کے بیان میں۔
محمد بن مثنی، ابوداؤد، شعبہ، حضرت انس (رض) سے یہی حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
بسم اللہ کو بلند آواز سے پڑھنے والوں کی دلیل کے بیان میں۔
محمد بن مہران رازی، ولید بن مسلم، اوزعی، عبدہ، حضرت عبدہ (رض) سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب (رض) ان کلمات کو بلند آواز سے پڑھتے تھے (سُبْحَانَکَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِکَ تَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالَی جَدُّکَ وَلَا إِلَهَ غَيْرُکَ ) حضرت انس (رض) سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ ابوبکر و عمر و عثمان (رض) کے پیچھے نماز پڑھی وہ قرأت کو (الْحَمْد لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ) سے شروع کرتے تھے اور (بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ) کو اول قرأت اور نہ آخر میں پڑھتے تھے۔
بسم اللہ کو بلند آواز سے پڑھنے والوں کی دلیل کے بیان میں۔
محمد بن مہران، ولید بن مسلم، اوزاعی، اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ، انس بن مالک (رض) ایک دوسری سند کے ساتھ بھی یہی حدیث روایت کی گئی ہے۔
سورت توبہ کے علاوہ بسم اللہ کو قرآن کی ہر سورت کا جز کہنے والوں کی دلیل کے بیان میں
علی بن حجر سعدی، علی بن مسہر، مختار بن فلفل، انس بن مالک (رض) روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان تشریف فرما تھے کہ آپ ﷺ پر غفلت سی طاری ہوئی پھر آپ ﷺ نے مسکراتے ہوئے اپنا سر مبارک اٹھایا ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ آپ ﷺ کو کس بات سے ہنسی آرہی تھی تو آپ ﷺ نے فرمایا مجھ پر ابھی ایک سورت نازل ہوئی پھر (بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ إِنَّا أَعْطَيْنَاکَ الْکَوْثَرَ فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ إِنَّ شَانِئَکَ هُوَ الْأَبْتَرُ ، ) پڑھا پھر فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ کوثر کیا ہے ہم نے کہا اللہ اور اس کا رسول ﷺ ہی بہتر جانتے ہیں فرمایا وہ ایک نہر ہے مجھ سے میرے رب نے اس کا وعدہ کیا ہے اس میں بہت سی خوبیاں ہیں وہ ایک حوض ہے جس پر قیامت کے دن میری امت کے لوگ پانی پینے کے لئے آئیں گے اور اس کے برتنوں کی تعداد ستاروں کی تعداد کے برابر ہے ایک شخص کو وہاں سے ہٹا دیا جائے گا میں عرض کروں گا یا اللہ یہ میرا امتی ہے تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کیا آپ ﷺ جانتے ہو کہ اس نے آپ ﷺ کے بعد نئی باتیں گھڑی تھیں، ابن حجر (رض) نے اس میں یہ اضافہ کیا کہ آپ ﷺ ہمارے درمیان مسجد میں تشریف فرما تھے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ وہ ہے جس نے آپ ﷺ کے بعد نئی باتیں نکال لی تھیں۔
سورت توبہ کے علاوہ بسم اللہ کو قرآن کی ہر سورت کا جز کہنے والوں کی دلیل کے بیان میں
ابوکریب، محمد بن علاء، ابن فضیل، مختار بن فلفل، انس بن مالک (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ پر غفلت سی طاری ہوئی باقی حدیث گزر چکی ہے اس میں یہ ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کوثر جنت میں ایک نہر ہوگی جس کا اللہ نے میرے ساتھ وعدہ فرمایا ہے اور اس نہر پر ایک حوض ہے اور اس حدیث میں برتنوں کا ستاروں کی تعداد کے برابر ہونے کا ذکر نہیں ہے۔
تکبیر تحریمہ کے بعد دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر سینہ سے نیچے ناف سے اوپر رکھنے اور سجدہ زمین پر دونوں ہاتھوں کو کندھوں کے درمیان رکھنے کے بیان میں
زہیر بن حرب، عفان ہمام، محمد بن جحادہ، عبدالجبار بن وائل، علقمہ بن وائل بن حجر (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھوں کو بلند کیا جب آپ ﷺ نماز میں داخل ہوئے تکیبر کہی اور ہمام نے بیان کیا کہ آپ ﷺ نے دونوں ہاتھ اپنے کانوں تک اٹھائے پھر آپ ﷺ نے چادر اوڑھ لی پھر دائیں ہاتھ بائیں ہاتھ کے اوپر رکھا جب آپ ﷺ نے رکوع کرنے کا ارادہ کیا تو اپنے ہاتھوں کو چادر سے نکالا پھر ان کو بلند کیا تکبیر کہہ کر رکوع کیا جب آپ نے (سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہا) تو اپنے ہاتھوں کو بلند کیا پھر آپ ﷺ نے سجدہ اپنی دونوں ہتھیلیوں کے درمیان کیا۔
نماز میں تشہد کے بیان میں
زہیر بن حرب، عثمان بن ابی شیبہ، اسحاق بن ابراہیم، اسحاق، جریر، منصور، ابو وائل، حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی اقتداء میں نماز میں (السَّلَامُ عَلَی اللَّهِ یا السَّلَامُ عَلَی فُلَانٍ ) کہتے تھے تو ایک دن ہم سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بیشک اللہ بذات خود سلام ہے یعنی اللہ کی صفت سلام ہے جب تم میں سے کوئی نماز میں قعدہ میں بیٹھے تو اس کو چاہیے کہ (التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَيْکَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَکَاتُهُ السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَی عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ ) پڑھے جب کوئی یہ کلمہ کہے گا ( عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ ) پڑھے گا تو اس کا سلام اللہ کے ہر نیک بندے کو پہنچے گا آسمان و زمین میں۔ پھر (أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ ) کہے پھر اس کو اختیار ہے جو چاہے دعا مانگے۔
نماز میں تشہد کے بیان میں
محمد بن مثنی، ابن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، منصور سے بھی اسی سند کے ساتھ یہی حدیث مروی ہے لیکن اس میں اس کے بعد جو چاہے دعا مانگے کا جملہ نہیں ہے۔
نماز میں تشہد کے بیان میں
عبد بن حمید، حسین جعفی، زائدہ، منصور سے ایک اور سند کے ساتھ یہی حدیث مروی ہے لیکن اس میں ہے اس کے بعد اس کو اختیار ہے جو پسند کرے دعا مانگے۔
نماز میں تشہد کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، ابومعاویہ، اعمش، شقیق، عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ قعدہ میں بیٹھے ہوئے تھے باقی حدیث منصور کی حدیث کی طرح ہے لیکن اس میں پسند کی دعا مانگنے کا ذکر نہیں ہے۔
نماز میں تشہد کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابونعیم، سیف بن ابی سلیمان، مجاہد، عبداللہ بن سخبرہ، عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے تشہد سکھایا اس حال میں کہ میری ہتھیلی آپ ﷺ کی ہتھیلی کے درمیان میں تھی جیسے مجھے قرآن میں سے کوئی سورت سکھاتے تھے پھر تشہد کا پورا قصہ بیان کیا جیسا کہ انہوں نے بیان کیا۔
نماز میں تشہد کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، لیث، محمد بن رمح بن مہاجر، لیث، ابوزبیر، سعید بن جبیر، طاؤس، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہم کو تشہد اس طرح سکھاتے تھے جیسے ہمیں قرآن کی سورت سکھاتے تھے آپ ﷺ فرماتے ( التَّحِيَّاتُ الْمُبَارَکَاتُ الصَّلَوَاتُ الطَّيِّبَاتُ لِلَّهِ ) تمام قولی، بدنی اور مالی عبادات اللہ کے لئے ہیں اے نبی ! آپ ﷺ پر سلام ہو اور اللہ کی رحمتیں اور اس کی برکتیں نازل ہوں ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر سلام ہو، میں گواہی دیتا ہوں اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں محمد ﷺ اللہ تعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔
نماز میں تشہد کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، یحییٰ بن آدم، عبدالرحمن بن حمید، ابوزبیر، طاؤس، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں تشہد اس طرح سکھاتے تھے جس طرح ہمیں قرآن کی سورت کی تعلیم دیتے تھے۔
نماز میں تشہد کے بیان میں
سعید بن منصور، قتیبہ بن سعید، ابوکامل، محمد بن عبدالملک، ابوکامل، ابوعوانہ، قتادہ، یونس بن جبیر، حطان بن عبداللہ، رقاشی سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ابوموسی اشعری کے ساتھ نماز ادا کی جب وہ قعدہ کے قریب تھے تو ایک شخص نے کہاں نماز نیکی اور پاکیزگی کے ساتھ فرض کی گئی ہے جب حضرت ابوموسی اشعری نے نماز پوری کرلی اور سلام پھیر دیا تو فرمایا تم میں سے کس نے اس اس طرح کا یہ کلمہ کہا ہے لوگ خاموش رہے پھر فرمایا تم میں کون ایسا ایسا کلمہ کہنے والا ہے لوگ خاموش رہے تو فرمایا اے حطان شاید تو نے یہ کلمہ کہا ہو ؟ میں نے عرض کی میں نے نہیں کہا میں تو آپ سے ڈرتا تھا کہ مجھ سے ناراض نہ ہوجائیں تو ایک آدمی نے کہا میں نے کہا ہے اور میں نے اس کے ساتھ صرف نیکی ہی کا ارادہ کیا ہے تو حضرت ابوموسی اشعری (رض) نے فرمایا تم نہیں جانتے کہ تم کو اپنی نماز میں کیا پڑھنا چاہئے رسول اللہ ﷺ نے ہمیں خطبہ دیا اور ہمیں ہماری سنت واضح کی اور ہمیں نماز سکھائی اور فرمایا کہ جب تم نماز ادا کرو تو اپنی صفوں کو سیدھا کرو پھر تم میں سے کوئی تمہاری امامت کرے جب وہ تکبیر کہے تم تکبیر کہو اور جب وہ ( غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ) کہے تو تم آمین کہوتا کہ اللہ تم سے خوش ہو اور جب وہ تکبیر کہہ کر رکوع کرے تو تم بھی تکبیر کہہ کر رکوع کرو کیونکہ امام رکوع تم سے پہلے کرتا ہے اور رکوع سے تم سے پہلے اٹھتا ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس طرح تمہارا عمل اس کے مقابلے میں ہوجائے گا اور جب وہ (سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ ) کہے تو تم (رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ ) کہو اللہ تمہاری دعاؤں کو سنتا ہے کیونکہ اللہ تبارک وتعالی نے اپنے نبی کریم ﷺ کی زبانی سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فرمایا ہے جب وہ تکبیر کہہ کر سجدہ کرے تو تم بھی تکبیر کہو اور سجدہ کرو امام سجدہ تم سے پہلے کرتا ہے اور سجدہ سے تم سے پہلے اٹھتا ہے پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تمہارا یہ عمل امام کے مقابلہ میں ہوجائے گا اور جب وہ قعدہ میں بیٹھ جائے تو تمہارے قول میں سب سے پہلے یہ قول ہو (التَّحِيَّاتُ الطَّيِّبَاتُ الصَّلَوَاتُ لِلَّهِ السَّلَامُ عَلَيْکَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَکَاتُهُ السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَی عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ )
نماز میں تشہد کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابواسامہ، سعید بن ابی عروبہ، ابوغسان، معاذ بن ہشام، اسحاق بن ابراہیم، جریر، سلیمان، حضرت قتادہ (رض) سے تین مختلف اسانید سے یہی حدیث روایت کی گئی ہے لیکن اس میں یہ اضافہ بھی ہے کہ جب امام قرأت کرے تو تم خاموش رہو اور ان کی اس حدیث میں یہ الفاظ نہیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی زبان پر سمع اللہ لمن حمدہ جاری فرما دیا ہے البتہ امام مسلم سے اس حدیث کی سند کے بارے میں ابونضر کے بھانجے ابوبکر نے گفتگو کی تو امام مسلم نے فرمایا سلیمان سے بڑھ کر زیادہ حافظہ والا کون ہوسکتا ہے یعنی یہ روایت صحیح ہے تو امام مسلم (رح) سے ابوبکر نے کہا کہ پھر حضرت ابوہریرہ (رض) کی حدیث کا کیا حال ہے فرمایا مسلم نے وہ میرے نزدیک صحیح ہے یعنی جب امام قرأت کرے تو تم خاموش رہو تو اس نے کہا پھر آپ نے اس حدیث کو یہاں کیوں بیان نہیں کیا تو امام نے جواب دیا میں نے اس کتاب میں ہر اس حدیث کو نقل کیا جو میرے نزدیک صحیح ہو بلکہ اس میں میں نے ان احادیث کو نقل کیا ہے جس کی صحت پر سب کا اجماع ہو۔
نماز میں تشہد کے بیان میں
اسحاق بن ابراہیم، ابن ابی عمر، عبدالرزاق، معمر قتادہ ایک اور سند سے یہی حدیث حضرت قتادہ سے روایت کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم ﷺ کی زبان مبارک پر (سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ ) کو جاری کردیا ہے۔
تشہد کے بعد بنی کریم ﷺ پر درود شریف بھیجنے کے بیان میں
یحییٰ بن یحییٰ تمیمی، مالک، نعیم بن عبداللہ، محمد بن عبداللہ بن زید انصاری، عبداللہ بن زید، ابومسعود انصاری (رض) سے روایت ہے کہ ہم سعد بن عباد (رض) کی مجلس میں تھے کہ ہمارے پاس رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو آپ ﷺ سے بشیر بن سعد (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ہم کو اللہ تبارک وتعالی نے آپ ﷺ پر درود بھیجنے کا حکم دیا ہے ہم آپ ﷺ پر کیسے درود بھیجیں رسول اللہ ﷺ خاموش رہے یہاں تک ہم تمنا کرنے لگے کہ آپ ﷺ سے اس طرح کا سوال نہ کیا جاتا پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم (اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّيْتَ عَلَی آلِ إِبْرَاهِيمَ وَبَارِکْ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلَی آلِ إِبْرَاهِيمَ فِي الْعَالَمِينَ إِنَّکَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ) پڑھو اور سلام تم پہلے معلوم کرچکے ہو۔
تشہد کے بعد بنی کریم ﷺ پر درود شریف بھیجنے کے بیان میں
محمد بن مثنی، محمد بن بشار، ابن مثنی، محمد بن جعفر، شعبہ، حکم، ابن ابی لیلی، کعب بن عجرہ، حضرت کعب بن عجرہ (رض) سے روایت ہے کہ ہمارے پاس رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو ہم نے عرض کیا ہم آپ ﷺ پر سلام کا طریقہ تو پہچان چکے ہیں ہم آپ ﷺ پر درور کیسے بھیجیں تو آپ ﷺ نے فرمایا تم یوں کہو (اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّيْتَ عَلَی آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّکَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ اللَّهُمَّ بَارِکْ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلَی آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّکَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ )
تشہد کے بعد بنی کریم ﷺ پر درود شریف بھیجنے کے بیان میں
زہیر بن حرب، ابوکریب، وکیع، شعبہ، مسعر، حکم سے بھی یہی حدیث روایت کی گئی ہے لیکن اس حدیث میں ہدیہ کرنے کا ذکر نہیں ہے۔
تشہد کے بعد بنی کریم ﷺ پر درود شریف بھیجنے کے بیان میں
محمد بن بکار اسماعیل بن زکریا، اعمش مسعر، مالک بن مغول، حکم سے دوسری سند کے ساتھ بھی یہی حدیث مروی ہے لیکن اس میں (اَللّٰہُمَّ بَارِک) نہیں کہا بلکہ (وَبَارَکَ عَلٰی مُحَمَدٍ ) کہا ہے۔
تشہد کے بعد بنی کریم ﷺ پر درود شریف بھیجنے کے بیان میں
محمد بن عبداللہ بن نمیر، روح، عبداللہ بن نافع، اسحاق بن ابراہیم، روح، مالک بن انس، عبداللہ بن ابی بکر، عمرو بن سلیم حضرت ابوحمید ساعدی سے روایت ہے کہ صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ہم آپ ﷺ پر درود کیسے بھیجیں آپ ﷺ نے فرمایا کہو (اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی أَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ کَمَا صَلَّيْتَ عَلَی آلِ إِبْرَاهِيمَ وَبَارِکْ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی أَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ کَمَا بَارَکْتَ عَلَی آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّکَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ) اے اللہ درود بھیج محمد ﷺ پر اور آپ ﷺ کی ازواج اور اولاد پر جیسا کہ تو نے درود بھیجا آل ابراہیم پر اور برکت نازل فرما محمد ﷺ پر اور آپ ﷺ کی ازواج واولاد پر جیسا کہ تو نے برکت نازل فرمائی آل ابراہیم پر بیشک تو تعریف کے لائق اور بزرگی والا ہے۔
تشہد کے بعد بنی کریم ﷺ پر درود شریف بھیجنے کے بیان میں
یحییٰ بن ایوب، قتیبہ بن سعید، ابن حجر، اسماعیل بن جعفر، علاء، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص ایک بار مجھ پر درود بھیجے اللہ اس پر دس رحمتیں نازل کرے گا۔
سمع اللہ لمن حمدہ ربنا لک الحمد آمین کہنے کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، مالک، ابوصالح، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جب امام (سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ ) کہے تو تم (لَکَ الْحَمْدُ ) کہو کیونکہ جس کا قول فرشتوں کے کہنے کے موافق ہوگا تو اس کے پچھلے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔
سمع اللہ لمن حمدہ ربنا لک الحمد آمین کہنے کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، یعقوب بن عبدالرحمن، سہیل، حضرت ابوہریرہ (رض) اسی حدیث کے ہم معنی دوسری سند سے حدیث مروی ہے۔
سمع اللہ لمن حمدہ ربنا لک الحمد آمین کہنے کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، مالک، ابن شہاب، سعید بن مسیب، ابی سلمہ بن عبدالرحمن، ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو کیونکہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین کے موافق ہوجائے گی تو اس کے پچھلے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے ابن شہاب نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ آمین فرمایا کرتے تھے۔
سمع اللہ لمن حمدہ ربنا لک الحمد آمین کہنے کے بیان میں
حرملہ بن یحیی، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، ابن مسیب، ابوسلمہ بن عبدالرحمن، ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ مالک کی حدیث کی طرح لیکن اس میں ابن شہاب (رض) کا قول نہیں ذکر کیا۔
سمع اللہ لمن حمدہ ربنا لک الحمد آمین کہنے کے بیان میں
حرملہ بن یحیی، ابن وہب، عمرو، ابویونس، ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص نماز میں آمین کہتا ہے تو فرشتے آسمان میں آمین کہتے ہیں پھر ان میں سے ایک کی آمین دوسرے کے موافق ہوجاتی ہے تو اس کے گزشتہ گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔
سمع اللہ لمن حمدہ ربنا لک الحمد آمین کہنے کے بیان میں
عبداللہ بن مسلمہ، مغیرہ، ابوزناد، اعرج، ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ جب تم میں سے کوئی آمین کہتا ہے تو ملائکہ آسمان میں آمین کہتے ہیں ان میں سے ایک کی آمین دوسرے کے موافق ہوجاتی ہے تو اس نمازی کے گزشتہ تمام گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔
سمع اللہ لمن حمدہ ربنا لک الحمد آمین کہنے کے بیان میں
محمد بن رافع، عبدالرزاق، معمر، ہمام بن منبہ، ابوہریرہ (رض) سے یہی حدیث دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
سمع اللہ لمن حمدہ ربنا لک الحمد آمین کہنے کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، یعقوب بن عبدالرحمن، سہیل، حضرت ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب پڑھنے والا یعنی امام (غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ) کہے اور اس کے پیچھے مقتدی آمین کہیں اور اس کا کہنا آسمان والوں کے موافق ہوجائے تو اس کے تمام گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔
مقتدی کا امام کی اقتداء کرنے کے بیان میں۔
یحییٰ بن یحیی، قتیبہ بن سعید، ابوبکر بن ابی شیبہ، زہیر بن حرب، ابوکریب، سفیان، ابوبکر، سفیان بن عیینہ، زہری، انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ گھوڑے پر سے گرپڑے تو آپ ﷺ کی دائیں جانب زخمی ہوگئی ہم آپ ﷺ کے پاس آپ کی عیادت کے لئے حاضر ہوئے تو نماز کا وقت آگیا آپ ﷺ نے ہم کو بیٹھ کر نماز پڑھائی اور ہم نے بھی آپ کے پیچھے بیٹھ کر نماز ادا کی جب نماز پوری ہوگئی تو آپ ﷺ نے فرمایا امام اس لئے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے جب وہ تکیبر کہے تو تم تکبیر کہو جب وہ سجدہ کرے تو تم سجدہ کرو اور جب وہ اٹھے تو تم بھی اٹھو اور جب وہ (سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ ) کہے تو تم (رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ ) کہو جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم سب بھی بیٹھ کر نماز پڑھو۔
