52. توبہ کا بیان
توبہ کرنے کی ترغیب اور اس سے خوش لونے کے بیان میں
سوید بن سعید حفص بن میسرہ زید بن اسلم ابوصالح حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ عزوجل نے فرمایا میں اپنے بندے کے ساتھ وہی معاملہ کرتا ہوں جس کا وہ میرے ساتھ گمان کرتا ہے اور جب وہ مجھے یاد کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں اللہ کی قسم اللہ اپنے بندے کی توبہ پر اس سے زیادہ خوش ہوتا ہے جتنا تم میں سے کوئی اپنی گمشدہ سواری کو جنگل میں پالینے سے خوش ہوتا ہے اور جو ایک بالشت میرے قریب ہوتا ہے میں ایک ہاتھ اس کے قریب ہوتا ہوں اور جو ایک ہاتھ میرے قریب ہوتا ہے میں دو ہاتھ اس کے قریب ہوتا ہوں اور جو میرے طرف چل کر آتا ہے میری رحمت اس کی طرف دوڑ کر آتی ہے۔
توبہ کرنے کی ترغیب اور اس سے خوش لونے کے بیان میں
عبداللہ بن مسلمہ بن قعنب مغیرہ بن عبدالرحمن حزامی ابی زناد اعرج حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ تم میں سے کسی کی توبہ پر اس سے زیادہ خوش ہوتا ہے جو اپنی گمشدہ سواری کو پالینے کے وقت خوش ہوتا ہے۔
توبہ کرنے کی ترغیب اور اس سے خوش لونے کے بیان میں
محمد بن رافع عبدالرزاق، معمر، ہمام بن منبہ، حضرت ابوہریرہ (رض) نے نبی ﷺ سے اس معنی کی حدیث مبارکہ روایت کی ہے۔
توبہ کرنے کی ترغیب اور اس سے خوش لونے کے بیان میں
عثمان بن ابی شیبہ اسحاق بن ابراہیم، عثمان اسحاق عثمان جریر، اعمش، عمارہ بن عمر حضرت حارث بن سوید (رض) سے روایت ہے کہ میں حضرت عبداللہ کے پاس ان کی عیادت کے لئے حاضر ہوا اور وہ بیمار تھے تو انہوں نے ہمیں دو حدیثیں بیان کیں ایک حدیث اپنی طرف سے اور ایک حدیث رسول اللہ ﷺ سے انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ کو فرماتے ہوئے سنا اللہ اپنے مومن بندے کی توبہ پر اس آدمی سے زیادہ خوش ہوتا ہے جو ایک سنسان اور ہلاکت خیز میدان میں ہو اور اس کے ساتھ اس کی سواری وہ جس پر اس کا کھانا پینا ہو اور پھر وہ سو جائے جب بیدار ہو تو دیکھے کہ اس کی سواری جا چکی ہے وہ اس کی تلاش میں نکلے یہاں تک کہ اسے سخت پیاس لگے پھر وہ کہے میں اپنی جگہ پر سو جاؤں گا یہاں تک کہ مرجاؤں پس اس نے اپنے سر کو اپنی کلائی پر مرنے کے لئے رکھا پھر بیدار ہوا تو اس کی سواری اس کے پاس ہی کھڑی ہو اور اس پر اس کا زاد راہ اور کھانا پینا ہو تو اللہ تعالیٰ مومن بندے کی توبہ پر اس آدمی کی سواری اور زاد راہ ملنے کی خوشی سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے۔
توبہ کرنے کی ترغیب اور اس سے خوش لونے کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، یحییٰ ابن آدم قطبہ بن عبدالعزیز اعمش، اس سند سے بھی یہ حدیث اسی طرح مروی ہے البتہ اس میں یہ ہے کہ آدمی جنگل کی زمین میں ہو۔
توبہ کرنے کی ترغیب اور اس سے خوش لونے کے بیان میں
اسحاق بن منصور ابواسامہ اعمش، عمارہ بن عمیر حضرت حارث بن سوید (رض) سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ نے مجھ سے دو احادیث روایت کیں ان میں ایک رسول اللہ ﷺ سے اور دوسری اپنے پاس سے تو کہا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کو اپنے مومن بندہ کی توبہ سے اس سے زیادہ خوشی ہوتی ہے باقی حدیث جریر کی حدیث کی طرح ہی ہے۔
توبہ کرنے کی ترغیب اور اس سے خوش لونے کے بیان میں
عبیداللہ بن معاذ عنبری ابویونس حضرت سماک سے روایت ہے کہ حضرت نعمان بن بشیر نے خطبہ دیا تو کہا اللہ تعالیٰ اپنے بندہ کی توبہ پر اس آدمی سے زیادہ خوش ہوتا ہے جس نے اپنا زاد راہ اور مشکیزہ اونٹ پر لادا ہو پھر چل دیا یہاں تک کہ کسی جنگل کی زمین میں آیا اور اسے دوپہر کی نیند گھیر لے اور وہ اتر کر ایک درخت کے نیچے سو جائے اس کی آنکھ مغلوب ہوجائے اور اس کا اونٹ کسی طرف چلا جائے وہ بیدار ہو کر ٹیلہ پر چڑھ کر دیکھے لیکن کچھ بھی نظر نہ آئے پھر دوسری مرتبہ ٹیلہ پر چڑھے لیکن کچھ بھی نہ دیکھے پھر تیسری مرتبہ ٹیلہ پر چڑھے لیکن کچھ بھی نظر نہ آئے پھر وہ اسی جگہ واپس آجائے جہاں وہ سویا تھا پھر جس جگہ وہ بیٹھا ہوا ہو اچانک وہیں پر اونٹ چلتے چلتے پہنچ جائے یہاں تک کہ اپنی مہار لا کر اس آدمی کے ہاتھ میں رکھ دے تو اللہ تعالیٰ کو بندے کی توبہ پر اس آدمی کی اس وقت کی خوشی سے زیادہ خوشی ہوتی ہے جب وہ اپنے بندے کو نا امیدی کے عالم میں پالے سماک نے کہا حضرت شعبی کا گمان ہے کہ حضرت نعمان نے یہ حدیث نبی ﷺ سے مرفوعاً روایت کی تھی لیکن میں نے ان سے مر فوعا نہیں سنا۔
توبہ کرنے کی ترغیب اور اس سے خوش لونے کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، جعفر بن حمیر جعفر یحییٰ عبیداللہ بن ایاد بن لقیط حضرت براء بن عازب (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم اس آدمی کی خوشی کے بارے میں کیا کہتے ہو جس سے اس کی سواری سنسان جنگل میں نکیل کی رسی کھینچتی ہوئی بھاگ جائے اور اس زمین میں کھانے پینے کی کوئی چیز نہ ہو اور اس سواری پر اس کا کھانا پینا بھی ہو اور وہ اسے تلاش کرتے کرتے تھک جائے پھر وہ سواری ایک درخت کے تنے کے پاس سے گزرے جس سے اس کی لگام اٹک جائے اور اس آدمی کو وہاں اٹکی ہوئی مل جائے ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول بہت زیادہ خوشی ہوگی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ کی قسم اللہ اپنے بندے کی توبہ سے اس آدمی کی سواری مل جانے کی خوشی سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے۔
توبہ کرنے کی ترغیب اور اس سے خوش لونے کے بیان میں
محمد بن صباح زہیر بن حرب، عمر بن یونس عکرمہ بن عمار اسحاق بن عبداللہ ابی طلحہ حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب بندہ اللہ سے توبہ کرتا ہے تو اللہ کو تمہارے اس آدمی سے بھی زیادہ خوشی ہوتی ہے جو سنسان زمین میں اپنی سواری پر ہو وہ اس سے گم ہوجائے اور اس کا کھانا پینا بھی اسی سواری پر ہو وہ اس سے ناامید ہو کر ایک درخت کے سایہ میں آکر لیٹ جائے جس وقت وہ اپنی سواری سے ناامید ہو کر لیٹے اچانک اس کی سواری اس کے پاس آکر کھڑی ہوجائے اور اس کی لگام پکڑ لے پھر زیادہ خوشی کی وجہ سے کہے اے اللہ تو میرا بندہ اور میں تیرا رب ہوں یعنی شدت خوشی کی وجہ سے الفاظ میں غلطی کر جائے۔
توبہ کرنے کی ترغیب اور اس سے خوش لونے کے بیان میں
ہداب بن خالد ہمام قتادہ، حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ پر تم میں سے جب کوئی بیدار ہونے پر سنسان زمین میں اپنے گمشدہ اونٹ کو پالے اس سے بھی زیادہ خوش ہوتے ہیں۔
توبہ کرنے کی ترغیب اور اس سے خوش لونے کے بیان میں
احمد بن سعید دارمی ہمام قتادہ، حضرت انس بن مالک (رض) نے نبی ﷺ سے اسی طرح حدیث روایت کی ہے۔
استغفار اور توبہ سے گناہوں کے ساقط ہونے کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، لیث، محمد بن قیس قاص عمر بن عبدالعزیز ابی صرمہ حضرت ابوایوب انصاری سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی موت کے وقت کہا میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہوئی ایک حدیث تم سے چھپائے رکھی تھی میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرمایا کرتے تھے اگر تم گناہ نہ کرتے تو اللہ تعالیٰ ایسی مخلوق پیدا فرماتا جو گناہ کرتی اور اللہ انہیں معاف فرماتا۔
استغفار اور توبہ سے گناہوں کے ساقط ہونے کے بیان میں
ہارون بن سعید ایلی ابن وہب، عیاض ابن عبداللہ فہری ابراہیم، بن عبید بن رفاعہ محمد بن کعب قرظی ابوصرمہ حضرت ابوایوب انصاری رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا اگر تمہارے بخشنے کے لئے تمہارے پاس گناہ نہ ہوتے تو اللہ تعالیٰ ایسی قوم لے آتا جن کے گناہ ہوتے اور ان کے گناہوں کو معاف کیا جاتا۔
استغفار اور توبہ سے گناہوں کے ساقط ہونے کے بیان میں
محمد بن رافع عبدالرزاق، معمر، جعفر جزری یزید بن اصم حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر تم گناہ نہ کرتے تو اللہ تمہیں لے جاتا اور ایسی قوم لے آتا جو گناہ کرتے پھر اللہ سے مغفرت طلب کرتے تو اللہ انہیں معاف فرما دیتا۔
ذکر کی پانبدی اور امورا آخرت میں غور وفکر مراقبہ کی فضلیت اور بعض اوقات دنیا کی مشغولیت کی وجہ سے انہیں چھوڑ بیٹھنے کے جواز کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، قطن بن نسیر یحییٰ جعفر بن سلیمان سعید بن ایاس جریر، ابی عثمان نہدی حضرت حنظلہ اسیدی سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ کے کا تبوں میں سے تھے وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے حضرت ابوبکر کی ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا اے حنظلہ تم کیسے ہو میں نے کہا حنظلہ تو منافق ہوگیا انہوں نے کہا سُبْحَانَ اللَّهِ تم کیا کہہ رہے ہو میں نے کہا ہم رسول اللہ کی خدمت میں ہوتے ہیں اور آپ ﷺ ہمیں جنت و دوزخ کی یاد دلاتے رہتے ہیں گویا کہ ہم انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور جب ہم رسول اللہ کے پاس سے نکل جاتے ہیں تو ہم بیویوں اور اولاد اور زمینوں وغیرہ کے معاملات میں مشغول ہوجاتے ہیں اور ہم بہت ساری چیزوں کو بھول جاتے ہیں حضرت ابوبکر (رض) نے کہا اللہ کی قسم ہمارے ساتھ بھی اسی طرح معاملہ پیش آتا ہے میں اور ابوبکر چلے یہاں تک کہ ہم رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول حنظلہ تو منافق ہوگیا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا وجہ ہے میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ہم آپ کی خدمت میں ہوتے ہیں تو آپ ﷺ ہمیں جنت و دوزخ کی یاد دلاتے رہتے ہیں یہاں تک کہ وہ آنکھوں دیکھے ہوجاتے ہیں جب ہم آپ کے پاس سے چلے جاتے ہیں تو ہم اپنی بیویوں اور اولاد اور زمین کے معاملات وغیرہ میں مشغول ہوجانے کی وجہ سے بہت ساری چیزوں کو بھول جاتے ہیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر تم اسی کیفیت پر ہمیشہ رہو جس حالت میں میرے پاس ہوتے ہو، ذکر میں مشغول ہوتے ہو تو فرشتے تمہارے بستروں پر تم سے مصافحہ کریں اور راستوں میں بھی لیکن اے حنظلہ ایک ساعت (یاد کی) ہوتی ہے اور دوسری (غفلت کی) اور آپ ﷺ نے تین بار فرمایا۔
