55. فتنوں کا بیان
فتنوں کے قریب ہونے اور یاجوج ماجوج کی آڑ کھلنے کے بیان میں
عمرو ناقد، سفیان بن عیینہ، زہری، عروہ، زینب، ام سلمہ، ام حبیبہ، حضرت زینب بنت جحش سے روایت ہے کہ نبی ﷺ اپنی نیند سے یہ کہتے ہوئے بیدار ہوئے لا الہ الا اللہ عرب کے لئے اس شر سے ہلاکت ہو جو قریب آپہنچا یاجوج ماجوج کی آڑ آج اتنی کھل گئی ہے اور سفیان راوی نے اپنے ہاتھ سے دس کا عدد کا حلقہ بنایا میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ کیا ہم ہلاک ہوجائیں گے اس حال میں کہ نیک لوگ ہم میں موجود ہوں گے آپ نے فرمایا جب فسق وفجور کی کثرت ہوجائے گی۔
فتنوں کے قریب ہونے اور یاجوج ماجوج کی آڑ کھلنے کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، سعید بن عمرو اشعثی، زہیر بن حرب، ابن ابی عمر، سفیان، زہری، اس سند سے بھی یہ حدیث مبارکہ اسی طرح مروی ہے۔
فتنوں کے قریب ہونے اور یاجوج ماجوج کی آڑ کھلنے کے بیان میں
حرملہ بن یحیی، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، عروہ بن زبیر، زینب بنت ابوسلمہ، ام حبیبہ بنت ابی سفیان، حضرت زینب بنت جحش (رض) سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ گھبرائے اس حال میں نکلے کہ آپ کا چہرہ سرخ تھا اور فرما رہے تھے لا الہ الا اللہ عرب کے لئے اس شر سے ہلاکت ہو جو قریب آچکا ہے آج یاجوج ماجوج کی آڑ اتنی کھل چکی ہے اور آپ ﷺ نے اپنے انگوٹھے اور اس کے ساتھ ملی ہوئی انگلی کا حلقہ بنا کر بتایا فرماتی ہیں میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ہم اپنے اندر موجود نیک لوگوں کے باوجود بھی ہلاک ہوجائیں گے آپ ﷺ نے فرمایا ہاں جب فسق وفجور کی کثرت ہوجائے گی۔
فتنوں کے قریب ہونے اور یاجوج ماجوج کی آڑ کھلنے کے بیان میں
عبدالملک، شعیب، لیث، عقیل بن خالد، عمرو ناقد، یعقوب بن ابراہیم، بن سعد، ابی صلاح، ابن شہباب یونس، زہری، ان اسناد سے بھی یہ اسی طرح مروی ہے۔
فتنوں کے قریب ہونے اور یاجوج ماجوج کی آڑ کھلنے کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، احمد بن اسحاق، وہیب، عبداللہ بن طاؤس، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا آج یاجوج ماجوج کی دیوار اتنی کھل گئی ہے اور وہیب راوی نے اپنے ہاتھ سے نوے کا حلقہ بنایا۔
بیت اللہ کے ڈھانے کا ارادہ کرنے والے لشکر کے دھنسائے جانے کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، ابوبکر بن ابی شیبہ، اسحاق بن ابراہیم، قتیبہ، اسحاق، جریر، عبدالعزیز بن رفیع، عبید اللہ بن قبطیہ سے روایت ہے کہ میں، حارث بن ابی ربیعہ اور عبداللہ بن صفوان کے ہمراہ ام المومنین ام سلمہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان دونوں نے سیدہ سے اس لشکر کے بارے میں سوال کیا جسے ابن زبیر کی خلافت کے دوران دھنسایا گیا تھا تو سیدہ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ایک پناہ لینے والا بیت اللہ کی پناہ لے گا پھر اس کی طرف لشکر بھیجا جائے گا وہ جب ہموار زمین میں پہنچے گا تو انہیں دھنسا دیا جائے گا میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول جس کو زبرد ستی اس لشکر میں شامل کیا گا ہو اس کا کیا حکم ہے آپ نے فرمایا اسے بھی ان کے ساتھ دھنسا دیا جائے گا لیکن قیامت کے دن اسے اس کی نیت پر اٹھایا جائے گا ابوجعفر نے کہا بیداء سے (میدان) مدینہ مراد ہے۔
بیت اللہ کے ڈھانے کا ارادہ کرنے والے لشکر کے دھنسائے جانے کے بیان میں
احمد بن یونس، زہیر، عبدالعزیز بن رفیع، ابوجعفر اس سند سے بھی یہ حدیث اسی طرح مروی ہے اس میں راوی کہتا ہے کہ میں ابوجعفر سے ملا تو میں نے کہا سیدہ نے تو زمین کا ایک میدان کہا تو ابوجعفر نے کہا ہرگز نہیں اللہ کی قسم وہ میدان مدینہ منورہ کا ہے۔
بیت اللہ کے ڈھانے کا ارادہ کرنے والے لشکر کے دھنسائے جانے کے بیان میں
عمرو ناقد، ابن ابی عمرو، سفیان، ابن عیینہ، امیہ بن صفوان، عبداللہ بن صفوان، حضرت ام المومنین سیدہ حفصہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا اس گھر (بیت اللہ) والوں سے لڑنے کے ارادہ سے ایک لشکر چڑھائی کرے گا یہاں تک کہ جب وہ زمین کے ہموار میدان میں ہوں گے تو ان کے درمیانی لشکر کو دھنسا دیا جائے گا اور ان کے آگے والے پیچھے والوں کو پکاریں گے پھر انہیں بھی دھنسا دیا جائے گا اور سوائے ایک آدمی کے جو بھاگ کر ان کے بارے میں اطلاع دے گا کوئی بھی باقی نہ رہے گا ایک آدمی نے کہا میں گواہی دیتا ہوں تیری اس بات پر کہ تو نے حفصہ (رض) پر جھوٹ نہیں باندھا اور حفصہ (رض) پر بھی میں گواہی دیتا ہوں کہ انہوں نے بھی نبی ﷺ پر جھوٹ نہیں باندھا۔
بیت اللہ کے ڈھانے کا ارادہ کرنے والے لشکر کے دھنسائے جانے کے بیان میں
محمد بن حاتم، ابن میمون، ولید بن صالح، عبیداللہ بن عمرو، زید بن ابی انیسہ، عبدالملک عامری، یوسف بن ماہک، عبداللہ بن صفوان، سیدہ ام المومنین سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا عنقریب ایک قوم اس گھر یعنی خانہ کعبہ کی پناہ لے گی جن کے پاس کوئی رکاوٹ نہ ہوگی نہ آدمیوں کی تعداد ہوگی اور نہ ہی سامان (ضروریات زندگی) ہوگا ان کی طرف ایک لشکر بھیجا جائے گا جب وہ زمین کے ایک ہموار میدان میں ہوں گے تو انہیں دھنسا دیا جائے گا یوسف نے کہا شام والے (یعنی حجاج کا لشکر) ان دنوں مکہ والوں سے لڑنے کے لئے روانہ ہوچکے تھے عبداللہ بن صفوان نے کہا اللہ کی قسم وہ لشکر یہ نہیں۔
بیت اللہ کے ڈھانے کا ارادہ کرنے والے لشکر کے دھنسائے جانے کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، یونس بن محمد، قاسم بن فضل، محمد بن زیاد، عبداللہ بن زبیر، سیدہ عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نیند میں اپنے ہاتھ پاؤں کو ہلایا تو ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول آپ نے اپنی نیند میں وہ عمل کیا جو پہلے نہ فرمایا کرتے تھے تو آپ نے فرمایا تعجب ہے کہ میری امت کے کچھ لوگ بیت اللہ کا ارادہ کریں گے قریش کے ایک آدمی کو پکڑنے کے لئے جس نے بیت اللہ میں پناہ لی ہوگا یہاں تک کہ جب وہ ایک ہموار میدان میں پہنچیں گے تو انہیں دھنسا دیا جائے گا ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول راستے میں تو سب لوگ جمع ہوتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا ہاں ان میں با اختیار مجبور اور مسافر بھی ہوں گے جو ایک ہی دفعہ ہلاک ہوجائیں گے اور مختلف طریقوں سے نکلیں گے اور انہیں ان کی نیتوں پر اٹھایا جائے گا۔
فتنوں کا بارش کے قطروں کی طرح نازل ہونے کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، عمرو ناقد، اسحاق بن ابراہیم، ابن ابی عمر، سفیان بن عیینہ، زہری، عروہ حضرت اسامہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ مدینہ منورہ کے قلعوں میں سے ایک قلعہ پر چڑھے پھر ارشاد فرمایا کیا تم وہ دیکھ رہے ہو جو میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہارے گھروں کی جگہوں میں فتنے ایسے گر رہے ہیں جیسے بارش کے قطرات گرتے ہیں۔
فتنوں کا بارش کے قطروں کی طرح نازل ہونے کے بیان میں
عبد بن حمید، عبدالرزاق، معمر، زہری، اس سند سے بھی یہ حدیث مبارکہ روایت کی گئی ہے۔
فتنوں کا بارش کے قطروں کی طرح نازل ہونے کے بیان میں
عمرو ناقد، حسن حلوانی، عبد بن حمید، عبد یعقوب بن ابراہیم بن سعد ابوصالح ابن شہاب ابن مسیب ابوسلمہ ابن عبدالرحمن حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ عنقریب فتنے (ظاہر) ہوں گے ان میں بیٹھنے والا کھڑا ہونے والے سے بہتر ہوگا اور کھڑا ہونے والا چلنے والے سے افضل ہوگا اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہوگا اور جو آدمی گردن اٹھا کر انہیں دیکھے گا تو وہ اسے ہلاک کردیں گے اور جسے ان میں کوئی پناہ کی جگہ مل جائے تو چاہئے کہ وہ پناہ لے لے۔
فتنوں کا بارش کے قطروں کی طرح نازل ہونے کے بیان میں
عمرو ناقد حسن حلوانی عبد بن حمید عبد یعقوب ابوصالح ابن شہاب ابوبکر بن عبدالرحمن عبدالرحمن بن مطیع بن اسود نوفل بن معاویہ ابوہریرہ (رض) اس سند سے بھی یہ حدیث روایت کی گئی ہے البتہ اس میں یہ اضافہ بھی ہے کہ نمازوں میں سے ایک نماز ایسی ہے جس سے وہ نماز قضاء ہوجائے تو ایسا ہے گویا کہ اس کا گھر اور مال سب لوٹ لیا گیا ہو۔
فتنوں کا بارش کے قطروں کی طرح نازل ہونے کے بیان میں
اسحاق بن منصور ابوداؤد طیالسی ابراہیم، بن سعد ابوسلمہ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا فتنے ہوں گے تو ان میں سونے والا بیدار رہنے والے سے بہتر ہوگا اور بیدار کھڑا ہونے والے سے بہتر ہوگا اور کھڑا ہونے والا دوڑنے والے سے بہتر ہوگا پس جس آدمی کو کوئی پناہ کی جگہ یا حفاظت کی جگہ مل جائے تو اسے چاہئے کہ وہ پناہ حاصل کرے۔
فتنوں کا بارش کے قطروں کی طرح نازل ہونے کے بیان میں
ابوکامل جحدری فضیل بن حسین بن حماد بن زید عثمان شحام حضرت عثمان بن الشحام سے روایت ہے کہ میں اور فرقد سنجی مسلم بن ابوبکر کی طرف چلے اور وہ اپنی زمین میں تھے ہم ان کے پاس حاضر ہوئے تو ہم نے کہا کیا آپ نے اپنے باپ سے فتنوں کے بارے میں حدیث بیان کرتے ہوئے سنا ہے انہوں نے کہا ہاں میں نے ابوبکرہ کو بیان کرتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ فرمایا عنقریب فتنے برپا ہوں گے آگاہ رہو پھر فتنے ہوں گے ان میں بیٹھنے والا چلنے والے سے بہتر ہوگا اور چلنے والا ان کی طرف دوڑنے والے سے بہتر ہوگا آگاہ رہوجب یہ نازل ہوں یا واقع ہوں تو جس کے پاس اونٹ ہوں وہ اپنے اونٹوں کے ساتھ ہی لگا رہے اور جس کی زمین ہو وہ اپنی زمین سے ہی چمٹا رہے ایک آدمی نے عرض کیا اے اللہ کے رسول آپ اس بارے میں کیا فرماتے ہیں جس کے پاس نہ اونٹ ہوں اور نہ بکریاں نہ ہی زمین آپ ﷺ نے فرمایا وہ اپنی تلوار لے کر اس کی دھار پتھر کے ساتھ رگڑ کر کند اور ناکارہ کر دے پھر اگر وہ نجات حاصل کرنے کی طاقت رکھتا ہو تو نجات حاصل کرے اے اللہ میں نے تیرا حکم پہنچا دیا ایک آدمی نے عرض کیا اے اللہ کے رسول آپ ﷺ کیا فرماتے ہیں کہ اگر مجھے ناپسندیدگی اور ناگواری کے باوجود ان دونوں صفوں میں سے ایک صف یا ایک گروپ میں کھڑا کردیا جائے پھر کوئی آدمی اپنی تلوار سے مجھے مار دے یا کوئی تیر میری طرف آجائے جو مجھے قتل کر ڈالے آپ ﷺ نے فرمایا وہ آدمی اپنے گناہ اور تیرے گناہ کے ساتھ لوٹے گا اور دوزخ والوں میں سے ہوگا۔
فتنوں کا بارش کے قطروں کی طرح نازل ہونے کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب وکیع، محمد بن مثنی، ابن ابی عدی، عثمان شحام ابن ابی عدی، حماد ان اسناد سے بھی یہ حدیث مروی ہے البتہ وکیع کی حدیث آپ ﷺ کے ارشاد اگر وہ نجات کی طاقت رکھتا ہو تک ہے۔ آگے مذکور نہیں۔
دو مسلمانوں کی تلواروں کے ساتھ باہم لڑائی کے بیان میں
ابوکامل فضیل بن حسین جحدری حماد بن زید ایوب یونس حسن حضرت احنف بن قیس سے روایت ہے کہ میں اس آدمی (حضرت علی) کے ارادہ سے گھر سے روانہ ہوا ابوبکرہ مجھ سے ملے تو کہنے لگے اے احنف کہاں کا ارادہ ہے میں نے کہا میں رسول اللہ ﷺ کے چچا زاد یعنی حضرت علی (رض) کی نصرت کا ارادہ کرتا ہوں تو ابوبکرہ نے مجھے کہا اے احنف واپس لوٹ جا کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ جب دو مسلمان باہم ایک دوسرے سے اپنی تلواروں سے لڑائی جنگ کریں گے تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے میں نے عرض کیا یا آپ ﷺ سے عرض کیا گیا کہ یہ تو قاتل ہے مگر مقتول کا کیا قصور ہے آپ نے فرمایا کیونکہ اس نے بھی اپنے ساتھی کے قتل کا ارادہ کیا تھا۔
دو مسلمانوں کی تلواروں کے ساتھ باہم لڑائی کے بیان میں
احمد بن عبدہ ضبی حماد ایوب یونس معلی ابن زیاد حسن احنف بن قیس حضرت ابوبکرہ (رض) سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے ایک دوسرے کے مقابلہ کریں تو قاتل اور مقتول (دونوں) جہنم میں جائیں گے۔
دو مسلمانوں کی تلواروں کے ساتھ باہم لڑائی کے بیان میں
حجاج بن شاعر، عبد الرزاق معمر، ایوب ابوکامل حماد اس سند سے بھی یہ حدیث مبارکہ اسی طرح مروی ہے۔
دو مسلمانوں کی تلواروں کے ساتھ باہم لڑائی کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، غندر شعبہ، محمد بن مثنی، ابن بشار محمد بن جعفر، شعبہ، منصور ربعی بن جراش حضرت ابوبکرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا پس مسلمانوں میں سے ایک اپنے بھائی پر اسلحہ اٹھائے پس وہ دونوں جہنم کنارے پر ہوتے ہیں جب ان دونوں میں سے ایک نے اپنے ساتھی کو قتل کردیا تو وہ دونوں اکٹھے جہنم میں داخل ہوگئے۔
دو مسلمانوں کی تلواروں کے ساتھ باہم لڑائی کے بیان میں
محمد بن رافع عبدالرزاق، معمر، ہمام بن منبہ، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ دو عظیم جماعتوں کے مابین جنگ وجدل نہ ہوجائے اور ان کے درمیان ایک بہت بڑی لڑائی ہوگی اور دونوں کا دعوی ایک ہوگا (کہ ہم رضائے الٰہی اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے جہاد کر رہے ہیں) ۔
دو مسلمانوں کی تلواروں کے ساتھ باہم لڑائی کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، یعقوب بن عبدالرحمن سہیل حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ ھرج کی کثرت ہوجائے صحابہ کرام نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ ھرج کیا ہے آپ ﷺ نے فرمایا قتل قتل (یعنی خونریزی کی کثرت) ۔
اس امت کا ایک دوسرے کے ہاتھوں ہلاک ہونے کے بیان میں
ابوربیع عتکی قتیبہ بن سعید، حماد بن زید قتیبہ حماد ایوب ابی قلابہ ابی اسماء حضرت ثوبان سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے زمین کو میرے لئے سمیٹ دیا تو میں نے اس کے مشرق اور مغرب کو دیکھا اور جہاں تک کی زمین میرے لئے سمیٹ دی گئی تھی وہاں تک، عنقریب میری امت کی سلطنت و حکومت پہنچ جائے گی اور مجھے سرخ اور سفید دو خزانے عطا کئے گئے اور میں نے اپنے رب سے اپنی امت کے لئے دعا مانگی کہ وہ انہیں عام قحط سالی میں ہلاک نہ کرے اور اپنے علاوہ ان پر کوئی ایسا دشمن بھی مسلط نہ کرے جو ان سب کی جانوں کی ہلاکت کو مباح جائز سمجھے اور میرے رب نے فرمایا اے محمد جب میں کسی بات کا فیصلہ کرلیتا ہوں تو اسے تبدیل نہیں کیا جاتا اور بیشک میں نے آپ ﷺ کی امت کے لئے فیصلہ کرلیا ہے کہ انہیں عام قحط سالی کے ذریعہ ہلاک نہ کروں گا اور نہ ہی ان کے علاوہ ان پر ایسا کوئی دشمن مسلط کروں گا جو ان سب کی جانوں کو مباح و جائز سمجھ کر ہلاک کر دے اگرچہ ان کے خلاف زمین کے چاروں اطراف سے لوگ جمع ہوجائیں یہاں تک کہ وہ ایک دوسرے کو ہلاک کریں گے اور ایک دوسرے کو خود ہی قیدی بنائیں گے۔
اس امت کا ایک دوسرے کے ہاتھوں ہلاک ہونے کے بیان میں
زہیر بن حرب، اسحاق بن ابراہیم، محمد بن مثنی، ابن بشار اسحاق معاذ بن ہشام ابوقتادہ، ابی قلابہ ابی اسماء رجی حضرت ثوبان سے روایت ہے کہ اللہ نے نبی ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے میرے لئے زمین کو سمیٹ دیا یہاں تک کہ میں نے اس کے مشرق ومغرب کو دیکھا اور مجھے سرخ اور سفید خزانے عطا کئے گئے باقی حدیث گزر چکی۔
اس امت کا ایک دوسرے کے ہاتھوں ہلاک ہونے کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، عبداللہ بن نمیر، ابی عثمان بن حکیم عامر بن حضرت سعد بن ابی وقاص سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن مقام عالیہ سے تشریف لائے یہاں تک کہ بنو معاویہ کی مسجد کے پاس سے گزرے تو اس میں تشریف لے گئے اور اس میں دو رکعتیں ادا کیں اور ہم نے بھی آپ ﷺ کے ساتھ نماز ادا کی اور آپ ﷺ نے اپنے رب سے لمبی دعا مانگی پھر ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا میں نے اپنے رب سے تین چیزیں مانگیں پس دو چیزیں مجھ کو عطا کردیں گئیں اور ایک چیز سے مجھے روک دیا میں نے اپنے رب سے مانگا کہ میری امت کو قحط سالی کے ذریعہ ہلاک نہ کرے پس یہ مجھے عطا کردیا گیا اور میں نے اللہ عزوجل سے مانگا کہ میری امت کو غرق کر کے ہلاک نہ کر پس اللہ عزوجل نے یہ چیز بھی مجھے عطا کردی اور میں نے اللہ عزوجل سے سوال کیا کہ ان کی آپس میں ایک دوسرے سے لڑائی نہ ہو تو مجھے اس سوال سے منع کردیا گیا۔