مقتدی کا امام کی اقتداء کرنے کے بیان میں۔
قتیبہ بن سعید، لیث، محمد بن رمح، لیث، ابن شہاب، انس بن مالک (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ گھوڑے پر سے گر کر زخمی ہوگئے تو آپ ﷺ نے ہمیں بیٹھ کر نماز پڑھائی پھر پہلی حدیث کی طرح ذکر فرمایا۔
مقتدی کا امام کی اقتداء کرنے کے بیان میں۔
حرملہ بن یحیی، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، انس بن مالک (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ گھوڑے پر سے گرپڑے تو آپ کی دائیں جانب زخمی ہوگئی، اس میں یہ اضافہ فرمایا کہ جب امام کھڑے ہو کر نماز پڑھائے تو تم کھڑے ہو کر نماز پڑھو باقی حدیث پہلی حدیث کی طرح ہے۔
مقتدی کا امام کی اقتداء کرنے کے بیان میں۔
ابن ابی عمر، معن بن عیسی، حضرت انس بن مالک (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ گھوڑی پر سوار ہوئے تو آپ ﷺ اس سے گرگئے اور آپ ﷺ کی دائیں جانب زخمی ہوگئی باقی حدیث ان کی حدیث کی طرح ہے لیکن اس میں ہے جب امام کھڑے ہو کر نماز پڑھائے تو تم بھی کھڑے ہو کر نماز ادا کرو۔
مقتدی کا امام کی اقتداء کرنے کے بیان میں۔
عبد بن حمید، عبدالرزاق، معمر، زہری، انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ اپنی گھوڑی سے گرپڑے تو آپ ﷺ کی دائیں جانب زخمی ہوگئی باقی حدیث گزر چکی۔
مقتدی کا امام کی اقتداء کرنے کے بیان میں۔
ابوبکر بن ابی شیبہ، عبدہ بن سلیمان، ہشام اپنے والد سے، سیدہ عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ بیمار ہوگئے تو آپ ﷺ کے صحابہ میں سے چند لوگ آپ ﷺ کی عیادت کے لئے حاضر ہوئے رسول اللہ ﷺ نے بیٹھ کر نماز پڑھائی اور صحابہ کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے تھے آپ ﷺ نے ان کو بیٹھنے کا اشارہ کیا تو وہ بیٹھ گئے آپ ﷺ نے نماز سے فارغ ہو کر فرمایا امام اس لئے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے جب وہ رکوع کرے تو تم رکوع کرو اور جب وہ اٹھے تو تم اٹھو اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر نماز ادا کرو۔
مقتدی کا امام کی اقتداء کرنے کے بیان میں۔
ابوربیع، زہرانی، حماد ابن زید، ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب، ابن نمیر، ہشام بن عروہ سے بھی دوسری سند کے ساتھ یہی حدیث مروی ہے۔
مقتدی کا امام کی اقتداء کرنے کے بیان میں۔
قتیبہ بن سعید، لیث، محمد بن رمح، لیث، ابوزبیر، جابر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی بیماری میں ہم نے آپ ﷺ کے پیچھے اس طرح نماز ادا کی کہ آپ ﷺ بیٹھنے والے تھے اور حضرت ابوبکر (رض) لوگوں کو آپ ﷺ کی تکبیر سنا رہے تھے آپ ﷺ ہماری طرف متوجہ ہوئے تو ہم کو کھڑے ہوئے دیکھا آپ ﷺ نے ہمیں اشارہ فرمایا تو ہم بیٹھ گئے اور ہم نے آپ ﷺ کی نماز کے ساتھ بیٹھ کر نماز ادا کی جب سلام پھیرا تو آپ ﷺ نے فرمایا تم نے اس وقت وہ کام کیا جو فارسی اور رومی کرتے ہیں کہ وہ اپنے بادشاہوں کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں اور وہ بیٹھا ہوتا ہے ایسا نہ کرو اپنے ائمہ کی اقتداء کرو اگر وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر نماز ادا کرو اور اگر وہ بیٹھ کر نماز ادا کرے تو تم بھی بیٹھ کر نماز ادا کرو۔
مقتدی کا امام کی اقتداء کرنے کے بیان میں۔
یحییٰ بن یحیی، حمید بن عبدالرحمن رواسی، ابوزبیر، جابر (رض) سے روایت ہے کہ ہم کو رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھائی اور ابوبکر (رض) آپ ﷺ کے خلیفہ تھے جب رسول اللہ ﷺ نے تکبیر کہی تو ابوبکر (رض) نے ہمیں سنانے کے لئے تکبیر کہی باقی حدیث حضرت لیث کی طرح ہے۔
مقتدی کا امام کی اقتداء کرنے کے بیان میں۔
قتیبہ بن سعید، مغیرہ، ابوزناد، اعرج، ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا امام صرف اس لئے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے تم اس سے اختلاف نہ کرو جب وہ تکبیر کہے تم تکبیر کہو جب وہ رکوع کرے تم رکوع کرو جب وہ (سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَه) کہے تو تم (رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ ) کہو جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو اور جب وہ بیٹھ کر نماز ادا کرے تو تم بھی سارے بیٹھ کر ہی نماز ادا کرو۔
مقتدی کا امام کی اقتداء کرنے کے بیان میں۔
محمد بن رافع، عبدالرزاق، معمر ہمام بن منبہ، ابوہریرہ (رض) سے دوسری سند سے بھی یہ حدیث روایت کی گئی ہے۔
امام سے تکبیر وغیرہ میں آگے بڑھنے کی ممانعت کے بیان میں
اسحاق بن ابراہیم، ابن خشرم، عیسیٰ بن یونس، اعمش، ابوصالح، ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں تعلیم دیتے تھے کہ امام سے سبقت نہ کرو جب وہ تکبیر کہے تو تم تکبیر کہو اور جب وہ (وَلَا الضَّالِّينَ ) کہے تو تم آمین کہو اور جب وہ رکوع کرے تو تم رکوع کرو اور جب وہ (سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ ) کہے تو تم (اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ ) کہو۔
امام سے تکبیر وغیرہ میں آگے بڑھنے کی ممانعت کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، عبدالعزیز در اور دی، سہیل بن ابوصالح، ابوہریرہ (رض) یہی حدیث ایک دوسری سند سے بھی مروی ہے مگر اس میں آپ ﷺ کا فرمان امام کہے (وَلَا الضَّالِّينَ ) تو تم آمین کہو، نہیں ہے۔
امام سے تکبیر وغیرہ میں آگے بڑھنے کی ممانعت کے بیان میں
محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، عبیداللہ بن معاذ، شعبہ، یعلی بن عطاء، ابوعلقمہ، ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا امام ڈھال ہے جب وہ بیٹھ کر نماز ادا کرے تو تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھو اور جب وہ (سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ ) کہے تو تم ( رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ ) کہو جب زمین والوں کا قول آسمان والوں کے قول کے موافق ہوجائے تو ان کے گزشتہ گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔
امام سے تکبیر وغیرہ میں آگے بڑھنے کی ممانعت کے بیان میں
ابوطاہر، ابن وہب، حیوہ، ابویونس، ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا امام صرف اس لئے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے جب وہ تکبیر کہے تو تم تکبیر کہو جب وہ رکوع کرے تو تم رکوع کرو اور جب وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر نماز پڑھو اور جب وہ بیٹھ کر نماز ادا کرے تو تم بھی سب بیٹھ کر نماز ادا کرو۔
مرض یا سفر کا عذر پیش آجائے تو امام کے لئے خلیفہ بنانے کے بیان میں جو لوگوں کو نماز پڑھائے صاحب طاقت وقدرت کے لئے امام کے پیچھے قیام کے لزوم اور بیٹھ کر نماز ادا کرنے والے کے پیچھے بیٹھ کر نماز ادا کرنے کے منسوخ ہونے کے بیان میں
احمد بن عبداللہ بن یونس، موسیٰ بن ابی عائشہ، عبیداللہ بن عبداللہ سے روایت ہے کہ میں سیدہ عائشہ (رض) کے پاس حاضر ہوا تو میں نے ان سے عرض کیا کہ آپ مجھے رسول اللہ ﷺ کے مرض کے بارے میں نہیں بتائیں گی فرمایا کیوں نہیں نبی کریم ﷺ کو بیماری سے افاقہ ہوا تو فرمایا کیا لوگوں نے نماز ادا کرلی ہے ہم نے عرض کیا نہیں وہ تو آپ ﷺ کا انتظار کر رہے ہیں اے اللہ کے رسول ﷺ ! آپ ﷺ نے فرمایا میرے لئے برتن میں پانی رکھ دو ہم نے ایسا ہی کیا آپ ﷺ نے اس سے غسل فرمایا پھر آپ چلنے لگے تو بےہوشی طاری ہوگئی پھر افاقہ ہوا تو فرمایا کیا لوگوں نے نماز ادا کرلی ہے ہم نے عرض کیا نہیں بلکہ یا رسول اللہ ﷺ وہ تو آپ ﷺ کا انتظار کر رہے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا میرے لئے برتن میں پانی رکھ دو ہم نے ایسا ہی کیا آپ ﷺ نے غسل فرمایا پھر آپ ﷺ چلنے لگے تو آپ ﷺ پر بےہوشی طاری ہوگئی پھر افاقہ ہوا تو پوچھا کیا لوگوں نے نماز ادا کرلی ہم نے عرض کیا نہیں بلکہ وہ تو آپ ﷺ کا یا رسول اللہ ﷺ انتظار کر رہے ہیں سیدہ (رض) نے فرمایا صحابہ مسجد میں بیٹھے رسول اللہ ﷺ کا عشاء کی نماز کے لئے انتظار کر رہے تھے تو رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو سیدنا ابوبکر کی طرف بھیجا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں تو اس نے جا کر کہا بیشک رسول اللہ ﷺ آپ ﷺ کو حکم دے رہے ہیں کہ آپ لوگوں کو نماز پڑھائیں اور ابوبکر نرم دل آدمی تھے اس لئے انہوں نے حضرت عمر (رض) سے کہا کہ آپ لوگوں کو نماز پڑھائیں تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ آپ اس کے زیادہ حقدار ہیں سیدہ نے فرمایا پھر ان کو حضرت ابوبکر (رض) نے ان دنوں کی نماز پڑھائی پھر رسول اللہ ﷺ نے اپنی جان میں کچھ کمی محسوس کی تو دو آدمیوں کے سہارے ظہر کی نماز کے لئے نکلے ان میں ایک حضرت عباس (رض) تھے اور ابوبکر (رض) لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے جب ابوبکر نے آپ ﷺ کو آتے دیکھا تو پیچھے ہٹنے لگے تو نبی کریم ﷺ نے ان کو اشارہ کیا کہ وہ پیچھے نہ ہوں اور آپ ﷺ نے ان دونوں کو فرمایا مجھے ابوبکر (رض) کے پہلو میں بٹھا دو تو آپ ﷺ کو ابوبکر (رض) کے پہلو میں بٹھا دیا گیا اور حضرت ابوبکر (رض) نماز ادا کرتے رہے کھڑے ہو کر نبی ﷺ کی اقتداء میں اور صحابہ بیٹھے ہوئے تھے عبیداللہ نے کہا میں ابن عباس (رض) کے پاس حاضر ہوا تو میں نے عرض کیا کیا میں آپ کی خدمت میں عائشہ کی نبی ﷺ کے مرض کے بارے میں حدیث پیش نہ کروں جو آپ نے مجھے بیان کی ہے تو انہوں نے کہا لے آؤ تو میں نے سیدہ کی حدیث ان پر پیش کی تو انہوں نے اس سے کوئی انکار نہیں کیا سوائے اس کے کہ انہوں نے فرمایا کیا سیدہ نے تجھے عباس (رض) کے ساتھ جو آدمی تھا اس کا نام بتایا ہے میں نے کہا نہیں تو ابن عباس (رض) نے کہا وہ حضرت علی (رض) تھے۔
مرض یا سفر کا عذر پیش آجائے تو امام کے لئے خلیفہ بنانے کے بیان میں جو لوگوں کو نماز پڑھائے صاحب طاقت وقدرت کے لئے امام کے پیچھے قیام کے لزوم اور بیٹھ کر نماز ادا کرنے والے کے پیچھے بیٹھ کر نماز ادا کرنے کے منسوخ ہونے کے بیان میں
محمد بن رافع، عبد بن حمید، ابن رافع، عبدالرزاق، معمر زہری، عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ابتدا میں سیدہ میمونہ کے گھر میں بیمار ہوئے تو آپ ﷺ نے اپنی ازواج مطہرات سے عائشہ (رض) کے گھر میں ایام بیماری گزارنے کی اجازت طلب فرمائی آپ ﷺ کو اجازت دے دی گئی سیدہ فرماتی ہیں آپ ﷺ اس حال میں نکلے کہ آپ ﷺ کا ایک ہاتھ فضل بن عباس (رض) پر اور دوسرا ہاتھ ایک دوسرے آدمی پر تھا اور آپ ﷺ کے پاؤں گھسٹ رہے تھے حضرت عبیداللہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس (رض) سے یہ حدیث بیان کی تو انہوں نے فرمایا کیا تو جانتا ہے اس آدمی کو جس کا نام حضرت عائشہ (رض) نے نہیں لیا وہ کون تھا وہ حضرت علی (رض) تھے۔
مرض یا سفر کا عذر پیش آجائے تو امام کے لئے خلیفہ بنانے کے بیان میں جو لوگوں کو نماز پڑھائے صاحب طاقت وقدرت کے لئے امام کے پیچھے قیام کے لزوم اور بیٹھ کر نماز ادا کرنے والے کے پیچھے بیٹھ کر نماز ادا کرنے کے منسوخ ہونے کے بیان میں
عبدالملک بن شعیب بن لیث، عقیل بن خالد، ابن شہاب، عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود، زوجہ نبی ﷺ سیدہ عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ جب نبی کریم ﷺ کی تکلیف میں شدت ہوگئی تو آپ نے اپنی ازواج مطہرات سے اجازت طلب فرمائی کہ آپ اپنے ایام بیماری میرے گھر میں گزاریں انہوں نے آپ کو اجازت دیدی تو آپ دو آدمیوں کے درمیان نکلے اس حال میں کہ آپ کے پاؤں زمین پر گھسٹ رہے تھے ایک حضرت عباس بن عبدالمطلب اور ایک دوسرے آدمی کے سہارے۔ حضرت عبیداللہ کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ کو سیدہ عائشہ کی اس بات کی خبر دی تو عبداللہ نے مجھے فرمایا کیا تو جانتا ہے کہ دوسرا آدمی کون تھا جس کا نام سیدہ عائشہ نے نہیں لیا ؟ میں نے عرض کیا نہیں تو ابن عباس نے فرمایا وہ حضرت علی (رض) تھے۔
مرض یا سفر کا عذر پیش آجائے تو امام کے لئے خلیفہ بنانے کے بیان میں جو لوگوں کو نماز پڑھائے صاحب طاقت وقدرت کے لئے امام کے پیچھے قیام کے لزوم اور بیٹھ کر نماز ادا کرنے والے کے پیچھے بیٹھ کر نماز ادا کرنے کے منسوخ ہونے کے بیان میں
عبدالملک بن شعیب بن لیث، عقیل بن خالد، ابن شہاب، عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود، عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے (ابوبکر صدیق کے امام نہ بنانے پر) اصرار کیا اور اس بار بار اصرار کی وجہ یہ تھی کہ مجھے اس بات کا خیال نہ تھا کہ آپ کے بعد لوگ اس سے محبت کریں گے جو آپ کے بعد آپ کی جگہ پر کھڑا ہوگا لیکن میرے دل میں یہ تھا کہ جو شخص آپ کی جگہ کھڑا ہوگا لوگ اس کو منحوس تصور کریں گے۔ تو اسی لئے میں نے ارادہ کیا کہ رسول اللہ ﷺ حضرت ابوبکر (رض) کو امام بنانے سے معاف رکھیں تو مناسب ہوگا۔
مرض یا سفر کا عذر پیش آجائے تو امام کے لئے خلیفہ بنانے کے بیان میں جو لوگوں کو نماز پڑھائے صاحب طاقت وقدرت کے لئے امام کے پیچھے قیام کے لزوم اور بیٹھ کر نماز ادا کرنے والے کے پیچھے بیٹھ کر نماز ادا کرنے کے منسوخ ہونے کے بیان میں
محمد بن رافع، عبد بن حمید، ابن رافع، عبد ابن رافع، عبدالرزاق، معمر، زہری، حمزہ بن عبداللہ بن عمر، عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ میرے گھر میں داخل ہوئے تو فرمایا ابوبکر کو حکم دو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ابوبکر (رض) نرم دل آدمی ہیں جب قرآن کی تلاوت کرتے ہیں تو اپنے آنسوؤں کو روک نہیں سکتے اگر آپ ﷺ ابوبکر کے علاوہ کسی اور کو حکم دیں تو مناسب ہوگا۔ سیدہ فرماتی ہیں کہ اللہ کی قسم میرے لئے سوا اس بات کے کوئی بات پیش نظر نہ تھی کہ لوگ بد شگونی لیں گے اس سے جو سب سے پہلے رسول اللہ ﷺ کی جگہ کھڑا ہوگا فرماتی ہیں کہ میں نے دو یا تین مرتبہ اصرار کیا لیکن آپ ﷺ نے فرمایا کہ ابوبکر ہی لوگوں کو نماز پڑھائیں اور تم یوسف کے دور کی عورتوں جیسی ہو۔
مرض یا سفر کا عذر پیش آجائے تو امام کے لئے خلیفہ بنانے کے بیان میں جو لوگوں کو نماز پڑھائے صاحب طاقت وقدرت کے لئے امام کے پیچھے قیام کے لزوم اور بیٹھ کر نماز ادا کرنے والے کے پیچھے بیٹھ کر نماز ادا کرنے کے منسوخ ہونے کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابومعاویہ، وکیع، یحییٰ بن یحیی، ابومعاویہ، اعمش، ابراہیم، اسود، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ بیمار ہوئے اور حضرت بلال (رض) آپ ﷺ کو نماز کے لئے بلانے آئے تو آپ ﷺ نے فرمایا ابوبکر کو حکم دو کہ وہ نماز پڑھائے سیدہ فرماتی ہیں میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ابوبکر بہت نرم دل آدمی ہیں وہ آپ ﷺ کی جگہ پر کھڑے ہو کر لوگوں کو کب قرآن سنا سکیں گے کاش آپ ﷺ عمر کو حکم دیتے آپ ﷺ نے فرمایا ابوبکر کو حکم کرو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں سیدہ فرماتی ہیں میں نے حضرت حفصہ سے کہا کہ وہ آپ ﷺ کو کہیں کہ ابوبکر نرم دل آدمی ہیں جب وہ آپ ﷺ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو لوگوں کو قرآن نہ سنا سکیں گے کاش آپ ﷺ عمر کو حکم دیتے تو انہوں نے آپ ﷺ کو کہا تو آپ ﷺ نے فرمایا تم تو یوسف کے دور کی عورتوں جیسی ہو ابوبکر کو حکم دو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں تو میں نے کہا پس جب انہوں نے نماز شروع کی تو رسول اللہ ﷺ نے اپنے بیماری میں تحفیف محسوس کی تو آپ ﷺ دو آدمیوں کے سہارے اس حال میں آئے کہ آپ ﷺ کے پاؤں مبارک سے زمین میں لکیر سی پڑ رہی تھی جب آپ ﷺ مسجد میں داخل ہوئے تو حضرت ابوبکر (رض) نے آپ ﷺ کی آہٹ محسوس کرتے ہوئے پیچھے ہٹنا شروع کیا رسول اللہ ﷺ نے اشارے سے فرمایا کہ اپنی جگہ کھڑے رہو رسول اللہ ﷺ تشریف لائے یہاں تک کہ ابوبکر (رض) کی بائیں طرف آکر بیٹھ گئے فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ لوگوں کو بیٹھ کر نماز پڑھا رہے تھے اور ابوبکر کھڑے ہوئے اقتداء کر رہے تھے نبی کریم ﷺ کی نماز کی اور لوگ ابوبکر کی نماز کی اقتداء کر رہے تھے۔
مرض یا سفر کا عذر پیش آجائے تو امام کے لئے خلیفہ بنانے کے بیان میں جو لوگوں کو نماز پڑھائے صاحب طاقت وقدرت کے لئے امام کے پیچھے قیام کے لزوم اور بیٹھ کر نماز ادا کرنے والے کے پیچھے بیٹھ کر نماز ادا کرنے کے منسوخ ہونے کے بیان میں
منجاب بن حارث، ابن مسہر، اسحاق بن ابراہیم، عیسیٰ بن یونس، اعمش، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ بیمار ہوئے اس مرض میں کہ جس میں آپ ﷺ کا انتقال ہوا ابن مسہر کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو لایا گیا یہاں تک کہ آپ ﷺ کو حضرت ابوبکر (رض) کے پہلو میں بٹھا دیا گیا اور آپ ﷺ لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے اور ابوبکر (رض) ان کو تکبیر سنا رہے تھے۔
مرض یا سفر کا عذر پیش آجائے تو امام کے لئے خلیفہ بنانے کے بیان میں جو لوگوں کو نماز پڑھائے صاحب طاقت وقدرت کے لئے امام کے پیچھے قیام کے لزوم اور بیٹھ کر نماز ادا کرنے والے کے پیچھے بیٹھ کر نماز ادا کرنے کے منسوخ ہونے کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب، ابن نمیر، ہشام ابن نمیر، ہشام، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیماری میں حضرت ابوبکر صدیق (رض) کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں پس وہ ان کو نماز پڑھاتے رہے پھر رسول اللہ ﷺ نے اپنی طبیعت میں جب آرام محسوس کیا تو آپ باہر تشریف لائے اس وقت لوگوں کی امامت حضرت ابوبکر فرما رہے تھے جب ابوبکر (رض) نے آپ ﷺ کو دیکھا تو پیچھے ہٹنے لگے رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر کو وہیں کھڑے رہنے کا اشارہ فرمایا رسول اللہ ﷺ ابوبکر کے پہلو میں بیٹھ گئے سیدنا ابوبکر (رض) رسول اللہ ﷺ کی نماز کے ساتھ نماز ادا کر رہے تھے اور صحابہ ابوبکر کی نماز کے ساتھ نماز ادا کر رہے تھے۔
مرض یا سفر کا عذر پیش آجائے تو امام کے لئے خلیفہ بنانے کے بیان میں جو لوگوں کو نماز پڑھائے صاحب طاقت وقدرت کے لئے امام کے پیچھے قیام کے لزوم اور بیٹھ کر نماز ادا کرنے والے کے پیچھے بیٹھ کر نماز ادا کرنے کے منسوخ ہونے کے بیان میں
عمرو ناقد، حسن حلوانی، عبد بن حمید، عبد، یعقوب بن ابراہیم بن سعد، صالح، ابن شہاب، انس بن مالک حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ ابوبکر (رض) رسول اللہ ﷺ کے مرض وفات میں ان کو نماز پڑھاتے رہے یہاں تک کہ سوموار کے دن جب تمام صحابہ صفوں میں نماز ادا کر رہے تھے تو رسول اللہ ﷺ نے حجرہ کا پردہ ہٹایا پھر کھڑے ہو کر ہماری طرف دیکھا آپ ﷺ کا چہرہ گویا کہ قرآن کے ورق کی طرح معلوم ہو رہا تھا پھر آپ ﷺ مسکرائے اور ہم لوگ نماز ہی میں بےانتہا خوش ہوگئے نبی کریم ﷺ کے نکلنے پر اور حضرت ابوبکر (رض) اپنی ایڑیوں پر اس گمان سے پیچھے ہٹ کر صف میں ملنے لگے کہ رسول اللہ ﷺ نماز کے لئے نکلنے والے ہیں تو رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہاتھ مبارک سے اشارہ کیا کہ اپنی نماز پوری کرو پھر رسول اللہ ﷺ اپنے حجرہ میں چلے گئے اور پردہ گرا دیا اور اس روز رسول اللہ ﷺ نے رحلت فرمائی۔
