56. زہد و تقوی کا بیان
دونوں نفخوں کے درمیانی وقفہ کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، عبدالعزیز، علاء، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول نے ارشاد فرمایا دنیا مومن کے لئے قید خانہ ہے اور کافر کے لئے جنت۔
دونوں نفخوں کے درمیانی وقفہ کے بیان میں
عبداللہ بن مسلمہ بن قعنب، سلیمان ابن بلال، جعفر، حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک مرتبہ بازار سے گزر تے ہوئے کسی بلندی سے مدینہ منورہ میں داخل ہو رہے تھے اور صحابہ کر ام (رض) آپ کے دونوں طرف تھے آپ ﷺ نے بھیڑ کا ایک بچہ جو چھوٹے کانوں والا تھا اسے مرا ہوا دیکھا آپ نے اس کا کان پکڑ کر فرمایا تم میں سے کون اسے ایک درہم میں لینا پسند کرے گا ؟ صحابہ کرام (رض) نے عرض کیا ہم میں سے کوئی بھی اسے کسی چیز کے بدلے میں لینا پسند نہیں کرتا اور ہم اسے لے کر کیا کریں گے ؟ آپ نے فرمایا کیا تم چاہتے ہو کہ یہ تمہیں مل جائے ؟ صحابہ کرام (رض) نے عرض کیا اللہ کی قسم اگر یہ زندہ بھی ہوتا تو پھر بھی اس میں عیب تھا کیونکہ اس کا کان چھوٹا ہے حالانکہ اب تو یہ مردار ہے آپ ﷺ نے فرمایا اللہ کی قسم اللہ کے ہاں یہ دنیا اس سے بھی زیادہ ذلیل ہے جس طرح تمہارے نزدیک یہ مردار ذلیل ہے۔
دونوں نفخوں کے درمیانی وقفہ کے بیان میں
محمد بن مثنی، ابراہیم بن محمد بن عرعرہ سامی، عبدالوہاب ثقفی، جعفر (رض) حضرت جابر (رض) نے نبی کریم ﷺ سے مذکورہ حدیث کی طرح روایت نقل کی ہے صرف لفظی فرق ہے۔
دونوں نفخوں کے درمیانی وقفہ کے بیان میں
ہداب بن خالد، ہمام، قتادہ، حضرت مطرف (رض) اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں نبی ﷺ کی خدمت آیا آپ پڑھ رہے تھے آپ نے فرمایا ابن آدم کہتا ہے : میرا مال، میرا مال، میرا مال اے ابن آدم تیرا کیا مال ہے تیرا مال تو صرف وہی ہے جو تو نے کھالیا اور ختم کرلیا یا جو تو نے پہن لیا اور پرانا کرلیا یا جو تو نے صدقہ کیا پھر تو ختم ہوگیا۔
دونوں نفخوں کے درمیانی وقفہ کے بیان میں
محمد بن مثنی، ابن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، ابن ابی عدی، سعید ابن مثنی، معاذ بن ہشام، قتادہ، حضرت مطرف (رض) اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نبی ﷺ کی خدمت میں گیا اور پھر ہمام کی روایت کی طرح حدیث ذکر کی۔
دونوں نفخوں کے درمیانی وقفہ کے بیان میں
سوید بن سعید، حفص بن میسرہ، علاء، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بندہ کہتا ہے : میرا مال، میرا مال۔ حالانکہ اس کے مال میں سے اس کی صرف تین چیزیں ہے جو کھایا اور ختم کرلیا جو پہنا اور پرانا کرلیا جو اس نے اللہ کے راستہ میں دیا یہ اس نے آخرت کے لئے جمع کرلیا اس کے علاوہ تو صرف جانے والا اور لوگوں کے لئے چھوڑنے والا ہے۔
دونوں نفخوں کے درمیانی وقفہ کے بیان میں
ابوبکر بن اسحاق، ابن ابی مریم، محمد بن جعفر، حضرت علاء بن عبدالرحمن (رض) سے اس سند کے ساتھ مذکورہ حدیث کی طرح نقل کی ہے۔
دونوں نفخوں کے درمیانی وقفہ کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، زہیر بن حرب، ابن عیینہ، عبداللہ بن ابی بکر، حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مرنے والے کے ساتھ تین چیزیں جاتی ہیں پھر دو واپس آجاتی ہیں جبکہ ایک چیز باقی رہ جاتی ہے مرنے والے کے ساتھ اس کے گھر والے اور اس کا مال اور اس کے عمل جاتے ہیں اس کے گھر والے اور اس کا مال تو واپس آجاتا ہے اس کا عمل باقی رہ جاتا ہے۔
دونوں نفخوں کے درمیانی وقفہ کے بیان میں
حرملہ بن یحییٰ بن عبداللہ بن حرملہ بن عمران، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، عروہ بن زبیر، مسور بن مخرمہ، حضرت عمرو بن عوف (رض) جو کہ بنی عامر بن لوئی کے حلیف تھے سے روایت ہے کہ وہ غزوہ بدر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ موجود تھے انہوں نے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوعبیدہ بن جراح (رض) کو بحرین کی طرف بھیجا تاکہ وہاں سے جزیہ وصول کرکے لائیں اور رسول اللہ ﷺ نے بحرین والوں سے صلح کرلی تھی اور ان پر حضرت علاء بن حضرمی (رض) کو امیر مقرر فرمایا تھا حضرت ابوعبیدہ (رض) بحرین کا مال و صول کر کے لائے انصار نے جب یہ بات سنی کہ حضرت ابوعبید (رض) آگئے ہیں تو انہوں نے فجر کی نماز رسول اللہ کے ساتھ پڑھی پھر جب رسول اللہ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے اور انصار آپ کے سامنے پیش ہوئے تو رسول اللہ ﷺ انہیں دیکھ کر خوش ہوئے (مسکرائے) پھر آپ نے فرمایا میرا گمان ہے کہ تم نے سن لیا ہے کہ حضرت ابوعبید بحرین سے کچھ (مال) لے کر آئے ہیں ؟ انہوں نے عرض کیا جی ہاں ! اے اللہ کے رسول آپ نے فرمایا خوش ہوجاؤ اور تم لوگ اس بات کی امید رکھو کہ جس سے تمہیں خوش ہوگی اور اللہ کی قسم ! مجھے تم پر فقر کا ڈر نہیں ہے بلکہ مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں تم پر دنیا کشادہ نہ ہوجائے جس طرح کہ تم سے پہلے لوگوں نے حسد کیا اور تم ہلاک ہوجاؤ جیسا کہ تم سے پہلے ہلاک ہوئے۔
دونوں نفخوں کے درمیانی وقفہ کے بیان میں
حسن بن علی حلوانی، عبد بن حمید، یعقوب بن ابراہیم بن سعد، ابوصالح، عبداللہ بن عبدالرحمن دارمی، یونس، حضرت زہری (رض) سے یونس کی سند کے ساتھ اور اس کی مذکورہ روایت کی طرح حدیث نقل کی گئی ہے سوائے اس کے کہ اس میں ہے کہ وہ تمہیں بھی غفلت میں ڈال دے جس طرح کہ تم سے پہلے لوگوں کو غفلت میں ڈالا۔
دونوں نفخوں کے درمیانی وقفہ کے بیان میں
عمر بن سواد عامری، عبداللہ بن وہب، عمرو بن حارث، بکر بن سوادہ، یزید بن رباح، ابوفراس مولیٰ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) رسول اللہ ﷺ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا جب فارس اور روم کو فتح کرلیا جائے گا اس وقت تم کس حال میں ہو گے ؟ حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) فرماتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا ہمیں جس طرح اللہ نے حکم فرمایا ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ؟ تم ایک دوسرے پر رشک کرو گے پھر آ پس میں ایک دوسرے سے حسد کرو گے پھر آپس میں ایک دوسرے سے بغض رکھو گے یا آپ ﷺ نے اسی طرح کچھ فرمایا پھر تم مسکین مہاجروں کی طرف جاؤ گے اور پھر ایک دوسرے کی گردنوں پر سواری کرو گے
دونوں نفخوں کے درمیانی وقفہ کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، قتیبہ بن سعید، قتیبہ، یحیی، مغیرہ بن عبدالرحمن حزامی، ابی زناد، اعرج حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی آدمی کسی دوسرے ایسے آدمی کو دیکھ کر جو اس سے مال اور صورت میں بڑھ کر ہو تو اسے چاہئے کہ وہ اسے بھی دیکھے کہ جو اس سے مال و صورت میں کم تر ہو جسے اس پر فضیلت دی گئی ہے اختیار کرنے کے نتیجہ میں انسان میں اللہ کا شکر ادا کرنے کی رغبت پیدا ہوگی۔
دونوں نفخوں کے درمیانی وقفہ کے بیان میں
محمد بن رافع، عبدالرزاق، معمر، ہمام بن منبہ، حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم ﷺ سے ابوالزناد کی روایت نقل کرتے ہیں۔
دونوں نفخوں کے درمیانی وقفہ کے بیان میں
زہیر بن حرب، جریر، ابوکریب، ابومعاویہ، ابوبکر بن ابی شیبہ، ابومعاویہ، وکیع، اعمش، ابوصالح، ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم اس آدمی کی طرف دیکھو کہ جو تم سے کم تر درجہ میں ہے اور اس آدمی کی طرف نہ دیکھو کہ جو درجہ میں تم سے بلند ہو تم اللہ کی نعمتوں کو حقیر نہ سمجھنے لگ جاؤ۔
دونوں نفخوں کے درمیانی وقفہ کے بیان میں
شیبان بن فروخ، ہمام، اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ، عبدالرحمن بن ابی عمرہ، حضرت ابوہریرہ (رض) بیان فرماتے ہیں کہ انہوں نے نبی ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرما رہے تھے کہ بنی اسرائیل میں تین آدمی تھے (1) کوڑھی (2) گنجا (3) اندھا تو اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ تینوں کو آزمایا جائے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف ایک فرشتہ بھیجا وہ کوڑھی آدمی کے پاس آیا اور اس سے کہا کہ تجھے کسی چیز سے (زیادہ پیار) ہے ؟ وہ کوڑھی کہنے لگا میرا خوبصورت رنگ ہو خوبصورت جلد ہو اور لوگ مجھ سے نفرت کرتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا فرشتے نے اس کوڑھی (کے جسم پر) ہاتھ پھیرا تو اس سے وہ بیماری چلی گئی اور اس کو خوبصورت رنگ اور خوبصورت جلد عطا کردی گئی فرشتے نے کہا تجھے مال کونسا زیادہ پیارا ہے ؟ وہ کہنے لگا اونٹ یا اس نے کہا گائے۔ راوی اسحاق کو شک ہے لیکن ان دونوں میں سے (یعنی کوڑھی اور گنجے میں ایک نے) اونٹ کہا اور دوسرے نے گائے کہا آپ ﷺ نے فرمایا اسے دس مہینے کی گابھن اونٹی دے دی گئی پھر فرشتے نے کہا اللہ تجھے اس میں برکت عطا فرمائے آپ ﷺ نے فرمایا پھر فرشتہ گنجے آدمی کے پاس آیا اور اسے کہا تجھے کونسی چیز سب سے زیادہ پیاری ہے وہ کہنے لگا خوبصورت بال اور گنجے پن کی یہ بیماری کہ جس کی وجہ سے لوگ مجھ سے نفرت کرتے ہیں مجھ سے چلی جائے آپ ﷺ نے فرمایا فرشتے نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا تو اس سے وہ بیماری چلی گئی اور اسے خوبصورت بال عطا کردیئے گئے فرشتے نے کہا تجھے سب سے زیادہ مال کونسا پسند ہے وہ کہنے لگا گائے پھر اسے حاملہ گائے عطا کردی گئی اور فرشتے نے کہا اللہ تجھے اس میں برکت عطا فرمائے آپ ﷺ نے فرمایا پھر فرشتہ اندھے آدمی کے پاس آیا اور اس سے کہا تجھے کونسی چیز سب سے زیادہ پیاری ہے وہ اندھا کہنے لگا اللہ تعالیٰ مجھے میری بینائی واپس لوٹا دے تاکہ میں لوگوں کو دیکھ سکوں آپ ﷺ نے فرمایا فرشتے نے اس کے چہرے پر ہاتھ پھیرا تو اللہ نے اس کی بینائی اسے واپس لوٹا دی فرشتے نے کہا تجھے مال کونسا سب سے زیادہ پسند ہے وہ کہنے لگا بکریاں تو پھر اسے ایک گابھن بکری دے دی گئی چناچہ پھر ان سب نے بچے جنے آپ ﷺ نے فرمایا کوڑھی آدمی کا اونٹوں سے جنگل بھر گیا اور گنجے آدمی کی گایوں کی ایک وادی بھر گئی اور اندھے آدمی کا بکریوں کا ریوڑ بھر گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا پھر (کچھ عرصہ کے بعد) وہی فرشتہ اپنی دوسری شکل و صورت میں کوڑھی آدمی کے پاس آیا اور اس سے کہا میں ایک مسکین آدمی ہوں اور سفر میں میرا سارا زادراہ ختم ہوگیا ہے جس کی وجہ سے میں آج (اپنی منزل مقصود پر) سوائے اللہ تعالیٰ کی مدد کے نہیں پہنچ سکتا تو میں تجھ سے اسی کے نام پر سوال کرتا ہوں کہ جس نے تجھے خوبصورت رنگ اور خوبصورت جلد اور اونٹ کا مال عطا فرمایا (مجھے صرف ایک اونٹ دے دے) جو میرے سفر میں میرے کام آئے وہ کوڑھی کہنے لگا (میرے اوپر) بہت زیادہ حقوق ہیں، فرشتے نے کہا میں تجھے پہچانتا ہوں کیا تو کوڑھی اور محتاج نہیں تھا، تجھ سے لوگ نفرت کرتے تھے پھر اللہ پاک نے تجھے یہ مال عطا فرمایا وہ کوڑھی کہنے لگا : یہ مال تو مجھے میرے باپ دادا سے وراثت میں ملا ہے، فرشتے نے کہا : اگر تو جھوٹ کہہ رہا ہے تو اللہ تجھے پھر اسی طرح کر دے جس طرح کہ تو پہلے تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا پھر فرشتہ اپنی اسی شکل میں گنجے کے پاس آیا اور اس سے بھی وہی کچھ کہا کہ جو کوڑھی سے کہا تھا، پھر اس گنجے نے بھی وہی جواب دیا کہ جو کوڑھی نے جواب دیا تھا، فرشتہ نے اس سے بھی یہی کہا کہ اگر تو جھوٹا ہے تو اللہ تعالیٰ تجھے اس طرح کر دے جس طرح کہ تو پہلے تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا : پھر فرشتہ اپنی اسی شکل و صورت میں اندھے کے پاس آیا اور کہا کہ میں ایک مسکین اور مسافر آدمی ہوں اور میرے سفر کے تمام اسباب وغیرہ ختم ہوگئے ہیں اور میں آج سوائے اللہ کی مدد کے اپنی منزل مقصود پر نہیں پہنچ سکتا میں تجھ سے اسی اللہ کے نام پر کہ جس نے تجھے بینائی عطاکی، ایک بکری کا سوال کرتا ہوں جو کہ مجھے میرے سفر میں کام آئے، وہ اندھا کہنے لگا کہ میں بلاشبہ اندھا تھا پھر اللہ تعالیٰ نے مجھے میری بینائی واپس لوٹا دی۔ اللہ کی قسم ! میں آج تمہارے ہاتھ نہیں روکوں گا۔ تم جو چاہو میرے مال میں سے لے لو اور جو چاہو چھوڑ دو ۔ تو فرشتے نے اندھے سے کہا : تم اپنا مال رہنے دو کیونکہ تم تینوں آدمیوں کو آزمایا گیا ہے تو اللہ تعالیٰ تجھ سے راضی ہوگیا ہے اور تیرے دونوں ساتھیوں سے ناراض ہوگیا ہے۔
