12. قربانی کا بیان
قربانی واجب ہونے کا بیان
مخنف بن سلیم (رض) کہتے ہیں کہ ہم (حجۃ الوداع کے موقع پر) رسول اللہ ﷺ کے ساتھ عرفات میں ٹھہرے ہوئے تھے، آپ ﷺ نے فرمایا : لوگو ! (سن لو) ہر سال ہر گھر والے پر قربانی اور عتیرہ ہے ١ ؎ کیا تم جانتے ہو کہ عتیرہ کیا ہے ؟ یہ وہی ہے جس کو لوگ رجبیہ کہتے ہیں ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : عتیرہ منسوخ ہے یہ ایک منسوخ حدیث ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأضاحي ١٩(١٥١٨) ، سنن النسائی/الفرع والعتیرة ١(٤٢٢٩) ، سنن ابن ماجہ/الأضاحي ٢ (٣١٢٥) ، (تحفة الأشراف : ١١٢٤٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢١٥، ٥/٧٦) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : عتیرہ وہ ذبیحہ ہے جو اوائل اسلام میں رجب کے پہلے عشرہ میں ذبح کیا جاتا تھا ، اسی کا دوسرا نام رجبیہ بھی تھا، بعد میں عتیرہ منسوخ ہوگیا۔
قربانی واجب ہونے کا بیان
عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اضحی کے دن (دسویں ذی الحجہ کو) مجھے عید منانے کا حکم دیا گیا ہے جسے اللہ عزوجل نے اس امت کے لیے مقرر و متعین فرمایا ہے ، ایک شخص کہنے لگا : بتائیے اگر میں بجز مادہ اونٹنی یا بکری کے کوئی اور چیز نہ پاؤں تو کیا اسی کی قربانی کر دوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں، تم اپنے بال کتر لو، ناخن تراش لو، مونچھ کتر لو، اور زیر ناف کے بال لے لو، اللہ عزوجل کے نزدیک (ثواب میں) بس یہی تمہاری پوری قربانی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الضحایا ١ (٤٣٧٠) ، (تحفة الأشراف : ٨٩٠٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٦٩) (حسن) (البانی کے نزدیک یہ حدیث عیسیٰ کے مجہول ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے، جبکہ عیسیٰ ب تحقیق ابن حجر صدوق ہیں، اور اسی وجہ سے شیخ مساعد بن سلیمان الراشد نے احکام العیدین للفریابی کی تحقیق وتخریج میں اسے حسن قرار دیا ہے، نیز ملاحظہ ہو : ضعیف ابی داود : ٢ ؍ ٣٧٠ )
میت کی طرف سے قربانی کرنے کا بیان
حنش کہتے ہیں کہ میں نے علی (رض) کو دو دنبے قربانی کرتے دیکھا تو میں نے ان سے پوچھا : یہ کیا ہے ؟ (یعنی قربانی میں ایک دنبہ کفایت کرتا ہے آپ دو کیوں کرتے ہیں) تو انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے مجھے وصیت فرمائی ہے کہ میں آپ کی طرف سے قربانی کیا کروں، تو میں آپ کی طرف سے (بھی) قربانی کرتا ہوں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأضاحي ٣ (١٤٩٥) ، (تحفة الأشراف : ١٠٠٧٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٠٧، ١٤٩، ١٥٠) (ضعیف) (اس کے راوی ابوالحسناء مجہول ہیں ، نیز حنش کے بارے میں بھی اختلاف ہے )
جو شخص قربانی کا ارادہ رکھتا ہو وہ ذی الحجہ کی پہلی تاریخ سے دس تاریخ تک نہ بال کتروائے اور نہ منڈوائے
ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس کے پاس قربانی کا جانور ہو اور وہ اسے عید کے روز ذبح کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو جب عید کا چاند نکل آئے تو اپنے بال اور ناخن نہ کترے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأضاحي ٣ (١٩٧٧) ، سنن الترمذی/الأضاحي ٢٤ (١٥٢٣) ، سنن النسائی/الضحایا ١ (٤٣٦٦) ، سنن ابن ماجہ/الأضاحي ١١ (٣١٤٩) ، (تحفة الأشراف : ١٨١٥٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٨٩، ٣٠١، ٣١١) ، سنن الدارمی/الأضاحي ٢ (١٩٩٠) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : جمہور کے نزدیک یہ حکم مستحب ہے۔
قربانی کا جانور کس قسم کا بہتر ہے؟
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سینگ دار مینڈھا لانے کا حکم دیا جس کی آنکھ سیاہ ہو، سینہ، پیٹ اور پاؤں بھی سیاہ ہوں، پھر اس کی قربانی کی، آپ ﷺ نے فرمایا : عائشہ چھری لاؤ ، پھر فرمایا : اسے پتھر پر تیز کرو ، تو میں نے چھری تیز کی، آپ ﷺ نے اسے ہاتھ میں لیا اور مینڈھے کو پکڑ کر لٹایا اور ذبح کرنے کا ارادہ کیا اور کہا :بسم الله اللهم تقبل من محمد وآل محمد ومن أمة محمد اللہ کے نام سے ذبح کرتا ہوں، اے اللہ ! محمد، آل محمد اور امت محمد کی جانب سے اسے قبول فرما پھر آپ ﷺ نے اس کی قربانی کی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأضاحي ٣ (١٩٦٧) ، (تحفة الأشراف : ١٧٣٦٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٧٨) (حسن )
قربانی کا جانور کس قسم کا بہتر ہے؟
انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنے ہاتھ سے سات اونٹ کھڑے کر کے نحر کئے اور مدینہ میں دو سینگ دار مینڈھوں کی قربانی کی جن کا رنگ سیاہ اور سفید تھا (یعنی ابلق تھے سفید کھال کے اندر سیاہ دھاریاں تھیں) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٢٤ (١٥٤٧) ، ٢٥ (١٥٤٨) ، ٢٧ (١٥٥١) ، ١١٩ (١٧١٥) ، الجہاد ١٠٤ (٢٩٥١) ، ١٢٦ (٢٩٨٦) ، صحیح مسلم/صلاة المسافرین ١ (٦٩٠) ، سنن النسائی/الضحایا ١٣ (٤٣٩٢) ، وقد مضی ہذا الحدیث برقم (١٧٩٦) ، ( تحفة الأشراف : ٩٤٧) (صحیح )
قربانی کا جانور کس قسم کا بہتر ہے؟
انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے سینگ دار ابلق دنبوں کی قربانی کی، اپنا دایاں پاؤں ان کی گردن پر رکھ کر بسم الله، الله أكبر کہہ کر انہیں ذبح کر رہے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٣٦٤) (صحیح )
قربانی کا جانور کس قسم کا بہتر ہے؟
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے قربانی کے دن سینگ دار ابلق خصی کئے ہوئے دو دنبے ذبح کئے، جب انہیں قبلہ رخ کیا تو آپ ﷺ نے یہ دعا پڑھی : إني وجهت وجهي للذي فطر السموات والأرض على ملة إبراهيم حنيفا وما أنا من المشرکين، إن صلاتي ونسکي ومحياي ومماتي لله رب العالمين لا شريك له، وبذلک أمرت وأنا من المسلمين، اللهم منک ولک وعن محمد وأمته باسم الله والله أكبر میں اپنا رخ اس ذات کی طرف کرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، میں ابراہیم کے دین پر ہوں، کامل موحد ہوں، مشرکوں میں سے نہیں ہوں بیشک میری نماز میری تمام عبادتیں، میرا جینا اور میرا مرنا خالص اس اللہ کے لیے ہے جو سارے جہان کا رب ہے، کوئی اس کا شریک نہیں، مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے، اور میں مسلمانوں میں سے ہوں، اے اللہ ! یہ قربانی تیری ہی عطا ہے، اور خاص تیری رضا کے لیے ہے، محمد اور اس کی امت کی طرف سے اسے قبول کر، (بسم اللہ واللہ اکبر) اللہ کے نام کے ساتھ، اور اللہ بہت بڑا ہے پھر ذبح کیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الأضاحي ١ (٣١٢١) ، (تحفة الأشراف : ٣١٦٦) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الأضاحي ٢٢ (١٥٢١) ، مسند احمد (٣/٣٥٦، ٣٦٢، ٣٧٥) ، سنن الدارمی/الأضاحي ١ (١٩٨٩) (حسن) (اس کے راوی ابوعیاش مصری مجہول، لین الحدیث ہیں، لیکن تابعی ہیں، اور تین ثقہ راویوں نے ان سے روایت کی ہے، نیز حدیث کی تصحیح ابن خزیمہ، حاکم، اور ذھبی نے کی ہے، البانی نے پہلے اسے ضعیف ابی داود میں رکھا تھا، پھر تحسین کے بعد اسے صحیح ابی داود میں داخل کیا) (٨ ؍ ١٤٢ )
قربانی کا جانور کس قسم کا بہتر ہے؟
ابوسعید (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سینگ دار فربہ دنبہ کی قربانی کرتے تھے جو دیکھتا تھا سیاہی میں اور کھاتا تھا سیاہی میں اور چلتا تھا سیاہی میں (یعنی آنکھ کے اردگرد) ، نیز منہ اور پاؤں سب سیاہ تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأضاحي ٤ (١٤٩٦) ، سنن النسائی/الضحایا ١٣ (٤٣٩٥) ، سنن ابن ماجہ/الأضاحي ٤ (٣١٢٨) ، (تحفة الأشراف : ٤٢٩٧) (صحیح )
قربانی کے لئے کس عمر کا جانور ہونا چاہئے
جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : صرف مسنہ ١ ؎ ہی ذبح کرو، مسنہ نہ پاؤ تو بھیڑ کا جذعہ ذبح کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأضاحي ٢ (١٩٦٢) ، سنن النسائی/الضحایا ١٢ (٤٣٨٣) ، سنن ابن ماجہ/الأضاحي ٧ (٣١٤١) ، (تحفة الأشراف : ٢٧١٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣١٢، ٣٢٧) (صحیح) (اس حدیث پر مزید بحث کے لئے ملاحظہ ہو : ضعیف أبي داود ٢/٣٧٤، والضعیفہ ٦٥، والإرواء ١١٤٥، وفتح الباري ١٠/١٥ ) وضاحت : ١ ؎ : مسنہ وہ جانور جس کے دودھ کے دانت ٹوٹ چکے ہوں ، یہ اونٹ میں عموماً اس وقت ہوتا ہے جب وہ پانچ برس پورے کر کے چھٹے میں داخل ہوگیا ہو، گائے بیل اور بھینس جب وہ دو برس پورے کرکے تیسرے میں داخل ہوجائیں، بکری اور بھیڑ میں جب ایک برس پورا کرکے دوسرے میں داخل ہوجائیں، جذعہ اس دنبہ یا بھیڑ کو کہتے ہیں جو سال بھر کا ہوچکا ہو، اہل لغت اور شارحین میں محققین کا یہی قول صحیح ہے، (دیکھئے مرعاۃ شرح مشکاۃ )
قربانی کے لئے کس عمر کا جانور ہونا چاہئے
زید بن خالد جہنی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام میں قربانی کے جانور تقسیم کئے تو مجھ کو ایک بکری کا بچہ جو جذع تھا (یعنی دوسرے سال میں داخل ہوچکا تھا) دیا، میں اس کو لوٹا کر آپ کے پاس لایا اور میں نے کہا کہ یہ جذع ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : اس کی قربانی کر ڈالو ، تو میں نے اسی کی قربانی کر ڈالی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٣٧٥١) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الوکالة ١ (٢٣٠٠) ، والشرکة ١٢ (٢٥٠٠) ، والأضاحي ٢، (٥٥٤٧) ٧ (٥٥٥٥) ، صحیح مسلم/الأضاحي ٢ (١٩٦٥) ، سنن الترمذی/الأضاحي ٧ (١٥٠٠) ، سنن النسائی/الضحایا ١٢ (٤٣٨٤) ، سنن ابن ماجہ/الأضاحي ٧ (٣١٣٨) ، مسند احمد (٤/١٤٩، ١٥٢، ٥/١٩٤) ، سنن الدارمی/الأضاحي ٤ (١٩٩٦) ، کلھم عن عقبة بن عامر رضي اللہ عنہ (حسن صحیح )
قربانی کے لئے کس عمر کا جانور ہونا چاہئے
کلیب کہتے ہیں کہ ہم مجاشع نامی بنی سلیم کے ایک صحابی رسول کے ساتھ تھے اس وقت بکریاں مہنگی ہوگئیں تو انہوں نے منادی کو حکم دیا کہ وہ اعلان کر دے کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے تھے : جذع (ایک سالہ) اس چیز سے کفایت کرتا ہے جس سے ثنی (وہ جانور جس کے سامنے کے دانت گرگئے ہوں) کفایت کرتا ہے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ مجاشع بن مسعود (رض) تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الضحایا ١٢(٤٣٨٩) ، سنن ابن ماجہ/الأضاحي ٧ (٣١٤٠) ، (تحفة الأشراف : ١١٢١١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٦٨) (صحیح )
