7. مسافروں کی نماز اور قصر کے احکام کا بیان
مسافروں کی نماز اور قصر کے احکام کا بیان
یحییٰ بن یحیی، مالک، صالح بن کیسان، عروہ بن زبیر، حضرت عائشہ (رض) نبی ﷺ کی زوجہ مطہرہ ارشاد فرماتی ہیں کہ حضر اور سفر میں دو دو رکعتیں فرض کی گئیں تھیں تو سفر کی نماز برقرار رکھی گئی اور حضر کی نماز میں زیادتی کردی گئی۔
مسافروں کی نماز اور قصر کے احکام کا بیان
ابو طاہر و حرملہ بن یحیی، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، عروہ بن زبیر، حضرت عائشہ (رض) رسول اللہ کی زوجہ مطہرہ ارشاد فرماتی ہیں کہ جس وقت اللہ تعالیٰ نے نماز کی دو رکعتیں فرض فرمائیں پھر اس نماز کو حضر میں پورا فرمایا اور سفر کی نماز کو پہلی فرضیت پر ہی برقرار رکھا۔
مسافروں کی نماز اور قصر کے احکام کا بیان
علی بن خشرم، ابن عیینہ، زہری، عروہ، عائشہ فرماتی ہیں کہ پہلے نماز کی دو رکعتیں فرض کی گئی تھیں تو سفر کی نماز کو اسی طرح برقرار رکھا اور حضر کی نماز کو پورا کردیا گیا زہری کہتے ہیں کہ میں نے عروہ سے کہا کہ حضرت عائشہ سفر میں پوری نماز کیوں پڑھتی ہیں تو انہوں نے فرمایا کہ حضرت عائشہ نے اس کی وہی تاویل کی جیسے حضرت عثمان نے تاویل کی۔
مسافروں کی نماز اور قصر کے احکام کا بیان
ابوبکر بن ابی شیبہ و ابوکریب و زہیر بن حرب و اسحاق بن ابراہیم، عبداللہ بن ادریس، ابن جریج، ابن عمار، عبداللہ، یعلی بن امیہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر (رض) بن خطاب (رض) سے عرض کیا کہ ( لَيْسَ عَلَيْکُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنْ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَنْ يَفْتِنَکُمْ الَّذِينَ کَفَرُوا فَقَدْ أَمِنَ النَّاسُ ) تم پر کوئی حرج نہیں کہ اگر تم نماز میں قصر کرو شرط یہ ہے کہ تمہیں کافروں سے فتنہ کا ڈر ہو اور اب تو لوگ امن میں ہیں تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ یہ صدقہ ہے اللہ تعالیٰ نے تم پر صدقہ کیا ہے تو تم اللہ کے صدقہ کو قبول کرو۔ (یعنی قصر نماز پڑھو)
مسافروں کی نماز اور قصر کے احکام کا بیان
محمد بن ابوبکر مقدامی، یحییٰ بن جریج، عبدالرحمن بن عبداللہ بن ابی عمار، عبداللہ بن یعلی بن امیہ اس سند کے ساتھ یہ حدیث اسی طرح نقل کی گئی ہے۔
مسافروں کی نماز اور قصر کے احکام کا بیان
یحییٰ بن یحییٰ و سعید بن منصور و ابوربیع و قتیبہ بن سعید، ابوعوانہ، بکیر بن اخنس، مجاہد، ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ فرمایا اللہ نے تمہارے نبی ﷺ کی زبان مبارک سے حضر میں چار رکعتیں سفر میں دو رکعتیں اور خوف میں ایک رکعت فرض فرمائی ہے۔
مسافروں کی نماز اور قصر کے احکام کا بیان
ابوبکر بن ابی شیبہ و عمرو ناقد، قاسم بن مالک، عمرو قاسم بن مالک مزنی، ایوب بن عائذطائی، بکیر بن اخنس، مجاہد، ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی ﷺ کی زبان مبارک سے مسافر پر نماز کی دو رکعتیں اور مقیم پر چار رکعتیں اور خوف میں ایک رکعت فرض فرمائی ہے۔
مسافروں کی نماز اور قصر کے احکام کا بیان
محمد بن مثنی و ابن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، قتادہ، موسیٰ بن سلمہ ہذلی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس (رض) سے پوچھا کہ جب میں مکہ میں ہوں تو مجھے کیسے نماز پڑھنی پڑے گی تو انہوں نے فرمایا کہ ابا القاسم کی سنت مبارکہ دو رکعتیں ہیں۔
مسافروں کی نماز اور قصر کے احکام کا بیان
محمد بن منہال ضریر، یزید بن زریع، سعید بن ابی عروبہ، محمد بن مثنی، معاذ بن ہشام اس سند کے ساتھ حضرت قتادہ (رض) سے یہ حدیث بھی اسی طرح نقل کی گئی ہے۔
مسافروں کی نماز اور قصر کے احکام کا بیان
عبداللہ بن مسلمہ بن قعنب، عیسیٰ بن حفص بن عاصم اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں مکہ مکرمہ کے راستے میں حضرت ابن عمر (رض) کے ساتھ تھا حضرت عاصم فرماتے ہیں کہ انہوں نے ہمیں نماز ظہر کی دو رکعتیں پڑھائیں پھر وہ آئے اور ہم بھی ان کے ساتھ آئے یہاں تک کہ ایک جگہ آکر وہ بھی بیٹھ گئے اور ہم بھی ان کے ساتھ بیٹھ گئے تو ان کی تو جہ اس طرف ہوئی جس جگہ پر نماز پڑھی تھی اس جگہ انہوں نے کچھ لوگوں کو کھڑا دیکھا تو انہوں نے فرمایا یہ سب لوگ کیا کر رہے ہیں میں نے کہا یہ لوگ سنتیں پڑھ رہے ہیں تو انہوں نے فرمایا کہ اگر میں بھی سنتیں پڑھتا تو میں نماز ہی پوری پڑھاتا، پھر فرمانے لگے، اے بھتیجے ! میں ایک سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا تو آپ ﷺ نے دو رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھیں یہاں تک کہ آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے اٹھا لیا اور میں حضرت ابوبکر (رض) کے ساتھ رہا تو انہوں نے بھی دو رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھیں یہاں تک کہ وہ بھی اس دار فانی سے رخصت ہوگئے اور میں حضرت عمر (رض) کے ساتھ رہا تو انہوں نے بھی دو رکعت سے زیادہ نہیں پڑھیں یہاں تک کہ وہ بھی اس دار فانی سے رخصت ہوگئے اور میں حضرت عثمان کے ساتھ رہا تو انہوں نے بھی دو رکعت سے زیادہ نہیں پڑھیں یہاں تک کہ وہ بھی اس دار فانی سے رخصت ہوگئے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تمہارے لئے رسول اللہ ﷺ کے حیاۃ طبیہ بہترین نمونہ ہے۔
مسافروں کی نماز اور قصر کے احکام کا بیان
قتیبہ بن سعید، یزید بن زریع، عمر بن محمد، حفص بن عاصم فرماتے ہیں کہ میں بیمار ہوا تو حضرت ابن عمر (رض) میری عیادت کے لئے تشریف لائے، میں نے ان سے سفر میں سنتوں کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں رہا ہوں تو میں نے آپ ﷺ کو سنتیں پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا اور اگر میں سنتیں پڑھتا تو پوری پڑھتا اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ میں تمہارے لئے بہترین نمونہ ہے۔
مسافروں کی نماز اور قصر کے احکام کا بیان
خلف بن ہشام، ابوربیع زہرانی، قتیبہ بن سعید، حماد، ابن زید، زہیر بن حرب، یعقوب بن ابراہیم، اسماعیل، ایوب ابی قلابہ، انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ منورہ میں نماز ظہر کی چار رکعتیں پڑھیں اور ذوالحلیفہ میں دو رکعتیں پڑھیں۔
مسافروں کی نماز اور قصر کے احکام کا بیان
سعید بن منصور، سفیان، محمد بن منکدر، ابراہیم بن میسرہ، انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے مدینہ منورہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ظہر کی چار رکعتیں پڑھیں اور میں نے آپ ﷺ کے ساتھ ذوالحلیفہ میں عصر کی نماز کی دو رکعتیں پڑھیں۔
مسافروں کی نماز اور قصر کے احکام کا بیان
ابوبکر بن ابی شیبہ، محمد بن بشار، غندر، ابوبکر بن محمد بن جعفر، شعبہ، یحییٰ بن یزید بنائی (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت انس (رض) سے قصر نماز کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ جب تین میل یا تین فرسخ کی مسافت میں سفر کرتے تو دو رکعت نماز پڑھتے۔ راوی شعبہ کو شک ہے کہ میل کا لفظ ہے یا فرسخ کا۔
مسافروں کی نماز اور قصر کے احکام کا بیان
زہیر بن حرب و محمد بن بشار، ابن مہدی، زہیر، عبدالرحمن، حضرت جبیر بن نفیر (رض) فرماتے ہیں کہ میں شرجیل بن سمط کے ایک گاؤں کی طرف نکلا جو کہ سترہ یا اٹھا رہ میل کی مسافت پر تھا تو انہوں نے دو رکعتیں پڑھیں، میں نے ان سے کہا تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے حضرت عمر (رض) کو دیکھا کہ انہوں نے ذوالحلیفہ میں دو رکعتیں پڑھیں میں نے ان سے کہا تو انہوں نے کہا کہ میں اسی طرح کرتا ہوں جس طرح میں نے رسول اللہ ﷺ کو کرتے دیکھا ہے۔
مسافروں کی نماز اور قصر کے احکام کا بیان
محمد بن مثنی، محمد بن جعفر، شعبہ، ابن سمط، شعبہ (رض) نے اس سند کے ساتھ بیان کیا ہے کہ ایک روایت میں راوی نے کہا کہ وہ ایسی زمین میں آئے جسے (دُومِينَ ) کہا جاتا ہے جس کی مسافت اٹھارہ میل ہے۔
مسافروں کی نماز اور قصر کے احکام کا بیان
یحییٰ بن یحیی، ہشیم، یحییٰ بن ابی اسحاق، انس بن مالک (رض) روایت ہے کہ فرمایا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ کی طرف نکلے تو آپ ﷺ دو دو رکعت پڑھتے رہے یہاں تک کہ آپ ﷺ واپس لوٹ آئے، میں نے عرض کیا آپ ﷺ مکہ مکرمہ میں کتنا ٹھہرے ؟ آپ نے فرمایا دس (روز) ۔
تمام نمازوں میں قنوت پڑھنے کے استح کے بیان میں جب مسلمانوں پر کوئی آفت آئے اور اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگنا اور اس کے پڑھنے کا وقت صبح کی نماز میں آخری رکعت میں رکوع سے سر اٹھانے کے بعد ہے اور بلند آواز کے ساتھ پڑھنا مستحب ہے۔
قتیبہ، ابوعوانہ، ابوکریب، ابن علیہ، یحییٰ بن ابی اسحاق، حضرت انس (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے اسی طرح حدیث نقل فرمائی۔
مسافروں کی نماز اور قصر کے احکام کا بیان
عبیداللہ بن معاذ، شعبہ، یحییٰ بن ابی اسحاق، انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ ہم مدینہ منورہ سے حج کے ارادہ سے نکلے پھر اسی طرح حدیث ذکر فرمائی۔
مسافروں کی نماز اور قصر کے احکام کا بیان
ابن نمیر، ابوکریب، ابواسامہ ثوری، یحییٰ بن ابی اسحاق، انس (رض) نے نبی ﷺ سے اسی طرح حدیث نقل فرمائی اور حج کا ذکر نہیں کیا۔
منی میں نماز قصر کر کے پڑھنے کے بیان میں
حرملہ بن یحیی، ابن وہب، عمرو بن حارث، ابن شہاب، سالم بن عبداللہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے منیٰ وغیرہ میں مسافر کی طرح دو رکعتیں پڑھیں اور حضرت ابوبکر (رض) اور حضرت عمر اور حضرت عثمان (رض) بھی اپنے دور خلافت کے آغاز میں دو رکعتیں پڑھتے تھے پھر وہ پوری چار رکعت پڑھنے لگے۔
منی میں نماز قصر کر کے پڑھنے کے بیان میں
زہیر بن حرب، ولید بن مسلم، اوزاعی، اسحاق بن عبد بن حمید، عبدالرزاق، معمر، زہری سے اس سند کے ساتھ یہ حدیث بھی اسی طرح نقل کی گئی ہے۔
منی میں نماز قصر کر کے پڑھنے کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابواسامہ، عبیداللہ بن عمر، نافع، ابن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے منیٰ میں دو رکعتیں پڑھی ہیں آپ کے بعد حضرت ابوبکر (رض) نے بھی اور حضرت ابوبکر (رض) کے بعد حضرت عمر نے بھی اور حضرت عثمان (رض) نے بھی اپنی خلافت کی ابتداء میں دو رکعات پڑھی ہیں پھر حضرت عثمان چار رکعتیں پڑھنے لگ گئے تو حضرت ابن عمر (رض) جب امام کے ساتھ نماز پڑھتے تھے تو چار رکعت پڑھتے تھے اور جب وہ اکیلے نماز پڑھتے تو دو رکعت نماز پڑھتے۔
منی میں نماز قصر کر کے پڑھنے کے بیان میں
ابن مثنی، عبیداللہ بن سعید، یحییٰ قطان، ابوکریب، ابن ابی زائدہ، ابن نمیر، عقبہ بن عامر، عبیداللہ اس سند کے ساتھ یہ روایت بھی اسی طرح نقل کی گئی ہے۔
منی میں نماز قصر کر کے پڑھنے کے بیان میں
عبیداللہ بن معاذ، شعبہ، خبیب بن عبدالرحمن، حفص بن عاصم، ابن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر (رض) اور حضرت عمر (رض) اور حضرت عثمان (رض) نے منیٰ میں آٹھ سال یا فرمایا چھ سال قصر نماز پڑھی، حفص نے کہا کہ حضرت ابن عمر بھی منیٰ میں دو رکعتیں پڑھتے پھر اپنے بستر پر آتے، میں نے عرض کیا، اے چچا جان ! کاش آپ ان کے بعد دو رکعتیں اور پڑھ لیتے ! آپ (رض) نے فرمایا کہ اگر میں اس طرح کرتا تو نماز پوری نہ کرتا !
منی میں نماز قصر کر کے پڑھنے کے بیان میں
یحییٰ بن حبیب، خالد بن حارث، ابن مثنی، عبدالصمد، شعبہ اس سند کے ساتھ یہ روایت بھی اسی طرح نقل کی گئی ہے مگر اس روایت میں منیٰ کا تذکرہ نہیں ہے اور لیکن انہوں نے کہا کہ سفر میں نماز پڑھی پڑھی۔
منی میں نماز قصر کر کے پڑھنے کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، عبدالواحد، اعمش، ابراہیم، عبدالرحمن بن یزید فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان (رض) نے منیٰ میں ہمارے ساتھ چار رکعتیں نماز پڑھی، حضرت عبداللہ بن مسعود سے یہ کہا گیا تو انہوں نے (اِنَّا ِللہ وَاِنَّا اِلَیہ رَاجِعُون) کہا پھر فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ منیٰ میں دو رکعتیں پڑھی ہیں اور میں نے حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے ساتھ منیٰ میں دو رکعتیں پڑھی ہیں اور میں نے حضرت عمر بن خطاب (رض) کے ساتھ منیٰ میں دو رکعتیں پڑھی ہیں پس کاش کہ میرے نصیب میں یہ ہوتا کہ چار رکعتوں میں سے دو رکعتیں مقبول ہوتیں۔
منی میں نماز قصر کر کے پڑھنے کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب، ابومعاویہ، عثمان بن ابی شیبہ، جریر، عثمان بن ابی شیبہ، جریر اسحاق بن خشرم، عیسی، اعمش سے اس سند کے ساتھ اسی طرح حدیث نقل کی گئی ہے۔
منی میں نماز قصر کر کے پڑھنے کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، قتیبہ، ابواحوص، ابی اسحاق، حارثہ بن وہب فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ منیٰ میں اس وقت دو رکعتیں پڑھیں جب لوگ امن اور اکثریت میں تھے۔
منی میں نماز قصر کر کے پڑھنے کے بیان میں
احمد بن عبداللہ بن یونس، زہیر، ابواسحاق، حارثہ بن وہب فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے پیچھے منیٰ میں نماز پڑھی اور لوگ بہت زیادہ تعداد میں تھے اور پھر آپ ﷺ نے حجہ الوداع میں بھی دو رکعت نماز پڑھی۔ مسلم فرماتے ہیں کہ حارثہ بن وہب خزاعی حضرت عبیداللہ بن عمر بن خطاب کے ماں شریک بھائی ہیں۔
بارش میں گھروں میں نماز پڑھنے کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، مالک، نافع فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر (رض) نے ایک ایسی رات میں نماز کے لئے اذان دی کہ جس میں سردی اور ہوا چل رہی تھی تو انہوں نے فرمایا آگاہ ہوجاؤ کہ اپنے گھروں میں نماز پڑھو پھر فرمایا کہ نبی ﷺ مؤذن کو یہ کہنے کا حکم فرماتے جب رات سرد ہوتی اور بارش ہوتی، آگاہ ہوجاؤ کہ نماز اپنے گھروں میں پڑھو۔
بارش میں گھروں میں نماز پڑھنے کے بیان میں
محمد بن عبداللہ بن نمیر، عبیداللہ، نافع، ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے نماز کے لئے ایک ایسی رات میں پکارا کہ جس میں سردی اور ہوا اور بارش تھی پھر اپنے اس پکارنے کے آخر میں فرمایا : آگاہ رہو ! نماز اپنے گھروں میں ہی پڑھو، پھر فرمایا کہ رسول اللہ مؤذن کو حکم فرماتے جب رات سرد ہوتی یا بارش ہوتی، سفر میں وہ یہ کہتے آگاہ رہو ! نماز اپنے گھروں میں پڑھو۔
بارش میں گھروں میں نماز پڑھنے کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابواسامہ، عبیداللہ بن نافع، ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے نماز کے لئے ضجنان میں اذان دی پھر اس طرح ذکر فرمایا : آگاہ ہوجاؤ ! نماز اپنے گھروں میں پڑھو اور اس میں دوسرا جملہ دوبارہ نہیں دہرایا کہ حضرت ابن عمر (رض) کے قول سے ( أَلَا صَلُّوا فِي الرِّحَالِ ) ۔
بارش میں گھروں میں نماز پڑھنے کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، ابوخیثمہ، ابوزبیر، جابر، احمد بن یونس، زہیر، حضرت جابر فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے تو بارش ہونے لگی، آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے جو چاہے اپنی قیام گاہ میں نماز پڑھ سکتا ہے۔
بارش میں گھروں میں نماز پڑھنے کے بیان میں
علی بن حجر سعدی، اسماعیل، عبدالحمید، عبداللہ بن حارث، ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے بارش والے دن میں اپنے مؤذن سے فرمایا کہ جب تو کہے أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ (تو اس کے بعد) حَيَّ عَلَی الصَّلَاةِ نہ کہہ بلکہ یہ کہہ، صَلُّوا فِي بُيُوتِکُمْ اپنے گھروں میں نماز پڑھو، راوی کہتے ہیں کہ لوگوں کو یہ نئی بات معلوم ہوئی تو حضرت ابن عباس (رض) فرمایا کیا تم اس میں تعجب کرتے ہو ؟ اس طرح انہوں نے کیا جو مجھ سے بہتر تھے اگرچہ جمعہ (اور جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا) ضروری ہے مگر میں اسے ناپسند سمجھتا ہوں کہ تم کیچڑ اور پھسلن میں چل کر جاؤ۔
بارش میں گھروں میں نماز پڑھنے کے بیان میں
ابوکامل جحدری، حماد بن زید، عبدالحمید، عبداللہ بن حارث فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے ہمیں پانی اور کیچڑ والے دن (بارش میں) خطبہ ارشاد فرمایا لیکن اس میں جمعہ کا ذکر نہیں ہے، حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ انہوں نے اسی طرح کیا جو مجھ سے بہتر تھے (یعنی نبی کریم ﷺ نے بھی اسی طرح کیا)
بارش میں گھروں میں نماز پڑھنے کے بیان میں
ابور بیع عتکی زہرانی، حماد بن زید، ایوب، عاصم احول سے اس سند کے ساتھ یہ حدیث بھی اسی طرح نقل کی گئی ہے لیکن انہوں نے اپنی حدیث میں یہ ذکر نہیں کیا یعنی نبی ﷺ ۔
بارش میں گھروں میں نماز پڑھنے کے بیان میں
اسحاق بن منصور، ابن شمیل، شعبہ، عبدالحمید، عبداللہ بن حارث فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) کے مؤذن نے بارش والے دن میں جمعہ کے دن اذان دی، باقی حدیث اسیطرح ذکر فرمائی حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا میں اس بات کو ناپسند سمجھتا ہوں کہ تم کیچڑ اور پھسلن میں چلو۔
بارش میں گھروں میں نماز پڑھنے کے بیان میں
عبد بن حمید، سعید بن عامر، شعبہ، عبد بن حمید، عبدالرزاق، معمر، عاصم احول، عبداللہ بن حارث سے روایت ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) نے اپنے مؤذن کو حکم فرمایا : باقی حدیث کچھ لفظی تبدیلی کے ساتھ اسی طرح ذکر فرمائی۔
بارش میں گھروں میں نماز پڑھنے کے بیان میں
عبد بن حمید، احمد بن اسحاق، وہیب، ایوب، عبداللہ بن حارث فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) نے اپنے مؤذن کو بارش والے دن میں جمعہ کے روز حکم فرمایا۔ باقی حدیث اسی طرح ہے جیسے گزری۔
سفر میں سواری پر اس کا رخ جس طرف بھی ہو نفل پڑھنے کے جواز کے بیان میں
محمد بن عبداللہ بن نمیر، عبیداللہ، نافع، ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ اپنی اونٹنی پر نفل پڑھا کرتے تھے اس کا رخ چاہے جس طرف بھی ہو۔
سفر میں سواری پر اس کا رخ جس طرف بھی ہو نفل پڑھنے کے جواز کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوخالد احمر، عبیداللہ، نافع، ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ اپنی سواری پر نماز پڑھا کرتے تھے اس کا رخ چاہے جس طرف بھی ہو۔
سفر میں سواری پر اس کا رخ جس طرف بھی ہو نفل پڑھنے کے جواز کے بیان میں