دونوں نفخوں کے درمیانی وقفہ کے بیان میں
اسحاق بن ابراہیم، عباس بن عبد العظیم، اسحاق، عباس، اسحاق، ابوبکر، بکیر بن مسمار، حضرت عامر بن سعد (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) اپنے اونٹوں میں (موجود) تھے کہ اسی دوران ان کا بیٹا عمر آیا تو جب حضرت سعد (رض) نے اسے دیکھا تو فرمایا میں سوار کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں تو جب وہ اترا تو حضرت سعد (رض) سے کہنے لگا کہ کیا آپ اونٹوں اور بکریوں میں رہنے لگے ہیں اور لوگوں کو چھوڑ دیا ہے اور وہ ملک کی خاطر جھگڑا رہے ہیں تو حضرت سعد (رض) نے اس کے سینے پر ہاتھ مارا اور فرمایا : خاموش ہوجا۔ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ اللہ اپنے بندے سے پیار کرتا ہے جو پرہیزگار اور غنی ہے اور ایک کونے میں چھپ کر بیٹھا ہے۔
دونوں نفخوں کے درمیانی وقفہ کے بیان میں
یحییٰ بن حبیب حارثی، معتمر، اسماعیل، قیس بن سعد، محمد بن عبداللہ بن نمیر، ابن نمیر، ابن بشر (رض) حضرت سعد بن ابی و قاص (رض) فرماتے ہیں اللہ کی قسم ! عرب میں سے سب سے پہلا میں وہ آدمی ہوں کہ جس نے اللہ کے راستہ میں تیر پھینکا اور ہمارے پاس اس حبلہ درخت کے پتوں اور سمر کے پتوں کے سوا کھانے کے لئے اور کچھ نہ تھا یہاں تک کہ ہم میں سے کوئی قضائے حاجت اس طرح کرتا جیسا کہ بکری مینگنی کرتی ہے پھر آج بنو اسد کے لوگ دین کی باتیں سکھانے لگے ہیں تو میں بالکل گھاٹے ہی میں رہا اگر یہ بات تھی اور میرے سارے اعمال ضائع ہوگئے۔
دونوں نفخوں کے درمیانی وقفہ کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، وکیع، حضرت اسماعیل بن ابی خالد (رض) سے اس سند کے ساتھ روایت نقل کی گئی ہے اور اس میں انہوں نے کہا یہاں تک کہ اگر ہم میں سے کوئی قضائے حاجت کرتا تو ایسے کرتا جیسے بکری مینگنی کرتی ہے اور اس میں کوئی چیز ملی ہوئی نہ ہوتی تھی۔
دونوں نفخوں کے درمیانی وقفہ کے بیان میں
شیبان بن فروخ، سلیمان بن مغیرہ، حمید بن ہلال، حضرت خالد بن عمیر عدوی (رض) سے روایت ہے کہ عتبہ بن غزوان نے ہمیں ایک خطبہ دیا۔ انہوں نے (سب سے پہلے) اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء بیان کی پھر فرمایا اما بعد ! کہ دنیا نے اپنے ختم ہونے کی خبر دے دی ہے اور اس میں سے کچھ بھی باقی نہیں رہا سوائے اس کے کہ جس طرح ایک برتن میں کچھ بچا ہوا پانی باقی رہ جاتا ہے جسے اس کا پینے والا چھوڑ دیتا ہے اور تم لوگ اس دنیا سے ایسے گھر کی طرف منتقل ہونے والے ہو کہ جس کو پھر کوئی زوال نہیں۔ لہذا تم اپنے نیک اعمال آگے بھیج کر جاؤ کیونکہ ہمیں یہ بات ذکر کی گئی ہے کہ ایک پتھر جہنم کے ایک کنارے سے اس میں ڈالا جائے گا اور وہ ستر سال تک اس میں گرتا رہے گا پھر بھی وہ جہنم کی تہہ تک نہیں پہنچ سکے گا۔ اللہ کی قسم ! دوزخ کو بھر دیا جائے گا کیا تم تعجب کرتے ہو ؟ اور ہم سے یہ بات بھی ذکر کی گئی ہے کہ جنت کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک چالیس سال کی مسافت ہے اور جنت پر ایک ایسا دن آئے گا کہ وہ لوگوں کے رش کی وجہ سے بھری ہوئی ہوگی اور تو نے مجھے دیکھا ہوگا کہ میں ساتوں میں سے سا تواں ہوں جو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے ہمارا کھانا سوائے درختوں کے پتوں کے اور کچھ نہ تھا۔ یہاں تک کہ ہماری باچھیں زخمی ہوگئیں۔ مجھے ایک چادر ملی جسے پھاڑ کر میں نے دو ٹکڑے کئے ایک ٹکڑے کا تہ بند بنایا اور ایک ٹکڑے کا سعد بن مالک نے تہ بند بنایا اور آج ہم میں سے کوئی ایسا آدمی نہیں ہے کہ جو شہروں میں سے کسی شہر کا حاکم نہ ہو اور میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں اس بات کی کہ میں اپنے آپ کو بڑا سمجھوں اور اللہ تعالیٰ کے ہاں چھوٹا سمجھا جاؤں کیونکہ کسی نبی کی نبوت بھی ہمیشہ نہیں رہی اور نبوت کا اثر بھی جاتا رہا یہاں تک کہ اس کا آخرکار انجام یہ ہوا کہ وہ سلطنت تباہ ہوگئی اور تم عنقریب ان حاکموں کا تجربہ کرو گے کہ جو ہمارے بعد میں آئیں گے۔
دونوں نفخوں کے درمیانی وقفہ کے بیان میں
اسحاق بن عمر بن سلیط، سلیمان بن مغیرہ، حمید بن ہلال، خالد بن عمیر، حضرت خالد بن و لید سے روایت ہے انہوں نے زمانہ جاہلیت پایا تھا۔ خالد (رض) فرماتے ہیں کہ عتبہ بن غزوان نے ایک خطبہ دیا جبکہ وہ بصرہ پر حاکم مقرر تھے (اور پھر اس کے بعد) شیبانی کی روایت کی طرح روایت ذکر کی۔
دونوں نفخوں کے درمیانی وقفہ کے بیان میں
ابو کریب محمد بن علاء، وکیع، قرہ بن خالد، حمید بن ہلال، حضرت خالد بن عمیر (رض) سے روایت ہے کہ میں نے عتبہ بن غزوان سے سنا وہ کہتے ہیں کہ مجھے کیا دیکھتا ہے میں تو ان ساتوں میں سے سا تو اں ہوں کہ جو نبی ﷺ کے ساتھ تھے اور ہمارے پاس کھانے کے لئے سوائے حبلہ درخت کے پتوں کے اور کچھ نہ تھا یہاں تک کہ ہماری باچھیں زخمی ہوگئیں۔
دونوں نفخوں کے درمیانی وقفہ کے بیان میں
محمد بن ابی عمر، سفیان، سہیل بن ابوصالح، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ صحابہ کرام (رض) نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! کیا ہم اپنے رب کو قیامت کے دن دیکھیں گے ؟ آپ نے فرمایا کیا تمہیں دوپہر کے وقت میں جبکہ کوئی بادل نہ ہو سورج کے دیکھنے میں کوئی مشقت ہوتی ہے ؟ صحابہ کرام (رض) نے عرض کیا نہیں ! آپ نے فرمایا کیا تمہیں چودہویں رات کے چاند کے دیکھنے میں جبکہ بادل نہ ہوں کوئی مشقت ہوتی ہے ؟ صحابہ کرام (رض) نے عرض کیا نہیں ! آپ ﷺ نے فرمایا : قسم ہے اس ذات جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کہ تم لوگوں کو اپنے رب کے دیکھنے میں کسی قسم کا حجاب نہیں ہوگا سوائے اس کے کہ جتنا تمہیں سورج اور چاند میں سے کسی ایک کے دیکھنے میں حجاب ہوتا ہے آپ نے فرمایا پھر اس کے بعد اللہ اپنے بندوں سے ملاقات کرے گا اور فرمائے گا اے فلاں کیا میں نے تجھے عزت نہیں دی اور تجھے سردار نہیں بنایا اور تجھے جوڑا نہیں بنایا اور تیرے لئے گھوڑے اور اونٹ مسخر نہیں کئے اور کیا میں نے تجھے ریاست اور آرام کی حالت میں نہیں چھوڑا اور تو ان سے چوتھائی حصہ لیتا تھا وہ عرض کرے گا جی ہاں اے پروردگار اللہ عزوجل فرمائے گا کیا تو گمان کرتا تھا کہ تو مجھے سے ملاقات کرے گا وہ عرض کرے گا نہیں پھر اللہ عزوجل فرمائے گا کہ میں تجھے بھلا دیتا ہوں جس طرح کہ تو نے مجھے بھلا دیا تھا پھر اللہ تیسرے سے ملاقات کرے گا اور اللہ اسے بھی اسی طرح سے فرمائے گا وہ عرض کرے گا اے پروردگار میں تجھ پر اور تیری کتابوں پر اور تیرے رسولوں پر ایمان لایا اور میں نے نماز پڑھی اور میں نے روزہ رکھا اور میں نے صدقہ و خیرات کیا اس سے جس قدر ہو سکے گی وہ اپنی نیکی کی تعریف کرے گا پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا تجھے ابھی تیری نیکیوں کا پتہ چل جائے گا آپ ﷺ نے فرمایا پھر اسے کہا جائے گا کہ ہم ابھی تیرے خلاف گواہ بھیجتے ہیں وہ اپنے دل میں غور وفکر کرے گا کہ کون ہے جو میرے خلاف گواہی دے پھر اس کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور اس کی ران گوشت ہڈیوں سے کہا جائے گا بولو پھر اس کی رگ اور اس کا گوشت اور اس کی ہڈیاں اس کے اعمال کی گواہی دیتے ہوئے بولیں گے اور یہ سب اس وجہ سے ہوگا کہ کسی نفس کی طرف سے کوئی عذر قائم نہ ہو سکے گا اور یہ منافق آدمی ہوگا اور اس پر اللہ تعالیٰ اپنی ناراضگی کا اظہار فرمائے گا۔
دونوں نفخوں کے درمیانی وقفہ کے بیان میں
ابوبکر بن نضر بن ابی نضر، ابونضر، ہاشم بن قاسم، عبیداللہ، سفیان ثوری، عبیدالمکتب، فضیل، شعبی، حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے تھے کہ آپ ﷺ ہنسے آپ ﷺ نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ میں کس وجہ سے ہنسا ہوں حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ بہتر جانتے ہیں آپ نے فرمایا میں بندے کی اس بات سے ہنسا ہوں کہ جو وہ اپنے رب سے کرے گا وہ بندہ عرض کرے گا اے پروردگار کیا تو نے مجھے ظلم سے پناہ نہیں دی آپ ﷺ نے فرمایا اللہ فرمائے گا ہاں آپ ﷺ نے فرمایا پھر بندہ عرض کرے گا میں اپنے اوپر اپنی ذات کے علاوہ کسی کی گواہی کو جائز نہیں سمجھتا آپ ﷺ نے فرمایا پھر اللہ فرمائے گا کہ آج کے دن تیرے اوپر تیری ہی ذات کی گوہی اور کراما کا تبین کی گواہی کفایت کر جائے گی آپ نے فرمایا پھر اس بندے کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور اس کے دیگر اعضاء کو کہا جائے گا کہ بولیں آپ ﷺ نے فرمایا اس کے اعضاء اس کے سارے اعمال بیان کریں گے آپ ﷺ نے فرمایا پھر بندہ اپنے اعضاء سے کہے گا دور ہوجاؤ چلو دور ہوجاؤ میں تمہاری طرف سے ہی تو جھگڑا کر رہا تھا۔
دونوں نفخوں کے درمیانی وقفہ کے بیان میں
زہیر بن حرب، محمد بن فضیل، عمارہ بن قعقاع، ابن زرعہ، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اے اللہ محمد کی آل کو بقدر کفایت رزق عطا فرما۔
دونوں نفخوں کے درمیانی وقفہ کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، عمرو ناقد، زہیر بن حرب، ابوکریب، وکیع، اعمش، عمارہ ابن قعقاع، ابی، زرعہ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے اللہ محمد کی آل کو بقدر کفایت رزق عطا فرما دے عمرو کی روایت میں اللَّهُمَّ اجْعَلْ کی بجائے اللَّهُمَّ رِزْقَ ہے۔
دونوں نفخوں کے درمیانی وقفہ کے بیان میں
ابوسعید اشج، ابواسامہ، اعمش، حضرت عمارہ بن قعقاع سے اس سند کے ساتھ روایت نقل کی گئی ہے اور اس روایت میں آپ ﷺ نے قُوتًا کی بجائے کَفَافًا کا لفظ فرمایا ہے۔