ذکر کی پانبدی اور امورا آخرت میں غور وفکر مراقبہ کی فضلیت اور بعض اوقات دنیا کی مشغولیت کی وجہ سے انہیں چھوڑ بیٹھنے کے جواز کے بیان میں
اسحاق بن منصور عبدالصمد ابوسعید جریر، ابی عثمان نہدی حضرت حنظلہ (رض) سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے آپ ﷺ نے ہمیں نصیحت کی تو جہنم کی یاد دلائی پھر میں گھر کی طرف آیا تو میں نے بچوں سے ہنسی مذاق کیا اور بیوی سے دل لگی کی میں باہر نکلا تو ابوبکر سے ملاقات ہوئی میں نے ان سے اس کا تذکرہ کیا پس ہم رسول اللہ ﷺ سے ملے تو میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول حنظلہ تو منافق ہوگیا آپ ﷺ نے فرمایا ٹھہر جاؤ کیا بات ہے میں نے پوری بات ذکر کی پھر حضرت ابوبکر (رض) نے عرض کیا میں نے بھی ایسے ہی کیا جیسے انہوں نے کہا تو آپ نے فرمایا اے حنظلہ یہ کیفیت کبھی کبھی ایسے ہوتی رہتی ہے اگر تمہارے دل ہر وقت اسی طرح رہیں جیسے نصیحت و ذکر کرتے وقت ہوتے ہیں تو فرشتے تم سے مصافحہ کریں یہاں تک کہ وہ راستوں میں تم سے سلام کریں۔
ذکر کی پانبدی اور امورا آخرت میں غور وفکر مراقبہ کی فضلیت اور بعض اوقات دنیا کی مشغولیت کی وجہ سے انہیں چھوڑ بیٹھنے کے جواز کے بیان میں
زہیر بن حرب، فضل بن دکین سفیان، سعید بن جریری ابی عثمان نہدی حضرت حنظلہ تمیمی (رض) اسیدی کاتب سے روایت ہے کہ ہم نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں آپ ہمیں جنت و جہنم کی یاد دلاتے ہیں باقی حدیث اسیطرح ہے۔
اللہ کی رحمت کی وسعت اور اس کا غضب پر غالب ہونے کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، مغیرہ ابی زناد اعرج حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا جب اللہ نے مخلوق کو پیدا کیا تو اپنے پاس موجود کتاب میں لکھ دیا میری رحمت میرے غصہ پر غالب ہوگی۔
اللہ کی رحمت کی وسعت اور اس کا غضب پر غالب ہونے کے بیان میں
زہیر بن حرب، سفیان بن عیینہ، ابی زناد اعرج حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ رب العزت نے فرمایا میری رحمت میرے غصہ سے آگے بڑھ گئی ہے۔
اللہ کی رحمت کی وسعت اور اس کا غضب پر غالب ہونے کے بیان میں
علی بن خشرم ابوضمرہ حارث بن عبدالرحمن عطاء بن میناء حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جب اللہ تعالیٰ مخلوق کو پیدا کرچکے تو اپنے آپ پر اپنے پاس موجود کتاب میں لکھا میری رحمت میرے غصہ پر غالب ہوگئی۔
اللہ کی رحمت کی وسعت اور اس کا غضب پر غالب ہونے کے بیان میں
حرملہ بن یحییٰ ابن وہب، یونس ابن شہاب سعید بن مسیب حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ کو فرماتے ہوئے سنا اللہ رحمت کے سو (100) اجزا بتائے پھر ان میں سے ننانوے حصوں کو اپنے پاس رکھا اور زمین میں صرف ایک حصہ نازل کیا پس اسی وجہ سے مخلوق ایک دوسرے کے ساتھ رحم کرتی ہے یہاں تک کہ جانور اپنے بچہ سے اپنے پاؤں کو ہٹا لیتا ہے اسے تکلیف پہنچنے کے خوف کی وجہ سے۔
اللہ کی رحمت کی وسعت اور اس کا غضب پر غالب ہونے کے بیان میں
یحییٰ بن ایوب، قتیبہ بن حجر اسماعیل ابن جعفر علاء، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ارشاد فرمایا اللہ عزوجل نے سو رحمتیں پیدا فرمائیں ان میں سے ایک کو اپنی مخلوق میں رکھ دیا اور ایک کم سو (یعنی ننانوے) اپنے پاس رکھیں۔
اللہ کی رحمت کی وسعت اور اس کا غضب پر غالب ہونے کے بیان میں
محمد بن عبداللہ بن نمیر، ابوعبدالملک عطاء، حضرت ابوہریرہ (رض) نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا اللہ کے لئے سو رحمتیں ہیں ان میں سے ایک جنات انسانوں چوپاؤں اور کیڑوں مکوڑوں کے لئے نازل کی جس کی وجہ سے وہ ایک دوسرے پر شفقت و مہربانی اور رحم کرتے ہیں اور اسی کی وجہ سے وحشی جانور اپنے بچہ پر شفقت کرتا ہے اور اللہ نے ننانوے رحمتیں بچا کر رکھی ہیں جن سے قیامت کے دن اپنے بندوں پر رحمت فرمائے گا۔
اللہ کی رحمت کی وسعت اور اس کا غضب پر غالب ہونے کے بیان میں
حکم بن موسیٰ معاذ بن معاذ سلیمان تیمی ابوعثمان نہدی حضرت سلمان فارسی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ کے لئے سو رحمتیں ہیں ان میں سے ایک رحمت کی وجہ سے مخلوق ایک دوسرے کے ساتھ رحم کا معاملہ کرتی ہے اور ننانوے رحمتیں قیامت کے دن کے لئے ہیں۔
اللہ کی رحمت کی وسعت اور اس کا غضب پر غالب ہونے کے بیان میں
محمد بن عبدالاعلی معتمر اس سند سے بھی یہ حدیث مبارکہ اسی طرح مروی ہے۔
اللہ کی رحمت کی وسعت اور اس کا غضب پر غالب ہونے کے بیان میں
ابن نمیر، ابومعاویہ داؤد ابن ابی ہند ابی عثمان حضرت سلمان سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین پیدائش کے دن سو رحمتوں کو پیدا فرمایا ہر رحمت آسمان و زمین کی درمیانی خلاء کے برابر ہے ان میں سے زمین میں ایک رحمت مقرر فرمائی ہے جس کی وجہ سے والدہ اپنے بچہ سے شفقت و محبت کرتی ہے اور وحشی جانور اور پرندے ایک دوسرے کے ساتھ محبت کرتے ہیں جب قیامت کا دن ہوگا اللہ تعالیٰ اس رحمت کے ساتھ اپنی رحمتوں کو مکمل فرمائے گا۔
اللہ کی رحمت کی وسعت اور اس کا غضب پر غالب ہونے کے بیان میں
حسن بن علی حلوانی محمد بن سہل تمیم حسن ابن ابی مریم ابوغسان زید بن اسلم حضرت عمر بن خطاب (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ کی خدمت میں کچھ قیدی لائے گئے اور قیدیوں میں سے ایک عورت کسی کو تلاش کر رہی تھی اس نے قیدیوں میں اپنے بچے کو پایا اس نے اسے اٹھا کر اپنے پیٹ سے لگایا اور اسے دودھ پلانا شروع کردیا تو رسول اللہ ﷺ نے ہمیں فرمایا تمہارا کیا خیال ہے کہ یہ عورت اپنے بچہ کو آگ میں ڈال دے گی ؟ ہم نے عرض کیا نہیں اللہ کی قسم جہاں تک اس کی قدرت ہوئی اسے نہ پھینکے گی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس عورت کے اپنے بچہ پر رحم کرنے سے زیادہ اللہ اپنے بندوں پر رحم فرمانے والا ہے۔
اللہ کی رحمت کی وسعت اور اس کا غضب پر غالب ہونے کے بیان میں
یحییٰ بن ایوب، قتیبہ ابن حجر اسماعیل ابن جعفر ابن ایوب اسماعیل علاء، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر مومن کو پورا علم ہوجاتا کہ اللہ کا عذاب کتنا ہے تو کوئی بھی اس کی جنت کا لالچ نہ کرتا اور اگر کافر جان لیتا کہ اللہ کے پاس رحمت کتنی ہے تو کوئی جنت سے ناامید نہ ہوتا۔
اللہ کی رحمت کی وسعت اور اس کا غضب پر غالب ہونے کے بیان میں
محمد بن مرزوق ابن بنت مہدی بن میمون روح مالک ابی زناد اعرج حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ایک آدمی نے ایک نیکی بھی نہ کی تھی جب وہ مرنے لگا تو اس نے اپنے گھر والوں سے کہا مجھے جلا کر میرا آدھا حصہ سمندر میں جبکہ آدھا حصہ فضا میں اڑا دینا اللہ کی قسم اگر اللہ اسے عذاب دے گا تو ایسا سخت عذاب دے گا کہ جہان والوں میں سے کسی کو بھی ایسا عذاب نہ ہوا ہوگا پس جب وہ آدمی مرگیا تو اس کے گھر والوں نے وہی کیا جو انہیں حکم دیا گیا تھا پس اللہ نے فضا کو حکم دیا تو اس نے اس کے ذرات کو جمع کردیا اور سمندر کو حکم دیا تو اس نے بھی اپنے اندرموجود سب کو جمع کردیا پھر فرمایا تو نے ایسا کیوں کیا اس نے کہا اے میرے رب تیرے خوف وڈر کی وجہ سے تو بہتر جانتا ہے پس اللہ نے اسے معاف فرما دیا۔
اللہ کی رحمت کی وسعت اور اس کا غضب پر غالب ہونے کے بیان میں
محمد بن رافع عبد بن حمید ابن رافع عبدالرزاق، معمر، زہری، حمید بن عبدالرحمن حضرت ابوہریرہ (رض) نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے اپنے آپ پر (کثرت گناہ کی وجہ سے) زیادتی کی جب اس کی موت کا وقت آیا تو اس نے اپنے بیٹوں کو وصیت کرتے ہوئے کہا جب میں مرجاؤں تو مجھے جلا دینا پھر باریک پیس دینا پھر مجھے ہوا میں اور سمندر میں اڑا دینا اللہ کی قسم اگر میرے رب نے مجھے عذاب دینے کے لئے گرفت کی تو مجھے ایسا عذاب دے گا کہ اس جیسا عذاب کسی کو نہ دیا گیا ہوگا پس اس کے ساتھ ایسا ہی کیا گیا پس (اللہ نے) زمین سے فرمایا تو نے جو کچھ لیا ہے وہ نکال دے پس فوراً وہ آدمی مجسم کھڑا ہوگیا تو (اللہ نے) اس سے فرمایا تجھے اس عمل پر کس چیز نے برانگیختہ کیا اس نے عرض کیا اے میرے رب تیرے خوف اور ڈر نے اللہ نے اسی وجہ سے اسے معاف فرما دیا۔
اللہ کی رحمت کی وسعت اور اس کا غضب پر غالب ہونے کے بیان میں
زہری، حمید حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا ایک عورت بلی کو باندھنے کی وجہ سے جہنم میں ڈالی گئی جسے نہ وہ کھلاتی تھی اور نہ ہی چھوڑتی تھی کہ وہ کیڑے مکوڑے ہی کھا لیتی یہاں تک کہ کمزوری کی وجہ سے وہ مرگئی زہری نے کہا ان سے مراد یہ ہے کہ نہ تو رحمت پر بالکل اعتماد کرے (نیک اعمال ہی نہ کرے) کہ اور نہ ہی اللہ کی رحمت سے ناامید ہوجائے۔
اللہ کی رحمت کی وسعت اور اس کا غضب پر غالب ہونے کے بیان میں
ابوربیع سلیمان بن داؤد محمد بن حرب زبیدی حمید بن عبدالرحمن بن عوف حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ ایک بندے نے اپنے آپ پر (برے اعمال کی وجہ سے) زیادتی کی باقی حدیث گزر چکی لیکن اس حدیث میں بلی کے واقعہ میں عورت کا ذکر نہیں اور زبیدی نے کہا تو اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا جس چیز نے بھی اس (کی راکھ) سے کچھ بھی لیا ہو وہ واپس کر دے۔
اللہ کی رحمت کی وسعت اور اس کا غضب پر غالب ہونے کے بیان میں
عبیداللہ بن معاذ عنبری ابی شعبہ، قتادہ، عقبہ بن عبد غافر حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا تم میں سے پہلے لوگوں میں سے ایک آدمی کو مال اور اولاد عطا کی گئی تھی اس نے اپنی اولاد سے کہا میں تمہیں جو حکم دوں وہ ضرور کرنا ورنہ میں اپنی وراثت کا تمہارے علاوہ کسی دوسرے کو وارث بنا دوں گا جب میں مرجاؤں تو مجھے جلا دینا اور زیادہ یاد یہی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا پھر میری راکھ بنانا اور مجھے ہوا میں اڑا دینا کیونکہ میں نے اللہ کے پاس کوئی نیکی نہیں بھیجی اور اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ مجھے عذاب دے پھر ان سے وعدہ لیا پس انہوں نے اللہ کی قسم اس کے ساتھ ایسا ہی کیا تو اللہ عزوجل نے فرمایا تجھے ایسا کرنے پر کس چیز نے برانگیختہ کیا اس نے عرض کیا تیرے خوف نے اللہ نے اسے اس کے علاوہ اور کوئی عذاب نہ دیا۔