مرض یا سفر کا عذر پیش آجائے تو امام کے لئے خلیفہ بنانے کے بیان میں جو لوگوں کو نماز پڑھائے صاحب طاقت وقدرت کے لئے امام کے پیچھے قیام کے لزوم اور بیٹھ کر نماز ادا کرنے والے کے پیچھے بیٹھ کر نماز ادا کرنے کے منسوخ ہونے کے بیان میں
عمرو ناقد، زہیر بن حرب، سفیان بن عیینہ، زہری حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ کا آخری دیدار سوموار کے دن پردہ کے اٹھانے کے وقت کیا اسی قصہ کے ساتھ باقی حدیث مبارکہ گزر چکی۔
مرض یا سفر کا عذر پیش آجائے تو امام کے لئے خلیفہ بنانے کے بیان میں جو لوگوں کو نماز پڑھائے صاحب طاقت وقدرت کے لئے امام کے پیچھے قیام کے لزوم اور بیٹھ کر نماز ادا کرنے والے کے پیچھے بیٹھ کر نماز ادا کرنے کے منسوخ ہونے کے بیان میں
محمد بن رافع، عبد بن حمید، عبدالرزاق، معمر، زہری سے یہی حدیث ایک اور سند کے ساتھ بھی مروی ہے۔
مرض یا سفر کا عذر پیش آجائے تو امام کے لئے خلیفہ بنانے کے بیان میں جو لوگوں کو نماز پڑھائے صاحب طاقت وقدرت کے لئے امام کے پیچھے قیام کے لزوم اور بیٹھ کر نماز ادا کرنے والے کے پیچھے بیٹھ کر نماز ادا کرنے کے منسوخ ہونے کے بیان میں
محمد بن مثنی، ہارون بن عبداللہ، عبدالصمد، عبدالعزیز، انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تین دن تک تشریف نہ لائے اور ان دنوں میں حضرت ابوبکر (رض) جماعت کراتے رہے نبی کریم ﷺ نے پردہ کے پاس کھڑے ہو کر اس کو اٹھایا جب نبی کریم ﷺ کا چہرہ ہمارے لئے واضح ہوگیا تو ہم نے اس منظر سے زیادہ کوئی منظر نہیں دیکھا جو ہمارے نزدیک نبی ﷺ کے چہرہ اقدس سے زیادہ پسند ہو نبی کریم ﷺ نے ابوبکر (رض) کو اشارہ کیا کہ وہ نماز پڑھاتے رہیں اور نبی کریم ﷺ نے پردہ نیچے گرا دیا پھر ہم آپ ﷺ کی زیارت پر قادر نہ ہو سکے یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ کا وصال ہوگیا۔
مرض یا سفر کا عذر پیش آجائے تو امام کے لئے خلیفہ بنانے کے بیان میں جو لوگوں کو نماز پڑھائے صاحب طاقت وقدرت کے لئے امام کے پیچھے قیام کے لزوم اور بیٹھ کر نماز ادا کرنے والے کے پیچھے بیٹھ کر نماز ادا کرنے کے منسوخ ہونے کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، حسین بن علی، زائدہ، عبدالملک بن عمیر، ابوبردہ، حضرت ابوموسی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ بیمار ہوگئے اور آپ ﷺ کا مرض بڑھ گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں سیدہ عائشہ (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ابوبکر نرم دل آدمی ہیں جب آپ ﷺ کی جگہ پر کھڑے ہوں گے تو لوگوں کو نماز پڑھانے کی طاقت نہ پاسکیں گے آپ ﷺ نے سیدہ عائشہ (رض) سے فرمایا ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں تم تو یوسف کے دور کی عورتوں کی طرح ہو تو ابوبکر (رض) رسول اللہ ﷺ کی زندگی ہی میں لوگوں کو نماز پڑھاتے رہے۔
جب امام کو تاخیر ہوجائے اور کسی فتنہ وفساد کا خوف نہ ہو تو کسی اور کو امام بنانے کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، مالک، سہل بن سعد ساعدی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ بنو عمرو بن عوف کے درمیان صلح کرانے کے لئے تشریف لے گئے جب نماز کا وقت ہوگیا تو مؤذن حضرت ابوبکر کے پاس آیا اور کہا کیا آپ لوگوں کو نماز پڑھائیں گے تو میں اقامت کہوں فرمایا ہاں، ابوبکر نے نماز پڑھائی رسول اللہ ﷺ آئے تو لوگ نماز میں تھے آپ ﷺ لوگوں میں سے گزرتے ہوئے صف میں جا کر کھڑے ہوگئے لوگوں نے ہاتھ پر ہاتھ مارا اور حضرت ابوبکر صدیق (رض) نماز میں کسی طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے جب لوگوں کی تصفیق (تالیاں بجانا) زیادہ ہوگئی تو وہ متوجہ ہوئے اور رسول اللہ ﷺ کو دیکھا رسول اللہ ﷺ نے اشارہ کیا کہ تم اپنی جگہ کھڑے رہو حضرت ابوبکر (رض) نے اپنے ہاتھوں کو بلند کیا اور نبی ﷺ کے حکم کے مطابق اللہ کی حمد کی پھر ابوبکر پیچھے ہو کر صف میں برابر آگئے اور نبی کریم ﷺ آگے تشریف لے گئے نماز سے فارغ ہو کر فرمایا اے ابوبکر جب میں نے تجھ کو حکم دیا تو تم اپنی جگہ پر کیوں نہ کھڑے رہے ؟ تو ابوبکر (رض) نے عرض کیا کہ ابن قحافہ کے لئے رسول اللہ ﷺ کے سامنے لوگوں کو نماز پڑھانا مناسب نہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں نے تم کو کثرت کے ساتھ ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے دیکھا جب تمہیں نماز میں کوئی چیز پیش آجائے تو تم سُبْحَانَ اللَّهِ کہو جب سُبْحَانَ اللَّهِ کہا جائے گا تو امام متوجہ ہوجائے گا تصفیق عورتوں کے لئے ہے۔
جب امام کو تاخیر ہوجائے اور کسی فتنہ وفساد کا خوف نہ ہو تو کسی اور کو امام بنانے کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، عبدالعزیز ابن ابی حازم، قتیبہ، یعقوب ابن عبدالرحمن، ابی حازم، سہل بن سعد (رض) سے روایت ہے کہ مالک کی حدیث کی طرح حدیث روایت کی گئی ہے ان کی حدیث میں ہے کہ ابوبکر (رض) نے اپنے ہاتھ بلند کئے اللہ کی تعریف کی اور پھر الٹے پاؤں لوٹ کر پیچھے صف میں آکر کھڑے ہوگئے۔
جب امام کو تاخیر ہوجائے اور کسی فتنہ وفساد کا خوف نہ ہو تو کسی اور کو امام بنانے کے بیان میں
محمد بن عبداللہ بن بزیع، عبدالاعلی، عبیداللہ بن ابی حازم، سہل بن سعد ساعدی سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ بنو عمرو بن عوف کے درمیان میں صلح کروانے کے لئے تشریف لے گئے باقی حدیث ان کی حدیث کی طرح ہے اس میں اضافہ یہ ہے کہ آپ ﷺ صفوں سے نکلتے ہوئے پہلی صف میں آکر کھڑے ہوگئے اور حضرت ابوبکر (رض) الٹے پاؤں پیچھے آگئے۔
جب امام کو تاخیر ہوجائے اور کسی فتنہ وفساد کا خوف نہ ہو تو کسی اور کو امام بنانے کے بیان میں
محمد بن رافع، حسن بن علی حلوانی، عبدالرزاق، ابن رافع، عبدالرزاق، ابن جریج، ابن شہاب، عباد بن زیاد، عروہ بن مغیرہ بن شعبہ (رض) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوہ تبوک میں شرکت کی رسول اللہ ﷺ نماز فجر سے پہلے قضائے حاجت کے لئے باہر نکلے اور میں لوٹا اٹھائے آپ ﷺ کے ساتھ ہوگیا جب رسول اللہ ﷺ میری طرف پلٹے تو میں لوٹے سے آپ ﷺ کے ہاتھوں پر پانی ڈالنے لگا اور آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ تین مرتبہ دھوئے پھر اپنے چہرے کو دھویا پھر آپ ﷺ نے اپنی کہنیوں کو اپنے جبہ سے نکالنا چاہا تو آستین تنگ تھیں آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ جبے کے اندر داخل کیا یہاں تک کہ اپنی کہنیوں کو جبے کے نیچے سے نکالا اور ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھویا پھر موزوں کے اوپر والے حصہ پر مسح کیا پھر آپ ﷺ واپس آئے اور حضرت مغیرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں بھی آپ ﷺ کے ساتھ واپس آیا یہاں تک کہ ہم نے لوگوں کو پایا کہ انہوں نے حضرت عبدالرحمن بن عوف کو امام بنا لیا ہے انہوں نے ان کی نماز پڑھائی رسول اللہ ﷺ کو دو رکعتوں میں سے ایک رکعت ملی اور آپ ﷺ نے لوگوں کے ساتھ دوسری رکعت ادا کی جب حضرت عبدالرحمن بن عوف نے سلام پھیرا تو رسول اللہ ﷺ اپنی نماز کو پورا کرنے کے لئے کھڑے ہوگئے اس بات نے مسلمانوں کو پریشان کردیا تو انہوں نے سُبْحَانَ اللَّهِ کہنے کی کثرت کردی جب نبی کریم ﷺ نے اپنی نماز پوری کرلی تو ان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا تم نے اچھا کیا فرمایا تم نے ٹھیک کیا اور ان کی تعریف کی اور فرمایا کہ تم نے نماز کو اس کے وقت میں ادا کیا۔
جب امام کو تاخیر ہوجائے اور کسی فتنہ وفساد کا خوف نہ ہو تو کسی اور کو امام بنانے کے بیان میں
محمد بن رافع، حسن بن علی حلوانی، عبدالرزاق، ابن جریج، ابن شہاب، اسماعیل بن محمد بن سعد، حمزہ بن مغیرہ سے روایت ہے اسی طرح دوسری سند کے ساتھ بھی منقول ہے اس میں ہے کہ حضرت مغیرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے ارادہ کیا کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف کو پیچھے کروں لیکن نبی کریم ﷺ نے فرمایا رہنے دو ۔
مرد کے لئے تسبیح اور عورت کے لئے تصفیق کے بیان میں جب نماز میں کچھ پیش آجائے۔
ابوبکر بن ابی شیبہ، عمرو ناقد، زہیر بن حرب، سفیان بن عیینہ، زہری، ابی سلمہ، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا تسبیح مردوں کے لئے اور تصفیق (تالیاں بجانا) عورتوں کے لئے ہے ابن شہاب (رض) کہتے ہیں کہ میں نے چند علماء کو دیکھا جو تسبیح اور اشارہ کرتے تھے۔
مرد کے لئے تسبیح اور عورت کے لئے تصفیق کے بیان میں جب نماز میں کچھ پیش آجائے۔
قتیبہ بن سعید، فضیل بن عیاض، ابوکریب، ابومعاویہ، اسحاق بن ابراہیم، عیسیٰ بن یونس، اعمش، ابی صالح ابوہریرہ (رض) سے یہی حدیث اس سند کے ساتھ نقل کی گئی ہے
مرد کے لئے تسبیح اور عورت کے لئے تصفیق کے بیان میں جب نماز میں کچھ پیش آجائے۔
محمد بن رافع، عبدالرزاق، معمر، ہمام، ابوہریرہ (رض) سے یہی حدیث ایک اور سند سے نقل کی گئی ہے لیکن اس میں اضافہ ہے کہ یہ عمل نماز میں کریں۔
نماز تحسین کے ساتھ اور خشوع وخضوع کے ساتھ ادا کرنے کے حکم کے بیان میں
ابوکریب، محمد بن علاء ہمدانی، ابواسامہ، ولید ابن کثیر، سعید بن ابی سعید مقبری، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک نماز پڑھائی پھر مڑے اور فرمایا اے فلاں تم نے اپنی نماز اچھی طرح ادا کیوں نہیں کی کیا نمازی کو دکھائی نہیں دیتا ہے کہ اس نے کس طرح نماز ادا کی ہے حالانکہ وہ اپنے ہی لئے نماز ادا کرتا ہے اور اللہ کی قسم میں اپنے پیچھے سے بھی اسی طرح دیکھتا ہوں جس طرح اپنے آگے دیکھتا ہوں۔
نماز تحسین کے ساتھ اور خشوع وخضوع کے ساتھ ادا کرنے کے حکم کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، مالک بن انس، ابوزناد، اعرج، ابوہریرہ (رض) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا تم میرا رخ ادھر دیکھتے ہو اللہ کی قسم مجھ پر تمہارے رکوع اور تمہارے سجود پوشیدہ نہیں اور میں تم کو اپنی پیٹھ کے پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں۔
نماز تحسین کے ساتھ اور خشوع وخضوع کے ساتھ ادا کرنے کے حکم کے بیان میں
محمد بن مثنی، ابن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، قتادہ، انس بن مالک (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا رکوع اور سجود کو اچھی طرح ادا کیا کرو اللہ کی قسم میں بیشک تم کو پشت کے پیچھے سے دیکھتا ہوں اور فرمایا کہ بعض مرتبہ تم کو اپنی پیٹھ پیچھے رکوع اور سجدہ کی حالت میں دیکھتا ہوں۔
نماز تحسین کے ساتھ اور خشوع وخضوع کے ساتھ ادا کرنے کے حکم کے بیان میں
ابوغسان، معاذ، ابن ہشام، محمد بن مثنی، ابن ابی عدی، سعید، قتادہ، انس سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ رکوع اور سجود پورا پورا ادا کیا کرو پس اللہ کی قسم میں تم کو اپنی پشت سے دیکھتا ہوں جب تم رکوع یا سجدہ کرو۔
امام سے پہلے رکوع وسجدہ وغیرہ کرنے کی حرمت کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، علی بن حجر، ابوبکر، ابن حجر، ابوبکر، علی بن مسہر، مختاربن فلفل، انس سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نماز پڑھائی جب نماز پوری کرچکے تو ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا اے لوگوں میں تمہارا امام ہوں مجھ سے رکوع سجدہ قیام کے ادا کرنے اور سلام پھیرنے میں سبقت نہ کرو میں تم کو آگے اور اپنے پیچھے سے دیکھتا ہوں پھر فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد ﷺ کی جان ہے اگر تم وہ دیکھو جو میں دیکھتا ہوں تو تم کم ہنسو اور روؤ زیادہ، لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ آپ ﷺ نے کیا دیکھا فرمایا میں نے جنت دوزخ کو دیکھا۔
امام سے پہلے رکوع وسجدہ وغیرہ کرنے کی حرمت کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، جریر، ابن نمیر، اسحاق بن ابراہیم، ابن فضیل، مختاربن فلفل، انس سے یہی حدیث اس سند سے بھی مروی ہے لیکن اس میں نماز سے پھر نے کا ذکر نہیں۔
امام سے پہلے رکوع وسجدہ وغیرہ کرنے کی حرمت کے بیان میں
خلف بن ہشام، ابوربیع، زہرانی، قتیبہ بن سعید، حماد، خلف بن حماد بن زید، محمد بن زیاد حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ محمد ﷺ نے فرمایا کیا وہ آدمی اس بات سے نہیں ڈرتا جو اپنا سر امام سے پہلے اٹھاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کا سر گدھے کے سر سے تبدیل کر دے۔
امام سے پہلے رکوع وسجدہ وغیرہ کرنے کی حرمت کے بیان میں
عمرو بن ناقد، زہیر بن حرب، اسماعیل بن ابراہیم، یونس محمد بن زیاد، ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا امن میں نہیں رہتا وہ شخص جو نماز میں اپنا سر امام سے پہلے اٹھاتا ہو کہ اللہ تعالیٰ اس کی صورت کو گدھے کی صورت سے تبدیل کر دے۔
امام سے پہلے رکوع وسجدہ وغیرہ کرنے کی حرمت کے بیان میں
عبدالرحمن بن سلام، عبدالرحمن بن ربیع بن مسلم، ربیع ابن مسلم، عبیداللہ بن معاذ، شعبہ، ابوبکر بن ابی شیبہ، وکیع، حماد بن سلمہ، محمد بن زیاد، ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کیا بےخوف ہے وہ آدمی جو اپنا سر امام سے پہلے اٹھاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کا چہرہ گدھے کے چہرے کی طرح کر دے۔
نماز میں آسمان کی طرف دیکھنے سے روکنے کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب، ابومعاویہ، اعمش، مسیب، تمیم بن طرفہ، جابر بن سمرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو لوگ نماز میں اپنی نگاہوں کو آسمان کی طرف اٹھاتے ہیں ان کو اس سے رک جانا چاہئے ورنہ اندیشہ ہے کہ ان کی نگاہ واپس نہ آئے۔
نماز میں آسمان کی طرف دیکھنے سے روکنے کے بیان میں
ابوطاہر، عمرو بن سواد، ابن وہب، لیث بن سعد، جعفر، ربیعہ، عبدالرحمن، اعرج، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا لوگوں کو نماز میں دعا کے وقت اپنی نظروں کو آسمان کی طرف اٹھانے سے باز آجانا چاہئے ورنہ ان کی نگاہیں چھین لی جائیں گی۔
نماز میں سکون کا حکم اور سلام کے وقت ہاتھ سے اشارہ کرنے اور ہاتھ کو اٹھانے کی ممانعت اور پہلی صف کو پورا کرنے اور مل کر کھڑے ہونے کے حکم کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب، ابومعاویہ، اعمش، مسیب بن رافع، تمیم بن طرفہ، جابر بن سمرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا کیا وجہ ہے کہ میں تم کو ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھتا ہوں جیسا کہ سرکش گھوڑوں کی دمیں ہیں، نماز میں سکون رکھا کرو فرماتے ہیں دوبارہ ایک دن تشریف لائے تو ہم کو حلقوں میں بیٹھے ہوئے دیکھا تو فرمایا کیا وجہ ہے کہ میں تم کو متفرق طور پر بیٹھے ہوئے دیکھتا ہوں پھر ایک مرتبہ ہمارے پاس تشریف لائے تو فرمایا کیا تم صفیں نہیں بناتے جیسا کہ فرشتے اپنے رب کے پاس صفیں بناتے ہیں فرمایا کہ پہلی صف کو مکمل کیا کرو اور صف میں مل مل کر کھڑے ہوا کرو۔
نماز میں سکون کا حکم اور سلام کے وقت ہاتھ سے اشارہ کرنے اور ہاتھ کو اٹھانے کی ممانعت اور پہلی صف کو پورا کرنے اور مل کر کھڑے ہونے کے حکم کے بیان میں
ابوسعید اشج، وکیع، اسحاق بن ابراہیم، عیسیٰ بن یونس، اعمش سے اس سند کے ساتھ بھی یہی حدیث مبارکہ اسی طرح مروی ہے۔
نماز میں سکون کا حکم اور سلام کے وقت ہاتھ سے اشارہ کرنے اور ہاتھ کو اٹھانے کی ممانعت اور پہلی صف کو پورا کرنے اور مل کر کھڑے ہونے کے حکم کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، وکیع، مسعر، ابوکریب، ابن ابی زائدہ، مسعر، عبیداللہ بن قبطیہ، جابر بن سمرہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز ادا کرتے تھے ہم السَّلَامُ عَلَيْکُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ اور السَّلَامُ عَلَيْکُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ کہتے اور اپنے ہاتھوں سے دونوں طرف اشارہ کرتے تھے تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا تم اپنے ہاتھوں سے اس طرح اشارہ کرتے ہو جیسا کہ سرکش گھوڑے کی دم تم میں سے ہر ایک کے لئے کافی ہے کہ وہ اپنی ران پر ہاتھ رکھے پھر اپنے بھائی پر اپنے دائیں طرف اور بائیں طرف سلام کرے۔
نماز میں سکون کا حکم اور سلام کے وقت ہاتھ سے اشارہ کرنے اور ہاتھ کو اٹھانے کی ممانعت اور پہلی صف کو پورا کرنے اور مل کر کھڑے ہونے کے حکم کے بیان میں
قاسم بن زکریا، عبیداللہ بن موسی، اسرائیل، عبیداللہ، جابر بن سمرہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز ادا کی پس جب ہم سلام پھیرتے تو ہم اپنے ہاتھوں سے السَّلَامُ عَلَيْکُمْ السَّلَامُ عَلَيْکُمْ کہتے نبی کریم ﷺ نے ہماری طرف دیکھا تو فرمایا تمہارا کیا حال ہے کہ تم اپنے ہاتھوں کے ساتھ اشارہ کرتے ہو جیسا کہ سرکش گھوڑوں کی دم جب تم میں سے کوئی سلام پھیرے تو چاہئے کہ اپنے ساتھی کی طرف اشارہ نہ کرے بلکہ اس کی طرف متوجہ ہو۔
صفون کو سیدھا کرنے اور پہلی صف کی فضیلت اور پہلی صف پر سبقت کرنے اور فضیلت والوں کو مقدم اور ان کا امام کے قریب ہونے کا بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، عبداللہ بن ادریس، ابومعاویہ، وکیع، اعمش، عمارہ بن عمیرتمیمی، ابن معمر، ابومسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے کندھوں پر نماز کے وقت ہاتھ پھیرتے اور فرماتے برابر ہوجاؤ اور آگے پیچھے نہ ہو ورنہ تمہارے دلوں میں پھوٹ پڑجائے گی اور چاہئے کہ تم میں سے جو عقلمند اور سمجھدار ہوں وہ قریب ہوں پھر جو ان کے قریب ہوں پھر جو ان کے قریب ہوں حضرت ابومسعود (رض) نے فرمایا آج تو لوگوں میں سخت اختلاف ہوگیا ہے۔
صفون کو سیدھا کرنے اور پہلی صف کی فضیلت اور پہلی صف پر سبقت کرنے اور فضیلت والوں کو مقدم اور ان کا امام کے قریب ہونے کا بیان میں
اسحاق، جریر، ابن خشرم، عیسیٰ ابن یونس، ابن ابی عمر، ابن عیینہ سے بھی اسی طرح حدیث مروی ہے۔
صفون کو سیدھا کرنے اور پہلی صف کی فضیلت اور پہلی صف پر سبقت کرنے اور فضیلت والوں کو مقدم اور ان کا امام کے قریب ہونے کا بیان میں
یحییٰ بن حبیب حارثی، صالح بن حاتم بن وردان، یزید بن زریع، خالد ابی معشر، ابراہیم، علقمہ، حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میں سے جو عقل و شعور والے لوگ ہوں وہ میرے قریب ہوں پھر جو ان سے ملے ہوئے ہوں تین مرتبہ فرمایا نیز فرمایا تم بازار کی لغو باتوں سے بچو۔
صفون کو سیدھا کرنے اور پہلی صف کی فضیلت اور پہلی صف پر سبقت کرنے اور فضیلت والوں کو مقدم اور ان کا امام کے قریب ہونے کا بیان میں
محمد بن مثنی، ابن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، قتادہ، انس بن مالک (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اپنی صفوں کو درست کرو کیونکہ صفوں کو سیدھا کرنے سے نماز کی تکمیل ہوتی ہے۔
صفون کو سیدھا کرنے اور پہلی صف کی فضیلت اور پہلی صف پر سبقت کرنے اور فضیلت والوں کو مقدم اور ان کا امام کے قریب ہونے کا بیان میں
شیبان بن فروخ، عبدالوارث، عبدالعزیز، ابن صہیب انس بن مالک (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا صفوں کو پورا کرو کیونکہ میں تم کو اپنی پیٹھ پیچھے سے دیکھتا ہوں۔
صفون کو سیدھا کرنے اور پہلی صف کی فضیلت اور پہلی صف پر سبقت کرنے اور فضیلت والوں کو مقدم اور ان کا امام کے قریب ہونے کا بیان میں
محمد بن رافع، عبدالرزاق، معمر، ہمام بن منبہ، ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی احادیث میں سے ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا نماز میں صف کو درست رکھو کیونکہ صف کو سیدھا رکھنا نماز کی خوبصورتی میں سے ہے۔