عبیداللہ بن عمر، یحییٰ بن سعید، عبدالملک بن ابی سلیمان، سعید بن جبیر، ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی سواری پر نماز پڑھی اس حال میں کہ آپ ﷺ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف جا رہے تھے اور اس سواری کا رخ خواہ کسی طرف ہو، راوی کہتے ہیں کہ اس موقع پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تم جہاں کہیں بھی اپنا رخ کرو اللہ کی ذات کو ادھر ہی پاؤ گے۔
سفر میں سواری پر اس کا رخ جس طرف بھی ہو نفل پڑھنے کے جواز کے بیان میں
ابوکریب، ابن مبارک، ابن ابی زائدہ، ابن نمیر، عبدالملک، کے ساتھ یہ حدیث بھی کچھ لفظی تبدیلی کے ساتھ اسی طرح نقل کی گئی ہے۔
سفر میں سواری پر اس کا رخ جس طرف بھی ہو نفل پڑھنے کے جواز کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، مالک، عمرو بن یحیی، سعید بن یسار، ابن عمر فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو گدھے پر نماز پڑھتے ہوئے دیکھا اس حال میں کہ آپ ﷺ کا رخ خیبر کی طرف تھا۔
سفر میں سواری پر اس کا رخ جس طرف بھی ہو نفل پڑھنے کے جواز کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، مالک، ابوبکر بن عمر بن عبدالرحمن بن ابن عمر بن خطاب، حضرت سعید بن یسار فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابن عمر (رض) کے ساتھ مکہ مکرمہ کے راستہ سے جا رہا تھا، سعید کہتے ہیں کہ جب مجھے صبح طلوع ہونے کا ڈر ہوا تو میں نے اتر کر وتر پڑھے پھر ان سے جا کر مل گیا، حضرت ابن عمر نے مجھ سے فرمایا کہ تو کہاں رہ گیا تھا ؟ تو میں نے ان سے عرض کیا کہ میں نے فجر کے طلوع ہونے کے ڈر سے وتر پڑھ لئے ہیں، تو حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا کہ کیا تیرے لئے رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ میں نمونہ نہیں ؟ میں نے عرض کیا کیوں نہیں اللہ کی قسم ! حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ اونٹ پر نماز وتر پڑھ لیا کرتے تھے۔
سفر میں سواری پر اس کا رخ جس طرف بھی ہو نفل پڑھنے کے جواز کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، مالک، عبداللہ بن دینار، ابن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنی سواری پر نماز پڑھ لیا کرتے تھے خواہ اس کا رخ کسی بھی طرف ہو حضرت عبداللہ بن دینار فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر بھی اسی طرح کیا کرتے تھے۔
سفر میں سواری پر اس کا رخ جس طرف بھی ہو نفل پڑھنے کے جواز کے بیان میں
عیسیٰ بن حماد، لیث، ابن ہاد، عبداللہ بن دینار، ابن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنی سواری پر وتر پڑھ لیا کرتے تھے۔
سفر میں سواری پر اس کا رخ جس طرف بھی ہو نفل پڑھنے کے جواز کے بیان میں
حرملہ بن یحیی، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، سالم بن عبداللہ، حضرت عبداللہ (رض) اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سواری پر سنتیں پڑھا کرتے تھے چاہے اس کا رخ کسی طرف بھی ہو اور اسی سواری پر وتر بھی پڑھا کرتے تھے سوائے اس کے کہ اس سواری پر فرض نماز نہیں پڑھتے تھے۔
سفر میں سواری پر اس کا رخ جس طرف بھی ہو نفل پڑھنے کے جواز کے بیان میں
عمرو بن سواد، حرملہ، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، عبداللہ بن عامر بن ربیعہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو سفر میں رات کی سنتیں اپنی سواری کی پشت پر پڑھتے دیکھا ہے اس کا رخ چاہے جس طرح بھی ہو (چاہے کعبہ کی مخالف سمت ہی ہو) ۔
سفر میں سواری پر اس کا رخ جس طرف بھی ہو نفل پڑھنے کے جواز کے بیان میں
محمد بن حاتم، عفان بن مسلم، ہمام، انس بن سیرین فرماتے ہیں کہ ہم حضرت انس بن مالک (رض) سے ملے جس وقت وہ شام سے آئے، ہم نے ان سے عین التمر پر ملاقات کی، میں نے انہیں دیکھا کہ وہ گدھے پر نماز پڑھ رہے ہیں اور اس کا رخ اس طرف ہے، ہمام کہتے ہیں کہ اس کا رخ قبلہ کی بائیں طرف تھا تو میں نے ان سے عرض کیا کہ میں نے آپ کو قبلہ کے علاوہ (کی طرف رخ کر کے) نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے، انہوں نے کہا اگر میں نے رسول اللہ ﷺ کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا نہ ہوتا تو میں بھی اس طرح نہ کرتا۔
سفر میں دو نمازوں کے جمع کر کے پڑھنے کے جواز کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، مالک، نافع، ابن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو جب جانے کی جلدی ہوتی تو آپ ﷺ مغرب اور عشاء کو جمع کر کے پڑھتے۔
سفر میں دو نمازوں کے جمع کر کے پڑھنے کے جواز کے بیان میں
محمد بن مثنی، یحییٰ بن عبیداللہ فرماتے ہیں کہ حضرت نافع نے مجھے خبر دی کہ حضرت ابن عمر کو جب جلدی جانا ہوتا تو شفق کے غائب ہونے کے بعد مغرب اور عشاء کو جمع کر کے پڑھتے تھے اور فرماتے کہ رسول اللہ ﷺ کو بھی جب (کسی سفر میں) جلدی جانا ہوتا تو مغرب اور عشاء کی نماز کو جمع کر کے پڑھتے تھے۔
سفر میں دو نمازوں کے جمع کر کے پڑھنے کے جواز کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، قتیبہ بن سعید، ابوبکر بن ابی شیبہ، عمرو ناقد، ابن عیینہ، عمرو بن سفیان، زہری، سالم اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو مغرب اور عشاء کی نماز جمع کر کے پڑھتے ہوئے دیکھا ہے جب آپ ﷺ کو جلدی جانا ہوتا تو۔
سفر میں دو نمازوں کے جمع کر کے پڑھنے کے جواز کے بیان میں
حرملہ بن یحیی، ابن وہب، یونس، ابن شہاب فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت سالم بن عبداللہ (رض) نے خبر دی کہ ان کے باپ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ جب آپ ﷺ کو کسی سفر میں جلدی جانا ہوتا تو مغرب کی نماز کو مؤخر فرماتے یہاں تک کہ مغرب اور عشاء کی نمازوں کو جمع کر کے پڑھتے۔
سفر میں دو نمازوں کے جمع کر کے پڑھنے کے جواز کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، مفضل ابن فضالہ، عقیل، ابن شہاب، انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے جب سورج ڈھلنے سے پہلے سفر کرنا ہوتا تھا تو ظہر کی نماز کو عصر کے وقت تک مؤخر فرماتے پھر آپ ﷺ اتر کر دونوں کو جمع کر کے پڑھتے اور اگر سفر شروع کرنے سے پہلے سورج ڈھل جاتا تو پھر ظہر کی نماز ہی پڑھتے اور پھر آپ ﷺ سوار ہوجاتے۔
سفر میں دو نمازوں کے جمع کر کے پڑھنے کے جواز کے بیان میں
عمرو ناقد، شبابہ بن سوار مدائنی، لیث بن سعد، عقیل بن خالد، زہری، انس فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ جب سفر میں دو نمازوں کو جمع کرنے کا ارادہ فرماتے تو ظہر کی نماز کو مؤخر فرماتے یہاں تک کہ عصر کی نماز کے ابتدائی وقت میں داخل ہوجاتے پھر آپ ﷺ ان دونوں نمازوں کو اکٹھی پڑھتے۔
سفر میں دو نمازوں کے جمع کر کے پڑھنے کے جواز کے بیان میں
ابوطاہر و عمر بن سواد، ابن وہب، جابر بن اسماعیل، عقیل بن خالد، ابن شہاب، انس سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کو جب سفر کی جلدی ہوتی تو آپ ﷺ ظہر کی نماز کو عصر کی نماز کے ابتدائی وقت تک مؤخر فرماتے پھر ان دونوں کو اکٹھی پڑھتے اور مغرب کی نماز کو مؤخر فرماتے یہاں تک کہ شفق کے غائب ہونے کے وقت مغرب اور عشاء کی نمازوں کو اکٹھا پڑھتے۔
کسی خوف کے بغیر دو نمازوں کو اکٹھا کرکے پڑھنے کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، مالک، ابوزبیر، سعید بن جبیر، ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بغیر کسی خوف کے اور بغیر کسی سفر کے ظہر اور عصر کی نمازوں کو اکٹھا کیا اور مغرب اور عشاء کی نمازوں کو اکٹھا کر کے پڑھا ہے۔
کسی خوف کے بغیر دو نمازوں کو اکٹھا کرکے پڑھنے کے بیان میں
احمد بن یونس، عون بن سلام، زہیر، ابوزبیر، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ منورہ میں بغیر کسی خوف اور بغیر کسی سفر کے ظہر اور عصر کی نمازوں کو اکٹھا کر کے پڑھا ہے، حضرت ابوالزبیر کہتے ہیں کہ میں نے سعید سے پوچھا کہ آپ ﷺ نے اس طرح کیوں کیا ؟ تو انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت ابن عباس (رض) سے پوچھا جیسا کہ تو نے مجھ سے پوچھا ہے تو انہوں نے فرمایا کہ آپ ﷺ نے چاہا کہ آپ ﷺ کی امت میں سے کسی کو کوئی مشقت نہ ہو۔
کسی خوف کے بغیر دو نمازوں کو اکٹھا کرکے پڑھنے کے بیان میں
یحییٰ بن حبیب حارثی، خالد ابن حارث، ابوزبیر، سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) نے ہمیں بیان فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک سفر میں نمازوں کو جمع فرمایا وہ سفر کہ جس میں آپ ﷺ غزوہ تبوک میں تشریف لے گئے تھے، آپ ﷺ نے ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کی نمازوں کو اکٹھا پڑھا، حضرت سعید کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس (رض) سے پوچھا کہ آپ ﷺ نے ایسا کیوں کیا ؟ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ آپ ﷺ نے چاہا کہ آپ ﷺ کی امت کو کوئی مشقت نہ ہو۔
کسی خوف کے بغیر دو نمازوں کو اکٹھا کرکے پڑھنے کے بیان میں
احمد بن عبداللہ بن یونس، زہیر، ابوزبیر، ابوطفیل، عامر، معاذ سے فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوہ تبوک نکلے تو آپ ﷺ ظہر اور عصر کی نمازوں کو اکٹھا کرکے اور مغرب اور عشاء کی نمازوں کو اکٹھا کر کے پڑھتے تھے۔
کسی خوف کے بغیر دو نمازوں کو اکٹھا کرکے پڑھنے کے بیان میں
یحییٰ بن حبیب، خالد ابن حارث، قرہ بن خالد، ابوزبیر، عامر بن واثلہ ابوطفیل، معاذ بن جبل فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے غزوہ تبوک میں ظہر اور عصر کی نمازوں اور مغرب اور عشاء کی نمازوں کو جمع فرمایا : راوی عامر بن واثلہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت معاذ سے پوچھا کہ آپ ﷺ نے ایسے کیوں کیا ؟ حضرت معاذ نے فرمایا کہ آپ ﷺ نے چاہا کہ آپ ﷺ کی امت کو کوئی مشقت نہ ہو۔
کسی خوف کے بغیر دو نمازوں کو اکٹھا کرکے پڑھنے کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب، ابومعاویہ، ابوکریب، ابوسعید اشج، وکیع، اعمش، حبیب بن ثابت، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ منورہ میں بغیر کسی خوف اور بغیر بارش وغیرہ کے ظہر و عصر، مغرب اور عشاء کی نمازوں کو جمع فرمایا اور وکیع کی حدیث ہے انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت ابن عباس (رض) سے پوچھا کہ آپ ﷺ نے اس طرح کیوں کیا ؟ انہوں نے کہا تاکہ آپ کی امت کو کوئی مشقت نہ ہو اور حضرت ابومعاویہ کی حدیث میں ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) سے پوچھا گیا کہ آپ ﷺ نے کس ارادے سے ایسے فرمایا انہوں نے فرمایا کہ آپ ﷺ نے چاہا کہ آپ ﷺ کی امت کو کوئی مشقت نہ ہو۔
کسی خوف کے بغیر دو نمازوں کو اکٹھا کرکے پڑھنے کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، سفیان بن عیینہ، عمرو جابر بن زید، ابن عباس فرماتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ کے ساتھ آٹھ رکعتیں (ظہر اور عصر) اکٹھی کر کے اور سات رکعتیں (مغرب اور عشاء) اکٹھی کر کے پڑھیں، راوی کہتے ہیں کہ میں نے کہا اے ابوشعثاء ! میرا خیال ہے کہ آپ ﷺ نے ظہر کی نماز میں دیر کر کے اور عصر کی نماز جلدی پڑھی اور مغرب کی نماز میں دیر کرکے عشاء کی نماز جلدی پڑھی، انہوں نے کہا کہ میرا بھی اسی طرح خیال ہے۔
کسی خوف کے بغیر دو نمازوں کو اکٹھا کرکے پڑھنے کے بیان میں
ابوربیع زہرانی، حماد بن زید، عمرو بن دینار، جابر بن زید، ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ منورہ میں ساتھ اور آٹھ رکعتیں یعنی ظہر اور عصر، مغرب اور عشاء اکٹھی اکٹھی پڑھی ہیں۔
کسی خوف کے بغیر دو نمازوں کو اکٹھا کرکے پڑھنے کے بیان میں
ابوربیع، حماد، زبیر بن خریت، عبداللہ بن شقیق فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) نے ایک دن عصر کی نماز کے بعد جس وقت کہ سورج غروب ہوگیا اور ستارے ظاہر ہوگئے، ہمیں خطبہ دیا اور لوگ کہنے لگے نماز نماز ! راوی نے کہا کہ پھر بنی تمیم کا ایک آدمی آیا وہ خاموش نہیں رہا تھا اور نہ ہی نماز نماز کہنے سے باز آرہا تھا، تو حضرت ابن عباس نے فرمایا تیری ماں مرجائے ! کیا تو مجھے سنت سکھا رہا ہے ؟ پھر حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ نے ظہر اور عصر، مغرب اور عشاء کی نمازوں کو اکٹھا کر کے پڑھا ہے، عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں کہ اس سے میرے دل میں کچھ خلجان سا محسوس ہوا تو میں حضرت ابوہریرہ (رض) کے پاس آیا میں نے ان سے پوچھا تو انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) کے قول کے تصدیق فرمائی۔
کسی خوف کے بغیر دو نمازوں کو اکٹھا کرکے پڑھنے کے بیان میں
ابن ابی عمر، وکیع، عمران بن حدیر، عبداللہ بن شقیق فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت ابن عباس (رض) سے کہا نماز ! آپ خاموش رہے، پھر اس آدمی نے کہا نماز ! آپ خاموش رہے، پھر اس آدمی نے کہا نماز ! آپ خاموش رہے۔ تو حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا تیری ماں مرجائے ! کیا تو ہمیں نماز سکھاتا ہے ؟ ہم رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں دو نمازوں کو اکٹھا پڑھا کرتے تھے۔
نماز پڑھنے کے بعد دائیں اور بائیں طرف سے پھر نے کے جواز کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابومعاویہ، وکیع، اعمش، عمارہ، اسود، عبداللہ فرماتے ہیں کہ تم میں سے کوئی آدمی اپنی ذات کو شیطان کا ہرگز حصہ نہ بنائے یہ نہ دیکھے کہ نماز کے بعد صرف دائیں جانب ہی پھرنا اس پر ضروری ہے، میں نے رسول اللہ ﷺ کو بہت زیادہ مرتبہ دیکھا ہے کہ آپ ﷺ بائیں طرف بھی پھرتے تھے۔
نماز پڑھنے کے بعد دائیں اور بائیں طرف سے پھر نے کے جواز کے بیان میں
اسحاق بن ابراہیم، جریر، عیسیٰ بن یونس، علی بن خشرم، عیسیٰ اس سند کے ساتھ حضرت اعمش (رض) سے اسی طرح یہ حدیث نقل کی گئی ہے۔
نماز پڑھنے کے بعد دائیں اور بائیں طرف سے پھر نے کے جواز کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، ابوعوانہ، سدی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت انس (رض) سے پوچھا کہ جب میں نماز پڑھ لوں (تو اس کے بعد) کس طرف پھروں، دائیں طرف یا بائیں طرف ؟ حضرت انس (رض) نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو زیادہ تر دائیں طرف پھرتے دیکھا ہے۔
نماز پڑھنے کے بعد دائیں اور بائیں طرف سے پھر نے کے جواز کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، زہیر بن حرب، وکیع، سفیان، سدی، حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ دائیں طرف پھرتے تھے۔
امام کے دائیں طرف کھڑے ہونے کے استح کے بیان میں
ابوکریب، ابن ابی زائدہ، مسعر، ثابت بن عبید، براء فرماتے ہیں کہ جب ہم رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھتے تھے تو ہم آپ ﷺ کے دائیں طرف کھڑے ہونے کو پسند کرتے تھے تاکہ آپ ﷺ ہماری طرف رخ کر کے متوجہ ہوں، حضرت براء فرماتے ہیں کہ میں نے آپ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ( رَبِّ قِنِي عَذَابَکَ يَوْمَ تَبْعَثُ أَوْ تَجْمَعُ عِبَادَکَ ) اے پروردگار مجھے اس دن کے عذاب سے بچانا جس دن تو اپنے بندوں کو جمع فرمائے گا۔
امام کے دائیں طرف کھڑے ہونے کے استح کے بیان میں
ابوکریب، زہیر بن حرب، وکیع، مسعر اس سند کے ساتھ یہ حدیث اسی طرح نقل کی گئی ہے لیکن اس میں (يُقْبِلُ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ ) کے الفاظ کا ذکر نہیں ہے۔
نماز کی اقامت کے بعد نقل نماز شروع کرنے کی کراہت کے بیان میں
احمد بن حنبل، محمد بن جعفر، شعبہ، عمرو بن دینار، عطاء بن یسار، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ جب نماز کی اقامت کہی جائے تو کوئی نماز نہ پڑھی جائے سوائے فرض نماز کے۔
نماز کی اقامت کے بعد نقل نماز شروع کرنے کی کراہت کے بیان میں
محمد بن حاتم، ابن رافع، شبابہ، ورقاء اس سند کے ساتھ یہ حدیث بھی اسی طرح نقل کی گئی ہے۔
نماز کی اقامت کے بعد نقل نماز شروع کرنے کی کراہت کے بیان میں
یحییٰ بن حبیب حارثی، روح، زکریا بن اسحاق، عمرو بن دینار، عطاء بن یسار، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ جب نماز کی اقامت کہی جائے تو کوئی نماز نہ پڑھی جائے سوائے فرض نماز کے۔
نماز کی اقامت کے بعد نقل نماز شروع کرنے کی کراہت کے بیان میں
عبد بن حمید، عبدالرزاق، زکریا بن اسحاق اس سند کے ساتھ یہ حدیث بھی اسی طرح نقل کی گئی ہے۔
نماز کی اقامت کے بعد نقل نماز شروع کرنے کی کراہت کے بیان میں
حسن حلوانی، یزید بن ہارون، حماد بن زید، ایوب، عمرو بن دینار، عطاء بن یسار، ابوہریرہ (رض) نے نبی ﷺ سے اسی طرح حدیث نقل فرمائی، حماد نے کہا کہ پھر میں نے حضرت عمرو سے ملاقات کی انہوں نے مجھے حدیث بیان کی لیکن مرفوع نہیں (یعنی رسول اللہ ﷺ کی طرف نسبت کر کے بیان نہیں فرمائی) ۔
نماز کی اقامت کے بعد نقل نماز شروع کرنے کی کراہت کے بیان میں
عبداللہ بن مسلمہ، ابراہیم بن سعد، حفص بن عاصم، عبداللہ بن مالک بن بحینہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک آدمی کے پاس سے گزرے وہ نماز پڑھ رہا تھا اور صبح کی نماز کی اقامت ہوچکی تھی آپ ﷺ نے اس سے کچھ باتیں فرمائیں، ہم نہیں جانتے کہ آپ ﷺ نے اس سے کیا فرمایا : جب ہم نماز سے فارغ ہوئے تو ہم نے اسے گھیر لیا، ہم نے کہا رسول اللہ ﷺ نے تجھے کیا فرمایا ہے ؟ اس نے کہا رسول اللہ ﷺ نے مجھے فرمایا تھا کہ اب تم میں کوئی آدمی صبح کی چار رکعتیں پڑھنے لگا ہے، قعنبی کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مالک بن بحینہ (رض) نے اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے فرمایا ابوالحسین فرماتے ہیں کہ باپ کے واسطہ سے اس حدیث میں خطاء ہے۔
نماز کی اقامت کے بعد نفل نماز شروع کرنے کی کراہت کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، ابوعوانہ، سعد بن ابراہیم، حفص بن عاصم، ابن بحینہ سے روایت ہے کہ صبح کی نماز کی اقامت کہی گئی تو رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا اس حال میں کہ مؤذن اقامت کہہ رہا تھا تو آپ ﷺ نے فرمایا کیا تو صبح کی چار رکعات نماز پڑھتا ہے۔
نماز کی اقامت کے بعد نقل نماز شروع کرنے کی کراہت کے بیان میں
ابوکامل جحدری، حماد ابن زید، حامد بن عمر بکروای، عبدالواحد، ابن زیاد، ابن نمیر، ابومعاویہ، عاصم، زہیر بن حرب، مروان بن معاویہ، عبداللہ بن سرجس سے روایت ہے کہ ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا اور رسول اللہ ﷺ صبح کی نماز پڑھا رہے تھے، اس آدمی نے مسجد کے ایک کونے میں دو رکعات نماز پڑھی پھر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی، جب رسول اللہ ﷺ نے سلام پھیرا تو آپ ﷺ نے فرمایا اے فلاں آدمی تو نے دو نمازوں میں کس کو فرض قرار دیا ہے کیا جو نماز تو نے اکیلے پڑھی یا وہ نماز جو تو نے ہمارے ساتھ پڑھی ہے ؟
