11. جہاد کا بیان

【1】

ہجرت کا بیان

شریح کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے صحراء و بیابان (میں زندگی گزارنے) کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ ان ٹیلوں پر جایا کرتے تھے، آپ نے ایک بار صحراء میں جانے کا ارادہ کیا تو میرے پاس صدقہ کے اونٹوں میں سے ایک اونٹ بھیجا جس پر سواری نہیں ہوئی تھی، اور مجھ سے فرمایا : عائشہ ! اس کے ساتھ نرمی کرنا کیونکہ جس چیز میں بھی نرمی ہوتی ہے وہ اسے عمدہ اور خوبصورت بنا دیتی ہے، اور جس چیز سے بھی نرمی چھین لی جائے تو وہ اسے عیب دار کردیتی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ویأتی ہذا الحدیث في الأدب (٤٨٠٨) ، (تحفة الأشراف : ١٦١٥٠) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/البر والصلة ٢٣ (٢٥٩٤) ، مسند احمد (٦/٥٨، ٢٢٢) (صحیح) (اس میں سے صرف قول رسول ﷺ صحیح ہے اور اتنا ہی صحیح مسلم میں ہے، ٹیلوں پر جانے کا واقعہ صحیح نہیں ہے، اور یہ مؤلف کا تفرد ہے )

【2】

کیا اب ہجرت کا سلسلہ منقطع ہوگیا

معاویہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : ہجرت ختم نہیں ہوگی یہاں تک کہ توبہ کا سلسلہ ختم ہوجائے، اور توبہ ختم نہیں ہوگی یہاں تک کہ سورج پچھم سے نکل آئے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١١٤٥٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٩٩) ، دي / السیر ٧٠ (٢٥٥٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس لئے اگر ممکن ہو تو دارلکفر سے دارالاسلام کی طرف، اور دارالمعاصی سے دارالصلاح کی طرف ہجرت ہمیشہ بہتر ہے، ورنہ فی زمانہ کوئی بھی ملک دوسرے ملک کے شہری کو اپنے یہاں منتقل ہونے کی اجازت نہیں دیتا۔

【3】

کیا اب ہجرت کا سلسلہ منقطع ہوگیا

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فتح (مکہ) کے دن فرمایا : اب (مکہ فتح ہوجانے کے بعد مکہ سے) ہجرت نہیں (کیونکہ مکہ خود دارالاسلام ہوگیا) لیکن جہاد اور (ہجرت کی) نیت باقی ہے، جب تمہیں جہاد کے لیے نکلنے کو کہا جائے تو نکل پڑو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٢٠١٨) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٤٨) (صحیح )

【4】

کیا اب ہجرت کا سلسلہ منقطع ہوگیا

عامر شعبی کہتے ہیں کہ ایک آدمی عبداللہ بن عمرو (رض) کے پاس آیا، ان کے پاس کچھ لوگ بیٹھے تھے یہاں تک کہ وہ بھی آ کر آپ کے پاس بیٹھ گیا اور کہنے لگا : مجھے کوئی ایسی بات بتائیے جو آپ نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہو، انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے مسلمان محفوظ رہیں، اور مہاجر وہ ہے جو اللہ کی منع کردہ چیزوں کو چھوڑ دے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٤ (١٠) ، (تحفة الأشراف : ٨٨٣٤) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الإیمان ٩ (٤٠) ، مسند احمد (٢/١٦٠، ١٦٣، ١٩٢، ١٩٣، ٢٠٥، ٢١٢، ٢٢٤) ، سنن الدارمی/الرقاق ٨ (٢٧٨٥) (صحیح )

【5】

ملک شام میں اقامت اختیار کرنے کی فضیلت

عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : عنقریب ہجرت کے بعد ہجرت ہوگی تو زمین والوں میں بہتر وہ لوگ ہوں گے جو ابراہیم (علیہ السلام) کی ہجرت گاہ (شام) کو لازم پکڑیں گے، اور زمین میں ان کے بدترین لوگ رہ جائیں گے، ان کی سر زمین انہیں باہر پھینک دے گی ١ ؎ اور اللہ کی ذات ان سے گھن کرے گی اور آگ انہیں بندروں اور سوروں کے ساتھ اکٹھا کرے گی ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٨٨٢٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٠٩، ١٩٨) (حسن) (لیکن دوسرے طریق اور شاہد سے تقویت پا کر یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو : الصحیحة : ٣٢٠٣، وتراجع الالبانی : ٤ ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی وہ ایک ملک سے دوسرے ملک بھاگتے پھریں گے۔ ٢ ؎ : اس سے قیامت کے دن والا حشر مراد نہیں ہے نیز یہاں آگ سے مراد فتنے کی آگ ہے۔

【6】

ملک شام میں اقامت اختیار کرنے کی فضیلت

عبداللہ بن حوالہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عنقریب ایسا وقت آئے گا کہ تم الگ الگ ٹکڑیوں میں بٹ جاؤ گے، ایک ٹکڑی شام میں، ایک یمن میں اور ایک عراق میں ۔ ابن حوالہ نے کہا : اللہ کے رسول ! مجھے بتائیے اگر میں وہ زمانہ پاؤں تو کس ٹکڑی میں رہوں، آپ ﷺ نے فرمایا : اپنے اوپر شام کو لازم کرلو، کیونکہ شام کا ملک اللہ کی بہترین سر زمین ہے، اللہ اس ملک میں اپنے نیک بندوں کو جمع کرے گا، اگر شام میں نہ رہنا چاہو تو اپنے یمن کو لازم پکڑنا اور اپنے تالابوں سے پانی پلانا، کیونکہ اللہ نے مجھ سے شام اور اس کے باشندوں کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، ( تحفة الأشراف : ١٠٨٥٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١١٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : شام فتنوں سے محفوظ رہے گا اور وہاں کے رہنے والوں کو اللہ فتنہ کے ذریعہ ہلاک نہیں کرے گا۔

【7】

جہاد ہمیشہ رہے گا

عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میری امت کا ایک گروہ ١ ؎ ہمیشہ حق کے لیے لڑتا رہے گا اور ان لوگوں پر غالب رہے گا جو ان سے دشمنی کریں گے یہاں تک کہ ان کے آخری لوگ مسیح الدجال سے قتال کریں گے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٠٨٥٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٤٢٩، ٤٣٣، ٤٣٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : امام بخاری کہتے ہیں : اس سے مراد اہل علم ہیں، اور امام احمد بن حنبل کہتے ہیں : اس سے مراد اگر ” اہل الحدیث “ نہیں ہیں تو میں نہیں جانتا کہ کون لوگ ہیں۔ ٢ ؎ : اس سے مراد امام مہدی اور عیسیٰ ہیں، اور ان دونوں کے متبعین ہیں عیسیٰ (علیہ السلام) آسمان سے اترنے کے بعد دجال کو قتل کریں گے۔

【8】

جہاد کا ثواب

ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ سے پوچھا گیا : کون سا مومن سب سے زیادہ کامل ایمان والا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : وہ شخص جو اللہ کے راستے میں اپنی جان اور مال سے جہاد کرے، نیز وہ شخص جو کسی پہاڑ کی گھاٹی ١ ؎ میں اللہ کی عبادت کرتا ہو، اور لوگ اس کے شر سے محفوظ ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجھاد ٢ (٢٧٨٦) ، والرقاق ٣٤ (٦٤٩٤) ، صحیح مسلم/الإمارة ٣٤ (١٨٨٨) ، سنن الترمذی/فضائل الجھاد ٢٤ (١٦٦٠) ، سنن النسائی/الجھاد ٧ (٣١٠٧) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ١٣ (٣٩٧٨) ، (تحفة الأشراف : ٤١٥١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٦، ٣٧، ٥٦، ٨٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ شرط نہیں ہے، اسے بطور مثال ذکر کیا گیا ہے کیونکہ عموماً گھاٹیوں میں تنہائی ہوتی ہے، اس سے گوشہ نشینی کی فضیلت ثابت ہوتی ہے کیونکہ آدمی بےکار باتوں اور لغو چیزوں سے محفوظ رہتا ہے لیکن یہ فتنہ کے زمانہ کے ساتھ خاص ہے، اور فتنہ نہ ہونے کی صورت میں جمہور کے نزدیک عام لوگوں سے اختلاط اور میل جول ہی زیادہ بہتر ہے۔

【9】

سیاحت کی ممانعت

ابوامامہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! مجھے سیاحت کی اجازت دے دیجئیے، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میری امت کی سیاحت اللہ کے راہ میں جہاد کرنا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٤٩٠١) (حسن )

【10】

جہاد سے فارغ ہو کر لوٹنا اور اس کا ثواب

عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جہاد سے لوٹنا (ثواب میں) جہاد ہی کی طرح ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٨٨٢٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٧٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : جہاد سے لوٹنا ثواب میں جہاد ہی کی طرح اس لئے ہے کہ مجاہد جس وقت جہاد کے لئے نکلا تھا اس وقت اس کے لئے جو تیاری کی اس تیاری سے اسے اور اس کے اہل و عیال کو جو پریشانی لاحق ہوئی اب مجاہد کے لوٹنے سے وہ پریشانی ختم ہوجائے گی اور اپنے اہل و عیال میں واپس آجانے سے اسے جو طاقت و قوت حاصل ہوگی اس سے وہ اس لائق ہوجائے گا کہ دوبارہ جہاد کے لئے نکل سکے۔

【11】

رومیوں سے جنگ بہ نسبت دوسری قوموں کے افضل ہے

قیس بن شماس کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک عورت آئی جس کو ام خلاد کہا جاتا تھا وہ نقاب پوش تھی، وہ اپنے شہید بیٹے کے بارے میں پوچھ رہی تھی، ایک صحابی نے اس سے کہا : تو اپنے بیٹے کو پوچھنے چلی ہے اور نقاب پہنے ہوئی ہے ؟ اس نے کہا : اگر میں اپنے لڑکے کی جانب سے مصیبت زدہ ہوں تو میری حیاء کو مصیبت نہیں لاحق ہوئی ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تیرے بیٹے کے لیے دو شہیدوں کا ثواب ہے ، وہ کہنے لگی : ایسا کیوں ؟ اللہ کے رسول ! آپ ﷺ نے فرمایا : اس وجہ سے کہ اس کو اہل کتاب نے مارا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٢٠٦٨) (ضعیف) (اس کے راوی عبد الخبیر مجہول ہیں )

【12】

جہاد کے لئے سمندر کا سفر

عبداللہ بن عمر و (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سمندر کا سفر نہ کرے مگر حج کرنے والا، یا عمرہ کرنے والا، یا اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والا کیونکہ سمندر کے نیچے آگ ہے اور اس آگ کے نیچے سمندر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٨٦٠٩) (ضعیف) (اس کے راوی بشر اور بشیر دونوں مجہول ہیں )

【13】

جہاد کے لئے سمندر کا سفر

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ ام سلیم (رض) کی بہن ام حرام بنت ملحان (رض) نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کے یہاں قیلولہ کیا، پھر بیدار ہوئے، آپ ﷺ ہنس رہے تھے، میں نے پوچھا : اللہ کے رسول ! آپ کیوں ہنس رہے ہیں ؟ فرمایا : میں نے اپنی امت میں سے چند لوگوں کو دیکھا جو اس سمندر کی پشت پر سوار ہیں جیسے بادشاہ تخت پر ، میں نے کہا : اللہ کے رسول ! دعا کیجئے، اللہ مجھ کو ان لوگوں میں سے کر دے، فرمایا : تو انہیں میں سے ہے ۔ پھر آپ ﷺ سو گئے اور ہنستے ہوئے بیدار ہوئے، میں نے پوچھا : اللہ کے رسول ! آپ کے ہنسنے کا سبب کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے وہی فرمایا جو پہلے فرمایا تھا، میں نے کہا : اللہ کے رسول ! دعا کیجئے، اللہ مجھ کو ان لوگوں میں سے کر دے، آپ ﷺ نے فرمایا : تو پہلے لوگوں میں سے ہے ۔ انس (رض) کہتے ہیں : تو ان سے عبادہ بن صامت (رض) نے شادی کی، پھر انہوں نے سمندر میں جہاد کیا توا نہیں بھی اپنے ساتھ لے گئے، جب لوٹے تو ایک خچر ان کی سواری کے لیے ان کے قریب لایا گیا، تو اس نے انہیں گرا دیا جس سے ان کی گردن ٹوٹ گئی اور وہ انتقال کر گئیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجھاد ٣ (٢٧٨٨) ، ٨ (٢٧٩٩) ، ٦٣ (٢٨٧٧) ، ٧٥ (٢٨٩٤) ، ٩٣ (٢٩٢٤) ، الاستئذان ٤١ (٦٢٨٢) ، والتعبیر ١٢ (٧٠٠١) ، صحیح مسلم/الجہاد ٤٩ (١٩١٢) ، سنن الترمذی/فضائل الجھاد ١٥ (١٦٤٥) ، سنن النسائی/الجھاد ٤٠ (٣١٧٤) ، سنن ابن ماجہ/الجھاد ١٠ (٢٧٧٦) ، (تحفة الأشراف : ١٨٣٠٧) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الجھاد ١٨(٣٩) ، مسند احمد (٣/٢٦٤، ٦/٣٦١، ٤٢٣، ٤٣٥) ، دی/ الجہاد ٢٩ (٢٤٦٥) (صحیح )

【14】

جہاد کے لئے سمندر کا سفر

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ قباء جاتے تو ام حرام بنت ملحان (رض) کے پاس جاتے، یہ عبادہ بن صامت (رض) کی زوجیت میں تھیں، ایک روز آپ ﷺ ان کے پاس آئے تو انہوں نے آپ کو کھانا کھلایا اور بیٹھ کر آپ ﷺ کے سر کی جوئیں نکالنے لگیں ١ ؎، اور آگے راوی نے یہی حدیث بیان کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں : بنت ملحان کا انتقال قبرص میں ہوا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجھاد ٣ (٢٧٨٨) ، الاستئذان ٤١ (٦٢٨٢) ، التعبیر ١٢ (٧٠٠١) ، صحیح مسلم/الجہاد ٤٩ (١٩١٢) ، سنن الترمذی/الجھاد ١٥ (١٦٤٥) ، سنن النسائی/الجھاد ٤٠ (٣١٧٣) ، سنن ابن ماجہ/الجھاد ١٨ (٣٩) ، ( تحفة الأشراف : ١٩٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢٤٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ام حرام بنت ملحان (رض) یا تو آپ ﷺ کی رضاعی خالہ تھیں یا آپ کے والد یا دادا کی خالہ تھیں۔

【15】

جہاد کے لئے سمندر کا سفر

ام حرام رمیصاء ١ ؎ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سوئے پھر بیدار ہوئے، اور وہ اپنا سر دھو رہی تھیں تو آپ ﷺ ہنستے ہوئے بیدار ہوئے، انہوں نے کہا : اللہ کے رسول ! کیا آپ میرے بال دیکھ کر ہنس رہے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں ، پھر انہوں نے یہی حدیث کچھ کمی بیشی کے ساتھ بیان کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں : رمیصاء ام سلیم کی رضاعی بہن تھیں ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٢٤٩٠) ، (تحفة الأشراف : ١٨٣٠٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ام سلیم (رض) ام حرام بنت ملحان (رض) کی بہن ہیں، سند میں اخت ام سلیم سے مراد ام حرام بنت ملحان (رض) ہی ہیں، ام حرام (رض) کو رمیصاء کہا جاتا تھا، اور امّ سلیم (رض) کو غمیصاء۔ ٢ ؎ : ابوداود کا یہ قول صحیح نہیں ہے، وہ رضاعی نہیں بلکہ نسبی اور حقیقی بہن تھیں۔

【16】

جہاد کے لئے سمندر کا سفر

ام حرام (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : (جہاد یا حج کے لیے) سمندر میں سوار ہونے سے جس کا سر گھومے اور اسے قے آئے تو اس کے لیے ایک شہید کا ثواب ہے، اور جو ڈوب جائے تو اس کے لیے دو شہیدوں کا ثواب ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨٣٠٩) (حسن )

【17】

جہاد کے لئے سمندر کا سفر

ابوامامہ باہلی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تین قسم کے افراد ایسے ہیں جن کا ضامن اللہ تعالیٰ ہے : ایک وہ جو اللہ کے راستے میں جہاد کے لیے نکلے، اللہ اس کا ضامن ہے یا اسے وفات دے کر جنت میں داخل کرے گا، یا اجر اور غنیمت کے ساتھ واپس لوٹائے گا، دوسرا وہ شخص جو مسجد کی طرف چلا، اللہ اس کا ضامن ہے یا اسے وفات دے کر جنت میں داخل کرے گا، یا اجر اور غنیمت کے ساتھ واپس لوٹائے گا، تیسرا وہ شخص جو اپنے گھر میں سلام کر کے داخل ہوا، اللہ اس کا بھی ضامن ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٤٨٧٥) (صحیح )

【18】

جنگ میں کافر کو قتل کرنے کا ثواب

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کافر اور اس کو قتل کرنے والا مسلمان دونوں جہنم میں کبھی بھی اکٹھا نہ ہوں گے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة ٣٦ (١٨٩١) ، (تحفة الأشراف : ١٤٠٠٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٦٣، ٣٦٨، ٣٧٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اس کا یہ قتل کرنا اس کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا اور وہ سزا سے بچ جائے گا اور اگر اسے سزا ہوئی بھی تو وہ جہنم کے علاوہ کوئی اور سزا ہوگی مثلاً وہ اعراف میں قید کردیا جائے گا اور جنت میں دخول اولی سے محروم کردیا جائے گا۔

【19】

جہاد کرنے والوں کی عورتوں کے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہئے؟

بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجاہدین کی بیویوں کی حرمت جہاد سے بیٹھے رہنے والے لوگوں پر ایسی ہے جیسے ان کی ماؤں کی حرمت ہے، اور جو خانہ نشین مرد مجاہدین کے گھربار کی خدمت میں رہے، پھر ان کے اہل میں خیانت کرے تو قیامت کے دن ایسا شخص کھڑا کیا جائے گا اور مجاہد سے کہا جائے گا : اس شخص نے تیرے اہل و عیال میں تیری خیانت کی اب تو اس کی جتنی نیکیاں چاہے لے لے ، اس کے بعد رسول اللہ ﷺ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : پھر تم کیا سمجھتے ہو ١ ؎؟ ابوداؤد کہتے ہیں : قعنب ایک نیک آدمی تھے، ابن ابی لیلیٰ نے قعنب کو قاضی بنانے کا ارادہ کیا تو انہوں نے اس سے انکار کیا، اور کہا کہ میں ایک درہم میں اپنی ضرورت پوری کرنا چاہتا ہوں کہ میں اس میں کسی آدمی کی مدد لے سکوں، پھر کہا : کون ہے جو اپنی ضرورت کے لیے کسی سے مدد نہیں لیتا، پھر عرض کیا : تم لوگ مجھے نکال دو یہاں تک کہ میں دیکھوں (کہ کیسے میری ضرورت پوری ہوتی ہے) تو انہیں نکال دیا گیا، پھر وہ (ایک مکان میں) چھپ گئے، سفیان کہتے ہیں : اسی دوران کہ وہ چھپے ہوئے تھے وہ مکان ان پر گرپڑا اور وہ مرگئے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة ٣٩ (١٨٩٧) ، سنن النسائی/الجھاد ٤٧ (٣١٩١) ، (تحفة الأشراف : ١٩٣٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٥٢، ٣٥٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی نیکیاں لینے والے کی رغبت اور زیادہ سے زیادہ نیکیاں سمیٹ لینے کی اس کی چاہت کا تم کیا اندازہ کرسکتے ہو ؟ مطلب یہ ہے کہ اس شخص کے پاس کوئی نیکی باقی ہی نہیں رہ جائے گی۔

【20】

غنیمت حاصل کئے بغیر مجاہدین کی واپسی

عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجاہدین کی کوئی جماعت ایسی نہیں جو اللہ کی راہ میں لڑتی ہو پھر مال غنیمت حاصل کرتی ہو، مگر آخرت کا دو تہائی ثواب اسے پہلے ہی دنیا میں حاصل ہوجاتا ہے، اور ایک تہائی (آخرت کے لیے) باقی رہتا ہے، اور اگر اسے مال غنیمت نہیں ملا تو آخرت میں ان کے لیے مکمل ثواب ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة ٤٤ (١٩٠٦) ، سنن النسائی/الجھاد ١٥ (٣١٢٧) ، سنن ابن ماجہ/الجھاد ١٣ (٢٧٨٥) ، (تحفة الأشراف : ٨٨٤٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٦٩) (صحیح )

【21】

جہاد میں نماز روزے اور ذکر الہی کا ثواب سات سو گنا ہوجاتا ہے

معاذ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (دوران جہاد) نماز، روزہ اور ذکر الٰہی (کا ثواب) جہاد میں خرچ کے ثواب پر سات سو گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١١٢٩٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٣٨، ٤٤٠) (ضعیف) (اس کے راوی زبان ضعیف ہیں )

【22】

جو شخص جہاد کو نکلے اور مرجائے

ابو مالک اشعری (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جو شخص اللہ کی راہ میں نکلا پھر وہ مرگیا، یا مار ڈالا گیا تو وہ شہید ہے، یا اس کے گھوڑے یا اونٹ نے اسے روند دیا، یا کسی سانپ اور بچھو نے ڈنک مار دیا، یا اپنے بستر پہ، یا موت کے کسی بھی سبب سے جسے اللہ نے چاہا مرگیا، تو وہ شہید ہے، اور اس کے لیے جنت ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٢١٦٥) (ضعیف) (اس کے رواة بقیہ اور ابن ثوبان دونوں ضعیف ہیں، ملاحظہ ہو : الضعيفة 5361، وأحكام الجنائز 51، وتراجع الألباني 182 )

【23】

دشمن کے مقابلہ میں مورچہ بندی کا ثواب

فضالہ بن عبید (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہر میت کا عمل مرنے کے بعد ختم کردیا جاتا ہے، سوائے سرحد کی پاسبانی اور حفاظت کرنے والے کے، اس کا عمل اس کے لیے قیامت تک بڑھتا رہے گا اور قبر کے فتنہ سے وہ مامون کردیا جائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/فضائل الجھاد ٢ (١٦٢١) ، (تحفة الأشراف : ١١٠٣٢) ، وقد أخرجہ : (حم ٦/٢٠، ٢٢) (صحیح )

【24】

راہ اللہ میں (جہاد میں) پہرہ دینے کا ثواب

سہل بن حنظلیہ (رض) سے روایت ہے کہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حنین کے دن چلے اور بہت ہی تیزی کے ساتھ چلے، یہاں تک کہ شام ہوگئی، میں نماز میں رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوا اتنے میں ایک سوار نے آ کر کہا : اللہ کے رسول ! میں آپ لوگوں کے آگے گیا، یہاں تک کہ فلاں فلاں پہاڑ پر چڑھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ قبیلہ ہوازن کے لوگ سب کے سب اپنی عورتوں، چوپایوں اور بکریوں کے ساتھ بھاری تعداد میں مقام حنین میں جمع ہیں، یہ سن کر رسول اللہ ﷺ مسکرائے اور فرمایا : ان شاء اللہ یہ سب کل ہم مسلمانوں کا مال غنیمت ہوں گے ، پھر فرمایا : رات میں ہماری پہرہ داری کون کرے گا ؟ انس بن ابومرثد غنوی (رض) نے کہا : اللہ کے رسول ! میں کروں گا، آپ ﷺ نے فرمایا : تو سوار ہوجاؤ ، چناچہ وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس گھاٹی میں جاؤ یہاں تک کہ اس کی بلندی پہ پہنچ جاؤ اور ایسا نہ ہو کہ ہم تمہاری وجہ سے آج کی رات دھوکہ کھا جائیں ، جب ہم نے صبح کی تو رسول اللہ ﷺ اپنے مصلے پر آئے، آپ نے دو رکعتیں پڑھیں پھر فرمایا : تم نے اپنے سوار کو دیکھا ؟ لوگوں نے کہا : اللہ کے رسول ! ہم نے اسے نہیں دیکھا، پھر نماز کے لیے اقامت کہی گئی تو رسول اللہ ﷺ نماز پڑھنے لگے لیکن دوران نماز کنکھیوں سے گھاٹی کی طرف دیکھ رہے تھے، یہاں تک کہ جب آپ ﷺ نماز پڑھ چکے اور سلام پھیرا تو فرمایا : خوش ہوجاؤ ! تمہارا سوار آگیا ، ہم درختوں کے درمیان سے گھاٹی کی طرف دیکھنے لگے، یکایک وہی سوار رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کر کھڑا ہوگیا اور سلام کیا اور کہنے لگا : میں گھاٹی کے بالائی حصہ پہ چلا گیا تھا جہاں رسول اللہ ﷺ نے مجھے حکم دیا تھا تو جب صبح کی تو میں نے دونوں گھاٹیوں پر چڑھ کر دیکھا تو کوئی بھی نہیں دکھائی پڑا تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا : کیا تم آج رات گھوڑے سے اترے تھے ؟ ، انہوں نے کہا : نہیں، البتہ نماز پڑھنے کے لیے یا قضائے حاجت کے لیے اترا تھا، اس پر رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا : تم نے اپنے لیے جنت کو واجب کرلیا، اب اگر اس کے بعد تم عمل نہ کرو تو تمہیں کچھ نقصان نہ ہوگا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٤٦٥٠) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الکبری/ السیر (٨٨٧٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی تمہارے لئے تمہارا یہی عمل جنت میں داخل ہونے کے لئے کافی ہوگا۔

【25】

جہاد چھوڑ دینے کی مذمت

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص مرگیا اور اس نے نہ جہاد کیا اور نہ ہی کبھی اس کی نیت کی تو وہ نفاق کی قسموں میں سے ایک قسم پر مرا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة ٤٧ (١٩١٠) ، سنن النسائی/الجھاد ٢ (٣٠٩٩) ، (تحفة الأشراف : ١٢٥٦٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٧٤) (صحیح )

【26】

جہاد چھوڑ دینے کی مذمت

ابوامامہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے جہاد نہیں کیا یا کسی جہاد کرنے والے کے لیے سامان جہاد فراہم نہیں کیا یا کسی مجاہد کے اہل و عیال کی بھلائی کے ساتھ خبرگیری نہ کی تو اللہ اسے کسی سخت مصیبت سے دو چار کرے گا ، یزید بن عبداللہ کی روایت میں قبل يوم القيامة قیامت سے پہلے کا اضافہ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الجھاد ٥ (٢٧٦٢) ، (تحفة الأشراف : ٤٨٩٧) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/الجھاد ٢٦ (٢٤٦٢) (حسن )

【27】

جہاد چھوڑ دینے کی مذمت

انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مشرکوں سے اپنے اموال، اپنی جانوں اور زبانوں سے جہاد کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الجھاد ١ (٣٠٩٦) ، (تحفة الأشراف : ٦١٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٢٤، ١٥٣، ٢٥١) ، سنن الدارمی/الجھاد ٣٨ (٢٤٧٥) (صحیح )

【28】

جہاد میں ہر شخص کی شرکت کا حکم منسوخ ہوگیا

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں إلا تنفروا يعذبکم عذابا أليما اگر تم جہاد کے لیے نہیں نکلو گے تو اللہ تمہیں عذاب دے گا (سورۃ التوبہ : ٣٩) اور ‏‏‏‏ما کان لأهل المدينة سے يعملون ‏‏‏‏ مدینہ کے رہنے والوں کو اور جو دیہاتی ان کے گرد و پیش ہیں ان کو یہ زیبا نہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ کو چھوڑ کر پیچھے رہ جائیں (سورۃ التوبہ : ١٠) کو بعد والی آیت وما کان المؤمنون لينفروا کافة مناسب نہیں کہ مسلمان سب کے سب جہاد کے لیے نکل پڑیں (سورۃ التوبہ : ١٢٢) نے منسوخ کردیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٦٢٥٨) (حسن )

【29】

جہاد میں ہر شخص کی شرکت کا حکم منسوخ ہوگیا

نجدہ بن نفیع کہتے ہیں کہ میں نے آیت کریمہ إلا تنفروا يعذبکم عذابا أليما اگر تم جہاد کے لیے نہیں نکلو گے تو اللہ تمہیں عذاب دے گا (سورۃ التوبہ : ٣٩) کے سلسلہ میں ابن عباس (رض) سے پوچھا تو انہوں نے کہا : عذاب یہی تھا کہ بارش ان سے روک لی گئی (اور وہ مبتلائے قحط ہوگئے) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٦٥٢٣) (ضعیف) (اس کے راوی نجدة مجہول ہیں )

【30】

عذر کی بنیاد پر جہاد میں عدم شرکت جائز ہے

زید بن ثابت (رض) کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پہلو میں تھا تو آپ کو سکینت نے ڈھانپ لیا (یعنی وحی اترنے لگی) (اسی دوران) رسول اللہ ﷺ کی ران میری ران پر پڑگئی تو کوئی بھی چیز مجھے آپ کی ران سے زیادہ بوجھل محسوس نہیں ہوئی، پھر آپ ﷺ سے وحی کی کیفیت ختم ہوئی تو آپ نے فرمایا : لکھو ، میں نے شانہ (کی ایک ہڈی) پر لا يستوي القاعدون من المؤمنين والمجاهدون في سبيل الله اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے مومن اور بغیر عذر کے بیٹھ رہنے والے مومن برابر نہیں (سورۃ النساء : ٩٥) آخر آیت تک لکھ لیا، عبداللہ بن ام مکتوم (رض) (ایک نابینا شخص تھے) نے جب مجاہدین کی فضیلت سنی تو کھڑے ہو کر کہا : اللہ کے رسول ! مومنوں میں سے جو جہاد کی طاقت نہیں رکھتا اس کا کیا حال ہے ؟ جب انہوں نے اپنی بات پوری کرلی تو رسول اللہ ﷺ کو پھر سکینت نے ڈھانپ لیا (وحی اترنے لگی) ، آپ ﷺ کی ران میری ران پر پڑی تو میں نے اس کا بھاری پن پھر دوسری بار محسوس کیا جس طرح پہلی بار محسوس کیا تھا، آپ ﷺ سے وحی کی جب کیفیت ختم ہوئی تو آپ نے فرمایا : زید ! پڑھو ، تو میں نے لا يستوي القاعدون من المؤمنين پوری آیت پڑھی، تو رسول اللہ ﷺ نے : غير أولي الضرر کا اضافہ فرمایا، زید کہتے ہیں : تو غير أولي الضرر کو اللہ نے الگ سے نازل کیا، میں نے اس کو اس کے ساتھ شامل کردیا، اللہ کی قسم ! گویا میں شانہ کے دراز کو دیکھ رہا ہوں جہاں میں نے اسے شامل کیا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٣٧٠٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٨٤، ١٩٠، ١٩١) (حسن صحیح )

【31】

عذر کی بنیاد پر جہاد میں عدم شرکت جائز ہے

انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم مدینہ میں کچھ ایسے لوگوں کو چھوڑ کر آئے کہ تم کوئی قدم نہیں چلے یا کچھ خرچ نہیں کیا یا کوئی وادی طے نہیں کی مگر وہ تمہارے ساتھ رہے ، صحابہ نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! وہ ہمارے ہمراہ کیسے ہوسکتے ہیں جب کہ وہ مدینہ میں ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : انہیں عذر نے روک رکھا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ٣٥ (٢٨٣٩ تعلیقًا) ، (تحفة الأشراف : ١٦١٠) ، وقد أخرجہ : حم (٣/١٦٠، ٢١٤) (صحیح )

【32】

مجاہدین کی خدمت جہاد ہے

زید بن خالد جہنی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے کے لیے سامان جہاد فراہم کیا اس نے جہاد کیا اور جس نے مجاہد کے اہل و عیال کی اچھی طرح خبرگیری کی اس نے جہاد کیا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجھاد ٣٨ (٢٨٤٣) ، صحیح مسلم/الإمارة ٣٨ (١٨٩٥) ، سنن الترمذی/فضائل الجھاد ٦ (١٦٢٨) ، سنن النسائی/الجھاد ٤٤ (٣١٨٢) ، سنن ابن ماجہ/الجھاد ٣ (٢٧٥٩) ، (تحفة الأشراف : ٣٧٤٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١١٥، ١١٦، ١١٧، ٥/١٩٢، ١٩٣) ، سنن الدارمی/ الجھاد ٢٧ (٢٤٦٣) (صحیح )

【33】

مجاہدین کی خدمت جہاد ہے

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بنو لحیان کی طرف ایک لشکر بھیجا اور فرمایا : ہر دو آدمی میں سے ایک آدمی نکل کھڑا ہو ، اور پھر خانہ نشینوں سے فرمایا : تم میں جو کوئی مجاہد کے اہل و عیال اور مال کی اچھی طرح خبرگیری کرے گا تو اسے جہاد کے لیے نکلنے والے کا نصف ثواب ملے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة ٣٨ (١٨٩٦) ، (تحفة الأشراف : ٤٤١٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٥، ٤٩، ٥٥) (صحیح )

【34】

بہادری اور بزدلی کا بیان

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : آدمی میں پائی جانے والی سب سے بری چیز انتہا کو پہنچی ہوئی بخیلی اور سخت بزدلی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٤١٠١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٠٢، ٣٢٠) (صحیح )

【35】

آیت قرآنی ولاتلقوابایدیکم الی التہلکہ کا مفہوم

اسلم ابوعمران کہتے ہیں کہ ہم مدینہ سے جہاد کے لیے چلے، ہم قسطنطنیہ کا ارادہ کر رہے تھے، اور جماعت (اسلامی لشکر) کے سردار عبدالرحمٰن بن خالد بن ولید تھے، اور رومی شہر (قسطنطنیہ) کی دیواروں سے اپنی پیٹھ لگائے ہوئے تھے ١ ؎، تو ہم میں سے ایک دشمن پر چڑھ دوڑا تو لوگوں نے کہا : رکو، رکو، اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، یہ تو اپنی جان ہلاکت میں ڈال رہا ہے، ابوایوب (رض) نے کہا : یہ آیت تو ہم انصار کی جماعت کے بارے میں اتری، جب اللہ نے اپنے نبی کی مدد کی اور اسلام کو غلبہ عطا کیا تو ہم نے اپنے دلوں میں کہا (اب جہاد کی کیا ضرورت ہے) آؤ اپنے مالوں میں رہیں اور اس کی دیکھ بھال کریں، تب اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی وأنفقوا في سبيل الله ولا تلقوا بأيديكم إلى التهلكة اللہ کے راستے میں خرچ کرو اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو (سورۃ البقرہ : ١٩٥) اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا یہ ہے کہ ہم اپنے مالوں میں مصروف رہیں، ان کی فکر کریں اور جہاد چھوڑ دیں۔ ابوعمران کہتے ہیں : ابوایوب انصاری (رض) ہمیشہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے رہے یہاں تک کہ قسطنطنیہ میں دفن ہوئے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/التفسیر ١٩ (٢٩٧٢) ، (تحفة الأشراف : ٣٤٥٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی وہ جنگ کے لئے پوری طرح سے تیار تھے اور مسلمانوں کے نکلنے کے انتظار میں تھے۔

【36】

تیراندازی کی فضیلت

عقبہ بن عامر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : اللہ ایک تیر سے تین افراد کو جنت میں داخل کرتا ہے : ایک اس کے بنانے والے کو جو ثواب کے ارادہ سے بنائے، دوسرے اس کے چلانے والے کو، اور تیسرے اٹھا کردینے والے کو، تم تیر اندازی کرو اور سواری کرو، اور تمہارا تیر اندازی کرنا، مجھے سواری کرنے سے زیادہ پسند ہے، لہو و لعب میں سے صرف تین طرح کا لہو و لعب جائز ہے : ایک آدمی کا اپنے گھوڑے کو ادب سکھانا، دوسرے اپنی بیوی کے ساتھ کھیل کود کرنا، تیسرے اپنے تیر کمان سے تیر اندازی کرنا اور جس نے تیر اندازی سیکھنے کے بعد اس سے بیزار ہو کر اسے چھوڑ دیا، تو یہ ایک نعمت ہے جسے اس نے چھوڑ دیا ، یا راوی نے کہا : جس کی اس نے ناشکری کی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الجھاد ٢٦ (٣١٤٨) ، والخیل ٨ (٣٦٠٨) ، (تحفة الأشراف : ٩٩٢٢) (ضعیف) (اس کے راوی خالد لین الحدیث ہیں) (حدیث کے بعض الفاظ ثابت ہیں یعنی یہ ٹکڑا : لَيْسَ مِنَ اللَّهْوِ إِلا ثَلاثٌ: تَأْدِيبُ الرَّجُلِ فَرَسَهُ ، وَمُلاعَبَتُهُ أَهْلَهُ ، وَرَمْيُهُ بِقَوْسِهِ وَنَبْلِهِ اس لیے کہ اس کی روایت میں عبداللہ بن الأزرق نے خالد کی متابعت کی ہے ، ملاحظہ ہو : سنن الترمذی/فضائل الجھاد ١١ (١٦٣٧) ، سنن ابن ماجہ/الجھاد ١٩ (٢٨١١) ، مسند احمد (٤/١٤٤، ١٤٦، ١٤٨، ١٥٤) ، سنن الدارمی/الجھاد ١٤ (٢٤٤٩) (نیز اس ٹکڑے کے مزید شواہد کے لیے ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحہ، للالبانی : ٣١٥ ) وضاحت : ١ ؎ : یہ روایت سنداً تو ضعیف ہے مگر عقبہ ہی سے صحیح مسلم (امارۃ : ٥٢) میں ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں : ” جس نے تیر اندازی جاننے کے بعد اسے چھوڑ دیا وہ ہم میں سے نہیں ہے “ ، یا فرمایا : ” اس نے نافرمانی کی “ ، نیز اس حدیث سے تیراندازی کی فضیلت ثابت ہوتی ہے، اس طرح زمانے کے جتنے سامان جنگ ہیں ان کا سیکھنا اور حاصل کرنا اور اس کے لئے سفر کرنا جہاد میں داخل ہے۔

【37】

تیراندازی کی فضیلت

عقبہ بن عامر جہنی (رض) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا : آپ آیت کریمہ وأعدوا لهم ما استطعتم من قوة تم ان کے مقابلہ کے لیے اپنی طاقت بھر قوت کی تیاری کرو (سورۃ الأنفال : ٦٠) پڑھ رہے تھے اور فرما رہے تھے : سن لو، قوت تیر اندازی ہی ہے، سن لو قوت تیر اندازی ہی ہے، سن لو قوت تیر اندازی ہی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة ٥٢ (١٩١٧) ، سنن ابن ماجہ/الجھاد ١٩ (٢٨١٣) ، (تحفة الأشراف : ٩٩١١) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/تفسیر القرآن ٩ (٣٠٨٣) ، مسند احمد (٤/١٥٧) ، سنن الدارمی/الجھاد ١٤ (٢٤٤٨) (صحیح )

【38】

جہاد سے مطلب اگر طلب دنیا ہو تو اس کا کوئی اجر نہیں

معاذ بن جبل (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جہاد دو طرح کے ہیں : رہا وہ شخص جس نے اللہ کی رضا مندی چاہی، امام کی اطاعت کی، اچھے سے اچھا مال خرچ کیا، ساتھی کے ساتھ نرمی اور محبت کی، اور جھگڑے فساد سے دور رہا تو اس کا سونا اور اس کا جاگنا سب باعث اجر ہے، اور جس نے اپنی بڑائی کے اظہار، دکھاوے اور شہرت طلبی کے لیے جہاد کیا، امام کی نافرمانی کی، اور زمین میں فساد مچایا تو (اسے ثواب کیا ملنا) وہ تو برابر برابر بھی نہیں لوٹا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الجھاد ٤٦ (٣١٠) ، والبیعة ٢٩ (٤٢٠٠) ، (تحفة الأشراف : ١١٣٢٩) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الجھاد ١٨ (٤٣) موقوفاً ، مسند احمد (٥/٢٣٤) ، سنن الدارمی/ الجھاد ٢٥ (٢٤٦١) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ایسے جہاد میں اگر گناہ سے بچ جائے تو یہی غنیمت ہے، ثواب کا کیا ذکر۔

【39】

جہاد سے مطلب اگر طلب دنیا ہو تو اس کا کوئی اجر نہیں

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا : اللہ کے رسول ! ایک شخص اللہ کی راہ میں جہاد کا ارادہ رکھتا ہے اور وہ دنیاوی مال و منال چاہتا ہے ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس کے لیے کوئی اجر و ثواب نہیں ، لوگوں نے اسے بڑی بات سمجھی اور اس شخص سے کہا : رسول اللہ ﷺ سے پھر پوچھو، شاید تم انہیں نہ سمجھا سکے ہو، اس شخص نے کہا : اللہ کے رسول ! ایک شخص اللہ کی راہ میں جہاد کا ارادہ رکھتا ہے اور وہ دنیاوی مال و اسباب چاہتا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اس کے لیے کوئی اجر و ثواب نہیں ، لوگوں نے اس شخص سے کہا : رسول اللہ ﷺ سے پھر پوچھو، اس نے آپ سے تیسری بار پوچھا، تو آپ ﷺ نے پھر اس سے فرمایا : اس کے لیے کوئی اجر و ثواب نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٥٤٨٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٩٠، ٣٦٦) (حسن )

【40】

جہاد سے مطلب اگر طلب دنیا ہو تو اس کا کوئی اجر نہیں

ابوموسیٰ (رض) کہتے ہیں کہ ایک دیہاتی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور اس نے عرض کیا : کوئی شہرت کے لیے جہاد کرتا ہے کوئی جہاد کرتا ہے تاکہ اس کی تعریف کی جائے، کوئی اس لیے جہاد کرتا ہے تاکہ مال غنیمت پائے اور کوئی اس لیے جہاد کرتا ہے تاکہ اس مرتبہ کا اظہار ہو سکے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے صرف اس لیے جہاد کیا تاکہ اللہ کا کلمہ سربلند رہے تو وہی اصل مجاہد ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٤٥ (١٢٣) ، الجھاد ١٥ (٢٨١٠) ، الخمس ١٠ (٣١٢٦) ، التوحید ٢٨ (٧٤٥٨) ، صحیح مسلم/الإمارة ٤٢ (١٩٠٤) ، سنن الترمذی/فضائل الجھاد ١٦ (١٦٤٦) ، سنن النسائی/الجھاد ٢١ (٣١٣٨) ، سنن ابن ماجہ/الجھاد ١٣ (٢٧٨٣) ، (تحفة الأشراف : ٨٩٩٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٩٢، ٣٩٧، ٤٠٢، ٤٠٥، ٤١٧) (صحیح )

【41】

جہاد سے مطلب اگر طلب دنیا ہو تو اس کا کوئی اجر نہیں

عمرو کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد وائل سے ایک حدیث سنی جو مجھے پسند آئی، پھر راوی نے اسی مفہوم کی حدیث ذکر کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٨٩٩٩) (صحیح )

【42】

جہاد سے مطلب اگر طلب دنیا ہو تو اس کا کوئی اجر نہیں

عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے کہا : اللہ کے رسول ! مجھے جہاد اور غزوہ کے بارے میں بتائیے، آپ ﷺ نے فرمایا : اے عبداللہ بن عمرو ! اگر تم صبر کے ساتھ ثواب کی نیت سے جہاد کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں صابر اور محتسب (ثواب کی نیت رکھنے والا) بنا کر اٹھائے گا، اور اگر تم ریاکاری اور فخر کے اظہار کے لیے جہاد کرو گے تو اللہ تمہیں ریا کار اور فخر کرنے والا بنا کر اٹھائے گا، اے عبداللہ بن عمرو ! تم جس حال میں بھی لڑو یا شہید ہو اللہ تمہیں اسی حال پر اٹھائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٨٦١٩) (ضعیف) (اس کے راوة العلا اور حنان دونوں لین الحدیث ہیں )