قربانی کے لئے کس عمر کا جانور ہونا چاہئے
براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے دسویں ذی الحجہ کو نماز عید کے بعد ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا : جس نے ہماری نماز کی طرح نماز پڑھی، اور ہماری قربانی کی طرح قربانی کی، تو اس نے قربانی کی (یعنی اس کو قربانی کا ثواب ملا) اور جس نے نماز عید سے پہلے قربانی کرلی تو وہ گوشت کی بکری ١ ؎ ہوگی ، یہ سن کر ابوبردہ بن نیار (رض) نے کھڑے ہو کر عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں نے تو نماز کے لیے نکلنے سے پہلے قربانی کر ڈالی اور میں نے یہ سمجھا کہ یہ دن کھانے اور پینے کا دن ہے، تو میں نے جلدی کی، میں نے خود کھایا، اور اپنے اہل و عیال اور ہمسایوں کو بھی کھلایا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ گوشت کی بکری ہے ٢ ؎، تو انہوں نے کہا : میرے پاس ایک سالہ جوان بکری اور وہ گوشت کی دو بکریوں سے بہتر ہے، کیا وہ میری طرف سے کفایت کرے گی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں، لیکن تمہارے بعد کسی کے لیے کافی نہ ہوگی (یعنی یہ حکم تمہارے لیے خاص ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العیدین ٣ (٩٥١) ، ٥ (٩٥٥) ، ٨ (٩٧٥) ، ١٠ (٩٦٨) ، ١٧ (٩٧٦) ، ٢٣ (٩٨٣) ، الأضاحي ١ (٥٥٤٥) (٥٥٥٦) ، ٨ (٥٥٥٧) ، ١١ (٥٥٥٧) ، ١٢ (٥٥٦٣) ، الأیمان والنذور ١٥ (٦٦٧٣) ، صحیح مسلم/الأضاحي ١ (١٩٦١) ، سنن الترمذی/الأضاحي ١٢ (١٥٠٨) ، سنن النسائی/العیدین ٨ (١٥٦٤) ، الضحایا ١٦ (٤٤٠٠) ، (تحفة الأشراف : ١٧٦٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٨٠، ٢٩٧، ٣٠٢، ٣٠٣) ، سنن الدارمی/الأضاحي ٧ (٢٠٠٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی یہ قربانی شمار نہیں ہوگی اور نہ ہی اسے قربانی کا ثواب ملے گا اس سے صرف گوشت حاصل ہوگا جسے وہ کھا سکتا ہے۔ ٢ ؎ : یعنی اس سے تمہیں صرف گوشت حاصل ہوا قربانی کا ثواب نہیں۔
قربانی کے لئے کس عمر کا جانور ہونا چاہئے
براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ میرے ابوبردہ نامی ایک ماموں نے نماز سے پہلے قربانی کرلی تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا : یہ تمہاری بکری گوشت کی بکری ہوئی ، انہوں نے کہا : اللہ کے رسول ! میرے پاس بکریوں میں سے ایک پلی ہوئی جذعہ ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : اسی کو ذبح کر ڈالو، لیکن تمہارے سوا اور کسی کے لیے ایسا کرنا درست نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٧٦٩) (صحیح )
قربانی میں کونسا جانور مکروہ ہے
عبید بن فیروز کہتے ہیں کہ میں نے براء بن عازب (رض) سے پوچھا کہ : کون سا جانور قربانی میں درست نہیں ہے ؟ تو آپ نے کہا : رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان کھڑے ہوئے، میری انگلیاں آپ ﷺ کی انگلیوں سے چھوٹی ہیں اور میری پوریں آپ کی پوروں سے چھوٹی ہیں، آپ ﷺ نے چار انگلیوں سے اشارہ کیا اور فرمایا : چار طرح کے جانور قربانی کے لائق نہیں ہیں، ایک کانا جس کا کانا پن بالکل ظاہر ہو، دوسرے بیمار جس کی بیماری بالکل ظاہر ہو، تیسرے لنگڑا جس کا لنگڑا پن بالکل واضح ہو، اور چوتھے دبلا بوڑھا کمزور جانور جس کی ہڈیوں میں گودا نہ ہو ، میں نے کہا : مجھے قربانی کے لیے وہ جانور بھی برا لگتا ہے جس کے دانت میں نقص ہو، آپ ﷺ نے فرمایا : جو تمہیں ناپسند ہو اس کو چھوڑ دو لیکن کسی اور پر اس کو حرام نہ کرو ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ( لا تنقى کا مطلب یہ ہے کہ) اس کی ہڈی میں گودا نہ ہو۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأضاحي ٥ (١٤٩٧) ، سنن النسائی/الضحایا ٤ (٤٣٧٤) ، سنن ابن ماجہ/الأضاحي ٨ (٣١٤٤) ، (تحفة الأشراف : ١٧٩٠) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الضحایا ١(١) ، مسند احمد (٤/٢٨٤، ٢٨٩، ٣٠٠، ٣٠١) ، سنن الدارمی/الأضاحي ٣ (١٩٩٢) (صحیح )
قربانی میں کونسا جانور مکروہ ہے
یزید ذومصر کہتے ہیں کہ میں عتبہ بن عبد سلمی کے پاس آیا اور ان سے کہا : ابوالولید ! میں قربانی کے لیے جانور ڈھونڈھنے کے لیے نکلا تو مجھے سوائے ایک بکری کے جس کا ایک دانت گر چکا ہے کوئی جانور پسند نہ آیا، تو میں نے اسے لینا اچھا نہیں سمجھا، اب آپ کیا کہتے ہیں ؟ انہوں نے کہا : اس کو تم میرے لیے کیوں نہیں لے آئے، میں نے کہا : سبحان اللہ ! آپ کے لیے درست ہے اور میرے لیے درست نہیں، انہوں نے کہا : ہاں تم کو شک ہے مجھے شک نہیں، رسول اللہ ﷺ نے بس مصفرة والمستأصلة والبخقاء والمشيعة ، اور کسراء سے منع کیا ہے، مصفرة وہ ہے جس کا کان اتنا کٹا ہو کہ کان کا سوراخ کھل گیا ہو، مستأصلة وہ ہے جس کی سینگ جڑ سے اکھڑ گئی ہو، بخقاء وہ ہے جس کی آنکھ کی بینائی جاتی رہے اور آنکھ باقی ہو، اور مشيعة وہ ہے جو لاغری اور ضعف کی وجہ سے بکریوں کے ساتھ نہ چل پاتی ہو بلکہ پیچھے رہ جاتی ہو، کسراء وہ ہے جس کا ہاتھ پاؤں ٹوٹ گیا ہو، (لہٰذا ان کے علاوہ باقی سب جانور درست ہیں، پھر شک کیوں کرتے ہو) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٩٧٥٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٥٨) (ضعیف) (اس کے راوی یزید ذومصر لین الحدیث ہیں )