یحیی بن یحیی، سلیمان بن بلال، ربیعہ بن ابی عبدالرحمن، عبدالملک بن سعید، ابی حمید، ابواسید
یحییٰ بن یحیی، سلیمان بن بلال، ربیعہ بن ابوعبدالرحمن، عبدالملک بن سعید، ابوحمید، ابواسید سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی آدمی مسجد میں داخل ہو تو اسے چاہئے کہ یہ دعا کہے (اللَّهُمَّ افْتَحْ لِي أَبْوَابَ رَحْمَتِکَ ) اے اللہ میرے لئے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے اور جب مسجد سے نکلے تو اسے چاہئے کہ یہ کہے (اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ ) اے اللہ میں تجھ سے تیرے فضل کا سوال کرتا ہوں۔
یحیی بن یحیی، سلیمان بن بلال، ربیعہ بن ابی عبدالرحمن، عبدالملک بن سعید، ابی حمید، ابواسید
حامد بن عمر بکراوی، بشر بن مفضل، عمارہ بن عوانہ، ربیعہ بن ابی عبدالرحمن، عبدالملک بن سعید بن سوید انصاری اس سند کے ساتھ حضرت ابوحمید یا حضرت اسید (رض) نے نبی ﷺ سے اسی مذکورہ حدیث کی طرح نقل فرمایا۔
دو رکعت تحیة المسجد پڑھنے کے استح اور نماز سے پہلے بیٹھنے کی کراہت کے بیان میں۔
عبداللہ بن مسلمہ بن قعنب، قتیبہ بن سعید، مالک، یحییٰ بن یحیی، مالک بن عامر بن عبداللہ بن زبیر، حضرت ابوقتادہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو تو اسے چاہئے کہ بیٹھنے سے پہلے دو رکعتیں پڑھ لے۔
دو رکعت تحیة المسجد پڑھنے کے استح اور نماز سے پہلے بیٹھنے کی کراہت کے بیان میں۔
ابوبکر بن ابی شیبہ، حسین بن علی، زائدہ، عمرو بن یحییٰ انصاری، محمد بن یحییٰ بن حبان، عمرو بن سلیم بن خلدہ انصاری، ابوقتادہ رسول اللہ ﷺ کے صحابی فرماتے ہیں کہ میں مسجد میں داخل ہوا اس حال میں کہ رسول اللہ ﷺ لوگوں کے درمیان تشریف فرما تھے، حضرت ابوقتادہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں بھی بیٹھ گیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تجھے بیٹھنے سے پہلے دو رکعتیں پڑھنے سے کس چیز نے روکا ؟ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول میں نے آپ ﷺ کو بیٹھے ہوئے اور دوسرے لوگوں کو بھی بیٹھے ہوئے دیکھا، آپ ﷺ نے فرمایا جب بھی تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو تو وہ نہ بیٹھے جب تک کہ دو رکعات نہ پڑھ لے۔
سفر سے واپس آنے پر سب سے پہلے مسجد میں آکر دو رکعتیں پڑھنے کے استح کے بیان میں
احمد بن جو اس، ابوعاصم، عبیداللہ، سفیان، محارب بن دثار، جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ پر میرا کچھ قرض تھا آپ ﷺ نے وہ قرض مجھے ادا فرمایا اور کچھ زیادہ بھی عطا فرمایا اور میں مسجد میں آپ ﷺ کے پاس آیا تو آپ ﷺ نے فرمایا دو رکعت نماز پڑھو۔
سفر سے واپس آنے پر سب سے پہلے مسجد میں آکر دو رکعتیں پڑھنے کے استح کے بیان میں
عبیداللہ بن معاذ، شعبہ، محارب، جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے ایک اونٹ خریدا تو جب میں مدینہ آیا تو آپ ﷺ نے مجھے حکم فرمایا کہ میں مسجد میں آکر دو رکعت نماز پڑھوں۔
سفر سے واپس آنے پر سب سے پہلے مسجد میں آکر دو رکعتیں پڑھنے کے استح کے بیان میں
محمد بن مثنی، عبدالوہاب، عبیداللہ ثقفی، وہب ابن کیسان، جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک غزوہ میں نکلا، میرا اونٹ آہستہ آہستہ چلتا تھا اور تھک جاتا تھا اور رسول اللہ ﷺ مجھ سے پہلے چلے گئے اور میں اگلے دن پہنچا تو میں مسجد میں آیا، آپ ﷺ کو میں نے مسجد کے دروازے پر پایا، آپ ﷺ نے فرمایا کہ تو اس وقت آیا ہے ؟ میں نے عرض کیا جی ہاں ! آپ ﷺ نے فرمایا : اپنے اونٹ کو چھوڑ دو اور مسجد میں داخل ہو کردو رکعت نماز پڑھو، پھر میں مسجد میں داخل ہوا میں نے نماز پڑھی پھر واپس لوٹا۔
سفر سے واپس آنے پر سب سے پہلے مسجد میں آکر دو رکعتیں پڑھنے کے استح کے بیان میں
محمد بن مثنی، ضحاک، ابوعاصم، محمود بن غیلان، عبدالرزاق، ابن جریج، ابن شہاب، حضرت کعب بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کسی سفر سے واپس نہیں آتے مگر دن میں چاشت کے وقت سب سے پہلے مسجد میں تشریف لاتے پھر اس میں دو رکعات نماز پڑھتے پھر مسجد میں بیٹھتے۔
نماز چاشت کے پڑھنے کے استح اور ان کی رکعتوں کی تعداد کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، یزید بن زریع، سعید جریری، عبداللہ بن شقیق فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ (رض) سے پوچھا کہ کیا نبی ﷺ چاشت کی نماز پڑھا کرتے تھے ؟ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا کہ نہیں سوائے اس کے کہ آپ ﷺ کسی سفر وغیرہ سے تشریف لاتے۔
نماز چاشت کے پڑھنے کے استح اور ان کی رکعتوں کی تعداد کے بیان میں
عبیداللہ بن معاذ عنبری، کہمس بن حسن، عبداللہ بن شقیق فرماتے ہیں کہ ہم نے حضرت عائشہ (رض) سے پوچھا کہ کیا نبی ﷺ چاشت کی نماز پڑھا کرتے تھے ؟ حضرت عائشہ نے فرمایا کہ نہیں سوائے اس کے کہ آپ کسی سفر وغیرہ سے تشریف لاتے۔
نماز چاشت کے پڑھنے کے استح اور ان کی رکعتوں کی تعداد کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، مالک، ابن شہاب، عروہ، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ وہ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو نہیں دیکھا کہ آپ ﷺ نے کبھی چاشت کی نماز پڑھی ہو اور میں اس کو پڑھتی ہوں اور رسول اللہ ﷺ کسی عمل کو اس لئے چھوڑتے تھے حالانکہ اس عمل کو آپ ﷺ پسند فرماتے صرف اس ڈر سے کہ لوگ بھی وہ عمل کرنے لگ جائیں گے پھر وہ عمل ان پر فرض کردیا جائے گا۔
نماز چاشت کے پڑھنے کے استح اور ان کی رکعتوں کی تعداد کے بیان میں
شیبان بن فروخ، عبدالوارث، یزید، معاذہ بیان کرتی ہیں کہ انہوں نے حضرت عائشہ (رض) سے پوچھا کہ رسول اللہ چاشت کی نماز کی کتنی رکعات پڑھا کرتے تھے انہوں نے فرمایا چار رکعتیں اور جتنی چاہتے زیادہ پڑھتے۔
نماز چاشت کے پڑھنے کے استح اور ان کی رکعتوں کی تعداد کے بیان میں
محمد بن مثنی، ابن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، یزید اس سند کے ساتھ اس طرح حدیث روایت کی گئی ہے۔ (اور اس میں راوی نے کہا کہ اور جتنی اللہ چاہے زیادہ پڑھتے)
نماز چاشت کے پڑھنے کے استح اور ان کی رکعتوں کی تعداد کے بیان میں
یحییٰ بن حبیب، خالد بن حارث، سعید، قتادہ، معاذہ، حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ چاشت کی نماز کی چار رکعتیں پڑھا کرتے تھے اور جتنی اللہ چاہتا زیادہ پڑھ لیتے۔
نماز چاشت کے پڑھنے کے استح اور ان کی رکعتوں کی تعداد کے بیان میں
اسحاق بن ابراہیم، ابن بشار، معاذ بن ہشام، قتادہ سے اس سند کے ساتھ اسی طرح حدیث نقل کی گئی ہے۔
نماز چاشت کے پڑھنے کے استح اور ان کی رکعتوں کی تعداد کے بیان میں
محمد بن مثنی، ابن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، عمرو بن مرہ، عبدالرحمن بن ابی لیلی فرماتے ہیں کہ مجھے کسی نے خبر نہیں دی کہ اس نے رسول اللہ کو چاشت کی نماز پڑھتے ہوئے دیکھا سوائے ام ہانی کے، کیونکہ وہ بیان کرتی ہیں کہ نبی ﷺ فتح مکہ کے دن میرے گھر تشریف لائے اور آپ ﷺ نے آٹھ رکعات پڑھیں اور اتنی جلدی میں پڑھیں کہ میں نے پہلے کبھی اتنی جلدی پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا سوائے اس کے کہ آپ ﷺ رکوع و سجود پورے پورے فرماتے تھے اور ابن بشار نے اپنی حدیث میں (قَطُّ ) کا لفظ ذکر نہیں کیا۔
نماز چاشت کے پڑھنے کے استح اور ان کی رکعتوں کی تعداد کے بیان میں
حرملہ بن یحیی، محمد بن سلمہ، عبداللہ بن وہب، یونس، ابن شہاب، ابن عبداللہ بن حارث، عبداللہ بن حارث، ابن نوفل فرماتے ہیں کہ میں نے پوچھا اور مجھے اس بات کی آرزو بھی تھی کہ میں کسی ایسے آدمی کو ملوں جو مجھے خبر دے کہ رسول اللہ چاشت کی نماز پڑھتے تھے، تو مجھے کوئی بھی نہیں ملا جو مجھے یہ بیان کرتا ہو سوائے ام ہانی بنت ابوطالب کے، انہوں نے مجھے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ فتح مکہ کے روز دن چڑھے کے بعد تشریف لائے پھر ایک کپڑا لایا گیا جس سے پردہ کیا گیا اور آپ ﷺ نے غسل فرمایا : پھر آپ ﷺ نے آٹھ رکعتیں پڑھیں، مجھے نہیں معلوم کہ اس میں آپ ﷺ کا قیام لمبا تھا یا رکوع و سجود، اس کا ہر رکن تقریبا برابر تھا، حضرت ام ہانی (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے آپ ﷺ کو یہ نماز نہ اس سے پہلے اور نہ اس کے بعد پڑھتے دیکھا ہے، مرادی نے یونس سے روایت کیا ہے اور اس میں (أَخْبَرَتْنِي) نہیں کہا۔
نماز چاشت کے پڑھنے کے استح اور ان کی رکعتوں کی تعداد کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، مالک، ابونضر، ام ہانی بنت ابی طالب فرماتی ہیں کہ میں فتح مکہ والے سال رسول اللہ ﷺ کی طرف گئی تو میں نے آپ ﷺ کو غسل کرتے ہوئے پایا اور حضرت فاطمہ (رض) آپ ﷺ کی بیٹی نے ایک کپڑے کے ساتھ پردہ کیا ہوا تھا، حضرت ام ہانی (رض) کہتی ہیں کہ میں نے سلام کیا، آپ ﷺ نے فرمایا یہ کون ہے ؟ میں نے کہا، ام ہانی ابوطالب کی بیٹی ! آپ ﷺ نے فرمایا مرحبا ! ام ہانی ہو ؟ جب آپ ﷺ غسل سے فارغ ہوئے تو ایک ہی کپڑے میں لپٹے ہوئے کھڑے ہو کر آٹھ رکعتیں نماز پڑھیں، جب آپ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول میری ماں جائے حضرت علی (رض) بن ابی طالب ایک ایسے آدمی کو قتل کرنا چاہتے ہیں جسے میں پناہ دے چکی ہوں اور وہ آدمی فلاں بن ہبیرہ ہے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے ام ہانی ہم نے پناہ دی جسے تو نے پناہ دی، حضرت ام ہانی فرماتی ہیں کہ وہ نماز چاشت کی نماز تھی۔
نماز چاشت کے پڑھنے کے استح اور ان کی رکعتوں کی تعداد کے بیان میں
حجاج بن شاعر، معلی بن اسد، وہیب بن خالد، جعفر بن محمد، عقیل، ام ہانی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ والے سال ان کے گھر میں آٹھ رکعتیں نماز کی پڑھی ہیں ایک ہی کپڑے میں کہ جس کے دائیں حصے کو بائیں جانب اور بائیں حصہ کو دائیں جانب ڈال رکھا تھا۔
نماز چاشت کے پڑھنے کے استح اور ان کی رکعتوں کی تعداد کے بیان میں
عبداللہ بن محمد بن اسماء، مہدی ابن میمون، واصل مولیٰ ابی عیینہ، یحییٰ بن عقیل، یحییٰ بن یعمر، ابواسود، ابوذر (رض) روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا تم میں جو کوئی آدمی صبح کرتا ہے تو اس کے ہر جوڑ پر صدقہ لازم ہے تُو ہر مرتبہ سُبْحَانَ اللَّهِ کہ صدقہ ہے، ہر ایک مرتبہ اَلْحَمْدُ لِلَّهِ کہنا صدقہ ہے اور ہر ایک مرتبہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کہنا صدقہ ہے اچھائی کا حکم کرنا صدقہ ہے اور برائی سے روکنا صدقہ ہے اور سب صدقات کا متبادل چاشت کی نماز کی دو رکعتوں کا پڑھ لینا ہے۔
نماز چاشت کے پڑھنے کے استح اور ان کی رکعتوں کی تعداد کے بیان میں
شیبان بن فروخ، عبدالوارث، ابوتیاح، ابوعثمان نہدی، ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ میرے خلیل نے مجھے وصیت فرمائی ہر مہینہ میں تین دن تین روزے رکھنے کی اور دو رکعت چاشت کی اور سونے سے پہلے وتر پڑھنے کی۔
نماز چاشت کے پڑھنے کے استح اور ان کی رکعتوں کی تعداد کے بیان میں
محمد بن مثنی، ابن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، عباس، جریر، ابی شمر، ابوعثمان نہدی اس سند کے ساتھ حضرت ابوہریرہ (رض) نے نبی ﷺ سے اسی حدیث کی طرح نقل فرمایا۔
نماز چاشت کے پڑھنے کے استح اور ان کی رکعتوں کی تعداد کے بیان میں
سلیمان بن معبد، معلی بن اسد، عبدالعزیز بن مختار، عبداللہ الداناج، ابورافع، ابوہریرہ اس سند کی روایت میں یہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا مجھے میرے خلیل ابوالقاسم ﷺ نے تین باتوں کی وصیت فرمائی پھر آگے اسی طرح حدیث ذکر فرمائی۔
نماز چاشت کے پڑھنے کے استح اور ان کی رکعتوں کی تعداد کے بیان میں
ہارون بن عبداللہ، محمد بن رافع، ابن ابی فدیک، ضحاک بن عثمان، ابراہیم بن عبداللہ بن حنین، ابی مرہ مولیٰ ام ہانی، حضرت ابوالدرداء (رض) فرماتے ہیں کہ مجھے میرے حبیب ﷺ نے تین (باتوں) کی وصیت فرمائی جن کو میں زندگی بھر کبھی نہیں چھوڑوں گا ہر مہینے تین دنوں کے روزے اور چاشت کی نماز اور اس بات کی کہ میں نہ سوؤں یہاں تک کہ میں وتر پڑھ لوں۔
نماز چاشت کے پڑھنے کے استح اور ان کی رکعتوں کی تعداد کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، مالک، نافع، ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ ام المومنین حضرت حفصہ (رض) نے انہیں خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ نے جب مؤذن صبح کی نماز کے لئے اذان دے کر خاموش ہوگیا اور صبح ظاہر ہوگئی تو آپ ﷺ نے نماز کھڑی ہونے سے پہلے ہلکی دو رکعتیں پڑھیں۔
نماز چاشت کے پڑھنے کے استح اور ان کی رکعتوں کی تعداد کے بیان میں
یحییٰ بن یحییٰ قتیبہ، ابن رمح، لیث بن سعد، زہیر بن حرب، عبیداللہ بن سعید، یحییٰ بن عبیداللہ، اسماعیل، ایوب، نافع سے اس سند کے ساتھ اس طرح روایت نقل کی گئی ہے۔
نماز چاشت کے پڑھنے کے استح اور ان کی رکعتوں کی تعداد کے بیان میں
احمد بن عبداللہ بن حکم، محمد بن جعفر، شعبہ، زید بن محمد، نافع، حضرت حفصہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب طلوع فجر ہوجاتا تھا تو کوئی نماز نہیں پڑھتے تھے سوائے دو ہلکی رکعتوں کے۔
نماز چاشت کے پڑھنے کے استح اور ان کی رکعتوں کی تعداد کے بیان میں
اسحاق بن ابراہیم، نضر، شعبہ اس سند کے ساتھ یہ حدیث بھی اسی طرح نقل کی گئی ہے۔
نماز چاشت کے پڑھنے کے استح اور ان کی رکعتوں کی تعداد کے بیان میں
محمد بن عباد، سفیان، عمرو، زہری، سالم، حضرت حفصہ (رض) فرماتی ہیں کہ نبی ﷺ جب فجر روشن ہوجاتی تھی تو دو رکعتیں پڑھتے تھے۔
نماز چاشت کے پڑھنے کے استح اور ان کی رکعتوں کی تعداد کے بیان میں
عمرو ناقد، عبدہ بن سلیمان، ہشام بن عروہ، حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب اذان سنتے تو نماز فجر کی دو رکعتیں پڑھتے تھے اور وہ دونوں رکعتیں ہلکی ہوتیں۔
نماز چاشت کے پڑھنے کے استح اور ان کی رکعتوں کی تعداد کے بیان میں
علی بن حجر، علی بن مسہر، ابوکریب، ابواسامہ، ابوبکر، ابن نمیر، عمرو ناقد، وکیع، ہشام اس سند کے ساتھ یہ حدیث بھی اسی طرح نقل کی گئی ہے لیکن اس حدیث میں طلوع فجر کا ذکر ہے۔
نماز چاشت کے پڑھنے کے استح اور ان کی رکعتوں کی تعداد کے بیان میں
محمد بن مثنی، ابن ابی عدی، ہشام، یحیی، ابی سلمہ، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ صبح کی نماز کی اذان اور اقامت کے درمیان دو رکعت نماز پڑھتے تھے۔
نماز چاشت کے پڑھنے کے استح اور ان کی رکعتوں کی تعداد کے بیان میں
محمد بن مثنی، عبدالوہاب، یحییٰ بن سعید، محمد بن عبدالرحمن، حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فجر کی نماز کی دو رکعتیں اتنی ہلکی پڑھتے تھے یہاں تک کہ میں نے عرض کیا کیا آپ ﷺ نے ان دو رکعتوں میں سورت الفاتحہ پڑھی ہے ؟۔
نماز چاشت کے پڑھنے کے استح اور ان کی رکعتوں کی تعداد کے بیان میں
عبیداللہ بن معاذ، شعبہ، محمد بن عبدالرحمن انصاری، عمرہ بنت عبدالرحمن، حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب فجر طلوع ہوتا تو دو رکعتیں پڑھتے تھے، میں عرض کرتی، کیا آپ ﷺ ان دو رکعتوں میں سورت الفاتحہ پڑھتے ہیں ؟
نماز چاشت کے پڑھنے کے استح اور ان کی رکعتوں کی تعداد کے بیان میں
زہیر بن حرب، یحییٰ بن سعید، ابن جریج، عطاء، عبید بن عمیر، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ صبح کی نماز سے پہلے دو رکعتوں پر جتنا التزام فرماتے تھے اس سے زیادہ نفلوں میں سے کسی چیز پر اتنا اہتمام نہیں ہوتا تھا۔
نماز چاشت کے پڑھنے کے استح اور ان کی رکعتوں کی تعداد کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابن نمیر، حفص بن غیاث، ابن نمیر، حفص، ابن جریج، عطاء، عبید بن عمیر، حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو میں نے نفل نمازوں میں سے کسی کو اتنی تیزی سے پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا جس قدر تیزی سے آپ ﷺ فجر سے پہلے دو رکعتیں پڑھتے تھے۔
نماز چاشت کے پڑھنے کے استح اور ان کی رکعتوں کی تعداد کے بیان میں
محمد بن عبید، ابوعوانہ، قتادہ، زرارہ بن اوفی، سعد بن ہشام، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا نماز فجر کی دو رکعات پڑھنا دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے ان تمام سے بہتر ہے۔
نماز چاشت کے پڑھنے کے استح اور ان کی رکعتوں کی تعداد کے بیان میں
یحییٰ بن حبیب، معتمر، قتادہ، زرارہ، سعد بن ہشام، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے طلوع فجر کے وقت دو رکعت نماز پڑھنے کی شان کے بارے میں فرمایا کہ ان کو پڑھنا میرے نزدیک ساری دنیا سے زیادہ محبوب ہے۔
نماز چاشت کے پڑھنے کے استح اور ان کی رکعتوں کی تعداد کے بیان میں
محمد بن عباد، ابن ابی عمر، مروان بن معاویہ، یزید بن کیسان، ابوحازم، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فجر کی نماز کی دو رکعتوں میں (قُلْ يَا أَيُّهَا الْکَافِرُونَ اور قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ) پڑھی۔
نماز چاشت کے پڑھنے کے استح اور ان کی رکعتوں کی تعداد کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، مروان بن معاویہ، عثمان بن حکیم، سعید بن یسار، ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نماز فجر کی دونوں رکعتوں میں سے پہلی رکعت میں سورت البقرہ میں (قُولُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا) پوری آیت اور ان دونوں رکعتوں میں سے دوسری رکعت میں (آمَنَّا بِاللَّهِ وَاشْهَدْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ ) پڑھتے تھے۔
نماز چاشت کے پڑھنے کے استح اور ان کی رکعتوں کی تعداد کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوخالد احمر، عثمان بن حکیم، سعید بن یسار، ابن عباس نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نماز فجر کی دو رکعتوں میں (قُوْلُوْٓا اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْنَا وَمَآ اُنْزِلَ اِلٰٓى اِبْرٰھٖمَ ) 2 ۔ البقرۃ : 136) اور سورت آل عمران کی آیت ( تَعَالَوْا اِلٰى كَلِمَةٍ سَوَا ءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ ) 3 ۔ آل عمران : 64) پڑھتے تھے۔