دونوں نفخوں کے درمیانی وقفہ کے بیان میں
زہیر بن حرب، اسحاق بن ابراہیم، منصور، ابراہیم، اسود، سیدہ عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ جس وقت سے آل محمد مدینہ منورہ آئے کبھی بھی لگاتار تین راتیں گیہوں کی روٹی سے پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا یہاں تک کہ آپ ﷺ اس فانی دنیا سے رخصت فرما گئے۔
دونوں نفخوں کے درمیانی وقفہ کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب، اسحاق بن ابراہیم، اسحاق، ابومعاویہ، اعمش (رض) ابراہیم، اسود، سیدہ عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کبھی بھی لگاتار تین دن تک گندم کی روٹی سے سیر نہیں ہوئے یہاں تک کہ آپ اس فانی دنیا سے رحلت فرما گئے۔
دونوں نفخوں کے درمیانی وقفہ کے بیان میں
محمد بن مثنی، محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، ابواسحاق، عبدالرحمن بن یزید، سیدہ عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ آل محمد کبھی لگاتار دو دن جو کی روٹی سے سیر نہیں ہوئے یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ اس فانی دنیا سے رحلت فرما گئے۔
دونوں نفخوں کے درمیانی وقفہ کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، وکیع، سفیان، عبدالرحمن ابن عباس (رض) سیدہ عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ آل محمد کبھی بھی تین دن سے زیادہ گندم کی روٹی سے سیر نہیں ہوئے۔
دونوں نفخوں کے درمیانی وقفہ کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، حفص بن غیاث، ہشام بن عروہ (رض) ، سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ آل محمد تین دن تک لگاتار گندم کی روٹی سے سیر نہیں ہوئے یہاں تک کہ اس فانی دنیا سے رحلت فرما گئے۔
دونوں نفخوں کے درمیانی وقفہ کے بیان میں
ابوکریب، وکیع، حفص بن غیاث، ہشام بن عروہ، سیدہ عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ آل محمد دو دنوں تک گندم کی روٹی سے سیر نہیں ہوئے سوائے اس کے کہ صرف ایک کھجور ہی ہوتی تھی۔
دونوں نفخوں کے درمیانی وقفہ کے بیان میں
عمرو ناقد، عبدہ بن سلیمان، یحییٰ بن یمان، ہشام بن عروہ، سیدہ عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ ہم آل محمد کا یہ حال تھا کہ ہمارے ہاں مہینہ مہینہ بھر تک آگ نہیں جلتی تھی بلکہ صرف کھجور اور پانی پر ہی گزر بسر ہوتی تھی۔
دونوں نفخوں کے درمیانی وقفہ کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب، ابواسامہ، ابن نمیر، حضرت ہشام بن عروہ سے اس سند کے ساتھ روایت نقل کی گئی ہے لیکن اس روایت میں آل محمد کا ذکر نہیں ہے اور ابوکریب نے اپنی روایت میں یہ زیادتی بیان کی ہے کہ ابن نمیر سے روایت ہے کہ سوائے اس کے کہ کہیں سے ہمارے لئے گوشت آجاتا۔
دونوں نفخوں کے درمیانی وقفہ کے بیان میں
ابوکریب محمد بن علاء بن کریب، ابواسامہ، ہشام، سیدہ عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی تو میرے برتن میں سوائے تھوڑے سے جو کے کھانے کے لئے اور کچھ نہیں تھا میں اسی برتن میں بہت دنوں تک کھاتی رہی میں نے اس برتن کو ناپا تو اس میں سے جو ختم ہوگئے۔
دونوں نفخوں کے درمیانی وقفہ کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، عبدالعزیز بن ابی حازم، یزید بن رومان، عروہ، سیدہ عائشہ (رض) سے روایت ہے فرماتی تھیں اللہ کی قسم اے میرے بھتیجے ہم ایک چاند دیکھتے پھر دوسرا چاند دیکھتے پھر تیسرا چاند دیکھتے تو مہینوں میں تین چاند دیکھ لیتے تھے اور رسول اللہ ﷺ کے گھروں میں (اتنے عرصہ تک) آگ نہیں جلتی تھی حضرت عروہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اے خالہ پھر آپ کسی طرح زندگی گزارتیں تھیں سیدہ عائشہ (رض) نے فرمایا کھجور اور پانی کے ساتھ سوائے اس کے کہ رسول اللہ ﷺ کے کچھ انصاری ہمسائے تھے اور ان کے دودھ والے جانور تھے وہ لوگ رسول اللہ ﷺ کی طرف ان جانوروں کا دودھ بھیج دیتے تھے توہ دودھ آپ ہمیں پلا دیتے تھے۔
دونوں نفخوں کے درمیانی وقفہ کے بیان میں
ابوطاہر احمد، عبداللہ بن وہب، ابوصخر، یزید بن عبداللہ قسیط، ہارون بن سعید، ابن وہب، ابوصخر، ابن قسیط، عروہ بن زبیر (رض) ، سیدہ عائشہ (رض) رسول اللہ ﷺ کی زوجہ مطہرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ وفات پا گئے اور آپ ﷺ نے ایک دن میں دو مرتبہ روٹی اور زیتون کا تیل تک سیر ہو کر نہیں کھائے۔
دونوں نفخوں کے درمیانی وقفہ کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، داود بن عبدالرحمن مکی، منصور، ام منصور، حضرت عائشہ۔ سعید بن منصور، داؤد بن عبدالرحمن، عطاء، منصور بن عبدالرحمن، صفیہ، سیدہ عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی تو اس وقت صحابہ کرام کھجور اور پانی سے ہی سیر ہوتے تھے۔
دونوں نفخوں کے درمیانی وقفہ کے بیان میں
محمد بن مثنی، عبدالرحمن، سفیان، منصور بن صفیہ، سیدہ عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ وفات پا گئے اور ہم پانی اور کھجور سے ہی سیر ہوتے تھے۔
دونوں نفخوں کے درمیانی وقفہ کے بیان میں
ابو کریب، اشجعی، نصر بن علی، ابواحمد، سفیان، حضرت سفیان سے اس سند کے ساتھ روایت نقل کی گئی ہے سوائے اس کے کہ ان دونوں روایات میں ہے کہ ان دونوں چیزوں یعنی کھجور اور پانی سے بھی سیر نہیں ہوتے تھے۔
دونوں نفخوں کے درمیانی وقفہ کے بیان میں
محمد بن عباد، ابن ابی عمر، مروان، یزید ابن کیسان، ابی حازم، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے اور ابن عباد نے اپنی روایت میں وَالَّذِي نَفْسُ ابوہریرہ بِيَدِهِ کے الفاظ کہے ہیں یعنی قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ وقدرت میں ابوہریرہ (رض) کی جان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے لگاتار تین دن تک اپنے گھر والوں کو گندم کی روٹی سے سیر نہیں کیا یہاں تک کہ آپ ﷺ اس فانی دنیا سے رحلت فرما گئے۔
دونوں نفخوں کے درمیانی وقفہ کے بیان میں
محمد بن حاتم، یحییٰ بن سعید، یزید بن کیسان، حضرت ابوحازم (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوہریرہ (رض) کو دیکھا کہ وہ اپنی انگلیوں سے بار بار اشارہ کرتے ہوئے فرما رہے ہیں قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ وقدرت میں ابوہریرہ (رض) کی جان ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ اور آپ ﷺ کے گھر والوں نے لگاتار تین دن تک کبھی بھی گندم کی روٹی سے سیر ہو کر نہیں کھایا یہاں تک کہ اس دنیائے فانی سے رحلت فرما گئے۔
دونوں نفخوں کے درمیانی وقفہ کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، ابوبکر بن ابی شیبہ، احوص، سماک، حضرت نعمان بن بشیر (رض) فرماتے ہیں کہ کیا تم لوگ جو چاہتے ہو کھاتے اور پیتے نہیں ہو ؟ جبکہ میں نے تمہارے نبی ﷺ کو دیکھا ہے کہ آپ ﷺ کو خراب کھجور بھی پیٹ بھر کر نہیں ملتی تھی۔
دونوں نفخوں کے درمیانی وقفہ کے بیان میں
محمد بن رافع، یحییٰ بن آدم، زہیر، اسحاق بن ابراہیم، حضرت سماک (رض) نے اس سند کے ساتھ مذکورہ حدیث کی طرح روایت نقل کی ہے اور زہیر کی اس روایت میں یہ الفاظ زائد ہیں کہ تم تو طرح طرح کی کھجور اور مکھن کے علاوہ راضی نہیں ہوتے۔
دونوں نفخوں کے درمیانی وقفہ کے بیان میں
محمد بن مثنی، ابن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، حضرت سماک بن حرب سے روایت ہے کہ میں نے حضرت نعمان سے خطبہ دیتے ہوئے سنا انہوں نے فرمایا حضرت عمر (رض) نے ذکر فرمایا کہ لوگوں نے جو دنیا حاصل کرلی ہے اس کا ذکر کیا اور فرمایا میں نے رسول اللہ کو دیکھا کہ آپ ﷺ سارا دن بھوک کی وجہ سے بیقرار رہتے تھے آپ ﷺ خراب کھجور تک نہ پاتے تھے کہ جس سے اپنا پیٹ بھرلیں۔
دونوں نفخوں کے درمیانی وقفہ کے بیان میں
ابوطاہر احمد عمرو بن سرح، ابن وہب، ابوہانی، ابوعبدالرحمن حبلی، حضرت عبداللہ (رض) بن عمرو بن عاص (رض) سے ایک آدمی نے سوال کیا کہ کیا ہم مہاجرین فقراء میں سے نہیں ہیں تو حضرت عبداللہ نے اس آدمی سے فرمایا کیا تیری بیوی ہے جس کے پاس تو رہتا ہے وہ کہنے لگا ہاں حضرت عبداللہ نے فرمایا پھر تو تو غنی لوگوں میں سے ہے اس آدمی نے کہا میرے پاس ایک خادم بھی ہے عبداللہ نے فرمایا پھر تو تو بادشاہوں میں سے ہے۔
دونوں نفخوں کے درمیانی وقفہ کے بیان میں
ابوعبدالرحمن فرماتے ہیں کہ تین آدمی حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) کے پاس آئے اور میں ان کے پاس موجود تھا وہ آدمی کہنے لگا اے ابومحمد اللہ کی قسم ہمارے پاس کچھ نہیں ہے نہ خرچ ہے نہ سواری نہ مال ومتاع حضرت عبداللہ نے ان تینوں آدمیوں سے فرمایا تم کیا چاہتے ہو اگر تم یہ چاہتے ہو کہ تم ہماری طرف لوٹ آؤ ہم تمہیں وہ دیں گے جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے تمہارے مقدر میں لکھ دیا ہے اور اگر تم چاہو تو تمہارا ذکر بادشاہ سے کریں اور اگر تم چاہو تو صبر کرو کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے آپ ﷺ فرماتے ہیں ہم مہاجرین فقراء قیامت کے دن مالداروں سے چالیس سال پہلے جنت میں جائیں گے وہ آدمی کہنے لگا ہم لوگ صبر کریں گے اور ہم کچھ نہیں مانگتے۔
پتھر والوں (قوم ثمود) کے گھروں پر سے داخل ہونے کی ممانعت کے بیان میں سوائے اس کے کہ جو روتا ہوا داخل ہو۔
یحییٰ بن ایوب، قتیبہ بن سعید، علی بن حجر، اسماعیل بن ایوب، اسماعیل بن جعفر، عبداللہ بن دینار، حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے پتھروں والے یعنی قوم ثمود کے بارے میں فرمایا اس قوم کے گھروں کے پاس سے نہ گزرو کیونکہ انہیں عذاب دیا گیا ہے سوائے اس کے کہ وہاں سے روتے ہوئے گزرو اور اگر تمہیں رونا نہیں آتا تو پھر وہاں سے نہ گزرو کہیں ایسا نہ ہو کہ تم پر بھی وہ عذاب مسلط ہوجائے کہ جو عذاب قوم ثمود پر مسلط ہوا تھا۔
پتھر والوں (قوم ثمود) کے گھروں پر سے داخل ہونے کی ممانعت کے بیان میں سوائے اس کے کہ جو روتا ہوا داخل ہو۔
حرملہ بن یحیی، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، سالم بن عبداللہ، حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ پتھر والوں یعنی قوم ثمود کے مقامات کے پاس سے گزرے تو رسول اللہ ﷺ نے ہم سے فرمایا تم ان لوگوں کے پتھروں کے پاس سے نہ گزرو کہ جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے سوائے اس کے کہ تم وہاں سے روتے ہوئے گزرو اور اس بات سے بچو کہ کہیں تمہیں بھی نہ آپہنچے کہ جو عذاب ان کو پہنچا پھر اپنی سواری کو ڈانٹ کر جلد چلایا یہاں تک کہ قوم ثمود کے گھروں کو پیچھے چھوڑ دیا۔
پتھر والوں (قوم ثمود) کے گھروں پر سے داخل ہونے کی ممانعت کے بیان میں سوائے اس کے کہ جو روتا ہوا داخل ہو۔