قربانی میں کونسا جانور مکروہ ہے
علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم کو حکم دیا کہ قربانی کے جانور کی آنکھ اور کان خوب دیکھ لیں (کہ اس میں ایسا نقص نہ ہو جس کی وجہ سے قربانی درست نہ ہو) اور کانے جانور کی قربانی نہ کریں، اور نہ مقابلة کی، نہ مدابرة کی، نہ خرقاء کی اور نہ شرقاء کی۔ زہیر کہتے ہیں : میں نے ابواسحاق سے پوچھا : کیا عضباء کا بھی ذکر کیا ؟ تو انہوں نے کہا : نہیں (عضباء اس بکری کو کہتے ہیں جس کے کان کٹے ہوں اور سینگ ٹوٹے ہوں) ۔ میں نے پوچھا مقابلة کے کیا معنی ہیں ؟ کہا : جس کا کان اگلی طرف سے کٹا ہو، پھر میں نے کہا : مدابرة کے کیا معنی ہیں ؟ کہا : جس کے کان پچھلی طرف سے کٹے ہوں، میں نے کہا :خرقاء کیا ہے ؟ کہا : جس کے کان پھٹے ہوں (گولائی میں) میں نے کہا : شرقاء کیا ہے ؟ کہا : جس بکری کے کان لمبائی میں چرے ہوئے ہوں (نشان کے لیے) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأضاحي ٦ (١٤٩٨) ، سنن النسائی/الضحایا ٨ (٤٣٧٧) ٨ (٤٣٧٨) ، ٩ (٤٣٧٩) ، سنن ابن ماجہ/الأضاحي ٨ (٣١٤٢) ، (تحفة الأشراف : ١٠١٢٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٨٠، ١٠٨، ١٢٨، ١٤٩) ، سنن الدارمی/الأضاحي ٣ (١٩٩٥) (ضعیف) (اس کے راوی ابواسحاق مختلط اور مدلس ہیں ، نیز شریح سے ان کا سماع نہیں، اس لیے سند میں انقطاع بھی ہے، مگر مطلق کان، ناک دیکھ بھال کرلینے کا حکم صحیح ہے )
قربانی میں کونسا جانور مکروہ ہے
علی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے عضباء (یعنی سینگ ٹوٹے کان کٹے جانور) کی قربانی سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأضاحي ٩ (١٥٠٤) ، سنن النسائی/الضحایا ١١ (٤٣٨٢) ، سنن ابن ماجہ/الأضاحي ٨ (٣١٤٥) ، (تحفة الأشراف : ١٠٠٣١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٨٣، ١٠١، ١٠٩، ١٢٧، ١٢٩، ١٥٠) (ضعیف) (اس کے راوی جری لین الحدیث ہیں )
قربانی میں کونسا جانور مکروہ ہے
قتادہ کہتے ہیں میں نے سعید بن مسیب سے پوچھا : اعضب (یا عضباء ) کیا ہے ؟ انہوں نے کہا : (جس کی سینگ یا کان) آدھا یا آدھے سے زیادہ ٹوٹا یا کٹا ہوا ہو۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨٧٢١) (صحیح )
اونٹ گائے اور بھینس وغیرہ کہ قربانی کتنے افراد کی طرف سے ہو سکتی ہے؟
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں حج تمتع کرتے تو گائے سات آدمیوں کی طرف سے ذبح کرتے تھے، اور اونٹ بھی سات آدمیوں کی طرف سے، ہم سب اس میں شریک ہوجاتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٦٢ (١٣١٨) ، سنن النسائی/الضحایا ١٥ (٤٣٩٨) ، (تحفة الأشراف : ٢٤٣٥) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الحج ٦٦ (٩٠٤) ، موطا امام مالک/الضحایا ٥ (٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : سات افراد کی طرف سے اونٹ یا گائے ذبح کرنے کا یہ ضابطہ و اصول ہدی کے جانوروں کے لئے ہے، قربانی میں اونٹ دس افراد کی طرف سے بھی جائز ہے، سنن ترمذی میں ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ ہم سفر میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھے، قربانی کا وقت آگیا تو گائے میں ہم سات آدمی شریک ہوئے، اور اونٹ میں دس آدمی، یہ روایت سنن نسائی اور سنن ابن ماجہ میں بھی ہے۔
اونٹ گائے اور بھینس وغیرہ کہ قربانی کتنے افراد کی طرف سے ہو سکتی ہے؟
جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : گائے سات کی طرف سے کفایت کرتی ہے اور اونٹ بھی سات کی طرف سے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٢٤٧٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٦٣) (صحیح )
اونٹ گائے اور بھینس وغیرہ کی قربانی کتنے افراد کی طرف سے ہو سکتی ہے؟
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے حدیبیہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سات آدمیوں کی طرف سے اونٹ نحر کئے، اور گائے بھی سات آدمیوں کی طرف سے ذبح کی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/ المناسک ٦٢ (١٣١٨) ، سنن الترمذی/ الحج ٦٦ (٩٠٤) ، الأضاحی ٨ (١٥٠٢) ، سنن ابن ماجہ/ الأضاحی ٥ (٣١٣٢) ، (تحفة الأشراف : ٢٩٣٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢٩٣) (صحیح )
کئی آدمیوں کی طرف سے ایک بکری کی قربانی
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ میں عید الاضحی میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ عید گاہ میں موجود تھا، جب آپ ﷺ خطبہ دے چکے تو منبر سے اترے اور آپ کے پاس ایک مینڈھا لایا گیا، تو آپ ﷺ نے : بسم الله والله أكبر هذا عني وعمن لم يضح من أمتي اللہ کے نام سے، اللہ سب سے بڑا ہے، یہ میری طرف سے اور میری امت کے ہر اس شخص کی طرف سے ہے جس نے قربانی نہیں کی ہے ١ ؎ کہہ کر اسے اپنے ہاتھ سے ذبح کیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأضاحي ٢٢ (١٥٢١) ، سنن ابن ماجہ/الأضاحي ١ (٣١٢١) ، (تحفة الأشراف : ٣٠٩٩) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/الأضاحي ١ (١٩٨٩) ، مسند احمد (٣/٣٥٦، ٣٦٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس جملے سے ثابت ہوا کہ مسلم کی جس روایت میں اجمال ہے (یعنی : یہ میری امت کی طرف سے ہے) اس سے مراد امت کے وہ زندہ لوگ ہیں جو عدم استطاعت کے سبب اس سال قربانی نہیں کرسکے تھے نہ کہ مردہ لوگ۔