صفون کو سیدھا کرنے اور پہلی صف کی فضیلت اور پہلی صف پر سبقت کرنے اور فضیلت والوں کو مقدم اور ان کا امام کے قریب ہونے کا بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، غندر، شعبہ، محمد بن مثنی، ابن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، عمرو بن مرہ، سالم بن ابی جعد، حضرت نعمان بن بشیر (رض) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے تھے اپنی صفوں کو درست رکھا کرو ورنہ اللہ تمہارے چہروں کے درمیان پھوٹ ڈال دے گا۔
صفون کو سیدھا کرنے اور پہلی صف کی فضیلت اور پہلی صف پر سبقت کرنے اور فضیلت والوں کو مقدم اور ان کا امام کے قریب ہونے کا بیان میں
یحییٰ بن یحیی، ابوخیثمہ، سماک بن حرب، نعمان بن بشیر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہماری صفوں کو اس طرح سیدھا کرتے تھے جیسا کہ آپ ﷺ ان کے ساتھ تیروں کو سیدھا کر رہے ہیں یہاں تک کہ جب آپ ﷺ نے دیکھا کہ ہم نے آپ سے اس بات کو سمجھ لیا ہے پھر ایک دن آپ ﷺ نماز پڑھانے کے لئے کھڑے ہوئے یہاں تک کہ آپ ﷺ تکیبر کہنے والے تھے کہ آپ ﷺ نے ایک دیہاتی آدمی کے سینہ کو صف سے نکلا ہوا دیکھا تو فرمایا اے اللہ کے بندو اپنی صفوں کو سیدھا رکھا کرو ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے چہروں کے درمیان پھوٹ ڈال دے گا۔
صفون کو سیدھا کرنے اور پہلی صف کی فضیلت اور پہلی صف پر سبقت کرنے اور فضیلت والوں کو مقدم اور ان کا امام کے قریب ہونے کا بیان میں
حسن بن ربیع، ابوبکر بن ابی شیبہ، ابواحوص، قتیبہ بن سعید، ابوعوانہ، یہی حدیث اس دوسری سند سے بھی روایت کی گئی ہے۔
صفون کو سیدھا کرنے اور پہلی صف کی فضیلت اور پہلی صف پر سبقت کرنے اور فضیلت والوں کو مقدم اور ان کا امام کے قریب ہونے کا بیان میں
یحییٰ بن یحیی، مالک، ابوبکر، ابوصالح سمان، ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر لوگوں کو معلوم ہو کہ اذان دینے اور صف اول میں نماز پڑھنے کو کیا ثواب ہے اور وہ ان کو اگر بغیر قرعہ اندازی کے نہ پاسکیں تو قرعہ اندازی کریں اگر ان کو اول وقت نماز پڑھنے کی فضیلت کا پتہ چل جائے تو اس کی طرف سبقت کریں اور اگر ان کو عشاء اور فجر کی نماز کی فضیلت کا علم ہوجائے تو وہ ضرور جائیں اگرچہ گھسٹ کر ہی کیوں نہ ہو۔
صفون کو سیدھا کرنے اور پہلی صف کی فضیلت اور پہلی صف پر سبقت کرنے اور فضیلت والوں کو مقدم اور ان کا امام کے قریب ہونے کا بیان میں
شیبان بن فروخ، ابواشہب، ابی نصرہ عبدی، ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ کو پچھلی صف میں دیکھا تو ان سے فرمایا آگے بڑھو اور میری اقتداء کرو تاکہ تمہارے بعد والے تمہاری اقتداء کریں جو لوگ ہمیشہ پیچھے ہٹتے رہتے ہیں ان کو اللہ تعالیٰ پیچھے کردیتا ہے۔
صفون کو سیدھا کرنے اور پہلی صف کی فضیلت اور پہلی صف پر سبقت کرنے اور فضیلت والوں کو مقدم اور ان کا امام کے قریب ہونے کا بیان میں
عبداللہ بن عبدالرحمن، محمد بن عبداللہ رقاشی، بشر بن منصور، جریر، ابونصرہ، ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کچھ لوگوں کو مسجد کے آخر میں دیکھا تو ان سے یہی فرمایا جو اوپر ذکر ہوا ہے۔
صفون کو سیدھا کرنے اور پہلی صف کی فضیلت اور پہلی صف پر سبقت کرنے اور فضیلت والوں کو مقدم اور ان کا امام کے قریب ہونے کا بیان میں
ابراہم بن دینار، محمد بن حرب واسطی، عمرو بن ہشیم، ابوقطن، شعبہ، قتادہ، خلاس، ابورافع، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اگر تم یہ جانتے کہ پہلی صف میں کیا اجر ہے تو اس کے لئے قرعہ اندازی ہوتی۔
صفون کو سیدھا کرنے اور پہلی صف کی فضیلت اور پہلی صف پر سبقت کرنے اور فضیلت والوں کو مقدم اور ان کا امام کے قریب ہونے کا بیان میں
زہیر بن حرب، جریر سہیل، ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مردوں کی بہترین صف پہلی اور سب سے بری آخری ہے اور عورتوں کی سب سے افضل صف آخری ہے اور سب سے بری پہلی ہے۔
صفون کو سیدھا کرنے اور پہلی صف کی فضیلت اور پہلی صف پر سبقت کرنے اور فضیلت والوں کو مقدم اور ان کا امام کے قریب ہونے کا بیان میں
قتیبہ بن سعید، عبدالعزیز، حضرت سہیل (رض) نے بھی حضرت ابوہریرہ (رض) سے اس سند سے یہی حدیث روایت کی ہے۔
مردوں کے پیچھے نماز ادا کرنے والی عورتوں کے لئے حکم کے بیان میں کہ وہ مردوں سے پہلے سجدہ سے سر نہ اٹھائیں
ابوبکر بن ابی شیبہ، وکیع، سفیان ابی حازم، سہل بن سعد (رض) سے روایت ہے کہ میں نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ تنگی کی وجہ سے اپنے تہنبد بچوں کی طرح اپنے گلوں میں باندھ کر نبی کریم ﷺ کے پیچھے نماز ادا کرتے تھے تو کسی کہنے والے نے کہا اے عورتوں کی جماعت تم اپنے سروں کو مت اٹھاؤ یہاں تک کہ مرد اپنے سر نہ اٹھالیں۔
عورتوں کے لئے مسجد کی طرف نکلنا جبکہ فتنہ کا خوف نہ ہو اور وہ خوشبو لگا کر نہ نکلیں
عمرو ناقد، زہیر بن حرب، ابن عیینہ، زہیر، سفیان بن عیینہ، زہری سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کسی کی عورت اس سے مسجد میں جانے کی اجازت مانگے تو وہ اس کو نہ روکے۔
عورتوں کے لئے مسجد کی طرف نکلنا جبکہ فتنہ کا خوف نہ ہو اور وہ خوشبو لگا کر نہ نکلیں
حرملہ بن یحیی، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، سالم بن عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم اپنی عورتوں کو مساجد سے نہ روکو جب وہ تم سے اس کی اجازت طلب کریں بلال بن عبداللہ نے عرض کیا اللہ کی قسم ہم ان کو ضرور منع کریں گے جس پر حضرت عبداللہ (رض) نے ان پر اس قدر سخت ناراضگی کا اظہار کیا کہ اتنا کسی پر ناراض نہ ہوئے تھے اور فرمایا میں تجھ کو رسول اللہ ﷺ کے فرمان کی خبر دیتا ہوں اور تو کہتا ہے کہ ہم ان کو ضرور منع کریں گے۔
عورتوں کے لئے مسجد کی طرف نکلنا جبکہ فتنہ کا خوف نہ ہو اور وہ خوشبو لگا کر نہ نکلیں
محمد بن عبداللہ بن نمیر، ابن ادریس، عبیداللہ، نافع، ابن عمر سے رایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم اللہ کی باندیوں کو مسجدوں سے نہ روکو۔
عورتوں کے لئے مسجد کی طرف نکلنا جبکہ فتنہ کا خوف نہ ہو اور وہ خوشبو لگا کر نہ نکلیں
ابن نمیر، حنظلہ، سالم، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا جب تم سے تمہاری عورتیں مسجدوں کی طرف جانے کی اجازت طلب کریں تو ان کو اجازت دے دو ۔
عورتوں کے لئے مسجد کی طرف نکلنا جبکہ فتنہ کا خوف نہ ہو اور وہ خوشبو لگا کر نہ نکلیں
ابوکریب، ابومعاویہ، اعمش، مجاہد، ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم عورتوں کو رات کے وقت مساجد کی طرف نکلنے سے نہ روکو تو ابن عمر (رض) کے بیٹے نے عرض کیا کہ ہم تو ان کو نہیں جانے دیں گے تاکہ وہ اس کو دھوکہ و فریب کا ذریعہ نہ بنالیں ابن عمر (رض) نے اپنے بیٹے کو خوب ڈانٹا اور فرمایا کہ میں تو رسول اللہ ﷺ کا قول نقل کرتا ہوں اور تو کہتا ہے ہم ان کو اجازت نہیں دیں گے۔
عورتوں کے لئے مسجد کی طرف نکلنا جبکہ فتنہ کا خوف نہ ہو اور وہ خوشبو لگا کر نہ نکلیں
علی بن خشرم، عیسی، اعمش، اسی حدیث کی دوسری سند بیان کی ہے۔
عورتوں کے لئے مسجد کی طرف نکلنا جبکہ فتنہ کا خوف نہ ہو اور وہ خوشبو لگا کر نہ نکلیں
محمد بن حاتم، ابن رافع، شبابہ، عمرو، مجاہد، ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا عورتوں کو رات کے وقت مساجد کی طرف جانے کی اجازت دے دو تو ان کے بیٹے جن کو واقد کہا جاتا ہے نے عرض کیا وہ جب وہاں جانے کو دھوکہ و فریب کا ذریعہ بنائیں تو ابن عمر (رض) نے اس کے سینہ پر ضرب ماری اور فرمایا میں تجھے رسول اللہ ﷺ کی حدیث بیان کرتا ہوں اور تو کہتا ہے نہیں۔
عورتوں کے لئے مسجد کی طرف نکلنا جبکہ فتنہ کا خوف نہ ہو اور وہ خوشبو لگا کر نہ نکلیں
ہارون بن عبداللہ، عبداللہ بن یزید مقبری، سعید، ابن ابی ایوب، کعب بن علقمہ، حضرت بلال بن عبداللہ (رض) اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب عورتیں تم سے اجازت مانگیں تو ان کو مساجد کے ثواب حاصل کرنے سے منع نہ کرو تو بلال نے عرض کیا اللہ کی قسم ہم تو ان کو منع کریں گے تو اس پر عبداللہ (رض) نے فرمایا میں کہتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اور تو کہتا ہے کہ ہم منع کریں گے۔
عورتوں کے لئے مسجد کی طرف نکلنا جبکہ فتنہ کا خوف نہ ہو اور وہ خوشبو لگا کر نہ نکلیں
ہارون بن سعید ایلی، ابن وہب، مخرمہ، بسر بن سعید، زینب سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی عورت عشاء کی نماز میں حاضر ہو تو اس رات خوشبو نہ لگائے۔
عورتوں کے لئے مسجد کی طرف نکلنا جبکہ فتنہ کا خوف نہ ہو اور وہ خوشبو لگا کر نہ نکلیں
ابوبکر بن ابی شیبہ، یحییٰ بن سعید، قطان، محمد بن عجلان، بکیر بن عبداللہ بن اشج، بسر بن سعید، زینب، حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ حضرت زینب (رض) زوجہ عبداللہ (رض) نے کہا کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کوئی عورت مسجد جائے تو خوشبو نہ لگائے۔
عورتوں کے لئے مسجد کی طرف نکلنا جبکہ فتنہ کا خوف نہ ہو اور وہ خوشبو لگا کر نہ نکلیں
یحییٰ بن یحییٰ ، اسحاق بن ابر اہیم، عبداللہ بن محمد بن عبداللہ بن ابوفروہ، یزید بن خصیفہ، بسر بن سعید، ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب کوئی عورت خوشبو کی دھونی لے تو وہ ہمارے ساتھ نماز عشاء میں شریک نہ ہو۔
عورتوں کے لئے مسجد کی طرف نکلنا جبکہ فتنہ کا خوف نہ ہو اور وہ خوشبو لگا کر نہ نکلیں
عبداللہ بن مسلمہ بن قعنب، سلیمان بن بلال، یحیی، ابن سعید، عمرہ بنت عبدالرحمن، سیدہ عائشہ (رض) زوجہ نبی کریم ﷺ سے روایت ہے کہ اگر رسول اللہ ﷺ عورتوں کے اس بناؤ سنگھار کو دیکھ لیتے تو ان کو مسجدوں سے منع فرما دیتے جیسا کہ بنی سرائیل کی عورتوں کو منع کردیا گیا راوی کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کیا بنی اسرائیل کی عورتوں کو مسجد جانے سے منع کردیا گیا تھا تو سیدہ (رض) نے فرمایا ہاں !
عورتوں کے لئے مسجد کی طرف نکلنا جبکہ فتنہ کا خوف نہ ہو اور وہ خوشبو لگا کر نہ نکلیں
محمد بن مثنی، عبدالوہاب ثفقی، عمرو ناقد، سفیان بن عیینہ، ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوخالد، احمر اسحاق بن ابراہیم، عیسیٰ بن یونس، اسی حدیث کو اس سند کے ساتھ بھی روایت کیا گیا ہے۔
جہری نمازوں میں جب خوف ہو تو قرأت درمیانی آواز سے کرنے کے بیان میں
ابوجعفر، محمد بن صباح، عمرو ناقد، ہشیم، ابن صباح، ہشیم، ابوبشر، سعید بن جبیر، ابن عباس (رض) سے اللہ تبارک وتعالی کا قول ( وَلَا تَجْ هَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا) 17 ۔ الاسراء : 110) کی تفسیر میں روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ مکہ میں چھپ کر اپنے صحابہ کو نماز پڑھاتے تھے اور آپ ﷺ بلند آواز سے قرأت قرآن فرماتے تھے جب مشرکین قرآن سنتے تو وہ قرآن اور اس کے نازل کرنے والے اور اس کے لانے والے کو برا کہتے تو اللہ عزوجل نے اپنے نبی ﷺ سے فرمایا اس قدر بلند آواز سے نہ پڑھیں کہ مشرکین آپ ﷺ کی تلاوت سن لیں اور نہ اتنا آہستہ پڑھیں کہ آپ ﷺ کے اصحاب بھی نہ سن سکیں بلکہ ان دونوں کے درمیان راستہ نکالیں جہراً اور پوشیدہ کے درمیان۔
جہری نمازوں میں جب خوف ہو تو قرأت درمیانی آواز سے کرنے کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، یحییٰ بن زکریا، ہشام بن عروہ، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قول (وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِکَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا) بھا دعا کے بارے میں نازل ہوا ہے۔
جہری نمازوں میں جب خوف ہو تو قرأت درمیانی آواز سے کرنے کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، حماد، ابن زید، ابوبکر بن ابی شیبہ، ابواسامہ، وکیع، ابوکریب، ابومعاویہ، ہشام، اس سند سے بھی یہی حدیث روایت کی گئی ہے۔
قرات سننے کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، ابوبکر بن ابی شیبہ، اسحاق بن ابراہیم، جریر، ابوبکر، جریر بن عبدالحمید، موسیٰ بن ابی عائشہ، سعید، بن جبیر، ابن عباس (رض) سے اللہ تعالیٰ کے قول (لَا تُحَرِّکْ بِهِ لِسَانَکَ ) کے بارے میں روایت ہے کہ جب جبرائیل وحی لے کر نازل ہوتے تو نبی کریم ﷺ اپنی زبان اور ہونٹ مبارک کو حرکت دیتے ہوئے دہراتے تھے اور اس میں مشکل ہوتی اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں ( لَا تُحَرِّکْ بِهِ لِسَانَکَ ) آپ ﷺ اپنی زبان کو یاد کرنے کی خاطر جلدی حرکت نہ دیں۔ ہمارے ذمہ ہے کہ اسے ہم آپ ﷺ کے سینہ میں جمع کردیں اور آپ اسے پڑھا دیں، فرمایا جب ہم قرآن کو آپ ﷺ پر نازل کریں تو آپ ﷺ اس کو سنیں (إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ ) ہم اس کو آپ ﷺ کی زبان سے بیان کرائیں گے پس اس کے بعد جب جبرائیل آپ ﷺ کے پاس آتے تو آپ ﷺ گردن جھکا دیتے اور جب جبرائیل چلے جاتے تو آپ ﷺ اللہ کے وعدے کے مطابق قرآن پڑھتے۔
قرات سننے کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، ابوعوانہ، موسیٰ بن ابی عائشہ (رض) ، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس (رض) سے اللہ تعالیٰ کے قول (لَا تُحَرِّکْ بِهِ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِهِ ) کی تفسیر میں روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نزول وحی سے تکلیف میں پڑجاتے آپ ﷺ اپنے ہونٹوں کو حرکت دیا کرتے راوی کہتا ہے کہ مجھے حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا میں ہونٹوں کو تیرے لئے اسی طرح حرکت دوں جس طرح رسول اللہ ﷺ حرکت دیتے پھر اپنے ہونٹوں کو ابن عباس (رض) نے حرکت دی تو سعید (رض) نے کہا میں تم کو اسی طرح ہونٹ ہلا کر دکھاتا ہوں جس طرح ابن عباس (رض) اپنے ہونٹوں کو ہلاتے تھے پھر ہونٹ ہلائے اللہ تعالیٰ نے آیات ذیل نازل فرمائیں (لَا تُحَرِّکْ بِهِ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِهِ ِانَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ ) تفسیر میں فرمایا آپ ﷺ کے سینہ میں اسے جمع کرنا کہ پھر آپ اسے قرأت کرسکیں ہمارے ذمہ ہے فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ میں فرمایا کہ کان لگا کر سنو اور خاموش رہو پھر ہم پر لازم ہے کہ آپ ﷺ سے اس کی قرأت کرا دیں پھر جب جبرائیل آپ کے پاس آتے تو آپ ﷺ کان لگا کر سنتے اور جب وہ چلے جاتے تو آپ ﷺ اس کی قرأت کے مطابق قرأت فرماتے۔
نماز فجر میں جہری قرأت اور جنات کے سامنے قرأت کے بیان میں
شیبان بن فروخ، ابوعوانہ، ابی بشر، سعید بن جبیر، ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جنات کے سامنے قرآن پڑھا نہ ان کو دیکھا تھا، رسول اللہ ﷺ اپنے اصحاب کی جماعت میں بازار عکاظ کا ارادہ کرکے جا رہے تھے اور شیطانوں اور آسمانی خبروں کا درمیانی واسطہ بند ہوگیا اور ان پر آگ کے شعلے برسائے جانے لگے تو شیطان اپنی قوم کی طرف واپس آئے تو انہوں نے کہا تمہیں کیا ہوگیا ہے انہوں نے کہا ہمارے اور آسمانی خبروں کے درمیان کوئی حائل ہوگیا ہے اور ہم پر آگ کے شعلے برسائے جاتے ہیں انہوں نے کہا کہ ضرور کوئی نئی بات پیش آگئی ہے پس پھرو تم مشرق ومغرب میں اور دیکھو کہ ہمارے اور آسمان کے درمیان کیا چیز حائل ہوگئی ہے پس وہ چلے اور مشارق ومغا رب میں پھرے پس ان میں سے کچھ جنات تہامہ کی طرف سے گزرے اور آپ ﷺ مقام نخل پر بازار عکاظ کو گئے اور اپنے اصحاب کو نماز فجر پڑھائی جب انہوں نے توجہ و غور سے قرآن کی آواز سنی تو انہوں نے کہا کہ یہ وہ چیز ہے جو ہمارے اور آسمانی خبروں کے درمیان حائل ہوگئی ہے وہ اپنی قوم کی طرف لوٹے اور انہوں نے کہا اے ہماری قوم ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے جو ہدایت کی طرف رہنمائی کرتا ہے ہم تو اس پر ایمان لے آئے اور ہم اپنے اکیلے رب کے ساتھ شرک نہیں کریں گے تو اللہ نے اپنے نبی محمد ﷺ پر (قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّهُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِنْ الْجِنِّ ) یعنی سورت الجن نازل فرمائی۔
نماز فجر میں جہری قرأت اور جنات کے سامنے قرأت کے بیان میں
محمد بن مثنی، عبدالاعلی، داؤد، عامر سے روایت ہے کہ میں نے علقمہ (رض) سے پوچھا کیا ابن مسعود (رض) رسول اللہ ﷺ کے ساتھ لیلۃ الجن میں تھے تو علقمہ نے کہا میں نے ابن مسعود (رض) سے پوچھا کیا تم میں سے کوئی لیلہ الجن میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا تو انہوں نے کہا کہ نہیں لیکن ایک رات ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے ہم نے رسول اللہ ﷺ کو نہ پایا تو ہم نے آپ ﷺ کو پہاڑی وادیوں اور کھائیوں میں تلاش کیا ہم نے کہا کہ آپ ﷺ کو جن لے گئے یا کسی نے دھوکہ سے شہید کردیا بہر حال ہم نے وہ رات بد ترین رات والی قوم کی طرح گزاری جب ہم نے صبح کی تو آپ ﷺ حرا کی طرف سے تشریف لائے ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ہم نے آپ کو گم پایا اور آپ کو تلاش کیا اور آپ ﷺ کو نہ ڈھونڈ سکے ہم نے رات اس طرح گزاری جیسے کوئی قوم سخت بےچینی میں رات گزارتی ہے آپ ﷺ نے فرمایا میرے پاس جنات کی طرف سے بلانے والا آیا میں اس کے ساتھ چلا گیا اور میں نے ان کے سامنے قرآن کی تلاوت کی فرمایا پھر وہ ہمیں اپنے ساتھ لے گئے اور ہمیں اپنے جنات کے نشانات اور آگ کے نشانات دکھائے جنات نے آپ ﷺ سے اپنے کھانے کی چیزوں کے بارے میں سوال کیا تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا ہر وہ ہڈی جس کو اللہ کے نام کے ساتھ ذبح کیا گیا ہو تمہارے ہاتھوں میں آتے ہی وہ گوشت کے ساتھ پر ہوجائے گی اور ہر مینگنی تمہارے جانوروں کی خوراک ہے پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہڈی اور مینگنی سے استنجا نہ کرو کیونکہ یہ دونوں تمہارے بھائیوں کا کھانا ہیں۔
نماز فجر میں جہری قرأت اور جنات کے سامنے قرأت کے بیان میں
علی بن حجر سعدی، اسماعیل بن ابراہیم، داؤد اس دوسری سند سے یہی حدیث اس اضافہ کے ساتھ روایت کی گئی ہے کہ وہ جن جزیرہ کے تھے۔
نماز فجر میں جہری قرأت اور جنات کے سامنے قرأت کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، عبداللہ بن ادریس، داؤد، شعبی، علقمہ، عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اور یہ حدیث جنات کے آثار تک ہے اس سے آگے ذکر نہیں کی۔
نماز فجر میں جہری قرأت اور جنات کے سامنے قرأت کے بیان میں
یحییٰ بن یحییٰ ، خالد بن عبداللہ، خالدحذاء، ابومعشر، ابراہیم، علقمہ، عبداللہ سے روایت ہے کہ میں لیلہ الجن میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نہ تھا اور میری خواہش ہے کہ میں آپ ﷺ کے ساتھ ہوتا۔
نماز فجر میں جہری قرأت اور جنات کے سامنے قرأت کے بیان میں
سعید بن محمد جرمی، عبیداللہ بن سعید، ابواسامہ، مسعر، معن، مسرور، حضرت معن (رض) سے روایت ہے کہ میں نے اپنے والد سے سنا انہوں نے مسروق سے پوچھا کہ نبی کریم ﷺ کو جنات کے رات کے وقت قرآن سننے کی خبر کس نے دی تو انہوں نے کہا مجھے آپ کے والد ابن مسعود نے بیان کیا کہ آپ ﷺ کو جنات کی خبر ایک درخت نے دی۔
نماز ظہر وعصر میں قرأت کے بیان میں
