57. تفسیر کا بیان
مختلف آیات کی تفسیر کے بیان می
محمد بن رافع، عبدالرزاق، معمر، ہمام بن منبہ، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بنی اسرائیل سے کہا گیا ادْخُلُوا الْبَابَ کہ دروازے میں داخل ہو سجدہ کرتے ہوئے اور کہتے جاؤ بخش دے تو، تو ہم تمہارے گناہ بخش دیں گے لیکن بنی اسرائیل نے اس حکم کی خلاف ورزی کی اور (بیت المقدس) کے دروازے میں سے سرین کے بل گھسٹتے ہوئے اور حبہ (یعنی دانہ بال میں) کہتے ہوئے داخل ہوئے۔
مختلف آیات کی تفسیر کے بیان می
عمرو بن محمد، ابن بکیر، ناقد، حسن بن علی حلوانی، عبد ابن حمید، عبد یعقوب ابن ابراہیم، ابن سعد ابوصالح ابن کیسان، حضرت ابن شہاب (رض) سے روایت ہے کہ مجھے حضرت انس بن مالک (رض) نے خبر دی ہے کہ اللہ عزوجل نے رسول اللہ ﷺ پر آپ ﷺ کی وفات سے پہلے لگاتار وحی نازل فرمائی یہاں تک کہ جس دن رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی اس دن تو بہت ہی زیادہ مرتبہ وحی نازل ہوئی۔
مختلف آیات کی تفسیر کے بیان می
ابوخیثمہ، زہیر بن حرب، محمد بن مثنی، عبدالرحمن ابن مہدی، سفیان، قیس بن مسلم، حضرت طارق بن شہاب (رض) سے روایت ہے کہ یہودیوں نے حضرت عمر (رض) سے کہا تم ایک ایسی آیت کریمہ پڑھتے ہو (اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا) 5 ۔ المائدہ : 3) اگر یہ آیت کریمہ ہم لوگوں میں نازل ہوتی تو اس دن کو ہم عید کا دن بنا لیتے تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا مجھے معلوم ہے کہ یہ آیت کریمہ کہاں نازل ہوئی اور کس دن نازل ہوئی اور رسول اللہ ﷺ کہاں تھے جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی میدان عرفات میں نازل ہوئی اور رسول اللہ ﷺ بھی عرفات ہی میں ٹھہرے ہوئے تھے راوی حضرت سفیان کہتے ہیں کہ مجھے اس بات میں شک ہے کہ وہ جمعہ کا دن تھا یا نہیں یعنی الْيَوْمَ أَکْمَلْتُ یعنی آج کے دن میں نے تم پر تمہارا دین کامل کردیا ہے اور اپنی نعمتوں کو تم پر پورا کردیا ہے۔
مختلف آیات کی تفسیر کے بیان می
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب، ابی بکر، عبداللہ بن ادریس، قیس بن مسلم، حضرت طارق بن شہاب سے روایت ہے کہ یہودیوں نے حضرت عمر (رض) سے کہا اگر ہم یہودیوں کے گروہ پر یہ آیت کریمہ (اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا) 5 ۔ المائدہ : 3) آج کے دن میں تم پر تمہارا دین مکمل کردیا ہے اور میں نے اپنی نعمت تم پر پوری کردی ہے اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسند کرلیا ہے نازل ہوتی اور ہم اس آیت کریمہ کے نزول کے دن کو جان لیتے تو ہم اس دن کو عید کا دن بنا لیتے راوی کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا مجھے وہ دن اور وہ وقت بھی معلوم ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ اس وقت رسول اللہ ﷺ کہاں تھے جس وقت یہ آیت کریمہ نازل ہوئی اور جس وقت یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو ہم اس وقت رسول اللہ ﷺ کے ساتھ عرفات میں جمع تھے۔
مختلف آیات کی تفسیر کے بیان می
عبد بن حمید، جعفر، عون، ابوعمیس، قیس بن مسلم، حضرت طارق بن شہاب سے روایت ہے کہ یہودیوں کا ایک آدمی حضرت عمر (رض) کے پاس آیا اور کہنے لگا اے امیر المومنین تمہاری کتاب میں ایک آیت کریمہ ہے جسے تم پڑھتے ہو اگر وہ آیت کریمہ ہم پر یعنی یہودیوں کے گروہ پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید کا دن بنا لیتے حضرت عمرنے فرمایا وہ کون سی آیت کریمہ ہے یہودی آدمی نے کہا (اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا) 5 ۔ المائدہ : 3) تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا میں اس دن کے بارے میں جانتا ہوں کہ جس دن میں یہ آیت کریمہ نازل ہوئی جس جگہ اور جس دن رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوئی وہ عرفات کا میدان اور جمعہ کا دن ہے۔