اس امت کا ایک دوسرے کے ہاتھوں ہلاک ہونے کے بیان میں
ابن ابی عمر مروان بن معاویہ عثمان بن حکیم انصاری عامر بن سعد حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ آپ ﷺ کے صحابہ کی جماعت کے ساتھ آئے تو آپ ﷺ بنو معاویہ کی مسند کے پاس سے گزرے باقی حدیث گزر چکی۔
قیام قیامت تم پیش آنے والے فتنوں کے بارے میں نبی ﷺ کا خبر دینے کے بیان میں
حرملہ بن یحییٰ تجیبی ابن وہب، یونس ابن شہاب حضرت ابوادریس خولانی سے روایت ہے کہ حضرت حذیفہ (رض) بن یمان نے کہا اللہ کی قسم میں لوگوں میں سے سب زیادہ جانتا ہوں کہ کون کون سے واقعات میرے اور قیامت کے درمیان پیش آنے والے ہیں اور مجھے ان فتنوں کے بتانے سے صرف یہی بات مانع ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بعض راز کی باتیں مجھے بتائیں جنہیں میرے علاوہ کسی سے بھی ذکر نہیں کیا لیکن رسول اللہ ﷺ نے فتنوں کے بارے میں فرمایا اس حال میں کہ آپ ﷺ ایک مجلس میں تھے جس میں میں بھی موجود تھا رسول اللہ ﷺ نے فتنوں کو شمار کرتے ہوئے فرمایا ان میں تین ایسے ہیں جو کسی بھی چیز کو نہ چھوڑیں گے ان میں سے کچھ فتنے گرمی کی ہواؤں کی طرح ہوں گے ان میں سے بعض چھوٹے اور بعض بڑے ہوں گے حذیفہ نے کہا میرے علاوہ باقی سب قوم مجلس اب اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں۔
قیام قیامت تم پیش آنے والے فتنوں کے بارے میں نبی ﷺ کا خبر دینے کے بیان میں
عثمان بن ابی شیبہ اسحاق بن ابراہیم، عثمان اسحاق جریر، اعمش، شقیق حضرت حذیفہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ ہمارے درمیان کھڑے ہو کر اس کھڑے ہونے کے وقت سے لے کر قیام قیامت تک کے تمام حالات کو بیان کردیا پس جس نے انہیں یاد رکھا اس نے انہیں یاد رکھا اور جو بھول گیا سو بھول گیا اور اس واقعہ کو میرے یہ ساتھی بھی جانتے ہیں اور ان میں سے بعض باتوں کو میں بھول گیا لیکن جب وہ چیزیں سامنے آجاتی ہیں تو یاد آجاتی ہیں جیسے کوئی آدمی کسی کے سامنے سے غائب ہوجائے تو اسے بھول جاتا ہے اور جب سامنے آتا ہے تو وہ اسے پہچان لیتا ہے۔
قیام قیامت تم پیش آنے والے فتنوں کے بارے میں نبی ﷺ کا خبر دینے کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ وکیع، سفیان، اعمش، اس سند سے بھی یہ حدیث مروی ہے البتہ اس میں جو بھول گیا وہ بھول گیا کے بعد مذکور نہیں۔
قیام قیامت تم پیش آنے والے فتنوں کے بارے میں نبی ﷺ کا خبر دینے کے بیان میں
محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، ابوبکر بن نافع، غندر، شعبہ، عدی بن ثابت، عبداللہ بن یزید حضرت حذیفہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے ہر اس بات کی خبر دے دی جو قیام قیامت تک پیش آنے والا ہے اور ہر چیز کے بارے میں آپ ﷺ سے سوال کیا گیا سوائے اس کے کہ میں نے آپ ﷺ سے یہ سوال نہیں کیا کہ اہل مدینہ کو کونسی چیز مدینہ سے نکالے گی ؟
قیام قیامت تم پیش آنے والے فتنوں کے بارے میں نبی ﷺ کا خبر دینے کے بیان میں
محمد بن مثنی، وہب بن جریر، شعبہ، اس سند سے بھی یہ حدیث اسی طرح روایت کی گئی ہے۔
قیام قیامت تم پیش آنے والے فتنوں کے بارے میں نبی ﷺ کا خبر دینے کے بیان میں
یعقوب بن ابراہیم، دورقی حجاج بن شاعر، ابوعاصم، حجاج، ابوعاصم، عروہ بن ثابت حضرت ابوزید عمر بن اخطب سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نماز فجر پڑھائی اور منبر پر چڑھے تو ہمیں خطبہ دیا یہاں تک کہ نماز کا وقت آگیا آپ ﷺ اترے اور نماز پڑھائی پھر منبر پر چڑھے اور ہمیں خطبہ دیا یہاں تک کہ عصر کی نماز کا وقت آگیا پھر اترے اور نماز پڑھائی پھر منبر پر چڑھے اور ہمیں خطبہ دیا یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا تو ہمیں آپ ﷺ نے ان تمام باتوں کی خبر دی جو پہلے ہوچکی ہیں اور جو آئندہ پیش آنے والی تھیں پس ہم میں سے سب بڑا عالم وہی ہے جس نے ہم میں سے ان باتوں کو زیادہ یاد رکھا۔
سمندر کی موجوں کی طرح آنے والے فتنوں کے بیان میں
محمد بن عبداللہ بن نمیر، محمد بن علاء ابوکریب ابی معاویہ، ابن علاء، ابومعاویہ اعمش، شقیق عمر حضرت حذیفہ (رض) سے روایت ہے کہ ہم حضرت عمر (رض) کے پاس تھے تو انہوں نے کہا تم میں سے کون ہے جسے رسول اللہ ﷺ کی فتنوں کے بارے میں حدیث زیادہ یاد ہے میں نے کہا میں ہوں کہا تو بہت جرأت مند ہے اور وہ حدیث کیسی ہے میں نے کہا میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے تھے آدمی کے گھر والوں اور اس کے مال اور اس کی جان اور اولاد اور پڑوسی میں فتنہ ہے اور ان کا کفارہ روزے نماز صدقہ نیکی کا حکم کرنا اور برائی سے منع کرنا ہیں تو حضرت عمر (رض) نے کہا میں نے ان کا ارادہ نہیں کیا بلکہ میرا ارادہ وہ فتنے ہیں جو سمندر کی موجوں کی طرح آئیں گے میں نے کہا اے امیر المومنین آپ کو اس سے کیا غرض ہے بیشک آپ کے اور ان فتنوں کے درمیان ایک بند دروازہ ہے حضرت عمر (رض) نے کہا اس دروزاے کو توڑا جائے گا یا کھولا جائے گا میں نے کہ نہیں بلکہ اسے توڑا جائے گا عمر (رض) نے کہا اگر ایسا ہے تو پھر کبھی بند نہ کیا جاسکے گا راوی کہتا ہیں ہم نے حضرت حذیفہ (رض) سے کہا کیا حضرت عمر (رض) اس دروازے کے بارے میں جانتے تھے انہوں نے کہا جی ہاں وہ اسی طرح جانتے تھے جیسا کہ وہ کل کے آنے سے پہلے رات کو جانتے تھے اور میں نے ان کو ایک حدیث بیان کی جو غلط الروایات سے نہ تھی پھر ہم حضرت حذیفہ (رض) سے دروازے کے بارے میں پوچھنے سے خوفزدہ ہوئے تو ہم نے مسروق سے کہا تم ان سے پوچھو انہوں نے پوچھا تو حضرت حذیفہ (رض) نے کہا : (دروازہ) عمر (رض) ہیں۔
سمندر کی موجوں کی طرح آنے والے فتنوں کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوسعید اشج وکیع، عثمان بن ابی شیبہ جریر، اسحاق بن ابراہیم، عیسیٰ بن یونس، ابن ابی عمر یحییٰ بن عیسیٰ ، ابومعاویہ اعمش، شقیق ان اسناد سے بھی اسی طرح روایت کی گئی ہے۔
سمندر کی موجوں کی طرح آنے والے فتنوں کے بیان میں
ابن ابی عمر سفیان، جامع بن ابی راشد اعمش، ابو وائل عمر حضرت حذیفہ (رض) سے روایت ہے کہ حضرت عمر (رض) نے کہا ہمیں فتنوں کے بارے میں حدیث کون بیان کرے گا باقی حدیث گزر چکی ہے۔
سمندر کی موجوں کی طرح آنے والے فتنوں کے بیان میں
محمد بن مثنی، محمد بن حاتم، معاذ بن معاذ ابن عون محمد حضرت جندب سے روایت ہے کہ جرعہ واقعہ کے دن آیا تھا جرعہ کوفہ میں ایک جگہ ہے جہاں کوفہ والے حضرت سعید بن عاص (رض) سے لڑنے کے لئے جمع ہوئے تھے جب انہیں حضرت عثمان نے کوفہ کا حاکم بنا کر بھیجا تھا وہاں ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا تو میں نے کہا آج کے دن تو یہاں بہت خونریزی ہوگی تو اس آدمی نے کہا اللہ کی قسم نہیں میں نے کہا اللہ کی قسم کیوں نہ ہوگی اس نے کہا اللہ کی قسم ہرگز نہیں میں نے کہا اللہ کی قسم نہ ہوگی اس نے کہا اللہ کی قسم ہرگز نہیں کیونکہ رسول اللہ کی حدیث ہے جو آپ ﷺ نے مجھے بیان کی تھی میں نے کہا تو میرے لئے برا ہم نشین ہے آج سے اس لئے کہ تو سنتا ہے میں تیری مخالفت کر رہا ہوں حالانکہ تو بھی رسول اللہ ﷺ سے اس بارے میں حدیث سن چکا ہے مگر مخالفت کرنے سے تو نے مجھے منع کیوں نہیں کیا پھر میں نے کہا یہ کیا غضب ہے الغرض میں نے اس کی طرف متوجہ ہو کر اس سے حدیث معلوم کرنا چاہی تو وہ آدمی حضرت حذیفہ (رض) تھے۔
دریائے فرات سے سونے کا پہاڑ نکلنے تک قیامت قائم نہ ہونے کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، یعقوب عبدالرحمن قاری سہیل حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ دریائے فرات سے سونے کا پہاڑے نکل آئے جس پر لوگوں کا قتل و قتال ہوگا اور ہر سو میں سے ننانوے آدمی قتل کئے جائیں گے اور ان میں سے ہر آدمی کہے گا شاید میں ہی وہ ہوں جسے نجات حاصل ہوگی اور یہ خزانہ میرے قبضہ میں رہ جائے گا۔
دریائے فرات سے سونے کا پہاڑ نکلنے تک قیامت قائم نہ ہونے کے بیان میں
امیہ بن بسطام یزید بن زریع روح سہیل اس سند سے بھی یہ حدیث اسی طرح مروی ہے البتہ سہیل کی اس سند میں یہ اضافہ ہے کہ میرے والد نے کہا اگر تو اسے دیکھ لے تو اس کے قریب نہ جانا۔
دریائے فرات سے سونے کا پہاڑ نکلنے تک قیامت قائم نہ ہونے کے بیان میں
ابومسعود سہل بن عثمان عقبہ بن خالد سکونی عبیداللہ بن خبیب بن عبدالرحمن حفص بن عاصم، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا عنقریب دریائے فرات سے سونے کا ایک خزانہ نکلے گا پس جو اس وقت موجود ہو وہ اس میں سے کچھ بھی نہ لے۔
دریائے فرات سے سونے کا پہاڑ نکلنے تک قیامت قائم نہ ہونے کے بیان میں
سہل بن عثمان عقبہ بن خالد عبیداللہ ابی زناد عبدالرحمن اعرج حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا عنقریب دریائے فرات سے سونے کا ایک پہاڑ نکلے گا پس جو بھی اس وقت موجود ہو وہ اس میں سے کچھ بھی نہ لے۔
دریائے فرات سے سونے کا پہاڑ نکلنے تک قیامت قائم نہ ہونے کے بیان میں
ابوکامل فضیل بن حسین ابومعن رقاشی ابی معن خالد بن حارث، عبدالحمید بن جعفر ابی سلیمان بن یسار حضرت عبداللہ بن حارث (رض) بن نوفل سے روایت ہے کہ حضرت ابی بن کعب کے ساتھ کھڑا ہوا تھا تو انہوں نے کہا ہمیشہ لوگوں کی گردنیں دنیا کے طلب کرنے میں ایک دوسرے سے اختلاف کرتی رہیں گی میں نے کہا جی ہاں انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ عنقریب دریائے فرات سے سونے کا ایک پہاڑ برآمد ہوگا جب لوگ اس کے بارے میں سنیں گے تو اس کی طرف روانہ ہوں گے پس جو لوگ اس کے پاس ہوں گے وہ کہیں گے اگر ہم نے لوگوں کو چھوڑ دیا تو وہ اس سے سارے کا سارا (سونا) لے جائیں گے پھر وہ اس پر قتل و قتال کریں گے پس ہر سو میں سے ننانوے آدمی قتل کئے جائیں گے ابوکامل نے اس حدیث کے بارے میں کہا کہ میں اور ابی بن کعب حسان کے قلعہ کے سایہ میں کھڑے ہوئے تھے۔
دریائے فرات سے سونے کا پہاڑ نکلنے تک قیامت قائم نہ ہونے کے بیان میں
عبید بن یعیش اسحاق بن ابراہیم، عبید یحییٰ بن آدم بن سلی ام خالد بن خالد زہیر سہیل بن ابوصالح حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا عراق اپنے درہم اور قفیز کو روک لے گا اور شام اپنے مد اور دینار روک لے گا اور مصر اپنے اردب اور دینار روک لے گا اور تم جہاں سے چلے تھے وہیں لوٹ آؤ گے اور تم جہاں سے چلے تھے وہیں لوٹ آؤ گے اور اس بات پر ابوہریرہ (رض) کا گوشت اور خون گواہ ہے۔
قسطنطنیہ کی فتح اور خروج دجال اور سیدنا عیسیٰ ابن مریم کے نزول کے بیان میں
زہیر بن حرب، معلی بن منصور سلیمان بن بلال سہیل حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ رومی اعماق یا دابق میں اتریں ان کی طرف ان سے لڑنے کے لئے ایک لشکر مدینہ روانہ ہوگا اور وہ ان دنوں زمین والوں میں سے نیک لوگ ہوں گے جب وہ صف بندی کریں گے تو رومی کہیں گے کہ تم ہمارے اور ان کے درمیان دخل اندازی نہ کرو جنہوں نے ہم میں سے کچھ لوگوں کو قیدی بنا لیا ہے ہم ان سے لڑیں گے مسلمان کہیں گے نہیں اللہ کی قسم ہم اپنے بھائیوں کو تنہا نہ چھوڑیں گے کہ تم ان سے لڑتے رہو بالآخر وہ ان سے لڑائی کریں گے بالآخر ایک تہائی مسلمان بھاگ جائیں گے جن کی اللہ کبھی بھی توبہ قبول نہ کرے گا اور ایک تہائی قتل کئے جائیں گے جو اللہ کے نزدیک افضل الشہداء ہوں گے اور تہائی فتح حاصل کرلیں گے انہیں کبھی آزمائش میں نہ ڈالا جائے گا پس وہ قسطنطنیہ کو فتح کریں گے جس وقت وہ آپس میں مال غنیمت میں سے تقسیم کر رہے ہوں اور ان کی تلواریں زیتون کے درختوں کے ساتھ لٹکی ہوئی ہوں گی تو اچانک شیطان چیخ کر کہے گا تحقیق مسیح دجال تمہارے بال بچوں تک پہنچ چکا ہے وہ وہاں سے نکل کھڑے ہوں گے لیکن یہ خبر باطل ہوگی جب وہ شام پہنچیں گے تو اس وقت دجال نکلے گا اسی دوران کہ وہ جہاد کے لئے تیاری کر رہے ہوں گے اور صفوں کو سیدھا کررہے ہوں گے کہ نماز کے لئے اقامت کہی جائے گی اور عیسیٰ بن مریم نازل ہوں گے اور مسلمانوں کی نماز کی امامت کریں گے پس جب اللہ کا دشمن انہیں دیکھے گا تو وہ اس طرح پگھل جائے گا جس طرح پانی میں نمک پگھل جاتا ہے اگرچہ عیسیٰ اسے چھوڑ دیں گے تب بھی وہ پگھل جائے گا یہاں تک کہ ہلاک ہوجائے گا لیکن اللہ تعالیٰ اسے عیسیٰ کے ہاتھوں سے قتل کرائیں گے پھر وہ لوگوں کو اس کا خون اپنے نیزے پر دکھائیں گے۔
قیام قیامت کے وقت رومیوں کی تمام لوگوں سے کثرت ہونے کے بیان میں
عبدالملک بن شعیب بن لیث، عبداللہ بن وہب، لیث بن سعد حضرت موسیٰ بن علی (رض) اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ مستورد قرشی نے حضرت عمرو بن عاص کی موجودگی میں کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ قیامت اس وقت قائم ہوگی جب نصاری تمام لوگوں سے زیادہ ہوں گے تو حضرت عمرو نے ان سے کہا غور کرو کیا کہہ رہے ہو انہوں نے کہا میں وہی کہتا ہوں جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا حضرت عمرو نے کہا اگر تو یہی کہتا ہے تو ان میں چار خصلتیں ہوں گی وہ آزمائش کے وقت لوگوں میں سب سے زیادہ بردبار ہوں گے اور مصیبت کے بعد لوگوں میں سب سے زیادہ جلدی اس کا ازالہ کرنے والے ہوں گے اور لوگوں میں سے مسکین یتیم اور کمزور ہوں گے اور پانچویں خصلت نہایت عمدہ یہ ہے کہ وہ لوگوں میں سے سب سے زیادہ باشاہوں کو ظلم سے روکنے والے ہوں گے۔
قیام قیامت کے وقت رومیوں کی تمام لوگوں سے کثرت ہونے کے بیان میں
حرملہ بن یحیی، عبداللہ بن وہب، ابوشریح عبدالکریم بن حارث حضرت مستورد قرشی (رض) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا قیامت اس وقت قائم ہوگی جب نصاری سب لوگوں سے زیادہ ہوں گے یہ خبر جب حضرت عمرو بن عاص کو پہنچی تو انہوں نے کہا یہ کیا احادیث ہیں جنہیں تجھ سے ذکر کیا جاتا ہے اور تم ان احادیث کو رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہو تو مستورد نے ان سے کہا میں نے وہی کہا ہے جو رسول اللہ ﷺ سے سنا تو عمرو نے کہا اگر تو نے یہ کہا ہے تو سنو وہ آزمائش کے وقت لوگوں میں سے زیادہ بردبار ہوں گے اور مصیبت کے بعد لوگوں میں سے جلد درست ہونے والے ہوں گے اور اپنے مساکین اور کمزوروں کے لئے لوگوں میں سے بہتر ہوں گے۔