【43】

شہادت کی فضیلت

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تمہارے بھائی احد کے دن شہید کئے گئے تو اللہ نے ان کی روحوں کو سبز چڑیوں کے پیٹ میں رکھ دیا، جو جنت کی نہروں پر پھرتی ہیں، اس کے میوے کھاتی ہیں اور عرش کے سایہ میں معلق سونے کی قندیلوں میں بسیرا کرتی ہیں، جب ان روحوں نے اپنے کھانے، پینے اور سونے کی خوشی حاصل کرلی، تو وہ کہنے لگیں : کون ہے جو ہمارے بھائیوں کو ہمارے بارے میں یہ خبر پہنچا دے کہ ہم جنت میں زندہ ہیں اور روزی دیئے جاتے ہیں تاکہ وہ جہاد سے بےرغبتی نہ کریں اور لڑائی کے وقت سستی نہ کریں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا : میں تمہاری جانب سے انہیں یہ خبر پہنچائوں گا ، راوی کہتے ہیں : تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ ولا تحسبن الذين قتلوا في سبيل الله أمواتا جو اللہ کے راستے میں شہید کر دئیے گئے انہیں مردہ نہ سمجھو (سورۃ آل عمران : ١٦٩) اخیر آیت تک نازل فرمائی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٥٦١٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٦٦) (حسن )

【44】

یہ عنوان سے خالی ہے

حسناء بنت معاویہ کے چچا (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ سے پوچھا : جنت میں کون ہوگا ؟ آپ نے فرمایا : نبی جنت میں ہوں گے، شہید جنت میں ہوں گے، (نابالغ) بچے اور زندہ درگور کئے گئے بچے جنت میں ہوں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٥٦٩٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٥٨، ٤٠٩) (صحیح )

【45】

شہید کی شفاعت قبول کی جائے گی

نمران بن عتبہ ذماری کہتے ہیں : ہم ام الدرداء (رض) کے پاس گئے اور ہم یتیم تھے، انہوں نے کہا : خوش ہوجاؤ کیونکہ میں نے ابو الدرداء (رض) کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : شہید کی شفاعت اس کے کنبے کے ستر افراد کے لیے قبول کی جائے گی ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : (ولید بن رباح کے بجائے) صحیح رباح بن ولید ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٠٩٩٩) (صحیح )

【46】

شہید کی قبر پر نور برستا ہے

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ جب نجاشی کا انتقال ہوگیا تو ہم کہا کرتے تھے کہ ان کی قبر پر ہمیشہ روشنی دکھائی دیتی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٧٣٥٦) (ضعیف) (اس کے راوی سلمہ روایت میں بہت غلطیاں کرتے تھے )

【47】

یہ عنوان سے خالی ہے

عبید بن خالد سلمی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے دو آدمیوں میں بھائی چارہ کرایا، ان میں سے ایک شہید کردیا گیا اور دوسرے کا اس کے ایک ہفتہ کے بعد، یا اس کے لگ بھگ انتقال ہوا، ہم نے اس پر نماز جنازہ پڑھی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم نے کیا کہا ؟ ہم نے جواب دیا : ہم نے اس کے حق میں دعا کی کہ : اللہ اسے بخش دے اور اس کو اس کے ساتھی سے ملا دے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس کی نمازیں کہاں گئیں، جو اس نے اپنے ساتھی کے (قتل ہونے کے) بعد پڑھیں، اس کے روزے کدھر گئے جو اس نے اپنے ساتھی کے بعد رکھے، اس کے اعمال کدھر گئے جو اس نے اپنے ساتھی کے بعد کئے ؟ ان دونوں کے درجوں میں ایسے ہی فرق ہے جیسے آسمان و زمین میں فرق ہے ١ ؎ شعبہ کو صومه بعد صومه اور عمله بعد عمله میں شک ہوا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الجنائز ٧٧ (١٩٨٧) ، (تحفة الأشراف : ٩٧٤٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٥٠٠، ٤/٢١٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ہوسکتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کو یہ بات معلوم ہوگئی ہو کہ بغیر شہادت کے ہی اس کا عمل اس کے اخلاص اور خشوع و خضوع کی زیادتی کے سبب شہید کے عمل کے برابر ہے، پھر اسے جو مزید عمل کا موقع ملا تو اس کی وجہ سے اس کا ثواب اس شہید کے ثواب سے فزوں ہوگیا کتنے شہداء ایسے ہیں جو صدیقین کے مقام و مرتبہ کو نہیں پاتے۔

【48】

اجرت لے کر جہاد کرنا

ابوایوب (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : عنقریب تم پر شہر کے شہر فتح کئے جائیں گے اور عنقریب ایک بھاری لشکر ہوگا اور اسی میں سے تم پر ٹکڑیاں متعین کی جائیں گی، تو تم میں سے جو شخص اس میں بغیر اجرت کے بھیجے جانے کو ناپسند کرے اور (جہاد میں جانے سے بچنے کے لیے) اپنی قوم سے علیحدہ ہوجائے، پھر قبیلوں کو تلاش کرتا پھرے اور اپنے آپ کو ان پر پیش کرے اور کہے کہ : کون مجھے بطور مزدور رکھے گا کہ میں اس کے لشکر میں کام کروں اور وہ میرا خرچ برداشت کرے ؟ کون مجھے بطور مزدور رکھے گا کہ میں اس کے لشکر میں کام کروں اور وہ میرا خرچ برداشت کرے ؟ خبردار وہ اپنے خون کے آخری قطرہ تک مزدور ہی رہے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٣٤٩٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٤١٣) (ضعیف) (اس کے راوی ابن اخی ایوب أبوسورہ الضلالی ضعیف ہیں )

【49】

جہاد پر اجرت لینے کی اجازت

عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جہاد کرنے والے کو اس کے جہاد کا اجر ملے گا اور مجاہد کو تیار کرنے والے کو تیار کرنے اور غزوہ کرنے دونوں کا اجر ملے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٨٨٢٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٧٤) (صحیح )

【50】

جہاد میں اپنے کام کے لئے نوکر لے جانے کا بیان

یعلیٰ بن منیہ (رض) کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے غزوہ کا اعلان کیا اور میں بہت بوڑھا تھا میرے پاس کوئی خادم نہ تھا، تو میں نے ایک مزدور تلاش کیا جو میری خدمت کرے اور میں اس کے لیے اس کا حصہ جاری کروں، آخر میں نے ایک مزدور پا لیا، تو جب روانگی کا وقت ہوا تو وہ میرے پاس آیا اور کہنے لگا : میں نہیں جانتا کہ کتنے حصے ہوں گے اور میرے حصہ میں کیا آئے گا ؟ لہٰذا میرے لیے کچھ مقرر کر دیجئیے خواہ حصہ ملے یا نہ ملے، لہٰذا میں نے اس کے لیے تین دینار مقرر کر دئیے، جب مال غنیمت آیا تو میں نے اس کا حصہ دینا چاہا، پھر خیال آیا کہ اس کے تو تین دینار مقرر ہوئے تھے، میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور آپ سے اس کا معاملہ بیان کیا آپ ﷺ نے فرمایا : میں اس کے لیے اس کے اس غزوہ میں دنیا و آخرت میں کچھ نہیں پاتا سوائے ان تین دیناروں کے جو متعین ہوئے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١١٨٤٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٢٣) (صحیح )

【51】

والدین کی مرضی کے بغیر جہاد میں شرکت

عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کر کہا : میں آپ سے ہجرت پر بیعت کرنے کے لیے آیا ہوں، اور میں نے اپنے ماں باپ کو روتے ہوئے چھوڑا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : ان کے پاس واپس جاؤ، اور انہیں ہنساؤ جیسا کہ رلایا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الجہاد ٥ (٣١٠٥) ، سنن ابن ماجہ/الجھاد ١٢(٢٧٨٢) ، (تحفة الأشراف : ٨٦٤٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٦٠، ١٩٤، ١٩٧، ١٩٨، ٢٠٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : علامہ خطابی کہتے ہیں کہ مجاہد اگر رضاکارانہ طور پر جہاد میں شریک ہونا چاہتا ہے تو ایسی صورت میں ماں باپ کی اجازت ضروری ہے، البتہ اگر جہاد میں شرکت اس کے لئے فرض ہے تو ماں باپ کی مرضی اور اجازت کی ضرورت نہیں، مذکورہ دونوں صورتوں میں ان کی اجازت یا عدم اجازت کا مسئلہ اس وقت اٹھتا ہے جب ماں باپ مسلم ہوں، اگر وہ دونوں کافر ہیں تو اجازت کی سرے سے ضرورت ہی نہیں۔

【52】

والدین کی مرضی کے بغیر جہاد میں شرکت

عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ ایک آدمی نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا : اللہ کے رسول ! میں جہاد کروں ؟ آپ ﷺ نے پوچھا : کیا تمہارے ماں باپ زندہ ہیں ؟ اس نے کہا : ہاں، آپ ﷺ نے فرمایا : انہیں دونوں میں جہاد کرو ١ ؎ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ ابو العباس شاعر ہیں جن کا نام سائب بن فروخ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجھاد ١٣٨ (٣٠٠٤) ، والأدب ٣ (٥٩٧٢) ، صحیح مسلم/البر ١ (٢٥٤٩) ، سنن الترمذی/الجھاد ٢ (١٦٧١) ، سنن النسائی/الجھاد ٥ (٣١٠٥) ، (تحفة الأشراف : ٨٦٣٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٦٥، ١٧٢، ١٨٨، ١٩٣، ١٩٧، ٢٢١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ان کی خدمت کرکے جہاد کا ثواب حاصل کرو۔

【53】

والدین کی مرضی کے بغیر جہاد میں شرکت

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس یمن سے ہجرت کر کے آیا، آپ نے اس سے فرمایا : کیا یمن میں تمہارا کوئی ہے ؟ اس نے کہا : ہاں، میرے ماں باپ ہیں، آپ ﷺ نے پوچھا : انہوں نے تمہیں اجازت دی ہے ؟ اس نے کہا : نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : ان کے پاس واپس جاؤ اور اجازت لو، اگر وہ اجازت دیں تو جہاد کرو ورنہ ان دونوں کی خدمت کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٤٠٥١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٧٦) (صحیح )

【54】

عورتیں جہاد میں شریک ہوسکتی ہیں

انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ام سلیم (رض) کو اور انصار کی کچھ عورتوں کو جہاد میں لے جاتے تھے تاکہ وہ مجاہدین کو پانی پلائیں اور زخمیوں کا علاج کریں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجھاد ٤٧ (١٨١٠) ، سنن الترمذی/السیر ٢٢ (١٥٧٥) ، (تحفة الأشراف : ٢٦١) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجھاد ٦٥ (٢٨٨٠) ، والمغازي ١٨( ٤٠٦٤ مطولاً ) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورتوں کا جہاد میں شریک ہونا جائز ہے، حالانکہ بعض روایتوں سے پتہ چلتا ہے کہ جہاد پر نکلنے والی عورتوں کو آپ ﷺ نے واپس لوٹ جانے کا حکم دیا، اس کے دو اسباب بیان کئے جاتے ہیں : ١۔ آپ کو دشمنوں کی قوت و ضعف کا صحیح اندازہ نہ ہوسکا اور خطرہ تھا کہ مسلمان دشمن سے مغلوب ہوجائیں گے اس لئے آپ نے انہیں واپس کردیا۔ ٢۔ ممکن ہے یہ عورتیں نوجوان اور نئی عمر کی رہی ہوں جن سے میدان جہاد میں فتنہ کا خوف رہا ہو اس لئے آپ نے انہیں واپس کردیا ہو، واللہ اعلم۔

【55】

ظالم حاکموں کے ساتھ مل کر جہاد کرنا جائز ہے

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تین باتیں ایمان کی اصل ہیں : ١۔ جو لا الہٰ الا اللہ کہے اس (کے قتل اور ایذاء) سے رک جانا، اور کسی گناہ کے سبب اس کی تکفیر نہ کرنا، نہ اس کے کسی عمل سے اسلام سے اسے خارج کرنا۔ ٢۔ جہاد جاری رہے گا جس دن سے اللہ نے مجھے نبی بنا کر بھیجا ہے یہاں تک کہ میری امت کا آخری شخص دجال سے لڑے گا، کسی بھی ظالم کا ظلم، یا عادل کا عدل اسے باطل نہیں کرسکتا۔ ٣۔ تقدیر پر ایمان لانا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٧٠٤) (ضعیف) (اس کے راوی یزید بن ابی نشبہ مجہول ہیں )

【56】

ظالم حاکموں کے ساتھ مل کر جہاد کرنا جائز ہے

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جہاد تم پر ہر امیر کے ساتھ واجب ہے خواہ وہ نیک ہو، یا بد اور نماز ہر مسلمان کے پیچھے واجب ہے خواہ وہ نیک ہو یا بد، اگرچہ وہ کبائر کا ارتکاب کرئے، اور نماز (جنازہ) واجب ہے ہر مسلمان پر نیک ہو یا بد اگرچہ کبائر کا ارتکاب کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٤٦١٩) (ضعیف) (مکحول کا ابوہریرہ (رض) سے سماع نہیں ہے اس لئے سند میں انقطاع ہے )

【57】

ایک شخص دوسرے شخص کی سواری جہاد میں استعمال کرسکتا ہے

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے جہاد کا ارادہ کیا تو فرمایا : اے مہاجرین اور انصار کی جماعت ! تمہارے بھائیوں میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جن کے پاس مال ہے نہ کنبہ، تو ہر ایک تم میں سے اپنے ساتھ دو یا تین آدمیوں کو شریک کرلے، تو ہم میں سے بعض کے پاس سواری نہیں ہوتی سوائے اس کے کہ وہ باری باری سوار ہوں ، تو میں نے اپنے ساتھ دو یا تین آدمیوں کو لے لیا، میں بھی صرف باری سے اپنے اونٹ پر سوار ہوتا تھا، جیسے وہ ہوتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٣١١٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٥٨) (صحیح )

【58】

مال غنیمت اور اجر آخرت کے لئے جہاد کرنا

ضمرہ کا بیان ہے کہ ابن زغب ایادی نے ان سے بیان کیا کہ عبداللہ بن حوالہ ازدی (رض) میرے پاس اترے، اور مجھ سے بیان کیا : رسول اللہ ﷺ نے ہمیں بھیجا ہے کہ ہم پیدل چل کر مال غنیمت حاصل کریں، تو ہم واپس لوٹے اور ہمیں کچھ بھی مال غنیمت نہ ملا، اور آپ ﷺ نے ہمارے چہروں پر پریشانی کے آثار دیکھے تو ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایا : اللہ ! انہیں میرے سپرد نہ فرما کہ میں ان کی خبرگیری سے عاجز رہ جاؤں، اور انہیں ان کی ذات کے حوالہ (بھی) نہ کر کہ وہ اپنی خبرگیری خود کرنے سے عاجز آجائیں، اور ان کو دوسروں کے حوالہ نہ کر کہ وہ خود کو ان پر ترجیح دیں ، پھر آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ میرے سر پر یا میری گدی پر رکھا اور فرمایا : اے ابن حوالہ ! جب تم دیکھو کہ خلافت شام میں اتر چکی ہے، تو سمجھ لو کہ زلزلے، مصیبتیں اور بڑے بڑے واقعات (کے ظہور کا وقت) قریب آگیا ہے، اور قیامت اس وقت لوگوں سے اتنی قریب ہوگی جتنا کہ میرا یہ ہاتھ تمہارے سر سے قریب ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٥٢٤٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٨٨) (صحیح )

【59】

جو شخص اپنے آپ کو اللہ کے ہاتھ بیچ ڈالے

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہمارا رب اس شخص سے خوش ہوتا ہے ١ ؎ جس نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا، پھر اس کے ساتھی شکست کھا کر (میدان سے) بھاگ گئے اور وہ گناہ کے ڈر سے واپس آگیا (اور لڑا) یہاں تک کہ وہ قتل کردیا گیا، اس وقت اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے فرماتا ہے : میرے بندے کو دیکھو میرے ثواب کی رغبت اور میرے عذاب کے ڈر سے لوٹ آیا یہاں تک کہ اس کا خون بہا گیا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٩٥٥٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٤١٦) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کے لئے صفت تعجب کی صراحت ہے، دوسری حدیث میں ضحک (ہنسنے) کی صفت کا تذکرہ ہے، یہ صفات اللہ تعالیٰ کے لئے ثابت ہیں، ذات باری تعالیٰ اور اس کی صفات کی کنہ و کیفیت کی جستجو میں پڑے بغیر تمام ثابت صفات باری تعالیٰ پر ایمان لانا چاہیے، اور کسی مخلوق کی ذات وصفات سے اس کی تشبیہ و تمثیل وتکییف جائز نہیں ہے۔ ليس کمثله شيء وهو السميع البصير ” اللہ کے ہم مثل کوئی چیز نہیں اور وہ ذات باری سمیع (سننے والا) اور بصیر (دیکھنے والا ہے) “۔

【60】

جو شخص اسلام لانے کے فوراً بعد اللہ کے راستے میں مارا جائے

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ عمرو بن اقیش (رض) کا جاہلیت میں کچھ سود (وصول کرنا) رہ گیا تھا انہوں نے اسے بغیر وصول کئے اسلام قبول کرنا اچھا نہ سمجھا، چناچہ (جب وصول کرچکے تو) وہ احد کے دن آئے اور پوچھا : میرے چچازاد بھائی کہاں ہیں ؟ لوگوں نے کہا : احد میں ہیں، کہا : فلاں کہاں ہے ؟ لوگوں نے کہا : احد میں، کہا : فلاں کہاں ہے ؟ لوگوں نے کہا : احد میں، پھر انہوں نے اپنی زرہ پہنی اور گھوڑے پر سوار ہوئے، پھر ان کی جانب چلے، جب مسلمانوں نے انہیں دیکھا تو کہا : عمرو ہم سے دور رہو، انہوں نے کہا : میں ایمان لا چکا ہوں، پھر وہ لڑے یہاں تک کہ زخمی ہوگئے اور اپنے خاندان میں زخم خوردہ اٹھا کر لائے گئے، ان کے پاس سعد بن معاذ (رض) آئے اور ان کی بہن سے کہا : اپنے بھائی سے پوچھو : اپنی قوم کی غیرت یا ان کی خاطر غصہ سے لڑے یا اللہ کے واسطہ غضب ناک ہو کر، انہوں نے کہا : نہیں، بلکہ میں اللہ اور اس کے رسول کے واسطہ غضب ناک ہو کر لڑا، پھر ان کا انتقال ہوگیا اور وہ جنت میں داخل ہوگئے، حالانکہ انہوں نے اللہ کے لیے ایک نماز بھی نہیں پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥٠١٧) (حسن )

【61】

جو شخص اپنے ہی ہتھیار سے مرجائے

سلمہ بن الاکوع (رض) کہتے ہیں کہ جب جنگ خیبر ہوئی تو میرے بھائی بڑی شدت سے لڑے، ان کی تلوار اچٹ کر ان کو لگ گئی جس نے ان کا خاتمہ کردیا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان کے سلسلے میں باتیں کی اور ان کی شہادت کے بارے میں انہیں شک ہوا تو کہا کہ ایک آدمی جو اپنے ہتھیار سے مرگیا ہو (وہ کیسے شہید ہوسکتا ہے ؟ ) ، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : وہ اللہ کے راستہ میں کوشش کرتے ہوئے مجاہد ہو کر مرا ہے ۔ ابن شہاب زہری کہتے ہیں : پھر میں نے سلمہ بن الاکوع (رض) کے ایک بیٹے سے پوچھا تو انہوں نے اپنے والد کے واسطہ سے اسی کے مثل بیان کیا، مگر اتنا کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لوگوں نے جھوٹ کہا، وہ جہاد کرتے ہوئے مجاہد ہو کر مرا ہے، اسے دوہرا اجر ملے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجھاد ٤٣ (١٨٠٢) ، سنن النسائی/الجھاد ٢٩ (٣١٥٢) ، (تحفة الأشراف : ٤٥٣٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٤٧، ٥٢) (صحیح )

【62】

جو شخص اپنے ہی ہتھیار سے مرجائے

ابو سلام ایک صحابی سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم نے جہینہ کے ایک قبیلہ پر شب خون مارا تو ایک مسلمان نے ایک آدمی کو مارنے کا قصد کیا، اس نے اسے تلوار سے مارا لیکن تلوار نے خطا کی اور اچٹ کر اسی کو لگ گئی، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسلمانوں کی جماعت ! اپنے مسلمان بھائی کی خبر لو ، لوگ تیزی سے اس کی طرف دوڑے، تو اسے مردہ پایا، چناچہ رسول اللہ ﷺ نے اسے اسی کے کپڑوں اور زخموں میں لپیٹا، اس پر نماز جنازہ پڑھی اور اسے دفن کردیا، لوگوں نے پوچھا : اللہ کے رسول ! کیا وہ شہید ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں اور میں اس کا گواہ ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥٦٧٧) (ضعیف) (اس کے راوی سلام ابی سلام مجہول ہیں )

【63】

جنگ شروع ہوتے وقت دعا قبول ہوتی ہے

سہل بن سعد (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دو (وقت کی) دعائیں رد نہیں کی جاتیں، یا کم ہی رد کی جاتی ہیں : ایک اذان کے بعد کی دعا، دوسرے لڑائی کے وقت کی، جب دونوں لشکر ایک دوسرے سے بھڑ جائیں ۔ موسیٰ کہتے ہیں : مجھ سے رزق بن سعید بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا وہ ابوحازم سے روایت کرتے ہیں وہ سہل بن سعد (رض) سے اور وہ نبی اکرم ﷺ سے آپ نے فرمایا : اور بارش کے وقت کی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٤٧٦٩) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الصلاة ١ (٧) ، سنن الدارمی/الصلاة ٩ (١٢٣٦) (صحیح) (لیکن ” وقت المطر “ (بارش کے وقت کا) ٹکڑاحسن ہے، ملاحظہ ہو : صحیح ابی داود : ٧/٢٩٤، والصحیحة : ١٤٧٩ )

【64】

اللہ سے شہادت کی دعا کرنا

معاذ بن جبل (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جس نے اللہ کے راستہ میں اونٹنی دوہنے والے کے دو بار چھاتی پکڑنے کے درمیان کے مختصر عرصہ کے بقدر بھی جہاد کیا اس کے لیے جنت واجب ہوگئی، اور جس شخص نے اللہ سے سچے دل کے ساتھ شہادت مانگی پھر اس کا انتقال ہوگیا، یا قتل کردیا گیا تو اس کے لیے شہید کا اجر ہے، اور جو اللہ کی راہ میں زخمی ہوا یا کوئی چوٹ پہنچایا ١ ؎ گیا تو وہ زخم قیامت کے دن اس سے زیادہ کامل شکل میں ہو کر آئے گا جتنا وہ تھا، اس کا رنگ زعفران کا اور بو مشک کی ہوگی اور جسے اللہ کے راستے میں پھنسیاں (دانے) نکل آئیں تو اس پر شہداء کی مہر لگی ہوگی ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/فضائل الجھاد ١٩ (١٦٥٤) ، ٢١ (١٩٥٦) ، سنن النسائی/الجھاد ٢٥ (٣١٤٣) ، سنن ابن ماجہ/الجھاد ١٥ (٢٧٩٢) ، (تحفة الأشراف : ١١٣٥٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٣٠، ٢٣٥، ٢٤٣، ٢٤٤) سنن الدارمی/الجھاد ٥ (٢٤٣٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : جرح اور نکب ۃ دونوں ایک معنیٰ میں ہیں اور ایک قول کے مطابق جرح وہ زخم جو کافروں سے پہنچے، اور نکب ۃ وہ ہے جو سواری سے گرنے اور اپنے ہی ہتھیار کے اچٹ کر لگنے کی وجہ سے ہو۔

【65】

گھوڑے کی پیشانی اور دم کے بال نہ کترنا چاہئے

عتبہ بن عبدسلمی (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : گھوڑوں کی پیشانی کے بال نہ کاٹو، اور نہ ایال یعنی گردن کے بال کاٹو، اور نہ دم کے بال کاٹو، اس لیے کہ ان کے دم ان کے لیے مورچھل ہیں، اور ان کے ایال (گردن کے بال) گرمی حاصل کرنے کے لیے ہیں اور ان کی پیشانی میں خیر بندھا ہوا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٩٧٥١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٨٤) (صحیح) (اس کی سند میں نصر کنانی مجہول راوی ہیں، اور رجل مبہم سے مراد عتبة میں عبید سلمی ہی، مسند احمد (٤ ؍ ١٨٤) دوسرے طریق سے تقویت پا کر یہ صحیح ہے، اسے ابو عوانة نے اپنی صحیح میں تخریج کیا ہے، (٥ ؍ ١٩) (ملاحظہ ہو : صحیح ابی داود ٧ ؍ ٢٩٧۔ ٢٩٨ ) وضاحت : ١ ؎ : اس کے رہنے میں برکت ہے، بہتری ہے اور زینت بھی ہے۔

【66】

گھوڑوں کے کونسے رنگ پسندیدہ ہیں

ابو وہب جشمی سے روایت ہے اور انہیں اللہ کے رسول ﷺ کی صحبت حاصل تھی، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم اپنے اوپر ہر چتکبرے سفید پیشانی اور سفید ہاتھ پاؤں کے یا سرخ سفید پیشانی اور سفید ہاتھ پاؤں کے یا کالے سفید پیشانی اور سفید ہاتھ پاؤں کے گھوڑے کو لازم پکڑو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الخیل ٢ (٣٥٩٥) ، و یأتي برقم (٢٥٥٣) ، (تحفة الأشراف : ١٥٥١٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٤٥) (حسن) ( اس میں عقیل مجہول راوی ہیں صرف ابن حبان نے توثیق کی ہے اور حدیث کو اپنی صحیح میں روایت کیا ہے، لیکن جابر کی حدیث سے جو مسند احمد (٣ ؍ ٣٥٢) میں ہے یہ حدیث حسن کے درجہ میں ہے) ملاحظہ ہو : صحیح ابی داود (٧ ؍٣٠٦ )

【67】

گھوڑوں کے کونسے رنگ پسندیدہ ہیں

ابو وہب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم اپنے اوپر ہر سرخ سفید پیشانی اور سفید ہاتھ پاؤں کے یا ہر چتکبرے سفید پیشانی کے گھوڑے لازم پکڑو ١ ؎، پھر راوی نے اسی طرح ذکر کیا۔ محمد یعنی ابن مہاجر کہتے ہیں : میں نے عقیل سے پوچھا : سرخ رنگ کے گھوڑے کی فضیلت کیوں ہے ؟ انہوں نے کہا : اس وجہ سے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک سریہ بھیجا تو سب سے پہلے جو شخص فتح کی بشارت لے کر آیا وہ سرخ گھوڑے پر سوار تھا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٥٥١٩) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : أشقر سرخ گھوڑے کو کہتے ہیں، اور اس کی دم بھی سرخ ہوتی ہے، اور كميت کی دم اور بال سیاہ ہوتے ہیں۔

【68】

گھوڑوں کے کونسے رنگ پسندیدہ ہیں

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : گھوڑے کی برکت سرخ رنگ کے گھوڑے میں ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الجھاد ٢٠ (١٦٩٥) ، (تحفة الأشراف : ٦٢٩٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٧٢) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ان میں توالد و تناسل زیادہ ہوتا ہے۔

【69】

گھوڑوں کے کونسے رنگ پسندیدہ ہیں

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ گھوڑے کی مادہ کو بھی فرس کا نام دیتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٤٩٣٢) (صحیح )

【70】

کون سے گھوڑے ناپسندیدہ ہیں

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ گھوڑے میں شکال کو ناپسند فرماتے تھے، اور شکال یہ ہے کہ گھوڑے کے دائیں پیر اور بائیں ہاتھ میں، یا دائیں ہاتھ اور بائیں پیر میں سفیدی ہو ١ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یعنی دائیں اور بائیں ایک دوسرے کے مخالف ہوں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة ٢٧ (١٨٧٥) ، سنن الترمذی/الجھاد ٢١ (١٦٩٨) ، سنن النسائی/الخیل ٤ (٣٥٩٧) ، سنن ابن ماجہ/الجھاد ١٤(٢٧٩٠) ، (تحفة الأشراف : ١٤٨٩٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٥٠، ٤٣٦، ٤٦١، ٤٧٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ روای نے شکال کی تفسیر کی ہے، اہل لغت کے نزدیک گھوڑوں میں شکال یہ ہے کہ اس کے تین پاؤں سفید ہوں، اور ایک باقی بدن کے ہم رنگ ہو یا اس کے برعکس ہو، یعنی ایک پاؤں سفید اور باقی تین پاؤں باقی بدن کے ہم رنگ ہیں۔

【71】

جانوروں کی اچھی طرح دیکھ بھال کرنی چاہئے

سہل بن حنظلیہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک ایسے اونٹ کے پاس سے گزرے جس کا پیٹ اس کی پشت سے مل گیا تھا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : ان بےزبان چوپایوں کے سلسلے میں اللہ سے ڈرو، ان پر سواری بھلے طریقے سے کرو اور ان کو بھلے طریقے سے کھاؤ ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٤٦٥٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٨١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی انہیں اس وقت کھاؤ جب وہ کھانے کے لائق موٹے اور تندرست ہوں۔

【72】

جانوروں کی اچھی طرح دیکھ بھال کرنی چاہئے

عبداللہ بن جعفر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے ایک دن اپنے پیچھے سوار کیا پھر مجھ سے چپکے سے ایک بات کہی جسے میں کسی سے بیان نہیں کروں گا، رسول اللہ ﷺ کو بشری ضرورت کے تحت چھپنے کے لیے دو جگہیں بہت ہی پسند تھیں، یا تو کوئی اونچا مقام، یا درختوں کا جھنڈ، ایک بار آپ ﷺ کسی انصاری کے باغ میں تشریف لے گئے تو سامنے ایک اونٹ نظر آیا جب اس نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا تو رونے لگا اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، نبی اکرم ﷺ اس کے پاس آئے، اس کے سر پر ہاتھ پھیرا تو وہ خاموش ہوگیا، اس کے بعد پوچھا : یہ اونٹ کس کا ہے ؟ ایک انصاری جوان آیا، وہ کہنے لگا : اللہ کے رسول ! میرا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تم ان جانوروں کے سلسلے میں جن کا اللہ نے تمہیں مالک بنایا ہے اللہ سے نہیں ڈرتے، اس اونٹ نے مجھ سے شکایت کی ہے کہ تو اس کو بھوکا مارتا اور تھکاتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحیض ٢٠ (٣٤٢) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٢٣ (٣٤٠) ، (لیس عندہما قصة الجمل) (تحفة الأشراف : ٥٢١٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٠٤، ٢٠٥) ، سنن الدارمی/الطھارة ٥ (٦٩٠) (صحیح )

【73】

جانوروں کی اچھی طرح دیکھ بھال کرنی چاہئے

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایک آدمی کسی راستہ پہ جا رہا تھا کہ اسی دوران اسے سخت پیاس لگی، (راستے میں) ایک کنواں ملا اس میں اتر کر اس نے پانی پیا، پھر باہر نکلا تو دیکھا کہ ایک کتا ہانپ رہا ہے اور پیاس کی شدت سے کیچڑ چاٹ رہا ہے، اس شخص نے دل میں کہا : اس کتے کا پیاس سے وہی حال ہے جو میرا حال تھا، چناچہ وہ (پھر) کنویں میں اترا اور اپنے موزوں کو پانی سے بھرا، پھر منہ میں دبا کر اوپر چڑھا اور (کنویں سے نکل کر باہر آ کر) کتے کو پلایا تو اللہ تعالیٰ نے اس کا یہ عمل قبول فرما لیا اور اسے بخش دیا ، لوگوں نے کہا : اللہ کے رسول ! کیا ہمارے لیے چوپایوں میں بھی ثواب ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہر تر کلیجہ والے (جاندار) میں ثواب ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٣٣ (١٧٣) ، والمساقاة ٩ (٢٣٦٣) ، والمظالم ٢٣ (٢٤٦٦) ، والأدب ٢٧ (٦٠٠٩) ، صحیح مسلم/السلام ٤١ (٢٢٤٤) ، (تحفة الأشراف : ١٢٥٧٤) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/صلاة الجماعة ٢ (٦) ، مسند احمد (٢/٣٧٥، ٥١٧) (صحیح )

【74】

منزل پر اترنا

حمزہ ضبی کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک (رض) کو کہتے سنا کہ ہم کسی جگہ اترتے تو نماز نہ پڑھتے جب تک کہ ہم کجاؤں کو اونٹوں سے نیچے نہ اتار دیتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٥٥٧) (صحیح )

【75】

جانوروں کے گلے میں تانت کے گنڈے ڈالنے کا بیان

ابوبشیر انصاری (رض) کہتے ہیں کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے تو رسول اللہ ﷺ نے ایک قاصد کے ذریعہ پیغام بھیجا، لوگ اپنی خواب گاہوں میں تھے : کسی اونٹ کی گردن میں کوئی تانت کا قلادہ باقی نہ رہے، اور نہ ہی کوئی اور قلادہ ہو مگر اسے کاٹ دیا جائے ۔ مالک کہتے ہیں : میرا خیال ہے لوگ یہ گنڈا نظر بد سے بچنے کے لیے باندھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجھاد ١٣٩ (٣٠٠٥) ، صحیح مسلم/اللباس ٢٨ (٢١١٥) ، (تحفة الأشراف : ١١٨٦٢) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/صفة النبی ١٣ (٣٩) ، مسند احمد (٥/٢١٦) (صحیح )

【76】

گھوڑوں کی اچھی طرح دیکھ بھال کرنا

ابو وہب جشمی (رض) سے روایت ہے انہیں (اللہ کے رسول ﷺ کی) صحبت حاصل تھی ۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : گھوڑوں کو سرحد کی حفاظت کے لیے تیار کرو، اور ان کی پیشانیوں اور پٹھوں پر ہاتھ پھیرا کرو، اور ان کی گردنوں میں قلادہ (پٹہ) پہناؤ، اور انہیں (نظر بد سے بچنے کے لیے) تانت کا قلادہ نہ پہنانا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر رقم (٢٥٤٣) ، (تحفة الأشراف : ١٥٥٢٠) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : گھوڑے کو تیار کرنے سے یہ کنایہ ہے کہ ان کو جہاد کے لئے فربہ کرنا، اور ہاتھ پھیرنے سے مقصود ان کے جسم کو گردوغبار سے صاف کرنا اور ان کی فربہی معلوم کرنا ہے۔ زمانہ جاہلیت میں گھوڑے کی گردنوں میں کمان کے چلے باندھتے تھے تاکہ نظر بد نہ لگے، آپ ﷺ نے تنبیہ کے لئے اس سے منع فرمایا کہ اس سے گھوڑے کا گلا نہ گھٹ جائے، نیز یہ عمل تقدیر کو رد نہیں کرسکتا۔

【77】

جانوروں کے گلے میں گھنٹی باندھنا

ام المؤمنین ام حبیبہ (رض) نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا : (رحمت کے) فرشتے ١ ؎ اس جماعت کے ساتھ نہیں ہوتے جس کے ساتھ گھنٹی ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٥٨٧٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٢٦، ٣٢٧، ٤٢٦، ٤٢٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے مراد حَفَظَه کے علاوہ فرشتے ہیں کیونکہ حَفَظَه ہمیشہ ساتھ رہتے ہیں۔

【78】

جانوروں کے گلے میں گھنٹی باندھنا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (رحمت کے فرشتے) اس جماعت کے ساتھ نہیں رہتے ہیں جس کے ساتھ کتا یا گھنٹی ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٢٦٥٥) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/اللباس ٢٧ (٢١١٣) ، سنن الترمذی/الجھاد ٢٥ (١٧٠٣) ، مسند احمد (٢/٢٦٢، ٥٣٧) ، سنن الدارمی/الاستئذان ٤٤ (٢٧١٨) (صحیح )

【79】

جانوروں کے گلے میں گھنٹی باندھنا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے گھنٹی کے بارے میں فرمایا : وہ شیطان کی بانسری ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٤٠٢٥) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/اللباس ٢٧ (٢١١٤) ، مسند احمد (٢/٣٦٦) (صحیح )

【80】

نجاست کھانے والے جانوروں پر سواری کی ممانعت

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ گندگی کھانے والے جانور کی سواری سے منع کیا گیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٧٥٨٩) (صحیح )

【81】

نجاست کھانے والے جانوروں پر سواری کی ممانعت

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے گندگی کھانے والے اونٹوں کی سواری کرنے سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٧٥٨٩) (حسن صحیح )

【82】

آدمی اپنے جانور کا نام رکھ سکتا ہے

معاذ (رض) کہتے ہیں کہ میں ایک گدھے پر رسول اللہ ﷺ کے پیچھے سوار تھا جس کو عفیر کہا جاتا تھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجھاد ٤٦ (٢٨٥٦) ، صحیح مسلم/الإیمان ١٠(٣٠) ، سنن الترمذی/الایمان ١٨ (٢٦٤٣) ، (تحفة الأشراف : ١١٣٥١) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/ الکبری/ العلم (٥٨٧٧) ، مسند احمد (٥/٢٢٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : پیچھے سواری پر کسی کو بٹھایا جاسکتا ہے بشرطیکہ جانور اس دوسرے سوار کا بوجھ برداشت کرنے کے قابل ہو، اسی طرح جانوروں کا نام بھی رکھا جاسکتا ہے، چناچہ رسول اللہ ﷺ کے خچر کا نام دلدل اور گھوڑوں میں سے ایک کا نام سکب اور ایک کا بحر تھا۔

【83】

کوچ کے وقت مجاہدین کو اللہ کے گھوڑ سوار کہہ کر پکارنا

سمرہ بن جندب (رض) سے روایت ہے ، وہ حمد و صلاۃ کے بعد کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ہمارے سواروں کو جب ہمیں دشمن سے گھبراہٹ ہوتی (تسلی دیتے ہوئے) خیل اللہ کہتے، اور ہمیں جماعت کو لازم پکڑنے اور صبر و سکون سے رہنے کا حکم دیتے، اور جب ہم قتال کر رہے ہوتے (تو بھی انہیں کلمات کے ذریعہ ہمارا حوصلہ بڑھاتے) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٤٦١٩) (ضعیف) (اس سند میں جعفر ضعیف ہیں، خبیب مجہول، اس لئے حدیث ضعیف ہے، اور سلیمان بن سمرہ مقبول یعنی بشرط متابعت )

【84】

جانور پر لعنت کرنے کی ممانعت

عمران بن حصین (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ ایک سفر میں تھے، آپ نے لعنت کی آواز سنی تو پوچھا : یہ کیا ہے ؟ لوگوں نے کہا : فلاں عورت ہے جو اپنی سواری پر لعنت کر رہی ہے، اس پر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اس اونٹنی سے کجاوہ اتار لو کیونکہ وہ ملعون ہے ١ ؎، لوگوں نے اس پر سے (کجاوہ) اتار لیا۔ عمران (رض) کہتے ہیں : گویا میں اسے دیکھ رہا ہوں، وہ ایک سیاہی مائل اونٹنی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البر ٢٤ (٢٥٩٥) ، (تحفة الأشراف : ١٠٨٨٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٤٢٩، ٤٣١) ، سنن الدارمی/الاستئذان ٤٥ (٢٧١٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : علماء کا کہنا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایسا اس لئے کیا تاکہ جانور کا مالک آئندہ کسی جانور پر لعنت نہ بھیجے، گویا آپ ﷺ کا یہ فرمان اس مالک کے لئے بطور سرزنش تھا۔

【85】

چوپایہ جانوروں کو لڑانے کی ممانعت

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے جانوروں کو باہم لڑانے سے منع فرمایا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الجھاد ٣٠ (١٧٠٨) ، (تحفة الأشراف : ٦٤٣١) (ضعیف) (اس کے راوی ابویحییٰ قتات ضعیف راوی ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : منع کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اس عمل سے جانوروں کو تکلیف پہنے گی، اور تکان لاحق ہوگی جو بلا کسی فائدہ کے ہوگی۔

【86】

جانوروں کی علامت لگانا

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ میں اپنے بھائی کی پیدائش پر اس کو نبی اکرم ﷺ کے پاس لے کر آیا تاکہ آپ اس کی تحنیک (گھٹی) ١ ؎ فرما دیں، تو دیکھا کہ آپ ﷺ جانوروں کے ایک باڑہ میں بکریوں کو نشان (داغ) لگا رہے تھے۔ ہشام کہتے ہیں : میرا خیال ہے کہ انس (رض) نے کہا : ان کے کانوں پر داغ لگا رہے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٦٩ (١٥٠٢) ، والذبائح ٣٥ (٥٥٤٢) ، صحیح مسلم/اللباس ٣٠ (٢١١٩) ، الآداب ٥ (٢١٤٥) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٤ (٣٦٥) ، (تحفة الأشراف : ١٦٣٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٦٩، ١٧١، ٢٥٤، ٢٥٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ” تحنيك “ یہ ہے کہ کھجور یا اسی جیسی کوئی میٹھی چیز منہ میں چبا کر بچے کے منہ میں رکھ دیا جائے تاکہ اس کی مٹھاس کا اثر بچے کے پیٹ میں پہنچ جائے، رسول اکرم ﷺ سے تحنیک کا مقصد برکت کا حصول تھا، اور چیز غیر نبی میں متحقق نہیں ہے اس لئے دوسروں سے تحنیک کرانے کا کوئی فائدہ نہیں نیز بزرگ شخصیات سے تحنیک کا تحنیک نبوی پر قیاس صحیح نہیں ہے۔

【87】

چہرہ پرداغ لگانے اور مارنے کی ممانعت

جابر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس سے ایک گدھا گزرا جس کے چہرہ کو داغ دیا گیا تھا تو آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تمہیں یہ بات نہیں پہنچی ہے کہ میں نے اس شخص پر لعنت کی ہے جو جانوروں کے چہرے کو داغ دے، یا ان کے چہرہ پہ مارے ، پھر آپ ﷺ نے اس سے منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٢٧٥٧) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/اللباس ٢٩ (٢١١٧) ، سنن الترمذی/الجھاد ٣٠ (١٧١٠) ، مسند احمد (٣/٣٢٣) (صحیح )

【88】

گھوڑیوں کا گدھوں سے جفتی کرانا

علی بن ابی طالب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو ایک خچر ہدیہ میں دیا گیا تو آپ اس پر سوار ہوئے، علی (رض) نے کہا : اگر ہم ان گدھوں سے گھوڑیوں کی جفتی کرائیں تو اسی طرح کے خچر پیدا ہوں گے (یہ سن کر) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایسا وہ لوگ کرتے ہیں جو (شریعت کے احکام سے) واقف نہیں ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الخیل ٨ (٣٦١٠) ، (تحفة الأشراف : ١٠١٨٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٩٨، ١٠٠، ١٥٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مطلب یہ ہے کہ جو لوگ گھوڑوں کی منفعت سے واقف نہیں ہیں وہی ایسا کرتے ہیں۔

【89】

ایک جانور پر تین آدمیوں کا سوار ہونا

عبداللہ بن جعفر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب سفر سے آتے تو ہم لوگ آپ کے استقبال کے لیے جاتے، جو ہم میں سے پہلے پہنچتا اس کو آپ آگے بٹھا لیتے، چناچہ (ایک بار) آپ ﷺ نے مجھے اپنے سامنے پایا تو مجھے اپنے آگے بٹھا لیا، پھر حسن یا حسین پہنچے تو انہیں اپنے پیچھے بٹھا لیا، پھر ہم مدینہ میں اسی طرح (سواری پر) بیٹھے ہوئے داخل ہوئے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٣٥ (٢٤٢٨) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ٣٣ (٣٧٧٣) ، (تحفة الأشراف : ٥٢٣٠) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/الاستئذان ٣٦ (٢٧٠٧) ، مسند احمد (١/٢٠٣) (صحیح )