نماز چاشت کے پڑھنے کے استح اور ان کی رکعتوں کی تعداد کے بیان میں
علی بن خشرم، عیسیٰ بن یونس، عثمان بن حکیم اس سند کے ساتھ حضرت عثمان بن حکیم سے یہ حدیث بھی اسی طرح نقل کی گئی ہے۔
فرض نمازوں سے پہلے اور بعد موکدہ سنتوں کی فضیلت اور ان کی تعداد کے بیان میں
محمد بن عبداللہ بن نمیر، ابوخالد، سلیمان بن حیان، داؤد بن ابی ہند، نعمان بن سلام، عمرو بن اوس فرماتے ہیں کہ حضرت عنبسہ بن ابی سفیان (رض) نے اپنی اس بیماری میں کہ جس میں ان کی وفات ہوگئی مجھ سے ایک ایسی حدیث بیان کی کہ جس سے خوشی ہوتی ہے، فرمایا کہ میں نے حضرت ام حبیبہ (رض) سے سنا وہ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ جس آدمی نے دن اور رات میں بارہ رکعتیں پڑھیں تو اس کے لئے اس کے بدلہ میں اللہ تعالیٰ جنت میں مکان بنائیں گے، حضرت ام حبیبہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے جس وقت سے ان کو رسول اللہ ﷺ سے سنا میں نے ان کو نہیں چھوڑا، عنبسہ (رض) کہتی ہیں کہ جب سے میں ان کو حضرت ام حبیبہ (رض) سے سنا ان کو نہیں چھوڑا اور نعمان بن سالم فرماتے ہیں کہ میں نے جس وقت سے حضرت عمرو بن اوس (رض) سے سنا ان رکعتوں کو نہیں چھوڑا۔
فرض نمازوں سے پہلے اور بعد موکدہ سنتوں کی فضیلت اور ان کی تعداد کے بیان میں
ابوغسان، بشر بن مفضل، داؤد، نعمان بن سالم نے اسی سند کے ساتھ یہ حدیث روایت کی ہے اس میں ہے کہ جس آدمی نے ہر دن میں بارہ رکعتیں پڑھیں تو اس کے لئے جنت میں گھر بنایا جاتا ہے۔
فرض نمازوں سے پہلے اور بعد موکدہ سنتوں کی فضیلت اور ان کی تعداد کے بیان میں
محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، نعمان بن سالم، عمرو بن اوس، عنبسہ بن ابی سفیان، حضرت ام حبیبہ (رض) نبی ﷺ کی زوجہ مطہرہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ جو مسلمان بندہ روزانہ بارہ رکعتیں فرض نمازوں کے علاوہ نفل میں سے اللہ کے لئے پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں گھر بناتے ہیں یا (فرمایا کہ) اس کے لئے جنت میں گھر بنایا جائے گا، حضرت ام حبیبہ فرماتی ہیں کہ میں اس کے بعد سے ان نمازوں کو پڑھتی رہی ہوں اسی طرح عمرو اور نعمان نے بھی اپنی اپنی روایات میں اسی طرح کہا ہے۔
فرض نمازوں سے پہلے اور بعد موکدہ سنتوں کی فضیلت اور ان کی تعداد کے بیان میں
عبدالرحمن بن بشر، عبداللہ بن ہاشم عبدی، بہز، نعمان بن سالم، عمرو بن اوس، حضرت ام حبیبہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو مسلمان بندہ وضو کرے اور کامل طور سے وضو کرے پھر اللہ تعالیٰ کے لئے روزانہ نماز پڑھے پھر آگے اسی طرح حدیث ذکر فرمائی۔
فرض نمازوں سے پہلے اور بعد موکدہ سنتوں کی فضیلت اور ان کی تعداد کے بیان میں
زہیر بن حرب، عبیداللہ بن سعید، یحییٰ ابن سعید، عبیداللہ، نافع، ابن عمر۔ ابوبکر بن ابی شیبہ، ابواسامہ، عبیداللہ، نافع، حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی، آپ ﷺ نے ظہر کی نماز سے پہلے دو رکعتیں اور ظہر کے نماز کے بعد دو رکعتیں پڑھی ہیں اور مغرب کے بعد دو رکعتیں اور عشار کے بعد دو رکعتیں اور جمعہ کے بعد دو رکعتیں پڑھی ہیں مگر مغرب عشاء اور جمعہ کی رکعتیں میں نے نبی ﷺ کے گھر آپ ﷺ کے ہمراہ پڑھیں۔
نفل نماز کھڑے ہو کر اور بیٹھ کر پڑھنے اور ایک رکعت میں کچھ کھڑے ہو کر اور کچھ بیٹھ کر پڑھنے کے جواز کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، ہشیم، خالد، عبداللہ بن شقیق فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ (رض) سے رسول اللہ ﷺ کی نفلی نماز کے بارے میں پوچھا تو حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا کہ آپ ﷺ میرے گھر میں ظہر کی نماز سے پہلے چار رکعتیں پڑھتے تھے پھر باہر تشریف لاتے اور لوگوں کو نماز پڑھاتے پھر گھر میں آکر دو رکعتیں پڑھتے اور آپ ﷺ لوگوں کو مغرب کی نماز پڑھاتے تھے پھر تشریف لاتے تو دو رکعتیں پڑھتے اور آپ ﷺ لوگوں کو عشاء کی نماز پڑھاتے اور میرے گھر میں تشریف لاتے تو دو رکعتیں پڑھتے اور رات کو نو رکعتیں پڑھتے تھے جس میں وتر بھی ہیں اور لمبی رات تک کھڑے ہو کر اور لمبی رات تک بیٹھ کر نماز پڑھا کرتے تھے اور جب آپ ﷺ کھڑے ہونے کی حالت میں پڑھتے تو رکوع اور سجدہ بھی کھڑے ہو کر اور جب بیٹھ کر پڑھتے تو رکوع اور سجدہ بھی بیٹھ کر کرتے۔
نفل نماز کھڑے ہو کر اور بیٹھ کر پڑھنے اور ایک رکعت میں کچھ کھڑے ہو کر اور کچھ بیٹھ کر پڑھنے کے جواز کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، حماد، بدیل، ایوب، عبداللہ بن شقیق، حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ لمبی رات تک نماز پڑھتے تھے تو جب آپ ﷺ کھڑے ہو کر نماز پڑھتے تو کھڑے ہو کر رکوع فرماتے اور جب بیٹھ کر نماز پڑھتے تو بیٹھ کر رکوع فرماتے۔
نفل نماز کھڑے ہو کر اور بیٹھ کر پڑھنے اور ایک رکعت میں کچھ کھڑے ہو کر اور کچھ بیٹھ کر پڑھنے کے جواز کے بیان میں
محمد بن مثنی، محمد بن جعفر، شعبہ، بدیل، عبداللہ بن شقیق فرماتے ہیں کہ میں فارس کے ملک میں بیمار ہوگیا تھا تو میں بیٹھ کر نماز پڑھتا تھا تو میں نے اس بارے میں حضرت عائشہ (رض) سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ لمبی رات تک بیٹھ کر نماز پڑھتے تھے پھر آگے اسی طرح حدیث ذکر فرمائی۔
نفل نماز کھڑے ہو کر اور بیٹھ کر پڑھنے اور ایک رکعت میں کچھ کھڑے ہو کر اور کچھ بیٹھ کر پڑھنے کے جواز کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، معاذ بن معاذ، حمید، عبداللہ بن شقیق عقیلی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ (رض) سے رسول اللہ ﷺ کی رات کی نماز کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ آپ ﷺ لمبی رات تک کھڑے ہو کر بھی اور لمبی رات تک بیٹھ کر بھی نماز پڑھتے تھے اور جب آپ ﷺ کھڑے ہو کر پڑھتے تو رکوع بھی کھڑے ہو کر فرماتے اور جب آپ ﷺ بیٹھ کر پڑھتے تو رکوع بھی بیٹھ کر فرماتے۔
نفل نماز کھڑے ہو کر اور بیٹھ کر پڑھنے اور ایک رکعت میں کچھ کھڑے ہو کر اور کچھ بیٹھ کر پڑھنے کے جواز کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، ابومعاویہ، ہشام بن حسان، ابن سیرین، عبداللہ بن شقیق بن عقیلی فرماتے ہیں کہ ہم نے حضرت عائشہ (رض) سے رسول اللہ ﷺ کی نماز کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ بہت کثرت سے کھڑے ہو کر اور بیٹھ کر نماز پڑھا کرتے تھے پھر جب آپ ﷺ نماز کھڑے ہو کر شروع فرماتے تو رکوع بھی کھڑے ہو کر فرماتے اور جب بیٹھ کر شروع فرماتے تو رکوع بھی بیٹھ کر فرماتے۔
نفل نماز کھڑے ہو کر اور بیٹھ کر پڑھنے اور ایک رکعت میں کچھ کھڑے ہو کر اور کچھ بیٹھ کر پڑھنے کے جواز کے بیان میں
ابوربیع زہرانی، حماد بن زید، حسن بن ربیع، مہدی بن میمون، ابوبکر بن ابی شیبہ، وکیع، ابوکریب، ابن نمیر، ہشام بن عروہ، حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو رات کی نماز میں سے کسی میں بیٹھ کر پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا یہاں تک کہ جب آپ ﷺ ضعیف ہوگئے تو آپ ﷺ بیٹھ کر پڑھا کرتے تھے یہاں تک کہ جب سورت میں سے تیس یا چالیس آیتیں باقی رہ جاتیں تو آپ ﷺ کھڑے ہو کر ان کو پڑھتے پھر رکوع فرماتے۔
نفل نماز کھڑے ہو کر اور بیٹھ کر پڑھنے اور ایک رکعت میں کچھ کھڑے ہو کر اور کچھ بیٹھ کر پڑھنے کے جواز کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، مالک، عبداللہ بن یزید، ابونضر، ابوسلمہ بن عبدالرحمن، حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ بیٹھ کر نماز پڑھتے تھے اور قرأت بھی بیٹھنے ہی کی حالت میں کرتے تو جب تیس یا چالیس آیات کی تعداد قرأت باقی رہ جاتی تو آپ ﷺ کھڑے ہوجاتے اور کھڑے ہونے کی حالت میں قرأت فرماتے پھر رکوع و سجود فرماتے پھر دوسری رکعت میں بھی اسی طرح فرماتے۔
نفل نماز کھڑے ہو کر اور بیٹھ کر پڑھنے اور ایک رکعت میں کچھ کھڑے ہو کر اور کچھ بیٹھ کر پڑھنے کے جواز کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، اسحاق بن ابراہیم، ابوبکر، اسماعیل بن علیہ، ولید بن ابی ہشام، ابوبکر بن محمد، عمرہ، حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ بیٹھ کر نماز پڑھتے پھر جب رکوع کرنے کا ارادہ ہوتا تو آپ ﷺ کھڑے ہو کر رکوع فرماتے۔ (اتنی مقدار کے لئے کھڑے ہوتے) جتنی مقدار میں ایک انسان چالیس آیات پڑھ سکتا ہے۔
نفل نماز کھڑے ہو کر اور بیٹھ کر پڑھنے اور ایک رکعت میں کچھ کھڑے ہو کر اور کچھ بیٹھ کر پڑھنے کے جواز کے بیان میں
ابن نمیر، محمد بن بشر، محمد بن عمرو، محمد بن ابراہیم، علقمہ بن وقاص فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ (رض) سے عرض کیا کہ رسول اللہ ﷺ دو رکعتوں میں کیسے کیا کرتے تھے ؟ جبکہ آپ ﷺ بیٹھے ہوں ! حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا کہ آپ ﷺ دونوں رکعتوں میں قرأت فرماتے پھر جب رکوع کرنے کا ارادہ ہوتا تو آپ ﷺ کھڑے ہوتے پھر رکوع فرماتے۔
نفل نماز کھڑے ہو کر اور بیٹھ کر پڑھنے اور ایک رکعت میں کچھ کھڑے ہو کر اور کچھ بیٹھ کر پڑھنے کے جواز کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، یزید بن زریع، سعید جریری، عبداللہ بن شقیق فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ (رض) پوچھا کہ کیا نبی ﷺ بیٹھ کر نماز پڑھا کرتے تھے ؟ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا ہاں ! جب لوگوں کی فکروں اور غم نے آپ ﷺ کو بوڑھا کردیا۔
نفل نماز کھڑے ہو کر اور بیٹھ کر پڑھنے اور ایک رکعت میں کچھ کھڑے ہو کر اور کچھ بیٹھ کر پڑھنے کے جواز کے بیان میں
عبیداللہ بن معاذ، کہمس، عبداللہ بن شقیق اس سند کے ساتھ نبی ﷺ سے اسی طرح حدیث نقل کی گئی ہے۔
نفل نماز کھڑے ہو کر اور بیٹھ کر پڑھنے اور ایک رکعت میں کچھ کھڑے ہو کر اور کچھ بیٹھ کر پڑھنے کے جواز کے بیان میں
محمد بن حاتم، ہارون بن عبداللہ، حجاج بن محمد، ابن جریج، عثمان بن ابی سلیمان، ابوسلمہ بن عبدالرحمن، حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ نبی ﷺ نے رحلت نہیں فرمائی یہاں تک کہ آپ ﷺ کثرت کے ساتھ بیٹھ کر نمازیں پڑھنے لگے۔ (وصال سے پہلے آپ ﷺ نے کثرت سے بیٹھ کر نمازیں پڑھیں)
نفل نماز کھڑے ہو کر اور بیٹھ کر پڑھنے اور ایک رکعت میں کچھ کھڑے ہو کر اور کچھ بیٹھ کر پڑھنے کے جواز کے بیان میں
محمد بن حاتم، حسن حلوانی، زید بن حباب، ضحاک بن عثمان، عبداللہ بن عروہ، حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کا جسم مبارک بھاری اور ثقیل ہوگیا تو آپ ﷺ کثرت سے بیٹھ کر نمازیں پڑھتے تھے۔
نفل نماز کھڑے ہو کر اور بیٹھ کر پڑھنے اور ایک رکعت میں کچھ کھڑے ہو کر اور کچھ بیٹھ کر پڑھنے کے جواز کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، مالک، ابن شہاب، سائب بن یزید، مطلب بن ابی وداعہ، حضرت حفصہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو بیٹھ کر نمازیں پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا یہاں تک کہ آپ ﷺ کی رحلت سے ایک سال پہلے آپ ﷺ بیٹھ کر نفل پڑھنے لگے اور سورت اس طرح ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے کہ وہ سورت لمبی سے لمبی ہوجاتی۔
نفل نماز کھڑے ہو کر اور بیٹھ کر پڑھنے اور ایک رکعت میں کچھ کھڑے ہو کر اور کچھ بیٹھ کر پڑھنے کے جواز کے بیان میں
ابوطاہر، حرملہ، ابن وہب، یونس، اسحاق بن وہب، عبد بن حمید، عبدالرزاق، معمر، زہری اس سند کے ساتھ یہ حدیث بھی اسی طرح نقل کی گئی ہے۔
نفل نماز کھڑے ہو کر اور بیٹھ کر پڑھنے اور ایک رکعت میں کچھ کھڑے ہو کر اور کچھ بیٹھ کر پڑھنے کے جواز کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، عبیداللہ بن موسی، حسن بن صالح، سماک جابر بن سمرہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کا وصال نہیں ہوا جب تک کہ آپ ﷺ نے بیٹھ کر نماز نہ پڑھ لی ہو۔
نفل نماز کھڑے ہو کر اور بیٹھ کر پڑھنے اور ایک رکعت میں کچھ کھڑے ہو کر اور کچھ بیٹھ کر پڑھنے کے جواز کے بیان میں
زہیر بن حرب، جریر، منصور، ہلال بن یساف، ابی یحیی، عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ مجھ سے یہ حدیث بیان کی گئی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا آدمی کا بیٹھ کر نماز پڑھنا آدھی نماز کے برابر ہے تو میں آپ ﷺ کی خدمت میں آیا تو آپ کو میں نے بیٹھ کر نماز پڑھتے ہوئے پایا میں نے اپنا ہاتھ آپ ﷺ کے سر مبارک پر رکھا، آپ ﷺ نے فرمایا اے ابن عمر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) تجھے کیا ہوا ؟ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ ! مجھے یہ حدیث بیان کی گئی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ آدمی کا بیٹھ کر نماز پڑھنا آدھی نماز کے برابر ہے اور آپ ﷺ بھی تو بیٹھ کر نماز پڑھ رہے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا یہ صحیح ہے لیکن میں تم میں سے کسی جیسا نہیں ہوں۔
نفل نماز کھڑے ہو کر اور بیٹھ کر پڑھنے اور ایک رکعت میں کچھ کھڑے ہو کر اور کچھ بیٹھ کر پڑھنے کے جواز کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابن مثنی، ابن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، یحییٰ بن سعید، سفیان اس سند کے ساتھ یہ حدیث بھی اسی طرح نقل کی گئی ہے۔
رات کی نماز (تہجد) اور نبی ﷺ کی رات کی نماز کی رکعتوں کی تعداد اور وتر پڑھنے کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، مالک، ابن شہاب، عروہ، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ رات کو گیارہ رکعات پڑھا کرتے تھے کہ اس میں سے ایک رکعت کے ذریعہ وتر بنا لیتے تو جب اس سے فارغ ہوتے تو دائیں کروٹ پر لیٹ جاتے یہاں تک کہ مؤذن آتا پھر آپ ﷺ ہلکی ہلکی دو رکعات پڑھتے۔
رات کی نماز (تہجد) اور نبی ﷺ کی رات کی نماز کی رکعتوں کی تعداد اور وتر پڑھنے کے بیان میں
حرملہ بن یحیی، ابن وہب، عمرو بن حارث، ابن شہاب، عروہ بن زبیر، حضرت عائشہ (رض) نبی ﷺ کی زوجہ مطہرہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ عشاء کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد سے فجر کی نماز کے درمیان تک گیارہ رکعتیں پڑھتے تھے اور ہر دو رکعتوں کے بعد سلام پھیرتے اور ایک رکعت کے ذریعہ وتر بنا لیتے پھر جب مؤذن فجر کی اذان دے کر خاموش ہوجاتا تو فجر ظاہر ہوجاتی اور مؤذن آپ ﷺ کے پاس آتا تو آپ ﷺ کھڑے ہو کر ہلکی ہلکی دو رکعت پڑھتے پھر آپ ﷺ دائیں کروٹ پر لیٹ جاتے یہاں تک کہ مؤذن اقامت کہنے کے لئے آتا۔
رات کی نماز (تہجد) اور نبی ﷺ کی رات کی نماز کی رکعتوں کی تعداد اور وتر پڑھنے کے بیان میں
حرملہ، ابن وہب، یونس، ابن شہاب سے اس سند کے ساتھ کچھ لفظی ردوبدل کے ساتھ اسی طرح حدیث نقل کی گئی ہے۔
رات کی نماز (تہجد) اور نبی ﷺ کی رات کی نماز کی رکعتوں کی تعداد اور وتر پڑھنے کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب، عبداللہ بن نمیر، ہشام، حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رات کو تیرہ رکعتیں پڑھا کرتے تھے ان میں سے پانچ کو وتر بنا لیتے کسی میں نہ بیٹھتے سوائے اس کے آخر میں۔
رات کی نماز (تہجد) اور نبی ﷺ کی رات کی نماز کی رکعتوں کی تعداد اور وتر پڑھنے کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، عبدہ بن سلیمان، ابوکریب، وکیع، حضرت ہشام (رض) سے اس سند کے ساتھ اسی طرح روایت نقل کی گئی ہے۔
رات کی نماز (تہجد) اور نبی ﷺ کی رات کی نماز کی رکعتوں کی تعداد اور وتر پڑھنے کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، لیث، یزید بن ابی حبیب، عراک بن مالک، عروہ، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فجر کی دو رکعت کے ساتھ تیرہ رکعتیں نماز پڑھا کرتے تھے۔
رات کی نماز (تہجد) اور نبی ﷺ کی رات کی نماز کی رکعتوں کی تعداد اور وتر پڑھنے کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، مالک، سعید بن ابی سعید، ابوسلمہ بن عبدالرحمن فرماتے ہیں کہ انہوں نے حضرت عائشہ (رض) سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ رمضان المبارک میں نماز کس طرح پڑھتے تھے ؟ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا کہ رمضان ہو یا رمضان کے علاوہ آپ ﷺ گیارہ رکعتوں سے زیادہ نماز نہیں پڑھتے تھے، چار رکعتیں تو اس طرح پڑھتے کہ ان کی خوبصورتی اور لمبائی کے بارے میں کچھ نہ پوچھ ! پھر آپ ﷺ تین رکعت وتر پڑھتے، حضرت عائشہ (رض) عرض کرتی ہیں، اے اللہ کے رسول ! کیا آپ ﷺ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اے عائشہ میری آنکھیں تو سوتی ہیں پر میرا دل نہیں سوتا۔
رات کی نماز (تہجد) اور نبی ﷺ کی رات کی نماز کی رکعتوں کی تعداد اور وتر پڑھنے کے بیان میں
محمد بن مثنی، ابن ابی عدی، ہشام، یحیی، ابوسلمہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ (رض) رسول اللہ ﷺ کی نماز کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا : آپ ﷺ تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے، آٹھ رکعتیں اور پھر وتر پڑھتے، پھر بیٹھ کردو رکعتیں پڑھتے تو جب رکوع کا ارادہ ہوتا تو کھڑے ہوجاتے، پھر آپ ﷺ صبح کی اذان اور اقامت کے درمیان دو رکعت (سنت) پڑھتے۔
رات کی نماز (تہجد) اور نبی ﷺ کی رات کی نماز کی رکعتوں کی تعداد اور وتر پڑھنے کے بیان میں
زہیر بن حرب، حسین بن محمد، شیبان، یحیی، ابوسلمہ، یحییٰ بن بشر، معاویہ بن سلام، یحییٰ بن ابی کثیر، حضرت ابوسلمہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے حضرت عائشہ (رض) سے رسول اللہ ﷺ کی نماز کے بارے میں پوچھا، باقی حدیث اسی طرح سے بیان فرمائی اس میں یہ ہے کہ آپ ﷺ نو رکعتیں کھڑے ہو کر پڑھتے وتر انہی میں سے ہوتے۔
رات کی نماز (تہجد) اور نبی ﷺ کی رات کی نماز کی رکعتوں کی تعداد اور وتر پڑھنے کے بیان میں
عمرو ناقد، سفیان بن عیینہ، عبداللہ بن ابی لبید سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت ابوسلمہ (رض) سے سنا وہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عائشہ (رض) کے پاس آیا اور میں نے عرض کیا، اے اماں جان ! مجھے رسول اللہ ﷺ کی نماز کے بارے میں خبر دیجئے، تو انہوں نے فرمایا آپ کی نماز رمضان اور رمضان کے علاوہ رات کو تیرہ رکعتیں ہوتی تھیں انہی میں سے دو رکعات فجر کی بھی ہوتیں۔
رات کی نماز (تہجد) اور نبی ﷺ کی رات کی نماز کی رکعتوں کی تعداد اور وتر پڑھنے کے بیان میں