مختلف آیات کی تفسیر کے بیان می
ابوطاہر احمد بن عمرو بن سرح، حرملہ بن یحیی، ابن وہب، عروہ بن زبیر، حضرت ابن شہاب سے روایت ہے کہ حضرت عروہ بن زبیر (رض) نے مجھے خبر دی ہے کہ انہوں نے سیدہ عائشہ (رض) سے اللہ تعالیٰ کے فرمان (وَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِي الْيَتٰمٰى فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ ) 4 ۔ النساء : 3) کہ اگر تمہیں اس بات کا ڈر ہو کہ تم یتیموں کے بارے میں انصاف نہ کرسکو گے تو پھر ان عورتوں سے نکاح کرلو جو تمہیں پسند ہیں دو دو یا تین تین یا چار چار سے کے بارے میں پوچھا سیدہ عائشہ (رض) نے فرمایا اے بھانجے اس سے مراد وہ یتیم بچی ہے جو اپنے ولی کے زیر تربیت ہو اور وہ ولی اس کا مال اور اس کی خوبصورتی دیکھ کر اس سے نکاح کرنا چاہتا ہو بغیر اس کے کہ اس کے مہر میں انصاف کرے اور اس قدر اسے مہر کی رقم دینے پر رضامند نہ ہو کہ جس قدر دوسرے لوگ مہر کی رقم دینے کے لئے راضی ہوں تو اللہ تعالیٰ نے ایسی لڑکیوں سے نکاح کرنے سے منع فرمایا ہے سوائے اس صورت میں کہ ان سے انصاف کریں اور ان کو پورا مہر ادا کریں اور ان کو حکم دے دیا ہے کہ وہ عورتوں سے جو ان کو پسند ہوں نکاح کرلیں حضرت عروہ (رض) فرماتے ہیں کہ سیدہ عائشہ (رض) نے فرمایا پھر لوگوں نے اس آیت کریمہ کے بعد رسول اللہ ﷺ سے یتیم لڑکیوں کے بارے میں پوچھا تو پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی (وَيَسْتَفْتُوْنَكَ فِي النِّسَا ءِ قُلِ اللّٰهُ يُفْتِيْكُمْ فِيْهِنَّ وَمَا يُتْلٰي عَلَيْكُمْ فِي الْكِتٰبِ فِيْ يَتٰمَي النِّسَا ءِ الّٰتِيْ لَا تُؤْتُوْنَھُنَّ مَا كُتِبَ لَھُنَّ وَتَرْغَبُوْنَ اَنْ تَنْكِحُوْھُنَّ ) 4 ۔ النساء : 127) اے نبی ﷺ لوگ آپ ﷺ سے رخصت مانگتے ہیں عورتوں کے نکاح کی آپ ﷺ ان کو فرما دیں کہ اللہ تم کو اجازت دیتا ہے ان کی اور وہ جو تم کو سنایا جاتا ہے قرآن میں سو حکم ہے ان یتیم عورتوں کا جن کو تم نہیں دیتے جو ان کے لئے مقرر کیا ہے اور تم چاہتے ہو کہ ان کو نکاح میں لے آؤ، سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ اس آیت میں اللہ نے جو ذکر فرمایا (يُتْلَی عَلَيْکُمْ فِي الْکِتَابِ ) کہ تم کو سنایا جاتا ہے قرآن میں اس سنائے جانے سے مراد وہی پہلی آیت ہے (وَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِي الْيَتٰمٰى فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ ) 4 ۔ النساء : 3) ہے اور سیدہ عائشہ (رض) نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے فرمان دوسری آیت کریمہ (وَتَرْغَبُونَ أَنْ تَنْکِحُوهُنَّ رَغْبَةَ أَحَدِکُمْ عَنْ الْيَتِيمَةِ الَّتِي تَکُونُ فِي حَجْرِهِ ) سے مراد یہ ہے کہ اگر تم میں سے کسی کے ہاں کوئی یتیم لڑکی زیر تربیت ہو اور مال و خوبصورتی میں کم ہو تو اگر اس وجہ سے اس کے ساتھ نکاح کرنے سے اعراض کرتا ہے تو ان کو اس سے منع کیا گیا ہے کہ جو یتیم عورتوں کے مال اور خوبصورتی میں رغبت کرتے ہیں کہ بغیر انصاف کے ان کے ساتھ نکاح نہ کریں۔
مختلف آیات کی تفسیر کے بیان می
حسن حلوانی، عبد بن حمید، یعقوب بن ابراہیم، ابن سعد، ابوصالح، عروہ حضرت ابن شہاب سے روایت ہے کہ حضرت عروہ (رض) نے مجھے خبر دی کہ انہوں نے سیدہ عائشہ (رض) سے اللہ تعالیٰ کے فرمان (وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَی) کے بارے میں پوچھا (اور پھر اس کے بعد) یونس عن الزہری کی روایت کی طرح بیان کی اور اس روایت کے آخر میں یہ الفاظ زائد ہیں ان عورتوں کے مال اور حسن کی کمی کی وجہ سے نکاح کرنے سے اعراض کریں۔
مختلف آیات کی تفسیر کے بیان می