【90】

جانور پر بیکاربیٹھنے کی ممانعت

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اپنے جانوروں کی پیٹھ کو منبر بنانے سے بچو، کیونکہ اللہ نے ان جانوروں کو تمہارے تابع کردیا ہے تاکہ وہ تمہیں ایک شہر سے دوسرے شہر پہنچائیں جہاں تم بڑی تکلیف اور مشقت سے پہنچ سکتے ہو، اور اللہ نے تمہارے لیے زمین بنائی ہے، تو اسی پر اپنی ضروریات کی تکمیل کیا کرو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥٤٥٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : سواری پر بلا ضرورت بیٹھنا اور بیٹھ کر اسے مارنا پیٹنا اور تکلیف پہنچانا صحیح نہیں ہے، البتہ اگر یہ بیٹھنا کسی مقصد کے حصول کے لئے ہے تو کوئی حرج نہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا حجۃ الوداع کے موقع پر سواری پر کھڑے ہو کر خطبہ دینا ثابت ہے۔

【91】

کوتل اونٹوں کا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کچھ اونٹ ١ ؎ شیطانوں کے ہوتے ہیں، اور کچھ گھر شیطانوں کے ہوتے ہیں، رہے شیطانوں کے اونٹ تو میں نے انہیں دیکھا ہے، تم میں سے کوئی شخص اپنے کو تل اونٹ کے ساتھ نکلتا ہے جسے اس نے کھلا پلا کر موٹا کر رکھا ہے (خود) اس پر سواری نہیں کرتا، اور اپنے بھائی کے پاس سے گزرتا ہے، دیکھتا ہے کہ وہ چلنے سے عاجز ہوگیا ہے اس کو سوار نہیں کرتا، اور رہے شیطانوں کے گھر تو میں نے انہیں نہیں دیکھا ہے ٢ ؎۔ سعید کہتے تھے : میں تو شیطانوں کا گھر انہیں ہودجوں کو سمجھتا ہوں جنہیں لوگ ریشم سے ڈھانپتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٣٣٧٨) (ضعیف) (اس حدیث کو البانی نے سلسلة الاحادیث سلسلة الاحادیث الصحیحہ، للالبانی میں درج کیا تھا لیکن انقطاع کے سبب ضعیف ابی داود میں ڈال دیا، ملاحظہ ہو : ضعیف ابی داود ٢ ؍٣١٨ ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے مراد ایسے اونٹ ہیں جو محض فخر و مباہات کے لئے رکھے گئے ہوں، ان سے کوئی دینی اور شرعی مصلحت نہ حاصل ہو رہی ہو۔ ٢ ؎ : یعنی ایسے گھر جو بلاضرورت محض نام ونمود کے لئے بنائے گئے ہوں۔

【92】

جلدی چلنے کا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سرسبز علاقوں میں سفر کرو تو اونٹوں کو ان کا حق دو ١ ؎ اور جب قحط والی زمین میں سفر کرو تو تیز چلو ٢ ؎، اور جب رات میں پڑاؤ ڈالنے کا ارادہ کرو تو راستے سے ہٹ کر پڑاؤ ڈالو ٣ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٢٦٢٦) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الإمارة ٥٤ (١٩٢٦) ، سنن الترمذی/الأدب ٧٥ (٢٨٥٨) ، مسند احمد (٢/٣٣٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی انہیں کچھ دیر چرنے کے لئے چھوڑ دو ۔ ٢ ؎ : تاکہ قحط والی زمین جلدی سے طے کرلو اور سواری کو تکان لاحق ہونے سے پہلے اپنی منزل پر پہنچ جاؤ۔ ٣ ؎ : کیونکہ رات میں راستوں پر زہریلے جانور چلتے ہیں۔

【93】

جلدی چلنے کا بیان

جابر بن عبداللہ (رض) نے بھی نبی اکرم ﷺ سے ایسی ہی روایت کی ہے، مگر اس میں آپ کے قول فأعطوا الإبل حقها کے بعد اتنا اضافہ ہے کہ منزلوں کے آگے نہ بڑھو (تاکہ جانور کو تکلیف نہ ہو) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الأدب ٤٧ (٣٧٧٢) ، سنن النسائی/الیوم واللیلة (٩٥٥) (تحفة الأشراف : ٢٢١٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٠٥، ٣٨١) (صحیح )

【94】

اندھیرے میں سفر کرنے کا بیان

انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : رات کے آخری حصہ میں سفر کرنے کو لازم پکڑو، کیونکہ زمین رات کو لپیٹ دی جاتی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٨٢٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی رات میں مسافت زیادہ طے ہوتی ہے۔

【95】

جو شخص جانور کا مالک ہو وہ آگے بیٹھنے کا زیادہ حقدار ہے

بریدہ (رض) کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ چل رہے تھے کہ اسی دوران ایک آدمی آیا اور اس کے ساتھ ایک گدھا تھا، اس نے کہا : اللہ کے رسول سوار ہوجائیے اور وہ پیچھے سرک گیا، آپ ﷺ نے فرمایا : تم اپنی سواری پر آگے بیٹھنے کا مجھ سے زیادہ حقدار ہو، الا یہ کہ تم مجھے اس اگلے حصہ کا حقدار بنادو ، اس نے کہا : اللہ کے رسول ! میں نے آپ کو اس کا حقدار بنادیا، پھر رسول اللہ ﷺ اس پر سوار ہوئے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأدب ٢٥ (٢٧٧٣) ، (تحفة الأشراف : ١٩٦١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٥٣) (حسن صحیح )

【96】

جنگ میں جانور کی کونچیں کاٹ ڈالنے کا بیان

عباد بن عبداللہ بن زبیر کہتے ہیں کہ میرے رضاعی والد نے جو بنی مرہ بن عوف میں سے تھے مجھ سے بیان کیا کہ وہ غزوہ موتہ کے غازیوں میں سے تھے، وہ کہتے ہیں : اللہ کی قسم ! گویا کہ میں جعفر بن ابوطالب (رض) کو دیکھ رہا ہوں جس وقت وہ اپنے سرخ گھوڑے سے کود پڑے اور اس کی کونچ کاٹ دی ١ ؎، پھر دشمنوں سے لڑے یہاں تک کہ قتل کردیئے گئے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ حدیث قوی نہیں ہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥٦٠٢) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : کونچ وہ موٹا پٹھا جو آدمی کے ایڑی کے اوپر اور چوپایوں کے ٹخنے کے نیچے ہوتا ہے، گھوڑے کی کونچ اس لئے کاٹ دی گئیں تاکہ دشمن اس گھوڑے کے ذریعہ مسلمانوں پر حملہ نہ کرسکے، نیز اس حدیث سے معلوم ہوا کہ لڑائی میں سامان کے سلسلہ میں یہ اندیشہ ہو کہ دشمن کے ہاتھ میں آ کر اس کی تقویت کا سبب بنے گا تو اسے تلف کر ڈالنا درست ہے۔ ٢ ؎ : شاید مؤلف نے اس بنیاد پر اس حدیث کو غیر قوی قرار دیا ہے کہ عباد کے رضاعی باپ مبہم ہیں، لیکن یہ صحابی بھی ہوسکتے ہیں، اور یہی ظاہر ہے، اسی بنا پر البانی نے اس کو حسن قرار دیا ہے، (حسن اس لئے کہ ” ابن اسحاق “ درجہ حسن کے راوی ہیں )

【97】

آگے بڑھنے کی شرط کا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مقابلہ میں بازی رکھنا جائز نہیں ١ ؎ سوائے اونٹ یا گھوڑے کی دوڑ میں یا تیر چلانے میں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الجھاد ٢٢ (١٧٠٠) ، سنن النسائی/ الخیل ١٣(٣٦١٥) (تحفة الأشراف : ١٤٦٣ ٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤٧٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : حدیث میں سبق کا لفظ آیا ہے سبق اس پیسہ کو کہتے ہیں، جو گھوڑ دوڑ وغیرہ میں شرط کے طور پر رکھا جاتا ہے، لیکن یہ رقم خود گھوڑ دوڑ میں شرکت کرنے والوں کی طرف سے جیتنے والے کے لئے نہ ہو، بلکہ کسی تیسرے فریق کی طرف سے ہو، اگر خود گھوڑوں کی ریس (دوڑ) میں شرکت کرنے والوں کی جانب سے ہوگا تو یہ مقابلہ جُوا میں داخل ہوجائے گا۔

【98】

آگے بڑھنے کی شرط کا بیان

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پھرتیلے چھریرے بدن والے گھوڑوں کے درمیان ١ ؎ حفیاء سے ثنیۃ الوداع تک مقابلہ کرایا، اور غیر چھریرے بدن والے گھوڑوں، کے درمیان ثنیۃ الوداع سے مسجد بنی زریق تک مقابلہ کرایا اور عبداللہ بن عمر (رض) بھی مقابلہ کرنے والوں میں سے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٤١ (٤٢٠) ، والجھاد ٥٦ (٢٨٦٨) ، ٥٧ (٢٨٦٩) ، ٥٨ (٢٨٧٠) والاعتصام ١٦ (٧٣٣٦) ، صحیح مسلم/الإمارة ٢٥ (١٨٧٠) ، سنن النسائی/الخیل ١٢ (٣٦١٤) ، (تحفة الأشراف : ٨٣٤٠) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الجھاد ٢٢ (١٦٩٩) ، سنن ابن ماجہ/الجھاد ٤٤ (٢٨٧٧) ، موطا امام مالک/الجھاد ١٩ (٤٥) ، مسند احمد (٢/٥، ٥٥، ٥٦) ، سنن الدارمی/الجھاد ٣٦ (٢٤٧٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : گھوڑوں کے بدن کو چھریرا بنانے کے عمل کو تضمیر کہتے ہیں، اس کا طریقہ یہ ہے کہ انہیں خوب کھلا پلا کر موٹا اور تندرست کیا جائے، پھر آہستہ آہستہ ان کی خوراک کم کردی جائے یہاں تک کہ وہ اپنی اصل خوراک پر آجائیں، پھر ایک مکان میں بند کر کے ان پر گردنی ڈال دی جائے تاکہ انہیں گرمی اور پسینہ آجائے جب پسینہ خشک ہوجاتا ہے تو وہ سبک، طاقتور اور تیز رو ہوجاتے ہیں۔

【99】

آگے بڑھنے کی شرط کا بیان

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی اکرم ﷺ گھوڑ دوڑ کے لیے گھوڑوں (کو چھریرا) پھرتیلا بناتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٨١٢٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٨٦) (صحیح )

【100】

آگے بڑھنے کی شرط کا بیان

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے گھوڑ دوڑ کا مقابلہ کرایا اور پانچویں برس میں داخل ہونے والے گھوڑوں کی منزل دور مقرر کی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٨٠٦٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٦١، ٩١، ١٥٧) (صحیح )

【101】

پیدل دوڑ لگانے کا بیان

ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھیں، کہتی ہیں کہ میں نے آپ ﷺ سے دوڑ کا مقابلہ کیا تو میں جیت گئی، پھر جب میرا بدن بھاری ہوگیا تو میں نے آپ سے (دوبارہ) مقابلہ کیا تو آپ جیت گئے، اس پر آپ ﷺ نے فرمایا : یہ جیت اس جیت کے بدلے ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٧٧٣٦) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/النکاح ٥٠ (١٩٧٩) ، مسند احمد (٦/١٢٩، ٢٨٠) (صحیح )

【102】

گھوڑ دوڑ میں محلل کا شریک ہونا

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص دو گھوڑوں کے درمیان ایک گھوڑا داخل کر دے اور گھوڑا ایسا ہو کہ اس کے آگے بڑھ جانے کا یقین نہ ہو تو وہ جوا نہیں، اور جو شخص ایک گھوڑے کو دو گھوڑوں کے درمیان داخل کرے اور وہ اس کے آگے بڑھ جانے کا یقین رکھتا ہو تو وہ جوا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الجھاد ٤٤ (٢٨٧٦) ، (تحفة الأشراف : ١٣٢١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٥٠٥) (ضعیف) (” سفیان بن حسین “ زہری سے روایت میں ضعیف ہیں یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اسے متصل بنادیا ہے جبکہ زہری کے ثقہ تلامذہ نے اس کو مرسلا روایت کیا ہے، جیسا کہ مؤلف نے بیان کیا ہے )

【103】

گھوڑ دوڑ میں محلل کا شریک ہونا

اس سند سے بھی زہری سے عباد والے طریق ہی سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے ابوداؤد کہتے ہیں : اسے معمر، شعیب اور عقیل نے زہری سے اور زہری نے اہل علم کی ایک جماعت سے روایت کیا ہے اور یہ ہمارے نزدیک زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٣١١٨) (ضعیف )

【104】

گھوڑ دوڑ میں کسی شخص کو اپنے گھوڑے کے پیچھے رکھنا

عمران بن حصین (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جلب اور جنب نہیں ہے ۔ یحییٰ نے اپنی حدیث میں في الرهان (گھوڑ دوڑ کے مقابلہ میں) کا اضافہ کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث یحییٰ بن خلف، قد تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٠٨٠٠) وحدیث مسدد، قد أخرجہ : سنن الترمذی/النکاح ٢٩ (١١٢٣) ، سنن النسائی/النکاح ٦٠ (٣٣٣٧) ، الخیل ١٥ (٣٦٢٠) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ٣ (٣٩٣٧) ، مقتصراً علی قولہ : من انتھب، (تحفة الأشراف : ١٠٧٩٣) ، مسند احمد (٤/٤٣٨، ٤٣٩، ٤٤٣، ٤٤٥) (صحیح )

【105】

گھوڑ دوڑ میں کسی شخص کو اپنے گھوڑے کے پیچھے رکھنا

قتادہ (رض) سے روایت ہے، انہوں نے کہا جلب اور جنب ١ ؎ گھوڑ دوڑ کے مقابلہ میں ہوتا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٩٢١٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : گھوڑ دوڑ میں جلب یہ ہے کہ کسی کو اپنے گھوڑے کے پیچھے لگالے کہ وہ گھوڑے کو ڈانٹتا رہے ، تاکہ وہ آگے بڑھ جائے ، اور جنب یہ ہے کہ اپنے گھوڑے کے پہلو میں ایک اور گھوڑا رکھے کہ جب سواری کا گھوڑا تھک جائے تو اس گھوڑے پر سوار ہوجائے ، اور زکاۃ میں جلب یہ ہے کہ زکاۃ لینے والا دور اترے اور زکاۃ دینے والے سے کہے کہ وہ اپنے مویشی میرے پاس لے آئیں ، اور جنب یہ ہے کہ دینے والے اپنی اصل جگہ سے مویشیوں کو دور لے کر چلے جائیں اور محصل سے یہ کہیں کہ وہ یہاں آ کر زکاۃ لے ، یہ دونوں چیزیں منع ہیں۔

【106】

تلوار پر چاندی چڑھانا

انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی تلوار کے قبضہ کی خول چاندی کی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الجھاد ١٦ (١٦٩١) ، والشمائل ١٣ (٩٩) ، سنن النسائی/الزینة ٦٦ (٥٣٧٦) ، (تحفة الأشراف : ١١٤٨، ١٨٦٨٨) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/السیر ٢١ (٢٥٠١) (صحیح )

【107】

تلوار پر چاندی چڑھانا

( حسن بصری کے بھائی) سعید بن ابوالحسن کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی تلوار کے دستہ کی خول چاندی کی تھی۔ قتادہ کہتے ہیں : میں نہیں جانتا کہ اس پر ان کی متابعت کسی اور شخص نے کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١١٤٦، ١٨٦٨٨) ( پچھلی روایت سے تقویت پا کر یہ روایت بھی صحیح ہے ورنہ خود یہ روایت مرسل ہے) (صحیح )

【108】

تلوار پر چاندی چڑھانا

اس سند سے انس بن مالک (رض) سے سابقہ حدیث مروی ہے ابوداؤد کہتے ہیں : ان احادیث میں سب سے زیادہ قوی سعید بن ابوالحسن کی حدیث ہے اور باقی ضعیف ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٠٨٨) (صحیح) بما قبلہ

【109】

تیرلے کر مسجد میں جانا

جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو حکم دیا جو مسجد میں تیر بانٹ رہا تھا کہ جب وہ ان تیروں کو لے کر نکلے تو ان کی پیکان پکڑے ہو۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البر ٣٤ (٢٦١٤) ، (تحفة الأشراف : ٢٩١٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصلاة ٦٦ (٤٥١) ، والفتن ٧ (٧٠٧٣) ، سنن النسائی/المساجد ٢٦ (٧١٧) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ٥١ (٣٧٧٧) ، مسند احمد (٣/٣٠٨، ٣٥٠) (صحیح )

【110】

تیرلے کر مسجد میں جانا

ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب کوئی شخص ہماری مسجد یا ہمارے بازار سے گزرے اور اس کے پاس تیر ہو تو اس کی نوک کو پکڑ لے یا فرمایا : مٹھی میں دبائے رہے ، یا یوں کہا کہ : اسے اپنی مٹھی سے دبائے رہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مسلمانوں میں سے کسی کو لگ جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٦٧ (٤٥٢) ، والفتن ٦ (٧٠٧٥) ، صحیح مسلم/البر (٢٦١٥) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ٥١ (٣٧٧٨) ، (تحفة الأشراف : ٩٠٣٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٩١، ٣٩٢، ٣٩٧، ٤١٠، ٤١٣) (صحیح )

【111】

ننگی تلوار دینے کی ممانعت

جابر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ننگی تلوار (کسی کو) تھمانے سے منع فرمایا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الفتن ٥ (٢١٦٣) ، (تحفة الأشراف : ٢٦٩٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٠٠، ٣٦١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اسی طرح کوئی بھی ایسا ہتھیار لے کر راستہ میں یا مجمع میں چلنا جس سے نقصان پہنچنے کا خطرہ ہو ممنوع ہے۔

【112】

ننگی تلوار دینے کی ممانعت

سمرہ بن جندب (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے چمڑے کو دو انگلیوں کے درمیان رکھ کر کاٹنے سے منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٤٥٧٧) (ضعیف) (حسن بصری مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے ہے )

【113】

ایک ساتھ کئی زرہیں پہننے کا بیان

سائب بن یزید (رض) ایک ایسے آدمی سے روایت کرتے ہیں جس کا انہوں نے نام لیا تھا کہ رسول اللہ ﷺ غزوہ احد کے دن دو زرہیں اوپر تلے پہنے شریک غزوہ ہوئے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الجہاد ١٨ (٢٨٠٦) ، (تحفة الأشراف : ١٥٥٧٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٤٩) (صحیح )

【114】

جھنڈے اور نشان کا بیان

محمد بن قاسم کے غلام یونس بن عبید کہتے ہیں کہ محمد بن قاسم نے مجھے براء بن عازب (رض) کے پاس بھیجا کہ میں ان سے رسول اللہ ﷺ کے جھنڈے کے متعلق پوچھوں کہ وہ کیسا تھا، تو انہوں نے کہا : وہ سیاہ چوکور دھاری دار اونی کپڑے کا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الجھاد ١٠ (١٦٨٠) ، (تحفة الأشراف : ١٩٢٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٩٧) (صحیح) (لیکن مربعة ۔ چوکور ۔ کا لفظ صحیح نہیں ہے اس لیے کہ ابو یعقوب اسحاق بن ابراہیم ثقفی کوفی میں ضعف ہے ان کی توثیق ابن حبان نے کی ہے ، اور اس لفظ کی روایت میں ان کا کوئی شاہد یا متابع نہیں ہے )

【115】

جھنڈے اور نشان کا بیان

جابر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جس دن مکہ میں داخل ہوئے آپ کا پرچم سفید تھا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الجھاد ٩ (٢٨٦٦) ، سنن النسائی/الحج ١٠٦ (٢٨٦٩) ، سنن ابن ماجہ/الجھاد ٢٠ (٢٨١٧) ، (تحفة الأشراف : ٢٨٨٩) (صحیح )

【116】

جھنڈے اور نشان کا بیان

سماک اپنی قوم کے ایک آدمی سے روایت کرتے ہیں اور اس نے انہیں میں سے ایک دوسرے شخص سے روایت کیا، وہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ کا پرچم زرد دیکھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥٧٠٣) (ضعیف) (اس کی سند میں دو مبہم راوی ہیں )

【117】

کمزور اور بے بس آدمیوں کا وسیلہ سے مدد مانگنا

ابوالدرداء (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : میرے لیے ضعیف اور کمزور لوگوں کو ڈھونڈو، کیونکہ تم اپنے کمزوروں کی وجہ سے رزق دیئے جاتے اور مدد کئے جاتے ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الجھاد ٢٤ (١٧٠٢) ، سنن النسائی/الجھاد ٤٣ (٣١٨١) ، (تحفة الأشراف : ١٠٩٢٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٩٨) (صحیح )

【118】

جنگ میں کو ڈورڈ (خفیہ اشارہ) استعمال کرنے کا بیان

سمرہ بن جندب (رض) کہتے ہیں کہ مہاجرین کا شعار (کوڈ) ١ ؎ عبداللہ اور انصار کا شعار عبدالرحمٰن تھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٤٦٠١) (حسن بصری مدلس ہیں اور روایت ” عنعنہ “ سے ہے) (ضعیف ) وضاحت : ١ ؎ : وہ خاص لفظ جس سے پہرے دار یا فوجی کو آپس میں ایک دوسرے کی شناخت کے لئے بتادیا جاتا ہے کہ دوران جنگ اسے دھوکہ نہ دیا جاسکے، اسے ” پر دل “ کہتے ہیں۔

【119】

جنگ میں کو ڈورڈ (خفیہ اشارہ) استعمال کرنے کا بیان

سلمہ بن الاکوع (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے ابوبکر (رض) کے ساتھ نبی اکرم ﷺ کے زمانہ میں غزوہ کیا تو ہمارا شعار أمت أمت ١ ؎ تھا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/ الجہاد ٣٠ (٢٨٤٠) ، (تحفة الأشراف : ٤٥١٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٤٦) ، سنن الدارمی/السیر ١٥(٢٤٩٥) ، ویأتی ہذا الحدیث برقم (٢٦٣٨) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اے مدد کرنے والے دشمن کو فنا کر۔

【120】

جنگ میں کو ڈورڈ (خفیہ اشارہ) استعمال کرنے کا بیان

مہلب بن ابی صفرہ کہتے ہیں کہ مجھے اس شخص نے خبر دی ہے جس نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : اگر دشمن تمہارے اوپر شب خون ماریں تو تمہارا شعار (کوڈ) حم لا ينصرون ١ ؎ ہونا چاہیئے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الجھاد ١١ (١٦٨٢) ، (تحفة الأشراف : ١٥٦٧٩) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/ الکبری/ السیر (٨٨٦١) ، الیوم واللیلة (٦١٧) ، مسند احمد (٤/٦٥، ٥/٣٧٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اللہ کی قسم دشمنوں کو اللہ کی تائید و نصرت حاصل نہیں ہوگی بلکہ وہ مغلوب رہیں گے۔

【121】

سفر میں روانگی کے وقت کی دعا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ جب سفر کرتے تو یہ دعا پڑھتے : اللهم أنت الصاحب في السفر والخليفة في الأهل اللهم إني أعوذ بک من وعثاء السفر وکآبة المنقلب وسوء المنظر في الأهل والمال اللهم اطو لنا الأرض وهون علينا السفر اے اللہ ! تو (میرے) سفر کا رفیق اور گھر والوں کے لیے میرا قائم مقام ہے، اے اللہ ! میں تجھ سے سفر کی پریشانیوں سے اور غمگین و ناکام ہو کر لوٹنے سے اور لوٹ کر اہل اور مال میں برے منظر (دیکھنے سے) سے پناہ مانگتا ہوں، اے اللہ ! ہمارے لیے زمین کو لپیٹ دے اور ہم پر سفر آسان کر دے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٣٠٣٢) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الحج ٧٥ (١٣٤٢) ، سنن الترمذی/الدعوات ٤٢ (٣٤٣٨) ، سنن النسائی/الاستعاذة ٤٣ (٥٥١٦) ، مسند احمد (٢/٤٠١، ٤٣٣) (حسن صحیح )

【122】

سفر میں روانگی کے وقت کی دعا

علی ازدی کہتے ہیں کہ ابن عمر (رض) نے انہیں سکھایا کہ رسول اللہ ﷺ سفر میں جانے کے لیے جب اپنے اونٹ پر سیدھے بیٹھ جاتے تو تین بار اللہ اکبر فرماتے، پھر یہ دعا پڑھتے : ‏‏‏‏{‏ سبحان الذي سخر لنا هذا وما کنا له مقرنين * وإنا إلى ربنا لمنقلبون ‏}‏ اللهم إني أسألک في سفرنا هذا البر والتقوى ومن العمل ما ترضى اللهم ہوں علينا سفرنا هذا اللهم اطو لنا البعد اللهم أنت الصاحب في السفر والخليفة في الأهل والمال پاک ہے وہ اللہ جس نے اس (سواری) کو ہمارے تابع کردیا جب کہ ہم اس کو قابو میں لانے والے نہیں تھے، اور ہمیں اپنے رب ہی کی طرف پلٹ کر جانا ہے، اے اللہ ! میں اپنے اس سفر میں تجھ سے نیکی اور تقویٰ اور پسندیدہ اعمال کا سوال کرتا ہوں، اے اللہ ! ہمارے اس سفر کو ہمارے لیے آسان فرما دے، اے اللہ ! ہمارے لیے مسافت کو لپیٹ دے، اے اللہ ! تو ہی رفیق سفر ہے، اور تو ہی اہل و عیال اور مال میں میرا قائم مقام ہے ، اور جب سفر سے واپس لوٹتے تو مذکورہ دعا پڑھتے اور اس میں اتنا اضافہ کرتے : آيبون تائبون عابدون لربنا حامدون ہم امن و سلامتی کے ساتھ سفر سے لوٹنے والے، اپنے رب سے توبہ کرنے والے، اس کی عبادت اور حمد و ثنا کرنے والے ہیں ، نبی اکرم ﷺ اور آپ کے لشکر کے لوگ جب چڑھائیوں پر چڑھتے تو اللہ اکبر کہتے، اور جب نیچے اترتے تو سبحان اللہ کہتے، پھر نماز بھی اسی قاعدہ پر رکھی گئی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٧٥ (١٣٤٢) ، سنن الترمذی/الدعوات ٤٧ (٣٤٤٧) ، (تحفة الأشراف : ٧٣٤٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٤٤، ١٥٠) ، سنن الدارمی/الاستئذان ٤٢ (٢٧١٥) (صحیح) (مؤلف کے سوا کسی کے یہاں وکان النبي ﷺ وجیوشہ الخ کا جملہ نہیں ہے، اور یہ صحیح بھی نہیں ہے، ہاں اوپر چڑھنے اور نیچے اترنے کی دعا کی موافقت دوسری صحیح احادیث سے موجود ہے ) وضاحت : ١ ؎ : چناچہ رکوع میں سبحان ربي العظيم اور سجدہ میں سبحان ربي الأعلى اور اٹھتے وقت الله أكبر کہا جاتا ہے۔

【123】

رخصت کرتے وقت کیا کہے

قزعہ کہتے ہیں کہ مجھ سے ابن عمر (رض) نے کہا : آؤ میں تمہیں اسی طرح رخصت کروں جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے رخصت کیا تھا : أستودع الله دينک وأمانتک وخواتيم عملک میں تمہارے دین، تمہاری امانت اور تمہارے انجام کار کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٧٣٧٨) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الدعوات ٤٤ (٣٤٤٣) ، سنن ابن ماجہ/الجھاد ٢٤ (٢٨٢٦) ، مسند احمد (٢/٧، ٢٥، ٣٨، ١٣٦) (صحیح )

【124】

رخصت کرتے وقت کیا کہے

عبداللہ خطمی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب لشکر کو رخصت کرنے کا ارادہ کرتے تو فرماتے : أستودع الله دينكم وأمانتکم وخواتيم أعمالکم میں تمہارے دین، تمہاری امانت اور تمہارے انجام کار کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٩٦٧٣) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/ الیوم واللیلة (٥٠٧) (صحیح )

【125】

سواری پر چڑھتے وقت کیا دعا پڑھے؟

علی بن ربیعہ (رض) کہتے ہیں کہ میں علی (رض) کے پاس حاضر ہوا، آپ کے لیے ایک سواری لائی گئی تاکہ اس پر سوار ہوں، جب آپ نے اپنا پاؤں رکاب میں رکھا تو بسم الله کہا، پھر جب اس کی پشت پر ٹھیک سے بیٹھ گئے تو الحمد الله کہا، اور سبحان الذي سخر لنا هذا وما کنا له مقرنين * وإنا إلى ربنا لمنقلبون کہا، پھر تین مرتبہ الحمد الله کہا، پھر تین مرتبہ الله اکبر کہا، پھر سبحانک إني ظلمت نفسي فاغفر لي فإنه لا يغفر الذنوب إلا أنت کہا، پھر ہنسے، پوچھا گیا : امیر المؤمنین ! آپ کیوں ہنس رہے ہیں ؟ تو انہوں نے کہا : میں نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے ایسے ہی کیا جیسے کہ میں نے کیا پھر آپ ہنسے تو میں نے پوچھا : اللہ کے رسول ! آپ کیوں ہیں ہنس رہے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : تیرا رب اپنے بندے سے خوش ہوتا ہے جب وہ کہتا ہے : میرے گناہوں کو بخش دے وہ جانتا ہے کہ گناہوں کو میرے علاوہ کوئی نہیں بخش سکتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الدعوات ٤٧ (٣٤٤٦) ، (تحفة الأشراف : ١٠٢٤٨) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/ الکبری / (٨٧٩٩) ، الیوم واللیلة (٥٠٢) ، مسند احمد (١/٩٧، ١١٥، ١٢٨) (صحیح لغیرہ) (ملاحظہ ہو : صحیح ابی داود ٧/٣٥٤ )

【126】

جب آدمی کسی منزل پر اترے تو کیا کہے؟

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب سفر کرتے اور رات ہوجاتی تو فرماتے : يا أرض ربي وربک الله أعوذ بالله من شرک وشر ما فيك وشر ما خلق فيك ومن شر ما يدب عليك وأعوذ بالله من أسد وأسود ومن الحية والعقرب ومن ساکن البلد ومن والد وما ولد اے زمین ! میرا اور تیرا رب اللہ ہے، میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں تیرے شر سے اور اس چیز کے شر سے جو تجھ میں ہے اور اس چیز کے شر سے جو تجھ میں پیدا کی گئی ہے اور اس چیز کے شر سے جو تجھ پر چلتی ہے اور اللہ کی پناہ چاہتا ہوں شیر اور کالے ناگ سے اور سانپ اور بچھو سے اور زمین پر رہنے والے (انسانوں اور جنوں) کے شر سے اور جننے والے کے شر اور جس چیز کو جسے اس نے جنا ہے اس کے شر سے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٦٧٢٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٣٢، ٣/١٢٤) (ضعیف) (اس کے راوی زبیر بن ولید لین الحدیث ہیں )

【127】

شروع رات میں چلنے کی ممانعت

جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب سورج ڈوب جائے تو اپنے جانوروں کو نہ چھوڑو یہاں تک کہ رات کی ابتدائی سیاہی چلی جائے، کیونکہ شیاطین سورج ڈوبنے کے بعد فساد مچاتے ہیں یہاں تک کہ رات کی ابتدائی سیاہی چلی جائے ١ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں : فواشی ہر شیٔ کا وہ حصہ ہے جو پھیل جائے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/ الأشربة ١٢ (٢٠١٣) ، مسند احمد (٣/٣٠١، ٣١٢، ٣٦٢، ٣٧٤، ٣٨٦، ٣٩٥) ، (تحفة الأشراف : ٢٧٢٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پہلے پیدل یا جانوروں کی سورای والے سفر میں مغرب کے وقت ٹھہر جانا چاہیے، پھر اندھیرا ہونے پر چلنا چاہیے۔

【128】

کس دن سفر کرنا مستحب ہے

کعب بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ بہت کم ایسا ہوتا کہ رسول اللہ ﷺ جمعرات کے علاوہ کسی اور دن سفر میں نکلیں (یعنی آپ اکثر جمعرات ہی کو نکلتے تھے) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجھاد ١٠٣ (٢٩٥٠) ، (تحفة الأشراف : ١١١٤٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٥٤، ٤٥٥، ٦/٣٨٦، ٣٨٧، ٣٩٠) (صحیح) (اس حدیث کو امام ترمذی نے حسن کہا ہے )

【129】

اول صبح میں سفر کرنا

صخر غامدی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللهم بارک لأمتي في بکورها اے اللہ ! میری امت کے لیے دن کے ابتدائی حصہ میں برکت دے اور جب بھی آپ ﷺ کوئی سریہ یا لشکر بھیجتے، تو دن کے ابتدائی حصہ میں بھیجتے۔ (عمارہ کہتے ہیں) صخر ایک تاجر آدمی تھے، وہ اپنی تجارت صبح سویرے شروع کرتے تھے تو وہ مالدار ہوگئے اور ان کا مال بہت ہوگیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : صخر سے مراد صخر بن وداعہ ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/البیوع ٦ (١٢١٢) ، سنن ابن ماجہ/ التجارات ٤١ (٢٢٣٦) ، (تحفة الأشراف : ٤٨٥٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤١٦، ٤١٧، ٤٣٢، ٤/٣٨٤، ٣٩٠، ٣٩١) ، دی/ السیر ١(٢٤٧٩) (صحیح) ( حدیث کا پہلا ٹکڑا اللهم بارک لأمتي في بکورها شواہد کی وجہ سے صحیح ہے اور سند میں عمارہ بن حدید کی توثیق ابن حبان نے کی ہے جو مجاہیل کی توثیق کرتے ہیں، اور ابن حجر نے مجہول کہا ہے حدیث کے دوسرے ٹکڑے کو البانی صاحب نے ” الضعیفہ ( ٤١٧٨) “ میں شاہد نہ ملنے کی وجہ سے ضعیف کہا ہے جب کہ سنن ابی داود میں پوری حدیث کو صحیح کہا ہے لیکن سنن ابن ماجہ میں تفصیل بیان کردی ہے، نیز اس حدیث کو امام ترمذی نے حسن کہا ہے )

【130】

تنہا سفر کرنے کی ممانعت

عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایک سوار شیطان ہے اور دو سوار دو شیطان ہیں، اور تین سوار قافلہ ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الجھاد ٤ (١٦٧٤) ، (تحفة الأشراف : ٨٧٤٠) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الاستئذان ١٤ (٣٥) ، مسند احمد (٢/١٨٦، ٢١٤) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : ایک سوار کو شیطان کہا گیا کیونکہ اکیلا مسافر جماعت نہیں قائم کرسکتا، اور بوقت مصیبت اس کا کوئی معاون و مددگار نہیں ہوتا، اور دو سوار شیطان اس لئے ہیں کہ جب ان میں سے ایک کسی مصیبت و آفت سے دوچار ہوتا ہے تو دوسرا اس کی خاطر اس طرح مضطرب و پریشان ہوجاتا ہے کہ اس کی پریشانی کو دیکھ کر شیطان بےحد خوش ہوتا ہے، اور اگر مسافر تعداد میں تین ہیں تو مذکورہ پریشانیوں سے محفوظ رہتے ہیں۔

【131】

جب چند لوگ سفر کو نکلیں تو اپنے میں سے کسی ایک کو اپنا امیر مقرر کرلیں

ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تین افراد کسی سفر میں ہوں تو ہوئے کہ اپنے میں سے کسی ایک کو امیر بنالیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٤٤٢٩) (حسن صحیح )

【132】

جب چند لوگ سفر کو نکلیں تو اپنے میں سے کسی ایک کو اپنا امیر مقرر کرلیں

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تین افراد کسی سفر میں ہوں تو ان میں سے کسی کو امیر بنالیں ١ ؎، نافع کہتے ہیں : تو ہم نے ابوسلمہ سے کہا : آپ ہمارے امیر ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥٣٤٩) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : آپ ﷺ نے یہ حکم اس لئے دیا تاکہ ان میں آپس میں اجتماعیت برقرار رہے اور اختلاف کی نوبت نہ آئے اور ایسا جبھی ممکن ہے جب وہ کسی امیر کے تابع ہوں گے۔

【133】

قرآن پاک کو دارالحرب میں لے جانا

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر (رض) نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے قرآن کو دشمن کی سر زمین میں لے کر سفر کرنے سے منع فرمایا ہے، مالک کہتے ہیں : میرا خیال ہے اس واسطے منع کیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ دشمن اسے پالے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجھاد ١٢٩ (٢٩٩٠) ، (ولیس عندہ قول مالک) ، صحیح مسلم/الإمارة ٢٤ (١٨٦٩) ، سنن ابن ماجہ/الجھاد ٤٥ (٢٨٧٩) ، (تحفة الأشراف : ٨٣٤٧) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الجھاد ٢ (٧) ، مسند احمد (٢/٦، ٧، ١٠، ٥٥، ٦٣، ٧٦، ١٢٨) (صحیح) (صحیح مسلم میں آخری ٹکڑا اصل حدیث میں سے ہے نہ کہ قول مالک سے ) وضاحت : ١ ؎ : اور اس کی بےحرمتی کرے۔

【134】

لشکر کے رفقاء اور سرایا کی تعداد کا بیان

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بہتر ساتھی وہ ہیں جن کی تعداد چار ہو ١ ؎، اور چھوٹی فوج میں بہتر فوج وہ ہے جس کی تعداد چار سو ہو، اور بڑی فوجوں میں بہتر وہ فوج ہے جس کی تعداد چار ہزار ہو، اور بارہ ہزار کی فوج قلت تعداد کی وجہ سے ہرگز مغلوب نہیں ہوگی ٢ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں : صحیح یہ ہے کہ یہ مرسل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/السیر ٧ (١٥٥٥) ، (تحفة الأشراف : ٥٨٤٨) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/السرایا (٢٧٢٨) ، سنن الدارمی/السیر ٤ (٢٤٨٢) ، مسند احمد (١/٢٩٤، ٢٩٩) (ضعیف) (الصحيحة : 986، وتراجع الألباني : 152 ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی کم سے کم چار ہو کیونکہ ان میں سے اگر کبھی کوئی بیمار ہو اور وہ اپنے کسی ساتھی کو وصیت کرنا چاہے تو گواہی کے لئے ان میں سے دو باقی رہ جائیں، اس حدیث میں (بشرط صحت) مرتبہ أقل کا بیان ہے علماء نے لکھا ہے : چار سے پانچ بہتر ہیں بلکہ جس قدر زیادہ ہوں گے اتنا ہی خیر ہوگا۔ ٢ ؎ : بارہ ہزار کا لشکر اپنی قلت کے سبب ہرگز نہیں ہارے گا، اب اگر دوسری قومیں اس پر غالب آگئیں تو اس ہار کا سبب قلت نہیں بلکہ لشکر کا عجب و غرور میں مبتلا ہونا یا اسی طرح کا کوئی اور دوسرا سبب ہوسکتا ہے۔

【135】

مشرکین کو اسلام کی دعوت

بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی لشکر یا سریہ کا کسی کو امیر بنا کر بھیجتے تو اسے اپنے نفس کے بارے میں اللہ کے تقویٰ کی وصیت کرتے، اور جو مسلمان اس کے ساتھ ہوتے ان کے ساتھ بھلائی کرنے کا حکم دیتے، اور فرماتے : جب تم اپنے مشرک دشمنوں کا سامنا کرنا تو انہیں تین چیزوں کی دعوت دینا، ان تینوں میں سے جس چیز کو وہ مان لیں تم ان سے اسے مان لینا اور ان سے رک جانا، (سب سے پہلے) انہیں اسلام کی جانب بلانا، اگر تمہاری اس دعوت کو وہ لوگ تسلیم کرلیں تو تم اسے قبول کرلینا اور ان سے لڑائی کرنے سے رک جانا، پھر انہیں اپنے وطن سے مہاجرین کے وطن کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دینا، اور انہیں یہ بتانا کہ اگر وہ ایسا کریں گے تو ان کے لیے وہی چیز ہوگی جو مہاجرین کے لیے ہوگی، اور ان کے وہی فرائض ہوں گے، جو مہاجرین کے ہیں، اور اگر وہ انکار کریں اور اپنے وطن ہی میں رہنا چاہیں تو انہیں بتانا کہ وہ دیہاتی مسلمانوں کی طرح ہوں گے، ان پر اللہ کا وہی حکم چلے گا جو عام مسلمانوں پر چلتا ہے، اور فے اور مال غنیمت میں ان کا کوئی حصہ نہ ہوگا، الا یہ کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ جہاد کریں، اور اگر وہ اسلام لانے سے انکار کریں تو انہیں جزیہ کی ادائیگی کی دعوت دینا، اگر وہ لوگ جزیہ کی ادائیگی قبول کرلیں تو ان سے اسے قبول کرلینا اور جہاد کرنے سے رک جانا، اور اگر وہ جزیہ بھی دینے سے انکار کریں تو اللہ سے مدد طلب کرنا، اور ان سے جہاد کرنا، اور اگر تم کسی قلعہ والے کا محاصرہ کرنا اور وہ چاہیں کہ تم ان کو اللہ کے حکم پر اتارو، تو تم انہیں اللہ کے حکم پر مت اتارنا، اس لیے کہ تم نہیں جانتے ہو کہ اللہ ان کے سلسلے میں کیا فیصلہ کرے گا، لیکن ان کو اپنے حکم پر اتارنا، پھر اس کے بعد ان کے سلسلے میں تم جو چاہو فیصلہ کرنا ۔ سفیان بن عیینہ کہتے ہیں : علقمہ کا کہنا ہے کہ میں نے یہ حدیث مقاتل بن حیان سے ذکر کی تو انہوں نے کہا : مجھ سے مسلم نے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : وہ ابن ہیصم ہیں، بیان کیا انہوں نے نعمان بن مقرن (رض) سے اور نعمان (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے سلیمان بن بریدہ کی حدیث کے مثل روایت کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجھاد ٢ (١٧٣١) ، سنن الترمذی/السیر ٤٨ (١٦١٧) ، سنن ابن ماجہ/الجھاد ٣٨ (٢٨٥٨) ، (تحفة الأشراف : ١٩٢٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٥٢، ٣٥٨) ، سنن الدارمی/السیر ٥ (٢٤٨٣) (صحیح )

【136】

مشرکین کو اسلام کی دعوت

بریدہ (رض) روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ کے نام سے اور اللہ کے راستے میں غزوہ کرو اور اس شخص سے جہاد کرو جو اللہ کا انکار کرے، غزوہ کرو، بدعہدی نہ کرو، خیانت نہ کرو، مثلہ نہ کرو، اور کسی بچہ کو قتل نہ کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٩٢٩) (صحیح )

【137】

مشرکین کو اسلام کی دعوت

انس بن مالک (رض) کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (مجاہدین کو رخصت کرتے وقت) فرمایا : تم لوگ اللہ کے نام سے، اللہ کی تائید اور توفیق کے ساتھ، اللہ کے رسول کے دین پر جاؤ، اور بوڑھوں کو جو مرنے والے ہوں نہ مارنا، نہ بچوں کو، نہ چھوٹے لڑکوں کو، اور نہ ہی عورتوں کو، اور غنیمت میں خیانت نہ کرنا، اور غنیمت کے مال کو اکٹھا کرلینا، صلح کرنا اور نیکی کرنا، اللہ نیکی کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٨٢٤) (ضعیف) (اس کے راوی خالد بن فزر لین الحدیث ہیں )

【138】

دشمن کے علاقہ میں آتش زنی کرنا

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بنونضیر کے کھجوروں کے باغات جلا دیے اور درختوں کو کاٹ ڈالا (یہ مقام بویرہ میں تھا) تو اللہ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی ما قطعتم من لينة أو ترکتموها کھجور کے جو درخت تم نے کاٹ ڈالے، یا اپنی جڑوں پر انہیں قائم رہنے دیا، یہ سب اللہ کے حکم سے تھا (سورۃ الحشر : ٥) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المزارعة ٤ (٢٣٥٦) ، الجھاد ١٥٤ (٣٠٢٠) ، المغازي ١٤ (٤٠٣١) ، صحیح مسلم/الجھاد ١٠ (١٧٤٦) ، سنن الترمذی/التفسیر ٥٩ (٣٣٠٢) ، والسیر ٤ (١٥٥٢) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد ٣١ (٢٨٤٤) ، (تحفة الأشراف : ٨٢٦٧) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/السیر ٢٣ (٢٥٠٣) ، مسند احمد (٢/١٢٣، ١٤٠) (صحیح )