محمد بن مثنی، عنزی، ابن ابی عدی، حجاج، صواف، یحییٰ ابن ابی کثیر، عبداللہ بن ابی قتادہ، ابی سلمہ، ابوقتادہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں ظہر اور عصر کی نماز پڑھاتے اور پہلی دو رکعتوں میں سورت فاتحہ اور اس کے علاوہ کوئی دو اور سورتیں تلاوت فرمایا کرتے تھے اور کبھی ہمیں ایک آیت مبارکہ سناتے تھے اور ظہر کی پہلی رکعت لمبی اور دوسری چھوٹی ہوتی اور اسی طرح صبح کی نماز میں۔
نماز ظہر وعصر میں قرأت کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، یزید بن ہارون، ہمام، ابان بن یزید، یحییٰ بن ابی کثیر، عبداللہ بن ابی قتادہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں سورت فاتحہ اور ایک ایک سورت پڑھتے تھے اور کبھی ایک آیت ہمیں سنا دیتے اور آخری دو رکعتوں میں سورت فاتحہ پڑھی کرتے تھے۔
نماز ظہر وعصر میں قرأت کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، ابوبکر بن ابی شیبہ، ہشیم، یحیی، ہشیم، منصور، ولید بن مسلم، ابوصدیق، ابوسعید، خدری سے روایت ہے کہ ہم ظہر اور عصر میں رسول اللہ ﷺ کے قیام کے اندازہ کرتے پس ہم نے ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں آپ ﷺ کے قیام کا اندازہ یہ کیا کہ جیسے الم تَنْزِيلُ السَّجْدَةِ پڑھی جائے اور آپ ﷺ کی آخری دو رکعتوں میں قیام کا اندازہ اس سے نصف کا اور عصر کی پہلی دو رکعتوں میں اس سے نصف ابوبکر (رض) نے اپنی روایت میں الم کا اندازہ نہیں ذکر کیا بلکہ تیس آیات کی مقدار کہا ہے۔
نماز ظہر وعصر میں قرأت کے بیان میں
شیبان بن فروخ، ابوعوانہ، منصور، ولید بن مسلم، بشر، ابوصدیق، ناجی، ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں سے ہر رکعت میں تیس آیات کی مقدار کے برابر پڑھا کرتے تھے اور آخری دو رکعتوں میں پندرہ آیات کی مقدار اور عصر کی پہلی دو رکعتوں میں پندرہ آیات کی مقدار کے برابر اور آخری دو رکعتوں میں اس کی آدھی مقدار۔
نماز ظہر وعصر میں قرأت کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، ہشیم، عبدالملک بن عمیر، جابر بن سمرہ سے روایت ہے کہ سید نا عمر (رض) نے حضرت سعد (رض) سے فرمایا لوگوں نے آپ کی ہر بات کی یہاں تک کہ نماز کی بھی شکایت کی ہے تو انہوں نے کہا بہرحال میں تو پہلی دو رکعتوں کو لمبا اور آخری دو رکعتوں کو مختصر کرتا ہوں اور میں نماز کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کی پیروی سے کوتاہی نہیں کرتا تو فاروق اعظم (رض) نے فرمایا آپ کے بارے میں اے ابواسحاق مجھے بھی یہی گمان تھا۔
نماز ظہر وعصر میں قرأت کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، اسحاق بن ابراہیم، جریر، عبدالملک بن عمیر سے بھی یہی حدیث اس سند سے منقول ہے۔
نماز ظہر وعصر میں قرأت کے بیان میں
محمد بن مثنی، عبدالرحمن بن مہدی، شعبہ، ابی عون، جابر بن سمرہ سے روایت ہے کہ سید نا عمر (رض) نے حضرت سعد (رض) سے فرمایا لوگوں نے آپ کی ہر بات کی یہاں تک کہ نماز کی بھی شکایت کی ہے تو انہوں نے کہا بہر حال میں تو پہلی دو رکعتوں کو لمبا اور آخری دو کو مختصر کرتا ہوں اور میں نماز کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کی پیروی سے کوتاہی نہیں کرتا تو فاروق اعظم (رض) نے فرمایا آپ کے بارے میں میرا بھی یہی گمان تھا۔
نماز ظہر وعصر میں قرأت کے بیان میں
ابوکریب، ابن بشر، مسعر، عبدالملک، ابوعون، حضرت جابر بن سمرہ (رض) سے روایت ہے کہ یہ دیہاتی مجھے نماز سکھاتے ہیں باقی حدیث اسی طرح ہے۔
نماز ظہر وعصر میں قرأت کے بیان میں
داؤد بن رشید، ولید بن مسلم، سعید ابن عبدالعزیز، عطیہ بن قیس، قزعہ، حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ ظہر کی جماعت کھڑی ہوجاتی ہے جانے والا بقیع جاتا اور اپنی حاجت پوری کرتا پھر وضو کر کے آتا اور رسول اللہ ﷺ پہلی رکعت میں ہوتے اس قدر اس کو لمبا کرتے۔
نماز ظہر وعصر میں قرأت کے بیان میں
محمد بن حاتم، عبدالرحمن بن مہدی، معاویہ بن صالح، ربیعہ، قزعہ، حضرت قزعہ سے روایت ہے کہ میں حضرت ابوسعید خدری (رض) کے پاس آیا اور وہاں کثرت سے لوگ موجود تھے جب لوگ ان سے جدا ہوئے تو میں نے کہا میں آپ سے رسول اللہ ﷺ کی نماز کے بارے میں سوال کرتا ہوں تو حضرت ابوسعید (رض) نے فرمایا اس میں تیرے لئے بھلائی نہیں اس لئے میں نے اپنا سوال دوبارہ دہرا یا تو انہوں نے فرمایا کہ نماز کی جماعت کھڑی ہوتی تو ہم میں سے کوئی بقیع جاتا اور اپنی حاجت پوری کرتا پھر اپنے گھر آکر وضو کرتا پھر مسجد کی طرف لوٹتا تو رسول اللہ ﷺ پہلی رکعت میں ہوتے۔
نماز فجر میں قرأت کے بیان میں
ہارون بن عبداللہ، حجاج بن محمد، ابن جریج، محمد بن رافع، عبدالرزاق، ابن جریج، محمد بن عباد بن جعفر، ابوسلمہ بن سفیان، عبداللہ بن عمرو بن عاص، عبداللہ بن مسیب بن عابدی، حضرت عبداللہ بن سائب (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ہمیں مکہ میں نماز صبح پڑھائی اور آپ ﷺ نے سورت مومنون شروع فرمائی یہاں تک کہ موسیٰ و ہارون یا حضرت عیسیٰ کا ذکر آیا تو آپ ﷺ کو کھانسی آنے لگی تو آپ ﷺ نے رکوع کردیا اور حضرت عبداللہ بن سائب (رض) موجود تھے عبدالرزاق کی حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے تلاوت چھوڑ کر رکوع کیا۔
نماز فجر میں قرأت کے بیان میں
زہیر بن حرب، یحییٰ بن سعید، ابوبکر بن ابی شیبہ، وکیع، ابوکریب، ابن بشر، مسعر، ولید بن سریع، عمرو بن حریث سے روایت ہے کہ انہوں نے فجر کی نماز میں نبی کریم ﷺ سے (وَالَّيْلِ اِذَا عَسْعَسَ ) 81 ۔ التکویر : 17) آیت سنی۔
نماز فجر میں قرأت کے بیان میں
ابوکامل جحدری، فضیل بن حسین، ابوعوانہ، زیاد بن علاقہ، حضرت قطبہ (رض) بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ میں نے نماز ادا کی اور ہمیں رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھائی۔ آپ ﷺ نے سورت (ق وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ ) 50 ۔ ق : 1) پڑھی جب آپ ﷺ نے (وَالنَّخْلَ بٰسِقٰتٍ لَّهَا طَلْعٌ نَّضِيْدٌ) 50 ۔ ق : 10) پڑھا تو اس آیت کو دہراتے رہے اور مجھے معلوم نہیں کہ آپ ﷺ نے کیا کہا۔
نماز فجر میں قرأت کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، شریک، ابن عیینہ، زہیر بن حرب، ابن عیینہ، حضرت زیاد بن علاقہ (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت نبی کریم ﷺ سے فجر کی نماز میں ( وَالنَّخْلَ بَاسِقَاتٍ لَهَا طَلْعٌ نَضِيدٌ) 50 ۔ ق : 10) پڑھتے ہوئے سنا۔
نماز فجر میں قرأت کے بیان میں
محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، زیاد بن علاقہ اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ فجر کی نماز ادا کی تو آپ ﷺ نے ایک رکعت میں (وَالنَّخْلَ بَاسِقَاتٍ لَهَا طَلْعٌ نَضِيدٌ) 50 ۔ ق : 10) پڑھا یا کبھی راوی کہتا ہے کہ سورت ق پڑھی۔
نماز فجر میں قرأت کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، حسین بن علی، زائدہ، سماک بن حرب، جابر بن سمرہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ فجر کی نماز میں (ق وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ ) 50 ۔ ق : 1) پڑھا کرتے تھے لیکن بعد میں آپ ﷺ کی نماز کچھ مختصر ہوگئی تھی۔
نماز فجر میں قرأت کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، محمد بن رافع، ابن رافع، یحییٰ بن آدم، زہیر بن سماک سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت جابر بن سمرہ سے نبی کریم ﷺ کی نماز کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا آپ ﷺ مختصر نماز ادا کرتے تھے آپ ﷺ ان لوگوں کی طرح نماز ادا نہ کرتے تھے اور رسول اللہ ﷺ فجر کی نماز میں سورت (ق وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ ) 50 ۔ ق : 1) یا اس کی مثل دوسری سورتیں پڑھا کرتے تھے۔
نماز فجر میں قرأت کے بیان میں
محمد بن مثنی، عبدالرحمن بن مہدی، شعبہ، سماک، جابر بن سمرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز ظہر میں (وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَی) 92 ۔ اللیل : 1) اور عصر میں بھی اسی کی طرح قرأت فرماتے تھے اور فجر کی نماز میں اس سے لمبی قرأت فرماتے۔
نماز فجر میں قرأت کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوداؤد طیالسی، شعبہ، سماک، حضرت جابر بن سمرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ ظہر کی نماز میں (سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلَی) 87 ۔ الأعلی : 1) پڑھتے تھے اور فجر میں اس سے لمبی قرأت فرماتے تھے۔
نماز فجر میں قرأت کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، یزید بن ہارون تمیمی، ابی منہال، ابی برزہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ صبح کی نماز میں ساٹھ سے سو آیات کی قرأت فرماتے تھے۔
نماز فجر میں قرأت کے بیان میں
ابوکریب، وکیع، سفیان، خالد حذاء، ابومنہال، ابی برزہ، اسلمی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز فجر میں ساٹھ سے سو آیات کے درمیان پڑھتے تھے۔
نماز فجر میں قرأت کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، مالک، ابن شہاب، عبیداللہ بن عبداللہ، ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ ام الفضل بنت الحارث (رض) نے اسے (وَالْمُرْسَلَاتِ عُرْفًا) 77 ۔ مرسلات : 1) پڑھتے ہوئے سنا تو فرمایا اے پیارے بیٹے تو نے مجھے اپنی اس سورت کی قرأت کے ساتھ یاد کروا دیا کیونکہ سب سے آخر میں جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے مغرب کی نماز میں سنا وہ یہی سورت تھی۔
نماز فجر میں قرأت کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، عمروناقد، سفیان، حرملہ بن یحییٰ ، ابن وہب، یونس، اسحاق بن ابراہیم، عبد بن حمید، عبدالرزاق، معمر، عمروناقد، یعقوب بن ابراہیم بن سعد، صالح، زہری ان اسناد کے ساتھ بھی یہی حدیث روایت کی گئی ہے لیکن اس میں یہ زیادہ ہے کہ پھر آپ ﷺ نے نماز نہیں پڑھائی یہاں تک کہ اللہ عزوجل نے آپ ﷺ کو اپنے پاس بلا لیا۔
نماز فجر میں قرأت کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، مالک، ابن شہاب، محمد بن جبیر بن مطعم (رض) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے نماز مغرب میں سورت طور پڑھتے ہوئے سنا۔
نماز فجر میں قرأت کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، زہیر بن حرب، سفیان، حرملہ بن یحیی، ابن وہب، یونس، اسحاق بن ابراہیم، عبد بن حمید، عبدالرزاق، معمر، زہری ان اسناد کے ساتھ بھی یہی حدیث روایت کی گئی ہے۔
نماز عشاء میں قرأت کے بیان میں
عبیداللہ بن معاذ، شعبہ، عدی، حضرت براء بن عازب (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک سفر میں نماز عشا پڑھائی اور دو رکعتوں میں سے ایک رکعت میں وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ پڑھی۔
نماز عشاء میں قرأت کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، لیث، یحیی، ابن سعید، عدی بن ثابت، حضرت براء بن عازب (رض) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ عشاء کی نماز ادا کی آپ ﷺ نے (والتِّينِ وَالزَّيْتُونِ ) 95 ۔ التین : 1) پڑھی۔
نماز عشاء میں قرأت کے بیان میں
محمد بن عبیداللہ بن نمیر، مسعر، عدی بن ثابت، براء بن عازب (رض) سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے عشاء کی نماز میں (وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ ) 95 ۔ التین : 1) سنی اور میں نے آپ ﷺ سے (زیادہ) بہترین آواز (میں قرآن کی تلاوت) کسی سے نہیں سنی۔
نماز عشاء میں قرأت کے بیان میں
محمد بن عباد، سفیان، عمرو، حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ حضرت معاذ (رض) نبی کریم ﷺ کے ساتھ نماز ادا کرتے پھر اپنی قوم کے پاس آتے اور ان کی امامت کرتے ایک رات انہوں نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ نماز عشاء ادا کی پھر اپنی قوم کے پاس آئے اور ان کی امامت کی اور سورت بقرہ شروع کردی ایک آدمی نے منہ موڑا، سلام پھیرا اور اکیلے نماز ادا کی اور چلا گیا لوگوں نے اس سے کہا کیا تو منافق ہوگیا ہے اے فلاں ! اس نے کہا نہیں اللہ کی قسم اور میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں اس کی خبر دینے حاضر ہوں گا اور وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا اے اللہ کے رسول ﷺ ہم اونٹوں والے ہیں دن پھر کام کرتے ہیں اور معاذ نے آپ ﷺ کے ساتھ نماز عشاء ادا کی پھر آئے اور سورت البقرہ شروع کردی تو رسول اللہ ﷺ نے معاذ کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا اے معاذ کیا تو امتحان میں ڈالنے والا ہے فلاں فلاں (سورتوں) کے ساتھ نماز پڑھا کرو۔
نماز عشاء میں قرأت کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، لیث، رمح، ابوزبیر، حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ حضرت معاذ بن جبل انصاری (رض) نے اپنے ساتھیوں کو عشاء کی نماز لمبی پڑھائی ہم میں سے ایک آدمی نے علیحدہ نماز ادا کی معاذ کو اس کی خبر دی گئی تو انہوں نے کہا کہ وہ منافق ہے جب اس آدمی کو خبر پہنچی تو اس نے رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہو کر حضرت معاذ کی (دوسری روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا (وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا، سَبِّحْ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلَی، اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ وغیرہ پڑھا کر) اس بات کی خبر دی تو رسول اللہ ﷺ نے معاذ (رض) سے کہا کیا تم فتنہ پرور بننا چاہتے ہو اے معاذ جب تم لوگوں کو نماز پڑھاؤ تو (الشَّمْسِ وَضُحَاهَا، سَبِّحْ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلَی، اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ ، وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَی) کے ساتھ نماز پڑھا کرو۔
نماز عشاء میں قرأت کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، ہشیم، منصور، عمرو بن دینار، حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ معاذ بن جبل (رض) عشاء کی نماز رسول اللہ ﷺ کے ساتھ پڑھ کر اپنی قوم کی طرف لوٹتے تھے پھر ان کو یہی نماز پڑھاتے تھے۔
نماز عشاء میں قرأت کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، ابوربیع، زہرانی، ابوربیع، حماد، ایوب، عمرو بن دینار، جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ معاذ (رض) نماز عشاء رسول اللہ ﷺ کے ساتھ پڑھتے پھر اپنی قوم کی مسجد میں آکر ان کو نماز پڑھاتے تھے۔
ائمہ کے لئے نماز پوری اور تخفیف کے ساتھ پڑھانے کے حکم کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، ہشیم، اسماعیل بن ابی خالد، قیس، حضرت ابومسعود انصاری (رض) سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا میں فلاں فلاں آدمی کی وجہ سے جو ہمیں بہت لمبی نماز پڑھاتا ہے نماز سے رہ جاتا ہوں حضرت ابومسعود (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو اس دن سے زیادہ غصہ میں کبھی نہیں دیکھا آپ ﷺ نے فرمایا اے لوگو تم میں سے بعض متنفر کرنے والے ہیں تم میں سے جو لوگوں کی امامت کرے تو وہ تخفیف کرے کیونکہ اس کی اقتداء میں بوڑھے کمزور اور حاجت مند لوگ ہوتے ہیں۔
ائمہ کے لئے نماز پوری اور تخفیف کے ساتھ پڑھانے کے حکم کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، ہشیم، وکیع، ابن نمیر، ابن ابی عمر، ان اسناد کے ساتھ بھی یہی حدیث مبارکہ روایت کی گئی ہے۔
ائمہ کے لئے نماز پوری اور تخفیف کے ساتھ پڑھانے کے حکم کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، مغیرہ، ابن عبدالرحمن حزامی، ابوزناد، اعرج، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی لوگوں کی امامت کرے تو چاہیے کہ ہلکی نماز پڑھائے کیونکہ ان میں بچے بوڑھے کمزور اور بیمار ہوتے ہیں اور جب اکیلا نماز ادا کرے تو جیسے چاہے پڑھے۔
ائمہ کے لئے نماز پوری اور تخفیف کے ساتھ پڑھانے کے حکم کے بیان میں
ابن رافع، عبدالرزاق، معمر، ہمام بن منبہ، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی لوگوں کی امامت کرے تو ہلکی نماز پڑھائے کیونکہ ان میں کمزور بھی ہوتے ہیں اور جب اکیلا کھڑا ہو تو جیسے چاہے اپنی نماز ادا کرے۔
ائمہ کے لئے نماز پوری اور تخفیف کے ساتھ پڑھانے کے حکم کے بیان میں
حرملہ بن یحیی، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، ابوسلمہ بن عبدالرحمن، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی لوگوں کو نماز پڑھائے تو ہلکی پڑھائے کیونکہ لوگوں میں کمزور بیمار اور حاجت مند ہوتے ہیں۔
ائمہ کے لئے نماز پوری اور تخفیف کے ساتھ پڑھانے کے حکم کے بیان میں
عبدالملک بن شعیب بن لیث، لیث بن سعد، یونس، ابن شہاب، ابوبکر بن عبدالرحمن، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اسی طرح فرمایا لیکن اس حدیث میں بیمار کے بجائے بوڑھے کا لفظ ہے باقی حدیث اسی طرح ہے۔
ائمہ کے لئے نماز پوری اور تخفیف کے ساتھ پڑھانے کے حکم کے بیان میں
محمد بن عبداللہ بن نمیر، عمرو بن عثمان، موسیٰ بن طلحہ، حضرت عثمان بن ابی العاص ثقفی (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اسے فرمایا اپنی قوم کی امامت کیا کرو وہ کہتے ہیں میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میں اپنے دل میں کچھ محسوس کرتا ہوں آپ ﷺ نے فرمایا قریب ہوجا اور مجھے اپنے سامنے بٹھایا پھر اپنی ہتھیلی میرے سینے پر میری چھاتی کے درمیان رکھی پھر فرمایا گھوم جا اور اپنی ہتھیلی میری پیٹھ پر کندھوں کے درمیان رکھی پھر فرمایا اپنی قوم کی امامت کر جو امامت کرے اسے چاہیے کہ مختصر کرے کیونکہ ان میں بوڑھے مریض کمزور اور حاجت مند بھی ہوتے ہیں اور جب تم میں سے کوئی اکیلے نماز ادا کرے تو جیسے چاہے ادا کرے۔
ائمہ کے لئے نماز پوری اور تخفیف کے ساتھ پڑھانے کے حکم کے بیان میں
محمد بن مثنی، ابن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، عمرو بن مرہ، سعید بن مسیب، حضرت عثمان بن ابی وقاص (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے جو آخری عہد لیا تھا وہ یہ تھا کہ جب تو امامت کرے تو ان کو مختصر نماز پڑھائے۔
ائمہ کے لئے نماز پوری اور تخفیف کے ساتھ پڑھانے کے حکم کے بیان میں
خلف بن ہشام، ابوربیع، زہرانی، حماد بن زید، عبدالعزیز بن صہیب، حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ ہلکی اور کامل نماز پڑھاتے تھے۔
ائمہ کے لئے نماز پوری اور تخفیف کے ساتھ پڑھانے کے حکم کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، یحییٰ بن قتیبہ بن سعید، یحیی، قتیبہ، ابوعوانہ، قتادہ، حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ لوگوں میں سے پوری نماز اور سب سے ہلکی پڑھانے والے تھے۔
ائمہ کے لئے نماز پوری اور تخفیف کے ساتھ پڑھانے کے حکم کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، یحییٰ بن ایوب، قتبیہ بن سعید، علی بن حجر، اسماعیل بن جعفر، شریک بن عبداللہ بن نمیر، حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے زیادہ ہلکی اور زیادہ کامل نماز پڑھانے والے کسی امام کے پیچھے نماز نہیں پڑھی۔
ائمہ کے لئے نماز پوری اور تخفیف کے ساتھ پڑھانے کے حکم کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، جعفر بن سلیمان، ثابت بنانی، حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز میں کسی بچے کی اپنی ماں کے پاس (فرض نماز میں شریک خاتوں کے پاس) رونے کی آواز سنتے تو چھوٹی سورت پڑھتے تھے۔