خروج دجال کے وقت رومیوں کے قتل کی کثرت کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ علی بن حجر ابن علیہ، ابن حجر اسماعیل بن ابراہیم، ایوب حمید بن ہلال ابوقتادہ، عدوی یسیر بن جابر سے روایت ہے کہ ایک دفعہ کوفہ میں سرخ آندھی آئی ایک آدمی آیا جس کا تکیہ کلام یہ تھا اے عبداللہ بن مسعود قیامت آگئی تو وہ سیدھے ہو کر بیٹھ گئے حالانکہ ٹیک لگائے ہوئے تھے اور کہا کہ قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ ترکہ تقسیم نہ کیا جائے اور غنیمت سے خوشی نہ ہوگی پھر اپنے ہاتھ سے ملک شام کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ اس طرف دشمن اہل اسلام سے لڑنے کے لئے جمع ہوں گے اور اہل اسلام ان سے لڑنے کے لئے جمع ہوجائیں گے میں نے کہا آپ کی مراد رومی ہیں انہوں نے کہا ہاں اور اس وقت سخت شدت کی جنگ ہوگی اور مسلمان موت پر شرط لگائیں گے کہ وہ غلبہ کے بغیر واپس نہ لوٹیں گے پھر وہ خوب جہاد کریں گے یہاں تک کہ ان کے درمیان رات کا پردہ حائل ہوجائے گا پھر یہ بھی لوٹ آئیں گے اور وہ بھی واپس آجائیں گے اور کوئی ایک گروہ غالب نہ ہوگا اور جو لشکر لڑائی کے لئے آگے بڑھا تھا وہ بالکل ہلاک اور فنا ہوجائے گا پھر (اگلے دن) مسلمان ایک اور لشکر آگے بھیجیں گے جو موت پر شرط لگائیں گے کہ وہ غلبہ کے بغیر واپس نہ آئیں گے پس وہ بھی جنگ کریں گے یہاں تک کہ شام ہوجائے پھر یہ بھی واپس آجائیں گے اور وہ بھی لوٹ جائیں گے اور کوئی غالب نہ ہوگا اور جو لشکر لڑائی کے لئے آگے بڑھا تھا وہ ہلاک اور فنا ہوجائے گا پھر (اگلے دن) مسلمان ایک اور لشکر روانہ کریں گے جو موت پر شرط لگائیں گے کہ وہ غلبہ حاصل کئے بغیر واپس نہ لوٹیں گے پس وہ بھی جنگ کریں گے یہاں تک کہ شام ہوجائے گی پھر یہ بھی واپس آجائیں گے اور وہ بھی لوٹ جائیں گے لیکن کوئی بھی غالب نہ ہوگا اور وہ لشکر ہلاک وفنا ہوجائے گا پس جب چوتھا دن ہوگا تو باقی اہل اسلام ان پر حملہ کردیں گے تو اللہ کافروں پر شکست مسلط کر دے گا اور ایسی لڑائی ہوگی کہ ویسی کوئی نہ دیکھے گا یا کہا کہ ویسی کسی نے دیکھی نہ ہوگی یہاں تک کہ پرندے بھی ان کے پہلوؤں کے پاس سے گزریں گے تو وہ بھی آگے نہ بڑھ سکیں گے یہاں تک کہ مردہ ہو کر گرپڑیں گے اور ایک باپ کی اولاد کو شمار کیا جائے گا تو وہ سو ہوں گے اور ان میں سے سوائے ایک کے کوئی بھی باقی نہ رہے گا پس اس حال میں کس غنیمت پر خوشی ہوگی یا کون سی میراث کو تقسیم کیا جائے گا پھر اسی دوران مسلمان ایک اور بڑی آفت کی خبر سنیں گے جو اس سے بھی بڑی ہوگی پس ان کے پاس ایک چیخنے والا آئے گا کہ دجال ان کے بعد ان کے بال بچوں میں آگیا ہے یہ سنتے ہی اپنے ہاتھوں میں موجود چیزوں کو پھینک دیں گے اور اس کی طرف متوجہ ہوں جائیں گے پھر دس سواروں کا ہر اول دستہ روانہ کریں گے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں ان کے نام اور آباؤ اجداد کے نام اور ان کے گھوڑوں کے رنگوں کو پہچانتا ہوں اور وہ اس دن اہل زمین سے بہترین شہسوار ہوں گے یا اس دن وہ زمین والوں میں سے بہترین شہسوار ہوں گے ابن ابی شیبہ نے اپنی روایت میں اسیر بن جابر سے روایت کی ہے۔
خروج دجال کے وقت رومیوں کے قتل کی کثرت کے بیان میں
محمد بن عبیدالغبری حماد بن زید ایوب حمید بن ہلال ابوقتادہ، حضرت یسیر بن جابر (رض) سے روایت ہے کہ میں نے ابن مسعود کے پاس حاضر تھا کہ سرخ ہوا ڈرانے والی چلی باقی حدیث گزر چکی ہے۔
خروج دجال کے وقت رومیوں کے قتل کی کثرت کے بیان میں
شیبان بن فروخ سلیمان بن مغیرہ حمید ابن ہلال ابوقتادہ، حضرت اسیر بن جابر (رض) سے روایت ہے کہ میں عبداللہ بن مسعود (رض) کے گھر میں تھا کہ گھر بھرا ہوا تھا اتنے میں کوفہ میں سرخ ہوا چلی باقی حدیث ابن علیہ کی حدیث کی طرح ہے۔
خروج دجال سے پہلے مسلمانوں کو فتوحات ہونے کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، جریر، عبدالملک بن عمیر جابر بن سمرہ حضرت نافع بن عتبہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ایک غزوہ میں شریک تھے کہ نبی ﷺ کی خدمت میں مغرب کی طرف سے ایک قوم آئی جن پر سفید اونی کپڑے تھے اور وہ آپ ﷺ سے ایک ٹیلے کے پاس ملے وہ کھڑے ہوئے تھے اور رسول اللہ تشریف فرما تھے مجھے میرے دل نے کہا کہ تو بھی ان کے اور آپ ﷺ کے درمیان جا کر کھڑا ہو کہ کہیں وہ دھوکہ سے آپ ﷺ پر حملہ ہی نہ کردیں پھر میں نے کہا شاید آپ ﷺ ان سے کوئی راز کی بات کر رہے ہوں بہر حال پھر میں ان کے پاس آیا اور آپ ﷺ کے اور ان کے درمیان کھڑا ہوگیا اور اسی دوران میں نے آپ ﷺ سے چار کلمات یاد کئے جنہیں میں نے اپنے ہاتھوں پر شمار کرلیا آپ نے فرمایا تم جزیرہ عرب میں جہاد کرو گے اللہ تعالیٰ تمہیں اس میں فتح عطا فرمائے گا پھر تم اہل فارس سے جنگ کرو گے ان پر بھی اللہ تمہیں فتح عطا فرمائیں گے پھر تم روم سے جہاد کرو گے اور اللہ تعالیٰ اس پر بھی تمہیں فتح عطا فرمائیں گے پھر تم دجال سے جنگ کرو گے اس پر بھی اللہ تمہیں فتح عطا کریں گے تو نافع نے کہا اے جابر پھر ہم روم کی فتح سے پہلے تو دجال کو نہ دیکھیں گے۔
قیامت سے پہلے کی علامات کے بیان میں
ابوخیثمہ زہیر بن حرب، اسحاق بن ابراہیم، ابن ابی عمر مکی زہیر اسحاق سفیان بن عیینہ، ابوطفیل حضرت حذیفہ بن اسید غفاری (رض) سے روایت ہے کہ ہمارے پاس نبی ﷺ تشریف لائے اور ہم باہم گفتگو کر رہے تھے تو آپ ﷺ نے فرمایا تم کس بات کا تذکرہ کر رہے ہو انہوں نے عرض کیا ہم قیامت کا تذکرہ کر رہے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا وہ ہرگز قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ تم اس سے پہلے دس علامات دیکھ لوگے پھر دھوئیں، دجال، دابہ الارض، سورج کے مغرب سے طلوع ہونے اور سیدنا عیسیٰ بن مریم کے نازل ہونے اور یاجوج وماجوج اور تین جہگوں کے دھنسنے، ایک دھنسنا مشرق میں اور ایک دھنسنا مغرب میں، ایک دھنسنا جزیرہ العرب میں ہونے اور آخر میں یمن سے آگ نکلنے کا ذکر فرمایا جو لوگوں کو جمع ہونے کی جگہ کی طرف لے جائے گی۔
قیامت سے پہلے کی علامات کے بیان میں
عبیداللہ بن معاذ عنبری ابوشعبہ، ابی طفیل حضرت ابوسریحہ (رض) حذیفہ بن اسید سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ایک کمرہ میں تھے اور ہم آپ سے نیچے تھے پس آپ ﷺ ہماری طرف تشریف لائے تو فرمایا تم کس چیز کا ذکر کر رہے ہو ہم نے عرض کیا قیامت کا آپ ﷺ نے فرمایا قیامت اس وقت تک نہ آئے گی جب تک دس علامات پوری نہ ہوجائیں گی مشرق میں دھنسنا اور مغرب میں دھنسنا اور ایک دھنسنا جزیرہ العرب میں ہوگا اور دھواں، دجال، دابہ الارض، یاجوج ماجوج، سورج کا مغرب سے طلوع ہونا اور آگ جو عدن کے کنارے سے نکلے گی جو لوگوں کو ہانک کرلے جائے گی دوسری سند ذکر کی ہے اس میں یہ حدیث اسی طرح مروی ہے لیکن اس میں نبی ﷺ کا ذکر نہیں اور ان میں سے ایک نے دسویں علامت کے بارے میں کہا کہ وہ عیسیٰ بن مریم کا نزول ہے اور دوسرے نے کہا وہ آندھی ہے جو لوگوں کو سمندر میں ڈال دے گی۔
قیامت سے پہلے کی علامات کے بیان میں
محمد بن بشار، محمد بن جعفر شعبہ، ابوطفیل حضرت ابوسریحہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک کمرہ میں تھے اور ہم اس کے نیچے گفتگو کر رہے تھے باقی حدیث اسی طرح ہے جیسے گزر چکی شعبہ نے کہا میرا گمان ہے کہ انہوں نے کہا آگ لوگوں کے ساتھ ساتھ رہے گی جہاں وہ اتریں گے آگ بھی وہیں اتر جائے گیا اور جب وہ (دوپہر کو) قیلولہ کریں گے تو آگ بھی وہیں ہوگی جہاں وہ قیلولہ کریں گے شعبہ نے کہا ایک آدمی نے مجھ سے یہ حدیث ابوطفیل کے واسطہ سے ابوسریحہ سے نقل کی لیکن مرفوع ہونا روایت نہیں کیا ان میں سے ایک آدمی نے حضرت عیسیٰ بن مریم کا نزول اور دوسرے نے آندھی کا ذکر کیا جو انہیں سمندر میں ڈال دے گی۔
قیامت سے پہلے کی علامات کے بیان میں
محمد بن مثنی، ابونعمان حکم بن عبداللہ عجلی شعبہ، فراب ابوطفیل حضرت ابوسریحہ (رض) سے روایت ہے کہ ہم گفتگو کر رہے تھے کہ اچانک رسول اللہ ﷺ نے ہمیں جھانک کر دیکھا باقی حدیث گزر چکی البتہ دسویں علامت اس میں عیسیٰ بن مریم کا نزول مذکور ہے اور بقول شعبہ عبدالعزیز نیا سے مرفوع روایت نہیں کیا۔
زمین حجاز سے آگ نکلنے تک قیامت قائم نہ ہونے کے بیان میں
حرملہ بن یحییٰ ابن وہب، یونس ابن شہاب ابن مسیب ان دونوں اسناد سے بھی حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا زمین حجاز سے آگ نکلنے تک قیامت قائم نہ ہوگی جو کہ بصری کے اونٹوں کی گردنوں کو روشن کر دے گی۔
قیامت سے پہلے مدینہ میں سکونت اور اس کی عمارتوں کے بیان میں
عمرو ناقد اسود بن عامر زہیر سہیل ابن ابوصالح حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت کے قریب گھر اہاب یا یھاب تک پہنچ جائینگے زہیر نے کہا میں نے اسماعیل سے کہا کہ یہ علاقہ مدینہ سے کتنے فاصلہ پر ہے انہوں نے کہا اتنے اتنے میل کے فاصلہ پر ہے۔
قیامت سے پہلے مدینہ میں سکونت اور اس کی عمارتوں کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، یعقوب ابن عبدالرحمن سہیل حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا قحط یہ نہیں ہے کہ بارش نہ برسائی جائے بلکہ قحط سالی یہ ہے کہ بارش بر سے اور خوب بر سے لیکن زمین کوئی چیز بھی نہ اگائے۔
مشرق کی طرف سے شیطان کے سینگ کے طلوع ہونے کی جگہ سے فتنہ کے ظاہر ہونے کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، لیث، محمد بن رمح، لیث، نافع حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس حال میں سنا کہ آپ ﷺ مشرق کی طرف منہ کئے ہوئے تھے آپ ﷺ نے فرمایا آگاہ رہو فتنہ اس جگہ ہوگا آگاہ رہو فتنہ اس جگہ ہوگا جہاں سے شیطان کا سینگ طلوع ہوتا ہے۔
مشرق کی طرف سے شیطان کے سینگ کے طلوع ہونے کی جگہ سے فتنہ کے ظاہر ہونے کے بیان میں
عبیداللہ بن عمر قواریری محمد بن مثنی، عبیداللہ بن سعید یحییٰ قطان یحییٰ بن سعید عبیداللہ بن عمر نافع حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ حضرت حفصہ (رض) کے دروازے کے پاس کھڑے ہوئے تھے تو آپ نے اپنے ہاتھ سے مشرق کی طرف اشارہ کر کے فرمایا فتنہ یہاں ہوگا جہاں سے شیطان کا سینگ طلوع ہوتا ہے اسے آپ نے دو یا تین مرتبہ فرمایا اور عبیداللہ بن سعید نے اپنی روایات میں فرمایا کہ آپ ﷺ سیدہ عائشہ (رض) کے دروازے کے پاس کھڑے تھے۔
مشرق کی طرف سے شیطان کے سینگ کے طلوع ہونے کی جگہ سے فتنہ کے ظاہر ہونے کے بیان میں
حرملہ بن یحییٰ ابن وہب، یونس ابن شہاب سالم بن عبداللہ حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس حال میں کہ آپ ﷺ مشرق کی طرف منہ کئے ہوئے تھے کہ بیشک فتنہ یہاں ہوگا، فتنہ اس جگہ ہوگا، فتنہ اس جگہ ہوگا جہاں سے شیطان کا سینگ طلوع ہوتا ہے۔
مشرق کی طرف سے شیطان کے سینگ کے طلوع ہونے کی جگہ سے فتنہ کے ظاہر ہونے کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، وکیع، عکرمہ بن عمار سالم حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ سیدہ عائشہ (رض) سے گھر سے نکلے تو فرمایا کفر کی چوٹی اس جگہ سے ہوگی جہاں سے شیطان کا سینگ طلوع ہوتا ہے یعنی مشرق سے۔
مشرق کی طرف سے شیطان کے سینگ کے طلوع ہونے کی جگہ سے فتنہ کے ظاہر ہونے کے بیان میں
ابن نمیر، اسحاق ابن سلیمان حنظلہ حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اپنے ہاتھ سے مشرق کی طرف ہاتھ سے اشارہ کر کے فرماتے ہوئے سنا کہ فتنہ یہاں ہوگا، فتنہ یہاں ہوگا، فتنہ یہاں ہوگا تین مرتبہ فرمایا جہاں سے شیطان کا سینگ طلوع ہوتا ہے۔
مشرق کی طرف سے شیطان کے سینگ کے طلوع ہونے کی جگہ سے فتنہ کے ظاہر ہونے کے بیان میں
ابن عمر ابن ابان واصل عبدالاعلی احمد بن عمر وکیع بن ابان حضرت ابن فضیل اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے سالم بن عبداللہ بن عمرو (رض) سے سنا انہوں نے کہا اے اہل عراق میں تم سے چھوٹے گناہوں کے بارے میں نہیں پوچھتا اور نہ یہ پوچھتا ہوں کہ تم کو کبائر پر کس چیز نے برانگیختہ کیا میں نے اپنے والد عبداللہ بن عرم سے سنا وہ فرماتے تھے میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے تھے بیشک فتنہ اس طرف سے آئے گا اور اپنے ہاتھ سے مشرق کی طرف اشارہ کیا جہاں سے شیطان کے دو سینگ طلوع ہوتے ہیں تم ایک دوسرے کی گردنوں کو مارو گے اور موسیٰ (علیہ السلام) نے آل فرعون میں سے جس آدمی کو خطاءً قتل کیا تھا تو اللہ رب العزت نے ان سے فرمایا اور تو نے ایک جان کو قتل کیا تو ہم نے تجھے غم سے نجات عطا کی اور تجھے آزمایا جیسے آزمایا جاتا ہے۔
دوس ذوالخلصہ بت کی عبادت نہ کئے جانے تک قیامت قائم نہ ہونے کے بیان میں
محمد بن رافع حمید عبد ابن رافع عبدالرزاق، معمر، زہری، ابن مسیب حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ دوس کی عورتوں کی سرین ذوالخلصہ (بت) کے گرد ہلے گی اور یہ ایک بت تھا جس کی قبیلہ دوس زمانہ جاہلیت میں تبالہ مقام پر عبادت کیا کرتے تھے۔
دوس ذوالخلصہ بت کی عبادت نہ کئے جانے تک قیامت قائم نہ ہونے کے بیان میں
ابوکامل جحدری ابومعن زید بن یزید رقاشی ابی معن خالد بن حارث، عبدالحمید بن جعفر اسود علاء، ابوسلمہ سیدہ عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے تھے رات اور دن نہیں گزریں گے یہاں تک کہ لات اور عزی کی عبادت کی جائے گی میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول میرا تو یہ گمان تھا کہ جب اللہ نے یہ آیت (هُوَ الَّذِيْ اَرْسَلَ رَسُوْلَه بِالْهُدٰي وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَه عَلَي الدِّيْنِ كُلِّه وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ ) 9 ۔ التوبہ : 33) وہ ذات ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے تاکہ اسے سارے دینوں پر غالب کر دے اگرچہ مشرکوں کو یہ بات ناگوار ہو نازل فرما دی ہے تو یہ دین مکمل ہوچکا ہے آپ ﷺ نے فرمایا عنقریب ایسا ہی ہوگا جو اللہ کی مشیت میں ہے پھر اللہ تعالیٰ پاکیزہ ہوا بھیجے گا جس سے ہر وہ آدمی فوت ہوجائے گا جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان ہوگا اور وہی لوگ باقی رہ جائیں گے جن میں بالکل خیر و بھلائی نہ ہوگی پھر وہ لوگ اپنے آباؤ اجداد کے دین کی طرف لوٹ جائیں گے۔
دوس ذوالخلصہ بت کی عبادت نہ کئے جانے تک قیامت قائم نہ ہونے کے بیان میں
محمد بن مثنی، ابوبکر حنفی عبدالحمید بن جعفر اس سند سے بھی یہ حدیث مبارکہ اسی طرح مروی ہے۔
قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ آدمی دوسرے آدمی کی قبر کے پاس سے گزر کر مصیبتوں کی وجہ سے تمنا کرے گا کہ وہ اس جگہ ہوتا۔
قتیبہ بن سعید، مالک بن انس، ابوزناد اعرج حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ ایک آدمی دوسرے آدمی کی قبر کے پاس سے گزر کر کہے گا اے کاش میں اس کی جگہ ہوتا۔
قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ آدمی دوسرے آدمی کی قبر کے پاس سے گزر کر مصیبتوں کی وجہ سے تمنا کرے گا کہ وہ اس جگہ ہوتا۔
ابن عمر ابن محمد بن ابان بن صالح محمد بن یزید ابن ابان ابن فضیل ابی اسماعیل ابوحازم، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے دنیا ختم نہ ہوگی یہاں تک کہ آدمی قبر کے قریب سے گزرے گا تو اس پر لیٹے گا اور کہے گا اے کاش اس قبر کی جگہ میں ہوتا اور اس کے ساتھ سوائے آزمائشوں کے دین نہ ہوگا۔
قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ آدمی دوسرے آدمی کی قبر کے پاس سے گزر کر مصیبتوں کی وجہ سے تمنا کرے گا کہ وہ اس جگہ ہوتا۔
ابن ابی عمر مکی، مروان، بدر، یزید ابن کیسان ابی حازم، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے لوگوں پر ایسا زمانہ ضرور آئے گا کہ قاتل نہیں جان سکے گا کہ اس نے کس وجہ سے قتل کیا اور نہ ہی مقتول جان سکے گا کہ اسے کس وجہ سے قتل کیا گیا۔
قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ آدمی دوسرے آدمی کی قبر کے پاس سے گزر کر مصیبتوں کی وجہ سے تمنا کرے گا کہ وہ اس جگہ ہوتا۔
ابن عمر بن ابان واصل، عبدالاعلی، محمد بن فضیل، ابی سہل اسلمی ابی حازم حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے دنیا ختم نہ ہوگی یہاں تک کہ لوگوں پر ایسا دن آئے گا کہ قاتل نہ جان سکے گا کہ اس نے کس وجہ سے قتل کیا اور مقتول کو کس وجہ سے قتل کیا گیا آپ ﷺ سے عرض کیا گیا ایسا کیسے ہوگا آپ نے فرمایا بکثرت خونریزی ہوگی قاتل و مقتول دونوں آگ میں ہوں گے۔
قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ آدمی دوسرے آدمی کی قبر کے پاس سے گزر کر مصیبتوں کی وجہ سے تمنا کرے گا کہ وہ اس جگہ ہوتا۔
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابن ابی عمر ابی بکر سفیان بن عیینہ، زیاد سعد زہری سعید حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کعبہ کو حبشہ کا چھوٹی چھوٹی پنڈلیوں والا گروہ گرادے گا۔
قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ آدمی دوسرے آدمی کی قبر کے پاس سے گزر کر مصیبتوں کی وجہ سے تمنا کرے گا کہ وہ اس جگہ ہوتا۔