ابن نمیر، حنظلہ، قاسم بن محمد فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ (رض) کو فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ﷺ رات کی نماز میں دس رکعتیں پڑھتے تھے اور ان کو ایک رکعت کے ذریعہ وتر بنالیتے اور فجر کی دو رکعت پڑھتے تو یہ تیرہ رکعتیں ہوگئیں۔
رات کی نماز (تہجد) اور نبی ﷺ کی رات کی نماز کی رکعتوں کی تعداد اور وتر پڑھنے کے بیان میں
احمد بن یونس، زہیر، ابواسحاق، یحییٰ بن یحیی، ابوخیثمہ، ابواسحاق فرماتے ہیں کہ میں نے اسود بن یزید سے ان احادیث کے بارے میں پوچھا جو ان سے حضرت عائشہ (رض) نے رسول اللہ ﷺ کی نماز کے بارے میں بیان کی ہیں، حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ شروع رات میں سو جاتے اور رات کے آخری حصہ میں جاگتے پھر اگر آپ ﷺ کو اپنی ازواج مطہرات کی طرف کوئی حاجت ہوتی تو اس حاجت کو پورا فرما لیتے پھر آپ ﷺ سو جاتے اور جب پہلی اذان ہوتی تو فورا اٹھ جاتے، اللہ کی قسم ! حضرت عائشہ صدیقہ نے یہ نہیں فرمایا کہ کھڑے ہو کر اپنے اوپر پانی بہاتے اور نہ اللہ کی قسم یہ فرمایا کہ آپ ﷺ غسل فرماتے اور میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ آپ ﷺ کیا چاہتے اور اگر آپ ﷺ جنبی نہ ہوتے تو آپ ﷺ نماز کے لئے وضو فرماتے پھر دو رکعات نماز پڑھتے۔
رات کی نماز (تہجد) اور نبی ﷺ کی رات کی نماز کی رکعتوں کی تعداد اور وتر پڑھنے کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب، یحییٰ بن آدم، عمار بن زریق، ابواسحاق، اسود، حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رات کو نماز پڑھتے تھے یہاں تک کہ آپ ﷺ اپنی نماز کے آخر میں وتر پڑھتے۔
رات کی نماز (تہجد) اور نبی ﷺ کی رات کی نماز کی رکعتوں کی تعداد اور وتر پڑھنے کے بیان میں
ہناد بن سری، ابواحوص، اشعث، مسروق فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ (رض) سے رسول اللہ ﷺ کے عمل کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ آپ ﷺ ہمیشگی کو اگرچہ تھوڑا ہو پسند فرماتے تھے، انہوں نے کہا کہ میں نے عرض کیا کہ آپ ﷺ نماز کس وقت پڑھتے تھے ؟ تو انہوں نے فرمایا جب مرغ کا چیخنا سنتے تو آپ ﷺ کھڑے ہوتے اور نماز پڑھتے۔
رات کی نماز (تہجد) اور نبی ﷺ کی رات کی نماز کی رکعتوں کی تعداد اور وتر پڑھنے کے بیان میں
ابوکریب، ابن بشر، مسعر، سعد بن ابراہیم، ابی سلمہ، حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو رات کے آخری حصہ میں اپنے گھر میں یا اپنے پاس سوتے ہوئے ہی پایا (یعنی آپ ﷺ تہجد کی نماز پڑھ کر سو جاتے) ۔
رات کی نماز (تہجد) اور نبی ﷺ کی رات کی نماز کی رکعتوں کی تعداد اور وتر پڑھنے کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، نصر بن علی، ابن ابی عمر، ابوبکر، سفیان بن عیینہ، ابونضر، ابوسلمہ، حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ نبی ﷺ جب فجر کی دو رکعتیں پڑھ لیتے تو اگر میں جاگ رہی ہوتی تو مجھ سے باتیں فرماتے ورنہ لیٹ جاتے۔
رات کی نماز (تہجد) اور نبی ﷺ کی رات کی نماز کی رکعتوں کی تعداد اور وتر پڑھنے کے بیان میں
ابن ابی عمر، سفیان، زیاد بن سعد، ابی عتاب، ابوسلمہ، حضرت عائشہ (رض) نبی ﷺ سے اسی حدیث کی طرح روایت نقل کرتی ہیں۔
رات کی نماز (تہجد) اور نبی ﷺ کی رات کی نماز کی رکعتوں کی تعداد اور وتر پڑھنے کے بیان میں
زہیر بن حرب، جریر، اعمش، تمیم بن سلمہ، عروہ بن زبیر، حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ رات کی نماز پڑھ لیتے اور وتر پڑھنے لگتے تو مجھے فرماتے اے عائشہ اٹھو اور وتر پڑھو۔
رات کی نماز (تہجد) اور نبی ﷺ کی رات کی نماز کی رکعتوں کی تعداد اور وتر پڑھنے کے بیان میں
ہارون بن سعید ایلی، ابن وہب، سلیمان بن بلال، ربیعہ بن ابی عبدالرحمن، قاسم بن محمد، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ رات کو نماز پڑھتے تھے اور وہ عائشہ (رض) آپ ﷺ کے سامنے لیٹی ہوتیں تو جب وتر پڑھنے باقی رہ جاتے تو آپ ﷺ ان کو جگا دیتے اور وہ وتر پڑھ لیتیں۔
رات کی نماز (تہجد) اور نبی ﷺ کی رات کی نماز کی رکعتوں کی تعداد اور وتر پڑھنے کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، سفیان بن عیینہ، ابویعفور، ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب، ابومعاویہ، اعمش، مسلم مسروق، حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے رات کے ہر حصہ میں وتر پڑھی یہاں تک کہ سحر کے وقت آپ ﷺ کے وتر کی نماز پہنچ گئی۔
رات کی نماز (تہجد) اور نبی ﷺ کی رات کی نماز کی رکعتوں کی تعداد اور وتر پڑھنے کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، زہیر بن حرب، وکیع، سفیان، ابی حصین، یحییٰ بن وثاب، مسروق، حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے وتر کی نماز رات کے ہر حصہ میں سے ابتدائی رات اور درمیانی رات اور رات کے آخر میں پڑھی یہاں تک کہ آپ ﷺ کی وتر (کی نماز) سحر کے وقت تک پہنچ گئی۔
رات کی نماز (تہجد) اور نبی ﷺ کی رات کی نماز کی رکعتوں کی تعداد اور وتر پڑھنے کے بیان میں
علی بن حجر، حسان قاضی، کرمان، سعید بن مسروق، ابی ضحی، مسروق، حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے رات کے ہر حصہ میں وتر پڑھی یہاں تک کہ آپ ﷺ کی وتر کی نماز رات کے آخر تک پہنچ گئی۔
جب آپ ﷺ سوئے رہتے یا کوئی تکلیف وغیرہ ہوتی تو آپ ﷺ تہجد کی نماز (دن کو پڑھتے)
محمد بن مثنی، محمد بن ابی عدی، سعید بن قتادہ، زرارہ سے روایت ہے کہ حضرت سعد بن ہشام بن عامر (رض) نے اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جہاد کا ارادہ کیا تو وہ مدینہ منورہ آگئے اور اپنی زمین وغیرہ بیچنے کا ارادہ کیا تاکہ اس کے ذریعہ سے اسلحہ اور گھوڑے وغیرہ خرید سکیں اور مرتے دم تک روم والوں سے جہاد کریں تو جب وہ مدینہ منورہ میں آگئے اور مدینہ والوں میں سے کچھ لوگوں سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے حضرت سعد کو اس طرح کرنے سے منع کیا اور ان کو بتایا کہ اللہ کے نبی ﷺ کی حیاہ طیبہ میں چھ آدمیوں نے بھی اسی طرح کا ارادہ کیا تھا تو اللہ کے نبی ﷺ نے انہیں بھی ایسا کرنے سے روک دیا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیا تمہارے لئے میری زندگی میں نمونہ نہیں ہے ؟ جب مدینہ والوں نے حضرت سعد (رض) سے یہ حدیث بیان کی تو انہوں نے اپنی اس بیوی سے رجوع کیا جس کو وہ طلاق دے چکے تھے اور اپنے اس رجوع کرنے پر لوگوں کو گواہ بنالیا پھر وہ حضرت ابن عباس (رض) کی طرف آئے تو ان سے رسول اللہ ﷺ کے وتر کے بارے میں پوچھا تو حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ کیا میں تجھے وہ آدمی نہ بتاؤں جو زمین والوں میں سے سب سے زیادہ رسول اللہ ﷺ کے وتر کے بارے میں جانتا ہے ! حضرت سعد (رض) نے کہا وہ کون ہے ؟ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : حضرت عائشہ (رض) ، تو ان کی طرف جا اور ان سے پوچھ پھر اس کے بعد میرے پاس آ اور وہ جو جواب دیں مجھے بھی اس سے باخبر کرنا، حضرت سعد (رض) نے کہا کہ میں پھر حضرت عائشہ (رض) کی طرف چلا، حکیم بن افلح کے پاس آیا اور ان سے کہا کہ مجھے حضرت عائشہ (رض) کی طرف لے کر چلو، وہ کہنے لگے کہ میں تجھے حضرت عائشہ (رض) کی طرف لے کر نہیں جاسکتا کیونکہ میں نے انہیں اس بات سے روکا تھا کہ وہ ان دو گروہوں (علی اور معاویہ) کے درمیان کچھ نہ کہیں تو انہوں نے نہ مانا اور چلی گئیں، حضرت سعد (رض) کہتے ہیں کہ میں نے ان پر قسم ڈالی تو وہ ہمارے ساتھ حضرت عائشہ (رض) کی طرف آنے کے لئے چل پڑے اور ہم نے اجازت طلب کی حضرت عائشہ (رض) نے ہمیں اجازت دی اور ہم ان کی خدمت میں حاضر ہوئے، حضرت عائشہ (رض) نے حکیم بن افلح کو پہنچان لیا اور فرمایا : کیا یہ حکیم ہیں ؟ حکیم کہنے لگے کہ جی ہاں ! حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا : تیرے ساتھ کون ہے ؟ حکیم نے کہا کہ سعد بن ہشام ہیں، آپ نے فرمایا ہشام کون ہے ؟ حکیم نے کہا کہ عامر کا بیٹا، حضرت عائشہ (رض) نے عامر پر رحم کی دعا فرمائی اور اچھے کلمات کہے، حضرت قتادہ (رض) کہتے ہیں کہ عامر غزوہ احد میں شہید کر دئے گئے تھے، تو میں نے عرض کیا اے ام المومنین مجھے رسول اللہ ﷺ کے اخلاق کے بارے میں بتائیے ! حضرت عائشہ نے فرمایا کہ کیا تم قرآن نہیں پڑھتے ؟ میں نے عرض کیا ہاں، حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا کہ اللہ کے نبی ﷺ کا اخلاق قرآن ہی تو تھا، حضرت سعد کہتے ہیں کہ میں نے ارادہ کیا کہ میں اٹھ کھڑا ہوجاؤں اور مرتے دم تک کسی سے کچھ نہ پوچھوں پھر مجھے خیال آیا تو میں نے عرض کیا کہ مجھے رسول اللہ ﷺ کے قیام کے بارے میں بتائیے، حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا کیا تو نے (یَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ ) نہیں پڑھی ؟ میں نے عرض کیا جی ہاں ! حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس سورت کی ابتداء ہی میں رات کے قیام کو فرض کردیا تھا تو اللہ کے نبی ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ کرام (رض) نے ایک سال رات کو قیام فرمایا اور اللہ تعالیٰ نے اس سورت کے آخری حصہ کو بارہ مہینوں تک آسمان میں روک دیا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس سورت کے آخر میں تخفیف نازل فرمائی تو پھر رات کا قیام فرض ہونے کے بعد نفل ہوگیا، حضرت سعد (رض) نے کہا کہ میں نے عرض کیا کہ اے ام المومنین مجھے رسول اللہ ﷺ کی نماز وتر کے بارے میں بتائیے ! تو حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا کہ ہم آپ ﷺ کے لئے مسواک اور وضو کا پانی تیار رکھتے تھے تو اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کو رات کو جب چاہتا بیدار کردیتا تو آپ ﷺ مسواک فرماتے اور وضو فرماتے اور نو رکعات نماز پڑھتے ان رکعتوں میں نہ بیٹھتے سوائے آٹھویں رکعت کے بعد اور اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے اور اس کی حمد کرتے اور اس سے دعا مانگتے پھر آپ ﷺ اٹھتے اور سلام نہ پھیر تے پھر کھڑے ہو کر نویں رکعت پڑھتے پھر آپ ﷺ بیٹھتے اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے اور اس کی حمد بیان فرماتے اور اس سے دعا مانگتے پھر آپ ﷺ سلام پھیرتے سلام پھیرنا ہمیں سنا دیتے پھر آپ ﷺ سلام پھیرنے کے بعد بیٹھے بیٹھے دو رکعات نماز پڑھتے تو یہ گیارہ رکعتیں ہوگئیں، اے میرے بیٹے ! پھر جب اللہ کے نبی کی عمر مبارک زیادہ ہوگئی اور آپ ﷺ کے جسم مبارک پر گوشت آگیا تو سات رکعتیں وتر کی پڑھنے لگے اور دو رکعتیں اسی طرح پڑھتے جس طرح کہ پہلے بیان کیا تو یہ نو رکعتیں ہوئیں اے میرے بیٹے ! اور اللہ کے نبی ﷺ جب بھی کوئی نماز پڑھتے تو اس بات کو پسند فرماتے کہ اس پر دوام کیا جائے اور جب آپ ﷺ پر نیند کا غلبہ ہوتا یا کوئی درد وغیرہ ہوتی کہ جس کی وجہ سے رات کو قیام نہ ہوسکتا ہو تو آپ ﷺ دن کو بارہ رکعتیں پڑھتے اور مجھے نہیں معلوم کہ اللہ کے نبی ﷺ نے ایک ہی رات میں سارا قرآن مجید پڑھا ہو اور نہ ہی مجھے یہ معلوم ہے کہ آپ ﷺ نے پورا مہینہ روزے رکھے ہوں سوائے رمضان کے، حضرت سعد (رض) کہتے ہیں کہ میں ابن عباس (رض) کی طرف گیا اور ان سے اس ساری حدیث کو بیان کیا تو حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ سیدہ عائشہ (رض) نے سچ فرمایا اور اگر میں ان کے پاس ہوتا یا ان کی خدمت میں حاضری دیتا تو میں یہ حدیث سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) سے بالمشافہ (براہ راست) سنتا، راوی کہتے ہیں کہ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ آپ ان کے پاس نہیں جاتے تو میں ان کی حدیث آپ کو بیان نہ کرتا۔
رات کی نماز (تہجد) اور نبی ﷺ کی رات کی نماز کی رکعتوں کی تعداد اور وتر پڑھنے کے بیان میں
محمد بن مثنی، معاذ بن ہشام، قتادہ، زرارہ بن اوفی فرماتے ہیں کہ حضرت سعد (رض) بن ہشام (رض) نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی پھر وہ اپنی جائیداد بیچنے کے لئے مدینہ منورہ کی طرف چلے گئے اس کے بعد آگے حدیث اسی طرح ذکر کی۔
رات کی نماز (تہجد) اور نبی ﷺ کی رات کی نماز کی رکعتوں کی تعداد اور وتر پڑھنے کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، محمد بن بشر، سعید بن ابی عروبہ، قتادہ، زرارہ بن اوفی، سعد بن ہشام فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابن عباس (رض) کے پاس گیا اور ان سے وتر کے بارے میں پوچھا اور پوری حدیث بیان کی جس میں یہ ہے کہ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا کہ ہشام کون ہے ؟ میں نے عرض کیا ابن عامر، وہ کہنے لگیں وہ کتنے اچھے آدمی تھے یہ عامر غزوہ احد میں شہید ہوئے تھے۔
رات کی نماز (تہجد) اور نبی ﷺ کی رات کی نماز کی رکعتوں کی تعداد اور وتر پڑھنے کے بیان میں
اسحاق بن ابراہیم، محمد بن رافع، عبدالرزاق، معمر، قتادہ، زرارہ بن اوفی فرماتے ہیں کہ حضرت سعد بن ہشام (رض) ان کے ہمسائے تھے انہوں نے بتایا کہ انہوں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہے اور سعید کی حدیث کی طرح حدیث بیان کی، اس حدیث میں ہے کہ انہوں نے کہا کہ ہشام کون ہے ؟ وہ کہنے لگے کہ ابن عامر، حضرت عائشہ (رض) فرمانے لگیں کہ وہ کیا ہی اچھے آدمی تھے، رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوہ احد میں شہید ہوئے تھے اور اس میں یہ بھی ہے کہ حکیم بن افلح نے کہا کہ اگر مجھے پتہ چل جاتا کہ تو ان کے پاس نہیں جاتا تو میں ان کی حدیث تیرے سامنے بیان نہ کرتا۔
رات کی نماز (تہجد) اور نبی ﷺ کی رات کی نماز کی رکعتوں کی تعداد اور وتر پڑھنے کے بیان میں
سعید بن منصور، قتیبہ بن سعید، ابی عوانہ، قتادہ، زرارہ بن اوفی، حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی رات کی نماز کسی درد یا کسی اور وجہ سے فوت ہوجاتی تو آپ ﷺ دن میں بارہ رکعات پڑھ لیتے۔
رات کی نماز (تہجد) اور نبی ﷺ کی رات کی نماز کی رکعتوں کی تعداد اور وتر پڑھنے کے بیان میں
علی بن خشرم، عیسی، ابن یونس، شعبہ، قتادہ، زرارہ ابن اوفی، سعد بن ہشام انصاری، حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب بھی کوئی کام کرتے تو اس پر دوام فرماتے اور جب رات کو سو جاتے یا بیمار ہوتے تو دن میں بارہ رکعات نماز پڑھ لیتے تھے، حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے نہیں دیکھا کہ آپ ﷺ ساری رات بیدار رہے ہوں اور نہ ہی رمضان کے علاوہ پورا مہینہ رو زے رکھے ہوں۔
رات کی نماز (تہجد) اور نبی ﷺ کی رات کی نماز کی رکعتوں کی تعداد اور وتر پڑھنے کے بیان میں
ہارون بن معروف، عبداللہ بن وہب، ابوطاہر، حرملہ، ابن وہب، یونس بن یزید، ابن شہاب، سائب بن یزید، عبیداللہ بن عبدللہ، عبدالرحمن، بن عبدالقاری، حضرت عمر بن خطاب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو آدمی وظیفہ سے یا اس میں سے کسی عمل سے سو جائے تو فجر کی نماز اور ظہر کی نماز کے درمیان کرلے تو اس کے لئے اس طرح لکھ دیا جاتا ہے گویا کہ اس نے رات کو ہی پڑھ لیا۔
صلوة الاوابین چاشت کی نماز کا وقت وہ ہے جب اونٹ کے بچوں کے پاؤں جلنے لگیں
زہیر بن حرب، ابن نمیر، اسماعیل ابن علیہ، ایوب، قاسم شیبانی فرماتے ہیں کہ حضرت زید (رض) بن ارقم (رض) نے ایک جماعت کو دیکھا کہ وہ لوگ چاشت کی نماز پڑھ رہے ہیں انہوں نے فرمایا کہ لوگوں کو اچھی طرح علم ہے کہ نماز اس وقت کے علاوہ میں افضل ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ صَلَاةُ الْأَوَّابِينَ اس وقت ہے جس وقت اونٹ کے بچوں کے پیر گرم ہوجائیں۔
صلوة الاوابین چاشت کی نماز کا وقت وہ ہے جب اونٹ کے بچوں کے پاؤں جلنے لگیں
زہیر بن حرب، یحییٰ بن سعید، ہشام بن ابی عبداللہ، قاسم شیبانی، زید بن ارقم فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ قبا والوں کی طرف نکلے کہ وہ نماز پڑھ رہے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا صَلَاةُ الْأَوَّابِينَ کا وقت اس وقت ہے کہ جب اونٹ کے بچوں کے پیر جلنے لگ جائیں۔
رات کی نماز دو دو رکعت ہے اور وتر ایک رکعت رات کے آخری حصہ میں ہے
یحییٰ بن یحیی، مالک، نافع، عبداللہ بن دینار، ابن عمر فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے رات کی نماز کے بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا رات کی نماز دو رکعتیں ہیں تو جب تم میں سے کسی آدمی کو صبح ہونے کا ڈر ہو تو ایک رکعت اور پڑھ لے اس ساری نماز کو جو اس نے پڑھی ہے طاق کر دے گی۔
رات کی نماز دو دو رکعت ہے اور وتر ایک رکعت رات کے آخری حصہ میں ہے
ابوبکر بن ابی شیبہ، عمرو ناقد، زہیر بن حرب، سفیان بن عیینہ، زہری، سالم روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے نبی ﷺ سے رات کی نماز کے بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا رات کی نماز دو رکعتیں ہے جب صبح ہونے کا ڈر ہو تو ایک رکعت پڑھ کر آخری دو رکعتوں کو وتر (طاق) بنا لے۔
رات کی نماز دو دو رکعت ہے اور وتر ایک رکعت رات کے آخری حصہ میں ہے
حرملہ بن یحیی، عبداللہ بن وہب، عمرو، ابن شہاب، سالم بن عبداللہ بن عمرو، حمید بن عبدالرحمن بن عوف، ابن عمر بن خطاب فرماتے ہیں کہ ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول ﷺ ! رات کی نماز کس طرح سے ہے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا رات کی نماز دو دو رکعتیں ہیں جب تجھے صبح ہونے کا ڈر ہو تو ایک رکعت کے ذریعہ سے اسے وتر بنا لے۔
رات کی نماز دو دو رکعت ہے اور وتر ایک رکعت رات کے آخری حصہ میں ہے
ابوربیع زہرانی، حماد، ایوب، بدیل، عبداللہ بن شقیق، ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی ﷺ سے پوچھا اور میں آپ ﷺ اور سوال کرنے والے کے درمیان میں تھا اس نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول ! رات کی نماز کس طرح سے ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : رات کی نماز دو دو رکعتیں ہیں تو جب تجھے صبح ہونے کا ڈر ہو تو ایک رکعت اور پڑھ لے اور اپنی آخری نماز وتر کو کر، پھر ایک آدمی نے ایک سال کے بعد پوچھا اور میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اسی جگہ تھا میں نہیں جانتا کہ یہ وہی آدمی تھا یا کوئی اور آدمی پھر آپ ﷺ نے اس آدمی سے اسی طرح فرمایا۔
رات کی نماز دو دو رکعت ہے اور وتر ایک رکعت رات کے آخری حصہ میں ہے
ابوکامل، حماد، ایوب، بدیل، عمران بن حدیر، عبداللہ بن شقیق، ابن عمر۔ محمد بن عبید غببری حماد، ایوب، زبیر بن خریت، عبداللہ بن شقیق، حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے نبی ﷺ سے پوچھا پھر اسی طرح حدیث ذکر فرمائی اور اس حدیث میں یہ نہیں ہے کہ پھر اسی آدمی نے سال کے بعد پوچھا۔