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب، ابواسامہ، ہشام، سیدہ عائشہ (رض) اللہ تعالیٰ کے فرمان (وَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِي الْيَتٰمٰى فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَا ءِ ) 4 ۔ النساء : 3) کے بارے میں فرماتی ہیں کہ یہ آیت کریمہ اس آدمی کے بارے میں نازل ہوئی جس کے پاس کوئی یتیم بچی ہو اور وہ آدمی اس بچی کا سرپرست اور اس کا وارث ہو اور اس بچی کے پاس مال بھی ہو اور اسی بچی کے پاس اس آدمی کے علاوہ اس بچی کی طرف سے کوئی جھگڑنے والا بھی نہ ہو تو وہ آدمی اس کے مال کی وجہ سے اس کا نکاح نہ کرے اور اس یتیم بچی کو تکلیف پہنچائے اور برے طریقے سے اس کے ساتھ پیش آئے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا (وَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِي الْيَتٰمٰى فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَا ءِ ) 4 ۔ النساء : 3) اگر تم کو اس بات کا ڈر ہو کہ تم یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہیں کرسکو گے تو جو عورتیں تمہیں پسند ہیں ان سے نکاح کرو یعنی جو عورتیں میں نے تمہارے لئے حلال کردی ہیں ان سے نکاح کرو اور تم اس یتیم لڑکی کو چھوڑ دو جسے تم تکلیفیں پہنچا رہے ہو۔
مختلف آیات کی تفسیر کے بیان می
ابوبکر بن ابی شیبہ، عبدہ بن سلیمان، ہشام، سیدہ عائشہ (رض) اللہ تعالیٰ کا فرمان (وَمَا يُتْلٰي عَلَيْكُمْ فِي الْكِتٰبِ فِيْ يَتٰمَي النِّسَا ءِ الّٰتِيْ لَا تُؤْتُوْنَھُنَّ مَا كُتِبَ لَھُنَّ وَتَرْغَبُوْنَ اَنْ تَنْكِحُوْھُنَّ ) 4 ۔ النساء : 127) کے بارے میں فرماتی ہیں کہ یہ آیت کریمہ اس یتیم لڑکی کے بارے میں نازل ہوئی ہے کہ جو کسی ایسے آدمی کے زیر تربیت ہو کہ جو اس لڑکی کے مال میں شریک ہو یہ خود بھی اس لڑکی سے نکاح نہ کرنا چاہتا ہو اور کسی اور سے بھی اس کا نکاح کرانا پسند نہ کرتا ہو اس ڈر سے کہ کہیں وہ اس کے مال میں شریک نہ ہوجائے اور وہ آدمی اس یتیم لڑکی کو ایسے ہی لٹکائے رکھے نہ خود اس سے نکاح کرتا ہو اور نہ ہی کسی دوسرے کو اس سے نکاح کرنے دے۔
مختلف آیات کی تفسیر کے بیان می
ابوکریب، ابواسامہ، ہشام، سیدہ عائشہ (رض) اللہ تعالیٰ کے اس فرمان (وَيَسْتَفْتُوْنَكَ فِي النِّسَا ءِ قُلِ اللّٰهُ يُفْتِيْكُمْ فِيْهِنَّ ) 4 ۔ النساء : 127) ترجمہ پچھلی حدیث میں گزر چکا ہے کے بارے میں فرماتی ہیں کہ یہ آیت اس یتیم لڑکی کے بارے میں نازل ہوئی کہ جو کسی ایسے آدمی کے زیر تربیت ہو کہ وہ آدمی اس لڑکی کے مال میں شریک ہو اور پھر وہ آدمی اس لڑکی سے نہ خود نکاح کرنا چاہتا ہو اور نہ ہی اسے کسی اور سے نکاح کرنے دے تاکہ وہ اس کے مال میں شریک ہوجائے اور اسے اسی طرح لٹکائے رکھے۔
مختلف آیات کی تفسیر کے بیان می
ابوبکر بن ابی شیبہ، عبدہ بن سلیمان، ہشام، سیدہ عائشہ (رض) اللہ تعالیٰ کے فرمان (وَمَنْ كَانَ فَقِيْرًا فَلْيَاْكُلْ بِالْمَعْرُوْفِ ) 4 ۔ النساء : 6) اور جو حاجت مند ہو تو وہ دستور کے مطابق کھالے۔ اس کے بارے میں فرماتی ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اگر کسی یتیم کے مال کا ولی ایسا آدمی ہو کہ جو اس کی سرپرستی بھی کرتا ہو اور اس کے مال کی دیکھ بھال بھی کرتا ہو تو اگر وہ محتاج ہو تو وہ اس کے مال میں سے انصاف کے ساتھ کچھ کھا سکتا ہے۔
مختلف آیات کی تفسیر کے بیان می
ابوکریب، ابواسامہ، ہشام، سیدہ عائشہ (رض) اللہ تعالیٰ کے فرمان (وَمَنْ كَانَ فَقِيْرًا فَلْيَاْكُلْ بِالْمَعْرُوْفِ ) 4 ۔ النساء : 6) یعنی جو آدمی غنی ہو تو وہ بچے اور جو حاجت مند ہو تو وہ دستور کے مطابق کھالے۔ ولی کے بارے میں نازل ہوئی ہے کہ اگر یتیم کا ولی اس یتیم کے مال کا ضرورت مند ہو تو وہ اس کے مال میں سے بقدر ضرورت دستور کے مطابق لے سکتا ہے۔
مختلف آیات کی تفسیر کے بیان می