【139】

دشمن کے علاقہ میں آتش زنی کرنا

عروہ کہتے ہیں کہ اسامہ (رض) نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں وصیت کی تھی اور فرمایا تھا : ابنی ١ ؎ پر صبح سویرے حملہ کرو اور اسے جلا دو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الجھاد ٣١ (٢٨٤٣) ، (تحفة الأشراف : ١٠٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٠٥، ٢٠٩) (ضعیف) (اس کے راوی صالح ضعیف ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : فلسطین میں رملہ اور عسقلان کے مابین ایک مقام کا نام ہے۔

【140】

دشمن کے علاقہ میں آتش زنی کرنا

عبداللہ بن عمرو غزی کہتے ہیں کہ ابومسہر کے سامنے ابنیٰ کا تذکرہ آیا تو میں نے ان کو کہتے ہوئے سنا : ہم جانتے ہیں یہ یبنی ہے جو فلسطین میں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨٩٤٩) (مقطوع )

【141】

جاسوس بھیجنے کا بیان

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بسیسہ کو جاسوس بنا کر بھیجا تاکہ وہ دیکھیں کہ ابوسفیان کا قافلہ کیا کر رہا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة ٤١ (١٩٠١) ، مسند احمد (٣/١٣٦، (تحفة الأشراف : ٤٠٨) (صحیح )

【142】

جب مسافر کھجور کے درختوں یا دودھ والے جانوروں پر گذرے تو کھجور کھالے اور دودھ پی لے اگرچہ مالک کی اجازت نہ ہو

سمرہ بن جندب (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی کسی جانور کے پاس سے گزرے اور اس کا مالک موجود ہو تو اس سے اجازت لے، اگر وہ اجازت دیدے تو دودھ دوہ کر پی لے اور اگر اس کا مالک موجود نہ ہو تو تین بار اسے آواز دے، اگر وہ آواز کا جواب دے تو اس سے اجازت لے، ورنہ دودھ دوہے اور پی لے، لیکن ساتھ نہ لے جائے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/البیوع ٦٠ (١٢٩٦) ، (تحفة الأشراف : ٤٥٩١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ حکم اس پریشان حال اور مضطر و مجبور مسافر کے لئے ہے جسے کھانا نہ ملنے کی صورت میں اپنی جان کے ہلاک ہونے کا خطرہ لاحق ہو۔

【143】

جب مسافر کھجور کے درختوں یا دودھ والے جانوروں پر گذرے تو کھجور کھالے اور دودھ پی لے اگرچہ مالک کی اجازت نہ ہو

عباد بن شرحبیل (رض) کہتے ہیں کہ مجھے قحط نے ستایا تو میں مدینہ کے باغات میں سے ایک باغ میں گیا اور کچھ بالیاں توڑیں، انہیں مل کر کھایا، اور (باقی) اپنے کپڑے میں باندھ لیا، اتنے میں اس کا مالک آگیا، اس نے مجھے مارا اور میرا کپڑا چھین لیا، میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا (اور آپ سے سارا ماجرا بتایا) ، آپ ﷺ نے مالک سے فرمایا : تم نے اسے بتایا نہیں جب کہ وہ جاہل تھا اور نہ کھلایا ہی جب کہ وہ بھوکا تھا ، اور آپ ﷺ نے اسے حکم دیا اس نے میرا کپڑا واپس کردیا اور ایک وسق (ساٹھ صاع) یا نصف وسق (تیس صاع) غلہ مجھے دیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/آداب القضاة ٢٠ (٥٤١١) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٦٧ (٢٢٩٨) ، (تحفة الأشراف : ٥٠٦١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٦٦) (صحیح )

【144】

جب مسافر کھجور کے درختوں یا دودھ والے جانوروں پر گذرے تو کھجور کھالے اور دودھ پی لے اگرچہ مالک کی اجازت نہ ہو

ابوبشر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عباد بن شرحبیل سے جو ہمیں میں سے قبیلہ بنو غبر کے ایک فرد تھے اسی مفہوم کی حدیث سنی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٥٠٦١) (صحیح )

【145】

جب مسافر کھجور کے درختوں یا دودھ والے جانوروں پر گذرے تو کھجور کھالے اور دودھ پی لے اگرچہ مالک کی اجازت نہ ہو

ابورافع بن عمرو غفاری کے چچا کہتے ہیں کہ میں کم سن تھا اور انصار کے کھجور کے درختوں پر ڈھیلے مارا کرتا تھا، لوگ مجھے (پکڑ کر) نبی اکرم ﷺ کے پاس لائے، آپ نے فرمایا : بچے ! تم کھجور کے درختوں پر کیوں پتھر مارتے ہو ؟ میں نے عرض کیا : (کھجوریں) کھانے کی غرض سے، آپ ﷺ نے فرمایا : پتھر نہ مارا کرو، جو نیچے گرا ہو اسے کھالیا کرو ، پھر آپ ﷺ نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا، اور میرے لیے دعا کی کہ اے اللہ اس کے پیٹ کو آسودہ کر دے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/البیوع ٥٤ (١٢٨٨) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٦٧ (٢٢٩٩) ، (تحفة الأشراف : ٣٥٩٥) (ضعیف) (اس سند میں ابن أبی الحکم مجہول ہیں، اور ان کی دادی مبہم )

【146】

بعض لوگوں کے نزدیک مالک کی اجازت کے بغیر جانوروں کا دودھ نہ پینا چاہئے

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کوئی کسی کے جانور کو اس کی اجازت کے بغیر نہ دوہے، کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کے بالاخانہ میں آ کر اس کا گودام توڑ کر غلہ نکال لیا جائے ؟ اسی طرح ان جانوروں کے تھن ان کے مالکوں کے گودام ہیں تو کوئی کسی کا جانور اس کی اجازت کے بغیر نہ دوہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللقطة ٨ (٢٤٣٥) ، صحیح مسلم/اللقطة ٢ (١٧٢٦) ، (تحفة الأشراف : ٨٣٠٠، ٨٣٥٦) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/التجارات ٦٨ (٢٣٠٢) ، موطا امام مالک/الاستئذان ٦ (١٧) ، مسند احمد (٢/٤، ٦، ٥٧) (صحیح )

【147】

فرمانبرداری کا بیان

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں آیت يا أيها الذين آمنوا أطيعوا الله وأطيعوا الرسول وأولي الأمر منکم اے ایمان والو ! فرمانبرداری کرو اللہ تعالیٰ کی اور فرمانبرداری کرو رسول ( ﷺ ) کی اور اپنے میں سے اختیار والوں کی (سورۃ النساء : ٥٩) عبداللہ (عبداللہ بن حذافہ) قیس بن عدی (رض) کے بارے میں نازل ہوئی ہے جنہیں نبی اکرم ﷺ نے ایک سریہ میں بھیجا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیرسورة النساء ١١ (٤٥٨٤) ، صحیح مسلم/الإمارة ٨ (١٨٣٤) ، سنن الترمذی/الجھاد ٣ (١٦٧٢) ، سنن النسائی/البیعة ٢٨ (٤١٩٩) ، (تحفة الأشراف : ٥٦٥١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٣٧) (صحیح )

【148】

فرمانبرداری کا بیان

علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک لشکر بھیجا، اور ایک آدمی ١ ؎ کو اس کا امیر بنایا اور لشکر کو حکم دیا کہ اس کی بات سنیں، اور اس کی اطاعت کریں، اس آدمی نے آگ جلائی، اور لوگوں کو حکم دیا کہ وہ اس میں کود پڑیں، لوگوں نے اس میں کودنے سے انکار کیا اور کہا : ہم تو آگ ہی سے بھاگے ہیں اور کچھ لوگوں نے اس میں کود جانا چاہا، نبی اکرم ﷺ کو یہ خبر پہنچی تو آپ ﷺ نے فرمایا : اگر وہ اس میں داخل ہوگئے ہوتے تو ہمیشہ اسی میں رہتے ، اور فرمایا : اللہ کی معصیت میں کسی کی اطاعت نہیں، اطاعت تو بس نیکی کے کام میں ہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازي ٥٩ (٤٣٤٠) ، والأحکام ٤ (٧١٤٥) ، وأخبار الآحاد ١ (٧٢٥٧) ، صحیح مسلم/الإمارة ٨ (١٨٤٠) ، سنن النسائی/البیعة ٣٤ (٤٢١٠) ، (تحفة الأشراف : ١٠١٦٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٨٢، ٩٤، ١٢٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس آدمی کا نام عبداللہ بن حذافہ سہمی تھا جن کا تذکرہ پچھلی حدیث میں ہے، بعض لوگ کہتے ہیں : ان کا نام ” علقمہ بن مجزر تھا “۔ ٢ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ اگر امیر شریعت کے خلاف حکم دے تو اس کی اطاعت نہ کی جائے۔

【149】

فرمانبرداری کا بیان

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسلمان آدمی پر امیر کی بات ماننا اور سننا لازم ہے چاہے وہ پسند کرے یا ناپسند، جب تک کہ اسے کسی نافرمانی کا حکم نہ دیا جائے، لیکن جب اسے نافرمانی کا حکم دیا جائے تو نہ سننا ہے اور نہ ماننا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجھاد ١٠٨ (٢٩٥٥) ، والأحکام ٤ (٧١٤٤) ، صحیح مسلم/الإمارة ٨ (١٨٣٩) ، (تحفة الأشراف : ٨١٥٠) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الجھاد ٢٩ (١٧٠٧) ، سنن النسائی/البیعة ٣٤ (٤٢١٧) ، سنن ابن ماجہ/الجھاد ٤٠ (٢٨٦٤) ، مسند احمد (٢/١٧، ٤٢) (صحیح )

【150】

فرمانبرداری کا بیان

عقبہ بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک سریہ (دستہ) بھیجا، میں نے ان میں سے ایک شخص کو تلوار دی، جب وہ لوٹ کر آیا تو کہنے لگا : کاش آپ وہ دیکھتے جو رسول اللہ ﷺ نے ہم کو ملامت کی ہے، آپ نے فرمایا : کیا تم سے یہ نہیں ہوسکتا تھا کہ جب میں نے ایک شخص کو بھیجا اور وہ میرا حکم بجا نہیں لایا تو تم اس کے بدلے کسی ایسے شخص کو مقرر کردیتے جو میرا حکم بجا لاتا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٠٠١٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١١٠) (حسن )

【151】

لشکر کے سب لوگوں کو ملارہنا چاہئے

ابوثعلبہ خشنی (رض) کہتے ہیں کہ لوگ جب کسی جگہ اترتے، عمرو کی روایت میں ہے : رسول اللہ ﷺ جب کسی جگہ اترتے تو لوگ گھاٹیوں اور وادیوں میں بکھر جاتے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمہارا ان گھاٹیوں اور وادیوں میں بکھر جانا شیطان کی جانب سے ہے ١ ؎، اس کے بعد رسول اللہ ﷺ کسی جگہ نہیں اترے مگر بعض بعض سے اس طرح سمٹ جاتا کہ یہ کہا جاتا کہ اگر ان پر کوئی کپڑا پھیلا دیا جاتا تو سب کو ڈھانپ لیتا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١١٨٧١) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/ الکبری/ السیر (٨٨٥٦) ، مسند احمد (٤/١٩٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ شیطان کا مقصد یہ ہے کہ تم ایک دوسرے سے جدا رہو تاکہ تمہارا دشمن تم پر بہ آسانی حملہ کرسکے۔

【152】

لشکر کے سب لوگوں کو ملارہنا چاہئے

معاذ بن انس جھنی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے اللہ کے نبی کریم ﷺ کے ساتھ فلاں اور فلاں غزوہ کیا تو لوگوں نے پڑاؤ کی جگہ کو تنگ کردیا اور راستے مسدود کردیئے ١ ؎ تو اللہ کے نبی کریم ﷺ نے ایک منادی کو بھیجا جو لوگوں میں اعلان کر دے کہ جس نے پڑاؤ کی جگہیں تنگ کردیں، یا راستہ مسدود کردیا تو اس کا جہاد نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١١٣٠٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٤١) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی بلا ضرورت زیادہ جگہیں گھیر کر بیٹھ گئے اور دوسروں پر راستہ تنگ کردیا۔

【153】

لشکر کے سب لوگوں کو ملارہنا چاہئے

معاذ بن انس (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے اللہ کے نبی کریم ﷺ کے ساتھ غزوہ کیا، پھر راوی نے اسی مفہوم کی حدیث بیان کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١١٣٠٣) (حسن )

【154】

دشمن سے مقابلہ کی تمنا کرنا مکروہ ہے

عمر بن عبیداللہ بن معمر کے غلام اور ان کے کاتب (سکریٹری) سالم ابونضر کہتے ہیں کہ عبداللہ بن ابی اوفی (رض) نے ان کو جب وہ خارجیوں کی طرف سے نکلے لکھا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک لڑائی میں جس میں دشمن سے سامنا تھا فرمایا : لوگو ! دشمنوں سے مڈبھیڑ کی تمنا نہ کرو، اور اللہ تعالیٰ سے عافیت طلب کرو، لیکن جب ان سے مڈبھیڑ ہوجائے تو صبر سے کام لو، اور جان لو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے ، پھر فرمایا : اے اللہ ! کتابوں کے نازل فرمانے والے، بادلوں کو چلانے والے، اور جتھوں کو شکست دینے والے، انہیں شکست دے، اور ہمیں ان پر غلبہ عطا فرما ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجھاد ٩٨ (٢٩٣٣) ، والمغازي ٢٩ (٤١١٥) ، والدعوات ٥٧ (٦٣٩٢) ، والتمني ٨ (٧٢٣٧) ، والتوحید ٣٤ (٧٤٨٩) ، صحیح مسلم/الجھاد ٧ (١٧٤٢) ، (تحفة الأشراف : ٥١٦١) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الجھاد ٨ (١٦٧٨) ، سنن ابن ماجہ/الجھاد ١٥ (٢٧٩٦) ، مسند احمد ٤/٣٥٤) (صحیح )

【155】

جب دشمن سے سامنا ہو تو کیا کہے

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب غزوہ کرتے تو فرماتے : اللهم أنت عضدي ونصيري بك أحول وبک أصول وبک أقاتل اے اللہ ! تو ہی میرا بازو اور مددگار ہے، تیری ہی مدد سے میں چلتا پھرتا ہوں، اور تیری ہی مدد سے میں حملہ کرتا ہوں، اور تیری ہی مدد سے میں قتال کرتا ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الدعوات ١٢٢ (٣٥٨٤) ، سنن النسائی/الیوم واللیلة (٦٠٤) ، (تحفة الأشراف : ١٣٢٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (/٣/١٨٤) (صحیح )

【156】

لڑنے سے پہلے مشرکین کو اسلام کی دعوت دینا

ابن عون کہتے ہیں کہ میں نے نافع کے پاس لڑائی کے وقت کفار و مشرکین کو اسلام کی دعوت دینے کے بارے میں پوچھنے کے لیے خط لکھا، تو انہوں نے مجھے لکھا : یہ شروع اسلام میں تھا (اس کے بعد) اللہ کے نبی کریم ﷺ نے قبیلہ بنو مصطلق پر حملہ کیا، وہ غفلت میں تھے، اور ان کے چوپائے پانی پی رہے تھے، آپ ﷺ نے ان میں سے جو لڑنے والے تھے انہیں قتل کیا، اور باقی کو گرفتار کرلیا ١ ؎، اور جویریہ بنت الحارث ٢ ؎ کو آپ ﷺ نے اسی دن پایا، یہ بات مجھ سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کی جو خود اس لشکر میں تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ ایک عمدہ حدیث ہے، اسے ابن عون نے نافع سے روایت کیا ہے اور اس میں ان کا کوئی شریک نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العتق ١٣(٢٥٤١) ، صحیح مسلم/الجھاد ١ (١٧٣٠) ، (تحفة الأشراف : ٧٧٤٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣١، ٣٢، ٥١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : معلوم ہوا کہ جن کافروں اور مشرکوں تک اسلام کی دعوت ان پر حملہ سے پہلے پہنچ چکی ہو تو انہیں اسلام کی دعوت پیش کرنے سے پہلے ان سے قتال جائز ہے۔ ٢ ؎ : یہ نبی اکرم ﷺ کی ازواج مطہرات میں سے ہیں، ان کا انتقال ٥٠ ہجری میں ہوا۔

【157】

لڑنے سے پہلے مشرکین کو اسلام کی دعوت دینا

انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ فجر کے وقت حملہ کرتے تھے اور غور سے (اذان) سننے کی کوشش کرتے تھے جب اذان سن لیتے تو رک جاتے، ورنہ حملہ کردیتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٦ (٣٨٢) ، سنن الترمذی/السیر ٤٨ (١٦١٨) ، (تحفة الأشراف : ٣١٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٣٢، ٢٢٩، ٢٤١، ٢٧٠، ٣٥٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ جب اذان کی آواز آتی تو معلوم ہوجاتا کہ یہ لوگ مسلمان ہیں، اور اگر اذان کی آواز نہیں آتی تو ان کا کافر ہوجانا یقینی ہوجاتا اس لئے آپ ﷺ ان پر حملہ کردیتے، اور چونکہ ان تک اسلام کی دعوت پہنچ چکی تھی اس لئے بغیر دعوت دیئے حملہ کردیتے تھے۔

【158】

لڑنے سے پہلے مشرکین کو اسلام کی دعوت دینا

عصام مزنی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم کو ایک سریہ میں بھیجا اور فرمایا : جب تم کوئی مسجد دیکھنا، یا کسی مؤذن کو اذان دیتے ہوئے سننا تو کسی کو قتل نہ کرنا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/السیر ٢ (١٥٤٩) ، (تحفة الأشراف : ٩٩٠١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٤٨) (ضعیف) (اس کے راوی عبد الملک لین الحدیث، اور ابن عصام مجہول ہیں )

【159】

لڑائی میں حیلہ کرنے کا بیان

جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لڑائی دھوکہ و فریب کا نام ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجھاد ١٥٧ (٣٠٣٠) ، صحیح مسلم/الجھاد ٥ (١٧٣٩) ، سنن الترمذی/الجھاد ٥ (١٦٧٥) ، (تحفة الأشراف : ٢٥٢٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٠٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی جنگ کے دوران کفار کو جہاں تک ممکن ہو دھوکہ دینا جائز ہے بشرطیکہ یہ دھوکہ ان سے کئے گئے کسی عہد و پیمان کے توڑنے کا سبب نہ بنے، تین مقامات جہاں کذب کا سہارا لیا جاسکتا ہے ان میں سے ایک جنگ کا مقام بھی ہے جیسا کہ صحیح حدیث سے ثابت ہے۔

【160】

لڑائی میں حیلہ کرنے کا بیان

کعب بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب کسی غزوہ کا ارادہ کرتے تو جس سمت جانا ہوتا اس کے علاوہ کا توریہ ١ ؎ کرتے اور فرماتے : جنگ دھوکہ کا نام ہے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے معمر کے سوا کسی اور نے اس سند سے نہیں روایت کیا ہے، وہ اس سے آپ ﷺ کے قول الحرب خدعة کو مراد لے رہے ہیں، یہ لفظ صرف عمرو بن دینار کے واسطے سے جابر (رض) سے مروی ہے یا معمر کے واسطے سے ہمام بن منبہ سے مروی ہے جسے وہ ابوہریرہ (رض) سے روایت کرتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١١١٥١) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجھاد ١٠٣ (٢٩٤٧) ، والمغازي ٧٩ (٤٤١٨) ، سنن الدارمی/السیر ١٤ (٢٤٨٤) (صحیح) دون الشطر الثاني وضاحت : ١ ؎ : یعنی مشرق کی طرف نکلنا ہوتا تو مغرب کا اشارہ کرتے، اور شمال کی طرف نکلنا ہوتا تو جنوب کا اشارہ کرتے، اصل بات چھپا کر دوسری بات ظاہر کرنا، یہی توریہ ہے۔

【161】

رات میں اچانک حملہ کرنے کا بیان

سلمہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم پر ابوبکر صدیق (رض) کو امیر بنا کر بھیجا، ہم نے مشرکین کے کچھ لوگوں سے جہاد کیا تو ہم نے ان پر شب خون مارا، ہم انہیں قتل کر رہے تھے، اور اس رات ہمارا شعار (کوڈ) أمت أمت ١ ؎ تھا، اس رات میں نے اپنے ہاتھ سے سات گھروں کے مشرکوں کو قتل کیا ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الجھاد ٣٠ (٢٨٤٠) ، (تحفة الأشراف : ٤٥١٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٤٦) ، سنن الدارمی/السیر ١٥ (٢٤٩٥) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اے مدد کرنے والے دشمن کو فنا کر۔ ٢ ؎ : اس حدیث سے کافروں پر شب خون مارنے کا جواز ثابت ہوا اگر اسلام کی دعوت ان تک پہنچ چکی ہو۔

【162】

ساقہ کے ساتھ امام کا رہنا

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سفر میں ساقہ (لشکر کے پچھلے دستہ) کے ساتھ رہا کرتے تھے، آپ ﷺ کمزوروں کو ساتھ لیتے، انہیں اپنے پیچھے سواری پر بٹھا لیتے اور ان کے لیے دعا کرتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٢٦٨٣) (صحیح )

【163】

مشرکین سے کس بات پر جنگ کی جائے؟

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک قتال کروں جب تک کہ وہ لا إله إلا الله کی گواہی نہ دینے لگ جائیں، پھر جب وہ اس کلمہ کو کہہ دیں تو ان کے خون اور مال مجھ سے محفوظ ہوگئے، سوائے اس کے حق کے (یعنی اگر وہ کسی کا مال لیں یا خون کریں تو اس کے بدلہ میں ان کا مال لیا جائے گا اور ان کا خون کیا جائے گا) اور ان کا حساب اللہ پر ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الإیمان ١(٢٦٠٦) ، سنن النسائی/المحاربة ١ (٣٩٨١) ، سنن ابن ماجہ/الفتن (٣٩٢٧) ، (تحفة الأشراف : ١٢٥٠٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجھاد ١٠٢ (٢٩٤٦) ، صحیح مسلم/الإیمان ٨ (٢٦١٠) ، مسند احمد (٢/ ٣١٤، ٣٧٧، ٤٢٣، ٤٣٩، ٤٧٥، ٤٨٢، ٥٠٢) (صحیح متواتر )

【164】

مشرکین سے کس بات پر جنگ کی جائے؟

انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک قتال کروں جب تک کہ وہ لا إله إلا الله وأن محمدا عبده ورسوله نہیں ہے کوئی معبود برحق سوائے اللہ کے اور محمد ﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں کی گواہی دینے، ہمارے قبلہ کا استقبال کرنے، ہمارا ذبیحہ کھانے، اور ہماری نماز کی طرح نماز پڑھنے نہ لگ جائیں، تو جب وہ ایسا کرنے لگیں تو ان کے خون اور مال ہمارے اوپر حرام ہوگئے سوائے اس کے حق کے ساتھ اور ان کے وہ سارے حقوق ہوں گے جو مسلمانوں کے ہیں اور ان پر وہ سارے حقوق عائد ہوں گے جو مسلمانوں پر ہوتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٢٨ (٣٩٢) ، سنن الترمذی/الایمان ٢ (٢٦٠٨) ، سنن النسائی/تحریم الدم ١ (٣٩٧٢) ، والإیمان ١٥ (٥٠٠٦) ، (تحفة الأشراف : ٧٠٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٩٩، ٢٢٤) (صحیح )

【165】

مشرکین سے کس بات پر جنگ کی جائے؟

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں مشرکوں سے قتال کروں ، پھر آگے اسی مفہوم کی حدیث ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٧٨٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/ الصلاة ٢٨ (٣٩٣ تعلیقًا) (صحیح )

【166】

مشرکین سے کس بات پر جنگ کی جائے؟

اسامہ بن زید (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حرقات ١ ؎ کی طرف ایک سریہ میں بھیجا، تو ان کافروں کو ہمارے آنے کا علم ہوگیا، چناچہ وہ سب بھاگ کھڑے ہوئے، لیکن ہم نے ایک آدمی کو پکڑ لیا، جب ہم نے اسے گھیرے میں لے لیا تو لا إله إلا الله کہنے لگا (اس کے باوجود) ہم نے اسے مارا یہاں تک کہ اسے قتل کردیا، پھر میں نے نبی اکرم ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن لا إله إلا الله کے سامنے تیری مدد کون کرے گا ؟ میں نے کہا : اللہ کے رسول ! اس نے یہ بات تلوار کے ڈر سے کہی تھی، آپ ﷺ نے فرمایا : تم نے اس کا دل پھاڑ کر دیکھ کیوں نہیں لیا کہ ٢ ؎ اس نے کلمہ تلوار کے ڈر سے پڑھا ہے یا (تلوار کے ڈر سے) نہیں (بلکہ اسلام کے لیے) ؟ قیامت کے دن لا إله إلا الله کے سامنے تیری مدد کون کرے گا ؟ آپ ﷺ برابر یہی بات فرماتے رہے، یہاں تک کہ میں نے سوچا کاش کہ میں آج ہی اسلام لایا ہوتا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازي ٤٥ (٤٢٦٩) ، والدیات ٢ (٦٨٧٢) ، صحیح مسلم/الإیمان ٤١ (٩٦) ، سنن النسائی/الکبری (٨٥٩٤) ، (تحفة الأشراف : ٨٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : جہینہ کے چند قبائل کا نام ہے۔ ٢ ؎ : زبان سے کلمہ شہادت پڑھنے والے کا شمار مسلمانوں میں ہوگا، اس کے ساتھ دنیا میں وہی سلوک ہوگا جو کسی مسلم مومن کے ساتھ ہوتا ہے اس کے کلمہ پڑھنے کا سبب خواہ کچھ بھی ہو، کیونکہ کلمہ کا تعلق ظاہر سے ہے نہ کہ باطن سے اور باطن کا علم صرف اللہ کو ہے نبی اکرم ﷺ کے فرمان أفلا شققت عن قلبه کا یہی مفہوم ہے۔

【167】

مشرکین سے کس بات پر جنگ کی جائے؟

مقداد بن اسود (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! مجھے بتائیے اگر کافروں میں کسی شخص سے میری مڈبھیڑ ہوجائے اور وہ مجھ سے قتال کرے اور میرا ایک ہاتھ تلوار سے کاٹ دے اس کے بعد درخت کی آڑ میں چھپ جائے اور کہے : میں نے اللہ کے لیے اسلام قبول کرلیا، تو کیا میں اسے اس کلمہ کے کہنے کے بعد قتل کروں ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نہیں تم اسے قتل نہ کرو ، میں نے کہا : اللہ کے رسول ! اس نے میرا ہاتھ کاٹ دیا ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اسے قتل نہ کرو، کیونکہ اگر تم نے اسے قتل کردیا تو قتل کرنے سے پہلے تمہارا جو مقام تھا وہ اس مقام میں آجائے گا اور تم اس مقام میں پہنچ جاؤ گے جو اس کلمہ کے کہنے سے پہلے اس کا تھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازي ١٢ (٤٠١٩) ، والدیات ١ (٦٨٦٥) ، صحیح مسلم/الإیمان ٤١ (٩٥) ، (تحفة الأشراف : ١١٥٤٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣، ٤، ٥، ٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی وہ معصوم الدم قرار پائے گا اور تمہیں بطور قصاص قتل کیا جائے گا۔

【168】

جوسجدہ کر کے پناہ حاصل کرے اس کو قتل کرنیکی ممانعت

جریر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے قبیلہ خثعم کی جانب ایک سریہ بھیجا تو ان کے کچھ لوگوں نے سجدہ کر کے بچنا چاہا پھر بھی لوگوں نے انہیں قتل کرنے میں جلد بازی کی، نبی اکرم ﷺ کو اس کی خبر پہنچی تو آپ نے ان کے لیے نصف دیت ١ ؎ کا حکم دیا اور فرمایا : میں ہر اس مسلمان سے بری ہوں جو مشرکوں کے درمیان رہتا ہے ، لوگوں نے پوچھا : اللہ کے رسول ! کیوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : دونوں کی (یعنی اسلام اور کفر کی) آگ ایک ساتھ نہیں رہ سکتی ٢ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے ہشیم، معمر، خالد واسطی اور ایک جماعت نے روایت کیا ہے اور ان لوگوں نے جریر کا ذکر نہیں کیا ہے ٣ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/السیر ٤٢ (١٦٠٥) ، سنن النسائی/القسامة ٢١ (٤٧٨٤) (عن قیس مرسلا) ، (تحفة الأشراف : ٣٢٢٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : نصف دیت کا حکم دیا اور باقی نصف کفار کے ساتھ رہنے سے ساقط ہوگئی کیونکہ کافروں کے ساتھ رہ کر اپنی ذات کو انہوں نے جو فائدہ پہنچایا درحقیقت یہ ایک جرم تھا اور اسی جرم کی پاداش میں نصف دیت ساقط ہوگئی۔ ٢ ؎ : اس جملہ کی توجیہ میں تین اقوال وارد ہیں : ایک مفہوم یہ ہے کہ دونوں کا حکم یکساں نہیں ہوسکتا، دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے دارالاسلام کو دارالکفر سے علیحدہ کردیا ہے لہٰذا مسلمانوں کے لئے یہ درست نہیں ہے کہ وہ کافروں کے ملک میں ان کے ساتھ رہے، تیسرا یہ کہ مسلمان مشرک کی خصوصیات اور علامتوں کو نہ اپنائے اور نہ ہی چال ڈھال اور شکل و صورت میں ان کے ساتھ تشبہ اختیار کرے۔ ٣ ؎ : یعنی : ان لوگوں نے اس حدیث کو عن قیس عن النبی ﷺ مرسلاً روایت کیا ہے، بخاری نے بھی مرسل ہی کو صحیح قرار دیا ہے مگر موصول کی متابعات صحیحہ موجود ہیں جیسا کہ البانی نے (ارواء الغلیل، حدیث نمبر : ١٢٠٧ میں) ذکر کیا ہے۔

【169】

کافروں کے مقابلہ سے بھاگنا

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ آیت کریمہ إن يكن منکم عشرون صابرون يغلبوا مائتين اگر تم میں سے بیس بھی صبر کرنے والے ہوں گے تو دو سو پر غالب رہیں گے (سورۃ الانفال : ٦٥) نازل ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر یہ فرض کردیا کہ ان میں کا ایک آدمی دس کافروں کے مقابلہ میں نہ بھاگے، تو یہ چیز ان پر شاق گزری، پھر تخفیف ہوئی اور اللہ نے فرمایا : الآن خفف الله عنكم اب اللہ نے تمہارا بوجھ ہلکا کردیا ہے وہ خوب جانتا ہے کہ تم میں کمزوری ہے تو اگر تم میں سے ایک سو صبر کرنے والے ہوں گے تو وہ دو سو پر غالب رہیں گے (سورۃ الانفال : ٦٦) ۔ ابوتوبہ نے پوری آیت يغلبوا مائتين تک پڑھ کر سنایا اور کہا : جب اللہ نے ان سے تعداد میں تخفیف کردی تو اس تخفیف کی مقدار میں صبر میں بھی کمی کردی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التفسیر ٧ (٤٦٥٣) ، (تحفة الأشراف : ٦٠٨٨) (صحیح )

【170】

کافروں کے مقابلہ سے بھاگنا

عبداللہ بن عمر (رض) کا بیان ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے سرایا میں سے کسی سریہ میں تھے، وہ کہتے ہیں کہ لوگ تیزی کے ساتھ بھاگے، بھاگنے والوں میں میں بھی تھا، جب ہم رکے تو ہم نے آپس میں مشورہ کیا کہ اب کیا کریں ؟ ہم کافروں کے مقابلہ سے بھاگ کھڑے ہوئے اور اللہ کے غضب کے مستحق قرار پائے، پھر ہم نے کہا : چلو ہم مدینہ چلیں اور وہاں ٹھہرے رہیں، (پھر جب دوسری بار جہاد ہو) تو چل نکلیں اور ہم کو کوئی دیکھنے نہ پائے، خیر ہم مدینہ گئے، وہاں ہم نے اپنے دل میں کہا : کاش ! ہم اپنے آپ کو رسول اللہ ﷺ کے سامنے پیش کرتے تو زیادہ بہتر ہوتا، اگر ہماری توبہ قبول ہوئی تو ہم ٹھہرے رہیں گے ورنہ ہم چلے جائیں گے، ہم رسول اللہ ﷺ کے انتظار میں فجر سے پہلے بیٹھ گئے، جب آپ ﷺ نکلے تو ہم کھڑے ہوئے اور آپ کے پاس جا کر ہم نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم بھاگے ہوئے لوگ ہیں، آپ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : نہیں، بلکہ تم لوگ عکارون ہو (یعنی دوبارہ لڑائی میں واپس لوٹنے والے ہو) ۔ عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں : (خوش ہو کر) ہم آپ کے نزدیک گئے اور آپ کا ہاتھ چوما تو آپ ﷺ نے فرمایا : میں مسلمانوں کی پناہ گاہ ہوں ، (یعنی ان کا ملجا و ماویٰ ہوں میرے سوا وہ اور کہاں جائیں گے ؟ ) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الجھاد ٣٦ (١٧١٦) ، سنن ابن ماجہ/ الأدب ١٦ (٣٧٠٤) ، (تحفة الأشراف : ٧٢٩٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٣، ٥٨، ٧٠، ٨٦، ٩٩، ١٠٠، ١١٠) ویأتی ہذا الحدیث فی الأدب (٥٢٢٣) (ضعیف) (اس کے راوی یزید بن ابی زیاد ضعیف ہیں )

【171】

کافروں کے مقابلہ سے بھاگنا

ابوسعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ ومن يولهم يومئذ دبره ١ ؎ بدر کے دن نازل ہوئی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٤٣١٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : پوری آیت اس طرح ہے إلا متحرفا لقتال أو متحيزا إلى فئة فقد باء بغضب من الله ( سورة الانفال : ١٦) ” جو شخص لڑائی سے اپنی پیٹھ موڑے گا، مگر ہاں جو لڑائی کے لئے پینترا بدلتا ہو یا اپنی جماعت کی طرف پناہ لینے آتا ہو وہ مستثنی ہے باقی جو ایسا کرے گا وہ اللہ کے غضب میں آجائیگا “ ، حدیث میں مذکور ہے لوگوں نے خود کو اس آیت کا مصداق سمجھ لیا تھا تو اللہ کے رسول ﷺ نے ان کو مستثنی لوگوں میں سے قرار دیا۔

【172】

None

ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ کعبہ کے سائے میں ایک چادر پر تکیہ لگائے ہوئے تھے، ہم نے آپ سے ( کافروں کے غلبہ کی ) شکایت کی اور کہا: کیا آپ ہمارے لیے اللہ سے مدد طلب نہیں کرتے؟ کیا آپ اللہ سے ہمارے لیے دعا نہیں کرتے؟ ( یہ سن کر ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے اور آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا، اور فرمایا: تم سے پہلے آدمی کا یہ حال ہوتا کہ وہ ایمان کی وجہ سے پکڑا جاتا تھا، اس کے لیے زمین میں گڑھا کھودا جاتا تھا، اس کے سر کو آرے سے چیر کر دو ٹکڑے کر دیا جاتا تھا مگر یہ چیز اسے اس کے دین سے نہیں پھیرتی تھی، لوہے کی کنگھیوں سے اس کے ہڈی کے گوشت اور پٹھوں کو نوچا جاتا تھا لیکن یہ چیز اسے اس کے دین سے نہیں پھیرتی تھی، اللہ کی قسم! اللہ اس دین کو پورا کر کے رہے گا، یہاں تک کہ سوار صنعاء سے حضر موت تک جائے گا اور سوائے اللہ کے یا اپنی بکریوں کے سلسلہ میں بھیڑئے کے کسی اور سے نہیں ڈرے گا لیکن تم لوگ جلدی کر رہے ہو ۔

【173】

وہ قیدی جو کافر ہونے پر زبردستی کیا جائے

خباب (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور آپ کعبہ کے سائے میں ایک چادر پر تکیہ لگائے ہوئے تھے، ہم نے آپ سے (کافروں کے غلبہ کی) شکایت کی اور کہا : کیا آپ ہمارے لیے اللہ سے مدد طلب نہیں کرتے ؟ کیا آپ اللہ سے ہمارے لیے دعا نہیں کرتے ؟ (یہ سن کر) آپ ﷺ بیٹھ گئے اور آپ کا چہرہ سرخ ہوگیا، اور فرمایا : تم سے پہلے آدمی کا یہ حال ہوتا کہ وہ ایمان کی وجہ سے پکڑا جاتا تھا، اس کے لیے زمین میں گڑھا کھودا جاتا تھا، اس کے سر کو آرے سے چیر کر دو ٹکڑے کردیا جاتا تھا مگر یہ چیز اسے اس کے دین سے نہیں پھیرتی تھی، لوہے کی کنگھیوں سے اس کے ہڈی کے گوشت اور پٹھوں کو نوچا جاتا تھا لیکن یہ چیز اسے اس کے دین سے نہیں پھیرتی تھی، اللہ کی قسم ! اللہ اس دین کو پورا کر کے رہے گا، یہاں تک کہ سوار صنعاء سے حضرموت تک جائے گا اور سوائے اللہ کے یا اپنی بکریوں کے سلسلہ میں بھیڑئے کے کسی اور سے نہیں ڈرے گا لیکن تم لوگ جلدی کر رہے ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المناقب ٢٢ (٣٤٦٦) ٢٥ (٣٨٢٩) ، والإکراہ ١ (٦٥٤٤) ، (تحفة الأشراف : ٣٥١٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٠٩، ١١٠، ١١١، ٦/٣٩٥) (صحیح ) عبیداللہ بن ابی رافع جو علی بن ابی طالب (رض) کے منشی تھے، کہتے ہیں : میں نے علی (رض) کو کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے، زبیر اور مقداد تینوں کو بھیجا اور کہا : تم لوگ جاؤ یہاں تک کہ روضہ خاخ ١ ؎ پہنچو، وہاں ایک عورت کجاوہ میں بیٹھی ہوئی اونٹ پر سوار ملے گی اس کے پاس ایک خط ہے تم اس سے اسے چھین لینا ، تو ہم اپنے گھوڑے دوڑاتے ہوئے چلے یہاں تک کہ روضہ خاخ پہنچے اور دفعتاً اس عورت کو جا لیا، ہم نے اس سے کہا : خط لاؤ، اس نے کہا : میرے پاس کوئی خط نہیں ہے، میں نے کہا : خط نکالو ورنہ ہم تمہارے کپڑے اتار دیں گے، اس عورت نے وہ خط اپنی چوٹی سے نکال کردیا، ہم اسے نبی اکرم ﷺ کے پاس لائے، وہ حاطب بن ابوبلتعہ (رض) کی جانب سے کچھ مشرکوں کے نام تھا، وہ انہیں رسول اللہ ﷺ کے بعض امور سے آگاہ کر رہے تھے، آپ ﷺ نے پوچھا : حاطب یہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا : اللہ کے رسول ! میرے سلسلے میں جلدی نہ کیجئے، میں تو ایسا شخص ہوں جو قریش میں آ کر شامل ہوا ہوں یعنی ان کا حلیف ہوں، خاص ان میں سے نہیں ہوں، اور جو لوگ قریش کی قوم سے ہیں وہاں ان کے قرابت دار ہیں، مشرکین اس قرابت کے سبب مکہ میں ان کے مال اور عیال کی نگہبانی کرتے ہیں، چونکہ میری ان سے قرابت نہیں تھی، میں نے چاہا کہ میں ان کے حق میں کوئی ایسا کام کر دوں جس کے سبب مشرکین مکہ میرے اہل و عیال کی نگہبانی کریں، قسم اللہ کی ! میں نے یہ کام نہ کفر کے سبب کیا اور نہ ہی ارتداد کے سبب، یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس نے تم سے سچ کہا ، اس پر عمر (رض) بولے : مجھے چھوڑئیے، میں اس منافق کی گردن مار دوں، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ جنگ بدر میں شریک رہے ہیں، اور تمہیں کیا معلوم کہ اللہ نے اہل بدر کو جھانک کر نظر رحمت سے دیکھا، اور فرمایا : تم جو چاہو کرو میں تمہیں معاف کرچکا ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجھاد ١٤١ (٣٠٠٧) ، والمغازي ٩ (٣٩٨٣) ، و تفسیر الممتحنة ١ (٤٨٩٠) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٣٦ (٢٤٩٤) ، سنن الترمذی/تفسیرالقرآن ٦٠ (٣٣٠٥) ، (تحفة الأشراف : ١٠٢٢٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٧٩، ٢/٢٩٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مدینہ سے بارہ میل کی دوری پر ایک مقام کا نام ہے۔

【174】

اگر کوئی مسلمان کافروں کی طرف سے مسلمانوں کی جاسوسی کرے

اس سند سے بھی علی (رض) سے یہی قصہ مروی ہے، اس میں ہے کہ حاطب بن ابی بلتعہ نے اہل مکہ کو لکھ بھیجا کہ محمد ﷺ تمہارے اوپر حملہ کرنے والے ہیں، اس روایت میں یہ بھی ہے کہ وہ عورت بولی : میرے پاس تو کوئی خط نہیں ہے ، ہم نے اس کا اونٹ بٹھا کر دیکھا تو اس کے پاس ہمیں کوئی خط نہیں ملا، علی (رض) نے کہا : قسم ہے اس ذات کی جس کی قسم کھائی جاتی ہے ! میں تجھے قتل کر ڈالوں گا، ورنہ خط مجھے نکال کر دے، پھر پوری حدیث ذکر کی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ الجہاد ١٩٥ (٣٠٨١) ، المغازی ٩ (٣٩٨٣) ، الاستئذان ٢٣ (٦٢٥٩) ، صحیح مسلم/ فضائل الصحابة ٣٦ (٢٤٩٤) ، (تحفة الأشراف : ١٠١٦٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٠٥، ١٣١) (صحیح )

【175】

None

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے متعلق قتل کا حکم صادر فرمایا، یہ ابوسفیان کے جاسوس اور ایک انصاری کے حلیف تھے ۱؎، ان کا گزر حلقہ بنا کر بیٹھے ہوئے کچھ انصار کے پاس سے ہوا تو انہوں نے کہا کہ میں مسلمان ہوں، ایک انصاری نے کہا: اللہ کے رسول! یہ کہتا ہے کہ میں مسلمان ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے بعض لوگ ایسے ہیں کہ ہم انہیں ان کے ایمان کے سپرد کرتے ہیں، ان ہی میں سے فرات بن حیان بھی ہیں ۔

【176】

اگر ذمی کافر جاسوسی کرے

فرات بن حیان (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کے متعلق قتل کا حکم صادر فرمایا، یہ ابوسفیان کے جاسوس اور ایک انصاری کے حلیف تھے ١ ؎، ان کا گزر حلقہ بنا کر بیٹھے ہوئے کچھ انصار کے پاس سے ہوا تو انہوں نے کہا کہ میں مسلمان ہوں، ایک انصاری نے کہا : اللہ کے رسول ! یہ کہتا ہے کہ میں مسلمان ہوں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے بعض لوگ ایسے ہیں کہ ہم انہیں ان کے ایمان کے سپرد کرتے ہیں، ان ہی میں سے فرات بن حیان بھی ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١١٠٢٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٣٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ایک انصاری کے حلیف ہونے کے باوجود رسول اللہ ﷺ نے فرات بن حیان کے متعلق قتل کا حکم صادر فرمایا، اس سے معلوم ہوا کہ ذمی جاسوس کو قتل کرنا صحیح ہے۔ سلمہ بن الاکوع (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس مشرکوں میں سے ایک جاسوس آیا، آپ سفر میں تھے، وہ آپ کے اصحاب کے پاس بیٹھا رہا، پھر چپکے سے فرار ہوگیا، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اس کو تلاش کر کے قتل کر ڈالو ، سلمہ بن اکوع (رض) کہتے ہیں : سب سے پہلے میں اس کے پاس پہنچا اور جا کر اسے قتل کردیا اور اس کا مال لے لیا تو آپ ﷺ نے اسے بطور نفل (انعام) مجھے دیدیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجھاد ١٧٣ (٣٠٥١) ، (تحفة الأشراف : ٤٥١٤) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الجھاد ١٣ (١٧٥٤) مطولاً ، سنن ابن ماجہ/الجھاد ٢٩ (٢٨٣٦) ، مسند احمد (٤/٥٠) ، سنن الدارمی/السیر ١٥ (٢٤٩٥) (صحیح )