امام اپنی قربانی عید گاہ میں ذبح کرے
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ اپنی قربانی عید گاہ میں ذبح کرتے تھے۔ اور ابن عمر (رض) بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الأضاحي ١٧ (٣١٦١) ، (تحفة الأشراف : ٧٤٧٣) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/العیدین ٢٢ (٩٨٢) ، والأضاحي ٦ (٥٥٥٢) ، سنن الترمذی/الضحایا ٩ (١٥٠٨) ، سنن النسائی/العیدین ٢٩ (١٥٩٠) ، والأضاحي ٢ (٤٣٧١) ، مسند احمد (٢/١٠٨، ١٥٢) (حسن صحیح) (ابن عمر (رض) کے فعل کے متعلق جملہ صحیح نہیں ہے )
قربانی کے گوشت کو رکھ چھوڑنا
عمرہ بنت عبدالرحمٰن کہتی ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) کو کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں قربانی کے موقع پر (مدینہ میں) کچھ دیہاتی آگئے تو آپ ﷺ نے فرمایا : تین روز تک کا گوشت رکھ لو، جو باقی بچے صدقہ کر دو ، عائشہ (رض) کہتی ہیں : تو اس کے بعد جب پھر قربانی کا موقع آیا تو آپ ﷺ سے عرض کیا گیا : اللہ کے رسول ! لوگ اس سے پہلے اپنی قربانیوں سے فائدہ اٹھایا کرتے تھے، ان کی چربی محفوظ رکھتے تھے، ان کی کھالوں سے مشکیں بناتے تھے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بات کیا ہے ؟ یا ایسے ہی کچھ کہا، تو انہوں نے کہا : اللہ کے رسول ! آپ نے قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ رکھنے سے منع فرما دیا ہے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں نے اس وقت اس لیے منع کردیا تھا کہ کچھ دیہاتی تمہارے پاس آگئے تھے (اور انہیں بھی کچھ نہ کچھ کھانے کے لیے ملنا چاہیئے تھا) ، اب قربانی کے گوشت کھاؤ، صدقہ کرو، اور رکھ چھوڑو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأضاحي ٥ (١٩٧١) ، سنن النسائی/الضحایا ٣٦ (٤٤٣٦) ، (تحفة الأشراف : ١٦١٦٥، ١٧٩٠١) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الأضاحي ١٤ (١٥١١) ، سنن ابن ماجہ/الأضاحي ١٦ (٣١٦٠) ، موطا امام مالک/الضحایا ٤ (٧) ، مسند احمد (٦/٥١) (صحیح )
قربانی کے گوشت کو رکھ چھوڑنا
نبیشہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہم نے تم لوگوں کو تین دن کے بعد قربانی کا گوشت کھانے سے اس واسطے منع کیا تھا کہ وہ تم سب کو پہنچ جائے، اب اللہ تعالیٰ نے گنجائش دے دی ہے تو کھاؤ اور بچا (بھی) رکھو اور (صدقہ دے کر) ثواب (بھی) کماؤ، سن لو ! یہ دن کھانے، پینے اور اللہ عزوجل کی یاد (شکر گزاری) کے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الفرع والعتیرة ٢ (٤٢٤١) ، سنن ابن ماجہ/الأضاحي ١٦(٣١٦٠) ، (تحفة الأشراف : ١١٥٨٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٧٥، ٧٦) ، دی/ الأضاحی ٦ (٢٠٠١) (صحیح )
قربانی کے جانور پر شفقت کرنا
ثوبان (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے (سفر میں) قربانی کی اور کہا : ثوبان ! اس بکری کا گوشت ہمارے لیے درست کرو (بناؤ) ، ثوبان (رض) کہتے ہیں : تو میں برابر وہی گوشت آپ ﷺ کو کھلاتا رہا یہاں تک کہ ہم مدینہ آگئے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأضاحي ٥ (١٩٧٥) ، (تحفة الأشراف : ٢٠٧٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٧٧، ٢٨١) ، سنن الدارمی/الأضاحي ٦ (٢٠٠٣) (صحیح )
قربانی کے جانور پر شفقت کرنا
شداد بن اوس (رض) کہتے ہیں کہ دو خصلتیں ایسی ہیں جنہیں میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے ایک یہ کہ : اللہ نے ہر چیز کو اچھے ڈھنگ سے کرنے کو فرض کیا ہے لہٰذا جب تم (قصاص یا حد کے طور پر کسی کو) قتل کرو تو اچھے ڈھنگ سے کرو (یعنی اگر خون کے بدلے خون کرو تو جلد ہی فراغت حاصل کرلو تڑپا تڑپا کر مت مارو) ، (اور مسلم بن ابراہیم کے سوا دوسروں کی روایت میں ہے) تو اچھے ڈھنگ سے قتل کرو، اور جب کسی جانور کو ذبح کرنا چاہو تو اچھی طرح ذبح کرو اور چاہیئے کہ تم میں سے ہر ایک اپنی چھری کو تیز کرلے اور اپنے ذبیحہ کو آرام پہنچائے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصید ١١ (١٩٥٥) ، سنن الترمذی/الدیات ١٤ (١٤٠٩) ، سنن النسائی/الضحایا ٢١ (٤٤١٠) ، ٢٦ (٤٤١٩) ، سنن ابن ماجہ/الذبائح ٣ (٣١٧٠) ، (تحفة الأشراف : ٤٨١٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٢٣، ١٢٤، ١٢٥) ، سنن الدارمی/الأضاحي ١٠ (٢٠١٣) (صحیح )
مسافر بھی قربانی کرے