ابوکریب، ابن نمیر، حضرت ہشام اس سند کے ساتھ روایت بیان کرتے ہیں۔
مختلف آیات کی تفسیر کے بیان می
ابوبکر بن ابی شیبہ، عبدہ بن سلیمان، ہشام، سیدہ عائشہ (رض) اللہ تعالیٰ کے فرمان (إِذْ جَائُوکُمْ مِنْ فَوْقِکُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْکُمْ وَإِذْ زَاغَتْ الْأَبْصَارُ وَبَلَغَتْ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ ) جب چڑھ آئے تم پر اوپر کی طرف سے اور نیچے سے اور جب بدلنے لگیں آنکھیں اور پہنچے دل گلوں تک، (الاحزاب) کے بارے میں فرماتی ہیں کہ اس سے مراد غزوہ خندق کا منظر ہے۔
مختلف آیات کی تفسیر کے بیان می
ابوبکر بن ابی شیبہ، عبدہ بن سلیمان، ہشام، سیدہ عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ یہ آیت کریمہ (وَإِنْ امْرَأَةٌ خَافَتْ مِنْ بَعْلِهَا نُشُوزًا أَوْ إِعْرَاضًا) 4 ۔ النساء : 128) اگر کوئی عورت اپنے شوہر کی طرف سے زیادتی یا بےرغبتی کا خوف محسوس کرے اس عورت کے بارے میں نازل ہوئی ہے کہ جو کسی آدمی کے پاس ہو اور بڑی لمبی مدت سے اس کے پاس رہی ہو اور اب وہ اسے طلاق دینا چاہتا ہو تو یہ عورت کہتی ہو کہ مجھے طلاق نہ دے اور مجھے اپنے پاس روکے رکھو اور میری طرف سے تجھے دوسری عورت کے پاس رہنے کی یعنی نکاح کرنے کی اجازت ہے۔
مختلف آیات کی تفسیر کے بیان می
ابوکریب، ابواسامہ، ہشام بن عروہ، سیدہ عائشہ اللہ تعالیٰ کے فرمان (وَإِنْ امْرَأَةٌ خَافَتْ مِنْ بَعْلِهَا نُشُوزًا أَوْ إِعْرَاضًا) 4 ۔ النساء : 128) کے بارے میں فرماتی ہیں کہ یہ آیت کریمہ اس عورت کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو کسی آدمی کے پاس ہو اور وہ آدمی اس کے پاس نہ رہنا چاہتا ہو اور اس عورت سے اولاد بھی ہو اور عورت اس مرد سے علیحدگی کرنا پسند کرتی ہو تو وہ عور رت اپنے شوہر سے کہے کہ میری طرف سے تجھے دوسرے نکاح کی اجازت ہے۔
مختلف آیات کی تفسیر کے بیان می
یحییٰ بن یحیی، ابومعاویہ، حضرت ہشام (رض) بن عروہ (رض) اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ سیدہ عائشہ (رض) نے مجھ سے فرمایا اے بھانجے (لوگوں کو اس بات کا) حکم دیا گیا تھا کہ وہ نبی ﷺ کے صحابہ کے لئے استغفار کریں لیکن لوگوں نے صحابہ کرام کو برا کہا۔
مختلف آیات کی تفسیر کے بیان می
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابواسامہ، حضرت ہشام (رض) اس سند کے ساتھ مذکورہ حدیث کی طرح روایت بیان کرتے ہیں۔
مختلف آیات کی تفسیر کے بیان می
عبیداللہ بن معاذ عنبری، ابی شعبہ، مغیرہ بن نعمان، حضرت سعید بن جبیر (رض) سے روایت ہے کہ کوفہ والوں نے اس آیت کریمہ جو آدمی کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے گا اس کا بدلہ جہنم ہے، کے بارے میں اختلاف کیا تو میں حضرت ابن عباس (رض) کی طرف گیا اور میں نے اس بارے میں ان سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا یہ آیت کریمہ آخر میں نازل ہوئی ہے اور پھر کسی اور آیت نے اس آیت کو منسوخ نہیں کیا۔
مختلف آیات کی تفسیر کے بیان می
محمد بن مثنی، ابن بشار، محمد بن جعفر، اسحاق بن ابراہیم، نضر، حضرت شعبہ (رض) اس سند کے ساتھ روایت بیان کرتے ہیں صرف لفظی فرق ہے ترجمہ ایک ہی ہے۔
مختلف آیات کی تفسیر کے بیان می
محمد بن مثنی، محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، منصور، حضرت سعید بن جبیر (رض) سے روایت ہے کہ مجھے عبدالرحمن بن ابزی نے حکم فرمایا کہ میں حضرت ابن عباس (رض) سے ان دو آیات کریمہ کے بارے میں پوچھوں (ایک آیت کریمہ یہ ہے) (وَمَنْ يَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَا ؤُه جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِيْھَا) 4 ۔ النساء : 93) اور جو آدمی کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے گا تو اس کا بدلہ جہنم ہے اور وہ اس میں ہمیشہ رہے گا، میں نے اس آیت کے بارے میں حضرت ابن عباس (رض) سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا اس آیت کو کسی اور آیت کریمہ نے منسوخ نہیں کیا اور اس آیت کریمہ (وَالَّذِيْنَ لَا يَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰ هًا اٰخَرَ وَلَا يَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ ) 25 ۔ الفرقان : 68) وہ لوگ کہ نہیں پکارتے اللہ کے ساتھ دوسرے حاکم کو اور نہیں قتل کرتے جان کو جو منع کردی اللہ نے مگر جہاں چاہے، حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا یہ آیت کریمہ مشرکوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
مختلف آیات کی تفسیر کے بیان می
ہارون بن عبداللہ، ابونضر، ہاشم بن قاسم لیثی، ابومعاویہ، شیبان، منصور بن معتمر، سعید بن جبیر حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ یہ آیت کریمہ وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ آخر سے مُهَانًا تک مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی تو مشرکوں نے کہا کہ پھر ہمیں مسلمان ہونے کا کیا فائدہ کیونکہ ہم نے تو اللہ کے ساتھ دوسروں کو بھی شریک کیا ہوا ہے اور ناحق قتل بھی کئے ہیں جب کہ اللہ تعالیٰ نے قتل کرنا حرام کیا تھا اور ہم نے دوسرے برے کام بھی کئے تو اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی (اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا) 25 ۔ الفرقان : 70 سوائے اس کے جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور نیک اعمال کئے آخر آیت تک، حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ جو آدمی اسلام میں داخل ہوجائے اور اسلامی تعلیمات کو سمجھ لے پھر اس کے بعد ناحق کسی کو قتل کرے تو اب اس کی کوئی توبہ قبول نہیں۔
مختلف آیات کی تفسیر کے بیان می
عبداللہ بن ہاشم، عبدالرحمن بن بشر عبدی، یحییٰ ابن سعید قطان، ابن جریج، قاسم بن ابی بزہ، حضرت سعید بن جبیر (رض) سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ابن عباس (رض) سے پوچھا کہ اگر کوئی آدمی کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو کیا اس کی توبہ قبول ہوسکتی ہے ؟ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا نہیں، حضرت سعید (رض) فرماتے ہیں کہ پھر میں نے حضرت ابن عباس (رض) کے سامنے یہ آیت کریمہ تلاوت کی (وَالَّذِيْنَ لَا يَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰ هًا اٰخَرَ وَلَا يَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ ) 25 ۔ الفرقان : 68) اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو نہیں پکارتے اور اس جان کو ناحق قتل نہیں کرتے کہ جس کو قتل کرنا اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے آخر تک، حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا یہ آیت کریمہ مکہ میں نازل ہوئی اور مدینہ منورہ میں نازل ہونے والی آیت کریمہ ومن یقتل مومنا نے اس کو منسوخ کردیا ہے اور ابن ہاشم کی روایت میں ہے کہ پھر میں نے حضرت ابن عباس (رض) کے سامنے سورت الفرقان کی یہ آیت کریمہ ( إِلَّا مَنْ تَابَ ) تلاوت کی۔
مختلف آیات کی تفسیر کے بیان می
ابوبکر بن ابی شیبہ، ہارون بن عبداللہ، عبد بن حمید، عبد، جعفر بن عون، ابوعمیس (رض) ، عبدالمجید بن سہیل، حضرت عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ (رض) سے روایت ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) نے مجھ سے فرمایا کیا تمہیں علم ہے کہ قرآن مجید کی سب سے آخری سورت جو ایک ہی مرتبہ نازل ہوئی ہے ؟ میں نے کہا جی ہاں (إِذَا جَآءَ نَصْرُ اللَّهِ ) النصر : 1) ، حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا تو نے سچ کہا اور ابن شیبہ کی روایت میں انہوں نے آخر کا لفظ نہیں کہا۔