【177】

جو کافر پناہ لے کر مسلمانوں میں آئے اور پھر جاسوسی کرے

سلمہ بن الاکوع (رض) کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہوازن کا غزوہ کیا، وہ کہتے ہیں : ہم چاشت کے وقت کھانا کھا رہے تھے، اور اکثر لوگ ہم میں سے پیدل تھے، ہمارے ساتھ کچھ ناتواں اور ضعیف بھی تھے کہ اسی دوران ایک شخص سرخ اونٹ پر سوار ہو کر آیا، اور اونٹ کی کمر سے ایک رسی نکال کر اس سے اپنے اونٹ کو باندھا، اور لوگوں کے ساتھ کھانا کھانے لگا، جب اس نے ہمارے کمزوروں اور سواریوں کی کمی کو دیکھا تو اپنے اونٹ کی طرف دوڑتا ہوا نکلا، اس کی رسی کھولی پھر اسے بٹھایا اور اس پر بیٹھا اور اسے ایڑ لگاتے ہوئے تیزی کے ساتھ چل پڑا (جب لوگوں کو معلوم ہوا کہ یہ جاسوس ہے) تو قبیلہ اسلم کے ایک شخص نے اپنی خاکستری اونٹنی پر سوار ہو کر اس کا پیچھا کیا اور یہ لوگوں کی سواریوں میں سب سے بہتر تھی، پھر میں آگے بڑھا یہاں تک کہ میں نے اسے پا لیا اور حال یہ تھا کہ اونٹنی کا سر اونٹ کے پٹھے کے پاس اور میں اونٹنی کے پٹھے پر تھا، پھر میں تیزی سے آگے بڑھتا گیا یہاں تک کہ میں اونٹ کے پٹھے کے پاس پہنچ گیا، پھر آگے بڑھ کر میں نے اونٹ کی نکیل پکڑ لی اور اسے بٹھایا، جب اونٹ نے اپنا گھٹنا زمین پر ٹیکا تو میں نے تلوار میان سے نکال کر اس کے سر پر ماری تو اس کا سر اڑ گیا، میں اس کا اونٹ مع ساز و سامان کے کھینچتے ہوئے لایا تو لوگوں کے ساتھ رسول اللہ ﷺ نے آ کر میرا استقبال کیا اور پوچھا : اس شخص کو کس نے مارا ؟ لوگوں نے بتایا : سلمہ بن اکوع نے، آپ ﷺ نے فرمایا : اس کا سارا سامان انہی کو ملے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/ الجہاد ١٣ (١٧٥٤) ، (تحفة الأشراف : ٤٥١٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٤٩، ٥١) (حسن) (مؤلف کی اس سند سے حسن ہے، نیز یہ واقعہ صحیحین میں بھی ہے، جیسا کہ تخریج سے واضح ہے ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ امن حاصل کرنے والے کافر کے متعلق اگر یہ معلوم ہوجائے کہ یہ جاسوس ہے تو اسے قتل کرنا جائز ہے۔

【178】

جنگ کرنے کے لئے کونسا وقت بہتر ہے

نعمان بن مقرن (رض) کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ (لڑائی میں) شریک رہا آپ جب صبح کے وقت جنگ نہ کرتے تو قتال (لڑائی) میں دیر کرتے یہاں تک کہ آفتاب ڈھل جاتا، ہوا چلنے لگتی اور مدد نازل ہونے لگتی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجزیة ١ (٣١٦٠) ، سنن الترمذی/السیر ٤٦ (١٦١٣) ، (تحفة الأشراف : ١١٦٤٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٤٤٤) (صحیح )

【179】

دشمن سے مقابلہ کے وقت خاموش رہنا بہتر ہے

قیس بن عباد (رض) کہتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم قتال کے وقت آواز ١ ؎ ناپسند کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٩١٢٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : دوران قتال آواز کرنے سے مراد مجاہدین کا آپس میں ایک دوسرے کو بآواز بلند نام لے کر پکارنا یا ایسے الفاظ سے پکارنا ہے جس سے وہ فخر و غرور میں مبتلا ہوجائیں، اسے صحابہ ناپسند کرتے تھے۔ ابوبردہ (رض) اپنے والد (ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ) سے اور وہ نبی اکرم ﷺ سے اسی کے مثل روایت کرتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٩١٢٨) (ضعیف) (سابقہ حدیث میں ہشام دستوائی نے اسے قیس بن عباد کا قول روایت کیا ہے مطر صدوق راوی ہیں لیکن علماء نے انہیں کثیر الخطا قرار دیا ہے )

【180】

None

اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مثل روایت کرتے ہیں

【181】

جنگ کے وقت سواری سے اترنا درست ہے

براء (رض) کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم ﷺ کی حنین کے دن مشرکوں سے مڈبھیڑ ہوئی تو وہ چھٹ گئے (یعنی شکست کھا کر ادھر ادھر بھاگ کھڑے ہوئے) اور آپ ﷺ اپنے خچر سے اتر کر پیدل چلنے لگے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨٢٠) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الجھاد ١٥ (١٦٨٨) (صحیح )

【182】

لڑائی میں غرور اور تکبر کرنے کا بیان

جابر بن عتیک (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ فرماتے تھے : ایک غیرت وہ ہے جسے اللہ پسند کرتا ہے، اور دوسری غیرت وہ ہے جسے اللہ ناپسند کرتا ہے، رہی وہ غیرت جسے اللہ پسند کرتا ہے تو وہ شک کے مقامات میں غیرت کرنا ہے، رہی وہ غیرت جسے اللہ ناپسند کرتا ہے وہ شک کے علاوہ میں غیرت کرنا ہے، اور تکبر میں سے ایک وہ ہے جسے اللہ ناپسند کرتا ہے اور دوسرا وہ ہے جسے اللہ پسند کرتا ہے، پس وہ تکبر جسے اللہ پسند کرتا ہے وہ لڑائی کے دوران آدمی کا کافروں سے جہاد کرتے وقت تکبر کرنا اور اترانا ہے، اور صدقہ دیتے وقت اس کا خوشی سے اترانا ہے، اور وہ تکبر جسے اللہ ناپسند کرتا ہے وہ ظلم میں تکبر کرنا ہے ، اور موسیٰ کی روایت میں ہے : فخر و مباہات میں تکبر کرنا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الزکاة ٦٦ (٢٥٥٩) ، (تحفة الأشراف : ٣١٧٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٤٤٥، ٤٤٦) (حسن )

【183】

جب آدمی گھِرجائے تو کیا کرے

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے دس آدمیوں کو جاسوسی کے لیے بھیجا، اور ان کا امیر عاصم بن ثابت (رض) کو بنایا، ان سے لڑنے کے لیے ہذیل کے تقریباً سو تیر انداز نکلے، جب عاصم (رض) نے ان کے آنے کو محسوس کیا تو ان لوگوں نے ایک ٹیلے کی آڑ میں پناہ لی، کافروں نے ان سے کہا : اترو اور اپنے آپ کو سونپ دو ، ہم تم سے عہد کرتے ہیں کہ تم میں سے کسی کو قتل نہ کریں گے، عاصم (رض) نے کہا : رہی میری بات تو میں کافر کی امان میں اترنا پسند نہیں کرتا، اس پر کافروں نے انہیں تیروں سے مارا اور ان کے سات ساتھیوں کو قتل کردیا جن میں عاصم (رض) بھی تھے اور تین آدمی کافروں کے عہد اور اقرار پر اعتبار کر کے اتر آئے، ان میں ایک خبیب، دوسرے زید بن دثنہ، اور تیسرے ایک اور آدمی تھے رضی اللہ عنہم، جب یہ لوگ کفار کی گرفت میں آگئے تو کفار نے اپنی کمانوں کے تانت کھول کر ان کو باندھا، تیسرے شخص نے کہا : اللہ کی قسم ! یہ پہلی بدعہدی ہے، اللہ کی قسم ! میں تمہارے ساتھ نہیں جاؤں گا، میرے لیے میرے ان ساتھیوں کی زندگی نمونہ ہے، کافروں نے ان کو کھینچا، انہوں نے ساتھ چلنے سے انکار کیا، تو انہیں قتل کردیا، اور خبیب (رض) ان کے ہاتھ میں قیدی ہی رہے، یہاں تک کہ انہوں نے خبیب کے بھی قتل کرنے کا ارادہ کرلیا، تو آپ نے زیر ناف کے بال مونڈنے کے لیے استرا مانگا ١ ؎، پھر جب وہ انہیں قتل کرنے کے لیے لے کر چلے تو خبیب (رض) نے ان سے کہا : مجھے چھوڑو میں دو رکعت نماز پڑھ لوں، پھر کہا : اللہ کی قسم ! اگر تم یہ گمان نہ کرتے کہ مجھے مارے جانے کے خوف سے گھبراہٹ ہے تو میں اور دیر تک پڑھتا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجھاد ١٧٠ (٣٠٤٥) ، والمغازي ١٠ (٣٩٨٩) ، والتوحید ١٤ (٧٤٠٢) ، (تحفة الأشراف : ١٤٢٧١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٩٤، ٣١٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : سولی دیتے وقت بےپردہ ہونے کا خطرہ تھا، اس لئے خبیب (رض) نے استرا طلب کیا تاکہ زیر ناف صاف کرلیں۔

【184】

جب آدمی گھِرجائے تو کیا کرے

زہری سے روایت ہے کہ مجھے عمرو بن ابوسفیان بن اسید بن جاریہ ثقفی نے خبر دی (وہ بنو زہرہ کے حلیف اور ابوہریرہ (رض) کے اصحاب میں سے تھے) ، پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٤٢٧١) (صحیح )

【185】

کمین گاہوں میں چھپ کر بیٹھنے کا بیان

براء (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے جنگ احد میں عبداللہ بن جبیر (رض) کو تیر اندازوں کا امیر بنایا ان کی تعداد پچاس تھی اور فرمایا : اگر تم دیکھو کہ ہم کو پرندے اچک رہے ہیں پھر بھی اپنی اس جگہ سے نہ ہٹنا یہاں تک کہ میں تمہیں بلاؤں اور اگر تم دیکھو کہ ہم نے کافروں کو شکست دے دی ہے، انہیں روند ڈالا ہے، پھر بھی اس جگہ سے نہ ہٹنا، یہاں تک کہ میں تمہیں بلاؤں ، پھر اللہ تعالیٰ نے کافروں کو شکست دی اور اللہ کی قسم میں نے مشرکین کی عورتوں کو دیکھا کہ بھاگ کر پہاڑوں پر چڑھنے لگیں، عبداللہ بن جبیر کے ساتھی کہنے لگے : لوگو ! غنیمت، غنیمت، تمہارے ساتھی غالب آگئے تو اب تمہیں کس چیز کا انتظار ہے ؟ اس پر عبداللہ بن جبیر (رض) نے کہا : کیا تم وہ بات بھول گئے جو تم سے رسول اللہ ﷺ نے کہی ہے ؟ تو ان لوگوں نے کہا : اللہ کی قسم ! ہم ضرور مشرکین کے پاس جائیں گے اور مال غنیمت لوٹیں گے، چناچہ وہ ہٹ گئے تو اللہ نے ان کے منہ پھیر دئیے اور وہ شکست کھا کر واپس آئے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجھاد ١٦٤ (٣٠٣٩) ، والمغازي ١٠ (٣٩٨٦) ، والتفسیر ١٠ (٤٥٦١) ، (تحفة الأشراف : ١٨٣٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٩٤) (صحیح )

【186】

صف بندی کا بیان

ابواسید (رض) کہتے ہیں کہ جب ہم نے بدر کے دن صف بندی کی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب کافر تمہارے قریب پہنچ جائیں ١ ؎ تب تم انہیں نیزوں سے مارنا، اور اپنے تیر بچا کر رکھنا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجھاد ٧٨ (٢٩٠٠) ، والمغازي ١٠ (٣٩٨٤) ، (تحفة الأشراف : ١١١٩٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٩٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی تیر کی زد میں آجائیں۔

【187】

جب دشمن بالکل قریب جائے تب تلوار نکالیں

ابواسید ساعدی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے بدر کے دن فرمایا : جب وہ (دشمن) تم سے قریب ہوجائیں تب تم انہیں تیروں سے مارنا، اور جب تک وہ تمہیں ڈھانپ نہ لیں ١ ؎ تلوار نہ سونتنا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١١١٩٠) (ضعیف) (اس کے راوی اسحاق مجہول، اور مالک بن حمزہ لین الحدیث ہیں، نیز پچھلی حدیث کے مضمون سے اس کے مضمون میں فرق ہے ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی تلوار کی مار پر نہ آجائیں۔

【188】

مبازرت کا بیان

علی (رض) کہتے ہیں کہ عتبہ بن ربیعہ آگے آیا اور اس کے بعد اس کا بیٹا (ولید) اور اس کا بھائی اس کے پیچھے آئے، پھر عتبہ نے آواز دی : کون میرے مقابلے میں آئے گا ؟ تو انصار کے کچھ جوانوں نے اس کا جواب دیا، اس نے پوچھا : تم کون ہو ؟ انہوں نے اسے بتایا (کہ ہم انصار کے لوگ ہیں) اس نے (سن کر) کہا : ہمیں تمہاری ضرورت نہیں، ہم اپنے چچا زادوں کو (مقابلہ کے لیے) چاہتے ہیں، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : حمزہ ! تم کھڑے ہو، علی ! تم کھڑے ہو، عبیدہ بن حارث ! تم کھڑے ہو ، تو حمزہ (رض) عتبہ کی طرف بڑھے، اور میں شیبہ کی طرف بڑھا، اور عبیدہ اور ولید (آپس میں بھڑے تو دونوں) کو دو دو زخم لگے، دونوں میں سے ہر ایک نے دوسرے کو نڈھال کردیا، پھر ہم ولید کی طرف مائل ہوئے اور اسے قتل کردیا، اور عبیدہ کو اٹھا کرلے آئے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٠٠٥٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١١٧) (صحیح )

【189】

مثلہ (ناک کان کاٹنے) کی ممانعت

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لوگوں میں سب سے بہتر قتل کرنے والے صاحب ایمان لوگ ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الدیات ٣٠ (٢٦٨٢) ، (تحفة الأشراف : ٩٤٧٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٩٣) (ضعیف) (اس کے راوی ہُنّی لین الحدیث ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی وہ قتل اچھے طریقے سے کرتے ہیں زیادتی نہیں کرتے مثلاً مثلہ وغیرہ نہیں کرتے۔

【190】

مثلہ (ناک کان کاٹنے) کی ممانعت

ہیاج بن عمران برجمی سے روایت ہے کہ عمران (یعنی : ہیاج کے والد) کا ایک غلام بھاگ گیا تو انہوں نے اللہ کے لیے اپنے اوپر لازم کرلیا کہ اگر وہ اس پر قادر ہوئے تو ضرور بالضرور اس کا ہاتھ کاٹ دیں گے، پھر انہوں نے مجھے اس کے متعلق مسئلہ پوچھنے کے لیے بھیجا، میں نے سمرہ بن جندب (رض) کے پاس آ کر ان سے پوچھا، تو انہوں نے کہا : نبی اکرم ﷺ ہمیں صدقہ پر ابھارتے تھے اور مثلہ ١ ؎ سے روکتے تھے، پھر میں عمران بن حصین (رض) کے پاس آیا اور ان سے (بھی) پوچھا : تو انہوں نے (بھی) کہا : رسول اللہ ﷺ ہمیں صدقہ پر ابھارتے تھے اور مثلہ سے روکتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٤٦٣٧، ١٠٨٦٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٤٢٨، ٤٢٩) ، سنن الدارمی/الزکاة ٢٤ (١٦٩٧) (صحیح) (متابعت سے تقویت پا کر یہ روایت صحیح ہے، ورنہ ہیاج لین الحدیث ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : مقتول کے اعضاء کاٹ کر اس کی شکل و صورت کو بگاڑ دینے کو مثلہ کہا جاتا ہے، مثلہ کا عمل درست نہیں ہے البتہ اگر کسی کافر نے کسی مقتول مسلم کا مثلہ کیا ہے تو اس کے بدلہ میں اس کا مثلہ کیا جاسکتا ہے، جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے عرینیوں کے ساتھ کیا تھا، اسی طرح اگر کسی مسلمان نے کسی مسلمان کے ساتھ مثلہ کیا ہے تو بطور قصاص اس کے ساتھ بھی ویسا ہی کیا جاسکتا ہے۔

【191】

جنگ میں عورتوں کے قتل کی ممانعت

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ ایک عورت رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں کسی غزوہ میں مقتول پائی گئی تو رسول اللہ ﷺ نے عورتوں اور بچوں کے قتل پر نکیر فرمائی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجھاد ١٤٧ (٣٠١٤) ، صحیح مسلم/الجھاد ٨ (١٧٤٤) ، سنن الترمذی/الجھاد ١٩ (١٥٦٩) ، سنن ابن ماجہ/الجھاد ٣٠ (٢٨٤١) ، (تحفة الأشراف : ٨٢٦٨) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الجھاد ٣ (٩) ، مسند احمد (٢/١٢٢، ١٢٣) ، سنن الدارمی/السیر ٢٥ (٢٥٠٥) (صحیح )

【192】

جنگ میں عورتوں کے قتل کی ممانعت

رباح بن ربیع (رض) کہتے ہیں کہ ہم ایک غزوہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے، آپ نے دیکھا کہ لوگ کسی چیز کے پاس اکٹھا ہیں تو ایک آدمی کو بھیجا اور فرمایا : جاؤ، دیکھو یہ لوگ کس چیز کے پاس اکٹھا ہیں ، وہ دیکھ کر آیا اور اس نے بتایا کہ لوگ ایک مقتول عورت کے پاس اکٹھا ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : یہ تو ایسی نہیں تھی کہ قتال کرے ١ ؎، مقدمۃ الجیش (فوج کے اگلے حصہ) پر خالد بن ولید (رض) مقرر تھے تو آپ ﷺ نے ایک شخص سے خالد بن ولید (رض) کے پاس کہلا بھیجا کہ وہ ہرگز کسی عورت کو نہ ماریں اور نہ کسی مزدور کو ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الجھاد ٣٠ (٢٨٤٢) ، (تحفة الأشراف : ٣٤٤٩، ٣٧٠٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٨٨، ٤/١٧٨، ٣٤٦) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : معلوم ہوا کہ عورت اگر لڑائی میں حصہ لیتی ہے اور لڑتی ہے تو اسے قتل کیا جائے گا بصورت دیگر اسے قتل نہیں کیا جائے گا۔ ٢ ؎ : یہاں مزدور سے مراد وہ مزدور ہے جو لڑتا نہ ہو صرف خدمت کے لئے ہو۔

【193】

جنگ میں عورتوں کے قتل کی ممانعت

سمرہ بن جندب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مشرکین کے بوڑھوں ١ ؎ کو (جو لڑنے کے قابل ہوں) قتل کرو، اور کم سنوں کو باقی رکھو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/السیر ٢٩ (١٥٨٣) ، (تحفة الأشراف : ٤٥٩٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٢، ٢٠) (ضعیف) (حسن بصری مدلس ہیں، اور عنعنہ سے روایت کئے ہوئے ہیں )

【194】

جنگ میں عورتوں کے قتل کی ممانعت

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ بنی قریظہ کی عورتوں میں سے کوئی بھی عورت نہیں قتل کی گئی سوائے ایک عورت کے جو میرے پاس بیٹھ کر اس طرح باتیں کر رہی تھی اور ہنس رہی تھی کہ اس کی پیٹھ اور پیٹ میں بل پڑجا رہے تھے، اور رسول ﷺ ان کے مردوں کو تلوار سے قتل کر رہے تھے، یہاں تک کہ ایک پکارنے والے نے اس کا نام لے کر پکارا : فلاں عورت کہاں ہے ؟ وہ بولی : میں ہوں، میں نے پوچھا : تجھ کو کیا ہوا کہ تیرا نام پکارا جا رہا ہے، وہ بولی : میں نے ایک نیا کام کیا ہے، عائشہ (رض) کہتی ہیں : پھر وہ پکارنے والا اس عورت کو لے گیا اور اس کی گردن مار دی گئی، اور میں اس تعجب کو اب تک نہیں بھولی جو مجھے اس کے اس طرح ہنسنے پر ہو رہا تھا کہ اس کی پیٹھ اور پیٹ میں بل پڑ پڑجا رہے تھے، حالانکہ اس کو معلوم ہوگیا تھا کہ وہ قتل کردی جائے گی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٦٣٨٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٧٧) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : کہا جاتا ہے کہ اس عورت کا نیا کام یہ تھا کہ اس نے رسول اللہ ﷺ کو گالیاں دی تھیں، اسی سبب سے اسے قتل کیا گیا۔

【195】

جنگ میں عورتوں کے قتل کی ممانعت

صعب بن جثامہ (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے مشرکین کے گھروں کے بارے میں پوچھا کہ اگر ان پر شب خون مارا جائے اور ان کے بچے اور بیوی زخمی ہوں (تو کیا حکم ہے ؟ ) ، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : وہ بھی انہیں میں سے ہیں اور عمرو بن دینار کہتے تھے : وہ اپنے آباء ہی میں سے ہیں ۔ زہری کہتے ہیں : پھر رسول اللہ ﷺ نے اس کے بعد عورتوں اور بچوں کے قتل سے منع فرما دیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجھاد ١٤٦ (٣٠١٢) ، صحیح مسلم/الجھاد ٩ (١٧٨٥) ، سنن الترمذی/السیر ١٩ (١٥٧٠) ، سنن ابن ماجہ/الجھاد ٣٠ (٢٨٣٩) ، (تحفة الأشراف : ٤٩٣٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٨، ٧١، ٧٢، ٧٣) (صحیح) (زہری کا مذکورہ قول مؤلف کے سوا کسی کے یہاں نہیں ہے )

【196】

دشمن کو جلا کر مارنا

حمزہ اسلمی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کو ایک سریہ کا امیر بنایا، میں اس سریہ میں نکلا، آپ ﷺ نے فرمایا : اگر فلاں کافر کو پانا تو اسے آگ میں جلا دینا ، جب میں پیٹھ موڑ کر چلا تو آپ ﷺ نے مجھے پکارا، میں لوٹا تو آپ ﷺ نے فرمایا : اگر اس کو پانا تو مار ڈالنا، جلانا نہیں، کیونکہ آگ کا عذاب صرف آگ کے رب کو سزاوار ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٣٤٤١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٩٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : البتہ آگ سے کافروں کے کھیتوں، باغوں اور بستیوں کو جلانا ثابت ہے۔

【197】

دشمن کو جلا کر مارنا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم کو ایک جنگ میں بھیجا اور فرمایا : اگر تم فلاں اور فلاں کو پانا ، پھر راوی نے اسی مفہوم کی حدیث ذکر کی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجھاد ١٤٩ (٣٠١٦) ، سنن الترمذی/السیر ٢٠ (١٥٧١) ، (تحفة الأشراف : ١٣٤٨١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٠٧، ٣٣٨، ٤٥٣) (صحیح )

【198】

دشمن کو جلا کر مارنا

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ آپ اپنی ضرورت کے لیے گئے، ہم نے ایک چڑیا دیکھی جس کے ساتھ دو بچے تھے، ہم نے ان بچوں کو پکڑ لیا، وہ چڑیا آ کر زمین پر پر بچھانے لگی، اتنے میں نبی اکرم ﷺ آگئے، اور (یہ دیکھ کر) فرمایا : اس چڑیا کا بچہ لے کر کس نے اسے بےقرار کیا ہے ؟ اس کے بچے کو اسے واپس کرو ، اور آپ نے چیونٹیوں کی ایک بستی کو دیکھا جسے ہم نے جلا دیا تھا تو پوچھا : اس کو کس نے جلایا ہے ؟ ہم لوگوں نے کہا : ہم نے، آپ ﷺ نے فرمایا : آگ سے عذاب دینا آگ کے مالک کے سوا کسی کو زیب نہیں دیتا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٩٣٦٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٤٠٤) ، ویأتی ہذا الحدیث فی الأدب (٥٢٦٨) (صحیح )

【199】

اگر کوئی شخص اس شرط پر اپنا جانور کسی کو دے کہ مال غنیمت میں سے آدھا پورا حصہ اس کو ملے گا

واثلہ بن اسقع (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے غزوہ تبوک کے سلسلہ میں منادی کرائی، میں اپنے اہل کے پاس گیا اور وہاں سے ہو کر آیا تو صحابہ کرام نکل چکے تھے، تو میں شہر میں پکار لگانے لگا کہ کوئی ایسا ہے جو ایک آدمی کو سوار کرلے، اور جو حصہ مال غنیمت سے ملے اسے لے لے، ایک بوڑھے انصاری بولے : اچھا ہم اس کا حصہ لے لیں گے، اور اس کو اپنے ساتھ بٹھا لیں گے، اور ساتھ کھانا کھلائیں گے، میں نے کہا : ہاں قبول ہے، انہوں نے کہا : ٹھیک ہے، اللہ کی برکت پر بھروسہ کر کے چلو، میں بہت ہی اچھے ساتھی کے ساتھ نکلا یہاں تک کہ اللہ نے ہمیں غنیمت کا مال دیا، میرے حصہ میں چند تیز رو اونٹنیاں آئیں، میں ان کو ہنکا کر اپنے ساتھی کے پاس لایا، وہ نکلے اور اپنے اونٹ کے پچھلے حصہ (حقیبہ) پر بیٹھے، پھر کہا : ان کی پیٹھ میری طرف کر کے ہانکو، پھر بولے : ان کا منہ میری طرف کر کے ہانکو، اس کے بعد کہا : تیری اونٹنیاں میرے نزدیک عمدہ ہیں، میں نے کہا : یہ تو آپ کا وہی مال ہے جس کی میں نے شرط رکھی تھی، انہوں نے کہا : میرے بھتیجے ! تو اپنی اونٹنیاں لے لے، میرا ارادہ تیرا حصہ لینے کا نہ تھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١١٧٤٧) (ضعیف) (اس کے راوی عمرو بن عبد اللہ سے سیبانی لین الحدیث ہیں )

【200】

قیدی کو مضبوط باندھا جائے یا نہیں

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : ہمارا رب ایسے لوگوں سے خوش ہوتا ہے جو بیڑیوں میں جکڑ کر جنت میں لے جائے جاتے ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٤٣٦٤) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجھاد ١٤٤ (٣٠١٠) ، مسند احمد (٢/٣٠٢، ٤٠٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مراد وہ لوگ ہیں جو قید ہو کر مسلمانوں کے ہاتھ میں آتے ہیں پھر اللہ انہیں اسلام کی توفیق دیتا ہے اور وہ اسلام قبول کرکے جنت کی راہ پر چل پڑتے ہیں یا وہ مسلمان قیدی مراد ہیں جو کفار کے ہاتھوں قید ہو کر انتقال کر جاتے ہیں پھر اللہ انہیں جنت میں داخل کرتا ہے۔

【201】

قیدی کو مضبوط باندھا جائے یا نہیں

جندب بن مکیث (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عبداللہ بن غالب لیثی (رض) کو ایک سریہ میں بھیجا، میں بھی انہیں میں تھا، اور آپ ﷺ نے ان کو حکم دیا کہ بنو الملوح پر کدید میں کئی طرف سے حملہ کریں، چناچہ ہم لوگ نکلے جب کدید میں پہنچے تو ہم حارث بن برصاء لیثی سے ملے، ہم نے اسے پکڑ لیا، وہ کہنے لگا : میں تو مسلمان ہونے کے لیے آیا ہوں، میں تو رسول اللہ ﷺ ہی کی طرف جا رہا تھا، ہم نے کہا : اگر تو مسلمان ہے تو ایک دن ایک رات کا ہمارا باندھنا تمہیں نقصان نہیں پہنچائے گا اور اگر تم مسلمان نہیں ہو تو ہم تمہیں مضبوطی سے باندھیں گے، پھر ہم نے اس کو مضبوطی سے باندھ دیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٣٢٧٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٦٧، ٤٦٨) (ضعیف) (اس کے راوی مسلم جہنی مجہول ہیں )

【202】

قیدی کو مضبوط باندھا جائے یا نہیں

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کچھ سواروں کو نجد کی جانب بھیجا وہ قبیلہ بنی حنیفہ کے ثمامہ بن اثال نامی آدمی کو گرفتار کر کے لائے، وہ اہل یمامہ کے سردار تھے، ان کو مسجد کے ایک کھمبے سے باندھ دیا، رسول اللہ ﷺ ان کے پاس گئے اور پوچھا : ثمامہ ! تمہارے پاس کیا ہے ؟ کہا : اے محمد ! میرے پاس خیر ہے، اگر آپ مجھے قتل کریں گے تو ایک مستحق شخص کو قتل کریں گے، اور اگر احسان کریں گے، تو ایک قدرداں پر احسان کریں گے، اور اگر آپ مال چاہتے ہیں تو کہئے جتنا چاہیں گے دیا جائے گا، رسول اللہ ﷺ انہیں چھوڑ کر واپس آگئے، یہاں تک کہ جب دوسرا دن ہوا تو پھر آپ ﷺ نے ان سے پوچھا : ثمامہ تمہارے پاس کیا ہے ؟ تو انہوں نے پھر اپنی وہی بات دہرائی، آپ ﷺ نے پھر انہیں یوں ہی چھوڑ دیا، پھر جب تیسرا دن ہوا تو پھر وہی بات ہوئی، پھر رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ ثمامہ کو آزاد کر دو ، چناچہ وہ مسجد کے قریب ایک باغ میں گئے، غسل کیا، پھر مسجد میں داخل ہوئے اور أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدًا عبده ورسوله پڑھ کر اسلام میں داخل ہوگئے، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کیا۔ عیسیٰ کہتے ہیں : مجھ سے لیث نے ذَاْ دَمٍ کے بجائے ذَا ذِمٍّ (یعنی ایک عزت دار کو قتل کرو گے) روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٧٦ (٤٦٢) ، والمغازي ٧٠ (٤٣٧٢) ، صحیح مسلم/الجھاد ١٩ (١٧٦٤) ، سنن النسائی/الطھارة ١٢٧ (١٨٩) ، المساجد ٢٠ (٧١٣) ، (تحفة الأشراف : ١٣٠٠٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤٥٢) (صحیح )

【203】

قیدی کو مضبوط باندھا جائے یا نہیں

یحییٰ بن عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن سعد بن زرارہ (رض) کہتے ہیں کہ قیدیوں کو لایا گیا جس وقت انہیں لایا گیا، اور سودہ بنت زمعہ (ام المؤمنین رضی اللہ عنہا) آل عفراء یعنی عوف بن عفراء اور معوذ بن عفراء کے پاس اس جگہ تھیں جہاں ان کے اونٹ بٹھائے جاتے تھے، اور یہ معاملہ پردہ کا حکم اترنے سے پہلے کا ہے، سودہ (رض) کہتی ہیں : قسم اللہ کی ! میں انہیں کے پاس تھی، یکایک آئی تو کہا گیا یہ قیدی ہیں پکڑ کر لائے گئے ہیں، تو میں اپنے گھر واپس آئی اور رسول اللہ ﷺ گھر میں تھے اور ابویزید سہیل بن عمرو حجرے کے ایک کونے میں تھا، اس کے دونوں ہاتھ اس کی گردن سے ایک رسی سے بندھے ہوئے تھے، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں : انہیں دونوں (عوف و معوذ) نے ابوجہل بن ہشام کو قتل کیا، اور یہی دونوں اس کے آگے آئے حالانکہ اسے پہچانتے نہ تھے، یہ دونوں بدر کے دن مارے گئے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥٨٩٧) (ضعیف) (یحییٰ بن عبد اللہ تابعی صغیر ہیں، اس لئے یہ روایت مرسل ہے )

【204】

قیدی کے ساتھ ڈانٹ ڈپٹ مار پیٹ اور زور زبردستی کرنا

انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام کو بلایا، وہ سب بدر کی طرف چلے، اچانک قریش کے پانی والے اونٹ ملے ان میں بنی حجاج کا ایک کالا کلوٹا غلام تھا، صحابہ کرام نے اسے پکڑ لیا اور اس سے پوچھنے لگے کہ بتاؤ ابوسفیان کہاں ہے ؟ وہ کہنے لگا : اللہ کی قسم ! مجھے ابوسفیان کے سلسلہ میں کوئی علم نہیں، البتہ قریش کے لوگ آئے ہیں ان میں ابوجہل، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ اور امیہ بن خلف بھی آئے ہوئے ہیں، جب اس نے یہ کہا تو صحابہ کرام اسے مارنے لگے، وہ بولا : مجھے چھوڑ دو ، مجھے چھوڑ دو ، میں تمہیں بتاتا ہوں، جب اس کو چھوڑا تو پھر وہ یہی بات کہنے لگا : اللہ کی قسم مجھے ابوسفیان کے سلسلہ میں کوئی علم نہیں البتہ قریش آئے ہیں ان میں ابوجہل، ربیعہ کے دونوں بیٹے عتبہ و شیبہ اور امیہ بن خلف بھی آئے ہوئے ہیں، (اس وقت) نبی اکرم ﷺ نماز پڑھ رہے تھے اور اسے سن رہے تھے، جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! جب وہ تم سے سچ کہتا ہے تو تم اسے مارتے ہو اور جب جھوٹ بولتا ہے تو چھوڑ دیتے ہو، (ابوسفیان تو شام کے قافلہ کے ساتھ مال لیے ہوئے آ رہا ہے) اور یہ قریش کے لوگ ہیں اس کو بچانے کے لیے آئے ہیں ۔ انس (رض) کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کل یہاں فلاں کی لاش گرے گی ، اور آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ زمین پر رکھا، کل یہ فلاں کا مقتل ہوگا اور آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ زمین پر رکھا، اور کل یہ فلاں کا مقتل ہوگا اور آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ زمین پر رکھا ١ ؎۔ انس (رض) کہتے ہیں : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! نبی اکرم ﷺ کے ہاتھ کی جگہ سے کوئی بھی آگے نہیں بڑھ سکا، پھر آپ ﷺ نے ان کے سلسلہ میں حکم دیا تو ان کے پاؤں پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے انہیں بدر کے کنوئیں میں ڈال دیا گیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٣٧٦) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الجھاد ٣٠ (١٧٧٩) ، والجنة ١٧ (٥٧٣٢) ، سنن النسائی/ الجنائز ١١٧(٢٠٧٦) مسند احمد (١/٢٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ رسول اکرم ﷺ کا معجزہ تھا، آپ نے پہلے ہی بتادیا کہ یہاں فلاں مارا جائے گا، اور یہاں فلاں۔

【205】

قیدی پر اسلام کے لئے زبردستی نہ کی جائے

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ (کفر کے زمانہ میں) کوئی عورت ایسی ہوتی جس کا بچہ نہ جیتا (زندہ نہ رہتا) تو وہ نذر مانتی کہ اگر اس کا بچہ جئیے (زندہ رہے گا) گا تو وہ اس کو یہودی بنائے گی، جب بنی نضیر کو جلا وطن کرنے کا حکم ہوا تو ان میں چند لڑکے انصار کے بھی تھے، انصار نے کہا : ہم اپنے لڑکوں کو نہ چھوڑیں گے تو اللہ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی لا إكراه في الدين قد تبين الرشد من الغى (سورۃ البقرہ : ٢٥٦) دین میں زبردستی نہیں ہدایت گمراہی سے واضح ہوچکی ہے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : مقلات : اس عورت کو کہتے ہیں جس کا کوئی بچہ نہ جیتا ہو۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٥٤٥٩) (صحیح )

【206】

قیدیوں کو اسلام پیش کیے بغیر قتل کر ڈالنا

سعد (رض) کہتے ہیں کہ جب مکہ فتح ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے چار مردوں اور دو عورتوں کے سوا سب کو امان دے دی، انہوں نے ان کا اور ابن ابی السرح کا نام لیا، رہا ابن ابی سرح تو وہ عثمان بن عفان (رض) کے پاس چھپ گیا، پھر رسول اللہ ﷺ نے جب لوگوں کو بیعت کے لیے بلایا تو عثمان نے اسے رسول اللہ ﷺ کے سامنے لا کھڑا کیا، اور کہا : اللہ کے نبی ! عبداللہ سے بیعت لیجئے، آپ ﷺ نے اپنا سر اٹھایا اور اس کی جانب دیکھا، تین بار ایسا ہی کیا، ہر بار آپ انکار کرتے رہے، تین بار کے بعد پھر اس سے بیعت لے لی، پھر صحابہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : کیا تم میں کوئی بھی عقلمند آدمی نہیں تھا کہ جس وقت میں نے اپنا ہاتھ اس کی بیعت سے روک رکھا تھا، اٹھتا اور اسے قتل کردیتا ؟ لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہمیں آپ کے دل کا حال نہیں معلوم تھا، آپ نے ہمیں آنکھ سے اشارہ کیوں نہیں کردیا ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کسی نبی کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ کنکھیوں سے اشارے کرے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : عبداللہ عثمان کا رضاعی بھائی تھا اور ولید بن عقبہ عثمان کا اخیافی بھائی تھا، اس نے شراب پی تو عثمان (رض) نے اس پر حد لگائی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/ المحاربة ١١ (٤٠٧٢) ، ویأتي عند المؤلف في الحدود ١(٤٣٥٩) ، (تحفة الأشراف : ٣٩٣٧) (صحیح )

【207】

قیدیوں کو اسلام پیش کیے بغیر قتل کر ڈالنا

سعید بن یربوع مخزومی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے دن فرمایا : چار آدمیوں کو میں حرم اور حرم سے باہر کہیں بھی امان نہیں دیتا ، پھر آپ ﷺ نے ان کے نام لیے، اور مقیس کی دو لونڈیوں کو، ایک ان میں سے قتل کی گئی، دوسری بھاگ گئی پھر وہ مسلمان ہوگئی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٤٤٧٤) (ضعیف) (اس کے راوی عمرو بن عثمان لین الحدیث ہیں )

【208】

قیدیوں کو اسلام پیش کیے بغیر قتل کر ڈالنا

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مکہ میں فتح مکہ کے سال داخل ہوئے، آپ کے سر پر خود تھا، جب آپ ﷺ نے خود اتارا تو ایک شخص آیا اور کہنے لگا : ابن خطل کعبہ کے غلاف سے چمٹا ہوا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : اس کو قتل کر دو ١ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ابن خطل کا نام عبداللہ تھا اور اسے ابوبرزہ اسلمی نے قتل کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/جزاء الصید ١٨ (١٨٤٦) ، الجھاد ١٦٩ (٣٠٤٤) ، المغازي ٤٨ (٤٢٨٦) ، اللباس ١٧ (٥٨٠٨) ، صحیح مسلم/الحج ٨٤ (١٣٥٧) ، سنن الترمذی/الحج ١٨ (١٦٩٣) ، الشمائل ١٦ (١٠٦) ، سنن النسائی/الحج ١٠٧ (٢٨٧٠، ٢٨٧١) ، سنن ابن ماجہ/الجھاد ١٨ (٢٨٠٥) ، (تحفة الأشراف : ١٥٢٧) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الحج ٨١(٢٤٧) ، مسند احمد (٣/١٠٩، ١٦٤، ١٨٠، ١٨٦، ٢٢٤، ٢٣١، ٢٣٢، ٢٤٠، سنن الدارمی/المناسک ٨٨ (١٩٨١) ، والسیر ٢٠ (٢٥٠٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : رسول اللہ ﷺ نے ابن خطل کو ایک انصاری کے ساتھ کسی جہت میں زکاۃ وصول کرنے کے لئے بھیجا، انصاری کو اس وفد کا امیر بنایا، راستہ میں ابن خطل نے انصاری پر حملہ کرکے اسے قتل کردیا اور سارا مال و متاع لے کر فرار ہوگیا اور اسلام سے پھر گیا، اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے اسے امان نہیں دی اور خون ناحق کا بدلہ لینے کے لئے اس کے قتل کا حکم صادر فرمایا۔

【209】

قیدی کو پکڑ کر مار ڈالنا

ابراہیم کہتے ہیں کہ ضحاک بن قیس نے مسروق کو عامل بنانا چاہا تو عمارہ بن عقبہ نے ان سے کہا : کیا آپ عثمان (رض) کے قاتلوں میں سے ایک شخص کو عامل بنا رہے ہیں ؟ تو مسروق نے ان سے کہا : مجھ سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے حدیث بیان کی اور وہ ہم میں حدیث (بیان کرنے) میں قابل اعتماد تھے کہ جب نبی اکرم ﷺ نے تیرے باپ (عقبہ ١ ؎ ) کے قتل کا ارادہ کیا تو وہ کہنے لگا : میرے لڑکوں کی خبرگیری کون کرے گا ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : آگ ٢ ؎ پس میں تیرے لیے اسی چیز سے راضی ہوں جس چیز سے رسول اللہ ﷺ راضی ہوئے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٩٥٦٠) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : عقبہ بن ابی معیط یہی وہ بدقماش شخص ہے جس نے رسول اللہ ﷺ کے سر پر نماز کی حالت میں اوجھڑی ڈالی تھی۔ ٢ ؎ : رسول اللہ ﷺ نے عقبہ بن ابی معیط کے جواب میں ” آگ “ کہا، علماء اس کی دو وجہیں بیان کرتے ہیں : ١۔ یہ بطور استہزاء ہے اور اشارہ ہے اس کی اولاد کے ضائع ہونے کی طرف۔ ٢۔ یا مفہوم ہے لک النار یعنی تیرے لئے آگ ہے، رہا بچوں کا معاملہ تو ان کا محافظ اللہ ہے۔

【210】

قیدی کو باندھ کرتیروں سے مار ڈالنا

ابن تعلی کہتے ہیں کہ ہم نے عبدالرحمٰن بن خالد بن ولید کے ساتھ جہاد کیا تو ان کے سامنے عجمی کافروں میں سے چار طاقتور اور ہٹے کٹے کافر لائے گئے انہوں نے ان کے متعلق حکم دیا تو وہ باندھ کر قتل کردیئے گئے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ہم سے سعید بن منصور کے سوا اور لوگوں نے ابن وہب سے یہی حدیث یوں روایت کی ہے کہ پکڑ کر نشانہ بنا کر تیروں سے مار ڈالے گئے، تو یہ خبر ابوایوب انصاری (رض) کو پہنچی تو انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس طرح مارنے سے منع کرتے ہوئے سنا ہے، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اگر مرغی بھی ہو تو میں اس کو اس طرح روک کر نہ ماروں، یہ خبر عبدالرحمٰن بن خالد بن ولید کو پہنچی تو انہوں نے (اپنی اس غلطی کی تلافی کے لیے) چار غلام آزاد کئے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٣٤٧٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٤٢٢) ، سنن الدارمی/الاضاحي ١٣ (٢٠١٧) (حسن )

【211】

قیدی کو فدیہ لئے بغیر احسان کے طور پر چھوڑ دینا

انس (رض) سے روایت ہے کہ مکہ والوں میں سے اسی آدمی جبل تنعیم سے نماز فجر کے وقت نبی اکرم ﷺ اور آپ کے صحابہ کو قتل کرنے کے لیے اترے تو رسول ﷺ نے انہیں کسی مزاحمت کے بغیر گرفتار کرلیا، پھر آپ ﷺ نے ان کو آزاد کردیا تو اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی : وهو الذي كف أيديهم عنکم وأيديكم عنهم ببطن مكة إلى آخر الآية (سورۃ الفتح : ٢٤) اللہ ہی نے ان کا ہاتھ تم سے اور تمہارا ہاتھ ان سے وادی مکہ میں روک دیا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجھاد ٤٦ (١٨٠٨) ، سنن الترمذی/تفسیرالفتح ٣ (٣٢٦٤) ، (تحفة الأشراف : ٣٠٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٢٢، ٢٩٠) (صحیح )