ہشام بن زید کہتے ہیں کہ میں انس (رض) کے ساتھ حکم بن ایوب کے پاس گیا، تو وہاں چند نوجوانوں یا لڑکوں کو دیکھا کہ وہ سب ایک مرغی کو باندھ کر اسے تیر کا نشانہ بنا رہے ہیں تو انس (رض) نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے جانوروں کو باندھ کر مارنے سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصید ٢٥ (٥٥١٣) ، صحیح مسلم/الصید ١٢(١٩٥٦) ، سنن النسائی/الضحایا ٤٠ (٤٤٤٤) ، سنن ابن ماجہ/الذبائح ١٠ (٣١٨٦) ، (تحفة الأشراف : ١٦٣٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١١٧، ١٧١، ١٩١) (صحیح )
اہل کتاب کے ذبیحہ کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا ہے کہ فکلوا مما ذکر اسم الله عليه سو جس جانور پر اللہ کا نام لیا جائے اس میں سے کھاؤ (سورۃ الانعام : ١١٨) ولا تأکلوا مما لم يذكر اسم الله عليه اور ایسے جانوروں میں سے مت کھاؤ جن پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو (سورۃ الانعام : ١٢١) تو یہ آیت منسوخ ہوچکی ہے، اس میں سے اہل کتاب کے ذبیحے مستثنیٰ ہوگئے ہیں (یعنی ان کے ذبیحے درست ہیں) ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وطَعام الذين أوتوا الکتاب حل لکم وطعامکم حل لهم اہل کتاب کا کھانا تمہارے لیے حلال ہے اور تمہارا کھانا ان کے لیے حلال ہے (سورۃ المائدہ : ٥) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٦٢٥٩) (حسن )
اہل کتاب کے ذبیحہ کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ اللہ عزوجل نے جو یہ فرمایا ہے : وإن الشياطين ليوحون إلى أوليائهم اور یقیناً شیاطین اپنے دوستوں کے دلوں میں ڈالتے ہیں (سورۃ المائدہ : ١٢١) تو اس کا شان نزول یہ ہے کہ لوگ کہتے تھے : جسے اللہ نے ذبح کیا (یعنی اپنی موت مرگیا) اس کو نہ کھاؤ، اور جسے تم نے ذبح کیا اس کو کھاؤ، تب اللہ نے یہ آیت اتاری ولا تأکلوا مما لم يذكر اسم الله عليه ان جانوروں کو نہ کھاؤ جن پر اللہ کا نام نہیں لیا گیا (سورۃ الانعام : ١٢١) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الضحایا ٤٠ (٤٤٤٨) ، سنن ابن ماجہ/الذبائح ٤ (٣١٧٣) ، (تحفة الأشراف : ٦١١١) (صحیح )
اہل کتاب کے ذبیحہ کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ یہود نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور کہنے لگے : ہم اس جانور کو کھاتے ہیں جسے ہم ماریں اور جسے اللہ مارے اسے ہم نہیں کھاتے تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری ولا تأکلوا مما لم يذكر اسم الله عليه۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/تفسیر الأنعام ٦ (٣٠٦٩) ، (تحفة الأشراف : ٥٥٦٨) (صحیح) (یہود کا تذکرہ وہم ہے اصل معاملہ مشرکین کا ہے، ترمذی میں کسی کا تذکرہ نہیں ہے صرف الناس ہے )
جن جانوروں کو عرب اظہار تفاخر کے طور پر ذبح کریں ان کو کھانے کی ممانعت
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ان جانوروں کے کھانے سے منع فرمایا ہے جنہیں اعرابی تفاخر کے طور پر کاٹتے ہیں ١ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ابوریحانہ کا نام عبداللہ بن مطر تھا، اور راوی غندر نے اسے ابن عباس (رض) پر موقوف کردیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٥٨١١) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : چونکہ ان جانوروں سے اللہ کی خوشنودی مقصود نہیں ہوتی تھی اسی لئے انہیں ما أهل لغير الله به کے مشابہ ٹھہرایا گیا۔
مروہ (سفید پتھر) سے ذبح کرنے کا بیان
رافع بن خدیج (رض) کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم کل دشمنوں سے مقابلہ کرنے والے ہیں، ہمارے پاس چھریاں نہیں ہیں کیا ہم سفید (دھار دار) پتھر یا لاٹھی کے پھٹے ہوئے ٹکڑے (بانس کی کھپچی) سے ذبح کریں ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جلدی کرلو ١ ؎ جو چیز کہ خون بہا دے اور اللہ کا نام اس پر لیا جائے تو اسے کھاؤ ہاں وہ دانت اور ناخن سے ذبح نہ ہو، عنقریب میں تم کو اس کی وجہ بتاتا ہوں، دانت سے تو اس لیے نہیں کہ دانت ایک ہڈی ہے، اور ناخن سے اس لیے نہیں کہ وہ جبشیوں کی چھریاں ہیں ، اور کچھ جلد باز لوگ آگے بڑھ گئے، انہوں نے جلدی کی، اور کچھ مال غنیمت حاصل کرلیا، اور رسول اللہ ﷺ سب سے پیچھے چل رہے تھے تو ان لوگوں نے دیگیں چڑھا دیں، رسول اللہ ﷺ ان دیگوں کے پاس سے گزرے تو آپ نے انہیں پلٹ دینے کا حکم دیا، چناچہ وہ پلٹ دی گئیں، اور ان کے درمیان آپ ﷺ نے (مال غنیمت) تقسیم کیا تو ایک اونٹ کو دس بکریوں کے برابر قرار دیا، ایک اونٹ ان اونٹوں میں سے بھاگ نکلا اس وقت لوگوں کے پاس گھوڑے نہ تھے (کہ گھوڑا دوڑا کر اسے پکڑ لیتے) چناچہ ایک شخص نے اسے تیر مارا تو اللہ نے اسے روک دیا (یعنی وہ چوٹ کھا کر گرگیا اور آگے نہ بڑھ سکا) اس پر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ان چوپایوں میں بھی بدکنے والے جانور ہوتے ہیں جیسے وحشی جانور بدکتے ہیں تو جو کوئی ان جانوروں میں سے ایسا کرے تو تم بھی اس کے ساتھ ایسا ہی کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الشرکة ٣ (٢٤٨٨) ، ١٦ (٢٥٠٧) ، الجھاد ١٩١ (٣٠٧٥) ، الذبائح ١٥ (٥٤٩٨) ، ١٨ (٥٥٠٣) ، ٢٣ (٥٥٠٩) ، ٣٦ (٥٥٤٣) ، ٣٧ (٥٥٤٤) ، صحیح مسلم/الأضاحي ٤ (١٩٦٨) ، سنن الترمذی/الصید ١٩ (١٤٩٢) ، السیر ٤٠ (١٦٠٠) ، سنن النسائی/الصید ١٧ (٤٣٠٢) ، الضحایا ١٥ (٤٣٩٦) ، ٢٦ (٤٤١٤، ٤٤١٥) ، سنن ابن ماجہ/الذبائح ٩ (٣١٨٣) ، (تحفة الأشراف : ٣٥٦١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٦٣، ٤٦٤، ٤/١٤٠، ١٤٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مطلب یہ ہے کہ ایسی ہی کوئی صورت کر کے جلدی ذبح کرلو اور گوشت کھاؤ۔