ائمہ کے لئے نماز پوری اور تخفیف کے ساتھ پڑھانے کے حکم کے بیان میں
محمد بن منہال ضریر، یزید بن زریع، سعید بن ابوعروبہ، قتادہ، حضرت انس (رض) بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں نماز شروع کرتا ہوں اور میرا ارادہ اس کی طوالت کا ہوتا ہے لیکن میں بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو میں نماز میں تخفیف کردیتا ہوں اس کی والدہ کی شدت تکلیف کی وجہ سے۔
ارکان میں میانہ روی اور پورا کرنے میں تخفیف کرنے کے بیان میں
حامد بن عمر بکراوی، ابوکامل، فضیل بن حسین جحدری، ابوعوانہ، ہلال بن ابی حمید، عبدالرحمن بن ابی لیلی، حضرت براء بن عازب (رض) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز ادا کرنے میں غور کیا تو میں نے آپ ﷺ کا قیام رکوع اور رکوع کے بعد اعتدال پھر سجدے میں پھر آپ ﷺ کا دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھنا پھر سجدہ اور اس کے بعد بیٹھنا سلام کے درمیان اور نماز سے فارغ ہونا تقریبا برابر تھے۔
ارکان میں میانہ روی اور پورا کرنے میں تخفیف کرنے کے بیان میں
عبیداللہ بن معاذ، عنبری، شعبہ، حضرت حکم (رض) سے روایت ہے کہ ابن الاشعث کے زمانہ میں ایک آدمی نے کوفہ پر غلبہ حاصل کیا تو ابوعیبدہ بن عبداللہ (رض) کو اس نے حکم دیا کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں وہ نماز پڑھاتے تھے جب رکوع سے سر اٹھاتے تو اتنی دیر کھڑے رہتے کہ میں یہ دعا پڑھ لیا اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ مِلْئُ السَّمَاوَاتِ وَمِلْئُ الْأَرْضِ وَمِلْئُ مَا شِئْتَ مِنْ شَيْئٍ بَعْدُ أَهْلَ الثَّنَائِ وَالْمَجْدِ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ وَلَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ وَلَا يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُّ اے اللہ تو اس تعریف کے لائق ہے جن سے تمام آسمان اور زمین اور جتنی جگہ تو چاہے بھر جائے تو ہی تعریف اور بڑائی کے لائق ہے جس کو تو کچھ عطا کرے اس سے کوئی چھین نہیں سکتا اور جس سے تو کوئی چیز لے لے اسے کوئی دے نہیں سکتا اور نہ کوئی کوشش تیرے مقابلہ میں کامیاب ہوسکتی ہے حکم کہتے ہیں میں نے یہ عبدالرحمن بن ابی لیلی سے ذکر کیا تو انہوں نے کہا میں نے براء بن عازب سے سنا وہ فرماتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ کا رکوع اور جب رکوع سے سر اٹھاتے اور آپ ﷺ کا سجدہ اور دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھنا تقریبا برابر برابر ہوتے تھے شعبہ کہتے ہیں کہ میں نے اس کا ذکر عمرو بن مرہ سے کیا تو انہوں نے کہا میں نے ابن ابی لیلی کو دیکھا کہ ان کی نماز اس کیفیت کی نہ تھی۔
ارکان میں میانہ روی اور پورا کرنے میں تخفیف کرنے کے بیان میں
محمد بن مثنی، ابن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، حضرت حکم (رض) سے روایت ہے کہ جب مطر بن ناجیہ کوفہ پر غالب ہوا تو اس نے حضرت ابوعبیدہ کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے باقی حدیث مبارکہ پہلے گزر چکی ہے۔
ارکان میں میانہ روی اور پورا کرنے میں تخفیف کرنے کے بیان میں
خلف بن ہشام، حماد بن زید، ثابت، حضرت انس (رض) سے روایت ہے انہوں نے کہا میں تم کو ایسی نماز پڑھانے میں کوتاہی نہیں کرتا جیسا کہ نبی ﷺ ہمیں نماز پڑھاتے تھے۔ حضرت انس (رض) جو عمل کرتے تھے وہ میں تم کو کرتے ہوئے نہیں دیکھتا جب وہ رکوع سے سر اٹھاتے تو سیدھے کھڑے ہوتے یہاں تک کہ کہنے والا کہتا کہ وہ بھول گئے ہیں، جب وہ سجدہ سے اپنا سر اٹھاتے تو ٹھہرتے، یہاں تک کہ کہنے والا کہتا ہے کہ وہ بھول چکے ہیں۔
ارکان میں میانہ روی اور پورا کرنے میں تخفیف کرنے کے بیان میں
ابوبکر بن نافع عبدی، بہز، حماد، ثابت، حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ جیسی پوری نماز کسی کے پیچھے نہیں پڑھی رسول اللہ ﷺ کی نماز قریب قریب ہوتی تھی اور ابوبکر (رض) کی نماز بھی برابر برابر ہوتی تھی حضرت عمر (رض) بن خطاب فجر کی نماز بھی لمبی کرتے تھے اور رسول اللہ ﷺ جب سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہتے تو کھڑے ہوجاتے یہاں تک کہ ہم کہتے کہ آپ ﷺ بھول گئے ہیں پھر سجدہ کرتے اور دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھتے یہاں تک کہ ہم کہتے کہ آپ ﷺ بھول گئے ہیں۔
امام کی پیروی اور ہر رکن اس کے بعد کرنے کے بیان میں
احمد بن یونس، زہیر، ابواسحاق یحییٰ بن یحیی، ابوخیثمہ، ابی اسحاق، عبداللہ بن یزید، حضرت براء بن عازب (رض) سے روایت ہے اور وہ جھوٹے نہیں ہیں کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھتے تھے جب آپ ﷺ رکوع سے سر اٹھاتے تو میں کسی کو بھی اپنی پیٹھ جھکاتے نہ دیکھتا یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ اپنا ماتھا زمین پر رکھتے پھر آپ ﷺ کے پیچھے سب لوگ سجدہ میں جاتے۔
امام کی پیروی اور ہر رکن اس کے بعد کرنے کے بیان میں
ابوبکر بن خلاد باہلی، یحییٰ بن سعید، سفیان، ابواسحاق، عبداللہ بن یزید، حضرت براء بن عازب (رض) سے روایت ہے کہ اور وہ جھوٹے نہیں ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فرماتے تو ہم سے کوئی اپنی کمر کو نہ جھکاتا تھا یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ سجدہ میں پہنچ جاتے پھر ہم آپ ﷺ کے بعد سجدہ میں جاتے۔
امام کی پیروی اور ہر رکن اس کے بعد کرنے کے بیان میں
محمد بن عبدالرحمن بن سہم، ابراہیم بن محمد، ابواسحاق، ابواسحاق شیبانی، محارب بن دثار، عبداللہ بن یزید، حضرت براء (رض) روایت ہے کہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین، رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز ادا کرتے جب آپ ﷺ رکوع کرتے وہ بھی رکوع کرتے جب آپ ﷺ رکوع سے سر اٹھاتے اور سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہتے تو ہم کھڑے رہتے یہاں تک کہ آپ ﷺ کو پیشانی زمین پر رکھتے ہوئے دیکھتے۔ پھر ہم آپ ﷺ کی پیروی کرتے۔
امام کی پیروی اور ہر رکن اس کے بعد کرنے کے بیان میں
زہیر بن حرب، ابن نمیر، سفیان بن عیینہ، ابان، حکم، عبدالرحمن بن ابی لیلی، حضرت براء بن عازب (رض) روایت ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے تو ہم میں سے کوئی اپنی کمر کو نہیں جھکاتا تھا یہاں تک کہ ہم آپ ﷺ کو سجدہ کرتے دیکھ لیتے تھے۔
امام کی پیروی اور ہر رکن اس کے بعد کرنے کے بیان میں
محرز بن عون بن ابی عون، خلف بن خلیفہ، اشجعی، ابواحمد، ولید بن سریع، عمرو بن حریث، حضرت عمرو بن حریث (رض) سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم ﷺ کے پیچھے نماز فجر ادا کی تو میں نے آپ ﷺ سے سنا ( فَلَا أُقْسِمُ بِالْخُنَّسِ الْجَوَارِ الْکُنَّسِ ) اور ہم میں کوئی آدمی اپنی کمر نہ جھکاتا تھا یہاں تک کہ آپ ﷺ پوری طرح سجدہ میں نہ چلے جاتے۔
جب نمازی رکوع سے سر اٹھائے تو کیا کہے ؟
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابومعاویہ، وکیع، اعمش، عبید بن حسن، حضرت ابن ابی اوفیٰ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب اپنی کمر رکوع سے اٹھاتے تو (سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ مِلْئُ السَّمَاوَاتِ وَمِلْئُ الْأَرْضِ وَمِلْئُ مَا شِئْتَ مِنْ شَيْئٍ بَعْدُ ) ارشاد فرماتے تھے۔
جب نمازی رکوع سے سر اٹھائے تو کیا کہے ؟
محمد بن مثنی، ابن بشار، محمد بن بشار، شعبہ، عبید بن حسن، حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اس دعا کے ساتھ دعا مانگتے تھے ( اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ مِلْئُ السَّمَاوَاتِ وَمِلْئُ الْأَرْضِ وَمِلْئُ مَا شِئْتَ مِنْ شَيْئٍ بَعْدُ ) اے اللہ تو ہی اس تعریف کے لائق ہے جس سے آسمان و زمین بھر جائیں اور اس کے بعد جس طرف کو تو چاہے وہ بھر جائے۔
جب نمازی رکوع سے سر اٹھائے تو کیا کہے ؟
محمد بن مثنی، ابن بشار، ابن مثنی، محمد بن جعفر، شعبہ، مجزاۃ ابن زاہر، حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ ارشاد فرماتے تھے ( اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ مِلْئُ السَّمَاوَاتِ وَمِلْئُ الْأَرْضِ وَمِلْئُ مَا شِئْتَ مِنْ شَيْئٍ بَعْدُ ) تو ہی اس تعریف کا مستحق ہے جس سے تمام آسمان و زمین بھر جائیں اور جس ظرف کو تو چاہے وہ بھر جائے اے اللہ مجھے برف، اولوں اور ٹھنڈے پانی سے پاک کر دے اے اللہ مجھے گناہوں اور خطاؤں سے ایسا پاک کر دے جیسا کہ سفید کپڑا میل کچیل سے صاف ہوجاتا ہے۔
جب نمازی رکوع سے سر اٹھائے تو کیا کہے ؟
عبیداللہ بن معاذ، زہیر بن حرب، یزید بن ہارون، شعبہ، معاذ، اس سند کے ساتھ بھی یہی حدیث الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ نقل کی ہے معنی و مفہوم وہی ہے۔
جب نمازی رکوع سے سر اٹھائے تو کیا کہے ؟
عبداللہ بن عبدالرحمن، دارمی، مروان بن محمد دمشقی، سعید بن عبدالعزیز، عطیہ بن قیس، قزعہ بن یحیی، حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب رکوع سے سر اٹھاتے تو ( اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ مِلْئُ السَّمَاوَاتِ وَمِلْئُ الْأَرْضِ وَمِلْئُ مَا شِئْتَ مِنْ شَيْئٍ بَعْدُ ) فرماتے اے اللہ تو ایسی تعریف کا مستحق ہے جس سے آسمان و زمین بھر جائیں اور جس ظرف کو تو چاہے وہ بھر جائے تو ہی ثنا اور بزرگی کے لائق ہے اور بندہ جو کہے تو سب سے زیادہ حقدار ہے ہم سب تیرے بندے ہیں اے اللہ تو جو چیز عطا کرے اسے کوئی رو کنے والا نہیں اور جس سے تو کوئی چیز روک لے اسے کوئی دینے والا نہیں اور تیرے مقابلہ میں کوشش کرنے والے کی کوشش فائدہ مند نہیں۔
جب نمازی رکوع سے سر اٹھائے تو کیا کہے ؟
ابوبکر بن ابی شیبہ، ہشیم بن بشیر، ہشام بن حسان، قیس بن سعد، عطاء، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ جب رکوع سے سر اٹھاتے تو اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ ) فرماتے اس روایت میں (اَحَقُّ مَا قَالَ العَبدُ وَکُلَّنَا لَکَ عَبد) کے الفاظ نہیں ہیں۔
جب نمازی رکوع سے سر اٹھائے تو کیا کہے ؟
ابن نمیر، حفص، ہشام بن حسان، ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ وَمِلْئُ مَا شِئْتَ مِنْ شَيْئٍ بَعْدُ سے وَمِلْاُ مَا شِئْتَ مِنْ شَيْئٍ بَعْد تک فرماتے اس کے بعد کا ذکر نہیں کیا۔
رکوع اور سجدہ میں قرأت قرآن سے روکنے کے بیان میں
سعید بن منصور، ابوبکر بن ابی شیبہ، زہیر بن حرب، سفیان بن عیینہ، سلیمان بن سحیم، ابراہیم، عبداللہ بن معبد، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (مرض وفات) میں پردہ اٹھایا اور صحابہ کرام (رض) ابوبکر (رض) کے پیچھے صفیں باندھنے والے تھے تو آپ ﷺ نے فرمایا اے لوگو سچے خوابوں کے علاوہ مبشرات نبوہ میں سے کوئی امر باقی نہیں ہے جن کو مسلمان دیکھتا ہے یا اس کے لئے دکھایا جاتا ہے آگاہ رہو مجھے رکوع یا سجدہ کرتے ہوئے قرأت قرآن سے منع کیا گیا ہے رکوع میں تو اپنے رب کی عظمت بیان کرو اور سجود میں دعا کرنے کی کوشش کرو کہ تمہارے لئے قبول کی جائے۔
رکوع اور سجدہ میں قرأت قرآن سے روکنے کے بیان میں
یحییٰ بن ایوب، اسماعیل بن جعفر، سلیمان بن سحیم، ابراہیم بن عبداللہ بن معبد حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مرض وفات) میں پردہ ہٹایا اور آپ ﷺ کے سر پر پٹی بندھی ہوئی تھی آپ ﷺ نے تین بار فرمایا اے اللہ میں نے تبلیغ کردی نبوت کی خوشخبریوں میں سے سچے خوابوں کے علاوہ کوئی باقی نہیں جن کو نیک بندہ دیکھتا ہے یا اس کے لئے دکھایا جاتا ہے پھر اس سے پہلے والی حدیث ہی کی مثل ذکر کی ہے۔
رکوع اور سجدہ میں قرأت قرآن سے روکنے کے بیان میں
ابوطاہر، حرملہ، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، ابراہیم بن عبداللہ بن حنین، ان کے والد، حضرت علی بن ابی طالب (رض) سے روایت ہے کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے رکوع اور سجدہ کرتے ہوئے قرأت کرنے سے منع فرمایا۔
رکوع اور سجدہ میں قرأت قرآن سے روکنے کے بیان میں
ابوکریب، محمد بن علاء، ابواسامہ، ولید ابن کثیر، ابراہیم بن عبداللہ بن حنین، حضرت علی (رض) بن ابی طالب سے روایت ہے کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے رکوع یا سجدہ میں قرأت سے منع فرمایا۔
رکوع اور سجدہ میں قرأت قرآن سے روکنے کے بیان میں
ابوبکر بن اسحاق، ابن ابی مریم، محمد بن جعفر، زید بن اسلم، ابراہیم بن عبداللہ بن حنین، حضرت علی (رض) بن ابی طالب سے روایت ہے کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے رکوع اور سجود میں قرأت سے منع فرمایا ہے اور میں یہ نہیں کہتا کہ تمہیں روکا ہے۔
رکوع اور سجدہ میں قرأت قرآن سے روکنے کے بیان میں
زہیر بن حرب، اسحاق بن ابراہیم، ابوعامر عقدی، داؤد بن قیس، ابراہیم بن عبداللہ بن حنین، ابن عباس (رض) حضرت علی (رض) بن ابی طالب سے روایت ہے کہ مجھے میرے محبوب نے منع فرمایا ہے کہ میں رکوع یا سجدہ کرتے ہوئے قرأت کروں۔
رکوع اور سجدہ میں قرأت قرآن سے روکنے کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، مالک بن نافع، عیسیٰ بن حماد مصری، لیث، یزید بن ابی حبیب، ہارون بن عبداللہ، ابن ابی فدیک، ضحاک ابن عثمان، مقدامی یحیی، یحییٰ قطان، ابن عجلان، ہارون بن سعید ایلی، ابن وہب، اسامہ بن زید، یحییٰ بن ایوب، قتیبہ، ابن حجر، اسماعیل بن جعفر، محمد، ابن عمر (رض) ، ہناد بن سری، عبدہ، محمد بن اسحاق، ابراہیم بن عبداللہ بن حنین، ضحاک، ابن عجلان، ابن عباس (رض) حضرت علی (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے رکوع کرتے ہوئے قرآن کی قرأت سے منع فرمایا ہے ان حضرات کی روایت میں سجدہ سے نہی کا ذکر نہیں ہے۔
رکوع اور سجدہ میں قرأت قرآن سے روکنے کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، حاتم بن اسماعیل، جعفر بن محمد، محمد بن منکدر، عبداللہ بن حنین، حضرت علی (رض) سے ہی ایک اور سند سے یہی حدیث مذکور ہے لیکن اس میں سجدہ کا ذکر نہیں۔
رکوع اور سجدہ میں قرأت قرآن سے روکنے کے بیان میں
عمرو بن علی، محمد بن جعفر، شعبہ، ابی بکر بن حفص، عبداللہ بن حنین، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ مجھے قرأت قرآن سے منع کیا گیا ہے اس حال میں کہ میں رکوع کرنے والا ہوں۔
رکوع اور سجود میں کیا کہے ؟
ہارون بن معروف، عمرو بن سواد، عبداللہ بن وہب، عمرو بن حارث، عمارہ بن غزیہ مولیٰ ابوبکر، ابوصالح، ذکوان، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سجدہ کرتے ہوئے بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے پس سجود میں کثرت کے ساتھ دعا کیا کرو۔
رکوع اور سجود میں کیا کہے ؟
ابوطاہر، یونس بن عبدالاعلی، ابن وہب، یحییٰ بن ایوب، عمارہ بن غزیہ مولیٰ ابوبکر، ابوصالح، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے سجدوں میں (اللَّهُمَّ اغْفِرْلِي ذَنْبِي کُلَّهُ دِقَّهُ وَجِلَّهُ ) پڑھتے تھے اے اللہ میرے تمام گناہ معاف فرما دے چھوٹے بڑے اول وآخر ظاہری و پوشیدہ۔
رکوع اور سجود میں کیا کہے ؟
زہیر بن حرب، اسحاق بن ابراہیم، زہیر، جریج، منصور، ابی ضحی، مسروق، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے رکوع و سجدہ میں کثرت کے ساتھ (سُبْحَانَکَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِکَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي) فرماتے تھے اور قرآن پر عمل کرتے اے اللہ اے ہمارے رب تو ہی پاک ہے اور تعریف تیری ہی ہے اے اللہ میری مغفرت فرما۔
رکوع اور سجود میں کیا کہے ؟
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب، ابومعاویہ، اعمش، مسلم، مسروق، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ وفات سے پہلے یہ کلمات کثرت سے فرمایا کرتے تھے (سُبْحَانَکَ وَبِحَمْدِکَ أَسْتَغْفِرُکَ وَأَتُوبُ إِلَيْکَ ، ) سیدہ فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ یہ کلمات کیا ہیں جن کو میں دیکھتی ہوں کہ آپ نے ان کو کہنا شروع کردیا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا میرے لئے میری امت میں ایک علامت مقرر کی گئی ہے۔ جب میں اس علامت کو دیکھتا ہوں تو یہ کلمات پڑھتا ہوں۔إِذَا جَائَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ إِلَی آخِرِ السُّورَةِ (یعنی اس سورت پر عمل کرتا ہوں)
رکوع اور سجود میں کیا کہے ؟
محمد بن رافع، یحییٰ بن آدم، مفضل، اعمش، مسلم بن صبیح، مسروق، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ جب سے آپ ﷺ پر إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ نازل ہوئی میں نے آپ ﷺ کو کسی نماز میں نہیں دیکھا کہ آپ ﷺ نے یہ دعا نہ پڑھی ہو (سُبْحَانَکَ رَبِّي وَبِحَمْدِکَ اللَّهُمَّ اغْفِرْلِي) ۔
رکوع اور سجود میں کیا کہے ؟
محمد بن مثنی، عبدالاعلی، داؤد، عامر، مسروق، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کثرت کے ساتھ ( سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ ) فرماتے تھے فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میں آپ ﷺ کو دیکھتی ہوں کہ آپ ﷺ کثرت کے ساتھ ( سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ ) پڑھتے ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا میرے رب نے مجھے خبر دی ہے کہ عنقریب میں اپنی امت میں ایک علامت دیکھوں گا جب میں اس نشانی کو دیکھوں تو میں ( سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ ) کی کثرت کروں تو تحقیق میں نے اس علامت کو دیکھ لیا ہے (إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ (فَتْحُ مَکَّةَ ) وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ کَانَ تَوَّابًا) جب اللہ کی مدد آگئی اور مکہ فتح ہوگیا اور لوگوں کو تو دیکھے گا اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہوں گے تو اللہ کی تسبیح بیان کر اس کی تعریف کے ساتھ اور اس سے بخشش مانگ بیشک وہ رجوع فرمانے والا ہے۔
رکوع اور سجود میں کیا کہے ؟
حسن بن علی حلوانی، محمد بن رافع، عبدالرزاق، حضرت ابن جریج سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عطا سے کہا کہ آپ ﷺ رکوع میں کیا کہتے ہیں انہوں نے کہا ( سُبْحَانَکَ وَبِحَمْدِکَ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ ) مجھے ابن ابی ملیکہ نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت بیان کی ہے وہ فرماتی ہیں میں نے ایک رات نبی کریم ﷺ کو اپنے پاس نہ پایا تو میں نے گمان کیا کہ آپ ﷺ اپنی دوسری عورتوں کے پاس چلے گئے ہیں میں نے ڈھونڈنا شروع کیا واپس آئی تو آپ ﷺ کو رکوع کرتے ہوئے یا سجدہ کرتے ہوئے پایا اور آپ ﷺ فرما رہے تھے ( سُبْحَانَکَ وَبِحَمْدِکَ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ ) میں نے کہا میرے ماں باپ آپ ﷺ پر فدا ہوں میں کس گمان و خیال میں تھی اور آپ ﷺ کس کام میں مصروف ہیں۔
رکوع اور سجود میں کیا کہے ؟