【212】

قیدی کو فدیہ لئے بغیر احسان کے طور پر چھوڑ دینا

جبیر بن مطعم (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے بدر کے قیدیوں سے فرمایا : اگر مطعم بن عدی ١ ؎ زندہ ہوتے اور ان ناپاک قیدیوں کے سلسلے میں مجھ سے سفارش کرتے تو میں ان کی خاطر انہیں چھوڑ دیتا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/فرض الخمس ١٦ (٣١٣٩) ، والمغازي ١٢ (٤٠٢٤) ، (تحفة الأشراف : ٣١٩٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٨٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : رسول اللہ ﷺ اہل طائف سے پہنچنے والی ایذاء اور تکلیف سے بچنے کے لئے طائف سے لوٹتے وقت مطعم بن عدی کے یہاں پہنچے، تو انہوں نے مشرکین کو دفع کیا اور آپ ﷺ کو ان سے بچایا، اسی احسان کا بدلہ چکانے کے لئے آپ ﷺ نے بدر کے قیدیوں کے متعلق یہ فرمایا تھا کہ مطعم کی سفارش پر میں ان سب کو چھوڑ دیتا، یعنی فدیہ وغیرہ نہیں لیتا۔

【213】

قیدی سے مال لے کر اس کو چھوڑ دینے کا بیان

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ مجھ سے عمر بن خطاب (رض) نے بیان کیا کہ جب غزوہ بدر ہوا اور نبی اکرم ﷺ نے قیدیوں سے فدیہ لیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی : ما کان لنبي أن يكون له أسرى حتى يثخن في الأرض سے مسکم فيما أخذتم تک نبی کے لیے مناسب نہیں کہ ان کے قیدی باقی اور زندہ رہیں جب تک کہ زمین میں ان (کافروں کا) اچھی طرح خون نہ بہا لیں، تم دنیا کے مال و اسباب چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے، اللہ بڑا غالب اور بڑی حکمت والا ہے، اگر پہلے ہی سے اللہ کی طرف سے بات لکھی ہوئی نہ ہوتی تو جو کچھ تم نے لیا ہے اس کے سبب سے تمہیں بڑی سزا پہنچتی (سورۃ الأنفال : ٦٧-٦٨) پھر اللہ نے ان کے لیے غنائم کو حلال کردیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجھاد ١٨ (١٧٦٣) ، سنن الترمذی/التفسیر ٩ (٣٠٨١) ، (تحفة الأشراف : ١٠٤٩٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٠، ٣٢) (حسن صحیح )

【214】

قیدی سے مال لے کر اس کو چھوڑ دینے کا بیان

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے بدر کے دن جاہلیت کے لوگوں کا فدیہ فی آدمی چار سو مقرر کیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٥٣٨٢) (صحیح) (لیکن چار سو کی بات صحیح نہیں ہے، بلکہ ابن عباس ہی سے دوسری بہتر سند سے چار ہزار مروی ہے، اس سند میں ابوالعنبس لین الحدیث ہیں )

【215】

قیدی سے مال لے کر اس کو چھوڑ دینے کا بیان

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ جب اہل مکہ نے اپنے اپنے قیدیوں کے فدیے بھیجے تو اس وقت زینب (رض) نے ابوالعاص (رض) ١ ؎ کے فدیہ میں کچھ مال بھیجا اور اس مال میں اپنا ایک ہار بھیجا جو خدیجہ (رض) کا تھا، انہوں نے یہ ہار زینب کو ابوالعاص سے نکاح کے موقع پر رخصتی کے وقت دیا تھا، جب رسول اللہ ﷺ نے اس ہار کو دیکھا تو آپ پر سخت رقت طاری ہوگئی، آپ ﷺ نے فرمایا : اگر تم مناسب سمجھو تو ان کی خاطر و دلداری میں ان کا قیدی چھوڑ دو ، اور ان کا مال انہیں لوٹا دو ، لوگوں نے کہا : ٹھیک ہے، رسول اللہ ﷺ نے انہیں چھوڑتے وقت یہ عہد لے لیا کہ وہ زینب (رض) کو میرے پاس آنے سے نہ روکیں گے، پھر رسول ﷺ نے زید بن حارثہ (رض) اور انصار میں سے ایک شخص کو بھیجا، اور فرمایا : تم دونوں بطن یأجج میں رہنا یہاں تک کہ زینب تم دونوں کے پاس سے گزریں تو ان کو ساتھ لے کر آنا ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٦١٧٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٧٦) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : زینب (رض) رسول اکرم ﷺ کی بڑی صاحب زادی تھیں، اور ابو العاص (رض) خدیجہ (رض) کے بھانجے اور زینب کے شوہر تھے۔ ٢ ؎ : شاید یہ نامحرم کے ساتھ سفر کرنے کی ممانعت سے پہلے کا واقعہ ہو، زینب (رض) کے مدینہ آجانے کے بعد ابو العاص (رض) کفر کی حالت میں مکہ ہی میں مقیم رہے، پھر تجارت کے لئے شام گئے، وہاں سے لوٹتے وقت انھیں اسلام پیش کیا گیا، تو وہ مکہ واپس گئے اور وہ مال جس جس کا تھا اس کو واپس کیا اور سب کے سامنے کلمہ شہادت پڑھ کر مشرف بہ اسلام ہوگئے، پھر ہجرت کر کے مدینہ آگئے اور مسلمان ہوجانے پر رسول اکرم ﷺ نے زینب کو ان کی زوجیت میں لوٹا دیا تھا۔

【216】

قیدی سے مال لے کر اس کو چھوڑ دینے کا بیان

ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ عروہ بن زبیر نے ذکر کیا کہ انہیں مروان اور مسور بن مخرمہ (رض) نے خبر دی کہ جس وقت رسول اللہ ﷺ کے پاس وفد ہوازن مسلمان ہو کر آیا اور اس نے آپ سے درخواست کی کہ آپ ان کے مال انہیں واپس لوٹا دیں، تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا : میرے ساتھ جو ہیں انہیں تم دیکھ رہے ہو، اور میرے نزدیک سب سے عمدہ بات سچی بات ہے تم یا تو قیدیوں (کی واپسی) اختیار کرلو یا مال ، انہوں نے کہا : ہم اپنے قیدیوں کو اختیار کریں گے، نبی اکرم ﷺ کھڑے ہوئے، اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اس کے بعد فرمایا : تمہارے یہ بھائی (شرک سے) توبہ کر کے آئے ہیں، میں چاہتا ہوں کہ ان کے قیدیوں کو واپس لوٹا دوں، لہٰذا تم میں سے جو شخص اپنی خوشی سے واپس لوٹا سکتا ہو تو وہ واپس لوٹا دے، اور جو شخص اپنا حصہ لینے پر مصر ہے تو پہلا مال غنیمت جو اللہ ہم کو دے ہم اس میں سے اس کا عوض دیں تو وہ ایسا ہی کرلے ، لوگوں نے کہا : اللہ کے رسول ! ہم نے انہیں بخوشی واپس لوٹا دیا، رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا : ہم نہیں جانتے کہ تم میں سے کس نے اجازت دی، اور کس نے نہیں دی ؟ لہٰذا تم واپس جاؤ یہاں تک کہ تمہارے سردار معاملہ کی تفصیل ہمارے پاس لے کر آئیں ، لوگ لوٹ گئے، اور ان سے ان کے سرداروں نے بات کی تو انہوں نے اپنے سرداروں کو بتایا کہ انہوں نے خوشی خوشی اجازت دی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوکالة ٧ (٢٣٠٧) ، العتق ١٣ (٢٥٤٠) ، الھبة ١٠ (٢٥٨٣) ، المغازي ٥٤ (٤٣١٨) ، (تحفة الأشراف : ١١٢٥١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٢٦) (صحیح )

【217】

قیدی سے مال لے کر اس کو چھوڑ دینے کا بیان

عبداللہ بن عمرو (رض) اسی قصہ کی روایت میں کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ان کی عورتوں اور بچوں کو واپس لوٹا دو ، اور جو کوئی اس مال غنیمت سے اپنا حصہ باقی رکھنا چاہے تو ہم اس کو اس پہلے مال غنیمت سے جو اللہ ہمیں دے گا چھ اونٹ دیں گے ، پھر آپ ﷺ ایک اونٹ کے قریب آئے اور اس کی کوہان سے ایک بال لیا پھر فرمایا : لوگو ! میرے لیے اس مال غنیمت سے کچھ بھی حلال نہیں ہے ، اور اپنی دونوں انگلیاں اٹھا کر کہا : یہاں تک کہ یہ (بال) بھی حلال نہیں سوائے خمس (پانچواں حصہ) کے، اور خمس بھی تمہارے ہی اوپر لوٹا دیا جاتا ہے، لہٰذا تم سوئی اور دھاگا بھی ادا کر دو (یعنی بیت المال میں جمع کر دو ) ، ایک شخص کھڑا ہو اس کے ہاتھ میں بالوں کا ایک گچھا تھا، اس نے کہا : میں نے اس کو پالان کے نیچے کی کملی درست کرنے کے لیے لیا تھا ؟ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : رہا میرا اور بنی عبدالمطلب کا حصہ تو وہ تمہارے لیے ہے ، تو اس نے کہا : جب معاملہ اتنا اہم ہے تو مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اور اس نے اسے (غنیمت کے مال میں) پھینک دیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الھبة ١ (٣٦٩٠) ، (تحفة الأشراف : ٨٧٨٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٨٤، ٢١٨) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ غنیمت کے مال میں سے چوری کرنا گناہ عظیم ہے، جو کچھ ملے سب امام کے پاس جمع کردیا جائے پھر وہ تقسیم کرے۔

【218】

جب حاکم دشمن پر غالب ہوجائے تو میدان جنگ میں ٹھہرے

ابوطلحہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی قوم پر غالب آتے تو میدان جنگ میں تین رات قیام کرتے۔ ابن مثنیٰ کا بیان ہے : جب کسی قوم پر غالب آتے تو میدان جنگ میں جو ان کی سر زمین میں پڑتا تین رات قیام کرنا پسند فرماتے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : کہ یحییٰ بن سعید اس حدیث میں طعن کرتے تھے کیونکہ یہ سعید (سعید ابن ابی عروبہ) کی پہلے کی حدیثوں میں سے نہیں ہے، اس لیے کہ ١٤٥ ہجری میں ان کے حافظہ میں تغیر پیدا ہوگیا تھا، اور یہ حدیث بھی آخری عمر کی ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : کہا جاتا ہے کہ وکیع نے ان سے ان کے زمانہ تغیر میں ہی حدیث حاصل کی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجھاد ١٨٤ (٣٠٦٤) ، والمغازي ٨ (٣٩٧٦) ، صحیح مسلم/صفة أہل النار ١٧ (٢٨٧٥) ، سنن الترمذی/السیر ٣ (١٥٥١) ، (تحفة الأشراف : ٣٧٧٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٤٥، ٤/٢٩) ، سنن الدارمی/السیر ٢٢ (٢٥٠٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : بخاری اور مسلم نے سعید بن ابی عروبہ کی حدیث کو روح بن عبادہ کی روایت سے صحیحین میں داخل کیا ہے، یہ روایت بھی روح ہی کے واسطے سے ہے، اس لئے اس کی صحت میں کوئی کلام نہیں ہے، وکیع نے ابن ابی عروبہ سے اختلاط کے بعد روایت کی ہے یہ بات مسلَّم ہے، مگر یہاں اس کا کوئی عمل دخل نہیں یہ بات مؤلف نے برسبیل تذکرہ لکھ دی ہے۔

【219】

قیدیوں میں جدائی کرنے کا بیان

علی (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک لونڈی اور اس کے بچے کے درمیان جدائی کرا دی تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا، اور بیع کو رد کردیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : میمون نے علی (رض) کو نہیں پایا ہے، میمون جنگ جماجم میں قتل کئے گئے، اور جماجم ٨٣ ہجری میں ہوئی ہے، نیز واقعہ حرہ (٦٣ ہجری) میں پیش آیا، اور ابن زبیر (٧٣ ہجری) میں قتل ہوئے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٠٢٨٦) (حسن) (بعض لوگوں نے علی (رض) سے میمون کا سماع ثابت مانا ہے اسی بنیاد پر البانی نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے )

【220】

اگر قیدی جوان ہوں تو ان میں تفریق کرنا درست ہے

سلمہ بن الاکوع (رض) کہتے ہیں کہ ہم ابوبکر (رض) کے ساتھ نکلے، رسول اللہ ﷺ نے ان کو ہمارا امیر بنایا تھا، ہم نے قبیلہ بنی فزارہ سے جنگ کی، ہم نے ان پر اچانک حملہ کیا، کچھ بچوں اور عورتوں کی گردنیں ہمیں نظر آئیں، تو میں نے ایک تیر چلائی، تیر ان کے اور پہاڑ کے درمیان جا گرا وہ سب کھڑے ہوگئے، پھر میں ان کو پکڑ کر ابوبکر (رض) کے پاس لایا، ان میں فزارہ کی ایک عورت تھی، وہ کھال پہنے ہوئی تھی، اس کے ساتھ اس کی لڑکی تھی جو عرب کی حسین ترین لڑکیوں میں سے تھی، ابوبکر (رض) نے مجھے اس کی بیٹی کو بطور انعام دے دیا، میں مدینہ آیا تو رسول اللہ ﷺ سے میری ملاقات ہوئی تو آپ نے فرمایا : سلمہ ! اس عورت کو مجھے ہبہ کر دو ، میں نے کہا : اللہ کی قسم وہ لڑکی مجھے پسند آئی ہے، اور میں نے ابھی تک اس کا کپڑا نہیں ہٹایا ہے، آپ خاموش ہوگئے، جب دوسرا دن ہوا تو رسول اللہ ﷺ پھر مجھے بازار میں ملے اور فرمایا : سلمہ ! اس عورت کو مجھے ہبہ کر دو ، قسم ہے اللہ کی ١ ؎، میں نے کہا : اللہ کے رسول ! اللہ کی قسم ! میں نے ابھی تک اس کا کپڑا نہیں ہٹایا ہے، اور وہ آپ کے لیے ہے، پھر آپ ﷺ نے اسے مکہ والوں کے پاس بھیج دیا، اور اس کے بدلے میں ان کے پاس جو مسلمان قیدی تھے انہیں چھڑا لیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجھاد ١٤ (١٧٥٥) ، سنن ابن ماجہ/الجھاد ٣٢ (٢٨٤٦) ، (تحفة الأشراف : ٤٥١٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٤٦، ٤٧، ٥١) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : متن حدیث میں لله أبوك کے الفاظ ہیں یہ جملہ قسم کے حکم میں ہے۔

【221】

اگر کافر جنگ میں مسلمان کا مال لے جائیں اور پھر وہی مسلمان اس مال کو غنیمت میں حاصل کرے

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ ان کا ایک غلام دشمنوں کی جانب بھاگ گیا پھر مسلمان دشمن پر غالب آگئے تو رسول اللہ ﷺ نے یہ غلام عبداللہ بن عمر (رض) کو واپس دے دیا، اسے مال غنیمت میں تقسیم نہیں کیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : دوسروں کی روایت میں ہے خالد بن ولید نے اسے انہیں لوٹا دیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٨١٣٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجھاد ١٨٧ (٣٠٦٧) ، سنن ابن ماجہ/الجھاد ٣٢ (٢٨٤٦) (صحیح )

【222】

اگر کافر جنگ میں مسلمان کا مال لے جائیں اور پھر وہی مسلمان اس مال کو غنیمت میں حاصل کرے

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ ان کا ایک گھوڑا بھاگ گیا، اور اسے دشمن نے پکڑ لیا پھر مسلمان دشمن پر غالب آگئے تو رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں عبداللہ بن عمر (رض) کو واپس لوٹا دیا گیا، اور ان کا ایک غلام بھاگ کر روم چلا گیا، پھر رومیوں پر مسلمان غالب آئے تو نبی اکرم ﷺ کے بعد خالد بن ولید (رض) نے (بھی) انہیں غلام واپس لوٹا دیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ١٨٧ (٣٠٦٧) ، تعلیقًا، سنن ابن ماجہ/الجہاد ٣٣(٢٨٤٧) ، (تحفة الأشراف : ٧٩٤٣) (صحیح )

【223】

اگر کافروں کے غلام مسلمانوں کے پاس بھاگ آئیں اور اسلام قبول کرلیں تو ان کا کیا حکم ہے

علی (رض) کہتے ہیں کہ غزوہ حدیبیہ میں صلح سے پہلے کچھ غلام (بھاگ کر) رسول اللہ ﷺ کے پاس آگئے، تو ان کے مالکوں نے آپ کو لکھا : اے محمد ! اللہ کی قسم ! یہ غلام تمہارے دین کے شوق میں تمہارے پاس نہیں آئے ہیں، یہ تو فقط غلامی کی قید سے بھاگ کر آئے ہیں، تو کچھ لوگوں نے کہا : اللہ کے رسول ! ان لوگوں نے سچ کہا : انہیں مالکوں کے پاس واپس لوٹا دیا جائے تو آپ ﷺ غصہ ہوگئے ١ ؎ اور فرمایا : قریش کے لوگو، میں تم کو باز آتے ہوئے نہیں دیکھتا ہوں یہاں تک کہ اللہ تمہارے اوپر اس شخص کو بھیجے جو اس پر ٢ ؎ تمہاری گردنیں مارے ، اور آپ ﷺ نے انہیں واپس لوٹانے سے انکار کیا اور فرمایا : یہ اللہ عزوجل کے آزاد کئے ہوئے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/المناقب ٢٠ (٣٧١٥) ، (تحفة الأشراف : ١٠٠٨٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٥٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : نبی اکرم ﷺ کی ناراضگی کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے شرع کے حکم پر ظن وتخمین کی بنیاد پر اعتراض کیا، اور مشرکین کے دعوے کی حمایت کی۔ ٢ ؎ : اس پر سے مراد جاہلی عصبیت اور بےجا قومی حمیت ہے۔

【224】

دشمن کی سر زمین پر مال غنیمت میں سے تقسیم سے قبل کھانے پینے کی چیزیں کھانے کی اجازت

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ ایک لشکر رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں (دوران جنگ) غلہ اور شہد غنیمت میں لایا تو اس میں سے خمس نہیں لیا گیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٧٨١١) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/فرض الخمس ٢٠ (٣١٥٤) (صحیح )

【225】

دشمن کی سر زمین پر مال غنیمت میں سے تقسیم سے قبل کھانے پینے کی چیزیں کھانے کی اجازت

عبداللہ بن مغفل (رض) کہتے ہیں کہ خیبر کے دن چربی کا ایک مشک لٹکایا گیا تو میں آیا اور اس سے چمٹ گیا، پھر میں نے کہا : آج میں اس میں سے کسی کو بھی کچھ نہیں دوں گا، پھر میں مڑا تو کیا دیکھتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ میری اس حرکت پر کھڑے مسکرا رہے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الخمس ٢٠ (٣١٥٣) ، والمغازي ٣٨ (٤٢١٤) ، والصید ٢٢ (٥٥٠٨) ، صحیح مسلم/الجھاد ٢٥ (١٧٧٢) ، سنن النسائی/الضحایا ٣٧ (٤٤٤٠) ، (تحفة الأشراف : ٩٦٥٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٨٦، ٥/٥٥، ٥٦) ، سنن الدارمی/السیر ٥٧ (٢٥٤٢) (صحیح )

【226】

جب غلہ کی کمی ہو تو ہر ایک کو غلہ لوٹ کر اپنے لئے رکھنا منع ہے بلکہ لشکر میں تقسیم کرنا چاہئے

ابو لبید کہتے ہیں کہ ہم عبدالرحمٰن بن سمرہ (رض) کے ساتھ کابل میں تھے وہاں لوگوں کو مال غنیمت ملا تو انہوں نے اسے لوٹ لیا، عبدالرحمٰن نے کھڑے ہو کر خطبہ دیا اور کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو سنا کہ آپ لوٹنے سے منع فرماتے تھے، تو لوگوں نے جو کچھ لیا تھا واپس لوٹا دیا، پھر انہوں نے اسے ان میں تقسیم کردیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٩٦٩٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٦٢، ٦٣) ، سنن الدارمی/الأضاحي ٢٣ (٢٠٣٨) (صحیح )

【227】

جب غلہ کی کمی ہو تو ہر ایک کو غلہ لوٹ کر اپنے لئے رکھنا منع ہے بلکہ لشکر میں تقسیم کرنا چاہئے

عبداللہ بن ابی اوفی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا : کیا آپ لوگ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں غلہ کا پانچواں حصہ نکالا کرتے تھے ؟ انہوں نے کہا : ہمیں خیبر کے دن غلہ ملا تو آدمی آتا اور اس میں سے کھانے کی مقدار میں لے لیتا پھر واپس چلا جاتا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٥١٧٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٥٥) (صحیح )

【228】

جب غلہ کی کمی ہو تو ہر ایک کو غلہ لوٹ کر اپنے لئے رکھنا منع ہے بلکہ لشکر میں تقسیم کرنا چاہئے

ایک انصاری (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں نکلے، لوگوں کو اس سفر میں بڑی احتیاج اور سخت پریشانی ہوئی پھر انہیں کچھ بکریاں ملیں، تو لوگوں نے انہیں لوٹ لیا، ہماری ہانڈیاں ابل رہی تھیں، اتنے میں نبی اکرم ﷺ اپنی کمان پر ٹیک لگائے ہوئے تشریف لائے، پھر آپ نے اپنے کمان سے ہماری ہانڈیاں الٹ دیں اور گوشت کو مٹی میں لت پت کرنے لگے، اور فرمایا : لوٹ کا مال مردار سے زیادہ حلال نہیں ، یا فرمایا : مردار لوٹ کے مال سے زیادہ حلال نہیں ، یہ شک ہناد راوی کی جانب سے ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥٦٦٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : چونکہ بکریاں غلے یا تیار کھانے کی چیزوں کی قبیل سے نہیں ہیں اس لئے ان کی لوٹ سے منع کیا گیا، جائز صرف غلہ یا تیار کھانے کی اشیاء میں سے بقدر ضرورت لینا ہے۔

【229】

دار الحرب سے کھانے پینے کی چیزیں ساتھ لے آنا

بعض صحابہ کرام سے روایت ہے کہ ہم نبی اکرم ﷺ کے زمانہ میں غزوات میں گاجر کھاتے تھے، ہم اسے تقسیم نہیں کرتے تھے یہاں تک کہ ہم اپنے مکانوں کی طرف لوٹتے اور ہمارے برتن اس سے بھرے ہوتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥٦٥٨) (ضعیف) (اس کے راوی ابن خرشف مجہول ہیں )

【230】

دار الحرب میں کھانے پینے کی چیزیں جب ضرورت سے زائد ہوں تو ان کو فروخت کرنے کا بیان

عبدالرحمٰن بن غنم کہتے ہیں کہ ہم نے شرحبیل بن سمط کے ساتھ شہر قنسرین کا محاصرہ کیا، جب آپ نے اس شہر کو فتح کیا تو وہاں بکریاں اور گائیں ملیں تو ان میں سے کچھ تو ہم میں تقسیم کردیں اور کچھ مال غنیمت میں شامل کرلیں، پھر میری ملاقات معاذ بن جبل (رض) سے ہوئی، میں نے ان سے بیان کیا، تو آپ نے کہا : ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوہ خیبر کیا تو ہمیں اس میں بکریاں ملیں تو آپ ﷺ نے ایک حصہ ہم میں تقسیم کردیا اور بقیہ حصہ مال غنیمت میں شامل کردیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١١٣٣٤) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : گویا کھانے پینے کی چیزیں حسب ضرورت مجاہدین میں تقسیم کردی جائیں گی اور بقیہ مال غنیمت میں شامل کردیا جائے گا ان کا بیچنا صحیح نہیں ہوگا، یہی باب سے مطابقت ہے۔

【231】

مال غنیمت میں سے کسی چیز کو بلا ضرورت اپنے کام میں لانا

رویفع بن ثابت انصاری (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو تو وہ مسلمانوں کی غنیمت کے کسی جانور پر سوار نہ ہو کہ اسے جب دبلا کر ڈالے تو مال غنیمت میں واپس لوٹا دے، اور جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو تو وہ مسلمانوں کی غنیمت سے کوئی کپڑا نہ پہنے کہ جب اسے پرانا کر دے تو اسے غنیمت کے مال میں واپس کر دے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٢١٥٨) ، (تحفة الأشراف : ٣٦١٥) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : حاصل یہ ہے کہ غنیمت کے مال میں کھانے کی چیزوں کے علاوہ کسی چیز کا استعمال بلا ضرورت درست نہیں۔

【232】

اگر لڑائی میں ہتھیار ملیں تو ان کا استعمال کرنا جنگ میں درست ہے

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ میں (غزوہ بدر میں) گزرا تو ابوجہل کو پڑا ہوا دیکھا، اس کا پاؤں زخمی تھا، میں نے کہا : اللہ کے دشمن ! ابوجہل ! آخر اللہ نے اس شخص کو جو اس کی رحمت سے دور تھا ذلیل کر ہی دیا، عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ اس وقت میں اس سے ڈر نہیں رہا تھا، اس پر اس نے کہا : اس سے زیادہ تو کوئی بات نہیں ہوئی ہے کہ ایک شخص کو اس کی قوم نے مار ڈالا اور یہ کوئی عار کی بات نہیں، پھر میں نے اسے کند تلوار سے مارا لیکن وار کارگر نہ ہوا یہاں تک کہ اس کی تلوار اس کے ہاتھ سے گر پڑی، تو اسی کی تلوار سے میں نے اس کو (دوبارہ) مارا یہاں تک کہ وہ ٹھنڈا ہوگیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٩٦١٩) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/ الکبری/ السیر (٨٦٧٠) ، مسند احمد (١/٤٠٣، ٤٠٦، ٤٢٢، ٤٤٤) (صحیح )

【233】

مال غنیمت کی چوری کا گناہ

زید بن خالد جہنی (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے ایک صحابی کا غزوہ خیبر کے دن انتقال ہوگیا، لوگوں نے اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا تو آپ نے فرمایا : اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھ لو ، یہ سن کر لوگوں کے چہرے بدل گئے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : تمہارے ساتھی نے جہاد میں خیانت کی ہے ، پھر جب ہم نے اس کا سامان ڈھونڈا تو یہود کے مونگوں میں سے ہمیں چند مونگے ملے جس کی قیمت دو درہم کے برابر بھی نہ تھی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الجنائز ٦٦ (١٩٦١) ، سنن ابن ماجہ/الجھاد ٣٤ (٢٨٤٨) ، موطا امام مالک/الجھاد ١٣ (٢٣) ، مسند احمد (٤/١١٤، ٥/١٩٢) ، (تحفة الأشراف : ٣٧٦٧) (ضعیف) (اس کی سند میں ابوعمرہ مولی زید بن خالد مقبول راوی ہیں ، یعنی متابعت کے بعد قوی ہیں، اور متابعت نہ ہونے پر ضعیف اور لین الحدیث حافظ ابن حجر نے ان کو مقبول کہا ہے ، یعنی متابعت کی موجودگی میں )

【234】

مال غنیمت کی چوری کا گناہ

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ خیبر کے سال نکلے، تو ہمیں غنیمت میں نہ سونا ہاتھ آیا نہ چاندی، البتہ کپڑے اور مال و اسباب ملے، رسول اللہ ﷺ وادی القری کی جانب چلے اور آپ کو ایک کالا غلام ہدیہ میں دیا گیا تھا جس کا نام مدعم تھا، جب لوگ وادی القری میں پہنچے تو مدعم آپ ﷺ کے اونٹ کا پالان اتار رہا تھا، اتنے میں اس کو ایک تیر آ لگا اور وہ مرگیا، لوگوں نے کہا : اس کے لیے جنت کی مبارک بادی ہو، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ہرگز نہیں، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! وہ چادر جو اس نے خیبر کی لڑائی میں غنیمت کے مال سے تقسیم سے قبل لی تھی اس پر آگ بن کر بھڑک رہی ہے ، جب لوگوں نے یہ سنا تو ایک شخص ایک یا دو تسمے لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ آگ کا ایک تسمہ ہے یا فرمایا : آگ کے دو تسمے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازي ٣٨ (٤٢٣٤) ، والأیمان ٣٣ (٦٧٠٧) ، صحیح مسلم/الإیمان ٤٨ (١١٥) ، سنن النسائی/الأیمان والنذور ٣٧ (٣٨٥٨) ، (تحفة الأشراف : ١٢٩١٦) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الجھاد ١٣ (٢٥) (صحیح )

【235】

جب کوئی شخص مال غنیمت کی معمولی چیز چرائے تو امام اس کو چھوڑ دے اور اس کے اس کو نذر آتش نہ کرے

عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو جب مال غنیمت حاصل ہوتا تو آپ بلال (رض) کو حکم دیتے کہ وہ لوگوں میں اعلان کردیں کہ لوگ اپنا مال غنیمت لے کر آئیں، پھر آپ ﷺ اس میں سے خمس (پانچواں حصہ) نکال کر باقی مجاہدین میں تقسیم کردیتے، ایک شخص اس تقسیم کے بعد بال کی ایک لگام لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور اس نے کہا : اللہ کے رسول ! یہ بھی اسی مال غنیمت میں سے ہے جو ہمیں ملا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تم نے بلال (رض) کو تین مرتبہ آواز لگاتے سنا ہے ؟ اس نے کہا : ہاں، آپ ﷺ نے فرمایا : پھر اسے لانے سے تمہیں کس چیز نے روکے رکھا ؟ تو اس نے آپ سے کچھ عذر بیان کیا، آپ ﷺ نے فرمایا : جاؤ لے جاؤ، قیامت کے دن لے کر آنا، میں تم سے اسے ہرگز قبول نہیں کروں گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٨٨٣٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢١٣) (حسن )

【236】

مال غنیمت میں سے چوری کرنے کی سزا

صالح بن محمد بن زائدہ کہتے ہیں کہ میں مسلمہ کے ساتھ روم کی سر زمین میں گیا تو وہاں ایک شخص لایا گیا جس نے مال غنیمت میں چوری کی تھی، انہوں نے سالم سے اس سلسلہ میں مسئلہ پوچھا تو سالم بن عبداللہ نے کہا : میں نے اپنے والد کو بیان کرتے ہوئے سنا وہ عمر بن خطاب (رض) سے اور وہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کر رہے تھے آپ نے فرمایا کہ جب تم کسی ایسے شخص کو پاؤ کہ جس نے مال غنیمت میں خیانت کی ہو تو اس کا سامان جلا دو ، اور اسے مارو۔ راوی کہتے ہیں : ہمیں اس کے سامان میں ایک مصحف بھی ملا تو مسلمہ نے سالم سے اس کے متعلق پوچھا، انہوں نے کہا : اسے بیچ دو اور اس کی قیمت صدقہ کر دو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحدود ٢٨ (١٤٦١) ، (تحفة الأشراف : ٦٧٦٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٢) ، سنن الدارمی/السیر ٤٩ (٢٥٣٧) (ضعیف) (اس سند کے راوی صالح ضعیف ہیں )

【237】

مال غنیمت میں سے چوری کرنے کی سزا

صالح بن محمد کہتے ہیں کہ ہم نے ولید بن ہشام کے ساتھ غزوہ کیا اور ہمارے ساتھ سالم بن عبداللہ بن عمر اور عمر بن عبدالعزیز بھی تھے، ایک شخص نے مال غنیمت سے ایک سامان چرا لیا تو ولید بن ہشام کے حکم سے اس کا سامان جلا دیا گیا، پھر وہ سب لوگوں میں پھرایا گیا اور اسے اس کا حصہ بھی نہیں دیا گیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : دونوں حدیثوں میں سے یہ حدیث زیادہ صحیح ہے، اسے کئی لوگوں نے روایت کیا ہے کہ ولید بن ہشام نے زیاد بن سعد کے ساز و سامان کو اس لیے جلوا دیا تھا کہ اس نے مال غنیمت میں خیانت کی تھی، اور اسے زد و کو ب بھی کیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٦٧٦٣) (ضعیف) (اس سند میں بھی صالح ہیں جو ضعیف راوی ہیں )

【238】

مال غنیمت میں سے چوری کرنے کی سزا

عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر و عمر (رض) نے خیانت کرنے والے کے سامان کو جلا دیا اور اسے مارا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : علی بن بحر نے اس حدیث میں ولید سے اتنا اضافہ کیا ہے کہ اسے اس کا حصہ نہیں دیا، لیکن میں نے یہ زیادتی علی بن بحر سے نہیں سنی ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے ہم سے ولید بن عتبہ اور عبدالوہاب بن نجدہ نے بھی بیان کیا ہے ان دونوں نے کہا اسے ہم سے ولید (ولید بن مسلم) نے بیان کیا ہے انہوں نے زہیر بن محمد سے زہیر نے عمرو بن شعیب سے موقوفاً روایت کیا ہے اور عبدالوہاب بن نجدہ حوطی نے حصہ سے محروم کردینے کا ذکر نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٨٧٠٦، ١٩١٦٩) (ضعیف) (یہ ضعیف ہونے کے ساتھ عمرو بن شعیب کا قول ہے ، جس کو اصطلاح علماء میں موقوف کہتے ہیں )

【239】

مال غنیمت چرانے والے کی پردہ پوشی نہیں کرنی چاہئے

سمرہ بن جندب (رض) سے روایت ہے انہوں نے حمد و صلاۃ کے بعد کہا : رسول اللہ ﷺ فرماتے تھے : جو شخص غنیمت میں خیانت کرنے والے کی خیانت کو چھپائے تو وہ بھی اسی جیسا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٤٦٢٠) (ضعیف) (اس کے راوی خبیب مجہول، اور سلیمان لین الحدیث ہیں )

【240】

جو شخص کسی کافر کو قتل کرے اس کا اس اسی کو دیا جائے

ابوقتادہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حنین کے سال نکلے، جب کافروں سے ہماری مڈبھیڑ ہوئی تو مسلمانوں میں بھگدڑ مچ گئی، میں نے مشرکین میں سے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ ایک مسلمان پر چڑھا ہوا ہے، تو میں پلٹ پڑا یہاں تک کہ اس کے پیچھے سے اس کے پاس آیا اور میں نے تلوار سے اس کی گردن پر مارا تو وہ میرے اوپر آپڑا، اور مجھے ایسا دبوچا کہ میں نے اس سے موت کی مہک محسوس کی، پھر اسے موت آگئی اور اس نے مجھے چھوڑ دیا، پھر میں عمر بن خطاب (رض) سے ملا اور ان سے پوچھا کہ لوگوں کا کیا حال ہے ؟ انہوں نے کہا : وہی ہوا جو اللہ کا حکم تھا، پھر لوگ لوٹے اور رسول اللہ ﷺ بیٹھ گئے اور فرمایا : جس شخص نے کسی کافر کو قتل کیا ہو اور اس کے پاس گواہ ہو تو اس کا سامان اسی کو ملے گا ١ ؎۔ ابوقتادہ (رض) کہتے ہیں : (جب میں نے یہ سنا) تو میں اٹھ کھڑا ہوا، پھر میں نے سوچا میرے لیے کون گواہی دے گا یہی سوچ کر بیٹھ گیا، پھر آپ ﷺ نے دوسری بار فرمایا : جو شخص کسی کافر کو قتل کر دے اور اس کے پاس گواہ ہو تو اس کا سامان اسی کو ملے گا ۔ ابوقتادہ (رض) کہتے ہیں (جب میں نے یہ سنا) تو اٹھ کھڑا ہوا، پھر میں نے سوچا میرے لیے کون گواہی دے گا یہی سوچ کر بیٹھ گیا۔ پھر آپ ﷺ نے تیسری مرتبہ یہی بات کہی پھر میں اٹھ کھڑا ہوا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ابوقتادہ کیا بات ہے ؟ میں نے آپ سے سارا معاملہ بیان کیا، تو قوم کے ایک آدمی نے کہا : اللہ کے رسول ! یہ سچ کہہ رہے ہیں اور اس مقتول کا سامان میرے پاس ہے، آپ ان کو اس بات پر راضی کرلیجئے (کہ وہ مال مجھے دے دیں) اس پر ابوبکر صدیق (رض) نے کہا : اللہ کی قسم ! رسول اللہ ﷺ کبھی بھی ایسا نہ کریں گے کہ اللہ کے شیروں میں سے ایک شیر اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے لڑے اور سامان تمہیں مل جائے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : وہ سچ کہہ رہے ہیں، تم اسے ابوقتادہ کو دے دو ۔ ابوقتادہ (رض) کہتے ہیں : اس نے مجھے دے دیا، تو میں نے زرہ بیچ دی اور اس سے میں نے ایک باغ قبیلہ بنو سلمہ میں خریدا، اور یہ پہلا مال تھا جو میں نے اسلام میں حاصل کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٣٧ (٢١٠٠) ، فرض الخمس ١٨ (٣١٤٢) ، المغازي ٥٤ (٤٣٢١، الأحکام ٢١ (٧١٧٠) ، صحیح مسلم/الجھاد ١٣ (١٥٧١) ، سنن الترمذی/السیر ١٣ (١٥٦٢) ، سنن ابن ماجہ/ الجہاد ٢٩ (٢٨٣٧) ، (تحفة الأشراف : ١٢١٣٢) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الجھاد ١٠ (١٨) ، مسند احمد (٥/٢٩٥، ٢٩٦، ٣٠٦) ، سنن الدارمی/السیر ٤٤ (٢٥٢٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : جنگ حنین میں مسلمان تعداد میں زیادہ تھے، لیکن تعلي اور کثرت تعداد کے زعم کی وجہ سے انہیں شکست ہوئی، میدان جنگ سے لوگ بھاگ کھڑے ہوئے، رسول اکرم ﷺ اور چند جانثار صحابہ رہ گئے تھے، بھگدڑ سے یہی مراد ہے، بعد میں جنگ کا پانسہ پلٹا اور مسلمان فتح یاب ہوئے۔

【241】

جو شخص کسی کافر کو قتل کرے اس کا اس اسی کو دیا جائے

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اس دن یعنی حنین کے دن فرمایا : جس نے کسی کافر کو قتل کیا تو اس کے مال و اسباب اسی کے ہوں گے ، چناچہ اس دن ابوطلحہ (رض) نے بیس آدمیوں کو قتل کیا اور ان کے مال و اسباب لے لیے، ابوطلحہ (رض) ام سلیم (رض) سے ملے تو دیکھا ان کے ہاتھ میں ایک خنجر تھا انہوں نے پوچھا : ام سلیم ! تمہارے ساتھ یہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا : اللہ کی قسم ! میں نے یہ قصد کیا تھا کہ اگر ان میں سے کوئی میرے نزدیک آیا تو اس خنجر سے اس کا پیٹ پھاڑ ڈالوں گی، تو اس کی خبر ابوطلحہ (رض) نے رسول اللہ ﷺ کو دی۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے، اس حدیث سے ہم نے سمجھا ہے کہ خنجر کا استعمال جائز ہے، ان دنوں اہل عجم کے ہتھیار خنجر ہوتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٧٠) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الجھاد ٤٧ (١٨٠٩) ، مسند احمد (٣/٢٧٩، ١٩٠) ، سنن الدارمی/السیر ٤٤ (٢٥٢٧) (صحیح )

【242】

اگر امام چاہے تو مقتول کا سامان قاتل کو نہ دے نیز گھوڑا اور ہتھیار بھی سامان میں داخل ہیں

عوف بن مالک اشجعی (رض) کہتے ہیں کہ میں زید بن حارثہ (رض) کے ساتھ غزوہ موتہ میں نکلا تو اہل یمن میں سے ایک مددی میرے ساتھ ہوگیا، اس کے پاس ایک تلوار کے سوا کچھ نہ تھا، پھر ایک مسلمان نے کچھ اونٹ ذبح کئے تو مددی نے اس سے تھوڑی سی کھال مانگی، اس نے اسے دے دی، مددی نے اس کھال کو ڈھال کی شکل کا بنا لیا، ہم چلے تو رومی فوجیوں سے ملے، ان میں ایک شخص اپنے سرخ گھوڑے پر سوار تھا، اس پر ایک سنہری زین تھی، ہتھیار بھی سنہرا تھا، تو رومی مسلمانوں کے خلاف لڑنے کے لیے اکسانے لگا تو مددی اس سوار کی تاک میں ایک چٹان کی آڑ میں بیٹھ گیا، وہ رومی ادھر سے گزرا تو مددی نے اس کے گھوڑے کے پاؤں کاٹ ڈالے، وہ گرپڑا، اور مددی اس پر چڑھ بیٹھا اور اسے قتل کر کے گھوڑا اور ہتھیار لے لیا، پھر جب اللہ عزوجل نے مسلمانوں کو فتح دی تو خالد بن ولید (رض) نے مددی کے پاس کسی کو بھیجا اور سامان میں سے کچھ لے لیا۔ عوف (رض) کہتے ہیں : تو میں خالد (رض) کے پاس آیا اور میں نے کہا : خالد ! کیا تم نہیں جانتے ہو کہ رسول اللہ ﷺ نے قاتل کے لیے سلب کا فیصلہ کیا ہے ؟ خالد (رض) نے کہا : کیوں نہیں، میں جانتا ہوں لیکن میں نے اسے زیادہ سمجھا، تو میں نے کہا : تم یہ سامان اس کو دے دو ، ورنہ میں رسول اللہ ﷺ سے اس معاملہ کو ذکر کروں گا، لیکن خالد (رض) نے لوٹانے سے انکار کیا۔ عوف (رض) کہتے ہیں : ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس اکٹھا ہوئے تو میں نے آپ سے مددی کا واقعہ اور خالد (رض) کی سلوک بیان کیا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : خالد ! تم نے جو یہ کام کیا ہے اس پر تمہیں کس چیز نے آمادہ کیا ؟ خالد نے کہا : اللہ کے رسول ! میں نے اسے زیادہ جانا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : خالد ! تم نے جو کچھ لیا تھا واپس لوٹا دو ۔ عوف (رض) کہتے ہیں میں نے کہا : خالد ! کیا میں نے جو وعدہ کیا تھا اسے پورا نہ کیا ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : وہ کیا ہے ؟ عوف (رض) کہتے ہیں : میں نے اسے آپ سے بتایا۔ عوف کہتے ہیں : تو رسول اللہ ﷺ غصہ ہوگئے، اور فرمایا : خالد ! واپس نہ دو ، کیا تم لوگ چاہتے ہو کہ میرے امیروں کو چھوڑ دو کہ وہ جو اچھا کام کریں اس سے تم نفع اٹھاؤ اور بری بات ان پر ڈال دیا کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجھاد ١٣ (١٧٥٣) ، (تحفة الأشراف : ١٠٩٠٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٦، ٢٧) (صحیح )

【243】

اگر امام چاہے تو مقتول کا سامان قاتل کو نہ دے نیز گھوڑا اور ہتھیار بھی سامان میں داخل ہیں

اس سند سے بھی عوف بن مالک اشجعی (رض) سے اسی طرح مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٠٩٠٢) (صحیح )

【244】

مقتول کا تمام سامان قاتل کو ملے گا اور اس سے خمس نہ لیا جائے گا

عوف بن مالک اشجعی اور خالد بن ولید (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سلب کا فیصلہ قاتل کے لیے کیا، اور سلب سے خمس نہیں نکالا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٣٥٠٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٩٠، ٦/٢٦) (صحیح )

【245】

جو شخص زخمی کافر کو قتل کرے گا اس کو بھی بطور انعام اس کے اس میں سے کچھ ملے گا

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے بدر کے دن ابوجہل کی تلوار بطور نفل دی اور انہوں نے ہی اسے قتل کیا تھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٩٦٢١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٤٤٤) (ضعیف) (ابوعبیدہ کا اپنے والد ابن مسعود (رض) سے سماع نہیں ہے ) وضاحت : ١ ؎ : چونکہ عبداللہ بن مسعود (رض) ہی نے ابوجہل کے سر کو اس کے جسم سے (جب اس میں جان باقی تھی) جدا کیا تھا اسی لئے اس کی تلوار آپ نے انہی کو دی، ورنہ اس کے قاتل اصلاً معاذ بن عمرو بن جموح اور معاذ بن عفراء (رض) ہیں۔