مروہ (سفید پتھر) سے ذبح کرنے کا بیان
محمد بن صفوان یا صفوان بن محمد کہتے ہیں میں نے دو خرگوش شکار کئے اور انہیں ایک سفید (دھار دار) پتھر سے ذبح کیا، پھر ان کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے پوچھا تو آپ نے مجھے ان کے کھانے کا حکم دیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الصید ٢٥ (٤٣١٨) ، والضحایا ١٧ (٤٤٠٤) ، سنن ابن ماجہ/الصید ١٧ (٣٢٤٤) ، (تحفة الأشراف : ١١٢٢٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٧١) (صحیح )
مروہ (سفید پتھر) سے ذبح کرنے کا بیان
بنو حارثہ کے ایک شخص سے روایت ہے کہ وہ احد پہاڑ کے دروں میں سے ایک درے پر اونٹنی چرا رہا تھا، تو وہ مرنے لگی، اسے کوئی ایسی چیز نہ ملی کہ جس سے اسے نحر کر دے، تو ایک کھوٹی لے کر اونٹنی کے سینہ میں چبھو دی یہاں تک کہ اس کا خون بہا دیا، پھر نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور آپ کو اس کی خبر دی، تو آپ نے اسے اس کے کھانے کا حکم دیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٥٦٤١) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الذبائح ٢ (٣) مسند احمد (٤/٣٦، ٥/٥٣٠) (صحیح )
مروہ (سفید پتھر) سے ذبح کرنے کا بیان
عدی بن حاتم (رض) کہتے ہیں میں نے پوچھا : اللہ کے رسول ! اگر ہم میں سے کسی کو کوئی شکار مل جائے اور اس کے پاس چھری نہ ہو تو کیا وہ سفید (دھار دار) پتھر یا لاٹھی کے پھٹے ہوئے ٹکڑے سے (اس شکار کو) ذبح کرلے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم بسم اللہ اکبر کہہ کر (اللہ کا نام لے کر) جس چیز سے چاہے خون بہا دو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الصید ٢٠ (٤٣٠٩) ، الضحایا ١٨(٤٤٠٦) ، سنن ابن ماجہ/الذبائح ٥ (٣١٧٧) ، (تحفة الأشراف : ٩٨٧٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٥٦، ٢٥٨، ٣٧٧) (صحیح )
وجانور کسی اونچی جگہ سے گر پڑے اس کے ذبح کر نیکا طریقہ
ابوالعشراء اسامہ کے والد مالک بن قہطم (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا ذبح سینے اور حلق ہی میں ہوتا ہے اور کہیں نہیں ہوتا ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر تم اس کے ران میں نیزہ مار دو تو وہ بھی کافی ہے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ متردی ١ ؎ اور متوحش ٢ ؎ کے ذبح کا طریقہ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصید ١٣ (١٤٨١) ، سنن النسائی/الضحایا ٢٤ (٤٤١٣) ، سنن ابن ماجہ/الذبائح ٩ (٣١٨٤) ، (تحفة الأشراف : ١٥٦٩٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٤) ، دی/ الأضاحي ١٢ (٢٠١٥) (منکر) (اس کے راوی ابوالعشراء مجہول اعرابی ہیں ان کے والد بھی مجہول ہیں مگر صحابی ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی جو جانور گرپڑے اور ذبح کی مہلت نہ ملے۔ ٢ ؎ : ایسا جنگلی جانور جو بھاگ نکلے۔
ذبح خوب اچھی طرح کرنا چاہئے
عبداللہ بن عباس اور ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے شريطة الشيطان سے منع فرمایا ہے ١ ؎۔ ابن عیسیٰ کی حدیث میں اتنا اضافہ ہے : اور وہ یہ ہے کہ جس جانور کو ذبح کیا جا رہا ہو اس کی کھال تو کاٹ دی جائے لیکن رگیں نہ کاٹی جائیں، پھر اسی طرح اسے چھوڑ دیا جائے یہاں تک کہ وہ (تڑپ تڑپ کر) مرجائے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٦١٧٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٨٩) (ضعیف) (اس کے راوی عمرو بن عبد اللہ بن الاسوار ضعیف ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : شریط کے معنی نشتر مارنے کے ہیں، یہ شریط حجامت سے ماخوذ ہے، اسی وجہ سے اسے شریط کہا گیا ہے، اور شیطان کی طرف اس کی نسبت اس وجہ سے کی گئی ہے کہ شیطان ہی اسے اس عمل پر اکساتا ہے ، اس میں جانور کو تکلیف ہوتی ہے، خون جلدی نہیں نکلتا اور اس کی جان تڑپ تڑپ کر نکلتی ہے۔
پیٹ کے بچہ کی زکوة (ذبح) کا بیان
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس بچے کے بارے میں پوچھا جو ماں کے پیٹ سے ذبح کرنے کے بعد نکلتا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : اگر چاہو تو اسے کھالو ١ ؎۔ مسدد کی روایت میں ہے : ہم نے کہا : اللہ کے رسول ! ہم اونٹنی کو نحر کرتے ہیں، گائے اور بکری کو ذبح کرتے ہیں اور اس کے پیٹ میں مردہ بچہ پاتے ہیں تو کیا ہم اس کو پھینک دیں یا اس کو بھی کھا لیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : چاہو تو اسے کھالو، اس کی ماں کا ذبح کرنا اس کا بھی ذبح کرنا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأطعمة ٢ (١٤٧٦) ، سنن ابن ماجہ/الذبائح ١٥ (٣١٩٩) ، (تحفة الأشراف : ٣٩٨٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣١، ٣٩، ٥٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اکثر علماء کا یہی مذہب ہے، لیکن امام ابوحنیفہ سے اس کے خلاف مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ اگر زندہ نکلے تو ذبح کر کے کھائے اور اگر مردہ ہو تو نہ کھائے۔