اللہ کی رحمت کی وسعت اور اس کا غضب پر غالب ہونے کے بیان میں
یحییٰ بن حبیب حارثی، معتمر بن سلیمان ابوقتادہ، ابوبکر بن ابی شیبہ، حسن بن موسیٰ شیبان بن عبدالرحمن ابن مثنی ابو ولید، ابوعوانہ، قتادہ، شعبہ، ان اسناد سے بھی یہ حدیث اسی طرح مروی ہے البتہ اس میں یہ ہے کہ لوگوں میں سے ایک آدمی کو اللہ عزوجل نے مال اور اولاد عطاء کی اور تیمی کی حدیث میں ہے کہ اس نے اللہ عزوجل کے پاس کوئی نیکی جمع نہ کی اور شیبان کی حدیث میں ہے کیونکہ اللہ کی قسم اس نے اللہ کے ہاں نیکی کو جمع نہ کیا اور ابوعوانہ کی حدیث میں ہے کہ اس نے کوئی نیکی نہیں کی۔
گناہ اور توبہ اگرچہ باربار ہوں گناہوں سے توبہ کی قبولیت کے بیان میں
عبدالاعلی ابن حماد حماد بن سلمہ اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ عبدالرحمن بن ابی عمرہ حضرت ابوہریرہ (رض) نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے اپنے رب العزت سے حکایت کرتے ہوئے فرمایا کسی بندے نے گناہ کیا پھر عرض کیا اے اللہ میرے گناہ کو معاف فرما دے اللہ تعالیٰ نے فرمایا میرے بندے نے گناہ کیا پس وہ جانتا ہے کہ اس کا رب گناہ کو معاف بھی فرماتا ہے اور گناہ پر گرفت بھی کرتا ہے پھر وہ دوبارہ گناہ کر بیٹھتا ہے پھر عرض کرتا ہے اے میرے رب میرے گناہ کو معاف فرما تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا میرے بندے نے گناہ کیا پس وہ جانتا ہے کہ اس کا رب گناہ کو معاف بھی فرماتا ہے اور گناہ پر گرفت بھی کرتا ہے پھر وہ دوبارہ گناہ کر بیٹھتا ہے تو عرض کرتا ہے اے میرے رب میرے گناہ کو معاف فرما تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا میرے بندے نے گناہ کیا پس وہ جانتا ہے کہ اس کا رب گناہ کو معاف بھی فرماتا ہے اور گناہ پر گرفت بھی کرتا ہے تو جو چاہے کر میں نے تجھے معاف کردیا عبدالاعلی نے کہا میں نہیں جانتا کہ آپ ﷺ نے تیسری یا چوتھی مرتبہ فرمایا کہ جو چاہو عمل کرو۔
گناہ اور توبہ اگرچہ باربار ہوں گناہوں سے توبہ کی قبولیت کے بیان میں
ابواحمد محمد بن زنجویہ عبدالاعلی بن حماد نرشی اس سند سے بھی یہ حدیث مروی ہے۔
گناہ اور توبہ اگرچہ باربار ہوں گناہوں سے توبہ کی قبولیت کے بیان میں
عبد بن حمید ابو ولید ہمام اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ بندے نے گناہ کیا باقی حدیث حماد بن سلمہ کی حدیث ہی کی طرح ہے اور اس میں تین مرتبہ ذکر کیا کہ اس نے گناہ کیا اور تیسری مرتبہ کہا تحقیق میں نے اپنے بندے کو معاف کردیا پس وہ جو چاہے عمل کرے۔
گناہ اور توبہ اگرچہ باربار ہوں گناہوں سے توبہ کی قبولیت کے بیان میں
محمد بن مثنی، محمد بن جعفر، شعبہ، عمر بن مرہ (رض) حضرت ابوموسی (رض) نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ رب العزت رات کے وقت اپنا ہاتھ پھیلاتا رہتا ہے تاکہ دن کے گناہ گار کی توبہ قبول کرے اور اپنا ہاتھ دن کو پھیلاتا رہتا ہے تاکہ رات کے گناہ گار کی توبہ قبول کرے یہاں تک کہ سورج مغرب سے طلوع ہو۔
گناہ اور توبہ اگرچہ باربار ہوں گناہوں سے توبہ کی قبولیت کے بیان میں
محمد بن بشار، ابوداؤد شعبہ، اس سند سے بھی یہ حدیث مبارکہ اسی طرح مروی ہے۔
اللہ تعالیٰ کی غیرت اور بے حیائی کے کاموں کی حرمت کے بیان میں
عثمان بن ابی شیبہ اسحاق بن ابراہیم اسحاق عثمان جریر، اعمش، ابو وائل حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ سے بڑھ کر کسی کو اپنی تعریف و مدح پسند نہیں ہے اسی وجہ سے اللہ نے خود اپنی تعریف بیان کی ہے اور اللہ سے بڑھ کر کوئی غیرت مند نہیں ہے اسی وجہ سے بےحیائی کے کاموں کو حرام کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی غیرت اور بے حیائی کے کاموں کی حرمت کے بیان میں
محمد بن عبداللہ بن نمیر، ابوکریب ابومعاویہ ابوبکر بن ابی شیبہ، عبداللہ بن نمیر ابومعاویہ اعمش، شقیق حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ سے زیادہ غیرت مند کوئی نہیں اسی وجہ سے ظاہری اور باطنی فواحش کو حرام کیا ہے اور نہ ہی کوئی اللہ سے بڑھ کر تعریف کو پسند کرنے والا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی غیرت اور بے حیائی کے کاموں کی حرمت کے بیان میں
محمد بن مثنی، ابن بشار محمد بن جعفر، شعبہ، عمرو بن مرہ ابو وائل حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے مرفوعاً روایت ہے کہ اللہ سے بڑھ کر کوئی غیرت مند نہیں ہے اسی وجہ سے ظاہری اور باطنی فواحش کو حرام کردیا ہے اور نہ ہی کوئی ایسا ہے جسے اللہ سے بڑھ کر تعریف پسند ہو اسی وجہ سے اس نے اپنی تعریف خود کی ہے۔
اللہ تعالیٰ کی غیرت اور بے حیائی کے کاموں کی حرمت کے بیان میں
عثمان بن ابی شیبہ زہیر بن حرب، اسحاق بن ابراہیم، اسحاق جرید اعمش، مالک بن حارث عبدالرحمن بن زید حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کوئی ایسا نہیں جسے اللہ رب العزت سے بڑھ کر تعریف پسند ہو اسی وجہ سے اس نے اپنی تعریف خود کی ہے اور نہ ہی کوئی اللہ سے بڑھ کر غیرت مند ہے اسی وجہ سے بری باتوں کو حرام کیا ہے اور نہ ہی کوئی ایسا ہے جسے اللہ سے بڑھ کر عذر قبول کرنا پسند ہو اسی وجہ سے اللہ نے کتاب نازل کی اور رسولوں کو مبعوث فرمایا۔
اللہ تعالیٰ کی غیرت اور بے حیائی کے کاموں کی حرمت کے بیان میں
عمرو ناقد اسماعیل بن ابراہیم، اسماعیل بن علیہ حجاج بن ابی عثمان حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ غیرت کرتا ہے اور مومن بھی غیرت مند ہے اور اللہ کی غیرت یہ ہے کہ مومن ایسا عمل کرے جسے اللہ نے حرام کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی غیرت اور بے حیائی کے کاموں کی حرمت کے بیان میں
یحییٰ ابوسلمہ (رض) عروہ بن زبیر، حضرت اسماء بنت ابی بکر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کوئی چیز بھی اللہ سے بڑھ کر غیرت مند نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ کی غیرت اور بے حیائی کے کاموں کی حرمت کے بیان میں
محمد بن مثنی، ابوداؤد (رض) ابان بن یزید حرب بن شداد یحییٰ بن ابی کثیر، ابوسلمہ حضرت ابوہریرہ (رض) نے نبی ﷺ سے اسی طرح حدیث روایت کی ہے۔
اللہ تعالیٰ کی غیرت اور بے حیائی کے کاموں کی حرمت کے بیان میں
محمد بن ابی بکر مقدامی بشر بن مفضل ہشام یحییٰ بن ابی کثیر، ابوسلمہ عروہ (رض) حضرت اسماء نبی ﷺ سے روایت کرتی ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا کوئی بھی چیز اللہ سے زیادہ غیرت مند نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ کی غیرت اور بے حیائی کے کاموں کی حرمت کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، عبدالعزیز ابن محمد علاء، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا مومن غیرت مند ہوتا ہے اور اللہ اس سے بھی زیادہ غیرت مند ہے۔
اللہ تعالیٰ کی غیرت اور بے حیائی کے کاموں کی حرمت کے بیان میں
محمد بن مثنی، محمد بن جعفر، شعبہ، علاء، حضرت ابوہریرہ (رض) اس سند سے بھی مروی ہے۔
اللہ عزوجل کے قول نیکیاں گناہوں کو ختم کردیتی ہیں کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، ابوکامل فضیل بن حسین جحدری یزید بن زریع ابی کامل یزید تیمی ابی عثمان حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے ایک عورت کا بوسہ لیا پھر اس نے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اس کا ذکر کیا تو یہ آیت کریمہ (وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّيْلِ ) 11 ۔ ہود۔ 114) دن کے دونوں حصوں اور رات کے کچھ حصے میں نماز قائم کرو بیشک نیکیاں برائیوں کو ختم کردیتی ہیں یہ نصیحت قبول کرنے والوں کے لئے نصیحت ہے اس آدمی نے عرض کیا اے اللہ کے رسول کیا یہ میرے لئے ہے آپ ﷺ نے فرمایا میری امت میں سے جو بھی عمل کرے گا اس کے لئے ہے۔
اللہ عزوجل کے قول نیکیاں گناہوں کو ختم کردیتی ہیں کے بیان میں
محمد بن عبدالاعلی معتمر ابوعثمان حضرت ابن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ اس نے کسی عورت کا بوسہ لیا یا ہاتھ سے چھیڑا ہے یا اور کچھ کیا ہے گویا کہ وہ اس کا کفارہ پوچھ رہا تھا تو اللہ رب العزت نے یہی آیات نازل فرمائیں باقی حدیث یزید کی حدیث کی طرح ہے۔
اللہ عزوجل کے قول نیکیاں گناہوں کو ختم کردیتی ہیں کے بیان میں
عثمان بن ابی شیبہ جریر، سلیمان تیمی یہ حدیث اس سند سے بھی مروی ہے لیکن اس میں یہ بھی ہے کہ ایک آدمی نے کسی عورت سے زنا کے علاوہ کوئی برا کام کیا پھر وہ عمر بن خطاب کے پاس آیا تو انہوں نے اسے بہت بڑا گناہ سمجھا پھر حضرت ابوبکر (رض) کے پاس آیا تو انہوں نے بھی اسے بہت بڑا گناہ خیال کیا پھر نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا باقی حدیث گزر چکی ہے۔
اللہ عزوجل کے قول نیکیاں گناہوں کو ختم کردیتی ہیں کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، قتیبہ بن سعید، ابوبکر بن ابی شیبہ یحییٰ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا اے اللہ کے رسول میں نے مدینہ کے کنارے ایک عورت سے لطف اندوزی کی اور میں نے اس سے جماع کے علاوہ باقی حرکت کی پس میں حاضر ہوں آپ ﷺ میرے بارے میں جو چاہیں فیصلہ فرمائیں تو حضرت عمر (رض) نے اس سے کہا اگر اپنے آپ پر پردہ کرتا تو اللہ نے تیرا پردہ رکھا ہوا تھا ابن مسعود (رض) نے کہا نبی ﷺ نے کوئی جواب نہ دیا تو وہ آدمی کھڑا ہوا اور چل دیا پس نبی ﷺ نے اس کے پیچھے ایک آدمی کو بھیجا جو اسے بلا لایا آپ ﷺ نے اس کے سامنے یہ آیت تلاوت کی اَقِمْ الصَّلَاةَ طَرَفَيْ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنْ اللَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ذَلِکَ ذِکْرَی لِلذَّاکِرِينَ ) دن کے دونوں حصوں اور رات کے کچھ حصے میں نماز قائم کریں بیشک نیکیاں برائیوں کو ختم کردیتی ہیں یہ نصیحت قبول کرنے والوں کے لئے نصیحت ہے حاضرین میں سے ایک آدمی نے عرض کیا اے اللہ کے نبی ﷺ یہ اس کے لئے خاص ہے آپ ﷺ نے فرمایا بلکہ تمام لوگوں کے لئے۔