رات کی نماز دو دو رکعت ہے اور وتر ایک رکعت رات کے آخری حصہ میں ہے
ہارون بن معروف، سریج بن یونس، ابوکریب، ابن ابی زائدہ، ہارون ابن ابی زائدہ، عاصم، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ارشا فرمایا وتر کی نماز صبح ہونے کے قریب پڑھ لیا کرو۔
رات کی نماز دو دو رکعت ہے اور وتر ایک رکعت رات کے آخری حصہ میں ہے
قتیبہ بن سعید، لیث، ابن رمح، نافع (رض) سے روایت ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا کہ جو آدمی رات کو نماز پڑھے تو اسے چاہیے کہ اپنی نماز کے آخر میں وتر کو پڑھے کیونکہ رسول اللہ ﷺ اسی طرح حکم فرماتے تھے۔
رات کی نماز دو دو رکعت ہے اور وتر ایک رکعت رات کے آخری حصہ میں ہے
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابواسامہ، ابن نمیر، زہیر بن حرب، ابن مثنی، یحیی، عبیداللہ، نافع، ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا تم اپنی رات کی آخری نماز وتر کو بناؤ۔
رات کی نماز دو دو رکعت ہے اور وتر ایک رکعت رات کے آخری حصہ میں ہے
ہارون بن عبداللہ، حجاج بن محمد، ابن جریج، نافع، ابن عمر فرماتے ہیں کہ جو آدمی رات کو نماز پڑھے تو اسے چاہیے کہ اپنی نماز کے آخر میں صبح ہونے سے پہلے وتر پڑھ لے رسول اللہ ﷺ انہیں اسی طرح حکم فرمایا کرتے تھے۔
رات کی نماز دو دو رکعت ہے اور وتر ایک رکعت رات کے آخری حصہ میں ہے
شیبان بن فروخ، عبدالوارث، ابن تیاح، ابومجلز، ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا رات کے آخر میں ایک رکعت وتر کی نماز ہے۔
رات کی نماز دو دو رکعت ہے اور وتر ایک رکعت رات کے آخری حصہ میں ہے
محمد بن مثنی، ابن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، قتادہ نبی ﷺ سے نقل کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا وتر رات کے آخر میں ایک رکعت کی وجہ سے ہے۔
رات کی نماز دو دو رکعت ہے اور وتر ایک رکعت رات کے آخری حصہ میں ہے
زہیر بن حرب، عبدالصمد، ہمام، قتادہ، ابی مجلز فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس (رض) سے وتر کی نماز کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ وتر رات کے آخر میں ایک رکعت کی وجہ سے ہے اور میں نے حضرت ابن عمر (رض) سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ وتر رات کے آخر میں ایک رکعت کے ملانے کی وجہ سے ہے۔
رات کی نماز دو دو رکعت ہے اور وتر ایک رکعت رات کے آخری حصہ میں ہے
ابوکریب، ہارون بن عبداللہ، ابواسامہ، ولید بن کثیر فرماتے ہیں کہ مجھے عبیداللہ بن ابن عمر (رض) نے بیان فرمایا کہ حضرت ابن عمر (رض) نے ان کو بیان فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ مسجد میں تھے کہ ایک آدمی نے آپ ﷺ کو آواز دی اور عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ ! میں رات کی نماز کو وتر کیسے کروں ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو آدمی نماز پڑھے تو اسے چاہیے کہ دو دو رکعتیں پڑھے اور اگر اسے احساس ہو کہ صبح نہ ہوجائے تو وہ آخری دو رکعتوں کے ساتھ ایک رکعت پڑھ لے تو یہ اس کے لئے وتر کی نماز ہوجائے گی۔
رات کی نماز دو دو رکعت ہے اور وتر ایک رکعت رات کے آخری حصہ میں ہے
خلف بن ہشام، ابوکامل، حماد بن زید، انس بن سیرین فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر (رض) سے پوچھا، میں نے کہا کہ صبح کی نماز سے پہلے کی دو رکعتوں کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ؟ کیا میں ان میں لمبی قرأت کروں ؟ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ رات کو دو دو رکعات نماز پڑھتے تھے اور ایک رکعت ساتھ ملا کر وتر پڑھ لیتے تھے، ابن سیرین کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ میں آپ سے یہ نہیں پوچھ رہا، حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا کہ تو موٹی عقل والا ہے مجھے تو نے اتنا وقت بھی نہ دیا کہ میں تجھ سے پوری حدیث پڑھ کر سناتا، رسول اللہ ﷺ رات کی نماز دو دو رکعت کر کے پڑھتے تھے اور ایک رکعت ساتھ ملا کر وتر پڑھ لیتے اور دو رکعات صبح کی نماز سے پہلے آپ ﷺ ایسے وقت میں پڑھتے گویا کہ اذان کی آواز آپ ﷺ کے کانوں میں ہی ہوتی، خلف نے أَرَأَيْتَ الرَّکْعَتَيْنِ کہا اور اس میں صلوۃ کا ذکر نہیں۔
رات کی نماز دو دو رکعت ہے اور وتر ایک رکعت رات کے آخری حصہ میں ہے
ابن مثنی، ابن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، انس بن سیرین فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر (رض) سے پوچھا پھر آگے اسی طرح حدیث نقل کی اور اس میں یہ اضافہ ہے کہ انہوں نے فرمایا ٹھہر ٹھہر کیونکہ تو موٹا آدمی ہے۔
رات کی نماز دو دو رکعت ہے اور وتر ایک رکعت رات کے آخری حصہ میں ہے
محمد بن مثنی، محمد بن جعفر، شعبہ، عقبہ بن حریث فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر (رض) کو بیان کرتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ رات کی نماز دو دو رکعتیں ہیں تو جب صبح ہونے کے قریب دیکھے تو ایک رکعت ساتھ ملا کر وتر پڑھ لے حضرت ابن عمر (رض) سے عرض کیا گیا ہے دو دو رکعتوں کا کیا مطلب ہے انہوں نے فرمایا کہ ہر دو رکعتوں کے بعد سلام پھیر دے۔
رات کی نماز دو دو رکعت ہے اور وتر ایک رکعت رات کے آخری حصہ میں ہے
ابوبکر بن ابی شیبہ، عبدالاعلی، معمر، یحییٰ بن ابی کثیر، ابی نضرہ، حضرت ابوسعید (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ صبح ہونے سے پہلے وتر پڑھ لو۔
رات کی نماز دو دو رکعت ہے اور وتر ایک رکعت رات کے آخری حصہ میں ہے
اسحاق بن منصور، عبداللہ، شیبان، یحیی، ابونضرہ عوقی، ابوسعید فرماتے ہیں کہ انہوں نے نبی ﷺ سے وتر کے بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا تم صبح ہونے سے پہلے وتر پڑھ لیا کرو۔
جو شخص ڈرے اس بات سے کہ وتر رات کے آخری حصہ میں نہ پڑھ سکے گا وہ رات کے پہلے حصہ میں پڑھ لے۔
ابوبکر بن ابی شیبہ، حفص، ابومعاویہ، اعمش، ابوسفیان، جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس آدمی کو یہ ڈر ہو کہ وہ رات کے آخری حصہ میں نہیں اٹھ سکے گا تو اسے چاہئے کہ وہ شروع رات ہی میں وتر پڑھ لے اور جس آدمی کو اس بات کی تمنا ہو کہ رات کے آخری حصہ میں قیام کرے تو اسے چاہئے کہ وہ رات کے آخری حصہ میں وتر پڑھے کیونکہ رات کے آخری حصہ کی نماز میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور یہ اس کے لئے افضل ہے اور ابومعاویہ نے مشہودہ کی جگہ محضورہ کا لفظ کہا ہے۔
جو شخص ڈرے اس بات سے کہ وتر رات کے آخری حصہ میں نہ پڑھ سکے گا وہ رات کے پہلے حصہ میں پڑھ لے۔
سلمہ بن شبیب، حسن بن اعین، معقل بن عبیداللہ، ابوزبیر، حضرت جابر فرماتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ تم میں سے جس آدمی کو اس بات کا ڈر ہو کہ وہ رات کے آخری حصہ میں نہ اٹھ سکے گا تو اسے چاہیے کہ وتر پڑھ لے پھر سو جائے اور جس آدمی کو رات کو اٹھنے کا یقین ہو تو اسے چاہیے کہ وہ وتر رات کے آخری حصہ میں پڑھے کیونکہ رات کے آخری حصہ میں قرأت کرنا ایسا ہے کہ اس میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور یہ افضل ہے۔
سب سے افضل نماز لمبی قرأت والی ہے۔
عبد بن حمید، ابوعاصم، ابن جریج، ابوزبیر، حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سب سے افضل نماز لمبی قرأت والی نماز ہے۔
سب سے افضل نماز لمبی قرأت والی ہے۔
ابوبکر بن ابی شبیہ، ابوکریب، ابومعاویہ، اعمش، ابوسفیان، جابر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ کونسی نماز سب سے افضل ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ سب سے لمبی قرأت والی نماز، ابوبکر نے نا الاعمش کی جگہ عن الاعمش کا لفظ کہا ہے۔
رات کی اس گھڑی کے بیا میں جس میں دعا ضرور قبول کی جاتی ہے۔
عثمان بن ابی شیبہ، جریر، اعمش، ابوسفیان، جابر سے روایت ہے کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ رات میں ایک گھڑی ایسی ہے کہ اس وقت جو مسلمان آدمی اللہ تعالیٰ سے دنیا اور آخرت کی بھلائی مانگے گا تو اللہ تعالیٰ اسے ضرور عطا فرما دیں گے اور یہ گھڑی ہر رات میں ہوتی ہے۔
رات کی اس گھڑی کے بیا میں جس میں دعا ضرور قبول کی جاتی ہے۔
سلمہ بن شبیب، حسن بن اعین، معقل، ابی زبیر، جابر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ رات میں ایک گھڑی ایسی ہوتی ہے کہ اس وقت جو مسلمان بندہ بھی اللہ تعالیٰ سے جو بھی بھلائی مانگے گا اللہ تعالیٰ اسے ضرور عطا فرمائیں گے۔
رات کے آخری حصہ میں دعا اور ذکر کی ترغیب کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، مالک، ابن شہاب، ابی عبداللہ اغر، ابوسلمہ بن عبدالرحمن، ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ہمارا رب تبارک وتعالی ہر رات آسمان دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے، جس وقت رات کے آخر کا تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے تو فرماتا ہے کون ہے جو مجھ سے دعا کرے اور میں اس کی دعا کو قبول کروں اور کون ہے جو مجھ سے سوال کرے اور میں اسے عطا کروں اور کون ہے جو مجھ سے مغفرت مانگے اور میں اسے بخش دوں۔
رات کے آخری حصہ میں دعا اور ذکر کی ترغیب کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، یعقوب بن عبدالرحمن، سہیل، ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تبارک وتعالی ہر رات آسمان دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے جس وقت رات کا ابتدائی حصہ گزر جاتا ہے تو اللہ فرماتا ہے میں بادشاہ ہوں کون ہے جو مجھ سے دعا کرے اور میں اس کی دعا قبول کروں، کون ہے جو مجھ سے سوال کرے اور میں اسے عطا کروں، کون ہے جو مجھ سے مغفرت مانگے اور میں اسے معاف کر دوں، اللہ تعالیٰ اسی طرح فرماتا رہتا ہے یہاں تک کہ صبح روشن ہوجاتی ہے۔
رات کے آخری حصہ میں دعا اور ذکر کی ترغیب کے بیان میں
اسحاق بن منصور، ابومغیرہ، اوزاعی، یحیی، ابوسلمہ بن عبدالرحمن، ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب آدھی رات یا رات کا دو تہائی حصہ گزر جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ آسمان دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے اور فرماتا ہے کہ کیا ہے کوئی سوال کرنے والا کہ اسے عطا کیا جائے، کیا ہے کوئی دعا کرنے والا کہ اس کی دعا قبول کی جائے، کیا ہے کوئی مغفرت مانگنے والا کہ اسے بخش دیا جائے، یہاں تک کہ صبح ہوجاتی ہے۔
رات کے آخری حصہ میں دعا اور ذکر کی ترغیب کے بیان میں
حجاج بن شاعر، محاضر، ابومورع، سعد بن سعید، ابن مرجانہ، ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ آدھی رات یا رات کے آخری تہائی حصہ میں آسمان دنیا میں نزول فرماتا ہے اور فرماتا ہے : کون ہے جو مجھ سے دعا کرے اور میں اس کی دعا قبول کروں یا وہ مجھ سے سوال کرے تو میں اسے عطا کروں، پھر فرماتا ہے کہ کون اسے (اللہ کو) قرض دے گا جو کبھی مفلس نہ ہوگا اور نہ ہی کسی پر ظلم کرے گا، امام مسلم نے فرمایا کہ ابن مر جانہ وہ سعید بن عبداللہ ہے اور مرجانہ ان کی ماں ہے۔
رات کے آخری حصہ میں دعا اور ذکر کی ترغیب کے بیان میں
ہارون بن سعید ایلی، ابن وہب، سلیمان بن بلال، سعد بن سعید اس سند کے ساتھ حضرت سعد (رض) بن سعید (رض) سے اسی طرح یہ حدیث نقل کی گئی ہے اور یہ زائد ہے کہ پھر اللہ تبارک وتعالی اپنے ہاتھوں کو پھیلاتا ہے اور فرماتا ہے کہ کون ہے جو اسے قرض دیتا ہے جو کبھی مفلس نہ ہوگا اور نہ ہی کسی پر ظلم کرے گا۔ (اللہ جل جلالہ)
رات کے آخری حصہ میں دعا اور ذکر کی ترغیب کے بیان میں
عثمان، ابوبکر بن ابی شیبہ، اسحاق بن ابراہیم حنظلی، جریر، منصور، ابی اسحاق، حضرت ابوسعید، حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ مہلت عطا فرماتا ہے یہاں تک کہ رات کا تہائی حصہ گز رجاتا ہے تو آسمان دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے اور فرماتا ہے کہ کیا کوئی مغفرت مانگنے والا ہے ؟ کیا کوئی توبہ کرنے والا ہے ؟ کیا کوئی سوال کرنے والا ہے ؟ کیا کوئی دعا کرنے والا ہے ؟ یہاں تک کہ فجر ہوجاتی ہے۔
رات کے آخری حصہ میں دعا اور ذکر کی ترغیب کے بیان میں
محمد بن مثنی، ابن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، ابواسحاق سے اس سند کے ساتھ یہ حدیث اسی طرح نقل کی گئی ہے سوائے اس کے کہ منصور کی حدیث پوری اور زائد ہے۔
رمضان المبارک میں قیام یعنی تراویح کی ترغیب اور اس کی فضیلت کے بیان میں۔
یحییٰ بن یحییٰ مالک ابن شہاب، حمید بن عبدالرحمن، ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس آدمی نے ایمان اور ثواب سمجھ کر رمضان کی رات کو قیام کیا تو اس کے سارے پچھلے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔
رمضان المبارک میں قیام یعنی تراویح کی ترغیب اور اس کی فضیلت کے بیان میں۔
عبد بن حمید، عبدالرزاق، معمر، زہری، ابوسلمہ، ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ رمضان میں قیام کی ترغیب دیا کرتے تھے سوائے اس کے کہ اس میں آپ ﷺ بہت تاکیدی حکم فرماتے ہوں اور فرماتے کہ جو آدمی رمضان میں ایمان اور ثواب سمجھ کر قیام کرے تو اس کے پچھلے سارے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے رسول اللہ ﷺ وصال فرما گئے اور آپ ﷺ کا یہ حکم اسی طرح باقی رہا پھر حضرت ابوبکر (رض) کی خلافت اور حضرت عمر (رض) کی خلافت کے آغاز میں اسی طرح یہ حکم باقی رہا۔
رمضان المبارک میں قیام یعنی تراویح کی ترغیب اور اس کی فضیلت کے بیان میں۔
زہیر بن حرب، معاذ بن ہشام، یحییٰ بن ابی کثیر، ابوسلمہ بن عبدالرحمن، ابوہریرہ (رض) نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس آدمی نے ایمان اور ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے تو اس کے سارے پچھلے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے اور جس نے ایمان اور ثواب کی نیت سے شب قدر میں قیام کیا تو اس کے سارے پچھلے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔
رمضان المبارک میں قیام یعنی تراویح کی ترغیب اور اس کی فضیلت کے بیان میں۔
محمد بن رافع، شبابہ، ورقاء، ابوزناد، اعرج، ابوہریرہ (رض) روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جو آدمی شب قدر میں قیام کرتا ہے اور اس کی شب قدر سے موافقت ہوجائے راوی نے کہا کہ میرا خیال ہے آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایمان اور ثواب کی نیت ہو تو اسے بخش دیا جاتا ہے۔
رمضان المبارک میں قیام یعنی تراویح کی ترغیب اور اس کی فضیلت کے بیان میں۔
یحییٰ بن یحیی، مالک، ابن شہاب، عروہ، عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک رات مسجد میں نماز پڑھی، آپ ﷺ کے ساتھ کچھ لوگوں نے بھی نماز پڑھی پھر آپ ﷺ نے اگلی رات نماز پڑھی تو لوگ زیادہ ہوگئے پھر لوگ تیسری یا چوتھی رات بھی مسجد میں جمع ہوگئے تو رسول اللہ ﷺ باہر تشریف نہ لائے پھر جب صبح ہوئی تو آپ ﷺ نے فرمایا میں نے تمہیں دیکھا تھا تو مجھے تمہاری طرف نکلنے کے لئے کسی نے نہیں روکا سوائے اس کے کہ مجھے ڈر ہوا کہ کہیں یہ نماز تم پر فرض نہ کردی جائے۔ راوی کہتے ہیں کہ یہ واقعہ رمضان المبارک ہی کے بارے میں تھا۔
رمضان المبارک میں قیام یعنی تراویح کی ترغیب اور اس کی فضیلت کے بیان میں۔
حرملہ بن یحیی، عبداللہ بن وہب، یونس بن یزید، ابن شہاب، عروہ بن زبیر، حضرت عائشہ (رض) خبر دیتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رات کے درمیانی حصہ میں نکلے، آپ ﷺ نے مسجد میں نماز پڑھی تو کچھ آدمیوں نے بھی آپ کے ساتھ نماز پڑھی تو صبح لوگ اس کا تذکرہ کرنے لگے، رسول اللہ ﷺ دوسری رات نکلے تو پہلی رات سے زیادہ لوگ جمع ہوگئے تو انہوں نے بھی آپ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی تو لوگوں نے صبح کو اس بات کا ذکر کیا، تیسری رات میں مسجد والے بہت زیادہ جمع ہوگئے تو آپ ﷺ باہر نکلے، لوگوں نے آپ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی پھر جب چوتھی رات ہوئی تو مسجد صحابہ کرام (رض) سے بھر گئی تو آپ ﷺ مسجد والوں کی طرف نہ نکلے، مسجد والوں میں سے کچھ آدمی پکار کر کہنے لگے نماز ! رسول اللہ ﷺ پھر بھی ان کی طرف نہ نکلے یہاں تک کہ آپ ﷺ فجر کی نماز کے لئے نکلے تو جب فجر کی نماز پوری ہوگئی تو صحابہ کرام کی طرف آپ ﷺ متوجہ ہوئے پھر تشہد پڑھا اور فرمایا اما بعد کہ تمہاری آج کی رات کی حالت مجھ سے چھپی ہوئی نہ تھی لیکن مجھے ڈر لگا کہ کہیں تم پر رات کی نماز فرض نہ کردی جائے پھر تم اس کے پڑھنے سے عاجز آجاؤ۔
شب قدر میں قیام کی تاکید اور اس بات کی دلیل کے بیان میں کہ جو کہے کہ شب قدر ستائیسویں رات ہے۔
محمد بن مہران رازی، ولید بن مسلم، اوزاعی، عبدہ، زر سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت ابی بن کعب کو یہ فرماتے ہوئے سنا اور ان سے کہا گیا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ جو آدمی سارا سال قیام کرے وہ لَيْلَةَ الْقَدْرِ کو پہنچ گیا، حضرت ابی فرمانے لگے اس اللہ کی قسم کہ جس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ شب قدر رمضان میں ہے وہ بغیر استثناء کے قسم کھاتے اور فرماتے اللہ کی قسم مجھے معلوم ہے کہ وہ کونسی رات ہے وہ وہی رات ہے جس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے قیام کا حکم فرمایا وہ رات کہ جس کی صبح ستائیس (تاریخ) ہوتی ہے اور اس شب قدر کی علامت یہ ہے کہ اس دن کی صبح روشن ہوتی ہے تو اس میں شعاعیں نہیں ہوتیں۔
شب قدر میں قیام کی تاکید اور اس بات کی دلیل کے بیان میں کہ جو کہے کہ شب قدر ستائیسویں رات ہے۔
محمد بن مثنی، محمد بن جعفر، شعبہ، عبدہ بن ابی لبابہ، زر بن حبیش سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت ابی بن کعب نے مجھے شب قدر کے بارے میں فرمایا : اللہ کی قسم میں اس رات کو جانتا ہوں اور مجھے زیادہ علم ہے کہ وہ وہی رات ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے ہمیں قیام کا حکم فرمایا وہ ستائیسویں کی رات ہے اور شعبہ کو اس بات میں شک ہے کہ ابی بن کعب نے فرمایا کہ وہ رات جس میں رسول اللہ ﷺ نے ہمیں قیام کا حکم فرمایا شعبہ نے کہا کہ یہ حدیث میرے ایک ساتھی نے ان سے نقل کی ہے۔
شب قدر میں قیام کی تاکید اور اس بات کی دلیل کے بیان میں کہ جو کہے کہ شب قدر ستائیسویں رات ہے۔