حکم بن موسیٰ ابوصالح شعیب بن اسحاق بن عبیداللہ نافع حضرت ابن عمر (رض) خبری دیتے ہیں کہ صحابہ کرام رسول اللہ ﷺ کے ساتھ قوم ثمود کے علاقہ میں اترے تو انہوں نے اس جگہ کے کنوؤں سے پینے کا پانی لیا اور انہوں نے اس پانی سے آٹا بھی گوندھا تو رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ کرام کو حکم فرمایا پینے والا پانی بہا دیا جائے اور اس پانی سے گوندھا گیا آٹا اونٹوں کو کھلا دیا جائے اور آپ ﷺ نے ان کو حکم فرمایا کہ اس کنوئیں سے پانی لیا جائے کہ جس کنوئیں پر حضرت صالح کی اونٹنی پانی پینے آئی تھی۔
پتھر والوں (قوم ثمود) کے گھروں پر سے داخل ہونے کی ممانعت کے بیان میں سوائے اس کے کہ جو روتا ہوا داخل ہو۔
اسحاق بن موسیٰ انصاری، انس بن عیاض، حضرت عبیداللہ اس سند کے ساتھ مذکورہ حدیث روایت کی طرح حدیث بیان کرتے ہیں سوائے اس کے کہ اس میں ہے انہوں نے اس سے پانی پیا اور اس سے انہوں نے آٹا بھی گوندھا۔
بیوہ مسکین یتیم کے ساتھ نیکی (حسن سلوک) کرنے کے بیان میں
عبداللہ بن مسلمہ بن قعنب، مالک، ثور بن زید، ابی غیث، حضرت ابوہریرہ (رض) نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا بیوہ عورت اور مسکینوں پر کوشش کرنے والا اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے (مجاہد) کی طرح ہے اور میں گمان کرتا ہوں کہ وہ اس قائم کی طرح ہے کہ جو نہ تھکتا ہو اور اس صائم کی طرح ہے کہ جو افطار نہ کرتا ہو۔
بیوہ مسکین یتیم کے ساتھ نیکی (حسن سلوک) کرنے کے بیان میں
زہیر بن حرب، اسحاق عیسی، مالک، ثور بن زید، ابوغیث، حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کسی یتیم بچے کی کفالت کرنے والا اس کا کوئی قریبی رشتہ دار یا اس کے علاوہ اور جو کوئی بھی ہو اور وہ جنت میں اس طرح ہوں گے حضرت مالک (رض) نے شہادت کی اور درمیانی انگلی سے اشارہ کرکے بتایا۔
مسجدیں بنانے کی فضلیت کے بیان میں
ہارون بن سعید ایلی، احمد بن عیسی، ابن وہب، عمرو ابن حارث، بکیر، عاصم بن عمر بن قتادہ، حضرت عبیداللہ خولانی ذکر کرتے ہیں کہ انہوں نے سنا کہ حضرت عثمان بن عفان نے جس وقت رسول اللہ ﷺ کی مسجد کو (شہید کرکے) دوبارہ بنایا تو لوگ اس بارے میں باتیں کرنے لگے تو حضرت عثمان نے فرمایا تم نے بڑی کثرت سے باتیں کیں حالانکہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ جس آدمی نے مسجد بنائی راوی بکیر کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا جس آدمی نے اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے اللہ کا گھر (مسجد) بنایا تو اس طرح کا ایک گھر جنت میں بنائے گا اور ہارون کی روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں ایک گھر بنادے گا۔
مسجدیں بنانے کی فضلیت کے بیان میں
زہیر بن حرب، محمد بن مثنی، ضحاک، عبدالحمید بن جعفر، محمود بن لبید (رض) سے روایت ہے کہ جب حضرت عثمان بن عفان (رض) نے مسجد بنانے کا ارادہ فرمایا تو لوگوں نے اسے ناپسند سمجھا اور وہ لوگ اس بات کو پسند کرنے لگے کہ اس مسجد کو اسی حالت پر چھوڑ دیا جائے تو حضرت عثمان (رض) نے فرمایا میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ جس آدمی نے اللہ کے لئے مسجد بنائی تو اللہ جنت میں اس کے لئے اس جیسا ایک گھر بنا دے گا۔
مسجدیں بنانے کی فضلیت کے بیان میں
اسحاق بن ابراہیم، ابوبکر حنفی، عبدالملک، ابن صباح، حضرت عبدالحمید (رض) بن جعفر سے اس سند کے ساتھ روایت نقل کی گئی ہے سوائے اس کے کہ ان دونوں روایات میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں ایک گھر بنا دے گا۔
مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کرنے کی فضلیت کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، زہیر بن حرب، ابی بکر، یزید بن ہارون، عبدالعزیز ابن ابوسلمہ، وہب بن کیسان عبید بن عمیر لیثی، حضرت ابوہریرہ (رض) نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا ایک آدمی ایک جنگل میں تھا کہ اس نے بادلوں سے ایک آواز سنی کہ فلاں باغ کو پانی لگاؤ تو پھر ایک بادل ایک طرف چلا اور اس نے ایک پتھریلی زمین پر بارش برسائی اور وہاں نالیوں میں سے ایک نالی بھر گئی وہ آدمی برستے ہوئے پانی کے پیچھے پیچھے گیا اچانک اس نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ اپنے باغ میں کھڑا ہو اپنے پھاوڑے سے پانی ادھر ادھر کر رہا ہے اس آدمی نے باغ والے آدمی سے کہا اے اللہ کے بندے تیرا نام کیا ہے اس نے کہا فلاں اور اس نے وہی نام بتایا کہ جو اس نے بادلوں میں سنا تھا پھر اس باغ والے آدمی نے اس سے کہا تو نے میرا نام کیوں پوچھا ہے اس نے کہا میں نے ان بادلوں میں سے جس سے یہ پانی برسا ہے ایک آواز سنی ہے کہ کوئی تیرا نام لے کر کہتا ہے کہ اس باغ کو سیراب کر، تم اس باغ میں کیا کرتے ہو اس نے کہا جب تو نے یہ کہا ہے کہ تو سنو میں اس باغ میں پیداوار پر نظر رکھتا ہوں اور اس میں سے ایک تہائی صدقہ خیرات کرتا ہوں اور ایک تہائی اس میں سے میں اور میرے گھر والے کھاتے ہیں جبکہ ایک تہائی میں اسی باغ میں لگا دیتا ہوں۔
مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کرنے کی فضلیت کے بیان میں
احمد بن عبدہ ضبی، ابوداؤد، عبدالعزیز بن ابوسلمہ، عبید ابن عمیر لیثی، ابوہریرہ (رض) حضرت وہب بن کیسان روایت بیان کرتے ہیں سوائے اس کے کہ اس میں اس نے کہا اس میں سے ایک تہائی مسکینوں مانگنے والوں اور مسافروں پر صدقہ کرتا ہوں۔
ریا کاری (دکھلاوے) کی حرمت کے بیان میں
زہیر بن حرب، اسماعیل بن ابراہیم، روح بن قاسم، علاء بن عبدالرحمن بن یعقوب، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ فرماتا ہے کہ میں شرک والوں کے شرک سے بےپرواہوں جو آدمی میرے لئے کوئی ایسا کام کرے کہ جس میں میرے علاوہ کوئی میرا شریک ہو تو میں اسے اور اس کے شرک کو چھوڑ دیتا ہوں۔
ریا کاری (دکھلاوے) کی حرمت کے بیان میں
عمر بن حفص ابن غیاث، ابی اسماعیل بن سمیع، مسلم، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو آدمی لوگوں کو سنانے کے لئے کوئی کام کرے گا تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی ذلت لوگوں کو سنائے گا اور جو آدمی لوگوں کے دکھاوے کے لئے کوئی کام کرے گا تو اللہ تعالیٰ اسے ریاکاروں کی سزا دے گا۔
ریا کاری (دکھلاوے) کی حرمت کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، وکیع، سفیان، سلمہ ابن کہیل حضرت جندب علقی (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو آدمی لوگوں کو سنانے کے لئے کوئی کام کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی ذلت لوگوں کو سنائے گا اور جو آدمی دکھلاوے کے لئے کوئی کام کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی برائیاں لوگوں کو دکھلائے گا۔
ریا کاری (دکھلاوے) کی حرمت کے بیان میں
اسحاق بن ابراہیم، حضرت سفیان اس سند کے ساتھ روایت بیان کرتے ہیں کہ اور اس میں یہ الفاظ زائد ہیں کہ میں نے ان کے علاوہ کسی سے نہیں سنا جو کہتا ہو کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔
ریا کاری (دکھلاوے) کی حرمت کے بیان میں
سعید بن عمرو اشعثی، سفیان، ولید بن حرب، سعید، سلمہ بن کہیل، جندب، حضرت ابن حارث بن ابی موسیٰ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سلمہ (رض) بن کہیل سے سنا وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت جندب سے سنا اور کسی سے نہیں سنا جو کہتا ہو کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے آپ ﷺ فرماتے ہیں ثوری کی روایت کی طرح بیان کی۔
ریا کاری (دکھلاوے) کی حرمت کے بیان میں
ابن ابی عمر سفیان، حضرت الصدوق الامین ولید بن حرب اس سند کے ساتھ روایت بیان کرتے ہیں۔
زبان کی حفاظت کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، بکر ابن مضر، ابن ہاد، محمد بن ابراہیم، عیسیٰ بن طلحہ، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ بندہ ایک ایسی بات کہہ دیتا ہے جس کی وجہ سے وہ دوزخ میں اس قدر اتر جاتا ہے جس قدر کہ مشرق و مغرب کے درمیان فاصلہ ہے۔
زبان کی حفاظت کے بیان میں
محمد بن ابی عمر مکی، عبدالعزیز دراردی یزید بن ہاد، محمد بن ابراہیم، عیسیٰ بن طلحہ، حضرت ابویوہرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا بندہ کوئی ایسی بات کہہ دیتا ہے کہ اس کا نقصان نہیں سمجھتا جبکہ اس کی وجہ سے وہ دوزخ میں اتنی دور جا کر گرتا ہے کہ جتنا مشرق و مغرب کے درمیان فاصلہ ہے۔
جو آدمی دوسروں کو نیکی کا حکم دتیا ہے اور خود نیکی نہ کرتا ہو اور دوسروں کو برائی سے روکتا ہو اور خود برائی کرتا ہو ایسے آدمی کی سزا کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، ابوبکر بن ابی شیبہ، محمد بن عبداللہ بن نمیر، اسحاق بن ابراہیم، ابوکریبی یحییی اسحاق ابومعاویہ اعمش، شقیق، حضرت اسامہ بن زید سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ مجھ سے کہا گیا کیا تم حضرت عثمان کے پاس نہیں جاتے اور ان سے بات نہیں کرتے ؟ حضرت اسامہ نے فرمایا کیا تم خیال کرتے ہو کہ میں حضرت عثمان سے بات نہیں کرتا میں تمہیں سناتا ہوں اللہ کی قسم میں ان سے بات کرچکا ہوں جو بات میں نے اپنے اور ان کے بارے میں کرنا تھی میں وہ بات کھولنا نہیں چاہتا اور میں نہیں چاہتا کہ وہ بات کھولنے والا پہلا میں ہی ہوں اور نہ ہی میں یہ کہتا ہوں کہ کسی کو جو مجھ پر حاکم ہو کہ وہ سب لوگوں سے بہتر ہے رسول اللہ ﷺ کا فرمان سن لینے کے بعد۔ آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن ایک آدمی کو لایا جائے گا اور اسے دوزخ میں ڈال دیا جائے گا جس سے اس کے پیٹ کی آنتیں نکل آئیں گی وہ آنتوں کو لے کر اس طرح گھومے گا جس طرح گدھا چکی کو لے کر گھومتا ہے۔ دوزخ والے اس کے پاس اکٹھے ہو کر کہیں گے، اے فلاں ! تجھے کیا ہوا ؟ (یعنی آج تو کس حالت میں ہے ؟ ) کیا تو لوگوں کو نیکی کا حکم نہیں دیتا اور برائی سے نہیں روکتا تھا ؟ وہ کہے گا : ہاں میں لوگوں تو نیکی کا حکم دیتا تھا لیکن خود اس نیکی پر عمل نہیں کرتا تھا اور لوگوں کو برائی سے منع کرتا تھا لیکن میں خود برائی میں مبتلا تھا۔
جو آدمی دوسروں کو نیکی کا حکم دتیا ہے اور خود نیکی نہ کرتا ہو اور دوسروں کو برائی سے روکتا ہو اور خود برائی کرتا ہو ایسے آدمی کی سزا کے بیان میں
عثمان بن ابی شیبہ، جریر، اعمش، حضرت ابو وائل (رض) سے روایت ہے کہ ہم حضرت اسامہ بن زید کے پاس تھے کہ ایک آدمی نے عرض کیا آپ کو کس چیز نے روکا ہے کہ آپ حضرت عثمان کے پاس جا کر ان سے بات کریں پھر مذکورہ روایت کی طرح روایت نقل کی گئی ہے۔
انسان کو اپنے گناہوں کے اظہار نہ کرنے کی ممانعت کے بیان میں
زہیر بن حرب، محمد بن حاتم، عبد بن حمید، عبد یعقوب بن ابراہیم، ابن اخی، ابن شہاب، سالم، حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ میری ساری امت کے سارے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے سوائے ان گناہوں کے جو اعلانیہ (یعنی کھلم کھُلا گناہوں کے۔ وہ معاف نہیں کئے جائیں گے وہ یہ کہ بندہ رات کو کوئی گناہ کرتا ہے پھر صبح کو اس کا پروردگار اس کے گناہ کی پردہ پوشی کرتا ہے لیکن وہ دوسرے لوگوں سے کہتا ہے : اے فلاں میں نے گزشتہ رات ایسے ایسے گناہ کیا اور رات گزاری پروردگار نے تو اسے چھپایا اور ساری رات پردہ پوشی کی لیکن صبح ہوتے ہی اس نے اس گناہ کو ظاہر کردیا جسے اللہ عزوجل نے چھپایا تھا۔