حرملہ بن یحییٰ ابن وہب، یونس ابن شہاب ابن مسیب ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کعبہ کو حبشہ کا چھوٹی چھوٹی پنڈلیوں والا گروہ گرا دے گا۔
قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ آدمی دوسرے آدمی کی قبر کے پاس سے گزر کر مصیبتوں کی وجہ سے تمنا کرے گا کہ وہ اس جگہ ہوتا۔
قتیبہ بن سعید، عبدالعزیز ثور بن زید ابی غیث حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دو چھوٹی چھوٹی پنڈلیوں والا حبشی گروہ اللہ رب العزت کے گھر کو گرا دے گا۔
قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ آدمی دوسرے آدمی کی قبر کے پاس سے گزر کر مصیبتوں کی وجہ سے تمنا کرے گا کہ وہ اس جگہ ہوتا۔
قتیبہ بن سعید عبدالعزیز بن محمد بن ثور بن زید ابی غیث حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ آیک آدمی قحطان سے نکلے گا جو لوگوں اپنی لاٹھی سے ہنکائے گا۔
قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ آدمی دوسرے آدمی کی قبر کے پاس سے گزر کر مصیبتوں کی وجہ سے تمنا کرے گا کہ وہ اس جگہ ہوتا۔
محمد بن بشار، عبدی عبد الکبیر بن عبدالمجید ابوبکر حنفی عبد حمید بن جعفر عمر بن حکم حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا دنوں اور راتوں کا سلسلہ اس وقت تک ختم نہ ہوگا یہاں تک کہ ایک آدمی بادشاہ بن جائے گا جسے بہجاہ کہا جائے گا۔ امام مسلم نے کہا راوی کے متعلق کہ یہ چار بھائی ہیں شریک، عبیداللہ، عمیر اور عبدالکبیر جو کہ عبدالمجید کے بیٹے ہیں۔
قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ آدمی دوسرے آدمی کی قبر کے پاس سے گزر کر مصیبتوں کی وجہ سے تمنا کرے گا کہ وہ اس جگہ ہوتا۔
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابن ابی عمر ابن ابی عمر سفیان، زہری، سعید حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ تم ایک قوم سے جہاد کرو گے جن کے چہرے کو ٹی ہوئی ڈھال کی طرح ہوں گے اور قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ تم ایسی قوم سے لڑو گے جن کی جوتیاں بالوں کی ہوں گی۔
قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ آدمی دوسرے آدمی کی قبر کے پاس سے گزر کر مصیبتوں کی وجہ سے تمنا کرے گا کہ وہ اس جگہ ہوتا۔
حرملہ بن یحییٰ ابن وہب، یونس ابن شہاب سعید بن مسیب حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ تم سے ایسی قوم جنگ کرے گی جن کے جوتے بالوں کے ہوں گے اور ان کے چہرے کو ٹی ہوئی ڈھال کی طرح تہ بتہ ہوں گے۔
قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ آدمی دوسرے آدمی کی قبر کے پاس سے گزر کر مصیبتوں کی وجہ سے تمنا کرے گا کہ وہ اس جگہ ہوتا۔
ابوبکر بن ابی شیبہ، سفیان، ابن عیینہ ابی زناد اعرج حضرت ابوہریرہ (رض) نبی ﷺ تک اس حدیث کو پہنچاتے ہوئے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ تم ایسی قوم سے جنگ کرو جن کے جوتے بالوں کے ہوں گے اور قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ تم چھوٹی آنکھوں والی اور چپٹی ہوئی ناک والوں سے جنگ نہ کرلو۔
قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ آدمی دوسرے آدمی کی قبر کے پاس سے گزر کر مصیبتوں کی وجہ سے تمنا کرے گا کہ وہ اس جگہ ہوتا۔
قتیبہ بن سعید، یعقوب ابن عبدالرحمن سہیل حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ مسلمان ایسے ترکوں سے جہاد کریں جن کے چہرے کو ٹی ہوئی ڈھال کی طرح ہوں گے وہ بالوں کا لباس پہنیں گے اور بالوں میں ہی چلیں گے۔
قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ آدمی دوسرے آدمی کی قبر کے پاس سے گزر کر مصیبتوں کی وجہ سے تمنا کرے گا کہ وہ اس جگہ ہوتا۔
ابوکریب وکیع، ابواسامہ اسماعیل بن ابی خالد، قیس بن ابی حازم، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت کے قریب ہی تمہاری ایک ایسی قوم سے جنگ ہوگی جن کے جوتے بالوں کے ہوں گے ان کے چہرے ایسے ہوں گے گویا کہ وہ کو ٹی ہوئی ڈھال ہیں ان کے چہرے سرخ اور آنکھیں چھوٹی ہوں گی۔
قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ آدمی دوسرے آدمی کی قبر کے پاس سے گزر کر مصیبتوں کی وجہ سے تمنا کرے گا کہ وہ اس جگہ ہوتا۔
زہیر بن حرب، علی بن حجر زہیر اسماعیل بن ابراہیم، حریری حضرت ابونضرہ (رض) سے روایت ہے کہ حضرت جابر بن عبداللہ نے کہا عنقریب اہل عراق کی طرف (خراج) میں نہ کوئی قفیز آئے گا اور نہ ہی کوئی درہم ہم نے کہا وہ کہاں سے نہ آئے گا ؟ کہا، عجم کی طرف سے وہ اسے روک لیں گے پھر کہا عنقریب اہل شام کی طرف سے ان کی طرف نہ کوئی دینار آئے گا اور نہ ہی کوئی درہم، ہم نے کہا کہاں سے نہ آئے گا ؟ کہا روم کی طرف سے پھر وہ تھوڑی دیر کے لئے خاموش ہوگئے پھر کہا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میری امت کے آخر میں ایک خلیفہ ہوگا جو بغیر شمار کئے لپ بھر بھر کر لوگوں میں مال تقسیم کرے گا راوی کہتا ہے کہ میں نے نضرہ اور ابوالعلاء سے کہا کیا تم خیال کرتے ہو کہ وہ خلیفہ عمر بن عبدالعزیز ہیں تو ان دونوں نے کہا نہیں۔
قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ آدمی دوسرے آدمی کی قبر کے پاس سے گزر کر مصیبتوں کی وجہ سے تمنا کرے گا کہ وہ اس جگہ ہوتا۔
ابن مثنی عبدالوہاب سعید جریر، اس سند سے بھی یہ حدیث مبارکہ اسی طرح مروی ہے۔
قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ آدمی دوسرے آدمی کی قبر کے پاس سے گزر کر مصیبتوں کی وجہ سے تمنا کرے گا کہ وہ اس جگہ ہوتا۔
نصر بن علی بشر ابن مفضل علی بن حجر اسماعیل ابن علیہ، سعید بن یزید ابی نضرہ حضرت ابوسعید (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تمہارے خلفاء میں سے ایک خلیفہ ہوگا جو کہ بغیر شمار کئے لپ بھر بھر کر لوگوں میں مال تقسیم کرے گا۔
قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ آدمی دوسرے آدمی کی قبر کے پاس سے گزر کر مصیبتوں کی وجہ سے تمنا کرے گا کہ وہ اس جگہ ہوتا۔
زہیر بن حرب، عبدالصمد بن عبدالوارث ابی داود نضرہ (رض) ، حضرت ابوسعید (رض) اور حضرت جابر (رض) بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا آخر زمانہ میں ایک خلیفہ ہوں گے جو بغیر شمار کئے مال تقسیم کریں گے۔
قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ آدمی دوسرے آدمی کی قبر کے پاس سے گزر کر مصیبتوں کی وجہ سے تمنا کرے گا کہ وہ اس جگہ ہوتا۔
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابومعاویہ داؤد بن ابی ہند ابی نضرہ حضرت ابوسعید (رض) نے نبی ﷺ سے اسی طرح حدیث روایت کی ہے۔
قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ آدمی دوسرے آدمی کی قبر کے پاس سے گزر کر مصیبتوں کی وجہ سے تمنا کرے گا کہ وہ اس جگہ ہوتا۔
محمد بن مثنی، ابن بشار ابن مثنی محمد بن جعفر، شعبہ، ابی مسلمہ ابونضرہ (رض) حضرت ابوسعید (رض) سے روایت ہے کہ مجھے اس آدمی نے خبر دی جو مجھ سے بہتر افضل ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمار (رض) سے جب وہ خندق کھودنے میں لگے ہوئے تھے ان کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے فرمایا اے ابن سمیہ تجھ پر کیسی آفت آئے گی جب تجھے ایک باغی گروہ شہید کر دے گا۔
قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ آدمی دوسرے آدمی کی قبر کے پاس سے گزر کر مصیبتوں کی وجہ سے تمنا کرے گا کہ وہ اس جگہ ہوتا۔
محمد بن معاذ بن عباد عنبری مریم بن عبدالاعلی خالد بن حارث، اسحاق بن ابراہیم، اسحاق بن منصور محمود بن غیلان محمد بن قدامہ نضر بن شمیل شعبہ، ابی مسلمہ ان اسناد سے بھی یہ حدیث اسی طرح مروی ہے البتہ ایک سند میں ہے کہ مجھے مجھ سے بہتر آدمی ابوقتادہ نے خبر دی خالد بن حارث کی روایت میں ہے کہ میں اسے ابوقتادہ خیال کرتا ہوں اور خالد کی حدیث میں ہے آپ نے فرمایا ( وَيْسَ یا وَيْسَ ابْنِ سُمَيَّةَ )
قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ آدمی دوسرے آدمی کی قبر کے پاس سے گزر کر مصیبتوں کی وجہ سے تمنا کرے گا کہ وہ اس جگہ ہوتا۔
محمد بن عمرو بن جبلہ محمد بن جعفر، عقبہ بن مکرم ابوبکر بن نافع عقبہ ابوبکر غندر شعبہ، خالد حضرت ام سلمہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عمار سے فرمایا تجھے باغی جماعت قتل کرے گی۔
قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ آدمی دوسرے آدمی کی قبر کے پاس سے گزر کر مصیبتوں کی وجہ سے تمنا کرے گا کہ وہ اس جگہ ہوتا۔
ا سحق بن منصور عبد الصمد بن عبدالوارث شعبہ، خالد سعید بن ابی حسن حضرت ام سلمہ نے نبی کریم ﷺ سے اسی طرح حدیث روایت کی ہے۔
قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ آدمی دوسرے آدمی کی قبر کے پاس سے گزر کر مصیبتوں کی وجہ سے تمنا کرے گا کہ وہ اس جگہ ہوتا۔
ابوبکر بن ابی شیبہ اسماعیل بن ابراہیم، ابن عون حسن حضرت ام سلمہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عمار سے فرمایا تجھے باغی جماعت قتل کرے گی۔
قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ آدمی دوسرے آدمی کی قبر کے پاس سے گزر کر مصیبتوں کی وجہ سے تمنا کرے گا کہ وہ اس جگہ ہوتا۔
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابواسامہ شعیب ابوتیاح ابوزرعہ حضرت ابوہریرہ (رض) سے نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا میری امت کو قریش کا یہ قبیلہ ہلاک کرے گا صحابہ نے عرض کیا آپ ﷺ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں آپ نے فرمایا کاش لوگ ان سے جدا اور علیحدہ رہیں۔
قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ آدمی دوسرے آدمی کی قبر کے پاس سے گزر کر مصیبتوں کی وجہ سے تمنا کرے گا کہ وہ اس جگہ ہوتا۔
احمد بن ابراہیم، احمد بن عثمان نوفلی ابوداود شعبہ، اس سند سے بھی اس معنی کی حدیث روایت کی گئی ہے۔
قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ آدمی دوسرے آدمی کی قبر کے پاس سے گزر کر مصیبتوں کی وجہ سے تمنا کرے گا کہ وہ اس جگہ ہوتا۔
عمرو ناقد ابن ابی عمر ابن ابی عمر سفیان، زہری، سعید بن مسیب حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کسری مرگیا اور اس کسری کے بعد کوئی کسری نہ ہوگا اور جب قیصر ہلاک ہوجائے گا اور اس کے بعد کوئی قیصر نہ ہوگا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے تم ضرور بالضرور ان دونوں کے خزانوں کو اللہ کے راستہ میں خرچ کرو گے۔
قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ آدمی دوسرے آدمی کی قبر کے پاس سے گزر کر مصیبتوں کی وجہ سے تمنا کرے گا کہ وہ اس جگہ ہوتا۔
حرملہ بن یحییٰ ابن وہب، یونس ابن رافع عبد بن حمید عبدالرزاق، معمر، زہری، سفیان، اس سند سے بھی اس معنی کی حدیث روایت کی گئی ہے۔
قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ آدمی دوسرے آدمی کی قبر کے پاس سے گزر کر مصیبتوں کی وجہ سے تمنا کرے گا کہ وہ اس جگہ ہوتا۔
محمد بن رافع عبدالرزاق، معمر، ہمام بن منبہ، حضرت ابوہریرہ (رض) کی رسول اللہ ﷺ سے روایت کردہ احادیث میں سے ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کسری ہلاک ہوگیا اور اس کے بعد پھر کوئی کسری نہ ہوگا اور قیصر بھی ضرور ہلاک ہوجائے اور تم ضرور بالضرور ان دونوں کے خزانے اللہ کے راستہ میں تقسیم کرو گے۔
قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ آدمی دوسرے آدمی کی قبر کے پاس سے گزر کر مصیبتوں کی وجہ سے تمنا کرے گا کہ وہ اس جگہ ہوتا۔
قتیبہ بن سعید، جریر، عبد الملک بن عمیر حضرت جابر بن سمرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب کسری ہلاک ہوجائے گا تو اس کے بعد کوئی کسری نہ ہوگا باقی حدیث بالکل حضرت ابوہریرہ (رض) کی حدیث کی طرح ذکر کی۔
قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ آدمی دوسرے آدمی کی قبر کے پاس سے گزر کر مصیبتوں کی وجہ سے تمنا کرے گا کہ وہ اس جگہ ہوتا۔
قتیبہ بن سعید، ابوکامل جحدری ابوعوانہ، سماک بن حرب، حضرت جابر بن سمرہ (رض) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ کو فرماتے ہوئے سنا مسلمان یا مومنین کی ایک جماعت ضروربالضرور آل کسری کے اس خزانے کو فتح کرے گی جو قصر ابیض میں ہے اور قتبیہ نے بغیر شک کے مسلمانوں کی جماعت کہا ہے۔
قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ آدمی دوسرے آدمی کی قبر کے پاس سے گزر کر مصیبتوں کی وجہ سے تمنا کرے گا کہ وہ اس جگہ ہوتا۔
محمد بن مثنی، ابن بشار محمد بن جعفر، شعبہ، سماک بن حرب حضرت جابر بن سمرہ (رض) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا باقی ابوعوانہ کی حدیث کی طرح روایت کی۔
قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ آدمی دوسرے آدمی کی قبر کے پاس سے گزر کر مصیبتوں کی وجہ سے تمنا کرے گا کہ وہ اس جگہ ہوتا۔
قتیبہ بن سعید عبدالعزیز ابن محمد ثور ابن زید دیلی ابی غیث حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی نے فرمایا کیا تم نے ایک شہر کا سنا ہے جس کی ایک جانب خشکی میں اور دوسری طرف سمندر میں ہے صحابہ نے عرض کیا جی ہاں اے اللہ کے رسول آپ نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ بنو اسحاق میں سے ستر ہزار آدمی جنگ نہ کرلیں جب وہ وہاں آئیں گے تو اتریں گے وہ نہ ہتھیاروں سے جنگ کریں گے اور نہ تیر اندازی کریں گے وہ کہیں گے لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَکْبَرُ تو اس سے اس شہر کی ایک طرف گرجائے گی ثور نے کہا میں سمندر کی طرف کے علاوہ کوئی دوسری طرف نہیں جانتا پھر وہ دوسری مرتبہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَکْبَرُ کہیں گے تو ان کی لئے کشادگی کردی جائے گا اور وہ اس میں داخل ہوجائیں گے اور مال غنیمت لوٹ لیں گے پس اسی دوران کہ وہ مال غنیمت آپس میں تقسیم کر رہے ہوں گے کہ انہیں ایک چیخ سنائی دے گی جو کہہ رہا ہوگا کہ دجال نکل چکا ہے تو وہ ہر چیز چھوڑ کر لوٹ جائیں گے۔
قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ آدمی دوسرے آدمی کی قبر کے پاس سے گزر کر مصیبتوں کی وجہ سے تمنا کرے گا کہ وہ اس جگہ ہوتا۔
محمد بن مرزوق بشر بن عمر زہرانی سلیمان بن بلال ثور بن زید اس سند سے بھی یہ حدیث مبارکہ اسی طرح مروی ہے۔
قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ آدمی دوسرے آدمی کی قبر کے پاس سے گزر کر مصیبتوں کی وجہ سے تمنا کرے گا کہ وہ اس جگہ ہوتا۔
ابوبکر بن ابی شیبہ، محمد بن بشر عبیداللہ بن نافع حضرت ابن عمر (رض) نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا تم یہودیوں سے لڑو گے تو انہیں قتل کردو گے یہاں تک کہ پتھر بھی کہے گا اے مسلمان ادھر آ یہ یہودی ہے اسے قتل کر دے۔
قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ آدمی دوسرے آدمی کی قبر کے پاس سے گزر کر مصیبتوں کی وجہ سے تمنا کرے گا کہ وہ اس جگہ ہوتا۔
محمد بن مثنی عبیداللہ بن سعید یحییٰ عبیداللہ اس سند سے بھی یہ حدیث مروی ہے البتہ اس میں یہ ہے کہ وہ پتھر کہے گا یہ میرے پیچھے یہودی ہے۔
قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ آدمی دوسرے آدمی کی قبر کے پاس سے گزر کر مصیبتوں کی وجہ سے تمنا کرے گا کہ وہ اس جگہ ہوتا۔
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابواسامہ عمر بن حمزہ حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم اور یہودی باہم جنگ کرو گے یہاں تک کہ پتھر بھی کہے گا اے مسلمان یہ میرے پیچھے یہودی چھپا ہوا ہے ادھر آؤ اور اسے قتل کردو۔
قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ آدمی دوسرے آدمی کی قبر کے پاس سے گزر کر مصیبتوں کی وجہ سے تمنا کرے گا کہ وہ اس جگہ ہوتا۔
حرملہ بن یحییٰ ابن وہب، یونس ابن شہاب سالم ابن عبداللہ حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم یہود سے جنگ کرو گے پس تم ان پر غالب آجاؤ گے یہاں تک کہ پتھر بھی کہے گا کہ اے مسلمان میرے پیچھے یہود ہے اسے قتل کر دے۔
قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ آدمی دوسرے آدمی کی قبر کے پاس سے گزر کر مصیبتوں کی وجہ سے تمنا کرے گا کہ وہ اس جگہ ہوتا۔
قتیبہ بن سعید، یعقوب ابن عبدالرحمن سہیل حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ مسلمان یہودیوں سے جنگ کریں اور مسلمان انہیں قتل کردیں یہاں تک کہ یہودی پتھر یا درخت کے پیچھے چھپیں گے تو پتھر یا درخت کہے گا اے مسلمان اے عبداللہ یہ یہودی میرے پیچھے ہے آؤ اور اسے قتل کردو سوائے درخت غرقد کے کیونکہ وہ یہود کے درختوں میں سے ہے۔
قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ آدمی دوسرے آدمی کی قبر کے پاس سے گزر کر مصیبتوں کی وجہ سے تمنا کرے گا کہ وہ اس جگہ ہوتا۔
یحییٰ بن یحیی، ابوبکر بن ابی شیبہ، یحییٰ ابوبکر ابوالاحوص، ابوکامل جحدری ابوعوانہ، سماک حضرت جابر بن سمرہ (رض) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا قیامت سے پہلے کئی کذاب ہوں گے اور ابوالاحوص نے یہ اضافہ کیا ہے کہ میں نے ان سے کہا کیا تو نے رسول اللہ ﷺ سے یہ بات سنی ہے ؟ انہوں نے کہا جی ہاں
قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ آدمی دوسرے آدمی کی قبر کے پاس سے گزر کر مصیبتوں کی وجہ سے تمنا کرے گا کہ وہ اس جگہ ہوتا۔
ابن مثنی ابن بشار محمد بن جعفر، شعبہ، سماک اس سند سے بھی یہ حدیث اسی طرح مروی ہے البتہ اس میں ہے کہ حضرت جابر (رض) نے کہا ان سے بچو۔
قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ آدمی دوسرے آدمی کی قبر کے پاس سے گزر کر مصیبتوں کی وجہ سے تمنا کرے گا کہ وہ اس جگہ ہوتا۔
زہیر بن حرب، اسحاق بن منصور اسحاق زہیر عبدالرحمن ابن مہدی مالک ابوزناد اعرج حضرت ابوہریرہ (رض) نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا تیس کے قریب دجالوں اور کذابوں کو بھیجے جانے تک قیامت قائم نہ ہوگی وہ سب دعوی کریں گے کہ وہ اللہ کے رسول ہیں۔
قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ آدمی دوسرے آدمی کی قبر کے پاس سے گزر کر مصیبتوں کی وجہ سے تمنا کرے گا کہ وہ اس جگہ ہوتا۔
محمد بن رافع عبدالرزاق، معمر، ہمام بن منبہ، اس سند سے بھی حضرت ابوہریرہ (رض) سے نبی ﷺ کی وہی حدیث روایت کی گئی ہے اس میں يَنْبَعِثَ کا لفظ ہے۔
ابن صیاد کے تذکرے کے بیان میں
عثمان بن ابی شیبہ اسحاق بن ابراہیم، عثمان اسحاق عثمان جریر، اعمش، ابو وائل حضرت عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ چند بچوں کے پاس سے گزرے ان میں ابن صیاد بھی تھا پس بچے بھاگ گئے اور ابن صیاد بیٹھا رہا تو گویا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس بات کو پسند نہ کیا تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں اس نے کہا نہیں بلکہ کیا آپ ﷺ گواہی دیں گے کہ میں اللہ کا رسول ہوں عمر بن خطاب نے عرض کیا اے اللہ کے رسول مجھے اجازت دیں کہ میں اسے قتل کر دوں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر یہ وہی ہو جس کے بارے میں تمہارا گمان ہے تو تم اسے قتل کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔
ابن صیاد کے تذکرے کے بیان میں
محمد بن عبداللہ بن نمیر، اسحاق بن ابراہیم، ابی کریب ابن نمیر، ابومعاویہ اعمش، شقیق حضرت عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ ہم نبی ﷺ کے ہمراہ پیدل چل رہے تھے کہ آپ ﷺ ابن صیاد کے پاس سے گزرے تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا میں نے تیرے لئے ایک بات چھپائی ہوئی ہے ؟ بتا وہ کیا ہے ؟ اس نے کہا دخ ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دور ہوجا اور تو اپنے اندازے سے تجاوز نہیں کرسکتا حضرت عمر (رض) نے عرض کیا اے اللہ کے رسول مجھے اجازت دیں تاکہ میں اس کی گردن مار دوں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اسے چھوڑ دو پس اگر یہ وہی ہے جس کا تمہیں خدشہ ہے تو تم اس کو قتل کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔
ابن صیاد کے تذکرے کے بیان میں
محمد بن مثنی، سالم بن نوح جریر، ابی نضرہ حضرت ابوسعید (رض) سے روایت ہے کہ مدینہ کے راستوں میں سے کسی راستہ میں ابن صیاد سے رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر وعمر (رض) کی ملاقات ہوگئی تو رسول اللہ ﷺ نے اسے فرمایا کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں اس نے کہا کیا آپ ﷺ گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں ایمان لایا اللہ پر اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر۔ تو نے کیا دیکھا اس نے کہا میں نے پانی پر تخت دیکھا اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تو نے سمندر پر ابلیس کا تخت دیکھا ہے اور کیا دیکھا اس نے کہا میں نے دو سچوں اور ایک جھوٹے یا دو جھوٹوں اور ایک سچے کو دیکھا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس پر اس کا معاملہ مشتبہ ہوگیا ہے اس لئے اسے چھوڑ دو ۔
ابن صیاد کے تذکرے کے بیان میں
یحییٰ بن حبیب، محمد بن عبدالاعلی معتمر ابونضرہ (رض) ، حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ابن صائد سے ملے اور آپ ﷺ کے ساتھ ابوبکر وعمر (رض) بھی تھے اور ابن صائد کے ساتھ لڑکے تھے باقی حدیث جریری کی حدیث ہی کی طرح ہے۔
ابن صیاد کے تذکرے کے بیان میں
عبیداللہ بن عمر قواریری محمد بن مثنی، عبدالاعلی داؤد ابی نضرہ حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ میں مکہ میں ابن صائد کے ساتھ رہا تو اس نے مجھے کہا میں جن لوگوں سے ملا ہوں وہ گمان کرتے ہیں کہ میں دجال ہوں کیا تو نے رسول اللہ ﷺ سے نہیں سنا آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ دجال کی کوئی اولاد نہ ہوگی میں نے کہا کیوں نہیں اس نے کہا حالانکہ میری تو اولاد ہے پھر اس نے کہا کیا تو نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے نہیں سنا کہ وہ مکہ اور مدینہ میں داخل نہیں ہوسکے گا میں نے کہا کیوں نہیں اس نے کہا میں تو مدینہ میں پیدا ہوچکا ہوں اور یہ کہ میں اب مکہ کا ارادہ کرتا ہوں پھر اس نے اپنی آخری بات میں مجھے کہا اللہ کی قسم میں دجال کے پیدا ہونے اور اس کے رہنے اور اس کے رہنے کی جگہ کو اور اس وقت وہ کہاں ہے جانتا ہوں اس اخیری کلام نے معاملہ کو مجھ پر مشتبہ کردیا۔
ابن صیاد کے تذکرے کے بیان میں
یحییٰ بن حبیب، محمد بن عبد الاعلی معتمر ابی نضرہ (رض) حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ ابن صائد نے مجھ سے بات کہی جس سے مجھے شرم آئی کہنے لگا کہ لوگوں کو تو میں نے معذور جانا اور تمہیں میرے بارے میں اصحاب محمد کیا ہوگیا ؟ کیا اللہ کے نبی ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ دجال یہودی ہوگا حالانکہ میں اسلام لا چکا ہوں اور کہنے لگا کہ اور اس کی اولاد نہ ہوگی حالانکہ میری تو اولاد بھی ہے اور آپ ﷺ نے فرمایا اللہ نے اس پر مکہ کو حرام کردیا ہے میں تحقیق حج کرچکا ہوں اور وہ مسلسل ایسی باتیں کرتا رہا قریب تھا کہ میں اس کی باتوں میں آجاتا اس نے کہا اللہ کی قسم میں جانتا ہوں کہ اس بلکہ وقت (دَجَّال) کہاں ہے اور میں اس کے باپ اور والدہ کو بھی جانتا ہوں اور اس سے کہا گیا کیا تجھے یہ بات پسند ہے کہ تو ہی وہ آدمی (دَجَّال) ہو اس نے کہا اگر یہ بات مجھ پر پیش کی گئی تو میں اسے ناپسند نہ کروں گا۔
ابن صیاد کے تذکرے کے بیان میں
محمد بن مثنی، سالم بن نوح جریر، ابی نضرہ حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ ہم حج یا عمرہ کرنے کی غرض سے چلے اور ابن صائد ہمارے ساتھ تھا ہم ایک جگہ اترے تو لوگ منتشر ہوگئے میں اور وہ باقی رہ گئے اور مجھے اس سے سخت وحشت و خوف آیا جو اس کے بارے میں کہا جاتا تھا اور اس نے اپنا سامان لا کر میرے سامان کے ساتھ رکھ دیا تو میں نے کہا گرمی سخت ہے اگر تو اپنا سامان درخت کے نیچے رکھ دے ( تو بہتر ہے) پس اس نے ایسا ہی کیا پھر ہمیں کچھ بکریاں نظر پڑیں وہ گیا اور ایک (دودھ کا) بھرا ہوا پیالہ لے آیا اور کہنے لگا اے ابوسعید پیو میں نے کہا گرمی بہت سخت ہے اور دودھ بھی گرم ہے اور دودھ کے ناپسند کرنے کے سوائے اس کے ہاتھ سے بچنے کی اور کوئی بات نہ تھی یا کہا اس کے ہاتھ سے لینا ہی ناپسند تھا تو اس نے کہا اے ابوسعید میں نے ارادہ کیا ہے کہ ایک رسی لے کر درخت کے ساتھ لٹکاؤں پھر اپنا گلا گھونٹ لوں اس وجہ سے جو میرے بارے میں لوگ باتیں کرتے ہیں اے ابوسعید جن سے رسول اللہ ﷺ کی حدیث مخفی ہے (ان کی تو الگ بات ہے) اے انصار کی جماعت ! تجھ پر تو پوشیدہ نہیں ہے کیا تو لوگوں میں سب سے زیادہ رسول اللہ کی حدیث کو جاننے والا نہیں حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دجال کافر ہوگا اور میں مسلمان ہوں کیا رسول اللہ ﷺ نے نہیں فرمایا وہ بانجھ ہوگا کہ اس کی کوئی اولاد نہ ہوگی حالانکہ میں اپنی اولاد مدینہ میں چھوڑ کر آیا ہوں کیا رسول اللہ ﷺ نے نہیں فرمایا تھا کہ وہ مدینہ اور مکہ میں داخل نہ ہوگا حالانکہ میں مدینہ سے آرہا ہوں اور مکہ کا ارادہ ہے حضرت ابوسعید خدری نے کہا قریب تھا کہ میں اس کے عذر قبول کرلیتا پھر اس نے کہا اللہ کی قسم میں اسے پہچانتا ہوں اور اس کی جائے پیدائش سے بھی واقف ہوں اور یہ بھی معلوم ہے کہ وہ اس وقت کہاں ہے میں نے اس سے کہا تیرے لئے سارے دن کی ہلاکت و بربادی ہو۔
ابن صیاد کے تذکرے کے بیان میں
نصر بن علی بشر ابن مفضل ابی مسلمہ ابی نضرہ (رض) حضرت ابوسعید (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ابن صائد سے فرمایا جنت کی مٹی کیسی ہوگی اس نے کہا اے ابوالقاسم سفید باریک مشک کی طرح ہوگی آپ ﷺ نے فرمایا تو نے سچ کہا۔
ابن صیاد کے تذکرے کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابواسامہ جریر، ابی نضرہ (رض) حضرت ابوسعید (رض) سے روایت ہے کہ ابن صیاد نے نبی سے جنت کی مٹی کے بارے میں سوال کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا خالص سفید باریک مشک۔
ابن صیاد کے تذکرے کے بیان میں
عبیداللہ بن معاذ ابی شعبہ، سعد بن ابراہیم، حضرت محمد بن منکدر سے روایت ہے کہ میں نے حضرت جابر بن عبداللہ (رض) کو قسم کھا کر کہتے ہوئے دیکھا کہ ابن صائد دجال ہے تو میں نے کہا کیا تم اللہ کی قسم اٹھاتے ہو انہوں نے کہا میں نے عمر کو سنا وہ اس بات پر نبی ﷺ کے پاس قسم اٹھا رہے تھے اور نبی ﷺ نے انکار نہ فرمایا۔
ابن صیاد کے تذکرے کے بیان میں
حرملہ بن یحییٰ بن عبداللہ بن حرملہ بن عمران ابن وہب، یونس ابن شہاب سالم بن عبداللہ حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ایک جماعت میں ابن صیاد کی طرف نکلے یہاں تک کہ اسے بنی مغالہ کے مکانوں کے پاس بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے پایا اور ابن صیاد ان دنوں قریب البلوغ تھا اور اسے کچھ معلوم نہ ہوسکا یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہاتھ سے اس کی کمر پر ضرب ماری پھر رسول اللہ ﷺ نے ابن صیاد سے فرمایا کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں ابن صیاد نے آپ ﷺ کی طرف دیکھ کر کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ ﷺ امیوں کے رسول ہیں پھر ابن صیاد نے رسول اللہ ﷺ سے کہا کیا آپ ﷺ گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں تو رسول اللہ ﷺ نے اسے چھوڑ دیا اور فرمایا میں ایمان لایا اللہ پر اس کے رسولوں پر پھر رسول ﷺ نے اس سے فرمایا تو کیا دیکھتا ہے ابن صیاد نے کہا میرے پاس سچا بھی آتا ہے اور جھوٹا بھی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تجھ پر اصل معاملہ تو پھر مشتبہ ہوگیا پھر رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا میں نے تجھ سے پوچھنے کے لئے ایک بات چھپائی ہوئی ہے تو ابن صیاد نے کہا وہ دخ ہے رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا دور ہو تو اپنے اندازہ سے آگے نہیں بڑھ سکتا پھر عمر بن خطاب (رض) نے عرض کیا مجھے اجازت دیں اے اللہ کے رسول میں اس کی گردن مار دوں رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا اگر یہ وہی ہے تو تم اس پر مسلط نہ ہو سکو گے اور اگر یہ وہ نہیں ہے تو اس کے قتل کرنے میں تمہارے لئے کوئی بھلائی نہیں ہے۔
ابن صیاد کے تذکرے کے بیان میں
سالم بن عبداللہ ابن عمر (رض) حضرت سالم بن عبداللہ سے روایت ہے کہ میں نے ابن عمر (رض) کو فرماتے ہوئے سنا کہ اس واقعہ کے بعد رسول اللہ اور حضرت ابی بن کعب انصاری (رض) اس باغ کی طرف چلے جس میں ابن صیاد تھا یہاں تک کہ جب رسول اللہ اس باغ میں داخل ہوئے تو کھجوروں کے تنوں میں چھپنے لگے تاکہ ابن صیاد کے دیکھنے سے پہلے اس کی کچھ گفتگو سن سکیں پس رسول اللہ ﷺ نے اسے دیکھا کہ وہ اپنی ایک چادر میں لپٹا لیٹا ہوا ہے اور کچھ گنگنا رہا ہے پس ابن صیاد کی والدہ نے رسول اللہ کو کھجور کے تنوں کی آڑ میں چھپتے ہوئے دیکھ لیا تو اس نے ابن صیاد سے کہا اے صاف اور یہ ابن صیاد کا نام تھا یہ محمد ہیں تو ابن صیاد فورا اٹھ کھڑا ہوا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر وہ اسے چھوڑ دیتی تو وہ کچھ بیان کردیتا۔
ابن صیاد کے تذکرے کے بیان میں
سالم بن عبداللہ حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ لوگوں کے درمیان کھڑے ہوئے اور اللہ کی تعریف اس کی شان کے مطابق بیان کی پھر دجال کا ذکر کیا تو فرمایا میں تمہیں اس سے ڈراتا ہوں اور ہر نبی (علیہم السلام) نے اپنی قوم کو اس سے ڈرایا ہے تحقیق نوح بھی اپنی قوم کو اس سے ڈرا چکے ہیں لیکن میں تمہیں ایسی بات بتاتا ہوں جو کسی نبی ﷺ نے اپنی قوم کو نہیں بتائی جان رکھو کہ وہ (دجال) بیشک کانا ہوگا اور اللہ تبارک وتعالی کانا نہیں ہے ابن شہاب نے کہا مجھے عمر بن ثابت انصاری نے خبر دی کہ اسے رسول اللہ ﷺ کے بعض صحابہ نے خبر دی کہ آپ نے دجال سے ڈراتے ہوئے اس دن فرمایا اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان کافر لکھا ہوا ہوگا جسے وہی پڑھ سکے گا جو اس کے عمل کو ناپسند کرتا ہوگا یا ہر مومن اسے پڑھ سکے گا اور آپ نے فرمایا تم میں سے کوئی بھی اپنے رب العزت کو مرنے تک ہرگز نہ دیکھ سکے گا۔
ابن صیاد کے تذکرے کے بیان میں
حسن بن علی حلوانی بن حمید یعقوب بن ابراہیم، سعد ابوصالح ابن شہاب سالم بن عبداللہ حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ چلے اور آپ کے ساتھ آپ کے صحابہ کی ایک جماعت تھی جن میں عمر بن خطاب (رض) بھی تھے یہاں تک کہ ابن صیاد بچے کو پایا جو کہ بلوغت کے قریب تھا اور بچوں کے ساتھ بنو معاویہ کے مکانوں کے پاس کھیل رہا تھا باقی حدیث گزر چکی ہے اس میں یہ ہے کہ آپ نے فرمایا کاش اس کی والدہ اسے چھوڑ دیتی تو اس کا سارا معاملہ واضح ہوجاتا۔
ابن صیاد کے تذکرے کے بیان میں
عبد بن حمید سلمہ بن شبیب عبدالرزاق، معمر، زہری سالم حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ اپنے صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ جن میں حضرت عمر بن خطاب (رض) بھی تھے ابن صیاد کے پاس سے گزرے تو وہ بنی مغالہ کے مکانوں کے پاس بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا اور وہ بھی لڑکا تھا حضرت ابن عمر (رض) کی اس حدیث میں یہ مذکور نہیں ہے کہ نبی ﷺ ابی بن کعب کے ساتھ کھجوروں کے باغ کی طرف تشریف لے گئے۔