【246】

جو شخص غنیمت کی تقسیم کے بعد آئے اس کو حصہ نہ ملے گا

ابوہریرہ (رض) سعید بن عاص (رض) سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ابان بن سعید بن عاص (رض) کو مدینہ سے نجد کی طرف ایک سریہ کا سردار بنا کر بھیجا تو ابان بن سعید (رض) اور ان کے ساتھی رسول اللہ ﷺ کے پاس اس وقت آئے جب کہ آپ خیبر فتح کرچکے تھے، ان کے گھوڑوں کے زین کھجور کی چھال کے تھے، تو ابان نے کہا : اللہ کے رسول ! ہمارے لیے بھی حصہ لگائیے، ابوہریرہ (رض) کہتے : ہیں اس پر میں نے کہا : اللہ کے رسول ! ان کے لیے حصہ نہ لگائیے، ابان نے کہا : تو ایسی باتیں کرتا ہے اے وبر ! جو ابھی ہمارے پاس ضال پہاڑ کی چوٹی سے اتر کے آ رہا ہے تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ابان تم بیٹھ جاؤ ، اور رسول اللہ ﷺ نے ان کا حصہ نہیں لگایا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجھاد ٢٨ (٢٨٢٧) ، والمغازي ٣٨ (٤٢٣٧) ، (تحفة الأشراف : ١٤٢٨٠) (صحیح )

【247】

جو شخص غنیمت کی تقسیم کے بعد آئے اس کو حصہ نہ ملے گا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں مدینہ اس وقت آیا جب خیبر فتح ہوا، رسول اللہ ﷺ خیبر میں تھے، میں نے آپ ﷺ سے درخواست کی کہ مجھے بھی حصہ دیجئیے ١ ؎ تو سعید بن عاص (رض) کے لڑکوں میں سے کسی نے کہا : اللہ کے رسول ! اسے حصہ نہ دیجئیے، تو میں نے کہا : ابن قوقل کا قاتل یہی ہے، تو سعید بن عاص (رض) نے کہا : تعجب ہے ایک وبر پر جو ہمارے پاس ضال کی چوٹی سے اتر کر آیا ہے مجھے ایک مسلمان کے قتل پر عار دلاتا ہے جسے اللہ نے میرے ہاتھوں عزت دی اور اس کے ہاتھ سے مجھ کو ذلیل نہیں کیا ٢ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ لوگ نو یا دس افراد تھے جن میں سے چھ شہید کردیئے گئے اور باقی واپس آئے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٤٢٨٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے پہلی والی حدیث میں ہے کہ ابان (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے درخواست کی تھی کہ آپ ان کے لئے حصہ لگائیں اور اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ابوہریرہ (رض) نے اپنے لئے حصہ لگانے کی درخواست کی تھی دونوں حدیثوں میں بظاہر تعارض ہے صحیح یہ ہے کہ دونوں ہی نے رسول اللہ ﷺ سے اپنے لئے حصہ لگانے کی درخواست کی تھی، اور اپنے اپنے نظریہ کے مطابق دوسرے کو نہ دینے کا مشورہ دیا تھا، ابان (رض) کو اس لئے کہ ابن قوقل (رض) کو قتل کردیا تھا، اور ابوہریرہ (رض) کو اس لئے کہ ابھی مسلمان ہوئے تھے۔ ٢ ؎ : انہوں نے ابن قوقل (رض) کو اس وقت قتل کیا تھا جب وہ کافر تھے، ابن قوقل کو اس قتل کی وجہ سے شہادت کی عزت ملی، اس وقت ابن قوقل (رض) نے اگر ابان بن سعید کو قتل کردیا ہوتا تو وہ جہنم میں ڈالے جاتے اور ذلیل ہوتے، لیکن اللہ نے ایمان کی دولت دے کر انہیں اس ذلت سے بچا دیا۔

【248】

جو شخص غنیمت کی تقسیم کے بعد آئے اس کو حصہ نہ ملے گا

ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ ہم (حبشہ سے) آئے اور رسول اللہ ﷺ سے فتح خیبر کے موقع پر ملے، آپ ﷺ نے (مال غنیمت سے) ہمارے لیے حصہ لگایا، یا ہمیں اس میں سے دیا، اور جو فتح خیبر میں موجود نہیں تھے انہیں کچھ بھی نہیں دیا سوائے ان کے جو آپ کے ساتھ حاضر اور خیبر کی فتح میں شریک تھے، البتہ ہماری کشتی والوں کو یعنی جعفر (رض) اور ان کے ساتھیوں کو ان سب کے ساتھ حصہ دیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/فرض الخمس ١٥ (٣١٣٦) ، والمناقب ٣٧ (٣٨٧٦) ، والمغازي ٣٨ (٤٢٣٠) ، سنن الترمذی/السیر ١٠ (١٥٥٩) ، (تحفة الأشراف : ٩٠٤٩) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٤١ (٢٥٠٢) ، مسند احمد (٤/٣٩٤، ٤٠٥، ٤١٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ابوموسی اشعری (رض) اور ان کے ساتھیوں کو مال غنیمت میں سے آپ نے جو حصہ دیا اس کے سلسلہ میں کئی اقوال ہیں : (١) یہ حصہ آپ نے خمس سے دیا تھا، (٢) یہ لوگ تقسیم سے پہلے پہنچے تھے اس لئے انہیں منجملہ مال غنیمت سے دیا گیا، (٣) لشکر کی رضامندی سے ایسا کیا گیا (واللہ اعلم ) ۔

【249】

جو شخص غنیمت کی تقسیم کے بعد آئے اس کو حصہ نہ ملے گا

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے یعنی بدر کے دن اور فرمایا : بیشک عثمان اللہ اور اس کے رسول کی ضرورت سے رہ گئے ہیں ١ ؎ اور میں ان کی طرف سے بیعت کرتا ہوں ، پھر رسول اللہ ﷺ نے ان کے لیے حصہ مقرر کیا اور ان کے علاوہ کسی بھی غیر موجود شخص کو نہیں دیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٦٦٨٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : عثمان (رض) بدر میں شریک نہیں ہو سکے، کیونکہ آپ کی اہلیہ رقیہ (رض) جو رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی ہیں ان ایام میں سخت بیمار تھیں اسی وجہ سے ان کی دیکھ ریکھ کے لئے انہیں رکنا پڑگیا تھا۔

【250】

عورت اور غلام کو غنیمت کو مال میں سے کچھ حصہ ملنا چاہیے یا نہیں؟

یزید بن ہرمز کہتے ہیں کہ نجدہ ١ ؎ نے ابن عباس (رض) کو خط لکھا وہ ان سے فلاں فلاں چیزوں کے بارے میں پوچھ رہے تھے اور بہت سی چیزوں کا ذکر کیا اور غلام کے بارے میں کہ (اگر جہاد میں جائے) تو کیا غنیمت میں اس کو حصہ ملے گا ؟ اور کیا عورتیں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ جہاد میں جاتی تھیں ؟ کیا انہیں حصہ ملتا تھا ؟ تو ابن عباس (رض) نے کہا : اگر مجھے اس بات کا ڈر نہ ہوتا کہ وہ احمقانہ حرکت کرے گا تو میں اس کو جواب نہ لکھتا (پھر انہوں نے اسے لکھا :) رہے غلام تو انہیں بطور انعام کچھ دے دیا جاتا تھا، (اور ان کا حصہ نہیں لگتا تھا) اور رہیں عورتیں تو وہ زخمیوں کا علاج کرتیں اور پانی پلاتی تھیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجھاد ٤٨ (١٨١٢) ، سنن الترمذی/السیر ٨ (١٥٥٦) ، سنن النسائی/الفیٔ (٤١٣٨) ، مسند احمد (١/٢٤٨، ٢٩٤، ٣٠٨، ٣٢٠، ٣٤٤، ٣٤٩، ٣٥٢) ، (تحفة الأشراف : ٦٥٥٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی : نجدہ حروری جو خوارج کا سردار تھا۔

【251】

عورت اور غلام کو غنیمت کو مال میں سے کچھ حصہ ملنا چاہیے یا نہیں؟

یزید بن ہرمز کہتے ہیں کہ نجدہ حروری نے ابن عباس (رض) کو لکھا، وہ عورتوں کے متعلق آپ سے پوچھ رہا تھا کہ کیا وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جنگ میں جایا کرتی تھیں ؟ اور کیا آپ ان کے لیے حصہ متعین کرتے تھے ؟ عبداللہ بن عباس (رض) کا خط میں نے ہی نجدہ کو لکھا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جنگ میں حاضر ہوتی تھیں، رہی ان کے لیے حصہ کی بات تو ان کا کوئی حصہ مقرر نہیں ہوتا تھا البتہ انہیں کچھ دے دیا جاتا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٦٥٥٧) (صحیح )

【252】

عورت اور غلام کو غنیمت کو مال میں سے کچھ حصہ ملنا چاہیے یا نہیں؟

حشرج بن زیاد اپنی دادی (ام زیاد اشجعیہ) سے روایت کرتے ہیں کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ خیبر کی جنگ میں نکلیں، یہ چھ عورتوں میں سے چھٹی تھیں، جب رسول اللہ ﷺ کو یہ بات پہنچی تو آپ نے ہمیں بلا بھیجا، ہم آئے تو ہم نے آپ کو ناراض دیکھا، آپ ﷺ نے پوچھا : تم کس کے ساتھ نکلیں ؟ اور کس کے حکم سے نکلیں ؟ ہم نے کہا : اللہ کے رسول ! ہم نکل کر بالوں کو بٹ رہی ہیں، اس سے اللہ کی راہ میں مدد پہنچائیں گے، ہمارے پاس زخمیوں کی دوا ہے، اور ہم مجاہدین کو تیر دیں گے، اور ستو گھول کر پلائیں گے، آپ ﷺ نے فرمایا : اچھا چلو یہاں تک کہ جب خیبر فتح ہوا تو آپ ﷺ نے ہمیں بھی ویسے ہی حصہ دیا جیسے کہ مردوں کو دیا، حشرج بن زیاد کہتے ہیں : میں نے ان سے پوچھا : دادی ! وہ حصہ کیا تھا ؟ تو وہ کہنے لگیں : کچھ کھجوریں تھیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٨٣١٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٧١، ٣٧١) (ضعیف) (اس کے رواة رافع اور حشرج دونوں مجہول ہیں، اور بعض ائمہ کے نزدیک رافع لین الحدیث ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : یہ ضعیف روایت ہے اس سے استدلال درست نہیں ہے، کیونکہ صحیح روایت کے مطابق جہاد میں شریک ہونے والی عورتوں کا مال غنیمت میں کوئی متعین حصہ نہیں ہے البتہ انہیں ایسے ہی کچھ دے دیا جاتا ہے۔

【253】

عورت اور غلام کو غنیمت کو مال میں سے کچھ حصہ ملنا چاہیے یا نہیں؟

محمد بن زیاد کہتے ہیں کہ مجھ سے عمیر مولی آبی اللحم نے بیان کیا وہ کہتے ہیں کہ میں جنگ خیبر میں اپنے مالکوں کے ساتھ گیا، انہوں نے میرے سلسلے میں رسول اللہ ﷺ سے گفتگو کی تو آپ نے مجھے (ہتھیار پہننے اور مجاہدین کے ساتھ رہنے کا) حکم دیا، چناچہ میرے گلے میں ایک تلوار لٹکائی گئی تو میں اسے (اپنی کم سنی اور کوتاہ قامتی کی وجہ سے زمین پر) گھسیٹ رہا تھا، پھر آپ ﷺ کو بتایا گیا کہ میں غلام ہوں تو آپ نے مجھے گھر کے سامانوں میں سے کچھ سامان دیئے جانے کا حکم دیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ نے ان کے لیے حصہ مقرر نہیں کیا، ابوداؤد کہتے ہیں : انہوں (آبی اللحم) نے اپنے اوپر گوشت حرام کرلیا تھا، اسی وجہ سے ان کا نام آبی اللحم رکھ دیا گیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/السیر ٩ (١٥٥٧) ، سنن ابن ماجہ/الجھاد ٣٧ (٢٨٥٥) ، (تحفة الأشراف : ١٠٨٩٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٢٣) ، سنن الدارمی/ السیر ٣٥ (٢٥١٨) (صحیح )

【254】

عورت اور غلام کو غنیمت کو مال میں سے کچھ حصہ ملنا چاہیے یا نہیں؟

جابر (رض) کہتے ہیں کہ میں بدر کے دن (پانی کم ہونے کی وجہ سے) صحابہ کے لیے چلو سے پانی کا ڈول بھر رہا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٢٣٢٨) (صحیح )

【255】

اگر کوئی مشرک مسلمانوں کے ساتھ ہو کر لڑے تو کیا اس کو مال غنیمت میں سے حصہ ملے گا؟

ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ مشرکوں میں سے ایک شخص نبی اکرم ﷺ سے آ کر ملا تاکہ آپ کے ساتھ مل کر لڑائی کرے تو آپ ﷺ نے فرمایا : لوٹ جاؤ، ہم کسی مشرک سے مدد نہیں لیتے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجھاد ٥١ (١٨١٧) ، سنن الترمذی/السیر ١٠ (١٥٥٨) ، سنن ابن ماجہ/الجھاد ٢٧ (٢٨٣٢) ، (تحفة الأشراف : ١٦٣٥٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٦٧، ١٤٨) ، سنن الدارمی/السیر ٥٤ (٢٥٣٨) (صحیح )

【256】

گھوڑے کے حصہ کا بیان

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے آدمی اور اس کے گھوڑے کو تین حصہ دیا : ایک حصہ اس کا اور دو حصہ اس کے گھوڑے کا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الجھاد ٣٦ (٢٨٥٤) ، (تحفة الأشراف : ٨١١١) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجھاد ٥١ (٢٨٦٣) ، المغازي ٣٨ (٤٢٢٨) ، صحیح مسلم/الجھاد ١٧ (١٧٦٢) ، سنن الترمذی/السیر ٦ (١٥٥٤) ، مسند احمد (٢/٢، ٦٢، ٧٢، ٨٠، ١٤٣، ١٥٢) ، سنن الدارمی/السیر ٣٣ (٢٥١٥) (صحیح )

【257】

گھوڑے کے حصہ کا بیان

ابو عمرہ کے والد عبدالرحمٰن بن ابی عمرہ انصاری (رض) کہتے ہیں کہ ہم چار آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور ہمارے ساتھ ایک گھوڑا تھا، تو آپ نے ہم میں سے ہر آدمی کو ایک ایک حصہ دیا، اور گھوڑے کو دو حصے دئیے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، مسند احمد (٤/١٣٨) ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٧٢) (صحیح )

【258】

گھوڑے کے حصہ کا بیان

اس سند سے بھی ابو عمرہ سے اسی حدیث کے ہم معنی مروی ہے مگر اس میں یہ ہے کہ ہم تین آدمی تھے اور اس میں یہ اضافہ ہے کہ سوار کو تین حصے ملے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٧٢) (صحیح) (پچھلی روایت سے تقویت پا کر یہ روایت بھی صحیح ہے ورنہ خود اس کی سند میں ایک مبہم راوی ہے )

【259】

گھوڑے کے حصہ کا بیان

مجمع بن جاریہ انصاری (رض) سے روایت ہے اور وہ ان قاریوں میں سے ایک تھے جو قرآت قرآن میں ماہر تھے، وہ کہتے ہیں : ہم صلح حدیبیہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے، جب ہم وہاں سے واپس لوٹے تو لوگ اپنی سواریوں کو حرکت دے رہے تھے، بعض نے بعض سے کہا : لوگوں کو کیا ہوگیا ہے ؟ لوگوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ کی طرف وحی کی گئی ہے تو ہم بھی لوگوں کے ساتھ (اپنی سواریوں) کو دوڑاتے اور ایڑ لگاتے ہوئے نکلے، ہم نے نبی اکرم ﷺ کو اپنی سواری پر کراع الغمیم ١ ؎ کے پاس کھڑا پایا جب سب لوگ آپ کے پاس جمع ہوگئے تو آپ ﷺ نے إنا فتحنا لک فتحا مبينا پڑھی، تو ایک شخص نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا یہی فتح ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں، قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، یہی فتح ہے ، پھر خیبر کی جنگ میں جو مال آیا وہ صلح حدیبیہ کے لوگوں پر تقسیم ہوا، رسول اللہ ﷺ نے اس مال کے اٹھارہ حصے کئے اور لشکر کے لوگ سب ایک ہزار پانچ سو تھے جن میں تین سو سوار تھے، آپ ﷺ نے سواروں کو دو حصے دئیے اور پیدل والوں کو ایک حصہ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ابومعاویہ کی حدیث (نمبر ٢٧٣٣) زیادہ صحیح ہے اور اسی پر عمل ہے، اور میرا خیال ہے مجمع کی حدیث میں وہم ہوا ہے انہوں نے کہا ہے : تین سو سوار تھے حالانکہ دو سو سوار تھے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، مسند احمد (٣/٤٢٠) ، (تحفة الأشراف : ١١٢١٤) ، ویأتی ہذا الحدیث فی الخراج (٣٠١٥) (ضعیف) (اس کے راوی مجمع سے وہم ہوگیا ہے حالانکہ وہ صدوق ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک جگہ کا نام ہے۔ ٢ ؎ : گویا لشکر کی صحیح تعداد چودہ سو تھی جن میں دو سو سوار تھے، سواروں کو تین تین حصے دئے گئے اور پیدل والوں کو ایک حصہ۔

【260】

غنیمت کے ماسوا انعام کے طور پر کچھ دینے کا بیان

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بدر کے دن فرمایا : جس نے ایسا ایسا کیا اس کو بطور انعام اتنا اتنا ملے گا ، جوان لوگ آگے بڑھے اور بوڑھے جھنڈوں سے چمٹے رہے اس سے ہٹے نہیں، جب اللہ نے مسلمانوں کو فتح دی تو بوڑھوں نے کہا : ہم تمہارے مددگار اور پشت پناہ تھے اگر تم کو شکست ہوتی تو تم ہماری ہی طرف پلٹتے، تو یہ نہیں ہوسکتا کہ یہ غنیمت کا مال تم ہی اڑا لو، اور ہم یوں ہی رہ جائیں، جوانوں نے اسے تسلیم نہیں کیا اور کہا : رسول اللہ ﷺ نے اسے ہم کو دیا ہے، تب اللہ نے یہ آیت کریمہ يسألونک عن الأنفال قل الأنفال لله یہ لوگ آپ سے غنیمتوں کا حکم دریافت کرتے ہیں آپ فرما دیجئیے کہ یہ غنیمتیں اللہ کی ہیں اور رسول کی سو تم اللہ سے ڈرو اور اپنے باہمی تعلقات کی اصلاح کرو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اگر تم ایمان والے ہو، بس ایمان والے تو ایسے ہوتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کا ذکر آتا ہے تو ان کے قلوب ڈر جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیتیں ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وہ آیتیں ان کے ایمان کو اور زیادہ کردیتی ہیں اور وہ لوگ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں جو کہ نماز کی پابندی کرتے ہیں اور ہم نے ان کو جو کچھ دیا ہے وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں سچے ایمان والے یہ لوگ ہیں ان کے لیے بڑے درجے ہیں ان کے رب کے پاس اور مغفرت اور عزت کی روزی ہے جیسا کہ آپ کے رب نے آپ کے گھر سے حق کے ساتھ آپ کو روانہ کیا اور مسلمانوں کی ایک جماعت اس کو گراں سمجھتی تھی (سورۃ الانفال : ١-٥) سے كما أخرجک ربک من بيتک بالحق وإن فريقا من المؤمنين لکارهون تک نازل فرمائی، پھر ان کے لیے یہی بہتر ہوا، اسی طرح تم سب میری اطاعت کرو، کیونکہ میں اس کے انجام کار کو تم سے زیادہ جانتا ہوں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٦٠٨١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : امام اپنے اختیار سے مجاہدین کو غنیمت سے مقررہ حصہ کے سوا بطور تشجیع و ہمت افزائی جو کچھ دیتا ہے اسے نفل کہا جاتا ہے۔

【261】

غنیمت کے ماسوا انعام کے طور پر کچھ دینے کا بیان

اس سند سے بھی ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے غزوہ بدر کے دن فرمایا : جو شخص کسی کافر کو مارے تو اس کے لیے اتنا اور اتنا (انعام) ہے، اور جو کسی کافر کو قید کرے اس کے لیے اتنا اور اتنا (انعام) ہے ، پھر آگے اسی حدیث کی طرح بیان کیا، اور خالد کی (یعنی : پچھلی حدیث) زیادہ کامل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٦٠٨١) (صحیح )

【262】

غنیمت کے ماسوا انعام کے طور پر کچھ دینے کا بیان

اس سند بھی سے داود سے یہی حدیث اسی طریق سے مروی ہے اس میں ہے : رسول اللہ ﷺ نے اسے برابر برابر تقسیم کیا ، اور خالد کی حدیث (نمبر ٢٧٣٧) کامل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٢٧٣٧) ، (تحفة الأشراف : ٦٠٨١، ١٥٦٥٨) (صحیح )

【263】

غنیمت کے ماسوا انعام کے طور پر کچھ دینے کا بیان

سعد (رض) کہتے ہیں کہ میں غزوہ بدر کے دن نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک تلوار لے کر آیا اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! آج اللہ نے میرے سینے کو دشمنوں سے شفاء دی، لہٰذا آپ مجھے یہ تلوار دے دیجئیے، آپ ﷺ نے فرمایا : یہ تلوار نہ تو میری ہے نہ تمہاری یہ سن کر میں چلا اور کہتا جاتا تھا : یہ تلوار آج ایسے شخص کو ملے گی جس نے مجھ جیسا کارنامہ انجام نہیں دیا ہے، اسی دوران مجھے قاصد بلانے کے لیے آیا، اور کہا چلو، میں نے سوچا شاید میرے اس بات کے کہنے کی وجہ سے میرے سلسلے میں کچھ وحی نازل ہوئی ہے، چناچہ میں آیا تو نبی اکرم ﷺ نے مجھ سے فرمایا : تم نے یہ تلوار مانگی جب کہ یہ تلوار نہ تو میری ہے نہ تمہاری، اب اسے اللہ نے مجھے عطا کردیا ہے، لہٰذا (اب) یہ تمہاری ہے پھر آپ ﷺ نے یہ آیت کریمہ پوری پڑھی يسألونک عن الأنفال قل الأنفال لله والرسول۔ ابوداؤد کہتے ہیں : عبداللہ بن مسعود (رض) کی قرأت يسألونک عن النفل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجھاد ١٢ (١٧٤٨) ، سنن الترمذی/تفسیر الأنفال ٩ (٣٠٧٩) ، (تحفة الأشراف : ٣٩٣٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٧٨، ١٨١، ١٨٥) (حسن صحیح )

【264】

لشکر کے ایک حصہ کو انعام کے طور پر کچھ زیادہ دینا

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نجد کی جانب ایک لشکر میں بھیجا اور اس لشکر کا ایک دستہ دشمن سے مقابلہ کے لیے بھیجا گیا، پھر لشکر کے لوگوں کو بارہ بارہ اونٹ ملے اور دستہ کے لوگوں کو ایک ایک اونٹ بطور انعام زیادہ ملا تو ان کے حصہ میں تیرہ تیرہ اونٹ آئے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٧٦٧٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/فرض الخمس ١٥ (٣١٣٤) ، والمغازي ٥٧ (٤٣٣٨) ، صحیح مسلم/الجھاد ١٢ (١٧٤٨) ، موطا امام مالک/الجھاد ٦ (١٥) ، سنن الدارمی/السیر ٤١ (٢٥٢٤) (صحیح )

【265】

لشکر کے ایک حصہ کو انعام کے طور پر کچھ زیادہ دینا

ولید بن مسلم کہتے ہیں : میں نے ابن مبارک سے یہی حدیث بیان کی، میں نے کہا اور اسی طرح ہم سے ابن ابی فروہ نے نافع کے واسطہ سے بیان کیا ہے تو ابن مبارک نے کہا : جن کا نام تم نے لیا ہے وہ مالک کے برابر نہیں ہوسکتے اسی طرح یا اس جیسی بات انہوں نے کہی، اس سے وہ امام مالک بن انس کو مراد لے رہے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٧٦٧٩) (صحیح )

【266】

لشکر کے ایک حصہ کو انعام کے طور پر کچھ زیادہ دینا

اس سند سے بھی ابن عمر (رض) سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے ایک سریہ ١ ؎ نجد کی جانب بھیجا، میں بھی اس کے ساتھ نکلا، ہمیں بہت سے اونٹ ملے، تو ہمارے دستہ کے سردار نے ایک ایک اونٹ ہم میں سے ہر شخص کو بطور انعام دیا، پھر ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، آپ نے ہمارے غنیمت کے مال کو ہم میں تقسیم کیا، تو ہر ایک کو ہم میں سے خمس کے بعد بارہ بارہ اونٹ ملے، اور وہ اونٹ جو ہمارے سردار نے دیا تھا، آپ ﷺ نے اس کو حساب میں شمار نہ کیا، اور نہ ہی آپ نے اس سردار کے عمل پر طعن کیا، تو ہم میں سے ہر ایک کو اس کے نفل سمیت تیرہ تیرہ اونٹ ملے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٨٤١٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : سریہ ایسی فوجی کاروائی جس میں رسول ﷺ نے شرکت نہیں فرمائی، اور غزوہ ایسی جنگ جس میں آپ نے شرکت فرمائی۔

【267】

لشکر کے ایک حصہ کو انعام کے طور پر کچھ زیادہ دینا

اس سند سے بھی عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نجد کی طرف ایک سریہ بھیجا جس میں عبداللہ بن عمر (رض) بھی تھے، ان لوگوں کو غنیمت میں بہت سے اونٹ ملے، ان میں سے ہر ایک کے حصہ میں بارہ بارہ اونٹ آئے، اور ایک ایک اونٹ انہیں بطور نفل (انعام) دئیے گئے۔ ابن موہب کی روایت میں یہ اضافہ ہے : تو رسول اللہ ﷺ نے اس تقسیم کو بدلا نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ الخمس ١٥ (٣١٣٤) ، صحیح مسلم/ الجہاد ١٢ (١٧٤٩) ، (تحفة الأشراف : ٨٢٩٣، ٨٣٥٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٦٢، ١١٢، ١٥٦) ، موطا امام مالک/ الجہاد ٦ (١٥) ، دی السیر ٤ (٢٥٢٤) (صحیح )

【268】

لشکر کے ایک حصہ کو انعام کے طور پر کچھ زیادہ دینا

اس سند سے بھی عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایک سریہ میں بھیجا، تو ہمارے حصہ میں بارہ بارہ اونٹ آئے، اور ایک ایک اونٹ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں بطور انعام دیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے برد بن سنان نے نافع سے عبیداللہ کی حدیث کے ہم مثل روایت کیا ہے اور اسے ایوب نے بھی نافع سے اسی کے مثل روایت کیا، مگر اس میں یہ ہے کہ ہمیں ایک ایک اونٹ بطور نفل دئیے گئے اور انہوں نے نبی اکرم ﷺ کا ذکر نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/ الجہاد ١٢ (١٧٤٩) ، (تحفة الأشراف : ٨١٧٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٥٥) (صحیح )

【269】

لشکر کے ایک حصہ کو انعام کے طور پر کچھ زیادہ دینا

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جن سریوں کو بھیجتے انہیں عام لشکر کی تقسیم کے علاوہ بطور نفل خاص طور سے کچھ دیتے تھے اور خمس ان تمام میں واجب ہوتا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/فرض الخمس ١٥ (٣١٣٥) ، صحیح مسلم/الجھاد ١٢ (١٧٥٠) ، (تحفة الأشراف : ٦٨٨٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٤٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی پہلے پورے مال میں سے خمس نکالتے پھر انعام کچھ دینا ہوتا دیتے پھر باقی عام لشکر میں برابر تقسیم کرتے۔

【270】

لشکر کے ایک حصہ کو انعام کے طور پر کچھ زیادہ دینا

عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ بدر کے دن تین سو پندرہ افراد کے ہم راہ نکلے تو آپ نے یہ دعا فرمائی : اللهم إنهم حفاة فاحملهم اللهم إنهم عراة فاكسهم اللهم إنهم جياع فأشبعهم اے اللہ ! یہ لوگ پیدل ہیں تو ان کو سوار کر دے، اے اللہ ! یہ لوگ ننگے ہیں ان کو کپڑا دیدے، اے اللہ ! یہ لوگ بھوکے ہیں ان کو آسودہ کر دے ، پھر اللہ نے بدر کے دن انہیں فتح دی، جب وہ لوٹے تو کوئی بھی آدمی ان میں سے ایسا نہ تھا جو ایک یا دو اونٹ لے کر نہ آیا ہو، اور ان کے پاس کپڑے بھی ہوگئے اور وہ آسودہ بھی ہوگئے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٨٨٥٩) (حسن )

【271】

جو شخص یہ کہتا ہے کہ خمس انعام سے پہلے نکالا جائے گا

حبیب بن مسلمہ فہری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ (مال غنیمت میں سے) خمس (پانچواں حصہ) نکالنے کے بعد ثلث (ایک تہائی) بطور نفل (انعام) دیتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الجھاد ٣٥ (٢٨٥١) ، (تحفة الأشراف : ٣٢٩٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٥٩، ١٦٠) ، سنن الدارمی/السیر ٤٣ (٢٥٢٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی پہلے کل مال میں سے خمس (پانچواں حصہ) نکال لیتے پھر باقی میں سے ایک تہائی انعام میں دیتے اور دو تہائی بانٹ دیتے۔

【272】

جو شخص یہ کہتا ہے کہ خمس انعام سے پہلے نکالا جائے گا

حبیب بن مسلمہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ خمس نکالنے کے بعد ربع (ایک چوتھائی) بطور نفل دیتے تھے (ابتداء جہاد میں) اور جب جہاد سے لوٹ آتے (اور پھر ان میں سے کوئی گروہ کفار سے لڑتا) تو خمس نکالنے کے بعد ایک تہائی بطور نفل دیتے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٣٢٩٣) (صحیح )

【273】

جو شخص یہ کہتا ہے کہ خمس انعام سے پہلے نکالا جائے گا

مکحول کہتے ہیں میں مصر میں قبیلہ بنو ہذیل کی ایک عورت کا غلام تھا، اس نے مجھے آزاد کردیا، تو میں مصر سے اس وقت تک نہیں نکلا جب تک کہ اپنے خیال کے مطابق جتنا علم وہاں تھا اسے حاصل نہ کرلیا، پھر میں حجاز آیا تو وہاں سے بھی اس وقت تک نہیں نکلا جب تک کہ جتنا علم وہاں تھا اپنے خیال کے مطابق حاصل نہیں کرلیا، پھر عراق آیا تو وہاں سے بھی اس وقت تک نہیں نکلا جب تک کہ اپنے خیال کے مطابق جتنا علم وہاں تھا اسے حاصل نہ کرلیا، پھر میں شام آیا تو اسے بھی اچھی طرح چھان مارا، ہر شخص سے میں نفل کا حال پوچھتا تھا، میں نے کسی کو نہیں پایا جو اس سلسلہ میں کوئی حدیث بیان کرے، یہاں تک کہ میں ایک شیخ سے ملا جن کا نام زیاد بن جاریہ تمیمی تھا، میں نے ان سے پوچھا : کیا آپ نے نفل کے بارے میں کچھ سنا ہے ؟ کہا : ہاں ! میں نے حبیب بن مسلمہ فہری (رض) کو کہتے سنا ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حاضر تھا آپ ﷺ نے ابتداء میں ایک چوتھائی بطور نفل دیا اور لوٹ آنے کے بعد (پھر حملہ کرنے پر) ١ ؎ ایک تہائی بطور نفل دیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٢٧٤٨) ، (تحفة الأشراف : ٣٢٩٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس لئے کہ لوٹ آنے کے بعد پھر لڑنے کے لئے جانا سخت اور دشوار عمل ہے کیونکہ دشمن چوکنا اور محتاط ہوجاتا ہے۔

【274】

اس دستہ کا بیان جو لشکر میں آکر مل جائے

عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسلمانوں کے خون برابر ہیں ١ ؎ ان میں سے ادنیٰ شخص بھی کسی کو امان دے سکتا ہے، اور سب کو اس کی امان قبول کرنی ہوگی، اسی طرح دور مقام کا مسلمان پناہ دے سکتا ہے (گرچہ اس سے نزدیک والا موجود ہو) اور وہ اپنے مخالفوں کے لیے ایک ہاتھ کی طرح ہیں ٢ ؎ جس کی سواریاں زور آور اور تیز رو ہوں وہ (غنیمت کے مال میں) اس کے برابر ہوگا جس کی سواریاں کمزور ہیں، اور لشکر میں سے کوئی سریہ نکل کر مال غنیمت حاصل کرے تو لشکر کے باقی لوگوں کو بھی اس میں شریک کرے، کسی مسلمان کو کافر کے بدلے قتل نہ کیا جائے اور نہ ہی کسی ذمی کو ۔ ابن اسحاق نے القود ٣ ؎ اور التکافؤ کا ذکر نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، وأعاد بعض المؤلف فی الدیات (٤٥٣١) ، (تحفة الأشراف : ٨٧٨٦، ٨٨١٥) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الدیات ٣١ (٢٦٨٥) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی شریف اور رذیل کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا جائے گا۔ ٢ ؎ : یعنی مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہوں گے ایک دوسرے کی مدد کریں گے اور سب مل کر غیروں کا مقابلہ کریں گے۔ ٣ ؎ : اس سے مراد لا يقتل مؤمن بکافر کا جملہ ہے۔

【275】

اس دستہ کا بیان جو لشکر میں آکر مل جائے

سلمہ بن الاکوع (رض) کہتے ہیں کہ عبدالرحمٰن بن عیینہ نے رسول اللہ ﷺ کے اونٹوں کو لوٹ لیا، آپ کے چرواہے کو مار ڈالا، اور اونٹوں کو ہانکتا ہوا وہ اور اس کے ساتھ کچھ لوگ جو گھوڑوں پر سوار تھے چلے، تو میں نے اپنا رخ مدینہ کی طرف کیا، اور تین بار پکار کر کہا يا صباحاه (اے صبح کا حملہ) ١ ؎، اس کے بعد میں لٹیروں کے پیچھے چلا، ان کو تیر مارتا اور زخمی کرتا جاتا تھا، جب ان میں سے کوئی سوار میری طرف پلٹتا تو میں کسی درخت کی جڑ میں بیٹھ جاتا، یہاں تک کہ آپ ﷺ کے سارے اونٹوں کو میں نے اپنے پیچھے کردیا، انہوں نے اپنا بوجھ کم کرنے کے لیے تیس سے زائد نیزے اور تیس سے زیادہ چادریں نیچے پھینک دیں، اتنے میں عیینہ ان کی مدد کے لیے آپہنچا، اور اس نے کہا : تم میں سے چند آدمی اس شخص کی طرف (یعنی سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ) کی طرف جائیں (اور اسے قتل کردیں) چناچہ ان میں سے چار آدمی میری طرف آئے اور پہاڑ پر چڑھ گئے، جب اتنے فاصلہ پر ہوئے کہ میں ان کو اپنی آواز پہنچا سکوں تو میں نے کہا : تم مجھے پہچانتے ہو، انہوں نے کہا : تم کون ہو ؟ میں نے کہا : میں اکوع کا بیٹا ہوں، قسم اس ذات کی جس نے محمد ﷺ کو بزرگی عنایت کی، تم میں سے کوئی شخص مجھے پکڑنا چاہے تو کبھی نہ پکڑ سکے گا، اور میں جس کو چاہوں گا وہ بچ کر جا نہ سکے گا، پھر تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے سواروں کو دیکھا کہ درختوں کے بیچ سے چلے آ رہے ہیں، ان میں سب سے آگے اخرم اسدی (رض) تھے، وہ عبدالرحمٰن بن عیینہ فزاری سے جا ملے، عبدالرحمٰن نے ان کو دیکھا تو دونوں میں بھالا چلنے لگا، اخرم (رض) نے عبدالرحمٰن کے گھوڑے کو مار ڈالا، اور عبدالرحمٰن نے اخرم (رض) کو مار ڈالا، پھر عبدالرحمٰن اخرم (رض) کے گھوڑے پر سوار ہوگیا، اس کے بعد ابوقتادہ (رض) نے عبدالرحمٰن کو جا لیا، دونوں میں بھالا چلنے لگا، تو اس نے ابوقتادہ (رض) کے گھوڑے کو مار ڈالا، اور ابوقتادہ (رض) نے عبدالرحمٰن کو مار ڈالا، پھر ابوقتادہ اخرم کے گھوڑے پر سوار ہوگئے، اس کے بعد میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آگیا، آپ ذو قرد نامی چشمے پر تھے جہاں سے میں نے لٹیروں کو بھگایا تھا تو دیکھتا ہوں کہ آپ پانچ سو آدمیوں کے ساتھ موجود ہیں، آپ نے مجھے سوار اور پیدل دونوں کا حصہ دیا ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٤٥٢٧) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الجھاد ٤٥ (١٨٠٦) ، مسند احمد (٤/٤٨) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ” يا صباحاه “: یہ وہ کلمہ ہے جسے عام طور سے فریادی کہا کرتے تھے۔ ٢ ؎ : تو تین حصے دیئے یا چار، انہوں نے کام ہی ایسا کیا تھا کہ جو بہت سے آدمیوں سے نہ ہوتا، صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ” سواروں میں آج سب سے بہتر ابوقتادہ (رض) ہیں، اور پیادوں میں سب سے بہتر سلمہ بن الاکوع ہیں “ ، پھر سلمہ بن الاکوع (رض) نے کہا کہ رسول اکرم ﷺ نے مجھے اپنے پیچھے عضباء نامی اونٹی پر بیٹھا لیا، اور مدینے تک اسی طرح آئے۔ آپ ﷺ نے سلمہ بن الاکوع (رض) کو ایک سوار کا حصہ دیا، اور ایک پیدل کا، اس میں دو احتمال ہے : ایک یہ کہ چار حصے دیئے، دوسرے یہ کہ تین حصے دئیے، اس کی وجہ یہ ہے کہ سوار کے حصہ میں اختلاف ہے، جن لوگوں کے نزدیک سوار کے تین حصے ہیں، ایک حصہ خود اس کا، دو حصہ اس کے گھوڑے کا، اور جن کے نزدیک سوار کے دو حصے ہیں، ایک حصہ اس کا، اور ایک حصہ اس کے گھوڑے کا۔

【276】

سو نے چاندی میں سے نفل کا بیان اور غنیمت کے مال میں سے

ابو جویریہ جرمی کہتے ہیں کہ معاویہ (رض) کے عہد خلافت میں روم کی سر زمین میں مجھے ایک سرخ رنگ کا گھڑا ملا جس میں دینار تھے ١ ؎، اس وقت قبیلہ بنو سلیم کے ایک شخص جو نبی اکرم ﷺ کے صحابہ میں سے تھے، ہمارے اوپر حاکم تھے، ان کو معن بن یزید کہا جاتا تھا، میں اسے ان کے پاس لایا، انہوں نے ان دیناروں کو مسلمانوں میں بانٹ دیا اور مجھ کو اس میں سے اتنا ہی دیا جتنا ہر شخص کو دیا، پھر کہا : اگر میں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ کہتے سنا نہ ہوتا کہ نفل خمس ٢ ؎ نکالنے کے بعد ہی ہے تو میں تمہیں اوروں سے زیادہ دیتا، پھر وہ اپنے حصہ سے مجھے دینے لگے تو میں نے لینے سے انکار کیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١١٤٨٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٧٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : دشمن سے جو مال جہاد میں حاصل ہوتا ہے اسے غنیمت کہتے ہیں، غنیمت میں چار حصے غازیوں میں تقسیم کئے جاتے ہیں، اور ایک حصہ امام رکھ لیتا ہے، امام کو اختیار ہے کہ لشکر میں سے کسی خاص جماعت یا کسی خاص شخص کو کسی خاص کام کے سلسلے میں بطور انعام کچھ زیادہ دے دے، اسے نفل کہتے ہیں، یہ لشکر جو نجد کی طرف گیا تھا اس میں چار ہزار آدمی تھے، ہر ایک کے حصہ میں بارہ اونٹ آئے، لیکن پندرہ آدمیوں کی ایک ٹکڑی کو جن میں عبداللہ بن عمر (رض) تھے، ایک ایک اونٹ بطور نفل زیادہ دیا۔ ٢ ؎ : یہ غنیمت کا مال نہیں ہے جسے کافروں سے لڑ کر چھینا گیا ہو، بلکہ یہ فیٔ کا مال ہے جس میں خمس نہیں ہوتا لہٰذا اس میں نفل بھی نہیں ہوگا۔

【277】

سو نے چاندی میں سے نفل کا بیان اور غنیمت کے مال میں سے

اس سند سے بھی عاصم بن کلیب سے اسی طریق سے اور اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١١٤٨٤) (صحیح )

【278】

فئی میں سے اگر امام اپنے لئے کچھ رکھے تو کیا حکم ہے؟

عمرو بن عبسہ (رض) کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے ہمیں مال غنیمت کے ایک اونٹ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھائی، پھر جب سلام پھیرا تو اونٹ کے پہلو سے ایک بال لیا، اور فرمایا : تمہاری غنیمتوں میں سے میرے لیے اتنا بھی حلال نہیں سوائے خمس کے، اور خمس بھی تمہیں لوٹا دیا جاتا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٠٧٦٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ امام غنیمت کے مال میں سے سوائے خمس کے کچھ نہیں لے گا، اور خمس بھی جو لے گا وہ تنہا اس کا نہیں ہوگا بلکہ وہ اسے مسلمانوں ہی میں اس تفصیل کے مطابق خرچ کرے گا جسے اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ واعلموا أنما غنمتم من شيئ فإن لله خمسه وللرسول ولذي القربى ولليتامى والمساکين میں بیان کیا ہے۔

【279】

عہد پورا کرناضروری ہے

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بدعہدی کرنے والے کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا نصب کیا جائے گا، اور کہا جائے گا : یہ فلاں بن فلاں کی بدعہدی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجزیة ٢٢ (٣١٨٨) ، والأدب ٩٩ (٦١٧٧) ، والحیل ٩ (٦٩٦٦) ، والفتن ٢١ (٧١١١) ، (تحفة الأشراف : ٧٢٣٢) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الجھاد ٤ (١٧٣٦) ، سنن الترمذی/السیر ٢٨ (١٥٨١) ، مسند احمد (٢/١٤٢) وأعادہ المؤلف فی السنة (٤٦٥٥) (صحیح )

【280】

امام جو عہد کرے اس کی پابندی سب لوگوں پر ضروری ہے

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : امام بحیثیت ڈھال کے ہے اسی کی رائے سے لڑائی کی جاتی ہے (تو اسی کی رائے پر صلح بھی ہوگی) ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٣٧٨٨) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجھاد ١٠٩ (٢٩٥٧) ، صحیح مسلم/الإمارة ٩ (١٨٤١) ، سنن النسائی/البیعة ٣٠ (٤٢٠١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : امام اور امیر کی قیادت میں عام شہری اس کے حکم اور اس کی رائے اور اس کی طرف سے دشمن سے کیے گئے معاہدوں کے مطابق زندگی گزارتے ہیں، ایسی صورت میں امام رعایا کے لیے ڈھال ہوتا ہے ، جس کے ذریعے سے لوگ نقصانات سے محفوظ رہتے ہیں، جیسے ڈھال کے ذریعے آدمی دشمن کے وار سے محفوظ رہتا ہے ، امام اور دشمن کے درمیان جو بات صلح اور اتفاق سے طے ہوجاتی ہے ، اس کے مطابق دونوں فریق اپنے مسائل حل کرتے ہیں، تو امام کے معاہدہ کے نتیجے میں لوگ دشمن کی ایذا سے محفوظ رہتے ہیں، اس لیے امام اور حاکم کی حیثیت امن اور جنگ میں ڈھال کی ہے ، جس سے رعایا فوائد حاصل کرتی ہے ، اور دشمن کے شر سے محفوظ رہتی ہے۔