چھینکنے والے کو جواب دینا اور جمائی لینے کی کراہت کے بیان میں
محمد بن عبداللہ بن نمیر، حفص بن غیاث، سلیمان، حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کے پاس دو آدمیوں نے چھینکا آپ ﷺ نے ان میں سے ایک کو چھینکنے کا جواب دیا اور دوسرے کو جواب نہیں دیا تو اس نے عرض کیا آپ ﷺ فلاں کو چھینکنے کا جواب دیا اور مجھے چھینکنے کا جواب نہیں دیا آپ نے فرمایا اس نے اَلْحَمْدُ لِلَّهِ کہا اور تو نے اَلْحَمْدُ لِلَّهِ نہیں کہا۔
چھینکنے والے کو جواب دینا اور جمائی لینے کی کراہت کے بیان میں
ابوکریب، ابوخالد احمر، سلیمان، حضرت انس نے نبی ﷺ سے مذکورہ حدیث کی طرح روایت نقل کی ہے۔
چھینکنے والے کو جواب دینا اور جمائی لینے کی کراہت کے بیان میں
زہیر بن حرب، محمد بن عبداللہ بن نمیر، زہیر، قاسم بن مالک، عاصم بن کلیب (رض) حضرت ابوبردہ (رض) سے روایت ہے کہ میں حضرت ابوموسی کے پاس گیا تو وہ حضرت فضل بن عباس کی بیٹی کے گھر میں تھے مجھے چھینک آئی تو انہوں نے مجھے جواب نہ دیا اور فضل بن عباس (رض) کی بیٹی کو چھینک آئی تو حضرت ابوموسی نے اسے جواب دے دیا میں اپنی والدہ کے پاس گیا اور انہیں اس کی خبر دی توہ حضرت ابوموسی کے پاس آئیں اور کہنے لگی آپ نے میرے بیٹے کو چھینک کا جواب کیوں نہیں دیا۔ ابوموسی نے کہا اس نے اَلْحَمْدُ لِلَّهِ نہیں کہا۔
چھینکنے والے کو جواب دینا اور جمائی لینے کی کراہت کے بیان میں
محمد بن عبداللہ بن نمیر، وکیع، عکرمہ بن عمار، ایاس بن سلمہ بن اکوع، اسحاق بن ابراہیم، ابونضر ہاشم بن قاسم، عکرمہ بن عمار، حضرت ایاس بن سلمہ بن اکوع (رض) بیان فرماتے ہیں کہ ان کے باپ نے بیان فرمایا کہ انہوں نے نبی ﷺ سے سنا کہ ایک آدمی نے آپ ﷺ کے پاس چھینکا تو آپ نے اس کے لئے دعا فرمائی یرحمک اللہ پھر اس آدمی نے دوسری مرتبہ چھینکا تو رسول اللہ ﷺ نے اس آدمی کے بارے میں فرمایا اسے تو زکام ہے۔
چھینکنے والے کو جواب دینا اور جمائی لینے کی کراہت کے بیان میں
یحییٰ بن ایوب، قتیبہ بن سعید، علی بن حجر سعدی، اسماعیل ابن جعفر، علاء، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جمائی کا آنا شیطان کی طرف سے ہے تو جب تم میں سے کسی آدمی کو جمائی آئے تو جس قدر ہو سکے اسے روکے۔
چھینکنے والے کو جواب دینا اور جمائی لینے کی کراہت کے بیان میں
ابوغسان، مالک بن عبدالواحد، بشر بن مفضل، سہیل بن ابوصالح، حضرت ابوسعید (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کسی آدمی کو جمائی آئے تو اسے چاہئے کہ وہ اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر اسے روکے کیونکہ شیطان اندر داخل ہوجاتا ہے۔
چھینکنے والے کو جواب دینا اور جمائی لینے کی کراہت کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، عبدالعزیز سہیل بن حضرت عبدالرحمن بن ابی سعید (رض) اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کسی آدمی کو جمائی آئے تو اسے چاہئے کہ اپنے ہاتھ سے اس کو روکے کیونکہ شیطان اندر داخل ہوجاتا ہے۔
چھینکنے والے کو جواب دینا اور جمائی لینے کی کراہت کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، وکیع، سفیان، سہیل بن ابوصالح، ابن ابوسعید خدری (رض) اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کسی آدمی کو جمائی تو اسے چاہئے کہ اپنے ہاتھ سے اس کو روکے کیونکہ شیطان اندر داخل ہوجاتا ہے۔
چھینکنے والے کو جواب دینا اور جمائی لینے کی کراہت کے بیان میں
عثمان بن ابی شیبہ، جریر، سہیل ابن ابوسعید، حضرت ابوسعید (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا (اور پھر) بشر اور عبدالعزیز کی روایت کی طرح نقل کیا ہے۔
متفرق احادیث مبارکہ کے بیان میں
محمد بن رافع، عبد بن حمید عبد ابن رافع، سیدہ عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا فرشتوں کو نور سے پیدا کیا گیا ہے اور جنوں کو آگ کی لپٹ سے پیدا کیا گیا ہے اور حضرت آدم کو اس چیز سے (جس کا ذکر قرآن مجید میں) کیا گیا ہے۔
اس بات کے بیان میں کہ چوہا مسخ شدہ ہے۔
اسحاق بن ابراہیم، محمد بن مثنی، محمد بن عبداللہ رزی، ثقفی، ابن مثنی، عبدالوہاب، خالد، محمد بن سیرین، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بنی اسرائیل کا ایک گروہ گم ہوگیا تھا اور یہ پتہ نہیں لگ رہا تھا کہ وہ کہاں گیا ہے اور میرا خیال ہے کہ وہ (مسخ شدہ) چوہے ہیں کیا تم یہ نہیں دیکھتے کہ جب چوہوں کے سامنے اونٹوں کا دودھ رکھا جاتا ہے تو وہ اسے نہیں پیتے اور جب ان کے سامنے بکریوں کا دودھ رکھا جاتا ہے تو وہ پی لیتے ہیں حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے یہ حدیث حضرت کعب (رض) سے بیان کی تو انہوں نے فرمایا کیا تو نے یہ حدیث رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے میں نے کہا ہاں انہوں نے باربار یہی پوچھا تو میں نے کہا کیا آپ نے تو راہ پڑھی ہے اسحاق نے اپنی روایت میں کہا ہے کہ ہم نہیں جانتے کہ اس گروہ کا کیا ہوا۔
اس بات کے بیان میں کہ چوہا مسخ شدہ ہے۔
ابوکریب محمد بن علاء، ابواسامہ، ہشام، محمد، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ چوہا مسخ شدہ ہے اور اس بات کی نشانی یہ ہے کہ جب چوہے کے سامنے بکری کا دودھ رکھا جاتا ہے تو وہ اسے پی جاتا ہے اور اونٹوں کا دودھ رکھا جائے تو اسے نہیں پیتا حضرت کعب نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے فرمایا کیا تم نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا تو کیا میرے اوپر تورات نازل ہوئی تھی ؟
اس بات کے بیان میں کہ مومن ایک سوراخ سے دو مرتبہ نہیں ڈسا جا سکتا
قتیبہ بن سعید، لیث، عقیل، زہری، ابن مسیب، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا مومن ایک سوارخ سے دو مرتبہ نہیں ڈسا جاسکتا۔
اس بات کے بیان میں کہ مومن ایک سوراخ سے دو مرتبہ نہیں ڈسا جا سکتا
ابوطاہر، حرملہ، ابن وہب، یونس، زہیر بن حرب، محمد بن حاتم، یعقوب بن ابراہیم، ابن اخی ابن شہاب، ابن مسیب، حضرت ابوہریرہ (رض) نے نبی ﷺ سے مذکورہ حدیث کی طرح روایت نقل کی ہے۔
ت اس بات کے بیان میں کہ مومن کے ہر معاملے میں خیر ہی خیر ہے۔
ہداب بن خالد ازدی، شیبان بن فروخ، سلیمان بن مغیرہ، شیبان، سلیمان، ثابت، عبدالرحمن ابن ابی لیلی حضرت صہیب سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مومن آدمی کا بھی عجیب حال ہے کہ اس کے ہر حال میں خیر ہی خیر ہے اور یہ بات کسی کو حاصل نہیں سوائے اس مومن آدمی کے کہ اگر اسے کوئی تکلیف بھی پہنچی تو اسے نے شکر کیا تو اس کے لئے اس میں بھی ثواب ہے اور اگر اسے کوئی نقصان پہنچا اور اس نے صبر کیا تو اس کے لئے اس میں بھی ثواب ہے۔
کسی کی اس قدر زیادہ تعریف کرنے کی ممانعت کے بیان میں کہ جس کی وجہ سے اس کے فتنہ میں پڑنے کا خطرہ ہو۔
یحییٰ بن یحیی، یزید بن زریع، خالد حذاء، حضرت عبدالرحمن بن بکرہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی ﷺ کے پاس کسی دوسرے آدمی کی تعریف بیان کی تو آپ نے فرمایا تجھ پر افسوس ہے کہ تو نے اپنے بھائی کی گردن کاٹ دی تو نے اپنے بھائی کی گردن کاٹ دی کئی مرتبہ آپ ﷺ نے اسے دہرایا کہ جب تم میں سے کوئی آدمی اپنے ساتھی کی تعریف ہی کرنا چاہئے تو اسے چاہئے کہ وہ ایسے کہے میرا گمان ہے اور اللہ خوب جانتا ہے اور میں اس کے دل کا حال نہیں جانتا انجام کا علم اللہ ہی کو ہے کہ وہ ایسے ایسے ہے۔
کسی کی اس قدر زیادہ تعریف کرنے کی ممانعت کے بیان میں کہ جس کی وجہ سے اس کے فتنہ میں پڑنے کا خطرہ ہو۔
محمد بن عمرو، عباد بن جبلہ بن ابی رواد، محمد بن جعفر، ابوبکر بن نافع، غندر، شعبہ، خالد، حضرت عبدالرحمنن بن ابی بکرہ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ کے پاس ایک آدمی کا ذکر کیا گیا ایک آدمی نے عرض کیا اے اللہ کے رسول فلاں فلاں کام میں رسول اللہ کے بعد کوئی بھی اس سے بہتر نہیں ہے تو نبی ﷺ نے فرمایا تجھ پر افسوس ہے کہ تو نے اپنے ساتھی کی گردن کاٹ دی آپ نے یہ جملہ کئی مرتبہ دہرایا پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر تم میں سے کوئی آدمی اپنے بھائی کی تعریف ضرور ہی کرنا چاہے تو اسے چاہے کہ وہ فرمائے میں گمان کرتا ہوں کہ وہ ایسا ہی ہے اور وہ اس پر یہ بھی رائے رکھے کہ میں اللہ کے مقابلے میں کسی کو بہتر نہیں سمجھتا۔
کسی کی اس قدر زیادہ تعریف کرنے کی ممانعت کے بیان میں کہ جس کی وجہ سے اس کے فتنہ میں پڑنے کا خطرہ ہو۔
عمرو ناقد، ہاشم بن قاسم، ابوبکر بن ابی شیبہ، شبابہ بن قاسم، ابوبکر بن حضرت شعبہ (رض) سے اس سند کے ساتھ یزید بن زریع کی روایت کی طرح روایت نقل کی گئی ہے صرف لفظی تبدیلی کا فرق ہے۔
کسی کی اس قدر زیادہ تعریف کرنے کی ممانعت کے بیان میں کہ جس کی وجہ سے اس کے فتنہ میں پڑنے کا خطرہ ہو۔
ابوجعفر محمد بن صباح، اسمعل بن زکریا، برید بن عبداللہ بن ابوبردہ (رض) حضرت ابوموسی (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ایک آدمی سے کسی آدمی کے بارے میں بہت زیادہ تعریف سنی تو آپ نے فرمایا تم نے اسے ہلاک کردیا یا تم نے اس آدمی کی پشت کاٹ دی۔
کسی کی اس قدر زیادہ تعریف کرنے کی ممانعت کے بیان میں کہ جس کی وجہ سے اس کے فتنہ میں پڑنے کا خطرہ ہو۔
ابوبکر بن ابی شیبہ، محمد بن مثنی، ابن مہدی، عبدالرحمن، سفیان، حبیب، مجاہد، حضرت ابومعمر (رض) سے روایت ہے کہ ایک آدمی کھڑا ہوا اور وہ امیروں میں سے ایک آدمی کی بڑی تعریف کرنے لگا تو حضرت مقداد اس آدمی کے منہ پر مٹی ڈالنے لگے اور فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم فرمایا کہ بہت زیادہ تعریف کرنے والے کے چہروں پر مٹی ڈال دیں۔
کسی کی اس قدر زیادہ تعریف کرنے کی ممانعت کے بیان میں کہ جس کی وجہ سے اس کے فتنہ میں پڑنے کا خطرہ ہو۔
محمد بن مثنی، محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبی، منصور، ابراہیم، حضرت ہمام بن حارث سے روایت ہے کہ ایک آدمی حضرت عثمان کی تعریف کرنے لگا تو حضرت مقداد اپنے گھنٹوں کے بل بیٹھے اور وہ ایک بھاری بدن آدمی تھے تو اس تعریف کرنے والے آدمی کے چہرے میں کنکریاں ڈالنے لگے تو حضرت عثمان (رض) نے حضرت مقداد سے فرمایا تجھے کیا ہوگیا ہے حضرت مقداد نے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اب تم تعریف کرنے والوں کو دیکھو تو ان کے چہروں میں مٹی ڈال دو ۔
کسی کی اس قدر زیادہ تعریف کرنے کی ممانعت کے بیان میں کہ جس کی وجہ سے اس کے فتنہ میں پڑنے کا خطرہ ہو۔
محمد بن مثنی، ابن بشار، عبدالرحمن، سفیان، منصور، عثمان بن ابی شیبہ، اشجعی، عبیداللہ بن عبیدالرحمن، سفیان، اعمش، منصور، ابراہیم، ہمام، حضرت مقداد نے نبی ﷺ سے مذکورہ حدیث کی طرح روایت نقل کی ہے۔