مختلف آیات کی تفسیر کے بیان می
اسحاق بن ابراہیم، ابومعاویہ، حضرت ابوعمیس (رض) اس سند کے ساتھ مذکورہ حدیث کی طرح روایت بیان کرتے ہیں اور اس میں انہوں نے آخری سورت کے الفاظ کہے ہیں اور اس میں انہوں نے عبدالمجید کہا ہے اور ابن سبیل نہیں کہا۔
مختلف آیات کی تفسیر کے بیان می
ابوبکر بن ابی شیبہ، اسحاق بن ابراہیم، احمد بن عبدہ ضبی، ابن ابی شیبہ، سفیان، عمرو، عطاء، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں کہ مسلمانوں میں سے کچھ لوگوں نے ایک آدمی کو کچھ بکریوں میں دیکھا تو اس نے کہا السلام علیکم تو مسلمانوں نے اسے پکڑ کر قتل کردیا اور اس کی بکریاں پکڑ لیں، تو پھر یہ آیت نازل ہوئی (وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ اَلْقٰى اِلَيْكُمُ السَّلٰمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا) 4 ۔ النسآء : 94) جو کوئی تم سے سلام کرے تو تم اسے یہ نہ کہو کہ تو مسلمان نہیں ہے حضرت ابن عباس (رض) نے اس آیت میں سلم کی بجائے السلام پڑھا ہے۔
مختلف آیات کی تفسیر کے بیان می
ابوبکر بن ابی شیبہ، غندر، شعبہ، محمد بن مثنی، ابن بشار، ابن مثنی، محمد بن جعفر، شعبہ، ابواسحاق، حضرت براء فرماتے ہیں کہ انصاری لوگ جب حج کر کے واپس آتے تھے تو وہ گھروں میں دروازوں سے داخل نہ ہوتے بلکہ اپنے گھروں کے پیچھے سے آتے حضرت برا فرماتے ہیں کہ ایک انصاری آدمی آیا تو وہ اپنے گھر کے دروازے سے داخل ہوا تو اس کو اس بارے میں کہا گیا (کہ پیچھے سے آؤ) تو یہ آیت نازل ہوئی (وَلَيْسَ الْبِرُّ بِاَنْ تَاْتُوا الْبُيُوْتَ مِنْ ظُهُوْرِھَا) 2 ۔ البقرۃ : 189) یہ کوئی نیکی کی بات نہیں کہ اپنے گھروں میں پیچھے کی طرف سے آؤ۔
اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کیا وقت نہیں آیا ان کے لئے جو ایمان لائے کہ گڑگڑائیں ان کے دل اللہ تعالیٰ کی یاد سے کے بیان میں
یونس بن عبدالاعلی صدفی، عبداللہ بن وہب، عمرو بن حارث، سعید بن ابی ہلال، عون بن عبداللہ، حضرت ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ جب سے ہم اسلام لائے اس وقت سے لے کر اس آیت ( اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللّٰهِ ) 27 ۔ الحدید : 16) کیا وقت نہیں آیا ان کے لئے جو ایمان لائے کہ گڑگڑائیں ان کے دل اللہ کی یاد سے، (الحدید) کے نزول تک چار سال کا عرصہ گزرا ہے اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ہم پر عتاب فرمایا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے فرمان لے لو اپنی آرائش ہر نماز کے وقت کے بیان میں
محمد بن بشار، محمد بن جعفر، ابوبکر بن نافع، غندر، شعبہ، سلمہ بن کہیل، مسلم، سعید بن جبیر حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ ایک عورت ننگے ہو کر بیت اللہ کا طواف کیا کرتی تھی اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہتی چلی جاتی کہ کون ہے جو مجھے ایک کپڑا دیتا اور اسے میں اپنی شرمگاہ پر ڈال لیتی اور پھر وہ کہتی کہ آج کے دن کھل جائے کچھ یا سارا اور پھر جو کھل جائے گا تو میں اسے کبھی حلال نہیں کروں گی، تو پھر یہ آیت نازل ہوئی (خُذُوْا زِيْنَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ ) 7 ۔ الأعراف : 31) لے لو اپنی آرائش ہر نماز کے وقت۔
اللہ تعالیٰ کے فرمان اور نہ زبردستی کرو اپنی باندیوں پر بدکاری کے واسطے۔
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب، ابومعاویہ، اعمش، ابی سفیان، حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ عبداللہ بن ابی سلول اپنی باندی سے کہتا کہ جا اور بدفعلی کروا کر ہمارے لئے کچھ کما کر لا، تو اللہ عزوجل نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی (وَلَا تُكْرِهُوْا فَتَيٰتِكُمْ ) 24 ۔ النور : 33) اپنی باندیوں کو زنا کرنے پر مجبور نہ کرو جبکہ وہ زنا کرنے سے بچنا چاہیں تاکہ تم دنیا کا مال حاصل کرو اور جو کوئی باندیوں پر اس کام کے لئے زبردستی کرے گا تو اللہ تعالیٰ ان کی بےبسی کے بعد بخشنے والا مہربان ہے۔