【281】

امام جو عہد کرے اس کی پابندی سب لوگوں پر ضروری ہے

ابورافع (رض) کہتے ہیں کہ قریش نے مجھے (صلح حدیبیہ میں) رسول اللہ ﷺ کے پاس بھیجا، جب میں نے آپ کو دیکھا تو میرے دل میں اسلام کی محبت پیدا ہوگئی، میں نے کہا : اللہ کے رسول ! اللہ کی قسم ! میں ان کی طرف کبھی لوٹ کر نہیں جاؤں گا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں نہ تو بدعہدی کرتا ہوں اور نہ ہی قاصدوں کو گرفتار کرتا ہوں، تم واپس جاؤ، اگر تمہارے دل میں وہی چیز رہی جو اب ہے تو آجانا ، ابورافع کہتے ہیں : میں قریش کے پاس لوٹ آیا، پھر دوبارہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کر مسلمان ہوگیا۔ بکیر کہتے ہیں : مجھے حسن بن علی نے خبر دی ہے کہ ابورافع قبطی غلام تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ اس زمانہ میں تھا اب یہ مناسب نہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٢٠١٣) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/ الکبری/ السیر (٨٦٧٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اسلام لے آنے والے قاصد کو کفار کی طرف لوٹا دینا اسی مدت کے اندر اور خاص آپ ﷺ کے لئے تھا، اب ایسا کرنا اسلامی کاز کے لئے بہتر نہیں ہے۔

【282】

جب امام میں اور دشمنوں میں عہد قرار پا جائے تو امام ان کے ملک میں جاسکتا ہے

سلیم بن عامر سے روایت ہے، وہ قبیلہ حمیر کے ایک فرد تھے، وہ کہتے ہیں معاویہ (رض) اور رومیوں کے درمیان ایک متعین وقت تک کے لیے یہ معاہدہ تھا کہ وہ آپس میں لڑائی نہیں کریں گے، (اس مدت میں) معاویہ (رض) ان کے شہروں میں جاتے تھے، یہاں تک کہ جب معاہدہ کی مدت گزر گئی، تو انہوں نے ان سے جنگ کی، ایک شخص عربی یا ترکی گھوڑے پر سوار ہو کر آیا، وہ کہہ رہا تھا : اللہ اکبر، اللہ اکبر، وعدہ کا پاس و لحاظ ہو بدعہدی نہ ہو ١ ؎ لوگوں نے اس کو بغور دیکھا تو وہ عمرو بن عبسہ (رض) تھے۔ معاویہ (رض) نے ایک شخص کو ان کے پاس بھیجا، اس نے ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : جس شخص کا کسی قوم سے معاہدہ ہو تو معاہدہ نہ توڑے اور نہ نیا معاہدہ کرے جب تک کہ اس معاہدہ کی مدت پوری نہ ہوجائے، یا برابری پر عہد ان کی طرف واپس نہ کر دے ، تو یہ سن کر معاویہ (رض) واپس آگئے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/السیر ٢٧ (١٥٨٠) ، (تحفة الأشراف : ١٠٧٥٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١١١، ١١٣، ٣٨٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : عمرو بن عبسہ (رض) نے معاویہ (رض) کے اس عمل کو اس لئے ناپسند کیا کیونکہ معاہدہ کی مدت پوری ہونے کے فوراً بعد دشمن کو آگاہ کئے بغیر جنگ نامناسب تھی اور بہتر یہ تھا کہ مدت پوری ہونے کے بعد دشمن کو آگاہ کردیا جاتا پھر جنگ شروع کی جاتی۔

【283】

ذمی کافر کو قتل کرنا بڑا گناہ ہے

ابوبکرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو کسی معاہد کو بغیر کسی وجہ کے قتل کرے گا تو اللہ اس پر جنت حرام کر دے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/القسامة ١٠(٤٧٥١) ، (تحفة الأشراف : ١١٦٩٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٦، ٣٨، ٤٦، ٥٠، ٥١) ، سنن الدارمی/السیر ٦١ (٢٥٤٦) (صحیح )

【284】

ایلچیوں کا بیان

نعیم بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو جس وقت آپ نے مسیلمہ کا خط پڑھا اس کے دونوں ایلچیوں سے کہتے سنا : تم دونوں مسیلمہ کے بارے میں کیا کہتے ہو ؟ ان دونوں نے کہا : ہم وہی کہتے ہیں جو مسیلمہ ١ ؎ نے کہا ہے ، (یعنی اس کی تصدیق کرتے ہیں) آپ ﷺ نے فرمایا : اگر یہ نہ ہوتا کہ سفیر قتل نہ کئے جائیں تو میں تم دونوں کی گردن مار دیتا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١١٦٥٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٨٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مسیلمہ نے نبی اکرم ﷺ کے زمانہ میں نبوت کا دعوی کیا تھا، عبداللہ بن نواحہ اور ابن اثال مسیلمہ کا پیام لے کر نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے تھے، اسی موقع پر آپ نے فرمایا تھا کہ اگر یہ نہ ہوتا کہ قاصد قتل نہ کئے جائیں، تو میں تم دونوں کی گردن مار دیتا، ابوبکر (رض) کی خلافت میں خالد بن ولید (رض) کی سر کردگی میں ایک لشکر مسیلمہ سے مقابلہ کے لئے روانہ کیا گیا بالآخر وحشی کے ہاتھوں مسیلمہ مارا گیا۔

【285】

ایلچیوں کا بیان

حارثہ بن مضرب سے روایت ہے کہ انہوں نے عبداللہ بن مسعود (رض) کے پاس آ کر کہا : میرے اور کسی عرب کے بیچ کوئی عداوت و دشمنی نہیں ہے، میں قبیلہ بنو حنیفہ کی ایک مسجد سے گزرا تو لوگوں کو دیکھا کہ وہ مسیلمہ پر ایمان لے آئے ہیں، یہ سن کر عبداللہ بن مسعود (رض) نے ان لوگوں کو بلا بھیجا، وہ ان کے پاس لائے گئے تو انہوں نے ابن نواحہ کے علاوہ سب سے توبہ کرنے کو کہا، اور ابن نواحہ سے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : اگر تو ایلچی نہ ہوتا تو میں تیری گردن مار دیتا آج تو ایلچی نہیں ہے ۔ پھر انہوں نے قرظہ بن کعب کو حکم دیا تو انہوں نے بازار میں اس کی گردن مار دی، اس کے بعد عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہا : جو شخص ابن نواحہ کو دیکھنا چاہے وہ بازار میں جا کر دیکھ لے وہ مرا پڑا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٩١٩٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٨٤) ، سنن الدارمی/السیر ٦٠ (٢٥٤٥) (صحیح )

【286】

عورت اگر کسی کافر کو امان دے

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ مجھ سے ام ہانی بنت ابوطالب (رض) نے بیان کیا ہے کہ انہوں نے فتح مکہ کے دن ایک مشرک کو امان دی، پھر نبی اکرم ﷺ کے پاس آئیں اور آپ سے اس کا ذکر کیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : ہم نے اس کو پناہ دی جس کو تم نے پناہ دی، اور ہم نے اس کو امان دیا جس کو تم نے امان دیا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨٠٠٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصلاة ٤ (٣٥٧) ، والجزیة ٩ (٣١٧١) ، والأدب ٩٤ (٦١٥٨) ، صحیح مسلم/المسافرین ١٦ (٣٣٦) ، موطا امام مالک/قصر الصلاة ٨ (٢٨) ، مسند احمد (٦/٣٤٣، ٤٢٣) ، دي الصلاة ١٥١ (١٤٩٤) (صحیح )

【287】

عورت اگر کسی کافر کو امان دے

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ اگر کوئی عورت کسی کافر کو مسلمانوں سے پناہ دے دیا کرتی تو وہ پناہ درست ہوتی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥٩٩٨) (صحیح )

【288】

دشمن سے صلح کرنے کا بیان

مسور بن مخرمہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ حدیبیہ کے سال ایک ہزار سے زائد صحابہ کے ہمراہ نکلے، جب آپ ﷺ ذوالحلیفہ پہنچے تو ہدی کو قلادہ پہنایا، اور اشعار کیا، اور عمرہ کا احرام باندھا، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی، اس میں ہے : اور نبی کریم ﷺ وہاں سے چلے یہاں تک کہ جب ثنیہ میں جہاں سے مکہ میں اترتے ہیں پہنچے تو آپ ﷺ کی اونٹنی آپ کو لے کر بیٹھ گئی، لوگوں نے کہا : حل حل ١ ؎ قصواء اڑ گئی، قصواء اڑ گئی، آپ ﷺ نے فرمایا : قصواء اڑی نہیں اور نہ ہی اس کو اڑنے کی عادت ہے، لیکن اس کو ہاتھی کے روکنے والے نے روک دیا ہے ، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے قریش جو چیز بھی مجھ سے طلب کریں گے جس میں اللہ کے حرمات کی تعظیم ہوتی ہو تو وہ میں ان کو دوں گا ، پھر آپ ﷺ نے اونٹنی کو ڈانٹ کر اٹھایا تو وہ اٹھی اور آپ ایک طرف ہوئے یہاں تک کہ میدان حدیبیہ کے آخری سرے پر ایک جگہ جہاں تھوڑا سا پانی تھا جا اترے، تو آپ ﷺ کے پاس بدیل بن ورقاء خزاعی آیا، پھر وہ یعنی عروہ بن مسعود ثقفی آپ ﷺ کے پاس آیا اور آپ سے گفتگو کرنے لگا، گفتگو میں عروہ باربار آپ کی ریش مبارک کو ہاتھ لگاتا، مغیرہ بن شعبہ (رض) نبی اکرم ﷺ کے پاس کھڑے تھے، وہ تلوار لیے ہوئے اور زرہ پہنے ہوئے تھے، انہوں نے عروہ کے ہاتھ پر تلوار کی کاٹھی ماری اور کہا : نبی اکرم ﷺ کی داڑھی سے اپنا ہاتھ دور رکھ، تو عروہ نے اپنا سر اٹھایا اور پوچھا : یہ کون ہے ؟ لوگوں نے کہا : مغیرہ بن شعبہ ہیں، اس پر عروہ نے کہا : اے بدعہد ! کیا میں نے تیری عہد شکنی کی اصلاح میں سعی نہیں کی ؟ اور وہ واقعہ یوں ہے کہ مغیرہ (رض) نے زمانہ جاہلیت میں چند لوگوں کو اپنے ساتھ لیا تھا، پھر ان کو قتل کیا اور ان کے مال لوٹے ٢ ؎ پھر نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر مسلمان ہوگئے، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : رہا اسلام تو ہم نے اسے قبول کیا، اور رہا مال تو ہمیں اس کی ضرورت نہیں ٣ ؎ اس کے بعد مسور (رض) نے آخر تک حدیث بیان کی۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : لکھو، یہ وہ صلح نامہ ہے جس پر محمد رسول اللہ ﷺ نے مصالحت کی ہے ، پھر پورا قصہ بیان کیا۔ سہیل نے کہا : اور اس بات پر بھی کہ جو کوئی قریش میں سے آپ کے پاس آئے گا گو وہ مسلمان ہو کر آیا ہو تو آپ اسے ہماری طرف واپس کردیں گے، پھر جب آپ صلح نامہ لکھا کر فارغ ہوئے تو آپ ﷺ نے اپنے صحابہ سے فرمایا : اٹھو اور اونٹ نحر (ذبح) کرو، پھر سر منڈا ڈالو ، پھر مکہ کی کچھ عورتیں مسلمان ہو کر مسلمانوں کے پاس ہجرت کر کے آئیں، اللہ تعالیٰ نے ان کو واپس کردینے سے منع فرمایا اور حکم دیا کہ جو مہر ان کے کافر شوہروں نے انہیں دیا تھا انہیں واپس کردیں۔ پھر آپ ﷺ مدینہ واپس آئے تو ایک شخص قریش میں سے جس کا نام ابوبصیر تھا، آپ کے پاس مسلمان ہو کر آگیا، قریش نے اس کو واپس لانے کے لیے دو آدمی بھیجے، آپ ﷺ نے ابوبصیر کو ان کے حوالہ کردیا، وہ ابوبصیر کو ساتھ لے کر نکلے، جب وہ ذوالحلیفہ پہنچے تو اتر کر اپنی کھجوریں کھانے لگے، ابوبصیر نے ان دونوں میں سے ایک کی تلوار دیکھ کر کہا : اللہ کی قسم ! تمہاری تلوار بہت ہی عمدہ ہے، اس نے میان سے نکال کر کہا : ہاں میں اس کو آزما چکا ہوں، ابوبصیر نے کہا : مجھے دکھاؤ ذرا میں بھی تو دیکھوں، اس قریشی نے اس تلوار کو ابوبصیر کے ہاتھ میں دے دی، تو انہوں نے (اسی تلوار سے) اسے مارا یہاں تک کہ وہ ٹھنڈا ہوگیا، (یہ دیکھ کر) دوسرا ساتھی بھاگ کھڑا ہوا یہاں تک کہ وہ مدینہ واپس آگیا اور دوڑتے ہوئے مسجد میں جا گھسا۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : یہ ڈر گیا ہے ، وہ بولا : قسم اللہ کی ! میرا ساتھی مارا گیا اور میں بھی مارا جاؤں گا، اتنے میں ابوبصیر آپہنچے اور بولے : اللہ کے رسول ! آپ نے اپنا عہد پورا کیا، مجھے کافروں کے حوالہ کردیا، پھر اللہ نے مجھے ان سے نجات دی، آپ ﷺ نے فرمایا : تباہی ہو اس کی ماں کے لیے، عجب لڑائی کو بھڑکانے والا ہے، اگر اس کا کوئی ساتھی ہوتا ، ابوبصیر نے جب یہ سنا تو سمجھ گئے کہ آپ ﷺ پھر انہیں ان کے حوالہ کردیں گے، چناچہ وہ وہاں سے نکل کھڑے ہوئے اور سمندر کے کنارے پر آگئے اور (ابوجندل جو صلح کے بعد آپ ﷺ کے پاس آئے تھے لیکن آپ نے انہیں واپس کردیا تھا) کافروں کی قید سے اپنے آپ کو چھڑا کر ابوبصیر سے آ ملے یہاں تک کہ وہاں ان کی ایک جماعت بن گئی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ١٠٦ (١٦٩٤) ، والشروط ١٦ (٢٧٣٤) ، والمغازي ٣٥ (٤١٤٨) ، ن الحج ٦٢ (٢٧٧٢) ، (تحفة الأشراف : ١١٢٧٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٢٣، ٣٢٧، ٣٢٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ” حل حل “ : یہ کلمہ اس وقت کہا جاتا ہے جب اونٹنی رک جائے اور چلنا چھوڑ دے۔ ٢ ؎ : اصل واقعہ یہ ہے کہ بنو مالک کی شاخ ثقیف کے تیرہ لوگوں کے ساتھ مغیرہ بن شعبہ (رض) مقوقس مصر کی زیارت کے لئے نکلے تھے واپسی میں مقوقس مصر نے ان لوگوں کو خوب خوب ہدایا و تحائف دئیے لیکن مغیرہ (رض) کو کم نوازا جس کی وجہ سے انہیں غیرت آگئی، راستے میں ان لوگوں نے ایک جگہ پڑاؤ ڈالا اور شراب اس قدر پی کہ سب مدہوش ہوگئے، مغیرہ (رض) کو اچھا موقع ہاتھ آیا انہوں نے سب کو قتل کردیا اور سب کے سامان لے لئے، بعد میں مقتولین کے ورثاء نے عروہ بن مسعود ثقفی سے جھگڑا کیا کیونکہ مغیرہ (رض) ان کے بھتیجے تھے بمشکل عروہ نے ان سب کو دیت پر راضی کرکے فیصلہ کرایا، اسی احسان کی طرف عروہ نے اشارہ کیا ہے۔ ٣ ؎ : کیونکہ یہ مکر اور فریب سے حاصل ہوا ہے۔

【289】

دشمن سے صلح کرنے کا بیان

عروہ بن زیبر سے روایت ہے کہ مسور بن مخرمہ (رض) اور مروان بن حکم نے اس بات پر صلح کی کہ دس برس تک لڑائی بند رہے گی، اس مدت میں لوگ امن سے رہیں گے، طرفین کے دل ایک دوسرے کے بارے میں صاف رہیں گے ١ ؎ اور نہ اعلانیہ لوٹ مار ہوگی نہ چوری چھپے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، وانظر ما قبلہ ، (تحفة الأشراف : ١١٢٥٣) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : حدیث میں عیبہ کا لفظ آیا ہے ، جس کے معنی ایسی تھیلی یا گٹھری کے ہیں جس میں عمدہ کپڑے رکھے جاتے ہیں، یہاں دل کو عیبہ سے تشبیہ دی اور مکفوفہ کے معنی بندھے ہوئے کے ہیں، یعنی ہمارے درمیان کپڑوں کا صندوق بند رہے گا، یعنی ہمارا دل ہر طرح کے مکر و فساد ، کینے اور بدعہدی سے پاک ہوگا، عہد کی محافظت و پاسداری کی جائے گی اور دونوں طرف سے اب تک جو باتیں ہوئی ہیں انہیں لپیٹ کر رکھ دیا جائے گا کسی کی طرف سے کوئی مواخذہ نہیں ہوگا۔ ٢ ؎ : بعض لوگوں کے یہاں حدیث میں وارد إسلال سے مراد تلواریں نکالنا ہے، اور إغلال سے مراد زرہ پہننا ہے، اور لا إسلال ولا إغلال کے معنی ہیں جنگ نہیں کریں گے۔

【290】

دشمن سے صلح کرنے کا بیان

حسان بن عطیہ کہتے ہیں کہ مکحول اور ابن ابی زکریا خالد بن معدان کی طرف مڑے اور میں بھی ان کے ساتھ مڑا تو انہوں نے ہم سے جبیر بن نفیر کے واسطہ سے بیان کیا وہ کہتے ہیں : جبیر نے (مجھ سے) کہا : ہمیں ذومخبر (رض) جو نبی اکرم ﷺ کے صحابہ میں سے ہیں کے پاس لے چلو، چناچہ ہم ان کے پاس آئے جبیر نے ان سے صلح کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : قریب ہے کہ تم روم سے ایسی صلح کرو گے کہ کوئی خوف نہ رہے گا، پھر تم اور وہ مل کر ایک اور دشمن سے لڑو گے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الفتن ٣٥ (٤٠٨٩) ، (تحفة الأشراف : ٣٥٤٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٩١، ٥/٤٠٩) ویأتی عند المؤلف فی الملاحم برقم (٤٢٩٣) (صحیح )

【291】

دشمن کے پاس غفلت دے کر جانا اور دھوکہ دے کر اس کو ماردینا

جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کون ہے جو کعب بن اشرف ١ ؎ کے قتل کا بیڑا اٹھائے ؟ کیونکہ اس نے اللہ اور اس کے رسول کو تکلیف پہنچائی ہے ، یہ سن کر محمد بن مسلمہ (رض) کھڑے ہوگئے اور بولے : اللہ کے رسول ! میں، کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں اس کو قتل کر دوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں ، محمد بن مسلمہ (رض) نے کہا : پھر آپ مجھے اجازت دیجئیے کہ میں کچھ کہہ سکوں، آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں، کہہ سکتے ہو ، پھر انہوں نے کعب کے پاس آ کر کہا : اس شخص (یعنی محمد ﷺ ) نے ہم سے صدقے مانگ مانگ کر ہماری ناک میں دم کر رکھا ہے، کعب نے کہا : ابھی کیا ہے ؟ تم اور اکتا جاؤ گے، اس پر انہوں نے کہا : ہم اس کی پیروی کرچکے ہیں اب یہ بھی اچھا نہیں لگتا کہ اس کا ساتھ چھوڑ دیں جب تک کہ اس کا انجام نہ دیکھ لیں کہ کیا ہوتا ہے ؟ ہم تم سے یہ چاہتے ہیں کہ ایک وسق یا دو وسق اناج ہمیں بطور قرض دے دو ، کعب نے کہا : تم اس کے عوض رہن میں میرے پاس کیا رکھو گے ؟ محمد بن مسلمہ نے کہا : تم کیا چاہتے ہو ؟ کعب نے کہا : اپنی عورتوں کو رہن رکھ دو ، انہوں نے کہا : سبحان الله ! تم عربوں میں خوبصورت ترین آدمی ہو، اگر ہم اپنی عورتوں کو تمہارے پاس گروی رکھ دیں تو یہ ہمارے لیے عار کا سبب ہوگا، اس نے کہا : اپنی اولاد کو رکھ دو ، انہوں نے کہا : سبحان الله ! جب ہمارا بیٹا بڑا ہوگا تو لوگ اس کو طعنہ دیں گے کہ تو ایک وسق یا دو وسق کے بدلے گروی رکھ دیا گیا تھا، البتہ ہم اپنا ہتھیار تمہارے پاس گروی رکھ دیں گے، کعب نے کہا ٹھیک ہے۔ پھر جب محمد بن مسلمہ (رض) کعب کے پاس گئے اور اس کو آواز دی تو وہ خوشبو لگائے ہوئے نکلا، اس کا سر مہک رہا تھا، محمد بن مسلمہ (رض) ابھی بیٹھے ہی تھے کہ ان کے ساتھ تین چار آدمی جو اور تھے سبھوں نے اس کی خوشبو کا ذکر شروع کردیا، کعب کہنے لگا کہ میرے پاس فلاں عورت ہے جو سب سے زیادہ معطر رہتی ہے، محمد بن مسلمہ (رض) نے کہا : کیا تم اجازت دیتے ہو کہ میں (تمہارے بال) سونگھوں ؟ اس نے کہا : ہاں، تو محمد بن مسلمہ (رض) نے اپنا ہاتھ اس کے سر میں ڈال کر سونگھا، پھر دوبارہ اجازت چاہی اس نے کہا : ہاں، پھر انہوں نے اپنا ہاتھ اس کے سر پر رکھا، پھر جب اسے مضبوطی سے پکڑ لیا تو (اپنے ساتھیوں سے) کہا : پکڑو اسے، پھر ان لوگوں نے اس پر وار کیا یہاں تک کہ اسے مار ڈالا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الرھن ٣ (٢٥١٠) ، والجھاد ١٥٨ (٣٠٣١) ، والمغازي ١٥ (٤٠٣٧) ، صحیح مسلم/الجھاد ٤٢ (١٨٠١) ، (تحفة الأشراف : ٢٥٢٤) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/ الکبری/ (٨٦٤١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : کعب بن اشرف یہودیوں کا سردار تھا، نبی اکرم ﷺ کی ہجو کرتا تھا، دوسروں کو بھی اس پر ابھارتا تھا اس کے ساتھ ساتھ عہد شکنی کا مجرم بھی تھا اسی لئے آپ نے اس کے قتل کا حکم دیا۔

【292】

دشمن کے پاس غفلت دے کر جانا اور دھوکہ دے کر اس کو ماردینا

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ایمان نے کسی کو دھوکہ سے قتل کرنے کو روک دیا، کوئی مومن دھوکہ سے قتل نہیں کرتا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٣٦١٥) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الحج ٧٦ (٣٢٧٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : معلوم ہوا کہ غفلت میں پڑے ہوئے شخص کو قتل کرنا درست نہیں اسی لئے کہا جاتا ہے کہ کعب بن اشرف کے قتل کا واقعہ اس حدیث میں فتک ( غفلت میں قتل) کی ممانعت سے قبل کا ہے یا کعب کا قتل اس کی عہد شکنی اور نبی اکرم ﷺ کی مسلسل ہجو کرنے اور اس پر دوسروں کو ابھارنے کی وجہ سے تھا۔

【293】

سفر میں ہر بلندی پر چڑھتے ہوئے تکبیر کہنا

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب جہاد یا حج و عمرہ سے لوٹتے تو ہر بلندی پر چڑھتے وقت تین بار الله اکبر کہتے، اور اس کے بعد یہ دعا پڑھتے : لا إله إلا الله، وحده لا شريك له، له الملک وله الحمد وهو على كل شيء قدير، آيبون تائبون عابدون ساجدون لربنا حامدون، صدق الله وعده، ونصر عبده، وهزم الأحزاب وحده اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، وہ تن تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کے لیے بادشاہت ہے، اور اسی کے لیے حمد ہے، او وہ ہر چیز پر قادر ہے، ہم لوٹنے والے ہیں، توبہ کرنے والے ہیں، عبادت کرنے والے ہیں، سجدہ کرنے والے ہیں، اپنے پروردگار کی تعریف کرنے والے ہیں، اللہ نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا، اپنے بندے کی مدد کی، اور اکیلے ہی جتھوں کو شکست دی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ١٢ (١٧٩٧) ، والجھاد ١٣٣ (٢٩٩٥) ، والمغازي ٢٩ (٤١١٦) ، صحیح مسلم/الحج ١٥ (١٣٤٤) ، سنن الترمذی/الحج ١٠٤ (٩٥٠) ، (تحفة الأشراف : ٨٣٣٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٦٣) (صحیح )

【294】

جہاد سے لوٹ آنے کی اجازت ممانعت کے بعد

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ آیت کریمہ لا يستأذنک الذين يؤمنون بالله واليوم الآخر اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان و یقین رکھنے والے تو کبھی بھی تجھ سے اپنے مالوں اور اپنی جانوں کو لے کر جہاد کرنے سے رکے رہنے کی اجازت طلب نہیں کریں گے۔۔۔ (سورۃ التوبہ : ٤٤) کو سورة النور کی آیت إنما المؤمنون الذين آمنوا بالله ورسوله سے غفور رحيم تک باایمان لوگ تو وہی ہیں جو اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسول پر یقین رکھتے ہیں اور جب ایسے معاملہ میں جس میں لوگوں کے ساتھ جمع ہونے کی ضرورت ہوتی ہے نبی کے ساتھ ہوتے ہیں تو جب تک آپ سے اجازت نہ لیں کہیں نہیں جاتے، جو لوگ ایسے موقع پر آپ سے اجازت لے لیتے ہیں حقیقت میں یہی ہیں جو اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسول پر ایمان لا چکے ہیں، پس جب ایسے لوگ آپ سے اپنے کسی کام کے لیے اجازت طلب کریں تو آپ ان میں سے جسے چاہیں اجازت دے دیں اور ان کے لیے اللہ سے بخشش کی دعا مانگیں، بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے (سورۃ النور : ٦٢) نے منسوخ کردیا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٦٢٥٧) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : باب اور اثر ابن عباس (رض) کا مطلب یہ ہے کہ پہلے کسی صورت میں جہاد سے چھٹی لے کر گھر آجانے کی اجازت نہیں تھی، پھر بعد میں اجازت لے کر آنے کی رخصت مل گئی۔ ابتدائے اسلام میں منافقوں کی عام روش یہ تھی کہ وہ جہاد کے لئے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلتے نہیں تھے، اور اگر نکلتے بھی تو طرح طرح کے بہانے کر آپ ﷺ سے اجازت لے کر راستہ ہی سے واپس آجاتے تھے، تو اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ نازل فرمائی : إنما يستأذنک الذين لا يؤمنون بالله واليوم الآخر ( سورة التوبہ : ٤٥ ) ، جب یہ آیت اتری تو جہاد سے راستہ سے واپس آنے کو ممنوع قرار دے دیا گیا، گو آپ ﷺ کی اجازت ہی سے کیوں نہ ہو۔ پھر جب اسلام طاقتور ہوگیا گو آپ ﷺ اور مجاہدین کی کثرت ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے سورة نور کی آیت : إنما المؤمنون الذين آمنوا بالله ورسوله سے غفور رحيم تک نازل فرمائی، تو پہلی آیت منسوخ ہوگئی اور بوقت ضرورت اجازت لے کر جہاد سے واپس آجانے کو جائز قرار دے دیا گیا۔

【295】

خوشخبری دینے کے لئے کسی کو بھیجنا

جریر (رض) کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا تم مجھے ذو الخلصہ ١ ؎ سے آرام نہیں پہنچاؤ گے ؟ ٢ ؎، یہ سن کر جریر (رض) وہاں آئے اور اسے جلا دیا پھر انہوں نے قبیلہ احمس کے ایک آدمی کو جس کی کنیت ابوارطاۃ تھی رسول اللہ ﷺ کے پاس بھیجا کہ وہ آپ کو اس کی خوشخبری دیدے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجھاد ١٥٤ (٣٠٢٠) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٢٩ (٢٤٧٦) ، (تحفة الأشراف : ٣٢٢٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٦٠، ٣٦٢، ٣٦٥) (صحیح) بأتم منہ ۔ وضاحت : ١ ؎ : ایک گھر تھا جس میں دوس اور خثعم کے بت رہتے تھے، اور بعضوں نے کہا خود بت کا نام تھا۔ ٢ ؎ : تم مجھے ذوالخلصہ سے آرام نہیں پہنچاؤ گے کا مطلب ہے کہ کیا تم اسے برباد نہیں کروگے کہ خس کم جہاں پاک۔

【296】

جو شخص خوشخبری لے کر آئے اس کو کچھ بطور انعام دینا۔

کعب بن مالک (رض) کہتے ہیں نبی اکرم ﷺ جب سفر سے آتے تو پہلے مسجد میں جاتے اور اس میں دو رکعت نماز پڑھتے، پھر لوگوں سے ملاقات کے لیے بیٹھتے (اس کے بعد ابن السرح نے پوری حدیث بیان کی، اس میں ہے کہ) رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو ہم تینوں ١ ؎ سے بات کرنے سے منع فرما دیا، یہاں تک کہ مجھ پر جب ایک لمبا عرصہ گزر گیا تو میں اپنے چچا زاد بھائی ابوقتادہ (رض) کے باغ میں دیوار پھاند کر گیا، میں نے ان کو سلام کیا، اللہ کی قسم انہوں نے جواب تک نہیں دیا، پھر میں نے اپنے گھر کی چھت پر پچاسویں دن کی نماز فجر پڑھی تو ایک پکارنے والے کی آواز سنی جو پکار رہا تھا : کعب بن مالک ! خوش ہوجاؤ، پھر جب وہ شخص جس کی آواز میں نے سنی تھی میرے پاس آیا، تو میں نے اپنے دونوں کپڑے اتار کر اس کو پہنا دیئے، اور میں مسجد نبوی کی طرف چل پڑا، رسول اللہ ﷺ وہاں تشریف فرما تھے، مجھ کو دیکھ کر طلحہ بن عبیداللہ (رض) اٹھ کھڑے ہوئے اور دوڑ کر مجھ سے مصافحہ کیا اور مجھے مبارکباد دی ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ الجہاد ١٩٨ (٣٠٨٨) ، صحیح مسلم/المسافرین ١٢ (٧١٦) ، سنن النسائی/المساجد ٣٨(٧٣٢) ، (تحفة الأشراف : ١١١٣٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ہم تینوں سے مراد کعب بن مالک، ہلال بن امیہ اور مرارہ بن ربیع رضی اللہ عنہم ہیں، یہ لوگ بغیر کسی عذر شرعی کے غزوہ تبوک میں نہیں گئے، جب رسول اکرم ﷺ غزوہ سے واپس آئے تو ان لوگوں نے خدمت اقدس میں حاضر ہو کر صاف صاف کہہ دیا کہ اللہ کے رسول ہمارے پاس کوئی عذر نہیں تھا، محض سستی کی وجہ سے ہم لوگ اس غزوہ میں شریک نہیں ہوئے، اسی بناء پر آپ ﷺ نے یہ حکم صادر فرمایا تھا کہ ان تینوں سے کوئی بات نہ کرے۔ ٢ ؎ : یہ توبہ قبول ہونے کی مبارکبادی تھی۔

【297】

سجدہ شکر کا بیان

ابوبکرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس جب کوئی خوشی کی بات آتی یا آپ ﷺ کو کوئی خوشخبری سنائی جاتی تو اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے سجدہ میں گرپڑتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/السیر ٢٥ (١٥٧٨) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٩٢ (١٣٩٤) ، (تحفة الأشراف : ١١٦٩٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اسے سجدہ شکر کہتے ہیں، جو ائمہ اسلام شافعی، احمد، اور محمد کے نزدیک مسنون اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک مکروہ ہے، یہ حدیث ان کے خلاف حجت ہے۔

【298】

دعا میں ہاتھ اٹھانے کا بیان

سعد (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مکہ سے نکلے، ہم مدینہ کا ارادہ کر رہے تھے، جب ہم عزورا ١ ؎ کے قریب ہوئے تو آپ ﷺ اترے، پھر آپ نے دونوں ہاتھوں کو اٹھایا، اور کچھ دیر اللہ سے دعا کی، پھر سجدہ میں گرپڑے، اور بڑی دیر تک سجدہ ہی میں پڑے رہے، پھر کھڑے ہوئے اور دونوں ہاتھ اٹھا کر کچھ دیر تک اللہ سے دعا کی، پھر سجدے میں گرپڑے اور دیر تک سجدہ میں پڑے رہے، پھر اٹھے اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر کچھ دیر دعا کی، پھر دوبارہ آپ سجدے میں گرپڑے، اور فرمایا : میں نے اپنے رب سے دعا کی اور اپنی امت کے لیے سفارش کی تو اللہ نے مجھے ایک تہائی امت دے دی، میں اپنے رب کا شکر ادا کرتے ہوئے سجدہ میں گرگیا ، پھر سر اٹھایا، اور اپنی امت کے لیے دعا کی تو اللہ نے مجھے اپنی امت کا ایک تہائی اور دے دیا تو میں اپنے رب کا شکر ادا کرنے کے لیے پھر سجدہ میں گرگیا ، پھر میں نے اپنا سر اٹھایا، اور اپنی امت کے لیے اپنے رب سے درخواست کی تو اللہ نے جو ایک تہائی باقی تھا اسے بھی مجھے دے دیا تو میں اپنے رب کا شکریہ ادا کرنے کے لیے سجدے میں گرپڑا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٣٨٧٠) (اس کے راوی ابن عثمان مجہول اور اشعث لین الحدیث ہیں) (ضعیف ) وضاحت : ١ ؎ : جحفہ کے پاس ایک گھاٹی کا نام ہے۔

【299】

رات میں اچانک سفر سے گھر واپس نہ آئے

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ناپسند فرماتے تھے کہ آدمی سفر سے رات میں اپنے گھر واپس آئے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العمرة (الحج) ١٦(١٨٠١) ، صحیح مسلم/الإمارة ٥٦ (٧١٥) ، (تحفة الأشراف : ٢٥٧٧) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الاستئذان ١٩ (٢٧١٣) ، مسند احمد (٣/٢٩٩، ٣٠٢) (صحیح )

【300】

رات میں اچانک سفر سے گھر واپس نہ آئے

جابر (رض) نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا : سفر سے گھر واپس آنے کا اچھا وقت یہ ہے کہ آدمی شام میں آئے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النکاح ١٢١ (٥٢٤٤) ، صحیح مسلم/الجہاد ٥٦ (٧١٥) ، (تحفة الأشراف : ٢٣٤٣) (صحیح )

【301】

رات میں اچانک سفر سے گھر واپس نہ آئے

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم ﷺ کے ساتھ سفر میں تھے، جب ہم بستی میں جانے لگے تو آپ ﷺ نے فرمایا : ٹھہرو ہم رات میں جائیں گے، تاکہ پراگندہ بال والی کنگھی کرلے، اور جس عورت کا شوہر غائب تھا وہ زیر ناف کے بالوں کو صاف کرلے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : زہری نے کہا : ممانعت عشاء کے بعد آنے میں ہے، ابوداؤد کہتے ہیں : مغرب کے بعد کوئی حرج نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النکاح ١٢٢ (٥٢٤٧) ، صحیح مسلم/الإمارة ٥٦ (٧١٥) ، (تحفة الأشراف : ١٩٤١٨، ٢٣٢٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢٩٨، ٣٥٥، ٣٩٦) (صحیح )

【302】

شہر سے باہر نکل کر مسافر کا استقبال کرنا

سائب بن یزید (رض) کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم ﷺ غزوہ تبوک سے مدینہ آئے تو لوگوں نے آپ کا استقبال کیا، تو میں بھی بچوں کے ساتھ آپ سے جا کر ثنیۃ الوداع پر ملا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجھاد ١٩٦ (٣٠٨٣) ، والمغازي ٨٢ (٤٤٢٦) ، سنن الترمذی/الجھاد ٣٨ (١٧١٨) ، (تحفة الأشراف : ٣٨٠٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٤٩) (صحیح )

【303】

جب جہاد کا سامان کرے اور جہاد میں نہ جاسکے تو وہ سامان کسی اور مجاہد کو دیدے

انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ قبیلہ اسلم کا ایک جوان نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں جہاد کا ارادہ رکھتا ہوں لیکن میرے پاس مال نہیں ہے جس سے میں اس کی تیاری کرسکوں، آپ ﷺ نے فرمایا : فلاں انصاری کے پاس جاؤ اس نے جہاد کا سامان تیار کیا تھا لیکن بیمار ہوگیا، اس سے جا کر کہو کہ رسول اللہ ﷺ نے تمہیں سلام کہا ہے، اور یہ کہو کہ جو اسباب تم نے جہاد کے لیے تیار کیا تھا وہ مجھے دے دو ، وہ شخص اس انصاری کے پاس آیا اور آ کر اس نے یہی بات کہی، انصاری نے اپنی بیوی سے کہا : جتنا سامان تو نے میرے لیے جمع کیا تھا وہ سب اسے دیدے، اس میں سے کچھ مت رکھنا، اللہ کی قسم اس میں سے کچھ نہیں رکھے گی تو اللہ اس میں برکت دے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة ٣٨ (١٨٩٤) ، (تحفة الأشراف : ٣٢٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢٠٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مذکورہ حدیث سے باب پر استدلال اس طرح ہے کہ جب ابتداء میں سامان جہاد مانگنا جائز ہے تو واپسی میں بدرجہ اولیٰ جائز ہونا چاہیے کہ ضرورت اس وقت سخت ہوتی ہے، ابتداء تو اگر آدمی کے پاس زادراہ نہیں ہے تو جہاد واجب کہاں ؟۔

【304】

جب سفر سے لوٹ کر آئے تو پہلے نماز پڑھے

کعب بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ سفر سے دن ہی میں آتے، (حسن کہتے ہیں) چاشت کے وقت آتے اور جب سفر سے آتے تو پہلے مسجد میں آ کر دو رکعت پڑھتے پھر اس میں بیٹھتے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم :(٢٧٧٣) ، (تحفة الأشراف : ١١١٣٢) (صحیح )

【305】

جب سفر سے لوٹ کر آئے تو پہلے نماز پڑھے

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جس وقت حجۃ الوداع سے واپس آئے اور مدینہ میں داخل ہوئے تو مسجد نبوی کے دروازہ پر اپنی اونٹنی کو بٹھایا پھر مسجد میں داخل ہوئے اور اندر جا کر دو رکعتیں پڑھیں پھر اپنے گھر گئے۔ نافع کہتے ہیں : عبداللہ بن عمر (رض) بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٨٤١٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٢٩) (حسن صحیح )

【306】

تقسیم کرنے والے کی اجرت کا بیان

ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قسامہ سے بچو تو ہم نے کہا : قسامہ کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ایک چیز کئی آدمیوں میں مشترک ہوتی ہے پھر تقسیم کرنے والا آتا ہے اور ہر ایک کے حصہ میں تھوڑا تھوڑا کم کردیتا ہے (اور اسے تقسیم کی اجرت کے طور پر خود لے لیتا ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٤٢٩٦) (ضعیف) (اس کے راوی زبیر بن عثمان لین الحدیث ہیں )

【307】

تقسیم کرنے والے کی اجرت کا بیان

عطاء بن یسار نے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح کی حدیث روایت کی ہے، اس میں ہے کہ آپ نے فرمایا : ایک شخص لوگوں کی مختلف جماعتوں پر مقرر ہوتا ہے تو وہ اس کے حصہ سے بھی لیتا ہے اور اس کے حصہ سے بھی لیتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٩٠٩٢) (ضعیف) (یہ مرسل روایت ہے، عطاء تابعی ہیں )

【308】

جہاد میں تجارت کرنا مکروہ ہے

عبیداللہ بن سلمان نے بیان کیا ہے کہ ایک صحابی نے ان سے کہا کہ جب ہم نے خیبر فتح کیا تو لوگوں نے اپنے اپنے غنیمت کے سامان اور قیدی نکالے اور ان کی خریدو فروخت کرنے لگے، اتنے میں ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس جس وقت آپ نماز سے فارغ ہوئے آیا اور کہنے لگا : اللہ کے رسول ! آج میں نے اس وادی میں جتنا نفع کمایا ہے اتنا کسی نے نہ کمایا ہوگا، آپ ﷺ نے فرمایا : تباہی ہو تیرے لیے، کیا نفع کمایا تو نے ؟ بولا : میں برابر بیچتا اور خریدتا رہا، یہاں تک کہ میں نے تین سو اوقیہ نفع کمائے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں تجھے ایک ایسے شخص کے بارے میں بتاتا ہوں جس نے (تجھ سے) زیادہ نفع کمایا ہے اس نے پوچھا : وہ کون ہے ؟ اللہ کے رسول ! آپ ﷺ نے فرمایا : وہ جس نے فرض نماز کے بعد دو رکعت (سنت کی) پڑھی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥٦٣٢) (ضعیف) (اس کے راوی عبیداللہ بن سلمان مجہول ہیں )

【309】

دشمن کے ملک میں ہتھیار جانے دینا

ذوالجوشن ابوشمر ضبابی (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے اہل بدر سے فارغ ہونے کے بعد آپ کے پاس اپنے قرحاء نامی گھوڑے کا بچھڑا لے کر آیا، اور میں نے کہا : محمد ! میں آپ کے پاس قرحا کا بچہ لے کر آیا ہوں تاکہ آپ اسے اپنے استعمال میں رکھیں، آپ ﷺ نے فرمایا : مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے، البتہ اگر تم بدر کی زرہوں میں سے ایک زرہ اس کے بدلے میں لینا چاہو تو میں اسے لے لوں گا ، میں نے کہا : آج کے دن تو میں اس کے بدلے گھوڑا بھی نہ لوں گا، آپ ﷺ نے فرمایا : تو پھر مجھے بھی اس کی حاجت نہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٣٥٤٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٨٤) (ابواسحاق اور ذی الجوشن کے درمیان سند میں انقطاع ہے) (ضعیف ) وضاحت : ١ ؎ : ذی الجوشن اس وقت مسلمان نہ تھے کافروں کے ملک میں رہتے تھے اس کے باوجود آپ ﷺ نے انہیں زرہ دینا منظور کیا اور مفت میں کسی مشرک کا تعاون گوارہ نہیں کیا۔

【310】

مشرکین کے ملک میں رہنے کی مذمت

سمرہ بن جندب (رض) کہتے ہیں أما بعد ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص مشرک کے ساتھ میل جول رکھے اور اس کے ساتھ رہے تو وہ اسی کے مثل ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٤٦٢١) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/السیر ٤٢ (١٦٠٥) (حسن لغیرہ) (سند میں متعدد ضعیف ہیں لیکن دوسرے طریق جس کی تخریج حاکم نے کی ہے سے تقویت پاکر یہ حسن ہے (المستدرک ١/١٤١-١٤٢) ( ملاحظہ ہو الصحیحة : ٢٣٣٠ ) وضاحت : ١ ؎ : یہ آپ ﷺ نے تغلیظاً اور تشدیداً فرمایا تاکہ آدمی مشرک کی صحبت سے بچے یا مراد یہ ہے کہ جب اس کے ساتھ رہے گا تو اسی کی طرح ہوجائے گا کیونکہ صحبت کا اثر یقینی طور پر پڑتا ہے۔