اللہ عزوجل کے قول نیکیاں گناہوں کو ختم کردیتی ہیں کے بیان میں
محمد بن مثنی، ابونعمان حکم بن عبداللہ عجلی شعبہ، سماک بن حرب، ابراہیم، خالد اسود حضرت عبداللہ (رض) نے نبی ﷺ سے اسی معنی کی حدیث روایت کی ہے اس حدیث میں یہ ہے کہ حضرت معاذ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول کیا یہ آیت اسی کے لئے خاص ہے یا ہمارے لئے عام ہے آپ ﷺ نے فرمایا نہیں بلکہ تمہارے لئے عام ہے۔
اللہ عزوجل کے قول نیکیاں گناہوں کو ختم کردیتی ہیں کے بیان میں
حسن بن علی حلوانی عمرو بن عاصم، ہمام اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ، حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا اے اللہ کے رسول میں حد (کے جرم تک) پہنچ گیا ہوں پس آپ ﷺ مجھ پر حد قائم فرمائیں نماز کا وقت ہوگیا تو اس نے نبی ﷺ کے ساتھ نماز اداء کی جب نماز پوری کرچکا تو اس نے عرض کیا اے اللہ کے رسول میں حد کے جرم تک پہنچ گیا ہوں آپ میرے بارے میں اللہ کا فیصلہ قائم کریں آپ نے فرمایا کیا تو ہمارے ساتھ نماز میں شریک تھا اس نے عرض کیا جی ہاں آپ ﷺ نے فرمایا تحقیق تجھے معاف کیا جا چکا۔
اللہ عزوجل کے قول نیکیاں گناہوں کو ختم کردیتی ہیں کے بیان میں
نصر بن علی زہیر بن حرب، عمر بن یونس عکرمہ بن عمار شداد حضرت ابوامامہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ایک دفعہ مسجد میں تشریف فرما تھے اور ہم آپ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک آدمی نے آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا اے اللہ کے رسول میں حد (کے جرم) تک پہنچ گیا ہوں آپ ﷺ مجھ پر حد قائم کریں رسول اللہ ﷺ اس کے بارے میں خاموش رہے اس نے پھر دہرایا تو عرض کیا اے اللہ کے رسول میں حد کے جرم تک پہنچ گیا ہوں آپ ﷺ مجھ پر حد قائم کردیں پس آپ ﷺ اس سے خاموش رہے اور نماز قائم کی گئی جب اللہ کے نبی ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو وہ آپ ﷺ کے پیچھے ہو لیا اور میں بھی آپ ﷺ کے پیچھے پیچھے چل دیا تاکہ میں دیکھوں کہ آپ ﷺ اس آدمی کو کیا جواب دیتے ہیں پس وہ آدمی رسول اللہ ﷺ سے ملا تو اس نے عرض کیا اے اللہ کے رسول میں حد کے جرم تک پہنچ گیا ہوں آپ ﷺ مجھ پر حد قائم کریں ابوامامہ نے کہا رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا کیا خیال ہے کہ جب تم گھر سے نکلے تھے تو کیا تم نے اچھی طرح وضو نہ کیا تھا اس نے عرض کیا جی ہاں اے اللہ کے رسول پھر رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا پس بیشک اللہ نے تیری حد کو معاف فرما دیا یا فرمایا تیرے گناہ کو معاف کردیا۔
قاتل کی توبہ کی قبولیت کے بیان میں اگرچہ اس نے قتل کثیر کئے ہوں
محمد بن مثنی، محمد بن بشار، معاذ بن ہشام قتادہ، ابی صدیق حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا تم میں سے پہلے لوگوں میں ایک آدمی نے ننانوے جانوں کو قتل کیا پھر اس نے اہل زمین میں سے سب سے بڑے عالم کے بارے میں پوچھا پس اس کی ایک راہب کی طرف راہنمائی کی گئی وہ اس کے پاس آیا تو کہنے لگا اس نے ننانوے جانوں کو قتل کیا ہے کیا اس کے لئے توبہ کا کوئی راستہ ہے اس نے کہا نہیں پس اس نے اس راہب کو قتل کر کے سو پورے کردیئے پھر زمین والوں سے سب سے بڑے عالم کے بارے میں پوچھا تو ایک عالم کی طرف اس کی راہنمائی کی گئی اس نے کہا میں نے سو آدمیوں کو قتل کیا ہے میرے لئے توبہ کا کوئی راستہ ہے تو اس نے کہا جی ہاں اس کے اور توبہ کے درمیان کیا چیز رکاوٹ بن سکتی ہے تم اس اس جگہ کی طرف جاؤ وہاں پر موجود کچھ لوگ اللہ کی عبادت کر رہے ہیں تو بھی ان کے ساتھ عبادت الٰہی میں مصروف ہوجا اور اپنے علاقے کی طرف لوٹ کر نہ آنا کیونکہ وہ بری جگہ ہے پس وہ چل دیا یہاں تک کہ جب آدھے راستے پر پہنچا تو اس کی موت واقع ہوگئی پس اس کے بارے میں رحمت کے فرشتے اور عذاب کے فرشتے جھگڑ پڑے رحمت کے فرشتوں نے کہا یہ توبہ کرتا ہوا اور اپنے دل کو اللہ کی طرف متوجہ کرتا ہوا آیا اور عذاب کے فرشتوں نے کہا اس نے کوئی بھی نیک عمل نہیں کیا پس پھر ان کے پاس ایک فرشتہ آدمی کی صورت میں آیا اسے انہوں نے اپنے درمیان ثالث (فیصلہ کرنے والا) مقرر کرلیا تو اس نے کہا دونوں زمینوں کی پیمائش کرلو پس وہ دونوں میں سے جس زمین سے زیادہ قریب ہو وہی اس کا حکم ہوگا پس انہوں نے زمین کو ناپا تو اسی زمین کو کم پایا جس کا اس نے ارادہ کیا تھا پس پھر رحمت کے فرشتوں نے اس پر قبضہ کرلیا حسن (رح) نے کہا ہمیں ذکر کیا گیا کہ جب اس کی موت واقع ہوئی تو اس نے اپنا سینہ اس زمین سے دور کرلیا تھا (جہاں سے وہ چلا تھا) ۔
قاتل کی توبہ کی قبولیت کے بیان میں اگرچہ اس نے قتل کثیر کئے ہوں
عبیداللہ بن معاذ عنبری ابی شعبہ، قتادہ، ابوصدیق نافی حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا ایک آدمی نے ننانوے آدمیوں کو قتل کیا پھر اس نے پوچھنا شروع کردیا کہ اس کے لئے توبہ کا کوئی راستہ ہے ایک راہب کے پاس آ کر پوچھا تو اس نے کہا تیرے لئے توبہ کا کوئی راستہ نہیں ہے اس نے راہب کو بھی قتل کردیا پھر اس نے دوبارہ پوچھنا شروع کردیا اور ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں کی طرف نکلا، جس میں نیک لوگ رہتے تھے جب اس نے کچھ راستہ طے کیا تو اسے موت نے گھیر لیا پس اس نے سینہ کے بل سرک کر اپنی آبادی سے اپنے آپ کو دور کرلیا پھر مرگیا تو رحمت کے فرشتوں اور عذاب کے فرشتوں کے درمیان اس کے بارے میں جھگڑا ہوا تو وہ ایک بالشت نیک لوگوں کی بستی کے قریب تھا پس اسے اسی بستی والوں میں سے کردیا گیا۔
قاتل کی توبہ کی قبولیت کے بیان میں اگرچہ اس نے قتل کثیر کئے ہوں
محمد بن بشار، ابن ابی عدی، شعبہ، قتادہ، معاذ یہ حدیث اس سند سے بھی اسی طرح مروی ہے البتہ اس میں اضافہ یہ ہے کہ اللہ عزوجل نے اس زمین کو حکم دیا کہ تو دور ہوجا اور اس زمین کو حکم دیا کہ تو قریب ہوجا۔
اللہ تعالیٰ کی رحمت کی وسعت اور جہنم سے نجات کے لئے ہر مسلمان کا فدیہ کافر کے ہونے کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابواسامہ طلحہ بن یحییٰ حضرت ابوموسی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جب قیامت کا دن ہوگا رب العزت ہر مسلمان کی طرف یہودی یا نصرانی بھیجے گا اور کہے گا یہ جہنم سے تیرا فدیہ و بدلہ ہے۔
اللہ تعالیٰ کی رحمت کی وسعت اور جہنم سے نجات کے لئے ہر مسلمان کا فدیہ کافر کے ہونے کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، عفان بن مسلم ہمام قتادہ، سعید بن جبیر (رض) حضرت قتادہ (رض) سے روایت ہے کہ عون اور سعید بن ابوبردہ کی موجودگی میں ابوبردہ نے حضرت عمر بن عبدالعزیز سے یہ حدیث اپنے باپ سے روایت کی کہ نبی ﷺ نے فرمایا جو بھی مسلمان آدمی فوت ہوتا ہے اس کے بدلے اللہ تعالیٰ یہودی یا نصرانی کو جہنم میں داخل کرتے ہیں پس عمر بن عبدالعزیز نے ابوبردہ کو تین بار اس ذات کی قسم دی جس کے سوا کوئی معبود نہیں کہ کیا واقعی اس کے باپ نے یہ حدیث رسول اللہ ﷺ سے روایت کی ہے تو انہوں نے ان کے سامنے قسم اٹھائی قتادہ نے کہا مجھ سے سعید نے قسم لینے کو بیان نہیں کیا اور نہ یہ انہوں نے عون کے اس قول پہ انکار کیا۔
اللہ تعالیٰ کی رحمت کی وسعت اور جہنم سے نجات کے لئے ہر مسلمان کا فدیہ کافر کے ہونے کے بیان میں
اسحاق بن ابراہیم، محمد بن مثنی، عبدالصمد بن عبدالوارث ہمام قتادہ (رض) یہ حدیث اس سند سے بھی اسی طرح مروی ہے۔
اللہ تعالیٰ کی رحمت کی وسعت اور جہنم سے نجات کے لئے ہر مسلمان کا فدیہ کافر کے ہونے کے بیان میں
محمد بن عمرو بن عباد بن جبلہ بن ابی رواد حرمی بن عمارہ شداد ابوطلحہ راسبی غیلان بن جریر، حضرت ابوبردہ (رض) اپنے والد کے واسطہ سے نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن مسلمانوں میں سے بعض لوگ پہاڑوں کے برابر گناہوں کو یہودیوں اور نصرانیوں پر ڈال دیں گے آگے راوی کو شک ہے راوی ابوروح نے کہا مجھے معلوم نہیں کہ شک کس کو ہوا ہے ابوبردہ نے کہا تیرے باپ نے یہ حدیث نبی ﷺ سے بیان کی میں نے کہا جی ہاں
اللہ تعالیٰ کی رحمت کی وسعت اور جہنم سے نجات کے لئے ہر مسلمان کا فدیہ کافر کے ہونے کے بیان میں
زہیر بن حرب، اسماعیل بن ابراہیم، ہشام دستوائی، قتادہ، حضرت صفوان بن محرز سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے ابن عمر (رض) سے کہا آپ ﷺ نے نبی ﷺ سے سرگوشی کے بارے میں کیا سنا ہے انہوں نے کہا کہ میں نے آپ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا قیامت کے دن ایک مومن اپنے رب کے قریب کیا جائے گا یہاں تک کہ اللہ اس پر اپنی رحمت کا پردہ ڈال دے گا پھر اس سے اس کے گناہوں کا اقرار کروایا جائے گا پھر اللہ فرمائے گا کیا تو جانتا ہے وہ عرض کرے گا اے رب میں جانتا ہوں اللہ فرمائے گا میں نے دنیا میں تیرے گناہوں پر پردہ ڈلا ہے اور آج کے دن تیرے گناہوں کو معاف کرتا ہوں پھر اسے اس کی نیکیوں کا اعمال نامہ دیا جائے گا اور کفار و منافقین کو علی الاعلان لوگوں کے سامنے بلایا جائے گا اور کہا جائے گا یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ پر جھوٹ باندھا۔
حضرت کعب بن مالک اور ان کے دو ساتھیوں کی توبہ کی حدیث کے بیان میں