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابواسامہ، عبداللہ بن عمر، محمد بن یحییٰ بن حبان ، اعرج، ابی ہریرہ، ام المومنین سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ ایک شب میں نے رسول اللہ ﷺ کو بستر پر نہ پایا تو تلاش کیا۔ میرا ہاتھ (اندھیرے میں) آپ کے تلووں کو لگا۔ آپ مسجد میں تھے اور (سجدہ میں) آپ کے پاؤں کھڑے تھے۔ آپ یہ دعا مانگ رہے تھے اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِرِضَاکَ مِنْ سَخَطِکَ وَبِمُعَافَاتِکَ مِنْ عُقُوبَتِکَ وَأَعُوذُ بِکَ مِنْکَ لَا أُحْصِي ثَنَائً عَلَيْکَ أَنْتَ کَمَا أَثْنَيْتَ عَلَی نَفْسِکَ اے اللہ ! میں آپ کی رضامندی کی پناہ چاہتا ہوں۔ آپ کی ناراضگی سے اور آپ کے درگزر کی پناہ چاہتا ہوں آپ کی سزا سے اور میں آپ ہی کی پناہ چاہتا ہوں آپ سے۔ میں آپ کی تعریف پوری نہیں کرسکتا۔ آپ ایسے ہی ہیں جیسے آپ نے خود اپنی تعریف فرمائی۔
رکوع اور سجود میں کیا کہے ؟
ابوبکر بن ابی شیبہ، محمد بن بشر عبدی، سعید بن ابی عروبہ، قتادہ، مطرف بن عبداللہ بن شخیر، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے رکوع و سجود میں ( سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَبُّ الْمَلَائِکَةِ وَالرُّوحِ ) فرمایا کرتے تھے۔
رکوع اور سجود میں کیا کہے ؟
محمد بن مثنی، ابوداؤد، شعبہ، قتادہ، مطرف بن عبداللہ بن شخیر، ہشام، قتادہ، مطرف، حضرت عائشہ (رض) نے یہی حدیث نبی کریم ﷺ سے نقل فرمائی ہے اسناد دوسری ہیں۔
سجود کی فضیلت اور اس کی ترغیب کے بیان میں
زہیر بن حرب، ولید بن مسلم، اوزاعی، ولید بن ہشام، حضرت معدان بن ابی طلحہ یعمری (رض) سے روایت ہے کہ میں حضرت ثوبان مولیٰ رسول اللہ ﷺ سے ملا اور عرض کیا کہ آپ مجھے ایسے عمل کی خبر دیں جس کے کرنے سے مجھے اللہ جنت میں داخل کر دے یا میں نے کہا کہ مجھے اللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل کے بارے میں خبر دیں وہ خاموش رہے میں نے پھر پوچھا تو وہ خاموش رہے پھر میں نے تیسری مرتبہ پوچھا تو انہوں نے فرمایا میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس بارے میں سوال کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا تجھ پر اللہ کی رضا کے لئے سجدوں کی کثرت لازم ہے تو جب بھی کوئی سجدہ کرتا ہے تو اللہ اس سجدہ کے سبب سے تیرا ایک درجہ بڑھا دیتے ہیں اور اس کے ذریعہ تیری ایک خطا مٹا دیتے ہیں معدان کہتے ہیں پھر میں حضرت ابودرداء (رض) سے ملا تو ان سے پوچھا تو انہوں نے بھی مجھے حضرت ثوبان کی طرح بتایا۔
سجود کی فضیلت اور اس کی ترغیب کے بیان میں
حکم بن موسی، ابوصالح، ہقل بن زیاد، اوزاعی، یحییٰ بن ابی کثیر، ابوسلمہ، حضرت ربیعہ (رض) بن کعب اسلمی (رض) سے روایت ہے کہ میں رات کو رسول اللہ ﷺ کے پاس سے گزرتا تھا اور آپ ﷺ کے استنجا اور وضو کے لئے پانی لایا کرتا تھا آپ ﷺ نے ایک دن فرمایا مانگ۔ تو میں نے عرض کیا میں جنت میں آپ ﷺ کی رفاقت کا سوال کرتا ہوں آپ ﷺ نے فرمایا اس کے علاوہ اور کچھ میں نے عرض کیا بس یہی تو آپ ﷺ نے فرمایا تو اپنے معاملہ میں سجود کی کثرت کے ساتھ میری مدد کر۔
سجدوں کے اعضا کے بیان اور بالوں اور کپڑوں کے موڑنے اور نماز میں جوڑا باندھنے سے روکنے کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، ابوربیع زہرانی، یحیی، ابوربیع، حماد بن زید، عمرو بن دینار، طاؤس، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ کو حکم دیا گیا کہ سات ہڈیوں پر سجدہ کریں اور منع کیا گیا اپنے بالوں اور کپڑوں کو سنوارنے سے اور ابوالربیع کہتے ہیں کہ سات ہڈیوں پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا کپڑوں اور بالوں کو سمیٹنے سے منع کیا گیا اور وہ سات ہڈیاں درج ذیل ہیں دو ہتھیلیاں دو گھٹنے اور دو پاؤں اور پیشانی۔
سجدوں کے اعضا کے بیان اور بالوں اور کپڑوں کے موڑنے اور نماز میں جوڑا باندھنے سے روکنے کے بیان میں
محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، عمرو بن دینار، طاؤس، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ کو سات ہڈیوں پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا۔ اور یہ کہ کپڑوں اور بالوں کو نہ سمیٹوں۔
سجدوں کے اعضا کے بیان اور بالوں اور کپڑوں کے موڑنے اور نماز میں جوڑا باندھنے سے روکنے کے بیان میں
عمرو ناقد، سفیان بن عیینہ، ابن طاؤس، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا مجھے سات ہڈیوں پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور کپڑوں اور بالوں کے سمیٹنے سے روکا گیا۔
سجدوں کے اعضا کے بیان اور بالوں اور کپڑوں کے موڑنے اور نماز میں جوڑا باندھنے سے روکنے کے بیان میں
محمد بن حاتم، بہز، وہیب، عبداللہ بن حاتم، طاؤس، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا مجھے سات (اعضاء) پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے پیشانی اور اپنے ہاتھ سے اپنے ناک پر اشارہ کیا دونوں ہاتھ دونوں پاؤں اور دونوں قدموں کی انگلیوں پر اور کپڑوں اور بالوں کو نہ سمیٹنے کا حکم ہوا ہے۔
سجدوں کے اعضا کے بیان اور بالوں اور کپڑوں کے موڑنے اور نماز میں جوڑا باندھنے سے روکنے کے بیان میں
ابوطاہر، عبداللہ بن وہب، ابن جریج، عبداللہ بن طاؤس، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مجھے سات اعضا پر سجدہ کا حکم دیا گیا ہے اور یہ کہ بالوں اور کپڑوں کو نہ سنواروں (سات اعضاء جن کا ذکر کیا وہ یہ ہیں) پیشانی، ناک، دونوں گھٹنے اور دونوں پاؤں۔
سجدوں کے اعضا کے بیان اور بالوں اور کپڑوں کے موڑنے اور نماز میں جوڑا باندھنے سے روکنے کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، بکر ابن مضر، ابن ہاد، محمد بن ابراہیم، عامر بن سعد، حضرت عباس بن عبد المطلب (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا جب کوئی بندہ سجدہ کرے تو وہ اپنے سات اعضاء کے ساتھ سجدہ کرے اور اپنی پیشانی اور دونوں ہاتھ اور دونوں گھٹنے اور اپنے دونوں قدموں کے ساتھ سجدہ کرے۔
سجدوں کے اعضا کے بیان اور بالوں اور کپڑوں کے موڑنے اور نماز میں جوڑا باندھنے سے روکنے کے بیان میں
عمرو بن سواد عامری عبداللہ بن وہب، عمرو بن حارث، بکیر، حضرت کریب (رض) سے روایت ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) نے عبداللہ بن حارث کو سر کے پیچھے جوڑا باندھے نماز پڑھتے دیکھا تو وہ ان کو کھولنے کھڑے ہوگئے جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو ابن عباس (رض) کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا تم نے میرا سر کیوں چھیڑا تو ابن عباس (رض) نے فرمایا اس لئے کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا اس طرح جوڑا باندھ کر نماز پڑھنے کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی مشکیں باندھے نماز ادا کر رہا ہو۔
سجود میں میانہ روی اور سجدہ میں ہتھیلیوں کو زمین پر رکھنے اور کہنیوں کو پہلوؤں سے اوپر رکھنے اور پیٹ کو رانوں سے اوپر رکھنے کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، وکیع، شعبہ، قتادہ، حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا سجود میں میانہ روی اختیار کرو اور تم میں سے کوئی اپنی کلائیوں کو کتے کی طرح نہ بچھائے۔
سجود میں میانہ روی اور سجدہ میں ہتھیلیوں کو زمین پر رکھنے اور کہنیوں کو پہلوؤں سے اوپر رکھنے اور پیٹ کو رانوں سے اوپر رکھنے کے بیان میں
محمد بن مثنی، ابن بشار، محمد بن جعفر، یحییٰ بن حبیب، ابن حارث، شعبہ، ابن جعفر سے روایت ہے کہ تم میں سے کوئی اپنی کلائیوں کو کتے کی طرح نہ بچھائے۔
سجود میں میانہ روی اور سجدہ میں ہتھیلیوں کو زمین پر رکھنے اور کہنیوں کو پہلوؤں سے اوپر رکھنے اور پیٹ کو رانوں سے اوپر رکھنے کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، عبیداللہ بن ایاد بن لقیط، حضرت براء (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تو سجدہ کرے تو اپنی ہتھیلیاں زمین پر رکھ اور کہنیوں کو اٹھالے۔
سجود میں میانہ روی اور سجدہ میں ہتھیلیوں کو زمین پر رکھنے اور کہنیوں کو پہلوؤں سے اوپر رکھنے اور پیٹ کو رانوں سے اوپر رکھنے کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، بکر ابن مضر، جعفر بن ربیعہ، اعرج، حضرت عبداللہ بن مالک بن بحینہ (رض) سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نماز پڑھتے تو اپنے ہاتھوں کو اس قدر کشادہ رکھتے کہ آپ ﷺ کی بغلوں کی سفیدی ظاہر ہوجاتی۔
سجود میں میانہ روی اور سجدہ میں ہتھیلیوں کو زمین پر رکھنے اور کہنیوں کو پہلوؤں سے اوپر رکھنے اور پیٹ کو رانوں سے اوپر رکھنے کے بیان میں
عمرو بن سواد، عبداللہ بن وہب، عمرو بن حارث، لیث بن سعد، جعفربن ربیعہ، حضرت عمرو بن حارث (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب سجدہ کرتے تھے تو دونوں ہاتھوں کو اس طرح رکھتے کہ آپ ﷺ کی بغلوں کی سفیدی دیکھی جاتی اور لیث کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب سجدہ کرتے تو اپنے ہاتھوں کو بغلوں سے جدا کرلیتے یہاں تک کہ میں آپ ﷺ کی بغلوں کی سفیدی کو دیکھ لیتا۔
سجود میں میانہ روی اور سجدہ میں ہتھیلیوں کو زمین پر رکھنے اور کہنیوں کو پہلوؤں سے اوپر رکھنے اور پیٹ کو رانوں سے اوپر رکھنے کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، ابن ابی عمر، سفیان بن عیینہ، عبیداللہ بن عبداللہ بن اصم، یزید بن اصم، حضرت ام المومنین میمونہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ جب سجدہ کرتے تو اگر بکری کا بچہ آپ ﷺ کے ہاتھوں کے درمیان سے گزرنا چاہتا تو گزر جاتا۔
سجود میں میانہ روی اور سجدہ میں ہتھیلیوں کو زمین پر رکھنے اور کہنیوں کو پہلوؤں سے اوپر رکھنے اور پیٹ کو رانوں سے اوپر رکھنے کے بیان میں
اسحاق بن ابراہیم حنظلی، مروان بن معاویہ، عبیداللہ بن عبداللہ بن اصم، یزید بن اصم، حضرت ام المومنین میمونہ (رض) سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ سجدہ فرماتے تو اپنے ہاتھوں کو اتنا جدا رکھتے کہ آپ ﷺ کے پیچھے سے آپ ﷺ کے بغلوں کی سفیدی دکھائی دیتی اور جب آپ ﷺ بیٹھتے تو بائیں ران پر مطمئن ہوتے۔
سجود میں میانہ روی اور سجدہ میں ہتھیلیوں کو زمین پر رکھنے اور کہنیوں کو پہلوؤں سے اوپر رکھنے اور پیٹ کو رانوں سے اوپر رکھنے کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، عمرو ناقد، زہیر بن حرب، اسحاق بن ابراہیم، عمرو، اسحاق، وکیع، جعفر بن برقان، یزید بن اصم، میمونہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ سجدہ کرتے تو ہاتھوں کو جدا رکھتے یہاں تک کہ آپ ﷺ کے پیچھے سے آپ ﷺ کے بغلوں کی سفیدی دکھائی دیتی۔
طریقہ نماز کی جامعیت اس کا افتتاح واختتام رکوع وسجود کو اعتدال کے ساتھ ادا کرنے کا طریقہ چار رکعات والی نماز میں سے ہر دو رکعتوں کے بعد تشہد اور دونوں سجدوں اور پہلے قعدے میں بیٹھنے کے طریقہ کے بیان میں
محمد بن عبداللہ بن نمیر، ابوخالد احمر، حسین، اسحاق بن ابراہیم، عیسیٰ بن یونس، حسین، بدیل بن میسرہ، ابوجوزاء، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز کی ابتداء تکبیر تحریمہ اور اَلْحَمْد لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ کی قرأت سے کرتے تھے اور جب رکوع کرتے تو سر کو اونچا رکھتے نہ نیچا بلکہ برابر سیدھا رکھتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو اس وقت تک سجدہ نہ کرتے جب تک سیدھے کھڑے نہ ہوجاتے اور جب سجدہ سے سر اٹھاتے تو اس وقت تک سجدہ نہ کرتے جب تک سیدھے نہ بیٹھ جاتے اور ہر دو رکعتوں میں التحیات پڑھتے اور بائیں پاؤں کو بچھاتے اور اپنے دائیں پاؤں کو کھڑا کرتے اور شیطان کی طرح بیٹھنے سے منع فرماتے اور درندوں کی طرح آدمی اپنے دونوں ہاتھ زمین پر بچھا دے اس سے بھی منع فرماتے اور آپ ﷺ سلام کے ساتھ نماز ختم کرتے اور آپ ﷺ عقبہ شیطان سے یعنی دونوں پاؤں کھڑے کر کے ایڑیوں پر بیٹھنے سے منع فرماتے تھے۔
نمازی کے سترہ اور سترہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کے استح اور نمازی کے آگے سے گزرنے سے روکنے اور گزرنے والے کے حکم اور گزرنے والے کو روکنے نمازی کے آگے لیٹنے کے جواز اور سواری کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرنے اور سترہ کے قریب ہونے کے حکم اور مقدار سترہ اور اس کے متعلق امور کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، قتیبہ بن سعید، ابوبکر بن ابی شیبہ، ابواحوص، سماک، موسیٰ بن طلحہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی اپنے سامنے کجاوے کی پچھلی لکڑی جیسی کوئی چیز رکھ کر نماز ادا کرے تو پھر اس کے آگے سے گزرنے والے کی کوئی پرواہ نہ کرے۔
نمازی کے سترہ اور سترہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کے استح اور نمازی کے آگے سے گزرنے سے روکنے اور گزرنے والے کے حکم اور گزرنے والے کو روکنے نمازی کے آگے لیٹنے کے جواز اور سواری کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرنے اور سترہ کے قریب ہونے کے حکم اور مقدار سترہ اور اس کے متعلق امور کے بیان میں
محمد بن عبداللہ بن نمیر، اسحاق بن ابراہیم، اسحاق، ابن نمیر، عمر بن عبید، سماک بن حرب، موسیٰ بن طلحہ (رض) سے روایت ہے کہ ہم نماز ادا کرتے اور جانور ہمارے آگے سے گزرتے ہم نے اس بات کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کجاوے کی پچھلی لکڑی کی مانند کوئی چیز اگر تمہارے آگے ہو تو جو بھی تمہارے سامنے سے گزرے تمہیں کوئی نقصان نہیں دے گا۔
نمازی کے سترہ اور سترہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کے استح اور نمازی کے آگے سے گزرنے سے روکنے اور گزرنے والے کے حکم اور گزرنے والے کو روکنے نمازی کے آگے لیٹنے کے جواز اور سواری کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرنے اور سترہ کے قریب ہونے کے حکم اور مقدار سترہ اور اس کے متعلق امور کے بیان میں
زہیر بن حرب، عبداللہ بن یزید، سعید بن ابی ایوب، ابواسود، عروہ، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے نمازی کے سترہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کجاوے کی پچھلی لکڑی کی طرح ہو۔
نمازی کے سترہ اور سترہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کے استح اور نمازی کے آگے سے گزرنے سے روکنے اور گزرنے والے کے حکم اور گزرنے والے کو روکنے نمازی کے آگے لیٹنے کے جواز اور سواری کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرنے اور سترہ کے قریب ہونے کے حکم اور مقدار سترہ اور اس کے متعلق امور کے بیان میں
محمد بن عبداللہ بن نمیر، عبداللہ بن یزید، حیوہ، ابی اسود، محمد بن عبدالرحمن، عروہ حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ غزوہ تبوک میں رسول اللہ ﷺ سے نمازی کے سترہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کجاوے کی پچھلی لکڑی کے برابر ہو۔
نمازی کے سترہ اور سترہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کے استح اور نمازی کے آگے سے گزرنے سے روکنے اور گزرنے والے کے حکم اور گزرنے والے کو روکنے نمازی کے آگے لیٹنے کے جواز اور سواری کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرنے اور سترہ کے قریب ہونے کے حکم اور مقدار سترہ اور اس کے متعلق امور کے بیان میں
محمد بن مثنی، عبداللہ بن نمیر، ابن نمیر، عبیداللہ، نافع، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ جب عید کے دن نماز کے لئے جاتے تو نیزہ کا حکم دیتے جو آپ ﷺ کے سامنے گاڑ دیا جاتا پھر اس کی آڑ میں نماز پڑھاتے اور لوگ آپ ﷺ کے پیچھے ہوتے اور آپ ﷺ سفر میں بھی ایسے ہی فرماتے پھر اسی کو امراء و حکام نے بھی مقرر کرلیا۔
نمازی کے سترہ اور سترہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کے استح اور نمازی کے آگے سے گزرنے سے روکنے اور گزرنے والے کے حکم اور گزرنے والے کو روکنے نمازی کے آگے لیٹنے کے جواز اور سواری کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرنے اور سترہ کے قریب ہونے کے حکم اور مقدار سترہ اور اس کے متعلق امور کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابن نمیر، محمد بن بشر، عبیداللہ بن نافع، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ برچھی گاڑتے اور اس کی آڑ میں نماز ادا کرتے۔
نمازی کے سترہ اور سترہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کے استح اور نمازی کے آگے سے گزرنے سے روکنے اور گزرنے والے کے حکم اور گزرنے والے کو روکنے نمازی کے آگے لیٹنے کے جواز اور سواری کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرنے اور سترہ کے قریب ہونے کے حکم اور مقدار سترہ اور اس کے متعلق امور کے بیان میں
احمد بن حنبل، معتمر بن سلیمان، عبیداللہ بن نافع، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ اپنی اونٹنی کی آڑ میں نماز ادا کرتے۔
نمازی کے سترہ اور سترہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کے استح اور نمازی کے آگے سے گزرنے سے روکنے اور گزرنے والے کے حکم اور گزرنے والے کو روکنے نمازی کے آگے لیٹنے کے جواز اور سواری کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرنے اور سترہ کے قریب ہونے کے حکم اور مقدار سترہ اور اس کے متعلق امور کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابن نمیر، ابوخالد احمر، عبیداللہ، نافع، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ اپنی اونٹنی کی آڑ میں نماز ادا کرتے ابن نمیر کی روایت میں اونٹ کا ذکر ہے۔
نمازی کے سترہ اور سترہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کے استح اور نمازی کے آگے سے گزرنے سے روکنے اور گزرنے والے کے حکم اور گزرنے والے کو روکنے نمازی کے آگے لیٹنے کے جواز اور سواری کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرنے اور سترہ کے قریب ہونے کے حکم اور مقدار سترہ اور اس کے متعلق امور کے بیان میں
ابوبکر بن شیبہ، زہیربن حرب، وکیع، زہیر، سفیان، عون بن جحیفہ (رض) سے روایت ہے کہ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں مکہ میں حاضر ہوا اور آپ ﷺ مقام ابطح میں سرخ چمڑے کے ایک قبہ میں تشریف فرما تھے حضرت بلال (رض) آپ ﷺ کے لئے وضو کا پانی لے کر نکلے پس بعض لوگوں کو تو آپ ﷺ کا بچا ہو پانی پہنچا اور بعض نے اس کو چھڑک لیا فرماتے ہیں پھر نبی کریم ﷺ سرخ جبہ پہنے ہوئے نکلے گویا کہ میں اس وقت آپ ﷺ کی پنڈلیوں کی سفیدی دیکھ رہا ہوں آپ ﷺ نے وضو فرمایا اور بلال نے اذان دی اور میں نے ان کے منہ کی طرف دیکھنا شروع کیا وہ اپنے چہرہ کو دائیں بائیں پھیر رہے تھے اور حَيَّ عَلَی الصَّلَاةِ حَيَّ عَلَی الْفَلَاحِ ) کہہ رہے تھے پھر آپ ﷺ کے لئے ایک برچھا گاڑا گیا آپ ﷺ آگے تشریف لے گئے اور ظہر کی دو رکعتیں پڑھائیں آپ ﷺ کے آگے سے کتے اور گدھے گزرتے رہے لیکن ان کو نہ روکا گیا پھر آپ نے عصر کی دو رکعتیں پڑھائی پھر آپ ﷺ دو رکعتیں ہی ادا کرتے رہے یہاں تک کہ مدینہ واپس آگئے۔
نمازی کے سترہ اور سترہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کے استح اور نمازی کے آگے سے گزرنے سے روکنے اور گزرنے والے کے حکم اور گزرنے والے کو روکنے نمازی کے آگے لیٹنے کے جواز اور سواری کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرنے اور سترہ کے قریب ہونے کے حکم اور مقدار سترہ اور اس کے متعلق امور کے بیان میں
محمد بن حاتم، بہز، عمر بن ابی زائدہ، حضرت عون بن ابوجحفیہ (رض) سے روایت ہے کہ ان کے والد نے رسول اللہ ﷺ کو چمڑے کے سرخ قبہ میں دیکھا کہتے ہیں میں نے بلال کو دیکھا وہ آپ ﷺ کا بچا ہوا پانی لے کر نکلے میں نے لوگوں کو دیکھا کہ اس پانی کی طرف جلدی کرنے لگے جس کو اس میں کچھ نہ ملا اس نے اپنے ساتھی کے ہاتھ کی تری لے لی پھر میں نے بلال (رض) کو دیکھا کہ اس نے ایک نیزہ نکالا اور اس کو گاڑ دیا اور رسول اللہ ﷺ اپنے سرخ جبہ کو سمیٹتے ہوئے نکلے تو آپ ﷺ نے لوگوں کو اس نیزہ کی آڑ میں نماز پڑھائی اور میں نے لوگ اور جانور دیکھے جو اس نیزہ کے آگے سے گزر رہے تھے۔