پیٹ کے بچہ کی زکوة (ذبح) کا بیان
جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پیٹ کے بچے کا ذبح اس کی ماں کا ذبح ہے (یعنی ماں کا ذبح کرنا پیٹ کے بچے کے ذبح کو کافی ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٢٨٨٢) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/الأضاحي ١٧(٢٠٢٢) (صحیح )
اس گوشت کا بیان جس کے بارے میں یہ معلوم نہ ہو سکے کہ ذبح کے وقت اس پر اللہ کا نام لیا گیا یا نہیں؟
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کچھ لوگ ہیں جو جاہلیت سے نکل کر ابھی نئے نئے ایمان لائے ہیں، وہ ہمارے پاس گوشت لے کر آتے ہیں، ہم نہیں جانتے کہ ذبح کے وقت اللہ کا نام لیتے ہیں یا نہیں تو کیا ہم اس میں سے کھائیں ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بسم الله کہہ کر کھاؤ ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٥ (٢٠٥٧) ، الصید ٢١ (٥٥٠٧) ، التوحید ١٣ (٧٣٩٨) ، (تحفة الأشراف : ١٦٩٥٠، ١٧١٨١، ١٩٠٢٩ ) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الضحایا ٣٨ (٤٤٤١) ، سنن ابن ماجہ/الذبائح ٤ (٣١٧٤) ، موطا امام مالک/الأضاحي ٤ (٧) ، والذبائح ١ (١) ، سنن الدارمی/الأضاحي ١٤ (٢٠١٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مطلب یہ ہے کہ تم اہل اسلام کے سلسلے میں نیک گمان رکھو کہ انہوں نے اللہ کا نام لے کر ذبح کیا ہوگا، پھر بھی شک و شبہ کو دور کرنے کے لئے کھاتے وقت بسم الله کہہ لیا کرو۔
عتیرہ (رجب کی قربانی) کا بیان
نبیشہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کو پکار کر کہا : ہم جاہلیت میں رجب کے مہینے میں عتيرة (یعنی جانور ذبح) کیا کرتے تھے تو آپ ہم کو کیا حکم کرتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : جس مہینے میں بھی ہو سکے اللہ کی رضا کے لیے ذبح کرو، اللہ کے لیے نیکی کرو، اور کھلاؤ ۔ پھر وہ کہنے لگا : ہم زمانہ جاہلیت میں فرع (یعنی قربانی) کرتے تھے، اب آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہر چرنے والے جانور میں ایک فرع ہے، جس کو تمہارے جانور جنتے ہیں، یا جسے تم اپنے جانوروں کی فرع کھلاتے ہو، جب اونٹ بوجھ لادنے کے قابل ہوجائے (نصر کی روایت میں ہے : جب حاجیوں کے لیے بوجھ لادنے کے قابل ہوجائے) تو اس کو ذبح کرو پھر اس کا گوشت صدقہ کرو ۔ خالد کہتے ہیں : میرا خیال ہے انہوں نے کہا : مسافروں پر صدقہ کرو ۔ یہ بہتر ہے ۔ خالد کہتے ہیں : میں نے ابوقلابہ سے پوچھا : کتنے جانوروں میں ایسا کرے ؟ انہوں نے کہا : سو جانوروں میں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الفرع والعتیرة ١ (٤٢٣٣) ، سنن ابن ماجہ/الذبائح ٢ (٣١٣٧) ، (تحفة الأشراف : ١١٥٨٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٧٥، ٧٦) (صحیح )
عتیرہ (رجب کی قربانی) کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : (اسلام میں) نہ فرع ہے اور نہ عتیرہ ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العقیقة ٤ (٥٤٧٣) ، صحیح مسلم/الأضاحي ٦ (١٩٧٦) ، سنن الترمذی/الأضاحي ١٥ (١٥١٢) ، سنن النسائی/الفرع والعتیرة (٤٢٢٧) ، سنن ابن ماجہ/الذبائح ٢ (٣١٦٨) ، (تحفة الأشراف : ١٣١٢٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٣٩، ٢٥٤، ٢٨٥) ، سنن الدارمی/الأضاحي ٨ (٢٠٠٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : فرع زمانہ جاہلیت میں جس جانور کا پہلوٹہ بچہ پیدا ہوتا اس کو بتوں کے نام ذبح کرتے تھے، اور ابتدائے اسلام میں مسلمان بھی ایسا اللہ کے واسطے کرتے تھے پھر کفار سے مشابہت کی بنا پر اسے منسوخ کردیا گیا، اور اس کام سے منع کردیا گیا ، اور عتیرہ رجب کے پہلے عشرہ میں تقرب حاصل کرنے کے لئے زمانہ جاہلیت میں ذبح کرتے تھے، اور اسلام کے ابتداء میں مسلمان بھی ایسا کرتے تھے، کافر اپنے بتوں سے تقرب کے لئے اور مسلمان اللہ تعالیٰ سے تقرب کے لئے کرتے تھے، پھر یہ دونوں منسوخ ہوگئے، اب نہ فرع ہے اور نہ عتیرہ ، بلکہ مسلمانوں کے لئے عیدالاضحی کے روز قربانی ہے۔
عتیرہ (رجب کی قربانی) کا بیان
سعید بن مسیب کہتے ہیں فرع پہلوٹے بچے کو کہتے ہیں جس کی پیدائش پر اسے ذبح کردیا کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٧٨٣٣) (صحیح )
عتیرہ (رجب کی قربانی) کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ہر پچاس بکری میں سے ایک بکری ذبح کرنے کا حکم دیا ١ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں : بعض حضرات نے فرع کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ اونٹ کے سب سے پہلے بچہ کی پیدائش پر کفار اسے بتوں کے نام ذبح کر کے کھالیتے، اور اس کی کھال کو درخت پر ڈال دیتے تھے، اور عتیرہ ایسے جانور کو کہتے ہیں جسے رجب کے پہلے عشرہ میں ذبح کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٧٨٣٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٥٨، ٢٥١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ حکم مستحب تھا۔