ابوطاہر احمد بن عمرو ابن عبداللہ بن عمرو ابن سرح مولیٰ بنی امیہ ابن وہب، یونس حضرت ابن شہاب (رض) سے روایت ہے کہ پھر رسول اللہ کو غزوہ تبوک پیش آگیا اور آپ ﷺ روم اور عرب کے نصاری کے ساتھ جنگ کا ارادہ رکھتے تھے ابن شہاب نے کہا مجھے عبدالرحمن بن عبداللہ بن کعب بن مالک نے خبر دی کہ عبداللہ بن کعب جو حضرت کعب کو نابینا ہونے کی حالت میں لے کر چلنے والے بیٹے تھے نے کہا میں نے حضرت کعب بن مالک سے سنا انہوں نے اپنی وہ حدیث بیان کی جب وہ غزوہ تبوک میں رسول اللہ ﷺ سے پیچھے رہ گئے تھے کعب بن مالک نے کہا میں رسول اللہ ﷺ کے غزوات میں سے غزوہ تبوک کے علاوہ کسی بھی غزوہ میں پیچھے نہیں رہا اور غزوہ بدر میں بھی پیچھے رہ گیا لیکن آپ ﷺ نے اس میں پیچھے رہ جانے والوں میں سے کسی شخص پر ناراضگی کا اظہار نہیں کیا رسول اللہ ﷺ اور مسلمان قریش کے قافلہ کو لوٹنے کے ارادہ سے نکلے یہاں تک کہ اللہ نے مسلمان اور ان کے دشمنوں کے درمیان غیر اختیاری طور پر مقابلہ کروا دیا اور میں بیعت عقبہ کی رات رسول اللہ کے ساتھ حاضر تھا جب ہم نے اسلام پر وعدہ و میثاق کیا تھا اور مجھے یہ بات پسند نہ تھی کہ میں اس رات کے بدلے جنگ بدر میں شریک ہوتا گو غزوہ بدر لوگوں میں اس رات سے زیادہ معروف و مشہور ہے اور غزوہ تبوک میں رسول اللہ ﷺ سے پیچھے رہ جانے کا میرا واقعہ یہ ہے کہ میں اس غزوہ کے وقت جتنا مالدار اور طاقتور تھا اتنا اس سے پہلے کسی غزوہ میں نہ تھا اللہ کی قسم اس سے پہلے کبھی بھی میرے پاس دو سواریاں جمع نہیں ہوئی تھیں یہاں تک کہ میں نے دو سواریوں کو اس غزوہ میں جمع کرلیا تھا پس رسول اللہ ﷺ نے سخت گرمی میں جہاد کیا اور بہت لمبے سفر کا ارادہ کیا اور راستہ جنگل بیابان اور دشوار تھا اور دشمن بھی کثیر تعداد میں پیش نظر تھے پس آپ ﷺ نے مسلمانوں کو ان معاملات کی پوری پوری وضاحت کردی تاکہ وہ ان کے ساتھ جنگ کے لئے مکمل طور پر تیاری کرلیں اور جس طرف آپ ﷺ کا ارادہ تھا واضح کردیا اور رسول اللہ کے ساتھ مسلمان کثیر تعداد میں تھے اور انہیں کسی کتاب و رجسٹر میں درج نہیں کیا گیا تھا کعب نے کہا بہت کم لوگ ایسے تھے جو اس گمان سے اس غزوہ سے غائب ہونا چاہتے ہوں کہ ان کا معاملہ آپ ﷺ سے مخفی و پوشیدہ رہے گا جب تک اللہ رب العزت کی طرف سے اس معاملہ میں وحی نہ نازل کی جائے اور رسول اللہ ﷺ نے یہ غزوہ اس وقت کیا تھا جب پھل پک چکے تھے اور سائے بڑھ چکے تھے اور مجھے ان چیزوں کا بہت شوق تھا پس رسول اللہ ﷺ نے تیاری کی اور مسلمانوں نے بھی آپ ﷺ کے ساتھ (تیاری کی) پس میں نے بھی صبح کو ارادہ کیا تاکہ میں بھی ان (دیگر مسلمانوں) کے ساتھ تیاری کروں لیکن میں ہر روز واپس آجاتا اور کوئی فیصلہ نہ کر پاتا اور اپنے دل ہی دل میں کہتا کہ میں اس بات پر قادر ہوں جب جانے کا ارادہ کروں گا چلا جاؤں گا پس برابر میرے ساتھ اسی طرح ہوتا رہا اور لوگ مسلسل اپنی کوشش میں مصروف رہے پس رسول اللہ ﷺ نے ایک صبح مسلمانوں کو ساتھ لیا اور چل دیئے لیکن میں اپنی تیاری کے لئے کوئی فیصلہ نہ کر پایا تھا میں نے صبح کی تو واپس آگیا اور کچھ بھی فیصلہ نہ کر پایا پس میں اسی کشمکش میں مبتلا رہا یہاں تک کہ مجاہدین آگے بڑھ گئے اور غزوہ شروع ہوگیا پس میں نے ارادہ کیا کہ میں کوچ کروں گا اور ان کو پہنچ جاؤں گا کاش میں ایسا کرلیتا لیکن یہ بات میرے مقدر میں نہ تھی رسول اللہ ﷺ کے چلے جانے کے بعد جب میں باہر لوگوں میں نکلتا تو یہ بات مجھے غمگین کردیتی کہ میں کسی کو پیروی کے قابل نہ پاتا تھا سوائے ان لوگوں کے جنہیں نفاق کی تہمت دی جاتی تھی یا وہ آدمی جسے کمزوری اور ضعیفی کی وجہ سے اللہ نے معذور قرار دیا تھا اور رسول اللہ ﷺ نے تبوک پہنچنے تک میرا ذکر نہ کیا پھر آپ نے تبوک میں لوگوں کے درمیان بیٹھے ہوئے فرمایا کعب بن مالک نے کیا کیا بنی سلمہ میں سے ایک آدمی نے عرض کیا اے اللہ کے رسول اس کی چادر نے اس کو روک رکھا ہے اور اس کے دونوں کناروں کو دیکھنے نے روکا ہے اس آدمی سے معاذ بن جبل نے کہا تم نے جو کہا اچھا نہیں کہا اللہ کی قسم اے اللہ کے رسول ہم اس کے بارے میں سوائے بھلائی کے کوئی بات نہیں جانتے (یہ سن کر) رسول اللہ ﷺ خاموش ہوگئے اس دوران آپ نے ایک سفید لباس میں ملبوس آدمی کو دھول اڑاتے ہوئے اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (شاید) ابوخیثمہ ہو ؟ وہ واقعتا ابوخیمثہ انصاری ہی تھے اور یہ وہی تھے جنہیں منافقیں نے طعنہ پر کھجور کا ایک صاع صدقہ کیا تھا کعب بن مالک (رض) نے کہا جب مجھے یہ خبر پہنچی کہ رسول اللہ تبوک سے واپس آرہے ہیں تو میرا غم دوبارہ تازہ ہوگیا اور میں جھوٹی باتیں گھڑنے کے لئے سوچنے لگا اور میں کہتا تھا کہ کل میں رسول اللہ کی ناراضگی سے کیسے بچ سکوں گا اور میں نے اس معاملہ پر اپنے گھر والوں میں سے ہر ایک سے مدد طلب کی جب مجھے بتایا گیا کہ رسول اللہ ﷺ قریب پہنچ چکے ہیں تو میرے دل سے جھوٹے بہانے اور عذر نکل گئے اور میں نے جان لیا کہ میں آپ ﷺ سے کسی جھوٹی بات کے ذریعہ کبھی نجات حاصل نہیں کرسکتا پس میں نے سچ بولنے کی ٹھان لی اور رسول اللہ ﷺ اگلی صبح تشریف لے آئے اور آپ جب بھی سفر سے تشریف لاتے ابتداءً مسجد میں تشریف لے جاتے دو رکعات اداء کرتے پھر لوگوں سے دریافت کرنے کے لئے تشریف فرما ہوتے پس جب آپ ﷺ یہ کرچکے تو پیچھے رہ جانے والے آپ ﷺ کے پاس آئے اور قسمیں اٹھا کر آپ ﷺ سے اپنے عذر پیش کرنے لگے اور ایسے لوگ اسی سے کچھ زائد تھے پس رسول اللہ ﷺ نے ان کے ظاہر عذروں کو قبول کرلیا اور ان سے بیعت کی اور ان کے لئے مغفرت طلب کی اور ان کے باطنی معاملہ کو اللہ عزوجل کے سپرد کردیا یہاں تک کہ میں حاضر ہوا میں نے جب سلام کیا تو آپ ناراض آدمی کے مسکرانے کی طرح مسکرائے پھر فرمایا ادھر آؤ پس میں چلتا ہوا آپ کے سامنے بیٹھ گیا تو آپ ﷺ نے مجھے فرمایا تجھے کس بات نے پیچھے کردیا کیا تو نے اپنی سواری نہ خریدی تھی میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول اللہ کی قسم اگر میں آپ ﷺ کے علاوہ دنیا والوں میں سے کسی کے پاس بیٹھا ہوتا تو مجھے معلوم ہے کہ میں کوئی عذر پیش کر کے اس کی ناراضگی سے بچ کر نکل جاتا کیونکہ مجھے قوت گویائی عطا کی گئی ہے اللہ کی قسم میں جانتا ہوں کہ اگر میں آج کے دن آپ ﷺ کو راضی کرنے لئے جھوٹی بات بیان کروں جس کی وجہ سے آپ ﷺ مجھ سے راضی ہو بھی جائیں تو ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو مجھ پر ناراض کر دے اور اگر میں آپ ﷺ سے سچ بات بیان کروں جس کی وجہ سے آپ ﷺ مجھ پر ناراض ہوجائیں پھر بھی مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ میرا انجام اچھا کر دے گا اللہ کی قسم مجھے کوئی عذر درپیش نہ تھا اللہ کی قسم میں جب آپ سے پیچھے رہ گیا تو کوئی بھی مجھ سے زیادہ طاقتور اور خوشحال نہ تھا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس نے سچ کہا پس تم اٹھ جاؤ یہاں تک کہ اللہ تیرے بارے میں فیصلہ فرمائے پس میں کھڑا ہوا اور بنو سلمہ کے کچھ لوگ میرے پیچھے آئے انہوں نے مجھے کہا اللہ کی قسم ہم نہیں جانتے کہ آپ نے اس سے پہلے کوئی گناہ کیا ہو اب تم نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے عذر پیش کیوں نہ کیا جیسا کہ اور پیچھے رہ جانے والوں نے عذر پیش کیا حالانکہ تیرے لئے رسول اللہ کا استغفار کرنا ہی کافی ہوجاتا پس اللہ کی قسم وہ مجھے مسلسل اسی طرح متنبہ کرتے رہے یہاں تک کہ میں نے ارادہ کیا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لوٹ کر اپنے آپ کی تکذیب و تردید کردوں پھر میں نے ان سے کہا کیا کسی اور کو میری طرح کا معاملہ پیش آیا ہے انہوں نے کہا ہاں آپ کے ساتھ دو اور آدمیوں کو بھی یہ معاملہ درپیش ہے انہوں نے بھی آپ ہی کی طرح کہا میں نے پوچھا وہ دونوں کون کون ہیں انہوں نے مرارہ بن ربیعہ عامری اور ہلال بن امیہ واقفی کا ذکر کیا انہوں نے مجھے ایسے دو نیک آدمیوں کا ذکر کیا جو بدر میں شریک ہوچکے تھے اور ان دونوں میں میرے لئے نمونہ تھا پس میں اپنی بات پر پختہ ہوگیا جب انہوں نے مجھے ان دو آدمیوں کا ذکر کیا اور رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو ہم تین آدمیوں سے گفتگو کرنے سے منع کردیا دیگر پیچھے رہنے والوں کو چھوڑ کر، پس لوگوں نے پرہیز کرنا شروع کردیا وہ ہمارے لئے غیر ہوگئے یہاں تک کہ زمین بھی میرے لئے اجنبی محسوس ہونے لگی اور زمین مجھے اپنی جان پہچان والی ہی معلوم نہ ہوتی تھی پس ہم نے پچاس راتیں اسی حالت میں گزرایں بہر حال میرے دونوں ساتھی عاجز ہو کر اپنے گھروں میں ہی بیٹھے روتے رہے لیکن میں نوجوان تھا اور ان سے زیادہ طاقتور تھا اس لئے میں باہر نکلتا نماز میں حاضر ہوتا اور بازاروں میں چکر لگاتا لیکن کوئی بھی مجھ سے گفتگو نہ کرتا میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر سلام کرتا جب نماز کے بعد اپنی جگہ پر بیٹھے ہوتے پھر میں اپنے دل میں کہتا کہ آپ نے سلام کے جواب کے لئے اپنے ہونٹوں کو حرکت دی ہے یا نہیں پھر میں آپ کے قریب نماز اداء کرتا اور آنکھیں چرا کر آپ ﷺ کو دیکھتا جب میں اپنی نماز پر متوجہ ہوتا تو آپ میری طرف دیکھتے اور جب میں آپ ﷺ کی طرف متوجہ ہوتا تو آپ مجھ سے اعراض کرلیتے یہاں تک کہ جب مسلمانوں کی سختی مجھ پر طویل ہوگئی تو میں چلا یہاں تک کہ میں اپنے چچا زاد ابوقتادہ کے باغ کی دیوار پر چڑھا اور وہ مجھے لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب تھے پس میں نے انہیں سلام کیا اللہ کی قسم انہوں نے مجھے میرے سلام کا جواب بھی نہ دیا میں نے ان سے کہا اے ابوقتادہ میں تجھے اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا تم جانتے ہو کہ میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوں پس وہ خاموش رہے میں نے دوبارہ انہیں قسم دی وہ خاموش ہی رہے پس میں نے سہ بارہ انہیں قسم دی تو انہوں نے کہا اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں پس میری آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں اور میں دیوار سے اتر کر واپس آگیا اسی دوران کہ میں مدینہ کے پاس ہی چل رہا تھا کہ ایک نبطی شامی جو مدینہ میں غلہ بیچنے کے لئے آیا تھا کہہ رہا تھا کوئی شخص مجھے کعب بن مالک کا پتہ دے پس لوگوں نے میری طرف اشارہ کرنا شروع کردیا یہاں تک کہ وہ میرے پاس آیا اور مجھے غسان کے بادشاہ کی طرف سے ایک خط دیا چونکہ میں پڑھا لکھا تھا میں نے اسے پڑھا اس میں تھا اما بعد ! ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ آپ کے ساتھی نے آپ پر زیادتی کی ہے اور اللہ نے تجھے ذلت کے گھر میں اور ضائع ہونے کی جگہ پیدا نہیں کیا تم ہمارے ساتھ مل جاؤ ہم تمہاری خاطر داری اور دلجوئی کریں گے میں نے جب اسے پڑھا تو کہا یہ بھی ایک اور آزمائش ہے پس میں نے اسے تنور میں ڈال کر جلا ڈالا یہاں تک کہ جب پچاس دن گزر گئے اور وحی بند رہی تو ایک دن رسول اللہ کا قاصد میرے پاس آیا اور کہا رسول اللہ تجھے حکم دیتے ہیں کہ تو اپنی بیوی سے جدا ہوجا میں نے کہا میں اسے طلاق دے دوں یا کیا کروں انہوں نے کہا نہیں بلکہ اس سے علیحدہ ہوجا اور اس کے قریب نہ جا پھر آپ ﷺ نے میرے دونوں ساتھیوں کے پاس بھی اس طرح پیغام بھیجا تو میں نے اپنی بیوی سے کہا تو اپنے رشتہ داروں کے پاس چلی جا اور انہیں کے پاس رہ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس معاملہ کا فیصلہ کر دے پس حضرت ہلال بن امیہ کی بیوی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ سے عرض کیا اے اللہ کے رسول ہلال بن امیہ بہت بوڑھے ہوچکے ہیں ان کا کوئی خادم بھی نہیں ہے کیا آپ ﷺ اس کی خدمت کرنے کو بھی ناپسند کرتے ہیں آپ نے فرمایا نہیں لیکن وہ تیرے ساتھ صحبت نہ کرے انہوں نے عرض کیا اللہ کی قسم اسے کسی چیز کا خیال تک نہیں ہے اور اللہ کی قسم جب سے اس کا یہ معاملہ پیش آیا ہے اس دن سے لے کر آج تک وہ رو ہی رہا ہے پس مجھے میرے بعض گھر والوں نے کہا تم بھی رسول اللہ ﷺ سے اپنی بیوی کے بارے میں اجازت لے لو جیسا کہ آپ نے ہلال بن امیہ کی بیوی کو اس کی خدمت کی اجازت دے دی ہے میں نے کہا میں اس معاملہ میں رسول اللہ ﷺ سے اجازت طلب نہ کروں گا کیونکہ مجھے معلوم نہیں کہ رسول اللہ اس بارے میں کیا ارشاد فرمائیں گے جس وقت میں آپ ﷺ سے اپنی بیوی کے بارے میں اجازت لوں گا حالانکہ میں نوجوان آدمی ہوں پس میں اسی طرح دس راتیں ٹھہرا رہا پس ہمارے لئے پچاس راتیں اس وقت سے پوری ہوگئیں جب سے رسول اللہ ﷺ نے ہماری گفتگو کو منع فرمایا تھا پھر میں نے پچاسویں رات کی صبح کو فجر کی نماز اپنے گھروں میں سے ایک گھر کی چھت پر اداء کی پس اسی دوران میں اپنے حال پر بیٹھا ہوا تھا جو اللہ نے ہمارے بارے میں ذکر کیا ہے تحقیق میرا دل تنگ ہونے لگا اور زمین مجھ پر باوجود وسیع ہونے کے تنگ ہوگئی تو میں نے اچانک سلع پہاڑ کی چوٹی سے ایک چلانے والے کی آواز سنی جو بلند آواز سے پکار رہا تھا اے کعب بن مالک خوش ہوجا میں اسی وقت سجدہ میں گرگیا اور میں نے جان لیا کہ تنگی دور ہونے کا وقت آگیا ہے پھر رسول اللہ ﷺ نے نماز فجر پڑھنے کے بعد لوگوں میں اعلان کیا کہ ہماری توبہ قبول ہوگئی ہے پس لوگ ہمیں خوشخبری دینے کیلئے چل پڑے اور کچھ صحابہ میرے دونوں ساتھیوں کو خوشخبری دینے چلے گئے اور ایک آدمی نے میری طرف گھوڑے کی ایڑ لگائی قبیلہ اسلم کے ایک آدمی نے بلند آواز دی چناچہ اس کی آواز گھوڑے کے پہنچنے سے قبل ہی پہنچ گئی پس جب میرے پاس وہ صحابی آئے جن کی میں نے خوشخبری دینے والی آواز سی تھی تو میں نے اپنے کپڑے اتار کر اسے پہنا دئیے اس کی خوشخبری دینے کی وجہ سے اللہ کی قسم اس دن میرے پاس ان دو کپڑوں کے علاوہ کوئی چیز نہ تھی اور میں نے دو کپڑے ادھار لے کر خود پہنے پھر میں رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہونے کے ارادہ سے روانہ ہوا تو صحابہ مجھے فوج درفوج ملے جو مجھے توبہ کی قبولیت کی مبارک باد دے رہے تھے کہتے تھے کہ اللہ کا تمہاری توبہ قبول کرنا تمہیں مبارک ہو یہاں تک کہ میں مسجد میں داخل ہوا تو رسول اللہ ﷺ مسجد میں تشریف فرما تھے اور صحابہ آپ کے اردگرد موجود تھے پس طلحہ بن عبیداللہ جلدی سے اٹھے یہاں تک کہ مجھ سے مصافحہ کیا اور مجھے مبارکباد دی۔ اللہ کی قسم ! مہاجرین میں سے ان کے علاوہ کوئی بھی نہ اٹھا۔ اسی وجہ سے کعب (رض) حضرت طلحہ کو کبھی نہ بھولے تھے کعب نے کہا جب میں نے رسول اللہ کو سلام کیا تو آپ کا چہرہ اقدس خوشی کی وجہ سے چمک رہا تھا اور آپ فرما رہے تھے مبارک ہو تمہیں ایسی بھلائی والے دن کی اس جیسی خوشی کا دن تجھ پر تیری ماں کے پیدا کرنے سے آج تک نہیں گزرا میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول یہ آپ کی طرف سے ہے یا اللہ عزوجل کی طرف سے آپ ﷺ نے فرمایا نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے اور رسول اللہ ﷺ جب خوش ہوتے تو آپ ﷺ کا چہرہ اور منور ہوجاتا تھا گویا کہ وہ چاند کا ٹکڑا ہو اور ہم اس علامت کو پہچانتے تھے جب میں آپ کے سامنے بیٹھا تو میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول میری توبہ کی تکمیل یہ ہے کہ میں اپنا سارا مال اللہ اور اس کے رسول کی خدمت میں بطور صدقہ پیش کردوں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اپنا کچھ مال اپنے پاس رکھ یہ تیرے لئے بہتر ہے تو میں نے عرض کیا میں خبیر سے اپنے حصے کے مال کو اپنے لئے رکھتا ہوں اور میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول بیشک اللہ نے مجھے سچائی کے ذریعہ نجات عطاء فرمائی ہے اور میری توبہ کی تکمیل یہ ہے کہ میں جب تک زندہ رہوں گا کبھی سچ کے علاوہ بات نہ کروں گا اللہ کی قسم میں نہیں جانتا کہ مسلمانوں میں سے کسی ایک کو بھی اللہ عزوجل نے سچ بولنے کی وجہ سے (ایسی) آزمائش میں ڈالا ہو اور جب سے میں نے رسول اللہ ﷺ سے اللہ کی اس آزمائش کی خوبی کا ذکر کیا تھا کا ذکر کیا تھا اس وقت سے لے کر آج تک میں نے کبھی جھوٹ کا ارادہ بھی نہیں کیا اور میں امید کرتا ہوں کہ جب تک میری زندگی باقی ہے اللہ مجھے محفوظ رکھے گا تو اللہ رب العزت نے یہ آیات مبارکہ نازل فرمائی لَقَدْ تَابَ اللَّهُ عَلَی النَّبِيِّ وَالْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ فِي سَاعَةِ الْعُسْرَةِ مِنْ بَعْدِ مَا کَادَ يَزِيغُ قُلُوبُ فَرِيقٍ مِنْهُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ إِنَّهُ بِهِمْ رَئُوفٌ رَحِيمٌ وَعَلَی الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا حَتَّی إِذَا ضَاقَتْ عَلَيْهِمْ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَيْهِمْ أَنْفُسُهُمْ تحقیق اللہ نے نبی ﷺ مہاجرین اور انصار پر رحمت سے رجوع فرمایا جنہوں نے آپ ﷺ کی تنگی کے وقت میں اتباع کی اس کے بعد قریب ہے کہ ان میں سے ایک جماعت کے دل اپنی جگہ سے ہل جائیں پھر اللہ نے ان پر مہربانی فرمائی بیشک وہی ان کے ساتھ مہربان اور نہایت رحم فرمانے والا ہے اور ان تینوں پر بھی جو پیچھے رہ گئے یہاں تک کہ جب زمین ان پر اپنی وسعت کے باجود تنگ ہوگئی اور انہیں یقین ہوگیا کہ اللہ کے سوا کوئی ان کے لئے پناہ کی جگہ نہیں ہے پھر اللہ نے ان پر رحمت فرمائی تاکہ وہ توبہ کریں بیشک اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہوجاؤ، حضرت کعب نے کہا اللہ کی قسم اللہ کی مجھ پر نعمتوں میں سے سب سے بڑی نعمت اسلام کے بعد میرے نزدیک میرے سچ سے بڑھ کر کوئی نہیں ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سچ بولا اور اگر میں نے جھوٹ بولا ہوتا تو میں بھی اسی طرح ہلاک ہوجاتا جیسے جھوٹ بولنے والے ہلاک ہوئے بیشک اللہ نے جب وحی نازل کی جتنا اس میں جھوٹ بولنے والے کے شر کو بیان کیا کسی اور کے شر کو اتنا بڑا کر کے بیان نہیں کیا اور اللہ رب العزت نے فرمایا عنقریب یہ تم سے اللہ کی نام پر قسمیں کھائیں گے جب تم ان کے پاس لوٹ کر جاؤ گے تاکہ تم ان سے اعراض کرو پس تم ان کی طرف سے اعراض کرو بیشک وہ ناپاک ہیں اور ان کا ٹھکانہ جہنم ہے یہ بدلہ ہے ان اعمال کا جو وہ کرتے ہیں وہ آپ سے قسمیں کھاتے ہیں تاکہ آپ ان سے راضی ہوجائیں پس اگر آپ ان سے راضی ہوگئے تو بیشک اللہ نافرمانی کرنے والی قوم سے راضی نہیں ہوتا کعب نے کہا ہم تینوں آدمیوں کو ان لوگوں سے پیچھے رکھا گیا جن کا عذر رسول اللہ ﷺ نے قبول کیا جب انہوں نے آپ ﷺ سے قسمیں اٹھائیں تو ان سے بیعت کی اور ان کے لئے استغفار کیا اور رسول اللہ ﷺ نے ہمارے معاملہ کو مؤخر کردیا یہاں تک کہ اللہ نے اس بارے میں فیصلہ فرمایا اسی وجہ سے اللہ رب العزت نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ان تینوں پر بھی رحمت فرمائی جن کا معاملہ مؤخر کیا گیا اس آیت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم جہاد سے پیچھے رہ گئے تھے بلکہ اس پیچھے رہ جانے سے ہمارے معاملہ کا ان لوگوں سے مؤخر رہ جانا ہے جنہوں نے آپ ﷺ سے قسم اٹھائی اور آپ ﷺ سے عذر پیش کیا اور آپ ﷺ نے ان کے عذر کو قبول کیا۔
حضرت کعب بن مالک اور ان کے دو ساتھیوں کی توبہ کی حدیث کے بیان میں
محمد بن رافع حجین بن مثنی لیث، عقیل ابن شہاب یونس زہری، یہ حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
حضرت کعب بن مالک اور ان کے دو ساتھیوں کی توبہ کی حدیث کے بیان میں
عبد بن حمید یعقوب بن ابراہیم بن سعد محمد بن عبداللہ بن مسلم ابن اخی زہری، احمد بن مسلم زہری، عبدالرحمن بن عبداللہ بن کعب بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ جو حضرت کعب کی راہنمائی کرنے والے تھے جب وہ نابینا ہوگئے تھے وہ کہتے ہیں کہ میں نے کعب بن مالک کو اپنی حدیث بیان کرتے ہوئے سنا جب وہ غزوہ تبوک میں رسول اللہ ﷺ سے پیچھے رہ گئے تھے باقی حدیث گزر چکی اس میں مزید اضافہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب بھی کسی غزوہ میں تشریف لے جانے کا ارادہ کرتے تو کنایتاً اس کا ذکر فرما دیتے لیکن اس غزوہ میں آپ ﷺ نے پوری وضاحت کے ساتھ بتادیا تھا البتہ زہری کے بھتیجے کی حدیث میں ابوخیثمہ اور اس کے نبی ﷺ سے مل جانے کا ذکر نہیں ہے۔
حضرت کعب بن مالک اور ان کے دو ساتھیوں کی توبہ کی حدیث کے بیان میں