نمازی کے سترہ اور سترہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کے استح اور نمازی کے آگے سے گزرنے سے روکنے اور گزرنے والے کے حکم اور گزرنے والے کو روکنے نمازی کے آگے لیٹنے کے جواز اور سواری کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرنے اور سترہ کے قریب ہونے کے حکم اور مقدار سترہ اور اس کے متعلق امور کے بیان میں
اسحاق بن منصور، عبد بن حمید، جعفر بن عون، ابوعمیس، قاسم بن زکریا، حسین بن علی، زائدہ، مالک بن مغول، حضرت ابوجحیفہ (رض) سے یہی حدیث اس سند کے ساتھ ذکر کی ہے لیکن اس میں یہ اضافہ ہے کہ جب دوپہر کا وقت ہوا تو حضرت بلال (رض) نکلے اور نماز کے لئے اذان دی باقی حدیث اوپر والی حدیث کی طرح ہے۔
نمازی کے سترہ اور سترہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کے استح اور نمازی کے آگے سے گزرنے سے روکنے اور گزرنے والے کے حکم اور گزرنے والے کو روکنے نمازی کے آگے لیٹنے کے جواز اور سواری کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرنے اور سترہ کے قریب ہونے کے حکم اور مقدار سترہ اور اس کے متعلق امور کے بیان میں
محمد بن مثنی، محمد بن بشار، ابن مثنی، محمد بن جعفر، شعبہ، حکم، حضرت ابوجحیفہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ دوپہر کے وقت بطحاء کی طرف نکلے آپ ﷺ نے وضو کیا اور ظہر کی نماز دو رکعتیں ادا کیں اور عصر کی دو رکعتیں ادا کیں اور آپ ﷺ کے سامنے نیزہ تھا جس کے پار سے عورتیں اور گدھے گزر رہے تھے۔
نمازی کے سترہ اور سترہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کے استح اور نمازی کے آگے سے گزرنے سے روکنے اور گزرنے والے کے حکم اور گزرنے والے کو روکنے نمازی کے آگے لیٹنے کے جواز اور سواری کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرنے اور سترہ کے قریب ہونے کے حکم اور مقدار سترہ اور اس کے متعلق امور کے بیان میں
زہیر بن حرب، محمد بن حاتم، ابن مہدی، شعبہ، اس سند سے بھی یہی حدیث روایت کی گئی ہے اس میں یہ ہے کہ لوگ آپ ﷺ کے بچے ہوئے پانی سے لینا شروع ہوگئے۔
نمازی کے سترہ اور سترہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کے استح اور نمازی کے آگے سے گزرنے سے روکنے اور گزرنے والے کے حکم اور گزرنے والے کو روکنے نمازی کے آگے لیٹنے کے جواز اور سواری کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرنے اور سترہ کے قریب ہونے کے حکم اور مقدار سترہ اور اس کے متعلق امور کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، مالک، ابن شہاب، عبیداللہ بن عبداللہ، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ میں گدھی پر سوار ہو کر حاضر ہوا اور ان دنوں میں بلوغت کے قریب تھا اور رسول اللہ ﷺ منیٰ میں لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے میں صف کے آگے سے گزر کر اترا اور گدھی کو چرنے کے لئے چھوڑ دیا اور میں خود صف میں شریک ہوگیا اور اس بات پر مجھے کسی نے اعتراض نہیں کیا۔
نمازی کے سترہ اور سترہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کے استح اور نمازی کے آگے سے گزرنے سے روکنے اور گزرنے والے کے حکم اور گزرنے والے کو روکنے نمازی کے آگے لیٹنے کے جواز اور سواری کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرنے اور سترہ کے قریب ہونے کے حکم اور مقدار سترہ اور اس کے متعلق امور کے بیان میں
حرملہ بن یحیی، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ میں گدھے پر سوار ہو کر حاضر ہوا اور رسول اللہ ﷺ لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے گدھا بعض صفوں سے گزر گیا تو وہ اس سے اترے اور لوگوں کے ساتھ صف میں شامل ہوگئے۔
نمازی کے سترہ اور سترہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کے استح اور نمازی کے آگے سے گزرنے سے روکنے اور گزرنے والے کے حکم اور گزرنے والے کو روکنے نمازی کے آگے لیٹنے کے جواز اور سواری کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرنے اور سترہ کے قریب ہونے کے حکم اور مقدار سترہ اور اس کے متعلق امور کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، عمرو ناقد، اسحاق بن ابراہیم، ابن عیینہ، زہری یہی حدیث اس سند کے ساتھ بھی روایت کی گئی ہے لیکن اس میں ہے کہ نبی کریم ﷺ میدان عرفات میں نماز پڑھا رہے تھے۔
نمازی کے سترہ اور سترہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کے استح اور نمازی کے آگے سے گزرنے سے روکنے اور گزرنے والے کے حکم اور گزرنے والے کو روکنے نمازی کے آگے لیٹنے کے جواز اور سواری کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرنے اور سترہ کے قریب ہونے کے حکم اور مقدار سترہ اور اس کے متعلق امور کے بیان میں
اسحاق بن ابراہیم، ابن عیینہ، زہری اس سند کے ساتھ بھی یہ حدیث روایت کی ہے لیکن اس میں نہ منیٰ کا ذکر ہے نہ عرفہ کا بلکہ فتح مکہ یا حجہ الوداع کا ذکر ہے۔
نمازی کے آگے سے گزرنے کی ممانعت کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، مالک، زید بن اسلم، عبدالرحمن بن ابی سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی نماز پڑھ رہا ہو تو اپنے سامنے سے کسی کو نہ گزرنے دے اور اس کو ہٹائے جہاں تک طاقت ہو اور اگر وہ انکار کرے تو اس سے لڑے کیونکہ وہ شیطان ہے۔ (لیکن یہ حکم منسوخ ہے)
نمازی کے آگے سے گزرنے کی ممانعت کے بیان میں
شیبان بن فروخ، سلیمان بن مغیرہ، ابن ہلال، حمید، حضرت ابوصالح (رض) سے روایت ہے کہ میں نے ابوسعید (رض) سے سنا اور ان کو دیکھا کہ جب میں حضرت ابوسعید کے ساتھ نماز جمعہ ایک سترہ کی آڑ میں ادا کر رہا تھا تو ایک نوجوان ابومعیط میں سے آیا اور اس نے ان کے سامنے سے گزرنے کا ارادہ کیا تو ابوسعید (رض) نے اس کے سینہ پر مارا اس نے ادھر ادھر دیکھا لیکن نکلنے کا کوئی راستہ سوائے ان کے آگے سے گزرنے کے نہ پایا تو وہ پھر گزرنے لگا تو انہوں نے پہلے سے زیادہ سختی کے ساتھ اس کے سینہ پر مارا بالآخر وہ رک کر کھڑا ہوگیا مگر ابوسعید کی طرف سے اس کو رنج پہنچا پھر لوگوں نے مزاحمت کی تو وہ نکل کر چلا گیا اور جا کر مروان کو شکایت کی جو اس کو پریشانی لاحق ہوئی حضرت ابوسعید (رض) مروان کے پاس پہنچے تو ان سے مروان نے کہا تمہارے بھیجتے کو تم سے کیا شکایت ہے کہ آکر آپ کی شکایت کرتا ہے تو ابوسعید (رض) نے فرمایا میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا جب تم میں سے کوئی نماز ادا کرے تو لوگوں سے سترہ قائم کرلے پھر اگر کوئی اس کے سامنے سے گزرنے کا ارادہ کرے تو اس کے سینے میں مار کر اس کو دفع کرے پس اگر وہ انکار کرے تو اس سے جھگڑا کرے کیونکہ وہ شیطان ہے۔
نمازی کے آگے سے گزرنے کی ممانعت کے بیان میں
ہ اورن بن عبداللہ بن محمد بن رافع، محمد بن اسماعیل بن ابی فدیک، ضحاک ابن عثمان، صدقہ بن یسار، حضرت عبداللہ (رض) بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کوئی نماز پڑھ رہا ہو تو اپنے سامنے سے کسی کو نہ گزرنے دے اگر وہ انکار کرے تو اس سے لڑے کیونکہ اس کے ساتھ شیطان ہے۔
نمازی کے آگے سے گزرنے کی ممانعت کے بیان میں
اسحاق بن ابراہیم، ابوبکر حنفی، ضحاک بن عثمان، صدقہ بن یسار، حضرت ابن عمر (رض) سے یہی روایت دوسری سند کے ساتھ ذکر بھی منقول ہے۔
نمازی کے آگے سے گزرنے کی ممانعت کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، مالک، ابی نضر، حضرت بسر بن سعید (رض) سے روایت ہے کہ زید بن خالد الجہنی نے ان کو ابی جہیم کی طرف اس لئے بھیجا کہ اس سے پوچھیں جو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے نمازی کے سامنے سے گزرنے والے کے لئے سنا ہے ابوجہیم نے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر گزرنے والا معلوم کرے کہ نماز کے سامنے سے گزرنے میں اس پر کیا گناہ ہے تو اس کے لئے چالیس تک کھڑا رہنا بہتر ہے اس کے آگے سے گزرنے کی نسبت ابوالنضر کہتے ہیں میں نہیں جانتا کہ بسر نے چالیس دن یا چالیس مہینے یا چالیس سال کہا۔
نمازی کے آگے سے گزرنے کی ممانعت کے بیان میں
عبداللہ بن ہاشم بن حیان عبدی، وکیع، سفیان، سالم، ابونضر، بسر بن سعید، زید بن خالد جہنی، ابوجہیم انصاری، اس سند سے بھی یہ حدیث مروی ہے۔
نماز سترہ کے قریب کرنے کے بیان میں
یعقوب بن ابراہیم، ابن ابی حازم، حضرت سہل بن سعد ساعدی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے مصلی اور دیوار کے درمیان ایک بکری کے گزرنے کی جگہ رہتی تھی۔
نماز سترہ کے قریب کرنے کے بیان میں
اسحاق بن ابراہیم، محمد بن مثنی، اسحاق، حماد بن مسعدہ، حضرت یزید بن ابی عبید (رض) سے روایت ہے کہ سلمہ بن اکوع (رض) مصحف کی جگہ نماز پڑھنے کی سوچ میں تھے اور ذکر کیا کہ رسول اللہ ﷺ بھی اس مکان کی فکر فرماتے تھے اور منبر اور قبلہ کے درمیان بکری کے گزرنے کی مقدار جگہ ہوتی تھی۔
نماز سترہ کے قریب کرنے کے بیان میں
محمد بن مثنی، مکی، حضرت یزید (رض) سے روایت ہے کہ حضرت سلمہ اس ستون کے پاس نماز کا ارادہ کر رہے تھے جو مصحف کے قریب تھا میں نے کہا یا ابا مسلم کیا تم اس ستون کے پاس نماز کا ارادہ کر رہے ہو تو فرمایا میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس ستون کے پاس نماز کا ارادہ کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
نمازی کے سترہ کی مقدار کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، اسماعیل بن علیہ، زہیر بن حرب، اسماعیل بن ابراہیم، یونس، حمید بن ہلال، عبداللہ بن صامت، حضرت ابوذر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی نماز پڑھنے کے لئے کھڑا ہوا اور اس کے سامنے بطور سترہ اونٹ کے کجاوہ کی پچھلی لکڑی کے برابر کوئی چیز ہو تو وہ کافی ہے اور اس کی مثل نہ ہو تو اس کی نماز کو گدھا عورت اور سیاہ کتا منقطع کردیتا ہے راوی کہتا ہے میں نے کہا اے ابوذر سیاہ کتے کی سرخ و زرد کتے سے تخصیص کی کیا وجہ ہے تو انہوں نے کہا اے بھیجتے میں نے رسول اللہ ﷺ سے ایسا ہی سوال کیا جیسا تو نے مجھ سے کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا سیاہ کتا شیطان ہوتا ہے۔
نمازی کے سترہ کی مقدار کے بیان میں
شیبان بن فروخ، سلیمان بن مغیرہ، محمد بن مثنی، ابن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، اسحاق بن ابراہیم، وہب بن جریر، ان اسناد سے بھی یہی حدیث منقول ہے۔
نمازی کے سترہ کی مقدار کے بیان میں
اسحاق بن ابراہیم، مخزومی، عبدالواحد، ابن زیاد، عبیداللہ بن عبداللہ بن اصم، یزید بن اصم، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا عورت گدھا اور کتا نماز کو قطع کردیتا ہے ہاں اگر کجاوہ کی پچھلی لکڑی کے برابر سترہ ہو تو نماز باقی رہتی ہے۔
نمازی کے سامنے لیٹنے کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، عمرو ناقد، زہیر بن حرب، سفیان بن عیینہ، زہری عروہ، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ رات کو نماز پڑھتے اور میں آپ ﷺ اور قبلہ کے درمیان جنازہ کی طرح لیٹی ہوئی ہوتی تھی۔
نمازی کے سامنے لیٹنے کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، وکیع، ہشام، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ آپ ﷺ اپنی رات کی پوری نماز ادا کرتے اور میں آپ ﷺ اور قبلہ کے درمیان لیٹنے والی ہوتی تھی پس جب آپ وتر پڑھنے کا ارادہ فرماتے تو مجھے بھی اٹھا دیتے اور میں وتر ادا کرلیتی تھی۔
نمازی کے سامنے لیٹنے کے بیان میں
عمرو بن علی، محمد بن جعفر، شعبہ، ابی بکر بن حفص، حضرت عروہ بن زبیر (رض) سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا کیا چیز نماز کو توڑتی ہے ہم نے عرض کیا عورت اور گدھا تو سیدہ (رض) نے فرمایا کہ عورت برا جانور ہے میں نے اپنے آپ کو رسول اللہ ﷺ کے سامنے اس طرح لیٹے دیکھا جیسا جنازہ لٹایا جاتا ہے اس حال میں کہ آپ ﷺ نماز ادا کر رہے تھے۔
نمازی کے سامنے لیٹنے کے بیان میں
عمرو ناقد، ابوسعید اشج، حفص بن غیاث، عمر بن حفص، غیاث، اعمش، ابراہیم حضرت مسروق (رض) سے روایت ہے کہ سیدہ عائشہ (رض) کے سامنے ذکر کیا گیا کہ کتے گدھے اور عورت کے گزرنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے تو حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا تم نے ہمیں گدھوں اور کتوں کے مشابہ کردیا حالانکہ اللہ کی قسم میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس حال میں نماز پڑھتے دیکھا کہ میں آپ ﷺ اور قبلہ کے درمیان چارپائی پر لیٹی ہوتی تھی اور اگر مجھے کوئی حاجت درپیش ہوتی تو میں ناپسند کرتی کہ میں رسول اللہ ﷺ کے سامنے بیٹھ کر آپ ﷺ کو تکلیف دوں تو میں آپ ﷺ کے پاؤں کے پاس سے نکل جاتی تھی۔
نمازی کے سامنے لیٹنے کے بیان میں
اسحاق بن ابراہیم، جریر، منصور، ابراہیم، اسود، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا تم نے ہمیں کتوں اور گدھوں کے برابر کردیا حالانکہ میں نے دیکھا کہ میں چارپائی پر لیٹنے والی ہوتی تھی تو رسول اللہ ﷺ تشریف لاتے اور چارپائی کے درمیان نماز ادا کرتے مجھے آپ ﷺ کے سامنے سے نکلنا ناپسند ہوتا تو میں چارپائی کے پایوں کی طرف سے کھسک کر لحاف سے باہر آجاتی۔
نمازی کے سامنے لیٹنے کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، مالک، ابونضر، ابوسلمہ بن عبدالرحمن، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کے آگے سونے والی ہوتی اور میرے پاؤں آپ ﷺ کے قبلہ کی طرف ہوتے جب آپ ﷺ سجدہ کرتے تو مجھے دباتے میں اپنے پاؤں سمیٹ لیتی جب آپ ﷺ کھڑے ہوجاتے۔ تو میں پاؤں پھیلا لیتی فرماتی ہیں ان دنوں گھروں میں چراغ نہیں ہوتے تھے۔
نمازی کے سامنے لیٹنے کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، خالد بن عبداللہ، ابوبکر بن ابی شیبہ، عباد ابن عوام، شیبانی، عبداللہ بن شداد بن ہاد، زوجہ رسول اللہ ﷺ ام المومنین حضرت میمونہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز پڑھتے اور سجدہ کرتے ہوئے آپ ﷺ کا کپڑا مجھ سے کبھی لگ جاتا تھا حالانکہ میں حائضہ ہوتی تھی۔
نمازی کے سامنے لیٹنے کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، زہیر بن حرب، وکیع، طلحہ بن یحیی، عبیداللہ بن عبداللہ حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ رات کو نماز پڑھتے اور میں حالت حیض میں آپ ﷺ کے پہلو میں ہوتی اور جو چادر مجھ پر ہوتی اس کا بعض حصہ آپ ﷺ پر بھی ہوتا تھا۔
ایک کپڑے میں نماز ادا کرنے اور اس کے پہننے کا طریقہ کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، مالک، ابن شہاب، سعید بن مسیب، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک سوال کرنے والے نے رسول اللہ ﷺ سے ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کے بارے میں سوال کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کیا تم میں سے ہر ایک کے پاس دو کپڑے ہیں ؟
ایک کپڑے میں نماز ادا کرنے اور اس کے پہننے کا طریقہ کے بیان میں
حرملہ بن یحیی، ابن وہب، یونس، عبدالملک بن شعیب بن لیث، عقیل بن خالد، ابن شہاب، سعید بن مسیب، ابوسلمہ، ابوہریرہ (رض) ، ان اسناد کے ساتھ بھی یہی حدیث اسی طرح روایت کی گئی ہے۔
ایک کپڑے میں نماز ادا کرنے اور اس کے پہننے کا طریقہ کے بیان میں
عمرو بن ناقد، زہیر بن حرب، عمرو، اسماعیل بن ابراہیم، ایوب، محمد بن سیرین حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم ﷺ کو پکار کر پوچھا کیا ہم میں سے کوئی ایک کپڑے میں نماز ادا کرسکتا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا کیا تم میں سے ہر ایک کے پاس دو کپڑے ہیں ؟
ایک کپڑے میں نماز ادا کرنے اور اس کے پہننے کا طریقہ کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، عمرو ناقد، زہیر بن حرب، ابن عیینہ، زہیر، سفیان، ابوزناد، اعرج، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میں سے کوئی ایک کپڑے میں اس طرح نماز ادا نہ کرے کہ اس کے کندھوں پر کچھ نہ ہو۔
ایک کپڑے میں نماز ادا کرنے اور اس کے پہننے کا طریقہ کے بیان میں
ابوکریب، ابواسامہ، ہشام بن عروہ، حضرت عمر بن ابی سلمہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایک کپڑے میں لپٹے ہوئے ام سلمہ کے گھر میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا کہ آپ ﷺ اس کے دونوں کناروں کو کندھوں پر ڈالنے والے تھے۔
ایک کپڑے میں نماز ادا کرنے اور اس کے پہننے کا طریقہ کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، اسحاق بن ابراہیم، وکیع، ہشام بن عروہ، اس اوپر والی حدیث کی دوسری سند ذکر کی ہے لیکن اس میں یہ ہے کہ آپ ﷺ کپڑے کے ساتھ توشح کرنے والے تھے مشتملا نہیں کہا۔
ایک کپڑے میں نماز ادا کرنے اور اس کے پہننے کا طریقہ کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، حماد بن زید، ہشام بن عروہ، حضرت عمر بن ابی سلمہ (رض) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس طرح کپڑے میں لپٹے ہوئے نماز پڑھتے دیکھا کہ آپ ﷺ نے اس کے دونوں کناروں میں مخالفت کی ہوئی تھی۔
ایک کپڑے میں نماز ادا کرنے اور اس کے پہننے کا طریقہ کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، عیسیٰ بن حماد، لیث، یحییٰ بن سعید، ابوامامہ بن سہل بن حنیف، عمر بن ابی سلمہ، یہ حدیث اس سند سے بھی مروی ہے لیکن اس روایت میں ہے کہ اپنے کندھوں پر۔
ایک کپڑے میں نماز ادا کرنے اور اس کے پہننے کا طریقہ کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، وکیع، سفیان، ابی زبیر، حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو ایک کپڑے میں اس طرح نماز پڑھتے ہوئے دیکھا کہ آپ ﷺ نے توشح کیا ہوا تھا۔
ایک کپڑے میں نماز ادا کرنے اور اس کے پہننے کا طریقہ کے بیان میں
محمد بن عبداللہ بن نمیر، سفیان، محمد بن مثنی، عبدالرحمن، سفیان یہ روایت ان اسناد سے روایت کی گئی ہے لیکن ابن نیمر کی روایت میں ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔
ایک کپڑے میں نماز ادا کرنے اور اس کے پہننے کا طریقہ کے بیان میں
حرملہ بن یحیی، ابن وہب، عمرو، حضرت ابوالزبیر (رض) سے روایت ہے کہ میں نے حضرت جابر (رض) کو ایک کپڑے میں متوشحا نماز پڑھتے دیکھا حالانکہ ان کے پاس کپڑے موجود تھے اور حضرت جابر (رض) نے فرمایا کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا۔
ایک کپڑے میں نماز ادا کرنے اور اس کے پہننے کا طریقہ کے بیان میں
عمرو ناقد، اسحاق بن ابراہیم، عمرو، عیسیٰ بن یونس، اعمش، ابوسفیان، جابر، حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ کے پاس حاضر ہوئے فرماتے ہیں کہ میں نے آپ ﷺ کو ایک چٹائی پر نماز پڑھتے ہوئے دیکھا اور آپ ﷺ اسی پر سجدہ کرتے ہیں اور میں نے آپ ﷺ کو ایک کپڑے میں متوشحا نماز پڑھتے دیکھا۔
ایک کپڑے میں نماز ادا کرنے اور اس کے پہننے کا طریقہ کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب، ابومعاویہ، سوید بن سعید، علی بن مسہر، اعمش، ابوکریب اسی حدیث کی دوسری اسناد ذکر کردی ہیں، ابوکریب کی روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے کپڑے کے دونوں کنارے اپنے کندھوں پر ڈالے ہوئے تھے ابوبکر وسوید کی روایت میں تو شح کا ذکر بھی ہے۔