(کوئی چیز) بڑے کو دینے کے بیان میں
نصر بن علی، ابی صخر، ابن جویریہ، نافع، ابن عمر (رض) بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں نے خواب دیکھا کہ میں مسواک کر رہا ہوں تو دو آدمیوں نے مجھے کھینچا ان میں سے ایک دوسرے سے بڑا تھا تو میں نے مسواک چھوٹے کو دے دی تو مجھے سے کہا گیا کہ مسواک بڑے کو دو تو پھر میں نے چھوٹے سے لے کر بڑے کو دے دی۔
حدیث مبارکہ کو سمجھ کر پڑھنے اور علم کے لکھنے کے حکم کے بیان میں
ہارون بن معروف، سفیان بن عیینہ، حضرت ہشام اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ (رض) حدیث بیان فرمایا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے سن حجرہ والی سن اے حجرہ والی سن اور سیدہ عائشہ (رض) نماز پڑھ رہی تھیں پھر جب وہ نماز پڑھ کر فارغ ہوگئیں تو حضرت عائشہ (رض) نے حضرت عروہ (رض) سے فرمایا کیا تو نے حضرت ابوہریرہ (رض) کی وہ حدیثیں نہیں سنی کہ جو نبی ﷺ حدیث بیان فرمایا کرتے تھے اور اگر کوئی شمار کرنے والا آدمی انہیں شمار کرنا چاہتا تو انہیں شمار کرلیتا۔
حدیث مبارکہ کو سمجھ کر پڑھنے اور علم کے لکھنے کے حکم کے بیان میں
ہداب بن خالد ازدی، ہمام، زید بن اسلم، عطاء ابن یسار، حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم مجھ سے کوئی بات نہ لکھو اور جس آدمی نے قرآن مجید کے علاوہ مجھ سے کچھ سن کر لکھا ہے تو وہ اس مٹا دے اور مجھ سے (سنی ہوئی احادیث) بیان کرو اس میں کوئی گناہ نہیں اور جس آدمی نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ باندھا تو اسے چاہئے کہ وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔
اصحاب الاخددو (یعنی خندق والے) اور جادوگر اور ایک اور غلام کے واقعہ کے بیان میں
ہداب بن خالد، حماد بن سلمہ، ثابت بن عبدالرحمن بن ابی لیلی، صہیب، حضرت صہیب سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم سے پہلے ایک بادشاہ تھا جس کے پاس ایک جادوگر تھا جب وہ جادوگر بوڑھا ہوگیا تو اس نے بادشاہ سے کہا کہ اب میں بوڑھا ہوگیا ہوں تو آپ میرے ساتھ ایک لڑکے کو بھیج دیں تاکہ میں اسے جادو سکھا سکوں تو بادشاہ نے ایک لڑکا جادو سیکھنے کے لئے جادوگر کی طرف بھیج دیا جب وہ لڑکا چلا تو اس کے راستے میں ایک راہب تھا تو وہ لڑکا اس راہب کے پاس بیٹھا اور اس کی باتیں سننے لگا جو کہ اسے پسند آئیں پھر جب بھی وہ جادوگر کے پاس آتا اور راہب کے پاس سے گزرتا تو اس کے پاس بیٹھتا (اور اس کی باتیں سنتا) اور جب وہ لڑکا جادوگر کے پاس آتا تو وہ جادوگر اس لڑکے کو (دیر سے آنے کی وجہ سے) مارتا تو اس لڑکے نے اس کی شکایت راہب سے کی تو راہب نے کہا کہ اگر تجھے جادوگر سے ڈر ہو تو کہہ دیا کر کہ مجھے میرے گھر والوں نے روک لیا تھا اور جب تجھے گھر والوں سے ڈر ہو تو تو کہہ دیا کر کہ مجھے جادوگر نے روک لیا تھا۔ اسی دوران ایک بہت بڑے درندے نے لوگوں کا راستہ روک لیا (جب لڑکا اس طرف آیا) تو اس نے کہا میں آج جاننا چاہوں گا کہ جادوگر افضل ہے یا راہب افضل ہے اور پھر ایک پتھر پکڑا اور کہنے لگا اے اللہ اگر تجھے جادوگر کے معاملہ سے راہب کا معاملہ زیادہ پسند یدہ ہے تو اس درندے کو مار دے تاکہ لوگوں کا آنا جانا ہو اور پھر وہ پتھر اس درندے کو مار کر اسے قتل کردیا اور لوگ گزرنے لگے پھر وہ لڑکا راہب کے پاس آیا اور اسے اس کی خبر دی تو راہب نے اس لڑکے سے کہا اے میرے بیٹے آج تو مجھ سے افضل ہے کیونکہ تیرا معاملہ اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ جس کی وجہ سے تو عنقریب ایک مصیبت میں مبتلا کردیا جائے گا پھر اگر تو (کسی مصیبت میں) مبتلا کردیا جائے تو کسی کو میرا نہ بتانا اور وہ لڑکا مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو صحیح کردیتا تھا بلکہ لوگوں کا ساری بیماری سے علاج بھی کردیتا تھا بادشاہ کا ایک ہم نشین اندھا ہوگیا اس نے لڑکے کے بارے میں سنا تو وہ بہت سے تحفے لے کر اس کے پاس آیا اور اسے کہنے لگا کہ اگر تم مجھے شفا دے دو تو یہ سارے تحفے جو میں یہاں لے کر آیا ہوں وہ سارے تمہارے لئے ہیں اس لڑکے نے کہا میں تو کسی کو شفا نہیں دے سکتا شفاء تو اللہ تعالیٰ دیتا ہے تو اگر تو اللہ پر ایمان لے آئے تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کروں گا کہ وہ تجھے شفاء دے دے پھر وہ (شخص) اللہ پر ایمان لے آیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے شفاء عطا فرما دی پھر وہ آدمی بادشاہ کے پاس آیا اور اس کے پاس بیٹھ گیا جس طرح کہ وہ پہلے بیٹھا کرتا تھا بادشاہ نے اس سے کہا کہ کس نے تجھے تیری بینائی واپس لوٹا دی اس نے کہا میرے رب نے اس نے کہا کیا میرے علاوہ تیرا اور کوئی رب بھی ہے اس نے کہا میرا اور تیرا رب اللہ ہے پھر بادشاہ اس کو پکڑ کر اسے عذاب دینے لگا تو اس نے بادشاہ کو لڑکے کے بارے میں کہا پھر جب وہ لڑکا آیا تو بادشاہ نے اس لڑکے سے کہا کہ اے بیٹے ! کیا تیرا جادو اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ اب تو مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو بھی صحیح کرنے لگ گیا ہے اور ایسے ایسے کرتا ہے ؟ لڑکے نے کہا میں تو کسی کو شفا نہیں دیتا بلکہ شفاء تو اللہ تعالیٰ دیتا ہے بادشاہ نے اسے پکڑ کر عذاب دیا یہاں تک کہ اس نے راہب کے بارے میں بادشاہ کو بتادیا راہب آیا تو اس سے کہا گیا کہ تو اپنے مذہب سے پھر جا، راہب نے انکار کردیا پھر بادشاہ نے آرا منگوایا اور اس راہب کے سر پر رکھ کر اس کا سر چیر کر اس کے دو ٹکڑے کر دئیے پھر بادشاہ کے ہم نشین کو لایا گیا اور اس سے بھی کہا گیا کہ تو اپنے مذہب سے پھر جا اس نے بھی انکار کردیا بادشاہ نے اس کے سر پر بھی آرا رکھ کر سر کو چیر کر اس کے دو ٹکڑے کروا دئیے پھر اس لڑکے کو بلوایا گیا وہ آیا تو اس سے بھی یہی کہا گیا کہ اپنے مذہب سے پھر جا اس نے بھی انکار کردیا تو بادشاہ نے اس لڑکے کو اپنے کچھ ساتھیوں کے حوالے کرکے کہا اسے فلاں پہاڑ پر لے جاؤ اور اسے اس پہاڑ کی چوٹی پر چڑھاؤ اگر یہ اپنے مذہب سے پھر جائے تو اسے چھوڑ دینا اور اگر انکار کر دے تو اسے پہاڑ کی چوٹی سے نیچے پھینک دینا چناچہ بادشاہ کے ساتھی اس لڑکے کو پہاڑ کی چوٹی پر لے گئے تو اس لڑکے نے کہا اے اللہ تو مجھے ان سے کافی ہے جس طرح تو چاہے مجھے ان سے بچا لے اس پہاڑ پر فورا ایک زلزلہ آیا جس سے بادشاہ کے وہ سارے ساتھی گرگئے اور وہ لڑکاچلتے ہوئے بادشاہ کی طرف آگیا بادشاہ نے اس لڑکے سے پوچھا کہ تیرے ساتھیوں کا کیا ہوا لڑکے نے کہا اللہ پاک نے مجھے ان سے بچا لیا ہے بادشاہ نے پھر اس لڑکے کو اپنے ساتھیوں کے حوالے کر کے کہا اسے ایک چھوٹی کشتی میں لے جا کر سمندر کے درمیان میں پھینک دینا اگر یہ اپنے مذہب سے نہ پھرے بادشاہ کے ساتھی اس لڑکے کو لے گئے تو اس لڑکے نے کہا اے اللہ تو جس طرح چاہے مجھے ان سے بچا لے پھر وہ کشتی بادشاہ کے ان ساتھیوں سمیت الٹ گئی اور وہ سارے کے سارے غرق ہوگئے اور وہ لڑکا چلتے ہوئے بادشاہ کی طرف آگیا بادشاہ نے اس لڑکے سے کہا تیرے ساتھیوں کا کیا ہوا اس نے کہا اللہ تعالیٰ نے مجھے ان سے بچا لیا ہے پھر اس لڑکے نے باشاہ سے کہا تو مجھے قتل نہیں کرسکتا جب تک کہ اس طرح نہ کرو جس طرح کہ میں تجھے حکم دوں بادشاہ نے کہا وہ کیا ؟ اس لڑکے نے کہا سارے لوگوں کو ایک میدان میں اکٹھا کرو اور مجھے سولی کے تختے پر لٹکاؤ پھر میرے ترکش سے ایک تیر کو پکڑو پھر اس تیر کو کمان کے حلہ میں رکھو اور پھر کہو اس اللہ کے نام سے جو اس لڑکے کا رب ہے پھر مجھے تیر مارو اگر تم اس طرح کرو تو مجھے قتل کرسکتے ہو پھر بادشاہ نے لوگوں کو ایک میدان میں اکٹھا کیا اور پھر اس لڑکے کو سولی کے تختے پر لٹکا دیا پھر اس کے ترکش میں سے ایک تیر لیا پھر اس تیر کو کمان کے حلہ میں رکھ کر کہا اس اللہ کے نام سے جو اس لڑکے کا رب ہے پھر وہ تیر اس لڑکے کو مارا تو وہ تیر اس لڑکے کی کنپٹی میں جا گھسا تو لڑکے نے اپنا ہاتھ تیر لگنے والی جگہ پر رکھا اور مرگیا تو سب لوگوں نے کہا ہم اس لڑکے کے رب پر ایمان لائے ہم اس لڑکے کے رب پر ایمان لائے ہم اس لڑکے کے رب پر ایمان لائے، بادشاہ کو اس کی خبر دی گئی اور اس سے کہا گیا تجھے جس بات کا ڈر تھا اب وہی بات آن پہنچی کہ لوگ ایمان لے آئے تو پھر بادشاہ نے گلیوں کے دھانوں پر خندق کھودنے کا حکم دیا پھر خندق کھودی گئی اور ان خندقوں میں آگ جلا دی گئی بادشاہ نے کہا جو آدمی اپنے مذہب سے پھرنے سے باز نہیں آئے گا تو میں اس آدمی کو اس خندق میں ڈلوا دوں گا تو انہیں خندق میں ڈال دیا گیا یہاں تک کہ ایک عورت آئی اور اس کے ساتھ ایک بچہ بھی تھا وہ عورت خندق میں گرنے سے گھبرائی تو اس عورت کے بچے نے کہا اے امی جان صبر کر کیونکہ تو حق پر ہے۔
حضرت ابوالیسر (رض) کا واقعہ اور حضرت جابر (رض) کی لمبی حدیث کے بیان میں
ہارون بن معروف، محمد بن عباد، ہارون، حاتم ابن اسماعیل، یعقوب بن مجاہد، ابی حزرہ عباد بن ولید بن حضرت عبادہ بن صامت (رض) سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں کہ میں اور میرا باپ علم کے حصول کے لئے قبیلہ حی میں گئے یہ اس قبیلہ کی ہلاکت سے پہلے کی بات ہے تو سب سے پہلے ہماری ملاقات رسول اللہ ﷺ کے صحابی حضرت ابوالیسر سے ہوئی حضرت ابوالیسر کے ساتھ ان کا غلام بھی تھا جس کے پاس صحیفوں کا ایک بستہ تھا حضرت ابوالیسر ایک چادر اوڑھے ہوئے تھے اور مغافری کپڑے پہنے ہوئے تھے اور حضرت ابوالیسر کے غلام پر بھی ایک چادر تھی اور وہ بھی مغافری کپڑے پہنے ہوئے تھا (حضرت عبید اللہ) فرماتے ہیں کہ میرے باپ نے ان سے کہا اے چچا میں آپ کے چہرے پر ناراضگی کے اثرات دیکھ رہا ہوں انہوں نے فرمایا فلاں بن فلاں حرامی کے اوپر میرا کچھ مال تھا میں اس کے گھر گیا اور میں نے سلام کیا اور میں نے کہا کیا کوئی شخص ہے ؟ گھر والوں نے کہا نہیں اسی دوران جفر کا بیٹا باہر نکلا میں نے اس سے پوچھا تیرا باپ کہاں ہے اس نے کہا آپ کی آواز سن کر میری ماں کے چھپر کھٹ میں داخل ہوگیا ہے پھر میں نے کہا میری طرف باہر نکل مجھے معلوم ہوگیا ہے کہ تو کہاں ہے پھر وہ باہر نکلا تو میں نے اس سے کہا تو مجھ سے چھپا کیوں تھا اس نے کہا اللہ کی قسم میں آپ سے بیان کرتا ہوں اور آپ سے جھوٹ نہیں کہوں گا کہ اللہ کی قسم مجھے آپ سے جھوٹ کہتے ہوئے ڈر لگا اور مجھے آپ سے وعدہ کرنے کے بعد اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے خوف معلوم ہوا کیونکہ آپ رسول اللہ کے صحابی ہیں اور اللہ کی قسم میں ایک تنگ دست آدمی ہوں حضرت ابوالیسر فرماتے ہیں کہ میں نے کہا کیا تو اللہ کو حاظر وناظر جان کر کہتا ہے اس نے کہا میں اللہ کو حاضر وناظر جان کر کہتا ہوں حضرت ابوالیسر نے فرمایا کیا تو اللہ کو حاضر وناظر جان کر کہتا ہے اس نے کہا میں اللہ کر حاضر وناظر جان کر کہتا ہوں حضرت ابوالیسر نے پھر فرمایا کیا تو اللہ کو حاضر وناظر جان کر کہتا ہے اس نے کہا میں اللہ کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں حضرت ابوالیسر نے وہ کاغذ (جس پا قرض لکھا ہوا تھا) منگوا کر اپنے ہاتھ سے اسے مٹا دیا اور فرمایا اگر تو (مال) پائے تو اسے ادا کردینا ورنہ میں تجھے معاف کرتا ہوں اپنی آنکھوں پر دو انگلیاں رکھ کر فرمایا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میری ان آنکھوں نے دیکھا اور میرے ان دونوں کانوں نے سنا اور میرے اس دل نے اس کو یاد رکھا کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں جو آدمی کسی تنگ دست کو مہلت دے یا اس سے اس کا قرض معاف کر دے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے سائے میں جگہ عطا فرمائے گا۔