سلمہ بن شبیب حسن بن اعین معقل ابن عبیداللہ زہری، عبدالرحمن بن عبداللہ بن کعب بن مالک حضرت عبیداللہ بن کعب سے روایت ہے کہ جو حضرت کعب کی راہنمائی کرنے والے تھے جب ان کی بصارت ختم ہوگئی تھی اور وہ اپنی قوم میں سب سے زیادہ عالم اور رسول اللہ ﷺ کی احادیث کو محفوظ رکھنے والے تھے وہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے باپ کعب بن مالک سے سنا اور وہ ان تین میں سے ایک تھے جن کی توبہ قبول کی گئی وہ بیان کرتے ہیں کہ وہ دو غزوات کے علاوہ کسی بھی غزوہ میں رسول اللہ ﷺ سے پیچھے نہیں رہے باقی حدیث گزر چکی اور اس روایت میں یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بہت کثیر لوگوں کے ہمراہ جہاد کیا جو دس ہزار سے بھی زیادہ تھے اور ان کا شمار کسی رجسٹر میں درج نہیں کیا گیا۔
تہمت کی حدیث اور تہمت لگانے والوں کی توبہ قبول ہونے کے بیان میں
حضرت سعید بن مسیب عروہ بن زبیر علقمہ بن وقاص اور عبیداللہ بن عبداللہ عتبہ بن مسعود سے سیدہ عائشہ زوجہ نبی کریم کی حدیث روایت ہے کہ جب تہمت سے ان کے بارے میں کہا گیا جو کہا پس اللہ نے انہیں ان کی تہمت سے پاک کیا زہری نے کہا ان سب نے مجھ سے اس حدیث کا ایک ایک حصہ روایت کیا اور ان میں سے کچھ دوسروں سے اس حدیث کو زیادہ یاد رکھنے والے تھے اور عمدہ طور پر روایت کرنے والے تھے اور میں نے ان سب سے اس حدیث کو محفوظ و یاد رکھا جو انہوں نے مجھ سے روایت کی اور ان میں سے ہر ایک کی حدیث دوسرے کی حدیث کی تصدیق کرتی ہے یہ سب روایت کرتے ہیں کہ سیدہ عائشہ زوجہ نبی نے فرمایا رسول اللہ جب کسی سفر پر جانے کا ارادہ کرتے تو اپنی ازوج مطہرات کے درمیان قرعہ ڈالتے پس ان میں سے جس کا قرعہ نکلتا رسول اللہ اسے اپنے ہمراہ لے جاتے تھے سیدہ عائشہ نے کہا کہ اس غزوہ میں بھی آپ نے ہمارے درمیان قرعہ ڈالا تو اس میں میرے نام کا قرعہ نکل آیا پس میں رسول اللہ کے ہمراہ گئی اور یہ پردہ کے احکام نازل ہونے کے بعد کا واقعہ ہے پس مجھے میرے محمل میں سوار کیا جاتا اور اسی میں اتارا جاتا پس ہم چلتے رہے یہاں تک کہ رسول اللہ جب غزوہ سے فارغ ہو کر لوٹے اور ہم مدینہ کے قریب ہوگئے تو آپ نے رات کو کوچ کرنے کے اعلان کیا جب آپ نے کوچ کرنے کا اعلان کیا تو میں کھڑی ہوئی اور چل دی یہاں تک کہ لشکر سے دور چلی گئی جب میں قضائے حاجت سے فارغ ہوئی اور کجاوے کی طرف لوٹ کر آئی تو میں نے اپنے سینے کو ٹٹولا تو میرا ہار ظفار کے نگینوں والا ٹوٹ چکا تھا پس میں واپس گئی اور اپنے ہار کو ڈھونڈنا شروع کردیا اور مجھے اس ہار کی تلاش نے روک لیا اور میرے کجاوے اٹھانے والی جماعت آئی پس انہوں نے میرے کجاوے کو اٹھا کر میرے اونٹ پر رکھ دیا جس پر میں سوار ہوتی تھی اور وہ گمان کرتے تھے کہ میں اس کجاوے میں ہوں اور ان دنوں عورتیں دبلی پتلی ہوا کرتی تھیں موٹی تازی اور بھاری بھر کم نہ ہوتی تھیں اور نہ گوشت سے بھر پور کیونکہ وہ کھانا کم کھایا کرتی تھیں اس وجہ سے جب ان لوگوں نے کجاوہ کو اٹھا کر سوار کیا تو وزن کا اندازہ نہ لگا سکے اور میں نوخیز نوجوان لڑکی تھی پس انہوں نے اونٹ کو اٹھایا اور روانہ ہوگئے اور میں نے لشکر کے چلے جانے کے بعد اپنے ہار کو پالیا پس میں ان کے پڑاؤ کی جگہ آئی مگر وہاں پر یہ کوئی پکارنے والا تھا اور نہ ہی کوئی جواب دینے والا میں نے اسی جگہ کا ارادہ کیا جہاں پر میں پہلے تھی اور میرا گمان تھا کہ عنقریب وہ لوگ مجھے گم پا کر میری طرف لوٹ آئیں گے اسی دوران کہ میں اپنی جگہ پر بیٹھی ہوئی تھی کہ میری آنکھوں میں نیند کا غلبہ آیا اور میں سو گئی اور حضرت صفوان بن معطل سلمی ذکوانی نے لشکر کے پیچھے رات گزاری تھی وہ پچھلی رات کو چل کر صبح سویرے ہی میری جگہ پر پہنچ گئے سو سوئے ہوئے انسان کی سیاہی دیکھ کر میرے پاس آئے اور مجھے دیکھتے ہیں پہچان گئے کیونکہ انہوں نے مجھے احکام پردہ نازل ہونے سے پہلے دیکھا ہوا تھا جب انہوں نے مجھے پہچان کر انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا تو میں بیدار ہوگئی پس میں نے اپنے چہرے کو اپنی چادر سے ڈھانپ لیا اللہ کی قسم انہوں نے مجھ سے ایک کلمہ بھی گفتگو نہیں کیا اور نہ میں نے ان سے اناللہ کے علاوہ کوئی کلمہ سنا یہاں تک کہ انہوں نے اپنی سواری کو بٹھا دیا اور میں اونٹنی پر ہاتھ کے سہارے پر سوار ہوگئی پس وہ سواری کی مہار پکڑ کر چل دئیے یہاں تک کہ ہم لشکر کو ان کے پڑاؤ کے بعد پہنچ گئے جو کہ عین دوپہر کے وقت پہنچے تھے پس جس شخص کو ہلاک ہونا تھا وہ ہلاک ہوگیا وہ شخص جس نے سب سے بڑی تہمت لگائی تھی وہ عبداللہ بن ابی بن سلول تھا ہم مدینہ پہنچ گئے اور میں مدینہ پہنچے کے بعد ایک ماہ تک بیمار رہی اور لوگوں نے تہمت لگانے والوں کی باتوں میں غور کرنا شروع کردیا اور میں اس بارے میں کچھ نہ جانتی تھی البتہ مجھ کو اس بات نے شک میں ڈالا کہ میں نے اپنی بیماری میں رسول اللہ کی وہ شفقت نہ دیکھی جو اپنی بیماریوں کے وقت اس سے پہلے دیکھتی تھی رسول اللہ تشریف لاتے سلام کرتے پھر فرماتے تمہارا کیا حال ہے یہ بات مجھے شک میں ڈالتی تھی لیکن مجھے کسی برائی کے بارے میں شعور نہ تھا یہاں تک کہ کمزور ہونے کے بعد ایک دن میں قضائے حاجت کے لئے باہر نکلی اور حضرت ام مسطح بھی میرے ساتھ مناصع کی طرف نکلیں اور وہ ہمارا بیت الخلاء تھا اور ہم صرف رات کے وقت نکلا کرتی تھیں اور یہ ہمارے گھروں کے قریب بیت الخلا بننے سے پہلے کا واقعہ ہے اور ہمارا معاملہ عرب کے پہلے لوگوں کی طرح تھا کہ ہم قضائے حاجت کے لئے جنگل میں جایا کرتی تھیں اور بیت الخلاء گھروں کے قریب بنانے سے ہم نفرت کرتے تھے پس میں اور ام مسطح چلیں اور وہ ابورہم بن عبدالمطلب بن عبدمناف کی بیٹی تھیں اور اس کی والدہ صخر بن عامر کی بیٹی تھی جو حضرت ابوبکر کی خالہ تھیں اور اس کا بیٹا مسطح اثانہ بن عباد بن عبدالمطلب کا بیٹا تھا پس جب میں اور ابورہم کی بیٹی قضائے حاجت سے فارغ ہو کر اپنے گھر کی طرف لوٹیں تو ام مسطح کا پاؤں ان کی چادر میں الجھ گیا تو اس نے کہا مسطح ہلاک ہوا میں نے اس سے کہا تو نے جو بات کی ہے وہ بری بات ہے کیا تو ایسے آدمی کو گالی دیتی ہے جو غزوہ بدر میں شریک ہوا تھا اس نے کہا اے بھولی بھالی عورت کیا تو نے وہ بات نہیں سنی جو اس نے کہی ہے میں نے کہا اس نے کیا کہا ہے پھر اس نے مجھے تہمت کی بات کے بارے میں خبر دی یہ سنتے ہی میری بیماری میں اور اضافہ ہوگیا پس جب میں اپنے گھر کی طرف لوٹی تو رسول اللہ میرے پاس تشریف لائے سلام کیا پھر فرمایا تمہارا کیا حال ہے میں نے عرض کیا آپ مجھے میرے والدین کے پاس جانے کی اجازت دیتے ہیں اور اس وقت میرا یہ ارادہ تھا کہ میں اپنے والدین کی طرف سے اس خبر کی تحقیق کروں پس رسول اللہ ﷺ نے مجھے اجازت دے دی پس میں اپنے والدین کے پاس آئی تو میں نے اپنی والدہ سے کہا اے امی جان لوگ کیا باتیں بنا رہے ہیں انہوں نے کہا اے میری پیاری بیٹی اپنے آپ پر قابو رکھ اللہ کی قسم ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ کوئی عورت اپنے خاوند کے نزدیک محبوب ہو اور اس کی سوکنیں بھی ہوں جو اس کے خلاف کوئی بات نہ بنائیں سیدہ عائشہ نے بیان کیا کہ میں نے کہا سبحان اللہ واقعتا لوگوں نے ایسی باتیں کی ہیں فرماتی ہیں کہ اس رات صبح تک روتی رہی نہ میرے آنسو رکے اور نہ ہی میں نے نیند کو آنکھوں کا سرمہ بنایا پھر میں نے روتے ہوئے صبح کی اور رسول اللہ ﷺ نے علی بن ابوطالب اور اسامہ بن زید کو بلایا اور ابھی تک وحی نازل نہیں ہوئی تھی اور ان سے اپنی اہلیہ کو جدا کرنے کا مشورہ طلب کیا پس اسامہ بن زید نے رسول اللہ کو وہی مشورہ دیا جو رسول اللہ اپنی اہلیہ کی برأت کے بارے میں جانتے تھے اور وہ جانتے تھے کہ آپ کو ان کے ساتھ محبت ہے انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول وہ آپ کے گھر والی ہے اور ہم بھلائی کے علاوہ ان میں کچھ نہیں جانتے اور بہر حال علی بن ابوطالب نے کہا اللہ نے آپ پر کوئی تنگی نہیں کی اور ان کی علاوہ بہت عورتیں موجود ہیں اور اگر آپ (سیدہ عائشہ) کی لونڈی سے پوچھیں تو وہ آپ سے سچی بات کر دے گی پس رسول اللہ ﷺ نے بریرہ کو بلوایا تو فرمایا اے بریرہ کیا تو نے کوئی ایسی چیز دیکھی ہے جس نے تجھے سیدہ عائشہ کی طرف سے شک میں ڈالا ہو آپ سے بریرہ نے عرض کیا قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے میں نے سیدہ عائشہ میں کوئی ایسی بات نہیں دیکھی جس پر نکتہ چینی کی جاسکے یا عیب لگایا جاسکے باقی یہ بات ہے کہ جو عمر نوجوان لڑکی ہے اپنے گھر والوں کا آٹا گوندھتے گوندھتے سو جاتی ہے اور بکری آکر اسے کھالیتی ہے پس رسول اللہ منبر پر کھڑے ہوئے اور عبداللہ بن ابی سلول سے جواب طلب کیا فرماتی ہیں پس رسول اللہ ﷺ نے منبر پر کھڑے ہو کر ارشاد فرمایا اے مسلمانوں کی جماعت تم میں سے کون بدلہ لے گا اس آدمی سے جس کی طرف سے مجھے اپنے اہل بیت کے بارے میں تکلیف پہنچی ہے اللہ کی قسم میں تو اپنے گھر والوں میں سوائے بھلائی کے کوئی بات نہیں جانتا اور جس آدمی کا تم ذکر کرتے ہو اس کے بارے میں بھی سوائے بھلائی کے کوئی بات نہیں جانتا اور نہ وہ میرے ساتھ کے علاوہ کبھی میرے گھر والوں کے پاس گیا ہے پس حضرت سعد بن معاذ انصاری کھڑے ہوئے اور عرض کیا اے اللہ کے رسول اس سے میں آپ کا بدلہ لیتا ہوں اگر وہ قبیلہ اوس سے ہے تو ہم اس کی گردن مار دیں گے اور اگر وہ ہمارے بھائیوں خزرج میں سے ہوا تو آپ جو حکم اس کے بارے میں دیں گے ہم آپ کے حکم کی تعمیل کریں گے پھر قبیلہ خزرج کے سردار سعد بن عباد کھڑے ہوئے اور وہ نیک آدمی تھے لیکن انہیں کچھ جاہلیت کی قبائلی تعصب نے بھڑکا دیا پس انہوں نے نے سعد بن معاذ سے کہا آپ نے سچ نہ کہا اللہ کی قسم تم اسے قتل نہیں کرسکتے اور نہ ہی تمہیں اس کے قتل پر قدرت حاصل ہے حضرت اسید بن حضیر سعد بن معاذ کے چچا زاد کھڑے ہوئے تو سعد بن عبادہ سے کہا تم نے بھی حق بات نہیں کی البتہ ہم ضرور بالضرور اسے قتل کریں گے تو کیا تم منافق ہو جو منافقین کی طرف سے لڑ رہے ہو الغرض اوس اور خزرج دونوں قبیلوں کو جوش آگیا یہاں تک کہ انہوں نے باہم لڑنے کا پختہ ارادہ کرلیا اور رسول اللہ منبر پر کھڑے ہوئے تھے پس رسول اللہ برابر ان کے غصہ کو ٹھنڈا کرنے کے لئے لگے رہے یہاں تک کہ وہ خاموش ہوگئے اور آپ بھی خاموش ہوگئے سیدہ فرماتی ہیں