ابن صیاد کے تذکرے کے بیان میں
عبد بن حمید روح بن عبادہ، ہشام ایوب حضرت نافع (رض) سے روایت ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) کی ابن صیاد سے مدینہ کے کسی راستہ میں ملاقات ہوگئی تو ابن عمر نے اس سے ایسی بات کہی جو اسے غصۃ دلانے والی تھی پس وہ اتنا پھولا کہ راستہ بھر گیا پھر ابن عمر (رض) ام المومنین سیدہ حفصہ کے پاس حاضر ہوئے اور انہیں یہ خبر مل چکی تھی تو انہوں نے ابن عمر (رض) سے کہا اللہ آپ پر رحم فرمائے تو نے ابن صائد کے بارے میں کیا ارادہ کیا تھا کیا تو نہیں جانتا تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ دجال کسی پر غصہ کرنے کی وجہ سے ہی نکلے گا۔
ابن صیاد کے تذکرے کے بیان میں
محمد بن مثنی حسین ابن حسن بن یسار ابن عون حضرت نافع (رض) سے روایت ہے کہ ابن عمر نے کہا میں نے ابن صیاد سے دو مرتبہ ملاقات کی میں اس سے ملا تو میں نے بعض لوگوں سے کہا کیا تم بیان کرتے ہو کہ وہ وہی (دجال) ہے انہوں نے کہا اللہ کی قسم نہیں میں نے کہا تم نے مجھے جھوٹا کردیا اللہ کی قسم تم میں سے بعض نے مجھے خبر دی کہ وہ ہرگز نہیں مرے گا یہاں تک کہ تم میں سے زیادہ مالدار اور صاحب اولاد ہوجائے گا پس وہ ان دنوں لوگوں کے گمان میں ایسا ہی ہے پھر ابن صیاد ہم سے باتیں کر کے جدا ہوگیا پھر میں اس سے دوسری مرتبہ ملا تو اس کی آنکھ پھول چکی تھی تو میں نے اس سے کہا میں تیری آنکھ جو اس طرح دیکھ رہا ہوں یہ کب سے ہوئی ہے اس نے کہا میں نہیں جانتا میں نے کہا تو جانتا ہی نہیں حالانکہ یہ تو تیرے سر میں موجود ہے اس نے کہا اگر اللہ نے چاہا تو وہ تیری لاٹھی میں اسے پیدا کر دے گا پھر اس نے گدھے کی طرح زور سے آواز نکالی اس سے زیادہ سخت آواز میں نے نہیں سنی تھی اور میرے بعض ساتھیوں نے اندازہ لگایا کہ میں نے اسے اپنے پاس موجود لاٹھی سے مارا ہے یہاں تک کہ وہ ٹوٹ گئی ہے حالانکہ اللہ کی قسم مجھے اس کا علم تک نہ تھا یہاں تک کہ ام المومنین کے پاس حاضر ہوئے تو انہیں یہ واقعہ بیان کیا انہوں نے کہا تیرا اس سے کیا کام تھا کیا تو جانتا نہ تھا کہ آپ ﷺ نے فرمایا لوگوں کے پاس دجال کو بھیجنے والی سب سے پہلے وہ غصہ ہوگا جو اسے کسی پر آئے گا۔
مسیح دجال کے ذکر کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابواسامہ، محمد بن بشر عبیداللہ نافع حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کے سامنے دجال کا ذکر کیا تو ارشاد فرمایا بیشک اللہ تعالیٰ کانا نہیں ہے اور مسیح دجال آنکھ سے کانا ہوگا گویا کہ اس کی آنکھ پھولے ہوئے انگور کی طرح ہوگی۔
مسیح دجال کے ذکر کے بیان میں
ابوربیع ابوکامل حماد ابن زید ایوب محمد بن عباد حاتم ابن اسماعیل موسیٰ بن عقبہ نافع ان اسناد سے بھی یہ حدیث اسی طرح مروی ہے۔
مسیح دجال کے ذکر کے بیان میں
محمد بن مثنی، محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، قتادہ، حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہر نبی نے اپنی اپنی امت کو کانے دجال سے ڈرایا ہے آگاہ رہو بیشک وہ کانا ہوگا اور بیشک تمہارا پروردگار کانا نہیں ہے اس کی آنکھوں کے درمیان ک، ف، ر، لکھا ہوا ہوگا۔
مسیح دجال کے ذکر کے بیان میں
ابن مثنی ابن بشار ابن مثنی معاذ بن ہشام ابوقتادہ، حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا دجال کی دونوں آنکھوں کے درمیان کفر یعنی کافر لکھا ہوا ہوگا۔
مسیح دجال کے ذکر کے بیان میں
زہیر بن حرب عفان عبدالوارث شعیب بن حبحاب حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا دجال کی ایک آنکھ اندھی ہے اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان کافر لکھا ہے پھر اس کے ہجے کئے یعنی ک، ف، ر اور ہر مسلمان اسے پڑھ لے گا۔
مسیح دجال کے ذکر کے بیان میں
محمد بن عبداللہ بن نمیر، محمد بن علاء، اسحاق بن ابراہم اسحاق ابومعاویہ اعمش، شقیق حضرت حذیفہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا دجال کی بائیں آنکھ کانی ہوگی گھنے بالوں والا ہوگا اور اس کے ساتھ جنت اور دوزخ ہوگی اور (در حقیقت) اس کی دوزخ جنت اور اس کی جنت جہنم ہے۔
مسیح دجال کے ذکر کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، یزید بن ہارون ابی مالک اشجعی ربعی بن حراش حضرت حذیفہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں خوب جانتا ہوں کہ دجال کے ساتھ کیا ہوگا اس کے ساتھ بہتی ہوئی نہریں ہوں گی ان میں سے ایک کا پانی دیکھنے میں سفید ہوگا اور دوسری دیکھنے میں بھڑکتی ہوئی آگ ہوگی پس اگر کوئی آدمی اس کو پالے تو اس نہر میں جائے جسے بھڑکتی ہوئی آگ تصور کرے اور آنکھ بند کر کے اپنے سر کو جھکائے پھر اس سے پئے بیشک وہ ٹھنڈا پانی ہوگا اور بیشک دجال بالکل بند آنکھ والا ہوگا اس پر ایک موٹی پھلی ہوگی اس کی آنکھوں کے درمیان کافر لکھا ہوا ہوگا اور ہر لکھنے والا اور جاہل مومن اسے پڑھے گا۔
مسیح دجال کے ذکر کے بیان میں
عیبد اللہ بن معاذ ابی شعبہ، محمد بن مثنی، محمد بن جعفر، شعبہ، عبدالملک بن عمیر ربعی حراش حضرت حذیفہ (رض) نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے دجال کے بارے میں فرمایا کہ اس کے ساتھ پانی اور آگ ہوگی پس اس کی آگ ٹھنڈا پانی ہوگا اور اس کی پانی آگ ہوگی پس تم ہلاک نہ ہونا۔
مسیح دجال کے ذکر کے بیان میں
حضرت ابومسعود (رض) سے روایت ہے کہ میں نے بھی یہ حدیث رسول اللہ ﷺ سے سنی۔
مسیح دجال کے ذکر کے بیان میں
علی بن حجر شعیب بن صفوان عبدالملک بن عمیر ربعی حراش عقبہ بن عمرو ابی مسعود انصاری (رض) حضرت ربعی بن حراش (رض) سے روایت ہے کہ میں عقبہ بن عمرو بن ابی مسعود انصاری (رض) کے ساتھ حذیفہ بن یمان کی طرف چلا تو عقبہ نے ان سے کہا مجھ سے وہ حدیث روایت کریں جو آپ ﷺ نے دجال کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے سنی کہا بیشک دجال نکلے گا تو اس کے ساتھ پانی اور آگ ہوگی پس لوگ جسے آگ تصور کریں گے وہ ٹھنڈا میٹھا پانی ہوگا پس تم میں سے جو اسے پالے تو اسی میں کود جائے جسے آگ تصور کرے کیونکہ وہ ٹھنڈا میٹھا اور پاکیزہ پانی ہوگا تو عقبہ نے حذیفہ کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ میں نے بھی آپ ﷺ سے اسی طرح سنا۔
مسیح دجال کے ذکر کے بیان میں
علی بن حجر اسحاق ابن حجر جریر، مغیرہ، نعیم، ابی ہند، ربعی بن حراش سے روایت ہے کہ حضرت حذیفہ اور ابومسعود (رض) اکٹھے ہوگئے تو حذیفہ نے کہا میں ان سے زیادہ جانتا ہوں کہ دجال کے ساتھ کیا ہوگا ؟ بیشک اس کے ساتھ ایک نہر پانی کی اور ایک نہر آگ کی ہوگی پس جسے تم آگ تصور کرو گے وہ پانی ہوگا اور جسے تم پانی تصور کرو گے وہ آگ ہوگی پس تم میں سے جو اسے پالے اور پانی کا ارادہ کرے تو چاہے کہ وہ اسی سے پیے جسے آگ تصور کرے کیونکہ وہ اسے پانی ہی پائے گا ابومسعود نے کہا کہ میں نے بھی رسول اللہ ﷺ سے اسی طرح فرماتے ہوئے سنا۔
مسیح دجال کے ذکر کے بیان میں
محمد بن رافع حسین بن محمد شیبان یحییٰ ابوسلمہ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا میں تمہیں دجال کے بارے میں ایسی خبر نہ دوں جو کسی نبی ﷺ نے اپنی قوم کو نہیں دی بیشک وہ کانا ہوگا اور وہ جنت اور دوزخ کی مثل لے کر آئے گا پس جسے وہ جنت کہے گا وہ جہنم ہوگا اور میں تمہیں اس سے اسی طرح ڈراتا ہوں جیسا کہ نوح نے اس سے اپنی قوم کو ڈرایا۔
مسیح دجال کے ذکر کے بیان میں
ابوخیثمہ زہیر بن حرب، ولید بن مسلم، عبدالرحمن بن یزید بن جابر، یحییٰ بن جا رب طائی (رض) حضرت نو اس (رض) بن سمعان سے روایت ہے کہ ایک صبح رسول اللہ ﷺ نے دجال کا ذکر کیا تو آپ ﷺ نے نے کبھی تحقیر کی (یعنی گھٹایا) اور کبھی بڑا کر کے بیان فرمایا یہاں تک کہ ہم نے گمان کیا کہ وہ کھجوروں کے ایک جھنڈ میں ہے پس جب ہم شام کو آپ ﷺ کے پاس حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے ہم سے اس بارے میں معلوم کرلیا تو فرمایا تمہارا کیا حال ہے ؟ ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول آپ ﷺ نے صبح دجال کا ذکر کیا اور اس میں آپ ﷺ نے کبھی تحقیر کی اور کبھی اس فتنہ کو بڑا کر کے بیان کیا یہاں تک کہ ہم نے گمان کیا کہ وہ کھجوروں کے ایک جھنڈ میں ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا میں تمہارے بارے میں دجال کے علاوہ دوسرے فتنوں کا زیادہ خوف کرتا ہوں اگر وہ میری موجودگی میں ظاہر ہوگیا تو تمہارے بجائے میں اس کا مقابلہ کروں گا اور اگر میری غیر موجودگی میں ظاہر ہوا تو ہر شخص خود اس سے مقابلہ کرنے والا ہوگا اور اللہ ہر مسلمان پر میرا خلیفہ اور نگہبان ہوگا بیشک دجال نوجوان گھنگریالے بالوں والا اور پھولی ہوئی آنکھ والا ہوگا گویا کہ میں اسے عبدالعزی بن قطن کے ساتھ تشبیہ دیتا ہوں پس تم میں سے جو کوئی اسے پالے تو چاہئے کہ اس پر سورت کہف کی ابتدائی آیات کی تلاوت کرے بیشک اس کا خروج شام اور عراق کے درمیان سے ہوگا پھر وہ اپنے دائیں اور بائیں جانب فساد برپا کرے گا اے اللہ کے بندو ثابت قدم رہنا ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول وہ زمین میں کتنا عرصہ رہے گا آپ ﷺ نے فرمایا چالیس دن اور ایک دن سال کے برابر اور ایک دن مہینہ کے برابر اور ایک دن ہفتہ کے برابر ہوگا اور باقی ایام تمہارے عام دنوں کے برابر ہوں گے ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول وہ دن جو سال کے برابر ہوگا کیا اس میں ہمارے لئے ایک دن کی نمازیں پڑھنا کافی ہوں گیں آپ ﷺ نے فرمایا نہیں بلکہ تم ایک سال کی نمازوں کا اندازہ کرلینا ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول اس کی زمین میں چلنے کی تیزی کیا ہوگی آپ نے فرمایا اس بادل کی طرح جسے پیچھے سے ہوا دھکیل رہی ہو پس وہ ایک قوم کے پاس آئے گا اور انہیں دعوت دے گا تو وہ اس پر ایمان لے آئیں گے اور اس کی دعوت قبول کرلیں گے پھر وہ آسمان کو حکم دے گا تو وہ بارش برسائے گا اور زمین سبزہ اگائے گی اور اسے چرنے والے جانور شام کے وقت آئیں گے تو ان کے کوہان پہلے سے لمبے تھن بڑے اور کوکھیں تنی ہوئی ہوں گی پھر وہ ایک اور قوم کے پاس جائے گا اور انہیں دعوت دے گا وہ اس کے قول کو رد کردیں گے تو وہ اس سے واپس لوٹ آئے گا پس وہ قحط زدہ ہوجائیں گے کہ ان کے پاس دن کے مالوں میں سے کچھ بھی نہ رہے گا اور اسے کہے گا کہ اپنے خزانے کو نکال دے تو زمین کے خزانے اس کے پاس آئیں گے۔ جیسے شہد کی مکھیاں اپنے سرداروں کے پاس آتی ہیں، پھر وہ ایک کڑیل اور کامل الشباب آدمی کو بلائے گا اور اسے تلوار مار کر اس کے دو ٹکڑے کردے گا اور دونوں ٹکڑوں کو علیحدہ علیحدہ کر کے ایک تیر کی مسافت پر رکھ دے گا، پھر وہ اس (مردہ) کو آواز دے گا تو وہ زندہ ہو کر چمکتے ہوئے چہرے کے ساتھ ہنستا ہوا آئے گا۔ دجال کے اسی افعال کے دوران اللہ تعالیٰ عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کو بھیجے گا، وہ دمشق کے مشرق میں سفید منارے کے پاس زرد رنگ کے حلے پہنے ہوئے دو فرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے اتریں گے جب وہ اپنے سر کو جھکائیں گے تو اس سے قطرے گریں گے اور جب اپنے سر کو اٹھائیں گے تو اس سے سفید موتیوں کی طرح قطرے ٹپکیں گے اور جو کافر بھی ان کی خوشبو سونگھے گا وہ مرے بغیر رہ نہ سکے گا اور ان کی خوشبو وہاں تک پہنچے گی جہاں تک ان کی نظر جائے گی۔ پس حضرت مسیح (علیہ السلام) (دجال کو) طلب کریں گے، اسے باب لد پر پائیں گے تو اسے قتل کردیں گے، پھر عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کے پاس وہ قوم آئے گی جسے اللہ نے دجال سے محفوظ رکھا تھا، پس عیسیٰ (علیہ السلام) ان کے چہروں کو صاف کریں گے اور انہیں جنت میں ملنے والے ان کے درجات بتائیں گے۔ پس اسی دوران حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر اللہ رب العزت وحی نازل فرمائٰں گے کہ تحقیق میں نے اپنے ایسے بندوں کو نکالا ہے کہ کسی کو ان کے ساتھ لڑنے کی طاقت نہیں۔ پس آپ میرے بندوں کو حفاظت کے لئے طور کی طرف لے جائیں اور اللہ تعالیٰ یاجوج ماجوج کو بھیجے گا اور وہ ہر اونچائی سے نکل پڑیں گے، ان کی اگلی جماعتیں بحیرہ طبری پر سے گزریں گی اور اس کا سارا پانی پی جائٰیں گے اور ان کی آخری جماعتیں گزریں گی تو کہیں گی کہ اس جگہ کسی وقت پانی موجود تھا اور اللہ کے نبی عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھ محصور ہوجائیں گے، یہاں تک کہ ان میں کسی ایک کے لئے بیل کی سری بھی تم میں سے کسی ایک کے لئے آج کل کے سو دینار سے افضل و بہتر ہوگی۔ پھر اللہ کے نبی عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھی اللہ سے دعا کریں گے تو اللہ تعالیٰ یاجوج ماجوج کی گردنوں میں ایک کیڑا پیدا کرے گا، وہ ایک جان کی موت کی طرح سب کے سب یک لخت مرجائیں گے، پھر اللہ کے نبی عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھی زمین کی طرف اتریں گے تو زمین میں ایک بالشت کی جگہ بھی یاجوج ماجوج کی علامات اور بدبو سے انہیں خالی نہ ملے گی۔ پھر اللہ کے نبی عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھی دعا کریں گے تو اللہ تعالیٰ بختی اونٹوں کی گردنوں کے برابر پرندے بھیجیں گے جو انہیں اٹھا کرلے جائیں گے اور جہاں اللہ چاہے وہ انہیں پھینک دیں گے پھر اللہ تعالیٰ بارش بھیجے گا جس سے ہر مکان خواہ وہ مٹی کا ہو یا بالوں کا آئینہ کی طرح صاف ہوجائے گا اور زمین مثل باغ یا حوض کے دھل جائے گی۔ پھر زمین سے کہا جائے گا : اپنے پھل کو اگا دے اور اپنی برکت کو لوٹا دے، پس ان دنوں ایسی برکت ہوگی کہ ایک انار کو ایک پوری جماعت کھائے گی اور اس کے چھلکے میں سایہ حاصل کرے گی اور دودھ میں اتنی برکت دے دی جائے گی کہ ایک دودھ دینے والی گائے قبیلہ کے لوگوں کے لئے کافی ہوجائے گی اور ایک دودھ دینے والی اونٹنی ایک بڑی جماعت کے لئے کافی ہوگی اور ایک دودھ دینے والی بکری پوری گھرانے کے لئے کفایت کرجائے گی، اسی دوران اللہ تعالیٰ ایک پاکیزہ ہوا بھیجے گا جو لوگوں کی بغلوں کے نیچے تک پہنچ جائے گی، پھر ہر مسلمان اور ہر مومن کی روح قبض کرلی جائے گی اور بد لوگ ہی باقی رہ جائیں گے، جو گدھوں کی طرح کھلے بندوں جماع کریں گے، پس انہیں پر قیامت قائم ہوگی۔
مسیح دجال کے ذکر کے بیان میں
علی بن حجر سعدی عبداللہ بن عبدالرحمن بن یزید بن جابر، ولید بن مسلم، ابن حجر حضرت جابر (رض) سے بھی یہ حدیث اس سند سے مروی ہے اس میں اس جملہ کے بعد کہ اس جگہ کسی موقعہ پر پانی تھا یہ اضافہ ہے کہ پھر وہ حمر کے پہاڑ کے پاس پہنچیں گے اور وہ بیت المقدس کا پہاڑ ہے تو وہ کہیں گے تحقیق ہم نے زمین والے سب کو قتل کردیا آؤ ہم آسمان والوں کو بھی قتل کریں پھر وہ آسمان کی طرف تیر پھینکیں گے پس اللہ تعالیٰ ان پر ان کے تیروں کو خون آلود کر کے لوٹائے گا اور ابن حجر کی روایت میں ہے کہ میں نے اپنے بندوں کو نازل کیا ہے جنہیں قتل کرنے پر کسی کو قدرت حاصل نہیں ہے۔
دجال کے وصف اور اس مدینہ کی حرمت اور اس کا مومن کو قتل اور زندہ کرنے کے بیان میں
عمرو ناقد حسن حلوانی عبد بن حمید عبد یعقوب ابن ابراہیم بن سعد ابوصالح ابن شہاب عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دن ہم سے دجال کے متعلق ایک لمبی حدیث بیان کی اسی حدیث کے درمیان ہمیں آپ ﷺ نے بتایا کہ وہ آئے گا لیکن مدینہ کی گھاٹیوں میں داخل ہونا اس پر حرام ہوگا وہ مدینہ کے قریب بعض بنجر زمینوں تک پہنچے گا پس ایک دن اس کی طرف ایک ایسا آدمی نکلے گا جو لوگوں میں سے سب سے افضل یا افضل لوگوں میں سے ہوگا وہ بزرگ اس سے کہے گا میں گواہی دیتا ہوں کہ تو وہی دجال ہے جس کے بارے میں ہمیں رسول اللہ ﷺ نے حدیث بیان کی تھی تو دجال کہے گا اگر میں اس آدمی کو قتل کر دوں اور پھر اسے زندہ کروں تو تمہاری کیا رائے ہے پھر بھی تم میرے معاملہ میں شک کرو گے وہ کہیں گے نہیں تو وہ اسے قتل کرے گا پھر اسے زندہ کرے گا تو وہ آدمی کہے گا جب اسے زندہ کیا جائے گا اللہ کی قسم مجھے تیرے بارے میں اب جتنی بصیرت ہے اتنی پہلے نہ تھی پھر دجال اسے دوبارہ قتل کرنے کا ارادہ کرے گا لیکن اس پر قادر نہ ہوگا ابواسحاق نے کہا، کہا جاتا ہے کہ وہ آدمی حضرت خضر (علیہ السلام) ہوں گے۔