حضرت ابوالیسر (رض) کا واقعہ اور حضرت جابر (رض) کی لمبی حدیث کے بیان میں
حضرت ابوالیسر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے ان سے کہا اے چچا اگر آپ اپنے غلام کی چادر لے لیتے اور اپنے معافری کپڑے اسے دے دیتے یا اس کے معافری کپڑے لے لیتے اور اپنی چادر اسے دے دیتے تو آپ کا بھی جوڑا پورا ہوجاتا اور آپ کے غلام کا بھی جوڑا پورا ہوجاتا حضرت ابوالیسر نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا اے اللہ اسے برکت عطا فرما پھر فرمایا اے بھتیجے میری ان دونوں آنکھوں نے دیکھا اور میرے ان دونوں کانوں نے سنا اور میرے اس دل نے یاد رکھا (اور انہوں نے اپنے دل کی طرف اشارہ کیا) کہ رسول اللہ فرماتے ہیں کہ ان کو وہی کچھ کھلاؤ جو کچھ تم خود کھاتے ہو اور ان کو وہی کچھ پہناؤ جو کچھ تم خود پہنتے ہوں اور اگر میں اسے دنیا کا مال و متاع دے دوں میرے لئے اس سے زیادہ آسان ہے کہ قیامت کے دن یہ میری نیکیاں لے (یعنی دنیا میں ہی سب کچھ دینا آسان ہے ورنہ قیامت کے دن نیکیاں دینی پڑیں گی) ۔
حضرت ابوالیسر (رض) کا واقعہ اور حضرت جابر (رض) کی لمبی حدیث کے بیان میں
عبادہ بن صامت فرماتے ہیں کہ حضرت ابوالیسر کے پاس سے چلے یہاں تک کہ ہم حضرت جابر بن عبداللہ (رض) کے پاس ان کی مسجد میں آگئے اور وہ ایک کپڑا اوڑھے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے میں لوگوں کی گردنیں پھلانگتا ہوا حضرت جابر (رض) اور قبلہ کے درمیان حائل ہو کر بیٹھ گیا پھر میں نے کہا اللہ آپ پر رحم فرمائے کیا آپ ایک ہی کپڑا اوڑھے ہوئے نماز پڑھ رہے ہیں حالانکہ آپ کے پہلو میں ایک چادر رکھی ہوئی ہے حضرت جابر نے اپنی ہاتھ کی انگلیاں کھول کر (قوس نما شکل بنا کر) میرے سینے پر ماریں اور پھر فرمایا میں نے یہ اس لئے کیا ہے کہ جب تیری طرح کا کوئی احمق میری طرف آئے تو وہ مجھے اس طرح کرتے ہوئے دیکھے تاکہ وہ بھی اسی طرح کرے کیونکہ ایک مرتبہ آپ ﷺ اسی مسجد میں تشریف لائے اس حال میں کہ آپ ﷺ کے ہاتھ مبارک میں ابن طاب کی لکڑی تھی تو آپ ﷺ نے مسجد کی قبلہ رخ والی دیوار میں ناک کی کچھ بلغم سی لگی ہوئی دیکھی تو آپ نے اسے لکڑی سے کھرچ دیا پھر ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا تم میں سے کون اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے رو گردانی کرے راوی کہتے ہیں کہ ہم گھبراگئے پھر آپ ﷺ نے فرمایا تم میں کون اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اللہ اس سے رو گردانی کرے ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ہم میں سے کوئی بھی یہ پسند نہیں کرتا آپ ﷺ نے فرمایا اگر تم میں سے کوئی آدمی جب بھی نماز پڑھنے کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو اللہ تبارک وتعالی اس کے سامنے ہوتا ہے لہذا تم میں سے کوئی بھی اپنے منہ کے سامنے نہ تھوکے بلکہ اپنی بائیں طرف اپنے بائیں پاؤں کے نیچے تھوکے اور اگر تھوک نہ رکے تو وہ کپڑے کو لے کر اس طرح کرے پھر آپ ﷺ نے کپڑے کو لپیٹ کر اور اسے مسل کر دکھایا پھر آپ ﷺ نے فرمایا کوئی خوشبو لاؤ پھر قبیلہ حی کا ایک نوجوان کھڑا ہو اور دوڑتا ہوا اپنے گھر کی طرف گیا اور وہ اپنی ہتھیلی پہ کچھ خوشبو رکھ کرلے آیا پھر رسول اللہ ﷺ نے وہ خوشبو لکڑی کی نوک پر لگائی اور پھر اسے ناک کی ریزش والی جگہ پر لگائی (جہاں سے آپ ﷺ نے ناک کی ریزش گندگی وغیرہ کھرچی تھی) اور اسے مل دیا دیا حضرت جابر فرماتے ہیں کہ تم لوگ اسی وجہ سے اپنی مسجدوں میں خوشبو لگاتے ہو۔
حضرت ابوالیسر (رض) کا واقعہ اور حضرت جابر (رض) کی لمبی حدیث کے بیان میں
جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں، کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ بطن بواط کے غزوہ میں چلے اور آپ ﷺ مجدی بن عمرو جہنی کی تلاش میں تھے اور ہمارا یہ حال تھا کہ ہم پانچ اور چھ اور سات آدمیوں میں ایک اونٹ تھا جس پر ہم باری باری سواری کرتے تھے اس اونٹ پر ایک انصار آدمی کی سواری کی باری آئی تو اس نے اونٹ بٹھایا اور پھر اس پر چڑھا اور پھر اسے اٹھایا اس نے کچھ شوخی دکھائی تو انصاری نے کہا اللہ تجھ پر لعنت کرے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ اپنے اونٹ پر لعنت کرنے والا کون ہے ؟ انصاری نے عرض کیا میں ہوں اے اللہ کے رسول آپ ﷺ نے فرمایا اس سے نیچے اتر جا اور ہمارے ساتھ کوئی لعنت کیا ہوا اونٹ نہ رہے کہ اپنی جانوں کے خلاف بد دعا نہ کیا کرو اور نہ ہی اپنی اولاد کے خلاف بددعا کیا کرو اور نہ ہی اپنے مالوں کے خلاف بد دعا کیا کرو کیونکہ ممکن ہے کہ وہ بد دعا ایسے وقت میں مانگی جائے کہ جب اللہ تعالیٰ سے کچھ مانگا جاتا ہو اور تمہیں عطا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ تمہاری وہ دعا قبول فرمالے۔
حضرت ابوالیسر (رض) کا واقعہ اور حضرت جابر (رض) کی لمبی حدیث کے بیان میں
جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ کے ساتھ چلے یہاں تک کہ جب شام ہوگئی اور ہم عرب کے پانیوں میں سے کسی پانی کے قریب ہوگئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کون آدمی ہے کہ جو ہم سے پہلے جا کر حوض کو درست کرے اور خود بھی پانی پئے اور ہمیں بھی پانی پلائے حضرت جابر فرماتے ہیں کہ میں کھڑا ہوا اور میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! یہ آدمی (آگے جائے گا) ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جابر کے ساتھ کون آدمی جائے گا تو جبار بن صخر کھڑے ہوئے پھر ہم دونوں ایک کنوئیں کی طرف چلے اور ہم نے حوض میں ایک ڈول یا دو ڈول ڈالے پھر اسے بھر دیا پھر سب سے پہلے رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے آپ ﷺ نے فرمایا کیا تم اجازت دیتے ہو ہم نے عرض کیا جی ہاں اے اللہ کے رسول پھر آپ ﷺ نے اپنی اونٹنی کو چھوڑا اور اس نے پانی پیا پھر آپ ﷺ نے اس اونٹنی کی باگ کھینچی تو اس نے پانی پینا بند کردیا اور اس نے پیشاب کیا پھر آپ ﷺ نے اسے علیحدہ لے جا کر بٹھا دیا پھر رسول اللہ ﷺ حوض کی طرف آئے آپ نے اس سے وضو فرمایا پھر میں کھڑا ہوا اور اس جگہ سے وضو کیا کہ جس جگہ سے رسول اللہ ﷺ نے وضو فرمایا تھا اور جبار بن صخر قضائے حاجت کے لئے چلے گئے اور رسول اللہ نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہوگئے اور میرے اوپر ایک چادر تھی جو کہ چھوٹی تھی میں نے اس کے دونوں کناروں کو پلٹا تو وہ میرے کندھوں تک نہیں پہنچی تھی پھر میں نے اسے اوندھا کیا اور اس کے دونوں کناروں کو پلٹا کر اسے اپنی گردن پر باندھا پھر میں آکر رسول اللہ ﷺ کے بائیں طرف کھڑا ہوگیا تو آپ ﷺ نے میرا ہاتھ پکڑ کر اور گھما کر مجھے اپنی دائیں طرف کھڑا کردیا پھر جبار بن صخر آئے انہوں نے وضو کیا پھر وہ آئے اور رسول اللہ ﷺ کے بائیں طرف کھڑے ہوگئے تو رسول اللہ ﷺ نے ہم دونوں کے ہاتھوں کو پکڑ کر پیچھے ہٹا کر اپنے پیچھے کھڑا کیا پھر رسول اللہ ﷺ گھور کر میری طرف دیکھنے لگے جسے میں سمجھ نہ سکا بعد میں سمجھ گیا حضرت جابر فرماتے ہیں کہ آپ نے اپنے ہاتھ مبارک سے اس طرح اشارہ فرمایا کہ اپنی کمر باندھ لے تاکہ تمہارا ستر نہ کھل جائے پھر جب رسول اللہ ﷺ فارغ ہوگئے فرمایا اے جابر میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول میں حاضر ہوں آپ ﷺ نے فرمایا جب تمہاری چادر بڑی ہو تو اس کے دونوں کناروں کو الٹا اور جب چادر چھوٹی ہو تو اسے اپنی کمر پر باندھ لو۔
حضرت ابوالیسر (رض) کا واقعہ اور حضرت جابر (رض) کی لمبی حدیث کے بیان میں
جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں پھر ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ چلے اور ہم میں سے ہر ایک آدمی کو روزانہ ایک کھجور ملتی تھی اور یہی ہماری خوراک تھی اور وہ اس کھجور کو چوستا اور پھر اسے اپنے کپڑے میں لپیٹ کر رکھ لیتا تھا اور ہم اپنی کمانوں سے درختوں کے پتے جھاڑا کرتے تھے اور انہیں کھایا کرتے تھے یہاں تک کہ ہماری باچھیں زخمی ہوگئیں اور کھجوریں تقسیم کرنے والے آدمی سے ایک غلطی ہوگئی ( وہ ہمارے ایک آدمی کو کھجور دینا بھول گیا) تو ہم اس آدمی کو اٹھا کر اس کے پاس لے گئے اور ہم نے گواہی دی کہ اسے کھجور نہیں ملی تو اس نے اس آدمی کو کھجور دے دی تو اس نے کھڑے کھڑے پکڑی اور کھالی۔
حضرت ابوالیسر (رض) کا واقعہ اور حضرت جابر (رض) کی لمبی حدیث کے بیان میں
جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ پھر ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ چلے یہاں تک کہ ہم ایک وسیع وادی میں اترے اور پھر رسول اللہ ﷺ قضائے حاجت کے لئے چلے گئے اور میں ایک ڈول میں پانی لے کر چلا تو آپ نے کوئی آڑ نہ دیکھی جس کی وجہ سے آپ پردہ کرسکیں اس وادی کے کناروں پر دو درخت تھے رسول اللہ ان دونوں درختوں میں سے ایک درخت کی طرف گئے اور اس درخت کی شاخوں میں سے ایک شاخ پکڑی اور فرمایا اللہ کے حکم سے میرے تابع ہوجا تو وہ شاخ آپ ﷺ کے تابع ہوگئی جس طرح کہ وہ اونٹ اپنے کھینچنے والے کے تابع ہوجاتا ہے جس کے نکیل پڑی ہوئی ہو پھر آپ نے دوسرے درخت کی طرف آئے اور اس کی شاخوں میں سے ایک شاخ پکڑ کر فرمایا اللہ کے حکم سے میرے تابع ہوجا تو وہ شاخ بھی اسی طرح آپ کے تابع ہوگئی یہاں تک کہ جب آپ ﷺ دونوں درختوں کے درمیان ہوئے تو دونوں کو ملا کر فرمایا تم دونوں اللہ کے حکم سے آپس میں ایک دوسرے سے جڑ جاؤ تو وہ دونوں جڑ گئے حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ میں اس ڈر سے نکلا کہ کہیں رسول اللہ ﷺ مجھے قریب دیکھ کر دور نہ تشریف لے جائیں میں اپنے آپ سے (یعنی دل میں) بیٹھے بیٹھے باتیں کرنے لگا تو اچانک میں نے دیکھا کہ سامنے سے رسول اللہ ﷺ آرہے ہیں (اور پھر اس کے بعد) وہ دونوں درخت اپنی اپنی جگہ پر جا کر کھڑے ہوگئے اور ہر ایک درخت اپنے تنے پر کھڑا ہوا علیحدہ ہو رہا ہے (حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں) کہ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ کچھ دیر ٹھہرے اور پھر آپ ﷺ نے اپنے سر مبارک سے اس طرح اشارہ فرمایا ابواسمعیل نے اپنے سر سے دائیں اور بائیں اشارہ کر کے بتایا پھر آپ سامنے آئے اور جب آپ میری طرف پہنچے تو فرمایا اے جابر کیا تو نے دیکھا جس جگہ میں کھڑا تھا میں نے عرض کیا جی ہاں اے اللہ کے رسول آپ نے فرمایا دونوں درختوں کے پاس جاؤ اور ان دونوں درختوں میں سے ایک ایک شاخ کاٹ کر لاؤ اور جب اس جگہ آجاؤ جس جگہ میں کھڑا ہوں تو ایک شاخ اپنی دائیں طرف اور ایک شاخ اپنی بائیں طرف ڈال دینا حضرت جابر فرماتے ہیں کہ پھر میں نے کھڑے ہو کر ایک پتھر کو پکڑا اور اسے توڑا اور اسے تیز کیا وہ تیز ہوگیا تو پھر میں ان دونوں درختوں کے پاس آیا تو میں نے ان دونوں درختوں میں سے ہر ایک سے ایک ایک شاخ کاٹی پھر میں ان شاخوں کو کھینچتے ہوئے اس جگہ پر لے آیا جس جگہ رسول اللہ ﷺ کھڑے تھے۔ پھر میں نے ایک شاخ دائیں طرف ڈالی اور دوسری شاخ بائیں طرف ڈالی پھر میں جا کر آپ سے ملا اور میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول جس طرح آپ نے مجھے حکم فرمایا تھا میں نے اسی طرح کردیا ہے کہ لیکن اس کی وجہ کیا ہے آپ ﷺ نے فرمایا میں دو قبروں کے پاس سے گزرا مجھے وحی الٰہی کے ذریعہ پتہ چلا کہ ان قبر والوں کو عذاب دیا جا رہا ہے تو میں نے اس بات کو پسند کیا کہ میں ان کی شفاعت کروں شاید کہ ان سے عذاب ہلکا کردیا جائے جب تک کہ یہ دونوں شاخیں تر رہیں گی۔