اس دن بھی روتی رہی میرے آنسو روکے نہیں رکتے تھے اور نہ میری آنکھوں نے نیند کو سرمہ بنایا پھر میں آنے والی رات میں بھی روتی رہی نہ میری آنسو رکے اور نہ ہی نیند کو سرمہ بنایا اور میرے والدین نے گمان کیا کہ رونا میرے جگر کو پھاڑ دے گا اسی دوران کہ وہ میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور میں رو رہی تھی کہ انصار میں سے ایک عورت نے میرے پاس آنے اجازت مانگی میں نے اسے اجازت دی پس وہ بھی بیٹھ کر رونا شروع ہوگئی پس ہم اسی حال میں تھیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمارے پاس تشریف لا کر سلام کیا پھر بیٹھ گئے فرماتی ہیں کہ جب سے میرے بارے میں باتیں کی گئیں جو کی گئیں آپ میرے پاس نہ بیٹھے تھے اور ایک مہینہ گزر چکا تھا لیکن آپ کی طرف میرے بارے میں کوئی وحی نازل نہ کی گئی تھی پھر رسول اللہ ﷺ نے بیٹھتے ہی تشہد پڑھا پھر فرمایا اما بعد اے عائشہ مجھے تیرے بارے میں ایسی ایسی خبر پہنچی ہے پس اگر تو پاک دامن ہے تو عنقریب اللہ تیری پاکدامنی واضح کر دے گا اور اگر تو گناہ میں ملوث ہوچکی ہو تو اللہ سے مغفرت طلب کر اور اس کی طرف رجوع کر پس بیشک بندہ جب گناہ کا اعتراف کرلیتا ہے پھر توبہ کرتا ہے تو اللہ بھی اس پر اپنی رحمت کے ساتھ رجوع فرماتا ہے پس جب رسول اللہ اپنی گفتگو پوری کرچکے تو میرے آنسو بالکل رک گئے یہاں تک کہ میں نے آنسوؤں سے ایک قطرہ تک محسوس نہ کیا میں نے اپنے باپ سے عرض کیا آپ میری طرف سے رسول اللہ کو ان باتوں کا جواب دیں جو آپ نے فرمائی ہیں تو انہوں نے کہا اللہ کی قسم میں نہیں جانتا کہ میں نے رسول اللہ کو کیا جواب دوں پھر میں نے اپنی والدہ سے عرض کیا کہ آپ میری طرف سے رسول اللہ کو جواب دیں تو انہوں نے کہا اللہ کی قسم میں بھی نہیں جانتی کہ میں رسول اللہ کو کیا جواب دوں تو میں نے عرض کیا میں ایک نوعمر لڑکی ہوں میں قرآن مجید کی تلاوت کثرت سے نہیں کرسکتی اور اللہ کی قسم میں جانتی ہوں کہ تم اس تہمت کی بات کو سن چکے ہو یہاں تک کہ وہ بات تمہارے دلوں میں پختہ ہوچکی ہے اور تم نے اسے سچ سمجھ لیا ہے پس اگر میں تم سے کہوں کہ میں پاک دامن ہوں اور اللہ جانتا ہے کہ میں پاک دامن ہوں تو تم میری تصدیق نہ کرو گے پس مجھے حضرت یوسف کے باپ کی بات کے علاوہ کوئی صورت اور تمہارے درمیان بطور مثال نظر نہیں آتی کہ انہوں نے کہا فصبر جمیل واللہ پس صبر ہی بہتر اور خوب ہے اور تمہاری اس گفتگو پر اللہ ہی سے مدد طلب کرتا ہوں فرماتی ہیں پھر میں نے کروٹ بدلی اور اپنے بستر پر لیٹ گئی فرماتی ہیں اللہ کی قسم میں اس وقت بھی جانتی تھی کہ میں پاک دامن ہوں اور بیشک اللہ تعالیٰ میری پاک دامنی کو واضع فرمائے گا لیکن اللہ کی قسم میرا یہ گمان بھی نہ تھا کہ میرے بارے میں ایسی وحی نازل کی جائے گی جس کی تلاوت کی جائے گی اور میں اپنی شان کو اپنے دل میں کم سمجھتی تھی اس سے کہ اللہ رب العزت میرے معاملہ میں کلام کرے گا جس کی تلاوت کی جائے گی لیکن میں تو یہ امید کرتی تھی کہ رسول اللہ نیند میں خواب دیکھیں گے جس میں اللہ میری پاکدامنی واضع کریں گے فرماتی ہیں اللہ کی قسم ابھی رسول اللہ اپنی جگہ سے نہ اٹھے تھے اور نہ ہی گھر والوں میں سے کوئی بھی باہر گیا تھا کہ اللہ رب العزت نے اپنے نبی پر وحی نازل فرمائی اور آپ کے پسینہ کے قطرات موتیوں کی طرح دکھنے لگے اس وحی کے بوجھ کی وجہ سے جو آپ پر نازل کی گئی جب رسول اللہ کی یہ حالت دور ہوگئی یعنی وحی پوری ہوگئی تو آپ مسکرانے لگے اور آپ کا پہلا کلمہ جس سے آپ نے گفتگو کی یہ تھا کہ اے عائشہ خوش ہوجا کہ اللہ نے تیری پاکدامنی واضع کردی ہے مجھ سے میری والدہ نے کہا آپ کی طرف اٹھ کر آپ کا شکریہ ادا کر میں نے کہا اللہ کی قسم میں صرف اللہ ہی کے سامنے کھڑی ہوں اور اسی اللہ کی حمد وثناء بیان کروں گی جس نے میری برأت نازل کی پس اللہ رب العزت نے یہ آیات نازل کیں ان الذین جاء وبالافک بیشک تم میں سے وہ جماعت جہنوں نے یہ تمہت لگائی ان دس آیات میں اللہ نے میری برأت نازل کی۔ فرماتی ہیں کہ حضرت ابوبکر جو مسطح پر قرابت داری اور ان کی غربت کی وجہ سے خرچ کیا کرتے تھے انہوں نے کہا اللہ کی قسم میں اس کے بعد جو اس نے عائشہ کے بارے میں کہا کبھی بھی انہیں کچھ نہ دوں گا تو اللہ رب العزت نے ولا یاتل اولو سے الا تحبون ان یغفر اللہ لکم تک آیات نازل فرمائیں تم میں سے جو لوگ صاحب فضل اور صاحب وسعت ہیں وہ یہ قسم نہ کھائیں کہ وہ اپنے رشتہ داروں اور مسکینوں اور اللہ کے راستہ میں ہجرت کرنے والوں کو نہ دیں گے اور انہیں چاہئے کہ وہ معاف کردیں اور درگزر کریں کیا تمہیں یہ پسند نہیں ہے کہ اللہ تمہیں معاف فرما دے اور اللہ بہت معاف کرنے والا بےحد مہربان ہے عبداللہ بن مالک نے کہا اللہ کی کتاب میں یہ آیت سب سے زیادہ امید کو بڑھانے والی ہے تو ابوبکر نے کہا اللہ کی قسم میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ اللہ مجھے معاف فرما دے پھر انہوں نے حضرت مسطح کو وہی خرچ دوبارہ دینا شروع کردیا جو اسے پہلے دیا کرتے تھے اور کہا میں اس سے یہ کبھی بھی نہ روکوں گا سیدہ عائشہ نے کہا رسول اللہ ﷺ نے ام المومنین حضرت زینب بنت جحش سے میرے معاملہ کے بارے میں پوچھا کہ تو کیا جانتی ہے تو نے کیا دیکھا ہے تو انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول میں اپنے کانوں اور آنکھوں کی حفاظت رکھتی ہوں یعنی بن سنے یا دیکھے کوئی بات بیان نہیں کرتی اللہ کی قسم میں ان کے بارے ماسوائے بھلائی کے کچھ نہیں جانتی سیدہ عائشہ نے کہا یہی وہ عورت تھیں جو رسول اللہ کی ازواج مطہرات میں سے میرے مقابل اور برابر کی تھیں پس اللہ نے انہیں تقوی کی وجہ سے محفوظ رکھا البتہ ان کی بہن حمنہ بن جحش ان سے اس معاملہ میں لڑیں اور وہ بھی تہمت کی ہلاکت میں ہلاک ہونے والوں کے ساتھ ہلاک ہوئی زہری نے کہا یہ حدیث وہ ہے جو ہم تک اس معاملہ کے متعلق اس جماعت کے ذریعہ پہنچی ہے اور یونس کی حدیث میں کہا کہ تعصب میں شریک ہونے پر ابھارا۔
تہمت کی حدیث اور تہمت لگانے والوں کی توبہ قبول ہونے کے بیان میں
ابو ربیع عتکی، فلیح بن سلیمان، ح، حسن بن علی حلوانی، عبد بن حمید، یعقوب بن ابراہیم بن سعد، ابوصالح بن کیسان، زہری، یونس، معمر، یہ حدیث مبارکہ ان اسناد سے بھی مروی ہے البتہ فلیح کی حدیث میں ہے کہ (حمنہ (رض) کو) تعصب نے جاہل بنادیا اور صالح کی حدیث میں ہے کہ (حمنہ (رض) کو تعصب نے (تہمت میں شریک ہونے پر) ابھارا صالح کی حدیث مبارکہ میں یہ اضافہ بھی ہے کہ حضرت عروہ نے کہا سیدہ عائشہ (رض) اپنے پاس حضرت حسان کو برا بھلا کہنے کو ناپسند کرتی تھیں کیونکہ انہوں نے کہا بیشک میرے باپ اور میری ماں اور میری عزت سب محمد ﷺ کی عزت کو تم سے بچانے کے لئے ہیں اور یہ اضافہ بھی ہے کہ سیدہ عائشہ (رض) نے کہا اللہ کی قسم جس آدمی کے بارے میں جو تہمت کیا گیا ہو وہ کہتے تھے سُبْحَانَ اللَّهِ اور کہتے تھے کہ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے میں نے کبھی بھی کسی عورت کا کپڑا نہیں کھولا فرماتی ہیں کہ پھر وہ اس کے بعد اللہ کے راستہ میں ہو کر رہے آگے موعرین فی نَحْرِ الظَّهِيرَةِ کا معنی بیان کیا ہے کہ اس کا معنی ہے دوپہر کے وقت سخت گرمی میں (قافلہ نے پر اؤ ڈالا) ۔
تہمت کی حدیث اور تہمت لگانے والوں کی توبہ قبول ہونے کے بیان میں
ابوبکربن ابی شیبہ، محمد بن علاء، ابواسامہ، ہشام بن عروہ، سیدہ عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ جب میرے بارے میں بات پھیلائی گئی جو پھیلائی گئی اور میں جانتی بھی نہ تھی تو رسول اللہ خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے تو کلمہ شہادت پڑھا پھر اللہ کی وہ حمد وثنا بیان کی جو اس کے شایان شان ہے پھر فرمایا اما بعد مجھے ان لوگوں کے بارے میں مشورہ دو جنہوں نے میری اہلیہ پر تہمت لگائی ہے اور اللہ کی قسم میں اپنی بیوی کے بارے میں کسی بھی برائی کو نہیں جانتا اور وہ (صفیان) میرے گھر میں میری موجودگی کے علاوہ کبھی داخل نہیں ہوا اور جس سفر میں میں گیا ہوں وہ بھی میرے ساتھ ہی سفر میں رہا ہے باقی حدیث گزر چکی ہے اور اس میں یہ اضافہ ہے کہ رسول اللہ میرے گھر داخل ہوئے اور میری (بریرہ (رض) لونڈی سے پوچھا تو اس نے عرض کیا اللہ کی قسم میں نے اس میں کوئی عیب نہی پایا۔ سوائے اس کے کہ وہ سو جاتی ہے یہاں تک کہ بکری داخل ہو کر اس کا آٹا کھالیتی ہے پس آپ کے بعض اصحاب نے اسے ڈانٹا تو کہا کہ رسول اللہ ﷺ سے سچی بات کہو یہاں تک کہ انہوں نے اسے گرادیا اس نے کہا سبحان اللہ اللہ کی قسم مجھے ان کے بارے میں ایسا ہی علم ہے جیسا کہ سنار کو خالص سونے کی ڈلی کے بارے میں ہوتا ہے اور جب یہ معاملہ اس آدمی تک پہنچا جس کے بارے میں یہ بات کی گئی تھی تو اس نے کہا سبحان اللہ اللہ کی قسم میں نے تو کبھی کسی عورت کا کپڑا نہیں کھولا سیدہ نے کہا وہ اللہ کے راستہ میں شہید کئے گئے اور مزید اضافہ یہ ہے کہ جن لوگوں نے اس بہتان بازی میں گفتگو کی وہ مسطح حمنہ اور حسان تھے بہر حال عبداللہ بن ابی منافق تو اس بات کو آراستہ کر کے پھیلا ہی رہا تھا اور وہی اس بات کا ذمہ دار اور قائد تھا اور حمنہ بھی شریک تھی
نبی ﷺ کی لونڈی کی تہمت سے برات کے بیان میں
زہیر بن حرب، عفان حماد بن سلمہ ثابت حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ ایک آدمی کو رسول اللہ کی ام ولد کے ساتھ تہمت لگائی جاتی تھی تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی (رض) سے فرمایا جاؤ اور اس کی گردن مار دو پس حضرت علی (رض) اس کے پاس آئے تو وہ ٹھنڈک حاصل کرنے کے لئے ایک کنویں میں تھا تو حضرت علی (رض) نے اس سے کہا باہر نکل پس آپ (رض) نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے باہر نکالا اچانک دیکھا اس کا عضو تناسل کٹا ہوا تھا علی (رض) اسے قتل کرنے سے رک گئے پھر نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر کر عرض کیا اے اللہ کے رسول وہ تو کٹے ہوئے ذکر والا ہے اور اس کا عضو تناسل نہیں ہے۔