دجال کے وصف اور اس مدینہ کی حرمت اور اس کا مومن کو قتل اور زندہ کرنے کے بیان میں
عبداللہ بن عبدالرحمن دارمی، ابویمان شعیب زہری (رض) اس سند سے بھی یہ حدیث مبارکہ اسی طرح مروی ہے۔
دجال کے وصف اور اس مدینہ کی حرمت اور اس کا مومن کو قتل اور زندہ کرنے کے بیان میں
محمد بن عبداللہ بن قہزاد عبداللہ بن عثمان ابی حمزہ قیس بن وہب ابی وداک حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دجال نکلے گا تو مومنین میں ایک آدمی کی طرف متوجہ ہوگا تو اس سے دجال کے پہرہ دار ملیں گے وہ اس سے کہیں گے کہاں کا ارادہ ہے وہ کہے گا میں اس کی طرف کا ارادہ رکھتا ہوں جس کا خروج ہوا ہے وہ اس سے کہیں گے کیا تم ہمارے رب پر ایمان نہیں لاتے وہ کہے گا ہمارے رب میں تو کوئی پوشیدگی نہیں ہے تو وہ کہیں گے اسے قتل کردو پھر وہ ایک دوسرے سے کہیں گے کیا تم کو تمہارے رب نے منع نہیں کیا کہ تم اس کے علاوہ کسی کو قتل نہ کرنا پس وہ اس کو دجال کی طرف لے جائیں گے جب مومن اسے دیکھے گا تو کہے گا اے لوگو یہ دجال ہے جس کا رسول اللہ ﷺ نے ذکر کیا پھر دجال اس کا سر پھاڑ نے کا حکم دے گا تو کہے گا اسے پکڑ لو اور اس کا سر پھاڑ ڈالو پھر اس کی کمر اور پیٹ پر سخت ضرب لگوائے گا پھر دجال اس سے کہے گا کیا تو مجھ پر ایمان نہیں لاتا تو وہ کہے گا تو مسیح الکذاب ہے پھر دجال اسے آرے کے ساتھ چیرنے کا حکم دے گا اور اس کی مانگ سے شروع کر کے اس کے دونوں پاؤں تک کو آرے سے چیر کر جدا کردیا جائے گا پھر دجال اس کے جسم کے دونوں ٹکڑوں کے درمیان چلے گا پھر کہے گا کھڑا ہوجا تو وہ سیدھا ہو کر کھڑا ہوجائے گا پھر اس سے کہے گا کیا تو مجھ پر ایمان نہیں لاتا تو وہ کہے گا مجھے تیرے بارے میں پہلے سے زیادہ بصیرت عطا ہوگئی ہے پھر وہ کہے گا اے لوگو یہ دجال میرے بعد کسی بھی اور آدمی سے ایسا نہ کرسکے گا پھر دجال اسے ذبح کرنے کے لئے پکڑے گا اس کی گردن اور ہنسلی کے درمیان کی جگہ تانبے کی ہوجائے گی اور اسے ذبح کرنے کا کوئی راستہ نہ ملے گا پھر وہ اس کے ہاتھ اور پاؤں پکڑ کر پھینک دے گا تو وہ لوگ گمان کریں گے کہ اس نے اسے آگ کی طرف پھنکا ہے حالانکہ اسے جنت میں ڈال دیا جائے گا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ آدمی رب العالمین کے ہاں سب سے بڑی شہادت کا حامل ہوگا۔
دجال کا اللہ کے نزدیک حقیر ہونے کے بیان میں
شہاب بن عباد عبدی ابراہیم بن حمید رواسی اسماعیل بن ابی خالد قیس بن ابی حازم حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) سے رایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے مجھ سے زیادہ کسی نے بھی دجال کے متعلق سوال نہیں کئے آپ ﷺ نے فرمایا تم اس بارے میں کیوں زیادہ فکر مند ہو وہ تجھے کوئی ضرر نہ پہنچا سکے گا میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول لوگ کہتے ہیں کہ اس کے ساتھ کھانا اور نہریں ہوں گی آپ ﷺ نے فرمایا وہ اللہ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ حقیر ہوگا۔
دجال کا اللہ کے نزدیک حقیر ہونے کے بیان میں
سریج بن یونس ہشیم اسماعیل قیس حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) سے روایت ہے کہ کسی نے بھی نبی ﷺ سے دجال کے متعلق مجھ سے زیادہ نہیں پوچھا راوی نے کہا تم نے کیا پوچھا تھا میں نے کہا لوگ کہتے ہیں کہ اس کے ساتھ روٹی اور گوشت کے پہاڑ ہوں گے اور پانی کی نہر ہوگی آپ ﷺ نے فرمایا وہ اللہ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ حقیر ہوگا۔
دجال کا اللہ کے نزدیک حقیر ہونے کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابن نمیر وکیع، اسحاق بن ابراہیم، جریر، ابن ابی عمر سفیان، ابوبکر بن ابی شیبہ، یزید بن ہارون، محمد بن رافع ابواسامہ اسماعیل ابراہیم بن حمید ان اسناد سے بھی یہ حدیث اسی طرح مروی ہے البتہ یزید کی سند میں یہ اضافہ ہے کہ آپ ﷺ نے مجھے فرمایا اے میرے بیٹے۔
خروج دجال اور اس کا زمین میں ٹھہرنے اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے نزول اور اسے قتل کرنے اہل ایمان اور نیک لوگوں کے اٹھ جانے اور برے کے باقی رہ جانے اور بتوں کی پوجا کرنے اور صور میں پھونکے جانے اور قبروں سے اٹھائے جانے کے بیان میں
عبیداللہ بن معاذ شعبہ، نعمان بن سالم حضرت یعقوب بن عاصم بن عروہ بن مسعود ثقفی (رض) سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمرو سے سنا اور ان کے پاس ایک آدمی نے آکر عرض کیا یہ حدیث کیسے ہے جسے آپ روایت کرتے ہیں کہ قیامت اس اس طرح قائم ہوگی انہوں نے کہا سُبْحَانَ اللَّهِ یا لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ یا اسی طرح کا کوئی اور کلمہ کہا کہ میں نے پختہ ارادہ کرلیا تھا کہ میں کسی سے بھی کبھی کوئی حدیث روایت نہ کروں گا میں نے تو یہ کہا تھا : عنقریب تھوڑی ہی مدت کے بعد ایک بہت بڑا حادثہ دیکھو گے جو گھر کو جلادے گا اور جو ہونا ہے وہ ضرور ہوگا پھر کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دجال میری امت میں خروج کرے گا اور ان میں چالیس دن ٹھہرے گا اور میں نہیں جانتا کہ چالیس دن یا چالیس مہینے یا چالیس سال پھر اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ بن مریم کو بھیجے گا گویا کہ وہ عروہ بن مسعود (رض) ہیں (یعنی ان کے مشابہ ہوں گے) تو وہ تلاش کر کے دجال کو قتل کردیں گے پھر لوگ سات سال اسی طرح گزاریں گے کہ کسی بھی دو اشخاص کے درمیان کوئی عداوت نہ ہوگی پھر اللہ تعالیٰ شام کی طرف سے ایک ٹھنڈی ہوا بھیجے گا جس سے زمین پر کوئی بھی ایسا آدمی باقی نہیں رہے گا کہ اس کی روح قبض کرلی جائے گی جس کے دل میں ایک ذرہ کے برابر بھی بھلائی یا ایمان ہوگا یہاں تک کہ اگر ان میں سے کوئی پہاڑ کے اندر داخل ہوگیا تو وہ اس میں اس تک پہنچ کر اسے قبض کر کے ہی چھوڑے گی اسے میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا پھر برے لوگ ہی باقی رہ جائیں گے جو چڑیوں کی طرح جلد باز اور بےعقل درندہ صفت ہوں گے وہ کسی نیکی کو نہ پہچانیں گے اور نہ برائی کو برائی تصور کریں گے ان کے پاس شیطان کسی بھیس میں آئے گا تو وہ کہے گا کیا تم میری بات نہیں مانتے تو وہ کہیں گے کہ تو ہمیں کیا حکم دیتا ہے تو شیطان انہیں بتوں کی پوجا کرنے کا حکم دے گا اور وہ اسی بت پرستی میں ڈوبے ہوئے ہوں گے ان کا رزق اچھا ہوگا اور ان کی زندگی عیش و عشرت کی ہوگی پھر صور پھونکا جائے گا جو بھی اس کی آواز سنے گا وہ اپنی گردن کو ایک مرتبہ ایک طرف جھکائے گا اور دوسری طرف سے اٹھا لے گا اور جو شخص سب سے پہلے صور کی آواز سنے گا وہ اپنے اونٹوں کا حوض درست کر رہا ہوگا وہ بےہوش ہوجائے گا اور دوسرے لوگ بھی بےہوش ہوجائیں گے پھر اللہ بھیجے گا یا اللہ شبنم کی طرح بارش نازل کرے گا جس سے لوگوں کے جسم اگ پڑیں گے پھر صور میں دوسری دفعہ پھونکا جائے گا تو لوگ کھڑے ہوجائیں گے اور دیکھتے ہوں گے پھر کہا جائے گا اے لوگو اپنے رب کی طرف آؤ اور ان کو کھڑا کرو ان سے سوال کیا جائے گا پھر کہا جائے گا دوزخ کے لئے ایک جماعت نکالو تو کہا جائے گا کتنے لوگوں کی جماعت کہا جائے گا ہر ہزار سے نو سو ننانوے آپ ﷺ نے فرمایا یہ وہ دن ہے جو بچوں کو بوڑھا کر دے گا اور اس دن پنڈلی کھول دی جائے گی۔
خروج دجال اور اس کا زمین میں ٹھہرنے اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے نزول اور اسے قتل کرنے اہل ایمان اور نیک لوگوں کے اٹھ جانے اور برے کے باقی رہ جانے اور بتوں کی پوجا کرنے اور صور میں پھونکے جانے اور قبروں سے اٹھائے جانے کے بیان میں
محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، نعمان بن سالم حضرت یعقوب بن عاصم بن عروہ بن مسعود سے روایت ہے کہ میں نے ایک آدمی کو عبداللہ بن عمرو سے کہتے ہوئے سنا کہ آپ کہتے ہیں کہ قیامت فلاں فلاں علامات پر قائم ہوگی تو انہوں نے کہا میں نے پختہ ارادہ کرلیا ہے کہ میں تم سے کوئی بھی حدیث روایت نہ کروں گا میں نے تو صرف یہی کہا تھا کہ تم تھوڑی ہی مدت کے بعد ایک بہت بڑا حادثہ دیکھو گے گویا کہ گھر جل گیا حضرت شعبہ نے اسی طرح یا اس کی مثل روایت کی عبداللہ بن عمرو نے کہا رسول اللہ فرمایا دجال میری امت میں نکلے گا باقی حدیث گزر چکی ہے اس میں یہ ہے کہ جس کے دل میں ایک ذرہ کے برابر بھی ایمان ہوگا اس کی روح قبض کر کے ہی چھوڑے گی محمد بن جعفر نے کہا شعبہ نے یہ حدیث مجھے بار بار بیان کی اور میں نے بھی ان کے سامنے یہ حدیث پیش کی۔
خروج دجال اور اس کا زمین میں ٹھہرنے اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے نزول اور اسے قتل کرنے اہل ایمان اور نیک لوگوں کے اٹھ جانے اور برے کے باقی رہ جانے اور بتوں کی پوجا کرنے اور صور میں پھونکے جانے اور قبروں سے اٹھائے جانے کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، محمد بن بشر ابی حبان ابی زرعہ حضررت عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے ایک حدیث یاد کی جسے میں رسول اللہ ﷺ سے سننے کے بعد بھولا نہیں ہوں آپ ﷺ فرماتے تھے قیامت کی ابتدائی علا مت میں سے سورج کا مغرب سے طلوع ہونا اور چاشت کے وقت لوگوں کے سامنے دابہ الارض کا نکلنا ہے ان دونوں میں سے کسی کا بھی دوسرے سے پہلے ظہور ہوگا تو اس کے قریب ہی زمانہ میں دوسری علامت ظاہر ہوجائیں گی۔
خروج دجال اور اس کا زمین میں ٹھہرنے اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے نزول اور اسے قتل کرنے اہل ایمان اور نیک لوگوں کے اٹھ جانے اور برے کے باقی رہ جانے اور بتوں کی پوجا کرنے اور صور میں پھونکے جانے اور قبروں سے اٹھائے جانے کے بیان میں
محمد بن عبداللہ بن نمیر، ابوحیان حضرت ابوزرعہ سے روایت ہے کہ مروان بن حکم کے پاس مدینہ میں مسلمانوں میں سے تین آدمی بیٹھے ہوئے تھے پس انہوں نے مروان سے سنا اور وہ علامات قیامت کے بارے میں روایات بیان کر رہا تھا بیشک ان میں سب سے پہلی علامت خروج دجال ہے عبداللہ بن عمرو نے کہا مروان نے کچھ بھی نہیں کہا میں نے رسول اللہ ﷺ سے حدیث یاد کی جسے رسول اللہ ﷺ سے سننے کے بعد بھولا نہیں ہوں آپ ﷺ فرماتے تھے باقی حدیث مذکور حدیث ہی کی طرح ہے۔
خروج دجال اور اس کا زمین میں ٹھہرنے اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے نزول اور اسے قتل کرنے اہل ایمان اور نیک لوگوں کے اٹھ جانے اور برے کے باقی رہ جانے اور بتوں کی پوجا کرنے اور صور میں پھونکے جانے اور قبروں سے اٹھائے جانے کے بیان میں
نصر بن علی ابواحمد سفیان، ابوحیان حضرت ابوزرعہ (رض) سے روایت ہے کہ مروان کے پاس لوگوں نے قیامت کا تذکرہ کیا تو عبداللہ بن عمرو (رض) نے کہا میں نے رسول اللہ ﷺ کو اسی طرح فرماتے ہوئے سنا لیکن اس میں چاشت کے وقت کا ذکر نہیں باقی حدیث اسی طرح ہے۔
جساسہ کے قصہ کے بیان میں
عبدالوارث ابن عبدالصمد بن عبدالوارث حجاج بن شاعر، عبدالوارث بن عبدالصمد ابی جدی حسین بن ذکوان بن بریدہ، حضرت عامر بن شراحیل شعبی سے روایت ہے کہ اس فاطمہ بنت قیس، ضحاک بن قیس کی بہن سے پوچھا کہ مجھے ایسی حدیث روایت کی جو آپ نے رسول اللہ ﷺ سے خود سنی ہو اور اس میں کسی اور کا واسطہ بیان نہ کرنا حضرت فاطمہ نے کہا اگر تم چاہتے ہو تو میں ایسی حدیث روایت کرتی ہوں انہوں نے حضرت فاطمہ سے کہا ہاں ایسی حدیث مجھے بیان کرو تو انہوں نے کہا میں نے ابن مغیرہ سے نکاح کیا اور وہ ان دنوں قریش کے عمدہ نوجوان میں سے تھے اور وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جہاد میں شہید ہوگئے پس جب میں بیوہ ہوگئی تو حضرت عبدالرحمن بن عوف نے اصحاب رسول ﷺ کی ایک جماعت میں مجھے پیغام نکاح دیا اور رسول اللہ ﷺ نے مجھے اپنے آزاد کردہ غلام اسامہ بن زید کے لئے پیغام نکاح دیا اور میں یہ حدیث سن چکی تھی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو مجھ سے محبت کرتا ہے اسے چاہئے کہ وہ اسامہ سے محبت کرے پس رسول اللہ ﷺ نے جب مجھ سے (اس معاملہ میں) گفتگو کی تو میں نے عرض کیا میرا معاملہ آپ ﷺ کے سپرد ہے آپ ﷺ جس سے چاہیں میرا نکاح کردیں آپ نے فرمایا ام شریک کے ہاں منتقل ہوجا اور ام شریک انصار میں سے غنی عورت تھیں اور اللہ کے راستہ میں بہت خرچ کرنے والی تھیں اس کے ہاں مہمان آتے رہتے تھے تو میں نے عرض کیا میں عنقریب ایسا کروں گی تو آپ ﷺ نے فرمایا تو ایسا نہ کر کیونکہ ام شریک ایسی عورت ہیں جن کے پاس مہمان کثرت سے آتے رہتے ہیں میں اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ تجھ سے تیرا دو ٹپہ گرجائے یا تیری پنڈلی سے کپڑا ہٹ جائے اور لوگ تیرا وہ بعض حصہ دیکھ لیں جسے تو ناپسند کرتی ہو بلکہ تو اپنے چچا زاد عبداللہ بن عمرو بن ام مکتوم کے ہاں منتقل ہوجا اور وہ قریش کے خاندان بن فہر سے تعلق رکھتے ہیں (اور وہ اسی خاندان سے تھے جس سے فاطمہ بنت قیس تھیں) میں ان کے پاس منتقل ہوگئی جب میری عدت پوری ہوگئی تو میں نے رسول اللہ ﷺ کی طرف سے نداء دینے والے کی آواز سنی جو کہہ رہا تھا نماز کی جاعت ہونے والی ہے پس میں مسجد کی طرف نکلی اور میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز ادا کی اس حال میں کہ میں عورتوں کی اس صف میں تھی جو مردوں کی پشتوں سے ملی ہوئی تھی جب رسول اللہ ﷺ نے اپنی نماز پوری کرلی تو مسکراتے ہوئے منبر پر تشریف فرما ہوئے تو فرمایا ہر آدمی اپنی نماز کی جگہ پر ہی بیٹھا رہے پھر فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ میں نے تمہیں کیوں جمع کیا ہے صحابہ نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا اللہ کی قسم میں نے تمہیں کسی بات کی ترغیب یا اللہ سے ڈرانے کے لئے جمع نہیں کیا میں نے تمہیں صرف اس لئے جمع کیا ہے کہ تمیم داری نصرانی آدمی تھے پس وہ آئے اور اسلام پر بیعت کی اور مسلمان ہوگئے اور مجھے ایک بات بتائی جو اس خبر کے موافق ہے جو میں تمہیں دجال کے بارے میں پہلے ہی بتاچکا ہوں چناچہ انہوں نے مجھے خبر دی کہ وہ بنو لخم اور بنو جذام کے تیس آدمیوں کے ساتھ ایک بحری کشتی میں سوار ہوئے پس انہیں ایک ماہ تک بحری موجیں دھکیلتی رہیں پھر وہ سمندر میں ایک جزیرہ کی طرف پہچنے یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا تو وہ چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں بیٹھ کر جزیرہ کے اندر داخل ہوئے تو انہیں وہاں ایک جانور ملا جو موٹے اور گھنے بالوں والا تھا بالوں کی کثرت کی وجہ سے اس کا اگلا اور پچھلا حصہ وہ نہ پہچان سکے تو انہوں نے کہا تیرے لئے ہلاکت ہو تو کون ہے اس نے کہا اے قوم اس آدمی کی طرف گرجے میں چلو کیونکہ وہ تمہاری خبر کے بارے میں بہت شوق رکھتا ہے پس جب اس نے ہمارا نام لیا تو ہم گھبرا گئے کہ وہ کہیں جن ہی نہ ہو پس ہم جلدی جلدی چلے یہاں تک کہ گرجے میں داخل ہوگئے وہاں ایک بہت بڑا انسان تھا کہ اس سے پہلے ہم نے اتنا بڑا آدمی اتنی سختی کے ساتھ بندھا ہوا کہیں نہ دیکھا تھا اس کے دونوں ہاتھوں کو گردن کے ساتھ باندھا ہوا تھا اور گھٹنوں سے ٹخنوں تک لوہے کی زنجیروں سے جکڑا ہوا تھا ہم نے کہا تیرے لئے ہلاکت ہو تو کون ہے اس نے کہا تم میری خبر معلوم کرنے پر قادر ہو ہی گئے ہو تو تم ہی بتاؤ کہ تم کون ہو ؟ انہوں نے کہا ہم عرب کے لوگ ہیں ہم دریائی جہاز میں سوار ہوئے پس جب ہم سوار ہوئے تو سمندر کو جوش میں پایا پس موجیں ایک مہینہ تک ہم سے کھیلتی رہیں پھر ہمیں تمہارے اس جزیرہ تک پہنچا دیا پس ہم چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں سوار ہوئے اور جزیرہ کے اندر داخل ہوگئے تو ہمیں بہت موٹے اور گھنے بالوں والا جانور ملا جس کے بالوں کی کثرت کی وجہ سے اس کا اگلا اور پچھلا حصہ پہچانا نہ جاتا تھا ہم نے کہا تیرے لئے ہلاکت ہو تو کون ہے اس نے کہا میں جساسہ ہوں ہم نے کہا جساسہ کیا ہوتا ہے اس نے کہا گرجے میں اس آدمی کا قصد کرو کیونکہ وہ تمہاری خبر کا بہت شوق رکھتا ہے پس ہم تیری طرف جلدی سے چلے اور ہم گھبرائے اور اس (جانور) سے پر امن نہ تھے کہ وہ جن ہو اس نے کہا مجھے بیسان کے باغ کے بارے میں خبر دو ہم نے کہا اس کی کس چیز کے بارے میں تم خبر معلوم کرنا چاہتے ہو اس نے کہا میں اس کی کھجوروں کے پھل کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہوں ہم نے اس سے کہا ہاں پھل آتا ہے اس نے کہا عنقریب یہ زمانہ آنے والا ہے کہ وہ درخت پھل نہ دیں گے اس نے کہا مجھے بحیرہ طبریہ کے بارے میں خبر دو ہم نے کہا اس کی کس چیز کے بارے میں تم خبر معلوم کرنا چاہتے ہو اس نے کہا کیا اس میں پانی ہے ہم نے کہا اس میں پانی کثرت کے ساتھ موجود ہے اس نے کہا عنقریب اس کا سارا پانی ختم ہوجائے گا اس نے کہا مجھے زغر کے چشمہ کے بارے میں بتاؤ ہم نے کہا اس کی کس چیز کے بارے میں تم معلوم کرنا چاہتے ہو اس نے کہا کیا اس چشمہ میں وہاں کے لوگ اس کے پانی سے کھیتی باڑی کرتے ہیں ہم نے کہا ہاں یہ کثیر پانی والا ہے اور وہاں کے لوگ اس کے پانی سے کھیتی باڑی کرتے ہیں پھر اس نے کہا مجھے امیوں کے نبی کے بارے میں خبر دو کہ اس نے کیا کیا ہم نے کہا وہ مکہ سے نکلے اور یثرب یعنی مدینہ میں اترے ہیں اس نے کہا کیا راستے میں عروہ (رض) نے جنگ کی ہے ہم نے کہا ہاں اس نے کہا اس نے اہل عرب کے ساتھ کیا سلوک کیا ہم نے اسے خبر دی کہ وہ اپنے ملحقہ حدود کے عرب پر غالب آگئے ہیں اور انہوں نے اس کی اطاعت کی ہے اس نے کہا کیا ایسا ہوچکا ہے ہم نے کہا ہاں اس نے کہا ان کے حق میں یہ بات بہتر ہے کہ وہ اس کے تابعدار ہوجائیں اور میں تمہیں اپنے بارے میں خبر دیتا ہوں کہ میں مسیح دجال ہوں عنقریب مجھے نکلنے کی اجازت دے دی جائے گی پس میں نکلوں گا اور میں زمین میں چکر لگاؤں گا اور چالیس راتوں میں ہر ہر بستی پر اتروں گا مکہ اور مدینہ طبیہ کے علاوہ کیونکہ ان دونوں پر داخل ہونا میرے لئے حرام کردیا جائے گا اور اس میں داخل ہونے سے مجھے روکا جائے گا اور اس کی ہر گھاٹی پر فرشتے پہرہ دار ہوں گے حضرت فاطمہ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی انگلی کو منبر پر چبھویا اور فرمایا یہ طبیہ ہے یہ طبیہ ہے یہ طیبہ ہے یعنی مدینہ ہے کیا میں نے تمہیں یہ باتیں پہلے ہی بیان نہ کردیں تھیں لوگوں نے عرض کیا جی ہاں، فرمایا بیشک مجھے تمیم کی اس خبر سے خوشی ہوئی ہے کہ وہ اس حدیث کے موافق ہے جو میں نے تمہیں دجال اور مدینہ اور مکہ کے بارے میں بیان کی تھی آگاہ رہو دجال شام یا یمن کے سمندر میں ہے، نہیں بلکہ مشرق کی طرف ہے وہ مشرق کی طرف ہے وہ مشرق کی طرف ہے اور آپ نے اپنے ہاتھ سے مشرق کی طرف اشارہ کیا پس میں نے یہ حدیث رسول اللہ ﷺ سے یاد کرلی۔
جساسہ کے قصہ کے بیان میں
یحییٰ بن حبیب حارثی، خالد بن حارث، ابوعثمان سیاد ابوحکم، حضرت شعبی (رض) سے روایت ہے کہ ہم فاطمہ بنت قیس (رض) کے پاس حاضر ہوئے تو انہوں نے ہمیں تازہ کھجوروں کا تحفہ دیا اور انہیں ابن طاب کی کھجوریں کہا جاتا تھا اور مجھے جو کا ستو پلایا تو میں نے ان سے مطلقہ کے بارے میں سوال کیا کہ وہ اپنی عدت کہاں گزارے ؟ انہوں نے کہا میرے خاوند نے مجھے تین طلاقیں دے دیں تو رسول اللہ ﷺ نے مجھے اپنے اہل میں عدت گزارنے کی اجازت دی پھر لوگوں میں ندا دی گئی کہ نماز کی جماعت کھڑی ہونے والی ہے تو میں بھی دوسرے لوگوں کے ساتھ اگلی صف میں تھی اور وہ مردوں کی آخری صف کے ساتھ تھی اور میں نے نبی ﷺ سے سنا اور آپ ﷺ منبر پر خطبہ دے رہے تھے تو آپ ﷺ نے فرمایا تمیم داری کے چچا زاد سمندر میں سوار ہوئے باقی حدیث گزر چکی ہے اس میں اضافہ یہ ہے کہ حضرت فاطمہ نے کہا گویا کہ میں نبی ﷺ کی طرف دیکھ رہی ہوں کہ آپ ﷺ اپنی انگلی کو زمین کی طرف جھکا کر فرما رہے ہیں کہ یہ طیبہ یعنی مدینہ منورہ ہے۔
جساسہ کے قصہ کے بیان میں
حسن بن علی حلوانی احمد بن عثمان نوفلی وہب بن جریر، غیلان بن جریر ثقفی حضرت فاطمہ بنت قیس (رض) سے روایت ہے کہ حضرت تمیم داری رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور رسول اللہ ﷺ کو خبر دی کہ وہ سمندر میں سوار ہوئے اور ان کی کشتی راستہ سے ہٹ گئی تو اس نے انہیں ایک جزیرہ میں گرایا یہ اس جزیرے میں پانی تلاش کرنے کے لئے نکلے اور وہاں ایک انسان سے ملاقات ہوئی جو اپنے بال کھینچ رہا تھا باقی حدیث گزر چکی اس میں یہ ہے کہ اس نے کہا اگر مجھے نکلنے کی اجازت دیدی گئی تو میں مدینہ طیبہ کے علاوہ تمام شہروں کو روند ڈالوں گا پھر رسول اللہ حضرت تمیم داری کو لوگوں کی طرف لے گئے اور انہوں نے لوگوں کے سامنے یہ سارا واقعہ بیان کیا آپ نے فرمایا یہ طیبہ ہے اور وہ دجال ہے۔
جساسہ کے قصہ کے بیان میں
ابوبکر بن اسحاق یحییٰ بن بکیر مغیرہ حزامی ابوزناد شعبی، حضرت فاطمہ بنت قیس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ منبر پر تشریف فرما ہوئے اور فرمایا اے لوگو تمیم داری نے مجھے یہ بات بیان کی ہے کہ اس کی قوم میں سے کچھ لوگ سمندر میں اپنی کشتی میں تھے کہ وہ ٹوٹ گئی تو ان میں بعض لوگ کشتی کے تختوں میں سے ایک تختہ پر سوار ہوگئے اور وہ سمندر میں ایک جزیرہ کی طرف نکلے باقی حدیث گزر چکی۔
جساسہ کے قصہ کے بیان میں
علی بن حجر سعد ولید بن مسلم، ابن عمر اوزاعی اسحاق ابن عبداللہ بن ابی طلحہ، حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مکہ اور مدینہ کے علاوہ ہر شہر کو دجال روند ڈالے گا اور مکہ مدینہ کے ہر راستے پر فرشتے پہرہ دینے کے لئے صف باندھے کھڑے ہوئے ہوں گے پھر وہ دلدلی زمین میں اترے گا اور مدینہ تین مرتبہ لرزے گا اور مدینہ سے ہر کافر منافق نکل کر دجال کی طرف چلا جائے گا۔
جساسہ کے قصہ کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، یونس بن محمد حماد بن سلمہ اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا پھر اسی طرح حدیث روایت کی اس میں یہ بھی ہے کہ پھر وہ اپنا خیمہ جرف کی شور والی زمین میں لگائے گا اور فرمایا ہر منافق مرد اور منافق عورت نکل کر دجال کی طرف چلا جائے گا
دجال کے متعلق بقیہ احادیث کے بیان میں
منصور بن ابی مزاحم یحییٰ بن حمزہ اوزاعی اسود بن عبداللہ، حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا أَصْبَهَانَ کے ستر ہزار یہودی دجال کے پیروکار ہوجائیں گے جن پر سبنر رنگ کی چادریں ہوں گی۔
دجال کے متعلق بقیہ احادیث کے بیان میں
ہارون بن عبداللہ حجاج بن محمد ابن جریج، ابوزبیر (رض) جابر بن عبداللہ، حضرت ام شریک سے روایت ہے کہ اس نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ لوگ دجال سے پہاڑوں کی طرف بھاگیں گے ام شریک نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ان دنوں عرب کہاں ہوں گے آپ نے فرمایا وہ بہت کم ہوں گے۔
دجال کے متعلق بقیہ احادیث کے بیان میں
محمد بن بشار، بد بن حمید ابوعاصم، ابن جریج، اس سند سے بھی یہ حدیث مروی ہے۔
دجال کے متعلق بقیہ احادیث کے بیان میں
زہیر بن حرب، احمد بن اسحاق عبدالعزیز ابن مختار ایوب حمید بن ہلال حضرت ابوالدہماء اور ابوقتادہ اور ایک جماعت سے روایت ہے ہم ہشام بن عامر کے پاس سے گزر کر عمران بن حصین کے پاس جاتے تھے تو ایک دن (ہشام نے) کہا تم مجھے چھوڑ کر ایسے لوگوں کی طرف جاتے ہو جو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں مجھ سے زیادہ حاضر رہنے والے نہیں ہیں اور نہ ہی آپ ﷺ کی احادیث کو مجھ سے زیادہ جاننے والا ہے میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ حضرت آدم کی پیدائش سے لے کر قیامت تک پیدا ہونے والی کوئی بھی مخلوق دجال سے (جسامت میں) بڑی نہیں ہے۔
دجال کے متعلق بقیہ احادیث کے بیان میں
محمد بن حاتم، عبداللہ بن جعفر عبیداللہ بن عمر ایوب حمید بن ہلال تین آدمیوں جن میں حضرت ابوقتادہ بھی ہیں سے روایت ہے کہ ہم ہشام بن عامر کے پاس سے گزر کر عمران بن حصین کے پاس جاتے تھے باقی حدیث عبدالعزیز بن مختار کی حدیث کی طرح ہے اس میں ہے کہ دجال سے بڑا کوئی فتنہ نہیں ہے۔
دجال کے متعلق بقیہ احادیث کے بیان میں
یحییٰ بن ایوب، قتیبہ بن سعید، ابن حجر اسعیل ابن جعفر، علاء، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا چھ باتوں سے پہلے پہلے اعمال کرنے میں جلدی کرو سورج کے مغرب سے طلوع ہونے، دھوئیں، دجال، دابہ، تم میں سے کسی خاص کی موت یا سب کی موت یعنی قیامت سے پہلے۔
دجال کے متعلق بقیہ احادیث کے بیان میں
امیہ بن بسطام عیشی، یزید بن زریع شعبہ، قتادہ، حسن زیاد بن رباح، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ چھ چیزوں کے ظاہر ہونے سے پہلے اعمال کی سبقت کرو دجال، دھواں، دابۃ الارض، سورج کا مغرب سے طلوع ہونا اور عام موت یعنی قیامت اور حاض کسی ایک کی موت۔
دجال کے متعلق بقیہ احادیث کے بیان میں
زہیر بن حرب، محمد بن مثنی، عبدالصمد بن عبدالوارث ہمام قتادہ (رض) اس سند سے بھی یہ حدیث مبارکہ اسی طرح مروی ہے۔
فتنہ وفساد میں عبادت کرنے کی فضلیت کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، حماد بن زید معلی بن زیاد معاویہ بن قرہ حضرت معقل بن یسار سے رایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا فساد کے زمانہ میں عبادت کرنا میری طرف ہجرت کرنے کے برابر ہے۔
فتنہ وفساد میں عبادت کرنے کی فضلیت کے بیان میں
ابوکامل حماد اس سند سے بھی یہ حدیث مبارکہ اسی طرح مروی ہے۔
قیامت کے قریب ہونے کے بیان میں
زہیر بن حرب، عبدالرحمن بن مہدی، شعبہ، علی بن اقمر حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا قیامت برے لوگوں پر ہی قائم ہوگی۔
قیامت کے قریب ہونے کے بیان میں
سعید بن منصور، یعقوب بن عبدالرحمن عبدالعزیزبن ابی حازم (رض) حضرت سہل بن سعد (رض) سے روایت ہے کہ میں نے نبی ﷺ سے سنا کہ آپ ﷺ نے اپنے انگوٹھے کے قریب والی درمیانی انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا مجھے اور قیامت کو اس طرح (اکٹھا) بھیجا گیا ہے۔
قیامت کے قریب ہونے کے بیان میں
محمد بن مثنی، محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، قتادہ، حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مجھے اور قیامت کو ان دو انگلیوں کی طرح بھیجا گیا ہے حضرت قتادہ (رض) اپنے قصوں میں کہتے ہیں جیسا کہ ان دونوں انگلیوں میں سے ایک دوسری سے بڑی ہے میں نہیں جانتا کہ انہوں نے اسے انس (رض) سے ذکر کیا یا قتادہ نے خود کہا۔
قیامت کے قریب ہونے کے بیان میں
یحییٰ بن حبیب حارثی، ابن حارث، قتادہ، ابوالتیاح، حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مجھے اور قیامت کو اس طرح بھیجا گیا ہے اور شعبہ نے اپنی شہادت والی انگلی اور درمیان والی انگلی ملا کر آپ ﷺ سے حکایت روایت کی۔
قیامت کے قریب ہونے کے بیان میں
عبیداللہ بن معاذ ابی محمد بن ولید محمد بن جعفر، شعبہ، ابی التیاح حضرت انس (رض) نے نبی ﷺ سے یہ حدیث اسی طرح روایت کی ہے۔
قیامت کے قریب ہونے کے بیان میں
محمد بن بشار، ابن ابی عدی، شعبہ، حمزہ ضبی ابی تیاح انس، اس سند سے بھی یہ حدیث اسی طرح روایت کی گئی ہے۔
قیامت کے قریب ہونے کے بیان میں
ابوغسان مسمعی معتمر معبد، حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مجھے اور قیامت کو ان دو کی طرح بھیجا گیا ہے اور آپ ﷺ نے شہادت والی انگلی اور درمیانی انگلی کو ملایا۔
قیامت کے قریب ہونے کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب ابواسامہ ہشام حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ دیہاتی لوگ جب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے تو آپ ﷺ سے قیامت کے بارے میں پوچھتے کہ وہ کب قائم ہوگی آپ ﷺ نے ان سے کم عمر آدمی کی طرف دیکھ کر فرمایا اگر یہ زندہ رہا تو اس کے بوڑھے ہونے سے پہلے تم پر تمہاری قیامت قائم ہوجائے گی۔
قیامت کے قریب ہونے کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، یونس بن محمد حماد بن سلمہ ثابت، حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا قیامت کب قائم ہوگی اس کے ساتھ انصار کا ایک لڑکا بیٹھا ہوا تھا جسے محمد کہا جاتا تھا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر یہ لڑکا زندہ رہا تو ہوسکتا ہے کہ اس کے بوڑھا ہونے سے پہلے قیامت قائم ہوجائے۔
قیامت کے قریب ہونے کے بیان میں
حجاج بن شاعر، سلیمان بن حرب، حماد ابن زید، معبد بن ہلال، حضرت انس بن مالک (رض) روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی ﷺ سے پوچھا قیامت کب قائم ہوگی رسول اللہ ﷺ تھوڑی دیر کے لئے خاموش ہوگئے پھر اپنے سامنے موجود قبیلہ ازد شنوء کے ایک لڑکے کی طرف دیکھا تو فرمایا اگر اس لڑکے کو عمر دی گئی تو اسے بڑھاپا نہیں آئے گا یہاں تک کہ قیامت قائم ہوجائے گی حضرت انس (رض) نے کہا وہ لڑکا ان دنوں میرے ہم عمر لڑکوں میں سے تھا۔
قیامت کے قریب ہونے کے بیان میں
ہارون بن عبداللہ عفان بن مسلم ہمام قتادہ، حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) کا ایک لڑکے پر گزر ہوا اور وہ میرے ہم عمروں میں سے تھا تو نبی ﷺ نے فرمایا اگر یہ زندہ رہا تو ہرگز بوڑھا نہ ہوگا یہاں تک کہ قیامت قائم ہوجائے۔
قیامت کے قریب ہونے کے بیان میں
زہیر بن حرب، سفیان بن عیینہ، ابی زناد اعرج حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا قیامت قائم ہوگی اور آدمی اونٹنی کا دودھ نکال رہا ہوگا اور برتن اس کے منہ تک نہ پہنچے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی اور دو آدمی کپڑے کی خریدو فروخت کر رہے ہوں گے اور ان کی خریدو فروخت مکمل ہونے سے پہلے قیامت قائم ہوجائے گی اور کوئی آدمی اپنے حوض کو درست کر رہا ہوگا اور وہ اس سے دور نہ ہوگا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔
دونوں نفخوں کے درمیانی وقفہ کے بیان میں
ابوکریب محمد بن علاء، ابومعاویہ اعمش، ابوصالح حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دونوں نفخوں کے درمیان چالیس کا وقفہ ہوگا لوگوں نے کہا اے ابوہریرہ (رض) چالیس دن انہوں نے کہا میں نہیں کہتا لوگوں نے کہا چالیس سال انہوں نے کہا میں نہیں کہتا پھر اللہ عزوجل آسمان سے پانی اتاریں گے جس سے لوگ سبزہ کے اگنے کی طرح اگیں گے اور انسان کی ایک ہڈی کے سوا سب چیز گل سڑ جائے گی اور وہ ریڑھ کی ہڈی ہے اور اسی ہڈی سے مخلوق کو قیامت کے روز جمع کیا جائے گا (لیکن انبیائے کرام (علیہم السلام) مستثنیٰ ہیں کیونکہ ان کے اجسام کو اللہ نے زمین پر کھانا حرام کردیا) ۔
دونوں نفخوں کے درمیانی وقفہ کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، مغیرہ ابی زناد اعرج حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ابن آدم کی ریڑھ کی ہڈی کے علاوہ سارے جسم کو مٹی کھا جاتی ہے، وہ اسی سے پیدا کیا گیا ہے اور اسی میں جمع کئے جائیں گے۔
دونوں نفخوں کے درمیانی وقفہ کے بیان میں
محمد بن رافع عبدالرزاق، معمر، ہمام بن منبہ، حضرت ابوہریرہ (رض) کی رسول اللہ ﷺ سے مروی روایات میں سے ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا انسان میں ایک ہڈی ہے جسے زمین کبھی بھی نہیں کھا سکے گی اسی ہڈی پر قیامت کے دن جمع کیا جائے گا صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول وہ ہڈی کونسی ہے آپ ﷺ نے فرمایا وہ دم کی ہڈی کا سرا یعنی ریڑھ کی ہڈی ہے۔