حضرت ابوالیسر (رض) کا واقعہ اور حضرت جابر (رض) کی لمبی حدیث کے بیان میں
حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ پھر ہم لشکر میں آئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے جابر لوگوں میں آواز لگا دو کہ وضو کرلیں پھر میں نے آواز لگائی کہ وضو کرلو وضو کرلو وضو کرلو حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول قافلہ میں تو کسی کے پاس پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں ہے اور انصار کا ایک آدمی جو رسول اللہ کے لئے ایک پرانا مشکیزہ جو کہ لکڑی کی شاخوں پر لٹکا ہوا تھا اس میں پانی ٹھنڈا کیا کرتا تھا آپ ﷺ نے فرمایا فلاں بن فلاں انصاری کے پاس جا کر دیکھو کہ اس کے مشکیزے میں پانی ہے یا نہیں میں اس انصاری کی طرف گیا اور اس کے مشکیزے میں دیکھا کہ اس کے منہ میں سوائے ایک قطرے کے اور کچھ بھی نہیں ہے اگر میں اس مشکیزے کو انڈیلوں تو خشک مشکیزہ اسے پی جائے پھر میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول میں نے اس انصاری کے مشکیزے میں سوائے اس ایک قطرہ پانی کے اور کچھ نہیں پایا اگر میں اسے الٹاتا تو خشک مشکیزہ اسے پی لیتا آپ ﷺ نے فرمایا جاؤ اور اس مشکیزے کو میرے پاس لے آؤ پھر میں اس مشکیزہ کو لے کر آیا اور اسے اپنے ہاتھ میں پکڑا پھر آپ ﷺ کچھ بات کرنے لگے میں نہیں جانتا کہ آپ کیا فرما رہے تھے اور آپ ﷺ اپنے ہاتھ مبارک سے اس مشکیزے کو دباتے جاتے پھر وہ مشکیزہ مجھے عطا فرمایا اور فرمایا اے جابر آواز لگاؤ کہ قافلے میں سے کسی کا پانی کا بڑا برتن لایا جائے میں نے آواز لگائی اور بڑا برتن لایا گیا اور لوگ اس برتن کو اٹھا کر لائے میں نے اس بڑے برتن کو آپ کے سامنے رکھ دیا تو رسول اللہ ﷺ نے اس مشکیزے میں اپنا ہاتھ مبارک پھیرا اس طرح سے پھیلا کر اور انگلیوں کو کھلا کر کے اس مشکیزے کی تہ میں اپنا ہاتھ مبارک رکھا اور آپ ﷺ نے فرمایا اے جابر پکڑ اور بسم اللہ کہہ کر میرے ہاتھوں پر پانی ڈال۔ میں نے بسم اللہ کہہ کر اس مشکیزے میں سے پانی آپ ﷺ کے ہاتھ مبارک پر ڈالا تو میں نے دیکھا کہ پانی رسول اللہ ﷺ کی انگلیوں کے درمیان سے جوش مار رہا ہے پھر اس برتن نے جوش مارا اور وہ برتن گھوما یہاں تک کہ وہ برتن پانی سے بھر گیا پھر آپ ﷺ نے فرمایا اے جابر آواز لگاؤ کہ جس کو پانی کی ضرورت ہو تو آکر پانی لے جائے حضرت جابر فرماتے ہیں لوگ آئے اور انہوں نے پانی پیا یہاں تک کہ سب سیر ہوگئے حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے کہا کیا کوئی ایسا باقی رہ گیا ہے کہ جسے پانی کی ضرورت ہو پھر رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہاتھ مبارک کو اس مشکیزے سے اٹھایا تو پھر وہ بھی بھرا ہوا تھا۔
حضرت ابوالیسر (رض) کا واقعہ اور حضرت جابر (رض) کی لمبی حدیث کے بیان میں
اور پھر اس کے بعد لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے بھوک کی شکایت کی تو آپ ﷺ نے فرمایا قریب ہے کہ اللہ تمہیں کھلادے پھر ہم سمندر کے کنارے پر آئے اور سمندر نے موج ماری اور ایک جانور نکال کر باہر ڈال دیا پھر ہم نے اس سمندر کے کنارے پر آگ جلائی اور اس جانور کا گوشت پکایا اور بھونا اور ہم نے کھایا یہاں تک کہ ہم خوب سیر ہوئے گئے حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ پھر میں اور فلاں اور فلاں اس جانور کی آنکھ کے گوشے میں داخل ہوئے اور ہمیں کسی نے نہیں دیکھا یہاں تک کہ ہم باہر نکلے پھر ہم نے اس جانور کی پسلیوں میں سے ایک پسلی پکڑی اور قافلے میں جو سب سے بڑا آدمی تھا اور وہ سب سے بڑے اونٹ پر سوار تھا ہم نے اس آدمی کو بلایا اور اس کے اونٹ پر سب سے بڑی زین رکھی ہوئی تو وہ آدمی بغیر اپنا سر جھکائے اس پسلی کے نیچے سے گزر گیا۔
جناب نبی ﷺ کا واقعہ ہجرت کے بیان میں
سلمہ بن شبیب، حسن بن اعین، زہیر، ابواسحاق فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت براء بن عازب (رض) سنا وہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) میرے والد کے گھر میں تشریف لائے اور ان سے ایک کجاوہ خریدا پھر عازب یعنی میرے والد سے فرمایا کہ اپنے بیٹے (براء) کو میرے ساتھ بھیج دیں تاکہ وہ اس کجاوہ کو اٹھا کر میرے گھر لے چلے اور پھر میرے والد نے مجھ سے کہا کہ اسے اٹھا لے تو میں نے اس کجاوے کو اٹھا لیا اور میرے والد بھی حضرت ابوبکر (رض) کے ساتھ اس کجاوے کی قیمت وصول کرنے کے لئے نکلے تو میرے والد نے حضرت ابوبکر (رض) سے فرمایا اے ابوبکر مجھ سے بیان فرمائیں کہ جس رات تم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ گئے تھے (یعنی تم نے ملکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ تک کا جو سفر آپ ﷺ کے ساتھ کیا ہے اس کی کیفیت بیان کیجئے) حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : اچھا ! (اور پھر فرمایا کہ) ہم ساری رات چلتے رہے یہاں تک کہ دن چڑھ گیا اور ٹھیک دوپہر کا وقت ہوگیا اور راستہ خالی ہوگیا اور راستے میں کوئی گزرنے والا نہ رہا یہاں تک کہ ہمیں سامنے ایک لمبا پتھر دکھائی دیا جس کا سایہ زمین پر تھا اور ابھی تک وہاں دھوپ نہیں آئی تھی پھر ہم اس کے پاس اترے اور میں نے اس پتھر کے پاس جا کر اپنے ہاتھ سے جگہ صاف کی تاکہ نبی ﷺ اس کے سائے میں آرام فرمائیں پھر میں نے اس جگہ پر ایک دری بچھا دی پھر میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول آپ ﷺ آرام فرمائیں اور میں آپ ﷺ کے اردگرد ہر طرف سے بیدار رہتا ہوں پھر آپ ﷺ سو گئے اور میں آپ کے اردگرد جاگ کر پہرہ دیتا رہا پھر میں نے سامنے کی طرف سے بکریوں کا ایک چرواہا دیکھا جو اپنی بکریوں کو لئے ہوئے اس پتھر کی طرف آرہا ہے اور چرواہا بھی اس پتھر سے وہی چاہتا تھا جو ہم نے چاہا (یعنی آرام) میں نے اس چرواہے سے ملاقات کی اور میں نے اس سے کہا اے لڑکے تو کس کا غلام ہے اس نے کہ میں مدینہ والوں میں سے ایک آدمی کا غلام ہوں میں نے کہا تیری بکریوں میں دودھ ہے اس نے کہا ہاں میں نے کہا کیا تو مجھے دودھ دے گا اس نے کہا ہاں پھر اس چرواہے نے ایک بکری پکڑی تو میں نے اس چرواہے سے کہا اس بکری کے تھن کو بالوں مٹی اور کچرے وغیرہ سے صاف کرلے راوی ابواسحاق کہتے ہیں کہ میں نے حضرت براء کو دیکھا کہ وہ اپنے ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر مار کر دکھا رہے تھے اس چرواہے نے لکڑی کے ایک پیالے میں تھوڑا سا دودھ دوہا حضرت ابوبکر (رض) فرماتے ہیں کہ میرے پاس ایک ڈول تھا کہ جس میں نبی ﷺ کے پینے کے لئے اور وضو کے لئے پانی تھا حضرت ابوبکر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نبی ﷺ کی خدمت میں آیا اور میں نے ناپسند سمجھا کہ میں آپ ﷺ کو نیند سے بیدا کروں لیکن آپ خود ہی بیدار ہوگئے پھر میں نے دودھ پر پانی بہایا تاکہ دودھ ٹھنڈا ہوجائے پھر میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول یہ دودھ نوش فرمائیں حضرت ابوبکر (رض) فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے وہ دودھ پیا یہاں تک کہ میں خوش ہوگیا پھر آپ ﷺ نے فرمایا کیا یہاں سے کوچ کرنے کو وقت نہیں آیا میں نے عرض کیا جی ہاں وہ وقت آگیا ہے حضرت ابوبکر (رض) فرماتے ہیں کہ پھر ہم سورج ڈھلنے کے بعد چلے اور سراقہ بن مالک نے ہمارا پیچھا کیا حضرت ابوبکر (رض) فرماتے ہیں کہ ہم جس زمین پر تھے وہ سخت زمین تھی میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول کافر ہم تک آگئے آپ ﷺ نے فرمایا فکر نہ کر کیونکہ ہمارے ساتھ اللہ ہے پھر رسول اللہ ﷺ نے سراقہ کے لئے بد دعا فرمائی تو سراقہ کا گھوڑا اپنے پیٹ تک زمین میں دھنس گیا سراقہ کہنے لگا مجھے معلوم ہے کہ تم نے میرے لئے بد دعا کی ہے اب تم میرے لئے دعا کرو اللہ کی قسم اب جو بھی آپ حضرات کی تلاش میں آئے گا میں اسے واپس کر دوں گا آپ ﷺ نے اس کے لئے اللہ سے دعا فرمائی تو اسے نجات مل گئی اور وہ واپس لوٹ گیا اور اسے جو کوئی کافر بھی ملتا وہ اسے کہہ دیتا کہ میں اس طرف دیکھ آیا ہوں سراقہ کو جو کافر بھی ملتا وہ اسے واپس لوٹا دیتا۔ حضرت ابوبکر (رض) فرماتے ہیں کہ سراقہ نے جو ہم سے کہا وہ اس نے پورا کیا۔
جناب نبی ﷺ کا واقعہ ہجرت کے بیان میں
زہیر بن حرب، عثمان بن عمر، اسحاق بن ابراہیم، نضر بن شمیل، اسرائیل، ابواسحاق، براء روایت ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) نے میرے والد سے تیرہ درہم پر ایک کجاوہ خریدا (اور پھر مذکورہ حدیث زہیرعن اسحاق کی روایت کی طرح روایت بیان کی) لیکن عثمان بن عمر (رض) کی اس روایت میں ہے کہ جب سراقہ بن مالک قریب آگیا تو رسول اللہ ﷺ نے اس کے لئے بد دعا فرمائی اور اس کا گھوڑا اپنے پیٹ تک زمین میں دھنس گیا سراقہ اپنے اس گھوڑے سے کو دا اور کہنے لگا اے محمد مجھے معلوم ہے کہ یہ آپ کا کام ہے اس لئے آپ اللہ سے دعا فرمائیں کہ وہ مجھے اس تکلیف سے نجات دے دے اور میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ جو میرے پیچھے آرہے ہیں میں ان سے آپ کا حال چھپاؤں گا اور میرے اس ترکش سے ایک تیر لے لیں اور آپ کو فلاں فلاں مقام پر میرے اور میرے اونٹ اور غلام ملیں گے ان میں سے جتنی آپ کو ضرورت ہو آپ لے لیں آپ ﷺ نے فرمایا مجھے تیرے اونٹوں کی کوئی ضرورت نہیں پھر ہم رات کو مدینہ منورہ پہنچ گئے تو لوگ اس بات میں جھگڑنے لگے کہ رسول اللہ ﷺ کس جگہ اتریں آپ نے فرمایا میں قبیلہ بنی نجار کے پاس اتروں گا وہ عبدالمطب کے ننھیال تھے آپ ﷺ نے ان کو عزت دی پھر مرد اور عورتیں گھروں کے اوپر چڑھے اور لڑکے اور غلام راستوں میں پھیل گئے اور یہ پکارنے لگے اے محمد اے اللہ کے رسول اے محمد اے اللہ کے رسول ﷺ ۔