اللہ تعالیٰ کے فرمان اور نہ زبردستی کرو اپنی باندیوں پر بدکاری کے واسطے۔
ابوکامل جحدری، ابوعوانہ، اعمش، ابوسفیان (رض) ، حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ عبداللہ بن ابی سلول کے پاس دو باندیاں تھیں ایک باندی کا نام مسیکہ اور دوسری باندی کا نام امیمہ تھا وہ منافق ان دونوں باندیوں کو زنا پر مجبور کیا کرتا تھا تو ان دونوں باندیوں نے نبی ﷺ سے اس بات کی شکایت کی تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (وَلَا تُكْرِهُوْا فَتَيٰتِكُمْ ) 24 ۔ النور : 33) ترجمہ گزر چکا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے اس فرمان یہ لوگ جنہیں وہ پکارتے ہیں تلاش کرتے ہیں اپنے رب کی طرف سے وسیلہ
ابوبکر بن ابی شبیہ، عبداللہ بن ادریس، اعمش، ابراہیم، ابی معمر، حضرت عبداللہ (رض) اللہ عزوجل کے اس فرمان (ااُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ يَبْتَغُوْنَ اِلٰى رَبِّهِمُ الْوَسِ يْلَةَ اَيُّهُمْ اَقْرَبُ ) 17 ۔ الاسراء : 57) یہ لوگ جنہیں وہ پکارتے ہیں تلاش کرتے ہیں اپنے رب کی طرف سے وسیلہ کہ کون ان میں سے زیادہ قریب ہے (سورۂ بنی اسرائیل) کے بارے میں فرماتے ہیں کہ جنوں کی ایک جماعت مسلمان ہوگئی (یہ وہ جن تھے کہ جن کی پوجا کی جاتی تھی، ان کے مسلمان ہونے کے بعد بھی) لوگ ان کی پوجا کرتے رہے حالانکہ جنوں کی یہ جماعت مسلمان ہوگئی تھی (یہ آیت کریمہ ان کے بارے میں نازل ہوئی) ۔
اللہ تعالیٰ کے اس فرمان یہ لوگ جنہیں وہ پکارتے ہیں تلاش کرتے ہیں اپنے رب کی طرف سے وسیلہ
ابوبکر بن نافع عبدی، عبدالرحمن، سفیان، اعمش، ابراہیم، ابی معمر، حضرت عبداللہ سے روایت ہے کہ یہ آیت (ااُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ يَبْتَغُوْنَ اِلٰى رَبِّهِمُ الْوَسِ يْلَةَ ) 17 ۔ الاسراء : 57) اس وقت نازل ہوئی کہ جب کچھ لوگ جنوں کی پوجا کرتے تھے وہ جن مسلمان ہوگئے اور ان کے پوجنے والوں کو پتہ نہ چلا اور وہ لوگ ان جنوں کو ہی پوجتے رہے تو یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔
اللہ تعالیٰ کے اس فرمان یہ لوگ جنہیں وہ پکارتے ہیں تلاش کرتے ہیں اپنے رب کی طرف سے وسیلہ
بشر بن خالد، محمد ابن جعفر، شعبہ، حضرت سلیمان سے اس سند کے ساتھ روایت نقل کی گئی ہے۔
اللہ تعالیٰ کے اس فرمان یہ لوگ جنہیں وہ پکارتے ہیں تلاش کرتے ہیں اپنے رب کی طرف سے وسیلہ
حجاج بن شاعر، عبدالصمد بن عبدالوارث، ابی حسین، قتادہ، عبداللہ بن معبد رمانی، عبداللہ بن عتبہ، حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ (اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ يَبْتَغُوْنَ اِلٰى رَبِّهِمُ الْوَسِ يْلَةَ ) 17 ۔ الاسراء : 57) کے بارے میں فرمایا کہ یہ آیت کریمہ عرب کی ایک جماعت کے بارے میں نازل ہوئی ہے کہ جو جنوں کی ایک جماعت کی پوجا کرتے تھے یہ جن مسلمان ہوگئے توہ عرب لوگ لاعلمی میں ان جنوں کی پوجا کرتے رہے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی (أُولَئِکَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَی رَبِّهِمْ الْوَسِيلَةَ ) 17 ۔ الاسراء : 57) ۔
سورت البراءة سورت الانفال سورت الحشر کے بیان میں