عبیداللہ بن معاذ، شعبہ، حضرت ابن عباس (رض) ، شعبہ نے اس سند کے ساتھ اسی طرح حدیث نقل فرمائی اور شعبہ کا شک اور اس کے بعد والے الفاظ ذکر نہیں فرمائے۔
نبی ﷺ کی نماز اور رات کی دعا کے بیان میں
عبداللہ بن ہاشم بن حیان عبدی، عبدالرحمن ابن مہدی، سفیان، سلمہ بن کہیل، کریب، ابن عباس نے فرمایا کہ میں ایک رات اپنی خالہ میمونہ (رض) کے ہاں ٹھہرا تو نبی ﷺ رات کو اٹھ کھڑے ہوئے، قضاء حاجت کے لئے آئے، پھر اپناچہرہ انور اور اپنے مبارک ہاتھوں کو دھویا پھر سو گئے پھر آپ ﷺ کھڑے ہوئے اور مشکیزہ کی طرف آکر اس کا منہ کھولا پھر وضو فرمایا دو وضوؤں کے درمیان والا وضو یعنی کثرت سے پانی نہیں گرایا اور وضو پورا فرمایا پھر آپ ﷺ کھڑے ہوئے اور نماز پڑھی پھر میں بھی اٹھا اور انگڑائی لی تاکہ آپ ﷺ اس کو یہ نہ سمجھیں کہ میں آپ ﷺ کی کیفیت کو دیکھنے کے لئے بیدار تھا تو میں نے وضو کیا اور نماز پڑھنے کے لئے آپ ﷺ کے بائیں طرف کھڑا ہوگیا، آپ ﷺ نے میرا ہاتھ پکڑا اور گھما کر اپنی دائیں طرف لے آئے تو رسول اللہ ﷺ نے تیرہ رکعت نماز پڑھائی پھر لیٹ کر سو گئے یہاں تک کہ آپ ﷺ خر اٹے لینے لگے اور یہ آپ ﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ جب آپ ﷺ سوتے تو خر اٹے لیا کرتے تھے پھر حضرت بلال (رض) آئے اور آپ ﷺ کو نماز کے لئے بیدار فرمایا تو آپ ﷺ اٹھے اور نماز پڑھی اور وضو نہیں فرمایا اور آپ ﷺ نے یہ دعا کی اے اللہ میرا دل روشن فرما اور میری آنکھیں روشن فرما اور میرے کانوں میں نور اور میرے دائیں نور اور میرے بائیں نور اور میرے اوپر نور اور میرے نیچے نور اور میرے آگے نور اور میرے پیچھے نو اور میرے لئے نور کو بڑا فرما، راوی کریب نے کہا کہ سات الفاظ اور فرمائے جو کہ میرے تابوت (دل) میں ہیں میں نے حضرت ابن عباس (رض) کی بعض اولاد سے ملاقات کی تو انہوں نے مجھ سے ان الفاظ کا ذکر کیا اور وہ الفاظ یہ ہیں میرے پٹھے اور میرے گوشت اور میرے خون اور میرے بال اور میری کھال میں نور فرما دے اور دو (اور) چیزوں کا ذکر فرمایا۔
نبی ﷺ کی نماز اور رات کی دعا کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، مالک، مخرمہ بن سلیمان، کریب مولیٰ ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ ایک رات انہوں نے اپنی خالہ ام المومنین حضرت میمونہ کے پاس گزاری، حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ میں بچھونے کے عرض میں لیٹا اور رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کی اہلیہ محترمہ بچھونے کے طول میں لیٹے تو رسول اللہ ﷺ سو گئے یہاں تک کہ آدھی رات یا اس سے کچھ پہلے یا اس کے کچھ بعد بیدار ہوگئے اور رسول اللہ ﷺ نیند کی وجہ سے اپنے ہاتھوں سے اپنی آنکھوں کو مل رہے تھے پھر آپ ﷺ نے سورت آل عمران کی آخری دس آیات پڑھیں پھر آپ ﷺ ایک لٹکے ہوئے مشکیزے کی طرف کھڑے ہوگئے، آپ ﷺ نے اس میں وضو فرمایا اور اچھی طرح وضو فرمایا پھر آپ ﷺ کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے، حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ میں بھی کھڑا ہو اور اسی طرح کیا جس طرح رسول اللہ ﷺ نے کیا تھا پھر میں گیا اور آپ ﷺ کے پہلو میں کھڑا ہوگیا تو رسول اللہ ﷺ نے اپنا دایاں ہاتھ میرے سر پر رکھا اور میرے دائیں کان کو پکڑ کر مروڑا پھر آپ ﷺ نے دو رکعتیں پڑھیں، پھر دو رکعتیں، پھر دو رکعتیں، پھر دو رکعتیں، پھر دو رکعتیں، پھر دو رکعتیں پڑھیں، پھر آپ ﷺ نے وتر کی نماز پڑھی، پھر آپ ﷺ لیٹ گئے یہاں تک کہ اذان دینے والا آیا تو آپ ﷺ کھڑے ہوئے اور آپ ﷺ نے دو رکعتیں ہلکی سی پڑھیں پھر آپ ﷺ باہر تشریف لائے اور آپ ﷺ نے صبح کی نماز پڑھائی۔
نبی ﷺ کی نماز اور رات کی دعا کے بیان میں
محمد بن سلمہ مرادی، عبداللہ بن وہب، عیاض بن عبداللہ فہری، مخرمہ بن سلیمان سے اس سند کے ساتھ روایت نقل کی گئی ہے اور اس میں یہ زائد ہے کہ پھر آپ ﷺ نے پانی کی ایک پرانی مشک سے پانی لیا پھر آپ ﷺ نے مسواک فرمائی پھر وضو فرمایا اور پانی زیادہ نہیں بلکہ کم بہایا پھر آپ ﷺ نے مجھے حرکت دی اور میں کھڑا ہوگیا باقی حدیث اسی طرح ہے۔
نبی ﷺ کی نماز اور رات کی دعا کے بیان میں
ہارون بن سعید، ایلی، ابن وہب، عمرو، عبد ربہ بن سعید، مخرمہ بن سلیمان، کریب، ابن عباس فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ کی زوجہ مطہرہ حضرت میمونہ (رض) کے ہاں میں سویا اور رسول اللہ ﷺ اس رات حضرت میمونہ کے پاس تھے تو رسول اللہ ﷺ نے وضو فرمایا پھر کھڑے ہو کر نماز پڑھی تو میں آپ ﷺ کے بائیں طرف کھڑا ہوگیا تو آپ ﷺ نے مجھے کان سے پکڑا اور اپنی دائیں طرف کرلیا، آپ ﷺ نے اس رات میں تیرہ رکعتیں نماز پڑھی پھر رسول اللہ ﷺ سو گئے یہاں تک کہ آپ ﷺ خر اٹے لینے لگے اور جب بھی سوتے تو خر اٹے لیتے تھے پھر آپ ﷺ کے پاس مؤذن آیا تو آپ ﷺ باہر تشریف لائے اور نماز پڑھائی اگرچہ آپ ﷺ نے وضو نہیں فرمایا عمر نے کہا کہ میں نے اس حدیث کو بکیر بن اشج سے بیان کیا تو انہوں نے فرمایا کہ کریب نے ان سے اسی طرح بیان کیا ہے۔
نبی ﷺ کی نماز اور رات کی دعا کے بیان میں
محمد بن رافع، ابن ابی فدیک، ضحاک، مخرمہ بن سلیمان، کریب مولیٰ ابن عباس فرماتے ہیں کہ میں نے ایک رات اپنی خالہ حضرت میمونہ بنت حارث (رض) کے ہاں گزاری تو میں نے اپنی خالہ سے کہا کہ جب رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوں تو مجھے جگا دیں تو رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے تو میں بھی آپ ﷺ کے بائیں پہلو کی طرف کھڑا ہوگیا تو آپ نے میرے ہاتھ سے پکڑ کر مجھے اپنی دائیں طرف کردیا اور مجھے جب بھی اونگھ آنے لگتی تو آپ ﷺ میرے کان کی لو پکڑتے۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے گیارہ رکعتیں پڑھی پھر آپ ﷺ سو گئے یہاں تک کہ میں نے آپ ﷺ کی سوتے ہوئے آواز سنی پھر جب فجر ظاہر ہوگئی تو آپ ﷺ نے دو ہلکی رکعتیں پڑھیں۔
نبی ﷺ کی نماز اور رات کی دعا کے بیان میں
ابن ابی عمر، محمد بن حاتم، ابن عیینہ، سفیان، عمرو ابن دینار، کریب مولیٰ ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک رات اپنی خالہ حضرت میمونہ (رض) کے ہاں گزاری تو رسول اللہ ﷺ رات کو کھڑے ہوئے، آپ ﷺ نے ایک لٹکے ہوئے مشکیزے سے ہلکا سا وضو فرمایا : حضرت ابن عباس (رض) اس ہلکے وضو کے بارے میں فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ کا وضو ہلکا تھا اور آپ ﷺ نے پانی بھی کم استعمال فرمایا : ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ پھر میں بھی کھڑا ہوا اور اسی طرح سے کیا جس طرح نبی ﷺ نے کیا اور میں آپ ﷺ کے بائیں طرف کھڑا ہوگیا تو آپ ﷺ نے مجھے پیچھے کر کے اپنے دائیں طرف کھڑا کردیا اور نماز پڑھی پھر آپ ﷺ لیٹ کر سو گئے یہاں تک کہ آپ ﷺ خر اٹے لینے لگے پھر حضرت بلال (رض) آپ ﷺ کے پاس آئے اور نماز کی اطلاع دی تو آپ ﷺ باہر تشریف لائے اور صبح کی نماز پڑھائی حالانکہ آپ نے وضو نہیں فرمایا ( راوی) سفیان فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ کے لئے یہ خصوصیت ہے کیونکہ ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ آپ کی آنکھیں سوتی ہیں اور آپ کا قلب اطہر نہیں سوتا۔ (اس لئے وضو نہیں ٹوٹا )
نبی ﷺ کی نماز اور رات کی دعا کے بیان میں
محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، سلمہ، کریب، ابن عباس فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی خالہ حضرت میمونہ (رض) کے گھر میں ایک رات گزاری تو میں رسول اللہ ﷺ کی نماز کی کیفیت کو دیکھنے کے لئے جا گتا رہا کہتے ہیں کہ آپ ﷺ کھڑے ہوئے اور پیشاب فرمایا پھر آپ ﷺ نے اپنے چہرہ مبارک اور ہاتھوں کو دھویا پھر آپ ﷺ کھڑے ہو کر مشکیزے کی طرف گئے آپ ﷺ نے اس کا منہ کھولا اور اس کا پانی ایک بڑے گیلن یا ایک بڑے پیالے میں ڈالا پھر آپ ﷺ نے اس برتن کو اپنے ہاتھوں سے اپنے اوپر جھکایا پھر آپ ﷺ نے وضو فرمایا اور بہت اچھے طریقے سے وضو فرمایا یا درمیانہ وضو، پھر آپ ﷺ کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے تو میں بھی آیا اور آپ ﷺ کے بائیں پہلو کی طرف کھڑا ہوگیا آپ ﷺ نے مجھے پکڑ کر اپنی دائیں طرف کھڑا کردیا تو رسول اللہ ﷺ نے تیرہ رکعتیں نماز مکمل پڑھیں پھر آپ ﷺ سو گئے یہاں تک کہ آپ ﷺ خر اٹے لینے لگے ہم پہچانتے تھے کہ آپ ﷺ جب سوتے تو خر اٹے لیتے ہیں پھر آپ ﷺ نماز کے لئے باہر تشریف لائے اور اپنی نمازوں اور اپنے سجدوں میں دعا مانگتے ہوئے یہ فرماتے ( اللَّهُمَّ اجْعَلْ فِي قَلْبِي نُورًا وَفِي سَمْعِي نُورًا وَفِي بَصَرِي نُورًا وَعَنْ يَمِينِي نُورًا وَعَنْ شِمَالِي نُورًا وَأَمَامِي نُورًا وَخَلْفِي نُورًا وَفَوْقِي نُورًا وَتَحْتِي نُورًا وَاجْعَلْ لِي نُورًا أَوْ قَالَ وَاجْعَلْنِي نُورًا) اے اللہ میرے دل کو روشن اور میرے کانوں میں روشنی اور میری آنکھوں میں نور اور میرے دائیں کو روشن اور میرے بائیں کو روشن میرے آگے پیچھے اوپر نیچے کو روشن فرما اور مجھے روشن فرمایا آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے سر سے پاؤں تک روشن فرما۔
نبی ﷺ کی نماز اور رات کی دعا کے بیان میں
اسحاق بن منصور، نضر بن شمیل، شعبہ، سلمہ بن کہیل، بکیر، کریب، ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ حضرت سلمہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے کریب (رض) سے ملاقات کی تو اس نے کہا کہ میں نے حضرت ابن عباس کو فرماتے سنا کہ میں اپنی خالہ ام المومنین حضرت میمونہ (رض) کے ہاں تھا تو رسول اللہ ﷺ تشریف لائے۔ پھر آگے اسی طرح حدیث ذکر فرمائی غندر راوی کہتے ہیں کہ بغیر کسی شک کے آپ ﷺ نے دعا فرمائی ( وَاجْعَلْنِي نُورًا) اے اللہ مجھے روشن کر دے۔
نبی ﷺ کی نماز اور رات کی دعا کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، ہناد بن سری، ابوالاحوص، سعید بن مسروق، سلمہ بن کہیل، ابی رشدین مولیٰ ابن عباس فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ میں نے ایک رات اپنی خالہ حضرت میمونہ (رض) کے ہاں گزاری اور آگے اسی طرح حدیث بیان کی لیکن اس حدیث میں منہ اور ہاتھ دھونے کا ذکر نہیں ہے سوائے اس کے کہ انہوں نے کہا کہ پھر آپ ﷺ مشکیزے کے پاس آئے اور اس کا منہ کھولا اور دو وضوؤں کے درمیان والا وضو فرمایا پھر آپ ﷺ اپنے بستر پر آکر سو گئے پھر آپ ﷺ دوسری مرتبہ اٹھ کھڑے ہوئے تو آپ ﷺ مشکیزے کے پاس آئے اور اس کا منہ کھولا پھر آپ ﷺ نے وضو فرمایا کہ وہ ہی وضو تھا اور آپ ﷺ نے فرمایا اے اللہ مجھے عظیم روشنی فرما ( وَاجْعَلْنِي نُورًا) کا ذکر نہیں کیا۔
نبی ﷺ کی نماز اور رات کی دعا کے بیان میں
ابوطاہر، ابن وہب، عبدالرحمن بن سلمان، عقیل بن خالد سے روایت ہے کہ حضرت سلمہ بن کہیل (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) نے ایک رات رسول اللہ کے ہاں گزاری وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مشکیزے کی طرف کھڑے ہوئے اس سے پانی بہایا اور وضو فرمایا اور پانی زیادہ استعمال نہیں فرمایا اور نہ ہی آپ ﷺ نے وضو میں کمی فرمائی اور آگے حدیث اسی طرح سے ہے اور اس حدیث میں ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس رات میں انیس کلموں سے دعا فرمائی، سلمہ کہتے ہیں کہ کریب نے مجھے وہ کلمات بیان کئے ہیں مجھے ان میں سے بارہ کلمات یاد ہیں اور باقی کلمات میں بھول گیا ہوں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے اللہ میرے دل میں نور فرما اور میری زبان کو روشن کر اور میرے کانوں کو روشن کر اور میری آنکھوں کو روشن کر اور میرے اوپر روشنی کر اور میرے نیچے روشنی کر اور میرے دائیں روشنی کر اور میرے بائیں روشنی کر اور میرے آگے روشنی کر اور میرے پیچھے روشنی کر اور میرے نفس کو روشن کر اور میرے لئے بڑی روشنی فرما۔
نبی ﷺ کی نماز اور رات کی دعا کے بیان میں
ابوبکر بن اسحاق، ابن ابی مریم، محمد بن جعفر، شریک بن ابی نمر، کریب، ابن عباس فرماتے ہیں کہ ایک رات میں نے حضرت میمونہ (رض) کے پاس گزاری جس رات کہ نبی ﷺ میمونہ (رض) کے پاس تھے تاکہ میں نبی ﷺ کی رات کی نماز کی کیفیت کو دیکھ سکوں، ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے رات کو کچھ وقت اپنی اہلیہ محترمہ کے ساتھ باتیں فرمائیں پھر آپ ﷺ سو گئے اور آگے اسی طرح حدیث بیان کی اور اس حدیث میں ہے کہ پھر آپ ﷺ کھڑے ہوئے آپ ﷺ نے وضو فرمایا اور مسواک استعمال فرمائی۔
نبی ﷺ کی نماز اور رات کی دعا کے بیان میں
واصل بن عبدالاعلی، محمد بن فضیل، حصین بن عبدالرحمن، حبیب بن ابی ثابت، محمد بن علی بن ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک رات رسول اللہ ﷺ کے ہاں گزاری تو آپ ﷺ بیدار ہوئے اور آپ ﷺ نے مسواک فرمائی اور وضو فرمایا اور یہ فرما رہے تھے ( إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِأُولِي الْأَلْبَابِ ) بیشک آسمانوں اور زمین کے بیدا کرنے میں اور رات اور دن کے آنے جانے میں عقل والوں کے لئے نشانیاں ہیں، آپ ﷺ نے یہ آیات پڑھیں یہاں تک کہ سورت آل عمران ختم ہوگئی پھر آپ ﷺ کھڑے ہوئے اور دو رکعت نماز پڑھی اور ان میں قیام اور رکوع اور سجدوں کو لمبا فرمایا پھر آپ ﷺ سو گئے یہاں تک کہ خر اٹے لینے لگے پھر آپ نے تین مرتبہ اسی طرح کر کے چھ رکعتیں پڑھیں ہر مرتبہ مسواک فرماتے اور وضو فرماتے اور یہی آیات پڑھتے پھر آپ ﷺ نے تین رکعات نماز وتر پڑھی پھر مؤذن نے آپ ﷺ کو اطلاع دی تو آپ ﷺ نماز کے لئے یہ فرماتے ہوئے باہر تشریف لائے اے اللہ میرے دل میں نور اور میری زبان میں نور اور میرے کانوں میں اور میری آنکھوں کو روشن اور میرے پیچھے اور میرے آگے اور میرے اوپر اور میرے نیچے روشن فرما اے اللہ مجھے روشنی سے نواز دے۔
نبی ﷺ کی نماز اور رات کی دعا کے بیان میں
محمد بن حاتم، محمد بن بکر، ابن جریج، عطاء، ابن عباس فرماتے ہیں کہ میں نے ایک رات اپنی خالہ حضرت میمونہ (رض) کے ہاں گزاری تو نبی ﷺ رات کو نفل پڑھنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے تو نبی ﷺ ایک مشکیزے کی طرف کھڑے ہوئے آپ ﷺ نے وضو فرمایا پھر کھڑے ہو کر نماز پڑھی تو میں بھی کھڑا ہوگیا اور میں نے بھی اسی طرح کیا جس طرح میں نے آپ ﷺ کو کرتے دیکھا اور مشکیزے سے میں نے وضو کیا اور میں آپ ﷺ کے بائیں طرف کھڑا ہوگیا تو آپ ﷺ نے میری پشت کے پیچھے سے دائیں طرف کھڑا کردیا میں نے کہا کہ کیا یہ کام نفل میں کیا تھا تو حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا جی ہاں۔
نبی ﷺ کی نماز اور رات کی دعا کے بیان میں
ہارون بن عبداللہ، محمد بن رافع، وہب بن جریر، قیس بن سعد، عطاء، ابن عباس فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت عباس (رض) نے نبی ﷺ کی طرف بھیجا اور آپ ﷺ میری خالہ حضرت میمونہ (رض) کے گھر میں تھے تو میں نے ان کے ساتھ وہ رات گزاری تو آپ ﷺ رات کو اٹھ کر نماز پڑھنے لگے تو میں بھی آپ ﷺ کے بائیں طرف کھڑا ہوگیا آپ ﷺ نے مجھے اپنے پیچھے سے پکڑ کر اپنی دائیں طرف کردیا۔
نبی ﷺ کی نماز اور رات کی دعا کے بیان میں
ابن نمیر، عبدالملک، عطاء ابن عباس (رض) سے یہ حدیث اسی طرح اس سند کے ساتھ نقل کی گئی ہے۔
نبی ﷺ کی نماز اور رات کی دعا کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، غندر، شعبہ، ابن مثنی، ابن بشار، محمد بن جعفر، ابوجمرۃ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس (رض) کو فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ﷺ رات کو تیرہ رکعات نماز پڑھا کرتے تھے۔
نبی ﷺ کی نماز اور رات کی دعا کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، مالک بن انس، عبداللہ بن ابی بکر، عبداللہ بن قیس بن مخرمہ، حضرت زید بن خالد جہنی سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ میں نے کہا کہ میں آج کی رات رسول اللہ ﷺ کی نماز کو دیکھوں گا تو آپ ﷺ نے دو ہلکی رکعتیں پڑھیں پھر دو لمبی رکعتیں پڑھیں دو لمبی لمبی، دو لمبی سے لمبی، پھر آپ ﷺ نے دو رکعتیں پڑھیں اور یہ دونوں پہلی دونوں پڑھی گئی سے کم پڑھیں پھر اس سے کم اور پھر اس سے کم دو رکعات پڑھیں پھر اس سے کم دو رکعات پڑھیں پھر آپ ﷺ نے تین وتر پڑھے تو یہ تیرہ رکعتیں ہوگئیں۔
نبی ﷺ کی نماز اور رات کی دعا کے بیان میں
حجاج بن شاعر، محمد بن جعفر مدائنی، ابوجعفر، ورقاء، محمد بن منکدر، جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھا تو ہم ایک گھاٹی کی طرف اترے، آپ ﷺ نے فرمایا اے جابر ! کیا تو پار نہیں اترتا ؟ میں نے عرض کیا جی ہاں ! تو رسول اللہ ﷺ اترے اور میں بھی اترا پھر آپ ﷺ قضاء حاجت کے لئے چلے گئے اور میں نے آپ ﷺ کے لئے وضو کا پانی رکھا آپ ﷺ آئے اور وضو فرمایا پھر کھڑے ہوئے ایک ہی کپڑا دونوں سمتوں کی طرف اس کے کنارے اوڑھے ہوئے آپ ﷺ نے نماز پڑھی تو میں بھی آپ ﷺ کے پیچھے کھڑا ہوگیا اور آپ ﷺ نے میرے کان کو پکڑا اور مجھے اپنی دائیں طرف کردیا۔
نبی ﷺ کی نماز اور رات کی دعا کے بیان میں
یحییٰ بن یحیی، ابوبکر بن ابی شیبہ، ہشیم، ابوحرہ، حسن، سعد بن ہشام، عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب رات کو نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہوتے تو آپ ﷺ اپنی نماز کو دو ہلکی رکعتوں سے شروع فرماتے۔
نبی ﷺ کی نماز اور رات کی دعا کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابواسامہ، ہشام، محمد، ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی رات کو کھڑا ہو تو اسے چاہئے کہ کہ وہ اپنی نماز کو دو ہلکی رکعتوں سے شروع کرے۔
نبی ﷺ کی نماز اور رات کی دعا کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، مالک بن انس، ابوزبیر، طاؤس، ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب آدھی رات کو نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو یہ دعا فرماتے۔ اے اللہ ! ساری تعریفیں تیرے ہی لئے ہیں تو آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ اور ساری تعریفیں تیرے ہی لئے ہیں تو آسمانوں اور زمین کو قائم رکھنے والا ہے۔ اور ساری تعریفیں تیرے ہی لئے ہیں اور وہ چیزیں کہ جو ان آسمانوں اور زمین میں ہیں، تو حق ہے اور تیرا وعدہ برحق ہے اور تیرا فرمان حق ہے اور تجھ سے ملاقات حق ہے اور جنت حق ہے اور دوزخ حق ہے اور قیامت حق ہے اے اللہ میں تیرا ہی فرمانبردار ہوں اور تجھی پر ایمان لایا ہوں اور تجھی پر میں نے بھروسہ کیا ہے اور میں تیری ہی طرف متوجہ ہوتا ہوں اور میں تیری خاطر اوروں سے جھگڑتا ہوں اور تجھ ہی سے فیصلہ چاہتا ہوں پس تو میرے اگلے پچھلے اور باطنی اور ظاہری گناہ بخش دے تو ہی میرا معبود ہے تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے۔