عبداللہ بن مطیع ہشیم، ابی بشر، ابن عباس (رض) حضرت سعید بن جبیر (رض) سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ابن عباس (رض) سے کہا سورت توبہ، انہوں نے فرمایا کیا توبہ ؟ نہیں، بلکہ وہ سورت تو کافروں اور منافقوں کو ذلیل کرنے والی ہے اس سورت میں تو برابر کچھ کا حال یہ ہے کچھ کا حال یہ ہے نازل ہوتا رہا یہاں تک کہ انہوں نے خیال کیا کہ اس سورت میں ہر منافق کا ذکر کردیا جائے گا حضرت سعید (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے کہا کہ انہوں نے فرمایا سورت الانفال انہوں نے فرمایا یہ سورت تو بدر کی لڑائی کے بارے میں نازل ہوئی ہے میں نے کہا سورت الحشر انہوں نے فرمایا یہ سورت بنی نضیر کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
شراب کی حرمت کے حکم کے نزول کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، علی بن مسہر، ابوحیان، شعبی، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ حضرت عمر (رض) نے رسول اللہ ﷺ کے منبر پر خطبہ ارشاد فرمایا تو پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد ثناء بیان فرمائی پھر فرمایا اما بعد آگاہ رہو کہ جس وقت شراب حرام ہوئی تو شراب پانچ چیزوں سے تیار ہوا کرتی تھی گندم، جو، کھجور، انگور اور شہد سے اور شراب اس چیز کو کہتے ہیں کہ جو عقل میں فتور ڈال دے اور تین چیزیں ایسی ہیں کہ جن کے بارے میں میں چاہتا تھا کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں تفصیل سے ان کے بارے میں بتا دیتے دادا اور کلالہ کی میراث اور سود کے کچھ ابواب۔
شراب کی حرمت کے حکم کے نزول کے بیان میں
ابوکریب، ابن ادریس، ابوحیان، شعبی، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب (رض) سے رسول اللہ ﷺ کے منبر پر سنا وہ فرما رہے تھے اما بعد اے لوگو اللہ تعالیٰ نے شراب کی حرمت نازل فرمائی ہے اور وہ شراب پانچ چیزوں سے تیار ہوتی ہے انگور، کھجور، شہد، گندم اور جو سے اور شراب وہ ہے جو کہ عقل میں فتور ڈال دے اور اے لوگو تین چیزیں ایسی ہیں کہ جن کے بارے میں میں چاہتا تھا کہ رسول اللہ ﷺ ہم سے آخری مرتبہ بیان فرما دیتے دادا، کلالہ کی میراث اور سود کے کچھ ابواب۔
شراب کی حرمت کے حکم کے نزول کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، اسماعیل بن علیہ، اسحاق بن ابرا ہیم، عیسیٰ بن یونس، حضرت ابوحیان (رض) سے اس سند کے ساتھ مذکورہ دونوں حدیثوں کی طرح روایت نقل کی گئی ہے سوائے اس کے کہ اس میں ابن علیہ نے اپنی روایت میں عنب کا لفظ کہا ہے جیسا کہ ابن اویس نے کہا اور عیسیٰ کی روایت میں زبیب کا لفظ ہے جیسا کہ ابن مسہر نے کہا مطلب دونوں لفظوں کا ایک ہی ہے۔
اللہ تعالیٰ کے فرمان یہ دو جھگڑا کرنے والے ہیں جنہوں نے جھگڑا کیا اپنے رب کے بارے میں
عمرو بن زرارہ، ہشیم، ابی ہاشم، ابومجلز، حضرت قیس بن عباد (رض) سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ابوذر (رض) سے سنا وہ قسم کھا کر بیان فرما رہے تھے کہ (ھٰذٰنِ خَصْمٰنِ اخْتَصَمُوْا فِيْ رَبِّهِمْ ) 22 ۔ الحج : 19 یہ دو جھگڑا کرنے والے ہیں جنہوں نے اپنے رب کے بارے میں جھگڑا کیا ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے کہ جنہوں نے غزوہ بدر کے دن (جنگ کے میدان میں) مبارزت یعنی سبقت کی حضرت حمزہ، حضرت علی (رض) ، حضرت عبیدہ بن حارث مسلمانوں کی طرف سے اور عتبہ، شیبہ، ربیعہ کے بیٹے اور ولید بن عتبہ کافروں کی طرف سے تھے) یعنی دونوں گرہوں کے طرف سے ان ان لوگوں نے جنگ میں مبارزت کی) ۔
اللہ تعالیٰ کے فرمان یہ دو جھگڑا کرنے والے ہیں جنہوں نے جھگڑا کیا اپنے رب کے بارے میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، وکیع، محمد بن مثنی، عبدالرحمن، سفیان، ابی ہاشم، ابومجلز، حضرت قیس بن عباد (رض) سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ابوذر (رض) سے سنا کہ وہ قسم کھا کر بیان فرما رہے تھے کہ یہ آیت کریمہ (ھٰذٰنِ خَصْمٰنِ اخْتَصَمُوْا فِيْ رَبِّهِمْ ) 22 ۔ الحج : 19) نازل ہوئی۔ (اور پھر) ہشیم کی روایت کی طرح اس آیت کریمہ کی تفسیر بیان کی۔