نبی ﷺ کی نماز اور رات کی دعا کے بیان میں
عمرو ناقد، ابن نمیر، ابن ابی عمر، سفیان، محمد بن رافع، عبدالرزاق، ابن جریج، سلیمان احول، طاؤس، حضرت ابن عباس (رض) نے نبی ﷺ سے اسی حدیث کی طرح نقل فرمایا : باقی ابن جریج کی حدیث کے الفاظ مالک کی حدیث کے ساتھ متفق ہیں اور کوئی اختلاف نہیں سوائے دو حرفوں کے ابن جریج نے قیام کی جگہ قیم کا لفظ استعمال کیا اور مَا أَسْرَرْتُ کا لفظ کہا اور باقی ابن عیینہ کی حدیث میں کچھ باتیں زائد ہیں اور مالک اور ابن جریج کی روایت سے کچھ باتوں میں مختلف ہے۔
نبی ﷺ کی نماز اور رات کی دعا کے بیان میں
شیبان بن فروخ، مہدی ابن میمون، عمران قصیر، قیس بن سعد، طاؤس، ابن عباس نے نبی ﷺ سے اسی طرح حدیث روایت کی ہے۔
نبی ﷺ کی نماز اور رات کی دعا کے بیان میں
محمد بن مثنی، محمد بن حاتم، عبد بن حمید، ابومعن، عمر بن یونس، عکرمہ بن عمار، یحییٰ بن ابی کثیر، ابوسلمہ بن عبدالرحمن بن عوف فرماتے ہیں کہ میں نے ام المومنین حضرت عائشہ (رض) سے پوچھا کہ نبی ﷺ جب رات کو اپنی نماز شروع فرماتے تو کس طرح شروع کرتے حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا کہ جب بھی رات کو آپ ﷺ اپنی نماز شروع فرماتے تو یہ دعا پڑھتے اے اللہ جبرائیل اور میکائیل اور اسرافیل کے پروردگار ! آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے ! ظاہر اور باطن کے جاننے والے ! تو ہی اپنے بندوں کے درمیان جس میں وہ اختلاف کرتے ہیں مجھے سیدھا راستہ دکھا اور اے اللہ حق کی جن باتوں میں اختلاف ہوگیا ہے تو مجھے ان میں سیدھے راستے پر رکھ بیشک تو ہی جسے چاہتا ہے سیدھے راستے کی ہدایت عطا فرماتا ہے۔
نبی ﷺ کی نماز اور رات کی دعا کے بیان میں
محمد بن ابی بکر مقدامی، یوسف ماجشون، عبدالرحمن اعرج، عبیداللہ بن ابی رافع، حضرت علی (رض) بن ابی طالب (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو فرماتے (وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنْ الْمُشْرِکِينَ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُکِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ لَا شَرِيکَ لَهُ وَبِذَلِکَ أُمِرْتُ وَأَنَا مِنْ الْمُسْلِمِينَ ) میں اپنا رخ اس ذات کی طرف کرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو ٹھیک ٹھیک پیدا فرمایا اور میں شریک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں بیشک میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ رب العالمین کے لئے ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اسی کا حکم دیا گیا اور میں مسلمانوں میں سے ہوں اے اللہ تو بادشاہ ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو ہی میرا رب ہے اور میں تیرا بندہ ہوں میں نے اپنی جان پر ظلم کیا اور مجھے اپنے گناہوں کا اعتراف ہے پس تو میرے گناہوں کو بخش دے کیونکہ تیرے سوا کوئی گناہوں کو بخشنے والا نہیں ہے اور مجھے اچھے اخلاق کی ہدایت عطا فرما تیرے سوا کوئی اچھے اخلاق کی ہدایت نہیں دے سکتا اور برے اخلاق مجھ سے دور فرما تیرے سوا مجھ سے کوئی برے اخلاق دور کرنے والا نہیں ہے میں حاضر ہوں اور فرمانبردار ہوں اور ساری بھلائیاں تیرے دست قدرت میں ہیں اور شر کی نسبت تیری طرف نہیں ہے میں تیری طرف آتا ہوں تو برکت والا ہے اور تو بلند ہے میں تجھ سے مغفرت چاہتا ہوں اور میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور جب آپ ﷺ رکوع میں جاتے تو فرماتے اے اللہ تیرے لئے میں نے رکوع کیا اور تجھی پر ایمان لایا اور میں تیرا ہی فرمانبردار ہوں میرا کان اور میری آنکھیں اور میرا مغز اور میری ہڈیاں اور میرے پٹھے سب تجھ سے ڈرتے ہیں اور جب آپ ﷺ رکوع سے سر اٹھاتے تو یہ فرماتے اے اللہ اے ہمارے پروردگار تیرے ہی لئے ساری ایسی تعریفیں ہیں جس سے سارے آسمان بھر جائیں اور زمین بھر جائے اور جو کچھ ان کے درمیان ہے وہ بھر جائے اور جو تو چاہے اس سے وہ بھر جائے اور جب آپ ﷺ سجدہ کرتے تو یہ فرماتے اے اللہ میں نے تیرے لئے سجدہ کیا اور تجھی پر ایمان لایا اور تیرا ہی فرمانبردار ہوں میرا چہرہ اس ذات کو سجدہ کر رہا ہے جس نے اسے پیدا کیا اور اس کی صورت بنائی اور اس کے کانوں اور اس کی آنکھوں کو تراش کر بنایا اللہ برکتوں والا ہے اور سب سے اچھا پیدا کرنے والا ہے۔ پھر آپ ﷺ آخر میں تشہد اور سلام کے درمیان یہ فرماتے اے اللہ میرے ان گناہوں کی مغفرت فرما جو میں نے پہلے کئے اور جو میں نے بعد میں کئے اور جو میں نے چھپ کر کئے اور جو میں نے ظاہر کئے اور جو میں نے زیادتی کی اور جن کو تو مجھ سے زیادہ جانتا ہے تو ہی آگے کرنے والا ہے اور تو ہی پیچھے کرنے والا ہے اور تیرے سوا کوئی مبعود نہیں ہے۔
نبی ﷺ کی نماز اور رات کی دعا کے بیان میں
زہیر بن حرب، عبدالرحمن بن مہدی، اسحاق بن ابراہیم، ابونضر، عبدالعزیز بن عبداللہ بن ابی سلمہ، ماجشون بن ابی سلمہ اعرج سے اس سند کے ساتھ یہ روایت نقل کی گئی ہے اور فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز شروع فرماتے تھے تو اَللَّهُ أَکْبَرُ کہتے تھے پھر فرماتے وَجَّهْتُ وَجْهِي اور فرماتے (وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ ) اور جب آپ ﷺ رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو فرماتے (سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ وَقَالَ وَصَوَّرَهُ فَأَحْسَنَ صُوَرَهُ ) اور جب آپ سلام پھیرتے تو فرماتے اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ حدیث کے آخر تک اور تشہد اور سلام کے درمیان کا ذکر نہیں فرمایا۔
رات کی نماز میں لمبی قرأت کے استح کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، عبداللہ بن نمیر، ابومعاویہ، زہیر بن حرب، اسحاق بن ابراہیم، جریر، اعمش، نمیر، سعد بن عبیدہ، مستورد بن احنف، صلہ بن زفر، حضرت حذیفہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے ایک رات نبی ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی آپ ﷺ نے سورت البقرہ شروع فرما دی تو میں نے کہا کہ آپ ﷺ سو آیات پر رکوع فرمائیں گے پھر آپ ﷺ آگے چلے میں نے دل میں کہا کہ آپ ﷺ اس سورت کو دو رکعتوں میں پوری فرمائیں گے پھر آگے چلے میں نے دل میں کہا کہ آپ ﷺ اس ایک پوری سورت پر رکوع فرمائیں گے پھر آپ ﷺ نے سورت نساء شروع فرما دی پوری سورت پڑھی پھر آپ ﷺ نے سورت آل عمران شروع فرما دی اس کو آپ ﷺ نے ترتیل اور خوبی کے ساتھ پڑھا جب آپ ﷺ اس آیت سے گزرتے کہ جس میں تسبیح ہوتی تو آپ ﷺ سُبْحَانَ اللَّهِ کہتے اور جب آپ ﷺ کسی ایسے سوال سے گزرتے تو آپ ﷺ سوال فرماتے اور جب آپ ﷺ تعوذ والی آیت پر سے گزرتے تو آپ ﷺ پناہ مانگتے پھر آپ ﷺ نے رکوع فرمایا اور (سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ ) پڑھتے رہے یہاں تک کہ آپ ﷺ کا رکوع بھی قیام کے برابر ہوگیا پھر آپ ﷺ نے ( سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ ) کہا پھر اس کے بعد رکوع کے برابر دیر تک لمبا قیام فرمایا پھر آپ ﷺ نے سجدہ کیا اور آپ کا سجدہ بھی آپ ﷺ کے قیام کے برابر لمبا تھا اور جریر کی حدیث میں اتنا زائد ہے کہ آپ ﷺ نے ( سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ ) بھی کہا۔
رات کی نماز میں لمبی قرأت کے استح کے بیان میں
عثمان بن ابی شیبہ، اسحاق بن ابراہیم، جریر، حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی آپ ﷺ نے بہت لمبا قیام کیا یہاں تک کہ میں نے ایک برے کام کا ارادہ کرلیا راوی کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ تو نے کس کام کا ارادہ کیا تھا ؟ اس نے کہا کہ میں نے یہ ارادہ کیا تھا کہ میں بیٹھ جاؤں اور آپ ﷺ کو قیام میں چھوڑ دوں۔
رات کی نماز میں لمبی قرأت کے استح کے بیان میں
اسمعیل بن خلیل، سوید بن سعید، علی بن مسہر، اعمش سے اس سند کے ساتھ اسی طرح حدیث نقل کی گئی ہے۔
رات کی نماز کی ترغیب کے بیان میں اگرچہ کم رکعتیں ہی ہوں۔
عثمان بن ابی شیبہ، اسحاق، عثمان، جریر منصور، ابو وائل، عبداللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک آدمی کا ذکر کیا گیا کہ رات سویا رہتا ہے یہاں تک کہ صبح ہوجاتی ہے آپ ﷺ نے فرمایا اس آدمی کے دونوں کانوں میں شیطان پیشاب کرتا ہے یا آپ ﷺ نے فرمایا اس کے کان میں۔
رات کی نماز کی ترغیب کے بیان میں اگرچہ کم رکعتیں ہی ہوں۔
قتیبہ بن سعید، لیث، عقیل، زہری، علی بن حسین، حضرت علی (رض) بن ابی طالب سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ایک مرتبہ انہیں اور حضرت فاطمہ کو جگایا اور فرمایا کیا تم نماز نہیں پڑھتے تو میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ہماری جانیں تو اللہ کے قبضہ وقدرت میں ہیں وہ جب ہمیں اٹھانا چاہے ہمیں اٹھا دیتا ہے جس وقت میں نے آپ ﷺ سے یہ کہا تو رسول اللہ ﷺ تشریف لے گئے پھر میں نے آپ ﷺ سے جاتے ہوئے سنا اپنی رانوں پر ہاتھ مار رہے تھے اور فرما رہے تھے کہ انسان بہت زیادہ جھگڑالو ہے۔
رات کی نماز کی ترغیب کے بیان میں اگرچہ کم رکعتیں ہی ہوں۔
عمرو ناقد، زہیر بن حرب، عمرو، سفیان بن عیینہ، ابوزناد، اعرج، ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ ان تک یہ بات پہنچی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ شیطان تم میں سے ہر ایک آدمی کی گردن پر جب وہ سوجاتا ہے تین گرہیں لگا دیتا ہے ہر ایک گرہ پر پھونک مارتا ہے کہ ابھی رات بڑی لمبی ہے تو جب کوئی بیدار ہوتا ہے اور اللہ کا ذکر کرتا ہے تو ایک گرہ کھل جاتی ہے اور جب وضو کرتا ہے تو اس پر سے دو گرہیں کھل جاتی ہیں اور جب وہ نماز پڑھ لیتا ہے تو ساری گرہیں کھل جاتی ہیں پھر وہ صبح کو ہشاش بشاش خوش مزاج اٹھتا ہے ورنہ اس کی صبح نفس کی خباثت اور سستی کے ساتھ ہوتی ہے۔
نفل نماز اپنے گھر میں پڑھنے کے استح اور مسجد میں جواز کے بیان میں
محمد بن مثنی، یحیی، عبیداللہ، نافع، ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ تم اپنی نمازوں کو اپنے گھروں میں پڑھا کرو اور اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ۔
نفل نماز اپنے گھر میں پڑھنے کے استح اور مسجد میں جواز کے بیان میں
ابن مثنی، عبدالوہاب، ایوب، نافع، ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ تم اپنے گھروں میں نفل نماز پڑھو اور گھروں کو قبرستان نہ بناؤ۔
نفل نماز اپنے گھر میں پڑھنے کے استح اور مسجد میں جواز کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب، ابومعاویہ، اعمش، ابوسفیان، جابر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی آدمی اپنی مسجد میں اپنی نماز پوری کرلے تو اسے چاہیے کہ اپنی نماز کا کچھ حصہ اپنے گھر کے لئے رکھ لے کیونکہ اللہ اس کے گھر میں اس کی نمازوں کی برکت سے خیر فرما دے گا۔
نفل نماز اپنے گھر میں پڑھنے کے استح اور مسجد میں جواز کے بیان میں
عبداللہ بن براد اشعری، محمد بن علاء، ابواسامہ، برید، ابوبردہ، ابوموسی سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ اس گھر کی مثال جس میں اللہ کو یاد کیا جاتا ہے اور اس گھر کی مثال جس میں اللہ کو یاد نہیں کیا جاتا زندہ اور مردہ کی طرح ہے۔
نفل نماز اپنے گھر میں پڑھنے کے استح اور مسجد میں جواز کے بیان میں
قتیبہ بن سعید، یعقوب بن عبدالرحمن، سہیل، ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : تم اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ کیونکہ شیطان اس گھر سے بھاگ جاتا ہے جس گھر میں سورت البقرہ کی تلاوت کی جاتی ہے۔
نفل نماز اپنے گھر میں پڑھنے کے استح اور مسجد میں جواز کے بیان میں
محمد بن مثنی، محمد بن جعفر، عبداللہ بن سعید، سالم ابونضر، عمر بن عبیداللہ، بسر بن سعید، حضرت زید بن ثابت (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کھجور کے پتوں یا چٹائی سے ایک حجرہ بنایا تو رسول اللہ ﷺ اس میں نماز پڑھنے کے لئے باہر تشریف لائے بہت سے آدمیوں نے آپ ﷺ کی اقتداء کی اور آپ ﷺ کی نماز کے ساتھ نماز پڑھنے لگے پھر ایک رات سب لوگ آئے اور رسول اللہ ﷺ نے دیر فرمائی اور ان کی طرف آپ ﷺ باہر تشریف نہ لائے تو ان لوگوں نے اپنی آوازوں کو بلند کیا اور دروازے پر کنکریاں ماریں پھر رسول اللہ ﷺ ان کی طرف غصہ کی حالت میں باہر تشریف لائے اور رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ تم اس طرح کرتے رہے تو میرا خیال ہے کہ یہ نماز تم پر فرض کردی جائے گی اور تم اپنے گھروں میں نماز پڑھو کیونکہ فرض نماز کے علاوہ آدمی کی بہترین نماز وہ ہے جو وہ اپنے گھر میں ادا کرے۔
نفل نماز اپنے گھر میں پڑھنے کے استح اور مسجد میں جواز کے بیان میں
محمد بن حاتم، بہز، وہیب، موسیٰ بن عقبہ، ابونضر، بسر بن سعید، زید بن ثابت سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے مسجد میں ایک چٹائی سے ایک حجرہ بنایا تو رسول اللہ ﷺ نے اس حجرہ میں کئی راتیں نماز پڑھی یہاں تک کہ صحابہ کرام (رض) اکٹھے ہوگئے پھر آگے اسی طرح حدیث ذکر فرمائی اور اس میں یہ زائد ہے کہ اور اگر تم پر فرض کردی جاتی تو تم اسے قائم نہ رکھ سکتے۔
عمل پر دوام کی فضیلت کے بیان میں
محمد بن مثنی، عبدالوہاب، عبیداللہ بن سعید بن ابوسعید، ابوسلمہ، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک چٹائی تھی اور آپ ﷺ رات کو اس کا ایک حجرہ سا بنا لیتے تھے پھر اس میں نماز پڑھتے تو صحابہ بھی آپ ﷺ کی نماز کے ساتھ نماز پڑھنے لگے اور دن کو اس چٹائی کو بچھا لیتے ایک رات صحابہ کا ہجوم ہوگیا تو آپ ﷺ نے فرمایا اے لوگوں تم پر اتنا عمل کرنا لازم ہے جس کی تم طاقت رکھتے ہو کیونکہ اللہ ثواب دینے سے نہیں تھکتا جبکہ تم عمل کرنے سے تھک جاتے ہو اور اللہ کے نزدیک اعمال میں سب سے زیادہ پسندیدہ وہ عمل ہے جس پر دوام ہو اور اگرچہ وہ عمل تھوڑا ہو اور آل محمد ﷺ کا بھی یہی معمول تھا کہ جب کوئی عمل کرتے تو اسے مستقل مزاجی سے کرتے۔ (یعنی ہمیشہ کرتے)
عمل پر دوام کی فضیلت کے بیان میں
محمد بن مثنی، محمد بن جعفر، شعبہ، سعد بن ابراہیم، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ کونسا عمل ہے آپ ﷺ نے فرمایا جو ہمیشہ ہو اگرچہ تھوڑا ہی ہو۔
عمل پر دوام کی فضیلت کے بیان میں
زہیر بن حرب، اسحاق بن ابراہیم، جریر، منصور، ابراہیم، علقمہ فرماتے ہیں کہ میں نے ام المومنین حضرت عائشہ (رض) سے پوچھا کہ رسول اللہ کے عمل کا طریقہ کیا تھا کیا دنوں میں کسی دن میں کوئی مخصوص عمل فرماتے تھے ؟ انہوں نے فرمایا نہیں ! آپ ﷺ تو ہمیشہ عمل فرماتے تھے اور تم میں سے کون ایسی طاقت رکھتا ہے جس کی رسول اللہ ﷺ طاقت رکھتے تھے۔
عمل پر دوام کی فضیلت کے بیان میں
ابن نمیر، سعد بن سعید، قاسم بن محمد، حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کو اعمال میں سب سے پسندیدہ ترین وہ عمل ہے کہ جو ہمیشہ ہو اگرچہ تھوڑا ہی ہو اور حضرت عائشہ (رض) جب بھی کوئی عمل کرتی تھیں تو پھر اسے اپنے لئے لازم کرلیتی تھیں۔
عمل پر دوام کی فضیلت کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابن علیہ، زہیر بن حرب، اسماعیل، عبدالعزیز بن صہیب، انس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مسجد میں داخل ہوئے اور ایک رسی دو ستونوں کے درمیان لٹکی ہوئی دیکھی، آپ ﷺ نے فرمایا یہ کیا ہے ؟ صحابہ کرام (رض) نے عرض کیا کہ حضرت زینب (رض) کی ہے وہ نماز پڑھتی رہتی ہیں تو جب انہیں سستی ہوتی ہے یا وہ تھک جاتی ہیں تو اس رسی کو پکڑ لیتی ہیں آپ نے فرمایا اس کو کھول دو تم میں سے ہر ایک کو نماز اپنے تازہ دم ہونے کے وقت پڑھنی چاہیے پھر جب سستی یا تھکاوٹ ہوجائے تو وہ بیٹھ جائے اور زہیر کی حدیث میں ہے کہ اسے چاہیے کہ وہ بیٹھ جائے۔
عمل پر دوام کی فضیلت کے بیان میں
شیبان بن فروخ، عبدالوارث، عبدالعزیز، حضرت انس (رض) نے نبی ﷺ سے اسی حدیث کی طرح نقل فرمائی۔
عمل پر دوام کی فضیلت کے بیان میں
حرملہ بن یحیی، محمد بن سلمہ مرادی، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، عروہ بن زبیر فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ (رض) نے خبر دی کہ حولا بنت تویب بن حبیب بن اسد بن عبدالعزی (رض) ان کے پاس سے گزریں اور رسول اللہ ﷺ بھی ان کے پاس تشریف فرما تھے، میں نے عرض کیا کہ اس حولا بنت ثویب کے متعلق لوگوں کا خیال ہے کہ وہ رات کو نہیں سوتیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا رات کو نہیں سوتیں ؟ تم اتنا عمل کرو جس کی تم طاقت رکھتی ہو اللہ کی قسم اللہ ثواب عطا فرمانے سے نہیں تھکے گا، یہاں تک کہ تم تھک جاؤ گی۔
عمل پر دوام کی فضیلت کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب، ابواسامہ، ہشام بن عروہ، زہیر بن حرب، یحییٰ بن سعید، ہشام، حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے اور ایک عورت میرے پاس بیٹھی ہوئی تھی تو آپ ﷺ نے فرمایا یہ عورت کون ہے ؟ میں نے کہا یہ ایک ایسی عورت ہے جو سوتی نہیں ہے نماز پڑھتی رہتی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم پر اتنا عمل لازم ہے جس کی تم طاقت رکھتی ہو، اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ ثواب عطا فرمانے سے نہیں تھکتا یہاں تک کہ تم تھک جاتی ہو اور آپ ﷺ کو دین میں سب سے زیادہ پسندیدہ وہی عمل تھا کہ جس پر دوام ہو اور ہمیشہ ہو اور ابواسامہ کی حدیث میں ہے کہ وہ عورت قبیلہ بنی اسد کی عورت تھی۔
نماز یا قرآن مجید کی تلاوت یا ذکر کے دوران اونگھنے یا سستی غالب آنے پر اس کے جانے تک سونے یا بیٹھے رہنے کے حکم کے بیان میں
ابوبکر بن ابی شیبہ، عبداللہ بن نمیر، ابوکریب، ابواسامہ، ہشام بن عروہ۔ قتیبہ بن سعید، مالک بن انس، ہشام بن عروہ، حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ جب تم میں سے کسی آدمی کو اونگھ آجائے تو اسے چاہیے کہ وہ سو جائے یہاں تک کہ اس کی نیند اس سے جاتی رہے، اس لئے کہ جب تم میں سے کسی کو نماز کی حالت میں اونگھ آتی ہے تو ہوسکتا ہے کہ وہ استغفار کرنے کی بجائے اپنے آپ ہی کو برا کہنے لگ جائے۔
نماز یا قرآن مجید کی تلاوت یا ذکر کے دوران اونگھنے یا سستی غالب آنے پر اس کے جانے تک سونے یا بیٹھے رہنے کے حکم کے بیان میں
محمد بن رافع، عبدالرزاق، معمر، ہمام بن منبہ، ابوہریرہ، حضرت ابوہریرہ رسول اللہ ﷺ سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی آدمی رات کو نماز کے لئے کھڑا ہو تو اس کی زبان قرآن مجید پڑھنے میں اٹک رہی ہو اور وہ نہ سمجھ رہا ہو کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ لیٹ جائے۔